‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد اول) جلد ۱

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد اول) 37%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد اول) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 156

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 156 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 90279 / ڈاؤنلوڈ: 4347
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد اول)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد اول) جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

اس وقت تقریبا دس سال تھی لیکن اس قدر سمجھ دار اور زود فہم تھے کہ اچھائی اور برائی کو پوری طرح پہچان لیتے تھے آپ جانتے تھے کہ پیغمبراسلام(ص) سچ کہتے ہیں اور خدا کی طرف سے پیغمبر معيّن ہوئے ہیں _

جواب دیجئے

۱_ ہمارے پہلے امام کا کیا نام ہے کس نے انہیں امامت کیلئے معین کیا ہے؟

۲_ حضرت علی (ص) کس شہر میں متولد ہوئے اور کس مہینے اور کس دن پیدا ہوئے ؟

۳_ آپ کے والد اور والدہ کا کیا نام تھا اور پیغمبر کے ساتھ آپ کا کیا رشتہ تھا؟

۴_ آپ کیسے جوان تھے_ کیا بچوں کو اذیت دیتے تھے؟

۵_ حضرت علی (ص) کی کس نے تربیت کی اور آپ نے کس عمر میں اظہاراسلام کیا ؟

۶_ پہلا مسلمان مرد کون تھا؟

۷_ تمہاری تربیت کرنے والا کون ہے ؟

۸_ کیا تم حضرت علی (ع) کے صحیح پیروکارہو؟

۸۱

دوسرا سبق

یتیم نوازی

ایک دن حضرت علی علیہ السلام نے ایک عورت کو دیکھا کہ وہ پانی کی مشک کندھے پر اٹھائے گھر جارہی ہے _ عورت تک چکی تھی _ حضرت علی (ع) کو اس عورت پر رحم آیا اور اس سے مشک لے لی _ تا کہ اسے گھر تک پہنچا دیں _ آپ نے راستے میں اس عورت کے حالات دریافت کئے _ عورت نے کہا کہ میرا شوہر ملک کی حفاظت کے لئے سرحد پرگیا ہوا تھا اور وہاں قتل ہوگیا _ چند یتیم چھوڑ گیا ہے اور ان کے لئے مصارف نہیں ہیں _ میں مجبور ہوں کہ کام کروں _ حضرت علی علیہ السلام اس واقعہ سے بہت غمگین ہوئے _ اس عورت سے خداحافظ کہا اور اپنے گھر لوٹ آئے تمام رات غم وغصّہ میں کائی _ حضرت علی علیہ السلام نے صبح سویرے ایک زنبیل آٹے اور گوشت و خرما سے پرکی اور اٹھا کر اس عورت کے گھر کی طرف روانہ ہوئے _ دروازہ کھٹکٹایا اس کی اجازت سے گھر میں داخل ہوئے بچے بھوکے تھے ان کی ماں سے فرمایا کہ تم اٹا گوندھو اور روٹی پکاؤ میں بچوں کو بہلاتا ہوں _ حضرت علی علیہ السلام بچّوں کو بہلاتے رہے اور پیار کرتے رہے _ جب غذا تیار ہوگئی تو گوشت اور خرما لے کر بچوں کو کھلاتے اور فرماتے اے میرے پیارے بچو مجھے معاف کردو کہ مجھے تمہاری خبر نہ ہو سکی _ بچوں نے سیر ہوکر کھانا کھایا اور وہ خوش حال ہوگئے _ حضرت علی علیہ السلام نے ان کو خداحافظ کہا اور باہر

۸۲

نکل آئے _ اس کے بعد آپ وقتا ًفوقتاًان کے گھر جاتے اور ان کے لئے غذا لے جاتے تھے _

سوالات

۱_ حضرت علی (ع) نے عورت سے کیوں مشک لے لی ؟

۲_ اگر تم کسی دوست کو دیکھوکہ کسی چیز کیلئے جانے سے تھک گیا ہے تو کیا کروگے ؟

۳_ وہ عورت بچّوں کا خرچ کہاں سے پورا کرتی تھی؟ اس کا شوہر کہاں قتل ہوا تھا؟

۴_ حضرت علی (ع) کیوں غمگین ہوئے ؟

۵_ حضرت علی (ع) کون سی چیز ان بچوں کیلئے لے گئے تھے؟

۶_ جب تم کسی کے گھر یا کمرے میں داخل ہونا چاہو گے تو کیا کروگے ؟

۷_ آٹا کس نے گوندھا؟ بچّوں کو کس نے بہلایا؟

۸_ یتیموں کے منہ کس نے لقمے دیئے

۹_ یتیم بچوں کے ساتھ کیسا سلوک کرنا چاہیتے؟

۱۰_ کیا تم یتیم بچوں کے دیکھنے کے لئے جاتے ہو ، اور کیا انکیلئے ہدیہ کے کر جاتے ہو؟

یہ جملہ مکمل کیجئے

۱_ حضرت علی (ع) نے بچون کو اور کرتے رہے

۲_ جب غذا تیار ہوگئی تو گوشت اور خرما لیکر میں دیتے

۳_ اور فرماتے مجھے معاف کردو کہ ... نہ ہوسکی

۸۳

تیسرا سبق

حضرت علی (ع) بچون کو دوست رکھتے تھے

حضرت علی (ع) تمام بچوں کودوست رکھتے اوران سے محبت کرتے تھے بالخصوص یتیم بچوں پر بہت زیادہ مہربان تھے اپنے گھر ان کی دعوت کرتے اور انہیں منھائی اور شہد دیتے تھے آپ (ع) یتیم بچوں سے اس قدر پیار کرتے تھے کہ آپ (ص) کے ایک صحابی کہتے ہیں کہ کاش میں یتیم بچہ ہوتا _ تا کہ حضرت علی (ع) مجھ پر نوازشیں کرتے _

سوالات

۱_ حضرت علی (ع) کا رويّہ بچوں کے ساتھ کیسا تھا؟

۲_ یتیم بچوں کے ساتھ کیسا سلوک کرتے تھے؟

۳_ کیا تم نے آج تک کسی یتیم بچّے کو اپنے گھر دعوت دی ہے ؟

۴_ وہ صحابی کیوں کہتا تھا کہ کاش میں یتیم ہوتا ؟

۸۴

چوتھا سبق

کام او رسخاوت

حضرت علی علیہ السلام محنتی اور خوش سلیقہ انسان تھے _ زراعت اور باغ لگانے میں کوشاں رہتے تھے آپ نے کئی کھیت اور باغ آباد کئے اور سب کو راہ خدا میں خرچ کردیا _ آپ نے کچھ زمین مدینہ کے اطراف میں خریدی تا کہ اسے آباد کریں حضرت علی علیہ السلام نے اس زمین کے آباد کرنے کے لئے کنواں کھودنے کیلئے ایک مناسب جگہ تجویز کی اور خدا پر توکل کرتے ہوئے کنواں کھودنے میں مشغول ہوگئے _ کئی دن گذر گئے لیکن پانی تک نہ پہونچے _ مالی کہتا ہے کہ ایک دن حضرت علی علیہ السلام نے کلنگ اٹھایا اور کنویں کے اندر گئے کانی دیر تک کوشش کرتے رہے لیکن پانی نہ نکلا_ تھک کر کنوئیں سے باہر آئے _ پیشانی کا پسینہ ہاتھ سے صاف کیا اور کچھ دیر آرام کرنے کے بعد دوبارہ کنویں میں جا کھر کھودنے میں مشغول ہوگئے آپ اس طرح کلنگ مارتے تھے کہ آپ کی سانس کی آواز باہر تک سنائی دیتی تھی پھر بھی پانی تک نہ پہنچ پائے _ آپ نے ایک زبردست ضرب لگائی جس سے زمین میں شگاف پڑگیا اور پانی جوش مارکر نکل آیا _ حضرت علی (ع) جلدی سے کنوئیں سے باہر آئے بہت عجیب ساکنواں کھداتھا _ لوگ اسے دیکھنے اکٹھے ہوگئے ہر ایک کوئی نہ کوئی بات کہتا تھا_ ایک کہتا تھا علی علیہ السلام ایک محنتی اور خوش سلیقہ انسان ہیں _ دوسرا کہتا علی (ع) اور ان کی اولاد ثروت مند ہیں _ کوئی حسد کرتا تھا _ حضرت علی علیہ السلام نے مالی سے فرمایا ذرا قلم اور کاغذلے آؤ_ مالی قلم اور کاغذ لے آیا _ حضرت علی علیہ السلام ایک کنارے پر بیٹھ

۸۵

گئے اور یوں تحریر فرمایا:

بسم اللہ الرحمن الرحیم میں نے اس کنوئیں اور اس کے اطراف کی زمین کو وقف کردیا ہے کہ جس کی آمدنی کو ان مصارف میں خرچ کیا جائے

۱_ بے نوا اور درماندہ انسانوں پر

۲_ ان حضرات پر جو مسافرت میں تہی دست ہوگئے ہیں

۳_ یتیم لڑکوں اور لڑکیوں کی شادی پر

۴_ ان بیماروں پر جو فقیر ہوں

۵_ ایسے نیک کاموں پر کہ جن افادیت عمومی ہو

اس کنویں کو اللہ کی رضاء اور آخرت کے ثواب کے لئے وقف کرتا ہوں _ تا کہ جہنم کی آگ سے نجات پا سکوں

دستخط

علی(ع) ابن ابی طالب (ع)

جواب دیجئے

۱_ حضر ت علی (ع) نے کنویں اور اس کے اطراف کی زمین کی آمدنی کو کس کام کے لئے وقف قرار دیا ؟

۲_ کئی ایسے کام کہ جن کی افادیت عمومی ہو بتلایئے

۸۶

۳_ ایسے نیک کام جو تمہارے دوستوں کیلئے فائدہ مند ہوں اور تم اسے بجالا سکتے ہوں شمار کیجئے ؟

۴_ حضرت علی (ع) نے کس کنویں کو کیوں وقف کیا تھا؟

۵_ تم کون سے کام انجام دیتے ہو کہ جن کی وجہ سے جہنم کی آگ سے چھٹکارا حال کر سکو؟

۶_ اس واقعہ سے جو درس ملتا ہے وہ اپنے دوستوں کو بتلاؤ؟

۸۷

پہلا سبق

دوسرے امام حضرت امام حسن علیہ السلام

دوسرے امام حضرت امام حسن علیہ السلام ہیں _ آپ(ع) کے والد ماجد حضرت علی علیہ السلام ہیں اور والدہ ماجدہ دختر پیغمبر (ع) خدا حضرت فاطمہ زہرا (ع) ہیں _ پندرہ رمضان المبارک تیسری ہجری مدینہ منورہ میں آپ(ع) متولد ہوئے _ جناب رسول (ص) خدا امام حسن علیہ السلام کو بہت دوست رکھتے تھے اور ان کا احترام کرتے تھے آپ امام حسن علیہ السلام کو بوسہ لیتے تھے اور فرماتے تھے کہ میں حسن (ع) کو دوست رکھتا ہوں _ اور اس کے دوست کو بھی دوست رکھتا ہوں _ نیز فرماتے تھے کہ حسن (ع) اور حسین(ع) جوانان جنت کے سردار ہیں _ امام حسن (ع) بہت عالم و متقی تھے نماز اور عبادت میں مشغول رہتے تھے_ غریبوں اور بے نواؤں کو دوست رکھتے تھے اور ان کی مدد کرتے تھے _ خدا نے حضرت علی علیہ السلام کے بعد حضرت امام حسن علیہ السلام کولوگوں کے لئے امام معيّن فرمایا_ امام حسن علیہ السلام کے زمانے میں معاویہ شام کا حاکم تھا _ معاویہ ایک اچھا انسان نہ تھا وہ لوگوں کا امام بننا چاہتا تھا وہ کہا کرتا تھا کہ میں پیغمبر کا خلیفہ اور جانشین ہوں _ احکام اسلامی کو پامال کرتا تھا اور امام حسن علیہ السلام کی مخالفت کرتا تھا _ حضرت علی علیہ السلام اور اما م حسن علیہ السلام پر تبرا کرواتا تھا _ حضرت علی علیہ السلام کے دوستوں اور شیعوں سے دشمنی کرتا تھا اور ان میں سے بہتوں کو اسنے قید رکھا تھا اور کئی ایک کو قتل کردیا تھا _ امام حسن علیہ السلام اٹھائیس صفر پچاس

۸۸

ہجری میں زہر شہید کردیئےئے _ آپ کے جسم مبارک کو جنت البقیع میں دفن کیا گیا _

جواب دیجئے

۱_ حضرت امام حسن (ع) کس سال اور کس مہینے اور کس دن پیدا ہوئے ؟

۲_ آپ کے والد ماجد اور والد ہ ماجدہ کا کیا نام تھا؟

۳_ پیغمبر اسلام (ص) نے امام حسن (ع) کے حق میں کیا فرمایا؟

۴_ آپ غریبوں کے ساتھ کیسا سلوک کرتے تھے؟

۵_ کس نے امام حسن (ع) کو امامت کے لئے معيّن کیا اور کسکے حکم سے معيّن کیا ؟

۶_ معاویہ کیسا انسان تھا؟

۷_ امام حسن(ع) نے کس دن شہادت پائی؟

۸_ آپ کے جسم مبارک کو کہاں دفن کیا گیا ؟

۸۹

دوسرا سبق

خوش اخلاقی درگذری

ایک دن شام سے ایک آدمی آیا اس نے امام حسن علیہ السلام کو گلی میں دیکھا _ اور پہچان گیا لیکن نہ یہ کہ آپ(ع) کو سلام کیا بلکہ گالیاں دینا شروع کردیا اور جتنا اس سے ہوسکتا تھا آپ (ع) کی شان میں اس نے گستاخی کی امام حسن علیہ السلام نے اس کوئی جواب نہ دیا اور صبر کیا یہاں تک کہ وہ شامی خاموش ہوگیا _ اس وقت امام حسن علیہ السلام نے اس کو سلام کیا اور خندہ پیشانی سے اس کی احوال پرسی کی اور فرمایا کہ میرا گمان ہے کہ تم مسافر ہوا ور ہمارے حالات سے بے خبر ہو _ معاویہ کے پروپیگنڈے نے تجھے غلط فہمی میں مبتلا کر رکھا ہے _ جو کچھ تم نے میرے باپ(ع) کے حق میں کہا ہے وہ ٹھیک نہیں ہے چونکہ تیری نیت بری نہیں ہے اور تجھے دھوکا دیا گیا ہے لہذا میں نے تجھے معاف کردیا _ اگر تجھے کسی چیز کی ضرورت ہو تو میں تجھے دے دوں گا _ اگر محتاج ہو تو میں تیری احتیاج کو پورا کرنے کو تیارہوں اور اگر پناہ چاہتے ہو تو میں پناہ دینے کو تیار ہوں _ میں تم سے درخواست کرتا ہوں ، کہ میرے گھر آؤ اور میرے مہمان رہو _ جب اس مردنے آپ(ع) کا یہ اخلاق اور اپنی زیادتی دیکھی تو اپنی گفتگو پر نادم ہوا اور روکر کہنے لگا _ خدا بہتر جانتا ہے کہ کس شخص کو امام اور پیشوا قرار دے _ اے رسول (ص) خدا کے فرزند خدا کی قسم اب تک میرا خیال تھا کہ آپ(ع) اور آپ(ع) کے باپ بدترین انسان ہیں لیکن اب میں سمجھا ہوں کہ آپ

۹۰

روئے زمین پر تمام لوگوں سے بہتر ہیں اس کے بعد اس نے اپنا سامان امام حسن علیہ السلام کے گھر اتارا اور آپ کا مہمان ہوا_ بہت وقت نہیں گذراتھا کہ وہ اما م حسن علیہ السلام کا پیروکار اور وفادار شیعہ بن گیا : جانتے ہو کیوں؟

جواب دیجئے

۱_ وہ مرد اپنی گفتار سے کیوں شرمند ہ ہوا ...؟

۲_ جب کوئی نادانی کی وجہ سے تمہیں برا کہے تو تم کیا جواب دوگے؟

۳_ معاف کردینے کا کیا مطلب ہے کس وقت معاف کردینا چاہیئے ؟

۴_ اپنے دوستوں میں سے کسی دوست کے معاف کردینے کا نمونہ پیش کرو؟

۵_ اس واقعہ سے جو درس ملتا ہے اسے بیان کرو؟

۶_ اس واقعہ کا خلاصہ لکھو اور دوستوں کے لئے بیان کرو؟

۹۱

تیسرا سبق

امام حسن علیہ السلام کے مہمان

حضرت امام حسن علیہ السلام فقیروں سے محبت کرتے تھے اور ان پر مہربان رہتے تھے _ ایک روز آب گذررہے تھے کہ آپ نے دیکھا کئی فقیر زمین پر بیٹھے کھانا کھارہے ہیں _ ان کے پاس روٹیوں کے چند خشک ٹکڑے تھے_ انہوں نے جب امام حسن علیہ السلام کو دیکھا تو آپ کو اپنے ساتھ کھانے کی دعوت دی امام حسن علیہ السلام گھوڑے سے اترے اور ان کے ساتھ زمین پر بیٹھ گئے _ اس کے بعد آپ (ع) نے فرمایا کہ میں نے تمہاری دعوت قبول کرلی ہے _ اب میری خواہش ہے کہ تم سب میرے مہمان بنو اور میرے گھر آؤ_ انہوں نے امام حسن علیہ السلام کی دعوت قبول کی _ امام حسن علیہ السلام گھر تشریف لے گئے اور خدمت گاروں سے فرمایا میرے کچھ محترم مہمان آرہے ہیں ان کے لئے بہت اچھی غذا مہیا کرو_ وہ مہمان آپ کے گھر آئے اور امام حسن علیہ السلام نے احترام سے ان کا خیر مقدم کیا _

سوالات

۱_ امام حسن (ع) کے مہمان کون تھے

۹۲

۲_ امام حسن (ع) نے ان کیلئے کیسی غذا مہیا کی؟

۳_ امام حسن (ع) فقیروں اور محتاجوں کے ساتھ کیسا سلوک کرتے تھے؟

۴_ آپ کا فقراء اور محتاجوں کے ساتھ کیسا رویہ تھا؟

۵_ اس واقعہ سے کیا نتیجہ نکلتا ہے ؟

۶_ہم کس طرح امام حسن (ع) کی پیروی کریں؟

۹۳

پہلا سبق

تیسرے امام حضرت امام حسین علیہ السلام

امام حسین علیہ السلام امام حسن علیہ السلام کے چھوٹے بھائی ہیں _ آپ کے والد حضرت علی علیہ السلام اور والدہ جناب فاطمة الزہرا(ع) پیغمبر اسلام(ص) کی دختر ہیں _ آپ (ع) چوتھی ہجری تین شعبان کو مدینہ میں متولد ہوئے _ امام حسن علیہ السلام کے بعد آپ(ع) رہبری اور امامت کے منصب پر فائز ہوئے _ پیغمبر اسلام(ص) اما م حسین(ع) سے بہت محبت کرتے تھے آپ ان کا بوسہ لیتے تھے اور فرماتے تھے_ کہ حسین(ع) مجھ سے ہے اور میں حسین (ع) سے ہوں _ جو شخص حسین(ع) کو دوست رکھتا ہے خدا اسے دوست رکھتا ہے _ امام حسین علیہ السلام عالم اور متقی انسان تھے _ غریبوں ، مسکینوں اور یتیم بچوں کی خبرگیری کرتے تھے وہ بہت بہادر اور طاقتور تھے _ ذلّت کے سامنے نہیں جھکتے تھے _ ظالموں سے مقابلہ کرتے تھے سچے اور اچھے انسان تھے _ منافقت اور چاپلوسی کو برا سمجھتے تھے _

امام حسین (ع) فرماتے تھے:

میں راہ خدا میں شہادت کو نیک بختی اور ظالموں کے ساتھ زندہ رہنے کو ذلّت و بدبختی سمجھتا ہوں _

۹۴

دوسرا سبق

آزادی اور شہادت

امام حسین علیہ اللام صاحب ایمان اور پیکر عمل تھے _ رات کو خدا سے مناجات کرتے تھے اور دن کو کاروبار اور لوگوں کی راہنمائی فرماتے تھے _ ہمیشہ ناداروں کی فکر میں رہتے تھے اور ان سے میل میلاپ رکھتے تھے اور ان کی دلجوئی کرتے تھے _ لوگوں سے فرماتے تھے کہ غریبوں کے ساتھ بیٹھنے سے پرہیز نہ کیا کرو کیونکہ خداوند متکبروں کو دوست نہیں رکھتا جہاں تک ہوتا تھا غریبوں کی مدد کرتے تھے _ تاریک رات میں کھانے کا سامان کندھے پر اٹھا کرنا داروں کے گھر لے جاتے تھے _ امام حسین علیہ السلام کوشش کرتے تھے کہ غربت اور عدم مساوات کو ختم کردیں اور عدل و مساوات کو قائم کریں ، لوگوں کو خدا سے آشنا کریں _ امام حسین علیہ السلام کے زمانے میں ظالم یزید شام کی حکومت پر بیٹھا _ یزید جوٹے طریقے سے اپنے آپ کو پیغمبر(ص) کا خلیفہ اور جانشین بتلاتا تھا _ ملک کی آمدنی شراب نوشی اور قمار بازی اور عیاشی پر خرچ کرتا تھا_ بیت المال کی دولت اور ناداروں کے مال کو اپنی حکومت کے مستحکم کرنے پر خرچ کرتا تھا _ قرآن اور اسلام کے دستور کو پامال کرتا تھا جب یزید تخت پر بیٹھا تو اس نے خواہش کی کہ امام حسین علیہ السلام اس کی امامت اور ولایت کو تسلیم کرکے اس کی بیعت کریں _ لیکن امام حسین (ع) چونکہ اپنے آپ کو اسلام کا صحیح ولی اور رہبر سمجھتے تھے اس لئے آپ ایک ظالم کی رہبری کو کیسے تسلیم کرتے _ امام حسین علیہ السلام نے اس

۹۵

امر کی وضاحت شروع کردی اور لوگوں کو خبردار کیا اور فرمایا: کہ کیا نہیں دیکھ رہے ہو کہ حق پامال ہو رہا ہے اور باطل اور ظلم غلبہ پارہا ہے _ اس حالت میں مومن کو چاہیے کہ وہ شہادت کے لئے تیار ہوجائے _ اللہ کی راہ میں شہادت اور جان قربان کرنا فتح اور کامرانی ہے اور ظالموں کے ساتھ زندگی بسر کرنا سوائے ذلّت اور خواری کے اور کچھ نہیں ہے

اس دوران کوفہ کے لوگوں نے جو معاویہ اور یزید کے ظلم سے تنگ تھے امام حسین علیہ السلام کو کوفہ آنے کی دعوت دی چونکہ امام حسین علیہ السلام مقابلہ کا عزم بالجزم کر چکے تھے لہذا ان کی دعوت کو قبول کیا اور کوفہ کی طرف روانہ ہوئے _ لیکن یزید کے سپاہیوں نے کوفہ کے نزدیک آپ (ع) اور آپ(ع) کے با وفا ساتھیوں کا راستہ بندکردیا تا کہ آپ کو گرفتار کرکے یزیدکے پاس لے جائیں لیکن امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:

میں ہرگز ذلت و رسوائی کو قبول نہیں کروں گا _ موت کو ذلت سے بہتر سمجھتا ہوں اور اپنی شہادت تک اسلام اور مسلمانون کا دفاع کروں گا _ یزید کی فوج نے امام حسین علیہ السلام اور آپ کے اصحاب کا کربلا میں محاصرہ کرلیا _ امام (ع) اور آپ (ع) کے وفادار صحابیوں نے پائیداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہزاروں کے مقابلے میں جنگ کی اور آخر کار سب کے سب روز عاشورہ شہید ہوگئے _ امام حسین(ع) بھی شھید ہوگئے _ مگر جبر و استبداد کو تسلیم نہیں کیا اور باطل کے سامنے نہیں جھکے اسلام اور مسلمانوں کا دفاع کیا اپنے پاک خون سے اسلام اور قرآن کو خطرے سے نجات دلائی اور اس سے مسلمانوں کو آزادی اور دینداری کا درس دیا _ اب اسلام کی حفاظت اور دفاع کی ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے _ ہمیں غور کرنا چاہیے کہ ہم کس

۹۶

طرح اس ذمہ داری سے عہدہ برآہوسکتے ہیں _

سوالات

۱_ امام حسین (ع) غریبوں کے ساتھ بیٹھنے کے متعلق کیا فرماتے تھے؟

۲_ امام حسین (ع) کس مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے؟

۳_ یزید اسلامی مملکت کے خزانے کو کہاں خرچ کرہا تھا؟

۴_ یزید کا امام حسین (ع) سے کیا مطالبہ تھا؟

۵_ کیا امام حسین (ع) نے یزید کامطالبہ مان لیا تھا؟

۶_ مومن کس وقت شہادت کیلئے تیار ہوتا ہے؟

۷_ امام حسین(ع) اور آپ کے اصحاب کی نگاہ میں کامیابی کیا تھی اور ذلّت و خواری کیا تھی؟

۸_ یزید کی فوج نے امام حسین (ع) کا راستہ کیوں بند کردیا تھا؟

۹_ کیا امام حسین(ع) نے یزید کی خلافت کو تسلیم کرلیا تھا؟

۱۰_ امام حسین (ع) نے ہمیں اور تمام انسانوں کو کس طرح آزادی کا درس دیا ؟

۱۱_ امام حسین (ع) اور آپ کے اصحاب نے اسلام کو کیسے خطرے سے نجات دلوائی ؟

۱۲_ اب جب کہ دین اور قرآن کی حفاظت کی ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے تو ہمارا فرض کیا ہے ؟

۹۷

تیسرا سبق

دستگیری اور مدد کرنا

پیغمبر(ص) اسلام کے صحابہ میں سے ایک عمر رسیدہ صحابی بیمار ہوگیا _ امام حسین(ع) اس کی عیادت کے لئے گئے دیکھا کہ وہ بہت غمگین ہے اور بہت بے چینی سے گریہ و زاری کررہا ہے امام حسین علیہ السلام کو اس پر ترس آیا آپ نے پوچھا بھائی کیوں غمگین ہو مجھے وجہ بتاؤ تا کہ میں تیرے غم کو دور کردوں _ اس بیمار نے کہا کہ میں لوگوں کا بہت مقروض ہوں اور میرے پاس کچھ بھی نہیں کہ قرض ادا کر سکوں میں اس لئے روتا ہوں کہ قرض کے بوجھ تلے دبا ہوا ہوں _ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا بھائی غم نہ کرو میں ضامن بنتا ہوں کہ تیرا قرضہ ادا کروں گا اس مسلمان بیمار نے کہا میرا دل چاہتا ہے کہ مرتے وقت کسی کا مقروض نہ رہوں _ مجھے خوف ہے کہ قبل اس کے کہ آپ (ص) میرا قرضہ ادا فرمائیں مجھے موت آجائے اور میں مقروض ہی مرجاؤں _ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا بے چین نہ ہو مجھے امید ہے کہ تیرے مرنے سے پہلے تیرا قرضہ ادا کردوں گا _ امام حسین علیہ السلام نے اس کو خدا حافظ کہا _ اور وہاں سے باہر چلے آئے اور فوراً روپیہ مہیا کرکے اس کا قرضہ ادا کیا اور اسے اطلاع دی کہ خوشحال ہو جا کہ تیرا قرضہ ادا کردیا گیا ہے _ وہ بیمار خوشحال ہوگیا اور خدا بھی اس مدد اور دستگیری سے بہت خوش ہوا _ ہماری پیغمبر (ص) نے فرمایا ہے کہ جو شخص کسی مومن کو خوشحال کرتا ہے گویا اس نے مجھے خوشحال کیا _ اور جو مجھے خوش کرتا ہے وہ اللہ کی خوشنودی حاصل کرتا ہے _

۹۸

جواب دیجئے

۱_ کیا تم بیمار دوست کی عیادت کیلئے جاتے ہو؟

۲_ امام حسین(ع) نے اس بیمار سے کیا پوچھا؟ اس بیمار نے جواب میں کیا کہا؟

۳_ امام حسین(ع) نے اس بیمار کی بے چینی کو کس طرح دور کیا ؟

۴_ آیا تم کسی کے مقروض ہوکیا اچھا نہیں کہ اپنے قرض کو جلدی ادا کردو؟

۵_ کیا آج تم نے کسی مسلمان کو خوش کیا ہے؟ اور کس طرح؟

۶_ ہمارے پیغمبر(ص) نے کسی مومن کو خوش کرنے کے متعلق کیا فرمایاہے؟

۹۹

پہلا سبق

چوتھے امام حضرت امام زین العابدین (ع)

آپ (ع) کا نام علی(ع) علیہ السلام ، اور لقب سجاد ہے _آپ اڑتیس ہجری پندرہ جمادی الثانی کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے _ آپ کے والد امام حسین علیہ السلام اور والدہ ماجدہ شہر بانو تھیں _ امام حسین علیہ السلام نے آپ کو اللہ کے حکم کے مطابق اپنے بعد امامت کے لئے معین فرمایا _ امام سجاد علیہ السلام کربلا میں موجود تھے لیکن عاشورہ کے دن بیمار تھے اس لئے آپ (ع) یزید کی فوج سے جنگ نہیں کر سکتے تھے اسی وجہ سے آپ شہید نہیں ہوئے _ کربلا سے آپ(ع) کو نبی(ع) زادیوں کے ساتھ گرفتار کرکے کوفہ اور شام لے جایا گیا _ جہاں آپ(ع) نے خطبہ دیا اور اپنے والد کے مشن کو لوگوں کے سامنے بیان فرمایا اور ظالم یزید کو ذلیل و رسواکیا _ امام سجاد(ع) علیہ السلام کو یہ بات بہت پسند تھی کہ یتیم بچے اور نابینا اور غریب لوگ آپ(ع) کے مہمان ہوں _ بہت سے غریب گھرانوں کو خوراک اور پوشاک دیا کرتے تھے _ حضرت سجاد علیہ السلام اللہ تعالی کی اتنی عبادت کیا کرتے تھے کہ آپ (ع) کو زین العابدین یعنی عبادت گذاروں کی زینت اور سجاد یعنی بہت زیادہ سجدہ کرنے والے کا نام دیا گیا _ ستاون''۵۷'' سال زندہ رہے اور پچیس''۲۵'' محرم پچانوے ہجری کو مدینہ منورہ میں شہید کردیئےئے _ آپ کے جسم مبارک کو جنت البقیع میں دفن کیا گیا _

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

بعثت کے چودہ سوسال گذرنے کے بعد بھی اسلا م کے اربوں جانی دشمن اور لیچڑ قسم کے لوگ نت نئی سازشیں مسلمانوں کے خلا ف کیاکرتے ہیں ۔

اگر ان میں طاقت ہو تی توقرآن کے جیسا سورہ لے آتے اور یقینا اس کے ذریعہ اسلام سے نبر د آزما ہوتے ۔علم بلا غت کے ماہر افراد نے اعتراف کیاہے کہ قرآن کاجواب لا ناناممکن ہے اس کی فصاحت وبلا غت حیرت انگیز ہے اس کے احکام وقوانین مضبوط ،اس کی پیشین گوئیاں اور خبریں یقینی او رصحیح ہیں، بلکہ زمان ومکان وعلم سے پرے ہیں ۔

یہ خو د اس بات کی بین دلیل ہے کہ یہ انسان کا گڑھا ہو ا کلا م نہیں ہے بلکہ ہمیشہ باقی رہنے والا معجزہ ہے۔

اعجاز قرآن پر تاریخی ثبو ت

جب قرآن نے ان آیتوں کے ذریعہ لوگو ں کو چیلنج کیا تو اس کے بعد اسلام کے دشمنوں نے تمام عرب کے فصیح وبلیغ افراد سے مددمانگی لیکن پھر بھی مقابلہ میں شکست کاسامنا کرنا پڑا اورتیزی سے عقب نشینی کی۔ ان لوگو ں میں سے جومقابلہ کے لئے بلا ئے گئے تھے ولید بن مغیرہ بھی تھا، اس سے کہا گیا کہ غور وخوض کرکے اپنی رائے پیش کرو ولید نے پیغمبر اسلا م سے درخو است کی کہ کچھ قرآنی آیا ت کی تلاوت کریں رسول نے حم سجدہ کی چند آیتوں کی تلا وت کی ۔ ان آیا ت نے ولید کے اندرکچھ ایسا تغییر وتحول پیدا کیاکہ وہ بے اختیار اپنی جگہ سے اٹھا اوردشمنو ں کے بیچ جا کر کہنے لگا خداکی قسم محمد سے ایسی بات سنی جونہ انسانوں کے کلام جیسا ہے او رنہ پریوں کے کلام کی مانند ۔

واِنَّ له لحلاوة وأَنَّ علیه لطلاوة واِنَّ أعلاه لمُثمر وأنَّ أسفله لمغدق أَنّه یعلو ولا یُعلیٰ علیه''اس کی باتوں میں عجیب شیرنی ہے اس کا عجیب سحر ابیان لب ولہجہ ہے اس کی بلندی ایک پھل دار درخت کی مانند ہے اس کی جڑیں مضبوط اور مفید ہیں، اس کا کلام سب پر غالب ہے کسی سے مغلو ب نہیں ''یہ باتیں اس بات کا سبب بنی کہ قریش میں یہ چہ میگو ئیاں شروع ہو گئیں کہ ولید محمد کا شیدائی اورمسلمان ہوگیا ہے ۔

۱۴۱

یہ نظریہ مشرکین کے عزائم پر ایک کا ری ضرب تھی لہٰذا اس مسئلہ پرغور و خو ض کرنے کے لئے ابو جہل کا انتخاب کیا گیا وہ بھی ولید کے پاس آیا اور مشرکین مکہ کے درمیان جو خبر گشت کر رہی تھی اس سے ولید کو باخبر کیا اور اس کو ان کی ایک میٹینگ میں بلا یا وہ آیا اورکہنے لگا تم لوگ سوچ رہے ہو کہ محمد مجنون ہیں کیا تم لوگوں نے ان کے اندر کو ئی جنون کے آثار دیکھے ہیں ؟۔

سب نے ایک زبان ہو کر کہا نہیں ، اس نے کہا تم سوچتے ہو وہ جھو ٹے ہیں (معاذاللہ) لیکن یہ بتائو کہ کیا تم لوگوں میں سچے امین کے نام سے مشہور نہیں تھے۔ ؟

بعض قریش کے سرداروں نے کہا کہ محمد کو پھر کس نام سے یاد کریں ؟ ولید کچھ دیر چپ رہا پھر یکا یک بولا اسے جادوگر کہو کیو ں کہ جو بھی اس پر ایمان لے آتا ہے وہ سب چیز سے بے نیاز ہو جا تا ہے مشرکین نے اس ناروا تہمت کو خوب ہوادی تاکہ وہ افراد جوقرآن سے مانوس ہو گئے تھے انھیں پیغمبر اسلا مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے الگ کر دیا جائے لیکن ان کی تمام سازشیں نقش بر آب ہو گئیں اور حق وحقیقت کے پیاسے جوق در جوق پیغمبر کی خدمت میں آکر اس آسمانی پیغام اور اس کی دلکش بیان سے سیراب ہونے لگے ۔

جادوگر کا الزام در حقیقت قرآن کے جذّاب اور ہر دل عزیز ہو نے کا ایک اعتراف تھا، انھوں نے اس کشش کو جادو کانام دے دیا جبکہ اس کا جادو سے دور دور تک کوئی تعلق ہی نہیں تھا ۔

قرآن علوم کا خزانہ ہے ۔ فقہ کی کتا ب نہیں ہے مگر بندوںکے قانون عبادت ،او رسیاسی و معاشرتی جزاوسزا اور اجرای احکام سب اس میں پائے جا تے ہیں فلسفہ کانصاب نہیں مگر فلسفہ کی بہت ساری دلیلیں اس میں ہیں ،علم نجوم کی کتاب نہیں پھر بھی ستارہ شناسی کے بہت ظریف اور باریک نکا ت اس میں پائے جا تے ہیں جس نے دنیا کے تمام مفکروں کو اپنی جانب کھینچ لیاہے۔

علم حیاتیات کا مجموعہ نہیں پھر بھی بہتیری آیات اس حوالے سے موجود ہیں لہٰذ اقرآن معجزہ ہے او ران علوم سے ارفع واعلی ہے ۔

۱۴۲

اگر نزول قرآن کی فضاپر غور کی جائے تو پیغمبر اسلا م اور قرآن کی عظمت میں مزید اضافہ ہوگا ۔

اس ماحول میں جہا ں بہت کم لوگ پڑھے لکھے تھے وہاںایک ایسا شخص اٹھا جس نے نہ دنیا وی مدرسہ میں علم حاصل کیا نہ کسی استاد کے سامنے زانوئے ادب تہہ کیا اور ایسی کتاب لیکر آیا کہ چودہ سوسال بعد بھی علماء او رمفکرین اس کے معنی ومطلب کی تفسیر میں جوجھ رہے ہیں اور ہر زمانے میں اس سے نئے مطالب کا انکشاف ہو تا ہے۔

قرآن نے اس دنیاکو اس طرح تقسیم کیاکہ جوبہت ہی دقیق او رمنظم ہے توحید کو بہ نحو احسن بیان کیازمین وآسمان کی تخلیق کے اسرار ورموز اور انسان کی خلقت اوردن ورات کی خلقت کے راز کو خد اکے وجود کی نشانیاں قرار دیتے ہو ئے مختلف طریقہ سے ذکر کیا ہے کبھی فطری توحید توکبھی استدلال توحید پر بحث کی ہے یہ پوری کائنات خدا کے ہاتھ میں ہے اسے بہت طریقہ سے بیا ن کیاہے جب معاد اور قیامت کی بات آتی ہے تو مشرکین کے تعجب پر فرمایا ہے : کیا جس نے اس زمین وآسمان کو ان عظمتوں کے ساتھ پیدا کیا اس کے لئے یہ ممکن نہیںکہ تم جیسا خلق کردے جی ہاں پیداکرنے والا قادر اور صاحب حکمت ہے اور اس کی طاقت اس حد تک ہے کہ جس چیز کا ارادہ کرے اور اسے حکم دے دے ہوجابس وہ فوراً وجود میں آجاتی ہے ۔

۱۴۳

خلاصہ یہ کہ قرآن ایک ایسی کتاب ہے کہ جسے لانے والے (پیغمبر ) اور تفسیر کرنے والے (ائمہ معصومین ) کے علا وہ اس کا مکمل علم کسی کے پاس نہیں اس کے باوجود قرآن ہمیشہ ہم لوگوں کے لئے بھی ایک خاص چاشنی رکھتا ہے چونکہ دلوںکی بہار ہے لہٰذا جتناہی پڑھیں گے اتنا ہی زیادہ لطف اندوز ہوںگے جی ہاں قرآن ہمیشہ نیا ہے اور ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے چونکہ یہ پیغمبر اسلام کا دائمی معجزہ ہے ۔

حضرت امیر نے قرآن کے بارے میں فرمایا :واِنَّ القرآنَ ظاهره أنیق وباطنه عمیق لا تُفنیٰ عجائبه ولاتنقضیِ غرائبه ( ۱ )

''بیشک قرآن ظاہر میں حسین اورباطن میں عمیق ہے اس کے عجائبات انمٹ ہیں''۔

اس کے غرائب اور اس کی تازگی میں ہمیشگی ہے وہ کبھی کہنہ او رفرسودہ نہ ہوگی ۔

نہج البلاغہ کے خطبہ ۱۷۵میں آیا ہے (فیه ربیع القلب وینابیع العلم وماللقلب جلا ء غیره )دلوں کی بہار قرآن میں ہے اس میں دل کے لئے علم کے چشمے ہیں اس کے علا وہ کوئی نور موزون نہیں ہے ۔

امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا: ایک شخص نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا کہ کیوں قرآن کی ترویج اور اس میں تفحص کے ساتھ ساتھ اس کی تازگی اور بالیدگی میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہاہے ؟

امام نے فرمایا:''لان الله تبارک و تعالیٰ لم یجعله لزمان دون زمان و لالناس دون ناس فهو فی کل زمان جدید و عند کل قوم

____________________

(۱) نہج البلا غہ خطبہ ۱۸

۱۴۴

غض الی یوم القیٰمة ''

''اس لئے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن کو کسی خاص زمانہ اور کسی خاص گروہ سے مخصوص نہیں کیا (بلکہ یہ کتابِ الٰہی تمام زمانے اور تمام انسانوں کے لئے ہے)پس قرآن ہر زمانہ کے لئے جدید اور تمام انسانوں کے لئے قیامت تک زندہ ہے۔''

سوالات

۱۔ خصوصیات قرآن بیان کریں ؟

۲۔ اعجاز قرآن کے سلسلہ میں ولید کا قصہ بیا ن کریں ؟

۳۔ امیر المومنین نے قرآن کے سلسلہ میں کیا فرمایا ؟

۱۴۵

بائیسواں سبق

نبوت خاصہ (دوسراباب )

خاتمیت پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سلسلہ رسالت کی آخری کڑی ہیں، نبوت کاسلسلہ ان پر خدا نے ختم کردیااور اسی لئے ان کا لقب بھی خاتم الانبیاء ہے (خاتمِ چاہے زیر ہو یا زبر خاتَم، کسی طرح بھی پڑھا جائے اس کے معنی کسی کام کا اتمام یاختم ہونا ہے، اسی بناپر عربی میں انگوٹھی کوخاتم کہا جاتا ہے چونکہ انگوٹھی اس زمانے میں لوگوں کے دستخط اور مہر کا مقام رکھتی تھی او رجب کہیں خط لکھتے تو اس کے آخر میں اپنی انگوٹھی سے مہر لگا دیتے تھے ۔

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اکرم کی نبوت کا اختتام بھی ایک اسلامی ضرورت ہے اور اسے ہر مسلمان مانتا ہے کہ اب حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد قیامت تک کوئی نبی نہیں آئے گا، اس اصل پر تین دلیل ہے ۔

۱۔ خاتمیت کا لا زم او رضروری ہونا۲۔ قرآن کی آیتیں ۳۔ بہت ساری حدیثیں

۱۔خاتمیت کا ضروری ہو نا:اگر کسی نے اسلا م کو دلیل ومنطق کے ذریعہ مان لیا تو اس نے خاتمیت پیغمبر اسلا م کو بھی قبول کر لیا، اسی لئے مسلمانو ں کا کو ئی فرقہ کسی نئے پیغمبر کے انتظار میں نہیں ہے یعنی خاتمیت مسلمانو ں کی نظر میں ایک حقیقی اورضرور ی چیز ہے ۔

۱۴۶

۲۔قرآن کی آیتیں:( مَاکَانَ مُحمَّدُ أَبَا أحدٍ مِنْ رِجالِکُم وَلکنْ رَسُولَ اللّهِ وخَاتَم النَبِیینَ ) محمد تم مردو ں میں سے کسی ایک کے باپ نہیں ہیں بلکہ وہ اللہ کے رسول ہیں اور سلسلہ انبیاء کے خاتم ہیں۔( ۱ ) ( وَمَا أَرسَلنَا ک اِلَّا کَافَةً للنَّاسِ ) (اور پیغمبر ہم نے آپ کو تمام لوگو ں کے لئے بھیجا ہے۔( ۲ )

۳۔ احادیث : حدیث منزلت جسے شیعہ وسنی دونو ں نے پیغمبر اسلا م سے نقل کیاہے کہ حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مولا ئے کا ئنات سے مخاطب ہو کر فرمایا :أنَتَ مِنی بِمنزلة هارون من موسیٰ اِلَّا أَنَّه لا نَبیّ بَعدی : ، تم میرے نزدیک ویسے ہو جیسے ہارون موسیٰ کے لئے تھے فرق یہ ہے کہ میرے بعد کو ئی نبی نہیں آئیگا ۔

معتبر حدیث میں جابر بن عبداللہ انصاری سے روایت ہے کہ رسو ل خدانے فرمایا میری مثال پیغمبروں کے بیچ بالکل ایسی جیسے کو ئی گھربنایا جائے اور اسے خوب اچھی طرح سجا یا جائے مگر اس میں ایک اینٹ کی جگہ خالی ہو اب جو بھی دیکھے گا کہے گا بہت خوبصورت ہے مگر یہ ایک جگہ خالی ہے میں وہی آخری اینٹ ہو ں اور نبو ت مجھ پر ختم ہے۔( ۳ )

اما م صادق نے فرمایا :حلال مُحمَّد حلال أبداً اِلیٰ یوم

____________________

(۱) سورہ احزاب آیة: ۴۰

(۲) سو رہ سبا آیة: ۲۸۔

(۳) نقل از تفسیر مجمع البیا ن مرحو م طبرسی

۱۴۷

القیامة وحرامه حرام أبداً اِلی یوم القیامة ( ۱ ) ''اِنَّ اللّهَ ختم بنبیّکم النبییَّن فلا نَبیَّ بعده أبداً''

امام صادق نے فرمایا : بیشک اللہ نے تمہا رے پیغمبر کے بعد نبو ت کا سلسلہ ختم کردیا ہے اور اب اس کے بعد کو ئی نبی نہیں آئے گا ۔( ۲ )

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خطبہ کے درمیان فرمایا :أناخاتمُ النبییّن والمُرسلینَ والحُجّة علیٰ جمیع المخلوقین أهل السَّمٰوات والأَرضین'' میں آخری نبی اور آخری الٰہی نمایندہ ہو ں اور تمام اہل زمین وآسمان کے لئے آخری حجت ہو ں''۔( ۳ )

مولائے کا ئنا ت نے نہج البلا غہ کے خطبہ ۹۱ میں فرمایا :''حتیٰ تمت نبیّنا مُحمّد حجتّہ وبلغ المقطع عذرہ ونذرہ''ہاں تک کہ خدا نے ہمارے نبی کے ذریعہ حجت کو تمام کردیااور تمام ضروری احکامات کو ان کے لئے بیا ن کر دیا خطبہ ۱۷۳میں پیغمبر اسلام کے صفات کے سلسلہ میں اس طرح فرمایا :''امین وحیہ وخاتم رسلہ وبشیر رحمتہ'' محمد خداکی وحی کے امین اور خاتم الرسل اور رحمت کی بشارت دینے والے ہیں

____________________

(۱) اصو ل کا فی ج۱، ص ۵۸

(۲) اصول کا فی ج۱،ص ۲۶۹

(۳)مستدرک الوسائل ج۳، ص ۲۴۷

۱۴۸

فلسفہ خاتمیت

ممکن ہے کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ انسانیت ہمیشہ تغییر وتحول سے دوچار ہو تی ہے یہ کیسے ممکن ہے ،ایک ثابت اورناقابل تبدیل قانون پوری انسانیت کے لئے جواب دہ ثابت ہو اور یہ کیسے ممکن ہے کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خاتم النبیین بن جا ئیں

اور دوسرے پیغمبر کی ضرورت نہ پیش آئے !

اس کاجو اب ہم دو طرح سے دیں گے :

۱۔ دین اسلام فطرت سے مکمل ہماہنگی رکھتا ہے اور فطرت کبھی تبدیل نہیں ہوتی :

( فَأَقِم وَجهَکَ للدّینِ حَنیفًا فِطرَتَ اللَّهِ التِی فَطَرالنَّاسَ علیها لا تَبدِیلَ لِخَلقِ اللَّهِ ذَلِکَ الدِّین القَیّمُ وَلَکنَّ أَکثَر النّا سِ لایَعلَمُونَ ) آپ اپنے رخ کو دین کی طرف قائم رکھیں اور باطل سے کنارہ کش رہیں کہ یہ دین فطرت الٰہی ہے جس پر اس نے انسانو ں کو پیدا کیاہے اور خلقت الٰہی میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی ہے ۔( ۱ )

جیسے انصاف ، سچائی، ایثار ، درگذر، لطف و کرم ، نیک خصلت ہمیشہ محبوب ہے اور اسی کے مقابل ظلم ، جھوٹ،بے جا اونچ نیچ، بد اخلاقی یہ سب چیزیں ہمیشہ لائق نفرت تھیں اور رہیں گی۔

لہٰذا قوانین اسلام جو کہ انسانوں کی ہدایت کے لئے ہے ہمیشہ اسرار خلقت کی طرح زندہ ہے۔

۲۔ دین اسلام قرآن و اہلبیت کے سہارے ہے ۔ قرآن لامتناہی مرکز علم سے صادر ہوا ہے اور اہل بیت وحی الٰہی پر بھروسہ کرتے ہیں ۔ قرآن و اہل بیت ایک

____________________

(۱)سورہ روم آیت۳۰۔

۱۴۹

دوسرے کے مفسر ہیں ۔ اور رسول اکرم کی حدیث کے مطابق یہ رہبران اسلام ایک دوسرے سے تا قیامت جدا نہیں ہوں گے ۔ لہٰذا اسلام ہمیشہ زندہ ہے ،اور بغیر کسی ردّ و بدل کے ترقی کی راہ پر گامزن اور بشریت کی مشکلات کا حل کرنے والا ہے ۔'' قال رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : انی تارک فیکم الثقلین کتاب الله و عترتی ما ان تمسکتم بهما لن تضلوا ابدا انهما لن یفترقا حتیٰ یردا علی الحوض'' میں تمہارے لئے دو گرانقدر چیزیں قرآن و میری عترت چھوڑ کر جارہا ہوں جب تک ان سے متمسک رہو گے گمراہ نہ ہوگے یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہو نگے یہاں تک حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کریںگے۔( ۱ )

____________________

(۱)المراجعات؛سید شرف الدین عاملی۔

۱۵۰

سوالات

۱۔قرآن نے اس دنیا کی تقسیم کس طرح کی ہے مختصر بیان کریں ؟

۲ ۔پیغمبر اسلام کے خاتم النبیین ہونے پر دلیل پیش کریں؟

۳۔ چونکہ دنیا میں تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں لہٰذا محمد آخری رسول او ر اسلام آخری دین کیسے ہو سکتاہے ؟

۱۵۱

تیئسواں سبق

امامت

دین اسلام کی چوتھی اصل اور اعتقاد کی چوتھی بنیاد امامت ہے لغت میں امام کے معنی رہبر ا ور پیشوا کے ہیں اور اصطلاح میں پیغمبر اکرم کی وصایت وخلافت اور ائمہ معصومین کی رہبری مراد ہے، امامت شیعوں کی نظرمیں اصول دین میں سے ایک ہے اور امام کا فریضہ شیعوں کی نظر میں پیغمبر اسلام کے فرائض کی انجام دہی ہے۔

یعنی پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعثت کااور ائمہ کے منصوب ہونے کا مقصد ایک ہے اور جو چیز اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اللہ رسول کو مبعوث کرے وہی چیز اس بات کا بھی تقاضا کرتی ہے کہ خد اامام کو بھی معین کرے تاکہ رسول کی ذمہ داریوںکو انجام دے سکے، امام کے بنیادی شرائط میں سے ہے کہ وہ بے پناہ علم رکھتا ہو اور صاحب عصمت ہو نیز خطا ونسیا ن سے دور ہو اور ان شرائط کے ساتھ کسی شخصیت کا پہچاننا وحی کے بغیر ناممکن ہے اسی لئے شیعہ معتقد ہیںکہ منصب امامت بھی ایک الٰہی منصب ہے اور امام کو خدا کی طرف سے معین ہو نا چاہئے لہٰذا امامت او رخلافت کی بحث ایک تاریخی گفتگو نہیں ہے بلکہ حکومت اسلامی کی حقیقت او رپیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد اختتام دنیا تک حکو مت کرنا ہے اور ہماری آئندہ کی زندگی سے مکمل طور پر مربوط ہے، اسی طرح یہ دیکھنا ضروری ہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعداعتقادی اور فکری مسائل میں لوگ کس کی طرف رجوع کریں ۔

شیعوںکاکہنا ہے کہ پیغمبر اسلام کے بعد حضرت علی علیہ السلا م اور ان کے بعد ان کے گیارہ فرزند ایک کے بعد ایک پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی جانشین ہیں، شیعہ او رسنی کے درمیان یہی بنیادی اختلاف ہے ۔

ہمارا اصل مقصد اس بحث میں یہ ہے کہ امامت پر عقلی، تاریخی ،قرآنی اور سنت نبوی سے دلیلیں پیش کریںکیونکہ ہم ا س بات کے معتقد ہیںکہ اسلام حقیقی کانورانی چہرہ مذہب شیعہ میں پایا جاتا ہے اورصرف شیعہ ہیں جو حقیقی اسلا م کو اپنے تمام ترکمالات کے ساتھ پوری دنیا میں پہچنوا سکتے ہیں لہٰذا ہمیں اس کی حقانیت کو دلیل ومنطق کے ذریعہ حاصل کرنا چاہئے ۔

۱۵۲

امامت کا ہو نا ضروری ہے

امامت عامہ

دلیل لطف : شیعہ معتقد ہیں کہ بندو ں پرخداکا لطف اور اس کی بے پناہ محبت اور حکمت کا تقاضا ہے کہ پیغمبر اکرم کے بعد بھی لوگ بغیر رہبر کے نہ رہیں یعنی جو دلیلیں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مبعوث ہونے کے لزوم پر دلا لت کر تی ہیں وہی دلیلیںاس بات کی متقاضی ہیں کہ امام کا ہو نابھی ضروری ہے تاکہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرح دنیا اورآخرت کی سعادت کی طرف لوگوں کی رہبری کر سکیں اوریہ بھی ممکن نہیں ہے کہ وہ مہربان خدا بنی نوع انسان کو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد بغیر کسی ہادی اوررہبر کے چھو ڑدے ۔

مناظرہ ہشام بن حکم

ہشام کا شمار امام جعفر صادق کے شاگردو ںمیں ہے : کہتے ہیں میں جمعہ کوبصرہ گیااور وہاں کی مسجد میں داخل ہوا عمروبن عبید معتزلی (عالم اہل سنت) وہاں بیٹھے تھے اور ان کو لوگ گھیرے میں لئے ہوئے سوال وجواب کر رہے تھے میں بھی ایک گوشہ میں بیٹھ گیا اورکہا :میں اس شہر کانہیں ہوں کیا اجازت ہے کہ میں بھی سوال کروں ؟کہا جو کچھ پوچھنا ہو پوچھو: میں نے کہا آپ کے پاس آنکھ ہے ؟ اس نے کہا دیکھ نہیں رہے ہو یہ بھی کوئی سوال ہے۔ ؟

میں نے کہا میرے سوالات کچھ ایسے ہی ہیں کہا اچھا پوچھو ہر چند کہ یہ بیکارہے انہو ں نے کہا جی ہاں آنکھ ہے ،میں نے کہا ان آنکھو ں سے کیا کام لیتے ہیں؟ کہا دیکھنے والی چیزیں دیکھتا ہو ں ا قسام او ررنگ کو مشخص کرتا ہو ں ، میں نے کہا زبان ہے ؟کہا جی ہا ں ، میں نے کہااس سے کیا کرتے ہیں؟ جواب دیا کہ اس سے کھانے کی لذت معلو م کرتاہوں میں نے کہا ناک ہے ؟کہنے لگے جی ہا ں میں نے کہا اس سے کیا کرتے ہیں؟ کہا خوشبو سونگھتا ہو ں او راس سے خوشبو اور بدبو میں فرق کرتا ہوں میں نے کہا کان بھی ہے ؟جواب دیا جی ہا ں ،میں نے کہا اس سے کیا کرتے ہیں؟ جو اب دیا اس سے مختلف آوازوں کو سنتا ہو ں او ر ایک دوسرے کی تشخیص دیتا ہو ں، میں نے کہا اس کے علا وہ قلب (عقل ) بھی ہے ؟کہا جی ہا ں۔ میں نے پوچھا اس سے کیا کرتے ہیں؟جواب دیا اگر ہما رے اعضاء وجوارح مشکوک ہو جاتے ہیں تواس سے شک کو دور کرتا ہو ں ۔

۱۵۳

قلب اور عقل کاکام اعضا ء وجوارح کو ہدایت کرنا ہے ،ہشام نے کہا:میں نے ان کی بات کی تائید کی کہا بالکل صحیح۔ خدانے عقل کو اعضاء وجوارح کی ہدایت کے لئے خلق کیااے عالم! کیایہ کہنا صحیح ہے کہ خدانے آنکھ کان کو اور دوسرے اعضاء کو بغیر رہبر کے نہیں چھوڑااور مسلمانو ں کو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد بغیر ہادی ورہبر کے چھوڑ دیا تاکہ لوگ شک و شبہ اور اختلا ف کی باعث فنا ہو جائیں کیاکوئی صاحب عقل اس بات کو تسلیم کرے گا ؟!۔

ہدف خلقت

قرآن میں بہت سی آیتیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں( هَوَ الَّذِی خَلَق لَکُم مَافِی الأَرضِ جَمِیعاً ) وہ خدا وہ ہے جس نے زمین کے تمام ذخیرہ کو تم ہی لوگو ں کے لئے پیدا کیا۔( ۱ ) ( سَخَّرَ لَکُمُ اللَّیلَ وَالنَّهارَ والشَّمسَ وَالقَمَر ) ''اور اسی نے تمہارے لئے رات و دن اورآفتاب وماہتاب سب کو مسخر کردیا ''۔( ۲ )

چونکہ انسان کی خاطر یہ دنیا خلق ہوئی ہے اور انسان عبادت اور خدا تک پہونچنے کے لئے خلق ہو اہے تاکہ اپنے حسب لیاقت کمال تک پہونچ سکے، اس

____________________

(۱) سورہ بقرہ آیة :۲۹

(۲) سورہ نحل آیة :۱۲

۱۵۴

مقصد کی رسائی کے لئے رہبر کی ضرورت ہے اور نبی اکرم کے بعدامام اس تکامل کا رہبر وہادی ہے ۔

مہربا ن ودرد مند پیغمبر او رمسئلہ امامت :

( لَقَد جَا ئَ کُم رَسُولُ مِن أَنفُسِکُم عَزیزُ عَلَیه مَا عَنِتُم حَرِیصُ عَلَیکُم بِالمُؤمنینَ رَؤُفُ رَحِیمُ ) یقینا تمہا رے پاس وہ پیغمبر آیا ہے جو تمہیں میں سے ہے اور اس پر تمہاری ہر مصیبت شاق ہو تی ہے وہ تمہاری ہدا یت کے بارے میں حرص رکھتا ہے اور مومنین کے حال پر شفیق اور مہربان ۔( ۱ )

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب کبھی کسی کا م کے لئے کچھ دن کے واسطے مدینہ سے باہر تشریف لے جاتے تھے چاہے مقصد جنگ ہو یا حج، لوگو ں کی سرپرستی کے لئے کسی نہ کسی کو معین کر جاتے تھے تاکہ ان کی راہنمائی کر سکے آپ شہروں کے لئے حاکم بھیجتے تھے لہٰذا وہ پیغمبر جولوگوں پر اس قدر مہربان ہوکہ بقول قرآن ،اپنی زندگی میں کبھی بھی حتی کہ تھوڑی مدت کے لئے بھی لوگوں کو بغیر رہبر کے نہیں چھوڑا ،تو یہ بات بالکل قابل قبول نہیں کہ وہ اپنے بعد لوگو ں کی رہبری کے لئے امامت و جانشینی کے مسئلہ میں تساہلی وسہل انگا ری سے کام لیں گے اور لوگوں کو سرگردان اور بغیر کسی ذمہ داری کے بے مہار چھوڑ دیںگے ۔عقل وفطرت کہتی ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ پیغمبر جس نے لوگوں کے چھوٹے سے چھو ٹے مسائل چاہے مادی ہو ں یا معنوی سبھی کو بیان کر

____________________

(۱) سورہ توبہ آیة ۱۲۸

۱۵۵

دیا ہو اور اس نے سب سے اہم مسئلہ یعنی رہبری اور اپنی جانشینی کے تعین میں غفلت سے کام لیا ہو اورواضح طور پر لوگوں سے بیان نہ کیاہو!۔

سوالات

۱۔ امام کا ہو نا ضروری ہے دلیل لطف سے ثابت کریں ؟

۲۔ ہشام بن حکم اور عمروبن عبید کے درمیان مناظرہ کا خلا صہ بیا ن کریں ؟

۳۔ امام کا ہونا لازم ہے خلقت کے ذریعہ کس طرح استدلال کریں گے ؟

۴۔ سورہ توبہ کی آیة ۱۲۸ کے ذریعہ کس طرح امامت کااستدلا ل کریں گے ؟

۱۵۶