‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد اول) جلد ۱

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد اول) 37%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد اول) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 156

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 156 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 92480 / ڈاؤنلوڈ: 4590
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد اول)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد اول) جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

پہلا حصہ: بحث کی بنیادیں

* گزشتہ بحثوں پر ایک نظر

* سیف بن عمر کے جھوٹ اور افسانے پھیلنے کے اسباب

* دس اور کتابیں جن میں سیف سے اقوال نقل کئے گئے ہیں

۲۱

گزشتہ بحثوں پر ایک سرسری نظر

ہم نے کتاب ''عبد اللہ ابن سبا '' اور ''ایک سو پچاس جعلی اصحاب '' میں مشاہدہ کیا کہ سیف کی بے بنیاد اور جھوٹی احادیث اور باتوں نے اسلامی معارف اور لغت کی معتبر اور اہم کتابوں میں اس طرح نفوذ کیا کہ ہر محقق عالم کو حیرت و سرگردانی کا سامنا ہوتا ہے۔

ہم نے اس کتاب کی پہلی جلد میں سیف کے جھوٹ کے پھیلنے کے چند اسباب تفصیل کے ساتھ بیان کئے ہیں ۔ یہاں پر ان کی طرف ایک مختصر سا اشارہ کیا جاتا ہے:َ

١۔سیف نے اپنی باتوں کو ہر زمانہ کے حکام اور ہر زمانہ کے اہل اقتدار کے ذوق اور ان کی خواہش و پسند کے مطابق مرتب کیا ہے کہ ہر زمانہ کا حاکم طبقہ اس کی تائید کرتا ہے !

٢۔سیف نے سادہ لو عوام کی کمزوری کا خوب فائدہ اٹھا یا ہے کہ یہ لوگ اپنے اسلاف کے بارے میں حیرت انگیز کارنامے اور ان کی منقبتیں سننے کے مشتاق ہوتے ہیں ۔ اس طرح وہ ان سادہ لوح اور جلدی یقین کرنے والوں کے لئے اسلاف کی بہادریاں اور کرامتیں خلق کرکے ان کی خواہشیں پوری کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔

٣۔ سیف نے ش شعر و رجز خوانیوں کے دلدادوں اور ادبیات کے عاشقوں کو بھی فراموش نہیں کیاہے بلکہ ان کی پسند کے مطابق اشعار کہے ہیں اور رزم نامے و رجز خوانیاں لکھی ہیں اور ان اشعار و رجز خوانیوں سے ان کی محفلوں کو گرمی ورونق بخشی ہے۔

٤۔تاریخ نویسوں ، راویوں ، واقعہ نوسیوں اور جغرافیہ دانوں نے بھی سیف کے حق نما جھوٹ کے دستر خوان سے کافی حد تک فائدہ اٹھا یا ہے اور کبھی واقع نہ ہونے والے تاریخی اسناد ، حوادث اور روئیداد اور ہرگز وجود نہ رکھنے والے مقامات ، دریا اور پہاڑوں سے اپنی کتابوں کے لئے مطالب فراہم کئے ہیں ۔

۲۲

٥۔عیش پرست، ثروتمند اور آرام پسندوں کے لئے بھی سیف کے افسانے اور دروغ بافیاں عیش و عشرت کی محفلوں کی رونق ہیں ۔ سیف نے اس قسم کے لوگوں کی مستانہ شب باشیوں کئے لئے اپنے پر فریب ذہن سے تعجب انگیز شیرین اور مزہ دار داستانیں اور قصے بھی گڑھے ہیں ۔

٦۔ان سب چیزوں کے علاوہ دوسری صدی ہجری کے اس افسانہ گو سیف بن عمر تمیمی کی قسمت نے اس کی ایسی مدد کی ہے کہ وہ عالم اسلام کے مؤلفین میں سر فہرست قرار پیا ہے۔سیف کا زمانے کے لحاظ سے مقد م ہونا اور دیگر علماء و مؤلفین کا مؤخر ہونا سیف کے جھوٹ اور افسانوں کے نقل ہونے کا سبب سے بڑا سبب بنا ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ انہی مؤلفین کی اکثریت سیف کو جھوٹا، حدیث گڑھنے والا، حتیٰ زندیق ہونے کا الزام بھی لگاتی ہے۔

سیف کا یہی امتیاز کہ وہ ایک مؤلف تھا اور اس نے دوسری صدی ہجری کی پہلی چوتھائی میں (افسانوی اور حقائق کی ملاوٹ پر مشتمل افسانوی)تاریخ کی دوکتابیں تألیف کی ہیں اس کا سبب بناہے کہ اسلام کے بڑے بڑے مؤلفین نے ، وقت کے اس عیّار کی دھوکہ بازی اور افسانوں سے بھری تحریروں سے خوب استفادہ کیا اپنی گراں قدر اور معتبر کتابوں کو ، حقیقی اسلام کو مسخ کرنے والے اس تخریب کا ر کے افسانوں اور جھوٹ سے آلودہ کربیٹھے ۔

بعض سر فہرست مؤلفین ، جنہوں نے اسلامی تاریخ و لغت کی کتابوں میں سیف بن عمر سے روایتیں نقل کی ہیں ، حسب ذیل ہیں :

١۔ابو مخنف، لوط بن یحییٰ (وفات ١٥٧ھ)

٢۔نصر بن مزاحم بن یحییٰ (وفات ٢٠٨ ھ)

٣۔خلیفہ بن خیاط بن یحییٰ (وفات ٢٤٠ھ)

٤۔بلاذری بن یحییٰ (وفات ٢٧٥ھ)

٥۔طبری بن یحییٰ ( وفات ٣١٠ھ)

۲۳

اس کے علاوہ دسیوں دیگر نامور اور محترم مؤلفین بھی ہیں ۔

یہ اور ان جیسے مؤلفین سبب بنے کہ سیف کی جھوٹی اور افسانوی باتیں اسلام کے اہم اور قابل اعتبار مصادر میں درج ہوگئیں ۔ ہم نے ان میں سے ٦٨ مصادر و مآخذ کی طرف اس کتاب کی پہلی جلد میں اشارہ کیا ہے اور اب ان مصادر میں چند دیگر افراد کا ذیل میں اضافہ کرتے ہیں جنہوں نے سیف بن عمر سے مطالب نقل کئے ہیں :

٦٩۔ابو القاسم ، عبد الرحمان بن محمد اسحاق مندہ (وفات ٤٢٧ھ)، کتاب ''التاریخ المستخرج من کتب الناس فی الحدیث'' میں ۔

٧٠۔ الصاغی ، حسن بن محمد القرشی ، العدوی العمری (وفات ٦٥٠ھ) کتاب ''در السحابہ، فی بیان مواضع و فیات الصحابہ'' میں ۔

٧١۔عبد الحمید ،ابن ابی الحدید معتزلی (وفات ٦٥٥ ھیا٦٥٦ھ)کتاب''شرح نہج البلاغہ'' میں ۔

٧٢۔مقریزی ،تقی الدین احمد بن علی بن عبد القادر (وفات ٨٤٨ھ )کتاب ''الخطط''میں ۔

مشاہدے کے مطابق سیف بن عمر کے افسانے اور جھوٹ (ہماری دست رس کے مطابق ) ہماری در پیش بحث سے مربوط ،اسلام کی ٧٨معتبر اور گراں سنگ کتابوں میں درج ہوئے ہیں ۔اب ہم محققین محترم کی مزید اطلاع ،معلومات اور راہنمائی کے لئے مواخر الذکر مطالب کے صفحات کے حوالے بھی حسب ذیل ذکر کرتے ہیں :

گزشتہ بحث کے اسناد

١۔تاریخ المستخرج من کتب الناس فی الحدیث عبید بن صخرکے باپ بن لوذان کے حالات زندگی میں

٢۔صاغی کی درالسحابہ ،ص١٤ ،اسعد بن یربوع کے حالات میں

٣۔''شرح نہج البلاغہ '' ابن ابی الحدید معتزلی (١٨٦٤)

٤۔''الخطط مقریزی ''طبع مصر ١٣٢٤ھ صفحات (١٥١١و١٥٦)و(١٤٦٤)

٥۔فتح الباری (٧،٥٨و٥٦)

٦۔تاریخ خلفا سیوطی (٨١و٩٧)

٧۔کنز العمال ( ٣٢٣١١و١٥٥١٢و٢٣٩و١٥و٦٩و٢٣٢)

۲۴

دوسرا حصہ:

جعلی صحابی کو کیسے پہچانا جائے؟

* ایک مختصر تمہید

* سیف کی سوانح حیات اور اس کے زمانے کا ایک جائزہ

* جعلی صحابی کی پہچان

* جعلی اور حقیقی روایتوں کا موازنہ

* سیف کے چند جعلی اصحاب کے نام

۲۵

ایک مختصر تمہید

کتاب '' عبداللہ ا بن سبا'' اور اس کتاب کے مختلف مباحث کی بنیاد اسی پر ہے کہ ہم یہ ثابت کریں کہ سیف ابن عمر تمیمی ان افسانوں ،پہلوانوں ،اماکن اور اس کی خیالی جگہوں کا جعل کرنے والا ہے ۔اس سلسلے میں ہماری دلیل حسب ذیل ہے :

اسلام اور علماے اسلام کے نزدیک روایت (نقل قول) مختلف علوم ،مانند تاریخ ،فقہ ،تفسیر اور دیگر فنون ادب اور لغت کی بنیاد ہے اور وہ اس کے علاوہ خبر حاصل کرنے کے کسی اور منبع کو نہیں جانتے جب کہ دوسروں نے اپنے معلومات کی تکمیل کے لئے مثال کے طور پر اتفاقا آثار و علائم اور دیگر امور کی طرف بھی رجوع کیا ہے اور ان سے استفادہ کرتے ہیں ۔

چوں کہ علماے اسلام کا طریقہ یہی رہا ہے جیسا کہ ہم نے بیان کیا ،اس لئے وہ مورد نظر روایت کو نسل بہ نسل اپنے متقدمین سے حاصل کرتے ہیں تاکہ اس طرح خبر واقع ہونے کے زمانے اور روایت کے مصدر تک پہنچ جائیں ۔ان کے نزدیک خبر کے سر چشمہ تک پہنچنے کی صرف یہی ایک راہ ہے اور وہ اس سے نہیں ہٹتے نہ کسی اور جگہ سے الہام لیتے ہیں ۔

اب اگر ہم مذکورہ علوم کے بارے میں علماے اسلام کی کتابوں کی طر ف رجوع کریں تو جوکچھ انہوں نے روایت کی ہے اس کے بارے میں انہیں مندرجہ ذیل دوگروہوں میں سے کسی ایک میں پاتے ہیں :

ان علماء میں سے ایک گروہ مثلاًطبری ،خطیب بغدادی اور ابن عساکر نے جس خبر وروایت کو اپنی تاریخوں میں ذکر کیا ہے اور اس کی سند کو بھی ثبت ومشخص کیا ہے ۔

علماء کاایک دوسرا گروہ مثلاًمسعودی مروج الذہب میں ،یعقوبی ،ابن اثیر ،اور ابن خلدون نے اپنی تاریخ کی کتابوں میں ذکر کی گئی روایتوں کی سند کاذکر نہیں کیاہے ۔

۲۶

اب ہم مذکورہ وضاحت کے پیش نظر کہتے ہیں :

اگر کسی متأخر مؤلف کے ہاں ہم دیکھتے ہیں کہ جس روایت کو اس نے ذکر کیا ہے اس کی سند کوذکرنہیں کیاہے ۔حتیٰ یہ بھی معین ومشخص نہیں کیا ہے کہ اس خبر کو اس نے کہاں سے لیا ہے توہم اس مطلب کی تحقیق کرتے ہیں اور دوسری کتابوں کا مطالعہ کرکے یہ نتیجہ پاتے ہیں کہ یہی خبر من وعن حالت میں کسی قدیمی عالم کی تحریر میں موجود ہے اور بحث وتحقیق کے بعد معلوم ہوتاہے کہ اس متأخر عالم کی خبر کا سرچشمہ یہی قدیمی عالم مؤلف تھا ۔یہاں پر ہم فیصلہ کرتے ہیں کہ مذکورہ خبر کو فلاں متأخر عالم نے فلاں قدیمی عالم سے نقل کیا ہے ۔

درج ذیل مثال مذکور ہ مطالب کی مکمل وضاحت کرتی ہے :

ہم نے جہاں پر سبائیوں کا افسانہ اپنی کتاب ''عبداللہ ابن سبا''کی پہلی جلد میں ذکرکیا ہے وہیں پر یہ بھی ثابت کیا ہے کہ اس افسانہ کو گزشتہ تاریخ نویسوں ،مؤلفوں و محققوں حتیٰ مشتشرقین نے بھی اپنے طور پر ایک دوسرے سے نقل کیا ہے ،اور اس داستان میں ان کی سند درج ذیل مصادر میں سے کسی ایک پر منتہی ہوتی ہے :

١۔ تاریخ طبری (وفات ٣١٠ھ )

٢۔ تاریخ دمشق ،ابن عساکر (وفات ٥٧١ھ )

٣۔التمہید و البیان ،ابن ابی بکر (وفات ٧٤١ھ )

٤۔ تاریخ اسلام ،ذہبی ( وفات ٧٤٨ھ)

ہم جب اس مطلب کا سلسلہ تلاش کرتے ہیں اور سبائیوں کی داستان کی سند کو مذکورہ چار مصادر میں جستجو کرتے ہیں تو نتیجہ کے طور پر متوجہ ہوتے ہیں کہ ان سب نے یہ مطلب صرف سیف بن عمر تمیمی سے لے کر اپنی تاریخوں میں درج کیا ہے اور اپنی اسناد کے سلسلے کو سیف بن عمر تک پہنچاتے ہیں ۔یہاں پر اس جستجو کے بعد ہم پر یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ان افسانوں کو بیان کرنے والا منفرد شخص سیف ہے اور سبائیوں کی داستان اس پورے آب و تاب کے ساتھ صرف سیف کی ذہنی تخلیق ہے کسی اور نے اس کی روایت نہیں کی ہے ۔

۲۷

سیف کی سوانح حیات اور اس کے زمانے کا ایک جائزہ

یہاں پر ہم سیف کی شخصیت کا مطالعہ کرتے ہوئے اس تحقیق کے دوران متوجہ ہوتے ہیں کہ :

١۔ سیف نے اپنی ادبی سرگرمیوں کا آغاز دوسری صدی ہجری کی ابتدا ئی چوتھائی میں کیا ہے۔یہ وہ صدی تھی جس کے دوران عرب دنیا میں خاندانی تعصب کی دھوم تھی ۔جزیرہ نمائے عرب کے شمال میں قبیلہ عدنان کے شعرا ء اور سخن ور اور جنوب میں قبیلہ قحطان اپنی مدح و ثنا میں اور دسرے کی ہجو اور انھیں بد نام کرنے میں ایک دوسرے کے پیچھے پڑے ہوئے تھے ۔شمالی ،جنوبیوں کے خلاف اور جنوبی جزیرہ نما کے شمال میں رہنے والوں کو دشنام دیتے اور برا بھلا کہتے تھے اور اپنی فضیلتیں ، عظمتیں اور فخر و مباہات بیان کرتے تھے ۔ان ہی میں سیف ایک عدنانی اور سخت متعصب شخص تھا خاندانی تعصبات کا اظہار کرنے میں اس نے قبیلہ ٔعدنان کے مختلف خاندانوں خاص کر تمیم اور اپنے خاندان ''اسیّد'' کے لئے افسانے اور خیالی سورما جعل کئے ہیں اور اشعار و رزم نامے گڑھ کر دوسروں پر سبقت حاصل کی ہے۔ اس طرح اس نے خاندان عدنا ن کے فخر و مباہات اور شرافت و فضیلتیں تخلیق کی ہیں ، اور قحطانیوں پر بزدلی ، ذلالت ، فتنہ انگیزی اور شرارت کی تہمتیں لگائی ہیں ۔

سبائیوں کے بارے میں سیف کا افسانہ اسی امر کی وضاحت کرتا ہے۔وہ اس افسانہ کو جعل کرکے قبائل عدنان کے بعض سرداروں کے آلودہ دامن کو پاک و صاف کرتا ہے اور بے گناہ قحطانیوں پر فتنہ انگیزی اور دیگر ہزاروں برائیوں کی تہمتیں لگاتا ہے۔

٢۔دوسری جانب ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ عراق ، جو سیف کا اصلی وطن ہے، ان دنوں زندیقیوں کی سرگرمیوں کا مرکز تھا اور وہ پوری طاقت کے ساتھ مسلمانوں کو اسلام سے منحرف کرنے کی سر توڑ کوشش کر رہے تھے وہ اس سلسلے میں جھوٹی احادیث گھڑ نے اور انھیں پھیلانے میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کرتے تھے اور اپنے اس مقصد تک پہنچنے کے لئے ہر وسیلہ کا سہارا لیتے تھے۔

یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ سیف بھی جھوٹ اور افسانے گڑھ کر، تاریخ اسلام کے ساتھ ظلم و جفا کرنے میں اپنے ہم عقیدہ زندیقیوں سے پیچھے نہیں رہاہے۔ اور یہ اس صورت میں ہے کہ علماے متقدمین نے سیف کو نہ صرف ایک جھوٹا اور غیر قابل اعتماد جانا ہے بلکہ اس پر زندیقی ہو نے کا الزام بھی لگا یا ہے۔ ان تمام تحقیقات کے پیش نظر ہم وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ یہ سیف بن عمر ہے جس نے سبائیوں کا افسانہ جعل کرکے اسے پھیلادیا ہے۔

۲۸

٣۔ہم نے اپنی کتاب ''عبد اللہ بن سبا'' میں سیف کی روایتوں کو واقعات اور حوادث کے تقدم کی بنیاد پر ، یعنی اسامہ کی ماموریت ، سقیفہ بنی ساعدہ، ارتداد اور فتوح کی جنگوں کے سلسلے میں اس کی روایتوں کا ترتیب سے سیف کے علاوہ دوسرے راویوں کی روایتوں سے موازنہ و مقابلہ کیا اور اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ:

علماء نے سیف کی توصیف اور اس کی احادیث کے بارے میں جو کچھ کہا ہے، وہ صحیح ہے، کیونکہ سیف بن عمر تمیمی کی باتیں بالکل جھوٹ اور افسانہ ہیں یا تہمت و افترا ہیں یا تاریخ اسلام کے حقائق میں تحریف ہیں ۔

اسناد جعل کرنا

سیف اپنے افسانوں کے لئے تاریخ لکھنے والوں کے شیوہ کے مطابق سند جعل کرتا ہے تا کہ اپنے افسانون اور جھوٹ کو سچ اور حقیقی ظاہر کرسکے۔ وہ اپنی بات کو ایسے راویوں کی زبانی دہرا تا ہے جو حقیقت میں وجود ہی نہیں رکھتے اور سیف کے علاوہ ان کا نام کہیں نہیں پایا جاتا اور دوسرے علماء نے ان کا نام تک نہیں لیا ہے۔ سیف نے اپنے سور ماؤں کے لئے شجاعتیں اور بہادریاں جعل کی ہیں اور مقامات کو خلق کرکے ان کی دلاوریوں کو ان جگہوں پر واقع ہوتے ہوئے دکھلایاہے۔

۲۹

وہ مؤلفین، جنھوں نے سیف کے خیالی اداکاروں کو درج کیا ہے

یہاں پر ایک ہلا ہم ہادینے والے مطلب سے دوچار ہوتے ہیں ، وہ یہ کہ ہمیں ایسے علماء اور دانشمندوں کا سراغ ملتا ہے جو سیف کے بارے میں مکمل شناخت رکھتے ہیں ، اسے جھوٹا جانتے ہوئے اس پر زندیقی ہونے کا الزام بھی لگاتے ہیں ، لیکن اس کے باوجود انہوں نے سیف کے ہر جعلی اور افسانوی سور ما کے لئے اپنی رجال کی کتابوں میں سوانح حیات لکھی ہے اور جغرافیہ دانوں نے بھی اپنی جغرافیہ کی کتابوں میں سیف کے جعلی اور فرضی مقامات ،شہروں اور دریائوں کو درج کیا ہے اور ان علماء کے ثبت کئے گئے مطالب کی سند صرف اور صرف سیف کی جعلی روایتیں ہیں ۔اس طرح سیف کے خیالی مقامات اور شہروں کے نام اسلامی جغرافیہ کی کتابوں میں درج ہو گئے ہیں اور اس کے خیالی اشخاص ،افسانوی سورما ،فرضی راوی ،جعلی سپہ سالار ،خیالی شعراء و سخنور اور اس کے علاوہ خطوط ،تاریخی اسناد کہ جن میں سے کسی ایک کی کوئی حقیقت نہیں ہے ،اور سب کے سب دوسری صدی ہجری کے افسانہ گو سیف کے تخیلات کی پیدا وار ہیں ،کو ان علماء کی کتابوں میں مناسب جگہوں پر واقعی اور ناقبل انکار حقیقت کے طور پر درج کیا گیا ہے !!

یہ وہ تلخ حقائق ہیں جو سالہا سال زندگی صرف کرنے اور دقت نظر و تحقیق کے بعد جس کا نتیجہ آپ آئندہ بحثوں میں ملاحظہ فرمائیں گے ہمیں حاصل ہو سکے ہیں تاکہ حق و حقیقت کے راہیوں کے لئے مشعل راہ ثابت ہوں اور اسلام اور اس کی حقیقی تاریخ کے رخ سے پردہ اٹھا کر اسلام کے حقائق کو دنیا کے لوگوں اور مسلمانوں کے سامنے واضح کر سکیں ۔

۳۰

جعلی صحابی کی پہچان

سیف کے افسانوی صحابی کو پہچاننے کے لئے ضروری ہے کہ ،جب ہم کسی روایت یا خبر کے مطالعہ کے دوران کسی ایسے صحابی سے رو برو ہوتے ہیں جو مشکوک لگے تو ہم سب سے پہلے اس خبر کے اسناد کا اسی کتاب میں دقت سے مطالعہ کرتے ہیں چونکہ ہم نے سیف کو پہلے ہی پہچان لیا ہے اگر اس خبر کی روایت سیف پر منتہی نہ ہو تو مذکورہ صحابی کے بارے میں تحقیق و جستجو سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں اور اسے سیف کا تخلیق کردہ راوی محسوب نہیں کرتے ۔

لیکن اگر روایت کی سند سیف پر منتہی ہو تو یہاں پر ہماری وسیع تحقیق و جستجو کا آغاز ہو تا ہے اور ہم مختلف مصادر اور متعدد اسلامی مآخذ کی طرف رجوع کرکے تحقیق شروع کرتے ہیں اور سیف کی روایت میں ذکر ہوئے مطالب کو اس موضوع کے سلسلے میں دوسروں کی روایت میں ذکر ہوئے مطالب سے موازنہ ، و مقابلہ کرتے ہیں .یہاں پر اگر مذکورہ مشکوک صحابی کا نام سیف کے علاوہ کسی اور راوی کی روایت میں ملے، تو اس کے بارے میں تحقیق ترک کردیتے ہیں اور اسے جعلی نہیں جانتے۔ لیکن اگر اس صحابی کا نام سیف کی روایتوں کے علاوہ کسی اور جگہ پر نہیں ہوتا تو اس وقت فیصلہ کرتے ہیں کہ:چونکہ یہ مطلب یا اس شخص کانام ، یا اس جگہ کا نام، اور ایسے راویوں کی خصوصیات کو صرف سیف بن عمر نے بیان کیا ہے اور ان کا کسی دوسری جگہ اور کسی ماخذ میں سراغ نہیں ملتا ، اس لئے یہ صحابی ، راوی یا جگہ حقیقت میں وجود نہیں رکھتے اور بالکل جھوٹ اور سیف بن عمر کے افکار و خیالات کے پیدا وار ہیں اس سلسلے میں درج ذیل مثال پیش کی جاتی ہے:

ایک تمیمی گھرانا

ہمیں مکتب خلفاء کی معتبر کتابوں میں مالک تمیمی نام کے ایک معروف خاندان سے مربوط بہت سی اخبار و روایات نظر آتی ہیں ، ان میں مشہور چہرے اور معروف صحابی بھی نظر آتے ہیں جن میں مالک تمیمی کے بہادر نواسے بھی ہیں ۔ان میں سے ایک کا نام قعقاع اور دوسرے کا نام عاصم ہے یہ دونوں عمرو کے بیٹے تھے۔ اسی طرح ان کے چچیرے بھائی اور مالک تمیمی کے دوسرے نواسے جیسے اسود بن قطبہ اور اس کا بیٹا اور صحابی نافع بن اسود یعنی مالک کا پر پوتا اور اس نامور خاندان یعنی بنی تمیم کے تمام محترم اور نامور افراد نظر آتے ہیں

۳۱

ہم اس خاندان ، خاص کر ان کے غیر معمولی کار ناموں کی وجہ سے ان کے بارے میں مشکوک ہوتے ہیں ۔ اس بناء پر ہم اپنی تحقیق کے مطابق جو کچھ اس خاندان کے ہر فرد کے بارے میں بیان ہواہے، اسے ایک ایک کر کے مختلف اسلامی مصادر سے جمع کرتے ہیں ۔اس کے بعدتمام باسند اور بدون سندروایتوں کے بارے میں تحقیق کرتے ہیں اور آخر کار متوجہ ہوتے ہیں کہ وہ تمام روایتیں جو قعقاع کے بارے میں بیان ہوئی ہیں ،سیف سے روایت ہوئی ہیں اور ان کی تعداد ٦٨ تک پہنچتی ہے اوروہ تمام روایتیں جواس کے بھائی عاصم سے مربوط ہیں ،ان کی تعداد ٤٠تک پہنچتی ہے ۔اسود بن قطبہ اور اس کے بیٹے نافع کے بارے میں روایتوں کی تعداد ٢٠تک پہنچتی ہے ،اور یہ سب کی سب صرف سیف بن عمر سے نقل ہوئی ہیں !

قعقاع کے بارے میں سیف کی روایتوں کے اسناد

اب ان روایتوں کے اسناد کے بارے میں تحقیق کی نوبت آتی ہے جو قعقاع کے بارے میں گویا ہیں ۔ہمیں اس تحقیق میں تیس ایسے راوی کے نام ملتے ہیں جوسیف کی احادیث کے علاوہ دوسروں کی احادیث میں نظرہی نہیں آتے ۔ان روایتوں کے راویوں میں خاص طور پر ایک ایسا راوی بھی ہے جس کانام ،قعقاع سے مربوط سیف کی ٣٨ احادیث میں دہرایا گیا ہے ۔دوسرے راوی کا نام ،١٥احادیث میں ،تیسرے راوی کانام ١٠ احادیث میں اور چھوتے راوی کانام قعقاع سے مربوط سیف کی ٨احادیث میں دہرایاگیاہے۔

ان راویوں میں سے چار کانام قعقاع کے بارے میں سیف کی دو احادیث میں ایک ہی جگہ پر آیا ہے ۔بعض اوقات ایک حدیث میں ان ہی راویوں میں سے ایک سے زائدہ کانام لیاگیا ہے۔ یہ سبب راوی سیف بن عمر تمیمی کے خیا لی اور جعل کردہ ہیں ۔

۳۲

عاصم کے بارے میں سیف کی روایتوں کے اسناد کی تحقیق

عاصم کے بارے میں سیف کی روایتوں کی تحقیق کے دوران ہمیں ا س کے بارہ راویوں کے نام ملتے ہیں ،جن کو ہم سیف کے علاوہ کسی اور کے ہاں نہ پاسکے ۔ان راویوں میں سے ایک کانام عاصم کے بارے میں سیف کی ٢٨روایات میں دہرایاگیاہے۔ایک دوسرے راوی کانام ١٦روایات میں دہرایاگیاہے۔لیکن بعض اوقات عاصم کے بارے میں سیف کی ایک ہی روایت میں ایک سے زائد راویوں کانام ذکر کیا گیا ہے۔

مذکورہ نام وخصوصیات کے مالک بارہ راویوں کے علاوہ سیف نے بعض دیگر اسناد مثلاً: ''بنی بکر سے ایک مرد ''یا''بنی سعد سے ایک مرد''یا''شوش کی فتح کے بارے میں خبر دینے والا''جیسے موارد بھی پیش کئے ہیں کہ یہ انتہائی مجہول وبے نام اسناد ہیں ۔

اسود اور اس کے بیٹے کے بارے میں سیف کی روایات کے اسناد

اسود اور اس کے بیٹے نافع کے بارے میں سیف کی روایتوں کے اسناد میں ،عاصم کے سلسلے میں ذکر ہوئے راویوں کے علاوہ ،٩جعلی راوی اور چند مجہول شخصیت راویوں کاذکر کیاگیاہے کہ یہ سب کے سب مجہول اور بے نام ونشان ہیں ۔

خاندان مالک سے مربوط سیف کے روایات کے اسناد کی یہ حالت ہے اور سیف ان ہی کی وساطت سے اپنے سورماؤں اور جعلی صحابیوں کی سرگرمیوں کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے سے ،داستان سقیفہ بنی ساعدہ ،جزیرة العرب میں ارتداد اور فتوح کی جنگوں ،خلافت ابوبکر کے زمانے میں عراق وشام کی فتوحات اور نبرد آزمائیوں خلافت عمر وعثمان اور امام علی ـکے دوران حتیٰ معاویہ کے زمانے تک سرزمین عراق،شام اور ایران کی فتوحات کا ذکر کرتا ہے۔

۳۳

سیف اس خاندان کے افراد کے لئے اپنی خیالی اور فرضی جنگوں میں شجاعتیں بیان کرتاہے اور رزمی شعر کہتاہے ،مختلف صوبوں کی حکومتیں انھیں تفویض کرتاہے ،کرامتوں اور غیر معمولی کارناموں کو ان سے نسبت دینے کے علاوہ دیگر ایسے مطالب بیان کرتاہے،جو صرف سیف کے ہاں نظر آتے ہیں ۔دوسری جانب ان روایتوں کی تحقیق اور چھان بین کے بعد جن میں صحابیوں اور بہادروں کا ذکر ہواہے ہم پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ تمام روایتیں جن میں ان دلاوروں کا ذکر آیاہے اور جو بے سند ہیں ، حقیقت میں وہی پہلے درجہ کی سند دار روایتیں ہیں جن کی سندیں سیف پر منتہی ہوتی ہیں ،فرق صرف اتنا ہے کہ یہاں پر ان کی سندیں حذف کردی گئی ہیں !

اس سلسلے میں مزید اطمینان حاصل کرکے قطعی فیصلہ تک پہنچنے کے لئے ہم نے ان سورماؤں کی شجاعتوں اور ان سے مربوط روایتوں کے جعلی اور افسانہ ہونا ثابت کرنے کے لئے مختلف علو م کے موضوعات کو مد نظر رکھتے ہوئے دوسرے اسلامی منابع ومآخذ کی طرف رجوع کرکے حسب ذیل صورت میں عمیق تحقیق شروع کی :

١۔ ہم نے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت ،رفتار وکردار پر لکھی گئی کتابوں کی طرف رجوع کیا جن میں اس زمانے کے گمنام ترین مسلمان شخص کے ساتھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ملاقات اور برتاؤ کو درج کیا گیاہے، مانند :

''سیرہ ابن ہشام''(وفات ٢١٣ھ )

''عیون السیرہ'' ابن سیدہ الناس (وفات ٧٤٣ھ)

اور سیرت کی دوسری کتابیں ۔

لیکن ان میں سے کسی ایک میں بھی سیف کے جعلی اور افسانوی سورماؤں کا کہیں نام ونشان تک نہیں پایا۔اس طرح سے کہ نہ ان کتابوں میں نہ روایتوں کے اسناد میں اور نہ ان کے متن میں کہیں بھی ان کا نام ذکر نہیں ہواہے۔

٢۔ہم نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مربوط احادیث کی کتابوں کی طرف رجوع کیا،جن میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی چھوٹی سی چھوٹی بات کوبھی درج کیا گیا ہے،مانند:

۳۴

'' مسند طیالسی''(وفات ٢٠٤ھ)

'' مسند احمد''(وفات ٢٤١ھ )

''مسند ابوعوانہ''(وفات ٣١٦ھ)

'' صحیح بخاری''(وفات ٢٥٦ھ)

'' موطأ مالک ''(وفات ١٧٩ھ)

'' سنن ابن ماجہ ''(وفات ٢٧٣ھ )

'' سنن سجستانی''(وفات ٢٧٥ھ)

'' سنن ترمذی''(وفات ٢٧٩ھ)

ان کے علاوہ ہم نے دیگر مسانید اور صحاح میں بھی ڈھونڈا اور جستجو کی ،لیکن ان میں سے کسی ایک میں بھی سیف کے جعلی اصحاب کا کہیں نام ونشان نہ پایااور نہ ان کے متن وسند میں ان کا کہیں سراغ ملا۔

٣۔ ہم نے طبقات کی کتابوں کا بھی مطالعہ کیا جن میں اصحاب اور تابعین کے بارے میں ان کی سوانح حیات درج کی گئی ہیں ،مانند:

'' طبقات ابن سعد''(وفات ٢٣٠ھ)

جس میں اصحاب اور تابعین کی ، ان کی جائے پیدائش کے مطابق طبقہ بندی کی گئی ہے۔

'' طبقات خلیفہ بن خیاط''(وفات ٢٤٠ھ)

'' النبلاء ذہبی''(وفات ٧٤٨ھ)

اور اس سلسلے کے دیگر منابع کی طرف بھی رجوع کیا لیکن ان میں بھی کہیں سیف کے مذکورہ سورماؤں میں سے کسی ایک کانام نہیں پایا نہ ان کے متن میں اور نہ سند میں ۔

۳۵

٤۔ اس تحقیق کو جاری رکھتے ہوئے ہم نے احادیث واخبار سے مربوط راویوں کے تعارف میں لکھی گئی کتابوں کی طرف رجوع کیا،جیسے:

'' علل احمد حنبل''

'' جرح وتعدیل رازی''(وفات ٣٢٧ھ)

'' تاریخ بخاری''اور اس قسم کی دوسری کتابیں ۔

٥۔ اس کے علاوہ ہم نے مختلف عرب قبیلوں کے شجرہ ٔنسب کے بارے میں لکھی گئی کتابوں کا مطالعہ کیا،مانند:

'' جمہرۂ نسب قریش''از زبیری (وفات ٢٣٦ھ)

'' انساب سمعانی''(وفات ٥٦٢ھ)

٦۔ اسی طرح اصحاب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حالات پر لکھی گئی کتابیں ،مانند:

۔'' اسد الغابہ''اور

''اصابہ '' اور جہاں تک ممکن ہوسکا دیگر مطبوعہ وقلمی نسخوں کا بھی مطالعہ کیا۔

٧۔ اس کے علاوہ اس تحقیق وجستجو میں ہم نے عمومی تاریخوں ۔مانند:

'' تاریخ خلیفہ بن خیاط''(وفات ٢٤٠)

'' تاریخ طبری''(وفات ٣٠١ھ) وغیرہ اور ان کے علاوہ ان عمومی تواریخ کا بھی مطالعہ کیا جن میں تاریخ کے مخصوص واقعات کی تشریح کی گئی ہے ،مانند :

'' صفین ،ابن مزاحم''(وفات ٢١٢ھ)

'' تاریخ دمشق''تالیف ابن عساکر(وفات ٥٧١ھ)

اور دیگر معتبر منابع ومآخذ ۔

٨۔ ہم نے اس تحقیق وجستجو کے دوران ادبی کتابوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا بلکہ ان سے بھی استفادہ کیا،جیسے :

دورہ ٔکتاب''اغانی اصفہانی ''(وفات ٣٥٦ھ)

۳۶

'' المعارف ابن قتیبہ ''(وفات ٢٧٦ھ)

'' العقد الفرید''ابن عبدربہ(وفات ٣٢٨ھ)

اور اس موضوع سے مربوط دیگر کتابوں کی طرف بھی رجوع کیا۔

اس قدر تحقیق وتلاش وجستجو پر ہم نے ایک عمر صرف کرکے یہ نتیجہ حاصل کیا ہے کہ وہ تمام روایات جن میں اس قسم کے صحابیوں کے نام ذکر ہوئے ہیں ان کی سندیں صرف اور صرف سیف بن عمر تمیمی پر منتہی ہوتی ہیں ۔

سیف کی روایات کے اسناد کی اتنی تحقیق کے علاوہ ہم نے ایسے صحابیوں کے بارے میں روایت کی گئی سیف کی ہر خبر کے متن پر بھی غور وخوض اور تحقیق کی اور اس کا دوسرے اور حقیقی راویوں کی روایت کے متن سے موازنہ و مقابلہ کیا۔اس تحقیق سے مندرجہ ذیل دو صورتوں میں سے ایک حاصل ہوئی :

١۔ یا یہ کہ سیف کی روایت کردہ خبر ،مضمون اور متن کے لحاظ سے بالکل جعلی اور جھوٹی ہے،خواہ یہ اس کا خطبہ اور معجزہ ہوا ،جنگ ہو یا صلح ،اس کا سورما ہو یا ہیرو،مکان ہو یازمان ،اس کے رزمی اشعار ہوں یااس کے اسناد اور راوی ۔اس کا نمونہ اسی کتاب میں ایک افسانوی شخص''طاہر ابوھالہ تمیمی بن خدیجہ'' ،جسے سیف نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے منہ بولے بیٹے کے عنوان سے جعل کرنے کے بعد اسے ارتداد کی جنگوں ،جیسے جنگ ''اخابث'' میں شرکت کرتے ہوئے دکھایاہے ۔ ''خبراط بن ابواط تمیمی'' اور اس دریا کانام جو اس سے منسوب کیاگیاہے ۔اور اس طرح کی دوسری روایتیں جو بالکل جعلی اور جھوٹی ہیں اور ان کاکوئی بھی تانابانا حقیقت سے مطابقت نہیں رکھتا ۔

٢۔ یا یہ کہ سیف نے ایک حقیقی واقعہ کی خبر میں کسی نہ کسی صورت میں تحریف کی ہے۔مثلاً کسی واقعہ کے مرکزی کردار یا کرداروں کو بدل کے رکھ دیا ہے اور ہر کار خیر میں کسی یمانی قحطانی صحابی یا تابعین میں سے کسی ایک کے کردار کو بدل کر اسے عدنانی مضر ی خاندان کے کسی فرد سے منسوب کردیا ہے یا بر عکس کسی عدنانی ومضری شخص کے کسی نامناسب اور ناروا کام کو ایک قحطانی فرد سے نسبت دیدی ہے!یازمان ومکان تبدیل کیاہے یا کسی روایت میں تحریف کی کوئی دوسری صورت انجام دی ہے کہ کتاب ''عبد اللہ بن سبا '' اور اسی کتاب (١٥٠ جعلی اصحا۲) کی مختلف جلدوں کا مطالعہ کئے بغیر آسانی کے ساتھ سیف کی تحریف کے اقسام اور تاریخ اسلام کے سلسلہ میں اس کے جرم کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔

۳۷

جی ہاں !اتنی طولانی بحث وتحقیق کے بعد حتی سیف کی ایک روایت وخبر کو بھی سیف کے علاوہ دوسروں کی صحیح اسناد میں نہ پائے جانے اور ہمارے مورد شک صحابی کے نام یا خبر کے ان میں موجود نہ ہونے کی وجہ سے ہم یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہیں کہ اس قسم کے اصحاب سیف کے جعل کردہ ہیں اور ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔

جعلی اورحقیقی صحابی میں فرق !

سیف کے جعلی صحابی اور دیگر حقیقی صحابیوں میں فرق یہ ہے کہ :جعلی اور جھوٹے صحابی وہ ہیں ،جن کے نام اور اخبار صرف اور صرف سیف کے ہاں پائے جاتے ہیں ۔جب کہ حقیقی صحابی وہ ہے جس کی خبر ونام مختلف طریقوں اور متعدد اشخاص اور متعدد راویوں اور منابع کے ذریعہ ہمیں دستیاب ہوتے ہیں ۔اس سلسلے میں ہم ایک مثال پیش کرتے ہیں :

خالد بن ولید ایک ایسی شخصیت ہے جس کا نام اور روایت ایک راوی سے مختص نہیں ہے ، بلکہ جس کسی نے بھی پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت اور کردار پرکچھ لکھا ہے اس نے جنگ احد میں مشرکین پر تیر انداز ی کرنے والے ایک ماہر اور معروف تیر انداز کے عنوان سے خالد کانام لیا ہے اور اسے اس جنگ میں فوج کے ایک دستہ کے کمانڈر کی حیثیت سے یاد کیا ہے ۔

جس نے بھی صلح حدیبیہ کے بعد قریش کے بعض افراد کے اسلام قبو ل کرنے کے بارے میں کوئی مطلب بیان کیا ہے ،بیشک اس نے خالد کے اسلام قبول کرنے کا بھی ذکر کیاہے اور اس کانام لیاہے ۔

اور جس نے بنی خدیمہ کے واقعہ اور اس قبیلہ کی جنگ کے بارے میں کوئی بات کہی ہے ،اس نے ناگزیر اس جنگ کے سپہ سالار اور اس قبیلہ کے افراد کو قتل کرنے والے کی حیثیت سے خالد بن ولید کانام لیاہے۔

جس نے مالک نویرہ کے قتل کے درد ناک واقعہ کی روایت کی ہے، بے شک اس نے خالد بن ولید کا نام لیا ہے کہ کس طرح اس نے مالک کے قتل کا حکم صادر کیا اور اسی شب اس کی بیوی کے ساتھ ہمبستری کی!!

اور جس نے مسیلمۂ کذاب کے ساتھ مسلمانوں کی جنگ کے حالات لکھے ہیں ، بے شک اس نے اس جنگ کے سپہ سالار کی حیثیت سے خالد بن ولید کا نام لیا ہے۔

۳۸

جس نے بھی عراق و شام میں اسلامی فوج کی فتوحات کی تاریخ لکھی ہے، لازمی طور پر اس نے ان جنگوں کے سپہ سالار کی حیثیت سے خالد بن ولید کا نام لیا ہے .اور ان جنگوں میں اس کی مہارتوں کا ذکر کیا ہےان تمام اخبار کے علاوہ دیگر واقعات جو بہر صورت خالد بن ولید سے مربوط ہیں میں خالد بن ولید کا نام سیکڑوں روایات میں مختلف طریق و متعدد راویوں سے نقل ہوا ہے۔

خالد کا ذکر سیرت، حدیث اور طبقات کی ان تمام کتابوں میں آیا ہے جو سیف کے جھوٹ اور افسانوی باتوں سے کسی صورت میں آلودہ نہیں ہوئی ہیں ۔

اس طرح ہم اس صحابی کے بارے میں بحث و تحقیق شروع کرتے ہیں جس کا وجود مشکوک ہوتا ہے اور مذکورہ تمام مراحل کا جائزہ لینے کے بعد اپنی بحث کے آخر میں روایت کے اسناد اور سیف کے متن کو مد نظر رکھتے ہوئے نتیجہ کا اعلان کرتے ہیں

گزشتہ بحث کے پیش نظر اور اس کتاب کے مباحث کی طرف رجوع کرنے کے بعد اس میں کسی قسم کا شک و شبہہ باقی نہیں رہتا ہے کہ جن بعض اصحاب اور بہادروں کی طرف ہم نے اشارہ کیا وہ سب کے سب سیف بن عمر تمیمی کے خیالات کی تخلیق، جعلی اور افسانوی ہیں اور ان کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں ہے۔

لیکن یہی قطعی نتیجہ علمی بحث و تحقیق سے سرو کار نہ رکھنے والے لوگوں کے لئے تعجب اور ناقابل یقین بن گیا ہے۔

اور وہ مثال کے طور پر کہتے ہیں :

''کیا یہ ممکن ہے کہ سیف نے اتنے لوگوں کو جعل کیا ہوگا؟! اور اپنے تخیلات پر مبنی پوری ایک تاریخ لکھ ڈالے؟! انسان اتنے تخیلی افراد اور سور ماؤں کی تخلیق پر حیرت اور تعجب میں پڑجاتا ہے!!''

۳۹

ہم جواب میں کہتے ہیں :

اس میں کیا مشکل ہے ؟جبکہ آپ اس سے ملتی جلتی باتیں ''جرجی زیدان کی داستانوں '' ، ''مقامات حریری ''، ''عنترہ کی داستانوں '' ، ''ایک ہزار اور ایک شب'' اور '' کلیلہ و دمنہ'' جیسی ہزاروں ادبی اور حکمت کی داستانوں میں ہر زبان کے قصہ اور افسانے لکھنے والوں کے ہاں مشاہدہ کرتے ہیں کہ ان جادوئی قلم کے مالک مؤلفوں اور افسانہ نویسوں نے اپنے فکر و نظر کی بناء پر ایسے پر کشش اور دلچسپ افسانوں کے ہیرو اور شاہکار خلق کئے ہیں جو ہرگز وجود نہیں رکھتے تھے؟ کیا مشکل ہے اگر سیف بھی انہی افسانہ نویسوں جیسا ہو؟ اس میں کوئی حیرت اور تعجب نہیں ہے ، بلکہ تعجب اور حیرت کی بات یہ ہے کہ بعض مورخین نے سیف کے افسانوں پر اعتماد ، اور یقین کرکے ان کے مقابلے میں مسلّم حقائق بیہودہ جان کر انھیں ترک کیا ہے اور انہی افسانوں کو اپنی کتابوں میں درج کیا ہے!

وہ یہ کہتے ہیں :

یہ کیسے ممکن ہوسکا ہے کہ سیف کے یہ سب افسانے اور خیالی ہیرو بارہ صدیوں سے آج تک علماء اور دانشمندوں کی نظروں سے مخفی اور پوشید ہ رہے ہیں ؟

تو ہم جواب میں کہتے ہیں کہ:

ممکن ہے گزشتہ زمانے میں سیف کے افسانوں پر بحث و تحقیق کرنے کے وسائل موجود نہ ہوں ۔

اور خدائے تعالےٰ نے اس مشکل کو ہمارے ہاتھوں حل کرکے ہمیں یہ توفیق بخشی ہے کہ سیف کے جرائم پر سے پردے اٹھاکر علماء کیلئے راہ ہموار کریں ۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ:

یہ انتہائی بے ادبی اور بے انصافی ہے کہ شیخ طوسی جیسے دانشمند کی اس بناء پر عیب جوئی کی جائے کہ اس نے قعقاع جیسے صحابی کانام اپنی کتاب میں درج کیا ہے!

اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ:

علماء اور دانشوروں کا احترام کرنا ہرگز ان کے نظریات سے اتفاق کرنے پر منحصر نہیں ہے ۔

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

اس وقت تقریبا دس سال تھی لیکن اس قدر سمجھ دار اور زود فہم تھے کہ اچھائی اور برائی کو پوری طرح پہچان لیتے تھے آپ جانتے تھے کہ پیغمبراسلام(ص) سچ کہتے ہیں اور خدا کی طرف سے پیغمبر معيّن ہوئے ہیں _

جواب دیجئے

۱_ ہمارے پہلے امام کا کیا نام ہے کس نے انہیں امامت کیلئے معین کیا ہے؟

۲_ حضرت علی (ص) کس شہر میں متولد ہوئے اور کس مہینے اور کس دن پیدا ہوئے ؟

۳_ آپ کے والد اور والدہ کا کیا نام تھا اور پیغمبر کے ساتھ آپ کا کیا رشتہ تھا؟

۴_ آپ کیسے جوان تھے_ کیا بچوں کو اذیت دیتے تھے؟

۵_ حضرت علی (ص) کی کس نے تربیت کی اور آپ نے کس عمر میں اظہاراسلام کیا ؟

۶_ پہلا مسلمان مرد کون تھا؟

۷_ تمہاری تربیت کرنے والا کون ہے ؟

۸_ کیا تم حضرت علی (ع) کے صحیح پیروکارہو؟

۸۱

دوسرا سبق

یتیم نوازی

ایک دن حضرت علی علیہ السلام نے ایک عورت کو دیکھا کہ وہ پانی کی مشک کندھے پر اٹھائے گھر جارہی ہے _ عورت تک چکی تھی _ حضرت علی (ع) کو اس عورت پر رحم آیا اور اس سے مشک لے لی _ تا کہ اسے گھر تک پہنچا دیں _ آپ نے راستے میں اس عورت کے حالات دریافت کئے _ عورت نے کہا کہ میرا شوہر ملک کی حفاظت کے لئے سرحد پرگیا ہوا تھا اور وہاں قتل ہوگیا _ چند یتیم چھوڑ گیا ہے اور ان کے لئے مصارف نہیں ہیں _ میں مجبور ہوں کہ کام کروں _ حضرت علی علیہ السلام اس واقعہ سے بہت غمگین ہوئے _ اس عورت سے خداحافظ کہا اور اپنے گھر لوٹ آئے تمام رات غم وغصّہ میں کائی _ حضرت علی علیہ السلام نے صبح سویرے ایک زنبیل آٹے اور گوشت و خرما سے پرکی اور اٹھا کر اس عورت کے گھر کی طرف روانہ ہوئے _ دروازہ کھٹکٹایا اس کی اجازت سے گھر میں داخل ہوئے بچے بھوکے تھے ان کی ماں سے فرمایا کہ تم اٹا گوندھو اور روٹی پکاؤ میں بچوں کو بہلاتا ہوں _ حضرت علی علیہ السلام بچّوں کو بہلاتے رہے اور پیار کرتے رہے _ جب غذا تیار ہوگئی تو گوشت اور خرما لے کر بچوں کو کھلاتے اور فرماتے اے میرے پیارے بچو مجھے معاف کردو کہ مجھے تمہاری خبر نہ ہو سکی _ بچوں نے سیر ہوکر کھانا کھایا اور وہ خوش حال ہوگئے _ حضرت علی علیہ السلام نے ان کو خداحافظ کہا اور باہر

۸۲

نکل آئے _ اس کے بعد آپ وقتا ًفوقتاًان کے گھر جاتے اور ان کے لئے غذا لے جاتے تھے _

سوالات

۱_ حضرت علی (ع) نے عورت سے کیوں مشک لے لی ؟

۲_ اگر تم کسی دوست کو دیکھوکہ کسی چیز کیلئے جانے سے تھک گیا ہے تو کیا کروگے ؟

۳_ وہ عورت بچّوں کا خرچ کہاں سے پورا کرتی تھی؟ اس کا شوہر کہاں قتل ہوا تھا؟

۴_ حضرت علی (ع) کیوں غمگین ہوئے ؟

۵_ حضرت علی (ع) کون سی چیز ان بچوں کیلئے لے گئے تھے؟

۶_ جب تم کسی کے گھر یا کمرے میں داخل ہونا چاہو گے تو کیا کروگے ؟

۷_ آٹا کس نے گوندھا؟ بچّوں کو کس نے بہلایا؟

۸_ یتیموں کے منہ کس نے لقمے دیئے

۹_ یتیم بچوں کے ساتھ کیسا سلوک کرنا چاہیتے؟

۱۰_ کیا تم یتیم بچوں کے دیکھنے کے لئے جاتے ہو ، اور کیا انکیلئے ہدیہ کے کر جاتے ہو؟

یہ جملہ مکمل کیجئے

۱_ حضرت علی (ع) نے بچون کو اور کرتے رہے

۲_ جب غذا تیار ہوگئی تو گوشت اور خرما لیکر میں دیتے

۳_ اور فرماتے مجھے معاف کردو کہ ... نہ ہوسکی

۸۳

تیسرا سبق

حضرت علی (ع) بچون کو دوست رکھتے تھے

حضرت علی (ع) تمام بچوں کودوست رکھتے اوران سے محبت کرتے تھے بالخصوص یتیم بچوں پر بہت زیادہ مہربان تھے اپنے گھر ان کی دعوت کرتے اور انہیں منھائی اور شہد دیتے تھے آپ (ع) یتیم بچوں سے اس قدر پیار کرتے تھے کہ آپ (ص) کے ایک صحابی کہتے ہیں کہ کاش میں یتیم بچہ ہوتا _ تا کہ حضرت علی (ع) مجھ پر نوازشیں کرتے _

سوالات

۱_ حضرت علی (ع) کا رويّہ بچوں کے ساتھ کیسا تھا؟

۲_ یتیم بچوں کے ساتھ کیسا سلوک کرتے تھے؟

۳_ کیا تم نے آج تک کسی یتیم بچّے کو اپنے گھر دعوت دی ہے ؟

۴_ وہ صحابی کیوں کہتا تھا کہ کاش میں یتیم ہوتا ؟

۸۴

چوتھا سبق

کام او رسخاوت

حضرت علی علیہ السلام محنتی اور خوش سلیقہ انسان تھے _ زراعت اور باغ لگانے میں کوشاں رہتے تھے آپ نے کئی کھیت اور باغ آباد کئے اور سب کو راہ خدا میں خرچ کردیا _ آپ نے کچھ زمین مدینہ کے اطراف میں خریدی تا کہ اسے آباد کریں حضرت علی علیہ السلام نے اس زمین کے آباد کرنے کے لئے کنواں کھودنے کیلئے ایک مناسب جگہ تجویز کی اور خدا پر توکل کرتے ہوئے کنواں کھودنے میں مشغول ہوگئے _ کئی دن گذر گئے لیکن پانی تک نہ پہونچے _ مالی کہتا ہے کہ ایک دن حضرت علی علیہ السلام نے کلنگ اٹھایا اور کنویں کے اندر گئے کانی دیر تک کوشش کرتے رہے لیکن پانی نہ نکلا_ تھک کر کنوئیں سے باہر آئے _ پیشانی کا پسینہ ہاتھ سے صاف کیا اور کچھ دیر آرام کرنے کے بعد دوبارہ کنویں میں جا کھر کھودنے میں مشغول ہوگئے آپ اس طرح کلنگ مارتے تھے کہ آپ کی سانس کی آواز باہر تک سنائی دیتی تھی پھر بھی پانی تک نہ پہنچ پائے _ آپ نے ایک زبردست ضرب لگائی جس سے زمین میں شگاف پڑگیا اور پانی جوش مارکر نکل آیا _ حضرت علی (ع) جلدی سے کنوئیں سے باہر آئے بہت عجیب ساکنواں کھداتھا _ لوگ اسے دیکھنے اکٹھے ہوگئے ہر ایک کوئی نہ کوئی بات کہتا تھا_ ایک کہتا تھا علی علیہ السلام ایک محنتی اور خوش سلیقہ انسان ہیں _ دوسرا کہتا علی (ع) اور ان کی اولاد ثروت مند ہیں _ کوئی حسد کرتا تھا _ حضرت علی علیہ السلام نے مالی سے فرمایا ذرا قلم اور کاغذلے آؤ_ مالی قلم اور کاغذ لے آیا _ حضرت علی علیہ السلام ایک کنارے پر بیٹھ

۸۵

گئے اور یوں تحریر فرمایا:

بسم اللہ الرحمن الرحیم میں نے اس کنوئیں اور اس کے اطراف کی زمین کو وقف کردیا ہے کہ جس کی آمدنی کو ان مصارف میں خرچ کیا جائے

۱_ بے نوا اور درماندہ انسانوں پر

۲_ ان حضرات پر جو مسافرت میں تہی دست ہوگئے ہیں

۳_ یتیم لڑکوں اور لڑکیوں کی شادی پر

۴_ ان بیماروں پر جو فقیر ہوں

۵_ ایسے نیک کاموں پر کہ جن افادیت عمومی ہو

اس کنویں کو اللہ کی رضاء اور آخرت کے ثواب کے لئے وقف کرتا ہوں _ تا کہ جہنم کی آگ سے نجات پا سکوں

دستخط

علی(ع) ابن ابی طالب (ع)

جواب دیجئے

۱_ حضر ت علی (ع) نے کنویں اور اس کے اطراف کی زمین کی آمدنی کو کس کام کے لئے وقف قرار دیا ؟

۲_ کئی ایسے کام کہ جن کی افادیت عمومی ہو بتلایئے

۸۶

۳_ ایسے نیک کام جو تمہارے دوستوں کیلئے فائدہ مند ہوں اور تم اسے بجالا سکتے ہوں شمار کیجئے ؟

۴_ حضرت علی (ع) نے کس کنویں کو کیوں وقف کیا تھا؟

۵_ تم کون سے کام انجام دیتے ہو کہ جن کی وجہ سے جہنم کی آگ سے چھٹکارا حال کر سکو؟

۶_ اس واقعہ سے جو درس ملتا ہے وہ اپنے دوستوں کو بتلاؤ؟

۸۷

پہلا سبق

دوسرے امام حضرت امام حسن علیہ السلام

دوسرے امام حضرت امام حسن علیہ السلام ہیں _ آپ(ع) کے والد ماجد حضرت علی علیہ السلام ہیں اور والدہ ماجدہ دختر پیغمبر (ع) خدا حضرت فاطمہ زہرا (ع) ہیں _ پندرہ رمضان المبارک تیسری ہجری مدینہ منورہ میں آپ(ع) متولد ہوئے _ جناب رسول (ص) خدا امام حسن علیہ السلام کو بہت دوست رکھتے تھے اور ان کا احترام کرتے تھے آپ امام حسن علیہ السلام کو بوسہ لیتے تھے اور فرماتے تھے کہ میں حسن (ع) کو دوست رکھتا ہوں _ اور اس کے دوست کو بھی دوست رکھتا ہوں _ نیز فرماتے تھے کہ حسن (ع) اور حسین(ع) جوانان جنت کے سردار ہیں _ امام حسن (ع) بہت عالم و متقی تھے نماز اور عبادت میں مشغول رہتے تھے_ غریبوں اور بے نواؤں کو دوست رکھتے تھے اور ان کی مدد کرتے تھے _ خدا نے حضرت علی علیہ السلام کے بعد حضرت امام حسن علیہ السلام کولوگوں کے لئے امام معيّن فرمایا_ امام حسن علیہ السلام کے زمانے میں معاویہ شام کا حاکم تھا _ معاویہ ایک اچھا انسان نہ تھا وہ لوگوں کا امام بننا چاہتا تھا وہ کہا کرتا تھا کہ میں پیغمبر کا خلیفہ اور جانشین ہوں _ احکام اسلامی کو پامال کرتا تھا اور امام حسن علیہ السلام کی مخالفت کرتا تھا _ حضرت علی علیہ السلام اور اما م حسن علیہ السلام پر تبرا کرواتا تھا _ حضرت علی علیہ السلام کے دوستوں اور شیعوں سے دشمنی کرتا تھا اور ان میں سے بہتوں کو اسنے قید رکھا تھا اور کئی ایک کو قتل کردیا تھا _ امام حسن علیہ السلام اٹھائیس صفر پچاس

۸۸

ہجری میں زہر شہید کردیئےئے _ آپ کے جسم مبارک کو جنت البقیع میں دفن کیا گیا _

جواب دیجئے

۱_ حضرت امام حسن (ع) کس سال اور کس مہینے اور کس دن پیدا ہوئے ؟

۲_ آپ کے والد ماجد اور والد ہ ماجدہ کا کیا نام تھا؟

۳_ پیغمبر اسلام (ص) نے امام حسن (ع) کے حق میں کیا فرمایا؟

۴_ آپ غریبوں کے ساتھ کیسا سلوک کرتے تھے؟

۵_ کس نے امام حسن (ع) کو امامت کے لئے معيّن کیا اور کسکے حکم سے معيّن کیا ؟

۶_ معاویہ کیسا انسان تھا؟

۷_ امام حسن(ع) نے کس دن شہادت پائی؟

۸_ آپ کے جسم مبارک کو کہاں دفن کیا گیا ؟

۸۹

دوسرا سبق

خوش اخلاقی درگذری

ایک دن شام سے ایک آدمی آیا اس نے امام حسن علیہ السلام کو گلی میں دیکھا _ اور پہچان گیا لیکن نہ یہ کہ آپ(ع) کو سلام کیا بلکہ گالیاں دینا شروع کردیا اور جتنا اس سے ہوسکتا تھا آپ (ع) کی شان میں اس نے گستاخی کی امام حسن علیہ السلام نے اس کوئی جواب نہ دیا اور صبر کیا یہاں تک کہ وہ شامی خاموش ہوگیا _ اس وقت امام حسن علیہ السلام نے اس کو سلام کیا اور خندہ پیشانی سے اس کی احوال پرسی کی اور فرمایا کہ میرا گمان ہے کہ تم مسافر ہوا ور ہمارے حالات سے بے خبر ہو _ معاویہ کے پروپیگنڈے نے تجھے غلط فہمی میں مبتلا کر رکھا ہے _ جو کچھ تم نے میرے باپ(ع) کے حق میں کہا ہے وہ ٹھیک نہیں ہے چونکہ تیری نیت بری نہیں ہے اور تجھے دھوکا دیا گیا ہے لہذا میں نے تجھے معاف کردیا _ اگر تجھے کسی چیز کی ضرورت ہو تو میں تجھے دے دوں گا _ اگر محتاج ہو تو میں تیری احتیاج کو پورا کرنے کو تیارہوں اور اگر پناہ چاہتے ہو تو میں پناہ دینے کو تیار ہوں _ میں تم سے درخواست کرتا ہوں ، کہ میرے گھر آؤ اور میرے مہمان رہو _ جب اس مردنے آپ(ع) کا یہ اخلاق اور اپنی زیادتی دیکھی تو اپنی گفتگو پر نادم ہوا اور روکر کہنے لگا _ خدا بہتر جانتا ہے کہ کس شخص کو امام اور پیشوا قرار دے _ اے رسول (ص) خدا کے فرزند خدا کی قسم اب تک میرا خیال تھا کہ آپ(ع) اور آپ(ع) کے باپ بدترین انسان ہیں لیکن اب میں سمجھا ہوں کہ آپ

۹۰

روئے زمین پر تمام لوگوں سے بہتر ہیں اس کے بعد اس نے اپنا سامان امام حسن علیہ السلام کے گھر اتارا اور آپ کا مہمان ہوا_ بہت وقت نہیں گذراتھا کہ وہ اما م حسن علیہ السلام کا پیروکار اور وفادار شیعہ بن گیا : جانتے ہو کیوں؟

جواب دیجئے

۱_ وہ مرد اپنی گفتار سے کیوں شرمند ہ ہوا ...؟

۲_ جب کوئی نادانی کی وجہ سے تمہیں برا کہے تو تم کیا جواب دوگے؟

۳_ معاف کردینے کا کیا مطلب ہے کس وقت معاف کردینا چاہیئے ؟

۴_ اپنے دوستوں میں سے کسی دوست کے معاف کردینے کا نمونہ پیش کرو؟

۵_ اس واقعہ سے جو درس ملتا ہے اسے بیان کرو؟

۶_ اس واقعہ کا خلاصہ لکھو اور دوستوں کے لئے بیان کرو؟

۹۱

تیسرا سبق

امام حسن علیہ السلام کے مہمان

حضرت امام حسن علیہ السلام فقیروں سے محبت کرتے تھے اور ان پر مہربان رہتے تھے _ ایک روز آب گذررہے تھے کہ آپ نے دیکھا کئی فقیر زمین پر بیٹھے کھانا کھارہے ہیں _ ان کے پاس روٹیوں کے چند خشک ٹکڑے تھے_ انہوں نے جب امام حسن علیہ السلام کو دیکھا تو آپ کو اپنے ساتھ کھانے کی دعوت دی امام حسن علیہ السلام گھوڑے سے اترے اور ان کے ساتھ زمین پر بیٹھ گئے _ اس کے بعد آپ (ع) نے فرمایا کہ میں نے تمہاری دعوت قبول کرلی ہے _ اب میری خواہش ہے کہ تم سب میرے مہمان بنو اور میرے گھر آؤ_ انہوں نے امام حسن علیہ السلام کی دعوت قبول کی _ امام حسن علیہ السلام گھر تشریف لے گئے اور خدمت گاروں سے فرمایا میرے کچھ محترم مہمان آرہے ہیں ان کے لئے بہت اچھی غذا مہیا کرو_ وہ مہمان آپ کے گھر آئے اور امام حسن علیہ السلام نے احترام سے ان کا خیر مقدم کیا _

سوالات

۱_ امام حسن (ع) کے مہمان کون تھے

۹۲

۲_ امام حسن (ع) نے ان کیلئے کیسی غذا مہیا کی؟

۳_ امام حسن (ع) فقیروں اور محتاجوں کے ساتھ کیسا سلوک کرتے تھے؟

۴_ آپ کا فقراء اور محتاجوں کے ساتھ کیسا رویہ تھا؟

۵_ اس واقعہ سے کیا نتیجہ نکلتا ہے ؟

۶_ہم کس طرح امام حسن (ع) کی پیروی کریں؟

۹۳

پہلا سبق

تیسرے امام حضرت امام حسین علیہ السلام

امام حسین علیہ السلام امام حسن علیہ السلام کے چھوٹے بھائی ہیں _ آپ کے والد حضرت علی علیہ السلام اور والدہ جناب فاطمة الزہرا(ع) پیغمبر اسلام(ص) کی دختر ہیں _ آپ (ع) چوتھی ہجری تین شعبان کو مدینہ میں متولد ہوئے _ امام حسن علیہ السلام کے بعد آپ(ع) رہبری اور امامت کے منصب پر فائز ہوئے _ پیغمبر اسلام(ص) اما م حسین(ع) سے بہت محبت کرتے تھے آپ ان کا بوسہ لیتے تھے اور فرماتے تھے_ کہ حسین(ع) مجھ سے ہے اور میں حسین (ع) سے ہوں _ جو شخص حسین(ع) کو دوست رکھتا ہے خدا اسے دوست رکھتا ہے _ امام حسین علیہ السلام عالم اور متقی انسان تھے _ غریبوں ، مسکینوں اور یتیم بچوں کی خبرگیری کرتے تھے وہ بہت بہادر اور طاقتور تھے _ ذلّت کے سامنے نہیں جھکتے تھے _ ظالموں سے مقابلہ کرتے تھے سچے اور اچھے انسان تھے _ منافقت اور چاپلوسی کو برا سمجھتے تھے _

امام حسین (ع) فرماتے تھے:

میں راہ خدا میں شہادت کو نیک بختی اور ظالموں کے ساتھ زندہ رہنے کو ذلّت و بدبختی سمجھتا ہوں _

۹۴

دوسرا سبق

آزادی اور شہادت

امام حسین علیہ اللام صاحب ایمان اور پیکر عمل تھے _ رات کو خدا سے مناجات کرتے تھے اور دن کو کاروبار اور لوگوں کی راہنمائی فرماتے تھے _ ہمیشہ ناداروں کی فکر میں رہتے تھے اور ان سے میل میلاپ رکھتے تھے اور ان کی دلجوئی کرتے تھے _ لوگوں سے فرماتے تھے کہ غریبوں کے ساتھ بیٹھنے سے پرہیز نہ کیا کرو کیونکہ خداوند متکبروں کو دوست نہیں رکھتا جہاں تک ہوتا تھا غریبوں کی مدد کرتے تھے _ تاریک رات میں کھانے کا سامان کندھے پر اٹھا کرنا داروں کے گھر لے جاتے تھے _ امام حسین علیہ السلام کوشش کرتے تھے کہ غربت اور عدم مساوات کو ختم کردیں اور عدل و مساوات کو قائم کریں ، لوگوں کو خدا سے آشنا کریں _ امام حسین علیہ السلام کے زمانے میں ظالم یزید شام کی حکومت پر بیٹھا _ یزید جوٹے طریقے سے اپنے آپ کو پیغمبر(ص) کا خلیفہ اور جانشین بتلاتا تھا _ ملک کی آمدنی شراب نوشی اور قمار بازی اور عیاشی پر خرچ کرتا تھا_ بیت المال کی دولت اور ناداروں کے مال کو اپنی حکومت کے مستحکم کرنے پر خرچ کرتا تھا _ قرآن اور اسلام کے دستور کو پامال کرتا تھا جب یزید تخت پر بیٹھا تو اس نے خواہش کی کہ امام حسین علیہ السلام اس کی امامت اور ولایت کو تسلیم کرکے اس کی بیعت کریں _ لیکن امام حسین (ع) چونکہ اپنے آپ کو اسلام کا صحیح ولی اور رہبر سمجھتے تھے اس لئے آپ ایک ظالم کی رہبری کو کیسے تسلیم کرتے _ امام حسین علیہ السلام نے اس

۹۵

امر کی وضاحت شروع کردی اور لوگوں کو خبردار کیا اور فرمایا: کہ کیا نہیں دیکھ رہے ہو کہ حق پامال ہو رہا ہے اور باطل اور ظلم غلبہ پارہا ہے _ اس حالت میں مومن کو چاہیے کہ وہ شہادت کے لئے تیار ہوجائے _ اللہ کی راہ میں شہادت اور جان قربان کرنا فتح اور کامرانی ہے اور ظالموں کے ساتھ زندگی بسر کرنا سوائے ذلّت اور خواری کے اور کچھ نہیں ہے

اس دوران کوفہ کے لوگوں نے جو معاویہ اور یزید کے ظلم سے تنگ تھے امام حسین علیہ السلام کو کوفہ آنے کی دعوت دی چونکہ امام حسین علیہ السلام مقابلہ کا عزم بالجزم کر چکے تھے لہذا ان کی دعوت کو قبول کیا اور کوفہ کی طرف روانہ ہوئے _ لیکن یزید کے سپاہیوں نے کوفہ کے نزدیک آپ (ع) اور آپ(ع) کے با وفا ساتھیوں کا راستہ بندکردیا تا کہ آپ کو گرفتار کرکے یزیدکے پاس لے جائیں لیکن امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:

میں ہرگز ذلت و رسوائی کو قبول نہیں کروں گا _ موت کو ذلت سے بہتر سمجھتا ہوں اور اپنی شہادت تک اسلام اور مسلمانون کا دفاع کروں گا _ یزید کی فوج نے امام حسین علیہ السلام اور آپ کے اصحاب کا کربلا میں محاصرہ کرلیا _ امام (ع) اور آپ (ع) کے وفادار صحابیوں نے پائیداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہزاروں کے مقابلے میں جنگ کی اور آخر کار سب کے سب روز عاشورہ شہید ہوگئے _ امام حسین(ع) بھی شھید ہوگئے _ مگر جبر و استبداد کو تسلیم نہیں کیا اور باطل کے سامنے نہیں جھکے اسلام اور مسلمانوں کا دفاع کیا اپنے پاک خون سے اسلام اور قرآن کو خطرے سے نجات دلائی اور اس سے مسلمانوں کو آزادی اور دینداری کا درس دیا _ اب اسلام کی حفاظت اور دفاع کی ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے _ ہمیں غور کرنا چاہیے کہ ہم کس

۹۶

طرح اس ذمہ داری سے عہدہ برآہوسکتے ہیں _

سوالات

۱_ امام حسین (ع) غریبوں کے ساتھ بیٹھنے کے متعلق کیا فرماتے تھے؟

۲_ امام حسین (ع) کس مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے؟

۳_ یزید اسلامی مملکت کے خزانے کو کہاں خرچ کرہا تھا؟

۴_ یزید کا امام حسین (ع) سے کیا مطالبہ تھا؟

۵_ کیا امام حسین (ع) نے یزید کامطالبہ مان لیا تھا؟

۶_ مومن کس وقت شہادت کیلئے تیار ہوتا ہے؟

۷_ امام حسین(ع) اور آپ کے اصحاب کی نگاہ میں کامیابی کیا تھی اور ذلّت و خواری کیا تھی؟

۸_ یزید کی فوج نے امام حسین (ع) کا راستہ کیوں بند کردیا تھا؟

۹_ کیا امام حسین(ع) نے یزید کی خلافت کو تسلیم کرلیا تھا؟

۱۰_ امام حسین (ع) نے ہمیں اور تمام انسانوں کو کس طرح آزادی کا درس دیا ؟

۱۱_ امام حسین (ع) اور آپ کے اصحاب نے اسلام کو کیسے خطرے سے نجات دلوائی ؟

۱۲_ اب جب کہ دین اور قرآن کی حفاظت کی ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے تو ہمارا فرض کیا ہے ؟

۹۷

تیسرا سبق

دستگیری اور مدد کرنا

پیغمبر(ص) اسلام کے صحابہ میں سے ایک عمر رسیدہ صحابی بیمار ہوگیا _ امام حسین(ع) اس کی عیادت کے لئے گئے دیکھا کہ وہ بہت غمگین ہے اور بہت بے چینی سے گریہ و زاری کررہا ہے امام حسین علیہ السلام کو اس پر ترس آیا آپ نے پوچھا بھائی کیوں غمگین ہو مجھے وجہ بتاؤ تا کہ میں تیرے غم کو دور کردوں _ اس بیمار نے کہا کہ میں لوگوں کا بہت مقروض ہوں اور میرے پاس کچھ بھی نہیں کہ قرض ادا کر سکوں میں اس لئے روتا ہوں کہ قرض کے بوجھ تلے دبا ہوا ہوں _ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا بھائی غم نہ کرو میں ضامن بنتا ہوں کہ تیرا قرضہ ادا کروں گا اس مسلمان بیمار نے کہا میرا دل چاہتا ہے کہ مرتے وقت کسی کا مقروض نہ رہوں _ مجھے خوف ہے کہ قبل اس کے کہ آپ (ص) میرا قرضہ ادا فرمائیں مجھے موت آجائے اور میں مقروض ہی مرجاؤں _ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا بے چین نہ ہو مجھے امید ہے کہ تیرے مرنے سے پہلے تیرا قرضہ ادا کردوں گا _ امام حسین علیہ السلام نے اس کو خدا حافظ کہا _ اور وہاں سے باہر چلے آئے اور فوراً روپیہ مہیا کرکے اس کا قرضہ ادا کیا اور اسے اطلاع دی کہ خوشحال ہو جا کہ تیرا قرضہ ادا کردیا گیا ہے _ وہ بیمار خوشحال ہوگیا اور خدا بھی اس مدد اور دستگیری سے بہت خوش ہوا _ ہماری پیغمبر (ص) نے فرمایا ہے کہ جو شخص کسی مومن کو خوشحال کرتا ہے گویا اس نے مجھے خوشحال کیا _ اور جو مجھے خوش کرتا ہے وہ اللہ کی خوشنودی حاصل کرتا ہے _

۹۸

جواب دیجئے

۱_ کیا تم بیمار دوست کی عیادت کیلئے جاتے ہو؟

۲_ امام حسین(ع) نے اس بیمار سے کیا پوچھا؟ اس بیمار نے جواب میں کیا کہا؟

۳_ امام حسین(ع) نے اس بیمار کی بے چینی کو کس طرح دور کیا ؟

۴_ آیا تم کسی کے مقروض ہوکیا اچھا نہیں کہ اپنے قرض کو جلدی ادا کردو؟

۵_ کیا آج تم نے کسی مسلمان کو خوش کیا ہے؟ اور کس طرح؟

۶_ ہمارے پیغمبر(ص) نے کسی مومن کو خوش کرنے کے متعلق کیا فرمایاہے؟

۹۹

پہلا سبق

چوتھے امام حضرت امام زین العابدین (ع)

آپ (ع) کا نام علی(ع) علیہ السلام ، اور لقب سجاد ہے _آپ اڑتیس ہجری پندرہ جمادی الثانی کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے _ آپ کے والد امام حسین علیہ السلام اور والدہ ماجدہ شہر بانو تھیں _ امام حسین علیہ السلام نے آپ کو اللہ کے حکم کے مطابق اپنے بعد امامت کے لئے معین فرمایا _ امام سجاد علیہ السلام کربلا میں موجود تھے لیکن عاشورہ کے دن بیمار تھے اس لئے آپ (ع) یزید کی فوج سے جنگ نہیں کر سکتے تھے اسی وجہ سے آپ شہید نہیں ہوئے _ کربلا سے آپ(ع) کو نبی(ع) زادیوں کے ساتھ گرفتار کرکے کوفہ اور شام لے جایا گیا _ جہاں آپ(ع) نے خطبہ دیا اور اپنے والد کے مشن کو لوگوں کے سامنے بیان فرمایا اور ظالم یزید کو ذلیل و رسواکیا _ امام سجاد(ع) علیہ السلام کو یہ بات بہت پسند تھی کہ یتیم بچے اور نابینا اور غریب لوگ آپ(ع) کے مہمان ہوں _ بہت سے غریب گھرانوں کو خوراک اور پوشاک دیا کرتے تھے _ حضرت سجاد علیہ السلام اللہ تعالی کی اتنی عبادت کیا کرتے تھے کہ آپ (ع) کو زین العابدین یعنی عبادت گذاروں کی زینت اور سجاد یعنی بہت زیادہ سجدہ کرنے والے کا نام دیا گیا _ ستاون''۵۷'' سال زندہ رہے اور پچیس''۲۵'' محرم پچانوے ہجری کو مدینہ منورہ میں شہید کردیئےئے _ آپ کے جسم مبارک کو جنت البقیع میں دفن کیا گیا _

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156