‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) جلد ۲

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) 0%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 285

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم)

مؤلف: ‏آیة الله ابراهیم امینی
زمرہ جات:

صفحے: 285
مشاہدے: 95388
ڈاؤنلوڈ: 2477


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 285 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 95388 / ڈاؤنلوڈ: 2477
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) جلد 2

مؤلف:
اردو

گواہ بھی رکھتے ہو کوئی معجزہ ہے تمہارے پاس؟

حضرت موسی علیہ السلام نے فرمایا ہاں اس وقت آپ نے اپنا عصا فرعون کے سامنے ڈالا فرعون اور فرعونیوں نے اچانک اپنے سامنے ایک بپھرا ہوا سانپ دیکھا کہ ان کی طرف آرہا ہے فریاد کرنے لگے حضرت موسی علیہ السلام جھکے اور اس بپھرے ہوئے سانپ کو پکڑ لیا اور وہ دوبارہ عصا ہوگیا حضرت موسی علیہ السلام سے انہوں نے مہلت مانگی_

آخری فیصلہ

حضرت موسی علیہ السلام بہت کوشش کے باوجود فرعون اور فرعونیوں کے ایمان لانے سے نا امید ہوگئے اور اللہ کے حکم سے آخری فیصلہ کیا کہ جیسے بھی ہو بنی اسرائیل کو فرعون اور فرعونیوں کے ظلم و ستم سے نجات دلائیں اور پھر بنی اسرائیل کو خفیہ طور پر حکم دیا کہ اپنے اموال کو جمع کریں اور بھاگ جائیں بنی اسرائیل ایک تاریک رات میں حضرت موسی (ع) کے ساتھ مصر سے بھاگ گئے صبح اس کی خبر فرعون کو ملی وہ غضبناک ہوا اور ایک بہت بڑا لشکر بنی اسرائیل کے پیچھے بھیجا تا کہ انہیں گرفتار کر کے تمام کو قتل اور نیست و نابود کردے بنی اسرائیل نے حضرت موسی علیہ السلام کے حکم سے ایک راستہ اختیار کیا اور جلدی سے آگے بڑھنے لگے چلتے چلتے دریا تک پہنچ گئے جب انہوں نے راستہ بند

۱۰۱

دیکھا کہ آگے دریا ہے اور پیچھے فرعون کا لشکر، تو بہت پریشان ہوئے اور حضرت موسی علیہ السلام پر اعتراض کرنے لگے ہمیں کیوں اس دن کے لئے لے آئے ہو کیوں ہمیں مصر سے باہر نکالا ہے ابھی فرعون کا لشکر پہنچ جائے گا او رہمیں قتل کردے گا چوں کہ حضرت موسی کو اللہ تعالی کے حکم پر مکمل یقین تھا اس لئے فرمایا ہمیں کوئی قتل نہیں کرے گا خدا ہمارے ساتھ ہے ہماری رہنمائی کرے گا اور نجات دے گا_

فرعون کا لشکر بہت نزدیک پہنچ گیا تھا اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام پر وحی کی کہ اے موسی (ع) اپنے عصا کو دریا پر مارو حضرت موسی علیہ السلام نے اللہ تعالی کے حکم سے اپنا عصا بلند کیا اور پانی پر مارا اللہ کے حکم سے پانی دو پاٹ ہوگیا اور دریا کی تہہ ظاہر ہوگئی بنی اسرائیل خوشی خوشی دریا میں داخل ہوگئے اور اس کی تھوڑی دیر بعد فرعون اور اس کا لشکر بھی آپہنچا بہت زیادہ تعجب سے دیکھا کہ اولاد یعفوب زمین پر جا رہی ہے تھوڑی دیر دریا کے کنارے ٹھہرے اور اس عجیب منظر کو دیکھتے رہے پھر وہ بھی دریا میں داخل ہوگئے_

جب بنی اسرائیل کا آخری فرد دریا سے نکل رہا تھا تو فرعون کی فوج دریا میں داخل ہوچکی تھی دونوں طرف کا پانی بہت مہیب آواز سے ایک دوسرے پر پڑا اور فرعون اور اس کے پیروکار دریا میں ڈوب گئے اور دریا نے اللہ تعالی کے فرمان کے مطابق تمام سرکشی اور ظلم کا خاتمہ کردیا وہ اپنے پروردگار کی طرف لوٹ گئے تا کہ آخرت میں اپنے ظلم و ستم کی سزا پائیں اور اپنے برے اعمال کی وجہ سے عذاب میںمبتلا کر

۱۰۲

دیئےائیں ''ظالموں کا انجام یہی ہوتا ہے''

حضرت موسی (ع) اور تمام پیغمبر خدا کی طر ف سے آئے ہیں تا کہ لوگوں کو خدائے وحدہ، لاشریک کی طرف دعوت دیں اور آخرت سے آگاہ کریں پیغمبر لوگوں کی آزادی اور عدالت کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور ظلم و ستم کا مقابلہ کرتے ہیں_

سوالات

۱)___ حضرت موسی (ع) کا آخری فیصلہ کیا تھا؟

۲)___ اولاد یعقوب نے کیوں حضرت موسی (ع) پر اعتراض کیا تھا اور کیا کہا تھا؟ اور کیا ان کا اعتراض درست تھا؟

۳)___ کیا حضرت موسی (ع) بھی اولاد یعقوب کی طرح پریشان ہوئے تھے؟

۴)___ حضرت موسی (ع) نے اولاد یعقوب (ع) کے اعتراض کے جواب میں کیا کہا تھا؟

۵)___ سمندر کس کے ارادے اور کس کی قدرت سے دوپاٹ ہوگیا تھا اور کس کے حکم اور قدرت سے دوبارہ مل گیا تھا دنیا کا مالک اور اس کا انتظام کس کے ہاتھ میں ہے؟

۶)___ فرعون اور اس کے پیروکار کس کی طرف گئے اور آخرت میں کس طرح زندگی بسر کریں گے؟

۱۰۳

۷)___ حضرت موسی علیہ السلام اور دوسرے پیغمبروں کی غرض اور ہدف کیا تھا؟

۸)___ اس غرض او رہدف پر آپ کس طرح عمل کریں گے؟

۱۰۴

گیارہواں سبق

پیغمبر اسلام (ص) قریش کے قافلے میں

حضرت محمدمصطفی (ص) آٹھ سال کے بچّے ہی تھے کہ آپ(ص) کے دادا جناب عبدالمطلب (ع) دنیا سے رخصت ہوگئے جناب عبدالمطلب نے اپنی وفات کے وقت اپنے بیٹے جناب ابوطالب (ع) سے وصیت کی کہ پیغمبر اسلام(ص) کی حفاظت اور حمایت کریں اور ان سے کہا کہ محمد(ص) یتیم ہے یہ اپنے ماں باپ کی نعمت سے محروم ہے اسے تمہراے سپرد کرتا ہوں تا کہ تم اس کی خوب حفاظت اور حمایت کرو اس کا مستقبل روشن ہے اور یہ بہت بڑے مقام پر پہنچے گا_

حضرت ابوطالب (ع) نے اپنے باپ کی وصیت کو قبول کیا اور پیغمبر اسلام(ص) کی سرپرستی اپنے ذمہ لے لی اور مہربان باپ کی طرح آپ(ص) کی حفاظت کرتے رہے_ پیغمبر اسلام (ص) تقریباً بارہ سال کے تھے کہ

۱۰۵

اپنے چچا جناب ابوطالب (ع) کے ساتھ قریش کے تجارتی قافلہ کے ساتھ شام کا سفر کیا یہ سفر بارہ سال کے لڑکے جناب مصطفی (ص) کے لئے بہت مشکل اور دشوار تھا لیکن قدرتی مناظر پہاڑوں اور بیابانوں کا دیکھنا راستے کی سختی اور سفر کی تھکان کو کم کر رہا تھا آپ(ص) کے لئے وسیع بیابانوں اور اونچے اونچے شہروں اور دیہاتوں کا دیکھنا لذت بخش تھا_

کاروان بصرہ شہر کے نزدیک پہنچا وہاں قدیم زمانے سے ایک عبادت گاہ بنائی گئی تھی اور ہمیشہ عیسائی علماء میں سے کوئی ایک عالم اس عبادت گاہ میں عبادت میں مشغول رہتا تھا کیوں کہ حضرت عیسی اور دوسرے سابقہ انبیاء نے آخری پیغمبر (ص) کے آنے اور ان کی مخصوص علامتوں اور نشانیوں کی خبر دی تھی اس عبادتگاہ کا نام دیر تھا اس زمانے میں بحیرانا می پادری اس دیر میں رہتا تھا اور اس میں عبادت کرتا تھا_

جب قریش کا قافلہ دور سے کھائی دیا تو بحیرا دیر سے باہر آیا اور ایک تعجب انگیز چیز دیکھی قافلے نے آرام کرنے کے لئے اپنا سامان وہاں اتارا کا رواں والوں نے ادھر ادھر آگ جلائی اور کھانا پکانے میں مشغول ہوگئے بحیرا بڑی دقیق نگاہ سے کاروان کے افراد کو دیکھ رہا تھا_ تعجب انگیز چیز نے اس کی توجّہ کو مکمل جذب کرلیا تھا_ سابقہ روش کے خلاف کہ وہ کبھی بھی کسی قافلے کی پرواہ نہیں کرتا تھا اس دفعہ قافلہ والوں کی دعوت کی جب قافلے والے دیر میں داخل ہو رہے تھے تو وہ ہر ایک کو خوش آمدید کہہ رہا تھا اور غور سے ہر ایک کے چہرے کو دیکھتا تھا کہ گویا کسی گم شدہ کی تلاش میں ہے اچانک بلند آواز سے کہا بیٹا آگے آو تا کہ میں

۱۰۶

تجھے اچھی طرح دیکھ سکوں، آگے آؤ آگے آؤ، چھوٹے بچے نے اس کی توجّہ کو اپنی طرف مبذول کرلیا اسے اپنے سامنے کھڑا کیا اور جھکا اپنا ہاتھ اس کے کندھے پر رکھا اور کافی دیر تک نزدیک سے آپ(ص) کے چہرے کو دیکھتا رہا، آپ(ص) کا نام پوچھا تو کہا گیا، محمد(ص) کافی دیر خاموش کھڑا رہا اور ترچھی آنکھوں سے آپ(ص) کو بار بار دیکھتا رہا اس کے بعد بہت احترا سے جناب محمد مصطفی (ص) کے سامنے بیٹھا اور آپ کا ہاتھ پکڑا اور کئی ایک سوال کئے اچھی طرح تحقیق اور جستجو کی آپ(ص) کے چچا سے بات کی اور دوسروں سے بھی کئی ایک سوال کئے، اس نے اپنی گمشدہ چیز کو حاصل کرلیا تھا وہ بہت خوش دکھائی دیتا تھا

ابوطالب (ع) کی طرف متوجہ ہوا اور کہا یہ بچّہ روشن مستقبل رکھتا ہے اور بہت بڑے رتبے پر پہنچے گا یہ بچّہ وہی پیغمبر (ص) ہے جس کی سابقہ انبیاء نے آنے کی خبر دی ہے میں نے کتابوں میں اس کی نشانیاں پڑھی ہیں اور یہ اللہ کا آخری پیغمبر ہے بہت جلد پیغمبری کے لئے مبعوث ہوگا اور اس کا دین تمام عالم پر پھیل جائے گا اس بچّے کی قدر کرنا اور اس کی حفاظت اور نگہداشت میں احتیاط کرنا_

قافلہ والوں نے آرام کرنے کے بعد اپنے اسباب کو باندھا اور وہ چل پڑے بحیرا دیر کے باہر کھڑا تھا اور جناب محمد مصطفی (ص) کو دیکھ رہا تھا اور اشک بہا رہا تھا تھوڑی دیر بعد قافلہ آنکھوں سے غائب ہوگیا بحیرا اپنے کمرے میں واپس لوٹا اور اکیلے بیٹھے غور و فکر میں ڈوب گیا_

۱۰۷

سوالات

۱)___ جناب ابوطالب (ع) کا حضرت محمد مصطفی (ص) سے کیا رشتہ تھا اور جناب عبدالمطلب (ع) کے بعد کون سی ذمہ داری انہوں نے سنبھالی تھی؟

۲)___ جناب عبدالمطلب(ع) نے وفات کے وقت اپنے بیٹے ابوطالب (ع) سے کیا کہا؟ اور ان سے کیا وصیت کی؟

۳)__ _ بحیرا کس کا منتظر تھا؟ کس شخص کو دیکھنا چاہتا تھا؟ کہاں سے وہ آپ(ص) کو پہچانتا تھا؟

۴)___ بحیرا نے قافلے کی کیوں دعوت کی؟

۵)___ بحیرا پیغمبر اسلام(ص) کو کیوں دوست رکھتا تھا جب وہ تنہا ہوا تو کیا فکر کر رہا تھا؟

۱۰۸

بارہواں سبق

مظلوموں کی حمایت کا معاہدہ

ایک دن قریش کے سردار مسجد الحرام میں اکٹھے تھے اتنے میں ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا اور فریاد کی اے لوگو اے جوانو، اے سردارو، تمام چپ ہوگئے تا کہ اس مسافر کی بات کو اچھی طرح سن سکیں اس نے کہا_ اے مكّہ کے لوگو کیاتم میں کوئی جواں مرد نہیں؟ کیوں میری فریاد کو کوئی بھی نہیں آتا؟ کیوں کوئی میری مدد نہیں کرتا_

میں دور سے تمہارے شہر مین جنس لایا ہوں تا کہ اسے فروخت کر کے اس کے پیسے سے اپنے خاندان کی زندگی کے وسائل اور خوراک مہيّا کروں میری اولاد میرے انتظار میں ہے تا کہ ان کے لئے لباس اور خوراک لے جاؤں کل تمہارے سرداروں میں سے ایک کی اولاد نے مجھ سے نجس خریدی میں نے جنس اس کے گھر لے جا کر اس کی تحویل میں دی

۱۰۹

جب جنس کے پیسے کا مطالبہ کیا تو اس نے جواب دیا چپ رہو اور بات نہ کرو_

میں اس شہر کے سرداورں میں سے ہوں اگر تو چاہتا ہے کہ اس شہر میں آمد و رفت رکھے اور امن سے رہے تو مجھ سے اس کے پیسے نہ لے میں نے جب اصرار کیا تو اس نے مجھے گالیاں دیں اور مارا پیٹا کیا یہ درست ہے کہ طاقتور کمزورں کا حق پائمال کرے_ کیا یہ درست ہے کہ ایک طاقتور آدمی میری محنت کی حاصل کردہ کمائی کو لے لے اور میری اولاد کو بھوکا رکھے میری فریاد رسی کوئی نہیں کرتا؟

کسی میں جرات نہ تھی کہ اس مسافر کی مدد کرسکے کیونکہ طاقتور اسے بھی مارتے پیٹے تھے اور اس زمانے میں مكّہ کسی حکومت کے ماتحت بھی نہ تھا بلکہ ہر ایک اپنے قبیلے کی حمایت اور دفاع کیا کرتا تھا لہذا مسافروں کی حفاظت کرنے والا کوئی نہ تھا ظالم اور طاقتور ان پر ظلم کرتے اور ان کے حق کو پامال کیا کرتے تھے_

اس قریش کے اجتماع میں سے پیغمبر اسلام (ص) کے چچا زبیر اٹھے اور اس مظلوم کی بات کی حمایت کی اور کہا کہ ہمیں مظلوموں کے لئے کوئی فکر کرنی چاہیئے اور ان کی مدد کے لئے کھڑا ہونا چاہیے ہر آدمی اس حالت سے بیزار ہے اور چاہتا ہے کہ کمزور اور بے سہارا لوگوں کی مدد کرے آج عصر کے وقت عبداللہ کے گھر اکھٹے ہوں_

اس دن وقت عصر لوگوں کا ایک گروہ جو انصاف پسند اور سمجھدار تھے عبداللہ کے گھر اکٹھے ہوگئے انہوں نے طاقتوروں کے ظلم کے

۱۱۰

بارے میں بات چیت کی او رظلم و ستم کے روکنے کے لئے ایک معاہدہ طے کیا تا کہ ایک دوسرے کی مدد سے کمزور اور بے سہارا لوگوں کی حمایت کریں معاہدہ لکھا گیا اور تمام نے دستخط کئے اس کے بعد تمام کے تمام اس طاقتور سردار کے گھر گئے اور اس سے اس مسافر کی جنس کی قیمت وصول کی اور اسے دے دی وہ آدمی خوشحال ہوگیا اور اپنے اہل و عیال کے لئے لباس اور خوراک خریدی اور اپنے گھر واپس لوٹ گیا ہمارے پیغمبر اسلام(ص) ان افراد میں سے ایک موثر اور فعال رکن تھے کہ جنہوں نے وہ معاہدہ طے کیاتھا اور آخر عمر تک اس معاہدے کے وفادار رہے پیغمبر اسلام (ص) اس معاہدے کی تعریف کیا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ میں نے مظلوموں کی حمایت کے معاہدے میں شرکت کی تھی اور جب تک زندہ ہوں گا اس کا وفادار رہوں گے بہت قیمتی اور روزنی معاہدہ تھا میں اسے بہت دوست رکھتا ہوں اور اس معاہدہ کی اہمیت کو مال و زر سے زیادہ قیمتی جانتا ہوں اور اس معاہدے کو وسیع و عریض میدان سے پر قیمتی اونٹوں کے عوض بھی توڑنے کے لئے تیار نہیں ہوں ہمارے پیغمبر اس وقت بیس سال کے جوان تھے اور ابھی تک اعلان رسالت نہیں کیا تھا_

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ مظلوموں کی حمایت کا معاہدہ کس کی تحریک پر تشکیل پایا

۲)___ اس سردار زادہ نے کون سا ظلم کیا تھا جنس کے فروخت

۱۱۱

کرنے والے نے اپنا روپیہ وصول کرنے کے لئے کیا طریقہ اختیار کیا؟

۳)___ طاقت کا کیا مطلب ہے اگر کوئی آپ پر ظلم کرے تو آپ کیا کریں گے کوئی مثال یاد ہو تو بیان کریں؟

۴)___ کبھی آپ نے کسی مظلوم کی حمایت کی ہے؟

۵)___ ہمارے پیغمبر اسلام(ص) کی عمر اس وقت کتنی تھی اور اس معاہدے کے متعلق کیا فرمایا کرتے تھے؟

۶)___ اگر کسی بچّے پر ظلم ہوتے دیکھیں تو آپ کیا کریں گے اور کس طرح اس کی مدد کریں گے؟

۷)___ اگر دیکھیں کہ بچّے کسی حیوان کو تکلیف دے رہے ہیں تو کیا کریں گے اور اس حیوان کی کس طرح مدد کریں گے؟

۹)___ اس واقعہ سے کیا درس ملتا ہے ہم پیغمبر اسلام (ص) کی کس طرح پیروی کریں؟

۱۱۲

تیرہواں سبق

پیغمبر اسلام (ص) کی بعثت

شہر مكّہ کے نزدیک ایک بلند اور خوبصورت پہاڑ ہے جس کا نام حراء ہے حراء میں ایک چھوٹا غار ہے جو اس بلند پہاڑ کی چوٹی پر واقع ہے_

پیغمبر اسلام(ص) اعلان رسالت سے قبل کبھی کبھی اس غار میں جاتے تھے اور اس پر سکون جگہ پر خلوت میں عبادت اور غور و فکر کیا کرتے تھے رات کو غار کے نزدیک ایک چٹان پر کھڑے ہوجاتے اور بہت دیر تک مكّہ کے صاف آسمان اور خوبصورت ستاروں کے جھر مٹ کو دیکھتے رہتے اور ان مخلوقات کی عظمت و جلالت کا تماشا کیا کرتے اس کے بعد غار میں جاتے اور اس وسیع کائنات کے خالق کے ساتھ راز و نیاز کیا کرتے تھے اور کہتے تھے پروردگارا اس وسیع کائنات اور سورج اور خوبصورت ستاروں کو تونے بلاوجہ پیدا نہیں کیا ان کی خلقت سے کسی غرض و غایت

۱۱۳

کو نظر میں رکھا ہے_

ایک دن بہت سہانا سحری کا وقت تھا پیغمبر اسلام (ص) اس غار میں عبادت کر رہے تھے کہ پیغمبر کی عظمت کو اپنے تمام کمال کے ساتھ مشاہدہ کیا اللہ کا فرشتہ جبرائیل آپ(ص) کی خدمت میںحاضر ہوئے اور کہا

اے محمد(ص) آپ(ص) اللہ کے پیغمبر (ص) ہیں میرے اللہ نے حکم دیا ہے کہ لوگوں کو شرک اور بت پرستی اور ذلت و خواری سے نجات دیں اور ان کو آزادی اور خداپرستی کی عظمت او رتوحید کی دعوت دیں اے محمد(ص) آپ(ص) خدا کے پیغمبر ہیں لوگوں کودین اسلام کی طرف بلائیں_

حضرت محمد مصطفی (ص) نے جناب جبرائیل کو دیکھا او رجو اللہ تعالی کی طرف سے پیغام آیا تھا اسے قبول کیا_

اس کے بعد ایمان سے لبریز دل کے ساتھ کو ہ حراء سے نیچے اترے او راپنے گھر روانہ ہوئے آپ کی شفیق اور مہربان بیوی جناب خدیجہ (ص) خندہ پیشانی سے آپ(ص) کے نورانی اور ہشّاش بشّاش چہرے کو دیکھ کر خوشحال ہوگئیں حضرت محمد مصطفی (ص) خدا کے پیغمبر ہوچکے تھے اپنی رفیقہ حیات سے فرمایا

میں کوہ حراء پر تھا وہاں خدا کا عظیم فرشتہ جبرائیل کو دیکھا ہے کہ وہ آسمانی صدا میں مجھ سے کہہ رہے تھے اے محمد(ص) تو اللہ کا پیغمبر ہے اللہ نے تجھے حکم دیا ہے کہ لوگوں کو شرک اور بت پرستی اور ذلت و خواری سے نجات دے اوران کو آزادی اور یگانہ پرستی اور توحید کی دعوت دے_

۱۱۴

جناب خدیجہ سلام اللہ علیہا نے اپنے سچے اور امین شوہر سے کہا مجھے اس سے پہلے علم تھا کہ آپ(ص) اللہ تعالی کے پیغمبر ہیں اور میں اس عظیم دن کے انتظار میں تھی حضرت عیسی علیہ السلام نے آپ(ص) کی پیغمبری کی بشارت دی ہے ٹھیک ہے اللہ تعالی نے آپ کے ذمّہ بہت اہم ذمّہ داری دی ہے میں اللہ تعالی کی وحدانیت کی گواہی دیتی ہوں اور آپ(ص) کی پیغمبری پر ایمان لاتی ہوں اور تمام حالات میں آپ(ص) کی مددگار اور حامی رہوں گی

حضرت علی (ع) جو ایک ذہین نوجوان تھے انہوں نے پیغمبر اسلام(ص) کی پیغمبری پر ایمان کا اظہار کیا اور یہ پہلے شخص تھے کہ جنہوں نے اسلام اور ایمان کا اظہار کیا_ ایک مدّت تک مسلمانوں کی تعداد ان تین افراد سے زیادہ نہ تھی لیکن ان تینوں افراد نے جو بلند ہمّت اور آہنی ارادے کے مالک تھے پورے بت پرستی اور بے دینی کے ماحول سے مقابلہ کیا ابتدائی دور میں صرف یہی تینوں افراد نماز کے لئے کھڑے ہوتے اور لوگوں کی حیرت زدہ آنکھوں کے سامنے خدائے وحدہ لا شریک سے گفتگو اور راز و نیاز کیا کرتے تھے_

ایک شخص کہتا ہے کہ ایک دن میں مسجد الحرام میں بیٹھا تھا میں نے دیکھا کہ ایک خوبصورت انسان مسجد میں وارد ہوا اس نے آسمان کی طرف نگاہ کی اور کھڑا ہوگیا ایک نوجوان اس کے دائیں طرف کھڑا ہوگیا اور اس کے بعد ایک عورت آئی اور اس کی پشت پر کھڑی ہوگئی کچھ دیر کھڑے رہے اور کچھ کلمات کہتے

۱۱۵

رہے اس کے بعد جھکے اور پھر کھڑے ہوگئے اور پھر بیٹھ گئے اور اپنے سرزمین کی طرف نیچے کئے رہے میں نے بہت تعجب کیا اور اپنے پہلو میں بیٹھے ہوئے شخص سے پوچھا، عباس، یہ کون ہیں؟ اور کیا کر رہے ہیں_

عباس نے کہا کہ وہ خوبصورت انسان جو آگے کھڑا ہے محمد(ص) میرے بھائی کا لڑکا ہے وہ عورت خدیجہ (ص) اس کی باوفا بیوی ہے اور وہ نوجوان علی (ع) ہیں جو میرے دوسرے بھائی کا لڑکا ہے محمد(ص) کہتا ہے کہ خدا نے اسے پیغمبری کے لئے چنا ہے یہ عورت اور وہ نوجوان اس پر ایمان لے آئے ہیں اور اس کے دین کو قبول کرلیا ہے ان تین آدمیوں کے علاوہ اس کے دین پر اور کوئی نہیں ہے محمد کہتا ہے کہ دین اسلام تمام جہان کے لوگوں کے لئے ہے اور بہت جلدی لوگ اس دین کو قبول کرلیں گے اور بہت سارے لوگ مسلمان ہوجائیں گے ہمارے پیغمبر اسلام(ص) ستائس رجب کو پیغمبری کے لئے مبعوث ہوئے اس دن کو مبعث کا دن کہا جاتا ہے ہمارے پیغمبر اسلام(ص) کی عمر اس وقت چالیس سال کی تھی_

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ ہمارے پیغمبر اسلام(ص) مبعوث ہونے سے پہلے عبادت اورغور و فکر کے لئے کہاں جایا کرتے تھے؟ اور کن چیزوں کو دیکھا کرتے تھے اور خدا سے کیا کہا کرتے تھے؟

۱۱۶

۲)___ کبھی آپ نے ستاروں سے پرے آسمان کو دیکھا ہے اور پھر کیا غور فکر کیا ہے؟

۳)___ جو فرشتہ پیغمبر اسلام(ص) کے لئے پیغام لایا تھا اس کا کیا نام تھا؟

۴)___ پیغمبر اسلام (ص) کس حالت میں حراء پہاڑی سے نیچے اترے اور اپنی رفیقہ حیات جناب خدیجہ سے کیا کہا؟

۵)___ آپ (ص) کی بیوی نے آپ (ص) کی بات سننے کے بعد کیا کہا؟

۶)___ پیغمبر اسلام (ص) کس عمر میں پیغمبری کے لئے چنے گئے تھے_

۷)___ مبعث کا دن کا نسا دن ہے کیا آپ نے اس عظیم دن کو کبھی جشن منایا ہے اس کی مناسب سے کسی جشن میں شریک ہوئے ہیں؟

۱۱۷

چودہواں سبق

اپنے رشتہ داروں کو اسلام کی دعوت

جب پیغمبر اسلام (ص) حضرت محمد بن عبداللہ صل اللہ علیہ و آلہ وسلم پیغمبری کے لئے مبعوث ہوئے تو تین سال تک مخفی طور سے دین اسلام کی دعوت دیتے رہے آپ اطراف مکہ مسجدالحرام کے گوشہ و کنار میں بعض لوگوں سے اسلام کی گفتگو فرماتے اور انہیں دین اسلام سمجھاتے اور اس کی تبلیغ کرتے رہتے تھے جہاں بھی کسی لائق اور سمجھ دار آدمی کو دیکھتے اس کے سامنے اپنی پیغمبری کا اظہار کرتے اور اسے بت پرستی اور ظلم و ستم کرنے سے روکتے اور ظالموں کے ظلم و ستم کی برائی ان سے بیان کرتے آپ محروم اور پسماندہ لوگوں کے لئے دلسوزی اور چارہ جوئی کرتے آپ لوگوں سے فرماتے تھے_

میں خدا کا آخری پیغمبر ہوں مجھے اللہ تعالی نے حکم دیا ہے کہ

۱۱۸

تمہاری راہنمائی کروں اور اس ناگوار حالات سے تمہیں نجات دلواؤں اور تمہیں آزادی اور خداپرستی اور توحید کی طرف دعوت دوں اور تمہاری رہبری کروں تم اس عظیم مقصد میں میری مدد کرو،

پیغمبر اسلام(ص) کیاس تین سال کی کوشش سے مکہ کے لوگوں میں سے بعض لوگوں نے دین اسلام کو قبول کیا اور مخفی طور سے مسلمان ہوگئے اس کے بعد اللہ تعالی سے آپ(ص) کو حکم ملا کہ اب آپ اپنے نزدیکی رشتہ داروں کو دین اسلام کی دعوت دیں پیغمبر اسلام (ص) نے اللہ تعالی کے اس فرمان کے مطابق اپنے قریبی رشتہ داروں کو جو تقریباً چالیس ادمی تھے اپنے گھر بالایا اس معین دن میں تمام مہمان آپ(ص) کے گھر آئے_

آنحضرت (ص) نے خندہ پیشانی سے انہیں خوش آمدید کہا اور بہت محبت سے ان کی پذیرائی کی کھانا کھانے کے بعد پیغمبر اسلام (ص) چاہتے تھے کہ کوئی بات کریں لیکن ابولہب نے مہلت نہ دی اور لوگوں سے کہا ہوشیار رہنا کہیں محمد(ص) تمہیں فریب نے دے دے یہ کہا اور اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا تمام لوگ بھی کھڑے ہوگئے اور اس سے مجلس کا شیرازہ بکھر گیا جب مہمان آپ(ص) کے گھر سے باہر نکلے تو ایک دوسرے کو کہہ رہے تھے دیکھا محمد(ص) نے کس طرح ہماری مہمان نوازی کی بہت عجیب تھا کہ تھوڑی خوراک بنائی تھی لیکن اس معمولی غذا سے ہم تمام سیر ہوگئے واقعی کتنا بہترین اور خوش مزہ کھانا بنایا تھا ایک کہتا کہ کیسے اس معمولی خوراک سے ہم تمام سیر ہو گئے دوسرا ابولہب سے غصّے کے عالم میں کہتا کہ کیوں تم نے مجلس کا شیرازہ بکھیر دیا کیوں تو نے محمد(ص) کی بات نہ سننے دی اور کیوں غذا کھانے کے

۱۱۹

فوراً بعد اٹھ کھڑے ہوئے اور حضرت محمد(ص) کے گھر سے باہر نکل آئے_

دوسرے دن پیغمبر اسلام (ص) نے حضرت علی (ع) سے فرمایا کہ اس دن مجھے بات کرنے کا موقع نہیں دیا گیا تا کہ میں اللہ کا پیغام سناؤں تم دوبارہ غذا بناؤ اور تمام رشتہ داروں کو مہمانی کے لئے بلاؤ شاید اللہ کا پیغام ان تک پہنچا سکوں اور آزادی و سعادت مندی کی طرف ان کی رہبری کرسکوں_ مہمانی کا دوسرا دن آپہنچا مہمان پہنچ گئے پیغمبر اسلام (ص) نے پہلے دن کی طرح انھیں مہربانی اور محبت سے خوش آمدید کہا اور خوش روئی سے ان کی پذیرائی کی کھانا کھانے کے بعد پیغمبر اسلام(ص) نے مہمانوں سے اصرار کے ساتھ تقاضہ کیا کہ بیٹھے رہیں اور میری بات کو سنیں ایک گروہ آرام سے بیٹھ رہا لیکن دوسرا گروہ (جیسے ابولہب و غیرہ) نے شور و غل شروع کردیا پیغمبر اسلام (ص) نے ان سے فرمایا توجہ کرو اللہ تعالی کی طرف سے میں اللہ کا آخری پیغمبر ہوں اللہ تعالی کی طرف سے تمہارے اور پوری دنیا کے لئے پیغام لایا ہوں آزادی کا پیغام سعادتمندی کا پیغام ، اے میرے رشتہ دارو تم آخرت میں اچھے کاموں کے عوض جزاء پاؤگے اور برے کاموں کے عوض سزا پاؤ گے خوبصورت بہشت نیک لوگوں کے لئے ہمیشہ کے لئے ہے اور برے لوگوں کے لئے ابدی جہنّم کا عذاب ہے اے میرے رشتہ داروں میں دنیا اور آخرت کی تمام خوبیوں کو تمہارے لئے لایا ہوں کوئی بھی اس سے بہتر پیغام تمہارے لئے نہیں لایا کون ہے کہ میری اس راستے میںمدد کرے تا کہ میرا بھائی ، وصی، وزیر اور میرا جانشین و خلیفہ قرار پائے_

۱۲۰