‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) جلد ۲

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) 13%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 285

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 285 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 121553 / ڈاؤنلوڈ: 4293
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

تمام مہمان چپ بیٹھے تھے کسی نے بھی اس آسمانی دعوت کو جواب نہیں دیا: صرف حضرت علی (ع) کہ جن کی عمر تقریباً چودہ سال کی تھی اٹھے اور کہا اے خدا کے رسول(ص) : میں حاضر ہوں کہ آپ(ص) کی نصرت و مدد کروں_ پیغمبر اسلام (ص) نے محبت کے انداز میں حضرت علی علیہ السلام کو دیکھا اور پھر اپنی گفتگو کو دوبارہ حاضرین کے لئے دہرایا اور آخر میں دوبارہ پوچھا کون میرے اس کام میں مدد کرنے کے لئے تیار ہے تا کہ میرا بھائی اور وزیر اور وصی او رجانشین اور خلیفہ ہو؟ اس دفعہ بھی پیغمبر اسلام (ص) کی آسمانی دعوت کا کسی نے جواب نہیں دیا تمام چپ بیٹھے رہے_

حضرت علی علیہ السلام نے اس سکوت کوتوڑتے ہوئے محکم ارادے اور جذبے بھرے انداز میں کہا یا رسول اللہ میں حاضر ہوں کہ آپ(ص) کی مدد کروں میں حاضر ہوں کہ آپ(ص) کی اعانت کروں پیغمبر اسلام (ص) نے محبت بھری نگاہ اس فداکار نوجوان پر ڈالی اور اپنی بات کا تیسری بار پھر تکرار کیا اور کہا_ اے میرے رشتہ دارو میں دنیا اور آخرت کی تمام بھلائیاں تمہارے لئے لایا ہوں مجھے محکم ہوا ہے کہ تمہیں خداپرستی اور توحید کی دعوت دوں کون ہے کہ اس کام میں میری مدد کرے تا کہ وہ میرا بھائی اور وزیر، وصی، اور جانشین و خلیفہ ہو اس دفعہ بھی تمام خاموش تھے فقط حضرت علی علیہ السلام ان کے درمیان سے اٹھے اور محکم ارادے سے کہا یا رسول اللہ(ص) میں حاضر ہوں کہ آپ(ص) کی مدد کروں میں آپ(ص) کے تمام کاموں میں مدد کروں گا اس وقت مہمانوں کی حیرت زدگی کے عالم میں پیغمبر اسلام (ص) نے حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ پکڑا

۱۲۱

اور ان کے مدد کے معاہدہ اور پیمان کو قبول فرمایا اور مہمانوں میں اعلان کیا_ کہ یہ نوجوان میرا بھائی میرا وزیر میرا وصی اور میرا خلیفہ ہے اس کی بات کو سنو اور اس پر عمل کرو بہت سے مہمان ناراض ہوئے وہ وہاں سے اٹھے اور پیغمبر اسلام(ص) کی باتوں کا مزاق اڑانے لگے اور ابوطالب (ع) سے کہنے لگے کہ آج سے علی علیہ السلام تمہارا حاکم ہوگیا ہے_ محمد(ص) نے حکم دیا ہے کہ تم اپنے بیٹے کی باتوں کو سنوں اور اس پر عمل کرو اور اس کی پیروی کرو_

سوالات

۱)___ پیغمبر اسلام(ص) لوگوں کو ابتداء میں اسلام کے لئے کیسے مدعو کرتے تھے اور کتنے عرصہ تک ایسا کرتے رہے؟

۲)___ پیغمبر اسلام(ص) لوگوں کو کس غرض اور ہدف کی طرف دعوت دیتے تھے اور ان سے کیا چاہتے تھے؟

۳)___ تین سال کے بعد اللہ تعالی کا آپ(ص) کو کیا حکم ملا؟

۴)___ پیغمبر اسلام (ص) نے حکم کی تعمیل کے لئے کیا کیا ؟

۵)___ جب مہمان گھر سے باہر نکلتے تھے تو ایک دوسرے سے کیا کہتے تھے نیز انہوں نے ابولہب سے کیا کہا؟

۶)___ دوسرے دن کی مجلس میں پیغمبر (ص) نے اپنے رشتہ داروں سے کیا فرمایا تھا اور ان سے کس چیز کا مطالبہ کیا تھا ؟

۱۲۲

۷)___ کس نے پیغمبر اسلام(ص) کی دعو کا مثبت جواب دیا اور کیا کہا؟

۸)___ پیغمبر اسلام (ص) نے حضرت علی (ع) کا تعارف کس عنوان سے کرایا؟

۹)___ مہمانوں نے حضرت رسول (ص) کی بات کا کیا مطلب سمجھا اور اسے جناب ابوطالب (ع) سے کس انداز میں کہنا شروع کیا؟

اپنے دوستوں کو بلایئےہ واقعہ کو سنایئےور اس موضوع پر ان سے گفتگو کیجئے تا کہ اس پیغام کے پہنچانے میں آپ اپنی ذمہ داری کو ادا کرسکیں؟

۱۲۳

پندرہواں سبق

صبر و استقامت

ابتدائے اسلام میں مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی اور جو تھے بھی ان کی اکثریت فقیر، کا رکن اور مزدور قسم کے لوگوں کی تھی لیکن اللہ اور اس کے پیغمبر(ص) پر صحیح اور پختہ ایمان لاچکے تھے_ اللہ پر ایمان کو قیمتی سرمایہ جانتے تھے دین اسلام کی عظمت کے قائل تھے اور اس عظیم دین اسلام کی حفاظت کے لئے کوشش کرتے تھے اور اسلام کی ترقی کے لئے جان کی قربانی تک پیش کردیتے اور استقامت دکھلاتے تھے وہ صحیح بامراد، مستقل مزاج اور فدا ہونے والے انسان تھے_

مكّہ کے طاقتور اور بت پرست نئے نئے مسلمان ہونے والوں کا مذاق اڑاتے اور گالیاں دیتے اور ناروا کلمات کہتے تھے ان کو بہت سخت کاموں پر لگاتے اور انہیں تکلیفیں پہنچاتے تا کہ دین اسلام

۱۲۴

سے دست بردار اور کافر ہوجائیں_ لوہے کی زرہ ان کے بدن پر پہناتے اور پہاڑ اور میدان کے درمیان تپتے سورج کے سامنے کھڑا کئے رکھتے زرہ گرم ہوجاتی اور ان کے جسم کو جلا ڈالتی پھر ان کو اسی حالت میں پتھروں اور گرم ریت پر گھیسٹتے اور کہتے کہ دین اسلام کو چھوڑ دو اور محمد(ص) کو ناروا اور ناسزا کلمات کہو تا کہ ہم تمہیں ایسے شکنجہ میں نہ ڈالیں لیکن وہ فداکار مسلمان تھے لہذا وہ سخت شکنجوں کو برداشت کرتے تھے اور اللہ پر ایمان اور حضرت محمد(ص) کی پیروی سے دست بردار نہ ہوتے تھے اور اللہ پر ایمان اور حضرت محمد(ص) کی پیروی سے دست بردار نہ ہوتے تھے انہوں نے اتنا صبر اور استقامت کا ثبوت دیا کہ مكّہ کے بہانہ باز بت پرست تھک گئے اور اپنی کمزوری اور پریشانی کا اظہار کیا ان بہادر مسلمانوں کا ایمان اور ان کی استقامت تھی کہ جس نے اسلام کو نابود ہونے سے محفوظ رکھا عمّار ایسے ہی بہادر مسلمانوں میں ایک تھے ظالم بت پرست انہیں اور ان کے باپ یاسر اور ان کی ماں سميّہ کو پکڑ کر شہر سے باہر لے جاتے اور گرم و جلا دینے والی ریت پر مكّہ کے اطراف میں دوپہر کے وقت مختلف اذیتیں دیتے عمّار کی ماں کہ جس پر ہمارے بہت درود و سلام ہوں پہلی عورت ہیں جو اسلام کے راستے میں شہید ہوئیں جب پیغمبر(ص) ان کی دردناک اذیتوں سے مطلع ہوتے اور ان فداکار مسلمانوں کا دفاع نہ کرسکتے تھے تو ان کی حوصلہ افزائی کرتے اور فرماتے کہ صبر و استقامت سے کام لو اپنے ایمان اور عقیدہ کو محفوظ رکھو کیونکہ سب کو آخرت ہی کی طرف لوٹنا ہے اور تمہارے لئے اللہ کا وعدہ بہشت بریں ہے یہ تمہیں معلوم ہونا چاہیئے آخر کار تم ہی کامیاب

۱۲۵

ہوگے بلال بھی ان بہادر اور فداکار مسلمانوں میں سے ایک تھے وہ دین اسلام کو اپی جان سے زیادہ عزیز سمجھتے تھے ظالم انسان انھیں دوپہر کے وقت جلتی دھوپ میں ریت پر لٹاتے اور بہت بڑا پتھر ان کے سینے پر رکھ دیتے تھے اور ان سے مطالبہ کرتے تھے کہ وہ دین اسلام سے پھر جائیں اور خدا و پیغمبر اسلام (ص) کو ناسزا کلمات کہیں اور بتوں کی عظمت بیان کریں لیکن وہ بجائے اس کے کہ اسلام کا انکار کرتے اور بتوں کی تعریف کرتے ہمیشہ یہی کہتے تھے، احد، احد، یعنی ایک خدا، ایک خدا، صمد، صمد، یعنی بے نیاز اور محتاجوں کی پناہ گاہ خدا_

اسلام کے فدائیوں نے تکلیفیں اٹھائیں اور مصیبتیں برداشت کیں اور اس طرح دین اسلام کی حفاظت کی اور اسے ہم تک پہنچایا_ اب دین اسلام کے راستے میں ہماری فداکاری اور جہاد کاوقت ہے دیکھیں کس طرح ہم اتنی بڑی ذمہ داری سے عہدہ براء ہوتے ہیں_

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ وہ مسلمانوں جو صحیح ایمان لائے تھے ان کی صفات کیسی تھیں؟

۲)___ بت پرست مسلمانوں کو کیوں تکلیفیں اور اذیتیں پہنچاتے تھے؟

۱۲۶

۳)___ صبر کا کیا مطلب ہے ان سچّے مسلمانوں کا دین کے راستے میں صبر کس طرح تھا؟

۴)___ اسلام میں پہلے شہدی کا نام کیا ہے اور وہ کس طرح شہید ہوا؟

۴)___ ہمارے پیغمبر(ص) نے ان فداکار مسلمانوں سے کیا فرمایا اور ان کی کیسے دلجوئی کی؟

۵)___ بلال کون تھے بت پرست ان سے کیا چاہتے تھے اور وہ جواب میں کیا کہتے تھے؟

۷)___ دین اسلام کو صحیح مسلمانوں نے کس طرح حفاظت کی؟

۸)___ اسلام کے قوانین کی حفاظت اور اس کے دفاع کے بارے میں ہماری کیا ذمّہ داری ہے؟

۱۲۷

سولہواں سبق

دین اسلام کا تعارف

ابتدائے اسلام میں مسلمانوں کی تعداد بہت تھوڑی تھی مكّہ کے بت پرست ان مسلمانوں سے دشمنی اور مخالفت کرتے تھے اور انھیں تکلیف پہنچاتے تھے مسلمانوں کے پاس چونکہ قدرت اور طاقت نہ تھی وہ ان بت پرستوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے انہوںیہی بہتر سمجھا کہ حبشہ کی طرف ہجرت کرجائیں تا کہ ملک میں دین اسلام پر آزادانہ عمل کرسکیں اسی نظریہ کے تحت گروہ در گروہ کشتی پر سوار ہوتے اور مخفی طور پر حبشہ کی طرف ہجرت کرجاتے_

حبشہ کا بادشاہ نجّاشی تھا (نجّاشی حبشہ کے چند ایک بادشاہوں کا لقب تھا) یہ عیسائی تھا مسلمانوں کے وہاں پہنچنے سے باخبر ہوا تو ان کو مہربانی اور خوش اخلاقی سے پناہ دی_ جب مكّہ کے بت پرستوں کو

۱۲۸

مسلمانوں کے ہجرت کرجانے کی اطلاع ملی تو بہت ناراض اور غضبناک ہوئے دو آدمیوں کو بہت قیمتی تحائف دے کر حبشہ روانہ کیا تا کہ مسلمانوں کو وہاں سے پکڑ کر مكّہ واپس لے آئیں_ وہ دو آدمی حبشہ آئے اور نجاشی کے پاس گئے اور اس کی تعظیم بجالائے اور اسے تحائف پیش کئے نجّاشی نے پوچھا کہاں سے آئے ہو اور کیا کام ہے انہوں نے کہا کہ ہم آپ کے دیدار کے لئے شہر مكّہ سے آئے ہیں ہمارے نادان جوانوں میں سے ایک تعداد ہمارے دین سے خارج ہوگئی ہے اور ہمارے بتوں کی پرستش سے ہاتھ اٹھایا ہے یہ آپ کے ملک میں بھاگ کر آگئے ہیںمكّہ کے اشراف اور سردار آپ سے تقاضہ کرتے ہیں کہ ان کو پکڑ کر ہمارے حوالے کردیں تا کہ ان کو ہم اپنے شہر لے جائیں اور انہیں سزا و تنبیہ کریں، نجّاشی نے ان دونوں سے کہا کہ مجھے تحقیق کرنی ہوگی اس کے بعد نجّاشی نے مسلمانوں کو اپنے محل میں دعوت دی اور عیسائی علماء کے سامنے ان سے سوالات کئے نجّاشی نے مسلمانوں سے پوچھا کہ تمہارا اس سے پہلے کیا دین تھا اب تمہارا کیا دین ہے کیوں ہمارے ملک میں ہجرت کی ہے جناب جعفر ابن ابی طالب (ع) نے جو ایک فداکار او رمومن جو ان تھے جواب دیا کہ ہمارے شہر میں طاقت ور کمزوروں پر ظلم کرتے ہیں وہاں کے لوگ بت پرست ہیں مردار گوشت کھاتے ہیں برے اور ناپسندیدہ کام انجام دیتے ہیں اپنوں کے ساتھ باوفا اور مہربان نہیں ہیں_ ہمسایوں کو تکلیف دیتے ہیں ان حالات میں اللہ تعالی نے ہمارے لئے ایک پیغمبر جو ہمارے در میان سچائی اور امانت میں مشہور ہے بھیجا ہے وہ ہمارے لئے

۱۲۹

اللہ تعالی کی طرف سے دین اسلام لایا ہے، دین اسلام اس وقت نجّاشی نے اپنی جگہ س حرکت اور تھوڑاسا آگے بڑھا تا کہ غور سے سنے کہ دین اسلام کیا ہے اور کیا کہتا ہے_

جناب جعفر تھوڑی دیر کے لئے چپ ہوگئے اور ایک نگاہ عیسائی علماء کی طرف کی اور کہا کہ دین اسلام ہمیں کہتا ہے کہ بت پرستی نہ کرو اور ایک خدا کی عبادت کرو اور صرف اسی کے حکم کو قبول کرو دین اسلام ہمیں کہتا ہے: سچّے بنو_ امانت دار بنو وفادار ہوجاؤ رشتہ داروں کے ساتھ مہربانی کرو_ ہمسایوں سے اچھائی کرو_ کسی کا رشتہ داروں کے ساتھ مہربانی کرو_ ہمسایوں سے اچھائی نہ کرو، کسی کو گالیاں نہ دو، لغو اور بیہودہ کلام نہ کرو، یتیم کا مال ظلم سے نہ کھاؤ نماز پڑھو، اور اپنے مال کا کچھ حصّہ اچھے کاموں میں خرچ کرو نجاشی اور عیسائی علماء خوب غور سے سن رہے تھے اور آپ کی گفتگو سے لذّت حاصل کر رہے تھے لیکن وہ دو آدمی غصّے سے اپنے ہونٹوں کو چبا رہے تھے اور غصّے کے عالم میں مسلمانوں کو دیکھ رہے تھے_

جناب جعفر نے اپنی گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے کہا_ اے حبشہ کے بادشاہ دین اسلام کو حضرت محمد(ص) اللہ کی طرف سے لائے ہیں ہم نے اسے قبول کیا ہے اور خدا و اس کے پیغمبر(ص) پر ایمان لائے ہیں اور مسلمان ہوگئے ہیں مكّہ کے بت پرست اس سے ناراض ہوئے اور جتنا ہوسکتا تھا انہوں نے ہمیں تکلیف پہنچائی اور اذیتیں دیں_ ہم مجبور ہوئے کہ اپنے شہر سے ہجرت کر کے اس ملک میں پناہ لیں تا

۱۳۰

کہ اللہ تعالی کی عبادت کرسکیں اور اپنے مذہب کے اعمال اور عبادات کو آزادنہ طور پر بجالاسکیں_

نجاشی حضرت جعفر کی گفتگو سن کر خوش ہوا اور کہا کہ تمہارے پیغمبر(ص) کے کلام اور جناب عیسی علیہ السلام کے کلام کا سرچشمہ ایک ہے دونوں اللہ کے کلام ہیں تم اس ملک میں آزاد ہو تو اپنے دین کے اعمال کو اور عبادت کو آزادانہ طور سے انجام دے سکتے ہو اور دین اسلام پر باقی رہو واقعی کتنا اچھا دین ہے_

اس کے بعد ان دو بت پرستوں کو آوازدی اور کہا کہ میں رشوت نہیں لیتا جو چیزیں تم لائے تھے انھیں اٹھا لو اور جلدی یہاں سے چلے جاؤ_

یقین جانو کہ میں مسلمانوں کو تمہارے حوالہ نہیں کروں گا جتنا جلدی ہو مكّہ لوٹ جاؤ_

وہ دو آدمی تحائف کو لیکر شرمندہ باہر نکلے اور مكّہ کی طرف چلے گئے_

سوالات

۱)___ ہجرت کے کیا معنی ہیں مسلمانوں نے کیوں ہجرت کی_

۲)___ حبشہ کے بادشاہ کیا دین تھا اور مسلمانوں کو کیوں واپس نہ کیا؟

۱۳۱

۳)___ جعفر کون تھے انہوں نے عیسائی علماء کے سامنے پیغمبر(ص) اور دین اسلام کے متعلق کیا گفتگو کی؟

۴)___ اگر آپ سے دین اسلام اور پیغمبر(ص) کے بارے میں سوال کیا جائے تو کیا جواب دیں گے؟ اسلام اور پیغمبر(ص) کا کیسے تعارف کروائیں گے؟

۵)___ نجّاشی نے جناب جعفر کی گفتگو سننے کے بعد کیا کہا_ بت پرستوں کے ساتھ کیا سلوک کیا اور کیا ان کے تحائف کو قبول کرلیا_ اور کیوں؟

۱۳۲

سترہواں سبق

مظلوم کا دفاع

ایک بوڑھا آدمی کسی بیابان میں رہتا تھا اونٹوں کی پرورش اور نگہبانی کرتا تھا اونٹوں کو شہروں میں لے جا کر بیجتا اور اس سے اپنے گھر بار اور بچّوں کی ضروریات خریدتا تھا ایک دفعہ اونٹوں کو لیکر مکہ گیا_ لوگ اس کے اردگرد جمع تھے اور اونٹوں کی قیمت کے متعلق گفتگو کر رہے تھے اچانک ابوجہل آیا اور دوسروں کی پرواہ کئے بغیر اس بوڑھے آدمی سے کہا کہ اونٹ صرف مجھے فروخت کرنا صرف مجھے سمجھ گئے دوسروں نے جب ابوجہل کی سخت لہجے میں بات سنی تو سب وہاں سے چلے گئے اور اسے اس بوڑھے اونٹ فروش کے ساتھ تنہا چھوڑ دیا ابوجہل نے کہا کہ اونٹ میرے گھر لے آؤ اس بوڑھے آدمی نے اس کے حکم کی تعمیل کی اور اونٹ اس کے گھر پہنچا دیئےور روپیہ کا تقاضہ کیا ابوجہل نے بلند آواز سے

۱۳۳

کہا کون سا روپیہ میں اس شہر کا سردار ہوں اگر چاہتے ہو پھر مكّہ آؤ اور اونٹ فروخت کرو تو پھر تمہیں چاہیے کہ اونٹوں کا روپیہ مجھ سے نہ لو سمجھ گئے بوڑھے آدمی نے کہا کہ یہی اونٹ میرا سارا سرمایہ ہے میں نے اس کی پرورش اور حفاظت میں بہت مصیبتیں اٹھائی ہیں اس سرمایہ سے چاہتا تھا کہ اپنے اور اپنے گھر والوں کے لئے روزی مہيّا کروں اس لئے تمہیں زیب نہیں دیتا کہ میں خالی ہاتھ لوٹ جاؤں اور تمام زندگی اور کام سے رہ جاؤں چونکہ ابوجہل ایک ظالم اورخودپسند آدمی تھا بجائے اس کے کہ اس کا حق ادا کرتا غضبناک ہو کر کہا کہ تم نے وہ نہیں سنا جو میں نے کہا ہے بہت جلدی یہاں سے دفع ہوجاؤ ورنہ کوڑوں سے تیرا جواب دوں گا سمجھ گئے اس بوڑھے آدمی نے دیکھا کہ اگر تھوڑی دیر اور بیٹھتا ہوں تو ممکن ہے کہ مار بھی کھاؤں مجبور ہوکر وہ اس ظالم بے رحم کے گھر سے اٹھ کر چلا گیا راستے میں اپنے واقعہ کو چند گزرنے والوں سے بیان کیا اور ان سے مدد مانگی لیکن کوئی بھی اس کی مدد کرنے کو تیار نہ ہوا بلکہ وہ جواب دیتے کہ ابوجہل ہمارا شہری ہے وہ قریش میں سے طاقت ور آدمی ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے اسے کوئی بھی روک نہیں سکتا وہ بوڑھا آدمی گلی کوچہ میں سرگردان جارہا تھا کہ مسجد الحرام تک پہنچ گیا وہاں قریش کی عمومی مجلس میں ابوجہل کی شکایت کی دو آدمیوں نے از راہ مذاق اس بوڑھے آدمی سے کہا اس آدمی کو دیکھو_ یہ محمد(ص) ہے اس نے کہنا شروع کیا ہے کہ میں خدا کا آخری پیغمبر ہوں وہ ابوجہل کا دوست ہے وہ تیرا حق ابوجہل سے لے سکتا ہے جاؤ اس کے پاس وہ جھوٹ

۱۳۴

بول رہے تھے ہمارے پیغمبر(ص) ابوجہل کے دوست نہ تھے بلکہ اس کے اور اس کے کاموں کے دشمن تھے خدا نے حضرت محمد(ص) کو پیغمبری کے لئے چنا تھا تا کہ وہ ظالموں کے دشمن رہیں اور ان کے ساتھ مقابلہ کریں اور بہادر نیک لوگوں کی مدد سے ظالموں اور خودپسندوں کو ختم کریں خدا نے حضرت محمد(ص) کو لوگوں کی رہبری کے لئے بھیجا تھا تا کہ اجتماع میں عدل اور انصاف کو برقرار رکھیں اور لوگ آزادانہ خدا کی پرستش کریں وہ جھوٹ بول رہے تھے لیکن بوڑھا مظلوم انسان ان کی باتوں کو صحیح خیال کر رہا تھا وہ سمجھتا تھا کہ واقعی حضرت محمد(ص) ابوجہل کے دوست ہیں لہذا وہ بوڑھا آدمی حضرت محمد(ص) کے پاس آیا تا کہ آپ(ص) سے مدد کرنے کی درخواست کرے جو لوگ قریش کی عمومی مجلس میں بیٹھے ہوے تھے ہنس رہے تھے اور مذاق کر رہے تھے اور کہتے تھے کون ہے جو ابوجہل سے بات کرسکتا ہے وہ قریش کا طاقتور انسان ہے کسی میں جرات نہیںکہ اس کی مخالفت کرے ابوجہل محمد(ص) کو بھی مارے گا اور وہ شرمندہ واپس لوٹیں گے وہ بوڑھا آدمی حضرت محمد(ص) کے پاس پہنچا اور اپنی سرگزست بیان کی اور آپ سے مدد چاہی حضرت محمد(ص) نے اس کی شکایت کو غور سے سنا اور فرمایا کہ میرے ساتھ آو وہ بوڑھا آدمی پیغمبر اسلام(ص) کے ساتھ ابوجہل کے گھر پہنچا کچھ آڈمی تھوڑے فاصلے پر ان کے پیچھے ہولئے تا کہ دیکھیں کہ اس کا نتیجہ کیا ہوتا ہے ابوجہل کے گھر پہنچے اونٹوں کی آواز اوبجہل کے گھر سے سنائی دے رہی تھی پیغمبر اسلام (ص) نے دروازہ کھٹکھٹایا ابوجہل نے سخت لہجے میں کہا کہ

۱۳۵

کون ہے دروازہ کھولو محمد(ص) ہوں: بوڑھے آدمی نے جب ابوجہل کی سخت آواز سنی تو چند قدم پیچھے ہٹ کر علیحدہ کھڑا ہوگیا ابوجہل نے دروازہ کھولا_ حضرت محمد صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک جائزہ لیا اور پھر تیز نگاہ سے اسے دیکھا اور سخت غصّے کی حالت میں فرمایا اے ابوجہل کیوں کیوں کھڑے ہو جلدی کرو اس کے پیسے دو ابوجہل گھر گیا جو لوگ دور کھڑے تھے انہوں نے گمان کیا کہ ابوجہل اندر گیا ہے تا کہ چابک یا تلوار اٹھالائے گا لیکن ان کی امید کے برعکس وہ پریشان حالت میں گھر سے باہر آیا اور لرزتے ہاتھ سے اشرفیوں کی ایک تھیلی بوڑھے آدمی کو دے دی بوڑھے آدمی نے وہ تھیلی لے لی_ پیغمبر اسلام(ص) نے اس سے فرمایا کہ تھیلی کو کھولو اور روپیہ گن کر دیکھو کہیں کم نہ ہوں اس بوڑھے آدمی نے روپیہ گنا اور کہا کہ پورے ہیں اس نے پیغمبر اسلام(ص) کا شکریہ ادا کیا جو لوگ دور سے اس واقعہ کا مشاہدہ کر رہے تھے انہوں نے تعجب کیا اس کے بعد جب ابوجہل کو دیکھا تو اسے ملامت کی اور کہا کہ محمد(ص) سے ڈرگیا تھا کتنا ڈرپوک ہے تو ابوجہل نے جواب میں کہا وہ جب میرے گھر آئے اور غصّے سے مجھے دیکھ کر روپیہ دینے کے لئے کہا تو اس قدر خوف اور اضطراب مجھ پر طاری ہوا کہ میں مجبور ہوگیا کہ ان کے حکم پر عمل کروں اور اونٹوں کی قیمت ادا کروں اگر تم میری جگہ ہوتے تو اس کے سوا کوئی چارہ تمہارے لئے بھی نہ ہوتا_

اس دن کے بعد جب بھی ابوجہل اور اشراف مكّہ اکٹھے مل کر

۱۳۶

بیٹھتے اور حضرت محمد(ص) اور آپ کے اصحاب کے متعلق گفتگو کرتے تو کہتے کہ محمد(ص) کے پیروکاروں کو اتنی تکلیفیں دیں گے وہ محمد(ص) کو تنہا چھوڑدیںگے اور دین اسلام سے دست پردار ہوجائیں گے محمد(ص) کو اتنا تنگ کریں گے کہ پھر وہ ہم سے مقابلہ نہ کرسکیں گے اور کمزوروں کا حق ہم سے وصول نہ کرسکیں گے آپ کی سمجھے ہیں کیا تکلیف دینے اور اذیتیں پہنچانے سے سچے مسلمانوں نے دین اسلام کو چھوڑ دیا تھا؟

کیا آپ سمجھتے ہیں کہ پیغمبر اسلام(ص) نے ان سے مقابلہ کرنا چھوڑ دیا تھا کہ آپ سمجھتے ہیں کہ پھر پیغمبر اسلام(ص) نے مظلوموں کی مدد نہیں کی ...؟

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ کیاہمارے پیغمبر(ص) ابوجہل کے دوست تھے خدا نے آپ(ص) کو کس غرض کے لئے پیغمبری کے لئے چنا تھا؟

۲)___ لوگوں نے اس بوڑھے آدمی کی مدد کیوں نہ کی؟

۳)___ جب وہ آدمی لوگوں سے مدد مانگتا تھا تو اس کو کیا جواب ملتا تھا اور کیا ان کا جواب درست تھا اور اگر درست نہیں تھا تو کیوں؟

۴)___ اگر کوئی تم سے مدد طلب کرے تو اسے کیا جواب دوگے؟

۵)___ تم نے آج تک کسی مظلوم کی مدد کی ہے اور کسی طرح بیان کیجئے؟

۱۳۷

۶)___ ہمارے پیغمبر(ص) ابوجہل سے کیسے پیش آئے اور اس سے کیا فرمایا؟

۷)___ پیغمبر اسلام(ص) کے اس کردار سے آپ کیا درس لیتے ہیں اور کس طرح پیغمبر(ص) کے اس کردار کی آپ پیروری کریں گے؟

۸)___ بت پرستوں نے کیوں مسلمانوں کو اذیتیں پہنچانے کا ارادہ کیا تھا؟

۱۳۸

اٹھارہواں سبق

خدا کا آخری پیغمبر حضرت محمد(ص)

اللہ تعالی نے جب سے محمد مصطفی (ص) کو پیغمبری کے لئے چنا ہے انہیں اپنا آخری پیغمبر قرار دیا ہے ہمارے پیغمبر گرامی قدر نے اس ابتدائی دعوت کے وقت سے اللہ تعالی کے حکم سے خود کو آخری نبی ہونے کا اعلان کردیا تھا یعنی اعلان کیا تھا کہ میں اللہ کا آخری پیغمبر ہوں میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں آئے گا تمام وہ لوگ جو ابتداء اسلام میں آنحضرت(ص) پر ایمان لائے تھے اور مسلمان ہوئے تھے جانتے تھے کہ آپ خدا کے آخری پیغمبر ہیں قرآن کریم نے بھی جو اللہ کا کلام اور پیغمبر اسلام(ص) کا دائمی معجزہ ہے_

حضرت محمد مصطفی (ص) کو آخری پیغمبر بتلایا ہے قرآن فرماتا ہے کہ محمد(ص) رسول خدا اور خاتم النبین ہیں لہذا جو مسلمان ہیں اور قرآن کو اللہ کی کتاب مانتے ہیں حضرت محمد(ص) کو اللہ کا آخری پیغمبر تسلیم کرتے ہیں_

۱۳۹

ہمارا یہ ایمان ہے کہ اسلام کا آئین اتنا دقیق اور کامل ہے کہ حق طلب انسانوں کو ہمیشہ اور ہر وقت سعادت اور کمال تک پہنچاتا ہے وہ خدا جو تمام انسانوں کی ضروریات کو تمام زبانوں میں جانتا تھا قرآن کے تربیتی پروگرام کو اس طرح دقیق اور کامل و منظّم کیا ہے کہ انسان کے کمال کی ضروریات مہيّا کردی ہیں اسی لئے جتنا بھی انسان ترقی کرجائے اور اس کے علم و کمال میں زیادتی ہوجائے پھر بھی قرآن کا جو اللہ کا کلام اور اس کی طرف سے ہدایت ہے اسی طرح محتاج ہے جس طرح اللہ کی دوسری مخلوقات جیسے پانی، سورج، ہوا، و غیرہ ہمیشہ او رہر حالت میں محتاج ہیں_

انسان کی اسلامی تربیت کا آئین قرآن میں ہے اور قرآن آسمانی کتابوں کی آخری کتاب ہے اور دین اسلام کی ہمیشہ رہنے والی کتاب ہے کہ جس کی خداوند عالم نے فداکار مسلمانوں کی مدد سے محافظت کی ہے اور ہم تک پہنچایا ہے یہ عظیم کتاب انسان کی تربیت کا کامل ترین آئین ہے اسی لئے اللہ تعالی نے دین اسلام کو آخری آسمانی دین اور ہمارے پیغمبر(ص) کو آخری پیغام لے آنے والا بتلایا ہے_

ان مطالب کو دیکھتے ہوئے مندرجہ ذیل جملے مکمل کیجئے

۱)___ اللہ تعالی نے جب سے حضرت محمد(ص) کو پیغمبری کے لئے چنا ہے انھیں___ دیا ہے

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

سوالوں کا آسانی کے ساتھ جواب دیتے تھے بعض لوگ جو آپ (ع) کے اللہ کے ساتھ خاص تعلق سے مطلع نہ تھے آپ (ع) کے علمی پایہ سے تعجب کرتے اور کہتے تھے کہ اس کمسن بچّے نے کہاں سے اتنا زیادہ علم حاصل کرلیا ہے اس بچے کا علم کیسے تمام بزرگ علماء کے علم پر برتری حاصل کرگیا ہے انہیں علم نہ تھا کہ امام کو علم کسی سے پڑھ کر حاصل نہیں ہوا کرتا بلکہ امام (ع) کا علم اللہ کی طرف سے آسمانی ہوا کرتا ہے انہیں علم نہیں تھا کہ خدا جس کی روح کو چاہے اپنے سے مرتبط کردیتا ہے خواہ بچہ ہو یا بڑا اور اسے تمام لوگوں سے زیادہ علم دے دیتا ہے امام محمد تقی علیہ السلام بچپن ہی سے بہترین صفات انسانی کے مالک تھے

تقی یعنی زیادہ پرہیزگار تھے

جواد: یعنی زیادہ سخاوت اور عطاء کرنے والے تھے مطلع اور روشن فکر تھے اور لوگوں کے لئے تحصیل علم کی کوشش کرتے تھے_

معتصم عباسی ظالم خلیفہ تھا اور آپ (ع) کی روشن فکری کو اپنی قوت کے خاتمے کا سبب جانتا تھا لوگوں کے بیدار ہوجانے اور حقائق سے مطلع ہوجانے سے ڈرتا تھا اور امام جواد علیہ السلام کی سخاوت تقوی اور پرہیزگاری سے خائف تھا اسی لئے حضرت امام جواد کو شہر مدینہ سے اپنے دارالخلافہ بغداد بلایا اور چند مہینوں کے بعد شہید کردیا_

امام جواد علیہ السلام کی عمر شہادت کے وقت پچیس سال سے زیادہ نہ تھی آپکے جسم مبارک کو بغداد شہر کے نزدیک جو آج کاظمین کے نام سے مشہور ہے آپ کے جد مبارک حضرت موسی علیہ السلام

۱۸۱

کے پہلو میں دفن کیاگیا_

آپ (ع) کی ذات پر سلام اور درود ہو''

۱۸۲

آٹھواں سبق

گورنر کے نام خط

حج کی باعظمت عبادت کو میں امام جواد علیہ السلام کے ساتھ بجالایا اور جب حج کے اعمال اور مناسک ختم ہوگئے تو میں الوداع کے لئے امام (ع) عالی مقام کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ حکومت نے مجھ پر بہت زیادہ ٹیکس دیا ہے میں اس کی ادائے گی کی طاقت نہیں رکھتا آپ سے خواہاں ہوں کہ ایک خط آپ (ع) شہر کے حاکم کے نام لکھ دیجئے اور سفارش فرمایئےہ وہ مجھ سے نرمی اور خوش اسلوبی سے پیش آئے میں نے عرض کی کہ ہمارے شہر کا حاکم آپ (ع) کے دوستوں اور شیعوں سے ہے_ یقینا آپ (ع) کی سفارش اس پر اثر کرے گی امام جواد علیہ السلام نے کاغذ اور قلم لیا اور اس مضمون کا خط لکھا_

بسم اللہ الرحمن الرحیم سلام ہو تو پر اور اللہ کے لائق بندوں

۱۸۳

پراے سیستان کے حاکم قدرت اور حکومت اللہ کی طرف سے ایک امانت ہے جو تیرے اختیار میں دی گئی ہے تا کہ تو خدا کے بندوں کا خدمت گزار ہو تو اس قدرت اور توانائی سے اپنے دینی بھائیوں کی مدد کر جو چیز تیرے لئے تنہا باقی رہے گی وہ تیری نیکی اور مدد ہوگی جو تو اپنے بھائیوں اور ہم مذہبوں کے لئے کرے گا____ یاد رکھو کہ خدا قیامت کے دن تم سے تمام کاموں کا حساب لے گا اور معمولی کام بھی اللہ سے مخفی نہیں ہے

محمد بن علی الجواد (ع)

میں نے آپ (ع) سے خط لیا اور خداحافظ کہتے ہوئے اپنے شہر کی طرف لوٹ آیا اس پر عظمت خط کی اطلاع پہلے ہی سے اس حاکم کو ہوچکی تھی وہ میرے استقبال کے لئے آیا اور میں نے وہ خط اسے دیا اس نے خط لیا اور اسے چوما اور کھولا اور غور سے پڑھا میرے معاملہ میں اس نے تحقیق کی جس طرح میں چاہتا تھا اس نے میرے ساتھ نیکی اور نرمی برتی اس کے بعد اس نے تمام لوگوں سے عدل اور انصاف برتنا شروع کردیا_

غو رکیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ حضرت محمد تقی (ع) کس سال اور کس مہینے میں پیدا ہوئے؟

۲)___ لوگوں کو کس بات پر تعجب ہوتا تھا اور کیا کہتے تھے؟

۱۸۴

۳)___ وہ کس چیز سے مطلع نہ تھے کہ اس طرح کا تعجب کرتے تھے؟

۴)___ تقی اور جواد کے معنی بیان کیجئے؟

۵)___ معتصم خلیفہ نے حضرت جواد (ع) کو بغداد کیوں بلایا؟

۶)___ حضرت امام محمد تقی (ع) نے کس عمر میں وفات پائی؟

۷)___ آپ (ع) کے جسم مبارک کو کہاں دفن کیا گیا؟

۸)___ امام جواد (ع) نے سیستان کے حاکم کو کیا لکھا اور کس طرح آپ (ع) نے اسے نصیحت کی؟

۹)___ حاکم نے امام (ع) کے خط کے احترام میں کیا کیا؟

۱۰)___ آپ نے امام (ع) کے خط سے کیا سبق لیا ہے اور اس واقعہ سے کیا درس لیا ہے؟

۱۸۵

نواں سبق

دسویں امام حضرت امام علی نقی علیہ السلام

حضرت امام علی نقی علیہ السلام امام محمدتقی علیہ السلام کے فرزند ہیں پندرہ ذی الحجہ دو سو بارہ ہجری میںمدینہ کے نزدیک ایک دیہات میں متولد ہوئے حضرت امام علی نقی علیہ السلام نے اللہ کے حکم اور پیغمبر (ص) کی وصیت کے مطابق آپ (ع) کو اپنی شہادت کے بعد لوگوں کے لئے امام اور رہبر معيّن کیا امام علی نقی علیہ السلام امام ہادی (ع) کے نام سے بھی مشہور تھے اپنے والد کی طرح آپ (ع) بھی بچپن ہی سے خداوند عالم کے ساتھ خاص تعلق رکھتے تھے آپ (ع) کم عمر ہونے کے باوجود منصب امامت پر فائز ہوئے اور لوگوں کو اس مقام سے راہنمائی اور رہبری فرماتے تھے_

امام علی نقی علیہ السلام اسی چھوٹی عمر سے ایک ایسے انسان

۱۸۶

تھے جو لوگوں کے لئے نمونہ تھے ہر قسم کے عیب اور نقص سے پاک تھے اور آپ (ع) انسانی صفات حسنہ سے مزيّن تھے اسی لئے آپ (ع) کو نقی یعنی پاک او رہادی یعنی ہدایت کرنے والا بھی کہاجاتا ہے امام علی نقی (ع) محنت اور بہت کوشش سے لوگوں کی ہدایت اوررہنمائی فرماتے تھے اور زندگی کے احکام انہیں بتلایا کرتے لوگ بھی آپ (ع) سے بہت زیادہ محبت کیا کرتے تھے اور آپ (ع) کی رہنمائی اور علم و بینش سے استفادہ کیا کرتے تھے متوکل عباسی ظالم اور خونخوار خلیفہ تھا وہ امام علی نقی علیہ السلام سے حسد کرتا تھا اور امام علیہ السلام کی قدرت اور مقبولیت سے خائف تھا اسی لئے آپ (ع) کو مدینہ منورہ سے سامرہ شہر کی طرف بلوایا اور ایک فوجی مرکز میں آپ (ع) کو نظر بند کردیا امام علی نقی علیہ السلام نے اس دنیا میں بیالیس سال عمر گزاری اور اس مدت میں ظالم عبّاسی خلیفہ کا ظلم و ستم آپ (ع) پر ہمیشہ رہا اور آپ (ع) اس کے ظلم و ستم کا مقابلہ کرتے رہے آخر کار تیسری رجب دوسو چوّن ہجری کو سامرہ میں شہید کردیئےئے آپ کے جسم مبارک کو اسی شہر سامرہ میں دفن کردیا گیا_

۱۸۷

دسواں سبق

نصیحت امام (ع)

متوکل شراب خوار و ظالم حاکم تھادین اسلام اور قرآن کے قوانین پر عمل نہیں کیا کرتا اپنے اقتدار اور خلاقت کی حفاظت کے لئے ہر قسم کا ظلم کا ارتکاب کرتا تھا لوگوں کی بہت زیادہ عقیدت جو امام علی نقی علیہ السلام سے تھی اس سے وہ رنج و تکلیف میں رہتا اور امام (ع) پاک کے نفوذ اور قدرت سے ڈرتا رہتا تھا ایک دفعہ آدھی رات کو اپنے خوبصورت تخت پر بیٹھا تھا اور اپنے ہم نشینوں کے ساتھ مستی اور عیش و نوش میں مشغول تھا گانے والے اس کے لئے شعر پڑھ رہے تھے اور آلات غنا سے خاص راگ بجا رہے تھے اس کے محل کی دیواریں طلائی چراغوں سے مزيّن تھیں اور محل کے اردگرد مسلح افراد کو پہرہ پر لگا رکھا تھا اچانک مستی کے عالم میں سوچا کہ کیا ممکن ہے کہ یہ تمام قدرت اور با عظمت زندگی میرے

۱۸۸

ہاتھ سے لے لی جائے؟

آیا کوئی ایسا آدمی موجود ہے کہ یہ تمام عیش و نوش اور زیبا زندگی کو میرے ہاتھ سے لے لے پھر اپنے آپ کو خود ہی جواب دیا کہ ہاں حضرت امام علی نقی علیہ السلام کو حبشے شیعہ اپنا امام مانتے ہیں وہ ایک ہے جو ایسا کرسکتا ہے کیونکہ لوگ اسے بہت زیادہ دوست رکھتے ہیں اس فکر سے پریشان ہوا اور چیخا کہ فوراً علی بن محمد(ص) کو گرفتار کر کے یہاں لے آؤ ایک گروہ جو اس کے حکم کے اجراء کے لئے معيّن تھا یعنی وہ لوگ جنہوں نے اپنی آزادی اور انسانیت کو فراموش کر رکھا تھا امام علی بن محمد علیہ السلام کے گھر ہجوم کر کرے آئے اور انہوں نے دیکھا کہ امام علی نقی (ع) رو بقبلہ بیٹھے آسمانی زمزمہ کے ساتھ قرآن پڑھ رہے ہیں آپ کو انہوں نے گرفتار کیا اور اس کے قصر میں لے گئے امام ہادی علیہ السلام قصر میں آہستہ سے داخل ہوئے اس وقت آپ کے چہرہ مبارک سے نور پھوٹ رہا تھا اور اپ آرام و سکون سے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ رہے تھے متوکل نے خون آلود نگاہوں سے غصّے کے عالم میں امام ہادی علیہ السلام کے چہرہ مبارک پر نگاہ ڈالی اور اس سابقہ فکر کا امام علیہ السلام کے متعلق اعادہ کیا اور گویا چاہتا تھا کہ اسی وقت امام علیہ السلام کو قتل کردے مگر اس نے سوچا کہ امام علیہ السلام کو خاص مہمانوں اور ہم نشینوں کی آنکھوں میں معمولی قرار دے لہذا بے ادبی سے کہا اے علی بن محمد (ص) ہماری مجلس کو گرماؤ اور ہمارے لئے کچھ شعر پرہو ہم چاہتے ہیں کہ تمہاری شعر خوانی کی آواز سے خوش اور شادمان ہوں_

۱۸۹

امام ہادی علیہ السلام ساکت رہے اور کچھ جواب نہ دیا متوکل نے دوبارہ مذاق اور مسخرہ کے لہجے میں کہا کہ اے علی (ع) بن محمد(ص) ہماری مجلس کو گرم کرو اور ہمارے لئے اشعار پڑھو امام علی نقی علیہ السلام نے اپنا سر نیچے کیا اور متوکل کی بے حیاء آنکھوں کی طرف نہیں دیکھا اور خاموش رہے متوکل نے کہ جس میں مستی اور غصّہ آپس میں ملے ہوئے تھے بے ادبی اور بے شرمی سے پھر اسی سابقہ جملے کی تکرار کی اور آخر میں کہا کہ لازمی طور پر آپ (ع) ہمارے لئے پڑھیں اس وقت امام علیہ السلام نے ایک تند نگاہ اس ظالم ناپاک مست کے چہرے پر ڈالی اور فرمایا اب جب کہ میں مجبور ہوں کہ شعر پڑھوں تو سن اس کے بعد آپ (ع) نے عربی کے چند اشعار پڑھے کہ بعض شعروں کا ترجمہ یہ ہے_

کتنے اقتدار کے مالکوں نے اس جہان میں اپنی راحت کے لئے پہاڑوں یا میدانوں کے دامن میں محل تعمیر کیئے اور تمام کو آراستہ اور مزین کیا اور قصر کے اطراف میں اپنی جان کے خطرے کے پیش نظر مسلح محافظ اور نگہبان قرار دیئے تا کہ یہ تمام اسباب انہیں موت کے پنیجے سے بچا سکیں لیکن انہیں موت نے اچانک گھیرلیا ان پلید انسانوں کا گریبان پکڑا انہیں ذلت و خواری سے ان کے محلوں سے باہر نکالا اور وہ اپنے اعمال کے ساتھ یہاں سے آخرت کی منزل کی طرف چلے گئے ان کے ناز پروردہ جسم آنکھوں

۱۹۰

سے اوجھل خاک میں چلے گئے لیکن ان کی روح

عالم برزخ میں عذاب میں مبتلا ہوگئی_

اسی مضمون کے اشعار امام علیہ السلام نے اور بھی پڑھے تمام مہمان خاموش بیٹھے تھے اور ان اشعار کے سننے سے لرز رہے تھے متوکل بھی باوجود سنگ دل اور بے رحمی کے دیوانوں کی طرح کھڑا ہوگیا تھا اور لرز رہا تھا_

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ امام علی نقی (ع) کس سال اور کس مہینے اور کس دن متولد ہوئے ؟

۲)___ آپ (ع) کو کس نے امامت کے لئے معین کیا اور کس کے حکم سے؟

۳)___ نقی اور ہادی کے کیا معنی ہیں؟

۴)___ آپ (ع) کو متوکل نے کیوں سامرہ بلوایا؟

۵)___ سامرہ میں متوکل آپ (ع) سے کیسا سلوک کرتا تھا؟

۶)___ امام علی نقی (ع) کس سال شہید ہوئے آپ (ع) کے جسم مبارک کو کہاں دفن کیا گیا؟

۷)___ متوکل کس قسم کا حاکم تھا؟

۸)___ متوکمل امام ہادی (ع) سے کیوں دشمنی رکھتا تھا اور اس کو کس چیز کا ڈر تھا؟

۹)___ متوکل نے امام ہادی علیہ السلام سے کس چیز کا

۱۹۱

تقاضا کیا تھا؟ اور اس سے اس کی غرض کیا تھی؟

۱۰)___ امام علی نقی علیہ السلام نے اشعار کے ذریعہ اس سے کیا کہا؟

۱۱)___ امام علیہ السلام کے اس کردار سے کیا سبق حاصل کرنا چاہیئے؟

۱۹۲

گیارہواں سبق

گیارہوں امام حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام

حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام آٹھ ربیع الثانی دوسو تبّیس ہجری میں مدینہ منورہ میں متولد ہوئے آپ (ع) کے والد امام علی نقی علیہ السلام نے اللہ کے حکم اور پیغمبر اسلام (ص) کی وصيّت کے تحت آپ (ع) کو اپنے بعد کے لئے لوگوں کا امام اور پیشوا معيّن کیا امام حسن عسکری علیہ السلام بھی اپنے آباؤ اجداد کی طرح لوگوں کی رہنمائی اور تربیت کرتے تھے اور ان کو توحید اور اللہ کی اطاعت کی طرف ہدایت فرمایا کرتے تھے اور شرک اور ظالموں کی اطاعت سے روکتے تھے عباسی ظالم خلفاء امام علیہ السلام کی تربیت کے طریقے کو اپنی خواہشات کے خلاف سمجھتے تھے لوگوں کی آگاہی اور بیداری سے خوف زدہ تھے اسی لئے امام علیہ السلام کے سا تھ دشمنی رکھتے تھے اور آپ کو مختلف قسم کے آزار دیا کرتے تھے_ حق

۱۹۳

پسند لوگوں کو آپ سے نہ ملنے دیتے تھے اور آپ کے علم و فضل اور گراں بہا راہنمائی سے آزادنہ طریقے سے استفادہ کرنے دیتے تھے اور بالآخر آپ کو ظالم عباسی خلیفہ اپنے باپ کی طرح آپ کو سامرہ لے گیا اور وہاں قید کردیا اس نے آپ (ع) کو تکلیف دینے کے لئے بدخصلت اور سخت قسم کے لوگ معین کر رکھتے تھے لیکن امام عسکری علیہ السلام نے اپنے اچھے اخلاق سے ایسے افراد کی بھی تربیت کردی تھی اور ان میں سے بعض مومن اورمہربان انسان بن گئے تھے چونکہ امام علیہ السلام کو ایک فوجی مرکز میں نظر بند کر رکھا تھا اسی لئے آپ کے نام حسن کے ساتھ عسکری کا اضافہ کردیا گیا کیوں کہ عسکر کے مغنی لشکر کے ہیں_

حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام اس مدت میں کہ جب لوگوں کی نگاہ سے غائب تھے اور شیعوں کی آپ (ع) سے ملاقات ممنوع قرار دی گئی تھی ان لوگوں کو فراموش نہیں کرتے تھے بلکہ ان کے لئے خطوط لکھا کرتے تھے اور ان کی ذمہ داریاں انہیں یاد دلاتے تھے_

حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام اپنی تمام عمر لوگوں کو اللہ تعالی کی طرف ہدایت فرماتے رہے اور توحید پرستی کی طرف دعوت دیتے رہے اور لوگوں کو ظالم کی اطاعت سے روکتے رہے اور آخر کار خونخوار عباسی خلفاء کے ساتھ دشمنی کے نتیجے میں اٹھائیس سال کی عمر میں شہادت کے بلند مرتبہ تک پہنچے آپ کی شہادت آٹھ ربیع الاول دوسو ساٹھ ہجری میں سامرہ کے شہر میں واقع ہوئی اور آپ (ع) کے جسم مبارک کو آپ (ع) کے والد ماجد کے پہلو میں سپرد خاک کردیا گیا بہت زیادہ سلام ہوں آپ (ع) پر اور راہ خدا کے شہیدوں پر_

۱۹۴

بارہواں سبق

امام حسن عسکری (ع) کا خط

حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے قم میں علی بن حسین قمی (ع) کو جو ایک عالم تھے اس طرح کا ایک خط لکھا:

بسم اللہ الرحمن الرحیم اے ہمارے مورد اعتماد عالم فقیہ عالی مقام اے علی بن حسین قمی خداوند عالم تجھے نیک کاموں میں توفیق دے اور تیرے اولاد کو نیک اور لائق بنائے تقوی اور پرہیزگاری کو مت چوڑنا نماز اول وقت بڑھا کرو اور اپنے مال کی زکاة دیا کرو کیوں کہ جو اپنے مال کی زکاة ادا نہ کرے اس کی نماز قبول نہیں ہوتی دوسروں کی لغزش اور برائی کو معاف کردیا کہ جب غصّہ آئے تو اپنا غصّہ پی جایا کرو اپنے رشتہ داروں اور

۱۹۵

قرابتداروں پر احسان کیا کرو اور خوش اخلاقی سے پیش آیا کرو اپنے دینی بھائیوں سے ہمدردی کیا کرو ہر حالت میں لوگوں کے حوائج پورا کرنے کی کوشش کیا کرو لوگوں کی نادانی اور ناشکری پر صبر کیا کرو احکام دین اور قوانین قرآن کے سمجھنے کی کوشش کیا کرو کاموں میں اس کے انجام کو سوچا کرو زندگی میں کبھی بھی قرآن کے دستور سے نہ ہٹنا لوگوں کے ساتھ اچھی طرح پیش آیا کرو اور خوش اخلاقی اختیار کرو لوگوں کو اچھے کاموں کا حکم دیا کرو اور برے اور ناشائستہ کاموں سے روکا کرو اپنے آپ کا گناہ اور برے کاموں میں ملوث نہ کیا کرو تجہد کی نماز کو منت چوڑنا کیونکہ ہمارے پیغمبر اکرم (ص) حضرت علی (ع) سے فرمایا کرتے تھے_

اے علی (ع) کبھی تہجد کی نماز ترک نہ کرنا اے علی بن حسین قمی جو شخص بھی تہجد کی نماز سے لاپواہی کرے وہ اچھے مسلمانوں میں سے نہیں ہے خود تہجد کی نماز کو ترک نہ کرو اور ہمارے شیعوں کو بھی کہنا کہ وہ اس پر عمل کریں دین کے دستور پر عمل کرنے میں صبر کرو اور امید سے پوری کامیابی کے لئے کوشش کرنا ہمارے شیعہ موجودہ دنیا کے حالات سے ناخوش ہیں اور پوری کامیابی کے لئے کوشش کرتے ہیں تا کہ میرا فرزند مہدی (عج) کہ جس

۱۹۶

کے ظہور کی پیغمبر اسلام (ص) نے خوش خبری دی ہے ظاہر ہوجائے اور دنیا کو لائق مومنین اور پاک شیعوں کی مدد سے عدل و انصاف سے پر کردے آگاہ رہو کہ بالآخر لائق اور پرہیزگار لوگ ہی کامیاب ہوں گے تم پراور تمام شیعوں پر سلام ہو_

حسن بن علی (ع)

سوالات

۱)___ امام حسن عسکری (ع) کس سال اور کس مہینے اور کس دن پیدا ہوئے ہیں؟

۲)___ عباسی خلیفہ نے کس لئے آپ (ع) کو سامرہ شہر میں نظر بند کردیا تھا؟

۳)___ امام (ع) کی رفتار و گفتار نے حکومت کے عملے پر کیا اثر چھوڑا تھا؟

۴)___ عسکر کے کیا معنی ہیں اور گیارہوںامام (ع) کو کیوں عسکری (ع) کہا جاتا ہے؟

۵)___ امام حسن عسکری (ع) کی شہادت کہاں واقع ہوئی او رکس سال اور کس مہینے میں؟

۶)___ حضرت امام حسن عسکری (ع) نے جو خط علی بن حسین قمّی کو لکھا تھا اس میں نماز اور زکاة کے متعلق کیا لکھا تھا؟

۱۹۷

۷)___ امام (ع) نے رشتہ داروں کے ساتھ کیسے سلوک کا حکم دیا ہے؟ اور آپ اپنے رشتہ داروں سے کیسا سلوک کرتے ہیں؟

۸)___ امام حسن عسکری (ع) نے اپنے فرزند حضرت مہدی عج کے متعلق کیا فرمایا ہے؟

۹)___ تہجد کی نماز کے پڑھنے کا طریقہ کسی اہل علم سے پوچھئے

۱۹۸

تیرہواں سبق

بارہویں امام حضرت حجت امام زمانہ حضرت مہدی (عج)

امام زمانہ (ع) پندرہ شعبان دوسو بچپن ہجری سامرہ شہر میں متولد ہوئے آپ (ع) کی والدہ ماجدہ کا نام نرجس خاتون تھا اور آپ (ع) کے والد امام حسن عسکری علیہ السلام تھے آپ (ع) کے والد نے پیغمبر اسلام(ص) کے نام پر آپ (ع) کا نام محمد (ص) رکھا_

بارہویں امام مہدی (ع) ، قائم، امام زمانہ (عج) کے نام سے مشہور ہیں پیغمبر اکرم (ص) بارہویں امام (ع) کے متعلق اس طرح فرمایا ہے:

امام حسین (ع) کا نواں فرزند میرے ہم نام ہوگا اس کا لقب مہدی ہے اس کے آنے کی میں مسلمانوں کو خوشخبری سناتا ہوں:

ہمارے تمام ائمہ (ع) نے امام مہدی (ع) کے آنے کا مدہ اور خوشخبری

۱۹۹

دی ہے اور فرمایا ہے: کہ

امام حسن عسکر ی(علیہ السلام) کا فرزند مہدی (ع) ہے کہ جس کے ظہور اور فتح کی تمہیں خوشخبردی دیتے ہیں

ہمارا امام مہدی (ع) بہت طویل زمانہ تک نظروں سے غائب رہے گا ایک بہت طویل غیبت کے بعد خدا اسے ظاہر کرے گا اور وہ دنیا کو عدل و انصاف سے پر کردے گا:

امام زمانہ پیدائشے کے وقت سے ہی ظالموں کی نگاہوں سے غائب تھے خدا و پیغمبر اسلام (ص) کے حکم سے علیحدہ زندگی بسر کرتے تھے صرف بعض دوستو کے سامنے جو با اعتماد تھے ظاہر ہوتے تھے اور ان سے گفتگو کرتے تھے حضرت امام حسن عسکری (ع) نے اللہ تعالی کے حکم اور پیغمبر اکرم (ص) کی وصيّت کے تحت آپ (ع) کو اپنے بعد کے لئے لوگوں کا امام معيّن فرمایا:

امام زمانہ (ع) اپنے والد کے بعد منصب امامت پر فائز ہوئے اور بچپن سے ہی اس خاص ارتباط سے جو وہ خدا سے رکھتے اور اللہ نے انہیں علم عنایت فرمایا تھا، لوگوں کی رہنمائی اور فرائض امامت کو انجام دیا کرتے تھے اللہ نے اپنی بے پناہ قدرت سے آپ (ع) کو ایک طویل عمر عنایت فرمائی ہے اور آپ (ع) کو حکم دے دیا ہے کہ غیبت اور پردے میں زندگی گزاریں اور پاک دلوں کی اللہ کی طرف رہنمائی فرمائیں اب حضرت حجت امام زمانہ (عج) نظروں سے غائب اور پوشیدہ ہیں لیکن لوگوں کے درمیان آمد و رفت کرتے ہیں اور لوگوں کی مدد کرتے ہیں اور اجتماعات میں بغیر اس کے کہ کوئی آپ (ع) کو پہچان سکے شرکت

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285