‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) جلد ۲

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) 20%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 285

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 285 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 121674 / ڈاؤنلوڈ: 4311
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

تمام مہمان چپ بیٹھے تھے کسی نے بھی اس آسمانی دعوت کو جواب نہیں دیا: صرف حضرت علی (ع) کہ جن کی عمر تقریباً چودہ سال کی تھی اٹھے اور کہا اے خدا کے رسول(ص) : میں حاضر ہوں کہ آپ(ص) کی نصرت و مدد کروں_ پیغمبر اسلام (ص) نے محبت کے انداز میں حضرت علی علیہ السلام کو دیکھا اور پھر اپنی گفتگو کو دوبارہ حاضرین کے لئے دہرایا اور آخر میں دوبارہ پوچھا کون میرے اس کام میں مدد کرنے کے لئے تیار ہے تا کہ میرا بھائی اور وزیر اور وصی او رجانشین اور خلیفہ ہو؟ اس دفعہ بھی پیغمبر اسلام (ص) کی آسمانی دعوت کا کسی نے جواب نہیں دیا تمام چپ بیٹھے رہے_

حضرت علی علیہ السلام نے اس سکوت کوتوڑتے ہوئے محکم ارادے اور جذبے بھرے انداز میں کہا یا رسول اللہ میں حاضر ہوں کہ آپ(ص) کی مدد کروں میں حاضر ہوں کہ آپ(ص) کی اعانت کروں پیغمبر اسلام (ص) نے محبت بھری نگاہ اس فداکار نوجوان پر ڈالی اور اپنی بات کا تیسری بار پھر تکرار کیا اور کہا_ اے میرے رشتہ دارو میں دنیا اور آخرت کی تمام بھلائیاں تمہارے لئے لایا ہوں مجھے محکم ہوا ہے کہ تمہیں خداپرستی اور توحید کی دعوت دوں کون ہے کہ اس کام میں میری مدد کرے تا کہ وہ میرا بھائی اور وزیر، وصی، اور جانشین و خلیفہ ہو اس دفعہ بھی تمام خاموش تھے فقط حضرت علی علیہ السلام ان کے درمیان سے اٹھے اور محکم ارادے سے کہا یا رسول اللہ(ص) میں حاضر ہوں کہ آپ(ص) کی مدد کروں میں آپ(ص) کے تمام کاموں میں مدد کروں گا اس وقت مہمانوں کی حیرت زدگی کے عالم میں پیغمبر اسلام (ص) نے حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ پکڑا

۱۲۱

اور ان کے مدد کے معاہدہ اور پیمان کو قبول فرمایا اور مہمانوں میں اعلان کیا_ کہ یہ نوجوان میرا بھائی میرا وزیر میرا وصی اور میرا خلیفہ ہے اس کی بات کو سنو اور اس پر عمل کرو بہت سے مہمان ناراض ہوئے وہ وہاں سے اٹھے اور پیغمبر اسلام(ص) کی باتوں کا مزاق اڑانے لگے اور ابوطالب (ع) سے کہنے لگے کہ آج سے علی علیہ السلام تمہارا حاکم ہوگیا ہے_ محمد(ص) نے حکم دیا ہے کہ تم اپنے بیٹے کی باتوں کو سنوں اور اس پر عمل کرو اور اس کی پیروی کرو_

سوالات

۱)___ پیغمبر اسلام(ص) لوگوں کو ابتداء میں اسلام کے لئے کیسے مدعو کرتے تھے اور کتنے عرصہ تک ایسا کرتے رہے؟

۲)___ پیغمبر اسلام(ص) لوگوں کو کس غرض اور ہدف کی طرف دعوت دیتے تھے اور ان سے کیا چاہتے تھے؟

۳)___ تین سال کے بعد اللہ تعالی کا آپ(ص) کو کیا حکم ملا؟

۴)___ پیغمبر اسلام (ص) نے حکم کی تعمیل کے لئے کیا کیا ؟

۵)___ جب مہمان گھر سے باہر نکلتے تھے تو ایک دوسرے سے کیا کہتے تھے نیز انہوں نے ابولہب سے کیا کہا؟

۶)___ دوسرے دن کی مجلس میں پیغمبر (ص) نے اپنے رشتہ داروں سے کیا فرمایا تھا اور ان سے کس چیز کا مطالبہ کیا تھا ؟

۱۲۲

۷)___ کس نے پیغمبر اسلام(ص) کی دعو کا مثبت جواب دیا اور کیا کہا؟

۸)___ پیغمبر اسلام (ص) نے حضرت علی (ع) کا تعارف کس عنوان سے کرایا؟

۹)___ مہمانوں نے حضرت رسول (ص) کی بات کا کیا مطلب سمجھا اور اسے جناب ابوطالب (ع) سے کس انداز میں کہنا شروع کیا؟

اپنے دوستوں کو بلایئےہ واقعہ کو سنایئےور اس موضوع پر ان سے گفتگو کیجئے تا کہ اس پیغام کے پہنچانے میں آپ اپنی ذمہ داری کو ادا کرسکیں؟

۱۲۳

پندرہواں سبق

صبر و استقامت

ابتدائے اسلام میں مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی اور جو تھے بھی ان کی اکثریت فقیر، کا رکن اور مزدور قسم کے لوگوں کی تھی لیکن اللہ اور اس کے پیغمبر(ص) پر صحیح اور پختہ ایمان لاچکے تھے_ اللہ پر ایمان کو قیمتی سرمایہ جانتے تھے دین اسلام کی عظمت کے قائل تھے اور اس عظیم دین اسلام کی حفاظت کے لئے کوشش کرتے تھے اور اسلام کی ترقی کے لئے جان کی قربانی تک پیش کردیتے اور استقامت دکھلاتے تھے وہ صحیح بامراد، مستقل مزاج اور فدا ہونے والے انسان تھے_

مكّہ کے طاقتور اور بت پرست نئے نئے مسلمان ہونے والوں کا مذاق اڑاتے اور گالیاں دیتے اور ناروا کلمات کہتے تھے ان کو بہت سخت کاموں پر لگاتے اور انہیں تکلیفیں پہنچاتے تا کہ دین اسلام

۱۲۴

سے دست بردار اور کافر ہوجائیں_ لوہے کی زرہ ان کے بدن پر پہناتے اور پہاڑ اور میدان کے درمیان تپتے سورج کے سامنے کھڑا کئے رکھتے زرہ گرم ہوجاتی اور ان کے جسم کو جلا ڈالتی پھر ان کو اسی حالت میں پتھروں اور گرم ریت پر گھیسٹتے اور کہتے کہ دین اسلام کو چھوڑ دو اور محمد(ص) کو ناروا اور ناسزا کلمات کہو تا کہ ہم تمہیں ایسے شکنجہ میں نہ ڈالیں لیکن وہ فداکار مسلمان تھے لہذا وہ سخت شکنجوں کو برداشت کرتے تھے اور اللہ پر ایمان اور حضرت محمد(ص) کی پیروی سے دست بردار نہ ہوتے تھے اور اللہ پر ایمان اور حضرت محمد(ص) کی پیروی سے دست بردار نہ ہوتے تھے انہوں نے اتنا صبر اور استقامت کا ثبوت دیا کہ مكّہ کے بہانہ باز بت پرست تھک گئے اور اپنی کمزوری اور پریشانی کا اظہار کیا ان بہادر مسلمانوں کا ایمان اور ان کی استقامت تھی کہ جس نے اسلام کو نابود ہونے سے محفوظ رکھا عمّار ایسے ہی بہادر مسلمانوں میں ایک تھے ظالم بت پرست انہیں اور ان کے باپ یاسر اور ان کی ماں سميّہ کو پکڑ کر شہر سے باہر لے جاتے اور گرم و جلا دینے والی ریت پر مكّہ کے اطراف میں دوپہر کے وقت مختلف اذیتیں دیتے عمّار کی ماں کہ جس پر ہمارے بہت درود و سلام ہوں پہلی عورت ہیں جو اسلام کے راستے میں شہید ہوئیں جب پیغمبر(ص) ان کی دردناک اذیتوں سے مطلع ہوتے اور ان فداکار مسلمانوں کا دفاع نہ کرسکتے تھے تو ان کی حوصلہ افزائی کرتے اور فرماتے کہ صبر و استقامت سے کام لو اپنے ایمان اور عقیدہ کو محفوظ رکھو کیونکہ سب کو آخرت ہی کی طرف لوٹنا ہے اور تمہارے لئے اللہ کا وعدہ بہشت بریں ہے یہ تمہیں معلوم ہونا چاہیئے آخر کار تم ہی کامیاب

۱۲۵

ہوگے بلال بھی ان بہادر اور فداکار مسلمانوں میں سے ایک تھے وہ دین اسلام کو اپی جان سے زیادہ عزیز سمجھتے تھے ظالم انسان انھیں دوپہر کے وقت جلتی دھوپ میں ریت پر لٹاتے اور بہت بڑا پتھر ان کے سینے پر رکھ دیتے تھے اور ان سے مطالبہ کرتے تھے کہ وہ دین اسلام سے پھر جائیں اور خدا و پیغمبر اسلام (ص) کو ناسزا کلمات کہیں اور بتوں کی عظمت بیان کریں لیکن وہ بجائے اس کے کہ اسلام کا انکار کرتے اور بتوں کی تعریف کرتے ہمیشہ یہی کہتے تھے، احد، احد، یعنی ایک خدا، ایک خدا، صمد، صمد، یعنی بے نیاز اور محتاجوں کی پناہ گاہ خدا_

اسلام کے فدائیوں نے تکلیفیں اٹھائیں اور مصیبتیں برداشت کیں اور اس طرح دین اسلام کی حفاظت کی اور اسے ہم تک پہنچایا_ اب دین اسلام کے راستے میں ہماری فداکاری اور جہاد کاوقت ہے دیکھیں کس طرح ہم اتنی بڑی ذمہ داری سے عہدہ براء ہوتے ہیں_

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ وہ مسلمانوں جو صحیح ایمان لائے تھے ان کی صفات کیسی تھیں؟

۲)___ بت پرست مسلمانوں کو کیوں تکلیفیں اور اذیتیں پہنچاتے تھے؟

۱۲۶

۳)___ صبر کا کیا مطلب ہے ان سچّے مسلمانوں کا دین کے راستے میں صبر کس طرح تھا؟

۴)___ اسلام میں پہلے شہدی کا نام کیا ہے اور وہ کس طرح شہید ہوا؟

۴)___ ہمارے پیغمبر(ص) نے ان فداکار مسلمانوں سے کیا فرمایا اور ان کی کیسے دلجوئی کی؟

۵)___ بلال کون تھے بت پرست ان سے کیا چاہتے تھے اور وہ جواب میں کیا کہتے تھے؟

۷)___ دین اسلام کو صحیح مسلمانوں نے کس طرح حفاظت کی؟

۸)___ اسلام کے قوانین کی حفاظت اور اس کے دفاع کے بارے میں ہماری کیا ذمّہ داری ہے؟

۱۲۷

سولہواں سبق

دین اسلام کا تعارف

ابتدائے اسلام میں مسلمانوں کی تعداد بہت تھوڑی تھی مكّہ کے بت پرست ان مسلمانوں سے دشمنی اور مخالفت کرتے تھے اور انھیں تکلیف پہنچاتے تھے مسلمانوں کے پاس چونکہ قدرت اور طاقت نہ تھی وہ ان بت پرستوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے انہوںیہی بہتر سمجھا کہ حبشہ کی طرف ہجرت کرجائیں تا کہ ملک میں دین اسلام پر آزادانہ عمل کرسکیں اسی نظریہ کے تحت گروہ در گروہ کشتی پر سوار ہوتے اور مخفی طور پر حبشہ کی طرف ہجرت کرجاتے_

حبشہ کا بادشاہ نجّاشی تھا (نجّاشی حبشہ کے چند ایک بادشاہوں کا لقب تھا) یہ عیسائی تھا مسلمانوں کے وہاں پہنچنے سے باخبر ہوا تو ان کو مہربانی اور خوش اخلاقی سے پناہ دی_ جب مكّہ کے بت پرستوں کو

۱۲۸

مسلمانوں کے ہجرت کرجانے کی اطلاع ملی تو بہت ناراض اور غضبناک ہوئے دو آدمیوں کو بہت قیمتی تحائف دے کر حبشہ روانہ کیا تا کہ مسلمانوں کو وہاں سے پکڑ کر مكّہ واپس لے آئیں_ وہ دو آدمی حبشہ آئے اور نجاشی کے پاس گئے اور اس کی تعظیم بجالائے اور اسے تحائف پیش کئے نجّاشی نے پوچھا کہاں سے آئے ہو اور کیا کام ہے انہوں نے کہا کہ ہم آپ کے دیدار کے لئے شہر مكّہ سے آئے ہیں ہمارے نادان جوانوں میں سے ایک تعداد ہمارے دین سے خارج ہوگئی ہے اور ہمارے بتوں کی پرستش سے ہاتھ اٹھایا ہے یہ آپ کے ملک میں بھاگ کر آگئے ہیںمكّہ کے اشراف اور سردار آپ سے تقاضہ کرتے ہیں کہ ان کو پکڑ کر ہمارے حوالے کردیں تا کہ ان کو ہم اپنے شہر لے جائیں اور انہیں سزا و تنبیہ کریں، نجّاشی نے ان دونوں سے کہا کہ مجھے تحقیق کرنی ہوگی اس کے بعد نجّاشی نے مسلمانوں کو اپنے محل میں دعوت دی اور عیسائی علماء کے سامنے ان سے سوالات کئے نجّاشی نے مسلمانوں سے پوچھا کہ تمہارا اس سے پہلے کیا دین تھا اب تمہارا کیا دین ہے کیوں ہمارے ملک میں ہجرت کی ہے جناب جعفر ابن ابی طالب (ع) نے جو ایک فداکار او رمومن جو ان تھے جواب دیا کہ ہمارے شہر میں طاقت ور کمزوروں پر ظلم کرتے ہیں وہاں کے لوگ بت پرست ہیں مردار گوشت کھاتے ہیں برے اور ناپسندیدہ کام انجام دیتے ہیں اپنوں کے ساتھ باوفا اور مہربان نہیں ہیں_ ہمسایوں کو تکلیف دیتے ہیں ان حالات میں اللہ تعالی نے ہمارے لئے ایک پیغمبر جو ہمارے در میان سچائی اور امانت میں مشہور ہے بھیجا ہے وہ ہمارے لئے

۱۲۹

اللہ تعالی کی طرف سے دین اسلام لایا ہے، دین اسلام اس وقت نجّاشی نے اپنی جگہ س حرکت اور تھوڑاسا آگے بڑھا تا کہ غور سے سنے کہ دین اسلام کیا ہے اور کیا کہتا ہے_

جناب جعفر تھوڑی دیر کے لئے چپ ہوگئے اور ایک نگاہ عیسائی علماء کی طرف کی اور کہا کہ دین اسلام ہمیں کہتا ہے کہ بت پرستی نہ کرو اور ایک خدا کی عبادت کرو اور صرف اسی کے حکم کو قبول کرو دین اسلام ہمیں کہتا ہے: سچّے بنو_ امانت دار بنو وفادار ہوجاؤ رشتہ داروں کے ساتھ مہربانی کرو_ ہمسایوں سے اچھائی کرو_ کسی کا رشتہ داروں کے ساتھ مہربانی کرو_ ہمسایوں سے اچھائی نہ کرو، کسی کو گالیاں نہ دو، لغو اور بیہودہ کلام نہ کرو، یتیم کا مال ظلم سے نہ کھاؤ نماز پڑھو، اور اپنے مال کا کچھ حصّہ اچھے کاموں میں خرچ کرو نجاشی اور عیسائی علماء خوب غور سے سن رہے تھے اور آپ کی گفتگو سے لذّت حاصل کر رہے تھے لیکن وہ دو آدمی غصّے سے اپنے ہونٹوں کو چبا رہے تھے اور غصّے کے عالم میں مسلمانوں کو دیکھ رہے تھے_

جناب جعفر نے اپنی گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے کہا_ اے حبشہ کے بادشاہ دین اسلام کو حضرت محمد(ص) اللہ کی طرف سے لائے ہیں ہم نے اسے قبول کیا ہے اور خدا و اس کے پیغمبر(ص) پر ایمان لائے ہیں اور مسلمان ہوگئے ہیں مكّہ کے بت پرست اس سے ناراض ہوئے اور جتنا ہوسکتا تھا انہوں نے ہمیں تکلیف پہنچائی اور اذیتیں دیں_ ہم مجبور ہوئے کہ اپنے شہر سے ہجرت کر کے اس ملک میں پناہ لیں تا

۱۳۰

کہ اللہ تعالی کی عبادت کرسکیں اور اپنے مذہب کے اعمال اور عبادات کو آزادنہ طور پر بجالاسکیں_

نجاشی حضرت جعفر کی گفتگو سن کر خوش ہوا اور کہا کہ تمہارے پیغمبر(ص) کے کلام اور جناب عیسی علیہ السلام کے کلام کا سرچشمہ ایک ہے دونوں اللہ کے کلام ہیں تم اس ملک میں آزاد ہو تو اپنے دین کے اعمال کو اور عبادت کو آزادانہ طور سے انجام دے سکتے ہو اور دین اسلام پر باقی رہو واقعی کتنا اچھا دین ہے_

اس کے بعد ان دو بت پرستوں کو آوازدی اور کہا کہ میں رشوت نہیں لیتا جو چیزیں تم لائے تھے انھیں اٹھا لو اور جلدی یہاں سے چلے جاؤ_

یقین جانو کہ میں مسلمانوں کو تمہارے حوالہ نہیں کروں گا جتنا جلدی ہو مكّہ لوٹ جاؤ_

وہ دو آدمی تحائف کو لیکر شرمندہ باہر نکلے اور مكّہ کی طرف چلے گئے_

سوالات

۱)___ ہجرت کے کیا معنی ہیں مسلمانوں نے کیوں ہجرت کی_

۲)___ حبشہ کے بادشاہ کیا دین تھا اور مسلمانوں کو کیوں واپس نہ کیا؟

۱۳۱

۳)___ جعفر کون تھے انہوں نے عیسائی علماء کے سامنے پیغمبر(ص) اور دین اسلام کے متعلق کیا گفتگو کی؟

۴)___ اگر آپ سے دین اسلام اور پیغمبر(ص) کے بارے میں سوال کیا جائے تو کیا جواب دیں گے؟ اسلام اور پیغمبر(ص) کا کیسے تعارف کروائیں گے؟

۵)___ نجّاشی نے جناب جعفر کی گفتگو سننے کے بعد کیا کہا_ بت پرستوں کے ساتھ کیا سلوک کیا اور کیا ان کے تحائف کو قبول کرلیا_ اور کیوں؟

۱۳۲

سترہواں سبق

مظلوم کا دفاع

ایک بوڑھا آدمی کسی بیابان میں رہتا تھا اونٹوں کی پرورش اور نگہبانی کرتا تھا اونٹوں کو شہروں میں لے جا کر بیجتا اور اس سے اپنے گھر بار اور بچّوں کی ضروریات خریدتا تھا ایک دفعہ اونٹوں کو لیکر مکہ گیا_ لوگ اس کے اردگرد جمع تھے اور اونٹوں کی قیمت کے متعلق گفتگو کر رہے تھے اچانک ابوجہل آیا اور دوسروں کی پرواہ کئے بغیر اس بوڑھے آدمی سے کہا کہ اونٹ صرف مجھے فروخت کرنا صرف مجھے سمجھ گئے دوسروں نے جب ابوجہل کی سخت لہجے میں بات سنی تو سب وہاں سے چلے گئے اور اسے اس بوڑھے اونٹ فروش کے ساتھ تنہا چھوڑ دیا ابوجہل نے کہا کہ اونٹ میرے گھر لے آؤ اس بوڑھے آدمی نے اس کے حکم کی تعمیل کی اور اونٹ اس کے گھر پہنچا دیئےور روپیہ کا تقاضہ کیا ابوجہل نے بلند آواز سے

۱۳۳

کہا کون سا روپیہ میں اس شہر کا سردار ہوں اگر چاہتے ہو پھر مكّہ آؤ اور اونٹ فروخت کرو تو پھر تمہیں چاہیے کہ اونٹوں کا روپیہ مجھ سے نہ لو سمجھ گئے بوڑھے آدمی نے کہا کہ یہی اونٹ میرا سارا سرمایہ ہے میں نے اس کی پرورش اور حفاظت میں بہت مصیبتیں اٹھائی ہیں اس سرمایہ سے چاہتا تھا کہ اپنے اور اپنے گھر والوں کے لئے روزی مہيّا کروں اس لئے تمہیں زیب نہیں دیتا کہ میں خالی ہاتھ لوٹ جاؤں اور تمام زندگی اور کام سے رہ جاؤں چونکہ ابوجہل ایک ظالم اورخودپسند آدمی تھا بجائے اس کے کہ اس کا حق ادا کرتا غضبناک ہو کر کہا کہ تم نے وہ نہیں سنا جو میں نے کہا ہے بہت جلدی یہاں سے دفع ہوجاؤ ورنہ کوڑوں سے تیرا جواب دوں گا سمجھ گئے اس بوڑھے آدمی نے دیکھا کہ اگر تھوڑی دیر اور بیٹھتا ہوں تو ممکن ہے کہ مار بھی کھاؤں مجبور ہوکر وہ اس ظالم بے رحم کے گھر سے اٹھ کر چلا گیا راستے میں اپنے واقعہ کو چند گزرنے والوں سے بیان کیا اور ان سے مدد مانگی لیکن کوئی بھی اس کی مدد کرنے کو تیار نہ ہوا بلکہ وہ جواب دیتے کہ ابوجہل ہمارا شہری ہے وہ قریش میں سے طاقت ور آدمی ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے اسے کوئی بھی روک نہیں سکتا وہ بوڑھا آدمی گلی کوچہ میں سرگردان جارہا تھا کہ مسجد الحرام تک پہنچ گیا وہاں قریش کی عمومی مجلس میں ابوجہل کی شکایت کی دو آدمیوں نے از راہ مذاق اس بوڑھے آدمی سے کہا اس آدمی کو دیکھو_ یہ محمد(ص) ہے اس نے کہنا شروع کیا ہے کہ میں خدا کا آخری پیغمبر ہوں وہ ابوجہل کا دوست ہے وہ تیرا حق ابوجہل سے لے سکتا ہے جاؤ اس کے پاس وہ جھوٹ

۱۳۴

بول رہے تھے ہمارے پیغمبر(ص) ابوجہل کے دوست نہ تھے بلکہ اس کے اور اس کے کاموں کے دشمن تھے خدا نے حضرت محمد(ص) کو پیغمبری کے لئے چنا تھا تا کہ وہ ظالموں کے دشمن رہیں اور ان کے ساتھ مقابلہ کریں اور بہادر نیک لوگوں کی مدد سے ظالموں اور خودپسندوں کو ختم کریں خدا نے حضرت محمد(ص) کو لوگوں کی رہبری کے لئے بھیجا تھا تا کہ اجتماع میں عدل اور انصاف کو برقرار رکھیں اور لوگ آزادانہ خدا کی پرستش کریں وہ جھوٹ بول رہے تھے لیکن بوڑھا مظلوم انسان ان کی باتوں کو صحیح خیال کر رہا تھا وہ سمجھتا تھا کہ واقعی حضرت محمد(ص) ابوجہل کے دوست ہیں لہذا وہ بوڑھا آدمی حضرت محمد(ص) کے پاس آیا تا کہ آپ(ص) سے مدد کرنے کی درخواست کرے جو لوگ قریش کی عمومی مجلس میں بیٹھے ہوے تھے ہنس رہے تھے اور مذاق کر رہے تھے اور کہتے تھے کون ہے جو ابوجہل سے بات کرسکتا ہے وہ قریش کا طاقتور انسان ہے کسی میں جرات نہیںکہ اس کی مخالفت کرے ابوجہل محمد(ص) کو بھی مارے گا اور وہ شرمندہ واپس لوٹیں گے وہ بوڑھا آدمی حضرت محمد(ص) کے پاس پہنچا اور اپنی سرگزست بیان کی اور آپ سے مدد چاہی حضرت محمد(ص) نے اس کی شکایت کو غور سے سنا اور فرمایا کہ میرے ساتھ آو وہ بوڑھا آدمی پیغمبر اسلام(ص) کے ساتھ ابوجہل کے گھر پہنچا کچھ آڈمی تھوڑے فاصلے پر ان کے پیچھے ہولئے تا کہ دیکھیں کہ اس کا نتیجہ کیا ہوتا ہے ابوجہل کے گھر پہنچے اونٹوں کی آواز اوبجہل کے گھر سے سنائی دے رہی تھی پیغمبر اسلام (ص) نے دروازہ کھٹکھٹایا ابوجہل نے سخت لہجے میں کہا کہ

۱۳۵

کون ہے دروازہ کھولو محمد(ص) ہوں: بوڑھے آدمی نے جب ابوجہل کی سخت آواز سنی تو چند قدم پیچھے ہٹ کر علیحدہ کھڑا ہوگیا ابوجہل نے دروازہ کھولا_ حضرت محمد صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک جائزہ لیا اور پھر تیز نگاہ سے اسے دیکھا اور سخت غصّے کی حالت میں فرمایا اے ابوجہل کیوں کیوں کھڑے ہو جلدی کرو اس کے پیسے دو ابوجہل گھر گیا جو لوگ دور کھڑے تھے انہوں نے گمان کیا کہ ابوجہل اندر گیا ہے تا کہ چابک یا تلوار اٹھالائے گا لیکن ان کی امید کے برعکس وہ پریشان حالت میں گھر سے باہر آیا اور لرزتے ہاتھ سے اشرفیوں کی ایک تھیلی بوڑھے آدمی کو دے دی بوڑھے آدمی نے وہ تھیلی لے لی_ پیغمبر اسلام(ص) نے اس سے فرمایا کہ تھیلی کو کھولو اور روپیہ گن کر دیکھو کہیں کم نہ ہوں اس بوڑھے آدمی نے روپیہ گنا اور کہا کہ پورے ہیں اس نے پیغمبر اسلام(ص) کا شکریہ ادا کیا جو لوگ دور سے اس واقعہ کا مشاہدہ کر رہے تھے انہوں نے تعجب کیا اس کے بعد جب ابوجہل کو دیکھا تو اسے ملامت کی اور کہا کہ محمد(ص) سے ڈرگیا تھا کتنا ڈرپوک ہے تو ابوجہل نے جواب میں کہا وہ جب میرے گھر آئے اور غصّے سے مجھے دیکھ کر روپیہ دینے کے لئے کہا تو اس قدر خوف اور اضطراب مجھ پر طاری ہوا کہ میں مجبور ہوگیا کہ ان کے حکم پر عمل کروں اور اونٹوں کی قیمت ادا کروں اگر تم میری جگہ ہوتے تو اس کے سوا کوئی چارہ تمہارے لئے بھی نہ ہوتا_

اس دن کے بعد جب بھی ابوجہل اور اشراف مكّہ اکٹھے مل کر

۱۳۶

بیٹھتے اور حضرت محمد(ص) اور آپ کے اصحاب کے متعلق گفتگو کرتے تو کہتے کہ محمد(ص) کے پیروکاروں کو اتنی تکلیفیں دیں گے وہ محمد(ص) کو تنہا چھوڑدیںگے اور دین اسلام سے دست پردار ہوجائیں گے محمد(ص) کو اتنا تنگ کریں گے کہ پھر وہ ہم سے مقابلہ نہ کرسکیں گے اور کمزوروں کا حق ہم سے وصول نہ کرسکیں گے آپ کی سمجھے ہیں کیا تکلیف دینے اور اذیتیں پہنچانے سے سچے مسلمانوں نے دین اسلام کو چھوڑ دیا تھا؟

کیا آپ سمجھتے ہیں کہ پیغمبر اسلام(ص) نے ان سے مقابلہ کرنا چھوڑ دیا تھا کہ آپ سمجھتے ہیں کہ پھر پیغمبر اسلام(ص) نے مظلوموں کی مدد نہیں کی ...؟

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ کیاہمارے پیغمبر(ص) ابوجہل کے دوست تھے خدا نے آپ(ص) کو کس غرض کے لئے پیغمبری کے لئے چنا تھا؟

۲)___ لوگوں نے اس بوڑھے آدمی کی مدد کیوں نہ کی؟

۳)___ جب وہ آدمی لوگوں سے مدد مانگتا تھا تو اس کو کیا جواب ملتا تھا اور کیا ان کا جواب درست تھا اور اگر درست نہیں تھا تو کیوں؟

۴)___ اگر کوئی تم سے مدد طلب کرے تو اسے کیا جواب دوگے؟

۵)___ تم نے آج تک کسی مظلوم کی مدد کی ہے اور کسی طرح بیان کیجئے؟

۱۳۷

۶)___ ہمارے پیغمبر(ص) ابوجہل سے کیسے پیش آئے اور اس سے کیا فرمایا؟

۷)___ پیغمبر اسلام(ص) کے اس کردار سے آپ کیا درس لیتے ہیں اور کس طرح پیغمبر(ص) کے اس کردار کی آپ پیروری کریں گے؟

۸)___ بت پرستوں نے کیوں مسلمانوں کو اذیتیں پہنچانے کا ارادہ کیا تھا؟

۱۳۸

اٹھارہواں سبق

خدا کا آخری پیغمبر حضرت محمد(ص)

اللہ تعالی نے جب سے محمد مصطفی (ص) کو پیغمبری کے لئے چنا ہے انہیں اپنا آخری پیغمبر قرار دیا ہے ہمارے پیغمبر گرامی قدر نے اس ابتدائی دعوت کے وقت سے اللہ تعالی کے حکم سے خود کو آخری نبی ہونے کا اعلان کردیا تھا یعنی اعلان کیا تھا کہ میں اللہ کا آخری پیغمبر ہوں میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں آئے گا تمام وہ لوگ جو ابتداء اسلام میں آنحضرت(ص) پر ایمان لائے تھے اور مسلمان ہوئے تھے جانتے تھے کہ آپ خدا کے آخری پیغمبر ہیں قرآن کریم نے بھی جو اللہ کا کلام اور پیغمبر اسلام(ص) کا دائمی معجزہ ہے_

حضرت محمد مصطفی (ص) کو آخری پیغمبر بتلایا ہے قرآن فرماتا ہے کہ محمد(ص) رسول خدا اور خاتم النبین ہیں لہذا جو مسلمان ہیں اور قرآن کو اللہ کی کتاب مانتے ہیں حضرت محمد(ص) کو اللہ کا آخری پیغمبر تسلیم کرتے ہیں_

۱۳۹

ہمارا یہ ایمان ہے کہ اسلام کا آئین اتنا دقیق اور کامل ہے کہ حق طلب انسانوں کو ہمیشہ اور ہر وقت سعادت اور کمال تک پہنچاتا ہے وہ خدا جو تمام انسانوں کی ضروریات کو تمام زبانوں میں جانتا تھا قرآن کے تربیتی پروگرام کو اس طرح دقیق اور کامل و منظّم کیا ہے کہ انسان کے کمال کی ضروریات مہيّا کردی ہیں اسی لئے جتنا بھی انسان ترقی کرجائے اور اس کے علم و کمال میں زیادتی ہوجائے پھر بھی قرآن کا جو اللہ کا کلام اور اس کی طرف سے ہدایت ہے اسی طرح محتاج ہے جس طرح اللہ کی دوسری مخلوقات جیسے پانی، سورج، ہوا، و غیرہ ہمیشہ او رہر حالت میں محتاج ہیں_

انسان کی اسلامی تربیت کا آئین قرآن میں ہے اور قرآن آسمانی کتابوں کی آخری کتاب ہے اور دین اسلام کی ہمیشہ رہنے والی کتاب ہے کہ جس کی خداوند عالم نے فداکار مسلمانوں کی مدد سے محافظت کی ہے اور ہم تک پہنچایا ہے یہ عظیم کتاب انسان کی تربیت کا کامل ترین آئین ہے اسی لئے اللہ تعالی نے دین اسلام کو آخری آسمانی دین اور ہمارے پیغمبر(ص) کو آخری پیغام لے آنے والا بتلایا ہے_

ان مطالب کو دیکھتے ہوئے مندرجہ ذیل جملے مکمل کیجئے

۱)___ اللہ تعالی نے جب سے حضرت محمد(ص) کو پیغمبری کے لئے چنا ہے انھیں___ دیا ہے

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

5.بخاری اور مسلم نے پنجشنبہ کی مصیبت کے نام جو واقعہ مشہور ہے اس کا تذکرہ کیا ہے پنچشنبہ اپنی زندگی کے آخری پنجشنبہ کو جب پیغمبر(ص) نے چاہا تھا کہ ایسی تحریر و حوالے کر دیں کہ آپ کی امت قیامت تک گمراہی سے محفوظ ہوجائے پیغمبر(ص) کے اس ارادے کو رد کر دیا گیا تھا دونوں محدثین یعنی بخاری اور مسلم نے اس واقعہ کو تو لکھا ہے لیکن اس جسور کا نام گول کر گئے ہیں جس نے نبی(ص) کو رد کیا تھا اسی طرح رد کرنے والے کا یہ جملہ نہیں لکھا ہے کہ پیغمبر(ص) ہذیان بک رہے ہیں.(1) لیکن جب کسی مجبوری کے تحت رد کرنے والے کا نام بتانا ہی پڑتا ہے تو پھر بڑی ذہانت سے عمر کی زبان سے نکلے ہوئے جملے میں تحریف کر دی اور یہ لکھا کہ قول پیغمبر(ص) کو رد کرنے والے تو عمر ہی تھے اور انہوں نے یہ کہہ کے پیغمبر(ص) کی تردید کردی کہ نبی(ص) پر درد کا غلبہ ہے.(2)

6. اس جھوٹی عمر ابن عاص کی یہ حدیث بھی آپ کی نظروں سے گذر چکی ہے جس میں حضور(ص) نے فرمایا کہ آل ابوطالب میرے اولیا نہیں ہیں بلکہ میرا ولی اللہ اور صالح المومنین ہے(3) اس حدیث کو مسلم اور بخاری دونوں نے لکھا ہے.

7. اس جھوٹی اور نا معقول حدیث کو بھی بخاری اور مسلم نے لکھنا بہت ضروری سمجھا ہے جو ابھی گذر چکی ہےکہ مسلمانوں نے ابوسفیان سے معاملہ کر لیا اور وہ نبی کے پاس اپنی گذارشات لے کے آیا تھا حالانکہ وہ مورخین کے اجماع کے صریحا خلاف ہے مورخین کا اس بات پر اجماع ہے کہ نیی(ص) نے ابوسفیان کے اسلام لانے کے پہلے ام حبیبہ سے عقد کیا تھا.

نمونے کے طور پر چند حدیثیں دونوں حضرات کی کتاب سے پیش کی گئی ہیں تاکہ ثابت ہوسکے کہ یہ لوگ دشمنان اہل بیت(ع) کو حدیثوں کے اندر کتنا اوپر اٹھاتے ہیں اور اہل بیت(ع) کی کتنی تخفیف

......................................

1.صحیح بخاری، ج3، ص111. کتاب الجہاد والسیر، صحیح مسلم، ج3، ص1259.

2.صحیح بخاری، ج5، ص2146، صحیح مسلم، ج3، ص1259.

3.پہلے سوال کے جواب میں ان کے مصادر کی طرف اشارہ ہوچکا ہے، ج2، ص59.

۱۶۱

اس سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ جمہور اہل سنت کی صحاح خصوصا اصح الکتب صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں رجحان فکر اہل بیت کے خلاف ہے اور ترجیحات اہل بیت(ع) کی ضد میں ہیں.

مسلم اور بخاری کی اہمیت کا سبب

شاید مسلم اور بخاری کی اہل سنت کے نزدیک خصوصیت خاصہ کی وجہ بھی یہی ہے لاشعوری طور پر سہی اہل سنت مسلم اور بخاری کی طرف اسی وجہ سے زیادہ متوجہ ہیں اور ان کتابوں کی تعظیم و احترام میں کوتاہی حرام سمجھتے ہیں سابقہ سوالوں کے تیسرے سوال کے جواب میں عرض کیا جا چکا ہے اہل سنت حضرات اہل بیت(ع) سے انحراف کو بہت ضروری خیال کرتے ہیں اور جہاں اہل بیت(ع) کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے وہاں ان کی دلچسپیاں بڑھ جاتی ہیں ورنہ حدیث کی ہزاروں کتابوں میں مسلم اور بخاری کو خاص ترجیح دینا کوئی معنی نہیں رکھتا.

امام احمد کی تعظیم ان کی مسند سے بے توجہی

میرے مندرجہ بالا دعوے کی روشن دلیل اہل سنت کے امام احمد بن حنبل کے بارے میں متضاد نظریہ ہے امام احمد کی شخصیت اہل سنت کے یہاں بہت اہمیت رکھتی ہے اصول میں ان کو مقدم سمجھا جاتا ہے اس لئے کہ انہوں نے اپنے نظریہ کی وجہ سے تازیانے کھائے ہیں علی بن مدینی کہتے ہیں خدا نے اس دین کی تائید ود آدمیوں کے ذریعہ کی ہے ایک یوم ردہ کے ذریعہ ابوبکر سے اور دوسرے یوم محنت کے ذریعہ احمد سے(1) ابوعبید کہتے ہیں علم از افراد پر منتہی ہوتا ہے جس میں امام احمد سب سے بڑے فقیہ ہیں(2) شافعی کہتے ہیں میں جب بغداد سے نکلا تھا اور تو بغداد شہر میں امام احمد سے افضل اعلم اور افقہ کوئی نہیں تھا(3) امام احمد کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ حنابلہ کے امام ہیں آپ جانتے ہیں کہ حنابلہ اپنے فرعی مسائل میں کتنے سخت ہیں اور ان کا مذہب اصول ستہ کے پہلے بھی موجود تھا چاہے وہ امام

.........................................

1.2.3.تذکرة الحفاظ، ج1، ص432 احمد بن حنبل کے ترجمے میں.

۱۶۲

بخاری ہوں یاان کے بعد آنے والے، ( تو آپ نے دیکھا کہ امام احمد کی اہل سنت کے نزدیک کیا حیثیت ہے اب تاریخ کا ایک عجوبہ ملاحظہ کریں) مترجم غفرلہ.

انہیں امام احمد نے حدیث کی ایک جامع کتاب لکھی گئی مقصد یہ تھا کہ امت اپنے اصول و فروع کے مسائل میں ان کی کتاب کو مرجع قرار دے چنانچہ ابو موسی علی ابن عمر مدینی اپنی سند سے لکھتے ہیں کہ مجھ سے احمد بن حنبل نے کہا میں نے اپنی اس کتاب میں سات سو پچاس سے زیادہ احادیث پیغمبر(ص) جمع کر دی ہیں اور جو بھی رکھا ہے بہت ٹھوک بجا کے رکھا ہے مسلمانوں کے درمیان ہر مختلف فیہ مسئلہ کا جواب اس کتاب میں حدیث پیغمبر(ص) سے دیا گیا ہے پس تم لوگوں کے لئے اس کتاب کو مرجع قرار دیا اور یہ سمجھ لو کہ اس کتاب کے باہر جو کچھ ہے وہ بہر حال حجت نہیں ہے.(1)

عبداللہ بن احمد بن حنبل اپنی سند سے کہتے ہیں میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ آپ وضع کتاب کو کیوں مکروہ سمجھتے ہیں جب کہ آپ نے خود ایک مسند لکھی ہے کہنے لگے میں نے اس کتاب کو امام قرار دیا ہے کہ جب بھی لوگ سنت پیغمبر(ص) میں اختلاف کریں( فیصلہ کے لئے) اسی کتاب کی طرف رجوع کریں.(2)

ابوموسی جن کا تذکرہ ابھی گذر چکا ہے کہتے ہیں امام صاحب نے اپنی اس کتاب میں نہیں حدیث لی مگر صرف ان افراد سے جن کی صداقت اور دیانت ان کے نزدیک ثابت تھی پس جس کی امانت مخدوش تھی امام صاحب نے ان سے کوئی حدیث نہیں لی پھر اپنی اسی بات کا ثبوت بھی دیا ہے(3) یہی وجہ ہے کہ سبکی کہتے ہیں احمد بن حنبل کی مسند امت کی اصولی کتاب ہے،(4) اور سیوطی کہتے ہیں مسند احمد میں جو کچھ ہے وہ مقبول ہے.

........................................

1.خصائص مسند احمد، ص13. التقید، ص161، المعقد الارشد،ج1، ص366، حنبل بن اسحاق بن حنبل کے ترجمے میں.

2.خصائص مسند احمد، ص14، التقید، ص161.

3.خصائص مسند احمد، ص14.15.

4.طبقات الثافعیتہ الکبری، ج2، ص21، احمد بن حنبل کی سوانح حیات کے ضمن میں.

۱۶۳

بلکہ جو ضعیف ہے وہ بھی حسن کے قریب ہے(1) ان تمام باتوں کے باوجود احمد بن حنبل کی مسند کا نام صحاح ستہ کی فہرست میں نہیں ہے چہ جائیکہ اس کتاب کو صحیح مسلم اور صحیح بخاری کے مقارن قرار دیا جائے اور ان سے افضل سمجھا جائے بلکہ ہمارے اکثر بھائی تو اس حدیث کو محض اس لئے معمولی بتانا چاہتے ہیں کہ وہ ان کے رجحانات کے خلاف ہے تو کہتے ہیں یہ حدیث سواء مسند احمد ابن حنبل کے کہیں نہیں پائی جاتی ( یعنی اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے) مترجم غفرلہ.

آخر کیوں مسند احمد اتنی غیر اہم کیوں ہوگئی مسند اتنی نا قابل توجہ کیوں ہوگئی آئیے میں آپ کو بتائوں امام صاحب نے ایک بڑی سیاسی غلطی کر دی ہے اس کتاب میں انہوں نے علی اور اہل بیت پیغمبر(ص) کے بہت سارے فضائل نقل کر ڈالے ہیں جب کہ دوسری کتابوں نے اس سے اجتناب کیا ہے اگر برادران اہل سنت اس کتاب کو بھی صحاح میں شمار کرتے یا صحاح سے مقدم مانتے تو اس نظریہ کا نتیجہ ان کے لئے پریشان کن ہوتا اور اس عمل کے نتیجہ سے جو پیچیدہ مسائل پیدا ہوتے ان سے چھٹکار مشکل ہوجاتا.

اب و کتاب احمد کو اصول ستہ سے مقدم بھی سمجھتے ہیں اس کتاب میں مندرجہ حدیثوں کے قبول کرنے کا دعوی بھی کرتے ہیں لیکن اس کے اندر خامیاں ہیں کہ وہ مقام عمل میں اس کی حدیثوں پر بھروسہ نہیں کرتے جب تک ان

حدیثوں کو علم تنقید سے نہیں گذارتے اور ان اصول ضوابط پر پیش نہیں کرتے، یہ تو صحیح ہے کہ اہل سنت مسند احمد کو اصول ستہ سے مقدم جانتے ہیں اور یہ بھی صحیح ہے کہ ان کی مسند میں جو حدیثیں ہیں ان کو قبول کرنے کا دعوی بھی کرتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کتاب میں سلبیات نہیں ہیں اس لئے اس کی ان حدیثوں کو جو منفی پہلو رکھتی ہیں اس وقت تک قبول نہیں کیا جاسکتا جب تک انہیں حجیت کے اصول و ضوابط پر پیش نہ کر دیا جائے ایسے اصول و ضوابط جو صاحبان عقل کے نزدیک شرعی طور پر قابل قبول ہیں، برادران اہل سنت کو بھی اس بات کو

........................................

1.کشف الحخفاء للعجلونی، ج1، ص9 کنز العمال، ج1، ص10.

۱۶۴

سمجھنا چاہئے کہ مسند احمد کی تعریف میں اتنے پر جوش الفاظ استعمال کرنے کا فائدہ کیا ہے، آپ کسی کتاب کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیں اس کی مرکزیت ثابت کرنے کے لئے حسین ترین الفاظ سے اس کے گرد پھول اگا دیں تقدس کی جالی اور تعظیم کے خوبصورت غلاف سے اس کو مزین کردیں مگر اس کا فائدہ کیا ہوگا؟

آپ نے تو مسلم اور بخاری کو کتاب باری کے بعد اصح الکتب قرار دیا آپ کے دہلوی صاحب نے فیصلہ کر دیا کہ جو بخاری اور مسلم کے مندرجات کو کمتر سمجھتا ہے وہ بدعتی اور غیر سبیل مومنین کا راہی ہے، اور بہت سی وہ باتیں بھی لکھی گئیں اور کہی گئیں جو آپ کی تقلید اور شخصیت پرستی کا تقاضہ ہیں لیکن اس سے فائد کیا ہوا اس بوقلمونی کا نتیجہ قرآن مجید کی اس آیت کو پڑھ کے معلوم کر لیں حس میں ارشاد ہوتا ہے، “ جیسے چمکتا ہوا سراب جس کو پیاسا دور سے پانی سمجھتا ہے یہاں تک کہ جب اس کے قریب پہونچتا ہے تو وہاں کچھ نہیں ملتا البتہ اللہ کو اپنے پاتا ہے اور اللہ اس کا پورا پورا حساب کر دیتا ہے اللہ بہت جلد حساب کرنے والا ہے.(1) میرا خیال ہے کہ اس طویل گفتگو کے بعد آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ برادران اہل سنت کے اضطراب کی وجہ یہ ہے کہ ان کے پاس حدیث کے قبول کرنے کا کوئی معیار نہیں، نہ عقلی اصول ان کے پاس ہیں نہ شرعی دلیلیں، جو قیامت میں خدائے تعالی کے سامنے عذر بنا کے پیش کی جاسکیں.جس دن دوست دوست کو کوئی فائدہ نہیں پہونچائے گا اور نہ ان کی مدد کی جائے گی.(2)

پس چہ باید کرد

اب تک کے معروضات کا نتیجہ یہ نکلا کہ اہل سنت کو چاہئے پہلے اپنے اصول جرح و تعدیل کو ٹھیک کریں یعنی نقد و جرح اور رد و قبول احادیث کے لئے ایک اصول بنائیں جو شرع و عقل کے مطابق اور تمام امور میں تمام لوگوں کے نزدیک قابل قبول ہو پھر تھوڑی ہمت سے کام لے کے اور تھوڑی شجاعت کا

.................................

1.سورہ النور، آیت39.

2.سورة الدخان، آیت 41.

۱۶۵

مظاہرہ کر کے اسی اصول پر تمام حدیثوں کو جانچ لیں اور تعصبات و جذبات کو دل سے نکال کے جو حدیثیں اس اصول کے مطابق ہوں اس کو قبول کریں ورنہ رد کردیں.

شیعوں کی سلامت روی

اس معاملے میں الحمد للہ شیعہ سلامت روی کے قائل ہیں دلیلوں کو لازم سمجھتے ہیں اور اپنی دلیلوں پرقائم بھی رہتے ہیں ان کی دلیلیں بندگی یا اجتہاد کا نتیجہ نہیں ہوتیں اور نہ وہ اپنے دین میں تقلید ہی کے قائل ہیں وہ اس طرح کی حدیثوں پر نہ عمل کرتے ہیں نہ قبول کرتے ہیں جو حدیثیں اصول جرح و تنقید کے معیار پر پوری نہیں اترتیں اور جب تک ان کی حجیت معین نہیں ہوجاتی تسلیم نہیں کرتے.

اصول جرح و تعدیل میں بھی وہ صرف اس میزان کو تسلیم کرتے ہیں جو شرع اورعقل کے مطابق ہو اور دین و شریعت کی بنیاد پر ہو اس حیثیت سے کہ جرج و تعدیل میں حق و حقیقت کا لحاظ رکھا جائے اور جرج و تعدیل کے ذریعہ حق تک پہنچا جائے پس ان کے یہاں تعصب اور جذبات کی جرح و تعدیل میں کوئی گنجائش نہیں ہے.

اسی طرح حدیثوں کی بھی صرف ان کتابوں پر اعتماد کرتّے ہیں جن کے مولفین کی دینی اور عرفانی حیثیت تسلیم شدہ ہوتی ہے اور جن کا تورع نا قابل انکار ہوتا ہے اور کوئی بھی نا ائز تنقید ان کے وثوق کو ساقط نہیں کرتی.

پھر بھی وہ اپنی کتابوں کی تمام حدیثوں کو مقطوع الصحت نہیں مانتے حالانکہ ان کے علماء نے ان حدیثوں پر عمل بھی کیا ہے ان کی تصحیح بھی کی ہے لیکن پھر بھی شیعہ پہلے ان حدیثوں کی اسانید پر توجہ دیتے ہیں اور یہ دیکھتے ہیں کہ یہ اپنے موضوع پر دلالت کرتی ہے یانہیں نیز ان ضوابط کے تقاضے پورے کرتی ہے یا نہیں جن پر ہر متجہد اعتماد کرتا ہے سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ان تمام باتوں کی تحقیق کے لئے الحمد للہ ان کے نزدیک اجتہاد کا دروازہ کھلا ہا ہے اور تقلید خارج از دین ہے تقلید صرف وہ کرسکتا ہے جو عامی محض ہےاور ان امور پر نظر کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا.

۱۶۶

یہ اہل بیت اطہار(ع) کا احسان ہے کہ انہوں نے اپنے چاہنے والوں کے ذہن کی تربیت و تادیب ہی اسی انداز سے کی ہخ ان کے اذہان علمی استدلال کے راستوں پر سوچتے ہیں اور اسی علمی استدلا ک اپنے دل میں جگہ دیتے ہیں ہمارے ائمہ(ع) نے اس طریقہ استدلال کو ہمارے یہاں متعارف کرایا ہے اور ہمار علمی ماجول دینی آب و ہوا میں اسی طریقہ استدلال کا حامل رہا ہے، اس اللہ کی حمد جس نے ہمیں اس کی ہدایت دی اگر وہ ہدایت نہیں دیتا تو ہم ہدایت نہیں پاسکتے تھے.(1) ہم اس کے شکر گذار ہیں وہی ہمارے لئے کافی ہے اور وہ بہترین وکیل اور بہترین دوست ہے اور بہترین مددگار ہے.

مطلب الثانی

آپ نے اپنے اس سوال میں کہا: شیعوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اہل بیت کی حدیثوں پر اعتماد کریں جب کہ اہل سنت کے لئے یہ ضروری نہیں ہے یعنی شیعوں کی کتابوں پر اعتماد کرنا اس لئے کہ وہ براہ راست پیغمبر(ص) سے اسانید کے واسطے سے روایت لیتے ہیں اور یہ ان کے لئے کافی ہے کیونکہ وہ ائمہ(ع) کی عصمت کے قائل نہیں ہیں.

میں کہتا ہوں کہ آپ کی باتوں سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آپ کی کتابوں پر اعتماد نہ کرنا قابل تعریف عمل سمجھتے ہیں.

پیغمبر(ص) کی حدیثوں کو سمجھنے سے اہل بیت(ع) کی حدیثوں سے اعراض صحیح نہیں ہے.

1.یہ بات تو بہر حال قابل تعریف ہے کہ اہل سنت احادیث نبی کو کافی سمجھتے ہیں لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ائمہ ہدی علیہم السلام کی حدیثوں سے رو گردانی کر کے وہ کوئی بہت قابل تعریف کام

...........................................

1.سورہ اعراف، آیت43.

۱۶۷

کر رہے ہیں اس لئے کہ اگر احدیث نبوی(ص) کی طرف رجوع کرنا واجب ہے تو پھر احادیث نبوی ہی کی طرف جوع کرنا چاہیئے، چاہے اسناد اور طریقے مختلف ہوں یعنی اہل سنت کے اسناد اور طریقے اگر حجیت کے شرائط کو پورا کرتے ہیں تو ان کے ذریعہ حدیث نبوی کی طرف رجوع کرنا واجب ہے اسی طرح ائمہ اہل بیت(ع) کی حدیثیں بھی جو نبی تک منتہی ہوتی ہیں اور جن کی اسناد میں ائمہ ہدی علیہم السلام راوی ہیں ان کے ذریعہ نبی(ص) کی طرف رجوع کرنا واجب ہے.

بعض احادیث نبوی کو کافی سمجھ کے دوسری احدیث نبوی کی طرف توجہ نہیں دینا بے مطلب بات ہے ورنہ شیعہ بھی ایساکرتے یعنی جو حدیثیں ائمہ اہل بیت(ع) سے شیعوں تک پہنچی ہیں صرف انہیں کو کافی سمجھ کے اہل سنت کے طریقوں سے جو حدیثیں پہنچی ہیں انہیں چھوڑ دیتے لیکن شیعہ ایسا نہیں کرتے بلکہ وہ ان حدیثوں کو بھی قابل توجہ سمجھتے ہیں جو اگرچہ اہل سنت کے طریقوں سے مروی ہیں لیکن حجیت اور دلالت کے معیار پر پوری اترتی ہیں، میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ اہل سنت حضرات صرف مرویات نبوی(ص) کے کافی ہونے کا دعوی کس طرح کرتے ہیں اس لئے کہ ہم دیکھتے ہیں جب احادیث نبوی(ص) میں انہیں مسائل کا جواب نہیں ملتا تو یہی حضرات دوسرے راویوں کی طرف متوجہ ہونے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور احکام حاصل کرنے کے لئے قیاس، استحسان، اور اہل شہرت کے عمل کی طرف رجوع کرتے ہیں اس لئے کہ ان احکام کے سلسلے میں ان کے پاس حدیث نبوی(ص) موجود نہیں ہوتی.

ایک طرف تو یہ حضرات حدیث نبوی(ص) کے کافی ہونے کا دعوی کرتے ہیں اور دوسری طرف ان کے بڑے عالم ابوالمعالی جوینی یہ لکھتے ہیں کہ اہل تحقیق کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ جو قیاس کا منکر ہے اس کو علماء امت شمار نہیں کرنا چاہئے نہ وہ حامل شریعت ہوسکتا ہے اس لئے کہ ایسے لوگ خواہ مخواہ کا عناد رکھنے والے اور ان چیزوں میں ہٹ دھرمی کرنے والے ہیں جس کی حقانیت اور فیض تواتر سے ثابت ہوچکا ہے شریعت کا بڑا حصہ اجتہاد سے ثابت ہوا ہے ورنہ نصوص کی مقدار تو شریعت کے دسویں حصہ کو بھی کافی نہیں ہے( یعنی نصوص ہمارے پاس بہت کم موجود ہیں اگر صرف نصوص پر اکتفا کی

۱۶۸

جائے تو احکام شرعی کا دسواں حصہ بھی نہیں معلوم ہوگا(1) اس لئے قیاس پر عمل کرنا بہت ضروری ہے قیاس کا مخالف امت کا عالم نہیں ہوسکتا) مترجم غفرلہ

ائمہ اہل بیت(ع) کی طرف رجوع کرنے کے فائدے

ائمہ اہل بیت(ع) کی حدیثوں کی طرف رجوع کرنے سے اہل سنت کو بہت سے فائدے حاصل ہوسکتے ہیں.

1. بہت سے اپنے مسائل میں جن میں ائمہ اہل بیت(ع) کے طریقوں سے حدیث موجود ہے لیکن اہل سنت کے

طریقوں سے حدیث نبوی(ص) موجود نہیں ہے اگر اہل سنت یہ طے کر لیں کہ طریق ائمہ سے جو حدیث حاصل ہوتی ہے ان مذکورہ مسائل میں انہیں حدیثوں پر عمل کیا جاسکتا ہے تو پھر قیاس وغیرہ کا محتاج ہونے کی ضرورت نہیں پڑے گی اس لئے کہ اہل سنت کے طریقے سے نہ سہی ائمہ اہل بیت(ع) کے طریقے سے ہی نص تو ان کے پاس بہر حال موجود ہوگی.

2. یہ بھی ہوتا ہے کچھ مسائل کے بارے میں طریق اہل سنت سے بھی حدیث موجود ہے اور طرق ائمہ اہل بیت(ع) سے بھی لیکن طریق اہل بیت(ع) سے جو حدیث ہے وہ اہل سنت کے حدیث کی تشریح اور تفسیر کرتی ہے

اور اس کخ ذرقعہ مقام تفسیر میں جو اختلاف موجود ہے اس کو رفع کیا جاسکتا ہے چونکہ دو حدیثوں میں جمع کی صورت نکالی جاسکتی ہے اور طرق ائمہ سے وارد حدیث طریق اہل سنت سے حاصل شدہ حدیث رفع کرتی ہے جیسا کہ اکثر ہوتا ہے کہ ایک حدیث دوسری حدیث کی تفسیر کرتی ہے تو اہل سنت اس نقطہ نظر سے ائمہ اہل بیت(ع) سے بھی فائدہ حاصل کرسکتے ہیں.

.........................................

1.سیر اعلام النبلاء، ج13، ص105، دائود بن علی کے ترجمے میں.

۱۶۹

3. یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک حدیث طریق اہل سنت سے اور اس کے متعارض دوسری حدیث طریق اہل بیت(ع) سے وارد ہوتی ہے دونوں حدیثیں ایک دوسرے کے متعارض اور متنافی ہیں دونوں میں جمع کی کوئی صورت نہیں ہے نہ ان میں سے ایک دوسرے کی تفسیر کرتی ہے کہ دونوں حدیثوں میں راجح حدیث کو لے لیا جائے جب ترجیحی پہلو نہیں نکلتا ہے تو توقف کرنا طے ہے ایسی صورت میں توقف کا فائدہ حاصل ہوتی ہیں تو وہ لوگ توقف کرتے ہیں اور دونوں میں جمع کی صورت نہیں پیدا ہونے کی وجہ سے دونوں کو ساقط کر دیتے ہیں.

حاصل گفتگو یہ ہے کہ صرف اس لئے کہ اہل سنت کی کتابوں میں صرف احادیث نبوی(ص) کو اپنے طریقوں پر جمع کر دیا ہے اہل بیت(ع) کے طریقوں سے وارد حدیثوں کو چھوڑ دینا اور ان سے روگردانی کرنا قابل تعریف ہے نہ فائدہ مند اس لئے حق کا بعض حصہ بعض دوسرے حصے کے لئے کفایت نہیں کرتا.

( بلکہ ہٹ دھرمی اور تعصب سے دامن بچا کے ہم جب بھی غیر جانبدارانہ نظر ڈالتے ہیں تو عقل یہ فیصلہ کرتی ہے کہ اہل بیت(ع) کی احادیث کو غیروں پر مقدم کرنا بہت ضروری اور عقل کا تقاضہ ہے.) مترجم غفرلہ.

عقل تقاضہ کرتی ہے کہ طریق اہل بیت(ع) کی حدیثوں کو دوسروں پر مقدم رکھا جائے

ایک نظر اسلام کے قرن اولی کی تاریخ پر ڈالیے اور دیکھیے کہ احادیث نبوی(ص) کو کن آفتوں اور حادثوں سے گذرنا پڑا ہے پھر آپ کی سمجھ میں یہ بات آجائے گی کہ اہل بیت اطہار(ع) کے واسطوں سے حاصل شدہ حدیثوں کو مقدم رکھنا کیوں ضروری ہے؟

۱۷۰

جب آپ دیکھیں گے کہ تاریخ حدیث نبوی(ص) سے کیا بدسلوکی کرتی ہے اور حدیث نبوی(ص) کو تدوین سے پہلے ہی سیرت نبی کو مٹانے اور حق کو ضائع کرنے کی کتنی منظم سازشیں کی گئی ہیں.

حدیث نبوی(ص) کے بارے میں امیرالمومنین(ع) کا خطبہ

امیرالمومنین(ع) سے پوچھا گیا کہ مولا یہ نئی نئی حدیثوں اور لوگوں کے پاس موجود حدیثوں میں اتنا واضح اختلاف کیسے ہوا؟

آپ نے فرمایا، لوگوں کے پاس حق بھی ہے اور باطل بھی، صدق بھی ہے اور کذب بھی، ناسخ بھی ہے اور منسوخ بھی ہے، عام بھی ہے اور خاص بھی، محکم بھی ہے اور متشابہ بھی، محفوظ بھی ہے موہوم بھی، پیغمبر(ص) پر تو آپ کی زندگی میں جھوٹ باندھا گیا یہاں تک کہ آپ خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے اور فرمایا: جو مجھ پر جان بوحھ کے جھوٹ باندھے اس کی بیٹھک کو آگ سے بھر دیا جائے گا تمہارے پاس حدیث پہچانے والے چار طرح کے لوگ ہوتے ہیں پانچواں نہیں.

1.وہ مرد منافق جو ایمان کا اظہار کرتا ہے اسلام میں بناوٹ کرتا ہے اور رنجیدہ نہیں ہوتا نہ کوئی حرج محسوس کرتا ہے پیغمبر(ص) پر عمدا جھوٹ باندھتا ہے اگر لوگوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ ہ جھوٹا اور منافق ہے تو اس سے نہ حدیث قبول کریں اور نہ اس کی تصدیق کریں لیکن تو یہ کہتے ہیں وہ پیغمبر(ص) کا صحابی ہے اس نے پیغمبر(ص) سے براہ راست سنا ہے اور حدیثیں حاصل کی ہیں نتیجہ میں لوگ اس سے اسی کے لفظوں میں حدیث لیتے ہیں حالانکہ خدا نے تو تمہیں منافقین کے بارے میں خبردار کر دیا ہے اور اچھی طرح منافقین کو پہچنوا دیا ہے یہ منافقین نبی(ص) کے بعد بھی باقی رہے اور انہوں نے گمراہ اماموں کے دربار میں کذب و افتراء کا بازاز گرم کیا، بہتان اور جھوٹ کے ذریعہ جہنم کی طرف دعوت دینے والے اماموں سے ملے ایسے ہی لوگوں کو خدمت کا موقع دیا گیا اور لوگوں کی گردنوں پر حاکم بنا دیا اور ان کے ذریعہ دنیا حاصل کی لوگ تو بادشاہ اور دنیا کے ساتھ رہتے ہی ہیں مگر صرف وہ لوگ جنہیں اللہ بخشنے کی توفیق دے چار میں سے ایک کا تعارف تو ہوگیا.

۱۷۱

2.دوسرا وہ جس نے حدیث نبی(ص) سے سنی ضرور لیکن اس کو یاد نہیں رکھ سکا نتیجہ میں وہم کا شکار ہوگیا وہ عمدا جھوٹ تو نہیں بولتا لیکن اپنے وہم کو حدیث سمجھ کے اپنے سامنے رکھتا ہے اور اسی کی روایت کرتا اور اسی پر عمل کرتا ہے اور یہ کہا ہے کہ میں نے ہر بات رسول اللہ(ص) سے سنی ہے، پس اگر مسلمانوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ اس کو وہم ہوا ہے تو اس سے حدیثیں قبول نہیں کریں گے وہ خود بھی اگر یہ جان جائے کہ اس کی روایتیں وہم کا نتیجہ ہیں تو انہیں چھوڑ دے گا.

3.تیسرا وہ ہے جس نے نبی(ص) کو کسی چیز کے بارے میں امر کرتے ہوئے سنا لیکن آپ نے جب اس کام کی نہی کی تو وہ موجود نہی تھا اس لئے نہیں سن سکا یا کسی چیز کی نہی سنا اور اس کے بارے میں جب نبی(ص) نے امر کیا تو نہیں سن سکا اب وہ اوامر و نواہی کے بارے میں نہیں جانتا اس کو منسوخ یاد ہے ناسخ نہیں معلوم اور اس کو معلوم ہو جائے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے منسوخ ہے تو اس کو چھوڑ دے گا اور مسلمانوں کو بھی اگر معلوم ہو جائے کہ اس کے پاس منسوخ حدیثیں ہیں تو لوگ اس سے حدیثیں قبول نہیں کریں گے.

4.چوتھا آدمی وہ ہے جو پیغمبر(ص) پر اور خدائے پیغمبر(ص) پر جھوٹ نہیں باندھتا بلکہ خوف خدا اور تعظیم پیغمبر(ص) کی بنیاد پر جھوٹ کا دشمن ہے اس کو وہم نہیں ہوتا بلکہ اس نے نبی(ص) سے جیسا سنا ویسا یاد رکھا اس میں نہ زیادتی کی نہ ہی کمی اس کے پاس ناسخ محفوظ ہے اسی پر عمل کرتا ہے اور منسوخ بھی محفوظ ہے جس سے وہ پرہیز کرتا ہے خاص اور عام کو پہچانتا ہے اور ہر چیز کو اس کی جگہ پر رکھتا ہے محکم اور متشابہ کو پہچانتا ہے.

کبھی ایسا ہوتا تھا کہ کلام پیغمبر(ص) کے دو رخ ہوتے تھے کلام خاص اور کلام عام سننے والا سن تو لیتا تھا لیکن اس کو یہ نہیں معلوم ہوتا تھا خدا اور خدا کے رسول(ص) نے اس کلام سے کیا مراد لیا ہے وہ حدیث کو لیتا تھا اور چونکہ معنی سے واقف نہیں تھا اس لئے غیر معنی کی طرف توجیہ کر دیتا تھا اس کو یہ نہیں معلوم کہ اس حدیث کا مقصد کیا ہے اور حدیث کی حدوں سے خارج ہے پیغمبر(ص) کا ہر صحابی آپ سے سوال بھی نہیں کرتا تھا اور سمجھنے کی کوشش بھی نہیں کرتا تھا بلکہ اصحاب پیغمبر(ص) تو چاہتے تھے کہ

۱۷۲

کوئی اعرابی یا مسافر آکے پیغمبر(ص) سے مسئلہ پوچھے تو وہ جواب سن کے فائدہ اٹھا لیں لیکن میرے سامنے جب بھی کوئی مسئلہ آتا تھا میں پیغمبر(ص) سے بخ تکلف ہو کے پوچھتا تھا اور اس کو یاد رکھتا تھا وہ مجھے اب تک یاد ہے یہی وہ اسباب ہیں جن کی وجہ سے لوگوں میں حدیثوں کا اختلاف پایا جاتاہے نیز کمزور حدیثیں روایت کرنے کی بھی یہی وجہ ہے.

پوچھنے والے کا انداز سوال بتا رہاہے کہ بدعتی حدیثیں اور خبروں میں اختلاف اتنا جاری و سار ہوگیا تھا ہ لوگ مقام حیرت و شک میں تھے اور حق کی تمیز کی صلاحیت کھو بیٹھے تھے یہاں تک کہ سائل نے امیرالمومنین(ع) سے پوچھنے کی ضرورت محسوس کی اور امیر المومنین(ع) کے جواب دینے کا انداز یہ بتا رہا ہے کہ لوگوں کو معلوم نہیں تھا کہ حدیثوں میں آلودگی ہو چکی ہے اور حدیث نبوی کو وہم و گمان ور کذب و افترا سے خلط ملط کر کے بیان کیا جارہا ہے عام مسلمان اس اختلاط سے غافل تھے ان کے پاس جو حدیثیں بھی پہونچی تھیں ان پر وہ آنکھ بند کر کے عمل کرتے تھے اور اندھا اعتماد کرتے تھے محض اس لئے کہ وہ اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ حدیثیں صحابی کے ذریعہ آرہی ہیں اور حدیث کے معاملے میں صحابی رسول (ص) پر افترا نہیں کرسکتا ان کے گمان میں بھی یہ نہیں تھا کہ صحابی جھوٹا اور منافق بھی ہوسکتا ہے وہ تو صحابی کو صحابی کی حیثیت سے جانتے تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ صحابی جھوٹ نہیں بول سکتا نہ اس کو وہم ہوسکتا ہے اور ناسخ و منسوخ سے بھی خوب واقف ہے.

حدیث شریف آفتوں کی زد پر کیوں؟

ہر صاحب نظر کو یہ سوال کرنے کا حق ہے کہ آخر حدیث نبی(ص) ہی پر اتنی آفتیں کیوں آتی ہیں اس سوال کا جواب یہ ہے کہ چونکہ حدیث نبوی(ص) حکام وقت کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتی اس لئے ہر مسلمان حکومت نے اس پر سختی سے پابندیاں عائد کیں اور ان کی تالیف و تدوین سے روکنے کی بھرپور کوشش کی اصحاب پیغمبر(ص) کو حدیث کی نشر و اشاعت کا بہت کم موقع دیا گیا اور اگر حدیث پیغمبر(ص) کو نشر و اشاعت کی اجازت دی بھی گئی تو سخت پابندیوں کے دائرے میں دی گئی صرف

۱۷۳

ایسی حیدثیں عام کرنے کی کوشش کی گئی جو بظارہ حکام وقت اور حکومت سے متعارض نہیں ہیں یہ بات میں سابقہ سوالوں کے ساتویں سوال کے جواب میں عرض کرچکا ہوں.

محض اس خوف سے کہ سیرت نبوی(ص) اور حدیث رسول عوام تک پہونچ جائے گی اکابر اصحاب کو مدینہ کے باہر جانے سے روکا جاتا رہا اور کبھی اجازت دی بھی گئی تو حکومت کی سخت نگرانی میں جس کی وجہ سے اصحاب پیغمبر(ص) آزادی کے ساتھ حدیث پیغمبر(ص) کی نشر و اشاعت نہیں کرسکے یا تو اس لئے کہ حکومت ان کے اوپر بے تحاشہ ظلم کرتی تھی یا وہ اس بات سے خوف زدہ تھے کہ اگر حدیثوں کی اشاعت کی جائے گی تو وہ ان کے عتاب کا شکار ہو جائیں گے نتیجہ یہ ہوا کہ حدیثیں جمود کا شکار ہوگئیں اور خصوصا عمر کے دور میں حدیثیں کچھ زیادہ ہی اس آفت کا شکار ہوئیں.

اس لئے کہ عمر نے اصحاب پیغمبر(ص) کو مدینہ سے باہر دوسرے شہروں میں جانے سے سختی سے روک دیا تھا اور ان کے ارکان حکومت میں منافقین مولفتہ القلوب (سست عقیدہ) اور فتح مکہ والے مسلمانوں کی کثرت تھی جو حکومت کے کرتا دھرتا تھے اور اس طرف امیرالمومنین(ع) نے اپنے کلام میں اشارہ فرمایا ہے جو گذشتہ صفحات میں پیش کیا گیا اور میں نے اس کلام کی طرف آپ کے ان سوالوں میں چوتھے سوال کے جواب بھی اشارہ کیا تھا.

یہی وہ اسباب تھے جن کی وجہ سے حدیثوں میں ملاوٹ ہوئی اور لوگ حق اور باطل کو سمجھنے سے قاصر رہے مسلمانوں کے معاملات خراب ہوئے اب مسلم عوام ہر اس حدیث پر عمل کرتے تھے جو ان تک پہونچتی تھیں اور اس حدیث کو سچا کہہ کر پیش کیا جاتا تھا اس لئے وہ حقیقت حال سے غافل اور حکومت انہیں غافل رکھنا بھی چاہتی تھی خاص خاص افراد کو اس بات کا ادراک تھا بھی تو وہ حیران تھے کہ کس کو مانیں اور کس کو چھوڑیں یہاں تک کہ ایسے لوگ امیرالمومنین(ع) سے سوال کرنے پر مجبور ہوتے تھے.

تاریخ کا عجوبہ ہے یہ بات کہ یہ کچھ وفات پیغمبر(ص) کے فورا بعد صرف تین دہائیوں میں ہوتا

۱۷۴

رہا لیکن کسی صحابی نے اس کو دور کرنے کی کوشش نہیں کی ایسی بات نہیں تھی کہ صحابہ موجود نہیں تھے ان تین دہائیوں میں صحابہ کی وافر تعداد موجود تھی اور اکثر صحابہ متورع پاک دامن اور صاحب کردار تھے لیکن حکومت خوف زدہ اور دار و رسن سے دہشت زدہ تھے جب عثمان کے آخری دور میں حکومت کی پکڑ کمزور ہوئی تو انھیں حق بیان کرنے کی کچھ آزادی ملی خصوصا مولائے کائنات کے دور میں تو حکومت نے ان کا خوب ساتھ دیا اور انہوں نے بھی اپنے عقیدے ایمان اور احادیث پیغمبر(ص) کی کھل کے نشر و اشاعت کی اپنے سوال کا جواب دیکھیں.

امیرالمومنین(ع) کے دور میں اعلان حق اور تصحیح حدیث کی کوششوں کی ابتداء

امیرالمومنین(ع) کے دور میں اعلاء کلمہ حق اور مسلمانوں کی بگڑی ہوئی حالت کو سدھارنے کی کوشش شروع ہوئی اور بہت حد تک کامیابی بھی ہوئی مگر کاش یہ الت برقرار رہتی تاکہ امیر المومنین(ع) اہل بیت اطہار(ع) بہتر محتاط صحابہ اور تابعین جو نیکیوں میں ان کی پیروی کرنے والے اور مقدس صحابہ سے حدیثیں لینے والے تھے مسلسل اپنی کوششیں جاری رکھتے تو اسلام کی کچھ اور ہی شکل ہوتی اور حقیقی اسلام ان کے ہاتھ میں ہوتا اس لئے کہ یہ وہ لوگ تھے جو اپنی صداقت گفتار میں مشہور تھے اس کے علاوہ عوام پر خاصہ اثر بھی رکھتے تھے اور عوام کو حق کی طرف متوجہ کرنے اور حق کو یاد دلانے کی صلاحیت بھی رکھتے تھے انھوں نے حق کا بار اٹھایا تھا اس باتیں غور سے سنی تھیں اور اس کے ذریعہ حدیثیں بیان کرتے تھے اور اسی کی طرف دعوت دیتے تھے سختیوں کو جھیل کے طویل مدت تک حق کی ترویج کررہے تھے حکومت کے ظلم و سرکشی میں اعانت کرنے کے لئے انہوں نے حق کا ناحق استعمال نہیں کیا تھا عوام الناس بھی ان کے تقدس، خلوص اور بے غرضی سے متاثر تھے.

جوزجانی نے اپنے کلام میں اسی طرح کے شیعیان اہل بیت(ع) کی طرف اشارہ کیا ہے حالانکہ جو

۱۷۵

ز جانی اور نواصب کوئی بھی ان کے مذہب سے راضی نہیں ہے پھر بھی ان کی دیانت داری اور تقدس و خلوص کا اعتراف کرتے ہوئے جوزجانی نے یہ عبارت لکھی ہے اہل کوفہ میں ایک گروہ ایسا بھی تھا جس کا مذہب قابل تعریف نہیں تھا وہ لوگ اہل کوفہ کے محدثین کے راس و رئیس جیسے ابو الاسحق، منصور، زبید بن حارث یامی، اعمش اور ان کے معاصر محض صداقت گفتار کی وجہ سے انہیں برداشت کرتے تھے.

امیرکائنات(ع) کی شہادت اور اہل بیت اطہار(ع) کے ہاتھ سے حکومت نکل جانے کی وجہ سے تصحیح و اعلان حق کی کوشش سرتاج ہوگئی( دم توڑ گئی)

میں کہتا ہوں کاش اس طرج کے لوگوں کی کوششیں کچھدنوں تک اور جاری رہتیں اور تصحیح کا عمل بیان حق کےساتھ اسی طرج چلتا رہتا تو آج تاریخ اس دور پر فخر کرتی لیکن افسوس کہ اہل بیت(ع) کے ہاتھ سے حکومت نکل گئی اور غضب یہ ہوا کہ معاویہ جیسے مکار اور دنیا پرست انسان کے ہاتھ میں حکومت چلی گئی جس کے بارے میں مولائخ کائنات نے فرمایا ہے اس کاگمراہ کن ہونا ظاہر ہے اس کی بے حیائی سب کے سامنے ہے اپنی مجلس میں صاحب کرم اور با عظمت انسان کو عیب دار بناتا ہے اور صاحب حکمت کو اپنے پاس بیٹھا کے اس کی عقل کو ضبط کر کے بیوقوف بنا دیتا ہے وہی معاویہ مملکت اسلامیہ کا بلا شرکت غیرہ حاکم ہوتا ہے اور مقام نخیلہ میں حکومت حاصل کرنے کے بعد پہلے خطبہ میں ڈیگیں مارتا ہوا انتہائی بے حیائی سے اعلان کرتا ہے اور اپنی حکومت کی پالیسی کا اظہار کرتا ہے مسلمانوں کا حاکم ہے لیکن اپنی حکومت کی پالیسی کا اعلان ان لفظوں سے کرتا ہے ابھی تو کوفہ میں داخل بھی نہیں ہوا ہے مقام نخلیہ میں اس کے خطبے کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں کہتا ہے سنو! لوگو! میں نے تم سے اس لئے قتال نہیں کیا کہ تم روزے رکھو نمازیں پڑھو حج کرو اور زکوة نکالو یہ سب تو تم کرتے ہی ہو یہ میں جانتا ہوں میری جنگ صرف اس لئے تھی کہ میں تم پر حکومت حاصل کروں اللہ نے میرا مقصد مجھے دیا اگر چہ تم لوگوں کو ناگوار ہے.

۱۷۶

سنت نبوی(ص) میں تحریف کرنے اور اس کے ضائع کرنے کا نیا دور شروع ہوتا ہے

سنت نبوی(ص) ایک بار پھر تحریف کا نشانہ بنتی ہے معاویہ کوفہ میں اپنی پالیسی واضح کر کے نام کا واپس آتا ہے اور سنت نبوی(ص) کو بدلنے اور اس کو ضائع کرنے کا نیا دور شروع ہوتا ہے شام والوں میں وہ خطبہ دیتا ہے اے لوگو پیغمبر(ص) نے مجھ سے کہا تھا کہ میرے بعد تم خلافت حاصل کرو گے تو تم اس مقدس سرزمین کو اختیار کر لو کیونکہ اس سر زمین میں ابدال( بزرگ علماء) سو رہے ہیں تو میں نے تمہیں اور تمہاری سرزمین کو اپنے لئے منتخب کیا ہے پس تم ابوتراب پر لعنت کرو پس لوگوں نے ان پر لعنت کی، دوسرے دن اس نے ایک مضمون لکھا پھر اہل شام کو جمع کرکے ان سامنے پڑھا اس میں لکھا تھا یہ وہ مکتوب ہے جسے امیرالمومنین معاویہ نے لکھا ہے معاویہ جو اس خدا کی وحی کا دوست ہے جس نے محمد(ص) کو نبی مبعوث کیا محمد(ص) نا خواندہ تھے نہ پڑھ سکتے تھے اور نہ لکھ سکتے تھے تو خدا نے ان کی اہل سے ان کے لئے ایک وزیر منتخب کیا جو امانت دار لکھنے والا تھا لہذا وحی جو محمد(ص) پر نازل ہوتی تھی میں لکھا کرتا تھا محمد(ص) یہ نہیں جانتے تھے کہ میں نے کیا لکھ دیا ہے میرے اور خدا کے درمیان اس معاملے میں کوئی نہیں تھا.

شام میں جو لوگ اس وقت حاضر تھے سب نے کہا آپ نے سچ فرمایا: اے امیرالمومنین!(1)

حدیث نبوی(ص) کو دوبارہ نشر و اشاعت سے روکا گیا

معاویہ کے اس تاریک دور میں عہد صحابہ کو پس پشت ڈال دیا گیا اور صاحبان ایمان کی سرگرمیاں آہستہ آہستہ ختم نہیں ہوئیں بلکہ اچانک رک گئیں اسلامی ثقافت کی تصحیح کی طرف ان کے بڑھتے قدم

..............................................

1.شرح نہج البلاغہ، ج4، ص72.

۱۷۷

رک گئے آوازیں دھیمی پڑ گئیں اور بہت سے حقائق مخفی ہوگئے معاویہ اپنے اسلاف کے طریقہ پر عمل کرتے ہوئے سنت نبوی کی بھی روک تھام شروع کردی اس نے کہا اے لوگو! پیغمبر(ص) سے کم روایتیں بیان کرو اگر حدیث ہی بیان کرنا چاہتے ہو تو صرف وہ حدیثیں بیان کرو جو عمر کے عہد میں بیان کی جا چکی ہیں(1) بلکہ معاویہ کے در میں فتنوں کا دریا اپنی طغیانی کے نقطہ کمال تک پہونچ گیا اور سر کشی کی انتہا ہوگئی.

آپ کے ان سوالوں میں چوتھے سوال کے جواب میں میں نے اس سلسلے میں بہت کچھ عرض کیا ہے جہاں میں نے لکھا ہے کہ صحابہ امیرالمومنین(ع) کی نصرت کرتے رہے اور آپ کی شہادت کے بعد عہد اموی میں اس نصرت کی وجہ سے سزائیں بھی جھیلتے رہے.

موضوع ( من گھڑھٹ) حدیثوں کا سیلاب

یوں لگائی نقب اسلام کی دیواروں میں

مال چوری کا بکا شام کی بازاروں میں

(پیام)

پھر تو عہد اموی میں موضوع حدیث کی ایک باڑھ سی آگئی اور حکومت نے فضائل امیرالمومنین(ع) اور فضائل اہل بیت(ع) کی حدیثوں پر سختی سے روک تھام لگا دی.

میں کہتا ہوں ان سوالوں کے چوتھے نمبر کے سوال کے جواب میں موضوع حدیثوں کے بارے میں عرض کیا ہے وہیں پر یہ بھی عرض کیا ہے کہ امام ابو جعفر باقر(ع) کے ساتھ ہی مدائنی اور نفطویہ نے اس سلسلے میں کیا افادات کئے ہیں.

..............................

1.کنز العمال، ج10، ص291، حدیث29473؛ المعجم الکبیر، ج19، ص370.

۱۷۸

موضوع( جعلی) حدیثوں کے انتشار کے بعد سنت نبوی(ص) کی تدوین ہوتی ہے

تاریخ شاہد ہے کہ سنت نبوی(ص) کی تدوین عمر بن عبد العزیز کے دور ہی میں ہوئی ان کے پہلے کے بادشاہوں نے سنت کو جامد اور معطل کرنے کی کوشش کی ہے مدون کرنے کی کوشش نہیں کی ہے عمر بن عبدالعزیز کا دور موضوع حدیثوں کی اشاعت کے بہت بعد کا دور تھا ظاہر ہے کہ مولائے کائنات(ع) کی ظاہری حکومت کے پہلے بھی کافی حدیثیں گڑھی گئیں اور آپ کی حکومت کے بعد بھی بہت زیادہ حدیثیں بنائی گئیں جب ان موضوع اور جعلی حدیثوں کو دیانت دار افراد کئی مرتبہ روایت کرچکے اور لوگ ان کے حق ہونے کا یقین کرچکے بلکہ عقیدہ بنا چکے اس لئے کہ ان کا شیوع اور ان کی روایت اس کثرت سے ہوئی کہ لوگ ان کو حق ماننے پر مجبور تھے جیسا کہ امام باقر(ع) اور علامہ مدائنی نے ذکر کیا ہے تو بہت بعد میں عمر بن عبدالعزیز کا دور آیا اور حکومت نے اپنی نگرانی میں سنت نبوی کی تدوین شروع کی تو نتیجہ ظاہر ہے.

فطری طور پر نتیجہ یہ نکلا

آپ خود ہی فیصلہ کر لبں کہ اس تدوین کے نتیجے میں امت کو کیا ملنا چائے کیا حقیقی سنت نبوی(ص) سے مسلمان بہرہ یاب ہوسکتا ہے عمر بن عبدالعزیز کے پہلے سنت نبی(ص) کے متعلق کتنے حقائق گذشتہ حکومتوں میں ضائع ہوچکے ہیں یا حکومت کے ہاتھوں عمدا ضائع کئے جا چکے ہیں اور ان کی جگہ پر راویوں نے حسن نیت کی بنیاد پر کتنی محرف حدیثوں کو حدیث بنا کے پیش کر دیا ہے یا گمراہ کن سازشوں اور منافقین کی کارستانیوں کے ہمراہ میں کتنی تحریف شدہ حدیثیں دین میں داخل ہوچکی ہیں اس کا حساب کس کے پاس ہے، موضوع حدیثوں کے معارض کتنی حقیقی حدیثیں ہیں جن کے ذریعہ امت میں شبہ و شک کی بھر مار ہوگئی ہے اور کتنی حدیثیں وہ ہیں جو تحریف سے محفوظ ہیں اس کا جواب

۱۷۹

کون دے گا مسلمان کیسے پہچانے گا کہ ان حدیثوں میں حق کون ہے اور باطل موضوع کون ہے اور اصل کون اور لوگوں کے سامنے جب سائل آئیں گے تو وہ کس طرح عمل کریں گے اس لئے کہ عوام تو اس بات کے محتاج ہیں کہ انہیں دین کی تعلیم دی جائے اور احکام دین کی معرفت کرائی جائے پھر کس حدیث پر عمل کرنے سے عوام کو روکا جائے گا اور کس پر عمل کرنے کی ہدایت کی جائے گی؟

یہی حال ان واقعات کا ہے جو نبی(ص) کے بعد واقع ہوئے ظاہر ہے کہ نبی(ص) کے بعد جو حالات سامنے آئے ان کے بارے میں عوام الناس کے لئے سنت نبوی(ص) میں کوئی حدیث دستیاب نہیں تھی پھر وہ کس طرف رجوع کریں گے اور کس ہدایت پر عمل کریں گے.

یہ سارے مسائل تو نبی(ص) کے فوار بعد پید ہوئے تھے ابھی نبی(ص) کو گذرے ہوئے تیس سال بھی نہیں ہوئے تھے(پھر آج جب کہ چودہ سو سال ہوچکے ہیں ظاہر ہے کہ اس وقت حدیث نبوی سے حق تلاش کرنا تقریبا نا ممکن ہے) مترجم غفرلہ.

سنت نبوی(ص) کی تدوین کے بعد بہت ساری مشکلات

لیکن سنت نبوی(ص) کی تدوین کے بعد ایسا نہیں ہے کہ سیرت مقدسہ مشکلات سے آزاد ہوگئی بلکہ ہوا یہ کہ مشکلوں میں کچھ اضافہ ہی ہوا اور اس کثرت سے مسائل پیدا ہوئے کہ میں اس موضوع کو چاہے جتنا وسعت دوں ان مسائل کو پیش کرنے سے قاصر ہوں.

حدیث کی کتابیں لکھنے والوں نے بہت سی حدیثوں کی روایت تو کی لیکن اپنی کتابوں میں انہیں شامل کرنا ممنوع سمجھا ہے

1.حاملان حدیث نے بہت سی حدیثوں کو جن کی انہوں نے خود روایت کی ہے اپنی کتابوں میں تدوین کے وقت داخل نہیں کیا.

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285