‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) جلد ۲

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) 20%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 285

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 285 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 121885 / ڈاؤنلوڈ: 4323
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

کے دعوائے نبوت کے صحیح ہونے میں شک پیدا کرنے کی کوشش کی، وہ یہ سمجھے تھے کہ رسول(ص) پر یہ حالت مرض کی بنا پر طاری ہوتی ہے لہذا اس کا علاج کرایا جائے، رسول(ص) نے انہیں ایسا جواب دیا جس میں ان کے لئے سراسر بھلائی، عزت و شرف اور نجات تھی۔ فرمایا:''کلمة واحدة تقولونها تدین لکمبها العرب و تؤدی الیکم بها العجم الجزیة...'' وہ ایک بات کہہ دو جس کے ذریعہ عرب تمہارے قریب آجائیں گے اور اسی سبب غیر عرب تمہیں جزیہ دیں گے...آپ کی اس بات سے وہ ہکا بکا رہ گئے انہوں نے یہ سمجھا یہی آخری حربہ ہے ، کہنے لگے: ہاں خدا آپ کا بھلا کرے۔

آپ(ص) نے فرمایاکہہ دو:''لاالٰه الا اللّه...'' اس دو ٹوک جواب نے انہیں رسوا کر دیا چنانچہ وہ ناک بھوں چڑھاکر اٹھ گئے۔ اور کہنے لگے: ''اجعل الالٰھة الٰھاً واحداً ان ھذا لشیء عجاب '' کیا انہوں نے سارے خدائوں کو ایک خدا قرار دیدیا ہے یہ تو عجیب بات ہے ۔( ۱ )

اب قریش نے یہ طے کیا کہ وہ رسول(ص) اور ان کا اتباع کرنے والوں کی اہانت کریں گے، جن کی تعداد روز بروز بڑھتی ہی جا رہی ہے ، وہ ان کی دعوت کو اپنے اندر راسخ کر رہے ہیں، چنانچہ ابولہب اور اس کی بیوی ام جمیل آپ(ص) کے دروازہ پر کانٹے ڈالدیتی تھی کیونکہ آپکا گھر اس کے گھر کے پاس ہی تھا( ۲ ) ابوجہل آپ(ص) کو پریشان کرتا تھا، آپ(ص) کو برا کہتا تھا۔ لیکن خدا ظالموںکی گھات میں ہے جب آنحضرت(ص) کے چچا جناب حمزہ کو یہ معلوم ہوا کہ ابو جہل نے رسول(ص) کی شان میں گستاخی کی ہے تو انہوں نے قریش کے سربرآوردہ لوگوں کے سامنے ابو جہل کو اس کی گستاخی کا جواب دیا اور اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کر دیا اوران کے مجمع کو دھمکی دی کہ اب تم رسول(ص) کو پریشان کر کے دکھانا۔( ۳ )

____________________

۱۔ سیرت حلبیہ ج۱ ص ۳۰۳، تاریخ، طبری ج۲ ص ۴۰۹۔

۲۔سیرت نبویہ ج۱ ص ۳۸۰۔

۳۔سیرت نبویہ ج۱ ص ۳۱۳، تاریخ طبری ج۲ ص ۴۱۶۔

۱۰۱

کفر عقل کی بات نہیں سنتا

قریش نے یہ سوچا کہ ہم چالاکیوں کے باوجود محمد(ص) کو تبلیغ رسالت سے باز نہیں رکھ سکے، اور وہ یہ بھی دیکھ رہے تھے کہ لوگ اسلام کی طرف آپ(ص) کی دعوت کو قبول کر رہے ہیں تو اس وقت قریش کے سربرآوردہ افراد کے سامنے عتبہ بن ربیعہ نے یہ بات رکھی کہ میں محمد(ص) کے پاس جاتا ہوں اور انہیں دعوت اسلام سے باز رکھنے کے سلسلہ میں گفتگو کرتا ہوں۔ عتبہ آنحضرت (ص) کے پاس گیا ۔اس وقت آپ مسجد الحرام میں تنہا بیٹھے تھے، عتبہ نے پہلے تو آپ(ص) کی تعریف کی اور قریش میں جو آپ(ص) کی قدر و منزلت تھی اسے سراہا پھر آپ(ص) کے سامنے اپنا مدعابیان کیا نبی(ص) خاموشی سے اس کی بات سنتے رہے۔ عتبہ نے کہا: بھتیجے اگر تم اس طرح (نئے دین کی تبلیغ کے ذریعہ) مال جمع کرنا چاہتے ہو تو ہم تمہارے لئے اتنا مال جمع کر دیں گے کہ ہم میں سے اتنا مال کسی کے پاس نہ ہوگا اور اگر اس سے تمہارا مقصد عزت و شرف حاصل کرنا ہے تو ہم تمہیں اپنا سردار بنا لیتے ہیں اور تمہارے کسی حکم کی مخالفت نہیں کریں گے اور اگرتمہیں بادشاہت چاہئے تو ہم تم کو اپنا بادشاہ تسلیم کرتے ہیں اور اگرتم کوئی ایسی چیز دکھائی دیتی ہے کہ جس سے خودکو نہیں بچا سکتے تو ہم اپنا مال خرچ کرکے تمہاراعلاج کرادیں یہاں تک کہ تم اس سے شفاپا جائو۔ جب عتبہ کی بات ختم ہو گئی تو رسول(ص) نے فرمایا: اے ابو ولید! کیاتمہاری بات پوری ہو گئی؟ اس نے کہا: ہاں! آپ(ص) نے فرمایا تو اب میری سنو! پھر آپ(ص) نے خدا وند عالم کے اس قول کی تلاوت کی:

( حم تنزیل من الرحمن الرحیم ، کتاب فصّلت آیاته قراناً عربیاً لقوم یعلمون،بشیراً و نذیراً فاعرض اکثرهم فهم لا یسمعون، قالوا قلوبنا فی اکنّة مما تدعوننا الیه ) ( ۱ )

حم۔ یہ رحمن رحیم خدا کی نازل کی ہوئی ہے ۔ اس کتاب کی آیتیں تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی ہیں یہ سمجھنے والی قوم کے لئے عربی کا قرآن ہے ۔ اس قرآن کو بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر نازل کیا گیا ہے لیکن اکثریت نے اس سے رو گردانی کی ہے۔ کیا وہ کچھ سنتے ہی نہیں ہیں اور کہتے ہیںکہ ہمارے دل ان

____________________

۱۔ فصلت ۴۱ آیت ۱ تا ۵۔

۱۰۲

باتوں سے پردے میں ہیں جن کی تم دعوت دے رہے ہو۔

رسول(ص) آیتیں پڑھتے رہے عتبہ سنتا رہا اس نے اپنے ہاتھ پشت کی طرف کئے اور ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا، سجدہ کی آیت آئی تو رسول (ص) نے سجدہ کیا پھر فرمایا: اے ابو ولید جو تم نے سنا سو سنا اب تم جانو۔

عتبہ نے کوئی جواب نہ دیا۔ اپنی قوم کے پاس جاکر بیٹھ گیا اور کہنے لگا: خدا کی قسم !میں نے ایسا کلام سنا ہے کہ آج تک ایسا کلام نہیں سنا تھا۔ خدا کی قسم! نہ وہ کلام نہ شعر ہے ۔ نہ سحر ہے اور نہ کہانت ہے ۔ اے قریش والو! میری پیروی کرو اور اسے میرے اوپر چھوڑ دو اور اس کی تبلیغ رسالت اور اس شخص کو درگذر کرو۔

لیکن یہ مردہ دل لوگ اس بات کو کہاں قبول کرنے والے تھے۔ کہنے لگے اے ابو ولید خدا کی قسم! محمد(ص) نے تم پر اپنی زبان سے جادو کر دیا ہے ۔ عتبہ نے کہا: ان کے بارے میں یہ میری رائے ہے اب تم جو چاہو کرو۔( ۱ )

سحر کی تہمت

قریش نے اپنے اتحاد کو برقرار رکھنے اور تبلیغ رسالت سے ٹکرانے والے اپنے محاذ کو محفوظ رکھنے اور لوگوں میں رسول(ص) کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو روکنے کا منصوبہ اس وقت بنایا جبکہ حج کا زمانہ قریب تھا۔ قریش نے ایسا حربہ استعمال کرنے کے بارے میں غور کیا کہ جس سے ان کی بت پرستی بھی متاثر نہ ہو اور رسول(ص) کے کردار کو - معاذ اللہ-داغدار بنا دیا جائے لہذا وہ سن رسیدہ و جہاں دیدہ ولید بن مغیرہ کے پاس جمع ہوئے لیکن ان کے درمیان اس سلسلہ میں اختلاف ہو گیا کہ رسول(ص) پر کیا تہمت لگائی جائے کسی نے کہا: کاہن کہا جائے ، کسی نے کہا: مجنون کہا جائے کسی نے کہا: شاعرکہا جائے کسی نے کہا جادوگر کسی نے کہا: وسوسہ کا مریض کہا جائے جب کسی نتیجہ پر نہ پہنچے تو انہوں نے ولید سے مشورہ کیا اس نے کہا:

خدا کی قسم! ان کے کلام میں چاشنی و شیرینی ہے ۔ ان کے کلام کی اصل مٹھاس اور اس کی فرع چنے ہوئے پھل کی مانند ہے اور ان چیزوں کو تم بھی تسلیم کرتے ہو تہمتوں سے بہتر ہے کہ تم یہ کہو کہ وہ ساحر و جادوگرہیں،

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۱ ص ۲۹۳۔

۱۰۳

ان کے پاس ایسا جادو ہے کہ جس سے یہ باپ بیٹے میں، بھای بھائی اور میاں بیوی میں جدائی ڈال دیتے ہیں ۔ ولید کی یہ بات سن کر قریش وہاں سے چلے گئے اور لوگوں کے درمیان اس ناروا تہمت کا پروپیگنڈہ کرنے لگے۔( ۱ )

اذیت و آزار

رسول(ص) اور حق کے طرف داروں کوتبلیغ رسالت سے روکنے میں کفار و مشرکین اسی طرح ناکام رہے جیسے ان کی عقلیں توحید اور ایمان کو سمجھنے میں ناکام رہی تھیں، تبلیغ رسالت کو روکنے میں انہوں نے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی لیکن انہیں اس کے علاوہ کوئی چارہ نظر نہیں آیا کہ وہ خدا کی وحدانیت اور محمد (ص) کی رسالت پر عقیدہ رکھنے والوں کو اذیت و آزار پہنچائیں اور سنگدلانہ موقف اختیار کریں چنانچہ ہر قبیلہ نے ان لوگوں کو دل کھول کر ستانا شروع کر دیا جولوگ مسلمان ہو گئے تھے۔ انہیں قید کر دیا، زد و کوب کیا، نہ کھانا دیا نہ پانی ، ان کی یہ کوشش اس لئے تھی تاکہ مسلمان اپنے دین اور خدا کی رسالت کا انکار کر دیں۔

امیہ بن خلف ٹھیک دو پہر کے وقت جناب بلال کو مکہ کی تپتی ہوئی زمین پر لٹا دیتا ہے تاکہ انہیں عبرت آموز سزادے سکے۔ عمر بن خطاب نے اپنی کنیز کو اس لئے زد و کوب کیا کہ اس نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ اسے مارتے مارتے عاجز ہو گئے تو کہنے لگے میں نے تجھے اس لئے چھوڑ دیا کیونکہ میں تھک گیا ہوں۔ قبیلہ مخزوم عمار یاسر اور ان کے ماں، باپ کو مکہ کی شدید گرمی میں کھینچ لائے، ادھر سے رسول(ص) کا گزر ہوا تو فرمایا:صبراً آل یاسر موعدکم الجنة ۔ یاسر کے خاندان والو! صبر سے کام لو تمہاری وعدہ گاہ جنت ہے ان لوگوں نے ان مظلوموں کو اتنی سخت سزا دی کہ جناب عمار کی والدہ سمیہ شہید ہو گئیں( ۲ ) ، عالم اسلام میں یہ پہلی شہید عورت تھیں ۔

اگر ہم رسول(ص)، رسالت اور پیروانِ رسول(ص) سے قریش کے ٹکرانے کے عام طریقوں کو بیان کرناچاہیں تو خلاصہ کے طور پر انہیں اس طرح بیان کر سکتے ہیں۔

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۱ ص ۳۱۷و ص ۳۲۰۔

۲۔ سیرت نبویہ ج۱ ص ۳۱۷ تا ص ۳۲۰ ۔

۱۰۴

۱۔ نبی(ص) کا مضحکہ اڑانا اور لوگوں کی نظر میں آپ(ص) کی شان گھٹانا ان کے لئے آسان طریقہ تھا اس کام میں ولید بن مغیرہ-خالد کا باپ-عقبہ بن ابی معیط، حکم بن عاص بن امیہ اور ابو جہل پیش پیش تھے لیکن خدا ئی طاقت نے ان کے سارے منصوبوں کو خاک میں ملا دیا۔ قرآن کہتا ہے:

( انا کفیناک المستهزئین (۱) ولقد استهزیٔ برسل من قبلک فحاق بالذین سخروا منهم ما کانوا به یستهزئون ) ( ۲ )

آپ(ص) کا مذاق اڑانے والوں کے لئے ہم کافی ہیں۔ آپ(ص) سے پہلے بہت سے رسولوں کا مذاق اڑایا گیا ہے ، نتیجہ میں وہ مذاق، مذاق اڑانے والوں ہی کے گلے پڑ گیا۔

۲۔ نبی(ص) کی اہانت، تاکہ آپ(ص) کمزور ہو جائیں، روایت ہے کہ مشرکین نے ایک مرتبہ آپ پر گندگی اور کوڑا ڈالدیا اس پر آپ(ص) کے چچا جناب ابوطالب کو بہت غصہ آیا اور قریش کو ان کی اس حرکت کا جواب دیا اور ابو جہل کی حرکت کا جواب جناب حمزہ بن عبد المطلب نے دیا۔

۳۔ آپ(ص) کو اپنا بادشاہ وہ سردار بنانے اور آپ(ص) کو کافی مال و دولت دینے کی پیشکش کی۔

۴۔ جھوٹی تہمتیں لگائیں:

جھوٹا، جادوگر مجنون اور شاعر و کاہن کہا۔ ان تمام باتوں کو قرآن نے بیان کیا ہے ۔

۵۔ قرآن مجید میں شک کیا، رسول(ص) پر یہ تہمت لگائی کہ آپ(ص) خدا پر بہتان باندھتے ہیںکہ یہ قرآن خدا کا کلام ہے تو قرآن نے انہیں چیلنج کیا کہ اس کا جواب لے آئو۔ واضح رہے کہ رسول(ص) نے اپنی عمر کا بڑا حصہ انہیں کے درمیان گزارا تھا۔ قریش نے جن چیزوں کی نسبت آپ کی طرف دی تھی وہ آپ(ص) میں دیکھنے میں نہیں آئی تھیں۔

۶۔ آپ کی نبوت و رسالت پر ایمان لانے والے مومنوں کو ستانا اور قتل کرنا۔

۷۔ اقتصادی و سماجی بائیکاٹ۔

____________________

۱۔ حجر: ۹۵۔

۲۔حجر: ۹۴ و ۹۵۔

۱۰۵

۸۔ رسالتمآب(ص) کے قتل کا منصوبہ( ۱ )

نبی (ص) نے وہ طریقہ اختیار فرمایا جس سے رسالت اور اس کے مقاصد کی تکمیل ہوتی تھی۔

حبشہ کی طرف ہجرت

علیٰ الاعلان تبلیغ رسالت کے دو سال بعد رسول(ص) نے یہ محسوس فرمایا کہ آپ(ص) مسلمانوں کو ان مصائب و آلام سے نہیں بچا سکتے جو قریش کے سرکش اور بت پرستوں کے سرداروں کی طرف سے ڈھائے جاتے ہیں۔

مستضعف و کمزور مسلمانوں کے حق میں مشرکین اور ان کے سرداروںکا رویہ بہت سخت ہو گیا تھا لہذا رسول(ص) نے ظلم کا نشانہ بننے والے مسلمانوں سے فرمایا کہ تم لوگ حبشہ چلے جائو۔

ظلم سے کچلے ہوئے مسلمانوں کو آپ سکون و آرام حاصل کرنے کی غرض سے حبشہ بھیجنا چاہتے تھے تاکہ واپس آنے کے بعد وہ اسلامی رسالت و تبلیغ میں سرگرم ہو جائیں یا جزیرہ نما عرب سے باہر قریش پردبائو ڈالیں اور ان سے جنگ کرنے کے لئے ایک نیا محاذ قائم کریں ، اور ممکن ہے اس زمانہ میںخدا کوئی دوسری صورت پیدا کر دے۔ رسول(ص) نے ہجرت کرنے والوں کو یہ خبر دی تھی حبشہ کا بادشاہ عادل ہے اس کے یہاں کسی پر ظلم نہیں کیا جاتا۔ مسلمانوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کرنا قبول کر لیا چنانچہ ان میں سے بعض لوگ خفیہ طریقہ سے ساحل کی طرف روانہ ہو گئے قریش نے ان کا تعاقب کیا لیکن وہ سمندر پا رجا چکے تھے؛ اس کے بعد بھی مسلمان تنہا یا اپنے خاندان کے ساتھ حبشہ جاتے رہے یہاں تک کہ حبشہ میں ان کی تعداد بچوں سے قطع نظر اسّی سے زیادہ ہو گئی، لہذا رسول(ص) نے جعفر بن ابی طالب کو ان کا امیر مقرر کر دیا۔( ۲ )

حبشہ کو ہجرت کے لئے منتخب کرنا یقینا رسول(ص) کے قائدانہ اقدامات میں سے بہترین اقدام تھا۔ رسول(ص) سے ایک حدیث مروی ہے جس میں آپ(ص) نے حبشہ کے بادشاہ کی تعریف کی ہے ۔ پھر وہاں کا سفر کشتیوں کے ذریعہ ہو گیا۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نصرانیت سے اچھے مذہبی روابط استوارکرنا چاہتا ہے۔

____________________

۱۔ انفال:۳۰۔

۲۔ سیرت نبویہ ج۱ ص ۳۲۱، تاریخ یعقوبی ج ۲ ص ۲۹، بحار الانوار ج۱۸ ص ۴۱۲۔

۱۰۶

مسلمانوں کے حبشہ ہجرت کرنے سے قریش کو بہت دکھ ہوا، ہجرت کے نتیجہ سے انہیں خوف لاحق ہوا انہوں نے یہ خیال کیا کہ اسلامی تبلیغ کرنے والوں کو کہیں وہاں امان نہ مل جائے لہذا قریش نے عمرو بن العاص اور عمارہ بن ولید کو حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے پاس بھیجا اور نجاشی کے لئے ان کے ہاتھ تحفے بھیجے، اس سے ان کا مقصد یہ تھا کہ نجاشی انہیں اپنے ملک سے نکال دے اور ان کے سپرد کر دے قریش کے ان دونوں نمائندوں نے نجاشی کے بعض سپہ سالاروں سے بھی ملاقات کی اور ان سے رسم و راہ پیدا کی اور ان سے یہ گزارش کی کہ مسلمانوں کو واپس لو ٹانے میں آپ لوگ ہماری مدد کر یں چنانچہ انہوں نے بھی ان کی سفارش کی مگر نجاشی نے ان کے مطالبہ کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ جب تک میں تمہاری اس تہمت کے بارے میں خود مسلمانوںسے یہ معلوم نہیں کرلونگاگا کہ انہوں نے کیسا نیا دین بنا لیا ہے اس وقت تک انہیں واپس نہیں لوٹا ئوںگا۔

مسلمانوں کی بادشاہ سے اس ملاقات میں خدا کی رحمت ان کے شامل حال رہی جعفر بن ابی طالب نے ایسے دلچسپ انداز میں دین کے بارے میں گفتگو کی کہ جو نجاشی کے دل میں اتر گئی اس کے نتیجہ میں وہ مسلمانوں کی اور زیادہ حمایت کرنے لگا۔ جعفر بن ابی طالب کی یہ گفتگو قریش کے نمائندوں کے سروں پر بجلی بن کر گری۔ ان کے تحفے بھی ان کے کسی کام نہ آ سکے اپنے موقف میں نجاشی کے سامنے ذلیل ہو گئے اور مسلمان اپنے مسلک و موقف میں سرخ رو اور سربلند ہو گئے ان کی حجّت مضبوط تھی جس سے اس تربیت کی عظمت کا پتہ چلتا تھا جو رسول(ص) نے انسان کو فکر و اعتقاد اور کردار کے لحاظ سے بلند کرنے کے لئے کی تھی چنانچہ جب قریش کے وفد نے حضرت عیسیٰ کے بارے میں قرآن کا نظر یہ بیان کرکے فتنہ بھڑکانے کی کوشش کی تو اس کا مسلمانوں پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ بلکہ جب نجاشی نے جعفر بن ابی طالب سے حضرت عیسیٰ کے بارے میں قرآن کا نظریہ معلوم کیا تو انہوں نے حضرت عیسیٰ کے متعلق قرآن کی آیتوں کی تلاوت کی نجاشی نے ان آیتوں کو سن کر کہا: جائو تم لوگ امان میں ہو۔( ۱ )

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۱ ص ۳۳۵، تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۲۹۔

۱۰۷

جب قریش کا وفدناکام حبشہ سے واپس لوٹ آیا تو انہیں اپنی کوششوں کے رائیگاں جانے کا یقین ہو گیا اب انہوں نے یہ طے کیا کہ وہ مکہ کے مسلمانوں کا کھانا پانی بند کر دیں گے اور اجتماعی امور میں ان کا بائیکاٹ کریں گے اس سے ابو طالب اور بنی ہاشم نبی (ص) کی امداد سے دست بردار ہو جائیںگے۔

مقاطعہ اور بنی ہاشم

جب ابو طالب نے قریش کی ہر پیشکش کو مسترد کر دیا اور یہ اعلان کر دیا کہ میں رسول(ص) کی حمایت کر ونگا چاہے انجام کچھ بھی ہو تو قریش نے ایک دستاویز لکھی جس میں بنی ہاشم کے ساتھ خرید و فروخت، نشست و برخاست اور بیاہ شادی نہ کی جانے کی بات تھی۔

یہ دستاویز قریش کے چالیس سرداروں کی طرف سے تحریر کی گئی تھی۔

جناب ابو طالب اپنے بھتیجے، بنی ہاشم اور اولادِ مطلب کو لے کر غار میں جانے پر تیار ہو گئے اور فرمایا: جب تک ہم میں سے ایک بھی زندہ ہے اس وقت تک رسول(ص) پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔ ابو لہب قریش کے پاس چلا گیا اور اولاد مطلب کے خلاف ان کی مدد کی ان لوگوں میں سے ہر ایک غار میں داخل ہو گیا خواہ وہ مومن تھا یا کافر۔( ۱ )

اس زمانہ میں اگر کوئی شخص ترس کھا کر عصبیت کی بنا پر بنی ہاشم کی مدد کرنا چاہتا تھا تو وہ قریش سے چھپا کر ہی کوئی چیز ان تک پہنچا تا تھا۔ اس زمانہ میں بنی ہاشم اور رسول(ص) نے بہت سختی برداشت کی ، بھوک ، تنہائی اور نفسیاتی جنگ جیسی تکلیف دہ سختیاں تھیں خدا نے قریش کی اس دستاویز پرجس کو انہوں نے خانہ کعبہ میں لٹکا رکھا تھا دیمک کو مسلط کر دیا چنانچہ دیمک نے باسمک اللھم کو چھوڑ کر ساری عبارت کو کھا لیا۔

خدا نے اپنے نبی (ص) کو خبر دی کہ دستاویز کو دیمک نے کھا لیا، رسول(ص) نے اپنے چچا ابو طالب سے بتایا۔ جناب ابو طالب رسول(ص) کو لیکر مسجد الحرام میں آئے قریش نے انہیں دیکھ کر یہ خیال کیا کہ ابو طالب اب

____________________

۱۔سیرت نبویہ ج۱ ص ۳۵۰، اعیان الشیعہ ج۱ ص ۲۳۵۔

۱۰۸

رسالت کے بارے میں اپنے موقف سے ہٹ گئے ہیں لہذا اپنے بھتیجے کو ہمارے حوالے کرنے کے لئے آ رہے ہیں، لیکن ابو طالب نے ان سے فرمایا: میرے اس بھتیجے نے مجھے یہ خبر دی ہے کہ خدا نے تمہاری دستاویز پر دیمک کو مسلط کر دیا ہے اور اس نے اللہ کے نام کے علاوہ ساری دستاویز کو کھا لیا ہے اگر یہ قول سچا ہے تو تم اپنے غلط فیصلہ سے دست بردار ہو جائو اور اگر یہ (معاذ اللہ) جھوٹا ہے تو میں اسے تمہارے سپرد کر دونگا....انہوں نے کہا: تم نے ہمارے ساتھ انصاف کیا۔ انہوں نے دستاویز کو کھولا تو اسے ویسا ہی پایا جیسا کہ رسول(ص) نے خبر دی تھی شرم و حیا سے ان کے سر جھک گئے۔( ۱ )

یہ بھی روایت ہے کہ قریش میں سے کچھ بزرگوں اور نوجوانوں نے بنی ہاشم سے اس قطع تعلقی پر ان کی مذمت کی اور غارمیں ان پر گزرنے والی مصیبتوں کو دیکھ کر انہوں نے اس دستاویز کو پھاڑ کر پھینک دینے اور بائیکاٹ کو ختم کرنے کا عہد کیا انہوںنے اس دستاویز کو کھول کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ اسے دیمک نے کھا لیا ہے۔( ۲ )

عام الحزن

بعثت کے دسویں سال قریش شعب ابی طالب سے باہر آئے اب وہ اور زیادہ سخت ، تجربہ سے مالا مال اور اپنے اس مقصد کی طرف بڑھنے میں اور زیادہ سخت ہو گئے تھے کہ جس کو انہوں نے جان سے عزیز سمجھ رکھا تھا اور یہ طے کر رکھا تھا کہ ہر مشکل سے گزر جائیں گے لیکن اس مقصد کو نہیں چھوڑ یں گے۔ اس اقتصادی پابندی کی وجہ سے اسلام اور مسلمانوں کو بہت شہرت ملی، اسلام جزیرہ نما عرب کے گوشہ گوشہ میں مشہور ہو گیا، رسول(ص) کے سامنے بہت سی دشواریاں تھیں ان میں سے ایک یہ بھی دشواری تھی کہ مکہ سے باہر دوسرے علاقوں میں اپنے مقاصد کو سمجھایا جائے ،اور دوسرے علاقوں میں محفوظ مراکز قائم کئے جائیں تاکہ وہاںسے اسلام کی تحریک آگے بڑھ سکے۔

____________________

۱۔تاریخ یعقوبی ج۲ ص۲۱، طبقات ابن سعد ج۱ ص ۱۷۳، سیرت نبویہ ج۱ ص ۳۷۷۔

۲۔سیرت نبویہ ج۱ ص۳۷۵ تاریخ طبری ج۲ ص ۴۲۳۔

۱۰۹

جب ابو طالب کا انتقال ہو گیا تومکہ میں اسلام کی تبلیغ کی راہ میں بہت زیادہ دشوار یاں پیش آئیں کیونکہ رسول(ص) اور رسالت کا طاقتور محافظ اور رسالت کا وہ نگہبان اٹھ گیا تھا جس کی اجتماعی حیثیت تھی ان کے بعد رسول(ص) کا سہارا ام المومنین جناب خدیجہ تھیں ان کابھی انتقال ہوگیا چونکہ ان دونوں حوادث کی وجہ سے تبلیغ کی راہ شدید طور پر متاثر ہوئی تھی لہذا رسول(ص) نے اس سال کا نام''عام الحزن'' یعنی غم کا سال رکھا۔

''مازالت قریش کاعة منی حتی مات ابو طالب'' ( ۱ )

جب تک ابو طالب زندہ تھے قریش میرے قریب نہیں آتے تھے۔

رسول(ص) کے خلاف قریش کی جرأت اس وقت سے زیادہ بڑھ گئی تھی جب قریش میں سے کسی نے رسول(ص) کے سر پر اثنائے راہ میں خاک ڈال دی تھی۔ جناب فاطمہ(ص) نے روتے ہوئے اس مٹی کو صاف کیا۔ آنحضرت (ص)نے فرمایا:

''یا بنیة لا تبکی فان الله مانع اباک'' ( ۱ )

بیٹی رؤئو نہیں بیشک خدا تمہارے باپ کی حفاظت کرے گا۔

معراج

اسی عہد میں رسول(ص) کو معراج ہوئی تاکہ رسول(ص) مقاومت کے طویل راستہ کو طے کر سکیں اور آپ(ص) کی گذشتہ محنت و ثابت قدمی کی قدر کی جاسکے اور شرک و ضلالت کی طاقتوں کی طرف سے جو آپ(ص) نے تکلیفیں اٹھائی تھیں ان کا بھی مداویٰ ہو جائے۔ لہذا خدا آپ(ص) کو آسمانوں کی بلندیوں پر لے گیا تاکہ آپ(ص) کو وسیع کائنات میں اپنے ملک کی عظمت دکھائے اور اپنی خلقت کے اسرار سے آگاہ کرے اور نیک و بد انسان کی سر گذشت سے مطلع کرے۔

یہ رسول(ص) کے اصحاب کا امتحان بھی تھا کہ وہ اس تصور و نظریہ کو کس حد تک برداشت کر سکتے ہیں کہ جس کے

____________________

۱۔ کشف الغمہ ج۱ ص ۶۱، مستدرک حاکم ج۲ ص ۶۲۲۔

۱۱۰

تحت و اپنے رسول(ص) وقائد کے دوش بدوش ہو کر اس لئے لڑ رہے ہیں تاکہ پیغامِ خدا لوگوں تک پہنچ جائے اور صالح و نیک انسان وجود میں آجائے یقینا یہ آپ(ص) کے ان اصحاب کے لئے سخت امتحان تھا جن کے نفس کمزور تھے۔

قریش معراج کے بلند معنی و مفہوم کو نہیں سمجھ سکے چنانچہ جب رسول(ص) نے انہیں معراج کا واقعہ بتایا تو وہ معراج کی مادی صورت ، اس کے ممکن ہونے اور اس کی دلیلوں کے بارے میں سوال کرنے لگے کسی نے کہا: قافلہ ایک مہینے میں شام سے لو ٹتا ہے اور ایک مہینہ میں شام جاتا ہے ۔ اور محمد ایک رات میں گئے بھی اور لوٹ بھی آئے؟! رسول(ص) نے ان کے سامنے مسجد اقصی کی تعریف و توصیف بیان کی اور یہ بتایا کہ آپ(ص) کا گزر ایک قافلہ والوں کی طرف سے ہوا جو اپنے گمشدہ اونٹ کو ڈھونڈ رہے تھے ان کے سامان سفر میں پانی کا ظرف تھا جو کھلا تھا آپ(ص) نے اسے ڈھانک دیا۔

انہوں نے دوسرے قافلہ کے بارے میں سوال کیا تو آپ(ص) نے فرمایا: میں اس کے پاس سے تنعیم میں گذرا تھا، آپ(ص) نے انہیں اس قافلہ کے اسباب اور ہیئت کے بارے میں بھی بتایا، نیز فرمایا: تمہاری طرف ایک قافلہ آ رہا ہے جو صبح تک پہنچ جائے گا۔ چنانچہ جس چیز کی آپ(ص) نے خبر دی تھی وہ حرف بحرف پوری ہوئی۔( ۲ )

____________________

۱۔سیرت نبویہ ج۱ ص ۴۱۶، تاریخ طبری ج۲ ص ۴۲۶۔

۲۔ سیرت نبویہ ج۱ ص ۳۹۶۔

۱۱۱

چوتھی فصل

کشائش و خوشحالی ہجرت تک

طائف والوں نے اسلامی رسالت کو قبول نہیں کیا( ۱ )

رسول(ص) کو اس بات کا بخوبی علم تھا کہ اب قریش کی ایذا رسانیوں میں روز بروز اضافہ ہوگا اور رسالت کو ختم کرنے کے لئے مشرکین کی کوششیں موقوف نہیں ہوںگی۔ ابو طالب کی رحلت سے آپ کا امن و امان ختم ہو چکا تھا دوسری طرف اسلامی رسالت کی نشر و اشاعت وسیع پیمانہ پر ہونا چاہئے تھی ۔ جس وقت رسول(ص)، اسلام کے مبلغین کی تربیت کر رہے تھے اسی وقت ایک ایسا مرکز قائم کرنے کے لئے بھی غور کر رہے تھے کہ جس میں استقلال و خود مختاری کے نقوش واضح ہوں اور معاشرہ کا نظام ایسا ہو کہ جس میں فرد اپنی زندگی بھی گزارے اور خدا کے ساتھ اپنی صنف کے دوسرے افراد سے بھی اس کا رابطہ رہے تاکہ رفتہ رفتہ آسمانی قوانین کے مطابق اسلامی و انسانی تہذیب قائم ہو جائے۔ اس مرکز کی تشکیل کے لئے آپ(ص) کی نظر طائف پر پڑی جہاں قریش کے بعد عرب کاسب سے بڑا قبیلہ ''ثقیف'' آباد تھا۔ جب آپ(ص) تنہا، یا زید بن حارثہ یا علی بن ابی طالب کے ساتھ وہاں تشریف لے گئے( ۲ ) اور قبیلۂ ثقیف کے بعض شرفاء و سرداروں سے گفتگو کی اور انہیں خدا کی طرف بلایا اور ان کے سامنے وہ چیز بیان کی جس کے لئے آپ (ص) کو نبی (ص) بنا کر بھیجا گیا تھا کہ آپ(ص) کی تبلیغ میں وہ مدد کریں اور آپ(ص) کو قریش وغیرہ سے بچائیں توانہوں نے آپ(ص) کی یہ بات تسلیم نہ کی

____________________

۱۔ آپ(ص) نے بعثت کے دسویں سال طائف کا سفر کیا تھا۔

۲۔نہج بلاغہ، ابن ابی الحدید، ج ۴ ص ۲۷ ۱ ص ج۱۴ ص ۹۷۔

۱۱۲

بلکہ آپ(ص) کا مذاق اڑاتے ہوئے ان میں سے کسی نے کہا: اگر خدا نے تمہیں رسول بنا کر بھیجا ہے تو میں خانہ کعبہ کا پردہ پھاڑ ڈالوںگا دو سرے نے کہا: اگرآپ خدا کی طرف سے رسول(ص) ہیں تو میں آپ سے ہرگز کلام نہیں کروںگا کیونکہ اس صورت میں آپ کی بات کا جواب دینا خطرہ سے خالی نہیں ہے ہاں اگر آپ(ص) نے خدا پر بہتان باندھا ہے تو میرے لئے ضروری نہیں کہ آپ(ص) سے گفتگو کروں تیسرے نے کہا: کیا خدااس سے عاجز تھا کہ تمہارے علاوہ کسی اور کو بھیج دیتا۔( ۱ )

اس سوکھے اور سپاٹ جواب کو سن کر رسول(ص) ان کے پاس سے اٹھ کھڑے ہوئے اور ان سے یہ کہا: تمہارے اور میرے درمیان جو بھی گفتگو ہوئی ہے اس کو کسی اور سے بیان نہ کرنا کیونکہ آپ کو یہ بات پسند نہیں تھی کہ یہ واقعہ قریش کو معلوم ہواورآپ(ص) کے خلاف ان کی جرأت بڑھ جائے ۔ لیکن ثقیف کے سرداروں نے آپ(ص) کی اس بات کو قبول نہ کیا بلکہ اپ(ص) کے خلاف اپنے لڑکوں اور غلاموں کو اکسایا تو وہ آپ(ص) کوبر بھلا کہنے لگے آپ(ص) کو ڈھیلے پتھر مارنے لگے، آپ(ص) کے پیچھے شور مچانے لگے۔ ان لوگوں نے اتنا پتھرائو کیا تھا کہ آپ کا جو قدم بھی پڑتا تھا وہ پتھر پر پڑتا تھا۔ بہت سے تماشائی اکھٹا ہو گئے یہاں تک کہ انہوں نے آپ(ص) کو ربیعہ کے بیٹوں، عتبہ و شیبہ کے باغ میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا، وہ دونوں باغ میں موجود تھے، انہوں نے ان لوگوں کو بھگایا، آپ کے دو نوںپیروں سے خون بہہ رہا تھا آپ انگور کی بیل کے سایہ میں بیٹھ گئے اور اس طرح شکوہ کیا:

''الّلهم الیک اشکو ضعف قوّتی و قلّة حیلت و هوان علیٰ الناس یا ارحم الرحمین انت رب المستضعفین و انت رب الیٰ من تکلن؟ الیٰ بعید یتجهمن ام الیٰ عدو ملکته امری؟ ان لم یکن بک غضب علّ فلا ابال ولکن عافیتک هی اوسع''

اے اللہ! میں اپنی ناتوانی، بے سرو سامانی اور اپنے تئیں لوگوں کی اہانت کی تجھ سے فریاد کرتا ہوں،اے رحم کرنے والوں میں سب سے زیادہ رحم کرنے والے! عاجز و در ماندہ لوگوں کا مالک تو ہی ہے ۔ میرا مالک بھی تو ہی ہے ، مجھے کس پر چھوڑا ہے کیا اس بندے پر جو مجھ پر تیوری چڑھائے؟ یا اس دشمن پر جو میرے کام پر

____________________

۱۔سیرت نبویہ ج۱ ص ۴۲۰، بحار الانوار ج۱۹ ص ۶ و ۱۷ اور ص ۲۲، اعلام الوریٰ ج۱ ص ۱۳۳۔

۱۱۳

پردسترسی رکھتا ہے؟ لیکن جب مجھ پرتیرا غضب نہیں ہے تو مجھے کوئی پریشانی نہیں ہے کیونکہ تیری عطا کی ہوئی عافیت میرے لئے بہت وسیع ہے ۔

رسول(ص) ابھی خدا کی بارگاہ میں اسی طرح شکوہ کناںتھے کہ ایک نصرانی آپ(ص) کی طرف متوجہ ہوا اس نے آپ میں نبوت کی علامتیں دیکھیں۔( ۱ )

جب رسول(ص) قبیلۂ ثقیف کی نجات و بھلائی سے مایوس ہو کر طائف سے مکہ کی طرف واپس لوٹ رہے تھے اس وقت آپ کو اس بات پر بہت افسوس تھا کہ کسی نے بھی ان کی بات نہ مانی، مکہ و طائف کے درمیان آپ نخلہ میں ٹھہرے، رات میں جب نماز میں مشغول تھے، اس وقت آپ کے پاس سے جناتوں کا گذرہوا، انہوں نے قرآن سنا آپ نماز پڑھ چکے تو وہ اپنی قوم میں واپس آئے وہ خود رسول(ص) پر ایمان لا چکے تھے اب انہوں نے اپنی قوم والوں کو ڈرایا، خداوند عالم نے ان کے اس واقعہ کو اس طرح بیان کیا ہے:

( واذا صرفنا الیک نفراً من الجن یستمعون القرآن...و یجرکم من عذاب الیم ) ( ۲ )

اور جب ہم نے جنوںمیں سے ایک گروہ کو آپ کی طرف پلٹایا تاکہ وہ غور سے قرآن سنیں لہذا جب وہ حاضر ہوئے تو آپس میں کہنے لگے کہ خاموشی سے سنو پھر جب تلاوت تمام ہو گی تو فوراً اپنی قوم کی طرف پلٹ کر ڈرانے والے بن کر آگئے ،کہنے لگے اے قوم والو! ہم نے آیات کتاب کو سنا ہے جو موسیٰ کے بعد نازل ہوئی ہے یہ اپنی سابقہ کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اور حق و انصاف اور سیدھے راستے کی جانب ہدایت کرنے والی ہے ،قوم والو! اللہ کی طرف دعوت دینے والے کی آواز پر لبیک کہو اور اس پر ایمان لے آئو تاکہ اللہ تمہارے گناہوں کو بخش دے اور تمہیں دردناک عذاب سے پناہ دے ۔

____________________

۱۔طبری ج۲ ص ۴۲۶، انساب الاشراف ج۱ ص ۲۲۷، تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۳۶، سیرت نبویہ ج۱ ص ۴۲۰۔

۲۔طبری ج۲ ص ۳۴۶، سیرت ابن ہشام ج۲ ص ۶۳، الطبقات الکبریٰ ص ۳۱۲، ملاحظہ ہو سورۂ احقاف: ۲۹ تا ۳۱۔

۱۱۴

مکہ میں راہ رسالت میں رکاوٹیں

رسول(ص) کی تحریک ایک ترقی پذیر و تعمیری جہاد تھا۔ آپ کا قول و فعل اورحسن معاشرت؛ فطرت سلیم اور بلند اخلاق کا پتہ دیتا تھا آپ نفوس میں حق کو اجاگر کرتے تھے تاکہ انہیں زندہ کر سکیں اور انہیں فضائل کی طرف بلاتے تھے تاکہ بشریت ان سے آراستہ ہو سکے یہی وجہ ہے کہ قریش کی ایذا رسانیوں ،ان کی سنگدلی اور طائف والوں کے ظلم و ستم کے باوجود رسول(ص) مایوس نہیں ہوئے بلکہ لوگوں کو دین خدا کی طرف دعوت دیتے رہے۔ خصوصاً عمرہ وحج کے زمانہ میں کیونکہ اس وقت تبلیغ کا بہترین موقعہ ملتا تھاآپ قبائل کی قیام گاہ پر جاتے اور ان سب کو دینِ خدا قبول کرنے کی دعوت دیتے اور فرماتے تھے:

''یا بنی فلان انی رسول الله الیکم یا مرکم ان تتعبدوا الیه ولا تشرکوا به شیئاً و ان تومنوا بی و تصدقونی و تمنعونی حتی ابین عن الله ما بعثنی به'' ۔( ۱ )

اے فلاں خاندان والو! مجھے تمہاری طرف رسول(ص) بنا کر بھیجا گیا ہے ۔ خدا تمہیں یہ حکم دیتا ہے کہ تم اس کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہرائو، میرے اوپر ایمان لائو، میری تصدیق کرو اور میری حفاظت کرتے رہو یہاں تک کہ میں تمہارے سامنے اس چیز کو کھول کر بیان کر دوں جس کے ساتھ مجھے مبعوث کیا گیا ہے ۔

رسول(ص) نے قبیلوں سے ملاقات کرنے کا سلسلہ جاری رکھا بعض نے سنگدلی سے آپ کی دعوت کو رد کر دیا اور بعض نے معذرت کر لی ،کچھ لوگوں کے اندر آپ(ص) نے اسلام کی طرف سیاسی رجحان پایا وہ اسلام کے ذریعہ حکومت حاصل کرنا چاہتے تھے لہذا انہوں نے اسی کے مطابق کوشش کرنا شروع کی لیکن رسول(ص) نے سختی سے ان کو ٹھکرا دیا اور انہیں موقعہ سے فائدہ نہیں اٹھانے دیا رسول(ص) نے فرمایا:''الامر الیٰ اللّٰه یضعه حیث یشاء'' یہ معاملہ خدا کے ہاتھ ہے وہ جہاں چاہتا ہے قرار دیتا ہے۔( ۲ )

____________________

۱۔سیرت نبویہ ج۱ ص ۴۲۳، تاریخ طبری ج۲ ص ۴۲۹، انساب الاشراف ج۱ ص ۲۳۷۔

۲۔سیرت نبویہ ج۱ ص ۴۲۴ تاریخ طبری ج۲ ص ۴۳۱۔

۱۱۵

اکثر ابو لہب رسول(ص) کے پیچھے پیچھے جاتا اور لوگوں کو آپ(ص) کی متابعت کرنے سے منع کرتا تھا اور کہتا تھا: اے فلاں خاندان والو! یہ تو بس تمہیں لات و عزی کو ٹھکرانے اور بدعت و ضلالت کو قبول کرنے کی دعوت دیتا ہے پس تم اس کی اطاعت نہ کرنا اور اس کی بات نہ سننا۔( ۱ )

دوسری طرف ام جمیل عورتوں کے بیچ میں کھڑی ہوتی اور رسول(ص) اور آپ(ص) کی تبلیغ کا مذاق اڑاتی تاکہ عورتیں آپ(ص) کی متابعت نہ کریں۔

نبی(ص) قبائل کو اسلامی رسالت کے ذریعہ مطمئن نہیں کر سکتے تھے کیونکہ قریش کو دوسرے قبائل کے درمیان دینی اعتبار سے فوقیت حاصل تھی اور خانۂ کعبہ کی خدمت و دربانی بھی قریش ہی کے پاس تھی اور جزیرہ نما عرب کی تجارت و اقتصاد کا مرکزبھی مکہ ہی تھاپھر جن قبائل کو رسول(ص) نے اسلام کی دعوت دی تھی قریش سے ان کے تعلقات اور معاہدے بھی تھے ان کے لئے ان معاہدوں اور پابندیوںکو توڑنا بہت مشکل تھا۔ پس اسلام قبول کرنے میں لوگوں کا متردد ہونا یقینی تھا اس کے باوجود قریش کو رسول(ص) کی تحریک اور آپ کی تبلیغ رسالت سے خوف لاحق تھا لہذا انہوں نے ایک منصوبہ بنایا کہ ممکن ہے بت پرستوں کی عقلیں اس کو قبول کر لیں انہوں نے بالاتفاق لوگوں کے درمیان یہ پروپیگنڈہ کرنا شروع کیاکہ محمد اپنے بیان کے ذریعہ جادو کر دیتا ہے اور مرد سے عورت کو بھائی کو بھائی سے جدا کر دیتا ہے لیکن جب لوگ رسول(ص) سے ملاقات کرتے اور ان پر رسول(ص) و رسالت کی عظمت آشکار ہوتی تھی تو قریش کا یہ پروپیگنڈہ ناکام ثابت ہوتا تھا۔( ۱ )

عقبۂ اولیٰ کی بیعت

تبلیغ رسالت کے سلسلہ میں رسول(ص) نے کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا بلکہ آپ (ص)مکہ میں آنے والے ہر اس شخص کو دعوت اسلام دیتے تھے جس میں بھلائی و بہتری دیکھتے یا اس کا اثر و نفوذ محسوس کرتے تھے۔ مدینہ میں دو قوی ترین قبیلوں اوس و خزرج کے درمیان مدتوں سے سیاسی و فوجی معرکہ آرائی چلی آ رہی تھی یہود اپنی خباثت و مکاری سے اس ماحول میں ان کی جنگ کو مستقل ہوا دیتے تھے تاکہ اسلامی قانون کا نفاذ نہ ہو سکے۔

____________________

۱۔سیرت نبویہ ج۱ ص ۲۷۰۔

۱۱۶

یثرب سے جو لوگ حلیف بنا کراپنی طاقت بڑھانے کے لئے مکہ آتے تھے ان میں سے بعض سے رسول(ص) نے ملاقات کی اور دیکھتے ہی دیکھتے رسالت کا اثر اور نبوّت کی صداقت ان کے نفوس میں جا گزیں ہو گئی۔ ایک ملاقات میں رسول(ص) نے بنی عفراء کی ایک جماعت سے گفتگو کی یہ جماعت خزرج سے منسوب تھی ان کے سامنے اسلام پیش کیا اور قرآن کے ایک حصہ کی تلاوت کی تو ان کی آنکھوں اور دلوں میں مزید آیتوں کے سننے کا اشتیاق پایا...رسول(ص) کی گفتگو سے وہ سمجھ گئے کہ یہ وہی نبی(ص) ہے کہ جس کا ذکر یہود ،مشرکین سے نزاع کے وقت انہیں ڈرانے کے لئے کرتے ہیں اور کہتے ہیں: ایک نبی کی بعثت ہو گی اور اس کا زمانہ قریب ہے ہم اس کا اتباع کریں گے اورپھر ہم تمہیں ارم و عاد والوں کی طرح قتل کریں گے۔( ۱ )

ان چھہ اشخاص نے اسی وقت اپنے اسلام کا اعلان کر دیا،رسول(ص) کی خدمت میںعرض کی: ہم نے اپنی قوم کو اس حال میں چھوڑ ا ہے کہ کسی قوم میں اتنی عداوت و دشمنی نہیں ہے جتنی ان کے درمیان ہے امید ہے کہ خدا آپ(ص) کے ذریعہ ان کے درمیان صلح کرادے۔ ہم ان کے سامنے اسلام پیش کریں گے اور انہیں آپ(ص) کے دین کی طرف بلائیں گے اس دین کی طرف جو آپ(ص) نے ہم سے قبول کرایا ہے ۔

اس کے بعد وہ یثرب کی طرف لوٹے ؛ نبی(ص) اور رسالت کے بارے میںآپس میں گفتگو کرتے ہوئے اور آنے والی امن و امان کی زندگی سے متعلق اظہار خیال کرنے لگے ان کے درمیان دیکھتے ہی دیکھتے اسلام کا پیغام پھیل گیا، یثرب میں کوئی گھر ایسا نہیں بچا جس میں رسول کا ذکر نہ پہنچا ہو۔( ۲ )

دن گزرتے دیر نہیں لگتی پھر گیارہویں بعثت کو جب حج کا زمانہ آ گیا یثرب سے اوس و خزرج کا ایک وفد آیا جو بارہ افراد پر مشتمل تھا ان میں چھہ افراد وہ تھے جو عقبہ اولیٰ میں خفیہ طریقہ سے رسول(ص) سے ملاقات کرکے اسلام قبول کر چکے تھے-عقبہ وہ جگہ ہے جہاں سے یثرب والے مکہ پہنچتے ہیں-اس مرتبہ ان لوگوں نے یہ اعلان کیا کہ ہم نے اس بات پر رسول(ص) کی بیعت کر لی ہے کہ کسی کو خدا کا شریک قرار نہیں دیں گے چوری نہیں

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۱ ص ۴۲۸، بحار الانوار ج۱۹ ص ۲۵۔

۲۔ تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۳۷ و ص۳۸، سیرت نبویہ ج۱ ص ۴۲۹، بحار الانوار ج۱۹ ص ۲۳۔

۱۱۷

کریں گے۔ زنا نہیں کریں گے ، اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گے اوراز خود گڑھی ہوئی باتوں کے ذریعہ بہتان نہیں باندھیںگے اور نیک کاموں میں آپ(ص) کی نافرمانی نہیں کریں گے۔( ۱ )

رسول(ص) ان پر اس سے زیادہ ذمہ داری نہیں ڈالنا چاہتے تھے ان کے ساتھ آپ(ص) نے جوان مسلمان مصعب بن عمیر کو یثرب بھیجا تاکہ وہ ان کے درمیان عقائد کی تبلیغ کریں۔ عقبۂ اولیٰ کی بیعت اسی پر تمام ہوئی۔

عقبۂ ثانیہ

مصعب یثرب کے گلی کوچوں میں اور ان کے مجامع میں قرآن کی آیتوں کی تلاوت کرتے تھے، قرآن کے ذریعہ ان کے دلوں اور عقلوں کو جھنجھوڑتے رہے یہاں تک کہ بہت سے لوگ رسالت اسلامیہ پر ایمان لے آئیے۔

اسلام نے لوگوں کے دلوں میں رسول(ص) سے ملنے کا بڑا اشتیاق پیدا کر دیا انہوں نے والہانہ انداز میں رسول(ص)سے گزارش کی کہ آپ(ص) ہمارے یہاں تشریف لائیں۔

بعثت کے بارہویں سال جب حج کا زمانہ آیا تو یثرب سے حاجیوں کے قافلہ چلے ان میں ۷۳ مسلمان مرد اور دو عورتیں بھی تھیں رسول(ص) نے ان سے یہ وعدہ کیا کہ آپ(ص) ان سے عقبہ میں ایام تشریق میں رات کے وقت ملاقات کریں گے؛ یثرب کے مسلمان اس وقت تک اپنا اسلام چھپائے ہوئے تھے۔

جب تین حصہ رات گذر گئی اور آنکھوں سے نیند اچٹ گئی تو مسلمان چھپ کراپنے خیموں سے نکلے اور رسول(ص) کے انتظار میں جمع ہو گئے رسول(ص) آئے آپ(ص) کے ساتھ آپ(ص) کے اہل بیت (ص) میں سے بھی کچھ لوگ تھے، سب جمع ہو گئے، ان لوگوں نے گفتگو شروع کی، پھر رسول(ص) نے گفتگو کا آغاز کیا، قرآن مجید کی چند آیتوں کی تلاوت کی اس کے بعد انہیں خدا کی طرف بلایا اور اسلام کی ترغیب دلائی۔

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۱ ص ۴۳۳، تاریخ طبری ج۲ ص ۴۳۶۔

۱۱۸

اس بار اسلام کے ہر پہلو، اس کے احکام اور جنگ و صلح کے بارے میں صریح طور پر بیعت ہوئی؛ رسول(ص) نے فرمایا:

''ابایعکم علیٰ ان تمنعونی مما تمنعون منه نسائکم و ابنائکم''

میں تم سے اس بات پر بیعت لیتا ہوں کہ تم ہر اس چیز سے میری حفاظت کرو گے جس سے تم اپنے بیوی بچوں کی حفاظت کرتے ہو۔ اس پر ان لوگوں نے رسول(ص) کی بیعت کی۔

اس موقعہ پر یثرب کے مسلمانوں کی طرف سے خدشہ کا اظہار ہوا، ابو الہیثم ابن تیہان نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول(ص)! ہمارے اور یہودیوں کے درمیان کچھ معاہدے ہیں اگرہم انہیں توڑ دیں تو کیا ایسا کرنے سے ہم گناہگار ہونگے اور اگر خدا آپ(ص) کو کامیاب کر دے توکیاآپ اپنی قوم کی طرف پلٹ جائیں گے ؟اس پر رسول(ص) مسکرائے اور فرمایا:''بل الدم الدم و الهدم الهدم احارب من حاربتم و اسالم من سالمتم'' ( ۱ ) بلکہ خون کا بدلہ خون اور مباح کئے ہوئے خون کا عوض مباح ہے ۔ میں اس سے جنگ کرونگا جس سے تم جنگ کروگے میں اس سے صلح کرونگا جس سے تم صلح کروگے۔

اس کے بعد رسول(ص) نے فرمایا: تم میں سے بارہ افراد میرے پاس آئیں تاکہ وہ اپنی قوم میں میرے نمائندے قرار پائیں چنانچہ ان میں سے نو افراد خزرج میں سے اور تین اوس میں سے نکلے ان سے رسول(ص) نے فرمایا:

''انتم علیٰ قومکم بما فیهم کفلاء ککفالة الحواریین لعیسیٰ بن مریم و انا کفیل علیٰ قوم'' ۔( ۲ )

تم اپنی قوم کے درمیان ان کے معاملات کے ایسے ہی ذمہ دار و ضامن ہو جیسے حضرت عیسیٰ کے حواری ضامن و ذمہ دار تھے اور میں اپنی قوم کا ذمہ دار ہوں۔

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۱ ص ۴۳۸، تاریخ طبری ج۲ ص ۴۴۱، مناقب آل ابی طالب ج۱ ص ۱۸۱۔

۲۔ تاریخ طبری ج۲ ص ۴۴۲، سیرت نبویہ ج۱ ص ۴۴۳، مناقب آل ابی طالب ج۱ ص ۱۸۲۔

۱۱۹

رسول(ص) نے ہرکام کے لئے حکیمانہ راہنمائی پختہ اور عمدہ تدبیر ، گہری سیاسی سوجھ بوجھ سے کام لیا اور اس مقصد کی طرف رسالت کو لیکر بڑھے جس کی وحی ِ الٰہی نے تائید کی تھی اور بیعت کرنے والوں سے فرمایا کہ تم اپنی قیام گاہ کی طرف لوٹ جائو مشرکین سے نہ ٹکرانا کہ خدا نے قتال و خونریزی کا حکم نہیں دیا۔

قریش نے جب یہ محسوس کیا کہ یثرب کے مسلمان نبی(ص) کی مدد کر رہے ہیں توانہوں نے اسے اپنے لئے بہت بڑا خطرہ سمجھا اور وہ غیظ وغضب میں آپے سے باہر ہو گئے اور چاہا کہ نبی(ص) اور مسلمانوں کے درمیان حائل ہو جائیں لیکن عقبہ کے اجتماع میں جناب حمزہ و علی پاسبان و محافظ تھے لہذا قریش ناکام واپس لوٹ گئے۔( ۱ )

ہجرت کی تیاری

قریش غفلت سے بیدار ہو چکے تھے جبکہ مسلمانوں میں کامیابی کی امید جاگ اٹھی تھی جس کی وجہ سے مشرکوں کی طرف سے ایذا رسانی میں بھی اضافہ ہو گیا اور قریش نے مسلمانوں کے ساتھ سخت و سنگدلی کا رویہ اختیار کیا ان پر شدید ظلم کئے اور یہ کوشش کی کہ مسلمانوں کا شیراز ہ بننے سے پہلے ہی ان کا صفایاکر دیں،مسلمانوں نے رسول(ص) سے اس ظالمانہ سلوک کی شکایت کی اور آنحضرت سے مکہ چھوڑنے کے لئے اجازت چاہی آپ(ص) نے ان سے چند روز کی مہلت طلب کی پھر فرمایا:''لقد اخبرت بدار هجرتکم و هی یثرب فمن اراد الخروج فلیخرج الیها'' ( ۲ ) مجھے تمہارے جس دار ہجرت کی خبر دی گئی ہے وہ مدینہ ہے پس جو تم میںسے مکہ چھوڑنا چاہتا ہے وہ مدینہ چلا جائے۔

دوسری روایت میں اس طرح نقل ہوا ہے :''ان اللّٰه قد جعل لکم دارا تامنون بها و اخوانا'' ( ۳ ) بیشک خدا نے تمہارے لئے ایک جگہ مقرر کر دی ہے جہاں تم امن و اخوت کی زندگی گزار وگے۔

بعض مسلمانوں نے خفیہ طریقہ سے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت شروع کر دی تاکہ قریش کو شک نہ ہو۔

____________________

۱۔ تفسیر قمی ج۱ ص۲۷۲۔

۲۔ الطبقات الکبریٰ ج۱ ص۲۲۶۔

۳۔مناقب آل ابی طالب ج۱ ص ۱۸۲، السیرة النبویہ ج۱ ص ۴۶۸۔

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

۲)___ ہمارے پیغمبر گرامی قدر نے اس کا ابتدائی___ اعلان کردیا تھا_

۳)___ قرآن کریم نے بھی جو اللہ کا کلام اور پیغمبر کا دائمی معجزہ ____ بتلایا ہے_

۴)___ لہذا ہم جو مسلمان ہیں___ شمار کرتے ہیں

نیچے دیئےوئے سوالوں کو پڑھئے اور اس درست کے مطالب کو توجہ سے پڑھنے کے بعد ان کا جواب دیجئے_

۱)___ کیا کوئی ایسی کتاب ہے کہ جو رہنمائی اور ہدایت کا تمام انسانوں کے لئے تمام زبانوں میں آئین رکھتی ہو؟ اور کس طرح؟ اس کا جواب ہاں میں ہوگا؟ کیوں_

خدا جو تمام انسانوں کی تمام زبانوں میں ضروریات کو جانتا ہے قرآن کو____؟

۲)___ کیا لوگ ہمیشہ کے لئے قرآن کی راہنمائی اور ہدایت کے محتاج ہیں؟

جواب ہاں میں ہے کیوں کہ قرآن کے ہم اسی طرح ____؟

۳)___ پیغمبر گرامی قدر(ص) نے ابتدائے اسلام سے اپنے آپ کو کس طرح پہنچوایا_

۱۴۱

جواب: خود کو آخری پیغمبر ہونا بتلاتے تھے اور فرماتے تھے کہ میں اللہ کا آخری پیغمبر ہوں میرے____

۴)___ اللہ تعالی نے دین اسلام کو آخری دین اور پیغمبر گرامی قدر کو آخری پیغمبر کیوں بتلایا ؟

جواب: کیوں کہ قرآن دین اسلام کی ہمیشہ رہنے والی کتاب ہے_

۱۴۲

انیسواں سبق

قرآن اللہ کا کلام ہے

اگر آپ بھی وہاں ہوتے تو دیکھتے کہ ایک دانشمند خانہ کعبہ کے نزدیک کھڑا تھا اور تھوڑی سی روئی ہاتھ میں لے کر کان میں دے رہا تھا اور پھر اسے دباتا تھا وہ مكّہ میں نو وارد تھا اس کے دوست اس کی ملاقات کے لیئے گئے اور مكّہ کی تازہ خبر ناراضگی اور اضطراب کے ساتھ اسے بتائی گئی تھی اور اس سے کہا کہ محمد(ص) امین کو پہچانتے ہو؟

وہ کہتا ہے کہ میں اللہ کا پیغمبر ہوں اور اللہ تعالی کی طرف سے پیغام لایا ہوں محمد(ص) کہتا ہے کہ بتوں میں تو کوئی قدرت ہی نہیں کہ جنہیں تم پوجتے ہو بتوں کی پرستش کو چھوڑ دو اور ظالموں کے سامنے نہ جھکو اور عاجزی کا اظہار نہ کرو وہ کہتا ہے کہ تم اپنے آپ کو دوسروں کے اختیار میں قرار نہ دو صاحب قدرت اور ظالم لوگ تم پر کوئی فضیلت نہیں رکھتے آنکھ بند

۱۴۳

کر کے ان کی اطاعت کیوں کرتے ہو اور کیوں کی غیر معقول باتوں کو سنتے اور مانتے ہو_

یہی وجہ ہے کہ اب غلام ہمارے حکم کو نہیں مانتے اور ہماری اطاعت نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہوگئے ہیں اور حضرت محمد(ص) کے پیروکار ہیں اور ظلم و ستم کے سامنے نہیں جھکیں گے_

اے عقلمند اور دانشمند انسان تم ہرگز اس سے بات نہ کرنا اور اس کی گفتگو نہ سننا ہمیں ڈر ہے کہ تجھے بھی گمراہ نہ کردے یہ روئی لو اور اپنے کانوں میں ڈال لو اور اس کے بعد مسجد الحرام میں جانا_ ازدی قبیلہ کے اس عالم اور دانشمند نے روئی لی اور خانہ کعبہ کی زیارت کے لئے مسجد الحرام کی طرف چل پڑا خانہ کعبہ کے نزدیک پہنچا و روئی اپنے کانوں میں رکھی اور طواف کرنے میں مشغول ہوگیا وہ کہتا ہے کہ طواف کی حالت میں محمد(ص) امین کو دیکھا کہ کچھ پڑھ رہے ہیں ان کے لبوں کی حرکت کو میں دیکھ رہا تھا لیکن ان کی آواز کو نہیں سن رہا تھا میں ان کے ذرا نزدیک ہوا آپ کے پاک اور زیبا چہرے کو دیکھا آپ جو کچھ پڑھ رہے تھے اس کی بھنبھناہٹ میرے کان تک پہنچی میں آپ کا مجذوب ہوگیا کہ کیوں محمد(ص) کی باتوں کو نہ سنوں کتنا اچھا ہے کہ روئی کو کانوں سے نکال دوں اور آپ کی باتوں کو سنوں اگر ٹھیک ہوئیں قبول کرلوں گا اور اگر ٹھیک نہ ہوئیں تو چھوڑدوں گا میں نے روئی کانوں سے نکالی جو کچھ محمد(ص) پڑھ رہے تھے کان دھرے عمدہ کلمات او رخوش آواز کو سننے سے متزلزل ہوا جو کچھ پڑھ رہے تھے

۱۴۴

وہ کلام ختم ہوگیا آپ اپنی جگہ سے اٹھے اور مسجدالحرام سے باہر نکل پڑے میں بھی آپ کے ساتھ مسجد الحرام سے باہر آیا راستے میں آپ(ص) سے بات کی یہاں تک کہ آپ(ص) کے گھر پہنچ گیا گھر کے اندر آیا آپ کا ایک سادہ کمرہ تھا وہاں بیٹھ کر گفتگو میں مشغول ہوا میں نے کہا اے محمد(ص) میں نے ان کلمات کی جو آپ(ص) پڑھ رہے تھے بھنبھناہٹ تو سنی تھی لیکن میرا دل چاہتا تھا کہ اس میں سے کچھ حصّہ میرے سامنے پڑھیں واقعی کتنا اچھا کلام آپ پڑھ رہے تھے محمد(ص) امین نے جو میری بات کو غور سے سن رہے تھے مسکرائے اور کہا وہ کلام میرا نہ تھا بلکہ میرے خدا کا ہے تم بت پرست مجھے اچھی طرح جانتے ہو کہ میں نے چالیس سال تم میں گزارے ہیں اور میں امانت داری اور سچائی میں معروف تھا تم سب جانتے ہو کہ میں نے کسی سے درس نہیں پڑھا اب اس قسم کے زیبا کلمات اور پر معنی کلام تمہارے لئے لایا ہوں کیا وہ علماء اور دانشمند جنہوں نے سالہا سال درس پڑھا ہے اس قسم کا کلام لاسکتے ہیں؟ کیا تم خود اس قسم کا کلام بنا سکتے ہو اگر تھوڑا سا غور کرو تو سمجھ جاؤگے کہ یہ کلام میرا نہیں ہے بلکہ میرے خدا کا ہے کہ جس نے مجھے پیغمبری کے لئے چنا ہے یہ عمدہ اور پر مطلب کلام اللہ کا پیغام ہے اور میں صرف اس پیغام کا لانے والا ہوں تمہارے اور تمام انسانوں کے لئے یہ آزادی کا پیغام ہے اور سعادت کو خوشخبری ہے اب تم اللہ کے پیغام کو سنو محمد(ص) امین نے ان ہی عمدہ اور پر مطلب کلمات میں سے کچھ میرے لئے پڑھے عجیب کلام تھا میں نے اس قسم کا کلام ہرگز نہیں سنا تھا تھوڑا سا میں

۱۴۵

نے فکر کی اور میں سمجھا کہ اس کلام کو محمد(ص) نے نہیں گڑھا اور کوئی بھی انسان اس قسم کا عمدہ اور پر مغز کلام نہیں کہہ سکتا میں نے یقین کے ساتھ سمجھا کہ حضرت محمد(ص) خدا کے پیغمبر(ص) ہیں میں ان پر ایمان لایا ہوں اوردین اسلام کو قبول کرلیا اور اللہ تعالی کے فرمان کو تسلیم کرلیا_

جانتے ہو کہ جب مسلمان ہوگیا تو میرے دوستوں نے مجھ سے کیا کہا اور مجھ سے کیا پوچھا اور مجھ سے کیا سلوک کیا_

۱۴۶

بیسواں سبق

قرآن پیغمبر اسلام(ص) کا دائمی معجزہ ہے

ہمارے پیغمبر(ص) کا دائمی معجزہ قرآن ہے سمجھ دار انسان قرآنی آیات کو سنکر یہ سمجھ سکتا ہے کہ قرآن کی آیات خود پیغمبر اسلام (ص) کا کلام نہیں بلکہ اللہ کا کلام ہے سمجھدار اور حق طلب لوگ قرآن کے سننے اور اس کی آیات میں غور کرنے سے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ قرآن اللہ کا کلام ہے حضرت محمد(ص) اللہ تعالی سے ایک خاص ربط کی وجہ سے اس قسم کا عمدہ اور پر مغز کلام لائے ہیں خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے اگر اس قرآن میں جو ہم نے اپنے بندہ پر نازل کیا ہے تمہیں شک ہو یعنی یہ گمان ہو کہ یہ اللہ کا نہیں ہے اور ایک معمولی انسان کا کلام ہے تو اس قسم کا ایک سورہ قرآن کی سورتوں کی طرح بنالاؤ ایک اور جگہ خدا قرآن میں فرماتا ہے اگر تمام مخلوق کٹھی ہوجائے اور ایک دوسرے کی مدد کرے کہ قرآن جیسی

۱۴۷

کوئی کتاب بنائیں تو ہرگز ایسا نہیں کرسکیں گی کیونکہ کوئی بھی مخلوق کتنی ہی ترقی کرجائے پھر بھی ہے تو اس کی مخلوق کہ جسے ان مخصوص کاموں کی قدرت نہیں ہوسکتی کہ انھیں اللہ تعالی انجام دیتا ہے اسی لئے آج تک کوئی بھی قرآن کی مانند کوئی کتاب نہیں لاسکا اور نہ ہی آئندہ لاسکے گا اب جب کہ اتنا بڑا معجزہ پیغمبر خدا حضرت محمد(ص) کا ہمارے پاس ہے ہمیں اس کی قدر و منزلت پہچاننی چاہیئے اور اس کی قدر کرنی چاہیے اسے پڑھیں اور اس کے مطالب سے آشنا ہوں اور اس کی راہنمائی کو قبول کریں اور اس آسمانی کتاب کو اپنی زندگی کا راہنما قرار دیں تا کہ دنیا اور آخرت میں سعادتمند زندگی بسر کرسکیں_

سوالات

۱)___ وہ دانشمند انسان کیوں اپنے کان میں روئی ڈالتا تھا اس کے دوستوں نے اسے کیا کہا تھا؟

۲)___ اپنے آپ سے اس نے کیا کہا کہ جس کے بعد اس نے اپنے کانوں سے روئی نکال ڈالی؟

۳)___ وہ آدمی کیوں پیغمبر اسلام(ص) کے ساتھ چل پڑا؟

۴)___ پیغمبر اسلام (ص) نے اسے اپنے گھر کیا فرمایا کس طرح اس کے سامنے وضاحت کی کہ قرآن خدا کا کلام ہے؟

۵)___ اس آدمی نے کیسے سمجھا کہ قرآن اللہ کا کلام ہے اس کے

۱۴۸

متعلق اس نے کیا فکر کی؟

۶)___ جب اس نے جان لیا کہ قرآن اللہ کا کلام ہے تو اس نے کیا کیا؟

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ قرآن پیغمبر کا دائمی معجزہ ہے اس کا کیا مطلب ہے؟

۲)___ حق طلب لوگوں نے قرآن کی آیات میں فکر کرنے سے کیا سمجھا؟

۳)___ انہوں نے کس طرح سمجھا کہ قرآن کا لانے والا خدا کا پیغمبر ہے؟

۴)___ خداوند عالم قرآن کے معجزہ ہونے میں کیا فرماتا ہے؟

۵)___ خدا کس طرح واضح کرتا ہے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے؟

۶)___ کیا لوگ قرآن جیسی کتاب بناسکتے ہیں؟

۷)___ قرآن کی قدر کرنے سے کیا مراد ہے قرآن کا کس طرح احترام کریں؟

۱۴۹

اکیسواں سبق

سبق آموز کہانی دو بھائی

ایک نیک اور مہربان دوسرا مغرور، خودپسند اور بدکردار ایک دولت مند انسان دنیا سے انتقال کر گیا اس کی وافر دولت اس کے دو لڑکوں کو ملی ان میں سے ایک دین دار اور عاقل جوان تھا وہ دانا اور عاقبت اندیش تھا دنیا کو آخرت کی کھیتی سمجھتا تھا اپنی دولت سے آخرت کے لئے فائدہ حاصل کرتا اپنے مال کے واجب حقوق دیا کرتا اور فقیروں اور غریبوں کی مدد کرتا ان کو سرمایہ اور کام مہيّا کیا کرتا تھا اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں کی اپنی دولت سے مدد کرتا نیک کاموں میں سبقت لیجاتا مسجد بناتا_

اسپتال او رمدرسہ بناتا طالب علموں کو تحصیل علم کے لئے مال دیتا اور علماء کی زندگی کے مصارف برداشت کرتا تھا اور کہتا تھا کہ میں یہ کام اللہ تعالی کی رضا اور خوشنودی کے لئے انجام دیتا ہوں یہ کام میرے آخرت کے لئے

۱۵۰

ذخیرہ ہیں دوسرا لڑکا نادان اور حریص تھا جو کچھ ہوتا تھا اس کو اپنے لئے ہی رکھتا باغ اور کھیتی بناتا بہترین مکان بناتا لیکن اپنے نادار رشتہ داروں کی کبھی دعوت نہ کرتا اور ان سے میل جول نہ رکھتا اپنے مال کے واجب حقیق ادا نہ کرتا_ غریبوں کے سلام کا جواب نہ دیتا نیک کاموں میں شریک نہ ہوتا اور کہتا کہ مجھے کام ہے میرے پاس وقت نہیں ہے اس مغرور انسان کے دو بہت بڑے باغ تھے جو خرمہ اور انگور اور دوسرے میوے دار درختوں سے پرتھے پانی کی نہریں اس کے باغ کے کنارے سے گزرتی تھیں_

ان باغوں کے درمیان بڑی سرسبز کیھتی تھی کہ جس میں مختلف قسم کی سبزیاں بوئی ہوئی تھیں جب یہ دولت مند بھائی اپنے دوسرے بھائی کے ساتھ اپنے باغ میں جاتا تو سر سبز میروے سے لدے ہوئے بلند درختوں کو دیکھ کر خوش ہوتا اونچی آواز میں ہنستا اور اپنے نیک بھائی کا مذاق اڑاتا اور کہتا کہ تو غلطی کرتا ہے کہ اپنی دولت دوسروں کو دے دیتا ہے لیکن میں اپنی دولت کسی کوم نہیں دیتا جس کے نتیجے میں ان باغات اور زیادہ دولت کا مالک ہوں واقعی کتنا بڑا یہ باغ اور کتنی زیادہ دولت: کیا کہنا میں ہمیشہ اچھی زندگی گزارتا ہوں یہ دولت تو ختم ہونے والی نہیں جو میرے پاس ہے_

مجھے گمان نہیں کہ قیامت بھی ہے اور جہان آخرت بھی اور اگر قیامت ہو بھی تو بھی خدا مجھے اس سے بہتر دے گا اس کا نیک بھائی اسے کہتا کہ آخرت کی نعمتیں کسی کو مفت نہیں ملتیں چاہیئے کہ اعمال صالحہ

۱۵۱

اور کار خیر بجالائے تا کہ آخرت میں استفادہ کر کے نجات پاسکو زیادہ دولت نے تجھے خدا سے غافل کردیا ہے میرے بھائی تکبّر نہ کر غریبوں کے سلام کا جواب دیاکر فقیروں کی دستگیری کیا کر اتنی بڑی دولت سے آخرت کے لئے فائدہ اٹھا نیک کاموں میں شریک ہوا کر یہ نہ کہا کہ میرے پاس وقت نہیں ہے نہیں کرسکتا: مجھے کام ہے: گناہ اور مستی نہ کیا کر اللہ کے غضب سے ڈر ممکن ہے خدا کوئی عذاب بھیجے اور یہ تمام دولت اور نعمت تجھ سے لے لے اس وقت پشیمان ہوگا لیکن اس وقت کی پشیمانی فائدہ مند نہ ہوگی_

لیکن اس کا وہ مغرور بھائی اس غافل اور نیک بھائی کی نصیحت نہ سنتا اور اپنے ناروا کاموں میں مشغول رہتا ایک دن وہ مغرور شخص اپنے باغ میں گیا جب وہاں پہنچا تو بہت دیر ساکت کھڑا رہا اور گھور گھور کردیکھتا رہا ایک چیخ ماری اور گر پڑا جی ہاں خدا کا عذاب نازل ہوچکا تھا اور باغ کو ویران کر گیا تھا باغ کی دیواریں گرچکی تھیں انچے درخت اور اس کی شاخیں اور میوے جل چکے تھے اور

جب ہوش میں آیا تو گریہ و زاری کی اور افسوس کیا اورکہنے لگا کاش کہ میں اپنے بھائی کی باتوں کو سنتا: کاش میں اپنی دولت خدا کی راہ میں خرچ کرتا کاش کہ میں نیک کاموں میں شریک ہوتا اور واجب حقوق ادا کرتا میرے ہاتھ سے دولت نکل گئی اب نہ دنیا میں میرے پاس کوئی چیز ہے اور نہ آخرت میں یہ ہے اس دولت کا انجام جو خدا کی راہ میں اور اسکے نیک بندوں پر خرچ نہ ہو یہ سب میرے تکبّر اور نادانی کا نتیجہ ہے_

۱۵۲

ایک تربیتی کہانی ظالم حریص قارون

قارون حضرت موسی علیہ السلام کے رشتہ داروں میں سے تھا اور بظاہر اس نے آپ کا دین بھی قبول کرلیا تھا نماز پڑھتا تھا تورات پڑھتا لیکن ریا کار اور کمزور عقیدہ کا انسان تھا مکمل ایمان نہیں رکھتا تھا چاہتا تھا کہ لوگ اس سے خوش فہمی رکھیں تا کہ انہیں فریب دے سکے قارون فصلوں کو پیشگی سستا خرید لیتا اور بعد میں انہیں مہنگے داموں پر فروخت کرتا تھا معاملات میں کم تولتا دھوگا اور بے انصافی کرتا سود کھاتا اور جتنا ہوسکتا تھا لوگوں پر ظلم کیا کرتا اسی قسم کے کاموں سے بہت زیادہ دولت اکٹھی کرلی تھی اور اسے ہر چیز سے زیادہ عزیز رکھتا تھا قارون خدا پرست نہ تھا بلکہ دولت پرست تھا اپنی دولت عیش و عشرت میں خرچ کرتا تھا بہت عمدہ محل بنایا اور ان کے در و دیوار کو سونے اور مختلف

۱۵۳

قسم کے جواہرات سے مزيّن کیا حتّی کہ اپنے گھوڑوں اور اونٹوں کو سونے اور جواہرات سے مزّین کیا قارون کے پاس سینکڑوں غلام اور کنیزیں تھیں اور ان کے ساتھ برا سلوک کرتا اور انہیں مجبور کرتا کہ اس کے سامنے زمین پر گرپڑیں اور اس کے پاؤں کو بوسہ دیں_

بعض عقلمند مومن اسے نصیحت کرتے اور کہتے کہ اسے قارون یہ تمام باغ اور ثروت کس لئے یہ سب دولت اور مال کس لئے ذخیرہ کر رکھا ہے؟ کیوں لوگوں پر اتنے ظلم ڈھاتے ہو؟ خدا کا کیا جواب دو گے؟ لوگوں کا حق کیوں پامال کرتا ہے؟ غریبوں او رناداروں کی کیوں مدد نہیں کرتا؟ نیک کاموں میں کیوں قدم نہیں اٹھاتا؟ قارون غرور و تکبّر میں جواب دیتا کہ کسی کو ان باتوں کا حق نہیں پہنچتا میں اپنی دولت خرچ کرتا ہوں؟ مومن اسے وعظ کرتے اور کہتے کہ اتنی بڑی دولت حلال سے اکٹھی نہیں ہوتی اگر تو نے بے انصافی نہ کی ہوتی اگر تونے سود نہ کھایا ہوتا تو اتنا بڑا سرمایہ نہ رکھتا بلکہ تو بھی دوسروں کی طرح ہوتا اور ان سے کوئی خاص فرق نہ رکھتا_

قارون جواب میں کہتا نہیں میں دوسروں کی طرح نہیں میں چالاک اور محنتی ہوں میں نے کام کیا ہے او ردولت مند ہوا ہوں دوسرے بھی جائیں کام کریں زحمت اٹھائیں تا کہ وہ بھی دولت مند ہوجائیں میں کس لئے غریبوں کی مدد کروں لیکن مومن اس کی راہنمائی کے لئے پھر بھی کہتے کہ تم لوگوں کے حقوق ادا نہیں کرتے جب ہی اتنے دولت مند ہوئے ہو اگر تم مزدوروں کے حق دیتے تو اتنے ثروت مند نہ ہوتے

۱۵۴

اور وہ اتنے فقیر اور خالی ہاتھ نہ ہوتے اب بھی اگر چاہتے ہو کہ سعادتمند اور عاقبت بخیر ہوجاؤ تو اپنی دولت کو مخلوق خدا کی آسائشے اور ترقی میں خرچ کرو دولت کا انبار لگالینا اچھا نہیں دولت کو ان راستوں میں کہ جسے خداپسند کرتا ہے خرچ کرو لیکن قارون مومنین کا مذاق اڑاتا اور ان کی باتوں پر ہنستا اور غرور اور بے اعتنائی سے انہیں کہتا کہ بے فائدہ مجھے نصیحت نہ کرو میں تم سے بہتر ہوں اور اللہ پر زیادہ ایمان رکھتا ہوں جاؤ اپنا کام کرو اور اپنی فکر کرو

خوشبختی اور سعادت کس چیز میں ہے

ایک دن قارون نے بہت عمدہ لباس پہنا اور بہت عمدہ گھوڑے پر سوار ہوا اور اپنے محل سے باہر نکلا بہت زیادہ نوکر چاکر بھی اس کے ساتھ باہر آئے لوگ قارون کی عظمت و شکوہ کو دیکھنے کے لئے راستے میں کھڑے تھے اور اس قدر سونے او رجواہرا کے دیکھنے پر حسرت کر رہے تھے بعض نادان اس کے سامنے جھکتے اور زمین پر گرپڑتے اور کہتے کتنا خوش نصیب ہے قارون کتنی ثروت کا مالک اور کتنی سعادت رکھتا ہے خوش حال قارون کتنی اچھی زندگی گزارتا ہے کتنا سعادتمند اور خوشبخت ہے کاش ہم بھی قارون کی طرح ہوتے؟

۱۵۵

لیکن سمجھدار مومنین کا دل ان لوگوں کی حالت پر جلتا وہ انہیں سمجھاتے اور کہتے کہ سعادت اور خوش بختی زیادہ دولت میں نہیں ہوا کرتی کیوں اس کے سامنے زمین پر گرپڑتے ہو؟ ایک ظالم انسان کا اتنا احترام کیوں کرتے ہو وہ احترام کے لائق نہیں: اس نے یہ ساری دولت گراں فروشی اور بے انصافی سے کمائی ہے وہ سعادتمند نہیں سعادتمند وہ انسان ہے جو خدا پر واقعی ایمان رکھتا ہو اور اللہ کی مخلوق کی مدد کرتا ہو اور لوگوں کے حقوق سے تجاوز نہ کرتا ہو ایک دن اللہ تعالی کی طرف سے حضرت موسی (ع) کو حکم ہوا کہ دولت مندوں سے کہو کہ وہ زکاة دیں_

حضرت موسی علیہ السلام نے اللہ کا حکم دولت مندوں کو سنایا اور قارون کو بھی اطلاع دی کہ دوسروں کی طرح اپنے مال کی زکوة دے اس سے قارون بہت ناراض ہوا اور سخت لہجے میں حضرت موسی (ع) سے کہا زکوة کیا ہے کس دلیل سے اپنی دولت دوسروں کو دوں وہ بھی جائیں اور کام کریں اور محنت کریں تا کہ دولت کمالیں_

حضرت موسی علیہ السلام نے فرمایا زکوة یعنی اتنی بڑی دولت کا ایک حصّہ غریبوں اور ناداروں کو دے تا کہ وہ بھی زندگی گذارسکیں چونکہ تم شہر میں رہتے ہو اور معاشرے کی فرد ہو اور ان کی مدد سے اتنی کثیر دولت اکٹھی کی ہے اگر وہ تیری مدد نہ کرتے تو تو ہرگز اتنی دولت نہیں کماسکتا تھا مثلا اگر تو بیابان کے وسط میں تنہا زندگی بسر کرتا تو ہرگز اتنا بڑا محل نہ بنا سکتا اور باغ آباد نہ کرسکتا یہ دولت جو تونے حاصل کی ہے

۱۵۶

ان لوگوں کی مدد سے حاصل کی ہے پس تیری دولت کا کچھ حصّہ بھی انہیں نہیں دے رہا بلکہ ان کے اپنے حق اور مال کو زکات کے نام سے انہیں واپس کر رہا ہے_

لیکن قارون نے موسی علیہ السلام کی دلیل کی طرف توجہ نہ کی اور کہا اے موسی (ع) یہ کیسی بات ہے کہ تم کہہ رہے ہو زکات کیا ہے ہم نے برا کام کیا کہ تم پر ایمان لے آئے ہیں کیا ہم نے گناہ کیا ہے کہ نماز پڑھتے ہیں اب آپ کو خراج بھی دیں_

حضرت موسی علیہ السلام نے قارون کی تندروی کو برداشت کیا اور نرمی سے اسے کہا کہ اے قارون زکات کوئی میں اپنے لئے تولے نہیں رہا ہوں بلکہ اجتماعی خدمات اور غریبوں کی مدد کے لئے چاہتا ہوں یہ اللہ کاحکم ہے کہ مالدار غریبوں اور ناداروں کا حق ادا کریں یعنی زکوة دیں تا کہ وہ بھی محتاج اور فقیر نہ رہیں اگر تو واقعی خدا پر ایمان رکھتا اور مجھے خدا کا پیغمبر مانتا ہے تو پھر اللہ کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کردے اگر نماز پڑھتا ہے تو زکوت بھی دے کیونکہ نماز بغیر زکات کے فائدہ مند نہیں ہے تورات کا پڑھنا سمجھنے اور عمل کرنے کے لئے ہے لیکن قارون حضرت موسی علیہ السلام اور مومنین کی نصیحت اور موعظہ کی کوئی پرواہ نہ کی بلکہ اس کے علاوہ مومنین کواذيّت بھی پہنچانے لگا اور حضرت موسی علیہ السلام کے ساتھ دشمنی کرنے لگا یہاں تک تہمت لگانے سے بھی دریغ نہیں کرتا تھا حضرت موسی علیہ السلام قارون کی گستاخی اور سخت دلی سے بہت ناراض ہوئے اور آپ کا دل ٹوٹا اور خداوند عالم سے درخواست

۱۵۷

کی کہ اس حریص اور ظالم انسان کو اس کے اعمال کی سزا دے_

حضرت موسی (ع) کی دعا قبول ہوئی

اللہ کے حکم سے زمین لرزی اور ایک شدید زلزلہ آیا اور ایک لحظہ میں قارون کا محل ویران اور زمین بوس ہوگیا اور قارون کو قصر سمیت زمین نگل گئی اور اس حریص کے ظلم کا خاتمہ کردیا قارون خالی ہاتھ آخرت کی طرف روانہ ہواتا کہ وہ اپنے برے کاموں کی سزا کو دیکھے اور اسے عذاب دیا جائے کہ آخرت کا عذاب سخت اور دائمی ہے اس وقت وہ لوگ جو قارون کو سعادتمند سمجھتے تھے اور اس کی دولت کی آرزو کرتے تھے اپنی غلطی کی طرف متوجہ ہوئے اور توبہ کی اور کہا کتنی بری عاقبت اور برا انجام ہے یہ قارون نے اپنے مال کو ہاتھ سے نہ دیا اور خالی ہاتھ اور گناہ گار آخرت کی طرف روانہ ہوا تا کہ اپنے کئے کا عذاب چکھے اب ہم نے سمجھا کہ تنہا مال اور دولت کسی کو خوش بخت نہیں کرتی بلکہ خوش بختی خدا پر ایمان اور اللہ کے احکام پر عمل کرنے میں ہے_

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ قارون نے دولت کس طریقہ سے اکٹھی کی تھی؟

۱۵۸

۲)___ قارون اپنی دولت کو کہاں خرچ کرتا تھا؟

۳)___ مومن اس سے کیا کہتے تھے اور کس طرح اسے نصیحت کرتے تھے؟

۴)___ زکات سے کیا مراد ہے کس دلیل کی بنا پر اپنی دولت دوسروں کو دی جائے حضرت موسی (ع) نے قارون کے دو سوالوں کا کیا جواب دیا تھا؟

۵)___ کس دلیل سے مال کا کچھ حصّہ فقراء سے تعلق رکھتا ہے؟

۶)___ جب نادان لوگوں نے قارون کا ظاہری جاہ و جلال دیکھا تو کیا کہتے تھے اور کیا آرزو کرتے تھے؟

۷)___ حضرت موسی (ع) زکات کو کن جگہوں پر خرچ کرتے تھے؟

۸)___ کیا قارون واقعاً سعادتمند تھا اور اس کا انجام کیا ہوا؟

۹)___ اپنے ظلم کی کامل سزا کہاں پائے گا؟

۱۰)___ جو لوگ اسے سعادتمند سمجھتے تھے وہ اپنی غلطی سے کیسے مطلع ہوئے اور انہوں نے کیا کہا؟

اس داستان کو اپنے خاندان کے افراد کے سامنے بیان کیجئے اور اس کے متعلق بحث اور گفتگو کیجئے_

۱۵۹

چوتھا حصّہ

امامت

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285