‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) جلد ۲

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) 20%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 285

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 285 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 117967 / ڈاؤنلوڈ: 4038
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

۲)___ ہمارے پیغمبر گرامی قدر نے اس کا ابتدائی___ اعلان کردیا تھا_

۳)___ قرآن کریم نے بھی جو اللہ کا کلام اور پیغمبر کا دائمی معجزہ ____ بتلایا ہے_

۴)___ لہذا ہم جو مسلمان ہیں___ شمار کرتے ہیں

نیچے دیئےوئے سوالوں کو پڑھئے اور اس درست کے مطالب کو توجہ سے پڑھنے کے بعد ان کا جواب دیجئے_

۱)___ کیا کوئی ایسی کتاب ہے کہ جو رہنمائی اور ہدایت کا تمام انسانوں کے لئے تمام زبانوں میں آئین رکھتی ہو؟ اور کس طرح؟ اس کا جواب ہاں میں ہوگا؟ کیوں_

خدا جو تمام انسانوں کی تمام زبانوں میں ضروریات کو جانتا ہے قرآن کو____؟

۲)___ کیا لوگ ہمیشہ کے لئے قرآن کی راہنمائی اور ہدایت کے محتاج ہیں؟

جواب ہاں میں ہے کیوں کہ قرآن کے ہم اسی طرح ____؟

۳)___ پیغمبر گرامی قدر(ص) نے ابتدائے اسلام سے اپنے آپ کو کس طرح پہنچوایا_

۱۴۱

جواب: خود کو آخری پیغمبر ہونا بتلاتے تھے اور فرماتے تھے کہ میں اللہ کا آخری پیغمبر ہوں میرے____

۴)___ اللہ تعالی نے دین اسلام کو آخری دین اور پیغمبر گرامی قدر کو آخری پیغمبر کیوں بتلایا ؟

جواب: کیوں کہ قرآن دین اسلام کی ہمیشہ رہنے والی کتاب ہے_

۱۴۲

انیسواں سبق

قرآن اللہ کا کلام ہے

اگر آپ بھی وہاں ہوتے تو دیکھتے کہ ایک دانشمند خانہ کعبہ کے نزدیک کھڑا تھا اور تھوڑی سی روئی ہاتھ میں لے کر کان میں دے رہا تھا اور پھر اسے دباتا تھا وہ مكّہ میں نو وارد تھا اس کے دوست اس کی ملاقات کے لیئے گئے اور مكّہ کی تازہ خبر ناراضگی اور اضطراب کے ساتھ اسے بتائی گئی تھی اور اس سے کہا کہ محمد(ص) امین کو پہچانتے ہو؟

وہ کہتا ہے کہ میں اللہ کا پیغمبر ہوں اور اللہ تعالی کی طرف سے پیغام لایا ہوں محمد(ص) کہتا ہے کہ بتوں میں تو کوئی قدرت ہی نہیں کہ جنہیں تم پوجتے ہو بتوں کی پرستش کو چھوڑ دو اور ظالموں کے سامنے نہ جھکو اور عاجزی کا اظہار نہ کرو وہ کہتا ہے کہ تم اپنے آپ کو دوسروں کے اختیار میں قرار نہ دو صاحب قدرت اور ظالم لوگ تم پر کوئی فضیلت نہیں رکھتے آنکھ بند

۱۴۳

کر کے ان کی اطاعت کیوں کرتے ہو اور کیوں کی غیر معقول باتوں کو سنتے اور مانتے ہو_

یہی وجہ ہے کہ اب غلام ہمارے حکم کو نہیں مانتے اور ہماری اطاعت نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہوگئے ہیں اور حضرت محمد(ص) کے پیروکار ہیں اور ظلم و ستم کے سامنے نہیں جھکیں گے_

اے عقلمند اور دانشمند انسان تم ہرگز اس سے بات نہ کرنا اور اس کی گفتگو نہ سننا ہمیں ڈر ہے کہ تجھے بھی گمراہ نہ کردے یہ روئی لو اور اپنے کانوں میں ڈال لو اور اس کے بعد مسجد الحرام میں جانا_ ازدی قبیلہ کے اس عالم اور دانشمند نے روئی لی اور خانہ کعبہ کی زیارت کے لئے مسجد الحرام کی طرف چل پڑا خانہ کعبہ کے نزدیک پہنچا و روئی اپنے کانوں میں رکھی اور طواف کرنے میں مشغول ہوگیا وہ کہتا ہے کہ طواف کی حالت میں محمد(ص) امین کو دیکھا کہ کچھ پڑھ رہے ہیں ان کے لبوں کی حرکت کو میں دیکھ رہا تھا لیکن ان کی آواز کو نہیں سن رہا تھا میں ان کے ذرا نزدیک ہوا آپ کے پاک اور زیبا چہرے کو دیکھا آپ جو کچھ پڑھ رہے تھے اس کی بھنبھناہٹ میرے کان تک پہنچی میں آپ کا مجذوب ہوگیا کہ کیوں محمد(ص) کی باتوں کو نہ سنوں کتنا اچھا ہے کہ روئی کو کانوں سے نکال دوں اور آپ کی باتوں کو سنوں اگر ٹھیک ہوئیں قبول کرلوں گا اور اگر ٹھیک نہ ہوئیں تو چھوڑدوں گا میں نے روئی کانوں سے نکالی جو کچھ محمد(ص) پڑھ رہے تھے کان دھرے عمدہ کلمات او رخوش آواز کو سننے سے متزلزل ہوا جو کچھ پڑھ رہے تھے

۱۴۴

وہ کلام ختم ہوگیا آپ اپنی جگہ سے اٹھے اور مسجدالحرام سے باہر نکل پڑے میں بھی آپ کے ساتھ مسجد الحرام سے باہر آیا راستے میں آپ(ص) سے بات کی یہاں تک کہ آپ(ص) کے گھر پہنچ گیا گھر کے اندر آیا آپ کا ایک سادہ کمرہ تھا وہاں بیٹھ کر گفتگو میں مشغول ہوا میں نے کہا اے محمد(ص) میں نے ان کلمات کی جو آپ(ص) پڑھ رہے تھے بھنبھناہٹ تو سنی تھی لیکن میرا دل چاہتا تھا کہ اس میں سے کچھ حصّہ میرے سامنے پڑھیں واقعی کتنا اچھا کلام آپ پڑھ رہے تھے محمد(ص) امین نے جو میری بات کو غور سے سن رہے تھے مسکرائے اور کہا وہ کلام میرا نہ تھا بلکہ میرے خدا کا ہے تم بت پرست مجھے اچھی طرح جانتے ہو کہ میں نے چالیس سال تم میں گزارے ہیں اور میں امانت داری اور سچائی میں معروف تھا تم سب جانتے ہو کہ میں نے کسی سے درس نہیں پڑھا اب اس قسم کے زیبا کلمات اور پر معنی کلام تمہارے لئے لایا ہوں کیا وہ علماء اور دانشمند جنہوں نے سالہا سال درس پڑھا ہے اس قسم کا کلام لاسکتے ہیں؟ کیا تم خود اس قسم کا کلام بنا سکتے ہو اگر تھوڑا سا غور کرو تو سمجھ جاؤگے کہ یہ کلام میرا نہیں ہے بلکہ میرے خدا کا ہے کہ جس نے مجھے پیغمبری کے لئے چنا ہے یہ عمدہ اور پر مطلب کلام اللہ کا پیغام ہے اور میں صرف اس پیغام کا لانے والا ہوں تمہارے اور تمام انسانوں کے لئے یہ آزادی کا پیغام ہے اور سعادت کو خوشخبری ہے اب تم اللہ کے پیغام کو سنو محمد(ص) امین نے ان ہی عمدہ اور پر مطلب کلمات میں سے کچھ میرے لئے پڑھے عجیب کلام تھا میں نے اس قسم کا کلام ہرگز نہیں سنا تھا تھوڑا سا میں

۱۴۵

نے فکر کی اور میں سمجھا کہ اس کلام کو محمد(ص) نے نہیں گڑھا اور کوئی بھی انسان اس قسم کا عمدہ اور پر مغز کلام نہیں کہہ سکتا میں نے یقین کے ساتھ سمجھا کہ حضرت محمد(ص) خدا کے پیغمبر(ص) ہیں میں ان پر ایمان لایا ہوں اوردین اسلام کو قبول کرلیا اور اللہ تعالی کے فرمان کو تسلیم کرلیا_

جانتے ہو کہ جب مسلمان ہوگیا تو میرے دوستوں نے مجھ سے کیا کہا اور مجھ سے کیا پوچھا اور مجھ سے کیا سلوک کیا_

۱۴۶

بیسواں سبق

قرآن پیغمبر اسلام(ص) کا دائمی معجزہ ہے

ہمارے پیغمبر(ص) کا دائمی معجزہ قرآن ہے سمجھ دار انسان قرآنی آیات کو سنکر یہ سمجھ سکتا ہے کہ قرآن کی آیات خود پیغمبر اسلام (ص) کا کلام نہیں بلکہ اللہ کا کلام ہے سمجھدار اور حق طلب لوگ قرآن کے سننے اور اس کی آیات میں غور کرنے سے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ قرآن اللہ کا کلام ہے حضرت محمد(ص) اللہ تعالی سے ایک خاص ربط کی وجہ سے اس قسم کا عمدہ اور پر مغز کلام لائے ہیں خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے اگر اس قرآن میں جو ہم نے اپنے بندہ پر نازل کیا ہے تمہیں شک ہو یعنی یہ گمان ہو کہ یہ اللہ کا نہیں ہے اور ایک معمولی انسان کا کلام ہے تو اس قسم کا ایک سورہ قرآن کی سورتوں کی طرح بنالاؤ ایک اور جگہ خدا قرآن میں فرماتا ہے اگر تمام مخلوق کٹھی ہوجائے اور ایک دوسرے کی مدد کرے کہ قرآن جیسی

۱۴۷

کوئی کتاب بنائیں تو ہرگز ایسا نہیں کرسکیں گی کیونکہ کوئی بھی مخلوق کتنی ہی ترقی کرجائے پھر بھی ہے تو اس کی مخلوق کہ جسے ان مخصوص کاموں کی قدرت نہیں ہوسکتی کہ انھیں اللہ تعالی انجام دیتا ہے اسی لئے آج تک کوئی بھی قرآن کی مانند کوئی کتاب نہیں لاسکا اور نہ ہی آئندہ لاسکے گا اب جب کہ اتنا بڑا معجزہ پیغمبر خدا حضرت محمد(ص) کا ہمارے پاس ہے ہمیں اس کی قدر و منزلت پہچاننی چاہیئے اور اس کی قدر کرنی چاہیے اسے پڑھیں اور اس کے مطالب سے آشنا ہوں اور اس کی راہنمائی کو قبول کریں اور اس آسمانی کتاب کو اپنی زندگی کا راہنما قرار دیں تا کہ دنیا اور آخرت میں سعادتمند زندگی بسر کرسکیں_

سوالات

۱)___ وہ دانشمند انسان کیوں اپنے کان میں روئی ڈالتا تھا اس کے دوستوں نے اسے کیا کہا تھا؟

۲)___ اپنے آپ سے اس نے کیا کہا کہ جس کے بعد اس نے اپنے کانوں سے روئی نکال ڈالی؟

۳)___ وہ آدمی کیوں پیغمبر اسلام(ص) کے ساتھ چل پڑا؟

۴)___ پیغمبر اسلام (ص) نے اسے اپنے گھر کیا فرمایا کس طرح اس کے سامنے وضاحت کی کہ قرآن خدا کا کلام ہے؟

۵)___ اس آدمی نے کیسے سمجھا کہ قرآن اللہ کا کلام ہے اس کے

۱۴۸

متعلق اس نے کیا فکر کی؟

۶)___ جب اس نے جان لیا کہ قرآن اللہ کا کلام ہے تو اس نے کیا کیا؟

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ قرآن پیغمبر کا دائمی معجزہ ہے اس کا کیا مطلب ہے؟

۲)___ حق طلب لوگوں نے قرآن کی آیات میں فکر کرنے سے کیا سمجھا؟

۳)___ انہوں نے کس طرح سمجھا کہ قرآن کا لانے والا خدا کا پیغمبر ہے؟

۴)___ خداوند عالم قرآن کے معجزہ ہونے میں کیا فرماتا ہے؟

۵)___ خدا کس طرح واضح کرتا ہے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے؟

۶)___ کیا لوگ قرآن جیسی کتاب بناسکتے ہیں؟

۷)___ قرآن کی قدر کرنے سے کیا مراد ہے قرآن کا کس طرح احترام کریں؟

۱۴۹

اکیسواں سبق

سبق آموز کہانی دو بھائی

ایک نیک اور مہربان دوسرا مغرور، خودپسند اور بدکردار ایک دولت مند انسان دنیا سے انتقال کر گیا اس کی وافر دولت اس کے دو لڑکوں کو ملی ان میں سے ایک دین دار اور عاقل جوان تھا وہ دانا اور عاقبت اندیش تھا دنیا کو آخرت کی کھیتی سمجھتا تھا اپنی دولت سے آخرت کے لئے فائدہ حاصل کرتا اپنے مال کے واجب حقوق دیا کرتا اور فقیروں اور غریبوں کی مدد کرتا ان کو سرمایہ اور کام مہيّا کیا کرتا تھا اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں کی اپنی دولت سے مدد کرتا نیک کاموں میں سبقت لیجاتا مسجد بناتا_

اسپتال او رمدرسہ بناتا طالب علموں کو تحصیل علم کے لئے مال دیتا اور علماء کی زندگی کے مصارف برداشت کرتا تھا اور کہتا تھا کہ میں یہ کام اللہ تعالی کی رضا اور خوشنودی کے لئے انجام دیتا ہوں یہ کام میرے آخرت کے لئے

۱۵۰

ذخیرہ ہیں دوسرا لڑکا نادان اور حریص تھا جو کچھ ہوتا تھا اس کو اپنے لئے ہی رکھتا باغ اور کھیتی بناتا بہترین مکان بناتا لیکن اپنے نادار رشتہ داروں کی کبھی دعوت نہ کرتا اور ان سے میل جول نہ رکھتا اپنے مال کے واجب حقیق ادا نہ کرتا_ غریبوں کے سلام کا جواب نہ دیتا نیک کاموں میں شریک نہ ہوتا اور کہتا کہ مجھے کام ہے میرے پاس وقت نہیں ہے اس مغرور انسان کے دو بہت بڑے باغ تھے جو خرمہ اور انگور اور دوسرے میوے دار درختوں سے پرتھے پانی کی نہریں اس کے باغ کے کنارے سے گزرتی تھیں_

ان باغوں کے درمیان بڑی سرسبز کیھتی تھی کہ جس میں مختلف قسم کی سبزیاں بوئی ہوئی تھیں جب یہ دولت مند بھائی اپنے دوسرے بھائی کے ساتھ اپنے باغ میں جاتا تو سر سبز میروے سے لدے ہوئے بلند درختوں کو دیکھ کر خوش ہوتا اونچی آواز میں ہنستا اور اپنے نیک بھائی کا مذاق اڑاتا اور کہتا کہ تو غلطی کرتا ہے کہ اپنی دولت دوسروں کو دے دیتا ہے لیکن میں اپنی دولت کسی کوم نہیں دیتا جس کے نتیجے میں ان باغات اور زیادہ دولت کا مالک ہوں واقعی کتنا بڑا یہ باغ اور کتنی زیادہ دولت: کیا کہنا میں ہمیشہ اچھی زندگی گزارتا ہوں یہ دولت تو ختم ہونے والی نہیں جو میرے پاس ہے_

مجھے گمان نہیں کہ قیامت بھی ہے اور جہان آخرت بھی اور اگر قیامت ہو بھی تو بھی خدا مجھے اس سے بہتر دے گا اس کا نیک بھائی اسے کہتا کہ آخرت کی نعمتیں کسی کو مفت نہیں ملتیں چاہیئے کہ اعمال صالحہ

۱۵۱

اور کار خیر بجالائے تا کہ آخرت میں استفادہ کر کے نجات پاسکو زیادہ دولت نے تجھے خدا سے غافل کردیا ہے میرے بھائی تکبّر نہ کر غریبوں کے سلام کا جواب دیاکر فقیروں کی دستگیری کیا کر اتنی بڑی دولت سے آخرت کے لئے فائدہ اٹھا نیک کاموں میں شریک ہوا کر یہ نہ کہا کہ میرے پاس وقت نہیں ہے نہیں کرسکتا: مجھے کام ہے: گناہ اور مستی نہ کیا کر اللہ کے غضب سے ڈر ممکن ہے خدا کوئی عذاب بھیجے اور یہ تمام دولت اور نعمت تجھ سے لے لے اس وقت پشیمان ہوگا لیکن اس وقت کی پشیمانی فائدہ مند نہ ہوگی_

لیکن اس کا وہ مغرور بھائی اس غافل اور نیک بھائی کی نصیحت نہ سنتا اور اپنے ناروا کاموں میں مشغول رہتا ایک دن وہ مغرور شخص اپنے باغ میں گیا جب وہاں پہنچا تو بہت دیر ساکت کھڑا رہا اور گھور گھور کردیکھتا رہا ایک چیخ ماری اور گر پڑا جی ہاں خدا کا عذاب نازل ہوچکا تھا اور باغ کو ویران کر گیا تھا باغ کی دیواریں گرچکی تھیں انچے درخت اور اس کی شاخیں اور میوے جل چکے تھے اور

جب ہوش میں آیا تو گریہ و زاری کی اور افسوس کیا اورکہنے لگا کاش کہ میں اپنے بھائی کی باتوں کو سنتا: کاش میں اپنی دولت خدا کی راہ میں خرچ کرتا کاش کہ میں نیک کاموں میں شریک ہوتا اور واجب حقوق ادا کرتا میرے ہاتھ سے دولت نکل گئی اب نہ دنیا میں میرے پاس کوئی چیز ہے اور نہ آخرت میں یہ ہے اس دولت کا انجام جو خدا کی راہ میں اور اسکے نیک بندوں پر خرچ نہ ہو یہ سب میرے تکبّر اور نادانی کا نتیجہ ہے_

۱۵۲

ایک تربیتی کہانی ظالم حریص قارون

قارون حضرت موسی علیہ السلام کے رشتہ داروں میں سے تھا اور بظاہر اس نے آپ کا دین بھی قبول کرلیا تھا نماز پڑھتا تھا تورات پڑھتا لیکن ریا کار اور کمزور عقیدہ کا انسان تھا مکمل ایمان نہیں رکھتا تھا چاہتا تھا کہ لوگ اس سے خوش فہمی رکھیں تا کہ انہیں فریب دے سکے قارون فصلوں کو پیشگی سستا خرید لیتا اور بعد میں انہیں مہنگے داموں پر فروخت کرتا تھا معاملات میں کم تولتا دھوگا اور بے انصافی کرتا سود کھاتا اور جتنا ہوسکتا تھا لوگوں پر ظلم کیا کرتا اسی قسم کے کاموں سے بہت زیادہ دولت اکٹھی کرلی تھی اور اسے ہر چیز سے زیادہ عزیز رکھتا تھا قارون خدا پرست نہ تھا بلکہ دولت پرست تھا اپنی دولت عیش و عشرت میں خرچ کرتا تھا بہت عمدہ محل بنایا اور ان کے در و دیوار کو سونے اور مختلف

۱۵۳

قسم کے جواہرات سے مزيّن کیا حتّی کہ اپنے گھوڑوں اور اونٹوں کو سونے اور جواہرات سے مزّین کیا قارون کے پاس سینکڑوں غلام اور کنیزیں تھیں اور ان کے ساتھ برا سلوک کرتا اور انہیں مجبور کرتا کہ اس کے سامنے زمین پر گرپڑیں اور اس کے پاؤں کو بوسہ دیں_

بعض عقلمند مومن اسے نصیحت کرتے اور کہتے کہ اسے قارون یہ تمام باغ اور ثروت کس لئے یہ سب دولت اور مال کس لئے ذخیرہ کر رکھا ہے؟ کیوں لوگوں پر اتنے ظلم ڈھاتے ہو؟ خدا کا کیا جواب دو گے؟ لوگوں کا حق کیوں پامال کرتا ہے؟ غریبوں او رناداروں کی کیوں مدد نہیں کرتا؟ نیک کاموں میں کیوں قدم نہیں اٹھاتا؟ قارون غرور و تکبّر میں جواب دیتا کہ کسی کو ان باتوں کا حق نہیں پہنچتا میں اپنی دولت خرچ کرتا ہوں؟ مومن اسے وعظ کرتے اور کہتے کہ اتنی بڑی دولت حلال سے اکٹھی نہیں ہوتی اگر تو نے بے انصافی نہ کی ہوتی اگر تونے سود نہ کھایا ہوتا تو اتنا بڑا سرمایہ نہ رکھتا بلکہ تو بھی دوسروں کی طرح ہوتا اور ان سے کوئی خاص فرق نہ رکھتا_

قارون جواب میں کہتا نہیں میں دوسروں کی طرح نہیں میں چالاک اور محنتی ہوں میں نے کام کیا ہے او ردولت مند ہوا ہوں دوسرے بھی جائیں کام کریں زحمت اٹھائیں تا کہ وہ بھی دولت مند ہوجائیں میں کس لئے غریبوں کی مدد کروں لیکن مومن اس کی راہنمائی کے لئے پھر بھی کہتے کہ تم لوگوں کے حقوق ادا نہیں کرتے جب ہی اتنے دولت مند ہوئے ہو اگر تم مزدوروں کے حق دیتے تو اتنے ثروت مند نہ ہوتے

۱۵۴

اور وہ اتنے فقیر اور خالی ہاتھ نہ ہوتے اب بھی اگر چاہتے ہو کہ سعادتمند اور عاقبت بخیر ہوجاؤ تو اپنی دولت کو مخلوق خدا کی آسائشے اور ترقی میں خرچ کرو دولت کا انبار لگالینا اچھا نہیں دولت کو ان راستوں میں کہ جسے خداپسند کرتا ہے خرچ کرو لیکن قارون مومنین کا مذاق اڑاتا اور ان کی باتوں پر ہنستا اور غرور اور بے اعتنائی سے انہیں کہتا کہ بے فائدہ مجھے نصیحت نہ کرو میں تم سے بہتر ہوں اور اللہ پر زیادہ ایمان رکھتا ہوں جاؤ اپنا کام کرو اور اپنی فکر کرو

خوشبختی اور سعادت کس چیز میں ہے

ایک دن قارون نے بہت عمدہ لباس پہنا اور بہت عمدہ گھوڑے پر سوار ہوا اور اپنے محل سے باہر نکلا بہت زیادہ نوکر چاکر بھی اس کے ساتھ باہر آئے لوگ قارون کی عظمت و شکوہ کو دیکھنے کے لئے راستے میں کھڑے تھے اور اس قدر سونے او رجواہرا کے دیکھنے پر حسرت کر رہے تھے بعض نادان اس کے سامنے جھکتے اور زمین پر گرپڑتے اور کہتے کتنا خوش نصیب ہے قارون کتنی ثروت کا مالک اور کتنی سعادت رکھتا ہے خوش حال قارون کتنی اچھی زندگی گزارتا ہے کتنا سعادتمند اور خوشبخت ہے کاش ہم بھی قارون کی طرح ہوتے؟

۱۵۵

لیکن سمجھدار مومنین کا دل ان لوگوں کی حالت پر جلتا وہ انہیں سمجھاتے اور کہتے کہ سعادت اور خوش بختی زیادہ دولت میں نہیں ہوا کرتی کیوں اس کے سامنے زمین پر گرپڑتے ہو؟ ایک ظالم انسان کا اتنا احترام کیوں کرتے ہو وہ احترام کے لائق نہیں: اس نے یہ ساری دولت گراں فروشی اور بے انصافی سے کمائی ہے وہ سعادتمند نہیں سعادتمند وہ انسان ہے جو خدا پر واقعی ایمان رکھتا ہو اور اللہ کی مخلوق کی مدد کرتا ہو اور لوگوں کے حقوق سے تجاوز نہ کرتا ہو ایک دن اللہ تعالی کی طرف سے حضرت موسی (ع) کو حکم ہوا کہ دولت مندوں سے کہو کہ وہ زکاة دیں_

حضرت موسی علیہ السلام نے اللہ کا حکم دولت مندوں کو سنایا اور قارون کو بھی اطلاع دی کہ دوسروں کی طرح اپنے مال کی زکوة دے اس سے قارون بہت ناراض ہوا اور سخت لہجے میں حضرت موسی (ع) سے کہا زکوة کیا ہے کس دلیل سے اپنی دولت دوسروں کو دوں وہ بھی جائیں اور کام کریں اور محنت کریں تا کہ دولت کمالیں_

حضرت موسی علیہ السلام نے فرمایا زکوة یعنی اتنی بڑی دولت کا ایک حصّہ غریبوں اور ناداروں کو دے تا کہ وہ بھی زندگی گذارسکیں چونکہ تم شہر میں رہتے ہو اور معاشرے کی فرد ہو اور ان کی مدد سے اتنی کثیر دولت اکٹھی کی ہے اگر وہ تیری مدد نہ کرتے تو تو ہرگز اتنی دولت نہیں کماسکتا تھا مثلا اگر تو بیابان کے وسط میں تنہا زندگی بسر کرتا تو ہرگز اتنا بڑا محل نہ بنا سکتا اور باغ آباد نہ کرسکتا یہ دولت جو تونے حاصل کی ہے

۱۵۶

ان لوگوں کی مدد سے حاصل کی ہے پس تیری دولت کا کچھ حصّہ بھی انہیں نہیں دے رہا بلکہ ان کے اپنے حق اور مال کو زکات کے نام سے انہیں واپس کر رہا ہے_

لیکن قارون نے موسی علیہ السلام کی دلیل کی طرف توجہ نہ کی اور کہا اے موسی (ع) یہ کیسی بات ہے کہ تم کہہ رہے ہو زکات کیا ہے ہم نے برا کام کیا کہ تم پر ایمان لے آئے ہیں کیا ہم نے گناہ کیا ہے کہ نماز پڑھتے ہیں اب آپ کو خراج بھی دیں_

حضرت موسی علیہ السلام نے قارون کی تندروی کو برداشت کیا اور نرمی سے اسے کہا کہ اے قارون زکات کوئی میں اپنے لئے تولے نہیں رہا ہوں بلکہ اجتماعی خدمات اور غریبوں کی مدد کے لئے چاہتا ہوں یہ اللہ کاحکم ہے کہ مالدار غریبوں اور ناداروں کا حق ادا کریں یعنی زکوة دیں تا کہ وہ بھی محتاج اور فقیر نہ رہیں اگر تو واقعی خدا پر ایمان رکھتا اور مجھے خدا کا پیغمبر مانتا ہے تو پھر اللہ کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کردے اگر نماز پڑھتا ہے تو زکوت بھی دے کیونکہ نماز بغیر زکات کے فائدہ مند نہیں ہے تورات کا پڑھنا سمجھنے اور عمل کرنے کے لئے ہے لیکن قارون حضرت موسی علیہ السلام اور مومنین کی نصیحت اور موعظہ کی کوئی پرواہ نہ کی بلکہ اس کے علاوہ مومنین کواذيّت بھی پہنچانے لگا اور حضرت موسی علیہ السلام کے ساتھ دشمنی کرنے لگا یہاں تک تہمت لگانے سے بھی دریغ نہیں کرتا تھا حضرت موسی علیہ السلام قارون کی گستاخی اور سخت دلی سے بہت ناراض ہوئے اور آپ کا دل ٹوٹا اور خداوند عالم سے درخواست

۱۵۷

کی کہ اس حریص اور ظالم انسان کو اس کے اعمال کی سزا دے_

حضرت موسی (ع) کی دعا قبول ہوئی

اللہ کے حکم سے زمین لرزی اور ایک شدید زلزلہ آیا اور ایک لحظہ میں قارون کا محل ویران اور زمین بوس ہوگیا اور قارون کو قصر سمیت زمین نگل گئی اور اس حریص کے ظلم کا خاتمہ کردیا قارون خالی ہاتھ آخرت کی طرف روانہ ہواتا کہ وہ اپنے برے کاموں کی سزا کو دیکھے اور اسے عذاب دیا جائے کہ آخرت کا عذاب سخت اور دائمی ہے اس وقت وہ لوگ جو قارون کو سعادتمند سمجھتے تھے اور اس کی دولت کی آرزو کرتے تھے اپنی غلطی کی طرف متوجہ ہوئے اور توبہ کی اور کہا کتنی بری عاقبت اور برا انجام ہے یہ قارون نے اپنے مال کو ہاتھ سے نہ دیا اور خالی ہاتھ اور گناہ گار آخرت کی طرف روانہ ہوا تا کہ اپنے کئے کا عذاب چکھے اب ہم نے سمجھا کہ تنہا مال اور دولت کسی کو خوش بخت نہیں کرتی بلکہ خوش بختی خدا پر ایمان اور اللہ کے احکام پر عمل کرنے میں ہے_

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ قارون نے دولت کس طریقہ سے اکٹھی کی تھی؟

۱۵۸

۲)___ قارون اپنی دولت کو کہاں خرچ کرتا تھا؟

۳)___ مومن اس سے کیا کہتے تھے اور کس طرح اسے نصیحت کرتے تھے؟

۴)___ زکات سے کیا مراد ہے کس دلیل کی بنا پر اپنی دولت دوسروں کو دی جائے حضرت موسی (ع) نے قارون کے دو سوالوں کا کیا جواب دیا تھا؟

۵)___ کس دلیل سے مال کا کچھ حصّہ فقراء سے تعلق رکھتا ہے؟

۶)___ جب نادان لوگوں نے قارون کا ظاہری جاہ و جلال دیکھا تو کیا کہتے تھے اور کیا آرزو کرتے تھے؟

۷)___ حضرت موسی (ع) زکات کو کن جگہوں پر خرچ کرتے تھے؟

۸)___ کیا قارون واقعاً سعادتمند تھا اور اس کا انجام کیا ہوا؟

۹)___ اپنے ظلم کی کامل سزا کہاں پائے گا؟

۱۰)___ جو لوگ اسے سعادتمند سمجھتے تھے وہ اپنی غلطی سے کیسے مطلع ہوئے اور انہوں نے کیا کہا؟

اس داستان کو اپنے خاندان کے افراد کے سامنے بیان کیجئے اور اس کے متعلق بحث اور گفتگو کیجئے_

۱۵۹

چوتھا حصّہ

امامت

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

1140۔ امام علی (ع): میں گو اہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندہ اور رسول ہیں، انہیں خدا نے مشہور دین کےساتھ بھیجا...یہ بعثت اسوقت ہوئی ہے جب لوگ ایسے فتنوں میں مبتلا تھے جن سے ریسمانِ دین ٹوٹ چکی تھی، یقین کے ستون ہل گئے تھے، اصول میں شدید اختلاف تھا، اور امور میں سخت انتشار، مشکلات سے نکلنے کے راستے تنگ و تاریک ہو گئے تھے، ہدایت گمنام تھی اور گمراہی برسرعام، رحمن کی معصیت ہو رہی تھی اور شیطان کی نصرت، ایمان یکسر نظر انداز ہو گیا تھا، اسکے ستون گرگئے تھے اور آثارناقابل شناخت ہوگئے تھے، راستے مٹ گئے تھے اور شاہراہیں بے نشان ہوگئی تھیں، لو گ شیطان کی اطاعت میں اسی کے راستے پر چل رہے تھے اور اسی کے چشموںپر وارد ہو رہے تھے۔انہیں کی وجہ سے شیطان کے پرچم لہرا رہے تھے اور اسکے علم سر بلند تھے، یہ لوگ ایسے فتنوں میں مبتلا تھے جنہوںنے انہیں پیروں تلے روند دیا تھا اور سموں سے کچل دیا تھا، اورخود اپنے پنجوں کے بل کھڑے ہو گئے تھے، یہ لوگ فتنوں میں حیران و سرگرداں اور جاہل و فریب خوردہ تھے، پروردگار نے انہیں اس گھر( مکہ) میں بھیجا جو بہترین مکان تھا لیکن بدترین ہمسایہ، جنکی نیندیں بیداری تھیں اور جن کا سرمہ آنسو۔ وہ سرزمین جہاں عالم کو لگام لگی ہوئی تھی اور جاہل محترم تھا۔

1141۔ امام علی (ع): میں گواہی دیتا ہوں کہ سوائے اللہ کے کوئی خدا نہیں اور حضرت محمد(ص) اسکے بندہ اور رسول ہیں، اس کے منتخب و مصطفیٰ ہیں، انکے فضل کا کوئی مقابلہ نہیںکر سکتا ہے، اور نہ انکے فقدان کی تلافی، انکی وجہ سے تمام شہر ضلالت کی تاریکی، جہالت کے غلبہ اور بدسرشتی و بد اخلاقی کی شدت کے بعد جب لوگ حرام کو حلال اور صاحبان حکمت کو ذلیل سمجھ رہے تھے، رسولوں سے خالی دور میں زندگی گذار رہے تھے اور کفر کی حالت میں مر رہے تھے، منور اور روشن ہو گئے۔

1142۔ امام علی (ع):(خدا وند متعال) نے آنحضرؐت کو مبعوث کیا اور اے گروہ عرب ! تم بدترین حالت میں تھے، تم میں سے بعض کتوں کو اپنی غذا بناتے تھے، اپنی اولاد کو قتل کرتے تھے ،دوستوں کو غارت کرتے تھے اور جب پلٹے تھے تو دوسرے انہیں غارت کر چکے ہوتے تھے، تم لوگ حنظل و اندرائن کے دانے ، خون اور مردار کھاتے تھے، تمہاری بود و باش نا ہموار پتھروں اور گمراہ کرنے والے بتوں کے درمیان تھی، تم بد ذائقہ کھانا کھاتے اور بد مزہ پانی پیتے تھے آپس میں ایک دوسرے کا خون بہاتے اور ایک دوسرے کو اسیر کرتے تھے۔

۲۰۱

1143۔ امام علی (ع): یہ آپکے اس خط کا ایک حصہ ہے جو آپ نے محمد بن ابی بکر کے قتل کے بعد اپنے بعض اصحاب کو لکھا تھا۔ یقینا اللہ نے آنحضرؐت کو عالمین کےلئے عذاب الہی سے ڈرانے والا، تنزیل کا امانتدار اور اس امت کا گواہ بنا کر اسوقت بھیجا ہے، جب تم گروہ عرب ،بدترین دین کے مالک اور بدترین علاقہ کے رہنے والے تھے، نا ہموار پتھروں، زہریلے سانپوں اور خار مغیلاںکے درمیان بود و باش رکھتے تھے بد مزہ پانی پیتے اور بدذائقہ کھانا کھاتے تھے، آپس میں ایک دوسرے کا خون بہاتے تھے، ایک دوسرے کو قتل کرتے تھے اور اپنے قرابتداروں سے بے تعلقی رکھتے تھے اور تم آپس میں ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقہ سے کھاتے تھے، تمہارے راستے پر خطر تھے، بت تمہارے درمیان نصب تھے( اور گناہ تمہیں گھیرے ہوئے تھے) اور ان میں سے اکثر کا خدا پر ایمان شرک سے مخلوط تھا۔

1144۔ امام علی (ع): نے ۔گذشتہ امتوں سے عبرت و نصیحت اور مغرور و گنہگار سے بچنے کے متعلق فرمایا: اب تم اولاد اسماعیل اور اولاد اسحاق و اسرائیل(یعقوب) سے عبرت حاصل کرو کہ سب کے حالات کسقدر ملتے ہوئے اور کیفیات کسقدر یکساںہیں، دیکھو انکے انتشار و افتراق کے دور میں انکا کیا عالم تھا کہ قیصر و کسریٰ انکے ارباب بن گئے تھے، اور انہیں اطراف عالم کے سبزہ زاروں، عراق کے دریاؤں اور دنیا کی شادابیوں سے نکال کر خار دار جھاڑیوں اور آندھیوں کی بے روک گذر گاہوں اورمعیشت کی دشوار گذار منزلوں تک پہنچ کر اس عالم میں چھوڑ دیاتھا کہ وہ فقیر و نادار، اونٹوں کی پشت پر چلنے والے اور بالوں کے خیموں میں قیام کرنے والے ہو گئے تھے، گھر بار کے اعتبار سے تمام قوموں سے زیادہ ذلیل اور جگہ کے اعتبار سے سب سے زیادہ خشک سالیوں کا شکار تھے، نہ ان کی آواز تھی جنکی پناہ لیکر اپنا تحفظ کر سکیں اور نہ کوئی الفت کا سایہ تھا جس کی طاقت پر بھروسہ کر سکیں ، حالات مضطرب، طاقتیں منتشر، کثرت میں انتشار، بلائیں سخت، جہالت کا دور دورہ، زندہ در گور بیٹیاں، پتھر پر ستش کے قابل، رشتہ داریاں ٹوٹی ہوئی اور چاروں طرف سے حملوں کی یلغار۔

۲۰۲

اس کے بعد دیکھو کہ پروردگار نے ان پر کس قدر احسانات کئے جب ان کی طرف ایک رسول بھیج دیا ، جس نے اپنے نظام سے ان کی اطاعت کو پابند بنا یا اور اپنی دعوت پر ان کی الفتوں کو متحد کیا اور اس کے نتیجہ میں نعمتوں نے ان پر کرامت کے بال و پر پھلا دئےے اور راحتوں کے دریا بہا دئےے، شریعت نے انہیں اپنی برکتوں کے بیش قیمت فوائد میں لپیٹ لیا، وہ نعمتوں میں غرق ہو گئے اور زندگی کی شادابیوں میںمزے اڑانے لگے، ایک مضبوط حاکم کے زیر سایہ حالات ساز گار ہوگئے اور حالات نے غلبہ و بزرگی کے پہلو میں جگہ دلوا دی اور ایک مستحکم ملک کی بلندیوں پر دنیا و دین کی سعادتیں انکی طرف جھک پڑیں، و ہ عالمین کے حکام ہو گئے اور اطراف زمین کے بادشاہ شمار ہونے لگے جو کل انکے امور کے مالک تھے آج وہ انکے امور کے مالک ہو گئے اور اپنے احکام ان پر نافذ کرنے لگے جو کل اپنے احکام ان پر نافذ کر رہے تھے کہ اب نہ انکا دم خم نکالا جا سکتا تھا اور نہ انکا زور ہی توڑا جا سکتا تھا دیکھو تم نے اپنے ہاتھوں کو اطاعت کے بندھنوں سے چھڑا لیا ہے اور اللہ کی طرف سے اپنے گرد کھنچے ہوئے حصار میں جاہلیت کے احکام کی بنا پر رخنہ پیدا کر دیا ہے ۔

1145۔ : فاطمۃ ؑ: نے۔ وفات پیغمبر کے بعد مسلمانوں کو مخاطب کرکے۔ فرمایا: تم لوگ آگ کے گڑھے کے دہانے پر تھے، پینے والوںکے لئے پانی ملا دودھ کا گھونٹ ، حریص کی فرصت اور اس شخص کے مانند تھے جو گھر میں داخل ہو اور صرف آگ لینے تک ٹھہرے، اور دوسروں کے پیروں تلے کچلے جا رہے تھے ، گدلا پانی پیتے تھے اور گوسفند کی کھال تمہاری غذائیں تھیں، ذلیل و پست تھے، اورخوف لا حق رہتا تھا کہ کہیں لوگ اطراف سے تمہیں اچک نہ لے جائیں ۔ پس اللہ نے تمہیں میرے باپ محمد(ص)کے ذریعہ نجات بخشی۔

۲۰۳

1146۔ اما م ہادی ؑ: نے۔ اپنے خطبہ میں فرمایا: حمد اس اللہ کے لئے ہے جو ہر موجود سے آگاہ ہے قبل اس کے کہ اسکی مخلوق میں سے کسی کا اسکی گردن پر قرض ہو... اور بیشک محمد(ص) اس کے بندہ اس کے برگزیدہ رسول اور پسندیدہ دوست ہیں اور ہدایت کے ساتھ مبعوث کئے گئے ہیں۔ اور انہیں رسولوں سے خالی عہد، امتوں کے اختلاف ، راستوں کے انقطاع، حکمت کی بوسیدگی اور نشانات ہدایت و شواہد کے محو ہونے کے زمانہ میں بھیجا ہے ۔ انہوںنے رسالت پروردگار کو پہنچایا۔ اور اس کے حکم کو واضح کیا۔ اور ان پر جوفریضہ تھا اس کو انجام دیا اور جب وفات پائی تو محمود و پسندیدہ تھے۔

جاہلیت کے متعلق کچھ باتیں

قرآن نے ظہور اسلام سے پہلے والے زمانہ کو جاہلیت سے تعبیر کیا ہے ، اس کا سبب یہ ہے کہ اس وقت علم کے بجائے جہالت، حق کے بجائے ہر چیز میں خلاف حق اور احمقانہ رائے کا دور دورہ تھا قرآن نے ان کی خصوصایت کو اس طرح بیان کیا ہے:

(یظنون باﷲ غیر الحق ظن الجاهلیة)

وہ لوگ خدا کے متعلق خلاف حق جاہلیت جیسے خیالات رکھتے تھے۔

اور فرمایا(افحکم الجاهلیة یبغون)

کیایہ لوگ جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں فرمایا:( اذ جعل الذین کفروا فی قلوبهم الحمیة حمیة الجالیة)

یہ اس وقت کی بات ہے جب کفار نے اپنے دلوں میں زمانہ جاہلیت جیسی ضد قرار دے لی تھی۔

نیز فرماتا ہے:(ولا تبر جن تبرج الجاهلیة الاولیٰ)

اور پہلی جاہلیت جیسا بناؤ سنگار نہ کرو۔

۲۰۴

اس وقت عرب معاشرہ کے جنوب میں حبشہ کہ جہاں کے باشندوں کا مذہب نصرانی تھا، اور مغرب میں حکومتِ روم تھی کہ جسکا مذہب نصرانی تھاشمال میں ایران جسکا مذہب مجوسی تھا اور دوسرے اطراف میں ہندوستان اور مصر ایسے بت پرست ممالک واقع تھے۔

خود عرب کے درمیان یہودیوں کے چند گروہ آباد تھے، خود عرب بت پرست تھے، اکثرلوگ قبیلوں میں زندگی بسر کرتے تھے یہ تمام چیزیں اس چیز کی باعث ہوئیں کہ ایک بے بنیادبادیہ نشیں معاشرہ وجود میں آجائے کہ جو یہود و نصاریٰ اور مجوس کے آداب و رسوم سے مخلوط ہو، لوگ جہالت و نادانی اور مکمل بے خبری میں زندگی بسر کر رہے تھے۔خدا انکے بارے میں اس طرح فرمایا:

(ان تطع اکثر من فی الارض یضلوک عن سبیل اﷲ ان یتبعون الا الظن و ان هم الا یخرصون)

اور اگر آپ روئے زمین کی اکثریت کا اتباع کر لیں گے تو یہ آپ کو راہ خدا سے بہکا دیں گے اور یہ صرف گمان کا اتباع کرتے ہیں اور صرف اندازوں سے کام لیتے ہیں۔

یہ صحرا نورد قبائل بہت پست زندگی گذارتے تھے؛ مسلسل جنگ و غارت گری ، لوٹ مار ایک دوسرے کی ناموس پر تجاوز کرتے تھے، ان میں کسی طرح کا امن و امان ، امانتداری اور صلح و آشتی نہ تھی، اسی کی چودھراہٹ و حکمرانی ہوتی جو ان میں نہایت سرکش و قدرتمند ہوتا تھا۔

ان کے درمیان مردوںکی فضیلت خونریزی، جاہلیت کی ضد، کبر و غرور، ظالموں کا اتباع، مظلوموں کا حق پامال کرنا، آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی، نفسہ نفسی، جوا کھیلنا شرابخوری، زنا کاری، مردار و خون اور کھجوروںکا بیج کھانا، تھی۔

لیکن ان کی عورتیں انسانی حقوق سے محروم تھیں، وہ خود مختار اور صاحب ارادہ نہیں ہوتی تھیں انہیں اپنے کسی کام میںکوئی اختیار نہیںہوتا تھا، یہاں تک کہ وراثت کی بھی مالک نہیںہوتی تھیں اور مرد بغیر کسی قید و بند کے ان سے شادیا ںکرتے تھے جیسا کہ بعض یہودی اور بت پرستوںکی عاد ت تھی۔ در عین حال عورتیں بھی خود کو آراستہ اور بناؤ سنگار کرکے جس کوچاہتی تھیں اپنے پاس بلا لیتی تھیں، زنا و بے حیائی ان میں عام تھی یہاں تک کہ شادی شدہ عورتیں بھی زنا کا ارتکاب کرتی تھیں اور بسا اوقات عریاں حج کے لئے آتی تھیں۔

۲۰۵

لیکن ان کی اولاد باپ سے منسوب ہوتی تھی، لیکن بچپن میں وراثت سے محروم ہوتی تھی، صرف بڑی اولاد کو میراث کے تصرف کا حق ہوتا تھا، منجملہ ان کی میراث متوفیٰ کی بیوہ ہوتی تھی، بطور کلی لڑکیاں چاہے چھو ٹی ہوں یا بڑی اور چھوٹے لڑکے میراث کا حق نہیں رکھتے تھے، مگر جب کوئی شخص مرتا اور کوئی کمسن بچہ چھوڑ کر جاتا تو سر غنہ قسم کے افراد زبردستی اس کے اموال کے سر پرست بن کر اس کے اموال کو کھاجاتے تھے، اور اگر یہ یتیم بچی ہوتی تو اس کے ساتھ شادی کرتے اور اس کے اموال کوچٹ کر جانے کے بعد اس کو طلاق دیکرنکال دیتے تھے اس صورت میں اس بچی کے پاس نہ مال ہوتا تھا کہ جس سے زندگی گذار سکے اور نہ ہی کوئی اس سے شادی کے لئے تیار ہوتا تھا کہ اس کے اخراجات کا ذمہ دار بنے۔

ان کے درمیان یتیموں کامال غصب کرنا عظیم ترین حادثہ تھا، تا ہم وہ ہمیشہ جنگ و جدال اور غارت گری میں مبتلا رہا کرتے تھے جس کے نتیجہ میں قتل و خونریزی زیادہ ہوتی تھی لہذا بے سر پرست یتیموںکے حادثات اور رونما ہوتے تھے۔

ان کی اولاد کی عظیم بدبختی و شقاوت کا سبب یہ تھا کہ وہ بنجر اور نا ہموار زمینوں میں آباد تھے جو بہت جلد قحط کا شکار ہو جایا کرتی تھیں، لہذا فقر و ناداری کے خوف سے وہ اپنے بیٹوں کو قتل اور بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے، ان کے لئے سب سے زیادہ ناگوار اور دردناک خبر ان کے یہاں بیٹی کی ولادت ہوتی تھی۔

اگرچہ جزیرہ نما عرب کے اطراف میں کچھ بادشاہ حکومت کرتے تھے اور یہ عرب والے انہیں بادشاہوں میں سے اپنے سے قریب اور طاقتور بادشاہ کی زیر حمایت زندگی گذارتے تھے ۔ جیسے ایران شمال کی سمت میں ، روم مغرب کی سمت میںاور حبشہ مشرق کے اطراف میں آباد تھے مگر یہ کہ مرکزی شہر جیسے مکہ ، یثرت اور طائف وغیرہ ایسی کیفیت میں تھے کہ جو جمہوریت کے مثل تھے لیکن جمہوری نہیں تھے اور قبائل صحراؤں میں اور کبھی کبھار شہروں میں زندگی گذارتے تھے اور رؤساء اور بزرگان قبیلہ کے ذریعہ ان کی کفالت ہوتی تھی اور کبھی یہ کیفیت بادشاہی حکومت میں تبدیل ہو جاتی تھی۔

۲۰۶

یہ عجیب ہرج و مرج ان میں سے ہر گروہ میں ایک خاص صورت میں نمایاںتھا، اورجزیرہ نما عرب کی سرزمین کے ہر گوشے کا ہر گروہ عجیب و غریب آداب و رسوم اور باطل عقائد کا پابند تھا، اس سے قطع نظر وہ سب کے سب تعلیم و تعلم کے فقدان کی بلاء میں مبتلا تھے حتیٰ کہ شہر بھی چہ برسد عشائر و قبائل ۔

جو میں نے ان کے تمام حالات و کردار اور عادات و رسومات بیان کئے ہیں یہ ایسے امور ہیں جنہیں قرآن کی آیات اور ان ارشادات سے بخوبی سمجھا جا سکتا ہے جن میں ان کا ذکر موجود ہے ۔

لہذاجوآیات پہلے مکہ میں پھر اسلام کے ظہور کے بعد مدینہ میں نازل ہوئی ہیں کہ جن میں ان کے خصوصیات کا تجزیہ کیا گیا ہے، اسی طرح جن آیات میں ان کی شدید و معمولی سر زنش کی گئی ہے ان سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہ ان مطالب کی سب سے بڑی سند ہے جو ہم نے بیان کئے ہیں نہایت مختصرجملہ جو ان تمام امور کو بخوبی ثابت کرتا ہے وہ یہ ہے کہ قرآن نے اس زمانہ کو دور جاہلیت سے تعبیر کیا ہے ، فقط یہی مختصر سی تعبیر ان تمام معانی کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے، یہ تھی اس زمانہ میں عرب کی حالت۔

۲۰۷

6/2

دین جاہلیت

الف : غیر اللہ کی عبادت

قرآن

(اور ان لوگوں نے خدا کو چھوڑ کر ایسے خدا بنالئے ہیں جو کسی بھی شی کے خالق نہیںہیں بلکہ خود ہی مخلوق ہیں اور خود اپنے بھی کسی نقصان یا نفع کے مالک نہیںہیں اور نہ انکے اختیار میں موت و حیات یا حشر و نشر ہی ہے)

ب: خدا کے لئے بیٹا قرار دینا

(اور ان لوگوں کو ڈراؤ جو یہ کہتے ہیں کہ اللہ نے کسی کو اپنا فرزند بنا یا :اس سلسلہ میں نہ انہیں کوئی علم ہے اور نہ انکے باپ دادا کو یہ بہت بڑی بات ہے جو انکے منہ سے نکل رہی ہے کہ یہ جھوٹ کے علاوہ کوئی بات ہی نہیں کرتے)

(اور یہ اللہ کےلئے بیٹیاں قرار دیتے ہیں جبکہ وہ پاک ہے اور یہ جو کچھ چاہتے ہیں وہ سب انہیں کےلئے ہیں)

(کیا یہ تمہارے رب نے تم لوگوں کےلئے لڑکوں کو پسند کیا ہے اور اپنے لئے ملائکہ میں سے لڑکیاں بنائی ہیں یہ تم بہت بڑی بات کہہ رہے ہو)

(یا خدا کے لئے لڑکیاں اور تمہارے لئے لڑکے ہیں)

(کیا تم لوگوں نے لات و عزی کو دیکھا ہے اور منات جو ان کا تیسرا ہے اسے بھی دیکھا ہے، تو کیاتمہارے لئے لڑکے ہیں اور اس کے لئے لڑکیاں ہیں یہ انتہائی ناانصافی کی تقسیم ہے)

۲۰۸

حدیث

1147۔ رسول خدا(ص): خدا نے فرمایا: فرزند آدم نے میری تکذیب کی، جبکہ اسکو یہ حق نہیں تھا اور مجھ کو گالی دی حالانکہ اس کےلئے یہ مناسب نہیں تھا، لیکن میری تکذیب اس لئے کی تھی کہ اسکا گمان تھا کہ وہ جسطرح دنیا میں ہے میں اسے اسی طرح نہیں پلٹا سکتا ہوں؛ اور اسکا مجھے گالی دینا اس لئے تھا کہ اس نے میرے لئے بیٹا قرار دیا۔ میں اس چیز سے منزہ ہوں کہ میرے لئے زوجہ اور بیٹا ہو۔

1148۔ مجاہد: کہ کفار قریش کہتے تھے: ملائکہ اللہ کی بیٹیاں ہیں اور ان کی مائیں بڑی پریوںکی بیٹیاں ہیں۔

1149۔ ابن عباس:نے اس آیت (اور یہ اللہ کےلئے بیٹیاں قرار دیتے ہیں) کی تفسیر میںفرمایا:وہ لوگ اللہ کےلئے بیٹیاں قرار دیتے تھے ، اور تم اس بات کو پسند کرتاتے ہو کہ میرے(خدا) یہاں لڑکیاں ہوں لیکن اپنے لئے پسند نہیں کرتے ، اسی لئے دور جاہلیت میں جب کسی کے یہاں بیٹی پیدا ہوتی تھی تو اسے ذلت و حقارت کے ساتھ باقی رکھتے تھے یا زندہ در گور کر دیتے تھے۔

ج: جنات کو خداکا شریک قرار دینا

( اور انہوں نے جنات کو خداکا شریک بنایا حالانکہ خدا نے انہیںپیدا کیا ہے پھر اس کےلئے بغیر جانے بوجھے بیٹے اور بیٹیاں بھی تیار کر دی ہیں، جبکہ وہ بے نیاز اور انکے بیان کر دہ اوصاف سے کہیں زیادہ بلند و بالا ہے )

(اور جس دن خدا سب کو جمع کریگا اور پھر ملائکہ سے کہے گا کہ کیا یہ لوگ تمہاری ہی عبادت کرتے تھے تو وہ عرض کریں گے کہ تو پاک و بے نیاز اور ہمارا ولی ہے یہ ہمارے کچھ نہیں ہیں اور یہ جنات کی عبادت کرتے تھے اور ان کی اکثریت انہیں پر ایمان رکھتی تھی)

۲۰۹

د: خدا اور جنات کا رشتہ

(اور انہوںنے خدا و جنات کے درمیان بھی رشتہ قرار دے دیا حالانکہ جنات کو معلوم ہے کہ انہیں بھی خدا کی بارگاہ میں حاضر کیا جائےگا)

ھ: بعض چوپایوں کو حرام قرار دینا

(آپ کہہ دیجئے کہ خدا نے تمہارے لئے رزق نازل کیاتو تم نے اس میں بھی حلال و حرام بنانا شروع کر دیا تو کیا خدا نے تمہیں اسکی اجازت دی ہے یا تم خدا پر افتراء کر رہے ہو)

(لہذا اب تم اللہ کے دئےے ہوئے رزق حلال و پاکیزہ کو کھاؤ اور اسکی عبادت کرنے والے ہو تو اسکی نعمتوں کا شکریہ بھی ادا کرتے رہو اس نے تمہارے لئے صرف مردار، خون ، سور کا گوشت اور جو غیر خدا کے نام پر ذبح کیا جائے اسے حرام کر دیا ہے اور اس میں بھی اگر کوئی شخص مضطر و مجبور ہو جائے اور نہ بغاوت کرے ، نہ حد سے تجاوز کرے تو خدا بہت بڑا بخشنے والا مہربان ہے اور خبردار جو تمہاری زبانیں غلط بیانی سے کام لیتی ہیں اسکی بنا پر یہ نہ کہو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے کہ اس طرح خدا پر جھوٹا بہتان باندھنے والے ہو جاؤ گے اور جو اللہ پر جھوٹا بہتان باندھتے ہیں ان کے لئے فلاح اور کامیابی نہیں ہے )

( اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ جانور اور یہ کھیتی اچھوتی ہے اسے ان کے خیالات کے مطابق وہی کھا سکتے ہیں جنکے بارے میں وہ چاہیں گے اور کچھ چوپائے ہیں جنکی پیٹھ حرام ہے اور کچھ چوپائے ہیںجنکو ؟ذبح کرتے وقت نام خدا بھی نہیںلیا گیا اور سب کی نسبت خدا کی طرف دے رکھی ہے ، عنقریب ان تمام بہتانوں کا بدلہ انہیں دیا جائیگا اور کہتے ہیں کہ ان چوپایوں کے پیٹ میںجو بچے ہیں وہ صرف ہمارے مردوں کے لئے ہیں اور عورتوں پر حرام ہیں ہاں، اگر مردار ہوں تو سب شریک ہوں گے، عنقریب خدا ان بیانات کا بدلہ دیگا کہ وہ صاحب حکمت بھی ہے اور سب کا جاننے والا بھی ہے )

۲۱۰

( اللہ نے بحیرہ ، سائبہ، وصیلہ اور حام کا کوئی قانون نہیں بنایا یہ جو لوگ کافر ہو گئے ہیں وہ اللہ پر جھوٹا بہتان باندھتے ہیں اور ان میں کے اکثر بے عقل ہیں)

1150۔ امام صادق(ع): جب اونٹنی بچہ دیتی ہے پھر اس کا بچہ بھی بچہ دے دے تو اس ناقہ کو بحیرہ کہتے ہیں۔

1151۔ امام صادق(ع): نے خدا کے اس قول( اللہ نے بحیرہ ، سائبہ ، وصیلہ اور حام کا کوئی قانون نہیں بنایا)کے بارے میں فرمایا: دور جاہلیت کے لوگ اس اونٹنی کو جو جوڑواں بچہ دیتی تھی وصیلہ کہتے تھے لہذا اس کا ذبح کرنااور کھانا ناجائز سمجھتے تھے، اور اگر دس بچے پیدا ہو جاتے تھے تو اس اونٹنی کو سائبہ کہتے تھے اس پر سواری کرنا اور اس کے کھانے کو حلال نہیں سمجھتے تھے اور حام وہ نرجانور ہے (جس کے ذریعہ مادہ کو حاملہ کراتے تھے) وہ اسے بھی حلال نہیںسمجھتے تھے، پھر خدا نے آیت نازل کی کہ ان میں سے کسی کو حرام نہیںکیا ہے ۔

وضاحت

اسلام سے قبل عرب کی بدترین جاہلیت کی بدولت ان کے رؤسا اور بزرگان کے استفادہ کے لئے زمین ہموار تھی اور دور جاہلیت کے سرکش و ظالم افراد رسولوں سے خالی دور میں دینی اور اجتماعی آداب و رسومات کے نام پر لوگوں کے پاکیزہ احساسات سے غلط فائدہ اٹھاتے تھے اور اپنے منافع کے لئے کچھ بدعات و خرافت ایجاد کررکھی تھیں، ان میں کا ایک کہ جس کو تاریخ عمروبن لحی کے نام سے جانتی ہے اس نے اس وقت عرب کی اہمترین ثروت یعنی اونٹ کو اپنے اختیار میں لیا اور اس کے لئے کچھ احکام بنا کر مقدس رسم کی صورت میںپیش کیا۔

۲۱۱

اس بدعت کے نتیجہ میں ان کی در آمد اونٹ کی چار قسموں ، بحیرہ ، سائبہ ، وصیلہ ، اورحام ، میں منحصرہو گئی تھی اور تفسیروں میں کم و بیش اختلاف کے ساتھ اس سلسلہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ اور تمام تفسیروں کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ لوگ ان چاروں اونٹوں کے لئے خود ساختہ احترام کے قائل تھے کہ دودھ، گوشت، اون، ا ن پر سواری کو اکثر کے لئے حرام اور بعض کے لئے منجملہ متولی اور بتوں کے خدمت گذاروںکے لئے حلال سمجھتے تھے۔

یہ بدعت ، عورتوںکے متعلق عرب کے حقارت آمیز نظریہ سے مل کر عورتوںکے لئے اس حکم کے مزید سخت ہونے کا باعث ہوئی؛ وہ یہ کہ عورتیں ان مذکورہ اونٹوں کا گوشت صرف مرنے کے بعد ہی کھا سکتی تھیں۔

اس کے علاوہ اس خیالی حرمت کے نتیجہ میں بتوںکے متولیوں اور خادموں کے لئے چراگاہوں ، پانی کے چشموں اور جزیرۃ العرب کے نایاب کنوؤں سے استفادہ کر ناجائز و مباح تھا۔ نیز اس چیز کابھی باعث ہوئی کہ وہ شکریہ کے طور پر یا اپنی حاجات کے پوری ہونے پر پتھر کے بتوں اور ان کے متولیوںکی خدمت میں نذرانہ پیش کریں۔

قرآن مجید مذکورہ چار آیات کے ذریعہ جاہلیت کے بدعات و خرافات سے برسرپیکار ہوا یعنی بت پرستوں ، اور ان کے خود ساختہ رسومات اور دعووں کو محض افتراء سے تعبیر کیا ہے ، متولیوں ،بت پرستوں، اور بت گروںکو بے نقاب کر دیا اور اعلان کیا کہ چوپایوں کا حرام یا حلا ل قرار دیناصرف خدائے سبحان کے اختیار میں ہے ، اور اس نے ان چار طرح کے حیوانات کو عرب کے عقیدئہ جاہلیت کے بر خلاف حرام نہیںجانا ہے ، فقط مردار اور وہ تمام چیزیں جو بتوں اور غیر خدا سے مربوط ہیں انہیں حرام قرار دیا ہے ۔

۲۱۲

و:خدا اور اصنام کے درمیان کھیتی اور چوپایوں کی تقسیم

قرآن

(اور ان لوگوں نے خدا کی پیدا کی ہوئی کھیتی میں اور جانوروںمیں اسکا حصہ بھی لگایا ہے اور یہ اعلان کیاہے کہ یہ انکے خیال کے مطابق خدا کےلئے ہے اور یہ ہمارے شریکوںکےلئے ہے ، اسکے بعد جو شرکاء کا حصہ ہے وہ خدا تک نہیں جاسکتا اور جو خدا کا حصہ ہے وہ انکے شریکوں تک پہنچ سکتاہے کس قدر بدترین فیصلہ ہے جو یہ لوگ کر رہے ہیں)

(اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ جانور اور کھیتی اچھوتی ہے اسے انکے خیالات کے مطابق وہی کھا سکتے ہیںجنکے بارے میںوہ چاہیں گے اور کچھ چوپائے ہیں جنکی پیٹھ حرام ہے اور کچھ چوپائے ہیں جنکو ذبح کرتے وقت نام خدا بھی نہیںلیا گیا اور سب کی نسبت خدا کی طر ف دے رکھی ہے عنقریب ان تمام بہتانوں کا بدلہ انہیں دیا جائیگا)

( اور یہ ہمارے دئےے ہوئے رزق میں سے ان کا بھی حصہ قرار دیتے ہیں جنہیں جانتے بھی نہیں ہیں تو عنقریب تم سے تمہارے افتراء کے بارے میںبھی سوال کیا جائیگا)

۲۱۳

وضاحت

عقیدئہ جاہلیت (کہ بتوں کو خدا کا شرکاء قرار دیتے تھے) نے عرب کو اس چیز پر ابھارا کہ وہ اپنے خداؤں اور بتوںکےلئے بتکدہ بنائیں اور ان کے خدمت گذاروں اور متولیوں کے لئے معاش فراہم کریں، انہیں اپنی زندگی ، رزق اور مملکت میں شریک بنائیں اور اپنی عمدہ روت(زراعت و چوپائے) ان کے درمیان تقسیم کریں اور خدا کے حصہ کے ساتھ ان کا بھی حصہ قرار دیں۔ خدا کے حصہ کو عمومی مصارف جیسے مہمانوںکو کھانا کھلانے اور فقراء و مساکین کی مدد کرنے میں خرچ کرتے اور بتوںکے حصہ کو ان کے خدمت گذاروں کو عنایت کرتے تھے۔جب کبھی زراعت پر کوئی آفت آتی یا کم پیدوار ہوتی یا ان کا حصہ خدا کے حصہ سے مخلوط ہو جاتا تو یہ حریص و لالچی خدمت گذار اپنے مفاد کی خاطر دھوکا دھڑی سے کام لیتے اور کہتے (خدا بے نیازہے) لہذا وہ اپنا پورا حصہ بغیر کسی کم و کاست کے لے لےتے تھے اور اپنے حصوں کی کمی کا جبران خدا کے حصہ سے کرتے تھے اور کبھی بھی خدا کے حصہ کا جبران بتوں کے حصہ سے نہیں کرتے تھے محصول میںیہ کمی وزیادتی کبھی کبھار ان کی پہلے کی فریبکاریوںکی بنا پر ہوتی تھی؛ اور وہ یہ کہ جب سینچائی کے وقت خد اکے حصہ کے کھیتوں سے پانی بتوں کے کھیتوں میں جانے لگتا تھا تو وہ اس کو روکتے نہیں تھے، لیکن اس کے بر خلاف خداکے کھیتوں میں بتوںکے کھیتوں سے پانی نہیں جانے دیتے تھے۔ اسی طرح یہ فرسودہ رسم چوپایوںمیں بھی تقسیم و شراکت کے اعتبار سے بر قرار تھی کہ جس کی طرف گذشتہ فصل میں اشارہ ہو چکاہے ۔ملاحظہ کریں:تفسیر مجمع المبیان : 4/571، تفسیر قمی: 1/217، تفسیر طبری : 5، جزء 8/40 تفسیر در منثور:3،362، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام:6 /193

۲۱۴

ز: عریاں طواف

1152۔ امام صادق(ع): زمانہ جاہلیت میں عرب کے گروہ تھے : حل اور حمس۔ حمس قریش تھے۔ اور حل تمام عرب تھے حل میں سے کوئی فرد ایسی نہیںتھی جو حمس کی پناہ میں نہ ہوتی اور جو حمس کی پناہ میں نہیں ہوتا تھا وہ عریاں طواف کرتاتھا۔

رسول خدا(ص) عیاض بن حمار مجاشعی کو پناہ دیتے تھے ، عیاض عظیم المرتبت انسان تھا اور جاہلیت میں اہل عکاظ کا قاضی تھا، وہ جب بھی مکہ وارد ہوتا ، اپنے گناہ آلود لباس کو اتار دیتا اور چونکہ پیغمبر کا لباس پاک و پاکیزہ ہوتا تھا لہذآنحضرت کا لباس پہن کرطواف کرتا تھا، اور طواف کے بعد آپکا لباس واپس دے دیتا تھا۔جب پیغمبرؐ مبعوث برسالت ہوئے تو عیاض آپ کے لئے ایک ہدیہ لیکر آیا، لیکن نبیؐ نے اسے قبول نہ کیا اور فرمایا: اے عیاض! اگر مسلمان ہو جاؤگے تو تمہارا ہدیہ قبول کرونگا؛ یقینا خدا مشرکوں کی داد و دہش کو میرے لئے پسند نہیںکرتا، پھر اس کے بعد عیاض نے اسلام قبول کیا اور اس کا اسلام قابل تحسین ہوا۔ اور رسول خدا کے لئے ہدیہ لیکر آیا اور آپ نے اس کو قبول فرمایا۔

1153۔ امام صادق(ع): عرب کے درمیان یہ رائج تھا کہ جو بھی مکہ میں وارد ہوتا اور اپنے لباس میں طواف کرتااس کے لئے جائز نہ تھاکہ وہ اپنے لباس کو باقی رکھتا اور اسے دو بارہ پہنتا بلکہ وہ اسے صدقہ دے دیا کرتاتھا۔

؛ لہذا جب وہ لوگ مکہ میں داخل ہوتے تھے تو عاریتاً کسی سے لباس لیکر طواف کرتے پھر واپس کر دیتے تھے، اگر عاریتاً لباس نہیںملتا تھا تو کرایہ پر لیتے اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہوتا اور ان کے پاس فقط ایک ہی لباس ہوتا تھا تو وہ برہنہ طواف کرتے تھے۔

لہذا عرب کی ایک حسین و جمیل عورت وارد مکہ ہوئی لیکن عاریت اور کرایہ پر کوئی لباس نہ مل سکا۔ لوگوں نے اس سے کہا: اگر تونے اپنے اس لباس میں طواف کیا تو اس کو تجھے صدقہ دینا ہوگا، عورت نے کہا: کیونکر صدقہ دوں گی جبکہ میرے پاس اس کے علاوہ دوسرا لبا س نہیںہے؟!

۲۱۵

لہذا اس نے برہنہ طواف کرنا شروع کر دیا اور لوگ تماشہ دیکھ رہے تھے جس کی وجہ سے اس نے ایک ہاتھ آگے اور دوسرا ہاتھ پیچھے رکھا اور اس طرح رجز خوانی کی :

'' آج شرمگاہ کا کچھ حصہ یا تما م حصہ ظاہر ہے ، اور جو ظاہرہے اس کو جائز نہیں جانتی''

پھر طواف کے بعد کچھ لوگوں نے اس کے پاس شادی کے لئے پیغا م بھیجا لیکن اس نے کہا میں شادی شدہ ہوں۔

ح: قیامت کا انکار

قرآن

( اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیاتو کیا تمہارے سامنے ہماری آیات کی تلاوت نہیںہو رہی تھی لیکن تم نے اکڑ سے کام لیا اور بیشک تم ایک مجرم قوم تھے اور جب یہ کہا گیا کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور قیامت میں کوئی شک نہیںہے تو تم نے کہہ دیا کہ ہم تو قیامت نہیں جانتے ہیںہم اسے ایک خیالی بات سمجھتے ہیں اور ہم اس کا یقین کرنے والے نہیں ہیں اور ان کے لئے ان کے اعمال کی برائیاں ثابت ہو گئیں اور انہیں اس عذاب نے گھیر لیا جس کا وہ مزا ق اڑا یا کرتے تھے اور ان سے کہا گیا کہ ہم تمہیں آج اسی طرح نظر انداز کریں گے جس طرح تم نے آج کے دن کی ملاقات کو بھلا دیاتھاا ور تم سب کا انجام جہنم ہے اور تمہارا کوئی مدد گار نہیںہے یہ سب اس لئے ہے کہ تم نے آیات الہی کا مذاق بنا یا تھا اور تمہیں زندگانی دنیا نے دھوکا میں رکھا تھا توآج یہ لوگ عذاب سے باہر نہیں نکالے جائیں گے اور انہیں معافی مانگنے کا موقع بھی نہیںدیا جائیگا۔

۲۱۶

جاہلیت کے عقائد پر ایک نظر

زمانہ جاہلیت یعنی وحی اور انبیاء سے خالی دور میں عرب وادی ضلالت و گمراہی میں زندگی بسر کر رہے تھے، حیران و سرگرداں اور مذہبی و فکر ی اختلاف کے شکار تھے، درج ذیل مطالب میں عرب کے فرق و مذاہب پر ایک طائرانہ نظر ڈالی گئی ہے ۔

1۔ خدا اور قیامت کے معتقد نہیں تھے اور ہستی کو اسی دنیا میں محدود و منحصر خیال کرتے تھے اور کہتے تھے

(و ما هی الاحاتنا الدنیا نموت و نحیٰ و ما یهلکنا الا الدهر)

یہ صرف زندگانی دنیا ہے اسی میں مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور زمانہ ہی ہم کو ہلاک کر دیتا ہے ۔

2۔ قیامت پر اعتقاد نہیں رکھتے تھے، جیسا کہ آیت سے واضح ہے:

( و اذا قیل ان وعد الله حق و الساعة لا ریب فیها قلتم ما ندری ما الساعة ان نظن الا ظناً وما نحن بمستیقنین)

اور جب یہ کہا گیا کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور قیامت میںکوئی شک نہیں ہے تو تم نے کہہ دیا کہ ہم تو قیامت نہیںجانتے ہیں اور ہم اس کا یقین کرنے والے نہیںہیں۔ نیز ارشاد ہے

(و ضرب لنا مثلا و نسی خلقه قال من یحیی العظام و هی رمیم قل یحییها الذی انشأها اول مرة)

اور وہ ہمارے لئے مثال بیان کرتاہے اور اپنی خلقت کو بھول گیا ہے کہتا ہے کہ ان بوسیدہ ہڈیوں کو کون زندہ کر سکتا ہے آپ کہہ دیجئے کہ جس نے پہلی مرتبہ پیدا کیاہے وہی زندہ بھی کریگا ۔

اس آیت سے استفادہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ لوگ پہلی خلقت پر اعتقاد رکھتے تھے اور تعبیر حدیث کے مطابق وجود خداکے قائل تھے لیکن:(لا یرجون من الله ثواباً ولا یخافون الله منه عقابا)

خدا کے ثواب کی امید نہیںرکھتے تھے اور نہ ہی اس کے عقاب سے ڈرتے تھے۔

۲۱۷

3۔ وہ کبھی ملائکہ و جنات میں سے اور کبھی اصنام و شیاطین میں سے خدا کا شریک قرار دیتے تھے۔ ان شرکاؤ کبھی اصل خلقت میں دخیل قرار دیتے اور کبھی تدبیر امور میں ؛ یا وہ لوگ خدا کو مادی موجودات سے تشبیہ دیتے اور یا انہیںمادی موجودات میں سے کسی ایک کی پروردگار عالم کے عنوان سے پرستش کرتے تھے؛ وہ مادی موجودات جیسے کواکب یا حیوانات اور یا اشجار ہیں، جزیرۃ العرب میں اس عقیدہ کے معتقد افراد( جو گذشتہ بالا عقیدہ کے معتقد افراد سے کچھ چیزوںمیں شبیہ ہیں) کی اکثریت تھی۔

(وما یؤمن بالله الا وهم مشرکون)

ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے تھے مگر یہ کہ مشرک تھے۔

4۔ جزیرۃ العرب کے بعض مناطق میں اہل کتاب کے دو گروہ یہود و نصاریٰ آباد تھے جس کے ثبوت کے لئے منجملہ آیہ مباہلہ ہے جو نجران کے ان علماء اور نصاریٰ پر دلالت کرتی ہے جو مدینہ کے جنوب میں زندگی گذارتے تھے، نیز صدر اسلام کی عظیم جنگیں بھی اس چیز پر دلالت کرتی ہیں کہ جن میں یہودیوںکا اساسی کردار تھا، جیسے جنگ احزاب (خندق) اور اس کے بعد بنی قینقاع اور بنی قریظہ کے ساتھ کشمکش یہاں تک کہ جنگ خیبر دلالت کرتی ہے ۔

5۔ کچھ مجوسی اور صائبہ بھی آباد تھے لیکن قابل اعتنا نہیں تھے۔

6۔ کچھ لوگ دین حنیف ابراہیم کے معتقد تھے جو نہایت اقلیت میں تھے جنکے اسماء حسب ذیل ہیں:

1۔ ابو طالب (رسول اکرم (ص) کے چچا)

2۔ ابو قیس صرمہ بن ابی انس

3۔ ارباب بن راب

4۔ اسعد ابوبکر حمیری

۲۱۸

5۔ امیہ بن ابی صلت

6۔ بحیرائے راہب

7۔ خالد بن سنان عبسی

8۔ زہیر بن ابی سلمی

9۔ زید بن عمرو بن نفیل عبد العزیٰ

10۔ سوید بن عامر مصطلقی

11۔ سیف بن ذی یزن

12۔ عامر بن ضرب عدوانی

13۔ عبد الطا نجہ بن ثعلب بن وبرۃ بن قضاعہ

14۔ عبد اللہ قضاعی

15۔ عبد اللہ (رسول اکرم ؐکے والد محترم)

16۔ عبد المطلب (رسول اکرمؐ کے دادا)

17۔ عبید بن ابرص اسدی

18۔ علاف بن شہاب تمیمی

19۔ عمیر بن جندب جہنی

20۔ کعب بن لو ئی بن غالب

21۔ ملتمس بن امیہ کنانی

22۔ وکیع بن زہیر ایادی

۲۱۹

6/3

دور جاہلیت کے اوصاف

قرآن

( یہ اس وقت کی بات ہے جب کفار نے اپنے دلوں میں زمانہ جاہلیت جیسی ضد قرار دے لی تھی )

(کیا تم نے اسکو دیکھا ہے جو قیامت کو جھٹلاتا ہے ، وہی ہے جو یتیم کو جھڑکتا ہے ، اور کسی کو مسکین کے کھلانے کےلئے تیار نہیں کرتا ہے)

حدیث

1154۔ رسول خدا(ص): جس شخص کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر تعصب ہوگا، خدا اس کو روز قیامت زمانہ جاہلیت کے عربوں کے ساتھ محشور کریگا۔

1155۔ رسول خدا(ص): جو شخص پرچم گمراہی کے نیچے جنگ کرے اور تعصب کی بنا پر غضبناک ہو یا تعصب کی دعوت دے یا کسی عصبیت کی مدد کرتے ہوئے قتل ہو جائے تو اس کا قتل جاہلیت پر ہوگا۔

1156۔ رسول خدا(ص): بیشک اللہ نے غرور جاہلیت اور انکے آباء و اجداد کے سبب تکبر کو دور کیا، تم سب کی نسبت آدم و حوا سے ایسی ہے جیسے ترازو کے دو پلڑے، بیشک تم میں سب سے زیادہ مکرم وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے ، لہذا جو تمہارے پاس شادی کا پیغام لیکر آئے اگر تم اسکی دینداری و امانتداری سے راضی ہو تو اس کے ساتھ شادی کر دو۔

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285