‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) جلد ۲

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) 26%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 285

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 285 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 121839 / ڈاؤنلوڈ: 4317
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

۱۴ ۔سورہ ٔشعر ا کی ۲۰۸ ویںآیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَمَااَهْلَکنامِنْ قَرْ یَةٍٍا اِلَّا لَهامُنذِرُونَ )

ہم نے کسی دیا ر والوں کو ہلا ک نہیں کیا مگر یہ کہ ان کے درمیان ڈرانے والے پیغمبر بھیجے۔

۱۵ ۔سورہ ٔ اسرا ء کی ۱۰۱ آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَلََقَد ْاتَینامُوسیٰ تِسعَ آیاتٍٍ بَینّات ٍفَسئل بنی اِسرا ئیلَ اِذجائَ هُمْ فَقَال لَهُ فِرْعُونُ اِنّی لَاَظُنُّکَ یَامُوسیٰ مَسْحُورا ) ً)

ہم نے موسیٰ کو نہ گا نہ آشکار ا معجزے عطا کئے بنی اسرا ئیل سے سوال کروجب ان کی طرف موسیٰ آئے اور فرعون نے ان سے کہا : اے مو سیٰ ! میرے خیال میں تم پر جادو کر دیا گیا ہے.

۱۶ ۔ موسیٰسے خطا ب کرتے ہوئے سور ہ ٔ نمل کی ۱۲ ویںاور ۱۳ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے :

( وَاَدخِلْ یَدَک فی جَیبِکَ تَخْرُ جْ بَیضائَ مِنْ غَیرِ سوء ٍ فی تِسعِ آیاتٍ الیٰ فِرعَون وَقَومِه انَّهُم کٰانُواْ قَوْماًًفَاسِقینَ٭فَلَمّاجائَ تْهُمْ آیٰا تُنامُبصِرةً قالُواهذاسِحْرُمُبینُ )

اے موسیٰ ! اپنے ہا تھ کو اپنے گر یبان کے اند ر لے جاؤ اور جب باہر لا ؤ گے تو بغیر کسی داغ دھبّے کے سفید ( نورا نی اور نور افشاں) ہو جا ئے گا اس وقت دیگر معجز وں کے ساتھ فرعون اور اس کی قوم کے فاسق لوگوں کے درمیان بھیجے جا ؤ گے .جب موسیٰ نے ہمارے معجزات دکھلائے تو انھو نے کہا: یہ تو کھلا ہوا سحر ہے۔

۱۷ ۔ سورہ ٔ رعد کی ۳۸ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَلَقَدْ اَرْسَلنَا رُسُلاً مِن قبلکَ وَجَعلنَا لَهُم اَزوَاجاً وَذُریةً وَمَا کَانَ لِرسُولٍ ان یَأتی بِٰایة لّابِاذْنِ اللّٰهِ... )

ہم نے تم سے پہلے کچھ پیغمبروں کو بھیجا جو تمہاری ہی طرح سے بیو ی بچے والے تھے اور کسی بھی پیغمبر کے لئے روا نہیں کہ بغیر خدا وند عا لم کی اجازت اور اس کے اذن کے ،معجزہ پیش کرے.

۲۱

۱۸۔ سورہ ٔ غا فر کی ۷۸ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَلََقَدْاَرسَلنَارُسُلاًمِن قَبلکَ مِنهُمِ مَن قَصَصنَاعَلیکَ وَمِنهُمْ مَن لَمْ نَقْصَص عَلیکَ وَمَاکَانَ لِرسُولٍ اَن یَأ تی بِاٰیةاِلّابِاذنِ اللّٰهِ... )

ہم نے تم سے پہلے پیغمبروں کو بھیجا ان میں سے کچھ ایسے ہیں جن کی داستان تم سے بیان کی.

اور کچھ ایسے ہیں جن کا قصہ تم سے بیان نہیں کیا،کسی بھی پیغمبر کے لئے روا نہیں ہے کہ خدا کی اجازت اور اس کے اذن کے بغیر معجزہ دکھا ئے:

۱۹ ۔ سورہ ٔ حج کی ۴۲ ویں سے ۴۵ ویں آ یت تک میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَِنْ یُکَذِّ بُوکَ فَقَدْ کَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ وَعَاد وَثَمُودُ٭ وَقَوْمُ اِبْرَاهِیمَ وَقَوْمُ لُوطٍ ٭ وََصْحَابُ مَدْیَنَ وَکُذِّبَ مُوسَی فََمْلَیْتُ لِلْکَافِرِینَ ثُمَّ َخَذْتُهُمْ فَکَیْفَ کَانَ نَکِیرٍ٭ فَکََیِّنْ مِنْ قَرْیَةٍ َهْلَکْنَاهَا وَهِیَ ظَالِمَة فَهِیَ خَاوِیَة عَلَی عُرُوشِهَا واَبِئْرٍ مُعَطَّلَةٍ وَقَصْرٍ مَشِیدٍ ٭ )

اور اگر انھو نے تمہاری تکذ یب کی ہے تو ان سے پہلے، نو ح، عا داور ثمو د کی قوم نے بھی ( اپنے رسولوں کی) تکذ یب کی ہے۔ اور ابرا ہیم اور لو ط کی قو موں اورمد ین کے رہنے والوں (قوم شعیب) نے بھی اپنے رسولوں کی تکذ یب کی ہے اور مو سیٰ بھی جھٹلا ئے گئے ہیں.ہم نے کافرو کو مہلت دی پھر اس وقت ان کا مو اخذہ کیا (سزا دی) پھر ہماری سزا کیسی تھی؟.بہت ساری آبا دی (جن کے رہنے وا لے ) ظالم اور ستمگر تھے ہم نے ہلاک کر ڈا لیں جن کی چھتیں اور دیوار گر کرمنہدم اور بنیا د سے ہی ویرا ن اور خالی ہوگئیں اور کنو یں کے پا نی بے مصرف اور عا لی شان قصر بغیر مکین کے رہ گئے ہیں.

۲۰ ۔ سورہ ٔ احزاب کی ۴۵ ویں اور ۴۶ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( یاَاَیَّهُااَلنبَّی اِنَّااَرَسَلْنَاکَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذیرًا ٭وَدَاعِیاًًاِلیٰ اللّٰهِ بِِذنِه وَسِرَاجاً مُنیرًا )

اے پیغمبر! ہم نے تمہیں گواہی دینے والا، بشا رت دینے والا، ڈرا نے والا اور اپنے اذن سے لوگوں کو ﷲ کی طرف بلانے والااور روشن چرا غ بنا کر بھیجا۔

۲۱ ۔سورہ ٔ سبا کی ۲۸ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَمَااَرَسَلنَاکَ اِلاّ کَافّة ً لِلنََاّسِ بَشِیراًًوّنَذ یراًً... )

ہم نے تمھیں تمام لو گو کے لئے بشا رت دینے وا لا اور ڈا رنے وا لا پیغمبر بنا کر بھیجا۔

۲۲

۲۲۔سورہ ٔ اسراء کی ۸۸ ۔ ۹۵ آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الِنسُ وَالْجِنُّ عَلَی َنْ یَْتُوا بِمِثْلِ هَذَا الْقُرْآنِ لاَیَْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ کَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِیرًا ٭ وَلَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ فِی هَذَا الْقُرْآنِ مِنْ کُلِّ مَثَلٍ فََبَی َکْثَرُ النَّاسِ ِلاَّ کُفُورًا ٭ وَقَالُوا لَنْ نُؤْمِنَ لَکَ حَتَّی تَفْجُرَ لَنَا مِنْ الَرْضِ یَنْبُوعًا ٭ َوْ تَکُونَ لَکَ جَنَّة مِنْ نَخِیلٍ وَعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الَنهَارَ خِلَالَهَا تَفْجِیرًا ٭ َوْ تُسْقِطَ السَّمَائَ کَمَا زَعَمْتَ عَلَیْنَا کِسَفًا َوْ تَْتِیَ بِﷲ وَالْمَلَائِکَةِ قاَبِیلًا ٭ َوْ یَکُونَ لَکَ بَیْت مِنْ زُخْرُفٍ َوْ تَرْقَی فِی السَّمَائِ وَلَنْ نُؤْمِنَ لِرُقِیِّکَ حَتَّی تُنَزِّلَ عَلَیْنَا کِتَابًا نَقْرَؤُه قُلْ سُبْحَانَ راَبِی هَلْ کُنتُ ِلاَّ بَشَرًا رَسُولًا ٭ وَمَا مَنَعَ النَّاسَ َنْ یُؤْمِنُوا إِذْ جَائَهُمُ الْهُدَی ِلاَّ َنْ قَالُوا َبَعَثَ ﷲ بَشَرًا رَسُولًا ٭ قُلْ لَوْ کَانَ فِی الَرْضِ مَلَائِکَة یَمْشُونَ مُطْمَئِنِّینَ لَنَزَّلْنَا عَلَیْهِمْ مِنَ السَّمَائِ مَلَکًا رَسُولًا ٭ )

اے پیغمبر :کہو! اگر جن و انس متفق ہو جائیں تا کہ اس کے مانند قرآن پیش کریں ہرگز ایسا نہیں کر سکتے خواہ ایک دوسرے کے پشت پناہ اور مدد گار بن جائیں. ہم نے اس قرآن میں ہر طرح کی مثال دی ہے، لیکن اکثر لو گوں نے ناشکری کے علا وہ کوئی اور کام نہیں کیا اور کہا: ہم تم پر ایمان نہیں لائیں گے مگر یہ کہ زمین سے پانی کا چشمہ جاری کرو.

یا یہ کہ تمہارا انگو ر اورخر ما کا باغ ہو جس کے درمیا ن پا نی کی نہر یں جا ری ہوں یا جیسا کہ کہتے ہو آسمان سے کو ئی ٹکڑا ہمارے سر پر گرا دو یا خدا اور ملائکہ کو ہمارے سا منے حا ضر کر و. یا یہ کہ سونے کا تمہارے کو ئی گھر ہو یا آسمان پر جاؤ اور ہم تمہارے آسمان کی بلندی پر جا نے کا اُس وقت تک یقین نہیں کر یں گے جب تک کہ ہمارے اوپر کوئی ایسی کتا ب نازل نہ کرو کہ جسے ہم پڑ ھیں. کہو! ہمارا خدا پاک اور منزہ ہے.کیا میں انسا ن کے علا وہ کچھ ہوں جو خدا کی طرف سے رسالت کے لئے مبعوث ہوا ہوں؟! لوگوں کو ایمان و ہدایت سے کسی نے نہیں رو کا جب کہ اُن کے لئے قرآن آیا، لیکن انھوں نے انکا ر کرتے ہوئے کہا:کیا خدا نے کسی انسان کو پیغمبری کے لئے مبعوث کیا ہے؟! کہو اگر زمین میں فر شتوں کا رہنا ہوتا اور ان کی سکو نت کی جگہ ہوتی تو یقینا ہم آسمان سے ان کی رسا لت کے لئے کسی فر شتے کو مبعو ث کرتے۔

۲۳

کلمات کی تشریح

۱۔ یصطفی:

( صفو) کے مادہ سے فعل مضا رع ہے جوکہ خا لص نچوڑ اور ہر چیز سے منتخب شدہ کے معنی میں ہے اور (اصطفا ئ) عصا رہ اور خالص شیء پر دستر سی کے معنی میں ہے .اصطفائ، اسلامی اصطلا ح میں یعنی خدا وند عالم نے اپنے بندے کو شکوک و شبہات اور دوسروں میں پا ئی جانے والی گند گی سے پاک و پاکیزہ قرار دیا ہے یا اسے دوسروں پر انتخاب کیا ہے۔

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خلقت کا نچوڑ، اس کاخلا صہ اور خدا کے بر گز یدہ ہیں اور سارے انبیاء خدا کے برگزیدہ ہیں۔

۲۔ اَوْحَےْنَا:

( وحی ) کے مادہ سے متکلم مع الغیر کا صیغہ ہے( جسے اردو میں جمع متکلم کہا جا تا ہے) جو لغت میں پو شیدہ طور پر آگاہ کر نے کے معنی میں استعما ل ہوتا ہے لیکن جب اسلامی اصطلا ح میں یہ کہا جائے: خدا وند عا لم نے فلاں چیز کی اپنے بر گز یدہ بندہ پر وحی کی یعنی: اُ سے اس کے دل میں جگہ دیدی اور خواب یا بیداری کی حالت میں اسے الھام کیا، یا اپنے کسی ایک فر شتے کی زبانی اس تک اُسے پہنچایا۔

۲۴

۳۔ بعثت:

پیغمبروں سے متعلق، اس معنی میں ہے کہ خدا وند عالم نے انھیں بھیجا اور مبعوث کیا ہے۔

۴۔ کتاب :

لغت میں مکتوب رسالے اور جز وے کے مجمو عہ کے معنی میں ہے.

لیکن اسلا می اصطلا ح میں ایک ایسی وحی ہے جو کتابت اور کتاب ہونے کے لائق ہے،ایسی کتاب جس میں علوم دین، اعتقا دات اور عمل کا ذکر ہو۔

اس طرح کی کتاب پیغمبروں میں سے صرف پانچ پیغمبر اپنے ہمرا ہ لائے ہیں:

نوح ـ ، ابرا ہیم ، مو سیٰ ، عیسیٰ اور محمد صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم، وہ کتاب جو پیغمبروں کے ہمراہ نازل ہوئی ہو وہ اسم جنس ہے اور اس سے مراد آسمانی کتابیں ہیں.

۵۔ حُکْم: حَکَمَ، ےَحْکُمُ ،حُکْماً :

قضا وت کی، قطعی و یقینی حکم صا در فرمایا. اسی طرح دانش اور تفقہ کے معنی میں بھی ہے اورحکمت کے معنی میں بھی استعما ل ہوا ہے ،آدمی کی حکمت، مو جو دات کی شنا خت اور نیک امور کی انجام دہی ہے ، یہ تمام معا نی مقا م استعمال سے منا سبت رکھتے ہیں۔

۶۔ نبّو ت :

نبوت لغت میں بر جستگی اور ظہو ر کے معنی میں ہے اور خبر دینے اور آگاہ کر نے کے معنی میں ہے راغب کا ''( نبا ئ)''اور''نبوّت '' کے بارے میں مختصر بیان اس طرح سے ہے:

۲۵

۷۔ ( نبأ) :

عظیم فا ئدے کے ساتھ ایک ایسی خبر ہے جس سے علم یا ظن غا لب حا صل ہوتا ہو. خبر کو (نبأ ) اُس وقت تک نہیں کہتے جب تک کہ اُس میں تین چیز نہ پا ئی جا ئے، جس خبر پر نبأ کا اطلا ق ہوتا ہے وہ کذب سے خا لی ہوتی ہے، جیسے توا تر( تسلسل ) یا خدا وند متعال کی خبر یا پیغمبر اکرم صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خبر اور فرماتے ہیں '' نبی ''( نبوت ) سے رفعت اور بر جستگی کے معنی میں ہے اور پیغمبر صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم نے برجستگی اور مقام کی رفعت و بلندی کی وجہ سے ( نبی ) کا لقب پا یاہے.( ۱ )

اسلا می اصطلا ح کے اعتبار سے قرآن و حدیث میں ( نبی ) کے موارد استعما ل کو دیکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں:

(نبی ) وہ ہے جسے خدا وند عالم نے اپنے بندوں کے درمیا ن منتخب کر کے حکم عطا کیا ہے اور اسے کتاب کی وحی کی ہے اور اسے مبعوث کیا تا کہ جن و انس کو ایسے امور سے آگاہ کرے جن میں ان کی دنیا و آخرت کی صلا ح پا ئی جا تی ہو وہ خدا کی طرف سے کلا م کرتا ہے اور حضرت باری تعالی کا وہ پیغام جو اسے بذریعہ وحی پہونچاہے لو گوں تک پہنچا تا ہے. نبی کی جمع انبیا ء اور نبیین آتی ہے.( ۲ )

(نبی ) قرآن کریم میں اسی معنی میں استعمال ہوا ہے، سوائے سورہ ٔ حج کی ۵۲ ویں آیت کے جس میں ارشاد ہوتا ہے :

( وَ مَااَرْسَلنَامِنْ قَبلکَ مِنْ رَسول ٍ وَلَا نبیٍّ لاّٰ اذَا تمنّیٰ اَلْقٰی الشَیطانُ فِی اُمْنِیَّته ) ...)

تم سے پہلے ہم نے کبھی کسی نبی یا رسول کو نہیں بھیجا مگر جب اس نے آرزو کی ( دین کو عملی جامہ پہنا نے کی ) تو شیطان اس کی خو اہش کے درمیان حائل ہوگیا۔

جب امام محمد باقر اور امام جعفر صادق سے اس آیت کی تفسیر پوچھی گئی تو انھوں نے فرمایا:

نبی وہ ہے جو ( دستور الٰہی کو ) خواب میں دیکھتا ہے حضرت ابرا ہیم کے خواب کے مانند اور آواز بھی سنتا ہے لیکن فر شتہ کو نہیں دیکھتا ؛ لیکن رسول وہ ہے جو خوا ب بھی دیکھتا ہے آواز بھی سنتا ہے اور فر شتۂ وحی کو بھی سامنے دیکھتا ہے اور ممکن ہے مقام نبو ت و رسا لت ایک شخص میں جمع ہو۔( ۳ )

____________________

(۱)۔ مفردات راغب، مادۂ نبائ(۲)۔ لفظ نباء کے بارے میں معجم الفاظ قرآن کریم اور معجم الوسیط ملاحظہ ہو۔(۳)ہم نے اصول کافی کی پہلی جلد کے ۱۷۶صفحہ سے نبی اور رسول کے درمیان اس فرق کا استفادہ کیا ہے.

۲۶

۸۔ رسول:

رسول لغت میں پیغا م کے حا مل ایک عقلمند انسان کو کہتے ہیںاور اس حا ل میں اسے مر سل کہتے ہیں اور رسو ل کی جمع رُ سل آ تی ہے ۔لیکن اسلامی اصطا ح میں: رسول ایک ایسا انسان ہے جسے خدا وند عالم خا ص پیغا م دے کر کسی قو م کی طرف مبعوث کر تا ہے ، تا کہ ان کی اسلا می شر یعتوں کی طرف ہدایت و راہنما ئی کر ے. وہ اس فر یضہ کے انجام دینے کے سلسلہ میں خدا کی طرف سے معجز ہ یا معجز ات بھی ہمراہ رکھتا ہے. جو اس کی رسالت کی صداقت پر گواہ ہو اس طریقہ سے جن لو گوں کی طرف اسے بھیجا ہے ان پر خدا کی حجت تمام ہوتی ہے۔اور اس پیغمبر کی تکذ یب یا مخا لفت ، بد بختی، عذا ب یا دنیا کی ہلاکت و نا بو دی کا سبب بنتی ہے اور آخرت میں انواع و اقسام عذا ب کا با عث ہوتی ہے، اسی وجہ سے پیغمبرکو نذ یراور منذر (ڈرانے والا ) کہا جا تا ہے۔

دوسری طرف رسول پر ایمان رکھنا اس کی اطا عت وفر نبرداری کر نا دنیا کی شاد مانی، خو شحالی اور سعادت، رحمت وبخشش اور آخرت میں خدا کی خوشنو دی و رضا یت اور بہشت کا با عث ہوتا ہے. ایسی صورت میں یہ پیغمبر بشیر و مبشر یعنی بشا رت دینے والا ہے۔جو کچھ ہم نے بیان کیا ہے اس کی رو شنی میں ہر رسول ( نبی ) ہے اورہر نبی صفی اور بر گز یدہ ہے لیکن ہر (نبی )لاز می طور پر رسو ل اور پیغمبر نہیں ہو گا ۔

۹ ۔ اولو العزم :

عزم لغت میں کسی کام کے کرنے کے لئے محکم اور پختہ ارادے اور اس راہ میں درپیش مشکلات میں صبر و تحمل کا نام ہے. اسلامی اصطلاح میں اولوالعزم پیغمبر یہ ہیں:

٭ حضرت نوح ٭ حضرت ابرا ہیم٭ حضرت موسیٰ٭حضرت عیسیٰ ٭ حضرت محمد مصطفےٰ صلّیٰ اللہ علیہ وآ لہ و سلم۔

۱۰۔ بشیر و نذ یر :

عر بی میں کہتے ہیں بشّرہ بشیئٍ : اسے نیک خو شخبری اور مژ دہ دیا ایسی صورت میں بشا رت دینے والے کو بشیر و مبشر کہتے ہیں.

و انذ رہ الشیٔ و با لشیٔ

اسے ہو لنا ک چیز کے ذ ریعہ ڈرایامثا ل کے طور پر کہا جاتاہے میں وارننگ دیتا ہوں تمھیں اس کے انجام سے ڈراتا ہوں لہٰذا اس سے بچو، ایسے شخص کو منذ ر یا نذیر کہتے ہیں ۔اسلا می اصطلا ح میں بشیر و نذ یر جیسے نام قرآن میں ان پیغمبروں کے لئے استعما ل ہوئے ہیں جنھیں خداوند عا لم نے کسی قو م کی طرف بھیجا ہے۔

۲۷

جیسا کہ سورۂ انعام آیت ۴۸، سورہ ٔ کہف،آیت ۶ ۵ میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَ مَانُر سِلُ الْمُرْ سَلینَ اِلاَّ مُبَشِّریَن وَمُنْذِ رین )

ہم نے پیغمبروں کو صرف بشارت دینے والا اور ڈرا نے و الا بنا کر بھیجا ہے۔

اور جیسا کہ سورۂ فاطر، آیت ۲۴میں ارشاد ہوتا ہے:

( اِنّااَرْسَلناکَ بِالحَقِّ بَشیراً وَ نَذ یرًا وَاِنْ مِنْ اُ مَّةٍ اِ لاَّ خَلافِیها نَذِ یِرُ )

ہم نے تمھیں حق کے ساتھ بشارت دینے والا اور ڈرا نے والا بنا کر بھیجا ہے اور کو ئی امت ایسی نہیں ہے جس کے درمیا ن کو ئی ڈرانے والا نہ رہا ہو۔

۱۱ ۔ بےّنات:

بان الشیئ: چیز آشکا ر و واضح ہو گئی، معین ہو گئی ۔آیا ت بینا ت یعنی ایسی واضح و آشکار آیات جن میں کسی قسم کی پیچید گی اور ابہام نہ ہو اور ان میں افراد بشر کے لئے کوئی مبہم بات نہ پا ئی جاتی ہو۔

۱۲۔ و انز لنا :

خدا وند عالم نے میزا ن اور لوہے کا ایک ساتھ ایک ہی ردیف میں تذ کرہ کیا ہے تا کہ لوگ ان دو نوں ہی سے اپنی زند گی میں استفا دہ کر یں اور میزان کو آسمانی کتا بوں میں نازل فر مایا، یعنی ان میں میزان اور معیار قرار دیا تا کہ اس کے ذ ریعہ انسا نی اجتما ع، انسا نی عا دات ، طور طریقے، عقائد ان کے امور تولے جائیں اور ہر ایک کا نفع و نقصان معین و مشخص ہو۔

۱۳۔ میزان:

لغت میں اس وسیلے کو کہتے ہیں جس سے محسوس ہو نے والی ما دی چیز یں تو لی جا تی ہیں.اور اسلامی اصطلا ح میں: میزان وہی دین ہے جو آسمانی کتا ب میں ہے اور اس کے سہا رے عقائد اوردیگر امور کی سنجش ہوتی ہے اور اسی کے مطابق قیا مت کے دن انسا ن کا حسا ب و کتا ب ہو گا اور اس کے نتیجہ میں اسے سزا یا جزا دی جا ئے گی۔

۲۸

۱۴۔لِیقُومَ النَّاسُ بِالقِسطِ:

قسط ،عدل کے معنی میں ہے. عدل یعنی جو جس چیز کا مستحق ہو اسے وہ چیز دینا اور جس چیز کی ادائیگی اُس پر وا جب ہے وہ چیز اس سے لینا ۔

۱۵۔ بأ س شدید:

یہ پر باس سے مراد جنگ ہے کہ ارشا د ہوتا ہے:

( وَ اَنزَ لنَا الْحَد یدفیهِ بَأس شَدید وَمَنافِعُ لِلنّاسِ )

یعنی خدا وند عا لم نے انسان کی را ہنما ئی کی تا کہ لوہے سے حق کے دفا ع کی خاطر جنگی اسلحے بنائیں. آج بھی انسان لوہے سے جنگی اسلحہ بنا تا ہے اور بنا ئے گا اس کے علاوہ لو ہا انسا ن کے لئے دیگر منفعتوں کا بھی حا مل ہے۔

۱۶ ۔ کسفاً :

کسفةً ، کسی چیز کے ٹکڑ ے کو کہتے ہیں اس کی جمع کِسَف آتی ہے اور ( اوتسقط السماء کما زعمت علینا کسفا) کے معنی یہ ہیں کہ آسمان ٹکڑے ٹکڑے ہم پر گرجائے

۱۷ ۔ زخر ف:

زخرف سو نے کے معنی میں ہے. بعد میں یہ کلمہ زینت کے معنی میں استعما ل ہوا ہے، یا اس کے بر عکس۔

۱۸۔ جیب:

گریبان لباس اور اس کے ما ننداشیاء کے معنی میں ہے، ایسا شگا ف جو لباس یا پیر ھن میں اس لئے کیا جا تاہے کہ سر اس سے پا ر ہو جا ئے۔

۱۹ ۔ مبصرة :

آشکا ر اور واضح۔

۲۹

۲۰ ۔ اصری :

اصر یعنی ایسا پیمان جس میں تا کید پا ئی جا تی ہو۔

۲۱ ۔ طاغو ت:

طغٰی طغیا ناً:

یعنی سر کشی کی حد سے گذ ر گیا۔ طا غوت ،ہر سر کش اور نا فر مان اور خدا کے علا وہ ہر معبود کے معنی میں ہے، اس کی جمع طو اغیت آتی ہے۔

۲۲ ۔آیت :

آیت لغت میں محسوس چیز کی آشکا ر علا مت و پہچا ن اور معقول چیز میں مقصود پردلیل کے معنی میں ہے ۔

پہلی مثا ل: سورہ ٔ مریم کی دسو یںآیت میں حضرت زکریاکی داستان سے متعلق خدا کا فر مان ہے:

( قالَ راَبِ اْجَعْل لی آیة ًقالَ آ یَتُکَ اَلا ّ تُکَلِّمَ النَاسَ ثَلاثَ لَیال ٍسَو یّاً )

حضرت ز کریا کی مراد کہ کہتے ہیں:(اجعل لی آےة) یہ ہے کہ اس امر کے لئے ہمارے لئے علامت اور نشا نی قرار دے. کہ خدا نے فر مایا تمہاری علا مت یہ ہے کہ تم تین دنو تک مسلسل کسی سے کلام نہیں کروگے۔

دوسری مثا ل: سورہ ٔ یو سف کی ۱۰۵ ویں آیت میں خدا فر ماتا ہے:

( وَ کَاَ یِّن مِنْ آیة فی السمواتِ والارض یَمُرُّ ون علیها وهُمْ عَنْهٰا معرضونَ )

یعنی آسمان و زمین میں کس قدر علا مت و نشا نی پا ئی جا تی ہے جو خدا کی قدرت اور حکمت کی حکایت کرتی ہے یا حضرت باری تعا لی کے دیگر صفات کہ نہا یت سا دگی کے ساتھ ان سے گذ ر جا تے اور ان سے اعرا ض کر تے ہیں۔

دوسری قسم کی مثا ل: وہ آیات اور معجز ات ہیں جنھیں خدا وند عا لم اپنے پیغمبروں کے ہا تھو ظاہر کر تا ہے جیسا کہ سورہ ٔ نحل کی بارھو یں آیت میں ارشاد ہوتا ہے :

( وَأدخل یدکَ فی جَبیکَ تخُرجْ بیضاء مِن غیر سوء فی تِسْعِ آیا ت ٍ الی فِرعَونَ وقومِهِ )

( مراد حضرت مو سیٰ کا ید بیضا والا معجزہ اور ان کے دیگر نہ گا نہ معجزا ت ہیں)

لیکن اصطلاح اسلامی میں آیت کا استعمال دو معنی میں ہوا ہے۔

۳۰

۱۔ وہ معجزات جنھیں خدا وند عالم نے اپنے اولیا ء اور پیغمبروں کے ہا تھوں پر جا ری کیاہے:

جیسے مو سیٰ کلیم اللہ کا عصا اور ناقہء حضرت صا لح ـ، اسے معجزہ کہتے ہیں، اس لئے جن و انس اس کے جیسا پیش کر نے سے عا جز و بے بس ہیں، اسی طرح کسی بچے کا بغیر باپ کے پیدا ہو جا نا بھی معجزہ ہے.

پیغمبروں کے غیر طبعی حا لا ت اور خا رق العادة اقدا مات اسی قسم کی آیتیں ہیں

جیسے حضرت عیسیٰ کی ولا دت ان کی ماںحضرت مریم کے ذریعہ کہ نہ ان کا کو ئی شو ہر تھا اور نہ ہی حضرت عیسیٰ کا کوئی باپ تھا۔

اورجیسا کہ خدا وند عالم کا سورۂ مومنون آیت۵۰سورۂ انبیائ،آیت ۹۱میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْیَمَ وَُمَّهُ آیَةً وَآوَیْنَاهُمَإ الَی رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَمَعِینٍ )

ہم نے عیسیٰ کو اور عیسیٰ کی ماں ( مریم) کو آیت و نشا نی قرار دی ہے۔

اور اسی قسم کی آیت، وہ عذاب ہے جو مشر کین پر نازل ہوتا ہے ۔

جیسا کہ خدا وند سبحان سورہ ٔ عنکبوت کی ۱۵ ویں آیت میں ارشا د فر ما تاہے:

( فَأَنجَینٰاه وَ اَصْحابَ السَّفینةِ وَ جَعَلنَاهاآیة ً لِلعَالمینَ )

حضرت نوح کی کشتی پر سوار ہو نے والوں کو نجا ت دینا اور مشرکین کا غرق ہو جانا خود ہی آیت ہے ۔

جیسے اسی قسم کی آیت سورئہ قمر کی ۱۵ ویں آیت ہے۔

۲۔آیت قرآن کریم کی رو سے

راغب مفردات القرآن نا می کتاب میں تحر یر فر ماتے ہیں:

قرآن کا کو ئی جملہ بھی جو کسی حکم پر د لا لت کر تا ہو ایک آیت ہے ، قرآن کا کو ئی سورہ ہو یا سورہ کا ایک حصّہ یا چند حصّے ہوں؛ اوراس کا ہر کلا م یا جملہ جو لفظی اعتبار سے الگ ہو ( آیت) کہلاتا ہے اسی لحا ظ سے ایک سورہ متعدد آیات میں تقسیم ہوتا ہے۔( ۱ )

____________________

(۱)۔ (آیت) کی لفظ مفردات راغب میں ملاحظ ہو.

۳۱

رو ایات میںگز شتہ آیات کی تفسیر

الف ۔ ابو ذر کی حد یث میں مذ کور ہے کہ آپ نے فر مایا:

رسو ل خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال کیا : انبیاء کی تعداد کیا ہے ؟

فرمایا: ایک لا کھ چو بیس ہزار ۔

میں نے سوال کیا : ان میں کتنے لو گ رسو ل تھے ؟

فرمایا : تین سو تیرہ افرا د پر مشتمل ایک مجمو عہ تھا۔

میں نے سو ال کیا : سب سے پہلے نبی کون تھے ؟

فرمایا : آدم۔

میں نے سوال کیا:آ یا حضرت آ دم نبی مر سل تھے؟

فرما یا : ہاں، خدا نے انھیں اپنے دست قدرت سے خلق فرمایا اور ان میں اپنی رو ح پھو نکی پھر اس وقت رسول خدا نے مجھ سے خطا ب کر کے فر مایا:

اے ابو ذر! ابنیا ء کے درمیان چا ر شخص (آدم ،شیث ، اخنو خ جنھیں ادریس کہا جا تا ہے اور یہ وہ پہلے شخص تھے کہ جنھوں نے قلم سے تحریرلکھی اور نوح ) یہ سب کے سب سر یا نی تھے اور چار افراد (ہود ،صالح، شعیب اور تمہارا یہ نبی '' محمد صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم '' )عرب ہیں۔

بنی اسرا ئیل کے سب سے پہلے نبی جناب مو سیٰ اور آخری نبی حضرت عیسیٰ اور چھ سو دیگر انبیاء ہیں۔

میں نے سوال کیا : اے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! خدا وند عالم نے کتنی کتابیں نازل کی ہیں ؟

۳۲

فرمایا : ایک سو چار کتا بیں خدا وند عا لم نے شیث پر پچا س صحیفے اور ادریس پر تیس صحیفے اور ابرا ہیم پر بیس صحیفے ناز ل کئے ، پھر تو ریت ، انجیل ، زبوراور فرقان کو نازل کیا آخر حد یث تک.( ۱ )

اس حدیث کی عبارت احمد بن حنبل کی مسند میں مند ر جہ ذ یل طر یقہ سے ذ کر ہوئی ہے:

پھر میں نے سوال کیا! اے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انبیا کتنے ہیں؟

فرما یا ایک لا کھ چو بیس ہزا ر افراد کہ انھیں میں سے تین سو پندرہ افراد رسول ہیں.( ۲ )

ب۔حضرت ابو الحسن علی بن مو سی الرض سے مر وی ہے کہ آپ نے فر ما یا:

او لو العز م کو او لو العزم اس لئے کہتے ہیں کہ یہ لوگ عز م و کوشش، استقا مت و پا یدا ری کے مالک اور شریعت کے حا مل تھے .حضرت نو ح کے بعد ہر نبی ان کی شریعت اور قوا نین کا پا بند تھا اور حضرت ابرا ہیم خلیل اللہ کے زمانے تک ان کی کتا ب کا پیر و رہا ؛ اور جو بھی نبی ان کے زمانے میں تھا یا ان کے زما نے کے بعد آ یا ابراہیم کی شر یعت وقو انین کا پا بند تھے۔

____________________

(۱) بحار الانوار ،علّامہ مجلسی ،ج۱۱ ،ص ۳۲، معانی الاخبار کے صفحہ ۹۵ سے نقل کے مطابق؛ خصال ج ۲، ص ۱۰۴.مسند احمد ج ۵، ص ۲۶۵۔ ۲۶۶ ؛نھاےة اللغة، لغت حجت ،بحار، ج ۱۱ ،ص ۳۳ خصال کی نقل کے مطابق ، ج۱، ص ۱۴۴. مختصر الحدیث امام باقر سے شاید حدیث میں مذکور سریانی سے مراد لوگوں کی قدیم زبان ہو.(۲)مسند احمد،ج۵،ص۲۶۵، ۲۶۶.

۳۳

اور حضرت موسیٰ کے ظہو ر تک انھیں کا پیرو رہا ؛اور جو نبی حضرت مو سیٰ کے زمانے میں تھا یا بعد میں آیا ہے مو سیٰ کی شریعت اور قوا نین کا پا بند اور ان کی کتاب توریت کاحضرت عیسیٰ کے زمانے تک پیرو تھا اور جو نبی حضرت عیسیٰ کے زمانے میں یا ان کے بعد ہوا وہ ان کی شریعت و قوا نین اور ان کی کتاب انجیل کا ہمارے نبی حضرت محمد صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے تک پیرو تھا. یہ پا نچ افراد او لو العز م اور تمام انبیا ء اور رسو لوں سے افضل ہیں اور حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شریعت قیامت تک کے لئے ثا بت ہے جو کبھی نسخ نہیں ہو گی اور آنحضرت کے بعد قیامت تک کوئی دوسرا نبی نہیں ہو گا آخر حدیث تک( ۱ )

سیو طی کی تفسیر میں ابن عبا س سے منقو ل ہے:

او لو العز م سے مراد ہیں :٭ خا تم الا نبیا ءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ٭ نوح ٭ ابرا ہیم ،

٭ موسیٰ ٭ عیسی ،(۲)

اصول کافی میں اپنی سند کے ساتھ امام صادق سے روایت کرتے ہیں:

انبیا ء اور پیغمبر وں کے سردار پا نچ افراد ہیں جو اولو العزم پیغمبر تھے ، شر یعتو کا اہم محور ہیں؛ خاتم الا نبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نوح ،ابرا ہیم ، موسیٰ ، عیسیٰ ۔( ۳ )

ج ۔تا ریخ یعقو بی میں امام جعفر صادق سے رو ایت کر تے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

امام جعفر صادق نے فرمایا:

خدا وند عالم نے کسی پیغمبر کو نبوت نہیں دی مگر اس چیز کے ہمرا ہ جس کے ذریعہ وہ اپنے تمام اہل زمانہ پر فو قیت رکھتا ہو۔

مثا ل کے طور پر حضرت مو سیٰ فر زند عمرا ن کو ایسی قوم کی طرف نبی بنا کر بھیجا جس پر سحر وجا دو غا لب تھا اس لئے آپ کو ایسی چیز عطا کی جس کے ذریعہ ان کے سحر کا مقا بلہ کیا اور کا میاب ہوئے اور ان کے سحر کو باطل کیا اور وہ :عصا، ید بیضائ، ٹڈیو کا حملہ ، جوئیں ، مینڈ ھکو کی کثرت، خون، دریا کا شگا فتہ ہو نا، چٹا ن کا اس طرح سے پھٹ جا نا کہ اس سے پا نی نکل آیااور ان کے چہرے کو بدنما بنا دینا اور مسخ کردینا، یہ سب حضرت کے معجزات تھے۔

____________________

( ۱) بحار الانوار، علّامہ مجلسی،ج۱۱،ص ۳۴، ۳۵؛ عیون اخبارالرضا سے نقل کے مطابق ص ۲۳۴،۲۳۵ پر(۲)تفسیر سیوطی،ج۶،ص ۴۵. (۳)اصول کافی،ج۱ص ۱۷۵،باب طبقات الانبیاء والرسل،کتاب خصال،ج۱،ص ۱۴۴ کی نقل کے اعتبار سے.

۳۴

داؤد ـ کو اس وقت لوگوں کے درمیان مبعوث کیا جس زمانے میں صنعت و ہنر اور لہو و لعب کا غلبہ تھا اس لئے حضرت داؤد کے ہا تھ میں لوہے کو نر م بنا دیااور انھیں خوش الحانی (اچھی آواز ) دی وہ بھی اس درجہ خوش الحانی کہ پرندے آپ کی خوبصورت آواز کی وجہ سے آپ کے ارد گرد جمع ہوجاتے تھے۔

سلیمان ـکو ایسے زمانے میں مبعو ث کیا جب لو گوں کے درمیا ن مکان بنا نے کا شوق اور طلسم وجادو کا دور دورہ تھا اسی سبب سے اس نے ہوا کو ان کا تا بع بنا دیا اور جنا ت کا ان کا مطیع و فرمانبرداربنا دیا ۔

عیسیٰ کو بھی ایسے دور میں مبعوث کیا جس زمانے میں ڈ اکٹری لوگوں کو اپنے آپ میں مشغول کئے ہوئے تھی، لھذا ان کو مر دوں کو زند ہ کر نے اور کو ڑ ھیو اور مبر وص کو شفا دینے کے اسلحے سے آراستہ کیا۔

محمد مصطفےٰ صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس دور میں مبعوث فرمایا جب لو گو میں سب سے زیا دہ اچھی گفتگو کر نے، کہا نت، پیشینگو ئی کر نے،مسجع اور موزون کلام اور فصیح و بلیغ خطبہ دینے کا رواج تھا، لہٰذا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قرآن مبین اور قوت خطابت کے ساتھ مبعو ث کیا ۔(۱)

____________________

(۱) تاریخ یعقوبی،ج ۲ ، ص ۳۴

۳۵

پروردگا ر عا لم نے آدمیو اور فر شتوں کے درمیان حضرت آدم ، حضرت نوح ، آل ابراہیم اور آل عمران جیسے پیغمبروں کو عالمین پر اور حضرت مریم کو جہان کی خو اتین پر منتخب فر مایا۔

خدا وند عالم نے حضرت نوح ، حضرت ابراہیم ، حضرت لوط، حضرت اسماعیل، حضرت اسحاق، حضرت یعقوب ، حضرت یوسف ، حضرت موسی، حضرت ہارون، حضرت یسع، حضرت داؤد ، حضرت سلیما ن ، حضرت ایوب، حضرت الیاس ، حضرت زکریا، حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ ، کو کتاب، حکم اور نبوت عطا کی اور ان کے درمیان حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ اور ہمارے نبی حضرت محمد مصطفی صلّیٰ اللہ علیہ وآ لہ و سلم کو کتاب اور مخصوص شریعت عنا یت فر مائی ہے ؛ یہ لوگ اولوالعزم پیغمبروں میں سے ہیں خداوندعالم نے ان کی کتابوں میں ضابطہ حیات اور ایک میزان قرار دیا تا کہ اس کے ذریعہ افراد معاشرہ کے حق و باطل عقائد اور اعمال پہچانے جائیں۔

اور ان میں سے بعض جیسے حضرت مو سیٰ کلیم اللہاور محمد حبیب اللہ صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے ان لوگوں کے برخلاف جو راہ انسا نیت سے منحرف ہو چکے ہیں شدید جنگوں میں استفادہ کے لئے اسلحے قرار دئے اور ان لوگوں کے لئے بھی جو جنگ اور شمشیر کے علا وہ راہ راست پر آنے والے نہیں ہیں، ایسے ہی بعض پیغمبروں کو مبعو ث کیا اور انھیں مبشر ( بشارت دینے والا) اور منذ ر ( ڈ ارنے والا ) بنا یا۔ خو اہ صا حبان شریعت پیغمبرہوں جیسے حضرت نوح اور حضرت موسیٰ یا وہ لوگ ہوں جو مستقل شر یعت کے ما لک نہیں ہیں جیسے حضرت شعیب اور حضرت لوط۔

خدا وند عا لم نے کسی قوم کو اس وقت تک عذاب میں مبتلا نہیں کیا جب تک کہ رحمت کی نوید دینے وا لے اور عذا ب سے ڈرانے والے کسی پیغمبر کو اپنی طرف سے معجزہ اور نشانیوں کے ہمرا ہ نہیں بھیجا.

۳۶

خدا وند عالم اس سلسلہ میں فر ما تا ہے:

۱۔سورۂ اسراء کی ۱۵ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے :

( وَ ماَ کُنَّا مُعَذِّبینَ حتیّّٰ نَبعَثَ رسولاً )

ہم جب تک کو ئی رسول نہیں بھیجتے اس وقت تک عذا ب نہیں کرتے۔

۲۔ سورہ ٔ یو نس کی ۴۵ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے :

( وَ لِکُلِّ اُمَّةٍ رَسُول فَاِذاجَائَ رَسُولُهمُ قُضِیَ بَینَهُمْ بِالْقِسْطِ وَهُمْ لایُظْلَمُونَ )

ہر امت کے لئے ایک رسول ہے لہٰذا جب ان کے درمیا ن ان کا رسول آجائے تو عدل و انصاف کے ساتھ قضا وت کی جائے اور اُن پر ستم نہ کیا جائے گا۔

جو امت پیغمبر کی نا فرمانی کر ے وہ دنیا و آخرت میں عذا ب کی سزاوار ہو گی۔جیسا کہ خدا وندعالم نے فرعون اور اس سے پہلے والوں کی حا لت کے بارے میں سورہ ٔالحا قہ کی دسویں آیت میں خبر دیتے ہوئے فر مایا ہے:

( فَعَصَواْ رَسُولَ رَبّهِم فَأَخَذَهُمْ اَخْذَ ةًًرابِیَة )

انھوں نے اپنے اللہ کے رسول کی نا فر مانی کی ،تو خدا وند عا لم نے ان کا سختی کے ساتھ محاسبہ کیا ۔

پیغمبر کی نا فرما نی خدا کی نا فر مانی ہے .جیسا کہ خدا نے سورہ ٔ جن کی ۲۳ ویں آیت میں فرمایا ہے:

( وَ مَنْ یَعص اللّٰهَ وَرَسُولَهُ فَاِ نَّ لَهُ نارَجَهَنّمَ خَالِدینَ فِیهااَبداً )

جو خدا اور اس کے رسول کی نا فر مانی کرے اس کے لئے آتش جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ معذب ہوتا رہے گا۔

خدا وند عا لم رسو لوں کو انبیاء میں سے منتخب کرتا ہے اسی لئے رسولوں کی تعداد جیسا کہ پیغمبر اسلام صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مروی ابو ذر کی گزشتہ روایت میں ہے، انبیا ء کی تعداد سے کم ہے لیکن خدا وند عا لم جسے لوگو کی ہدایت کے لئے مبعو ث کر تا ہے اسے معجزہ دیتا ہے تا کہ وہ اس کے مد عا کی تا ئید کر ے کہ وہ خدا کی طرف سے مبعوث ہوا ہے ۔

۳۷

معجزہ اور آیت کی حقیقت

خدا وند سبحا ن نے ابنیا ء کو نظا م ہستی پر حکو مت و ولایت عطا کی ہے تا کہ جب خدا کی مر ضی ہو کہ اُس کا نبی نظا م کے کسی بھی جز کو جسے اس نے ہستی کے لئے مقرر کیا ہے تبد یل کر دے، تو وہ اس کے اذن اور اجازت سے انجا م دے سکے ۔

اس لحا ظ سے انبیا ء کے ذریعہ نظا م طبعیت کے ایک حصّہ کے خلا ف معجزہ پیش کر نا پر وردگار عالم کی تکو نیی سنت ہے. اور ایسے سماج میں یہ معجزہ پیش کیاجاتا ہے کہ جہاں پیغمبران الٰہی رسا لت کے لئے مبعوث ہوئے ۔

بنا بر این امتوں نے انبیا ء سے معجزہ دکھانے کی در خواست کی تا کہ ان کے دعویٰ کی صدا قت پر دلیل ہو.خدا وند عا لم نے اس مو ضو ع کو قوم صا لح کی سر گذشت میں سورہ ٔ شعراء میں عنوان کر تے ہوئے فر ماتا ہے( :( مَا أنْتَ لَّابَشَر مِثلُنافأتِ بِآ یة ٍانْ کُنتَ مِن الصّادِ قینَ٭قالَ هذهِ ناقَة لَهاشِرْب وَلُکم شِربُ یومٍ معلومٍ ٭و لا تَمَسّوها بسوئٍ فَیَأ خذَکُم عذابُ یومٍ عظیمٍ ) (حضرت صا لح کی قوم نے ان سے کہا ) تم ہمارے ہی جیسے ایک انسان ہو. اگر سچے ہو تومعجز ہ پیش کرو۔ تو کہا !یہ اونٹنی ہے کچھ پانی اس سے مخصوص ہے اور پانی کا کچھ حصہ تم لوگوں سے مخصوص ہے اور دیکھو اس کی طرف دست خیانت درازنہ کرنا ورنہ عظیم دن کے عذاب میں گرفتار ہو جاؤ گے.( ۱ ) عا م طور پر ہوایہی کہ جب کسی پیغمبر نے آیت اور معجزہ دکھا یا توامتیں ضد اور ہٹ دھر می اوران کے

____________________

(۱) سورہ ٔ شعرا،آیت ۱۵۴۔۱۵۶.

۳۸

ساتھ عناد اور دشمنی پر تل گئیں.اور نہ ہی رب پر ایمان لائیں اور نہ ہی اُس پیغمبر پر جواس کی طرف سے ان کی طرف مبعوث ہوا تھا خدا وند عا لم اس موردمیں گزشتہ آیات کے بعد، قوم ثمود کے بارے میں اس طرح خبر دیتا ہے:

( فَعقروها فَأَ صْبَحُوا نَادِمین )

انھوں نے اس اونٹنی کو مار ڈا لا پھر اس کے بعد اپنے کر توت پر شر مندہ ہوئے۔( ۱ )

اگر کسی قوم کی خو اہش کے مطا بق اس کے پیغمبر سے معجزہ صا در ہوا لیکن اس قوم نے اُس کی تصدیق نہیں کی اور نہ ہی اُس پر ایمان لائی توسر زنش و ملامت اورعذاب کی مستحق ہو گئی اور ان کے خدا نے ان پر عذاب نا زل کر دیا جیسا کہ خدا نے اسی سورہ کے اختتام پر قوم ثمود کی نا فر مانی کی خبر دی ہے:

( َأَخَذَهمُ العَذا ب انَّ فی ذ لِکَ لَأ یةوَ مَاکانَ اَکْثَرُهُم مُؤمِنین )

اُس وقت عذاب موعود میں مبتلا ہوگئے یقینا اس قوم کی ہلا کت میں دوسروں کے لئے عبرت کی نشانی ہے ( لیکن) اس کے باوجود بھی اکثر لوگ خدا پر ایمان نہیں لائے۔( ۲ )

انبیاء کا معجزہ پیش کر نا حکمت الٰہی کے مطا بق ہے اور حکمت کا مقتضی ایک ایسی حد اور اندازہ کے مطا بق معجزہ پیش کر نا ہے کہ جو شخص اپنے رب اور اس کے پیغمبر پر ایمان لا نا چا ہتا ہے تو اسے پتہ چل جائے کہ پیغمبر اپنے ادّعا میں سچّا ہے نہ اُس حد اور مقدار میں کہ سر کش اور با غی قومیں تعیین کر تی اور چا ہتی ہیں. یا کسی محال امر کی امید رکھتے ہیں جیسا کہ دو مقام پر قریش نے خا تم الا نبیا ئصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے تقا ضا کیا تھا اور وہ اس امرکے بعد تھا کہ خدا نے قریش سے جو کہ عرب میں فصیح و بلیغ کلام میں ممتاز اور معروف تھے آیت طلب کی اور انھیں مخاطب کر تے ہوئے سورۂ بقرہ میں ارشاد فرمایا:

( وَِنْ کُنتُمْ فِی رَیْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَی عَبْدِنَا فَْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَائَکُمْ مِنْ دُونِ ﷲ ِنْ کُنتُمْ صَادِقِینَ ٭ فَِنْ لَمْ تَفْعَلُوا وَلَنْ تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِی وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ ُعِدَّتْ لِلْکَافِرِینَ ٭ )

جو کچھ ہم نے اپنے بندہ پر نازل کیاہے اگر تمھیں اس میں شک و تردید ہے، تو اس کے ما نند ایک سورہ ہی پیش کر دو اور خدا کے علا وہ اپنے نا صروں سے مدد بھی لے لو اگر سچے ہو۔لیکن اگر نہیں کر سکتے اور ہر گز اس پر قادر نہیں ہو تو پھر خدا کی اس آگ سے ڈرو جس کا ایند ھن انسان اور پتھر ہیں اور کافروں کے لئے مہّیا کی گئی ہے.( ۳ )

____________________

(۱)سور ۂ شعرأ،آیت،۱۵۷.(۲) سورۂ شعرأ، آیت، ۱۵۸.(۳) سورۂ بقرہ : آیت ۲۳ اور ۲۴.

۳۹

اس طرح سے پروردگا ر نے ان پر حجت تمام کی اور فرما یا ہے :

جو کچھ ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا ہے اس میں اگر تمھیں شک و شبہہ ہے تو اس کے مانند ایک سورہ ہی پیش کرو اور سب کو اپنا مدد گار بھی بنالو اور خبر دی ہے کہ اگر جن وانس ایک دوسرے کے مدد گار ہو جائیں تو بھی اس کے مانند نہیں لا سکتے اور تاکیداً نفی ابدفرما ئی اور کہا(لن)یعنی ہر گز اس کے مانند نہیں لا سکتے. حتیٰ کہ ہمارے زمانے میں بھی اسلام دشمن عناصر اپنی تمام تر کثرت اور عظیم و گو نا گوںقدرت کے باوجود قادر نہیں ہیں کہ قرآن کے مانند ایک سورہ پیش کر سکیں۔

اُن لوگوں نے اس سر توڑ مبارزہ جوئی کے بعد( ایک ایسے امر کے پیش کر نے میں جسے جن و انس مل کر پیش نہیں کر سکتے اور اس کے مانند پیش کرنے میں قریش کی ناتوانی کے باعث ) رسول خدا صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مطا لبہ کیا کہ مکّہ کی آب و ہوا تبد یل کر دیں اور سونے کا گھر پیش کریں یا خدا اور فرشتوں کو ان کے سامنے حا ضر کر دیں یا آسمان کی طرف پر واز کر یں پھر بھی ان تمام چیزوں کے با وجود ایمان نہیں لائیں گے مگر جب ان کے لئے آسمان سے کو ئی کتاب نازل ہو جس کی وہ تلا وت کریں!معلوم ہے کہ جو انھوں نے درخواست کی تھی وہ ایک محال امر تھا وہ یہ کہ خدا اور فر شتوں کو ان کے سا منے حا ضر کر دیں ( کہ خدا وند عالم ان ستمگروں کی بات سے بلند و بر ترہے)اور ان کے درمیان انبیاء کے بھیجنے میں اللہ کی سنت کے خلا ف مطالب مو جود ہیں اس معنی میںکہ انھوں نے مطا لبہ کیا تھا کہ ان کے سامنے آسمان کی طرف پرواز کر یں اور ان کے لئے ایک کتاب لے آئیں ایسی چیز جو خدا کے پیغام لانے والے فر شتوں سے مخصوص ہے نہ کہ انسان سے دوسرے یہ کہ وہ لوگ سرے سے قبو ل ہی نہیں کرتے تھے کہ خدا کسی انسان کو رسالت کے لئے مبعوث کرے گا جب کہ حکمت اس کا اقتضا ء کر تی ہے کہ انبیا ء انسا نوں کی جنس سے ہوں، تا کہ ان کے اعمال ورفتار میں ان کی اقتداء ہو اور اپنی قوم کے لئے نمو نہ ہوں، ان کی دوسری درخواستیں بھی حکمت کے مطابق نہیں تھیں جیسے کہ انھوں نے مطا لبہ کیا تھا کہ ان پر عذاب نازل ہو۔

اسی وجہ سے خدا اپنے پیغمبر کو حکم دیتا ہے کہ وہ لوگوں کو اس طرح جواب دے:

( سُبْحَانَ رَ بِیّ هَلْ کُنتُ اِلاَّبَشَرا ًرَسُولاًً )

میرا ربّ پاک اور منز ہ ہے کیا میں خدا کی طرف سے مبعوث ایک انسان کے علاو ہ کچھ اور ہوں؟( ۱ )

____________________

(۱)سورۂ اسراء : آیت،۹۳.

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

۲)___ ہمارے پیغمبر گرامی قدر نے اس کا ابتدائی___ اعلان کردیا تھا_

۳)___ قرآن کریم نے بھی جو اللہ کا کلام اور پیغمبر کا دائمی معجزہ ____ بتلایا ہے_

۴)___ لہذا ہم جو مسلمان ہیں___ شمار کرتے ہیں

نیچے دیئےوئے سوالوں کو پڑھئے اور اس درست کے مطالب کو توجہ سے پڑھنے کے بعد ان کا جواب دیجئے_

۱)___ کیا کوئی ایسی کتاب ہے کہ جو رہنمائی اور ہدایت کا تمام انسانوں کے لئے تمام زبانوں میں آئین رکھتی ہو؟ اور کس طرح؟ اس کا جواب ہاں میں ہوگا؟ کیوں_

خدا جو تمام انسانوں کی تمام زبانوں میں ضروریات کو جانتا ہے قرآن کو____؟

۲)___ کیا لوگ ہمیشہ کے لئے قرآن کی راہنمائی اور ہدایت کے محتاج ہیں؟

جواب ہاں میں ہے کیوں کہ قرآن کے ہم اسی طرح ____؟

۳)___ پیغمبر گرامی قدر(ص) نے ابتدائے اسلام سے اپنے آپ کو کس طرح پہنچوایا_

۱۴۱

جواب: خود کو آخری پیغمبر ہونا بتلاتے تھے اور فرماتے تھے کہ میں اللہ کا آخری پیغمبر ہوں میرے____

۴)___ اللہ تعالی نے دین اسلام کو آخری دین اور پیغمبر گرامی قدر کو آخری پیغمبر کیوں بتلایا ؟

جواب: کیوں کہ قرآن دین اسلام کی ہمیشہ رہنے والی کتاب ہے_

۱۴۲

انیسواں سبق

قرآن اللہ کا کلام ہے

اگر آپ بھی وہاں ہوتے تو دیکھتے کہ ایک دانشمند خانہ کعبہ کے نزدیک کھڑا تھا اور تھوڑی سی روئی ہاتھ میں لے کر کان میں دے رہا تھا اور پھر اسے دباتا تھا وہ مكّہ میں نو وارد تھا اس کے دوست اس کی ملاقات کے لیئے گئے اور مكّہ کی تازہ خبر ناراضگی اور اضطراب کے ساتھ اسے بتائی گئی تھی اور اس سے کہا کہ محمد(ص) امین کو پہچانتے ہو؟

وہ کہتا ہے کہ میں اللہ کا پیغمبر ہوں اور اللہ تعالی کی طرف سے پیغام لایا ہوں محمد(ص) کہتا ہے کہ بتوں میں تو کوئی قدرت ہی نہیں کہ جنہیں تم پوجتے ہو بتوں کی پرستش کو چھوڑ دو اور ظالموں کے سامنے نہ جھکو اور عاجزی کا اظہار نہ کرو وہ کہتا ہے کہ تم اپنے آپ کو دوسروں کے اختیار میں قرار نہ دو صاحب قدرت اور ظالم لوگ تم پر کوئی فضیلت نہیں رکھتے آنکھ بند

۱۴۳

کر کے ان کی اطاعت کیوں کرتے ہو اور کیوں کی غیر معقول باتوں کو سنتے اور مانتے ہو_

یہی وجہ ہے کہ اب غلام ہمارے حکم کو نہیں مانتے اور ہماری اطاعت نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہوگئے ہیں اور حضرت محمد(ص) کے پیروکار ہیں اور ظلم و ستم کے سامنے نہیں جھکیں گے_

اے عقلمند اور دانشمند انسان تم ہرگز اس سے بات نہ کرنا اور اس کی گفتگو نہ سننا ہمیں ڈر ہے کہ تجھے بھی گمراہ نہ کردے یہ روئی لو اور اپنے کانوں میں ڈال لو اور اس کے بعد مسجد الحرام میں جانا_ ازدی قبیلہ کے اس عالم اور دانشمند نے روئی لی اور خانہ کعبہ کی زیارت کے لئے مسجد الحرام کی طرف چل پڑا خانہ کعبہ کے نزدیک پہنچا و روئی اپنے کانوں میں رکھی اور طواف کرنے میں مشغول ہوگیا وہ کہتا ہے کہ طواف کی حالت میں محمد(ص) امین کو دیکھا کہ کچھ پڑھ رہے ہیں ان کے لبوں کی حرکت کو میں دیکھ رہا تھا لیکن ان کی آواز کو نہیں سن رہا تھا میں ان کے ذرا نزدیک ہوا آپ کے پاک اور زیبا چہرے کو دیکھا آپ جو کچھ پڑھ رہے تھے اس کی بھنبھناہٹ میرے کان تک پہنچی میں آپ کا مجذوب ہوگیا کہ کیوں محمد(ص) کی باتوں کو نہ سنوں کتنا اچھا ہے کہ روئی کو کانوں سے نکال دوں اور آپ کی باتوں کو سنوں اگر ٹھیک ہوئیں قبول کرلوں گا اور اگر ٹھیک نہ ہوئیں تو چھوڑدوں گا میں نے روئی کانوں سے نکالی جو کچھ محمد(ص) پڑھ رہے تھے کان دھرے عمدہ کلمات او رخوش آواز کو سننے سے متزلزل ہوا جو کچھ پڑھ رہے تھے

۱۴۴

وہ کلام ختم ہوگیا آپ اپنی جگہ سے اٹھے اور مسجدالحرام سے باہر نکل پڑے میں بھی آپ کے ساتھ مسجد الحرام سے باہر آیا راستے میں آپ(ص) سے بات کی یہاں تک کہ آپ(ص) کے گھر پہنچ گیا گھر کے اندر آیا آپ کا ایک سادہ کمرہ تھا وہاں بیٹھ کر گفتگو میں مشغول ہوا میں نے کہا اے محمد(ص) میں نے ان کلمات کی جو آپ(ص) پڑھ رہے تھے بھنبھناہٹ تو سنی تھی لیکن میرا دل چاہتا تھا کہ اس میں سے کچھ حصّہ میرے سامنے پڑھیں واقعی کتنا اچھا کلام آپ پڑھ رہے تھے محمد(ص) امین نے جو میری بات کو غور سے سن رہے تھے مسکرائے اور کہا وہ کلام میرا نہ تھا بلکہ میرے خدا کا ہے تم بت پرست مجھے اچھی طرح جانتے ہو کہ میں نے چالیس سال تم میں گزارے ہیں اور میں امانت داری اور سچائی میں معروف تھا تم سب جانتے ہو کہ میں نے کسی سے درس نہیں پڑھا اب اس قسم کے زیبا کلمات اور پر معنی کلام تمہارے لئے لایا ہوں کیا وہ علماء اور دانشمند جنہوں نے سالہا سال درس پڑھا ہے اس قسم کا کلام لاسکتے ہیں؟ کیا تم خود اس قسم کا کلام بنا سکتے ہو اگر تھوڑا سا غور کرو تو سمجھ جاؤگے کہ یہ کلام میرا نہیں ہے بلکہ میرے خدا کا ہے کہ جس نے مجھے پیغمبری کے لئے چنا ہے یہ عمدہ اور پر مطلب کلام اللہ کا پیغام ہے اور میں صرف اس پیغام کا لانے والا ہوں تمہارے اور تمام انسانوں کے لئے یہ آزادی کا پیغام ہے اور سعادت کو خوشخبری ہے اب تم اللہ کے پیغام کو سنو محمد(ص) امین نے ان ہی عمدہ اور پر مطلب کلمات میں سے کچھ میرے لئے پڑھے عجیب کلام تھا میں نے اس قسم کا کلام ہرگز نہیں سنا تھا تھوڑا سا میں

۱۴۵

نے فکر کی اور میں سمجھا کہ اس کلام کو محمد(ص) نے نہیں گڑھا اور کوئی بھی انسان اس قسم کا عمدہ اور پر مغز کلام نہیں کہہ سکتا میں نے یقین کے ساتھ سمجھا کہ حضرت محمد(ص) خدا کے پیغمبر(ص) ہیں میں ان پر ایمان لایا ہوں اوردین اسلام کو قبول کرلیا اور اللہ تعالی کے فرمان کو تسلیم کرلیا_

جانتے ہو کہ جب مسلمان ہوگیا تو میرے دوستوں نے مجھ سے کیا کہا اور مجھ سے کیا پوچھا اور مجھ سے کیا سلوک کیا_

۱۴۶

بیسواں سبق

قرآن پیغمبر اسلام(ص) کا دائمی معجزہ ہے

ہمارے پیغمبر(ص) کا دائمی معجزہ قرآن ہے سمجھ دار انسان قرآنی آیات کو سنکر یہ سمجھ سکتا ہے کہ قرآن کی آیات خود پیغمبر اسلام (ص) کا کلام نہیں بلکہ اللہ کا کلام ہے سمجھدار اور حق طلب لوگ قرآن کے سننے اور اس کی آیات میں غور کرنے سے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ قرآن اللہ کا کلام ہے حضرت محمد(ص) اللہ تعالی سے ایک خاص ربط کی وجہ سے اس قسم کا عمدہ اور پر مغز کلام لائے ہیں خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے اگر اس قرآن میں جو ہم نے اپنے بندہ پر نازل کیا ہے تمہیں شک ہو یعنی یہ گمان ہو کہ یہ اللہ کا نہیں ہے اور ایک معمولی انسان کا کلام ہے تو اس قسم کا ایک سورہ قرآن کی سورتوں کی طرح بنالاؤ ایک اور جگہ خدا قرآن میں فرماتا ہے اگر تمام مخلوق کٹھی ہوجائے اور ایک دوسرے کی مدد کرے کہ قرآن جیسی

۱۴۷

کوئی کتاب بنائیں تو ہرگز ایسا نہیں کرسکیں گی کیونکہ کوئی بھی مخلوق کتنی ہی ترقی کرجائے پھر بھی ہے تو اس کی مخلوق کہ جسے ان مخصوص کاموں کی قدرت نہیں ہوسکتی کہ انھیں اللہ تعالی انجام دیتا ہے اسی لئے آج تک کوئی بھی قرآن کی مانند کوئی کتاب نہیں لاسکا اور نہ ہی آئندہ لاسکے گا اب جب کہ اتنا بڑا معجزہ پیغمبر خدا حضرت محمد(ص) کا ہمارے پاس ہے ہمیں اس کی قدر و منزلت پہچاننی چاہیئے اور اس کی قدر کرنی چاہیے اسے پڑھیں اور اس کے مطالب سے آشنا ہوں اور اس کی راہنمائی کو قبول کریں اور اس آسمانی کتاب کو اپنی زندگی کا راہنما قرار دیں تا کہ دنیا اور آخرت میں سعادتمند زندگی بسر کرسکیں_

سوالات

۱)___ وہ دانشمند انسان کیوں اپنے کان میں روئی ڈالتا تھا اس کے دوستوں نے اسے کیا کہا تھا؟

۲)___ اپنے آپ سے اس نے کیا کہا کہ جس کے بعد اس نے اپنے کانوں سے روئی نکال ڈالی؟

۳)___ وہ آدمی کیوں پیغمبر اسلام(ص) کے ساتھ چل پڑا؟

۴)___ پیغمبر اسلام (ص) نے اسے اپنے گھر کیا فرمایا کس طرح اس کے سامنے وضاحت کی کہ قرآن خدا کا کلام ہے؟

۵)___ اس آدمی نے کیسے سمجھا کہ قرآن اللہ کا کلام ہے اس کے

۱۴۸

متعلق اس نے کیا فکر کی؟

۶)___ جب اس نے جان لیا کہ قرآن اللہ کا کلام ہے تو اس نے کیا کیا؟

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ قرآن پیغمبر کا دائمی معجزہ ہے اس کا کیا مطلب ہے؟

۲)___ حق طلب لوگوں نے قرآن کی آیات میں فکر کرنے سے کیا سمجھا؟

۳)___ انہوں نے کس طرح سمجھا کہ قرآن کا لانے والا خدا کا پیغمبر ہے؟

۴)___ خداوند عالم قرآن کے معجزہ ہونے میں کیا فرماتا ہے؟

۵)___ خدا کس طرح واضح کرتا ہے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے؟

۶)___ کیا لوگ قرآن جیسی کتاب بناسکتے ہیں؟

۷)___ قرآن کی قدر کرنے سے کیا مراد ہے قرآن کا کس طرح احترام کریں؟

۱۴۹

اکیسواں سبق

سبق آموز کہانی دو بھائی

ایک نیک اور مہربان دوسرا مغرور، خودپسند اور بدکردار ایک دولت مند انسان دنیا سے انتقال کر گیا اس کی وافر دولت اس کے دو لڑکوں کو ملی ان میں سے ایک دین دار اور عاقل جوان تھا وہ دانا اور عاقبت اندیش تھا دنیا کو آخرت کی کھیتی سمجھتا تھا اپنی دولت سے آخرت کے لئے فائدہ حاصل کرتا اپنے مال کے واجب حقوق دیا کرتا اور فقیروں اور غریبوں کی مدد کرتا ان کو سرمایہ اور کام مہيّا کیا کرتا تھا اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں کی اپنی دولت سے مدد کرتا نیک کاموں میں سبقت لیجاتا مسجد بناتا_

اسپتال او رمدرسہ بناتا طالب علموں کو تحصیل علم کے لئے مال دیتا اور علماء کی زندگی کے مصارف برداشت کرتا تھا اور کہتا تھا کہ میں یہ کام اللہ تعالی کی رضا اور خوشنودی کے لئے انجام دیتا ہوں یہ کام میرے آخرت کے لئے

۱۵۰

ذخیرہ ہیں دوسرا لڑکا نادان اور حریص تھا جو کچھ ہوتا تھا اس کو اپنے لئے ہی رکھتا باغ اور کھیتی بناتا بہترین مکان بناتا لیکن اپنے نادار رشتہ داروں کی کبھی دعوت نہ کرتا اور ان سے میل جول نہ رکھتا اپنے مال کے واجب حقیق ادا نہ کرتا_ غریبوں کے سلام کا جواب نہ دیتا نیک کاموں میں شریک نہ ہوتا اور کہتا کہ مجھے کام ہے میرے پاس وقت نہیں ہے اس مغرور انسان کے دو بہت بڑے باغ تھے جو خرمہ اور انگور اور دوسرے میوے دار درختوں سے پرتھے پانی کی نہریں اس کے باغ کے کنارے سے گزرتی تھیں_

ان باغوں کے درمیان بڑی سرسبز کیھتی تھی کہ جس میں مختلف قسم کی سبزیاں بوئی ہوئی تھیں جب یہ دولت مند بھائی اپنے دوسرے بھائی کے ساتھ اپنے باغ میں جاتا تو سر سبز میروے سے لدے ہوئے بلند درختوں کو دیکھ کر خوش ہوتا اونچی آواز میں ہنستا اور اپنے نیک بھائی کا مذاق اڑاتا اور کہتا کہ تو غلطی کرتا ہے کہ اپنی دولت دوسروں کو دے دیتا ہے لیکن میں اپنی دولت کسی کوم نہیں دیتا جس کے نتیجے میں ان باغات اور زیادہ دولت کا مالک ہوں واقعی کتنا بڑا یہ باغ اور کتنی زیادہ دولت: کیا کہنا میں ہمیشہ اچھی زندگی گزارتا ہوں یہ دولت تو ختم ہونے والی نہیں جو میرے پاس ہے_

مجھے گمان نہیں کہ قیامت بھی ہے اور جہان آخرت بھی اور اگر قیامت ہو بھی تو بھی خدا مجھے اس سے بہتر دے گا اس کا نیک بھائی اسے کہتا کہ آخرت کی نعمتیں کسی کو مفت نہیں ملتیں چاہیئے کہ اعمال صالحہ

۱۵۱

اور کار خیر بجالائے تا کہ آخرت میں استفادہ کر کے نجات پاسکو زیادہ دولت نے تجھے خدا سے غافل کردیا ہے میرے بھائی تکبّر نہ کر غریبوں کے سلام کا جواب دیاکر فقیروں کی دستگیری کیا کر اتنی بڑی دولت سے آخرت کے لئے فائدہ اٹھا نیک کاموں میں شریک ہوا کر یہ نہ کہا کہ میرے پاس وقت نہیں ہے نہیں کرسکتا: مجھے کام ہے: گناہ اور مستی نہ کیا کر اللہ کے غضب سے ڈر ممکن ہے خدا کوئی عذاب بھیجے اور یہ تمام دولت اور نعمت تجھ سے لے لے اس وقت پشیمان ہوگا لیکن اس وقت کی پشیمانی فائدہ مند نہ ہوگی_

لیکن اس کا وہ مغرور بھائی اس غافل اور نیک بھائی کی نصیحت نہ سنتا اور اپنے ناروا کاموں میں مشغول رہتا ایک دن وہ مغرور شخص اپنے باغ میں گیا جب وہاں پہنچا تو بہت دیر ساکت کھڑا رہا اور گھور گھور کردیکھتا رہا ایک چیخ ماری اور گر پڑا جی ہاں خدا کا عذاب نازل ہوچکا تھا اور باغ کو ویران کر گیا تھا باغ کی دیواریں گرچکی تھیں انچے درخت اور اس کی شاخیں اور میوے جل چکے تھے اور

جب ہوش میں آیا تو گریہ و زاری کی اور افسوس کیا اورکہنے لگا کاش کہ میں اپنے بھائی کی باتوں کو سنتا: کاش میں اپنی دولت خدا کی راہ میں خرچ کرتا کاش کہ میں نیک کاموں میں شریک ہوتا اور واجب حقوق ادا کرتا میرے ہاتھ سے دولت نکل گئی اب نہ دنیا میں میرے پاس کوئی چیز ہے اور نہ آخرت میں یہ ہے اس دولت کا انجام جو خدا کی راہ میں اور اسکے نیک بندوں پر خرچ نہ ہو یہ سب میرے تکبّر اور نادانی کا نتیجہ ہے_

۱۵۲

ایک تربیتی کہانی ظالم حریص قارون

قارون حضرت موسی علیہ السلام کے رشتہ داروں میں سے تھا اور بظاہر اس نے آپ کا دین بھی قبول کرلیا تھا نماز پڑھتا تھا تورات پڑھتا لیکن ریا کار اور کمزور عقیدہ کا انسان تھا مکمل ایمان نہیں رکھتا تھا چاہتا تھا کہ لوگ اس سے خوش فہمی رکھیں تا کہ انہیں فریب دے سکے قارون فصلوں کو پیشگی سستا خرید لیتا اور بعد میں انہیں مہنگے داموں پر فروخت کرتا تھا معاملات میں کم تولتا دھوگا اور بے انصافی کرتا سود کھاتا اور جتنا ہوسکتا تھا لوگوں پر ظلم کیا کرتا اسی قسم کے کاموں سے بہت زیادہ دولت اکٹھی کرلی تھی اور اسے ہر چیز سے زیادہ عزیز رکھتا تھا قارون خدا پرست نہ تھا بلکہ دولت پرست تھا اپنی دولت عیش و عشرت میں خرچ کرتا تھا بہت عمدہ محل بنایا اور ان کے در و دیوار کو سونے اور مختلف

۱۵۳

قسم کے جواہرات سے مزيّن کیا حتّی کہ اپنے گھوڑوں اور اونٹوں کو سونے اور جواہرات سے مزّین کیا قارون کے پاس سینکڑوں غلام اور کنیزیں تھیں اور ان کے ساتھ برا سلوک کرتا اور انہیں مجبور کرتا کہ اس کے سامنے زمین پر گرپڑیں اور اس کے پاؤں کو بوسہ دیں_

بعض عقلمند مومن اسے نصیحت کرتے اور کہتے کہ اسے قارون یہ تمام باغ اور ثروت کس لئے یہ سب دولت اور مال کس لئے ذخیرہ کر رکھا ہے؟ کیوں لوگوں پر اتنے ظلم ڈھاتے ہو؟ خدا کا کیا جواب دو گے؟ لوگوں کا حق کیوں پامال کرتا ہے؟ غریبوں او رناداروں کی کیوں مدد نہیں کرتا؟ نیک کاموں میں کیوں قدم نہیں اٹھاتا؟ قارون غرور و تکبّر میں جواب دیتا کہ کسی کو ان باتوں کا حق نہیں پہنچتا میں اپنی دولت خرچ کرتا ہوں؟ مومن اسے وعظ کرتے اور کہتے کہ اتنی بڑی دولت حلال سے اکٹھی نہیں ہوتی اگر تو نے بے انصافی نہ کی ہوتی اگر تونے سود نہ کھایا ہوتا تو اتنا بڑا سرمایہ نہ رکھتا بلکہ تو بھی دوسروں کی طرح ہوتا اور ان سے کوئی خاص فرق نہ رکھتا_

قارون جواب میں کہتا نہیں میں دوسروں کی طرح نہیں میں چالاک اور محنتی ہوں میں نے کام کیا ہے او ردولت مند ہوا ہوں دوسرے بھی جائیں کام کریں زحمت اٹھائیں تا کہ وہ بھی دولت مند ہوجائیں میں کس لئے غریبوں کی مدد کروں لیکن مومن اس کی راہنمائی کے لئے پھر بھی کہتے کہ تم لوگوں کے حقوق ادا نہیں کرتے جب ہی اتنے دولت مند ہوئے ہو اگر تم مزدوروں کے حق دیتے تو اتنے ثروت مند نہ ہوتے

۱۵۴

اور وہ اتنے فقیر اور خالی ہاتھ نہ ہوتے اب بھی اگر چاہتے ہو کہ سعادتمند اور عاقبت بخیر ہوجاؤ تو اپنی دولت کو مخلوق خدا کی آسائشے اور ترقی میں خرچ کرو دولت کا انبار لگالینا اچھا نہیں دولت کو ان راستوں میں کہ جسے خداپسند کرتا ہے خرچ کرو لیکن قارون مومنین کا مذاق اڑاتا اور ان کی باتوں پر ہنستا اور غرور اور بے اعتنائی سے انہیں کہتا کہ بے فائدہ مجھے نصیحت نہ کرو میں تم سے بہتر ہوں اور اللہ پر زیادہ ایمان رکھتا ہوں جاؤ اپنا کام کرو اور اپنی فکر کرو

خوشبختی اور سعادت کس چیز میں ہے

ایک دن قارون نے بہت عمدہ لباس پہنا اور بہت عمدہ گھوڑے پر سوار ہوا اور اپنے محل سے باہر نکلا بہت زیادہ نوکر چاکر بھی اس کے ساتھ باہر آئے لوگ قارون کی عظمت و شکوہ کو دیکھنے کے لئے راستے میں کھڑے تھے اور اس قدر سونے او رجواہرا کے دیکھنے پر حسرت کر رہے تھے بعض نادان اس کے سامنے جھکتے اور زمین پر گرپڑتے اور کہتے کتنا خوش نصیب ہے قارون کتنی ثروت کا مالک اور کتنی سعادت رکھتا ہے خوش حال قارون کتنی اچھی زندگی گزارتا ہے کتنا سعادتمند اور خوشبخت ہے کاش ہم بھی قارون کی طرح ہوتے؟

۱۵۵

لیکن سمجھدار مومنین کا دل ان لوگوں کی حالت پر جلتا وہ انہیں سمجھاتے اور کہتے کہ سعادت اور خوش بختی زیادہ دولت میں نہیں ہوا کرتی کیوں اس کے سامنے زمین پر گرپڑتے ہو؟ ایک ظالم انسان کا اتنا احترام کیوں کرتے ہو وہ احترام کے لائق نہیں: اس نے یہ ساری دولت گراں فروشی اور بے انصافی سے کمائی ہے وہ سعادتمند نہیں سعادتمند وہ انسان ہے جو خدا پر واقعی ایمان رکھتا ہو اور اللہ کی مخلوق کی مدد کرتا ہو اور لوگوں کے حقوق سے تجاوز نہ کرتا ہو ایک دن اللہ تعالی کی طرف سے حضرت موسی (ع) کو حکم ہوا کہ دولت مندوں سے کہو کہ وہ زکاة دیں_

حضرت موسی علیہ السلام نے اللہ کا حکم دولت مندوں کو سنایا اور قارون کو بھی اطلاع دی کہ دوسروں کی طرح اپنے مال کی زکوة دے اس سے قارون بہت ناراض ہوا اور سخت لہجے میں حضرت موسی (ع) سے کہا زکوة کیا ہے کس دلیل سے اپنی دولت دوسروں کو دوں وہ بھی جائیں اور کام کریں اور محنت کریں تا کہ دولت کمالیں_

حضرت موسی علیہ السلام نے فرمایا زکوة یعنی اتنی بڑی دولت کا ایک حصّہ غریبوں اور ناداروں کو دے تا کہ وہ بھی زندگی گذارسکیں چونکہ تم شہر میں رہتے ہو اور معاشرے کی فرد ہو اور ان کی مدد سے اتنی کثیر دولت اکٹھی کی ہے اگر وہ تیری مدد نہ کرتے تو تو ہرگز اتنی دولت نہیں کماسکتا تھا مثلا اگر تو بیابان کے وسط میں تنہا زندگی بسر کرتا تو ہرگز اتنا بڑا محل نہ بنا سکتا اور باغ آباد نہ کرسکتا یہ دولت جو تونے حاصل کی ہے

۱۵۶

ان لوگوں کی مدد سے حاصل کی ہے پس تیری دولت کا کچھ حصّہ بھی انہیں نہیں دے رہا بلکہ ان کے اپنے حق اور مال کو زکات کے نام سے انہیں واپس کر رہا ہے_

لیکن قارون نے موسی علیہ السلام کی دلیل کی طرف توجہ نہ کی اور کہا اے موسی (ع) یہ کیسی بات ہے کہ تم کہہ رہے ہو زکات کیا ہے ہم نے برا کام کیا کہ تم پر ایمان لے آئے ہیں کیا ہم نے گناہ کیا ہے کہ نماز پڑھتے ہیں اب آپ کو خراج بھی دیں_

حضرت موسی علیہ السلام نے قارون کی تندروی کو برداشت کیا اور نرمی سے اسے کہا کہ اے قارون زکات کوئی میں اپنے لئے تولے نہیں رہا ہوں بلکہ اجتماعی خدمات اور غریبوں کی مدد کے لئے چاہتا ہوں یہ اللہ کاحکم ہے کہ مالدار غریبوں اور ناداروں کا حق ادا کریں یعنی زکوة دیں تا کہ وہ بھی محتاج اور فقیر نہ رہیں اگر تو واقعی خدا پر ایمان رکھتا اور مجھے خدا کا پیغمبر مانتا ہے تو پھر اللہ کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کردے اگر نماز پڑھتا ہے تو زکوت بھی دے کیونکہ نماز بغیر زکات کے فائدہ مند نہیں ہے تورات کا پڑھنا سمجھنے اور عمل کرنے کے لئے ہے لیکن قارون حضرت موسی علیہ السلام اور مومنین کی نصیحت اور موعظہ کی کوئی پرواہ نہ کی بلکہ اس کے علاوہ مومنین کواذيّت بھی پہنچانے لگا اور حضرت موسی علیہ السلام کے ساتھ دشمنی کرنے لگا یہاں تک تہمت لگانے سے بھی دریغ نہیں کرتا تھا حضرت موسی علیہ السلام قارون کی گستاخی اور سخت دلی سے بہت ناراض ہوئے اور آپ کا دل ٹوٹا اور خداوند عالم سے درخواست

۱۵۷

کی کہ اس حریص اور ظالم انسان کو اس کے اعمال کی سزا دے_

حضرت موسی (ع) کی دعا قبول ہوئی

اللہ کے حکم سے زمین لرزی اور ایک شدید زلزلہ آیا اور ایک لحظہ میں قارون کا محل ویران اور زمین بوس ہوگیا اور قارون کو قصر سمیت زمین نگل گئی اور اس حریص کے ظلم کا خاتمہ کردیا قارون خالی ہاتھ آخرت کی طرف روانہ ہواتا کہ وہ اپنے برے کاموں کی سزا کو دیکھے اور اسے عذاب دیا جائے کہ آخرت کا عذاب سخت اور دائمی ہے اس وقت وہ لوگ جو قارون کو سعادتمند سمجھتے تھے اور اس کی دولت کی آرزو کرتے تھے اپنی غلطی کی طرف متوجہ ہوئے اور توبہ کی اور کہا کتنی بری عاقبت اور برا انجام ہے یہ قارون نے اپنے مال کو ہاتھ سے نہ دیا اور خالی ہاتھ اور گناہ گار آخرت کی طرف روانہ ہوا تا کہ اپنے کئے کا عذاب چکھے اب ہم نے سمجھا کہ تنہا مال اور دولت کسی کو خوش بخت نہیں کرتی بلکہ خوش بختی خدا پر ایمان اور اللہ کے احکام پر عمل کرنے میں ہے_

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ قارون نے دولت کس طریقہ سے اکٹھی کی تھی؟

۱۵۸

۲)___ قارون اپنی دولت کو کہاں خرچ کرتا تھا؟

۳)___ مومن اس سے کیا کہتے تھے اور کس طرح اسے نصیحت کرتے تھے؟

۴)___ زکات سے کیا مراد ہے کس دلیل کی بنا پر اپنی دولت دوسروں کو دی جائے حضرت موسی (ع) نے قارون کے دو سوالوں کا کیا جواب دیا تھا؟

۵)___ کس دلیل سے مال کا کچھ حصّہ فقراء سے تعلق رکھتا ہے؟

۶)___ جب نادان لوگوں نے قارون کا ظاہری جاہ و جلال دیکھا تو کیا کہتے تھے اور کیا آرزو کرتے تھے؟

۷)___ حضرت موسی (ع) زکات کو کن جگہوں پر خرچ کرتے تھے؟

۸)___ کیا قارون واقعاً سعادتمند تھا اور اس کا انجام کیا ہوا؟

۹)___ اپنے ظلم کی کامل سزا کہاں پائے گا؟

۱۰)___ جو لوگ اسے سعادتمند سمجھتے تھے وہ اپنی غلطی سے کیسے مطلع ہوئے اور انہوں نے کیا کہا؟

اس داستان کو اپنے خاندان کے افراد کے سامنے بیان کیجئے اور اس کے متعلق بحث اور گفتگو کیجئے_

۱۵۹

چوتھا حصّہ

امامت

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285