‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) جلد ۲

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) 20%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 285

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 285 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 117978 / ڈاؤنلوڈ: 4038
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

عقیدۂ اختیار

اہل تشیع نے اس عقیدہ کو ائمہ معصومین علیہم السلام کے ارشادات کی روشنی میں اختیار کیا ہے، یعنی انسانوں کے کام خود اس کی ذات سے مربوط ہیں اور وہ صاحب اختیار ہے لیکن خواستہ الٰہی بھی اس کے شامل حال ہے او رقضا ء وقدر الٰہی کا اثر بھی ہے۔ جس طرح تمام موجودات کاوجود خدا کے وجود کی بنا پر ہے اور ہر صاحب قدرت کی قوت اور ہر صاحب علم کا علم مرہون لطف الٰہی ہے اسی طرح سے ہر صاحب اختیار کا ارادہ اوراختیار خد ا کے ارادے اور اختیارکے سایہ میں جنم لیتا ہے ۔اسی لئے جب انسان کسی کام کاارادہ کرتاہے تویہ اختیار اور قدرت خداکی طرف سے ہے یا یوں کہاجائے کہ ارادہ وقدرت خدا وندی کے سایہ میں انسان کسی کام کا ارادہ کرکے اس کو انجام دے سکتا ہے اوریہی معنی ہیں۔( وما تشاؤن الا أن یشاء اللّه رب العالمین ) ( ۱ ) ''تم لوگ کچھ نہیں چاہ سکتے مگر یہ کہ عالمین کاپرور دگا ر خدا چاہے''(یعنی تمہا را ارادہ خدا کی چاہت ہے نہ یہ کہ تمہارا کام خدا کی درخواست اور ارادہ کی وجہ سے ہے ۔( ۲ )

____________________

(۱) سورہ تکویر آخری آیة

(۲) گم شدہ شما ۔محمد یزدی

۱۰۱

عقیدہ اختیار اور احادیث معصومین علیہم السلام

احمد بن محمد کہتے ہیں کہ میں نے امام علی رضا علیہ السلا م کی خدمت میں عرض کیا مولا بعض لوگ جبر اور''تفویض ''اختیار مطلق کے قائل ہیں امام علیہ السلام نے فرمایا لکھو !

قال علی ابن الحسینںقال عزوجل:''یا بن آدم بمشیتی کنت انت الذی تشاء بقوتی ادیت الی فرائضی وبنعمتی قویت علی معصیتی جعلتک سمیعاً بصیراً ما أصابکَ من حسنة فمِن اللّه وما أصابکَ من سیئةٍ فمن نفسک وذلکَ أنِّی أولیٰ بحسناتکَ منکَ وأنت أولیٰ بسیئاتک منیِ وذلکَ أنِّی لاأسئل عماأفعل وهم یُسئلون قد نظمت لکَ کلّ شیئٍ تُرید''

امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا کہ خدا وند کریم کا فرمان ہے کہ اے فرزند آدم !تم ہمارے خواہش کے تحت ارادہ کرتے ہو اور ہماری دی ہو ئی طاقت سے ہما رے واجبات پر عمل کرتے ہو اور ہماری عطا کردہ نعمتوں کے نا جائز استعمال سے گناہ ومعصیت پر قدرت حاصل کرتے ہو ہم نے تم کو سننے او ر دیکھنے والا بنایا جو بھی نیکی تم تک پہنچے وہ خدا کی جانب سے ہے اور جو بھی برائی وجود میں آئے اس کے ذمہ دار تم ہو کیونکہ میں تمہاری نیکیو ں کے سلسلہ میں تم سے زیادہ حق دار ہوں اور تم اپنی برائی کے بابت مجھے سے زیادہ مستحق ہوکیونکہ میں کچھ بھی انجام دوںگا جو اب دہ نہیں ہوںگا لیکن وہ جو اب دہ ہو ں گے تم نے جو کچھ سوچا ہم نے تمہارے لئے مہیا کر دیا۔( ۱ )

ایک صحابی نے امام جعفر صادق سے سوال کیا کہ کیا خدا نے اپنے بندوں کو ان کے اعمال پر مجبور کیا ہے ۔ اما م نے فرمایا :''اللّهُ أعدل مِن أَن یجبر عبداً علیٰ فعلٍ ثُمَّ یعذّبه علیه''خدا عادل مطلق ہے اس کے لئے یہ بات روانہیں کہ وہ بندو ں کو کسی کا م پر مجبور کرے پھر انہیں اسی کام کے باعث سزادے۔( ۲ )

دوسری حدیث میں امام رضاںنے جبر وتفویض کی تردید کی ہے اور جس صحابی نے یہ سوال کیا تھا کہ کیا خدا نے بندوں کو ان کے اعمال میں مکمل اختیار دیا ہے تو آپ نے جو اب میں فرمایا تھا ۔

''اللّه أعدلُ وأحکم من ذلک'' خدا اس سے کہیں زیادہ صاحب عدل وصاحب حکمت ہے کہ ایسا فعل انجام دے۔( ۳ )

____________________

(۱) اصول کا فی باب امربین الامرین حدیث ۱۲

(۲) بحار الانوار ج ۵ ص ۵۱

(۳) اصول کا فی باب امر بین الامرین حدیث ۳

۱۰۲

جبر واختیار کا واضح راہ حل

عمومی فکر اور عالمی فطرت ،دونوں اختیار پر ایک واضح دلیل ہیں اور اختیار وجبر کے معتقد یں بھی ،عملی میدان میں آزادی اور اختیار ہی کو مانتے ہیںلہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ !

۱۔ تمام لوگ اچھا ئی کرنے والوں کی مدح اور تحسین کرتے ہیں اور برائی کرنے والے کی تحقیر اورتوہین کرتے ہیں ،اگر انسان مجبور ہوتا اور اس کے اعمال بے اختیار

ہو تے تو مدح وتحسین، تحقیر وتوہین کو ئی معنی نہیں رکھتی ۔

۲۔ سبھی لوگ اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت میں کوشش کرتے ہیں اگر انسان مجبور ہو تا تو تعلیم و تربیت کا کوئی مقصد نہیں باقی رہتا ہے۔

۳۔ کبھی انسان اپنے ماضی سے شرمندہ ہو تاہے اور اس بات کاارادہ کرتا ہے کہ ماضی کے بحرانی آئینہ میں مستقبل کو ضرور سنوارے گا ، اگر انسان مجبور ہوتا تو ماضی سے پشیمان نہ ہو تا اور مستقبل کے لئے فکر مند نہ ہو تا ۔

۴۔ پوری دنیا میں مجرموںپر مقدمہ چلا یا جاتاہے اور ان کو کیفر کردار تک پہنچایا جاتا ہے اگر وہ لوگ اپنے کاموں میں مجبور تھے تو ان پر مقدمہ چلانا یاسزا دینا سراسر غلط ہے ۔

۵۔ انسان بہت سارے کاموں میں غور و خو ض کرتا ہے اور اگر اس کی پرواز فکر کسی نتیجہ تک نہیں پہنچ پاتی تو دوسرے افراد سے مشورہ کرتا ہے۔ اگر انسان مجبور ہو تا توغور وفکر او رمشورت کا کوئی فائدہ نہیں ہے( ۱ )

____________________

(۱) تفسیر نمونہ جلد ۲۶ ص ،۶۴ خلاصہ کے ساتھ۔'' عدالت کے سلسلہ میں ان کتب سے استفادہ کیاگیا ہے ۔ اصول کا فی ،نہج البلا غہ ،پیام قران ،تفیسر نمونہ ،اصول عقائد ''

۱۰۳

سوالا ت

۱۔ جبروتفویض اور عقیدہ اختیار کی تعریف کریں ؟

۲۔ انسان کے مختار ہونے کے بارے میں شیعہ عقیدہ کیا ہے ؟

۳۔ عقیدۂ اختیار کے بارے میں سید سجا د کی حدیث پیش کریں ؟

۴۔ عقیدہ ٔجبر واختیار کاکوئی واضح راہ حل بیان کریں ؟

۱۰۴

پندرہواں سبق

نبوت عامہ (پہلی فصل )

اصول دین کی تیسری قسم نبوت ہے توحید وعدل کی بحث کے بعد انسان کی فطرت ایک رہبر ورہنما اور معصوم پیشوا کی ضرورت محسوس کرتی ہے ۔

یہاں وحی، حاملا ن وحی ا ور جو افراد لوگوں کو سعادت وکمال تک پہنچاتے ہیں ان کی شناخت کے سلسلہ میں بحث کی جائے گی ۔

اس بحث میں سب سے پہلے انسان کووحی کی ضرورت اور بعثت انبیاء کے اغراض ومقاصد نیز ان کی صفات وخصوصیا ت بیان کئے جائیں گے جس کو علم کلام کی زبان میں نبوت عامہ کہتے ہیں۔

اس کے بعد پیغمبر اسلا مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نبوت اور ان کی خاتمیت کی بحث ہوگی کہ جس کو نبوت خاصہ کہتے ہیں ۔

وحی اور بعثت انبیاء کی ضرورت

۱) مخلوقات کو پہچاننے کے لئے بعثت لا زم ہے ۔

اگر انسان کا ئنات کو دیکھے تو وہ اس بات کو قبول نہیں کرے گا کہ دنیا کی خلقت بغیر ہدف ومقصد کے ہوئی ہے گزشتہ بحث میں یہ بات گذر چکی ہے کہ خدا حکیم ہے اور عبث وبیکا ر کام نہیں کرتا ۔ کا ئنات کا نظم ،موجودات عالم کا ایک ساتھ چلنا بتاتا ہے کہ تخلیق کا کوئی معین ہدف ومقصد ہے لہٰذا یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ :

۱۔ خدا نے اس دنیا کو کس لئے پیدا کیا او رہما ری خلقت کا سبب کیا ہے ؟

۲۔ ہم کس طر ح سے اپنے مقصد تخلیق تک پہنچیں ، کامیا بی اور سعادت کا راستہ کون سا ہے اور اسے کس طرح سے طے کریں۔ ؟

۱۰۵

۳۔ مرنے کے بعد کیا ہو گا کیا مو ت فنا ہے یا کوئی دوسری زندگی ؟ موت کے بعد کی زندگی کیسی ہو گی ؟ا ن سارے سوالوں کے جواب کے لئے ضروری ہے کہ کوئی خدا کی جانب سے آئے جو سبب خلقت اور راہ سعا دت کی نشان دہی کرے اور موت کے بعد کی زندی کی کیفیت کو ہما رے سامنے اجا گر کرے، انسان اپنی عقل کے ذریعہ دنیوی زندگی کے مسائل حل کر لیتا ہے، لیکن سعادت وکمال تک پہنچنے سے مربوط مسائل اور موت کے بعد کی زندگی اور اخروی حیات جو موت کے بعد شروع ہوگی یہ سب اس کے بس کے باہر ہے ۔

لہٰذا اس حکیم خدا کے لئے ضروری ہے کہ وہ معصوم نبیوں کو ان تما م مسائل کے حل اور کمال تک پہنچنے کے لئے اس دنیا میں بھیجے ۔

ہشام بن حکم کہتے ہیں کہ ایک لا مذہب شخص نے امام صادق سے سوال کیاکہ بعثت انبیا ء کی ضرورت کو کیسے ثابت کریں گے۔ ؟

آپنے فرمایا :ہم ثابت کرچکے ہیں کہ ہمارے پاس ایساخالق ہے جوتمام مخلوقات سے افضل واعلی ،حکیم وبلند مقام والا ہے چونکہ لوگ براہ راست اس سے رابطہ نہیں رکھ سکتے لہٰذا ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ وہ ا پنی مخلوقات میں رسولو ں کو مبعوث کرتا ہے جو لوگو ں کو ان کے فائدے اور مصلحت کی چیزوں کو بتاتے ہیں اور اسی طرح ان چیزوں سے بھی آگا ہ کرتے ہیں جو انسان کی بقاء کے لئے ضروری ہیں اور ترک میں فناونابودی ہے، لہٰذایہ بات ثابت ہو چکی کہ جو خدا کی جانب سے لوگو ں کے درمیان حکم دینے والے او ربرائیو ں سے روکنے والے ہیں، انہیں کو پیغمبر کہا جا تا ہے۔( ۱ )

امام رضا فرماتے ہیں:جبکہ وجود انسان میں مختلف خواہشات اور متعدد رمزی قوتیں ہیں، مگر وہ چیز جو کما ل تک پہنچا سکے اس کے اندر نہیں پا ئی جا تی اور چونکہ خدا دکھا ئی نہیں دیتا اور لوگ اس سے براہ راست رابطہ نہیں رکھ سکتے، لہٰذا اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ خد اپیغمبروں کو مبعوث کرے جو اس کے احکا م کوبندوں تک پہنچا ئیں اور بندو ں کو اچھا ئیوں کاحکم دیں اور برائیو سے بچنا سکھائیں۔( ۲ )

____________________

(۱) اصو ل کا فی کتاب الحجة با ب اضطرار ا لی الحجة حدیث ،۱

(۲) بحارالانوار جلد ۱۱ ،ص ۴۰

۱۰۶

۲) انسان کے لئے قانو ن تکا مل لا نے کے لئے پیغمبر کی ضرورت۔

انسان کو اپنے مقصد خلقت جوکہ کمال واقعی ہے اس تک پہنچنے کے لئے کچھ قانو ن گذار افراد کی ضرورت ہے جو ان شرائط کا حامل ہو۔

۱۔ انسان کو مکمل طریقہ سے پہچانتا ہو اور اس کے تمام جسمانی اسرار ورموز اس کے احساسات و خواہشات ارادے وشہوات سے مکمل آگاہ ہو ۔

۲۔ انسان کی تمام صلا حیت ، اس کے اندر پو شیدہ خصو صیات اور وہ کمالا ت جو امکا نی صورت میں پائے جا سکتے ہیں سب سے باخبر ہو ۔

۳ ۔انسان کو کمال تک پہنچانے والے تمام اصولو ں کو جانتاہو راہ سعادت میں آڑے آنے والی تمام رکاوٹوں سے آگاہ ہو ، اور شرائط کمال سے باخبر ہو ۔

۴۔ کبھی بھی اس سے خطا ،گناہ اور نسیا ن سرزد نہ ہو ۔ اس کے علا وہ وہ نرم دل مہربان ،شجاع ہو او ر کسی بھی قوت سے مرعوب نہ ہو ۔

۵۔ لوگو ں سے کسی قسم کی منفعت کی توقع نہ رکھتا ہو تاکہ اپنی ذاتی منفعت سے متاثر ہو کر لوگوں کے لئے خلاف مصلحت قانون تیار کردے ۔

جس کے اندر مذکورہ شرائط پائے جاتے ہو ں وہ بہترین قانون گذار ہے کیا آپ کسی ایسے شخص کی نشان دہی کر سکتے ہیں جو جرأت کے ساتھ اس بات کادعوی کر سکے کہ میں انسان کے تمام رموز واسرار سے واقف ہو ں، اس کے بر خلا ف تمام علمی شخصیتوں نے اس بات کااعتراف کیاہے کہ ہم ابھی تک انسان کے اندر پائے جا نے والے بعض رموز تک پہنچ بھی نہیں سکے ہیں ۔ اور بعض نے انسان کو لا ینحل معمہ بتایاہے کیا آپ کی نظر میں کو ئی ایسا شخص ہے جو یہ کہہ سکے کہ میں نے انسان کے تمام کمالات کو سمجھ لیا ہے ۔اور کمال تک پہنچنے والے تمام شرائط وموانع کو جانتا ہو ں ۔کیا کوئی ایسا ہے جس سے کسی بھی خطاکا امکان نہ پایا جاتا ہو۔ ؟

۱۰۷

یہ بات بالکل مسلّم ہے کہ اگر دنیامیں تلاش کر یں تب بھی کسی کو نہ پا ئیں گے جس میں مذکورہ تمام شرائط پائے جاتے ہوں یابعض شرطیں ہو ں ،اس کی سب سے بڑی دلیل مختلف مقامات پر متعدد قوانین کا پا یا جاناہے ۔لہٰذا ہم اس نتیجہ تک پہنچتے ہیں کہ بہترین قانون بنا نے والا صرف اور صرف خدا ہے جوانسان کی خلقت کے تمام اسرار ورموز سے واقف ہے، صرف وہ ہے جودنیا کے ماضی، حال ،مستقبل کو جانتا ہے ۔فقط وہ ہر چیز سے بے نیا زہے اور لوگو ں سے کسی چیز کی توقع نہیں رکھتا وہ خد اہے جو سب کے لئے شفیق و مہربان ہے او رانسانوں کے کمال تک پہنچنے کے تمام شرائط کو جانتا ہے ۔

لہٰذا صرف خدا یا وہ افراد جو براہ راست اس سے رابطہ میں ہیں، وہی لوگ قانون بنانے کی صلا حیت رکھتے ہیں اور اصو ل وقانون کو صرف مکتب انبیاء اور مرکز وحی سے سیکھنا چاہئے ۔

قرآن نے اسی حقیقت کی جا نب اشارہ کیا ہے :(وَلَقَد خَلَقنَا النسانَ وَنَعلمُ مَا تُوَسوِسُ بِہ نَفسُہُ)( ۱ ) اور ہم نے ہی انسان کو خلق کیا ہے اور ہمیں معلوم ہے کہ اس کا نفس کیاکیا وسوسے پیدا کرتا ہے ۔

( وَمَا قَدرُوا اللّهَ حَقَّ قَدرِهِ اِذ قَالُوا مَا أنَزَلَ اللّهُ علیٰ بَشَرٍ مِّن

) ____________________

(۱) سورہ ق آیة: ۱۶

۱۰۸

( شیئٍ ) ( ۱ ) اور ان لوگو ں نے واقعی خدا کی قدر نہیں کی جب کہ یہ کہہ دیاکہ اللہ نے کسی بشر پر کچھ بھی نہیں نازل کیا ۔

نتیجہ بحث

( اِن الحُکم اِلّا للّهِ ) ( ۲ ) حکم صرف اللہ کے اختیار میں ہے ۔

____________________

(۱) سورہ انعام آیة: ۹۱

(۲) سورہ انعام آیة:۵۷

۱۰۹

سوالات

۱۔ سبب خلقت کو سمجھنے کے لئے بعثت انبیا، کیو ں ضروری ہے ؟

۲۔ کیا انبیاء کا مبعوث ہو نا ضروری ہے حدیث امام صادق نقل کریں ؟

۳۔ بعثت کے لا زم ہونے پر امام رضاںنے کیا فرمایا ؟

۴ ۔ قانون گذار کے شرائط کو بطور خلا صہ بیان کریں ؟

۱۱۰

سولھواں سبق

نبوت عامہ (دوسری فصل )

ہدایت تکوینی اور خواہشات کا اعتدال

انبیاء کی بعثت کا مقصد ،خو اہشات کا اعتدال اور فطرت کی جانب ہدایت کرنا ہے ،اس میں کو ئی شک نہیں کہ انسان خو اہشات اور فطرت کے روبرو ہے اور ان میں سے ہر ایک کی اپنی ضرورت ہے۔

خواہشات، انسان کے اندر مادی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ہو تے ہیں اور فطرت انسان کو حیوانیت سے نکال کر کمال واقعی تک پہنچاتی ہے اگر فطرت کی ہدایت کی جا ئے تو انسان کمال کی بلندیو ں تک پہنچ جائے گا ،ورنہ خو اہشات سے متاثر ہو کر ذلّت کی پاتال میں غرق ہو جا ئے گا لہٰذا ضروری ہے کہ خواہشات معتدل رہیں اور فطرت کی ہدایت ہو اور بغیر کسی شک وتردید کے اس اہم عہدہ کا ذمہ دار وہی ہوسکتا ہے جو انسان کے اندر کے اسرار ورموز سے مکمل باخبر ہو ۔

خو اہشات کے اعتدال کی راہ ،نیز فطرت کی راہنمائی سے مکمل آگاہوباخبر ہو یہ بات ہم عرض کر چکے ہیں کہ دانشمند وں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ انسان اسرار ورموز کا معمہ ہے ۔

نتیجة ً انسان کاپیدا کرنے والا جو کا ئنا ت کابھی مالک ہے صرف وہی تمام خصوصیات سے با خبر ہے اس کے لطف وکرم کا تقاضا ہے کہ نعمتوں کی تکمیل او ر انسان کو کمال کی بلندیو ں تک پہنچنے کے لئے ایسے انبیا ء کو مبعوث کرے جوبراہ راست اس سے وحی کے ذریعہ منسلک ہیں تاکہ انسان کی ہدا یت ہوسکے ۔

۱۱۱

بعثت انبیاء کا مقصد

انبیاء کے عنوان سے قرآن نے چند اصول بیان کئے ہیں ۔

۱۔( هُوَ الّذیِ بَعَثَ فیِ الأمِیینَ رَسُولا مِنهُم یَتلُوا عَلَیهِم آیاتِه وَیُزکیّهِم وَیُعلّمُهُمُ الکِتَابَ والحِکمةَ و اِن کَانُوا مِن قَبلُ لَفِی ضَلاَلٍ مُبینٍ ) ( ۱ ) اس نے مکہ والوں میں ایک رسول بھیجا ہے جو انہیں میں سے تھا تاکہ ان کے سامنے آیا ت کی تلا وت کرے ان کے نفسوں کوپاکیزہ بنائے اور انہیںکتاب وحکمت کی تعلیم دے ،اگر چہ یہ لو گ بڑی کھلی ہو ئی گمراہی میں مبتلا تھے اس میں کو ئی شک نہیں کہ سب سے پہلا زینہ جو انسان کے مادی ومعنوی کمال تک رسائی کا سبب ہے وہ علم ہے او رعلم کے بغیر کمال تک پہنچنا ناممکن ہے ۔

مذکو رہ آیت میں علم سے مراد مادی علوم نہیں ہیں کیونکہ مادی علوم دنیا میں آرام وآسائش کی ضمانت لیتے ہیں اور انبیاء انسان کی سعادت کے لئے دنیوی واخروی دونو ں

____________________

(۱)سورہ جمعہ آیة: ۲

۱۱۲

زندگیو ں کی ضما نت لیتے ہیں۔

خداکی عبادت او رطاغو ت سے اجتناب ومقابلہ( وَلَقَد بَعَثنا فیِ کُلِّ أُمةٍ رَسَوُلاً أَن اعبُدُوا اللّه واَجتَنبُوا الطَّاغُوتَ ) ( ۱ ) ''او ریقینا ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا ہے کہ تم لوگ اللہ کی عبادت کرو او رطاغوت سے اجتناب کرو'' ۔

۲۔عدالت وآزادی دلا نا ۔( لَقَدْ أَرسَلَنا رُسُلَنَا بِالبَیّنَاتِ وأَنزَلَنا مَعَهُمُ الکِتابَ وَالمِیزَانَ لَیَقُومَ النَّاسُ بِالقِسطِ ) ( ۲ )

بیشک ہم نے اپنے رسولو ں کو واضح دلا ئل کے ساتھ بھیجا ہے اور ان کے ساتھ کتاب ومیزان کو نازل کیا ہے تاکہ لوگ انصاف کے ساتھ قیام کریں ۔ اصل مقصد وہ تمام اصول جنہیں پیغمبروں کے مبعوث ہو نے کا سبب بتایا گیا ہے تمام کے تمام انسان کو کمال تک پہنچانے کے لئے ہیں۔

یعنی انبیاء کے آنے کا اصل مقصد بندوں کو خدا پرست بنانا ہے اور یہ اللہ کی بامعرفت عبادت کے ذریعہ ہی میّسرہے اور انسان کی خلقت کا اصل مقصدبھی یہی ہے( ومَا خَلَقتُ الجِنّ وَالانسَ اِلّا لِیَعبُدونَ ) ( ۳ ) '' ہم نے جنا ت وانسان کو نہیں خلق کیا مگر یہ کہ وہ میری عبادت کریں''۔

پیغمبروں کے پہچاننے کا طریقہ

لوگوں کی ہدایت کے لئے انبیا ء کا مبعوث ہونا اس بحث کے بعد اب یہ بات

____________________

(۱) سورہ نحل آیة :۳۶

(۲) سورہ حدید آیة:۲۵

(۳) سورہ ذاریا ت،۵۶

۱۱۳

سامنے آتی ہے کہ ہم کیسے پہچانیں کہ نبوت کا دعوی کرنے والااپنے دعوی میں سچا ہے۔؟

اگر کو ئی کسی منصب یاعہدے کا دعوی کرے جیسے ،سفیر ،مجسٹریٹ ، یا ڈی ایم، یا اس جیسا کو ئی اورہو جب تک وہ اپنے دعوی پر زندہ تحریر پیش نہ کرے کوئی بھی اس کے حکم کی تعمیل نہیں کرے گا ۔

مقام رسالت او رسفیر ان الٰہی کا دعوی کرنے والوں کی تو بات ہی دیگر ہے نبوت و رسالت سے بلند مرتبہ اور کیاشی ٔ ہو سکتی ہے ؟ ایک انسان دعوی کرے کہ اللہ کا سفیر ہوں اور خدا نے مجھے زمین پر اپنا نمایندہ بناکر بھیجاہے لہٰذاسبھی کو چاہئے کہ میری اتباع کریں ۔

فطرت کسی بھی شخص کو بغیر کسی دلیل کے دعوی کوقبول کرنے کی اجا زت نہیں دیتی ،تاریخ گواہ ہے کہ کتنے جاہ طلب افراد نے سادہ دل انسانوں کو دھو کا دے کر نبوت ورسالت کا دعوی کیا ہے ،اسی لئے علماء علم کلا م نے پیغمبروں کوپہچاننے کے لئے راستے او رطریقے معین کئے ہیں ،ان میں سے ہر ایک پیغمبروں کو پہچاننے او ران کی حقانیت کے لئے زندہ دلیل ہے ۔

پہلی پہچان :معجزہ ہے علماء کلا م او ردیگر مذاہب کا کہنا ہے کہ معجزہ ایسے حیرت انگیز اور خلا ف طبیعت کام کو کہتے ہیں کہ جسے نبوت کا دعوی کرنے والا اپنے اور خدا کے درمیان رابطہ کو ثابت کرنے کے لئے انجام دیتا ہے او ر تمام لوگو ں کواس کے مقابلہ کے لئے چیلنج کرتا ہے اور ہر شخص اس جیسا فعل انجام دینے سے قاصر ہے لہٰذا معجزہ کے تین رخ ہیں ۔

۱۔ایسا کام جو انسانو ں کی طاقت سے حتیٰ نوابغ دہر کی بس سے باہر ہو ۔

۲۔ معجزہ نبو ت ورسالت کے دعوی کے ساتھ ہو او ر اس کا عمل اس کے دعوی کے مطابق ہو۔

۳۔دنیا والو ںکے لئے اس کا مقابلہ کرنا ''اس کے مثل لانا''ممکن نہ ہو سبھی اس سے عاجز ہو ں ۔

اگر ان تینو ں میں سے کو ئی ایک چیز نہیں پائی جا تی تو وہ معجزہ نہیں ہے ابوبصیر کہتے ہیں کہ ہم نے امام صادق سے پوچھا کہ ،اللہ نے انبیاء و مرسلین اور آپ ''ائمہ '' کو معجزہ کیو ں عطاکیا ؟آپ نے جواب میں فرمایا : تاکہ منصب کے لئے دلیل قرار پائے او رمعجزہ ایسی نشانی ہے جسے خدا اپنے انبیاء ،مرسلین اور اماموں کو عطا کرتا ہے تاکہ اس کے ذریعہ جھوٹے او رسچے کی پہچان ہو سکے ۔( ۱ )

____________________

(۱) بحار الانوار جلد ۱۱ ،ص ۷۱

۱۱۴

سوالات

۱۔ فطرت کی راہنمائی او رخو اہشات کے میانہ روی کے لئے انبیا ء کا ہو نا کیوں ضروری ہے ؟

۲۔ قرآن کی نظر میں پیغمبروں کی بعثت کا مقصد کیا ہے ؟

۳۔ پیغمبروں کے پہچاننے کا راستہ کیا ہے؟

۴۔ معجزہ کیاہے اور اس کے شرائط کیا ہیں بیا ن کریں ؟

۱۱۵

سترہواں سبق

نبو ت عامہ (تیسری فصل )

جا دو ،سحر ،نظر بندی اور معجزہ میں فرق !

جب کبھی معجزہ کے بارے میں بات کی جا تی ہے تو کہا جا تا ہے کہ معجزہ ایک ایسے حیرت انگیز فعل کانام ہے جو ہر ایک کے بس میں نہیں ہے۔

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ معجزہ ، جادو ، سحر نیز نظر بندکرنے والوں کے حیرت انگیزکرتبوں میں کیسے فرق قائم کیا جائے ۔

جو اب :معجزہ اور دوسرے خارق العادت کاموں میں بہت فرق ہے ۔

ا۔ نظر بندی او رجادو گری ایک قسم کی ریاضت کانام ہے اور جادوگر استاد سے جادو سیکھتا ہے لہٰذا ا ن کے کرتب مخصوص ہیںجو انھو ںنے سیکھا ہے وہ فقط اسی کو انجام دے سکتے ہیں اس کے علاوہ کسی کام کو انجام نہیں دے سکتے لیکن نبی ورسول معجزے کو کسی استاد سے نہیں سیکھتے ،لیکن پھر بھی معجزے کے ذریعہ ہرکام انجام دے سکتے ہیں جیسا کہ حضرت صالح سے پہاڑ سے او نٹ نکالنے کوکہاگیا انہو ںنے نکا ل دیا ، جب حضرت مریم سے بیٹے کے بارے میں پوچھا گیا تو حضرت عیسی جوکہ گہوارے میں ابھی چند دن کے تھے فرماتے ہیں :

۱۱۶

( قا لَ أِنِّیِ عَبدُاللّهِ آتٰنی الکِتَابَ وَجَعلَنیِ نَبِیّاً ) ''میں اللہ کابندہ ہو ں اللہ نے مجھے کتا ب دی ہے اور نبی بناکر بھیجاہے''۔( ۱ )

یا جب رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے معجزہ کی مانگ کی گئی تو پتھروں نے آنحضرت کے دست مبارک پرآکر ان کے رسالت کی گواہی دی ۔

۲۔ جادو گر وں یا شعبدہ بازوں کے کرتب زمان ومکان او رخاص شرائط میں محدود ہیں او رمخصوص چیزوں کے وسیلوں کے محتاج ہیں، لیکن پیغمبروںورسولوں کے معجزے چونکہ ان کا سرچشمہ خدا کی لا متناہی قدرت ہے لہٰذا کو ئی محددیت نہیں ہے وہ کبھی بھی کو ئی بھی معجزہ پیش کر سکتے ہیں ۔

۳۔جادوگروں اور نظربندوں کے کام زیادہ تر مادی مقصدکے پیش نظر انجام پاتے ہیں ( چاہے پیسوں کی خاطر ہو یا لوگو ں کو اپنی طرف کھینچنے یا دوسرے امور کے لئے ) لیکن انبیاء کامقصد متدین افراد کی تربیت اور معاشرہ کو نمونہ بنانا ہے ۔ اور وہ لوگ (انبیاء ومرسلین ) کہتے تھے( وَمَاَ أَسئَلُکُم عَلَیهِ مِنْ أَجرٍ اِن أَجرِی اِلَّا علیٰ رَبِّ العَالمِینَ ) ( ۲ ) ''اور میں تم سے اس کی کوئی اجرت بھی نہیں چاہتا ہو ں اس لئے کہ میرا اجر تو عالمین کے رب کے ذمہ ہے'' ۔

۴۔جادوگروںاورشعبدہ بازوںکے کرتبوںکامقابلہ ممکن ہے یعنی دوسرے

____________________

(۱) سورہ مریم آیة :۳۰

(۲) سورہ شعراء آیة:۱۸۰ ،۱۶۴،۱۴۵،۱۲۷،۱۰۹

۱۱۷

بھی اس جیسا فعل انجام دے سکتے ہیں ،لیکن پیغمبروں کے معجزہ کی طرح کوئی غیرمعصوم شخص انجام نہیں دے سکتا ۔

ہر پیغمبر کا معجزہ مخصوص کیو ںتھا ؟

جبکہ ہر نبی ہر حیرت انگیز کام کو انجام دے سکتا تھا اور ان میں سے ہر ایک کے پاس متعد د معجزے تھے مگر ایک ہی کوزیادہ شہرت ملی ۔

ابن سکیت نامی ایک مفکر نے امام ہادی ں سے پوچھا :کیو ں خدا نے موسیٰ بن عمران کو ید بیضا اور جادوگروں جیسا معجزہ دیا؟ حضرت عیسیٰ کو مریضوں کو شفادینا اور مردوںکو زندہ کرنے والا معجزہ عطاکیا؟اور رسول اسلا م کو قران جیسے حیرت انگیز کلام کے مجموعے کے ساتھ لوگوں میں بھیجا۔

امام ںنے فرمایا : جب خدا نے حضرت موسی کو مبعوث کیاتو ان کے زمانے میں جادوکا بول با لا تھا لہٰذا خدانے اس زمانے جیسا معجزہ دیا چونکہ اس کا مقابلہ کرنا کسی کے بس میں نہیں تھا او راپنے معجزہ کے ذریعہ جادوگروں کے جادو کو شکست دی اور ا ن پر حجت تمام کی ۔

جب جنا ب عیسیٰ لوگوں کی ہدایت کے لئے آئے تواس وقت حکمت وطبابت کا شہرہ تھا لہٰذا خدا کی جانب سے اس زمانے کے مطابق معجزہ لے کر آئے اوراس کا مقابلہ کرنا کسی کے بس کا روگ نہیں تھا، انھوں نے مردو ں کو زندہ کرکے اور مریضو ں کو شفا دے کر، نابینا کو آنکھ عطاکر کے جذام کودور کرکے تمام لوگوں پر حجت تمام کی ۔

۱۱۸

جب نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مبعوث برسالت ہوئے تو اس وقت فصاحت وبلا غت کا سکہ چل رہا تھا خطبہ او رانشاء اس وقت کے سکۂ رائج الوقت اور مقبول عام تھے نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خدا کی جانب سے ان کو موعظہ ونصیحت کے حوالے سے گفتگو کی جس کا مقابلہ کرنالوگوں کی سکت میں نہیں تھا، اپنے مواعظ ونصائح کو قرآنی پرتو میں پیش کیا او رباطل خیالات کو نقش بر آب کردیا ۔

دوسری پہچان ۔انبیاء کی شناخت کادوسرا طریقہ یہ ہے کہ جس نبی کی نبوت دلیل کے ذریعہ ثابت ہوچکی ہو وہ اپنے آنے والے نبی کے نام اور خصوصیات کو لوگوں کے سامنے پیش کرے جیساکہ تو ریت وانجیل میں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حوالے سے پیشین گوئیاںکی گئی ہیں ،قرآن ان پیشین گو ئیو ں میں سے حضرت عیسیٰ کے قول کو بطور نمونہ پیش کرتا ہے( وَاِذْ قَالَ عِیسیٰ بنُ مَریَم یا بَنی اِسرائِیلَ اِنِّیِ رَسُوُلُ اللّهِ اِلیکُم مُصَدِّقاً لِمَا بَینَ یَدیَّ مِن التوراةِ ومُبشّراً بِرسُولٍ یَأتِی مِن بَعدیِ اسُمُه أحمدُ ) ( ۱ ) اس وقت کویاد کرو جب عیسیٰ بن مریم نے کہا کہ اے بنی اسرائیل! میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہو ںاپنے پہلے کی کتاب تورات کی تصدیق کرنے والا او راپنے بعد کے لئے ایک رسول کی بشارت دینے والا ہو ں، جس کا نام احمد ہے اسی طرح سورہ اعراف کی آیة ۱۵۷ میں ارشاد ہوا( الذین یتبعون )

____________________

(۱) سورہ صف آیة: ۶

۱۱۹

تیسری پہچان ۔ تیسرا طریقہ انبیاء کو پہچاننے کا وہ قرائن وشواہد ہیںجوقطعی طور پر نبوت ورسالت کوثابت کرتے ہیں ۔

خلا صہ

۱۔جو نبوت کا دعوی کرے اس کے روحانی اور اخلاقی خصوصیات کی تحقیق۔ (مدعی نبوت کی صداقت کی نشانیوں میں سے اعلیٰ صفات او ربلند اخلاق ہو نا ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ لوگوں میں نیک چلن اور صاحب کردار کے نام سے جانا جائے)

۲۔ عقلی پیرائے میں اس کے احکام وقوانین کو پرکھاجائے کہ کیا اس کے احکام وقوانین ،الٰہی آئین کے تحت اور معارف اسلام وفضائل انسانی کے مطابق ہیں؟یا اس کی دوسری پہچان ہے ۔

۳۔ اپنے دعوی پہ ثابت قدم ہو ا ور اس کا عمل اس کے قول کاآئینہ دار ہو ۔

۴۔ اس کے ہمنوااور مخالفین کی شناخت ۔

۵۔ اسلو ب تبلیغ کے ساتھ یہ دیکھیں کہ اپنے قوانین کے اثبات کے لئے کن وسائل اور کن راستو ں کاسہارالے رہا ہے ۔

جب یہ تمام قرآئن وشواہد اکٹھا ہو جائیں تو ممکن ہے مدعی نبوت کی نبوت کی یقین کاباعث بنے ۔

سوالات

۱۔ سحر ،نظر بندی، اور معجزہ میں کیا فرق ہے ؟

۲ ۔ ہر نبی کا معجزہ مخصوص کیو ں تھا ؟

۳۔ انبیاء کی شناخت کے قرائن وشواہد کیاہیں ؟

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

پہلا سبق

پیغمبر کا خلیفہ اور جانشین کون ہوسکتا ہے

ہوائی جہاز پر مسافر سوار ہوچکے تھے لیکن ابھی ہوائی جہاز کا پائلٹ نہیں آیا تھا اور وہ آبھی نہیں سکا تھا کسی آدمی کو اس کی جگہ لایا جائے گا کہ جو مسافر وں کو ان کی منزل تک پہنچادے کیا انہیں مسافروں میں سے کسی ایک کوا ہوائی جہاز میں کسی کام کرنے والے کو کسی راہ گیر کو آیا اسے جو ہوائی جہاز چلانے میں مہارت اور آگاہی نہ رکھتا ہو ہوئای جہا زجلانے کے لئے اس پائلٹ کی جگہ بھیج دیا جائے گا؟ کیا اس پر مسافر اعتماد کرسکیں گے اور کیا وہ ہوائی جہاز اڑاسکے گا کون آدمی ایک پائلٹ کا جانشین ہوسکتا ہے؟ یقینا وہ آدمی جو ہوائی جہاز چلانے میں مہارت رکھتا ہو اور اس فن میں کافی معلومات اور آگاہی رکھتا ہو اور خود پائلٹ ہو اس مثال کو دیکھتے ہوئے آپ یہ کہہ سکتے

۱۶۱

ہیں کہ کو آدمی پیغمبر(ص) کا جانشین او رخلیفہ ہوسکتا ہے؟

پیغمبر(ص) کا جانشین کیسا ہونا چاہیئے

آیا وہ آدمی جو لوگوں کی ہدایت اہليّت اور اس کے متعلق کامل علم نہ رکھتا ہو وہ پیغمبر کا جانشین ہوسکتا ہے آیا وہ آدمی جو دین اسلام کے قوانین نہ جانتا ہو اور ان میں غلطیاں کرتا اور گناہ کرتا ہو پیغمبر اسلام(ص) کا جانشین اور خلیفہ ہوسکتا ہے اور اس منصب کے لائق ہوسکتا ہے_

کون بہتر جانتا ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) کی جانشینی کے لئے کون لائق اور سزاوار ہے خدا بہتر جانتا ہے یا لوگ یقینا خدا بہتر جانتا ہے لہذا خدا ہی پیغمبر اسلام(ص) کی جانشینی کے لئے کسی لائق انسان کو معین کرتا ہے اور پیغمبر(ص) کو حک۴م دیتا ہے کہ علم الہی کو جو اس کو دیا گیا ہے اسے بھی آگاہ کرے پیغمبر(ص) بھی اللہ کے حکم پر علم الہی کو جو اس کو دیا گیا ہے اسے بھی آگاہ کرے پیغمبر(ص) بھی اللہ کے حکم پر عمل کرتا ہے اور اس کا اپنی جانشینی کے لئے اعلان کرتا ہے پیغمبر(ص) کے جانشین کوامام کہا جاتا ہے_

۱۶۲

دوسرا سبق

پیغمبر کا جانشین امام معصوم ہوتا ہے

پیغمبر اللہ کے حکم سے ایک ایسے انسان کو جو امین اور معصوم ہوتا ہے اپنی جانشینی کے لئے چنتا ہے تا کہ وہ اس کا خلیفہ ہو اور اس کے کاموں کو انجام دے امام ایک امین اور معصوم انسان ہوتا ہے کہ جسے خدا لوگوں کی رہبری کے لئے انتخاب کرتا ہے اور اللہ کے فرمان اور حکم سے پیغمبر اسے لوگوں کو بتلاتا اور اعلان کرتا ہے تا کہ وہ اپنے کردار اور گفتار سے لوگوں کی اللہ تعالی کی طرف راہنمائی او رہدایت کرے اور لوگ اپنی زندگی میں اسے اپنے لئے نمونہ قرار دیں اور اس کی پیروی کریں پیغمبر(ص) اللہ تعالی کے حکم سے اپنے علم اور آگاہی کو اس کے اختیار میں قرار دیتا ہے تا کہ لوگوں کی راہنمائی اور رہبری کرسکے امام دین کے قانون اور دستور کو جانتا ہے یعنی خدا اور پیغمبر اسے اس کی تعلیم دیتے ہیں اور پھر وہ

۱۶۳

اسے لوگوں تک پہنچاتا ہے امام پیغمبر کی طرح دین کا کامل نمونہ ہوتا ہے اور دین کے پورے احکا اور دستور پر عمل کرتا ہے_

امام پیغمبر(ص) کی طرح نگاہ کی نجاست اور قباحت کو دیکھتا ہے اور اسی علم و آگاہی کی وجہ سے ہرگز گناہ نہیں کرتا بلکہ گناہ سے دور رہتا ہے امام پیغمبر کی طرح نگاہ اور غلطی نہیں کرتا لوگ اس پر اعتماد کرتے ہیں اور اس کے اقوال اور اعمال کی پیروی کرتے ہیں_

بارہ امام (ع) تمام کے تمام معصوم ہیں یعنی گناہ نہیں کرتے کامل طور پر امین اور صحیح انسان ہیں دین اسلام کے احکام اور قوانین کو ٹھیک اور کامل لوگوں تک پہنچاتے ہیں یعنی اس میں غلطی اور نسیان نہیں کرتے_

سوالات

۱)___کون آدمی پیغمبر کا جانشین ہوسکتا ہے؟

۲)___ کیا گناہ اور خطا کار آدمی مسلمانوں کا امام ہوسکتا ہے اور کیوں؟

۳)___ دین کا کامل نمونہ ہونے کا کیا مطلب ہے؟

۴)___ امام گناہوں سے کیوں دور رہتا ہے؟

۵)___ علم اور آگاہی امام کو کون د یتا ہے؟

۶)___ معصوم ہونے سے کیا مراد ہے؟

۷)___ امام پر اللہ کی کیا ذمہ اری عائد ہوتی ہے؟

۱۶۴

تیسرا سبق

عید غدیر

پیغمبر اسلام(ص) اپنی زندگی کے آخری سال حج بجالانے کے لئے تشریف لے گئے اور مسلمانوں کو بھی دعوت دی کہ وہ بھی اس سال حج میں شریک ہوں اس کی بناپر مسلمانوں نے جو بھی حج کے لئے آسکتے تھے پیغمبر کے اس فرمان کو قبول کیا اور تھوڑی مدت میں مسلمانوں کی کافی تعداد مکہ کی طرف روانہ ہوگئی وہاں حج کی باعظمت عبادت میں شرکت کی اور حج کے پورے اعمال پیغمبر اکرم(ص) سے یاد کئے_

جب حج اور خانہ کعبہ کی زیارت کے اعمال ختم ہوگئے تو قافلے واپس لوٹنے کے لئے تیاری کر کے چل پڑے پیغمبر اسلام(ص) نے بھی قافلوں کے ساتھ مدینہ کی طرف حرکت کی اونٹوں کی گھنٹیوں کی آواز نے میدانوں کی خاموشی کو توڑ دیا تھا موسم بہت گرم تھا اور صحرا آگ برسا

۱۶۵

رہا تھا کہ راستے میں پیغمبر اسلام(ص) پر اللہ تعالی کی طرف سے وحی نازل ہوئی اور یہ پیغام اللہ تعالی کی طرف سے پیغمبر اسلام (ص) کے لئے آیا_

اے پیغمبر(ص) وہ پیغام جو اللہ تعالی کی طرف سے آپ کی طرف اتارا جاچکا ہے لوگوں تک پہنچا دیجئے اگر اسم میں کوتاہی کی تو آپ(ص) نے کار رسالت ہی انجام نہیں ی_ اللہ آپ(ص) کو دشمنوں سے محفوظ رکھے گا اور کافر اپنے مقصد تک نہیں پہنچیں گے پیغمبر اسلام(ص) وہیں پر فوراً اتر گئے تا کہ اللہ تعالی کے اس حکم پر عمل کریں مسلمانوں کی ایک تعداد کو آواز دی اور فرمایا کہ جتنے قافلے آگے جاچکے ہیں ان کی خبر کرو کہ وہ واپس لوٹ آئیں اور وہ قافلے جو پیچھے رہ گئے ہیں اور ابھی یہاں نہیں پہنچے انہیں کہو کہ جلد وہ یہاں پہنچ جائیں یہ لوگ تیز رفتار اونٹوں پر سوار ہوئے اور تیزی سے ان قافلوں کو جو آگے چلے گئے تھے جا ملے اور انہیں آواز دی ٹھہرو ٹھہرو، واپس لوٹ آؤ، قافلے والوں نے اونٹوں کی مہاریں کھینچیں اور اونٹوں کی گھنٹیاں خاموش ہوگئیں برابر پوچھ رہے تھے کیوں ٹھہریں، کیا خبر ہے، اس گرمی کے عالم میں کیوں رکیں؟ اور واپس لوٹ آئیں''

اونٹ سوار کہتے کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا ہے لوٹ آؤ غدیر کے نزدیک میرے پاس اکھٹے ہوجاؤ قافلے واپس لوٹ آئے غدیر کے قریب اپنے سامان کو اتارا اور جو قافلے ابھی تک نہیں پہنچے تھے وہ بھی پہنچ گئے اس طرح ہزاروں مسلمان جو حج سے واپس آرہے تھے اٹھارہ ذی الحجہ کو جمع ہوگئے ظہر کی نماز انہوں نے پیغمبر اسلام(ص) کے ساتھ پڑھی

۱۶۶

اس کھے بعد اونٹوں کے پالانوں سے منبر بنایا گیا پیغمبر اسلام(ص) اس منبر پر گئے تا کہ اللہ تعالی کے فرمان کو انجام دیں او روہ اہم پیغام لوگوں تک پہنچادیں تمام لوگ چپ اور منتظر بیٹھے تھے کہ پیغمبر اسلام(ص) کا پیغام سنیں اور دیکھیں کہ وہ اہم پیغام کیا ہے؟

پیغمبر اسلام(ص) نے چند مفید کلمات کے بعد آسمانی آواز میں جو سب تک پہنچ رہی تھی لوگوں سے پوچھا لوگو تمہارا پیشوا اور حاکم کون ہے؟ تمہارا رہبر اور صاحب اختیار کون ہے؟ کیا میں تمہارا رہبر اور پیشوا نہیں ہوں کیا میں تمہارا رہبر اور صاحب اختیار نہیں ہوں سب نے کہا یا رسول اللہ: آپ ہمارے رہبر اور صاحب اختیار ہیں آپ(ص) ہمارے پیشوا ہیں اس کے بعد پیغمبر اکرم(ص) نے حضرت علی (ع) کو آواز دی اور اپنے پہلو میں بیٹھایا اور ان کا ہاتھ پکڑا اور انہیں بلند کیا اور لوگوں کو دکھلایا اور بلند آواز میں فرمایا کہ ''جس کا میں پیشوا اور صاحب اختیار ہوں میرے بعد علی ''علیہ السلام'' اس کے پیشوا اور صاحب اختیار ہیں_ اے لوگو اے مسلمانو میرے بعد تمہارے علی (ع) پیشوا اور رہبر ہیں اس کے بعد اپنے ہاتھ آسمان کی طرف بلند کئے اور فرمایا پروردگار علی (ع) کے دوستوں سے دوستی رکھ اور علی (ع) کے دشمنوں سے دشمن رکھ، پروردگار علی (ع) کے دوستوں سے دوستی رکھ اور علی (ع) کے بدخواہوں کو ذلیل و خوار کر ''

اس کے بعد آپ(ص) منبر سے نیچے اترے اپنی پیشانی سے پسینے کو صاف کیا اور ایک آہ بھری اور تھوڑی دیر آرام سے ٹھہرے

۱۶۷

اور اس کے بعد مسلمانوں کو حکم دیا کہ میرے بھائی اور جانشین علی (ع) کے ہاتھ پر بیعت کریں او راس منصب الہی کی انھیں مبارک باد دیں وہ پیشوا اور امیرالمومنین ہیں_

مسلمان گروہ در گروہ آئے اور حضرت علی (ع) سے ہاتھ ملا کر ان کو مومنین کے منصب رہبری کی مبارک باد دی اور آپ کو امیرالمومنین (ع) کہہ کر پکارا اس لحاظ سے حضرت علی علیہ السلام اٹھارہ ذی الحجہ کو رہبری اور امامت کے لئے چند گئے رہبری اور امامت کا مقام دین اسلام کا جزء ہے رہبر اور امام کے معيّن کردینے سے دین اسلام کامل طور جاودانی ہوگیا ہے ہم ہر سال اس مبارک دن کو عید مناتے ہیں اور حضرت علی علیہ السلام کی امامت اور پیشوائی پر خوش ہوتے ہیں اور حضرت علی علیہ السلام کو مسلمانوں کا رہبر اور امام سمجھتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ آپ کی گفتار اور کردار کی پیروی کریں_

سوالات

۱)___ بیعت کا کیا مطلب ہے مسلمانوں نے حضرت علی (ع) کی کیوں بیعت کی تھی اور کیوں آپ(ع) کو مبارک باد دی تھی؟

۲)__ _ ہمارے پیغمبر (ص) نے حضرت علی (ع) کو لوگوں کے لئے امام معین کرنے سے پہلے ان سے کیا پوچھا تھا اور ان سوالوں کا حضرت علی (ع) کے تعارف اور تعيّن سے کیا تعلق تھا؟

۱۶۸

۳)___ وہ اہم پیغام کیا تھا کہ جس کے پہنچانے کے لئے اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر کو حکم دیا؟

۴)___ پیغمبر اسلام(ص) نے اللہ کی وحی سننے کے بعد کیا کیا اور مسلمانوں سے کیا فرمایا؟

۵)___ پیغمبر اسلام(ص) نے حضرت علی (ع) کا لوگوں سے کس طرح تعارف کرایا اور آپ(ع) کے حق میں کیا فرمایا ؟

۶)___ غدیر کی عید کون سے دن ہوتی ہے اس عید کے جشن میں ہم کیا کرتے ہیں اور کس چیز کی کوشش کرتے ہیں اس سال غدیر کی عید کس موسم میں آئے گی اور کس مہینے میں_ یاد رکھئے گا اس دن جشن بنائیں اور اپنے دوستوں کو اس جشن میں دعوت دیں_

۱۶۹

چوتھا سبق

شیعہ

حضرت علی علیہ السلام پہلے مسلمان ہیں اور بعد پیغمبر اسلام(ص) سب سے افضل ہیں پیغمبر اسلام(ص) کے فرمان کو اچھی طرح سنتے تھے اور پیغمبر(ص) کے احکامات کے کامل مطیع تھے ہر جگہ پیغمبر(ص) کی مدد اور اعانت کرتے تھے دینداری میں کوشش اور جہاد کرتے تھے_

پیغمبر کے زمانے میں ایک گروہ حضرت علی علیہ السلام کا دوست تھا حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ اسلام کی پیش رفت میں کوشش اور جہاد کرتا تھا یہ گروہ تمام حالات میں حضرت علی علیہ السلام کی گفتار، رفتار اور اخلاق میں پیروی کیا کرتا تھا یہ حضرت علی علیہ السلام کی طرح پیغمبر اسلام(ص) کی اطاعت کرتا تھا پیغمبر اسلام(ص) حضرت علی علیہ السلام اور اس ممتاز گروہ کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ اے علی (ع) آپ(ع) اور

۱۷۰

آپ (ع) کے شیعہ روئے زمین پر بہترین انسان ہین اور جب حضرت علی (ع) کو اپنے دوستوں کے ساتھ دیکھتے تو ان کی طرف اشارہ کر کے فرماتے کہ یہ نوجوان اور اس کے شیعہ نجات پائے ہوئے ہیں پیغمبر اکرم(ص) اس ممتاز گروہ کہ جو مکمل ایمان لے آیا تھا شیعہ کے نام سے پکارتے تھے اسی دن سے جو مسلمان رفتار، گفتار اور کردار میں ممتاز تھے اور دینداری میں حضرت علی علیہ السلام کی پیروی کرتے تھے شیعہ کہلاتے تھے یعنی پیروکار_

پیغمبر اسلام(ص) کی وفات کے بعد مسلمانوں کا وہ ممتاز گروہ جو واقعی ایمان لایاتھا اور پیغمبر اسلام(ص) کے فرمان کا مطیع تھا انہوں نے مکمل طور پر پیغمبر کے فرمان پر عمل کیا اور حضرت علی علیہ السلام کو پیشوائی اور رہبری اور امامت کے لئے قبول کیا اور ان کی مدد اور حمایت کی البتہ مسلمانوں کے ایک گروہ نے پیغمبر اسلام(ص) کے فرمان کو قبول نہ کیا اور حضرت ابوبکر کو پیغمبر اسلام(ص) کا جانشین شمار کیا اور اس کے بعد حضرت عمر کو دوسرا اور حضرت عثمان کو تیسرا خلیفہ اور حضرت علی علیہ السلام کو چوتھا خلیفہ جانا اس گروہ کو اہلسنّت کہا جاتا ہے یہ دونوں گروہ مسلمان ہیں خدا اور پیغمبر اکرم(ص) اور قرآن کو قبول کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے محیت اور مہربانی کرتے ہیں اور قرآن کی تعلیم اور پیغمبر اسلام(ص) نے فرمایا ہے عقیدہ رکھتے ہیں کہ پیغمبر اسلام(ص) کے بعد یکے بعد دیگرے بارہ امام اور رہبر ہیں پہلے امام حضرت علی علیہ السلام ہیں اور بارہویں امام حضرت مہدی علیہ السلام ہیں

۱۷۱

کیونکہ پیغمبر اسلام(ص) کے حکم کے مطابق آپ کے خلیفہ اورجانشین بارہ ہوں گے_

مذہب شیعہ کو جعفری مذہب بھی کہاجاتا ہے_

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ شیعہ کہا کیا مطلب ہے شیعہ اسلام اور دین داری میں کسکی پیروی کرتے ہیں؟

۲)___ مسلمانوں کے کس ممتاز گروہ کا نام شیعہ ہے اور پیغمبر(ص) نے ان کے م تعلق کیا فرمایا ہے؟

۳)__ پیغمبر اسلام(ص) کی وفات کے بعد کن لوگوں نے پیغمبر(ص) کی تعلیمات پر عمل کیا اور کس طرح؟

۴)___ مسلمانوں کے دوسرے گروہ کو کیا کہاجاتا ہے وہ پیغمبر اکرم(ص) کی وفات کے بعد کس کو ان کا جانشین مانتے ہیں؟

۵)___ یہ دونوں گروہ آپس میں کیسے تعلقات رکھتے ہیں اور کن مسائل کی شناخت میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں

۶)___ ہمارا عقیدہ پیغمبر(ص) کے جانشینوں کے متعلق کیا ہے؟ ایران کا رسمی مذہب کو ن سا ہے_

اس قسم کے دوسرے سوال بنایئےور ان کے جواب دوستوں سے پوچھئے_

۱۷۲

پانچواں سبق

آٹھویں امام حضرت امام رضا علیہ السلام

امام رضا علیہ السلام ایک سواڑ تالیس ہجری گیارہ ذیعقدہ مدینہ منورہ میں متولد ہوئے آپ کے والد حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام تھے اور آپ(ع) کا نام علی (ع) ہے اور رضا کے لقب سے معروف ہوئے اور آپ(ع) کی والدہ ماجدہ کا نام نجمہ تھا_

حضرت موسی علیہ السلام نے اللہ کے حکم اور پیغمبر اسلام(ص) کی وصیت کے مطابق اپنے بعد آپ کو لوگوں کا امام معيّن کیا اور اس سے لوگوں کو آگاہ کیا امام رضا علیہ السلام کا علم دوسرے اماموں کی طرح آسمانی اور الہی تھا اسی لئے تمام لوگوں کے علم پر آپ(ع) کے علم کو برتری حاصل تھی طالبان علم اور علماء اور دانشمند آپ(ع) سے علم حاصل کرنے کے لئے آپ (ع) کی خدمت میں آتے اور علوم سے بہرہ مند ہوتے تھے

۱۷۳

عیسائی اور یہودی اور دوسرے ادیان کے علماء آپ (ع) کے پاس آتے اور امام علیہ السلام ان سے گفتگو اور بحث و مباحثہ کیا کرتے اور ان مشکل سوالوں کا جواب دیا کرتے تھے اور ان کی راہنمائی اور ہدایت فرمایا کرتے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ آپ (ع) نے کسی کے سوالوں کا جواب نہ دیا ہو یا جواب صحیح نہ دیا ہو آپ (ع) کو اللہ تعالی کے دیئے ہوئے کثیر علم وجہ سے عالم آل محمد(ص) کہا جاتا تھا آپ کے بہت سے قیمتی ارشادات ہمارے لئے آج بھی مشعل راہ ہیں_

امام رضا علیہ السلام کی امامت کے زمانے میں مامون مسلمانوں کا حاکم اور خلیفہ تھا اور چونکہ وہ لوگوں کو امام رضا علیہ السلام سے دور رکھنا چاہتا تھا امام کو جو مدینہ منورہ میں زندگی بسر کرتے تھے شہر طوس میں بلوایا اور امام علیہ السلام کے سامنے ولی عہد اور خلاقت کے عہدے کی پیش کش کی لیکن امام رضا علیہ السلام نے جو مامون کے مکر و فریب اور منافقت سے آگاہ تھے مامون کی اس پیش کش کو قبول نہ کیا مامون نے بہت زیادہ اصرار کیا امام رضا علیہ السلام چاہتے تھے کہ ولی عہدی کو قبول نہ کریں لیکن مامون کے بہت زیادہ اصرار کے بعد آپ (ع) نے بظاہر ولی عہدی کو قبول کرلیا لیکن شرطر لگادی کہ آپ (ع) حکومت کے کسی کام میں دخل نہیں دیں گے بالآخر مامون نے جو امام کی شخصیت سے سخت خائف تھا اور آپ (ع) کی صلاحیتوں کی وجہ سے خطرے کا احساس رکھتا تھا آپ کو زہر دے کر شہید کردیا_

۱۷۴

حضرت امام رضا علیہ السلام نے صفر کی آخری تاریخ کو ۲۰۳ ھ میں طوس میں شہادت پائی اور آپ (ع) کے جسم مبارک کو اسی شہر کے نزدیک کہ جو آج مشہد مقدس کے نام سے مشہور ہے_ دفن کردیا گیا آپ (ع) کی قبر مبارک آج کے دور میں سارے مسلمانوں کے لئے زیارت گاہ ہے_

۱۷۵

چھٹا سبق

اسراف کیوں؟

امام رضا علیہ السلام نے دیکھا کہ ایک آدھا کھایا ہوا پھل زمین پر پڑا ہے آپ (ع) کے خادموں میں سے کسی نے پھل کا کچھ حصّہ کھایا تھا اور باقی کو زمین پر پھینک دیا تھا حضرت امام رضا علیہ السلام اس سے ناراض ہوئے اور اس کے خادم کو بلایا اور اس سے فرمایا کہ کیوں اسراف کرتے ہو؟ اللہ کی نعمت کے ساتھ کیوں بے پروا ہی کرتے ہو کیا تمہیں علم نہیں کہ اللہ اسراف کرنے والے انسان کو دوست نہیں رکھتا کیا تم نہیں جانتے خدا اسراف کرنے والے انسان کودوست نہیں رکھتا کیا تم نہیں جانتے خدا اسراف کرنے والے کو سخت سزا دے گا اگر تمہیں کسی چیز کی حاجت نہیں تو اسے ضائع نہ کرو اور فضول خرچ نہ کرو بلکہ وہ ان کو دے دو جو اس کے محتاج ہیں_

امام رضا علیہ السلام کے فرمان سے آپ کیا سمجھتے ہیں کہ خدا

۱۷۶

کیوں اسراف کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا___؟

____ اور کیوں اسراف نہ کرنا برا ناپسندیدہ فعل ہے___؟

ان دو سوالوں کے جواب دینے کے لئے یہ سوچئے کہ ایک سیب کو تیار ہونے کے لئے کتنی قوت اورتوانائی خرچ ہوتی ہے اور کتنے کام انجام پاتے ہیں تب جاکر ایک سیب بنتا ہے مثلا سوچئے کہ سیب کے پودے کوپڑھنے کے لئے سورج کی کتنی توانائی ضروری ہے کتنی مقدار میں پانی، ہوا معدنی اجزاء خرچ ہوں گے اور کتنے لوگ محنت کریں گے تب جاکر سیب کا ایک دانہ آپ کے ہاتھ تک پہنچے گا سوچئے اس قدر کام او رتوانائی کی قیمتی ہے___؟ جب سیب کا کچھ حصّہ پھینک دیتے ہیں یا کسی اور اللہ کی نعمتوں میں سے کسی نعمت کو بیجا خرچ کرتے ہیں تو در حقیقت اس تمام توانائی اور محنت کو ضائع کرتے ہیں اور اس کے علاوہ ایک دوسرے انسان کو بھی خدا کی نعمتوں سے محروم کرتے ہیں اور اس کے حق کو ضائع کرتے ہیں کیا اسراف کرنا اللہ کی نعمتوں کی حرمت کی منافی نہیں___؟

کیا اسراف کرنا اللہ کی ناشکری نہیں ہے___؟

کیوں اللہ کی نعمتوں کو معمولی شمار کرتے ہیں اور ان کو بیجا خرچ کرتے ہیں___؟

کیا آپ راضی ہیں کہ ایک بچّہ بھوکا سوئے اور آپ اپنی غذا سے تھوڑی مقدار ضائع کردیں یا نیم میوہ کو بغیر کھائے گندگی میں ڈال دیں___؟

۱۷۷

کیا آپ راضی ہیں کہ بچّہ جس کے پاس کاغذ اور قلم ہے تحصیل علم سے محروم رہے اور آپ اپنی کاپیاں اور کاغذ بلا وجہ پھاڑ ڈالیں یا انھیں لکھے بغیر ہی ضائع کردیں___؟

کیا یہ درست ہے کہ آپ ضرورت سے زیادہ بجلی صرف کریں اور دوسرے بقدر ضرورت بجلی اور روشنی نہ رکھتے ہوں حالانکہ خدا نے پانی سورج مٹی ہوا اور دوسری نعمتیں تمام انسانوں کے لئے پیدا کی ہیں اور ہر انسان کو حق پہنچتا ہے کہ اللہ کی ان نعمتوں سے استفادہ کرے____؟

اب جب کہ آپ سمجھ چکے ہیں کہ اسراف کرنا گناہ ہے اور بہت برا اور ناپسندیدہ کام ہے تو اس کے بعد اسراف مت کیجئے اب جب کہ آپ جان چکے ہیں کہ خداوند عالم اسراف کرنے والوں کودوست نہیں رکھتا اور سخت سزا دیتا ہے تو اس کے بعد کسی چیز کو فضول اور بیجا خرچ نہ کریں، کسی چیز کو ضائع نہ کریں اور اعتدال کے ساتھ خرچ کریں اس طریقے سے وہ روپیہ جو فضول اور بے فائدہ چیزوں پر خرچ کرتے ہیں بچا کر اپنے دوستوں کے لئے تحفے خرید سکتے ہیں یا اپنے ہمسایوں اور واقف کاروں کی اس سے مدد کرسکتے ہیں جس کے نتیجہ میں خدا آپ کے اس کام سے خوش ہوگا اور آپ کو اچھی جزاء عنایت کرے گا اور لوگ بھی آپ کو زیادہ دوست رکھیں گے اور آپ کی زیادہ مدد کریں گے

۱۷۸

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ امام رضا (ع) اور دوسرے ائمہ کا علم کیسا ہوتا ہے اور کیوں تمام لوگوں کے علم پر برتری رکھتا ہے؟

۲)___ عالم آل محمد(ص) کسے کہا جاتا تھا اور کیوں ؟

۳)___ امام رضا (ع) خلفاء عباسی کے کس خلیفہ کے ہم عصر تھے؟

۴)___ مامون نے کیوں امام رضا (ع) کو طوس بلوایا اور امام (ع) سے کیا پیش کش کی؟

۵)___ امام رضا (ع) نے ولی عہدی کو کس شرط پر قبول کیا اور کیوں؟

۶)___ ماموں نے امام (ع) کو کیوں شہید کیا؟

۷)___ امام رضا (ع) کی شہادت کس سال او رکس دن ہوئی؟

۸)___ اسراف سے کیا مراد ہے امام رضا (ع) نے اسراف کے متعلق کیا فرمایا؟

۹)___ اسراف کیوں نہ کریں اعتدال برتنے سے کون سے کام انجام دے سکتے ہیں؟

۱۷۹

ساتواں سبق

نویں امام ''حضرت امام محمد تقی علیہ السلام

ہمارے نویں امام حضرت امام محمد تقی علیہ السلام حضرت امام رضا علیہ السلام کے فرزند ہیں آپ (ع) ایک سوپچا نوے ۱۹۵ ہجری ماہ رمضان میں مدینہ منورہ میں متولد ہوئے آپ (ع) کے والد حضرت امام رضا علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے اور پیغمبر اسلام (ص) کی وصیت کے تحت آپ (ع) کو اپنے بعد لوگوں کا امام معيّن فرمایا اس سے لوگوں کو آگاہ کیا امام محمد تقی علیہ السلام امام جواد کے نام سے بھی مشہور ہیں آپ (ع) بچپن ہی سے اللہ تعالی کے ساتھ خصوصی ربط رکھتے تھے اور اسی سن میں لوگوں کی دینی مشکلات کو حل کرتے تھے اور ان کی راہنمائی اور رہبری فرماتے تھے بہت بڑے بڑے علماء آپ (ع) کی خدمت میں آتے اور بہت سخت اور مشکل دینی اور عملی مسائل آپ (ع) سے پوچھتے امام جواد علیہ السلام ان کے تمام مشکل

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285