‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) جلد ۲

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) 26%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 285

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 285 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 117987 / ڈاؤنلوڈ: 4038
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

اورمہروانگوٹھی بھی تمہیں لوٹا دوںگا حکومت میرے لئے خلائق کو نجات دینے کے علاوہ کچھ نہیں تھی ۔

تم ان کے ساتھ عدالت کے ساتھ پیش بادشاہ ان باتوں کو سننے کے بعد ایسا مسحور ہوا اور خود کو یوسف (ع)کی معنوی عظمتوں کے مقابلے میں اس طرح حقیر سمجھنے لگا کہ یک بارگی بول اٹھا(اشهدان لا اله الا اللّٰه و انک رسوله) میں بھی ایمان لے آیا لیکن تم کو حاکم رہنا پڑے گا۔(فإنّکَ لدینا مکین امین)

افراد کی تشخیص اور ان کے انتخاب میں قرآنی معیار کی طرف توجہ کرنی چاہیئے''حفیظ و علیم'' کے علاوہ قرآن مجید میں دوسرے معیار بھی ذکر کئے گئے ہیں ان میں سے بعض حسب ذیل ہیں:

ایمان: افمن کان مومنا کمن کان فاسقا لایستوون ۔(1)

کیا جو مومن ہو وہ فاسق کی طرح ہوسکتا ہے ؟ یہ دونوں برابر نہیں ہوسکتے۔

سبقت:والسابقون السابقون اولئک المقربون (2)

اور سبقت لے جانے والے تو آگے بڑھنے والے ہی ہیں یہی مقرب لوگ ہیں۔

ہجرت:والذین آمنوا و لم یهاجروا ما لکم من ولایتهم من شی (3)

--------------

( 1 ) سورہ سجدہ آیت 18

( 2 )سورہ واقعہ آیت 10 ۔ 11

( 3 )سورہ انفال آیت 72

۱۲۱

اور جو لوگ ایمان تو لائے مگر انہوں نے ہجرت نہیں کی انکی ولایت سے تمہارا کوئی تعلق نہیں ہے۔

علمی و جسمی قوت:وزاده بسط فی العلم والجسم (1)

اور اسے (طالوت کو) اللہ نے علم اور جسمانی طاقت کی فراوانی سے نوازاہے۔

خاندانی فضیلت:ماکان ابوک امرأَ سوءٍ (2) تیرا باپ برا آدمی نہ تھا۔

جہادومبارزت:فضل اللّٰه المجاهدین علی القاعدین اجراً عظیما (3)

اللہ تعالی نے بیٹھنے والوں کی نسبت جہاد کرنے والوں کو اجر عظیم کی فضیلت بخشی ہے۔

پیام:

1۔جب ضرروت پڑے تو حساس عہدوں کی فرمائش کرنی چاہیئے(اجْعَلْنِی )

2۔نبوت؛ حکومت اور سیاست سے جدا نہیں ہے جس طرح دیانت سیاست سے جدا نہیں ہے(اجْعَلْنِی عَلَی خَزَائِنِ الْأَرْضِ)

--------------

( 1 )سورہ بقرہ آیت 247

( 2 )سورہ مریم آیت 28

( 3 )سورہ نساء آیت 95

۱۲۲

3۔اسلامی حاکم کےلئے کسی خاص مملکت کا باشندہ ہونا ضروری نہیں ہے حضرت یوسف (ع) مصری نہیں تھے لیکن حکومت مصر میں عہدہ دار ہوئے(بعبارت دیگر قوم پرستی ( Nationalism )ممنوع ہے)

4۔بوقت ضرورت اپنی لیاقت و شائستگی کا بیان توکل ، زہد ، اور اخلاص سے منافات نہیں رکھتا۔(إِنِّی حَفِیظٌ عَلِیمٌ )

5۔دو صفات جو بادشاہ نے حضرت یوسف (ع) کے لئے بیان کئے ''مکین ، امین'' اور دو صفات جو حضرت یوسف (ع) نے خود اپنے لئے بیان فرمائے''حفیظ ، علیم'' ہیں ،ان بیانات سے بہترین اور شائستہ عہدےداروں کے اوصاف سمجھ میں آتے ہیں کہ ان کے اوصاف قدرت ، امانت ، حفاظت اور اپنے متعلقہ کام میں مہارت عہدےداروں کے لئے ضروری ہے ۔

6۔منصوبہ بندی اور مصارف و اخراجات کی نگرانی کرتے وقت آئندہ آنی والی نسلوں کا حصہ بھی ملحوظ خاطر ہونا چاہیئے(حَفِیظٌ عَلِیمٌ )

آیت 56:

(56) وَکَذَلِکَ مَکَّنَّا لِیُوسُفَ فِی الْأَرْضِ یَتَبَوَّأُ مِنْهَا حَیْثُ یَشَاءُ نُصِیبُ بِرَحْمَتِنَا مَنْ نَشَاءُ وَلاَنُضِیعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ ۔

''اور ہم نے یوسف کو اس ملک میں اقتدار دیا کہ اس میں جہاں چاہیں اپنا مسکن بنالیں ہم جس پر چاہتے ہیں اپنا فضل کرتے ہیں اور ہم نیکوکاروں کے اجر کو اکارت نہیں کرتے''۔

۱۲۳

آیت 57:

(57) وَلَأَجْرُ الْآخِرَ خَیْرٌ لِلَّذِینَ آمَنُوا وَکَانُوا یَتَّقُونَ

''اور جو لوگ ایمان لائے اور پرہیزگاری کرتے رہے ان کےلئے آخرت کا اجر اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے''۔

نکات:

ان دو آیتوں میں حضرت یوسف (ع) کی توصیف محسن ، مومن اور متقی کہہ کر کی گئی ہے(1) اس پورے سورہ میں خداوندعالم کے ارادے کا مخلوق کے ارادہ سے تقابل کیا جاسکتا ہے (یعنی اس سورہ میں مختلف لوگوں کے مختلف ارادے تھے لیکن خدا کا ارادہ سب پر مسلط ہو کر رہا )

برادران یوسف (ع) نے ارادہ کیا تھا کہ حضرت یوسف (ع) کو کنویںمیں ڈال کر انکو غلام بنا کر ذلیل و رسوا کریں لیکن عزیز مصر نے سفارش کرتے ہوئے کہا تھا''اکرمی مثواه' 'یعنی انکی عزت کرو۔

-------------

( 1 )خداوندعالم نے آیہ شریفہ میں یوسف علیہ السلام کو محسنین کے مصادیق میں سے ایک مصداق قرار دیا ہے قرآن مجید میں محسنین کے لئے دس سے زیادہ الطاف خاصہ خداوندی مذکور ہیں۔

۱۲۴

عزیز مصر کی بیوی نے ارادہ کیا تھا کہ آپ (ع)کے دامن کردار کو آلودہ کردے لیکن خداوندعالم نے اس سے بچا لیا۔زلیخا نے چاہا تھا کہ حضرت یوسف (ع) کو زندان میں بھیج کر ان کی مقاومت کو درہم برہم کردے اور ان کی تحقیر کرے ''لیسجنن ولیکونا من الصاغرین'' لیکن ان سب کے مقابلے میں خداوندعالم نے ارادہ کیا تھا کہ ان کو صاحب عزت قرار دے اور ان کو مصر کا حاکم قراردے۔(مَکَّنَّا لِیُوسُفَ...)

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا یوسف (ع) اس آزاد مرد انسان کا نام ہے جس پر بھائیوں کی حسادت ، کنویں میں ڈالا جانا ، شہوت ، تہمت ، ریاست و قدرت کوئی چیز بھی ان کی مقاومت پر اثرانداز نہ ہوسکی(1) ۔

قرآن مجید میں لفظ'' خیر '' مختلف امور کے سلسلے میں استعمال کیا گیا ہے ۔

مومن کے لئے آخرت بہتر ہے(والاخر خیر و ابقی) (2)

روزہ داروں کے لئے روزہ بہتر ہے(ان تصومواخیرلکم) (3)

حاجی کے لئے قربانی بہتر ہے(لکم فیها خیر) (4)

انسانوں کے لئے تقوی بہتر ہے(ولباس التقوی ذلک خیر) (5)

--------------

( 1 )تفسیر نور الثقلین.

( 2 )سورہ اعلیٰ آیت 17

( 3 )سورہ بقرہ آیت 184

( 4 )سورہ حج آیت 36

( 5 )سورہ اعراف آیت 26

۱۲۵

سپاہی کے لئے جہاد بہتر ہے(عسی ان تکرهوا شیائً و هو خیرلکم) (1)

جزائے اخروی جزائے دنیوی سے بہتر ہے کیونکہ آخرت کی جزا :

(الف) نامحدود ہے(لهم ما یشاون) (2)

(ب) ختم ہونے والی نہیں ہے(خالدین) (3)

(ج)کسی خاص مکان میںمحدود نہ ہوگی(نتبوا من الجنه حیث نشائ) (4)

(د)ہمارے لئے اس کا حساب کرنا ممکن نہیں(اجرَهم بغیر حساب) (5)

(ھ)وہاںامراض ، آفات اور پریشانیوں کا گزر نہیں(لایصدعون) (6)

(و)اضطراب و بے چینی کا گزر نہیں(لاخوف علیهم ولا هم یحزنون) (7)

(ز)جزا پانے والے اولیا، خداوندعالم کے پڑوسی ہیں(وهم جیرانی)

--------------

( 1 )سورہ بقرہ آیت 216

( 2 )سورہ زمر آیت 34

( 3 )سورہ فرقان آیت 16

( 4 )سورہ زمر آیت 74

( 5 )سورہ زمر آیت 10

( 6 )سورہ واقعہ آیت 19

( 7 )سورہ بقرہ آیت 112

۱۲۶

پیام:

1۔خدا کی سنت ہے کہ پاکدامن اور باتقوی افراد کو عزت بخشے گا۔(کذلک...)

2۔اگرچہ بظاہر بادشاہ مصر نے حضرت یوسف (ع) سے کہا تھا کہ(انک الیوم لدینا مکین) لیکن در حقیقت خدا وندعالم نے حضرت یوسف (ع) کو قدرت دی تھی(مکن)

3۔حضرت یوسف (ع) کے اختیارات کا دائرہ وسیع تھا(حیث یشائ)

4۔مملکت کے بحرانی حالات میں حکومتیں اس بات کا اختیار رکھتی ہیں کہ لوگوں کے اپنے اموال و املاک میں تصرف کی آزادی کو محدود کرتے ہوئے اسے اپنے اختیار میںلے کر عمومی مصالح میں خرچ کریں(یَتَبَوَّأُ مِنْهَا حَیْثُ یَشَائ)

5۔قدرت اگر اہل افراد کے ہاتھوں میں ہوتو رحمت ہے وگرنہ نقصان دہ ہے(نُصِیبُ بِرَحْمَتِنَ)

6۔اگر انسان تقوی الٰہی اختیار کرے تو خدا اپنی رحمتیں اس پر نازل کرتا ہے(نُصِیبُ بِرَحْمَتِنَا...لِلَّذِینَ...کَانُوا یَتَّقُونَ)

7۔الٰہی نظریہئ کائنات میں کوئی کام بھی بغیر اجر کے نہیں رہتا ہے(لاَنُضِیعُ )

8۔لوگوں کے حقوق کا ضائع کرنایا تو جہالت کی بنیاد پر ہوتا ہے یا بخل کی وجہ سے یا پھر نادانی کی وجہ سے یا...جن میں سے کوئی بھی خدا میں موجود نہیں ہے۔(لاَنُضِیعُ)

9۔مشیت الٰہی ،بانظم اور قانون وضابطہ سے ہے(نُصِیبُ بِرَحْمَتِنَا... وَلاَ نُضِیعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ )

10۔حالانکہ تمام چیزیں مشیت الٰہی کے تحت ہوتی ہےں لیکن چونکہ خداوندعالم حکیم ہے لہٰذا کسی کوبھی بغیر لیاقت کے قدرت و صلاحیت نہیں دیتا(أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ)

۱۲۷

11۔نیک سیرت اور اچھے اعمال بجالانے والے اشخاص جہاں دنیاوی زندگی میں نعمتوں سے بہرہ مند ہوتے ہیں وہاں آخرت میں اس سے کہیں بہتر اجر و ثواب ان کے شامل حال ہوتا ہے۔( وَلاَ نُضِیعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ وَلَأَجْرُ الْآخِرَ خَیْرٌ )

12۔راہ خدا پر گامزن مردانِ خدا کے لئے مادی وسائل اور ظاہری حکومت لذت آور نہیں ہے بلکہ ان کے لئے جو چیز مطلوب و محبوب ہے وہ آخرت ہے(وَلَأَجْرُ الْآخِرَ خَیْرٌ )

13۔ایمان کے ساتھ ساتھ باتقوی ہونا بھی ضروری ہے وگرنہ گنہگار مومن کی عاقبت مبہم اور غیر یقینی ہے( آمَنُوا وَکَانُوا یَتَّقُونَ)

14۔وہ تقوی قابل قدر ہے جس میں پائیداری و ہمیشگی پائی جائے،(کَانُوا یَتَّقُونَ)

15۔ایمان و تقوی کا لازم ملزوم ہونا آخرت کے اجر و ثواب سے بہرہ مند

ہونے کی شرط ہے(وَلَأَجْرُ الْآخِرَ خَیْرٌ لِلَّذِینَ آمَنُوا وَکَانُوا یَتَّقُونَ )

16۔اگر نیک سیرت افراد کو اس دنیا میں اجر و مقام و منزلت نہ مل سکے تو اسے مایوس اور مضمحل نہیں ہونا چاہیئے کیونکہ آخرت میںاس کی جزا مل جائے گی۔(لاَنُضِیع... وَلَأَجْرُ الْآخِرَ خَیْرٌ)

۱۲۸

آیت 58:

(58) وَجَاءَ إِخْوَ یُوسُفَ فَدَخَلُوا عَلَیْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنکِرُونَ

''اور (چونکہ کنعان میں بھی قحط تھا، اس وجہ سے) یوسف (ع) کے (سوتیلے)بھائی (غلہ خریدنے کےلئے مصر میں)آئے اور یوسف کے پاس گئے تو یوسف نے ان کو فوراً پہچان لیا اور وہ یوسف کو پہچان نہیں رہے تھے''۔

نکات:

حضرت یوسف (ع) کی پیشین گوئی کے عین مطابق لوگوں کو سات سال تک بے حساب نعمت اور بارش میسر رہی ۔لیکن جب دوسرے سات سال آئے اور لوگ قحط وخشک سالی سے دوچار ہوئے تو اس خشک سالی کا دائرہ مصر سے فلسطین و کنعان تک آگے بڑھ گیا۔

حضرت یعقوب (ع) نے اپنے فرزندوں سے کہا کہ گیہوں مہیا کرنے کے لئے مصر ج ۔ وہ لوگ مصر میں وارد ہوئے اور اپنی درخواست پیش کی ۔ حضرت یوسف (ع) نے ان تقاضا مندوں کے درمیان اپنے بھائیوں کو دیکھ لیا لیکن وہ لوگ حضرت یوسف (ع) کو پہچان نہ سکے اور حق بھی یہی تھا کہ نہ پہچانیں کیونکہ حضرت یوسف (ع) کو کنویں میں ڈالنے سے لے کر مصر کی حکومت تک پہنچنے میں تقریباً 20 بیس سے تیس 30 سال کا عرصہ گزر چکا تھا ۔(1)

--------------

( 1 )یوسف (ع)کو جب کنویں سے نکالا گیاتو آپ (ع)نوجوان تھے (یابشری ھذا غلام)چند سال عزیز مصر کے خدمت گزار رہے،چندسال قید خانہ میں زندگی بسر کی، زندان سے آزادی کے بعد بھی سات سال کا دور(نعمات کی فراوانی اورکثیر پانی کا زمانہ )گزرچکا تھا۔ اب جب قحط کا زمانہ آیا تو اس وقت برادران یوسف مصر آئے۔

۱۲۹

پیام:

1۔خشک سالی کے زمانہ میں معین اور محدود مقدارمیں غذا تقسیم کرنی چاہیئے اور ہر شخص کوا پنا حصہ لینے کے لئے خود آنا چاہیئے تا کہ دوسرے اس کے نام سے سوء استفادہ نہ کرسکیں(اخو )حالانکہ ممکن تھا کہ ایک بھائی کو سب کا نمائندہ بنا کر مصر روانہ کردیا جاتا لیکن سب بھائی اکٹھے مصر آئے ۔

2۔خشک سالی کے زمانہ میں اگر دوسرے شہروں کے افراد امداد طلب کریں تو ان کی مدد کرنی چاہیئے( وَجَاءَ إِخْوَ یُوسُفَ)

3۔حضرت یوسف (ع) سے لوگ بہت آسانی سے ملاقات کرلیا کرتے تھے یہاں تک کہ غیر مصری افراد بھی(وَجَاءَ إِخْوَ یُوسُفَ ...فَدَخَلُو) (حکمرانوں کو ایسا پروگرام بنانا چاہیئے کہ لوگ بآسانی ان سے ملاقات کرسکیں)

آیت 59:

(59) وَلَمَّا جَهَّزَهُمْ بِجَهَازِهِمْ قَالَ ائْتُونِی بِأَخٍ لَکُمْ مِنْ أَبِیکُمْ ألاَ تَرَوْنَ أَنِّی أُوفِی الْکَیْلَ وَأَنَا خَیْرُ الْمُنزِلِینَ

''اور جب یوسف ان کے لئے سامان تیار کرچکے تو کہنے لگے :(دوبارہ تو)باپ کی طرف سے اپنے ایک سوتیلے بھائی کو میرے پاس لانا ۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ میں پورا ناپتا ہوں اور بہترین مہمان نواز ہوں؟''

۱۳۰

نکات:

حضرت یوسف (ع) نے فرمایا(ائْتُونِی بِأَخٍ لَکُمْ ) یعنی آئندہ اپنے اس بھائی کو اپنے ہمراہ لانا جو تمہارا پدری بھائی ہے آپ (ع)نے یہ نہیں فرمایا : میرے بھائی کو لیتے آنا ،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف (ع) نے دانستہ تجاہل سے گفتگو کا سلسلہ جاری کیا تھا ۔

ان لوگوں نے بھی (جیسا کہ تفاسیر میں آیا ہے) بتانا شروع کردیا کہ ہم حضرت یعقوب (ع) کے فرزند اور جناب ابراہیم کے پوتے ہیں، ہمارے والدگرامی ضعیف ہوچکے ہیں جو اپنے اس فرزند کے غم و اندوہ میں جسے بھیڑئے نے پھاڑ ڈالا تھا،وہ سالہاسال سے گریہ کررہے ہیں ۔ انہوں نے گوشہ نشینی اختیار کرلی ہے اور نابینا ہوچکے ہیں ہم لوگوں نے اپنے ایک بھائی کو انہی کی خدمت کے لئے چھوڑ دیا ہے ممکن ہو تو اس بھائی اور والد کا حصہ ہمیں عنایت فرمادیں تاکہ ہم خوشحال ہوکر واپس لوٹیں (یہ سن کر)حضرت یوسف (ع)نے حکم دیا کہ :دس اونٹوں پر لادے جانے والے بار میں دو حصوں( حضرت یعقوب (ع) اور ان کے بیٹے کے لئے )کا اضافہ کردیا جائے۔ حضرت یوسف (ع)نے اپنے بھائیوں کو اپنی طرف کھینچنے اور جذب کرنے کےلئے فرمایا(انَا خَیْرُ الْمُنزِلِینَ ) (یعنی ) میں بہترین میزبان ہوں اس کا اثر یہ ہوا کہ اس جملے کو سنتے ہی وہ لوگ حضرت یوسف کے زیادہ قریب ہوگئے لیکن (مقام افسوس ہے) کہ خداوندعالم اپنے بندوں کو اپنی طرف کھینچنے اور جذب کرنے کے لئے مختلف تعبیرات استعمال فرماتا ہے لیکن اس کے باوجود بہت سے افراد اس کی طرف مائل نہیں ہوتے!!۔(1)

--------------

( 1 )خیر الرازقین ، وہ بہترین روزی دینے والا ہے۔سورہ مومنون آیت 72 ۔ خیر الغافرین ، وہ بہترین بخشنے والا ہے سورہ اعراف آیت 155 ۔ خیر الفاتحین ، وہ بہترین گشایش کرنے والا ہے۔سورہ اعراف آیت 89 ۔ خیرالماکرین ، وہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے سورہ انفال آیت 30 ۔ خیر الحاکمین ، وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے، سورہ یونس آیت 109

۱۳۱

پیام:

1۔حضرت یوسف (ع) اس غلے کی ذاتی طور پر نگرانی فرمارہے تھے جو مصر میںخشک سالی کے ایام کے لئے ذخیرہ کیا گیا تھا(جَهَّزَهُمْ )

2۔راز داری و سچائی دونوں ضروری ہیں حضرت یوسف (ع) نے فرمایا(أَخٍ لَکُمْ) ''تمہارا بھائی'' ''میرا بھائی نہیں فرمایا'' تاکہ سچائی اور راز داری دونوں کا پاس رکھا جاسکے ۔

3۔بحران اورخشک سالی کے زمانہ میں بھی بے عدالتی اور کم ناپ تول ممنوع ہے(أُوفِی الْکَیْل)

4۔معاملے کے دوران ''جنس'' کی مقدار معین ہونی چاہیئے(الْکَیْل)

5۔جولوگ ، ادارے یا ممالک کسی کی اقتصادی مدد کرتے ہیں وہ اس کی صحیح سمت رہنمائی یا دیگر مصلحتوں کے پیش نظر بعض شرطوں کو پیش کرسکتے ہیں(ائْتُونِی بِأَخٍ...)

6۔کسی ادارے یا ملک میں کام کرنے والے افراد اگر کوئی برا کام کریں یا عدل و انصاف سے کام لیں تو اس کا سارا کریڈٹ سربراہ کو جاتا ہے۔(أَنِّی أُوفِی (ع)(ع)الْکَیْلَ )

7۔مہمان نوازی انبیاء (ع)کے اخلاق میں سے ہے(خَیْرُ الْمُنزِلِین)

8۔وہ مسافر یا کاروان جو آپ کے علاقہ میں وارد ہو ،اس کا احترام کرنا چاہیئے اگرچہ قحط کا زمانہ ہی کیوں نہ ہو۔(خَیْرُ الْمُنزِلِین)

۱۳۲

آیت 60:

(60) فَإِنْ لَمْ تَأْتُونِی بِهِ فَلاَ کَیْلَ لَکُمْ عِندِی وَلاَ تَقْرَبُونِ.

''پس اگر تم اس کو میرے پاس نہ ل گے تو تمہارے لئے نہ میرے پاس کچھ (غلہ وغیرہ) ہوگا اور نہ ہی تم میرے نزدیک آسکوگے''۔

پیام:

1۔انتظامی امور میں محبت و دھمکی دونوں ضروری ہیں حضرت یوسف (ع) نے پہلے مژدہ ئ محبت دیا(أنَا خَیْرُ الْمُنزِلِینَ ) پھر تہدید اورالٹی میٹم ( ultimatum )دیا(فَإِنْ لَمْ تَأْتُونِی)

2۔قانون کو جاری کرتے وقت ،بھائی، خاندان اور دیگر افراد کے درمیان فرق نہیں کرنا چاہیئے(فَلاَکَیْلَ لَکُمْ ) (ہر شخص کا ایک خاص حصہ تھا اور اسے اپنا حصہ خود آکر لینا تھا)

3۔دھمکی و وعید میں ضروری نہیں ہے کہ سربراہ و مدیر صددرصد اس دھمکی کے اجرا کا ارادہ بھی رکھتا ہو(فَلاَکَیْلَ لَکُمْ) (کیونکہ حضرت یوسف (ع) ایسے نہ تھے کہ وہ قحط کے زمانہ میں اپنے بھائیوں کو مرتا ہوا دیکھےں)

4۔رہبری کی ایک بڑی شرط یہ ہے کہ وہ اپنے منصوبے اور پروگرام ( program ) کا اجرا کرنے میں مصمم ارادے کا حامل ہو( فَلاَ کَیْلَ لَکُمْ وَلاَ تَقْرَبُون)

۱۳۳

آیت 61:

(61)قَالُوا سَنُرَاوِدُ عَنْهُ أَبَاهُ وَإِنَّا لَفَاعِلُونَ

''وہ لوگ کہنے لگے ہم اس کے والد سے اس کے بارے میں جاتے ہی درخواست کریں گے اور ہم ضرور اس کام کو کریں گے''۔

نکات:

مراود: یعنی پے درپے اور مسلسل التماس کے ساتھ یا دھوکہ کے ساتھ رجوع کرنے کو کہتے ہیں۔

ان بھائیوں کی گفتگو میں اب بھی حسد کی بو محسوس کی جاسکتی ہے ذرا غور کیجئے ''ابانا'' ہمارے باپ کی بجائے ''اباہ'' اس کے باپ کہا ہے جب کہ سورہ کے آغاز میں ان کی گفتگو یہ ہے کہ (لیوسف و اخوہ احب الی ابینا منا)یعنی حضرت یعقوب (ع)ہمارے باپ ہیں لیکن یوسف (ع)اور ان کے بھائی کو ہم سے زیادہ چاہتے ہیں۔

۱۳۴

آیت 62:

(62) وَقَالَ لِفِتْیَانِهِ اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُمْ فِی رِحَالِهِمْ لَعَلَّهُمْ یَعْرِفُونَهَا إِذَا انقَلَبُوا إِلَی أَهْلِهِمْ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ

''اور یوسف نے اپنے ملازموں کو حکم دیا کہ ان کی (جمع)پونجی جو غلے کی قیمت تھی ان کے سامان میں (چپکے سے) رکھ دو تاکہ جب یہ لوگ اپنے اہل (و عیال) کے پاس لوٹ کرجائیں تو اپنی پونجی کو پہچان لیں (اور اس طمع میں) شاید پھر لوٹ کر آئیں''۔

نکات:

حضرت یوسف (ع) جیسی شخصیت جن کے بارے میں گزشتہ آیات نے صادق ، محسن ، مخلص جیسے گراں بہا الفاظ کے ذریعہ قصیدے پڑھے ،ان سے یہ بات ناممکن ہے کہ وہ بیت المال کو اپنے باپ اوربھائیوں میں تقسیم کردیں، ممکن ہے کہ آپ (ع)نے غلے کی قیمت اپنی ذاتی ملکیت سے ادا کی ہو۔

پیسہ لوٹا دیا تا کہ فقر و ناداری دوسرے سفر میں حائل نہ ہونے پائے( لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ)

علاوہ ازیں پیسہ کا لوٹا دینا اس بات کی دلیل ہے کہ ہم قلبی لگ کی بنیاد پر دوبارہ بلا رہے ہیں اور بھائی کو بلانے میں ہمارا کوئی بُرا ارادہ بھی نہیں ہے ،نیز حضرت یوسف، اجناس کے درمیان ان کی رقم کو مخفیانہ طور پر رکھوا کر نہ صرف ان پر کوئی احسان جتلانا نہیں چاہتے تھے بلکہ چوروں اور رہزنوں سے اس رقم کو محفوظ بھی کررہے تھے ۔

حضرت یوسف (ع) کہ جو کل تک غلام تھے آج آپ کے اردگرد غلام ہیں( لِفِتْیَانِهِ) لیکن بھائیوں سے ملاقات کے وقت نہ ہی ان سے انتقام لیا ،نہ ہی کوئی گلہ شکوہ کیا اور نہ ہی دل میں کینہ رکھا، بلکہ ان کا سرمایہ لوٹا کر انہیں متوجہ کیا کہ میں تم لوگوں کو چاہتا ہوں ۔

۱۳۵

پیام:

1۔لائق و فائق رہبر کے منصوبے ، نئے اور جدید ہونے چاہیئےں( اجْعَلُو)

2۔انتقام و کینہ کچھ بھی نہیں بلکہ آئندہ کے رابطے کو یقینی بنانے کے لئے ہدیہ پیش کیا جارہا ہے۔( اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُمْ فِی رِحَالِهِمْ... لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ )

3۔لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے کے لئے روپے پیسے کی پرواہ نہیں کرنی چاہیئے ۔(اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُمْْ... لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ)

4۔محتاجی و نیاز مندی کے زمانے میں بوڑھے باپ اور بھائیوں سے پیسہ لینا کرامت نفس کے منافی ہے( اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُمْ فِی رِحَالِهِمْ)

5۔صلہ رحم یعنی مدد کرنا ، نہ کہ کاروبار کرنا( اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُم)

6۔برائیوں کا بدلہ اچھائیوں سے دینا چاہیئے( اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُم)

7۔پروگرام ( pragrams )اور منصوبوں کے سو فیصد قابل عمل ہونے کا یقین ضروری نہیں ہے( لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ)

۱۳۶

آیت 63:

(63) فَلَمَّا رَجَعُوا إِلَی أَبِیهِمْ قَالُوا یَاأَبَانَا مُنِعَ مِنَّا الْکَیْلُ فَأَرْسِلْ مَعَنَا أَخَانَا نَکْتَلْ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ

''غرض جب یہ لوگ اپنے والد کے پاس پلٹ کر آئے تو سب نے مل کر عرض کی اے بابا! ہمیں (آئندہ) غلہ ملنے کی ممانعت کردی گئی ہے لہٰذا آپ ہمارے ساتھ ہمارے بھائی (بنیامین) کو بھیج دیجئے تاکہ ہم (پھر) غلہ حاصل کریں اور بے شک ہم اس کی پوری حفاظت کریں گے''۔

پیام:

1۔حضرت یعقوب (ع) کو اپنے خاندان اور بیٹوں پر مکمل کنٹرول اور تسلط حاصل تھا(یَاأَبَانَا مُنِعَ )

2۔باپ کو حق ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو حکم دے یا کسی کام سے روک دے(فَأَرْسِلْ)

3۔بنیامین اپنے باپ کی اجازت کے بغیر سفر نہیں کرتے تھے(فَأَرْسِلْ مَعَنَ)

4۔کسی چیز کو لینے اور کسی کے اعتماد کو حاصل کرنے کے لئے عواطف و احساسات سے استفادہ کیا جاتا ہے(أَخَانَا )

5۔مجرم چونکہ اپنے ضمیر کی عدالت میں پریشان ہوتا ہے لہٰذا اپنی گفتگو میںپے درپے یقین دلانے کی کوشش کرتا ہے(إِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ) ''لفظإنّا ''اور حرف لام اور اس جملے کا جملہ اسمیہ ہونا یہ سب تاکید پر دلالت کرتے ہیں یعنی آپ(ع) کے بیٹے آپ(ع) کو بھرپور یقین دلوانا چاہتے تھے ۔

۱۳۷

آیت 64:

(64) قَالَ هَلْ آمَنُکُمْ عَلَیْهِ إِلاَّ کَمَا أَمِنتُکُمْ عَلَی أَخِیهِ مِنْ قَبْلُ فَاﷲُ خَیْرٌ حَافِظًا وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ

''(حضرت )یعقوب(ع) بولے : کیا میں اس کے بارے میں تم پر اسی طرح اعتماد کروں جس طرح اس سے پہلے اس کے بھائی (یوسف) کے بارے میں کیا تھا؟ اللہ بہترین محافظ ہے اور وہ بہترین رحم کرنے والا ہے''۔

نکات:

سوال: حضرت یعقوب(ع) کے بیٹوںکی بری سیرت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ سوال اٹھتا ہے کہ دوبارہ حضرت یعقوب (ع) نے پھر کیوں اپنے دوسرے فرزند (بنیامین ) کو ان کے حوالے کردیا؟

اس سوال کے جواب میں فخر رازی نے متعدد احتمالات پیش کئے ہیں جس کی بنیاد پر حضرت یعقوب (ع) کے اس عمل کی توجیہ کی جاسکتی ہے :

1۔حضرت یوسف (ع) کے بھائی گزشتہ عمل کی بنیاد پر اپنا مقصد (باپ کی نگاہ میں محبوبیت) حاصل نہ کرسکے تھے۔

2۔وہ بنیامین سے حضرت یوسف (ع) کی نسبت کم حسد کرتے تھے ۔

3۔شایدخشک سالی کی وجہ سے مشکلات اتنی زیادہ ہوگئی ہوں کہ بنیامین کے ہمراہ دوسرا سفر ضروری ہو گیا ہو۔

4۔حضرت یوسف (ع) کے واقعہ کو دسیوں سال گزر چکے تھے اور اس کا زخم کافی ہلکا ہوچکا تھا۔

5۔خداوندعالم نے حضرت یعقوب(ع) سے ان کے بچے کی حفاظت کا وعدہ کرلیا تھا۔

۱۳۸

پیام:

1۔جس شخص کا گزشتہ ریکارڈ( record ) خراب ہو اس پر فوراً اعتماد کرنا صحیح نہیںہے۔(هَلْ آمَنُکُمْ )

2۔ماضی کی تلخ یادیں انسان کو آئندہ پیش آنے والے حادثات کا سامنا کرنے کے لئے آمادہ کردیتی ہیں۔( هَلْ آمَنُکُمْ ...عَلَی أَخِیهِ مِنْ قَبْلُ)

3۔خداوندعالم کی بے نظیر رحمت کو پیش نظر رکھتے ہوئے نیز اس پر توکل و بھروسہ کرتے ہوئے حادثات ِ زندگی کا مقابلہ کرنا چاہیئے( فَاﷲُ خَیْرٌ حَافِظًا وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ)

4۔ایک شکست یا کسی تلخ تجربے کی بنیاد پر انسان کو پیچھے نہیں ہٹنا چاہیئے۔(هَلْ آمَنُکُمْ عَلَیْهِ...فَاﷲُ خَیْرٌ حَافِظً) (1) یعقوب نے خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے دوبارہ بھی دوسرے فرزند کو ان کے حوالے کردیا۔

5۔رحمت خدا، سرچشمہ حفاظت ہے( فَاﷲُ خَیْرٌ حَافِظًا وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ)

آیت 65:

(65)وَلَمَّا فَتَحُوا مَتَاعَهُمْ وَجَدُوا بِضَاعَتَهُمْ رُدَّتْ إِلَیْهِمْ قَالُوا یَاأَبَانَا مَا نَبْغِی هَذِهِ بِضَاعَتُنَا رُدَّتْ إِلَیْنَا وَنَمِیرُ أَهْلَنَا وَنَحْفَظُ أَخَانَا وَنَزْدَادُ کَیْلَ بَعِیرٍ ذَلِکَ کَیْلٌ یَسِیرٌ

''اور جب ان لوگوں نے اپنے اپنے اسباب کھولے تو اپنی اپنی پونجی کو دیکھا کہ بعینہ واپس کردی گئی ہے (تو اپنے باپ سے) کہنے لگے اے بابا! ہمیں(اور) کیا چاہیے (دیکھئے ) یہ ہماری (جمع) پونجی تک تو ہمیں واپس دےدی گئی ہے (اور

--------------

( 1 )آیت نمبر 12 میں حضرت یعقوب(ع) نے حضرت یوسف (ع)کے لئے ان کے بھائیوں کے محافظ ہونے پر بھروسہ کیا تھا جس کے نتیجے میں یوسف (ع)کی جدائی اور نابینائی کا داغ اٹھانا پڑا لیکن بنیامین کے مورد میں خدا پر بھروسہ کیا اور کہا(فَاﷲُ خَیْرٌ حَافِظًا) نتیجہ یہ ہوا کہ بینائی بھی مل گئی اور فراق و جدائی ،وصال و ملن میں تبدیل ہوگئی۔

۱۳۹

غلہ مفت ملا اب آپ بنیامین کو جانے دیجئے تو ) ہم اپنے اہل و عیال کے واسطے غلہ لائیں گے اور اپنے بھائی کی پوری حفاظت کریں گے۔ اور ایک بار شتر غلہ اور بڑھوا لائیں گے یہ (جو اب کی دفعہ لائے تھے ) تھوڑا سا غلہ ہے (یا معنی یہ ہو کہ ایک اضافی اونٹ کا بار عزیز مصر کےلئے معمولی چیز ہے)''

نکات:

کلمہ ''نمیر'' مادہ ''میر ''سے ہے یعنی کھانے پینے کا سامان''نمیر اهلنا'' یعنی اپنے گھر والوں کی غذا فراہم کریں گے ۔

جملہ'' َنَزْدَادُ کَیْلَ بَعِیرٍ'' سے استفادہ ہوتا ہے کہ ہر شخص کا حصہ ایک بارِ شتر تھا جس کی بنیاد پر خود حاضر ہونا ضروری تھاتا کہ اسے حاصل کرسکے ۔

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

پہلا سبق

پیغمبر کا خلیفہ اور جانشین کون ہوسکتا ہے

ہوائی جہاز پر مسافر سوار ہوچکے تھے لیکن ابھی ہوائی جہاز کا پائلٹ نہیں آیا تھا اور وہ آبھی نہیں سکا تھا کسی آدمی کو اس کی جگہ لایا جائے گا کہ جو مسافر وں کو ان کی منزل تک پہنچادے کیا انہیں مسافروں میں سے کسی ایک کوا ہوائی جہاز میں کسی کام کرنے والے کو کسی راہ گیر کو آیا اسے جو ہوائی جہاز چلانے میں مہارت اور آگاہی نہ رکھتا ہو ہوئای جہا زجلانے کے لئے اس پائلٹ کی جگہ بھیج دیا جائے گا؟ کیا اس پر مسافر اعتماد کرسکیں گے اور کیا وہ ہوائی جہاز اڑاسکے گا کون آدمی ایک پائلٹ کا جانشین ہوسکتا ہے؟ یقینا وہ آدمی جو ہوائی جہاز چلانے میں مہارت رکھتا ہو اور اس فن میں کافی معلومات اور آگاہی رکھتا ہو اور خود پائلٹ ہو اس مثال کو دیکھتے ہوئے آپ یہ کہہ سکتے

۱۶۱

ہیں کہ کو آدمی پیغمبر(ص) کا جانشین او رخلیفہ ہوسکتا ہے؟

پیغمبر(ص) کا جانشین کیسا ہونا چاہیئے

آیا وہ آدمی جو لوگوں کی ہدایت اہليّت اور اس کے متعلق کامل علم نہ رکھتا ہو وہ پیغمبر کا جانشین ہوسکتا ہے آیا وہ آدمی جو دین اسلام کے قوانین نہ جانتا ہو اور ان میں غلطیاں کرتا اور گناہ کرتا ہو پیغمبر اسلام(ص) کا جانشین اور خلیفہ ہوسکتا ہے اور اس منصب کے لائق ہوسکتا ہے_

کون بہتر جانتا ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) کی جانشینی کے لئے کون لائق اور سزاوار ہے خدا بہتر جانتا ہے یا لوگ یقینا خدا بہتر جانتا ہے لہذا خدا ہی پیغمبر اسلام(ص) کی جانشینی کے لئے کسی لائق انسان کو معین کرتا ہے اور پیغمبر(ص) کو حک۴م دیتا ہے کہ علم الہی کو جو اس کو دیا گیا ہے اسے بھی آگاہ کرے پیغمبر(ص) بھی اللہ کے حکم پر علم الہی کو جو اس کو دیا گیا ہے اسے بھی آگاہ کرے پیغمبر(ص) بھی اللہ کے حکم پر عمل کرتا ہے اور اس کا اپنی جانشینی کے لئے اعلان کرتا ہے پیغمبر(ص) کے جانشین کوامام کہا جاتا ہے_

۱۶۲

دوسرا سبق

پیغمبر کا جانشین امام معصوم ہوتا ہے

پیغمبر اللہ کے حکم سے ایک ایسے انسان کو جو امین اور معصوم ہوتا ہے اپنی جانشینی کے لئے چنتا ہے تا کہ وہ اس کا خلیفہ ہو اور اس کے کاموں کو انجام دے امام ایک امین اور معصوم انسان ہوتا ہے کہ جسے خدا لوگوں کی رہبری کے لئے انتخاب کرتا ہے اور اللہ کے فرمان اور حکم سے پیغمبر اسے لوگوں کو بتلاتا اور اعلان کرتا ہے تا کہ وہ اپنے کردار اور گفتار سے لوگوں کی اللہ تعالی کی طرف راہنمائی او رہدایت کرے اور لوگ اپنی زندگی میں اسے اپنے لئے نمونہ قرار دیں اور اس کی پیروی کریں پیغمبر(ص) اللہ تعالی کے حکم سے اپنے علم اور آگاہی کو اس کے اختیار میں قرار دیتا ہے تا کہ لوگوں کی راہنمائی اور رہبری کرسکے امام دین کے قانون اور دستور کو جانتا ہے یعنی خدا اور پیغمبر اسے اس کی تعلیم دیتے ہیں اور پھر وہ

۱۶۳

اسے لوگوں تک پہنچاتا ہے امام پیغمبر کی طرح دین کا کامل نمونہ ہوتا ہے اور دین کے پورے احکا اور دستور پر عمل کرتا ہے_

امام پیغمبر(ص) کی طرح نگاہ کی نجاست اور قباحت کو دیکھتا ہے اور اسی علم و آگاہی کی وجہ سے ہرگز گناہ نہیں کرتا بلکہ گناہ سے دور رہتا ہے امام پیغمبر کی طرح نگاہ اور غلطی نہیں کرتا لوگ اس پر اعتماد کرتے ہیں اور اس کے اقوال اور اعمال کی پیروی کرتے ہیں_

بارہ امام (ع) تمام کے تمام معصوم ہیں یعنی گناہ نہیں کرتے کامل طور پر امین اور صحیح انسان ہیں دین اسلام کے احکام اور قوانین کو ٹھیک اور کامل لوگوں تک پہنچاتے ہیں یعنی اس میں غلطی اور نسیان نہیں کرتے_

سوالات

۱)___کون آدمی پیغمبر کا جانشین ہوسکتا ہے؟

۲)___ کیا گناہ اور خطا کار آدمی مسلمانوں کا امام ہوسکتا ہے اور کیوں؟

۳)___ دین کا کامل نمونہ ہونے کا کیا مطلب ہے؟

۴)___ امام گناہوں سے کیوں دور رہتا ہے؟

۵)___ علم اور آگاہی امام کو کون د یتا ہے؟

۶)___ معصوم ہونے سے کیا مراد ہے؟

۷)___ امام پر اللہ کی کیا ذمہ اری عائد ہوتی ہے؟

۱۶۴

تیسرا سبق

عید غدیر

پیغمبر اسلام(ص) اپنی زندگی کے آخری سال حج بجالانے کے لئے تشریف لے گئے اور مسلمانوں کو بھی دعوت دی کہ وہ بھی اس سال حج میں شریک ہوں اس کی بناپر مسلمانوں نے جو بھی حج کے لئے آسکتے تھے پیغمبر کے اس فرمان کو قبول کیا اور تھوڑی مدت میں مسلمانوں کی کافی تعداد مکہ کی طرف روانہ ہوگئی وہاں حج کی باعظمت عبادت میں شرکت کی اور حج کے پورے اعمال پیغمبر اکرم(ص) سے یاد کئے_

جب حج اور خانہ کعبہ کی زیارت کے اعمال ختم ہوگئے تو قافلے واپس لوٹنے کے لئے تیاری کر کے چل پڑے پیغمبر اسلام(ص) نے بھی قافلوں کے ساتھ مدینہ کی طرف حرکت کی اونٹوں کی گھنٹیوں کی آواز نے میدانوں کی خاموشی کو توڑ دیا تھا موسم بہت گرم تھا اور صحرا آگ برسا

۱۶۵

رہا تھا کہ راستے میں پیغمبر اسلام(ص) پر اللہ تعالی کی طرف سے وحی نازل ہوئی اور یہ پیغام اللہ تعالی کی طرف سے پیغمبر اسلام (ص) کے لئے آیا_

اے پیغمبر(ص) وہ پیغام جو اللہ تعالی کی طرف سے آپ کی طرف اتارا جاچکا ہے لوگوں تک پہنچا دیجئے اگر اسم میں کوتاہی کی تو آپ(ص) نے کار رسالت ہی انجام نہیں ی_ اللہ آپ(ص) کو دشمنوں سے محفوظ رکھے گا اور کافر اپنے مقصد تک نہیں پہنچیں گے پیغمبر اسلام(ص) وہیں پر فوراً اتر گئے تا کہ اللہ تعالی کے اس حکم پر عمل کریں مسلمانوں کی ایک تعداد کو آواز دی اور فرمایا کہ جتنے قافلے آگے جاچکے ہیں ان کی خبر کرو کہ وہ واپس لوٹ آئیں اور وہ قافلے جو پیچھے رہ گئے ہیں اور ابھی یہاں نہیں پہنچے انہیں کہو کہ جلد وہ یہاں پہنچ جائیں یہ لوگ تیز رفتار اونٹوں پر سوار ہوئے اور تیزی سے ان قافلوں کو جو آگے چلے گئے تھے جا ملے اور انہیں آواز دی ٹھہرو ٹھہرو، واپس لوٹ آؤ، قافلے والوں نے اونٹوں کی مہاریں کھینچیں اور اونٹوں کی گھنٹیاں خاموش ہوگئیں برابر پوچھ رہے تھے کیوں ٹھہریں، کیا خبر ہے، اس گرمی کے عالم میں کیوں رکیں؟ اور واپس لوٹ آئیں''

اونٹ سوار کہتے کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا ہے لوٹ آؤ غدیر کے نزدیک میرے پاس اکھٹے ہوجاؤ قافلے واپس لوٹ آئے غدیر کے قریب اپنے سامان کو اتارا اور جو قافلے ابھی تک نہیں پہنچے تھے وہ بھی پہنچ گئے اس طرح ہزاروں مسلمان جو حج سے واپس آرہے تھے اٹھارہ ذی الحجہ کو جمع ہوگئے ظہر کی نماز انہوں نے پیغمبر اسلام(ص) کے ساتھ پڑھی

۱۶۶

اس کھے بعد اونٹوں کے پالانوں سے منبر بنایا گیا پیغمبر اسلام(ص) اس منبر پر گئے تا کہ اللہ تعالی کے فرمان کو انجام دیں او روہ اہم پیغام لوگوں تک پہنچادیں تمام لوگ چپ اور منتظر بیٹھے تھے کہ پیغمبر اسلام(ص) کا پیغام سنیں اور دیکھیں کہ وہ اہم پیغام کیا ہے؟

پیغمبر اسلام(ص) نے چند مفید کلمات کے بعد آسمانی آواز میں جو سب تک پہنچ رہی تھی لوگوں سے پوچھا لوگو تمہارا پیشوا اور حاکم کون ہے؟ تمہارا رہبر اور صاحب اختیار کون ہے؟ کیا میں تمہارا رہبر اور پیشوا نہیں ہوں کیا میں تمہارا رہبر اور صاحب اختیار نہیں ہوں سب نے کہا یا رسول اللہ: آپ ہمارے رہبر اور صاحب اختیار ہیں آپ(ص) ہمارے پیشوا ہیں اس کے بعد پیغمبر اکرم(ص) نے حضرت علی (ع) کو آواز دی اور اپنے پہلو میں بیٹھایا اور ان کا ہاتھ پکڑا اور انہیں بلند کیا اور لوگوں کو دکھلایا اور بلند آواز میں فرمایا کہ ''جس کا میں پیشوا اور صاحب اختیار ہوں میرے بعد علی ''علیہ السلام'' اس کے پیشوا اور صاحب اختیار ہیں_ اے لوگو اے مسلمانو میرے بعد تمہارے علی (ع) پیشوا اور رہبر ہیں اس کے بعد اپنے ہاتھ آسمان کی طرف بلند کئے اور فرمایا پروردگار علی (ع) کے دوستوں سے دوستی رکھ اور علی (ع) کے دشمنوں سے دشمن رکھ، پروردگار علی (ع) کے دوستوں سے دوستی رکھ اور علی (ع) کے بدخواہوں کو ذلیل و خوار کر ''

اس کے بعد آپ(ص) منبر سے نیچے اترے اپنی پیشانی سے پسینے کو صاف کیا اور ایک آہ بھری اور تھوڑی دیر آرام سے ٹھہرے

۱۶۷

اور اس کے بعد مسلمانوں کو حکم دیا کہ میرے بھائی اور جانشین علی (ع) کے ہاتھ پر بیعت کریں او راس منصب الہی کی انھیں مبارک باد دیں وہ پیشوا اور امیرالمومنین ہیں_

مسلمان گروہ در گروہ آئے اور حضرت علی (ع) سے ہاتھ ملا کر ان کو مومنین کے منصب رہبری کی مبارک باد دی اور آپ کو امیرالمومنین (ع) کہہ کر پکارا اس لحاظ سے حضرت علی علیہ السلام اٹھارہ ذی الحجہ کو رہبری اور امامت کے لئے چند گئے رہبری اور امامت کا مقام دین اسلام کا جزء ہے رہبر اور امام کے معيّن کردینے سے دین اسلام کامل طور جاودانی ہوگیا ہے ہم ہر سال اس مبارک دن کو عید مناتے ہیں اور حضرت علی علیہ السلام کی امامت اور پیشوائی پر خوش ہوتے ہیں اور حضرت علی علیہ السلام کو مسلمانوں کا رہبر اور امام سمجھتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ آپ کی گفتار اور کردار کی پیروی کریں_

سوالات

۱)___ بیعت کا کیا مطلب ہے مسلمانوں نے حضرت علی (ع) کی کیوں بیعت کی تھی اور کیوں آپ(ع) کو مبارک باد دی تھی؟

۲)__ _ ہمارے پیغمبر (ص) نے حضرت علی (ع) کو لوگوں کے لئے امام معین کرنے سے پہلے ان سے کیا پوچھا تھا اور ان سوالوں کا حضرت علی (ع) کے تعارف اور تعيّن سے کیا تعلق تھا؟

۱۶۸

۳)___ وہ اہم پیغام کیا تھا کہ جس کے پہنچانے کے لئے اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر کو حکم دیا؟

۴)___ پیغمبر اسلام(ص) نے اللہ کی وحی سننے کے بعد کیا کیا اور مسلمانوں سے کیا فرمایا؟

۵)___ پیغمبر اسلام(ص) نے حضرت علی (ع) کا لوگوں سے کس طرح تعارف کرایا اور آپ(ع) کے حق میں کیا فرمایا ؟

۶)___ غدیر کی عید کون سے دن ہوتی ہے اس عید کے جشن میں ہم کیا کرتے ہیں اور کس چیز کی کوشش کرتے ہیں اس سال غدیر کی عید کس موسم میں آئے گی اور کس مہینے میں_ یاد رکھئے گا اس دن جشن بنائیں اور اپنے دوستوں کو اس جشن میں دعوت دیں_

۱۶۹

چوتھا سبق

شیعہ

حضرت علی علیہ السلام پہلے مسلمان ہیں اور بعد پیغمبر اسلام(ص) سب سے افضل ہیں پیغمبر اسلام(ص) کے فرمان کو اچھی طرح سنتے تھے اور پیغمبر(ص) کے احکامات کے کامل مطیع تھے ہر جگہ پیغمبر(ص) کی مدد اور اعانت کرتے تھے دینداری میں کوشش اور جہاد کرتے تھے_

پیغمبر کے زمانے میں ایک گروہ حضرت علی علیہ السلام کا دوست تھا حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ اسلام کی پیش رفت میں کوشش اور جہاد کرتا تھا یہ گروہ تمام حالات میں حضرت علی علیہ السلام کی گفتار، رفتار اور اخلاق میں پیروی کیا کرتا تھا یہ حضرت علی علیہ السلام کی طرح پیغمبر اسلام(ص) کی اطاعت کرتا تھا پیغمبر اسلام(ص) حضرت علی علیہ السلام اور اس ممتاز گروہ کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ اے علی (ع) آپ(ع) اور

۱۷۰

آپ (ع) کے شیعہ روئے زمین پر بہترین انسان ہین اور جب حضرت علی (ع) کو اپنے دوستوں کے ساتھ دیکھتے تو ان کی طرف اشارہ کر کے فرماتے کہ یہ نوجوان اور اس کے شیعہ نجات پائے ہوئے ہیں پیغمبر اکرم(ص) اس ممتاز گروہ کہ جو مکمل ایمان لے آیا تھا شیعہ کے نام سے پکارتے تھے اسی دن سے جو مسلمان رفتار، گفتار اور کردار میں ممتاز تھے اور دینداری میں حضرت علی علیہ السلام کی پیروی کرتے تھے شیعہ کہلاتے تھے یعنی پیروکار_

پیغمبر اسلام(ص) کی وفات کے بعد مسلمانوں کا وہ ممتاز گروہ جو واقعی ایمان لایاتھا اور پیغمبر اسلام(ص) کے فرمان کا مطیع تھا انہوں نے مکمل طور پر پیغمبر کے فرمان پر عمل کیا اور حضرت علی علیہ السلام کو پیشوائی اور رہبری اور امامت کے لئے قبول کیا اور ان کی مدد اور حمایت کی البتہ مسلمانوں کے ایک گروہ نے پیغمبر اسلام(ص) کے فرمان کو قبول نہ کیا اور حضرت ابوبکر کو پیغمبر اسلام(ص) کا جانشین شمار کیا اور اس کے بعد حضرت عمر کو دوسرا اور حضرت عثمان کو تیسرا خلیفہ اور حضرت علی علیہ السلام کو چوتھا خلیفہ جانا اس گروہ کو اہلسنّت کہا جاتا ہے یہ دونوں گروہ مسلمان ہیں خدا اور پیغمبر اکرم(ص) اور قرآن کو قبول کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے محیت اور مہربانی کرتے ہیں اور قرآن کی تعلیم اور پیغمبر اسلام(ص) نے فرمایا ہے عقیدہ رکھتے ہیں کہ پیغمبر اسلام(ص) کے بعد یکے بعد دیگرے بارہ امام اور رہبر ہیں پہلے امام حضرت علی علیہ السلام ہیں اور بارہویں امام حضرت مہدی علیہ السلام ہیں

۱۷۱

کیونکہ پیغمبر اسلام(ص) کے حکم کے مطابق آپ کے خلیفہ اورجانشین بارہ ہوں گے_

مذہب شیعہ کو جعفری مذہب بھی کہاجاتا ہے_

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ شیعہ کہا کیا مطلب ہے شیعہ اسلام اور دین داری میں کسکی پیروی کرتے ہیں؟

۲)___ مسلمانوں کے کس ممتاز گروہ کا نام شیعہ ہے اور پیغمبر(ص) نے ان کے م تعلق کیا فرمایا ہے؟

۳)__ پیغمبر اسلام(ص) کی وفات کے بعد کن لوگوں نے پیغمبر(ص) کی تعلیمات پر عمل کیا اور کس طرح؟

۴)___ مسلمانوں کے دوسرے گروہ کو کیا کہاجاتا ہے وہ پیغمبر اکرم(ص) کی وفات کے بعد کس کو ان کا جانشین مانتے ہیں؟

۵)___ یہ دونوں گروہ آپس میں کیسے تعلقات رکھتے ہیں اور کن مسائل کی شناخت میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں

۶)___ ہمارا عقیدہ پیغمبر(ص) کے جانشینوں کے متعلق کیا ہے؟ ایران کا رسمی مذہب کو ن سا ہے_

اس قسم کے دوسرے سوال بنایئےور ان کے جواب دوستوں سے پوچھئے_

۱۷۲

پانچواں سبق

آٹھویں امام حضرت امام رضا علیہ السلام

امام رضا علیہ السلام ایک سواڑ تالیس ہجری گیارہ ذیعقدہ مدینہ منورہ میں متولد ہوئے آپ کے والد حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام تھے اور آپ(ع) کا نام علی (ع) ہے اور رضا کے لقب سے معروف ہوئے اور آپ(ع) کی والدہ ماجدہ کا نام نجمہ تھا_

حضرت موسی علیہ السلام نے اللہ کے حکم اور پیغمبر اسلام(ص) کی وصیت کے مطابق اپنے بعد آپ کو لوگوں کا امام معيّن کیا اور اس سے لوگوں کو آگاہ کیا امام رضا علیہ السلام کا علم دوسرے اماموں کی طرح آسمانی اور الہی تھا اسی لئے تمام لوگوں کے علم پر آپ(ع) کے علم کو برتری حاصل تھی طالبان علم اور علماء اور دانشمند آپ(ع) سے علم حاصل کرنے کے لئے آپ (ع) کی خدمت میں آتے اور علوم سے بہرہ مند ہوتے تھے

۱۷۳

عیسائی اور یہودی اور دوسرے ادیان کے علماء آپ (ع) کے پاس آتے اور امام علیہ السلام ان سے گفتگو اور بحث و مباحثہ کیا کرتے اور ان مشکل سوالوں کا جواب دیا کرتے تھے اور ان کی راہنمائی اور ہدایت فرمایا کرتے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ آپ (ع) نے کسی کے سوالوں کا جواب نہ دیا ہو یا جواب صحیح نہ دیا ہو آپ (ع) کو اللہ تعالی کے دیئے ہوئے کثیر علم وجہ سے عالم آل محمد(ص) کہا جاتا تھا آپ کے بہت سے قیمتی ارشادات ہمارے لئے آج بھی مشعل راہ ہیں_

امام رضا علیہ السلام کی امامت کے زمانے میں مامون مسلمانوں کا حاکم اور خلیفہ تھا اور چونکہ وہ لوگوں کو امام رضا علیہ السلام سے دور رکھنا چاہتا تھا امام کو جو مدینہ منورہ میں زندگی بسر کرتے تھے شہر طوس میں بلوایا اور امام علیہ السلام کے سامنے ولی عہد اور خلاقت کے عہدے کی پیش کش کی لیکن امام رضا علیہ السلام نے جو مامون کے مکر و فریب اور منافقت سے آگاہ تھے مامون کی اس پیش کش کو قبول نہ کیا مامون نے بہت زیادہ اصرار کیا امام رضا علیہ السلام چاہتے تھے کہ ولی عہدی کو قبول نہ کریں لیکن مامون کے بہت زیادہ اصرار کے بعد آپ (ع) نے بظاہر ولی عہدی کو قبول کرلیا لیکن شرطر لگادی کہ آپ (ع) حکومت کے کسی کام میں دخل نہیں دیں گے بالآخر مامون نے جو امام کی شخصیت سے سخت خائف تھا اور آپ (ع) کی صلاحیتوں کی وجہ سے خطرے کا احساس رکھتا تھا آپ کو زہر دے کر شہید کردیا_

۱۷۴

حضرت امام رضا علیہ السلام نے صفر کی آخری تاریخ کو ۲۰۳ ھ میں طوس میں شہادت پائی اور آپ (ع) کے جسم مبارک کو اسی شہر کے نزدیک کہ جو آج مشہد مقدس کے نام سے مشہور ہے_ دفن کردیا گیا آپ (ع) کی قبر مبارک آج کے دور میں سارے مسلمانوں کے لئے زیارت گاہ ہے_

۱۷۵

چھٹا سبق

اسراف کیوں؟

امام رضا علیہ السلام نے دیکھا کہ ایک آدھا کھایا ہوا پھل زمین پر پڑا ہے آپ (ع) کے خادموں میں سے کسی نے پھل کا کچھ حصّہ کھایا تھا اور باقی کو زمین پر پھینک دیا تھا حضرت امام رضا علیہ السلام اس سے ناراض ہوئے اور اس کے خادم کو بلایا اور اس سے فرمایا کہ کیوں اسراف کرتے ہو؟ اللہ کی نعمت کے ساتھ کیوں بے پروا ہی کرتے ہو کیا تمہیں علم نہیں کہ اللہ اسراف کرنے والے انسان کو دوست نہیں رکھتا کیا تم نہیں جانتے خدا اسراف کرنے والے انسان کودوست نہیں رکھتا کیا تم نہیں جانتے خدا اسراف کرنے والے کو سخت سزا دے گا اگر تمہیں کسی چیز کی حاجت نہیں تو اسے ضائع نہ کرو اور فضول خرچ نہ کرو بلکہ وہ ان کو دے دو جو اس کے محتاج ہیں_

امام رضا علیہ السلام کے فرمان سے آپ کیا سمجھتے ہیں کہ خدا

۱۷۶

کیوں اسراف کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا___؟

____ اور کیوں اسراف نہ کرنا برا ناپسندیدہ فعل ہے___؟

ان دو سوالوں کے جواب دینے کے لئے یہ سوچئے کہ ایک سیب کو تیار ہونے کے لئے کتنی قوت اورتوانائی خرچ ہوتی ہے اور کتنے کام انجام پاتے ہیں تب جاکر ایک سیب بنتا ہے مثلا سوچئے کہ سیب کے پودے کوپڑھنے کے لئے سورج کی کتنی توانائی ضروری ہے کتنی مقدار میں پانی، ہوا معدنی اجزاء خرچ ہوں گے اور کتنے لوگ محنت کریں گے تب جاکر سیب کا ایک دانہ آپ کے ہاتھ تک پہنچے گا سوچئے اس قدر کام او رتوانائی کی قیمتی ہے___؟ جب سیب کا کچھ حصّہ پھینک دیتے ہیں یا کسی اور اللہ کی نعمتوں میں سے کسی نعمت کو بیجا خرچ کرتے ہیں تو در حقیقت اس تمام توانائی اور محنت کو ضائع کرتے ہیں اور اس کے علاوہ ایک دوسرے انسان کو بھی خدا کی نعمتوں سے محروم کرتے ہیں اور اس کے حق کو ضائع کرتے ہیں کیا اسراف کرنا اللہ کی نعمتوں کی حرمت کی منافی نہیں___؟

کیا اسراف کرنا اللہ کی ناشکری نہیں ہے___؟

کیوں اللہ کی نعمتوں کو معمولی شمار کرتے ہیں اور ان کو بیجا خرچ کرتے ہیں___؟

کیا آپ راضی ہیں کہ ایک بچّہ بھوکا سوئے اور آپ اپنی غذا سے تھوڑی مقدار ضائع کردیں یا نیم میوہ کو بغیر کھائے گندگی میں ڈال دیں___؟

۱۷۷

کیا آپ راضی ہیں کہ بچّہ جس کے پاس کاغذ اور قلم ہے تحصیل علم سے محروم رہے اور آپ اپنی کاپیاں اور کاغذ بلا وجہ پھاڑ ڈالیں یا انھیں لکھے بغیر ہی ضائع کردیں___؟

کیا یہ درست ہے کہ آپ ضرورت سے زیادہ بجلی صرف کریں اور دوسرے بقدر ضرورت بجلی اور روشنی نہ رکھتے ہوں حالانکہ خدا نے پانی سورج مٹی ہوا اور دوسری نعمتیں تمام انسانوں کے لئے پیدا کی ہیں اور ہر انسان کو حق پہنچتا ہے کہ اللہ کی ان نعمتوں سے استفادہ کرے____؟

اب جب کہ آپ سمجھ چکے ہیں کہ اسراف کرنا گناہ ہے اور بہت برا اور ناپسندیدہ کام ہے تو اس کے بعد اسراف مت کیجئے اب جب کہ آپ جان چکے ہیں کہ خداوند عالم اسراف کرنے والوں کودوست نہیں رکھتا اور سخت سزا دیتا ہے تو اس کے بعد کسی چیز کو فضول اور بیجا خرچ نہ کریں، کسی چیز کو ضائع نہ کریں اور اعتدال کے ساتھ خرچ کریں اس طریقے سے وہ روپیہ جو فضول اور بے فائدہ چیزوں پر خرچ کرتے ہیں بچا کر اپنے دوستوں کے لئے تحفے خرید سکتے ہیں یا اپنے ہمسایوں اور واقف کاروں کی اس سے مدد کرسکتے ہیں جس کے نتیجہ میں خدا آپ کے اس کام سے خوش ہوگا اور آپ کو اچھی جزاء عنایت کرے گا اور لوگ بھی آپ کو زیادہ دوست رکھیں گے اور آپ کی زیادہ مدد کریں گے

۱۷۸

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ امام رضا (ع) اور دوسرے ائمہ کا علم کیسا ہوتا ہے اور کیوں تمام لوگوں کے علم پر برتری رکھتا ہے؟

۲)___ عالم آل محمد(ص) کسے کہا جاتا تھا اور کیوں ؟

۳)___ امام رضا (ع) خلفاء عباسی کے کس خلیفہ کے ہم عصر تھے؟

۴)___ مامون نے کیوں امام رضا (ع) کو طوس بلوایا اور امام (ع) سے کیا پیش کش کی؟

۵)___ امام رضا (ع) نے ولی عہدی کو کس شرط پر قبول کیا اور کیوں؟

۶)___ ماموں نے امام (ع) کو کیوں شہید کیا؟

۷)___ امام رضا (ع) کی شہادت کس سال او رکس دن ہوئی؟

۸)___ اسراف سے کیا مراد ہے امام رضا (ع) نے اسراف کے متعلق کیا فرمایا؟

۹)___ اسراف کیوں نہ کریں اعتدال برتنے سے کون سے کام انجام دے سکتے ہیں؟

۱۷۹

ساتواں سبق

نویں امام ''حضرت امام محمد تقی علیہ السلام

ہمارے نویں امام حضرت امام محمد تقی علیہ السلام حضرت امام رضا علیہ السلام کے فرزند ہیں آپ (ع) ایک سوپچا نوے ۱۹۵ ہجری ماہ رمضان میں مدینہ منورہ میں متولد ہوئے آپ (ع) کے والد حضرت امام رضا علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے اور پیغمبر اسلام (ص) کی وصیت کے تحت آپ (ع) کو اپنے بعد لوگوں کا امام معيّن فرمایا اس سے لوگوں کو آگاہ کیا امام محمد تقی علیہ السلام امام جواد کے نام سے بھی مشہور ہیں آپ (ع) بچپن ہی سے اللہ تعالی کے ساتھ خصوصی ربط رکھتے تھے اور اسی سن میں لوگوں کی دینی مشکلات کو حل کرتے تھے اور ان کی راہنمائی اور رہبری فرماتے تھے بہت بڑے بڑے علماء آپ (ع) کی خدمت میں آتے اور بہت سخت اور مشکل دینی اور عملی مسائل آپ (ع) سے پوچھتے امام جواد علیہ السلام ان کے تمام مشکل

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285