‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) جلد ۲

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) 20%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 285

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 285 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 117773 / ڈاؤنلوڈ: 4038
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

حدیث

168۔ رسول خدا(ص): عقل سے رہنمائی حاصل کروتا کہ ہدایت پا جاؤ اور عقل کی نافرمانی مت کرو کہ پشیمان ہوگے۔

169۔ امام علی(ع) : جو شخص عقل کے استعمال سے عاجز ہے وہ اس کے حاصل کرنے سے زیادہ عاجز ہے۔

170۔ امام علی(ع) : عقلمند ادب سے نصیحت حاصل کرتے ہیں اور چوپائے مار کھائے بغیر قابو میں نہیں آتے ۔

171۔ امام علی(ع) : جہالت سے اتنی ہی بے رغبتی ہوتی ہے جتنی عقل سے رغبت ہوتی ہے ۔

172۔ امام علی(ع) : جو شخص عقل میں جتنا پیچھے ہوتا ہے وہ جہالت میں اتنا ہی آگے ہوتا ہے ۔

173۔ امام علی(ع) : ہم خدا کی پناہ چاہتے ہیں عقل کے خواب غفلت سے اور لغزشوں کی برائیوں سے ۔

174۔ امام علی(ع) : جو شخص غور و فکر نہیں کرتا وہ بے وقعت ہو جاتا ہے اور جو بے وقعت ہو جاتا ہے اسکی کوئی عزت نہیں ہوتی۔

175۔ امام علی(ع) : اے لوگو! جن کے نفس مختلف اور دل متفرق ہیں، بدن حاضر اور عقلیں غائب ہیں، میں تمہیں مہربانی کے ساتھ حق کی دعوت دیتا ہوں اور تم اس سے اس طرح فرار کر رہے ہو جیسے شیر کی ڈکار سے بکریاں۔

176۔ امام علی(ع) :نے اپنے اصحاب کومخاطب کرکے فرمایا: اے وہ قوم جسکے بدن حاضر ہیں اور عقلیں غائب تمہارے خواہشات گوناگوں ہیں اور تمہارے حکام تمہاری بغاوت میں مبتلا ہیں، تمہارا امیر اللہ کی اطاعت کرتا ہے اور تم اسکی نافرمانی کرتے ہو اور شام کا حاکم اللہ کی معصیت کرتا ہے اور اسکی قوم اسکی اطاعت کرتی ہے ۔

177۔ امام صادق(ع): جب خداا پنے کسی بندہ سے نعمت سلب کرنا چاہتا ہے تو سب سے پہلے اسکی عقل کو بدل دیتا ہے ۔

178۔ امام کاظم (ع)نے ہشام بن حکم سے فرمایا: اے ہشام! اللہ تبارک و تعالیٰ نے عقل کے ذریعہ لوگوں پر اپنی حجتیں تمام کی ہیں....پھر صاحبان عقل کو وعظ و نصیحت کی اور انہیں آخرت کی ترغیب دلائی اور فرمایا( اور یہ زندگانی دنیا صرف کھیل تماشہ ہے اور دار آخرت صاحبان تقویٰ کے لئے سب سے بہتر ہے ۔ کیا تمہاری عقل میں یہ بات نہیں آرہی ہے )

۴۱

اے ہشام! پھر وہ لوگ جو فکر کرنے والے نہیں ہیں خدا نے انہیں اپنے عقاب سے ڈرایا اورفرمایا (پھر ہم نے سب کو تباہ و برباد بھی کر دیا، تم ان کی طرف سے برابر صبح کو گذرتے ہو ، اور رات کے وقت بھی تو کیا تمہیں عقل نہیں آرہی ہے ) اور فرمایا( ہم اس بستی پر آسمان سے عذاب نازل کرنے والے ہیں کہ یہ لوگ بڑی بدکاری کر رہے ہیں، اور ہم نے اس بستی میں سے صاحبان عقل و ہوش کےلئے کھلی ہوئی نشانی باقی رکھی ہے )

اے ہشام! عقل علم کے ساتھ ہے جیسا کہ خدا کا ارشاد ہے (اور یہ مثالیں ہم تمام عالمِ انسانیت کےلئے بیان کررہے ہیں لیکن انہیں صاحبان علم کے علاوہ کوئی نہیں سمجھ سکتا ہے )

اے ہشام! پھر خدا نے غور وخوض نہ کرنے والوںکی مذمت کی اور فرمایا( جب ان سے کہا جاتا ہے جو کچھ خد انے نازل کیا ہے اسکی اتباع کرو تو کہتے ہیں کہ ہم اسکی اتباع کرینگے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے، کیا یہ ایسا ہی کرینگے چاہے انکے باپ دادا بے عقل ہی رہے ہوں اور ہدایت یافتہ نہ رہے ہوں) اور فرمایا( جو لوگ کافر ہو گئے ہیں انکو پکارنے والے کی مثال اس شخص کی ہے جو جانوروں کو آواز دے اور جانور پکار اور آواز کے علاوہ کچھ نہ سنیں اور سمجھیں یہ کفار بہرے ، گونگے اور اندھے ہیں، انہیں عقل سے سروکار نہیں ہے ) اور فرمایا( اور ان میں بعض ایسے بھی ہیں جو بظاہر کان لگا کر سنتے بھی ہیں لیکن کیا آپ بہروںکو بات سنانا چاہتے ہیں جبکہ وہ سمجھتے بھی نہیںہیں) اور فرمایا( کیا آپکا خیال یہ ہے کہ انکی اکثریت کچھ سنتی اور سمجھتی ہے ہرگز نہیں یہ سب چوپایوںجیسے ہیں بلکہ ان سے بھی کچھ زیادہ ہی گمراہیں) اور فرمایا( یہ کبھی تم سے اجتماعی طور پر جنگ نہیںکرینگے مگر یہ کہ محفوظ بستیوں میںہوں یا دیواروںکے پیچھے ہوں انکی دھاک آپس میں بہت ہے اور تم یہ خیال کرتے ہو کہ یہ سب متحد ہیںہر گز نہیں انکے دلوں میں سخت تفرقہ ہے اور یہ اس لئے کہ اس قوم کے پاس عقل نہیں ہے)۔اور فرمایا:( اور تم اپنے نفسوں کو بھلا بیٹھے جبکہ تم کتاب کی تلاوت بھی کرتے ہو کیا تمہیں اتنی بھی عقل نہیں ہے)

۴۲

اے ہشام! خدا وند عالم نے اکثریت کی مذمت کی اور فرمایا( اور اگر آپ روئے زمین کی اکثریت کا اتباع کرینگے تو یہ آپ کو راہ خدا سے بہکا دینگے ) اور فرمایا( اور اگر آپ ان سے سوال کریں کہ زمین و آسمان کا خالق کون ہے تو کہیں گے کہ اللہ تو پھر کہئے کہ ساری حمد اللہ کےلئے ہے اور انکی اکثریت بالکل جاہل ہے ) اور فرمایا( اور اگر آپ ان سے پوچھیں گے کہ کس نے آسمان سے پانی برسایا اور پھر زمین کو مردہ ہونے کے بعد زندہ کیا ہے تو یہ کہیں گے کہ اللہ، تو پھر کہہ دیجئے کہ ساری حمد اسی کےلئے ہے اور انکی اکثریت عقل کا استعمال نہیں کر رہی ہے )

اے ہشام! پھر اللہ تعالیٰ نے اقلیت کی مدح کی اور فرمایا( اور ہمارے بندوں میں شکر گذار بندے کم ہیں) اور فرمایا( اور وہ بہت کم ہیں) اور فرمایا( اور فرعون والوں میں سے ایک مرد مومن نے جو اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھا یہ کہا کہ کیا تم لوگ اس شخص کو صرف اس بات پر قتل کر رہے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار اللہ ہے ) اور فرمایا( اور صاحبان ایمان کو بھی لے لو اور ان کے ساتھ ایمان والے بہت ہی کم ہیں) اور فرمایا( لیکن ان کی اکثریت اس بات کو نہیں جانتی) اور فرمایا( او رانکی اکثریت اس بات کو نہیںسمجھتی ۔)

179۔ا مام رضا(ع): بے عقل دینداروں کی طرف توجہ نہیں کی جائیگی۔

180۔ اسحاق بن عمار: میں نے امام جعفر صادق(ع) کی خدمت میں عرض کیا: میں آپ پر فدا ہو جاؤں! میرا پڑوسی بہت زیادہ نمازیں پڑھتا ہے ، بے پناہ صدقہ دیتا ہے، کثرت سے حج کرتا ہے اور نہایت معقول انسان ہے ، امام نے فرمایا: اے اسحاق! اس کی عقل کیسی ہے ؟ میں نے عرض کیا: میری جان آپ پر فدا ہو جائے ، عقل سے کو را ہے ، پھر آپؑ نے فرمایا: اس کے اعمال اسی وجہ سے قابل قبول نہیں ہیں۔

۴۳

3/3

عقل کا حجت ہونا

181۔ رسول خدا(ص): حق جہاں بھی ہو اس کے ساتھ رہو، جو چیزیں تم پر مشتبہ ہو جائیں انہیں اپنی عقل کے ذریعہ جدا کرو ، کیوں کہ عقل تم پر خدا کی حجت اور تمہارے پاس اسکی امانت اور برکت ہے ۔

182۔ امام علی(ع) : عقل حق کا رسول ہے ۔

183۔ امام علی(ع) : عقل ، باطنی شریعت اور شریعت، ظاہری عقل ہے ۔

184۔ اما م صادق(ع): نبی بندوں پر خدا کی حجت ہے اور عقل بندوں اور خدا کے درمیان حجت ہے ۔

185۔ امام کاظم (ع): نے ہشام بن حکم سے فرمایا: اے ہشام! خدا کی لوگوںپر دو حجتیں ہیں: حجت ظاہری اور حجت باطنی، حجت ظاہری انبیاء و مرسلین،اور ائمہ ہیں لیکن حجت باطنی عقل ہے۔

186۔ امام کاظم (ع): نے نیز ہشام بن حکم سے فرمایا: اے ہشام ! اللہ تبارک و تعالیٰ نے لوگوں پر عقل کے ذریعہ حجتیں تمام کی ہیں، (قوت) بیان کے ذریعہ انبیاء کی مدد کی ہے اور براہین کے ذریعہ انہیں اپنی ربوبیت سے آشنا کیاہے ۔

187۔ ابویعقوب بغدادی : ابن سکیت نے امام رضاکی خدمت میں عرض کیا.....خدا کی قسم میں نے آپ کے مثل کسی کو نہیں دیکھا، آج خلق پر خدا کی حجت کون ہے ؟ فرمایاؑ: عقل ہے کہ جس کے ذریعہ خدا کے متعلق سچ بولنے والوں کی پہچان اور ان کی تصدیق ہوتی ہے ، خدا پرجھوٹ باندھنے والوں کی شناخت اور ان تکذیب کی ہوتی ہے، ابو یعقوب کہتے ہیںکہ ابن سکیت نے کہا: خدا کی قسم ، یہی( واقعی) جواب ہے ۔

۴۴

3/4

اعمال کے حساب میں عقل کا دخل

188۔ امام علی(ع) : خدا نے دنیا میں بندوں کو جتنی عقل عطا کی ہے اسی کے مطابق حساب لیگا۔

189۔ امام باقر(ع): خدا نے جو چیزیں موسیٰ بن عمران پر نازل کی ہیں ان میں سے بعض کو ذکر کرتے ہوئے فرمایا: جب موسیٰ پر وحی نازل ہوی....تو اس وقت خدا نے فرمایا: میں نے اپنے بندوں کو جتنی عقل عطا کی ہے اسی کے مطابق حساب لونگا۔

190۔ امام باقر(ع): خدا نے دنیا میں بندوں کو جتنی عقل عطا کی ہے اسی کے مطابق روز قیامت دقیق حساب لیگا۔

191۔ امام باقر(ع): میں نے علی(ع) کی کتاب پر نظر ڈالی تو مجھے یہ بات ملی کہ: ہر انسان کی قیمت اور اسکی قدر و منزلت اسکی معرفت کے مطابق ہے اور خدا نے دنیا میں بندوںکو جتنی عقل عطا کی ہے اسی کے مطابق اسکا حساب لیگا۔

3/5

اعمال کی جزا میں عقل کااثر

192۔ رسول خدا(ص): اگر تمہارے پاس کسی شخص کے نیک چال چلن کے متعلق خبر پہنچے تو تم اس کے حسن عقل کو دیکھو، کیونکہ جزاعقل کے اعتبارسے دی جاتی ہے ۔

193۔رسول خدؐا: اگر کسی کوبہت زیادہ نماز گذار اور زیادہ روزہ دار پاؤ تواس پر فخر و ماہات نہ کرو جب تک کہ اسکی عقل کو پرکھ نہ لو۔

۴۵

194۔ رسول خدا(ص): وہ شخص جونمازی، زکات دینے والاحج و عمرہ بجالانے والا اور مجاہدہے اسے روز قیامت اسکی عقل کے مطابق جزا دی جائیگی۔

195۔ رسول خدا(ص): جنت کے سو درجے ہیں، نناوے درجے صاحبان عقل کے لئے ہیں اور ایک درجہ بقیہ تمام افراد کے لئے ہے ۔

196۔ رسول خدا(ص): ایک شخص پہاڑ کی بلندی پر ایک گرجا گھرمیں عبادت کیا کرتا تھا، آسمان سے بارش ہوئی زمین سر سبز ہو گئی جب اس نے گدھے کو چرتے دیکھا تو کہا: پروردگارا!! اگر تیرا بھی گدھا ہوتا تو میں اپنے گدھے کے ساتھ اسے بھی چراتا، چنانچہ جب یہ خبر بنی سرائیل کے انبیاء میں سے کسی نبی کو ملی تو انہوںنے اس عابد کے لئے بد دعا کرنی چاہی تو خدا وند عالم نے اس نبی پر وحی نازل کی ، '' میں بندوںکو ان کی عقل کے مطابق جزا دونگا''۔

197۔ تحف العقول: ایک گروہ نے پیغمبر اسلامؐ کی خدمت میںایک شخص کی تعریف کی اور اسکی تمام خوبیوں کو بیان کیا تو رسول خدا(ص) نے فرمایا: اس شخص کی عقل کیسی ہے؟ انہوںنے کہا: اے رسولخدؐا! ہم آپکو عبادت میں اسکی کوشش و جانفشانی اور اسکی دوسری خوبیوں کی خبر دے رہے ہیں اور آپ ہم سے اسکی عقل کے بارے میں پوچھ رہے ہیں؟! آپؐ نے فرمایا: احمق اپنی حماقت کے سبب گنہگار سے زیادہ فسق و فجور کا مرتکب ہوتا ہے ، یقینا بندے روز قیامت اپنی عقل کے مطابق بلند درجات پر فائز ہونگے اور اپنے پروردگار کا تقرب حاصل کرینگے ۔

198۔ رسول خدا(ص):( لوگوںنے جب آپکے سامنے کسی شخص کی بہترین عبادت کی تعریف کی) تو آپ نے فرمایا: اسکی عقل کو دیکھو؛ اس لئے کہ روز قیامت بندوں کو انکی عقل کے مطابق جزا دی جائیگی۔

۴۶

199۔ امام باقر(ع): موسیٰ بن عمران ؑنے دیکھا کہ بنی اسرائیل کاا یک شخص طولانی سجدے کر تا ہے اور گھنٹوںخاموش رہتا ہے۔جہاں بھی موسیٰ ؑجاتے تھے وہ بھی ساتھ ہو لیتا تھا ایک روز جناب موسیٰ کسی کام کے تحت ایک ہری بھری اور سبزوادی سے گذرے تو اس مرد عبادت گذار نے ایک سرد آہ بھری ، جناب موسیٰ نے اس سے کہا: کیوں آہ بھر رہے ہو؟! اس نے کہا: مجھے اس چیز کی تمنا ہے کہ کاش میرے پروردگار کاکوئی گدھا ہوتا تو میں اسے یہاںچراتا ، جناب موسیٰؑ اسکی اس بات سے اس قدر غمگین ہوئے کہ کافی دیر تک اپنی نظروں کو زمین کی طرف جھکائے رکھا، اتنے میں جناب موسیٰ پر وحی نازل ہوئی کہ اے موسیٰ میرے بندہ کی بات تم پر اتنی گراں کیوں گذری ؟!میں نے اپنے بندوں کو جتنی عقل عطا کی ہے اسی کے مطابق حساب لونگا۔

200۔ سلیمان دیلمی( کابیان ہے کہ) میں نے امام جعفر صادق(ع) کی خدمت میں ایک شخص کی عبادت، دینداری اور فضیلتوں کا تذکرہ کیا تو آپ ؑ نے فرمایا: اسکی عقل کیسی ہے ؟! میںنے کہا: مجھے نہیں معلوم، فرمایا: ثواب عقل کے مطابق دیا جائیگا اس لئے کہ بنی اسرائیل کا ایک شخص سر سبز و شاداب، درختوں اور پانی سے لبریز جزیرہ میں خدا کی عبادت کیا کرتا تھا۔ فرشتوں میں سے ایک فرشتہ اس کے قریب سے گذرا تو اس نے کہا پروردگارا! اپنے اس بندہ کا ثواب مجھے دکھا دے ، پس خدا وند نے اسے اپنے اس بندہ کا ثواب دکھایا لیکن فرشتہ کی نظر میں وہ ثواب بہت معمولی تھا تو خدا نے فرشتہ پر وحی کی کہ اس کے ہمراہ ہو جاؤ، فرشتہ انسانی شکل میں اس کے پاس آیا اور عابد نے اس سے پوچھا تم کون ہو؟ کہا: میں ایک عبادت گذار شخص ہوں مجھے تمہاری اس جگہ عبادت کی اطلاع ملی تو میں تمہارے پاس آیا ہوں تاکہ میں بھی تمہارے ساتھ خد اکی عبادت کروں، لہذا پورے دن وہ فرشتہ اس عابد کے ساتھ رہا، دوسرے روز فرشتہ نے اس سے کہا تمہاری جگہ پاک و پاکیزہ ہے صرف عبادت کے لئے موزوں ہے ، مرد عابد نے کہا: ہماری اس جگہ میں ایک عیب ہے ، فرشتہ نے پوچھا : وہ عیب کیاہے ؟ کہا: ہمارے پروردگارکے پاس کوئی چوپایہ نہیںہے ، اگر خدا کے پاس ایک گدھا ہوتا تو ہم یہاں پر اسے چراتے اس لئے کہ یہ گھاس تلف ہو رہی ہے ، فرشتہ نے اس سے کہا: تمہارا پروردگار گدھا کیا کریگا؟ مرد عابد نے کہا: اگر خدا کے پاس گدھا ہوتا تو یہ گھاس برباد نہ ہوتی ، پس خدا نے فرشتہ پر وحی نازل کی ، کہ میں اس کو اسکی عقل کے مطابق ثواب دونگا۔

۴۷

چوتھی فصل عقل کے رشد کے اسباب

4/1

عقل کی تقویت کے عوامل

الف۔ وحی

( اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے برہان آچکاہے اور ہم نے تم پر روشن نور بھی نازل کر دیا ہے )

(اللہ صاحبان ایمان کا ولی ہے وہ تاریکیوں سے نکا لکر روشنی میں لے آتا ہے اور کفار کے ولی طاغوت ہیں جو انہیں روشنی سے نکال کر اندھروں میں لے جاتے ہیں۔ یہی تو جہنمی ہیں اور وہاں ہمیشہ رہنے والے ہیں)

(بیشک ہم نے تمہاری طرف وہ کتاب نازل کی ہے جس میں خود تمہارا بھی ذکر ہے تو کیا تم اتنی بھی عقل نہیں رکھتے ہو)

ملاحظہ کریں:بقرہ :242، نور: 61، یوسف:2، زخرف:3

۴۸

حدیث

201۔ امام علی (ع): پروردگار نے ان کے درمیان رسول بھیجے ، انبیاء کا تسلسل قائم کیا تاکہ وہ ان سے فطرت کے عہد و پیمان پورے کرائیںاور انہیں بھولی ہوئی نعمت پروردگار کو یاد دلائیں، تبلیغ کے ذریعہ ان پر اتمام حجت کریں اور ان کی عقل کے دفینوں کو باہر لائیں۔

202۔ امام علی (ع)نے رسولخدا ؐ کی بعثت کی توصیف میں فرمایا: خدا نے انہیں حق کے ساتھ مبعوث کیا تاکہ خدا کی طرف راہنمائی اور ہدایت کریں، خدا نے انکے ذریعہ ہمیں گمراہی سے ہدایت دی اور جہالت سے باہر نکالا ہے۔

203۔ امام علی (ع): خدا وند متعال نے اسلام کو بنایا اور اسکے راستوں کو اس پر چلنے والوں کےلئے آسان کیا ، اسکے ارکان کو دشمنوںکے مقابل میں پائدار کیا، اسلام کو اسکے اطاعت گذاروں کےلئے باعث عزت اور اس میں داخل ہونے والوں کےلئے سبب صلح و آشتی ...ذہین و ہوشیار انسان کےلئے فہم اور عقلمند کے لئے یقین قرار دیاہے۔

204۔ امام علی (ع): یہاں تک کہ خدا وند سبحان نے اپنے وعدے کو پورا کرنے اور اپنی نبوت کو مکمل کرنے کے لئے حضرت محمد کو بھیج دیا جنکے بارے میں انبیاء سے عہد لیا جا چکا تھا اورجنکی علامتیں مشہور اور ولادت مسعود تھی، اس وقت اہل زمین متفرق مذاہب، منتشر خواہشات اور مختلف راستوں پر گامزن تھے، کوئی خدا کو مخلوقات کے شبیہ بنا رہا تھا، کوئی اس کے ناموں کو بگاڑ رہا تھا، کوئی دوسرے خدا کا اشارہ دے رہا تھا، مالک نے آپ کے ذریعہ سب کو گمراہی سے ہدایت دی اور جہالت سے باہر نکال لیا۔

۴۹

ب۔ علم

قرآن

اور یہ مثالیں ہم تمام عالم انسانیت کےلئے بیان کر رہے ہیں اور انہیں کوئی نہیں سمجھ سکتا مگر صاحبان علم ہے ۔

حدیث

205۔ رسول خدا(ص): علم جہالت کی نسبت دلوںکی زندگی، تاریکی سے چھٹکارا پانے کے لئے آنکھوںکی روشنی، اور کمزوری سے نجات پانے کے لئے بدن کی طاقت ہے ۔

206۔ امام علی (ع): تم عقل کے ذریعہ تولے جاؤگے لہذا علم کے ذریعہ اسے بڑھاؤ۔

207۔ امام علی (ع): عقل کے رشد کے لئے بہترین چیز تعلیم ہے ۔

208۔ امام علی (ع): عقل ایسی فطرت ہے جو علم اور تجربہ سے بڑھتی ہے ۔

209۔ امام علی (ع): علم، عقلمند کی عقل میں اضافہ کرتاہے ۔

210۔ امام صادق(ع): حکمت کے متعلق زیادہ غور وخوض عقل کو نتیجہ خیز بناتاہے ۔

211۔ امام صادق(ع): علم کی موشگافیاں کرنے سے عقل کے دریچے کھلتے ہیں۔

212۔ امام رضا(ع): جو شخص سوچتا ہے سمجھ لیتا ہے جوسمجھ لیتا ہے عقلمند ہو جاتا ہے ۔

۵۰

ج۔ ادب

213۔ رسول خدا(ص): حسن ادب عقل کی زینت ہے ۔

214۔ امام علی (ع): ہر چیز عقل کی محتاج ہے لیکن عقل ادب کی محتاج ہے۔

215۔ امام علی (ع): صاحبان عقل کو ادب کی اس طرح ضرورت ہے کہ جس طرح زراعت کوبارش کی ضرورت ہے ۔

216۔ امام علی (ع): عقل کا بہترین ہمنشیں ادب ہے ۔

217۔ امام علی (ع): ادب عقل کی صورت ہے ۔

218۔ امام علی (ع): عقل کی بھلائی ادب ہے ۔

219۔ امام علی (ع): ادب عقل کے لئے نتیجہ خیز اور دل کی ذکاوت ہے ۔

220۔ امام علی (ع): جس کے پاس ادب نہیںہے وہ عقلمند نہیں۔

221۔ امام علی (ع): جس طرح آگ کو لکڑی کے ذریعہ شعلہ ور کرتے ہو اسی طرح عقل کو ادب کے ذریعہ رشد عطا کرو۔

222۔ امام زین العاب دین (ع): علماء کا ادب عقل کی فراوانی کا سبب ہے ۔

۵۱

د۔ تجربہ

223۔ امام علی (ع): عقل ایسی فطرت ہے جو علم اور تجربات سے بڑھتی ہے ۔

224۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصارمیں ہے ،عقل ایسی فطرت ہے جو تجربات سے پروان چڑھتی ہے ۔

225۔ امام علی (ع): فطرت کا بہترین مددگار ادب اور عقل کا بہترین معاون تجربہ ہے ۔

226۔ امام علی (ع): تجربات ختم نہیں ہوتے عاقل انہیں کے ذریعہ ترقی کرتا ہے۔

227۔ امام حسین (ع): طویل تجربہ عقل کی افزائش کا سبب ہے ۔

ھ۔ زمین میں سیر

قرآن

( کیا ان لوگوں نے زمین میں سیر نہیں کی ہے کہ انکے پاس ایسے دل ہوتے جو سمجھ سکتے اور ایسے کان ہوتے جو سن سکتے اس لئے کہ در حقیقت آنکھیں اندھی نہیں ہوتی ہیں بلکہ وہ دل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں میں ہوتے ہیں)

( آپ کہہ دیجئے کہ تم لوگ زمین میں سیر کرو اور دیکھو کہ خدا نے کس طرح خلقت کا آغاز کیا ہے اس کے بعد وہی آخرت میں ایجاد کریگا، بیشک وہی ہر شی پر قدرت رکھنے والا ہے )

( اور ہم نے اس بستی میں سے صاحبان عقل و ہوش کے لئے کھلی ہوئی نشانی باقی رکھی ہے )

(پس آج ہم تیرے بد ن کو بچا لیتے ہیں تاکہ تو اپنے بعد والوںکے لئے نشانی بن جائے ، اگر چہ بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے غافل ہی رہتے ہیں)

۵۲

حدیث

228۔ ابن دینار : خدا نے حضرت موسیؑ کو وحی کی کہ لوہے کی نعلین پہن کر اور عصا لیکر زمین میں گردش کرو اور (گذشتگان کی) عبرت و آثارڈھونڈھو ، یہاں تک کہ نعلین گھس جائے اور عصا ٹوٹ جائے۔

229۔ داؤد(ع): علماء سے کہہ دیجئے کہ آہنی عصا لیکر اور آہنی نعلین پہن کر علم کی تلاش میں نکلیں، یہاں تک کہ عصا ٹوٹ جائے اور نعلین پھٹ جائے ۔

و۔مشورہ

230۔ امام علی (ع): جو صاحبان عقل سے مشورہ لیتاہے وہ عقل کی روشنی سے مالا مال ہو جاتا ہے۔

ز۔ تقویٰ

231۔ سید ابن طاؤس : مجھے ایک کتاب دستیاب ہوئی...... جس پر( سنن ادریس)مرقوم تھا ، اس میں لکھا تھا یاد رکھو اور یقین کرو کہ تقوائے الٰہی بہترین حکمت اور عظیم ترین نعمت ہے اور ایسا وسیلہ ہے جو خیر کی طرف دعوت دیتا ہے اور نیکی ،فہم اور عقل کے دروازوں کو کھول دیتا ہے۔

۵۳

ح۔ جہاد بالنفس

232۔ امام علی (ع): اپنی شہوت کا مقابلہ کرو، اپنے غصہ پر قابو رکھو اور اپنی بری عادتوں کی مخالفت کرو تاکہ تمہاری روح پاک اور تمہاری عقل کامل ہو جائے اور اپنے پروردگار کا ثواب اچھی طرح حاصل کر سکو۔

223۔ امام صادق(ع): امیر المومنینؑ: نے اپنے کسی صحابی کے پاس خط لکھ کر اس طرح نصیحت کی ، تمہیں اور خود اپنے نفس کو اس خدا سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں کہ جس کی نافرمانی مناسب نہیں ، اس کے سوا کوئی امید نہیں اور اس کے علاوہ کوئی بے نیازی نہیں، جو خوف خدا رکھتا ہے جلیل و عزیز، قوی اور سیر و سیراب ہوجاتا ہے خوف خدا اسکی عقل کو اہل دنیا سے باز رکھتا ہے ، اس کا بدن اہل دنیا کے ساتھ ہوتاہے لیکن اس کا دل اور عقل آخرت کا نظارہ کرتی ہے آنکھیں جن چیزوں کو حب دنیا سے لبریز دیکھتی ہیں نور دل کے ذریعہ انہیں بجھا دیتاہے ، حرام دنیا سے چشم پوشی اور شبہات سے پرہیز کرتا ہے خدا کی قسم حلال و مباح سے بھی اجتناب کرتا ہے صر ف ان ٹکڑوں پر گذاراکرتا ہے کہ جن سے اپنی حیات باقی رکھ سکے اور کھردرے و سخت لباس کے ذریعہ اپنی شرمگاہوں کو چھپاتا ہے۔ اپنی حاجتوں میں کسی پر اعتماد اور کسی سے امید نہیں رکھتا تاکہ اعتماد و امید صرف خالق کائنات سے ہو۔ کوشش و جانفشانی کرتا ہے کہ اپنے بدن کو اس قدر زحمت میں ڈالے کہ ان کی پسلیاں دکھائی پڑنے لگیں اور آنکھیں گہرائی میں چلی جائیں پھر خدا اس کے عوض بدن میں طاقت اور عقل کو قوت عطا کرتا ہے اور آخرت کے لئے جو ذخیرہ کرتا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ ہے ۔

۵۴

ط۔ ذکر خدا

234۔ امام علی (ع): ذکر خدا عقل کا نور، روح کی زندگی اور سینوںکی جلاء ہے ۔

235۔ امام علی (ع): جو شخص زیادہ ذکر خدا کرتا ہے اسکی عقل منور ہو جاتی ہے ۔

236۔ امام علی (ع): جو شخص خدائے سبحان کو یاد کرتا ہے خداا سکے دل کو زندہ رکھتا ہے اور اسکی عقل و خرد کو منور کر دیتا ہے۔

237۔ امام علی (ع): ذکر خدا عقل کو انس اور دل کو روشنی عطا کرتا ہے اوررحمت خدا کو کھینچتا ہے۔

238۔ امام علی (ع): یاد خدا عقل کو ہدایت اور روح کو بصیرت عطا کرتا ہے۔

ی۔ دنیا سے بے رغبتی

239۔ امام علی (ع): جو شخص خود کو دنیا کی بخشش و عطا سے بے نیاز رکھتا ہے اس نے عقل کو کامل کر لیاہے۔

ک: حق کا اتباع

240۔ رسول خدا(ص): ناصح کا اتباع عقل و خرد کی افزائش اور کمال کا سرچشمہ ہے ۔

241۔ اعلام الدین : جب معاویہ کے سامنے عقل کا تذکرہ آیا تو امام حسین (ع) نے فرمایا: عقل اتباع حق کے بغیر کامل نہیںہو سکتی، معاویہ نے کہا: آپ حضرات کے سینوںمیں صرف ایک چیز ہے ۔

242۔ امام کاظم (ع): جناب لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا: حق کے سامنے جھک جاؤ تاکہ لوگوں میں سب سے بڑے عقلمند قرار پاؤ۔

۵۵

ل۔ حکماء کی ہمنشینی

243۔ امام علی (ع): حکماء کی ہمنشینی اختیار کرو تاکہ تماری عقل کامل ہو، نفس کو شرف ملے اور جہالت کا خاتمہ ہو جائے۔

244۔ امام علی (ع): حکماء کی ہمنشینی دلوںکی حیات اور روح کی شفاء ہے ۔

م۔ جاہلوں پر رحم

245۔ امام علی (ع): محکم ترین عقل کی نشانیوںمیں سے جاہلوں پر رحم کرنا ہے ۔

ن۔ خدا سے مدد چاہنا

246۔ امام زین العاب دین (ع):خدایا! مجھے کامل عقل ، عزم مصمم، ممتاز تدبیر، تربیت یافتہ دل، بے شمار علم اور بہترین ادب عنایت فرما، ان تمام چیزوںکو میرے لئے مفید قرار دے اے ارحم الراحمین تیر رحمت کا واسطہ انہیں میرے لئے ضرر رساں قرار نہ دے۔

247۔ ان مناجات میں مرقوم ہے جو جبریل امین رسول خدا کے پاس لائے تھے، بار الٰہا! میرے گناہوںکو توبہ کے ذریعہ مٹا دے میری توبہ کی قبولیت کے ذریعہ میرے عیوب کو دھو دے اور انہیں میرے دل کے زنگ کے لئے صیقل اور عقل کی تیز بینی کا سبب قرار دے۔

248۔ امام مہدیؑ: نے اس دعا میں فرمایا جو محمد بن علی علوی مصری کو تعلیم دی ہے ، خدایا! میں تیری بارگاہ میںسوال کرتا ہوں.... کہ محمد و آل محمد پر درود بھیج، میرے دل کی رہنمائی کر اور میری عقل کو میرے لئے سازگار بنا۔

۵۶

4/2

مقویات دماغ

الف: تیل

249۔۔ امام علی (ع): تیل جلد کو ملائم اور دماغ کو پڑھاتاہے ۔

250۔ امام صادق(ع): بنفشہ کا تیل دماغ کو تقویت عطا کرتا ہے ۔

ب: کدو

251۔ رسول خدا(ص):نے علی (ع) کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا: اے علی (ع)! تم کدو ضرور کھایا کرو کیوں کہ یہ دماغ اور عقل کوبڑھاتاہے۔

252۔ انس: رسول خدا(ص) کدو زیادہ کھاتے تھے، میںنے کہا: اے رسول خدا! آپ کدو پسند کرتے ہیں! فرمایا: کدو دماغ کو بڑھاتا اور عقل کو قوی کرتا ہے ۔

253۔ رسول خدا(ص): کدو(کھانا) تمہارے لئے ضروری ہے اس لئے کہ عقل کو زیادہ اور دماغ کو بڑھاتا ہے ۔

254۔ رسول خدا(ص): میٹھا کدوکھایا کرو،خدا کے علم میں اس سے زیادہ سبک کوئی درخت ہوتا تو اسے برادرم یونس کے لئے اگاتا، تم میں سے جو بھی شوربا بنائے اسے چاہئے کہ اس میںکدو زیادہ ڈالے اس لئے کہ وہ دماغ اور عقل کو بڑھاتا ہے ۔

۵۷

ج:بہی

255۔ امام رضا(ع): بہی (کھانا) تمہارے لئے ضروری ہے کہ اس سے عقل بڑھتی ہے۔

د:کرفس(خراسانی اجوائن)

256۔ رسول خدا(ص): کرفس (کھانا) تمہارے لئے ضروری ہے کیوں کہ اگر کوئی چیز عقل کو بڑھاتی ہے تو وہ یہی ہے ۔

ھ: گوشت

257۔ امام صادق ؑ: گوشت، گوشت بڑھاتا ہے اور عقل میں اضافہ کرتا ہے جو شخص چند دنوں گوشت نہیں کھاتا اس عقل خراب ہو جاتی ہے ۔

258۔ امام صادق(ع): جو شخص چالیس دن گوشت نہیںکھاتا بد اخلاق ہو جاتا ہے اور اسکی عقل خراب ہو جاتی ہے اور جو بد اخلا ق ہو جائے اس کے کان میں آوازسے اذان دی جائے۔

۵۸

و: دودھ

259۔ رسول خدا(ص): تمہارے لئے دودھ پینا ضروری ہے کیوں کہ دودھ حرارت قلب کو اس طرح دور کرتا ہے کہ جس طرح انگلی پیشانی سے پسینہ کو صاف کرتی ہے ، اور کمر کو مضبوط، عقل کو زیادہ اور ذہن کو تیز کرتا ہے ، آنکھوںکو جلاء بخشتا ہے اور نسیان کو دور کرتا ہے ۔

260۔ رسول خدا(ص):اپنی حاملہ عورتوں کو دودھ پلاؤ کیوں کہ شکم مادر میں جب بچہ کی غذا ددھ ہوگی تو اس کا دل قوی اور دماغ اضافہ ہوگا۔

ز: سرکہ

261۔ امام صادق(ع): سرکہ عقل کو قوی بناتا ہے ۔

262۔ محمد بن علی ہمدانی : خراسان میں ایک شخص امام رضا(ع) کی خدمت میں تھا آپ ؑ کے سامنے دسترخوان بچھایا گیا کہ جس پر سرکہ اور نمک تھا، امام ؑ نے کھانے کا آغا ز سرکہ سے کیا، اس شخص نے کہا : میں آپ پر فدا ہو جاؤں! ہمیں آپ نے نمک سے آغاز کرنے کا حکم دیا ہے ؟ فرمایاؑ: یہ بھی ایسا ہی ہے ، سرکہ ذہن کو قوی بناتاہے اور عقل کو بڑھاتاہے ۔

ح: سداب( کالا دانہ)

263۔ امام رضا(ع): سداب عقل کو بڑھاتاہے ۔

۵۹

ط: شہد

264۔ امام کاظمؑ: شہد ہرمرض کےلئے شفاء ہے جو ناشتہ میں ایک انگلی شہد کندر کےساتھ کھائے اسکا بلغم زائل ہو جائیگا، صفراء کو زائل کرتا ہے اور سودا میں تلخی نہیں پیدا ہونے دیتا،ذہن کو صاف و شفاف اور حافظہ کو قوی بناتا ہے ۔

ی: انار کو اس کے باریک چھلکوں کے ساتھ کھانا

265۔ امام صادق(ع): انار کو اس کے باریک جھلکوںکے ساتھ کھاؤ کہ معدہ کو صاف اور ذہن کو بڑھاتا ہے ۔

ک: پانی

266۔ ابو طیفور متطبِّب: کا بیان ہیکہ میں امام کاظم (ع) کی خدمت میں حاضر ہوا اورانہیں پانی پینے سے منع کیا، امام ؑ نے فرمایا: پانی سے کیا نقصان ہے بلکہ کھانے کو معدہ میں گھماتا ہے ، غصہ کو ختم کرتا ہے ، دماغ کو بڑھاتا ہے اورتلخی کو دور کرتاہے ۔

ل: حجامت(فصد کھلوانا)

267۔ رسول خدا(ص): حجامت (فصد کھلوانا)عقل کو بڑھاتی اور حافظہ کو قوی کرتی ہے ۔

268۔ رسول خدا(ص): ناشتہ کے وقت حجامت زیادہ مفید ہے کہ اس سے عقل بڑھتی ہے،حافظہ قوی اور حافظ کے حافظہ میں اضافہ ہوتاہے ۔

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

سوالوں کا آسانی کے ساتھ جواب دیتے تھے بعض لوگ جو آپ (ع) کے اللہ کے ساتھ خاص تعلق سے مطلع نہ تھے آپ (ع) کے علمی پایہ سے تعجب کرتے اور کہتے تھے کہ اس کمسن بچّے نے کہاں سے اتنا زیادہ علم حاصل کرلیا ہے اس بچے کا علم کیسے تمام بزرگ علماء کے علم پر برتری حاصل کرگیا ہے انہیں علم نہ تھا کہ امام کو علم کسی سے پڑھ کر حاصل نہیں ہوا کرتا بلکہ امام (ع) کا علم اللہ کی طرف سے آسمانی ہوا کرتا ہے انہیں علم نہیں تھا کہ خدا جس کی روح کو چاہے اپنے سے مرتبط کردیتا ہے خواہ بچہ ہو یا بڑا اور اسے تمام لوگوں سے زیادہ علم دے دیتا ہے امام محمد تقی علیہ السلام بچپن ہی سے بہترین صفات انسانی کے مالک تھے

تقی یعنی زیادہ پرہیزگار تھے

جواد: یعنی زیادہ سخاوت اور عطاء کرنے والے تھے مطلع اور روشن فکر تھے اور لوگوں کے لئے تحصیل علم کی کوشش کرتے تھے_

معتصم عباسی ظالم خلیفہ تھا اور آپ (ع) کی روشن فکری کو اپنی قوت کے خاتمے کا سبب جانتا تھا لوگوں کے بیدار ہوجانے اور حقائق سے مطلع ہوجانے سے ڈرتا تھا اور امام جواد علیہ السلام کی سخاوت تقوی اور پرہیزگاری سے خائف تھا اسی لئے حضرت امام جواد کو شہر مدینہ سے اپنے دارالخلافہ بغداد بلایا اور چند مہینوں کے بعد شہید کردیا_

امام جواد علیہ السلام کی عمر شہادت کے وقت پچیس سال سے زیادہ نہ تھی آپکے جسم مبارک کو بغداد شہر کے نزدیک جو آج کاظمین کے نام سے مشہور ہے آپ کے جد مبارک حضرت موسی علیہ السلام

۱۸۱

کے پہلو میں دفن کیاگیا_

آپ (ع) کی ذات پر سلام اور درود ہو''

۱۸۲

آٹھواں سبق

گورنر کے نام خط

حج کی باعظمت عبادت کو میں امام جواد علیہ السلام کے ساتھ بجالایا اور جب حج کے اعمال اور مناسک ختم ہوگئے تو میں الوداع کے لئے امام (ع) عالی مقام کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ حکومت نے مجھ پر بہت زیادہ ٹیکس دیا ہے میں اس کی ادائے گی کی طاقت نہیں رکھتا آپ سے خواہاں ہوں کہ ایک خط آپ (ع) شہر کے حاکم کے نام لکھ دیجئے اور سفارش فرمایئےہ وہ مجھ سے نرمی اور خوش اسلوبی سے پیش آئے میں نے عرض کی کہ ہمارے شہر کا حاکم آپ (ع) کے دوستوں اور شیعوں سے ہے_ یقینا آپ (ع) کی سفارش اس پر اثر کرے گی امام جواد علیہ السلام نے کاغذ اور قلم لیا اور اس مضمون کا خط لکھا_

بسم اللہ الرحمن الرحیم سلام ہو تو پر اور اللہ کے لائق بندوں

۱۸۳

پراے سیستان کے حاکم قدرت اور حکومت اللہ کی طرف سے ایک امانت ہے جو تیرے اختیار میں دی گئی ہے تا کہ تو خدا کے بندوں کا خدمت گزار ہو تو اس قدرت اور توانائی سے اپنے دینی بھائیوں کی مدد کر جو چیز تیرے لئے تنہا باقی رہے گی وہ تیری نیکی اور مدد ہوگی جو تو اپنے بھائیوں اور ہم مذہبوں کے لئے کرے گا____ یاد رکھو کہ خدا قیامت کے دن تم سے تمام کاموں کا حساب لے گا اور معمولی کام بھی اللہ سے مخفی نہیں ہے

محمد بن علی الجواد (ع)

میں نے آپ (ع) سے خط لیا اور خداحافظ کہتے ہوئے اپنے شہر کی طرف لوٹ آیا اس پر عظمت خط کی اطلاع پہلے ہی سے اس حاکم کو ہوچکی تھی وہ میرے استقبال کے لئے آیا اور میں نے وہ خط اسے دیا اس نے خط لیا اور اسے چوما اور کھولا اور غور سے پڑھا میرے معاملہ میں اس نے تحقیق کی جس طرح میں چاہتا تھا اس نے میرے ساتھ نیکی اور نرمی برتی اس کے بعد اس نے تمام لوگوں سے عدل اور انصاف برتنا شروع کردیا_

غو رکیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ حضرت محمد تقی (ع) کس سال اور کس مہینے میں پیدا ہوئے؟

۲)___ لوگوں کو کس بات پر تعجب ہوتا تھا اور کیا کہتے تھے؟

۱۸۴

۳)___ وہ کس چیز سے مطلع نہ تھے کہ اس طرح کا تعجب کرتے تھے؟

۴)___ تقی اور جواد کے معنی بیان کیجئے؟

۵)___ معتصم خلیفہ نے حضرت جواد (ع) کو بغداد کیوں بلایا؟

۶)___ حضرت امام محمد تقی (ع) نے کس عمر میں وفات پائی؟

۷)___ آپ (ع) کے جسم مبارک کو کہاں دفن کیا گیا؟

۸)___ امام جواد (ع) نے سیستان کے حاکم کو کیا لکھا اور کس طرح آپ (ع) نے اسے نصیحت کی؟

۹)___ حاکم نے امام (ع) کے خط کے احترام میں کیا کیا؟

۱۰)___ آپ نے امام (ع) کے خط سے کیا سبق لیا ہے اور اس واقعہ سے کیا درس لیا ہے؟

۱۸۵

نواں سبق

دسویں امام حضرت امام علی نقی علیہ السلام

حضرت امام علی نقی علیہ السلام امام محمدتقی علیہ السلام کے فرزند ہیں پندرہ ذی الحجہ دو سو بارہ ہجری میںمدینہ کے نزدیک ایک دیہات میں متولد ہوئے حضرت امام علی نقی علیہ السلام نے اللہ کے حکم اور پیغمبر (ص) کی وصیت کے مطابق آپ (ع) کو اپنی شہادت کے بعد لوگوں کے لئے امام اور رہبر معيّن کیا امام علی نقی علیہ السلام امام ہادی (ع) کے نام سے بھی مشہور تھے اپنے والد کی طرح آپ (ع) بھی بچپن ہی سے خداوند عالم کے ساتھ خاص تعلق رکھتے تھے آپ (ع) کم عمر ہونے کے باوجود منصب امامت پر فائز ہوئے اور لوگوں کو اس مقام سے راہنمائی اور رہبری فرماتے تھے_

امام علی نقی علیہ السلام اسی چھوٹی عمر سے ایک ایسے انسان

۱۸۶

تھے جو لوگوں کے لئے نمونہ تھے ہر قسم کے عیب اور نقص سے پاک تھے اور آپ (ع) انسانی صفات حسنہ سے مزيّن تھے اسی لئے آپ (ع) کو نقی یعنی پاک او رہادی یعنی ہدایت کرنے والا بھی کہاجاتا ہے امام علی نقی (ع) محنت اور بہت کوشش سے لوگوں کی ہدایت اوررہنمائی فرماتے تھے اور زندگی کے احکام انہیں بتلایا کرتے لوگ بھی آپ (ع) سے بہت زیادہ محبت کیا کرتے تھے اور آپ (ع) کی رہنمائی اور علم و بینش سے استفادہ کیا کرتے تھے متوکل عباسی ظالم اور خونخوار خلیفہ تھا وہ امام علی نقی علیہ السلام سے حسد کرتا تھا اور امام علیہ السلام کی قدرت اور مقبولیت سے خائف تھا اسی لئے آپ (ع) کو مدینہ منورہ سے سامرہ شہر کی طرف بلوایا اور ایک فوجی مرکز میں آپ (ع) کو نظر بند کردیا امام علی نقی علیہ السلام نے اس دنیا میں بیالیس سال عمر گزاری اور اس مدت میں ظالم عبّاسی خلیفہ کا ظلم و ستم آپ (ع) پر ہمیشہ رہا اور آپ (ع) اس کے ظلم و ستم کا مقابلہ کرتے رہے آخر کار تیسری رجب دوسو چوّن ہجری کو سامرہ میں شہید کردیئےئے آپ کے جسم مبارک کو اسی شہر سامرہ میں دفن کردیا گیا_

۱۸۷

دسواں سبق

نصیحت امام (ع)

متوکل شراب خوار و ظالم حاکم تھادین اسلام اور قرآن کے قوانین پر عمل نہیں کیا کرتا اپنے اقتدار اور خلاقت کی حفاظت کے لئے ہر قسم کا ظلم کا ارتکاب کرتا تھا لوگوں کی بہت زیادہ عقیدت جو امام علی نقی علیہ السلام سے تھی اس سے وہ رنج و تکلیف میں رہتا اور امام (ع) پاک کے نفوذ اور قدرت سے ڈرتا رہتا تھا ایک دفعہ آدھی رات کو اپنے خوبصورت تخت پر بیٹھا تھا اور اپنے ہم نشینوں کے ساتھ مستی اور عیش و نوش میں مشغول تھا گانے والے اس کے لئے شعر پڑھ رہے تھے اور آلات غنا سے خاص راگ بجا رہے تھے اس کے محل کی دیواریں طلائی چراغوں سے مزيّن تھیں اور محل کے اردگرد مسلح افراد کو پہرہ پر لگا رکھا تھا اچانک مستی کے عالم میں سوچا کہ کیا ممکن ہے کہ یہ تمام قدرت اور با عظمت زندگی میرے

۱۸۸

ہاتھ سے لے لی جائے؟

آیا کوئی ایسا آدمی موجود ہے کہ یہ تمام عیش و نوش اور زیبا زندگی کو میرے ہاتھ سے لے لے پھر اپنے آپ کو خود ہی جواب دیا کہ ہاں حضرت امام علی نقی علیہ السلام کو حبشے شیعہ اپنا امام مانتے ہیں وہ ایک ہے جو ایسا کرسکتا ہے کیونکہ لوگ اسے بہت زیادہ دوست رکھتے ہیں اس فکر سے پریشان ہوا اور چیخا کہ فوراً علی بن محمد(ص) کو گرفتار کر کے یہاں لے آؤ ایک گروہ جو اس کے حکم کے اجراء کے لئے معيّن تھا یعنی وہ لوگ جنہوں نے اپنی آزادی اور انسانیت کو فراموش کر رکھا تھا امام علی بن محمد علیہ السلام کے گھر ہجوم کر کرے آئے اور انہوں نے دیکھا کہ امام علی نقی (ع) رو بقبلہ بیٹھے آسمانی زمزمہ کے ساتھ قرآن پڑھ رہے ہیں آپ کو انہوں نے گرفتار کیا اور اس کے قصر میں لے گئے امام ہادی علیہ السلام قصر میں آہستہ سے داخل ہوئے اس وقت آپ کے چہرہ مبارک سے نور پھوٹ رہا تھا اور اپ آرام و سکون سے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ رہے تھے متوکل نے خون آلود نگاہوں سے غصّے کے عالم میں امام ہادی علیہ السلام کے چہرہ مبارک پر نگاہ ڈالی اور اس سابقہ فکر کا امام علیہ السلام کے متعلق اعادہ کیا اور گویا چاہتا تھا کہ اسی وقت امام علیہ السلام کو قتل کردے مگر اس نے سوچا کہ امام علیہ السلام کو خاص مہمانوں اور ہم نشینوں کی آنکھوں میں معمولی قرار دے لہذا بے ادبی سے کہا اے علی بن محمد (ص) ہماری مجلس کو گرماؤ اور ہمارے لئے کچھ شعر پرہو ہم چاہتے ہیں کہ تمہاری شعر خوانی کی آواز سے خوش اور شادمان ہوں_

۱۸۹

امام ہادی علیہ السلام ساکت رہے اور کچھ جواب نہ دیا متوکل نے دوبارہ مذاق اور مسخرہ کے لہجے میں کہا کہ اے علی (ع) بن محمد(ص) ہماری مجلس کو گرم کرو اور ہمارے لئے اشعار پڑھو امام علی نقی علیہ السلام نے اپنا سر نیچے کیا اور متوکل کی بے حیاء آنکھوں کی طرف نہیں دیکھا اور خاموش رہے متوکل نے کہ جس میں مستی اور غصّہ آپس میں ملے ہوئے تھے بے ادبی اور بے شرمی سے پھر اسی سابقہ جملے کی تکرار کی اور آخر میں کہا کہ لازمی طور پر آپ (ع) ہمارے لئے پڑھیں اس وقت امام علیہ السلام نے ایک تند نگاہ اس ظالم ناپاک مست کے چہرے پر ڈالی اور فرمایا اب جب کہ میں مجبور ہوں کہ شعر پڑھوں تو سن اس کے بعد آپ (ع) نے عربی کے چند اشعار پڑھے کہ بعض شعروں کا ترجمہ یہ ہے_

کتنے اقتدار کے مالکوں نے اس جہان میں اپنی راحت کے لئے پہاڑوں یا میدانوں کے دامن میں محل تعمیر کیئے اور تمام کو آراستہ اور مزین کیا اور قصر کے اطراف میں اپنی جان کے خطرے کے پیش نظر مسلح محافظ اور نگہبان قرار دیئے تا کہ یہ تمام اسباب انہیں موت کے پنیجے سے بچا سکیں لیکن انہیں موت نے اچانک گھیرلیا ان پلید انسانوں کا گریبان پکڑا انہیں ذلت و خواری سے ان کے محلوں سے باہر نکالا اور وہ اپنے اعمال کے ساتھ یہاں سے آخرت کی منزل کی طرف چلے گئے ان کے ناز پروردہ جسم آنکھوں

۱۹۰

سے اوجھل خاک میں چلے گئے لیکن ان کی روح

عالم برزخ میں عذاب میں مبتلا ہوگئی_

اسی مضمون کے اشعار امام علیہ السلام نے اور بھی پڑھے تمام مہمان خاموش بیٹھے تھے اور ان اشعار کے سننے سے لرز رہے تھے متوکل بھی باوجود سنگ دل اور بے رحمی کے دیوانوں کی طرح کھڑا ہوگیا تھا اور لرز رہا تھا_

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ امام علی نقی (ع) کس سال اور کس مہینے اور کس دن متولد ہوئے ؟

۲)___ آپ (ع) کو کس نے امامت کے لئے معین کیا اور کس کے حکم سے؟

۳)___ نقی اور ہادی کے کیا معنی ہیں؟

۴)___ آپ (ع) کو متوکل نے کیوں سامرہ بلوایا؟

۵)___ سامرہ میں متوکل آپ (ع) سے کیسا سلوک کرتا تھا؟

۶)___ امام علی نقی (ع) کس سال شہید ہوئے آپ (ع) کے جسم مبارک کو کہاں دفن کیا گیا؟

۷)___ متوکل کس قسم کا حاکم تھا؟

۸)___ متوکمل امام ہادی (ع) سے کیوں دشمنی رکھتا تھا اور اس کو کس چیز کا ڈر تھا؟

۹)___ متوکل نے امام ہادی علیہ السلام سے کس چیز کا

۱۹۱

تقاضا کیا تھا؟ اور اس سے اس کی غرض کیا تھی؟

۱۰)___ امام علی نقی علیہ السلام نے اشعار کے ذریعہ اس سے کیا کہا؟

۱۱)___ امام علیہ السلام کے اس کردار سے کیا سبق حاصل کرنا چاہیئے؟

۱۹۲

گیارہواں سبق

گیارہوں امام حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام

حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام آٹھ ربیع الثانی دوسو تبّیس ہجری میں مدینہ منورہ میں متولد ہوئے آپ (ع) کے والد امام علی نقی علیہ السلام نے اللہ کے حکم اور پیغمبر اسلام (ص) کی وصيّت کے تحت آپ (ع) کو اپنے بعد کے لئے لوگوں کا امام اور پیشوا معيّن کیا امام حسن عسکری علیہ السلام بھی اپنے آباؤ اجداد کی طرح لوگوں کی رہنمائی اور تربیت کرتے تھے اور ان کو توحید اور اللہ کی اطاعت کی طرف ہدایت فرمایا کرتے تھے اور شرک اور ظالموں کی اطاعت سے روکتے تھے عباسی ظالم خلفاء امام علیہ السلام کی تربیت کے طریقے کو اپنی خواہشات کے خلاف سمجھتے تھے لوگوں کی آگاہی اور بیداری سے خوف زدہ تھے اسی لئے امام علیہ السلام کے سا تھ دشمنی رکھتے تھے اور آپ کو مختلف قسم کے آزار دیا کرتے تھے_ حق

۱۹۳

پسند لوگوں کو آپ سے نہ ملنے دیتے تھے اور آپ کے علم و فضل اور گراں بہا راہنمائی سے آزادنہ طریقے سے استفادہ کرنے دیتے تھے اور بالآخر آپ کو ظالم عباسی خلیفہ اپنے باپ کی طرح آپ کو سامرہ لے گیا اور وہاں قید کردیا اس نے آپ (ع) کو تکلیف دینے کے لئے بدخصلت اور سخت قسم کے لوگ معین کر رکھتے تھے لیکن امام عسکری علیہ السلام نے اپنے اچھے اخلاق سے ایسے افراد کی بھی تربیت کردی تھی اور ان میں سے بعض مومن اورمہربان انسان بن گئے تھے چونکہ امام علیہ السلام کو ایک فوجی مرکز میں نظر بند کر رکھا تھا اسی لئے آپ کے نام حسن کے ساتھ عسکری کا اضافہ کردیا گیا کیوں کہ عسکر کے مغنی لشکر کے ہیں_

حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام اس مدت میں کہ جب لوگوں کی نگاہ سے غائب تھے اور شیعوں کی آپ (ع) سے ملاقات ممنوع قرار دی گئی تھی ان لوگوں کو فراموش نہیں کرتے تھے بلکہ ان کے لئے خطوط لکھا کرتے تھے اور ان کی ذمہ داریاں انہیں یاد دلاتے تھے_

حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام اپنی تمام عمر لوگوں کو اللہ تعالی کی طرف ہدایت فرماتے رہے اور توحید پرستی کی طرف دعوت دیتے رہے اور لوگوں کو ظالم کی اطاعت سے روکتے رہے اور آخر کار خونخوار عباسی خلفاء کے ساتھ دشمنی کے نتیجے میں اٹھائیس سال کی عمر میں شہادت کے بلند مرتبہ تک پہنچے آپ کی شہادت آٹھ ربیع الاول دوسو ساٹھ ہجری میں سامرہ کے شہر میں واقع ہوئی اور آپ (ع) کے جسم مبارک کو آپ (ع) کے والد ماجد کے پہلو میں سپرد خاک کردیا گیا بہت زیادہ سلام ہوں آپ (ع) پر اور راہ خدا کے شہیدوں پر_

۱۹۴

بارہواں سبق

امام حسن عسکری (ع) کا خط

حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے قم میں علی بن حسین قمی (ع) کو جو ایک عالم تھے اس طرح کا ایک خط لکھا:

بسم اللہ الرحمن الرحیم اے ہمارے مورد اعتماد عالم فقیہ عالی مقام اے علی بن حسین قمی خداوند عالم تجھے نیک کاموں میں توفیق دے اور تیرے اولاد کو نیک اور لائق بنائے تقوی اور پرہیزگاری کو مت چوڑنا نماز اول وقت بڑھا کرو اور اپنے مال کی زکاة دیا کرو کیوں کہ جو اپنے مال کی زکاة ادا نہ کرے اس کی نماز قبول نہیں ہوتی دوسروں کی لغزش اور برائی کو معاف کردیا کہ جب غصّہ آئے تو اپنا غصّہ پی جایا کرو اپنے رشتہ داروں اور

۱۹۵

قرابتداروں پر احسان کیا کرو اور خوش اخلاقی سے پیش آیا کرو اپنے دینی بھائیوں سے ہمدردی کیا کرو ہر حالت میں لوگوں کے حوائج پورا کرنے کی کوشش کیا کرو لوگوں کی نادانی اور ناشکری پر صبر کیا کرو احکام دین اور قوانین قرآن کے سمجھنے کی کوشش کیا کرو کاموں میں اس کے انجام کو سوچا کرو زندگی میں کبھی بھی قرآن کے دستور سے نہ ہٹنا لوگوں کے ساتھ اچھی طرح پیش آیا کرو اور خوش اخلاقی اختیار کرو لوگوں کو اچھے کاموں کا حکم دیا کرو اور برے اور ناشائستہ کاموں سے روکا کرو اپنے آپ کا گناہ اور برے کاموں میں ملوث نہ کیا کرو تجہد کی نماز کو منت چوڑنا کیونکہ ہمارے پیغمبر اکرم (ص) حضرت علی (ع) سے فرمایا کرتے تھے_

اے علی (ع) کبھی تہجد کی نماز ترک نہ کرنا اے علی بن حسین قمی جو شخص بھی تہجد کی نماز سے لاپواہی کرے وہ اچھے مسلمانوں میں سے نہیں ہے خود تہجد کی نماز کو ترک نہ کرو اور ہمارے شیعوں کو بھی کہنا کہ وہ اس پر عمل کریں دین کے دستور پر عمل کرنے میں صبر کرو اور امید سے پوری کامیابی کے لئے کوشش کرنا ہمارے شیعہ موجودہ دنیا کے حالات سے ناخوش ہیں اور پوری کامیابی کے لئے کوشش کرتے ہیں تا کہ میرا فرزند مہدی (عج) کہ جس

۱۹۶

کے ظہور کی پیغمبر اسلام (ص) نے خوش خبری دی ہے ظاہر ہوجائے اور دنیا کو لائق مومنین اور پاک شیعوں کی مدد سے عدل و انصاف سے پر کردے آگاہ رہو کہ بالآخر لائق اور پرہیزگار لوگ ہی کامیاب ہوں گے تم پراور تمام شیعوں پر سلام ہو_

حسن بن علی (ع)

سوالات

۱)___ امام حسن عسکری (ع) کس سال اور کس مہینے اور کس دن پیدا ہوئے ہیں؟

۲)___ عباسی خلیفہ نے کس لئے آپ (ع) کو سامرہ شہر میں نظر بند کردیا تھا؟

۳)___ امام (ع) کی رفتار و گفتار نے حکومت کے عملے پر کیا اثر چھوڑا تھا؟

۴)___ عسکر کے کیا معنی ہیں اور گیارہوںامام (ع) کو کیوں عسکری (ع) کہا جاتا ہے؟

۵)___ امام حسن عسکری (ع) کی شہادت کہاں واقع ہوئی او رکس سال اور کس مہینے میں؟

۶)___ حضرت امام حسن عسکری (ع) نے جو خط علی بن حسین قمّی کو لکھا تھا اس میں نماز اور زکاة کے متعلق کیا لکھا تھا؟

۱۹۷

۷)___ امام (ع) نے رشتہ داروں کے ساتھ کیسے سلوک کا حکم دیا ہے؟ اور آپ اپنے رشتہ داروں سے کیسا سلوک کرتے ہیں؟

۸)___ امام حسن عسکری (ع) نے اپنے فرزند حضرت مہدی عج کے متعلق کیا فرمایا ہے؟

۹)___ تہجد کی نماز کے پڑھنے کا طریقہ کسی اہل علم سے پوچھئے

۱۹۸

تیرہواں سبق

بارہویں امام حضرت حجت امام زمانہ حضرت مہدی (عج)

امام زمانہ (ع) پندرہ شعبان دوسو بچپن ہجری سامرہ شہر میں متولد ہوئے آپ (ع) کی والدہ ماجدہ کا نام نرجس خاتون تھا اور آپ (ع) کے والد امام حسن عسکری علیہ السلام تھے آپ (ع) کے والد نے پیغمبر اسلام(ص) کے نام پر آپ (ع) کا نام محمد (ص) رکھا_

بارہویں امام مہدی (ع) ، قائم، امام زمانہ (عج) کے نام سے مشہور ہیں پیغمبر اکرم (ص) بارہویں امام (ع) کے متعلق اس طرح فرمایا ہے:

امام حسین (ع) کا نواں فرزند میرے ہم نام ہوگا اس کا لقب مہدی ہے اس کے آنے کی میں مسلمانوں کو خوشخبری سناتا ہوں:

ہمارے تمام ائمہ (ع) نے امام مہدی (ع) کے آنے کا مدہ اور خوشخبری

۱۹۹

دی ہے اور فرمایا ہے: کہ

امام حسن عسکر ی(علیہ السلام) کا فرزند مہدی (ع) ہے کہ جس کے ظہور اور فتح کی تمہیں خوشخبردی دیتے ہیں

ہمارا امام مہدی (ع) بہت طویل زمانہ تک نظروں سے غائب رہے گا ایک بہت طویل غیبت کے بعد خدا اسے ظاہر کرے گا اور وہ دنیا کو عدل و انصاف سے پر کردے گا:

امام زمانہ پیدائشے کے وقت سے ہی ظالموں کی نگاہوں سے غائب تھے خدا و پیغمبر اسلام (ص) کے حکم سے علیحدہ زندگی بسر کرتے تھے صرف بعض دوستو کے سامنے جو با اعتماد تھے ظاہر ہوتے تھے اور ان سے گفتگو کرتے تھے حضرت امام حسن عسکری (ع) نے اللہ تعالی کے حکم اور پیغمبر اکرم (ص) کی وصيّت کے تحت آپ (ع) کو اپنے بعد کے لئے لوگوں کا امام معيّن فرمایا:

امام زمانہ (ع) اپنے والد کے بعد منصب امامت پر فائز ہوئے اور بچپن سے ہی اس خاص ارتباط سے جو وہ خدا سے رکھتے اور اللہ نے انہیں علم عنایت فرمایا تھا، لوگوں کی رہنمائی اور فرائض امامت کو انجام دیا کرتے تھے اللہ نے اپنی بے پناہ قدرت سے آپ (ع) کو ایک طویل عمر عنایت فرمائی ہے اور آپ (ع) کو حکم دے دیا ہے کہ غیبت اور پردے میں زندگی گزاریں اور پاک دلوں کی اللہ کی طرف رہنمائی فرمائیں اب حضرت حجت امام زمانہ (عج) نظروں سے غائب اور پوشیدہ ہیں لیکن لوگوں کے درمیان آمد و رفت کرتے ہیں اور لوگوں کی مدد کرتے ہیں اور اجتماعات میں بغیر اس کے کہ کوئی آپ (ع) کو پہچان سکے شرکت

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285