‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) جلد ۲

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) 13%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 285

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 285 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 120647 / ڈاؤنلوڈ: 4194
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

فرماتے ہیں اس لحاظ سے آپ (ع) پر جو اللہ نے ذمہ داری ڈال رکھی ہے اسے انجام دیتے ہیں اور لوگوں کو فیض پہنچاتے ہیں اور لوگ بھی اسی طرح جس طرح سورج میں آجانے کے باوجود اس سے فیض اٹھاتے ہیں آپ (ع) کے وجود گرامی سے با وجودیکہ آپ غیبت میں ہیں فائدہ اٹھاتے ہیں_

غیبت اور امام زمانہ (ع) کا ظہور

امام زمانہ (ع) کی غیبت اس وقت تک باقی رہے گی جب تک دنیا کے حالات حق کی حکومت قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہوں اور عالمی اسلامی حکومت کی تاسیس کے لئے مقدمات فراہم نہ ہوجائیں جب اہل دنیا کثرت مصائب اور ظلم و ستم سے تھک جائیں گے اور امام زمانہ (ع) کا ظہور خداوند عالم سے تہہ دل سے چاہیں گے اور آپ (ع) کے ظہور کے مقدمات اور اسباب فراہم کردیں گے اس وقت امام زمانہ (ع) اللہ کے حکم سے ظاہر ہوں گے اور آپ (ع) اس قوت اور طاقت کے سبب سے جو اللہ نے آپ کو دے رکھی ہے ظلم کا خاتمہ کردیں گے اور امن و امان واقعی کو توحید کے نظریہ کی اساس پر دنیا میں رائج کریں گے ہم شیعہ ایسے پر عظمت دن کے انتظار میں ہیں اور اس کی یاد میں جو در حقیقت ایک امام اور رہبر کامل

۲۰۱

کی یاد ہے اپنے رشد اور تکامل کے ساتھ تمام عالم کے لئے کوشش کرتے ہیں اور حق پذیر دل سے امام مہدی (ع) کے سعادت بخش دیدار کے متمنّی ہیں اور ایک بہت بڑے الہی ہدف میں کوشاں ہیں اپنی اور عام انسانوں کی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں اور آپ کے ظہور اور فتح کے مقدمات فراہم کر ر ہے ہیں_

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ بارہویں امام حضرت مہدی (ع) کس مہینے متولد ہوئے؟

۲)___ پیغمبر اسلام (ص) نے بارہویں امام (ع) کے متعلق کیا فرمایا ہے؟

۳)___ ہمارے دوسرے ائمہ نے امام مہدی (ع) کے متعلق کیا فرمایا ہے؟

۴)___ امام زمانہ (ع) کس کے حکم سے غائب ہوئے ہیں؟

۵)___ اب لوگ امام زمانہ (ع) کے وجود سے کس طرح مستفید ہو رہے ہیں؟

۶)___ امام زمانہ کی غیبت کب تک رہے گی؟

۷)___ جب امام زمانہ (ع) اللہ کے حکم سے ظاہر ہوں گے تو کیا کام انجام دیں گے؟

۸)___ ہم شیعہ کس دن کے انتظار میں ہیں امام زمانہ (ع) کے ظہور کے مقدمات کیسے فراہم کرسکتے ہیں؟

۲۰۲

چودہواں سبق

شیعہ کی پہچان

امام محمد باقر علیہ السلام نے اپنے اصحاب میں سے ایک جابر نامی صحابی سے یہ فرمایا اے جابر کیا صرف اتنا ہی کافی ہے کہ کوئی کہہ دے کہ میں شیعہ ہوں اور اہل بیت (ع) پیغمبر (ص) اور ائمہ (ع) کو دوست رکھتا ہوں صرف یہ دعوی کافی نہیں ہے خدا کی قسم شیعہ وہ ہے جو پرہیزگار ہو اور اللہ کے فرمان کی مکمل اطاعت کرتا ہو اس کے خلاف کوئی دوسرا کام نہیں کرتا اگر چہ کہتا رہے کہ میں علی علیہ السلام کو دوست رکھتا ہوں اور اپنے آپ کو شیعہ سمجھے اے جابر ہمارے شیعہ ان نشانیوں سے پہچانے جاتے ہیں سچے امین با وفا ہمیشہ اللہ کی یاد میں ہوں نماز پڑھیں روزہ رکھیں قرآن پڑھیں ماں باپ سے نیکی کریں ہمسایوں کی مدد کریں یتیموں کی خبر گری کریں اور ان کی دلجوئی کریں لوگوں کے بارے میں سوائے اچھائی

۲۰۳

کے اور کچھ نہ کہیں لوگوں کے مورد اعتماد اور امین ہوں_

جابر نے جو امام (ع) کے کلام کو بڑے غور سے سن رہے تھے تعجب کیا اور کہا: اے فرزند پیغمبر خدا (ص) مسلمانوں میں اس قسم کی صفات کے بہت تھوڑے لوگ ہم دیکھتے ہیں امام (ع) محمد باقر علیہ السلام نے اپنی گفتگو جاری رکھی اور فرمایا شاید خیال کرو کہ شیعہ ہونے کے لئے صرف ہماری دوستی کا ادّعا ہی کافی ہے نہیں اس طرح نہیں ہے جو یہ کہتا ہے کہ میں علی علیہ السلام کو دوست رکھتا ہوں لیکن عمل میں ان کی پیروی نہیں کرتا وہ علی (ع) کا شیعہ نہیں ہے بلکہ اگر کوئی کہے کہ میں پیغمبر (ص) کو دوست رکھتا ہوں اور آپ (ص) کی پیروی نہ کرے تو اس کا یہ ادّعا اسے کوئی فائدہ نہ دے گا حالانکہ پیغمبر (ص) علی (ع) سے بہتر ہیں اے جابر ہمارے دوست اور ہمارے شیعہ اللہ کے فرمان کے مطیع ہوتے ہیں جو شخص اللہ کے فرمان پر عمل نہیں کرتا اس نے ہم سے دشمنی کی ہے تمہیں پرہیزگار ہونا چاہیئے اور آخرت کی بہترین نعمتوں کے حاصل کرنے اورآخرت کے ثواب کو پانے کے لئے اچھے اور نیک کام انجام دینے چاہیے سب سے بہتر اوربا عزّت انسان اللہ کے نزدیک وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہو_

غور کیجئے اور جواب دیجئے ۱)___ شیعہ کو کیسا ہونا چاہیئے وہ کن علامتوں اور نشانیوں سے پہچانا جاتا ہے؟

۲)___ کیا صرف ادّعا کرنا کہ علی علیہ السلام کو دوست

۲۰۴

رکھتا ہوں شیعہ ہونے کے کئے کافی ہے؟

۳)___ اللہ کے نزدیک سب سے بہتر اور با عزت انسان کون سا ہے؟

۲۰۵

پندرہواں سبق

اسلام میں رہبری اور ولایت

اسلام کے ابدی اصولوں میں رہبری اور ولایت داخل ہے امت اسلامی کا رہبر اور ولی اور حاکم ہونا ایک الہی منصب ہے خداوند عالم لائق اور شائستہ انسانوں کو اس مقام اور منصب کے لئے معيّن کر کے لوگوں کو بتلایا اور اعلان کرتا ہے پیغمبر (ص) کے زمانے میں امت اسلامی کا رہبر اور ولی خود پیغمبر (ص) کی ذات گرامی تھی اور آپ (ص) ہمیشہ اس منصب کی ذمہ داریوں کو انجام دیتے تھے دین کے قوانین اور دستور کو خداوند عالم سے دریافت کرتے تھے اور لوگوں کو بتلایا کرتے تھے آپ (ص) کو اللہ کی طرف سے حکم تھا کہ سلام کے سیاسی اور اجتماعی قوانین او راحکام مسلمانوں میں نافذ اور جاری کریں اور اللہ کی رہبری سے امت کو کمال تک پہنچائیں امور سیاسی اور اجتماعی کی اسلامی معاشرے میں بجا

۲۰۶

آواری پیغمبر اسلام (ص) کے ہاتھ میں تھی دفاع اور جہاد کا حکم خود آپ (ص) دیا کرتے تھے اور فوج کے افسر اور امیر آپ (ص) خود مقرر کیا کرتے تھے اور اس میں خداوند عالم نے آپ(ص) کو کامل اختیار دے رکھا تھا آپ (ص) کے فیصلے کو لوگوں کے فیصلے پر تقدم حاصل تھا کیوں کہ آپ (ص) لوگوں کے فیصلے پر تقدم سے پوری طرح آگاہ تھے اور آپ (ص) لوگوں کی سعادت اور آزادی کی طرف رہبری کرتے تھے رہبری اور ولایت سے یہی مراد ہے اور اس کا یہی معنی ہے خداوند عالم نے یہ مقام اپنے پیغمبر(ص) کے سپرد کیا ہے جیسے خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ پیغمبر (ص) کو حق پہنچتا ہے کہ تمہارے کاموں کے بارے میں مصمم فیصلہ کریں اس کا ارادہ اور تصمیم تہارے اپنے ارادے اور تصمیم پر مقدم ہے اور تمہیں لازما پیغمبر کی اطاعت کرنا ہوگی رہبری اور ولایت صرف پیغمبر (ص) کے زمانہ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ ضروری ہے کہ لوگ ہر زمانے میں اللہ کی طرف سے کوئی رہبر اور ولی رکھتے ہوں اسی لئے پیغمبر اکرم (ص) نے حضرت علی علیہ السلام کے حق میں لوگوں کو بتلایا کہ ان کے بعد وہ تمہارے ولی اور رہبر ہوں گے اور غدیر کے عظیم اجتماع میں مسلمانوں کو فرمایا کہ جس نے میری ولایت اور رہبری کو قبول کیا ہے اسے چاہیئے کہ حضرت علی علیہ السلام کی رہبری اور ولایت کو قبول کرے اس ترتیب سے حضرت علی علیہ السلام خدا کے حکم اور پیغمبر اسلام (ص) کے اعلان سے لوگوں کے رہبر اور امام اور خلیفہ ہوئے حضرت علی علیہ السلام نے بھی امت کو رہبر بتائے بغیر نہیں چھوڑا بلکہ خدا کے حکم اور پیغمبر اسلام (ص) کے دستور

۲۰۷

کے مطابق امام حسن علیہ السلام کو رہبری کے لئے منتخب کرگئے تھے اور لوگوں میں بھی اعلان کردیا تھا اسی ترتیب سے ہر ایک امام نے اپنے بعد آنے والے امام کی رہبری کو بیان فرمایا اور اس سے لوگوں کو باخبر کیا یہاں تک کہ نوبت بارہویں امام (ع) تک آپہنچی آپ (ع) خدا کے حکم سے غائب ہوگئے بارہویں امام (ع) کی غیبت کے زمانے میں امت اسلامی کی رہبری اور راہنمائی، فقیہ عادل، کے کندھے پر ڈالی گئی ہے_

رہبر فقیہ اسلام شناس پرہیزگار ہونا چاہیئے لوگوں کے سیاسی اور اجتماعی امور اور دوسری ضروریات سے آگاہ اور واقف ہو:

مسلمانوں کو ایسے آدمی کا علم ہوجایا کرتا ہے اور اسے رہبرمان لیتے ہیں اور اس کی اطاعت کرتے ہیں اس قسم کے رہبر کے وجود سے مسلمان ظالوں کے ظلم و ستم سے رہائی پالیتے ہیں جیسے کہ آج کل زمانے میں ایران کے شیعوں نے ایک ایسے رہبر کو مان کر موقع دیا ہے کہ وہ احکام اسلامی کو رائج کرے اور ایران کے مسلمانوں کو بلکہ تمام دنیا کے مسلمانوں کو طاغوتیوں کے ظلم سے نجات دلوائے_

سوالات

۱)___ امت اسلامی کی رہبری اور ولایت پیغمبر اسلام (ص) کے زمانے میں کس کے کندھے پر تھی؟

۲)___ کون سے کام پیغمبر (ص) خود انجام دیا کرتے تھے؟

۲۰۸

۳)___ خداوند عالم نے پیغمبر کی ولایت کے بارے میں قرآن میں کیا فرمایا ہے؟

۴)___ پیغمبر اسلام (ص) نے اپنے بعد کس شخص کو امت اسلامی کی رہبری کے لئے معيّن کیا تھا؟

۵)___ جب آپ (ص) اس کا اعلان کر رہے تھے تو کیا فرمایا تھا؟

۶)___ بارہویں امام (ع) کے غیبت کے زمانے میں امت اسلامی کی رہبری اور ولایت کس کے ذمّہ ہوتی ہے؟

۷)___ رہبر اور ولی مسلمین کو کن صفات کا حامل ہوچاہیئے؟

۸)___ مسلمان ظلم و ستم سے کس طرح رہائی پاسکتے ہیں؟

۹)___ امت اسلامی کی تمام افواج کا حاکم اور فرمانبردار کون ہوتا ہے؟

۲۰۹

پانچواں حصّہ

فروغ دین

۲۱۰

پہلا سبق

باپ کا خط اور مبارک بادی بیٹا محسن اور بیٹی فاطمہ:

میں خوش ہوں کہ تم نے بچپن کا زمانہ ختم کرلیا ہے اور جوانی کے زمانے میں داخل ہوگئے ہو جب تم چھوٹے تھے تو میں تمہاری نگہداشت کرتا تھا اور تمہارے کاموں اور کردار کی زیادہ سرپرستی کرتاتھا نماز کے وقت تمہیں نماز یاد دلاتا اور درس کے وقت کام اور محنت کرنے کی تلقین کرتا تھا لیکن اب تم خود ذمہّ دار ہو بیٹا اب تم بڑے ہوگئے ہو اور تمہارے پندرہ سال پورے ہوچکے ہیں بیٹی تمہارے بھی نوسال مکمل ہوچکے ہیں اور اب تم کاملاً رشیدہ ہوچکی ہو اب جب تم اس سن اور رشد کو پہنچ چکے ہو تو خداوند عالم نے تمہیں بالغ قرار دیا ہے اور تمہاری طرف خاص توجّہ فرماتا ہے اور تمہیں ایک مکلف اور ذمّہ دار انسان

۲۱۱

سمجھتا ہے اور تمہارے لئے خاص فرض اور ذمہ داری معيّن کی ہے اب تمہاری زندگی بچپن سے جوانی اور قوت کی طرف پہنچ چکی ہے قدرت اور طاقت ہمیشہ ذمہ داری بھی ہمراہ رکھتی ہے احکام دین اور قوانین شریعت تمہاری ذمہ داری اور فرض کو معيّن کرتے ہیں تم اپنے تمام کاموں کو ان اسلام قوانین کے مطابق بجالاؤ اور ان پر ٹھیک ٹھیک عمل کرو تم پر واجب ہے کہ نماز صحیح اور وقت پر پڑھو

خبردار ہو کہ ایک رکعت نماز بھی ترک نہ کرو ورنہ گناہ گار ہوجاؤ گے واجب ہے کہ اگر ماہ مبارک کے روزے تمہارے لئے مضر نہ ہوں تو انہیں رکھو اگر تم نے بغیر شرعی عذر کے روزہ نہ رکھا تو تم نے نافرمانی اور گناہ کیا ہے اب تم اس عمر میں یہ کرسکتے ہو کہ دینی عبادات اور اچھے کام بجالا کر ایک اچھے انسان کے مقام اور مرتبے تک پہنچ جاؤ اور اخداوند عالم سے اس اور محبت کرو چونکہ میں سفر میں ہوں تمہیں ابتدائے بلوغت میں مبارک بادی پیش نہیں کرسکا اسی لئے یہ خط لکھا ہے اورمبارک باد کے ساتھ تمہارے لئے دو عدد کتابیں بھی طور تحفہ روانہ کی ہیں _

تمہیں دوست رکھنے والا:

تمہارا والد

۲۱۲

دوسرا سبق

نجس چیزیں

جانتے ہیں ہم بیمار کیوں ہوتے ہیں؟

بہت سی بیماریاں جیسے سل یا بچّوں پر فالج کا گرنا و غیرہ یہ چھوٹے چھوٹے جراثیموں سے پیدا ہوتی ہیں اور ان جراثیم کا مرکز گندی جگہ ہوا کرتا ہے جہاں یہ پیدا ہوتے اور افزائشے نسل پاتے ہیں یہ جراثیم اپنی زندگی کی جگہ تو مفید کام انجام دیتے ہیں لیکن اگر یہ انسان کے بدن پر منتقل ہوجائیں تو اسے نقصان پہنچاتے ہیں اور بیمار کردیتے ہیں اب شاید آپ بتلاسکیں کہ ہم کیوں بیمار ہوجاتے ہیں اور ان بیماریوں کو روکنے کے لئے کون سے کام پہلے حفظ ما تقدم کے طور پر انجام دینے چاہیئیں سب سے بہترین راستہ بیماریوں کو روکنے کا صفائی اور پاکیزگی کا خیال رکھنا اگر ہم چاہیں کہ بیمار نہ ہوں تو ضروری ہے کہ کثافت اور گندگی کو اپنے سے دور

۲۱۳

رکھیں اور اپنی کے ماحول کو ہمیشہ پاکیزہ رکھیں کیا آپ نجس چیزوں اور ان چیزوں کو جن میں جراثیم ہوا کرتے ہیں پہچانتے ہیں؟ کیا جانتے ہیں کہ انسان اور حرام گوشت حیوان کا پائخانہ اور گوبر نقصان دہ جراثیم کے اجتماع کامرکز ہیں___؟ کیا جانتے ہیں حرام گوشت حیوان کا پیشاب کثیف اور زہرآلودہ ہوتا ہے___؟ کیا جانتے ہیں کہ جب خون بدن سے باہر نکلتا ہے تو اس پربہت زیادہ جراثیم حملہ آور ہوتے ہیں___؟ کیا جانتے ہیں کہ وہ جراثیم جو کتے اور سور کے جسم میں ہوتے ہیں وہ انسان کے جسم کی سلامتی اور جان کے لئے بہت نقصان دہ ہیں___؟ کیا جانتے ہیں کہ مردار اور حیوانات کی لاشیں جراثیم کی پرورش کا مرکز اور اس کے بڑھنے اور افزائشے نسل کی جگہ ہوا کرتی ہیں اسلام کے قوانی بنانے والا ان ساری چیزوں کو جانتا تھا اسی وجہ سے اور بعض دوسری وجوہات سے ان چیزوں اور دوسری بعض چیزوں کو نجس بتلایا ہے اور مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ اپنے آپ کو اور اپنے ماحول کو ان چیزوں سے پاک رکھین اور یہ قاعدہ کلی ہے کہ مسلمان مرد ہر اس چیز سے کہ جو جان اور جسم کے لئے بیماری کا موجب ہو عقل اور فہم کو آلودہ اور نجس کردیتی ہو اس سے دوری اختیار کرتا ہے وہ بعض چیزیں کہ جو اسلام میں نجس بتلائی گئی ہیں یہ ہیں_

۱)___ انسان کاپیشاب اور پائخانہ اور حرام گوشت حیوان کا پیشاب اور پائخانہ_

۲۱۴

۲)___ جس حیوان کا خون دہار مار کر نکلتا ہو اس کا خون اور مردار_

۳)___ کتّا اور سور_

۴)___ شراب اور جوکی شراب اور ہر وہ مائع جو نشہ آور ہو ایک مسلمان کا بدن اور لباس اور زندگی کا ماحول ان چیزوں سے پاک ہونا چاہیے_ کیا جانتے ہیں کہ ان چیزوں سے بدن اور لباس یا کوئی اور چیز نجس ہوجائے تو اسے پاک کرنے کا طریقہ کیا ہے___؟

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ ایک مسلمان کن چیزوں سے دوری اور اجتناب کرتا ہے؟

۲)___ بیماریوں سے حفظ ما تقدم کے طور پر کیا کرنا چاہیے

۳)___ جو چیزیں اسلام میں نجس ہیں انھیں بیان کیجئے

۲۱۵

تیسرا سبق

نماز کی اہمیت

نماز دین کا ستون ہے اور بہترین عبادت نماز ہے نماز پڑھنے والا اللہ کو بہت زیادہ دوست رکھتا ہے اورنماز میں مہربان خدا سے راز و نیاز او رگفتگو کرتا ہے اور اللہ کی بے حساب نعمتوں کا شکریہ ادا کرتا ہے_ خدا بھی نماز پڑھنے والوں کو اور بالخصوص بچّوں کو بہت زیادہ دوست رکھتا ہے اور ان کو بہت اچھی اور بہترین جزاء دیتا ہے ہر مسلمان نماز سے محبت کرتا ہے نماز پڑھنے اور خدا سے باتیں کرنے کو دوست رکھتا ہے اور اسے بڑا شمار کرتا ہے_ منتظر رہتا ہے کہ نماز کا وقت ہو اور خدا کے ساتھ نماز میںحاجات اور راز و نیاز کرے جب نماز کا وقت ہوجاتا ہے تو سارے کام چھوڑدیتا ہے اور اپنے آپ کو ہر قسم کی نجاست سے پاک کرتا ہے اور وضو کرتا ہے پاک

۲۱۶

لباس پہنتا ہے خوشبو لگاتا ہے اور اوّل وقت میں نماز میں مشغول ہو جاتا ہے اپنے آپ کوتمام فکروں سے آزاد کرتا ہے اور صرف اپنے خالق سے مانوس ہوجاتا ہے اور اس سے محبت کرتا ہے ادب سے اللہ کے سامنے کھڑا ہوجاتا ہے تکبیر کہتا ہے اور خدا کو بزرگی اور عظمت سے یاد کرتا ہے سورہ الحمد اور دوسری ایک سورہ کو صحیح پڑھتا ہے اور کامل رکوع اور سجود بجالاتا ہے نماز کے تمام اعمال کو آرام اور سکون سے بجالاتا ہے اور نماز کے ختم کرنے میں جلد بازی سے کام نہیں لیتا ایک دن ہمارے پیغمبر اسلام (ص) مسجد میں داخل ہوئے ایک آدمی کو دیکھا کہ بہت جلدی میں نماز پڑھ رہا ہے رکوع اور سجدے کو کامل بجا نہیں لاتا اور نماز کے اعمال کو آرام سے بجا نہیں لاتا آپ نے تعجب کیااور فرمایا کہ یہ آدمی نماز نہیں پڑھ رہا بلکہ ایک مرغ ہے جو اپنی چونچ زمین پر مار رہا ہے سیدھا ٹیرھا ہوتا ہے خدا کی قسم اگر اس قسم کی نماز کے ساتھ اس دنیا سے جائے تو مسلمان بن کر نہیں جائے گا اور آخرت میں عذاب میں مبتلا ہوگا:

بہتر ہے کہ نماز پڑھنے کے لئے مسجد میں جائیں اور اپنی نماز جماعت کے ساتھ بجالائیں_

نماز کے چند مسئلے

۱)___ مرد پر واجب ہے کہ مغرب اور عشاء اور صبح کی پہلی

۲۱۷

دو رکعت میں الحمد اور سورہ کو بلند آواز سے پڑھے_

۲)___ نماز پڑھنے والے کا لباس اور بدن پاک ہونا ضروری ہے_

۳)___ ایسی جگہ نماز پڑھنا کہ جہاں اس کا مالک راضی نہ ہویا ایسے لباس میں نماز پڑھنا کہ جس کا مالک راضی نہ ہو حرام اور باطل ہے_

۴)___ سفر میں چار رکعت نماز دو رکعت ہوجاتی ہے یعنی صبح کی طرح دو رکعت نماز پڑھی جائے کیسا سفر ہو اور کتنا سفر ہو کتنے دن کا سفر ہو ان کا جواب توضیح المسائل میں دیکھئے_

۲۱۸

چوتھا سبق

نماز آیات

جب سورج یا چاند گرہن لگے تو ایک مسلمان کو اس سے قیامت کے دن کی یاد آجاتی ہے اس قوت کی یاد میں کہ جس وقت تمام جہان زیر و زبر ہوجائے گا اور سورج اور چاند کا چہرہ تاریک ہوجائے گا اور مردے جزاء اور سزا کے لئے زندہ محشور ہوں گے سورج یا چاند گرہن یا زلزلہ کے آنے سے ایک زندہ دل مسلمان قدرت خدا کی نشانیوں میں سے ایک نشانی دیکھتا ہے اور گویا خلقت نظام کی علامت کا مشاہدہ کرتا ہے اور اس کا دل اللہ کی عظمت سے لرزجاتا ہے اور خدائے بے نیاز کی طرف احتیاج کا احساس کرتا ہے اور اللہ کے حکم کے تحت نماز آیات کے لئے کھڑا ہوجاتا ہے اور مہربان خدا سے راز و نیاز کرتا ہے اور اپنے پریشان اور بے آرام دل کو اطمینان دیتا ہے کیونکہ

۲۱۹

خدا کی یاد پریشان دل کو آرام دیتی ہے اور تاریک دلوں کو روشنی کا مدہ سناتی ہے لہذا اس سے اس کا دل آرام حاصل کرلیتا ہے اور مشکلات کے مقابلے او رحوادث کے حفظ ما تقدم کے لئے بہتر سوچتا ہے اور زندگی کے ٹھیک راستے کو پالیتا ہے_

نماز آیات کا پڑھنا جب سورج یا چاند گرہن لگے یا زلزلہ آئے ہر مسلمان پر واجب ہے نماز آیات کس طرح پڑھیں نماز آیات صبح کی نماز کی طرح دو رکعت ہوتی ہے صرف فرق یہ ہے کہ ہر ایک رکعت میں پانچ رکوع ہوتے ہیں اور ہر ایک رکوع کے لئے رکوع سے پہلے سورة الحمد اور کوئی ایک سورہ پڑھنا ہوتا ہے اور پانچویں رکوع کے بعد کھڑے ہوکر سجدے میں چلاجائے اور اس کے بعد دوسری رکعت پہلی رکعت کی طرح بجالائے اور دو سجدوں کے بعد تشہد اور سلام پڑھے اور نماز کو ختم کرے_

نماز آیات کو دوسرے طریقے سے بھی پڑھا جاسکتا ہے اس کی ترکیب اور باقی مسائل کو توضیح المسائل میںدیکھئے

سوالات

۱)___ سورج گرہن یا چاند گرہن کے وقت انسان کو کونسی چیز یاد آتی ہے؟

۲)___ نماز آیات کس طرح پڑھی جائے؟

۳)___ نماز آیات کا پڑھنا کیا فائدہ دیتا ہے؟

۴)___ کس وقت نماز آیات واجب ہوتی ہے؟

۲۲۰

پانچواں سبق

قرآن کی دو سورتیں

قرآن کی چند حصّوں میںتقسم کیا گیا ہے اور ہر حصّہ کو سورہ کہا جاتا ہے اور وہ بسم اللہ الرحمن الرحیم سے شروع ہوتی ہے اور پھر ہر سورہ کو چند حصّوں میں تقسیم کردیا گیا ہے کہ جس کے ہر حصّے کو آیت کہاجاتا ہے سورہ الحمد اور سورہ توحید کا ترجمہ یاد کیجئے اور نماز میں اس کے ترجمے کی طرف توجہ کیجئے بہتر یہی ہے کہ قرآن مجید کی کوئی چھوٹا سورہ یاد کیجئے کہ جسے سورہ الحمد کے بعد نماز میں پڑھا کیجئے

_بسم الله الرحمن الرحیم

شروع کرتا ہوں خدا کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

الحمد لله رب العالمین

الرّحمن الرّحیم

تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے جو بہت مہربان اور رحم والا ہے

۲۲۱

مالک یوم الدّین ايّاک نعبد و ايّاک نستعین

روز جزا کا مالک ہے ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں

اهدنا الصّراط المستقیم صراط الّذین انعمت علیهم

تو ہمیں سیدھے راستے پر قائم کرھ ان لوگوں کے راستہ پر کہ جن پر تو نے اپنی نعمتیں نازل کی

غیر المغضوب علیهم و لا الضّالین

ہیں نہ کہ ان لوگوں کے راستے پر کہ جن پر تیرا عذاب نازل ہوا اور نہ گمراہ لوگوں کے راستہ کی

بسم الله الرحمن الرحیم

شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

قل هو الله احد الله الصّمد لم یلد و

کہہ دیجئے کہ اللہ ایک ہے اللہ (ہر شی سے) بے نیاز ہے نہ اس نے کسی کو جنا

لم یولد و لم یکن لّه کفوا احد

اور نہ ہی اسے کسی نے جنا اور کوئی اس کا ہمسر نہیں

۲۲۲

چھٹا سبق

روزہ ایک بہت بڑی عبادت ہے

روزہ رکھنا اسلام کی عبادتوں میں سے ایک بہت بڑی عبادت ہے خدا روزہ رکھنے والوں کو دوست رکھتا ہے اور انہیں بہترین جزا اور انعام دیا جائے گا ہر مسلمان کو چاہیئے کہ وہ روزہ رکھے یعنی صبح صادق سے لے کر مغرب تک کھانے پینے اور دوسری چیزوں سے کہ جس سے روزہ باطل ہوجاتا ہے اجتناب کرے جب ہم روزہ رکھنا چاہیں تو پہلے نیت کریں یعنی ارادہ کریں کہ ہم اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لئے روزہ رکھتے ہیں خداوند عالم نے روزہ واجب کیا ہے تا کہ مسلمان خدا کی یاد میں ہوں اور خدا کو بہتر پہنچانیں اور اپنی خواہشوں پر غالب آئیں آخرت کو زیادہ یاد کریں اور اچھے کاموں کے بجالانے کے لئے آمادہ ہوں تا کہ اپنے اچھے کاموں کو آخرت کے لئے ذخیرہ کریں بھوک اور پیاس کا مزہ

۲۲۳

لیں اور غریبوں اور بھوکوں کی فکر کریں اور ان کی مدد کریں اور صحت اور سلامتی سے زیادہ بہرہ ور ہوں

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ جو صرف کھانا اور پینا چھوڑدے تو وہ روزہ دار نہیں ہوجاتا یعنی روزہ کے لئے صرف اتنا کافی نہیں ہے بلکہ تم روزہ دار تب ہوگئے جب کہ تمہازے کان اور زبان بھی روزہ دار ہوں یعنی حرام کام انجام نہ دیں تمہارے ہاتھ پاؤں اور بدن کے تمام اعضاء بھی روزہ دار ہوں یعنی برے کام انجام نہ دیں تا کہ تمہارا روزہ قبول ہو_ تم تب روزہ دار ہوگے جب کہ دوسرے دنوں سے بہتر اور خوش خلق ہو زبان کو بیکار اور فضول باتوں سے روکو جھوٹ نہ بولو کسی کا مذاق نہ اڑاؤ اور آپس میں دشمنی او رجھگڑا نہ کرو، حسد نہ کرو، کسی کی عیب جوئی اور بدگوئی نہ کرو، اپنے نوکروں اور خادموں پر ہمیشہ کی نسبت زیادہ مہربانی کرو، اور ان سے تھوڑا کام لوجو لڑکے اور لڑکیاں بلوغ اور رشد کی عمر کی پہنچ گئے ہوں اور ان ک لئے روزہ رکھنا شرعاً کسی دوسری وجہ سے ممنوع نہ ہو تو ان پر واجب ہے کہ وہ ماہ رمضان المبارک کا روزہ رکھیں چھوٹے بچّے بھی سحری کے کھانے میں اپنے گھر والوں کے ساتھ شرکت کریں سحری کھاکیں اور ظہر تک یا اس وقت تک کہ جہاں تک ان سے ہوسکتا ہے کوئی چیز نہ کھائیں پئیں تو اس طرح وہ بھی روزہ دار وں کے ساتھ ثواب اور انعام الہی میں شریک ہوجائیں گے جو شخص شرعی عذر کے علاوہ روزہ نہ رکھے گناہ گار ہے اور اس کے بعد اس کی

۲۲۴

قضا بھی بجالائے اور ہر دن کے گناہ کے تدارک کے لئے توبہ کرے اور ہر دن کے روزے کے لئے جو نہیں رکھا ساٹھ روزے رکھے یا ساتھ فقیروں کو کھانا کھلائے

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ روزہ رکھنے کی غرض کیا ہے جب روزہ رکھنا چاہیں تو کیا نیت کریں؟

۲)___ جب ہم روزہ دار ہوتے ہیں تو کن کاموں کے لئے آمادگی ظاہر کرتے ہیں اور کیوں؟

۳)___ روزہ دار انسان کیسے بھوکوں اور پیاسوں کے بارے میں سوچتا ہے؟

۲۲۵

ساتواں سبق

اسلام میں دفاع اور جہاد

ہر مسلمان کے بہترین اور اہم ترین فرائض میں سے ایک جہاد ہے جو مومن جہاد کرتا ہے وہ اخروی درجات اور اللہ کی مغفرت اور خاص رحمت الہی سے نوازا جاتا ہے مجاہد مومن میدان جہاد میں جاکر اپنی جان اور مال کو اللہ کی جاودانی بہشت کی قیمت پر فروخت کرتا ہے اور یقینا یہ معاملہ فائدہ مند اور توفیق آمیز ہے اور اس کے لئے اللہ تعالی کی رضا ہر انعام اور جزاء سے زیادہ قیمتی ہے_

پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا جو لوگ اللہ کے راستے میں بندگان خدا کی آزادی کے لئے قیام اور جہاد کرتے ہیں قیامت کے دن بہشت کے اس دروازے سے داخل ہوں گے کہ جس کا نام ''باب مجاہدین ہے اور یہ دروازہ صرف مجاہد مومن کے لئے کھولا جائے گا اور وہ

۲۲۶

نہایت شان و شوکت سے ہتھیار کندھے پر اٹھائے ہوئے سب کی آنکھوں کے سامنے اور تمام اہل جنّت سے پہلے بہشت میں داخل ہوگا اور اللہ کے مقرّب فرشتے اس پر سلام کریں گے اور اسے خوش آمدید کہیں گے اور دوسرے لوگ اس کے مرتبہ و مقام پر رشک کریں گے اور جو بھی خدا کی راہ میں جہاد اور جنگ کو چھوڑ دے گا_

خداوند عالم اس کے جسم کو ذلت و خواری کا لباس پہنائے گا وہ اپنا دین چھوڑ بیٹھتا ہے او رآخرت میں دردناک عذاب میں ہوگا خدا امت اسلامی کو ہتھیاروں کے قبضے اور ان کی سواریوں کی با رعب آواز سے بے نیاز کرتا ہے اور انہیں عزّت عطا فرماتا ہے؟

جو مومن مجاہد جہاد کے لئے منظّم صفوف اور نبیان مرصوص بن کرجاتے ہیں انہیں چاہیئے کہ وہ جنگ اور جہاد کے میدان میں خداوند عالم کی حدود کا خیال کریں جو دشمن ان کے مقابل میں لڑائی کے لئے آیا ہے اس سے پہلے توبہ کا مطالبہ نہ مانیں اور اللہ کی حکومت اور ولایت قبول نہ کریں تو پھر ہر مومن امام معصوم (ع) کی اجازت سے یا اسلامی رہبر کہ جس کی رہبری از روئے اسلام صحیح اور درست ہو، کی اجازت سے ان سے جنگ کرے اور

۲۲۷

متکبر و طاغوت کو سرنگوں کرے اور اللہ کے بندوں کو اپنی پوری طاقت و قوت سے غیر خدا کی بندگی سے آزاد کرائے اور اس راستے میں مرنے یا مرجانے سے نہ دڑے جیسا کہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ شہادت کی موت بہترین موت ہے اور یہ خدا کی راہ میں ماراجاتا ہے ، خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کہ اگر میدان جنگ میں دشمن کے ہزاروار سے ماراجاؤں یہ مرنا میرے لئے زیادہ خوشگوار ہے اس سے کہ اپنے بستر پر مروں، وہ جہاد کہ ظلم اور ستم ک بند سے رہائی دیتا ہے امام علیہ السلام کے اذن اور اجازت کے ساتھ یا مسلمانوں کے حقیقی رہبر اور نائب امام کی اجازت کے ساتھ مربوط ہے اور یہ ان کا فرض ہے جو طاقت اور قدرت رکھتے ہوں لیکن اگر اسلامی سرزمین اور مسلمانوں کی عزّت اور شرف اورناموس پر کوئی حملہ کرے تو پھر تمام پر خواہ مرد ہو یا عورت واجب ہے کہ جو کچھ اپنے اختیار میں رکھتے ہیں لے کر قیام کریں اور اپنی سرزمین اور عزّت و ناموس اور عظمت اسلام سے پوری طاقت سے دفاع کریں اس مقدس فرض کے بجالانے میں مرد بھی قیام کریں اور عورتیں بھی قیام کریں لڑکے بھی دشمن کے سرپر آگ کے گولے برسائیں اور لڑکیاں بھی_ ہر ایک کو چاہیئےہ ہتھیا ر اٹھائیں اور حملہ آور کو اپنی مقدس سرزمین سے باہر نکال پھینکیں اور اگر لو ہے کہ ہتھیار موجود نہ ہوں تو پھر لکڑی اور پتھر بلکہ دانتوں اور پنجوں سے بھی حملہ آور دشمن پر ہجوم کریں اور اپنی جانیں قربان کردیں اور پوری قدرت کے ساتھ جنگ کریں اور شہادت کے مرتبہ کو

۲۲۸

حاصل کرلیں اور آنے والی نسلوں کے لئے عزّت اور شرف کو وارثت میں چھوڑ جائیں اس مقدس جہاد میں جو دفاع کہلاتا ہے امام (ع) کے اذن کا انتظار نہیں کرنا چاہیئے اوروقت کو ضائع نہ کریں کیونکہ یہ جہاد مقدس اتنا ضروری اور حتمی ہے کہ اس میں امام (ع) اور رہبر کی اجازت کی ضرورت نہیں ہوا کرتی مملکت اسلامی کی سرزمین کا دفاع کرنا اتنا ضروری ہے کہ اسلام نے اس کی ذمہ داری ہر فرد پر واجب قرار دے دی ہے_

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ مجاہد مومن میدان جنگ میں جاکر اپنی جان و مال کو کس کے مقابلہ میں فروخت کرتا ہے اور اس معاملے کا نتیجہ کیا ہوتا ہے؟

۲)___ مومن مجاہد کس طرح بہشت میں وارد ہوگا؟

۳)___ ان لوگوں کا انجام کیا ہوتا ہے جو خدا کی راہ میں جہاد کو ترک کردیتے ہیں؟

۴)___ اللہ امت اسلامی کو کس راستے سے عزّت اور شرف اور بے نیازی تک پہنچاتا ہے؟

۵)___ جو مومن مجاہد جنگ کے لئے وارد میدان ہوتے ہیں وہ دشمنوں کے ساتھ ابتداء میں کیا سلوک کرتے ہیں؟

۶)___ امیرالمومنین علیہ السلام نے شہادت کے بارے

۲۲۹

میں کیا فرمایا ہے؟

۷)___ جہاد کس کے حکم سے کیا جاتا ہے؟

۸)___ دفاع کا کیا مطلب ہے، اسلامی سرزمین اور اسلامی شرف و عزّت کے حفظ کیلئے مسلمانوں کا فریضہ کیا ہے؟

۲۳۰

آٹھواں سبق

امربالمعروف و نہی عن المنکر

گرمیوں ک موسم میں ایک دن ہوا بہت گرم تھی حضرت علی علیہ السلام تھکے مادے پسینہ بہاتے گھر تشریف لائے آپ (ع) ن رون کی آواز سنی آپ (ع) ٹھہر گئے اور ہر طرف نگاہ کی کسی کو نہ دیکھا چند قدم آگ بڑھے ایک جوان عورت کوچہ کی دوسری طرف سے ظاہر ہوئی بیچاری دوڑ رہی تھی اور رو رہی تھی اور آنسو بہا رہی تھی ہانپتے ہوء اس نے اپنے آپ کو حضرت امیرالمومنین علیہ السلام تک پہنچایا اپنے آنسو دونوں ہاتھوں سے صاف کیا چاہتی تھی کہ بات کرے لیکن نہ کرسکی اس کا چہرہ پھر آنسؤوں سے ڈوب گیا امیرالمومنین علیہ السلام نے اس سے رون کی وجہ پوچھی عورت نے ڈوبتی ہوئی آواز میں رو کر کہا کہ میرے شوہر نے مجھ پر ظلم کیا ہے اور مجھے گھر سے باہر نکال دیا ہے اور مجھے مارنا چاہتا ہے یا امیرالمومنین (ع)

۲۳۱

آپ (ع) میری فریاد کو پہنچیں کہ آپ (ع) کے سوا میرا کوئی مددگار نہیں ہے_

امیرالمومنین علیہ السلام بہت تھکے ہوئے تھے آپ (ع) نے فرمایا تھوڑا صبر کرو ہوا ٹھنڈی ہوجائے اس وقت میں تیرے ساتھ جاؤں گا اور تیرے شوہر سے بات کروں گا اب دن بہت زیادہ گرم ہے اور میں بھی تھکا ہوا ہوں بہتر یہی ہے کہ تھوڑا صبر کرو

عورت نے جو ابھی تک رو رہی تھی کہا یا امیرالمومنین (ع) ڈرتی ہوں گہ اگر میںگھر دیر سے گئی تو میرا شوہر اور غضبناک ہوگا اور پھر معاملہ زیادہ بگڑجائے گا_

حضرت امیرالمومنین (ع) نے چند لمحے سوچا اور فرمایا نہیں: قسم بخدا امربالمعروف اور نہی عن المنکر میں کوتاہی نہیں کروں گا مجھے چاہئے کہ اس مظلوم کی مدد کروں اس کے بعد آپ (ع) اس عورت کے ساتھ اس کے گھر کو روانہ ہوگئے اور اس عورت کے گھر کے قریب پہنچے عورت نے اپناگھر دکھلایا اور تھوڑی دور ٹھہرگئی کیوں کہ آگے جانے سے ڈرتی تھی امیرالمومنین علیہ السلام نزدیک گئی اور دروازہ کھٹکھٹایا اورسلام کیا ایک طاقتور اور غضبناک جوان نے دروازہ کھولا

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے اس کے اپنی بیوی سے اختلاف کی تحقیق کی اور پھر بہت نرمی اور اخلاق سے فرمایا اے جوان کیوں اپنی بیوی کو اذیت دیتے ہو اور کیوں اسے گھر سے باہر نکال دیا ہے؟ خدا سے ڈر اور اپنی بیوی کو آزار نہ پہنچا میں تم سے درخواست کرتا ہوں کہ اپنی بیوی کے ساتھ مہربان رہ اور اسے نہ مارا کر اور اگر اس نے تجھے تکلیف

۲۳۲

دی ہے تو معاف کردے عورت گلی کے اس طرف کھڑی حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی گفتگو سن رہی تھی اور امید رکھتی تھی کہ اس کا شوہر امیرالمومنین علیہ السلام کی نصیحت قبول کرلے گا اور اپنی بری عادت کو چھوڑ د گا لیکن وہ جوان جو امیرالمومنین علیہ السلام کو نہیں پہچانتا تھا کہن لگا کہ آپ بیوی میری گھریلو زندگی میں دخل دیتے ہیں میں اگر چاہوں تو اسے قتل کردوں آپ سے کوئی واسطہ اور ربط نہیں_ ابھی اس کو آگ میں ڈالوں گا دیکھتا ہوں کہ تو کیا کرلے گا_ جب وہ بلند آواز سے یہ کہہ رہا تھا تو امیرالمومنین علیہ السلام نے اپنا سر نیچے کر رکھا تھا اور آہستہ آہستہ لا الہ الا اللہ پڑھ رہے تھے وہ جوان چیختا اور کہتا رہا کہ اس کا آپ سے کوئی واسطہ نہیں ابھی اسے جلاکر رکھ دوں گا چاہتا تھا کہ اپنی بیوی پر حملہ کرے کہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے اس پر وہ راستہ بند کر دیا اس کا ہاتھ پکڑا اور دوبارہ اسے سمجھایا اور نصیحت کی لیکن وہ جوان اپنی ضد سے باز نہ آیا گستاخی کرتے ہوئے چاہتا تھا کہ اس عورت پر حملہ کرے اور شاید واقعی چاہتاتھا کہ اسے آگ میں جلا دے حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کو غصّہ آیا اور فوراً اپنی تلوار میان سے نکالی اور اس جوان کے سر پرتان دی تلوار کی چمک اس جوان کی آنکھوں پر پڑی تو اس کا بدن لرزنے لگا حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے غضب ناک نگاہ اس جوا پر ڈالی اور فرمایا کہ میں تم سے اخلاق سے کہہ رہا ہوں اورتمہیں نیک کام کی طرف بلا رہا ہوں اور برے کام کی سزا سے ڈرا رہا ہوں لیکن تم ہو کہ بلاوجہ شور مچا رہے ہو اور بے ادبی اور گستاخی

۲۳۳

کر رہے ہو میں تمہیں اس عورت پر ظلم کرنے دوں گا؟ اپنے ظلم و ستم سے توبہ کرو اور خدا سے ڈرو اور بے سہارا بیوی کو اذیت نہ دو ورنہ میں تجھے تیرے برے کام کی سزادوں گا اسی حالت میں حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے اصحاب میں سے چند صحابہ وہاں پہنچ گئے اور آپ کو سلام کیا اس بیچارے جوان کا رنگ اڑا ہوا تھا اور تلوار کے نیچے کانپ رہا تھا اس نے اس وقت آپ (ع) کو پہچانا اپنے کام سے پشیمان ہوا معافی مانگی اور توبہ کی_

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے اپنی تلوار میان میں رکھی اور اس عورت سے فرمایا اپنے گھر جا اور شوہر کے ساتھ زیادہ موافقت اوراحترام سے زندگی بسر کراے عورت تو بھی اپنے شوہر سے مہربان اور مخلص رہ اور اسے غضبناک نہ کر

امربالمعروف اورنہی عن المنکر اسلام کے اہم واجبات میں سے ایک اجتماعی فرض اور ذمّہ داری ہے اسلام مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ خود نیک کام کریں اوردوسروں کو بھی نیک کام کی طرف بلائیں اسلام حکم دیتا ہے کہ مسلمان گناہ اور برائی سے دور رہیں اور دوسروں کو بھی برائی سے دور رکھیں خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے کہ تم بہترین ملّت ہو کیوں کہ اچھائی کا حکم دیتے ہو اور برائیوں سے روکتے ہو اور اللہ پر واقعی ایمان رکھتے ہو

۲۳۴

سوالات

۱)___ امربالمعروف کا مطلب بتائے

۲)___ نہی عن المنکر کا مطلب بیان کیجئے

۳)___ اگر کسی بچے کو اذیت کرتے دیکھیں تو کیا کریں گے؟ آپ کا فرض کیا ہے

۴)___ اگر کوئی مظلوم آپ سے مدد مانگے تو اسے کس طرح جواب دیںگے؟

۵)___ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے اس جوا کو کیسے امربالمعروف کیا؟

۶)___ اس عورت کو کس طرح امربالمعروف کیا؟

۷)____ خداوند عالم نے قرآن میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے متعلق کیا فرمایا ہے؟

۸)___ آپ اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کو کیسے امربالمعروف اور نہی عن المنکر کریں گے اگر ہوسکے تو کوئی مثال دیجئے؟

۲۳۵

نواں سبق

زکاة عمومی ضرورتوں کو پوری کرنے کیلئے ہوتی ہے

دین اسلام نے اجتماعی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ایک سرمائے کا انتظام کیا ہے کہ جسے زکاة کہا جاتا ہے زکاة مالی واجبات میں سے ایک واجب ہے پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا ہے کہ اللہ نے فقراء کی ضروریات کے مطابق سرمایہ داروں کے مال میں ایک حق قرار دیے دیا ہے کہ اگر وہ ادا کریں تو اجتماعی ضروریات پوری ہوسکتی ہیں اگر کوئی لوگوں میں بھوکا یا ننگا دیکھا جائے تو یہ اس وجہ سے ہوگا کہ سرمایہ دار اپنے اموال کے واجب حقوق ادا نہیں کرتے جو سرمایہ دار اپنے مال کی زکاة نہ دے قیامت کے دن اس بازپرس ہوگی اور بہت دردناک عذاب میں مبتلا ہوگا_

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا جو سرمایہ دار اپنے

۲۳۶

مال کی زکاة نہ دے نہ وہ مومن ہے اور نہ مسلمان

زکاة کون حضرات دیں

۱)___ جو لوگ زراعت اور باغبانی کرنے سے فصل پیدا کرتے ہیں جیسے گندم، جو، خرما، کشمش، اوران کی پیدا اور ایک خاص نصاب تک بھی ہوجاتی ہو تو انہیں ایک مقدار زکاة کے عنوان سے دینی ہوگا_

۲)___ جو لوگ اپنے سرمایہ کہ حیوانات کی پرورش اورنگہداشت پر خرچ کرتے ہیں جیسے بھہیڑ، بکریاں، گائے، اونٹ، پالتے ہیں اور ان کی تعداد بھی ایک مخصوص حد تک ہوجائے تو انہیں بھی اس سے زکاة کے عنوان سے کچھ تعداد دینی ہوگی_

۳)___ جو لوگ سونے چاندی کی ایک خاص مقدار جمع رکھتے ہیں کہ جسے خرچ نہیں کرتے اگر ان کا جمع شدہ یہ مال سال بھر پڑا رہے تو اس میں بھی ایک معيّن مقدار زکاة کے عنوان سے دیتی ہوگی کتنی مقدار زکاة ادا کی جائے گندم اور جو کی کتنی زکاة ہوتی ہے اور کیسے جواب ہوتی ہے_ بھیہڑ بکریوں، گائے ، اونٹ و غیرہ کی زکاة میں کیا شرائط ہیں او رکتنی زکاة واجب ہے یہ تمام باتیں آئندہ کتابوں میں بیان کریں گے ( اور بہتر یہ ہے کہ آدمی اپنے مجتہد کی کتاب توضیح المسائل سے دیکھے اور عمل کرے)

۲۳۷

زکاة کو کہاں خرچ کریں

زکاة مسلمانوں کے اجتماعی کاموں پر خرچ کی جائے جیسے زکاة کے روپیہ سے ہسپتال بنایا جائے اور اس کے مصارف میں خرچ کی جائے اور غریب بیماروں کا علاج کیا جائے تا کہ وہ تندرست ہوجائیں اور غریبوں کی زندگی کے لوازمات مہيّا کئے جائیں، جہالت کودور کرنے کے لئے تعلیمی اداے بنائے جائیں اور عمدہ وسائل مہيّا کر کے لوگوں کو دین اور علم سے روشناس کیا جائے زکاة سے عمدہ باغ اور پارک بنائے جاسکتے ہیں کہ جہاں لوگ اور بچّے جاکر کھیلیں کو دیں اور عمدہ لائبریریاں علمی اور دینی کتابوں کے مطالعے کے لئے بنائی جائیں، زکاة سے شہروںاوردیہات میں پانی ٹنکیاں بنائی جاسکتی ہیں تا کہ ہر ایک گھر میں بہتر اور عمدہ پانی مہیا ہوسکے زکاة سے دینی اور علمی کتابیں مہيّا کرکے سستی قیمت پر لوگوں کو شہروں اور دیہات میںمہيّا کی جائیں زکاة سے بڑی بڑی مسجدیں بنائی جائیں تا کہ تمام لوگ مسجد میں جائیں اور نماز جماعت کے ساتھ پڑھیں اور قرآن اور دین ہاں سیکھیں زکاة سے غریب طبقے کے لڑکوں اور لڑکیوں کی شادی کرائی جاسکتی ہے اور انہیں مکان اور دیگر لوازمات زندگی خرید کردیئےاسکتے ہیں زکاة سے مسلمانوں کے تمام اجتماعی امور انجام دیئے جاسکتے ہیں اس وقت کوئی آدمی غریب، بھوکا مقروض

۲۳۸

و غیرہ باقی نہ رہے گا تمام صحیح و سالم طاقتور با ایمان دیندار اور آرام سے زندگی بسر کریں گے اور اللہ کی عبادت کریں گے اور اپنی آخرت کے لئے اعمال صالح بجالاسکیں گے تا کہ اس دنیا میں اللہ کی بہترین نعمتوں سے اور پروردگار کی بہت زیادہ محبت سے استفاہ کرسکیں (اچھا انجام تو صرف نیک لوگوں کے لئے ہے)

۲۳۹

دسواں سبق

خمس

دین کی تبلیغ اور اس کیلئے زمین ہموار کرنے کا سرمایہ

خداوند عالم نے ہر مسلمان پرواجب قرار دیا ہے کہ وہ دین کی تبلیغ میں کوشش کرے اور دوسرے انسانوں کو اللہ کے فرامین اور آخرت سے آگاہ کرے اور اپنی جان اور مال سے اس راستے میں مدد کرے یعنی خود دین کی تبلیغ میں کوشش کرے اور اپنی آمدنی کا خمس بھی دے_

خمس کیا ہے؟ اور کس طرح دیا جائے

جس مسلمان نے تجارت از راعت کانوں صنعت و غیرہ سے جو منفعت حاصل کی ہو یا نوکری یا مزدوری و غیرہ سے معاوضہ لیا ہو تو

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285