‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) جلد ۲

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) 26%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 285

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 285 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 117782 / ڈاؤنلوڈ: 4038
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

مصادر و مآخذ

سواد بن مالک تمیمی کے حالات :

١۔ ابن حجر کی '' اصابہ '' (٢/٩٦) نمبر:٣٥٨٦

٢۔''تاریخ طبری '' (١/٢٢٢٣۔٢٢٢٥)

سواد بن مالک کے بارے میں سیف کی روایت :

١۔''تاریخ طبری '' (١/٢٢٢٣ ۔ ٢٢٢٥، ٢٢٣٩ ۔ ٢٢٤٤)،و (١/٢٢٥٨ ۔ ٢٢٥٩)، (١/٢٢٦٦)

٢۔تاریخ ابن اثیر (٢/٣٤٩) ،(٢/٣٥٤۔٣٥٥)

٣۔تاریخ ابن خلدون (٢/٣١٧،٣١٩)

سواد بن مالک داری کے حالات:

٤۔ ابن حجر کی ''اصا بہ '' (٢/٩٦) نمبر: ٣٥٨٥

۶۱

دوسرا حصہ

عراق کی جنگوں میں سعد وقاص کے ہمراہ جنگی افسر اور سپہ سالار( ٢)

r ٦١۔عمروبن وبرہ

٦٢۔حمّال بن مالک بن حمّال اسدی

٦٣۔ربّیل بن عمروبن ربیعہ

٦٤۔طلیحہ بن بلال قرشی عبدری

٦٥۔خلید بن منذر بن ساوی عبدی

٦٦۔حارث بن یزید عامری

اکسٹھواں جعلی صحابی عمرو بن وبرہ

ابن حجر نے اپنی کتاب ''اصابہ ''میں لکھا ہے :

سیف بن عمر نے کتاب ''فتوح '' میں اور طبری نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ ''عمروبن وبرہ '' ١٤ئ میں قبائل قضاعہ پر حکومت کرتا تھا ۔(ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

ابن حجر کی تاریخ طبری میں اشارہ کی گئی اصل داستان کی وضاحت کرنے سے پہلے یہ بات قابل ذکر ہے کہ نسب شناس علماء کا ''قضاعہ ''کے نسب پر اختلاف نظر ہے کہ وہ '' بنی عدنان '' سے ہیں یا بنی ''حمیر سبائی '' سے ؟!

لیکن، ابن حجر نے اوپر جس داستان کی طرف اشارہ کیا ہے '' تا ریخ طبری'' میں اس کی اصل اور پوری داستان کو سیف سے نقل کر کے یوں بیان کیا گیاہے :

خلیفہ عمر نے سعد وقاص کے مدینہ سے روانہ ہونے کے بعد دوہزار جنگجو اس کی مدد کے لئے ببھیجے۔

سعد نے موسم سرما کی ابتداء میں ''زرود '' میں پڑاؤ ڈالا۔اس کے سپاہیوں نے ''بنی تمیم اور بنی اسد '' کی سرزمینوں اوراس علاقہ کے ساحل پر اپنیخیمے نصب کئے۔سعد بدستور ''زرود''میں منتظر تھا تاکہ خلیفہ کا فرمان اسے پہنچے اور اس کے سپاہیوں کی تعداد بھی بڑھ جائے ۔ اس مدت کے دوران سعد نے ''بنی تمیم اور بنی رباب '' سے چار ہزار جنگجو اپنی فوج میں شامل کر لئے ۔ ان میں سے تین ہزار ''تمیمی '' اور ایک ہزار فوجی ''ربّی''تھے ۔

۶۲

اس نے ''بنی اسد '' کے بھی تین ہزار سپا ہی بھر تی کئے اور سبوں کو حکم دیا کہ اپنی رہائش گاہوں کے نزدیک پہاڑیوں اور میدانوں کے درمیان کیمپ لگائیں اور بدستور اپنی جنگی تیاری کو'' سعد''اور ''مثنی بن حارثہ'' کے کیمپ کے درمیان جاری رکھیں ۔

''مثنی بن حارثہ ''بھی قبیلہ ''ربیعی''سے آٹھ ہزار سپاہی اپنے ساتھ لایا تھا ، ان میں سے چھ ہزارسپاہی ''طائفہ بکربن وائل '' سے تھے اور باقی دوہزار ''ربیعہ '' کے دوسرے قبائل سے تھے ۔

مثنی نے ان میں سے چار ہزار نفر کو خالد کی روانگی کے بعد انتخاب کیا تھا اور باقی چار ہزار نفر '' جسر ''کے میدان کارزارسے ہی اس کے ساتھ تھے ۔

ان کے علاوہ جو یمانی سعد وقاص کی کمانڈ میں جمع ہوئے تھے ان میں سے دوہزار نفر قبیلہ ''بجلیہ''سے اور دوہزار نفر ''قضاعہ''و ''طی ''سے تھے جن کی کمانڈ مندرج ذیل اشخاص کے ذمہ تھی :

١۔ قبیلۂ طی کے افراد کا سپہ سالار ''عدی بن حاتم '' تھا ۔

٢۔ قبیلۂ قضاعہ کے افراد کا سپہ سالار ''عمر وبن وبرہ '' تھا۔

٣۔ قبیلۂ بجلیہ کے افراد کا سپہ سالار '' جریر بن عبد اﷲ'' تھا ۔

لشکر کی موجودہ صورت حال میں ، سعد وقاص ''زرود ''میں اس انتظار میں تھا کہ مثنی اس کی خدمت میں پہنچ جائے اور مثنی اس امید میں تھا کہ سعد اس کے پاس آئے گا۔ اتفاقاً مثنی جنگ جسر میں لگے زخموں کی تاب نہ لاکر فوت ہوگیا ۔ مرنے سے پہلے اس نے ''بشیربنحضامیہ'کو اپنا جانشین مقرر کر دیا تھا۔

اس اثناء میں عراق کے معروف افراد کا ایک گروہ بشیر کی خدمت میں پہنچا۔ اور عراق سے بعض نمائندے جیسے ''فرات بن حیان عجلی اور عتیبہ '' جو عمر کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے اور خلیفہ نے انھیں واپس بھیج دیا تھا ، وہ سب سعد کی خدمت میں پہنچے تھے ۔ (طبری کی بات کا خاتمہ )

۶۳

افسانہ ٔ عمرو کے اسناد کی پڑتال :

عمروکے بارے میں سیف کی روایت کے درج ذیل خیالی و جعلی راوی نظر آتے ہیں ۔

١۔محمد یا محمد بن عبداﷲ بن سواد نویرہ۔

٢۔زیاد ، یازیادبن سر جس احمری ۔

کہ سیف نے اپنی روایتوں میں ان کا نام اختصار کے ساتھ ''محمد و زیاد'' ذکر کیا ہے :۔

اس بحث کا نتیجہ:

چونکہ سیف کی روایت کے متن میں آیاتھا کہ ''قضاعہ کی کمانڈ عمرو بن وبرہ کے ذمہ ہے '' لہذا حجر نے سیف کی روایت کے اسی حصہ پر اکتفاکر کے عمرو کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں شامل کیا ہے اور اس کو اپنی کتاب ''اصابہ ''میں ثبت کیا ہے ۔

لیکن چونکہ اس صحابی کے نام کو سیف کی اس روایت کے علاوہ کسی دوسری روایت میں نہیں دیکھا ہے ، اس لئے صرف اسی قدر کہتا ہے :

سیف نے بن عمر نے ''فتوح ''میں اور طبری نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ ١٤ ھ میں عمروبن وبرہ قبائل قضاعہ پر حاکم تھا۔

ابن حجر نے سیف کی اسی روایت کے سہارے اور صحابی کی پہچان کے لئے وضع کئے گئے نام نہاد قاعدہ پر اعتماد کر کے سیف جعل کردہ ''ابن وبرہ ''کے سپہ سالار ہونے کو و معیار قرار دے کر اسے صحابی جاناہے ۔ اگر چہ اس سلسلے میں اس نام نہاد قاعدے کا کہیں ذکر نہیں کیا ہے ۔

مصادر و مآخذ

عمرو بن وبرہ کے حالات:

١۔ ابن حجر کی ''اصابہ '' (٣/١١٩) تیسرا حصہ نمبر : ٦٥٢٠

''روز ماہیان ''( مچھلیوں کے دن ) کے بارے میں سیف کی روایت :

١۔ ''تاریخ طبری'' (١/٢٢٢١۔٢٢٢٢)

۶۴

قبائل قضاعہ کا نسب :

١۔ ابن حزم کی جمھرہ انساب (٤٤٠)

باسٹھ واں جعلی صحابی حمّال بن مالک بن حمّال

ابن حجر کی کتاب ''اصابہ '' میں اس صحابی کا تعارف یوں ہوا ہے :

حمّال بن مالک بن حمّال :

سیف نے اپنی کتاب ''فتوح'' میں لکھاہے کہ سعد وقاص نے عراق کی طرف عزیمت کرتے وقت ''حمال بن مالک بن حمال ''کو اپنی پیدل فوج کا سپہ سالار مقرر کیا ۔ (ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

ابن ماکو لانے بھی حماّل کے تعارف کے سلسلے میں لکھا ہے :

''حَمَل بن مالک بن جنادہ '':

سیف بن عمر نے لکھا ہے کہ اس صحابی نے قادسیہ کی جنگ میں شرکت کی ہے اور خلافت ِ عمر کے دوران ''نہاوند ''کی جنگ میں بھی شرکت کی ہے اور اسی جنگ میں مارا گیا ۔

یہاں پر ''حَمَل بن مالک جنادہ ''نام غلط ہے بلکہ صحیح وہی ''حماّل بن ،مالک حماّل'' ہے ۔ اس پر بعد میں بحث کریں گے ۔

اس کے علاوہ طبری اور ابن حجر میں سے کسی ایک نے حمّال کے نہاوند کی جنگ میں شرکت کرنے اور وہاں پر مارے جانے کی خبر سیف سے نقل کر کے نہیں لکھی ہے !

ابن ماکولا نے باب''حمّال '' میں لکھاہے:

حمال بن مالک اسدی ،مسعود بن مالک اسدی کا بھائی ہے کہ دونوں نے سعد وقاص کے ساتھ قادسیہ کی جنگ میں شرکت کی ہے ۔

۶۵

لیکن تاریخ طبری میں سیف سے نقل کر کے ''مسعود بن مالک '' کانام یوں آیاہے :

مسعود بن مالک اسدی اور عاصم بن عمروتمیمی نے جنگجوؤں کے ایک گروہ نے شجاعتوں اور دلاوریوں کا مظاہرہ کیا ہے ۔

جبکہ ہم جانتے ہیں کہ سیف بن عمر نے ''لیلتہ الھریر''کا نام اپنی ''عماس''کی شب یاآخری شب کے لئے رکھا ہے اور اس قسم کا نام تاریخ میں کہیں ذکر نہیں ہوا ہے !

اس کے علاوہ قابل ذکر ہے کہ سیف نے اسے حدیث کو نضر سے اس نے ابن رفیل سے اس نے اپنے باپ سے اور اس نے حمید بن ابی شجار سے نقل کیا ہے کہ یہ سب سیف کے خیالی راوی ہیں اور حقیقت میں وجود نہیں رکھتے ۔

تاریخ طبری میں سیف بن عمر سے نقل کر کے حمال بن مالک کا تعارف یوں کیا گیا ہے :

سعد وقاص ''شراف ''میں تھا کہ اسے خلیفہ عمر کی طرف سے ایک خط ملا جس میں اسے فوج کے مختلف دستوں کے لئے سپہ سالار معین کرنے کا حکم تھا۔ سعد نے خلیفہ عمر کا حکم بجالاتے ہوئے اپنی پیدل فوج کی کمانڈ حماّل بن مالک اسدی کو سونپی ہے۔

۶۶

ترسٹھ واں جعلی صحابی ر بیل بن عمروبن ربیعہ

ابن حجر نے اپنی کتاب ''اصابہ '' میں اس صحابی کا یوں تعارف کیا ہے :

ربیال بن عمرو:

سیف نے کتاب ''فتوح ''میں اس کا نام لیاہے اور اس کے نمایاں کارناموں کا تفصیل سے ذکر کیا ہے ۔

'' طبرانی'' نے بھی لکھا ہے کہ وہ قادسیہ کی جنگ میں سعد وقاص کے سپہ سالاروں میں سے تھا ۔

ہم نے بھی اس سے پہلے کہا ہے کہ قدماء کی رسم یہ تھی کہ وہ جنگوں میں صحابی کے علاوہ کسی اور کو سپہ سالاری کا عہدہ نہیں سونپتے تھے (ز)(ابن حجر کی بات کا خاتمہ)

جیسا کہ بعد میں پتا چلے گا کہ ''ربیال '' نام غلط تھا اور صحیح وہی '' ربیل''ہے ۔اسی طرح ''طبرانی'' بھی صحیح نہیں ہے بلکہ ''طبری ''صحیح ہے کہ ابن حجر نے صحابیوں کے حالات پر روشنی ڈالنے میں اس سے قول نقل کیا ہے ۔

سیف نے ایک دوسری روایت میں جسے اس نے خلیفہ عثمان کے دفاع میں بیان کیاا ہے۔

ربّیل کے بارے میں یوں ذکر کیا ہے ۔

عثمان نے اپنی خلافت زمانے میں انعام کے طور پر چند زمینیں ''زبیر ،خباّب ،عمار یاسر ، ابن ہباّر اور ابن مسعود '' کو بخشیں ۔ اگر عثمان نے اس بذل و بخشش میں کوئی گناہ کیاہو تو ان زمینوں کو لینے والوں کا گناہ عثمان سے زیادہ ہے ، کیونکہ ہم دین کے قوانین اوراحکام ان سے حاصل کرتے ہیں ۔

عمر نے بھی اپنی خلافت کے زمانے میں کچھ زمینیں ''طلحہ ،جریربن عبداﷲاور ربّیل بن عمرو''۔وہی لوگ جن سے ہم اپنا دین حاصل کرتے ہیں ۔کو بخش دیں اور''ابو مفزر'' کو دارالفیل بخش دیا۔ یہ بخششیں انفال اور خمس و بخشائش خداوندی کے کوٹے سے انجام پائی ہیں !!

۶۷

حمال و ربّیل کا افسانہ

گزشتہ بحث کے علاوہ ،ذیل میں بیان ہونے والی سیف کی روایات میں مشاہدہ کریں گے کہ ان دوپہلوانوں کا نام ایک ساتھ آیا ہے اور ان میں سے ایک دوسرے کو اپنے ساتھ لئے ہوئے ہے ۔اب ہم قارئین کرام کو سیف کے بیان کردہ قادسیہ کے وقائع کا مطالعہ کرنے کی دعوت دیتے ہیں جس میں اس نے اپنے ان دو جعلی اسدی صحابیوں کا ذکرکیاہے۔

طبری قادسیہ کی جنگ کے سلسلے میں سیف سے نقل کر کے لکھتاہے :

جب فوج کے دستے جنگ کے لئے آمادہ ہو رہے تھے توایرانی ہاتھی سواروں نے مسلمانوں کی منظم صفوں پر اچانک حملہ کیا اور ان کے فوجی دستوں کو تتربتر کر کے رکھدیا ،گھوڑے وحشت زدہ ادھر اُدھر بھاگ گئے اور اپنے سواروں کو بیابانوں میں کھینچ لے گئے ،قریب تھا کہ قبیلۂ بجلیہ کے افراد ہاتھیوں کے سموں کے نیچے مسمار ہوکے رہ جایئں ۔ان کے سوار گھوڑوں کے رم کرنے کی وجہ سے ہر طرف فرار کر چکے تھے ۔صرف پیدل فوج ؛تھی جو مردانہ وار میدان میں ڈٹی ہوئی تھی۔

اس وحشتناک عالم میں سپہ سالار اعظم سعد وقاص نے قبیلہ بنی اسد کو پیغام بھیجا کہ قبیلہ بجیلہ کے افراد اور ان کے ساتھیوں کی مدد کو پہنچیں ۔کمانڈر انچیف کے حکم کی تعمیل میں '' طلیحہ بن خولید اسدی ،حمال بن مالک اسدی اور ربّیل بن عمرواسدی '' نے اپنے فوجی دستوں کو آگے بڑھنے کا حکم دیا۔ انہوں نے پوری طاقت کے ساتھ حملہ آور فوج کی پیش قدمی کو روکا اورایک گھمسان کی جنگ کے بعد ہاتھیوں ،ہاتھی بانوں اور ہاتھی سواروں جو ہر ہاتھی کے ساتھ بیس افراد پر مشتمل تھے ،کو عقب نشینی پر مجبور کیا۔

ایرانیوں نے جب یہ دیکھا کہ بنی اسد کے دلاوروں کے توسط سے ان کے ہاتھیوں پر کیا گزری ،تو انہوں نے اجتماعی طور پر ان کے خلاف پوری طاقت کے ساتھ حملہ کیا اور قبیلہ اسدکے افراد پر چاروں طرف سے تیروں کی بارش کر دی۔ یہاں پر سعد وقاص نے عاصم بن عمرو تمیمی کو حکم دیا کہ بنی اسد کی مدد و یاری کر کے انھیں اس مصیبت سے نجات دے۔ کیونکہ یہ عاصم بن عمرو تمیمی تھا جوجنگ کے پہلے دن یعنی ''روز ارماث'' کو تمام لوگوں اور جنگجوؤں کے لئے پناہ گاہ تھا!

سیف ایک دوسری روایت میں جنگ کے دوسرے دن ،جسے ''روز اغواث '' کہا جاتاتھا کے وقائع کے بارے میں یوں ذکر کرتا ہے :

۶۸

''اغواث کے دن خلیفہ عمر کی طرف سے ایک قاصد قادسیہ میں انعام کے طور پر چار تلواریں اور چار گھوڑے لے کر سعد وقاص کی خدمت میں پہنچا تاکہ ان چیزوں کو ان بہادروں اور دلاوروں میں تقسیم کریں جنہوں نے جنگ میں شجاعت اور دلاویوں کا نمایاں مظاہرہ کیا ہے اور قادسیہ کی جنگ میں قابل دید جاں نثار یاں دکھائی ہیں ۔

سعد وقاص نے خلیفہ کے حکم پر عمل کرنے کا حکم دیدیا۔''حمال بن مالک والبی ''،''ربیل بن عمرووالبی'' اور ''طلیحہ بن خولید بن فقعسی '' جو تینوں قبیلۂ بنی اسد سے تعلق رکھتے تھے اور ''عاصم بن عمرو تمیمی '' کہ ان میں سے ہر ایک فوج کے ایک حصہ کا سپہ سالار تھا،جمع ہوئے۔سعد وقاص نے ان میں سے ہر ایک کو عمر کی طرف سے تحفے کے طور پر ایک ایک تلوار دی۔

انعامات کی اس تقسیم میں تین اسدی پہلوانوں نے خلیفہ عمر کی بھیجی ہوئی تلواروں کا تین چوتھا ئی حصہ حاصل کیا ۔ ربیل بن عمرونے اس موضوع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے درج ذیل اشعار کہے ہیں :

سب جانتے ہیں کہ اگر تیز دھاروالی تلواریں ہاتھ آئیں تو ہم اُن کو حاصل کرنے میں دوسرے تمام لوگوں سے سزا وار تر ہیں ۔میرے سوار شام سے ،''ارماث'' کے دن کے آخر تک عام عرب قبائل پر دشمن کے حملوں کو مسلسل روکتے رہے۔

دوسرے سواروں اور جنگجوئو ں نے ایسے فرائض کو دوسری شبوں میں انجام دیا۔

سیف نے ایک اور روایت میں ''عماس '' کے دن کے بارے میں یوں حکایت کی ہے :

''عماس '' کے دن دوبارہ ہاتھیوں کا حملہ شروع ہوا اور انہوں نے ارماث کے دن کی طرح اسلام کے سپاہیوں کی صفوف کو توڑ تے ہوئے ان کے شیرازہ کو بکھیرکے رکھدیااور ان کے سردار وں کو بھگا دیا ۔

سعد وقاص نے جب یہ حالت دیکھی ، تو اس نے ایک تازہ مسلمان ایرانی سپاہی۔جو رستم فرخ زاد کی فوج سے بھاگ کر اسلام کی پناہ میں آیا تھا۔سے پوچھا :

ہاتھی کا نازک نقطہ کہاں ہے اور یہ حیوان کس طرح موت کے گھاٹ اتاراجاسکتاہے ؟اس نے جواب دیا:

ہاتھی کی آنکھیں اور اس کی سونڈ اس کا نازک نقطہ شمار ہوتا ہے ،اگر اس کی ان دو چیزوں کو بیکار کر دیا جائے تو وہ کچھ نہیں کر سکتا ۔!

۶۹

لہذا سعد وقاص نے کسی کو''قعقاع بن عمروتمیمی اور عاصم بن عمرو'' دو تمیمی پہلوان بھائیوں کے پاس بھیجااوران سے کہاکہ ہاتھیوں آگے آگے بڑھنے والے سفید ہاتھی کا کام تمام کرکے مسلمانوں کو اس کے شرسے نجات دلائیں ،کیونکہ وہ ہاتھی سب ہاتھیوں سے آگے بڑھ کرمسلمان فوجیوں پر حملہ کررہا تھا اور دوسرے ہاتھی اس کی پیروی کررہے تھے ۔

اسی طرح سعدوقاص نے ایک دوسرے فرمان کے ضمن میں ''حمال بن مالک اسدی'' اور ''ربیل بن عمرواسدی'' کو حکم دیاکہ وہ ''اجرب '' نامی ہاتھی کا کام تمام کریں اور مسلمانوں کو اس کے شر سے نجات دیں کہ یہ ہاتھی بھی ہاتھیوں کے ایک دوسرے دستہ کو اپنے پیچھے لئے ہوئے ان کی طرف بڑھ رہا تھا۔

سپہ سالار اعظم کے حکم کو بجالانے کے لئے دو تممیی بھائی اور پہلوان قعقاع اور عاصم میں سے ہر ایک ،ایک مضبوط لیکن نرم اور تابدار نیزہ لئے ہوئے سفید ہاتھی کی طرف بڑھے ۔حماّل اور ربیل نے بھی ایساہی کیا۔

قعقاع اور عاصم سفید ہاتھی کے نزدیک پہنچے اور ایک مناسب فرصت میں دونوں بھائیوں نے ایک ساتھ پوری قوت اور طاقت سے اپنے نیزوں کو سفید ہاتھی کی آ نکھوں میں گھونپ دیا اور اس کی دونوں آنکھوں کو حلقوں سے باہر نکال لیا۔ہاتھی اس زخم کی تاب نہ لاکر دُم کے بل زمین پر ڈھیر ہوگیا اور اپنے ہاتھی بان کو زمین پر دے مارا ور اپنی سونڈ لٹکا دی ،قعقا ع نے فرصت غنیمت دیکھی اور اچھل کر تلوار کی ایک کاری ضرب سے اس کی سونڈ جدا کر کے رکھدی ۔ اس کے بعد ہاتھی اپنا توازن کو کھوکر پہلو کی طرف زمین پر گرگیا۔ اس دوران قعقاع اور عاصم نے اس کے تمام سواروں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔

دوسری طرف حماّل بن مالک نے ربیل بن عمرو سے کہا:

انتخاب تمہارے ہاتھ میں ہے ،یاتم ہاتھی کی سونڈ کو کاٹو اور میں اس کی آنکھیں اندھی کردوں یا تم اس کی آنکھوں کو نشانہ بناؤ اورمیں اس کی سونڈ کاٹ دوں !

ربّیل نے ہاتھی کی سونڈ کو جدا کرنے کی ذمہ داری لے لی اور حمّال نے اس کی آنکھوں کو نشانہ بنا کر ایک تیز حرکت سے اپنے نیزہ کو ''اجرب''نامی ہاتھی کی آنکھوں میں گھونپ دیا۔ہاتھی اس زخم کے نتیجہ میں مڑ کر دُم کے بل زمین پر گرنے کے بعد اپنی اگلی دو ٹانگوں کے سہارے پھر سے اٹھا ، اس بار ربیل نے فرصت نہ دیتے ہوئے اپنی تلوار سے اس کی سونڈ کاٹ کر رکھدی ۔ ہاتھی بان جب ربّیل اور فیل کی سونڈ پر اس کی ضرب سے متوجہ ہوا تو اس نے تبر سے ربیل کے چہرہ پر حملہ کر کے اسے زخمی کر دیا۔

سیف ایک دوسری روایت میں اس موضوع کے بارے میں کہتاہے :

۷۰

حمّال اور ربّیل نے سپہ سالار اعظم کی طرف سے ماموریت حاصل کرنے کے بعد لوگوں سے مخاطب ہوکر پو چھا:

اے لوگوں !کون سی موت اس ہاتھی کے لئے دردناک تر ہے ؟جواب دیاگیا:

اس پر سختی کرو اور زخمی کر دو!

اس کے بعد جب یہ دو اسدی پہلوان ہاتھی کے سامنے پہنچے ،اپنے گھوڑوں کی لگام کھینچ لی تاکہ گھوڑوں نے اپنی ٹانگیں بلند کیں ،اس کے بعد ان میں سے ایک نے بڑی مہارت سے اپنے نیزے کو ہاتھی کی آنکھو میں گھونپدیا جس کے سبب ہاتھی پیچھے سے زمین پر گرگیا ،ربیل نے بھی بڑی تیزی سے اس کی سونڈ کو کاٹ کر رکھدیا۔اس پر ہاتھی بان نے تبر سے ربیل پر حملہ کیا اور ربیل کے چہرے پر ایک شدید ضرب لگائی لیکن وہ اس حملہ سے زندہ بچ نکلا۔

سیف نے ایک اور روایت میں کہا ہے :

جنگ کے دن دوہاتھی باقی ہاتھیوں کی رہبری کرر ہے تھے ۔ہاتھی بانوں نے ان دوہاتھیوں کا رخ مسلمان فوج کے قلب کی طرف کر دیا ۔۔(یہاں تک کہ وہ کہتا ہے :)

سفید ہاتھی دونوں فوجوں کے درمیان حیران اور پریشان حا لت میں کھڑا تھااور سمجھ نہیں پارہا تھا کہ کس طرف جائے۔اگر اسلام کے سپاہیوں کی طرف بڑھتا تو تلوار ں اور نیزوں کا سامنا ہوتا اور اگر سپاہ کفر کی طرف واپس جاتا تو اسے برچھیوں اور سیخوں سے واپس مڑنے پر مجبور کرتے ۔

اس کے بعد کہتاہے :

''ابیض ''و ''اجرب'' نامی دوہاتھیوں نے سوروں کی جیسی ایک ڈراؤنی آواز بلند کی۔ اس وقت ''اجرب ''نامی ہاتھی جس کی آنکھ نکال لی گئی تھی واپس لوٹا اور ایرانیوں کیصفوف کو درہم برہم کرتے ہوئے دریائے عقیق کے دھارے کی طرف بھاگا ۔اس وقت دوسرے ہاتھی جو اس کی پیروی کرتے تھے اس کے پیچھے دوڑ پڑے۔' 'اجرب'' نامی ہاتھی نے اپنے آپ کو ''عقیق ''نامی دریا میں ڈالدیا اور دوسرے ہاتھی بھی اس کے پیچھے مدائن کی طرف بھاگ گئے اور راستے میں جسے پایا اسے نابود کرتے ہوئے آگے بڑھتے گئے اس طرح بہت سے لوگو ں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔

طبری نے بھی ١٦ئ کے حوادث کے ضمن میں اسلام کے سپاہیوں کے دریائے دجلہ سے گزر کر مدائن کی طرف بڑھنے کے بارے میں سیف سے نقل کر کے لکھاہے :

۷۱

جب سعد وقاص نے عاصم بن عمرو کے ''اھوال'' نامی خصوصی فوجی دستے کو ایرانیوں کے ساتھ لڑتے ہوئے دیکھا جو دریا کے کنارے اور پانی میں نبرد آزماتھے تو اسے ان کا یہ کارنامہ عظیم نظر آیا،لہذا تحسین کے طور پر انھیں ''خرسائ''نامی فوجی دستہ سے تشبیہ دیدی ۔یہ مخصوص فوجی دستہ قعقاع بن عمرو کا تھا اور اس میں ''حمال بن مالک اسدی ''اور ''ربیل بن عمرواسدی ''موجود تھے ۔

حّمال وربیل کے افسانہ میں سیف کے راویوں کی پڑتال :

مذکورہ روایات میں سیف نے درج ذیل ناموں کو راویکے طور پر پہچنوایاہے :

١۔محمد، یامحمد بن عبداﷲبن سواد نویرہ کو چار مرتبہ ۔

٢۔زیاد،یا زیاد بن سرجس احمری کو تین مرتبہ۔

٣۔ مہلب،یامہلب بن عقبۂ اسدی کو ایک مرتبہ ۔

ان راویوں سیسے ہم کئی مرتبہ آشنا ہو چکے ہیں اور ہم نے کہا ہے کہ یہ سیف کے جعلی راوی ہیں اور حقیقت میں وجود نہیں رکھتے ہیں ۔

٤۔راویوں کے طور پر چند دیگر مجہول نام بھی ذکر ہوئے ہیں کہ ہمیں معلوم نہ ہوسکا کہ سیف بن عمر نے انھیں کون سے افراد تصور کیا ہے تاکہ ان کے وجود یا عدم وجود کے سلسلے میں بحث و تحقیق کرتے ۔

۷۲

اس جانچ پڑتال کا نتیجہ

جو کچھ ہم نے کہا ، اس سے یہ حاصل ہوتا:

سیف تنہا شخص ہے ، جس نے ''حمال بن مالک اسدی '' کے قادسیہ کی جنگ میں سعد وقاص کی پیدل فوج کے سپہ سالارہونے کی خبردی ہے :

سیف تنہا شخص ہے جس نے خاندان تمیم کے ناقابل شکست پہلوانوں ''قعقاع و عاصم '' فرزندانِ عمرو کے ہاتھوں ''ابیض ''نامی ہاتھی کے مارے جانے اور ''اجرب '' نامی ہاتھی کے ''حمال و ربیل ''جیسے اسدی دلاوروں کے ہاتھوں اندھا ہونے کی بات کہی ہے ۔

سیف تنہاشخص ہے جس نے قادسیہ کی جنگ میں نمایا ں شجاعت اور دلاوری کا مظاہرہ کرنے والے سپاہیوں اور معروف شخصیات کے لئے خلیفہ عمر کی طرف سے انعام کے طور پر چار تلواریں اورچار گھوڑے بھیجنے کی روایت سازی کی ہے ۔

اور سیف ہی و ہ تنہا شخص ہے جس نے قادسیہ کی جنگ میں ''ارماث'' ،''اغواث'' اور ''عماس'' نامی دنوں کی روایت کی ہے ۔ہم نے ان تین جعلی دنوں کے بارے میں اس کتاب کی پہلی جلد میں تفصیل سے بحث کی ہے ۔

بالاخر سیف تنہا شخص ہے جس نے ''عاصم بن عمرو '' کے فوجی دستے ''اھوال '' اور ''قعقاع'' کے فوجی دستے ''فرساء '' کے وجود کا ذکر کیا ہے ۔

یہ اس کا طریقہ کار ہے کہ ہر ممکن صورت میں حتیٰ جعل ،جھوٹ اور افسانے گڑھ کے عام طور پر قبیلۂ عدنان اور خاص طور پر اپنے خاندان تمیم کے افراد کے لئے عظمت و افتخارات کا اظہار کرنے کی کوشش کرتا ہے، اور اپنے دشمنوں یعنی یمانی اور قحطانیوں کو نیچادکھا نے کی کوشش کر تا ہے !

ذرا توجہ فرما یئے کہ وہ مذکورہ بالا افسانہ میں ''ارماث '' کا دن خلق کر کے کس طرح قبیلہ تمیم کے لئے افتخار ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔وہ کہتا ہے :

نزدیک تھا کہ ایرانی بجلیوں قحطانیوں کو نابود کر ڈالیں کہ سعد وقاص نے ان کی داد رسی کی اور اسدی عدنانی ''حمال و ربیل 'کو ان کی نجات کے لئے ھیج دیا اور انھیں قطعی مرگ سے نجات دلائی ۔

۷۳

ایرانیوں نے اس بار انتقام لینے کی غرض سے اپنے تمام غضب ونفرت سے کام لیتے ہوئے بنی اسد عدنانیوں پر تیروں کی بارش کر دی۔ یہاں پر بھی سپہ سالار اعظم سعد وقاص نے عاصم بن عمروتمیمی کو مأموریت دی کہ اسدیوں کو بچالے اور وہی تھا جس نے اپنی شجاعت کے جو ہردکھاکر اسدیوں کو موت کے پنجے سے بچالیا اور ایرانیوں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا۔ سرانجام تمیمیوں کاافتخار ہے کہ عاصم بن عمرو تمیمی جنگ کے اس غوغا، تلواروں کی جھنکار ، تیروں اور برچھیوں کی بارش اور دلاوروں کی رجز خوانیوں کے دوران سر بلند ی کے ساتھ بے پنا ہوں کی یاری اور مدد کے لئے دوڑتاہے اور دشمنوں کے خونین پنجوں سے انھیں نجات دلاتاہے ۔کیا معلوم کہ سیف نے ''اغواث '' و ''عماس '' کے دنوں کو بھی اسی مقصد کے پیش نظر خلق کیا ہو!! وہ کہتا ہے :

اسی دن عدنانی شہسوار وں اور دلاوروں نے ایرانی جنگی ہاتھیوں کے مسلمان سپاہیوں پرحملے کو روکا ،اس فرق کے ساتھ کہ بنی اسد عدنانی پہلوانوں نے ''اجرب''نامی ہاتھی کی صرف ایک آنکھ کو اندھا بنایا جبکہ تمیمی پہلوانوں قعقا ع اور عاصم نے ''ابیض '' نامی ہاتھی کی دونوں آنکھیں حلقہ سے باہر نکال لیں ۔اس طرح سیف کا قبیلہ ''تمیم ''دوسرے عدنانی قبیلوں کی نسبت صاحب فضیلت اور خصوصی برتری کا مالک بن جاتا ہے ۔

کیا ایسا نہیں ہے کہ عاصم وقعقاع تمیمی کی کمانڈ میں ''اہوال ''اور ''خرساء '' نام کے عدنانی فوجی دستے اسلامی فوج کے پہلے دستے تھے جنہوں نے گھوڑوں پر سوار ہو کر دریائے دجلہ کو ایسی حالت میں عبور کیا جب وہ دشمنوں سے پانی میں لڑرہے تھے اور وہی سب سے پہلے مدائن میں داخل ہوئے ہیں ؟!

اور ہم نے یہ بھی دیکھا کہ آخری جگہ جہا ں پر سیف ''ربیل بن عمرو'' کا نام لیتا ہے ،وہ عدنانی و مضری خلیفہ عثمان کے دفاع کے سلسلے میں خلق کی گئی اس کی روایت ہے ۔کہتاہے :

۷۴

عثمان نے بعض زمینیں ''خباب بن ارت'' ،'' عماریا سر''اور'' عبداﷲ بن مسعود ''۔۔جو پاک ونیک اور کمزور و غریب صحابی شمار ہوتے تھے۔۔کوبخش دیں ۔سیف کی یہی بات حقیقت کے بالکل خلاف ہے ، کیونکہ عثمان نے نہ صرف کوئی زمین یاکھیت ان کو نہیں دیا بلکہ اس کے بر عکس ''عمار یاسر، ابن مسعود اور ''ابوذر ''کی تنخواہ اور وظیفہ بھی کاٹ کر حکم دیا تھا کہ انھیں کوئی چیز نہ دی جائے ! (۱)

خلیفہ عثمان کی سخاوتیں اور بذل و بخش اور ز مینوں کی واگزاری بنی امیہّ اور قریش کے سرمایہ داروں تک ہی محدود تھی اور دوسرے لوگ اس سخاوت کے دستر خوان سے محروم تھے ۔(۲)

مختصر یہ کہ سیف نے اس افسانہ میں عمروتمیمی کے دو بیٹوں قعقا ع و عاصم اور ابومفرز تمیمی،جن کے حالات پر اپنی جگہ پر روشنی ڈالی گئی ہے کے علاوہ ''حمال و ربیل ''نامی دووالبی

____________________

١۔نقش عائشہ در تاریخ اسلام (١/١٦٠۔١٦٧)و(١/١٩٢۔٢٠٣)

٢۔''انساب الاشراف''بلاذری(٥/٢٥۔٨١)

۷۵

اسدی صحابیوں کا ذکر کیا ہے اور ہر ایک کے لئے ایک افسانہ گڑھ لیاہے اور اس افسانہ کی اپنے خلق کئے گئے راویوں اورمجہول افراد سے روایت کرائی ہے ۔

اسی طر ح اپنی اور روایتوں میں بعض معروف و مشہور افراد کو بھی کھینچ لایا ہے ۔اور اپنے جھوٹ کو ان کے سر تھوپتا ہے ۔ہم نے اس کی اس قسم کی مہارتوں کے کافی نمونے دیکھے ہیں اور اپنی جگہ ان پر بحث کی ہے ۔

حماّل اور ربیل کا افسانہ ثبت کرنے والے علما:

١۔طبری نے حمالّ و ربیل کا افسانہ براہ راست سیف سے نقل کر کے اپنی تاریخ میں درج کیا ہے ۔

٢۔ابن اثیر نے ان افسانوں کو طبری سے نقل کر کے اپنی تاریخ میں درج کیاہے ۔

٣۔ابن کثیر نے طبری سے نقل کر کے خلاصہ کے طور اپنی تاریخ میں درج کیا ہے ۔

٤۔ابن خلدون نے بھی اسے طبری سے نقل کر کے اپنی تاریخ میں درج کیا ہے ۔

٥۔ابن حجر نے برسوں گزرنے کے بعد سیف کی روایتوں اور تاریخ طبری پر اعتماد کر کے

''حمال اور ربیل کو صحابی جانا ہے، اور ربیل کو ''ربیال''کہاہے جبکہ ہم نے کہا ہے کہ صیحح ربّیل ہے ۔

قابل ذکر بات ہے کہ ابن حجر نے ربیل کے حالات کی تشریح کے آخر میں لکھا ہے کہ :

''ہم نے کئی بار کہاہے کہ قدماکی رسم یہ تھی کہ وہ صحابی کے علاوہ کسی اورکو سپہ سالار کا عہدہ نہیں سونپتے تھے ۔''

ہم بھی یہیں پرکہتے ہیں کہ ہم نے بھی بارہا کہا ہے کہ اس کا یہ قاعدہ بالکل غلط اور بے اعتبار ہے اور ہم نے اس مطلب کو اسی کتاب کی ابتداء میں بحث کر کے ثابت کیا ہے ۔

یہ بھی کہہ دیں کہ سیف کے جن چند خیالی دجعلی صحابیوں کے نام اس کتاب کے اگلے صفحات میں آئیں گے وہ بھی اس قاعدے کی بناء پر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے اصحاب کی فہرست میں قرارپائے ہیں ۔

۷۶

مصادر و مآخذ

حمّال بن مالک اسدی کے حالات:

١۔''اصابہ '' ابن حجر (١/٣٥١)پہلا حصہ، ترجمہ نمبر:١٨١٦

٢۔''اکمال '' ابن ماکولا (٢/١٢٣)،(٢/٥٤٤)

٣۔''تاریخ طبری '' (١/٢٢٩٨)

رِبّیل بن عمرو اسدی کے حالات:

١۔''اصابہ '' ابن حجر (١/٥٠٨)پہلا حصہ ترجمہ ٧.٢٧

مسعود بن مالک اسدی کے حالات

١۔''تاریخ طبری '' (١/٢٣٢٩)

والب اسدی کا نسب:

١۔''جمہرة الانساب'' ابن حزم (١٩٤)

٢۔لباب الانساب (٣/٢٦٠)

حمّال اور رِبیل اسدی کے بارے میں سیف کی روایات :

١۔تاریخ طبری (١/٢٢٩٨)،(١/٢٣٠٨)،(١/٢٣٢٤۔٢٣٢٦،٢٣٧٦،٢٤٣٦)

٢۔''تاریخ ابن اثیر''(٢/٣٧٢۔٣٧٣)،(٢/٣٤٩،٣٦٥،٣٧١)

٣۔''تاریخ ابن خلدون '' (٢/٣٢٤)

٤۔تاریخ ابن کثیر (٧/٤٣) خلاصہ کے طور پر۔

۷۷

چونسٹھ واں جعلی صحابی طلیحہ عبدری

ابن حجر نے کتاب ''اصابہ '' میں اس صحابی کایوں تعارف کرایا ہے :

طلیحہ بن بلال قرشی عبدری :

ابن جریر طبری نے لکھا ہے کہ ''طلیحہ'' ہاشم بن عتبہ بن ابی وقاص کی کمانڈ میں ''جلولا''کی جنگ میں سپاہ اسلام کے زرہ پوشوں اور سواروں کے سپہ سالار کی حثیت سے منتخب ہواہے ۔

ہم نے اس سے پہلے بارہاکہا ہے کہ جنگجوں میں صحابی کے علاوہ کسی اور کو سپہ سالار منتخب نہیں کیاجاتا تھا۔

''ابن فتحون ''نے اس صحابی کو ابن عبدالبر کی کتاب ''استعیاب '' میں دریافت کیا ہے ۔(ز)

عبدری کا نسب:

عبدری ،عبدالعار بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر کی طرفنسبت ہے اور قریش فہرکے فرزندوں میں سے ہے اس قبیلہ کے علاوہ قریش کا وجودنہیں ہے ۔

لیکن ''جلولا ''کی جنگ کی خبر ،جس کی طرف ابن حجر نے ''تاریخ طبری سے نقل کرکے اشارہ کیا ہے حسب ذیل ہے :

طبری نے ١٦ ھ کے حوادث کے ضمن جلولاکی جنگ کے بارے میں سیف سے نقل کر کے دوروایتیں درج کی ہیں ۔ان میں سے ایک میں کہتا ہے :

سعد وقاص نے خلیفۂ ،عمر کے حکم سے ''ہاشم بن عتبہ بن ابی وقاص '' کو بارہ ہزار سپاہیوں کے ساتھ جلولاکی مموریت دی ۔ہاشم نے اپنی سپاہ کے میسرہ کی کمانڈ ''عمروبن مالک بن عتبہ''کوسونپی ۔

سیف دوسری روایت میں کہتاہے :

سعد بن ابی وقاص نے عمروبن مالک بن عتبہ کو جلولا کی ماموریت دی اور ۔۔(یہاں تک کہ کہتاہے :)

اس جنگ کے قریب سواروں کے زرہ پوش دستے کی کمانڈ قبائل بنی عبدالدار کے ایک شخص ''طلیحہ بن ملان ،کے ذمہ تھی ۔

۷۸

داستان طلیحہ کے راویوں کی پڑتال:

دوسری خبر میں جہاں پر سیف نے طلیحہ بن ملان کا نام لیاہے ،اس میں اپنے راوی کے طور پر ''عبیدااﷲبن مُحَفّزِ'' بتایا ہے کہ اس نے اپنے باپ سے روایت کی ہے ۔اور اس نام کاکوئی حقیقت میں وجود نہیں رکھتا ہے اور سیف کے ایک جعلی راوی نے سیف کے دوسرے خیالی راوی سے روایت کی ہے ۔!

بحث کا نتیجہ:

ا بن حجر نے تا ر یخ طبری میں سیف سے نقل کی گئی روایت کے تنہا نقطہ پر ا عتما د کر کے مذ کورہ طلیحہ کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ا صحاب میں شمار کیا ہے۔

ا بن حجر کی نظر میں اس کے حا لا ت کی تشریح میں یہ نقطہ قابل تو جہ رہا ہے کہ طلیحہ جلو لا کی جنگ میں سواروں کے فوجی د ستے کا سپہ سا لار رہا ہے۔

ساتھ ہی اس کی تو جہ خا ص طو ر پر اس نام نہاد قاعدہ پر متمر کز رہی ہے اور وہ ہر روا یت کے آ خر میں اس کی تکرار کر تا ہے کہ:

میں نے بارہا کہا ہے کہ جنگو ں میں صحا بی کے علاوہ کسی اور کو سپہ سالا ر ا نتخا ب نہیں کیا جا تا تھا۔

اس و قت یہ بھی کہتا ہے :

اس صحا بی کو ابن فتحو ن نے بھی دریافت کیا ہے (ز)

ا بن حجر کی اس آ خر ی بات سے یہ نتیجہ حا صل ہو تا ہے کہ ا بن فتحو ن نے علامہ ابن حجر سے پہلے ابن عبد ا لبر کی ''استیعاب '' کے ضمیمہ میں طلیحہ کو صحابی شمار کیا ہے ۔

یہاں تک ہم نے اس حصہ میں سیف کے ایسے جعلی اصحاب کا تعارف کرایا ، جن کو علماء نے اس استناد پر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خداکے اصحاب قبول کیاہے کہ سیف نے اپنے افسانوں میں انھیں سپہ سالاری کا عہدہ سونپاہے ۔ انہوں نے بعض مواقع پر صحابی کی شناخت کے لئے وضع کئے گئے قاعدہ کی صراحت کی ہے اور بعض مواقع پر انھیں فراموش کر کے صرف اس کے نتیجہ پر اکتفا کی ہے۔

یہ علمااگر کبھی کسی چہرہ کو صحابی کے عنوان سے تعارف کرانے کے دوران کسی ایسی روایت یا خبر سے روبرو ہوتے جو ان کے وضع کئے گئے قاعدہ سے تناقص و ٹکراؤ رکھتی ہو تو ایک ایسی راہ کا انتخاب کر کے فرار کرتے تھے تاکہ ٹکراؤ کے مسلہ کو مذکورہ قاعدہ سے دورکریں ۔اب ہم آگے جن صحابیوں کے حالات پر روشنی ڈالیں گے وہ اسی قسم کے نمونے ہیں ۔

۷۹

مصادر و مآخذ

طلیحۂ عبدری کے حالات:

١۔''اصابہ'' ابن حجر (٢/٢٢٦)

ہاشم بن عتبہ کی سپہ سالاری کے بارے میں سیف کی روایت :

١۔''تاریخ طبری '' (١/٢٤٥٦)

طلیحہ بن بلال کی سپہ سالاری :

١۔''تاریخ طبری '' (١/٢٤٦١)

بنی عبدالدار کا نسب :

١۔''اللباب'' (٢/١١٢)

٢۔''جمہرہ ٔانساب '' ابن حزم (١٢۔١٣)

قریش کا نسب:

١۔''نسب قریش '' زبیر بن بکار (٢٥٠۔٢٥٦)

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

فرماتے ہیں اس لحاظ سے آپ (ع) پر جو اللہ نے ذمہ داری ڈال رکھی ہے اسے انجام دیتے ہیں اور لوگوں کو فیض پہنچاتے ہیں اور لوگ بھی اسی طرح جس طرح سورج میں آجانے کے باوجود اس سے فیض اٹھاتے ہیں آپ (ع) کے وجود گرامی سے با وجودیکہ آپ غیبت میں ہیں فائدہ اٹھاتے ہیں_

غیبت اور امام زمانہ (ع) کا ظہور

امام زمانہ (ع) کی غیبت اس وقت تک باقی رہے گی جب تک دنیا کے حالات حق کی حکومت قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہوں اور عالمی اسلامی حکومت کی تاسیس کے لئے مقدمات فراہم نہ ہوجائیں جب اہل دنیا کثرت مصائب اور ظلم و ستم سے تھک جائیں گے اور امام زمانہ (ع) کا ظہور خداوند عالم سے تہہ دل سے چاہیں گے اور آپ (ع) کے ظہور کے مقدمات اور اسباب فراہم کردیں گے اس وقت امام زمانہ (ع) اللہ کے حکم سے ظاہر ہوں گے اور آپ (ع) اس قوت اور طاقت کے سبب سے جو اللہ نے آپ کو دے رکھی ہے ظلم کا خاتمہ کردیں گے اور امن و امان واقعی کو توحید کے نظریہ کی اساس پر دنیا میں رائج کریں گے ہم شیعہ ایسے پر عظمت دن کے انتظار میں ہیں اور اس کی یاد میں جو در حقیقت ایک امام اور رہبر کامل

۲۰۱

کی یاد ہے اپنے رشد اور تکامل کے ساتھ تمام عالم کے لئے کوشش کرتے ہیں اور حق پذیر دل سے امام مہدی (ع) کے سعادت بخش دیدار کے متمنّی ہیں اور ایک بہت بڑے الہی ہدف میں کوشاں ہیں اپنی اور عام انسانوں کی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں اور آپ کے ظہور اور فتح کے مقدمات فراہم کر ر ہے ہیں_

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ بارہویں امام حضرت مہدی (ع) کس مہینے متولد ہوئے؟

۲)___ پیغمبر اسلام (ص) نے بارہویں امام (ع) کے متعلق کیا فرمایا ہے؟

۳)___ ہمارے دوسرے ائمہ نے امام مہدی (ع) کے متعلق کیا فرمایا ہے؟

۴)___ امام زمانہ (ع) کس کے حکم سے غائب ہوئے ہیں؟

۵)___ اب لوگ امام زمانہ (ع) کے وجود سے کس طرح مستفید ہو رہے ہیں؟

۶)___ امام زمانہ کی غیبت کب تک رہے گی؟

۷)___ جب امام زمانہ (ع) اللہ کے حکم سے ظاہر ہوں گے تو کیا کام انجام دیں گے؟

۸)___ ہم شیعہ کس دن کے انتظار میں ہیں امام زمانہ (ع) کے ظہور کے مقدمات کیسے فراہم کرسکتے ہیں؟

۲۰۲

چودہواں سبق

شیعہ کی پہچان

امام محمد باقر علیہ السلام نے اپنے اصحاب میں سے ایک جابر نامی صحابی سے یہ فرمایا اے جابر کیا صرف اتنا ہی کافی ہے کہ کوئی کہہ دے کہ میں شیعہ ہوں اور اہل بیت (ع) پیغمبر (ص) اور ائمہ (ع) کو دوست رکھتا ہوں صرف یہ دعوی کافی نہیں ہے خدا کی قسم شیعہ وہ ہے جو پرہیزگار ہو اور اللہ کے فرمان کی مکمل اطاعت کرتا ہو اس کے خلاف کوئی دوسرا کام نہیں کرتا اگر چہ کہتا رہے کہ میں علی علیہ السلام کو دوست رکھتا ہوں اور اپنے آپ کو شیعہ سمجھے اے جابر ہمارے شیعہ ان نشانیوں سے پہچانے جاتے ہیں سچے امین با وفا ہمیشہ اللہ کی یاد میں ہوں نماز پڑھیں روزہ رکھیں قرآن پڑھیں ماں باپ سے نیکی کریں ہمسایوں کی مدد کریں یتیموں کی خبر گری کریں اور ان کی دلجوئی کریں لوگوں کے بارے میں سوائے اچھائی

۲۰۳

کے اور کچھ نہ کہیں لوگوں کے مورد اعتماد اور امین ہوں_

جابر نے جو امام (ع) کے کلام کو بڑے غور سے سن رہے تھے تعجب کیا اور کہا: اے فرزند پیغمبر خدا (ص) مسلمانوں میں اس قسم کی صفات کے بہت تھوڑے لوگ ہم دیکھتے ہیں امام (ع) محمد باقر علیہ السلام نے اپنی گفتگو جاری رکھی اور فرمایا شاید خیال کرو کہ شیعہ ہونے کے لئے صرف ہماری دوستی کا ادّعا ہی کافی ہے نہیں اس طرح نہیں ہے جو یہ کہتا ہے کہ میں علی علیہ السلام کو دوست رکھتا ہوں لیکن عمل میں ان کی پیروی نہیں کرتا وہ علی (ع) کا شیعہ نہیں ہے بلکہ اگر کوئی کہے کہ میں پیغمبر (ص) کو دوست رکھتا ہوں اور آپ (ص) کی پیروی نہ کرے تو اس کا یہ ادّعا اسے کوئی فائدہ نہ دے گا حالانکہ پیغمبر (ص) علی (ع) سے بہتر ہیں اے جابر ہمارے دوست اور ہمارے شیعہ اللہ کے فرمان کے مطیع ہوتے ہیں جو شخص اللہ کے فرمان پر عمل نہیں کرتا اس نے ہم سے دشمنی کی ہے تمہیں پرہیزگار ہونا چاہیئے اور آخرت کی بہترین نعمتوں کے حاصل کرنے اورآخرت کے ثواب کو پانے کے لئے اچھے اور نیک کام انجام دینے چاہیے سب سے بہتر اوربا عزّت انسان اللہ کے نزدیک وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہو_

غور کیجئے اور جواب دیجئے ۱)___ شیعہ کو کیسا ہونا چاہیئے وہ کن علامتوں اور نشانیوں سے پہچانا جاتا ہے؟

۲)___ کیا صرف ادّعا کرنا کہ علی علیہ السلام کو دوست

۲۰۴

رکھتا ہوں شیعہ ہونے کے کئے کافی ہے؟

۳)___ اللہ کے نزدیک سب سے بہتر اور با عزت انسان کون سا ہے؟

۲۰۵

پندرہواں سبق

اسلام میں رہبری اور ولایت

اسلام کے ابدی اصولوں میں رہبری اور ولایت داخل ہے امت اسلامی کا رہبر اور ولی اور حاکم ہونا ایک الہی منصب ہے خداوند عالم لائق اور شائستہ انسانوں کو اس مقام اور منصب کے لئے معيّن کر کے لوگوں کو بتلایا اور اعلان کرتا ہے پیغمبر (ص) کے زمانے میں امت اسلامی کا رہبر اور ولی خود پیغمبر (ص) کی ذات گرامی تھی اور آپ (ص) ہمیشہ اس منصب کی ذمہ داریوں کو انجام دیتے تھے دین کے قوانین اور دستور کو خداوند عالم سے دریافت کرتے تھے اور لوگوں کو بتلایا کرتے تھے آپ (ص) کو اللہ کی طرف سے حکم تھا کہ سلام کے سیاسی اور اجتماعی قوانین او راحکام مسلمانوں میں نافذ اور جاری کریں اور اللہ کی رہبری سے امت کو کمال تک پہنچائیں امور سیاسی اور اجتماعی کی اسلامی معاشرے میں بجا

۲۰۶

آواری پیغمبر اسلام (ص) کے ہاتھ میں تھی دفاع اور جہاد کا حکم خود آپ (ص) دیا کرتے تھے اور فوج کے افسر اور امیر آپ (ص) خود مقرر کیا کرتے تھے اور اس میں خداوند عالم نے آپ(ص) کو کامل اختیار دے رکھا تھا آپ (ص) کے فیصلے کو لوگوں کے فیصلے پر تقدم حاصل تھا کیوں کہ آپ (ص) لوگوں کے فیصلے پر تقدم سے پوری طرح آگاہ تھے اور آپ (ص) لوگوں کی سعادت اور آزادی کی طرف رہبری کرتے تھے رہبری اور ولایت سے یہی مراد ہے اور اس کا یہی معنی ہے خداوند عالم نے یہ مقام اپنے پیغمبر(ص) کے سپرد کیا ہے جیسے خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ پیغمبر (ص) کو حق پہنچتا ہے کہ تمہارے کاموں کے بارے میں مصمم فیصلہ کریں اس کا ارادہ اور تصمیم تہارے اپنے ارادے اور تصمیم پر مقدم ہے اور تمہیں لازما پیغمبر کی اطاعت کرنا ہوگی رہبری اور ولایت صرف پیغمبر (ص) کے زمانہ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ ضروری ہے کہ لوگ ہر زمانے میں اللہ کی طرف سے کوئی رہبر اور ولی رکھتے ہوں اسی لئے پیغمبر اکرم (ص) نے حضرت علی علیہ السلام کے حق میں لوگوں کو بتلایا کہ ان کے بعد وہ تمہارے ولی اور رہبر ہوں گے اور غدیر کے عظیم اجتماع میں مسلمانوں کو فرمایا کہ جس نے میری ولایت اور رہبری کو قبول کیا ہے اسے چاہیئے کہ حضرت علی علیہ السلام کی رہبری اور ولایت کو قبول کرے اس ترتیب سے حضرت علی علیہ السلام خدا کے حکم اور پیغمبر اسلام (ص) کے اعلان سے لوگوں کے رہبر اور امام اور خلیفہ ہوئے حضرت علی علیہ السلام نے بھی امت کو رہبر بتائے بغیر نہیں چھوڑا بلکہ خدا کے حکم اور پیغمبر اسلام (ص) کے دستور

۲۰۷

کے مطابق امام حسن علیہ السلام کو رہبری کے لئے منتخب کرگئے تھے اور لوگوں میں بھی اعلان کردیا تھا اسی ترتیب سے ہر ایک امام نے اپنے بعد آنے والے امام کی رہبری کو بیان فرمایا اور اس سے لوگوں کو باخبر کیا یہاں تک کہ نوبت بارہویں امام (ع) تک آپہنچی آپ (ع) خدا کے حکم سے غائب ہوگئے بارہویں امام (ع) کی غیبت کے زمانے میں امت اسلامی کی رہبری اور راہنمائی، فقیہ عادل، کے کندھے پر ڈالی گئی ہے_

رہبر فقیہ اسلام شناس پرہیزگار ہونا چاہیئے لوگوں کے سیاسی اور اجتماعی امور اور دوسری ضروریات سے آگاہ اور واقف ہو:

مسلمانوں کو ایسے آدمی کا علم ہوجایا کرتا ہے اور اسے رہبرمان لیتے ہیں اور اس کی اطاعت کرتے ہیں اس قسم کے رہبر کے وجود سے مسلمان ظالوں کے ظلم و ستم سے رہائی پالیتے ہیں جیسے کہ آج کل زمانے میں ایران کے شیعوں نے ایک ایسے رہبر کو مان کر موقع دیا ہے کہ وہ احکام اسلامی کو رائج کرے اور ایران کے مسلمانوں کو بلکہ تمام دنیا کے مسلمانوں کو طاغوتیوں کے ظلم سے نجات دلوائے_

سوالات

۱)___ امت اسلامی کی رہبری اور ولایت پیغمبر اسلام (ص) کے زمانے میں کس کے کندھے پر تھی؟

۲)___ کون سے کام پیغمبر (ص) خود انجام دیا کرتے تھے؟

۲۰۸

۳)___ خداوند عالم نے پیغمبر کی ولایت کے بارے میں قرآن میں کیا فرمایا ہے؟

۴)___ پیغمبر اسلام (ص) نے اپنے بعد کس شخص کو امت اسلامی کی رہبری کے لئے معيّن کیا تھا؟

۵)___ جب آپ (ص) اس کا اعلان کر رہے تھے تو کیا فرمایا تھا؟

۶)___ بارہویں امام (ع) کے غیبت کے زمانے میں امت اسلامی کی رہبری اور ولایت کس کے ذمّہ ہوتی ہے؟

۷)___ رہبر اور ولی مسلمین کو کن صفات کا حامل ہوچاہیئے؟

۸)___ مسلمان ظلم و ستم سے کس طرح رہائی پاسکتے ہیں؟

۹)___ امت اسلامی کی تمام افواج کا حاکم اور فرمانبردار کون ہوتا ہے؟

۲۰۹

پانچواں حصّہ

فروغ دین

۲۱۰

پہلا سبق

باپ کا خط اور مبارک بادی بیٹا محسن اور بیٹی فاطمہ:

میں خوش ہوں کہ تم نے بچپن کا زمانہ ختم کرلیا ہے اور جوانی کے زمانے میں داخل ہوگئے ہو جب تم چھوٹے تھے تو میں تمہاری نگہداشت کرتا تھا اور تمہارے کاموں اور کردار کی زیادہ سرپرستی کرتاتھا نماز کے وقت تمہیں نماز یاد دلاتا اور درس کے وقت کام اور محنت کرنے کی تلقین کرتا تھا لیکن اب تم خود ذمہّ دار ہو بیٹا اب تم بڑے ہوگئے ہو اور تمہارے پندرہ سال پورے ہوچکے ہیں بیٹی تمہارے بھی نوسال مکمل ہوچکے ہیں اور اب تم کاملاً رشیدہ ہوچکی ہو اب جب تم اس سن اور رشد کو پہنچ چکے ہو تو خداوند عالم نے تمہیں بالغ قرار دیا ہے اور تمہاری طرف خاص توجّہ فرماتا ہے اور تمہیں ایک مکلف اور ذمّہ دار انسان

۲۱۱

سمجھتا ہے اور تمہارے لئے خاص فرض اور ذمہ داری معيّن کی ہے اب تمہاری زندگی بچپن سے جوانی اور قوت کی طرف پہنچ چکی ہے قدرت اور طاقت ہمیشہ ذمہ داری بھی ہمراہ رکھتی ہے احکام دین اور قوانین شریعت تمہاری ذمہ داری اور فرض کو معيّن کرتے ہیں تم اپنے تمام کاموں کو ان اسلام قوانین کے مطابق بجالاؤ اور ان پر ٹھیک ٹھیک عمل کرو تم پر واجب ہے کہ نماز صحیح اور وقت پر پڑھو

خبردار ہو کہ ایک رکعت نماز بھی ترک نہ کرو ورنہ گناہ گار ہوجاؤ گے واجب ہے کہ اگر ماہ مبارک کے روزے تمہارے لئے مضر نہ ہوں تو انہیں رکھو اگر تم نے بغیر شرعی عذر کے روزہ نہ رکھا تو تم نے نافرمانی اور گناہ کیا ہے اب تم اس عمر میں یہ کرسکتے ہو کہ دینی عبادات اور اچھے کام بجالا کر ایک اچھے انسان کے مقام اور مرتبے تک پہنچ جاؤ اور اخداوند عالم سے اس اور محبت کرو چونکہ میں سفر میں ہوں تمہیں ابتدائے بلوغت میں مبارک بادی پیش نہیں کرسکا اسی لئے یہ خط لکھا ہے اورمبارک باد کے ساتھ تمہارے لئے دو عدد کتابیں بھی طور تحفہ روانہ کی ہیں _

تمہیں دوست رکھنے والا:

تمہارا والد

۲۱۲

دوسرا سبق

نجس چیزیں

جانتے ہیں ہم بیمار کیوں ہوتے ہیں؟

بہت سی بیماریاں جیسے سل یا بچّوں پر فالج کا گرنا و غیرہ یہ چھوٹے چھوٹے جراثیموں سے پیدا ہوتی ہیں اور ان جراثیم کا مرکز گندی جگہ ہوا کرتا ہے جہاں یہ پیدا ہوتے اور افزائشے نسل پاتے ہیں یہ جراثیم اپنی زندگی کی جگہ تو مفید کام انجام دیتے ہیں لیکن اگر یہ انسان کے بدن پر منتقل ہوجائیں تو اسے نقصان پہنچاتے ہیں اور بیمار کردیتے ہیں اب شاید آپ بتلاسکیں کہ ہم کیوں بیمار ہوجاتے ہیں اور ان بیماریوں کو روکنے کے لئے کون سے کام پہلے حفظ ما تقدم کے طور پر انجام دینے چاہیئیں سب سے بہترین راستہ بیماریوں کو روکنے کا صفائی اور پاکیزگی کا خیال رکھنا اگر ہم چاہیں کہ بیمار نہ ہوں تو ضروری ہے کہ کثافت اور گندگی کو اپنے سے دور

۲۱۳

رکھیں اور اپنی کے ماحول کو ہمیشہ پاکیزہ رکھیں کیا آپ نجس چیزوں اور ان چیزوں کو جن میں جراثیم ہوا کرتے ہیں پہچانتے ہیں؟ کیا جانتے ہیں کہ انسان اور حرام گوشت حیوان کا پائخانہ اور گوبر نقصان دہ جراثیم کے اجتماع کامرکز ہیں___؟ کیا جانتے ہیں حرام گوشت حیوان کا پیشاب کثیف اور زہرآلودہ ہوتا ہے___؟ کیا جانتے ہیں کہ جب خون بدن سے باہر نکلتا ہے تو اس پربہت زیادہ جراثیم حملہ آور ہوتے ہیں___؟ کیا جانتے ہیں کہ وہ جراثیم جو کتے اور سور کے جسم میں ہوتے ہیں وہ انسان کے جسم کی سلامتی اور جان کے لئے بہت نقصان دہ ہیں___؟ کیا جانتے ہیں کہ مردار اور حیوانات کی لاشیں جراثیم کی پرورش کا مرکز اور اس کے بڑھنے اور افزائشے نسل کی جگہ ہوا کرتی ہیں اسلام کے قوانی بنانے والا ان ساری چیزوں کو جانتا تھا اسی وجہ سے اور بعض دوسری وجوہات سے ان چیزوں اور دوسری بعض چیزوں کو نجس بتلایا ہے اور مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ اپنے آپ کو اور اپنے ماحول کو ان چیزوں سے پاک رکھین اور یہ قاعدہ کلی ہے کہ مسلمان مرد ہر اس چیز سے کہ جو جان اور جسم کے لئے بیماری کا موجب ہو عقل اور فہم کو آلودہ اور نجس کردیتی ہو اس سے دوری اختیار کرتا ہے وہ بعض چیزیں کہ جو اسلام میں نجس بتلائی گئی ہیں یہ ہیں_

۱)___ انسان کاپیشاب اور پائخانہ اور حرام گوشت حیوان کا پیشاب اور پائخانہ_

۲۱۴

۲)___ جس حیوان کا خون دہار مار کر نکلتا ہو اس کا خون اور مردار_

۳)___ کتّا اور سور_

۴)___ شراب اور جوکی شراب اور ہر وہ مائع جو نشہ آور ہو ایک مسلمان کا بدن اور لباس اور زندگی کا ماحول ان چیزوں سے پاک ہونا چاہیے_ کیا جانتے ہیں کہ ان چیزوں سے بدن اور لباس یا کوئی اور چیز نجس ہوجائے تو اسے پاک کرنے کا طریقہ کیا ہے___؟

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ ایک مسلمان کن چیزوں سے دوری اور اجتناب کرتا ہے؟

۲)___ بیماریوں سے حفظ ما تقدم کے طور پر کیا کرنا چاہیے

۳)___ جو چیزیں اسلام میں نجس ہیں انھیں بیان کیجئے

۲۱۵

تیسرا سبق

نماز کی اہمیت

نماز دین کا ستون ہے اور بہترین عبادت نماز ہے نماز پڑھنے والا اللہ کو بہت زیادہ دوست رکھتا ہے اورنماز میں مہربان خدا سے راز و نیاز او رگفتگو کرتا ہے اور اللہ کی بے حساب نعمتوں کا شکریہ ادا کرتا ہے_ خدا بھی نماز پڑھنے والوں کو اور بالخصوص بچّوں کو بہت زیادہ دوست رکھتا ہے اور ان کو بہت اچھی اور بہترین جزاء دیتا ہے ہر مسلمان نماز سے محبت کرتا ہے نماز پڑھنے اور خدا سے باتیں کرنے کو دوست رکھتا ہے اور اسے بڑا شمار کرتا ہے_ منتظر رہتا ہے کہ نماز کا وقت ہو اور خدا کے ساتھ نماز میںحاجات اور راز و نیاز کرے جب نماز کا وقت ہوجاتا ہے تو سارے کام چھوڑدیتا ہے اور اپنے آپ کو ہر قسم کی نجاست سے پاک کرتا ہے اور وضو کرتا ہے پاک

۲۱۶

لباس پہنتا ہے خوشبو لگاتا ہے اور اوّل وقت میں نماز میں مشغول ہو جاتا ہے اپنے آپ کوتمام فکروں سے آزاد کرتا ہے اور صرف اپنے خالق سے مانوس ہوجاتا ہے اور اس سے محبت کرتا ہے ادب سے اللہ کے سامنے کھڑا ہوجاتا ہے تکبیر کہتا ہے اور خدا کو بزرگی اور عظمت سے یاد کرتا ہے سورہ الحمد اور دوسری ایک سورہ کو صحیح پڑھتا ہے اور کامل رکوع اور سجود بجالاتا ہے نماز کے تمام اعمال کو آرام اور سکون سے بجالاتا ہے اور نماز کے ختم کرنے میں جلد بازی سے کام نہیں لیتا ایک دن ہمارے پیغمبر اسلام (ص) مسجد میں داخل ہوئے ایک آدمی کو دیکھا کہ بہت جلدی میں نماز پڑھ رہا ہے رکوع اور سجدے کو کامل بجا نہیں لاتا اور نماز کے اعمال کو آرام سے بجا نہیں لاتا آپ نے تعجب کیااور فرمایا کہ یہ آدمی نماز نہیں پڑھ رہا بلکہ ایک مرغ ہے جو اپنی چونچ زمین پر مار رہا ہے سیدھا ٹیرھا ہوتا ہے خدا کی قسم اگر اس قسم کی نماز کے ساتھ اس دنیا سے جائے تو مسلمان بن کر نہیں جائے گا اور آخرت میں عذاب میں مبتلا ہوگا:

بہتر ہے کہ نماز پڑھنے کے لئے مسجد میں جائیں اور اپنی نماز جماعت کے ساتھ بجالائیں_

نماز کے چند مسئلے

۱)___ مرد پر واجب ہے کہ مغرب اور عشاء اور صبح کی پہلی

۲۱۷

دو رکعت میں الحمد اور سورہ کو بلند آواز سے پڑھے_

۲)___ نماز پڑھنے والے کا لباس اور بدن پاک ہونا ضروری ہے_

۳)___ ایسی جگہ نماز پڑھنا کہ جہاں اس کا مالک راضی نہ ہویا ایسے لباس میں نماز پڑھنا کہ جس کا مالک راضی نہ ہو حرام اور باطل ہے_

۴)___ سفر میں چار رکعت نماز دو رکعت ہوجاتی ہے یعنی صبح کی طرح دو رکعت نماز پڑھی جائے کیسا سفر ہو اور کتنا سفر ہو کتنے دن کا سفر ہو ان کا جواب توضیح المسائل میں دیکھئے_

۲۱۸

چوتھا سبق

نماز آیات

جب سورج یا چاند گرہن لگے تو ایک مسلمان کو اس سے قیامت کے دن کی یاد آجاتی ہے اس قوت کی یاد میں کہ جس وقت تمام جہان زیر و زبر ہوجائے گا اور سورج اور چاند کا چہرہ تاریک ہوجائے گا اور مردے جزاء اور سزا کے لئے زندہ محشور ہوں گے سورج یا چاند گرہن یا زلزلہ کے آنے سے ایک زندہ دل مسلمان قدرت خدا کی نشانیوں میں سے ایک نشانی دیکھتا ہے اور گویا خلقت نظام کی علامت کا مشاہدہ کرتا ہے اور اس کا دل اللہ کی عظمت سے لرزجاتا ہے اور خدائے بے نیاز کی طرف احتیاج کا احساس کرتا ہے اور اللہ کے حکم کے تحت نماز آیات کے لئے کھڑا ہوجاتا ہے اور مہربان خدا سے راز و نیاز کرتا ہے اور اپنے پریشان اور بے آرام دل کو اطمینان دیتا ہے کیونکہ

۲۱۹

خدا کی یاد پریشان دل کو آرام دیتی ہے اور تاریک دلوں کو روشنی کا مدہ سناتی ہے لہذا اس سے اس کا دل آرام حاصل کرلیتا ہے اور مشکلات کے مقابلے او رحوادث کے حفظ ما تقدم کے لئے بہتر سوچتا ہے اور زندگی کے ٹھیک راستے کو پالیتا ہے_

نماز آیات کا پڑھنا جب سورج یا چاند گرہن لگے یا زلزلہ آئے ہر مسلمان پر واجب ہے نماز آیات کس طرح پڑھیں نماز آیات صبح کی نماز کی طرح دو رکعت ہوتی ہے صرف فرق یہ ہے کہ ہر ایک رکعت میں پانچ رکوع ہوتے ہیں اور ہر ایک رکوع کے لئے رکوع سے پہلے سورة الحمد اور کوئی ایک سورہ پڑھنا ہوتا ہے اور پانچویں رکوع کے بعد کھڑے ہوکر سجدے میں چلاجائے اور اس کے بعد دوسری رکعت پہلی رکعت کی طرح بجالائے اور دو سجدوں کے بعد تشہد اور سلام پڑھے اور نماز کو ختم کرے_

نماز آیات کو دوسرے طریقے سے بھی پڑھا جاسکتا ہے اس کی ترکیب اور باقی مسائل کو توضیح المسائل میںدیکھئے

سوالات

۱)___ سورج گرہن یا چاند گرہن کے وقت انسان کو کونسی چیز یاد آتی ہے؟

۲)___ نماز آیات کس طرح پڑھی جائے؟

۳)___ نماز آیات کا پڑھنا کیا فائدہ دیتا ہے؟

۴)___ کس وقت نماز آیات واجب ہوتی ہے؟

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285