‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) جلد ۲

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) 13%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 285

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 285 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 117976 / ڈاؤنلوڈ: 4038
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

کی ہے ایسی خالص عبادت، عشق محبوب سے مکمل لبریز ہے اور اس محبت کا اثر خدا کی جانب پیش قدمی کا بہت اہم سبب ہے، کمال مطلق کی جانب پیش قدمی گناہو ں اور تمام آلودگیو ں سے کنارہ کشی کا پیش خیمہ ہے ۔

حقیقی عبادت گذار اس بات کی سعی پیہم کرتا ہے کہ خود کو محبوب کے جیسا قراردے اور ا سی طرح سے خود کو صفات جمال و جلا ل الٰہیہ کا پر توقرار دیتا ہے اور یہ امور انسان کے تربیت وتکامل میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔

سوالات

۱۔خدا کی وحدانیت پر دلیل پیش کریں ؟

۲۔ مراتب توحید کیا ہیں ؟

۳۔ توحید افعال سے مراد کیاہے ؟

۴۔ توحید در عبادت کی وضاحت کیجئے ؟

۶۱

آٹھواں سبق

صفات خدا (فصل اول )

جس طرح سے شناخت خدا وندمتعال اور اس کے اصل وجو د کو جا ننا آسان ہے اسی طرح اس کے صفات سے آگاہی چنداں آسان نہیں ہے .کیونکہ خد اکی شنا خت کے لئے آسمان کے ستارے، درختوں کے پتے ،متنوع برگ وگیاہ ، جاندار اشیاء بلکہ ایٹمی ذرات کی تعداد یہ سب اس کے وجود پر دلیل ہیں یہ سب کے سب اس کے عظمت کی نشانیاں ہیں، لیکن اس کی صفات کی پہچان کے لئے غوروخو ض او ر دقت نظر کی ضرورت ہے تاکہ تشبیہ اور قیا س آرائی سے دور رہیں صفات خدا کی شناخت کی پہلی شرط ،صفات مخلو قات کی خدا سے نفی کرنا او رخدا کاکسی مخلوق سے تشبیہ نہ دینا ہے کیو نکہ خدا کی کسی صفت کا مخلوقات کی صفت سے کسی طرح موازنہ ہو ہی نہیں سکتا ،مادی صفات میں سے کو ئی صفت اس کی پاک ذات میں دخیل نہیں ہے کیو نکہ مادی صفت محدودیت کا سبب ہے اور وہ لا محدود ہے اور تمام مراتب کمال کا مجموعہ ہے لہٰذا ہم اس کی ذات کوکماحقہ درک نہیں کر سکتے اور اس طرح کی کو ئی امید بھی نہیں رکھنی چاہئے ۔

یہاں پر یہ سوال پیدا ہو تا ہے کہ عقل، خد اکی حقیقت ذات اور اس کے صفات کو کیوں نہیں درک کر سکتی ؟ تو اس کاجواب اس طرح دیا جا سکتا ہے کہ اس کی ذات اقدس ہررخ سے بے نظیر و لا محدود ہے ،علم ،قدرت اور اس کے تمام صفات اس کی ذات کی طرح لا محدود ہیں ، اور دوسری طرف ہم او رجو کچھ ہم سے مربوط ہے ، علم ،قدرت ،حیات ،فرمان ،مکا ن، سب محدود ومتناہی ہے ۔تو ان تمام تر محدودیت کے ساتھ اس کی حقیقت ذات کو کہ جولامحدود ہے کیسے درک کر سکتے ہیں ؟!اس کی حقیقت ذات کو آخر کیسے درک کریں جس کی کو ئی شبیہ ومثیل نہیں ؟۔

۶۲

صفات ثبوتیہ و سلبیہ :

صفات خدا کو دو قسموںمیں تقسیم کر سکتے ہیں ۔ ثبوتیہ و سلبیہ

صفات ثبوتیہ یا جمالیہ

''عالم ،قادر ، حی، مرید ، مدرک ، سمیع ، بصیر ، متکلم و صادق ''۔خدا وند کمال مطلق ہے جو کچھ صفات ثبوتیہ کے عنوان سے پیش کیا گیا ہے وہ اصول صفات ہیں نہ یہ کہ خدا ان میں منحصر و محدود ہے ۔

صفات سلبیہ یا جلالیہ

''وہ مرکب ومجسم نہیں ، قابل دید و محلول نہیں ،اس کا کوئی شریک نہیں ''

صفات ذات و صفات فعل

صفات ثبوتیہ کی دوقسمیں ہیں ۔ صفات ذات و صفات فعل

صفات ذات: جو اس کی عین ذات ہیں انہیں کو ذات خدا وندی سے جدا نہیں کرسکتے جیسے علم ،قدرت،حیات ،اور جن کی بھی ان تینوں صفات کی طرف بازگشت ہو جیسے سمیع ، بصیر، قدیم، ازلی، ابدی، مدرک، حکیم، غنی، کریم ،عزیز و غیرہ ۔

صفات فعل : وہ صفات جو افعال خدا وندسے متعلق ہیں یعنی جب تک وہ افعال اس سے صادر نہ ہو ں وہ صفات اس سے متصف نہیں ہو ںگے جیسے خالق رازق یااس کے ماننددوسرے صفات اور کبھی اس سے یہ صفات سلب بھی ہو جا تے ہیں جیسے''کان اللّٰهُ ولمْ یُخلق شیئاً ثُم خَلَق ۔أراد اللّه شیئاً ولم یرد شیئاً آخر شاء ولم یشائ''وه خدا تھا جس نے خلق نہیں کیا تھا پھراس نے خلق کیا، خدا نے ایک چیز کا ارادہ، کیا دوسری چیز کا ارادہ نہیں کیا ، چاہا اور نہیں چاہا ۔''تکلم مع موسیٰ ولم یتکلم مع فرعون یُحب مَن أطاعہُ ولا یُحب مَنْ عصاہ'' حضرت موسی سے ہم کلام ہوا فرعون سے کلام نہیںکیا ،جو اس کی اطاعت کرتا ہے اس کو دوست رکھتا ہے اور جو اس کی نا فرمانی کرتاہے اس کو دوست نہیں رکھتا ، اس کے صفات فعل میں ''اذا '' اور ''اِن'' کا لفظ داخل و شامل ہو تا ہے جیسے '' اِذا أراد شیئاً و اِن شائَ اللّه'' اس کی صفات ذات میں ''اِذا عَلِم اللّه ''اور''اِن عَلِم ''نہیں کہہ سکتے۔

۶۳

علم خداوند

وہ واجب الوجود جو عالم علم کل ہے اس کی حیرت انگیز نظم و ہماہنگی پوری کائنات پر محیط ہے ،جو اس کے لا متناہی علم کا بیّن ثبوت ہے اس کے علم کے لئے ماضی حال ،مستقبل سب برابر ہے ، اس کا علم ازل و ابد پر محیط ہے کروڑوں سال قبل و بعد کاعلم اس کے نزدیک آج کے علم کے برابر ہے جس طرح سے کل کا ئنا ت کا خالق ہے اسی طرح تمام ذرات کی تعداد اور ان کے اسرار مکنونہ کا مکمل عالم ہے انسان کے نیک و بد اعمال نیز ان کی نیات ومقاصد سے آگا ہ و باخبر ہے ،علم خداوند اس کی عین ذات ہے اور اس کی ذات سے جدا نہیں ۔

( وَ اعلموا أَنَّ اللّهَ بِکلِّ شَیئٍ عَلِیمُ ) ( ۱ ) جان لو کہ خد اہر شی ٔسے آگا ہ ہے۔( وَهَوَ اللّهُ فیِ السَّمٰواتِ وَ فیِ الأَرضِ یَعلَمُ سرَّکُم وَجَهَرَکُم وَ یَعلمُ ما تََکسِبُونَ ) ( ۲ ) ''وہ خد اوہ ہے جو زمینو ں و آسمانو ں میں تمہارے ظاہر و باطن کا عالم ہے او رجو کچھ تم انجام دیتے ہو اس کا عالم ہے'' ۔

____________________

(۱) سورہ بقرہ آیة ۲۳۱

(۲)سورہ انعام آیة ،۳

۶۴

سوالات

۱۔عقل، خد اکی حقیقت ذات اور ا س کے صفات تک کیو ں نہیں پہنچ سکتی ؟

۲۔صفات ثبوتیہ وصفات سلبیہ کی تعریف کریں ؟

۳۔ صفات ذات و صفا ت فعل میں کیافرق ہے ؟

۶۵

نواں سبق

صفات خدا وند (فصل دوم )

خد اوند متعال بے پنا ہ قوتوں کامالک ہے اتنی بڑی کا ئنا ت اپنی تمام عظمتوں او روسعتوں کے ساتھ سیارات وکواکب ،کہکشائیں، بے کراں سمندر ، دریا اور ان میں مختلف النوع مخلو قات و موجودات سب کے سب اس کی قدرتوں کے کرشمہ ہیں ! خدا ہر چیز پر قادر ہے اور ہر شی ٔپر اس کی قدرت یکساں و مساوی ہے۔

( تَبَارَک الّذیِ بِیَدِهِ المُلک وَهُوعلیٰ کُلِّ شَیئٍ قَدیرُ ) ( ۱ ) ''بابرکت ہے وہ ذات جس کے قبضۂ قدرت میں کا ئنا ت کی باگ ڈور ہے وہ ہر چیز پر قادر ہے'' ۔

( لِلّه مُلک السَّمٰواتِ والأَرضِ وَماَ فِیهنَّ وَ هُو علیٰ کُلِّ شَیئٍ قَدیرُ ) ( ۲ ) ''زمین وآسمان اورجوکچھ اس کے درمیان ہے ان سب کی حکومت خدا سے مخصوص ہے او روہ ہرچیز پرقادر ہے'' ۔

( فلَا أُقسِمُ بِربِّ المَشَارقِ وَالمَغَاربِ اِنَّا لَقَادِرُونَ ) ( ۳ ) میں

____________________

(۱) سورہ ملک آیة ۱

(۲) مائدہ آیة ۱۲۰

(۳) معارج آیة ۴۰

۶۶

تمام مشرق و مغرب کے پروردگا ر کی قسم کھا کر کہتا ہو ں کہ ہم قدرت رکھنے والے ہیں۔

قران کی متعدد آیات جوقدرت خداوندعالم کو بیا ن کرتی ہیں اس سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ قدرت خد الئے کو ئی حدو قید نہیں ہے بلکہ جس وقت وہ چاہے انجام دے دیتا ہے او رجب کسی چیز کی نا بودی کا ارادہ کرے تواس چیز کومٹ ہی جا نا ہے ۔

خلا صہ یہ کہ کسی قسم کی ناتوانی او رضعف کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔آسمان، عظیم ترین سیارات اور ذرات سب اس کے لئے یکساںاور برابر ہیں ۔

عن علیٍّ علیه السلام :وما الجلیل واللطیف والثقیل والخفیف والقوی والضعیف من خلقه اِلّا سواء

امیر المومنین فرماتے ہیں:'' آشکا ر وپوشیدہ، وزنی او ر ہلکا ،قوی وضعیف یہ سب کے سب خلقت میں اس کے نزدیک برابر ہیں''( ۱ )

امام جعفر صادق نے فرمایا : جس وقت حضرت موسیٰ طور پر تشریف لے گئے عرض کی ! خدا یا ! اپنے خزانے کا نظارہ کرادے تو خدا نے فرمایا : میراخزانہ یوں ہے کہ جس وقت میں کسی چیز کا ارادہ کرکے کسی چیز کو کہو ںکہ ہو جا تو وہ وجو د میں آجائے گی( ۲ )

____________________

(۱) نہج البلاغہ خ :۸۰

(۲)توحید صدوق باب ۹ حدیث ۱۷

۶۷

قدرت خداکے متعلق ایک سوال

کبھی کبھی یہ سوال اٹھا یا جا تا ہے کہ کیا خدا اپنا جیسا ایک خدا پیدا کرسکتا ہے؟

اگر یہ جواب دیا جا ئے کہ کیو ں نہیں ؟تو دو خداہو جا ئیں گے ! اوراگر کہا جائے کہ نہیں کرسکتا تو ایسی صورت میں قدرت خدا محدود ہو جا ئے گی ۔ یا یہ کہ کیا خدا اتنی بڑی کائنات کو ایک مرغی کے انڈے کے اندر دنیا کو چھوٹی اور انڈے کو بڑ ا کئے بغیر سمو سکتاہے۔؟

اس کے جو اب میں یہ کہا جا ئے گا کہ ایسے مواقع کے لئے (نہیں ہو سکتا ) یا (نہیں کرسکتا ) کی لفظیں استعمال نہیں کریں گے ،یا واضح لفظوں میں یہ کہا جا ئے کہ یہ سوال ہی نامعقول ہے کیو نکہ جب ہم یہ کہیں گے کہ کیا خدا اپنے جیسا دوسرا بنا سکتا ہے تو خود لفظ (خلقت) کے یہ معنی ہیں کہ وہ شیء ممکن الوجود و مخلو ق ہے اور جب ہم یہ کہیں گے (خدا وند ) کے معنی وہ شی ٔہے جو واجب الوجود ہے ۔

تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ کیا خدا اس با ت پر قادر ہے کہ ایسی چیز کو خلق کرے جو ایک ہی وقت میں واجب الوجو د بھی ہو اور نہ بھی ہو، ممکن الوجود بھی ہو اور غیر ممکن الوجود بھی ، خالق بھی ہو اور مخلوق بھی یہ سوال غلط ہے خدا ہر چیز پر قادر ہے۔

اسی طرح سے جب یہ کہا جا ئے کہ کیا خدا اس بات پر قادر ہے کہ کل کا ئنا ت کو ایک مرغی کے انڈے میں سمودے اس طرح سے کہ نہ دنیا چھوٹی ہو اور نہ انڈا بڑا تو اس کے معنی یہ ہو ئے کہ دنیا اپنی تمام تر وسعتوں کے ساتھ بڑی بھی ہے اور چھوٹی بھی اس سوال کے بے تکے ہو نے کی وجہ سے جواب کی بالکل ضرورت نہیں ہے کیو نکہ محال سے قدرت کا تعلق خود محال ہے ۔

اسی سوال کو ایک شخص نے حضرت امیرںسے پوچھا تھا آپ نے فرمایا:

____________________

(۱) نہج البلاغہ خ :۸۰

(۲)توحید صدوق باب ۹ حدیث ۱۷

۶۸

اِنَّ اللّه تبارک وتعالیٰ لا ینسب اِلیٰ العجز والّذیِ سألتنیِ لا یکون ''خدا کی جا نب عجز و ناتوانی کی نسبت نہیں دی جاسکتی ؛لیکن تم نے جو سوال کیا وہ انہونی ہے''( ۱ )

ایک روایت میں آیا ہے کہ امام رضاںنے ( اس سوال کے جو اب میں ) فرمایا : ہا ں کیو ں نہیں انڈے سے بھی چھوٹی چیزمیں اس دنیا کو رکھ سکتا ہے خدا اس بات پر قادر ہے کہ دنیا کو تمہاری آنکھ کے اندر رکھ دے جو انڈے سے بھی چھوٹی ہے (در حقیقت یہ جو اب مولا کا نقضی جو اب تھا کیو نکہ سوال کرنے والا ایسے مسائل کے تحلیل کی طاقت نہیں رکھتا تھا)۔( ۲ )

خدا حی وقیوم ہے

خدا حیات جاوداں کا مالک ہے وہ ثابت و قائم ہے وہ اپنی ذات پر قائم ہے دوسری موجودات اس کی وجہ سے قائم ہیں حیات خدا اور حیات موجو دات میں فرق ہے کیو نکہ حیات ،خد اکی عین ذات ہے نہ عارضی ہے اور نہ ہی وقتی ۔

حیات خدا یعنی اس کا علم او راس کی قدرت ،خدا کی حیات ذاتی ،ازلی ،ابدی، نہ بدلنے والی اور ہر طرح کی محدودیت سے خالی ہے وہ قیوم ہے یعنی موجودات کے مختلف امو ر اس کے ہاتھ میں ہیں مخلوقات کی رزق ،عمر ،حیات اور موت اس کے حسن تدبیر کی وجہ سے ہے ۔

____________________

(۱) توحید صدوق باب ۹ ، حدیث ۹

(۲)پیام قرآن ج ۴، ص ۱۸۳

۶۹

اسی لئے یا حی یا قیوم جا مع اذکا رمیں سے ایک ہے اس لئے کہ (حی) اس کے بہترین صفات ذات یعنی علم وقدرت میں سے ہے اور (قیوم ) اس کے صفات فعل میں سے ہے اس وجہ سے امیر المومنین سے نے ارشاد فرمایا :فلسنا نعلمُ کُنه عظمتک ِالَّا انَّا نعلم اِنَّک حیّ قیُّوم لا تاخذ ک سِنةُ ولا نوم ( ۱ )

''ہم کبھی تیری حقیقت ذات کو درک نہیں کر سکتے ہم بس اتنا جا نتے ہیں کہ حی و قیوم ہے اور کبھی بھی تجھے نینداور جھپکی نہیں آتی (اپنے بندوں کے حال سے بے خبر نہیں ہے )''

امیر المو منین سے روایت ہے آپ فرماتے ہیں کہ جنگ بدر کے دن میں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس گیا تو دیکھا کہ آپ سجدے میں سر رکھ کر ''یا حی یا قیوم '' کا ورد کر رہے ہیں کئی دفعہ گیا اور واپس آگیا آپ مستقل اسی ذکر کا ورد فرمارہے تھے یہا ں تک جنگ بدر فتح ہو گئی ۔( ۲ )

جو کچھ اب تک ذکر کیا گیا ہے وہ صفات خد ا کے اصول تھے اور دوسری صفات بھی ہیں کہ جن کے صرف ترجمہ پر اکتفا کیا جائے گا ۔

قدیم و ابدی : یعنی ہمیشہ سے تھا اور ہمیشہ رہے گا اس کے لئے آغاز و انتہا نہیں ہے( هُوَ الأَوّلُ و الآخِرُ والظَّاهرُ والباطِنُ وَ هُوَ بِکُلِّ شَیئٍ عَلِیمُ ) ( ۳ ) ''وہ اول و آخر ہے وہ ظاہر و باطن ہے وہ ہرشی ٔکا جاننے والا ہے ''۔

____________________

(۱) نہج البلا غہ خ ،۱۶۰

(۲) تفسیر روح البیا ن آیہ الکرسی کے بیان میں۔

(۳) حدید آیة،۳

۷۰

مرید : یعنی وہ صاحب ارادہ ہے وہ اپنے کاموں میں مجبو ر نہیں ہے وہ جس کام کو بھی انجام دیتا ہے اس کا ہدف اور اس کی حکمت پیش نظر ہو تی ہے (وہ حکیم ہے )

مدرک : ساری چیزوں کو درک کرتا ہے .ساری چیزوں کو دیکھتا ہے او رہر آواز کو سنتا ہے۔ ( وہ سمیع و بصیر ہے )

متکلم : خدا ہو ائوں میں آواز پیدا کر سکتا ہے وہ اپنے رسولوں سے گفتگو کرتا ہے اس کی گفتگو زبا ن و لب و حلق کی محتا ج نہیں ۔

صادق : یعنی خدا جوکچھ کہتا ہے سچ کہتا ہے اور عین حقیقت ہے کیو نکہ جھوٹ جھل ونادانی کے باعث یا کسی کمزوری کے سبب ہوتا ہے او رخد اان سے پاک ومنزہ ہے۔

خلا صہ کلام یہ کہ خد اکمال مطلق ہے او رکسی قسم کا نقض و عیب اس کی ذات سے متصف نہیں اور ہم کو اس کی صفات کی شناخت میں بھی اپنے عجز کا اعتراف کرنا چاہئے ۔

۷۱

ذات خد امیں تفکر منع ہے

صفات کے بارے میں جو مختصر بیا ن تھا اس کے بعد یہ جاننا ضروری ہے کہ صفات خدا عین ذات ہیں لہٰذانہ اس کی ذات او ر نہ ہی اس کی صفات میں از حد تفکر کریں کیو نکہ از حد تفکر حیرانی او ر سر گردانی کاسبب ہے صرف اس کی مخلوقات میں غور خوض کریں ۔

قال الاما مُ البا قر علیه السلام : ''تکلموا فیِ خلق اللّه ولا تکلموا فیِ اللّٰه فأَنَّ الکلام فی اللّٰهِ لا یزاد صاحبة الا تحیّراً ''خلقت خداکے با رے میں گفتگو کرو .خدا کے با رے میں گفتگو نہ کرو اس لئے کہ خدا کے بارے میں گفتگو صاحب کلا م کے حق میں تحیّر کے سوا کچھ اضا فہ نہ کرے گا۔

علامہ مجلسی او ردیگر علما ء نے کہا ہے کہ ذات و صفات خدا میں تفکر و تکلم سے منع کرنے کا مطلب کیفیت ذات خدا وندعالم ہے ۔

قال الامام الباقر علیه السلام: اِیاکم و التفکّر فی اللّٰه لکن اِذَا أردتم أن تَنظروا اِلیٰ عظمته فانظروا اِلیٰ عظیم خلقه '' ذات خد امیں غور و خو ض سے پرہیز کرو جب جب بھی اس کی عظمتوں کودیکھنا چاہوتو اس کی عظیم خلقت (اس دنیا )کودیکھو ''۔( ۱ )

____________________

(۱) اصول کا فی باب نہی از کلام در کیفیت حدیث ،۱۔۷

۷۲

سوالا ت

۱۔ خدا کے قدرت کی نشانیا ں کیا ہیں ؟

۲۔ قدیم ، ابدی ،متکلم ، صادق کے کیا معنی ہیں ؟

۳۔ ذات خد امیں غو ر و خو ض کیوں منع ہے ؟

۷۳

دسواں سبق

صفات سلبیہ

ایک جملہ میں یو ں کہا جا سکتا ہے کہ صفات سلبیہ یعنی : خدا وند ہر طرح کے عیب و نقص ، عوارض نیز صفات ممکنات سے پاک ومنزہ ہے ۔ لیکن ان صفات میں بعض پر بحث کی گئی ہے جیسے وہ مرکب نہیں ہے ، جسم نہیں رکھتا ، قابل رئویت نہیں ، اس کے لئے زمان ومکا ن ،کو ئی ٹھکا نہ یا جہت معین نہیں کرسکتے .وہ ہر طرح کے نیاز و احتیاج سے دور ہے، اس کی ذات والا صفات محل حوادث نہیں اور عوارض وتغییر وتبدل کا شکا ر نہیں ہو سکتی ،صفات خدا ونداس کی عین ذات ہے اس کی ذات مقدس پر اضا فہ نہیں ہے ۔

سید الاولیاء امیرالمومنین ایک خطبہ کی ابتدا میں یو ں گویا ہیں''لا یشغله شأن ولا یغیره زمان ولا یحویه مکان ولایصفه لسان ''کو ئی چیز اس کو اپنے آپ میں مشغول نہیں کرسکتی، زما نہ کا تغییر وتبدل اس میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکتا کو ئی مکان اپنے میں سمو نہیں سکتا ،کو ئی زبا ن اس کی مدح نہیں کر سکتی۔( ۱ )

____________________

(۱)نہج البلا غہ خطبہ،۱۷۸

۷۴

دوسری حدیث میں امام جعفر صادق سے نقل ہے کہ''اِنَّ اللّهَ تبارک و تعالیٰ لا یُوصف بزمان ولا مکان ولا حرکة ولا انتقال ولا سکون بل هو خالق الزمان والمکان والحرکة والانتقال تعالی اللّه عما یقول الظالمون علوًا کبیراً ''خدا وندتعالی کی تعریف وتوصیف زمان و مکا ن ،حرکت و انتقال مکان و سکو ن کے ذریعہ سے نہیں کی جا سکتی ، وہ زمان ومکا ن نیزحرکت ونقل مکا ن، ،اور سکون کا خالق ہے ،خدا اس سے کہیں زیادہ بلند و بالا ہے جو ظالم او رستمگر افراد تصور کرتے ہیں۔( ۱ )

صفات سلبی کی وضاحت

خدا مرکب نہیں ہے یعنی اجزاء ترکیبی نہیں رکھتا کیو نکہ ہر مرکب اپنے اجزاء کامحتاج ہو تا ہے جبکہ خدا کسی شی ٔ کا محتا ج نہیں ہے ، وحدانیت کی بحث میں ہم نے یہ بات کہی تھی کہ خدا کمال مطلق ہے ، اور ا س کے لئے کو ئی حد ومقدار نہیں ہیں ،لہٰذا اس بات کی جا نب ہماری توجہ ضروری ہے کہ جو محدودیت یا احتیا ج کا سبب ہے وہ ممکنات سے مخصوص ہے خدا ان سے پاک و منزہ ہے تعالی اللّہ عنہ ذلک علواً کبیراً۔

خدا جسم نہیں رکھتا اور دکھائی نہیں دے گا

( لاَ تُدرِکُهُ الأبصَارُ و هُوَ یُدرِک الأبصارَ وَهو اللّطِیفُ الخَبِیر ) ( ۲ ) آنکھیں اس کو دیکھ نہیں سکتی وہ تمام آنکھوں کو دیکھتا ہے وہ لطیف وخبیر ہے

____________________

(۱) کتاب بحارالانوار ج۳ ،ص،۳۰۹

(۲) سورہ انعام آیة ۔۱۰۳

۷۵

سوال : خدا کو دیکھنا کیو ں ناممکن ہے ؟

جواب : اس لئے کہ دیکھنے کے جو لوازمات ہیں ،ان میں سے کوئی ایک بھی خداکے لئے ممکن نہیں یعنی خدا کو اگردیکھنا چاہیں تو ضروری ہے کہ وہ جسم رکھتا ہو جہت اورسمت رکھتا ہو ،اجزاء رکھتا ہو اس لئے کہ ہر جسم اجزاء و عوارض جیسے رنگ ،حجم اور ابعاد رکھتا ہے ،نیز تمام اجسام تغییر وتبدل رکھتے ہیں اور مکا ن کے محتاج ہیں اور یہ سب ممکنات کی خصوصیات ہیں ، اورنیاز واحتیاج کے شکا رہیں خدا ان سے پاک ومنزہ ہے۔

خلا صہ کلا م یہ کہ نہ خدا جسم ہے اورنہ ہی دیکھا جاسکتا ہے ( اہل سنت کے بعض فرقے اس بات کے قائل ہیں کہ خدا روز محشر مجسم ہوگا اور دکھا ئی دے گا اس کے ضمن میں ان کی جانب سے بہت ساری باتیں مضحکہ خیز ہیں اورکسی عقل و منطق سے سروکا ر نہیں رکھتیں ۔

امام علی رضا سے روایت ہے :أنّه لَیس مِنَّا مَن زعم أَنَّ اللّٰه عزَّوجلَّ جسم ونحن منه براء فی الدنیا والآخرة ( ۱ ) جو شخص اس بات کا قائل ہے کہ خدا جسم و جسمانیت رکھتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے او رہم دنیا وآخرت میں ایسے شخص سے دور و بیزار ہیں ۔

____________________

(۱)توحید صدوق باب ۶، حدیث، ۲۰

۷۶

وہ لا مکاں ہے او رہر جگہ ہے

مادہ سے خالی ایک شی ٔ کی شناخت ان انسانو ں کے لئے جو ہمیشہ مادی

قیدخانہ میں اسیر رہے اور اس کے عادی ہو گئے بہت ہی مشکل کام ہے شناخت خدا کا پہلا زینہ اس (خدا ) کو صفات مخلوقات سے منزہ جاننا ہے ،جب تک ہم خداکو لا مکا ن ولا زمان نہ جا نیں گے در حقیقت اس کی معرفت ہی حاصل نہیںکر سکتے ۔محل او رمکان رکھنا جسم وجسمانیت کالازمہ ہے او رہم پہلے ہی عرض کر چکے ہیں کہ وہ جسم نہیں رکھتا وہ ہر جگہ ہے ۔

وہ ہر جگہ ہے

( وَللَّهِ المَشرِقُ والمَغرِبُ فَأَینَمَا تُولُوا فَثَمَّ وَجهُ اللَّهِ اِنَّ اللّٰهَ واسِعُ عَلیمُ ) ( ۱ ) مشرق ومغرب اللہ ہی کے لئے ہے اور تم جس جانب بھی رخ کروگے خدا وہاں موجود ہے خدا بے نیاز اور صاحب علم و حکمت ہے ۔

( وَهُوَ مَعَکُم أَینَ مَا کُنتُم وَاللّهُ بِمَا تَعملُونَ بَصیرُ ) ( ۲ ) تم جس جگہ بھی ہو خدا تمہارے ہمراہ ہے اور جو کچھ تم انجام دیتے ہو اس پر ناظر ہے ۔

امام موسی کا ظم ںنے فرمایا :اِنَّ اللّٰهَ تبارک وتعالیٰ کان لم ینزل بلا زمان ولا مکان وهو الآن کما کان لا یخلو منه مکان ولا یشغل به مکان ولا یحلّ فی مکان ( ۳ ) خدا ہمیشہ سے زمان ومکان کے بغیر موجود تھا اور اب بھی ہے، کو ئی جگہ اس سے خالی نہیں اور درعین حال کسی جگہ میں قید نہیںاس نے کسی مکا ن میں حلول نہیںکیا۔

____________________

(۱)سورہ بقرہ ص ۱۱۵۔

(۲) سورہ حدید آیة ،۴

(۳) توحید صدوق باب ۲۸،حدیث ۱۲

۷۷

ایک شخص نے حضرت امام علی سے سوال کیا کہ مولا ہمارا خدازمین وآسمان کو پید اکرنے سے پہلے کہاں تھا ؟آپ نے فرمایا : کہاں کا لفظ مکا ن کے حوالے سے ہے جبکہ وہ اس وقت بھی تھا جب مکان نہیں تھا۔( ۱ )

____________________

(۱) سابق حوالہ حدیث،۴

۷۸

خدا کہا ں ہے ؟

کتاب ارشاد واحتجاج میں ذکر ہے کہ ایک یہودی مفّکر، خلفاء میں سے ایک کے پاس آیا او رسوال کیا کہ آپ جانشین رسول ہیں ؟ انھو ں نے جو اب دیا ہاں اس نے کہا خد اکہا ں ہے ؟

انہو ں نے جواب دیا آسمان میں عرش اعظم پر بر اجمان ہے اس نے کہا پھر تو زمین اس کے حیطۂ قدرت سے خالی ہے خلیفہ ناراض ہو گئے اور چیخ کر بولے فوراً یہاں سے دفع ہو جا ئو ورنہ قتل کرادوںگا ،یہودی حیران ہوکر اسلام کا مذاق اڑا تا ہو ا باہر نکل گیا۔

جب امیرالمومنین ںکو اس بات کی اطلاع ہو ئی توآپ نے اس کو طلب کیا اور فرمایا میں تمہارے سوال اور دئے گئے جواب دونوںسے باخبر ہوں،لیکن میں بتاتا ہو ں کہ اس نے مکا ن کو خلق کیا ہے لہٰذا اس کے لئے یہ ناممکن ہے کہ وہ خود صاحب مکان ہو اور کسی مکان میں مقید ہو۔

وہ اس سے کہیں بلند وبالا ہے کہ مکان اس کو اپنے آپ میں سمو لے ،کیاتم

۷۹

نے اپنی کتابوں میں نہیں پڑھا کہ ایک دن حضرت موسی بن عمران بیٹھے ہو ئے تھے۔

ایک فرشتہ مشرق سے آیا آپ نے پوچھا کہا ں سے آرہے ہو ؟اس نے جواب دیا خدا کے پاس تھا اس کے بعد ایک فرشتہ مغرب سے آیا آپ نے پوچھا کہا ں سے آرہے ہو ؟اس نے جواب دیا خدا کے پاس تھا اس کے بعد ایک فرشتہ آیاآپ نے سوال کیاکہاں سے آرہے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ ساتویں آسمان میں خدا کے پاس تھا اس کے بعد ایک فرشتہ اور آیا اس سے سوال کیا کہا ں تھے؟ اس نے کہازمین کے ساتویں طبق سے خدا کے پاس تھا ،اس کے بعد حضرت موسی نے کہاپاک ہے وہ ذات جس کے وجود سے کوئی جگہ خالی نہیں ہے اور اس کے نزدیک کوئی جگہ دوسری سے نزدیک نہیں ۔

یہودی نے کہا کہ : میں اس بات کی گواہی دیتا ہو ںکہ حق مبین یہی ہے اور آپ پوری کائنات میں سب سے زیادہ وصی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اہلیت رکھتے ہیں ۔( ۱ )

ہم دعا کرتے وقت ہاتھ آسمان کی جانب کیوں بلند کرتے ہیں ؟

ہشام بن حکم کہتے ہیں کہ ایک کا فر ،حضرت امام جعفر صادق کی خدمت میں حاضر ہو ا اور'' الرحمن علی العرش استوی '' کی تفسیر جاننی چاہی امام نے دوران تفسیر وضاحت فرماتے ہو ئے ارشاد فرمایا : خدا کسی مخلوق ومکان کا محتاج نہیں بلکہ تمام مخلوقات اس کی محتاج ہیں ، اس نے عرض کی تو پھر دعا کرتے وقت

____________________

(۱) پیام قرآن نقل جلد۴ ،ص ۲۷۴

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

فرماتے ہیں اس لحاظ سے آپ (ع) پر جو اللہ نے ذمہ داری ڈال رکھی ہے اسے انجام دیتے ہیں اور لوگوں کو فیض پہنچاتے ہیں اور لوگ بھی اسی طرح جس طرح سورج میں آجانے کے باوجود اس سے فیض اٹھاتے ہیں آپ (ع) کے وجود گرامی سے با وجودیکہ آپ غیبت میں ہیں فائدہ اٹھاتے ہیں_

غیبت اور امام زمانہ (ع) کا ظہور

امام زمانہ (ع) کی غیبت اس وقت تک باقی رہے گی جب تک دنیا کے حالات حق کی حکومت قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہوں اور عالمی اسلامی حکومت کی تاسیس کے لئے مقدمات فراہم نہ ہوجائیں جب اہل دنیا کثرت مصائب اور ظلم و ستم سے تھک جائیں گے اور امام زمانہ (ع) کا ظہور خداوند عالم سے تہہ دل سے چاہیں گے اور آپ (ع) کے ظہور کے مقدمات اور اسباب فراہم کردیں گے اس وقت امام زمانہ (ع) اللہ کے حکم سے ظاہر ہوں گے اور آپ (ع) اس قوت اور طاقت کے سبب سے جو اللہ نے آپ کو دے رکھی ہے ظلم کا خاتمہ کردیں گے اور امن و امان واقعی کو توحید کے نظریہ کی اساس پر دنیا میں رائج کریں گے ہم شیعہ ایسے پر عظمت دن کے انتظار میں ہیں اور اس کی یاد میں جو در حقیقت ایک امام اور رہبر کامل

۲۰۱

کی یاد ہے اپنے رشد اور تکامل کے ساتھ تمام عالم کے لئے کوشش کرتے ہیں اور حق پذیر دل سے امام مہدی (ع) کے سعادت بخش دیدار کے متمنّی ہیں اور ایک بہت بڑے الہی ہدف میں کوشاں ہیں اپنی اور عام انسانوں کی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں اور آپ کے ظہور اور فتح کے مقدمات فراہم کر ر ہے ہیں_

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ بارہویں امام حضرت مہدی (ع) کس مہینے متولد ہوئے؟

۲)___ پیغمبر اسلام (ص) نے بارہویں امام (ع) کے متعلق کیا فرمایا ہے؟

۳)___ ہمارے دوسرے ائمہ نے امام مہدی (ع) کے متعلق کیا فرمایا ہے؟

۴)___ امام زمانہ (ع) کس کے حکم سے غائب ہوئے ہیں؟

۵)___ اب لوگ امام زمانہ (ع) کے وجود سے کس طرح مستفید ہو رہے ہیں؟

۶)___ امام زمانہ کی غیبت کب تک رہے گی؟

۷)___ جب امام زمانہ (ع) اللہ کے حکم سے ظاہر ہوں گے تو کیا کام انجام دیں گے؟

۸)___ ہم شیعہ کس دن کے انتظار میں ہیں امام زمانہ (ع) کے ظہور کے مقدمات کیسے فراہم کرسکتے ہیں؟

۲۰۲

چودہواں سبق

شیعہ کی پہچان

امام محمد باقر علیہ السلام نے اپنے اصحاب میں سے ایک جابر نامی صحابی سے یہ فرمایا اے جابر کیا صرف اتنا ہی کافی ہے کہ کوئی کہہ دے کہ میں شیعہ ہوں اور اہل بیت (ع) پیغمبر (ص) اور ائمہ (ع) کو دوست رکھتا ہوں صرف یہ دعوی کافی نہیں ہے خدا کی قسم شیعہ وہ ہے جو پرہیزگار ہو اور اللہ کے فرمان کی مکمل اطاعت کرتا ہو اس کے خلاف کوئی دوسرا کام نہیں کرتا اگر چہ کہتا رہے کہ میں علی علیہ السلام کو دوست رکھتا ہوں اور اپنے آپ کو شیعہ سمجھے اے جابر ہمارے شیعہ ان نشانیوں سے پہچانے جاتے ہیں سچے امین با وفا ہمیشہ اللہ کی یاد میں ہوں نماز پڑھیں روزہ رکھیں قرآن پڑھیں ماں باپ سے نیکی کریں ہمسایوں کی مدد کریں یتیموں کی خبر گری کریں اور ان کی دلجوئی کریں لوگوں کے بارے میں سوائے اچھائی

۲۰۳

کے اور کچھ نہ کہیں لوگوں کے مورد اعتماد اور امین ہوں_

جابر نے جو امام (ع) کے کلام کو بڑے غور سے سن رہے تھے تعجب کیا اور کہا: اے فرزند پیغمبر خدا (ص) مسلمانوں میں اس قسم کی صفات کے بہت تھوڑے لوگ ہم دیکھتے ہیں امام (ع) محمد باقر علیہ السلام نے اپنی گفتگو جاری رکھی اور فرمایا شاید خیال کرو کہ شیعہ ہونے کے لئے صرف ہماری دوستی کا ادّعا ہی کافی ہے نہیں اس طرح نہیں ہے جو یہ کہتا ہے کہ میں علی علیہ السلام کو دوست رکھتا ہوں لیکن عمل میں ان کی پیروی نہیں کرتا وہ علی (ع) کا شیعہ نہیں ہے بلکہ اگر کوئی کہے کہ میں پیغمبر (ص) کو دوست رکھتا ہوں اور آپ (ص) کی پیروی نہ کرے تو اس کا یہ ادّعا اسے کوئی فائدہ نہ دے گا حالانکہ پیغمبر (ص) علی (ع) سے بہتر ہیں اے جابر ہمارے دوست اور ہمارے شیعہ اللہ کے فرمان کے مطیع ہوتے ہیں جو شخص اللہ کے فرمان پر عمل نہیں کرتا اس نے ہم سے دشمنی کی ہے تمہیں پرہیزگار ہونا چاہیئے اور آخرت کی بہترین نعمتوں کے حاصل کرنے اورآخرت کے ثواب کو پانے کے لئے اچھے اور نیک کام انجام دینے چاہیے سب سے بہتر اوربا عزّت انسان اللہ کے نزدیک وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہو_

غور کیجئے اور جواب دیجئے ۱)___ شیعہ کو کیسا ہونا چاہیئے وہ کن علامتوں اور نشانیوں سے پہچانا جاتا ہے؟

۲)___ کیا صرف ادّعا کرنا کہ علی علیہ السلام کو دوست

۲۰۴

رکھتا ہوں شیعہ ہونے کے کئے کافی ہے؟

۳)___ اللہ کے نزدیک سب سے بہتر اور با عزت انسان کون سا ہے؟

۲۰۵

پندرہواں سبق

اسلام میں رہبری اور ولایت

اسلام کے ابدی اصولوں میں رہبری اور ولایت داخل ہے امت اسلامی کا رہبر اور ولی اور حاکم ہونا ایک الہی منصب ہے خداوند عالم لائق اور شائستہ انسانوں کو اس مقام اور منصب کے لئے معيّن کر کے لوگوں کو بتلایا اور اعلان کرتا ہے پیغمبر (ص) کے زمانے میں امت اسلامی کا رہبر اور ولی خود پیغمبر (ص) کی ذات گرامی تھی اور آپ (ص) ہمیشہ اس منصب کی ذمہ داریوں کو انجام دیتے تھے دین کے قوانین اور دستور کو خداوند عالم سے دریافت کرتے تھے اور لوگوں کو بتلایا کرتے تھے آپ (ص) کو اللہ کی طرف سے حکم تھا کہ سلام کے سیاسی اور اجتماعی قوانین او راحکام مسلمانوں میں نافذ اور جاری کریں اور اللہ کی رہبری سے امت کو کمال تک پہنچائیں امور سیاسی اور اجتماعی کی اسلامی معاشرے میں بجا

۲۰۶

آواری پیغمبر اسلام (ص) کے ہاتھ میں تھی دفاع اور جہاد کا حکم خود آپ (ص) دیا کرتے تھے اور فوج کے افسر اور امیر آپ (ص) خود مقرر کیا کرتے تھے اور اس میں خداوند عالم نے آپ(ص) کو کامل اختیار دے رکھا تھا آپ (ص) کے فیصلے کو لوگوں کے فیصلے پر تقدم حاصل تھا کیوں کہ آپ (ص) لوگوں کے فیصلے پر تقدم سے پوری طرح آگاہ تھے اور آپ (ص) لوگوں کی سعادت اور آزادی کی طرف رہبری کرتے تھے رہبری اور ولایت سے یہی مراد ہے اور اس کا یہی معنی ہے خداوند عالم نے یہ مقام اپنے پیغمبر(ص) کے سپرد کیا ہے جیسے خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ پیغمبر (ص) کو حق پہنچتا ہے کہ تمہارے کاموں کے بارے میں مصمم فیصلہ کریں اس کا ارادہ اور تصمیم تہارے اپنے ارادے اور تصمیم پر مقدم ہے اور تمہیں لازما پیغمبر کی اطاعت کرنا ہوگی رہبری اور ولایت صرف پیغمبر (ص) کے زمانہ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ ضروری ہے کہ لوگ ہر زمانے میں اللہ کی طرف سے کوئی رہبر اور ولی رکھتے ہوں اسی لئے پیغمبر اکرم (ص) نے حضرت علی علیہ السلام کے حق میں لوگوں کو بتلایا کہ ان کے بعد وہ تمہارے ولی اور رہبر ہوں گے اور غدیر کے عظیم اجتماع میں مسلمانوں کو فرمایا کہ جس نے میری ولایت اور رہبری کو قبول کیا ہے اسے چاہیئے کہ حضرت علی علیہ السلام کی رہبری اور ولایت کو قبول کرے اس ترتیب سے حضرت علی علیہ السلام خدا کے حکم اور پیغمبر اسلام (ص) کے اعلان سے لوگوں کے رہبر اور امام اور خلیفہ ہوئے حضرت علی علیہ السلام نے بھی امت کو رہبر بتائے بغیر نہیں چھوڑا بلکہ خدا کے حکم اور پیغمبر اسلام (ص) کے دستور

۲۰۷

کے مطابق امام حسن علیہ السلام کو رہبری کے لئے منتخب کرگئے تھے اور لوگوں میں بھی اعلان کردیا تھا اسی ترتیب سے ہر ایک امام نے اپنے بعد آنے والے امام کی رہبری کو بیان فرمایا اور اس سے لوگوں کو باخبر کیا یہاں تک کہ نوبت بارہویں امام (ع) تک آپہنچی آپ (ع) خدا کے حکم سے غائب ہوگئے بارہویں امام (ع) کی غیبت کے زمانے میں امت اسلامی کی رہبری اور راہنمائی، فقیہ عادل، کے کندھے پر ڈالی گئی ہے_

رہبر فقیہ اسلام شناس پرہیزگار ہونا چاہیئے لوگوں کے سیاسی اور اجتماعی امور اور دوسری ضروریات سے آگاہ اور واقف ہو:

مسلمانوں کو ایسے آدمی کا علم ہوجایا کرتا ہے اور اسے رہبرمان لیتے ہیں اور اس کی اطاعت کرتے ہیں اس قسم کے رہبر کے وجود سے مسلمان ظالوں کے ظلم و ستم سے رہائی پالیتے ہیں جیسے کہ آج کل زمانے میں ایران کے شیعوں نے ایک ایسے رہبر کو مان کر موقع دیا ہے کہ وہ احکام اسلامی کو رائج کرے اور ایران کے مسلمانوں کو بلکہ تمام دنیا کے مسلمانوں کو طاغوتیوں کے ظلم سے نجات دلوائے_

سوالات

۱)___ امت اسلامی کی رہبری اور ولایت پیغمبر اسلام (ص) کے زمانے میں کس کے کندھے پر تھی؟

۲)___ کون سے کام پیغمبر (ص) خود انجام دیا کرتے تھے؟

۲۰۸

۳)___ خداوند عالم نے پیغمبر کی ولایت کے بارے میں قرآن میں کیا فرمایا ہے؟

۴)___ پیغمبر اسلام (ص) نے اپنے بعد کس شخص کو امت اسلامی کی رہبری کے لئے معيّن کیا تھا؟

۵)___ جب آپ (ص) اس کا اعلان کر رہے تھے تو کیا فرمایا تھا؟

۶)___ بارہویں امام (ع) کے غیبت کے زمانے میں امت اسلامی کی رہبری اور ولایت کس کے ذمّہ ہوتی ہے؟

۷)___ رہبر اور ولی مسلمین کو کن صفات کا حامل ہوچاہیئے؟

۸)___ مسلمان ظلم و ستم سے کس طرح رہائی پاسکتے ہیں؟

۹)___ امت اسلامی کی تمام افواج کا حاکم اور فرمانبردار کون ہوتا ہے؟

۲۰۹

پانچواں حصّہ

فروغ دین

۲۱۰

پہلا سبق

باپ کا خط اور مبارک بادی بیٹا محسن اور بیٹی فاطمہ:

میں خوش ہوں کہ تم نے بچپن کا زمانہ ختم کرلیا ہے اور جوانی کے زمانے میں داخل ہوگئے ہو جب تم چھوٹے تھے تو میں تمہاری نگہداشت کرتا تھا اور تمہارے کاموں اور کردار کی زیادہ سرپرستی کرتاتھا نماز کے وقت تمہیں نماز یاد دلاتا اور درس کے وقت کام اور محنت کرنے کی تلقین کرتا تھا لیکن اب تم خود ذمہّ دار ہو بیٹا اب تم بڑے ہوگئے ہو اور تمہارے پندرہ سال پورے ہوچکے ہیں بیٹی تمہارے بھی نوسال مکمل ہوچکے ہیں اور اب تم کاملاً رشیدہ ہوچکی ہو اب جب تم اس سن اور رشد کو پہنچ چکے ہو تو خداوند عالم نے تمہیں بالغ قرار دیا ہے اور تمہاری طرف خاص توجّہ فرماتا ہے اور تمہیں ایک مکلف اور ذمّہ دار انسان

۲۱۱

سمجھتا ہے اور تمہارے لئے خاص فرض اور ذمہ داری معيّن کی ہے اب تمہاری زندگی بچپن سے جوانی اور قوت کی طرف پہنچ چکی ہے قدرت اور طاقت ہمیشہ ذمہ داری بھی ہمراہ رکھتی ہے احکام دین اور قوانین شریعت تمہاری ذمہ داری اور فرض کو معيّن کرتے ہیں تم اپنے تمام کاموں کو ان اسلام قوانین کے مطابق بجالاؤ اور ان پر ٹھیک ٹھیک عمل کرو تم پر واجب ہے کہ نماز صحیح اور وقت پر پڑھو

خبردار ہو کہ ایک رکعت نماز بھی ترک نہ کرو ورنہ گناہ گار ہوجاؤ گے واجب ہے کہ اگر ماہ مبارک کے روزے تمہارے لئے مضر نہ ہوں تو انہیں رکھو اگر تم نے بغیر شرعی عذر کے روزہ نہ رکھا تو تم نے نافرمانی اور گناہ کیا ہے اب تم اس عمر میں یہ کرسکتے ہو کہ دینی عبادات اور اچھے کام بجالا کر ایک اچھے انسان کے مقام اور مرتبے تک پہنچ جاؤ اور اخداوند عالم سے اس اور محبت کرو چونکہ میں سفر میں ہوں تمہیں ابتدائے بلوغت میں مبارک بادی پیش نہیں کرسکا اسی لئے یہ خط لکھا ہے اورمبارک باد کے ساتھ تمہارے لئے دو عدد کتابیں بھی طور تحفہ روانہ کی ہیں _

تمہیں دوست رکھنے والا:

تمہارا والد

۲۱۲

دوسرا سبق

نجس چیزیں

جانتے ہیں ہم بیمار کیوں ہوتے ہیں؟

بہت سی بیماریاں جیسے سل یا بچّوں پر فالج کا گرنا و غیرہ یہ چھوٹے چھوٹے جراثیموں سے پیدا ہوتی ہیں اور ان جراثیم کا مرکز گندی جگہ ہوا کرتا ہے جہاں یہ پیدا ہوتے اور افزائشے نسل پاتے ہیں یہ جراثیم اپنی زندگی کی جگہ تو مفید کام انجام دیتے ہیں لیکن اگر یہ انسان کے بدن پر منتقل ہوجائیں تو اسے نقصان پہنچاتے ہیں اور بیمار کردیتے ہیں اب شاید آپ بتلاسکیں کہ ہم کیوں بیمار ہوجاتے ہیں اور ان بیماریوں کو روکنے کے لئے کون سے کام پہلے حفظ ما تقدم کے طور پر انجام دینے چاہیئیں سب سے بہترین راستہ بیماریوں کو روکنے کا صفائی اور پاکیزگی کا خیال رکھنا اگر ہم چاہیں کہ بیمار نہ ہوں تو ضروری ہے کہ کثافت اور گندگی کو اپنے سے دور

۲۱۳

رکھیں اور اپنی کے ماحول کو ہمیشہ پاکیزہ رکھیں کیا آپ نجس چیزوں اور ان چیزوں کو جن میں جراثیم ہوا کرتے ہیں پہچانتے ہیں؟ کیا جانتے ہیں کہ انسان اور حرام گوشت حیوان کا پائخانہ اور گوبر نقصان دہ جراثیم کے اجتماع کامرکز ہیں___؟ کیا جانتے ہیں حرام گوشت حیوان کا پیشاب کثیف اور زہرآلودہ ہوتا ہے___؟ کیا جانتے ہیں کہ جب خون بدن سے باہر نکلتا ہے تو اس پربہت زیادہ جراثیم حملہ آور ہوتے ہیں___؟ کیا جانتے ہیں کہ وہ جراثیم جو کتے اور سور کے جسم میں ہوتے ہیں وہ انسان کے جسم کی سلامتی اور جان کے لئے بہت نقصان دہ ہیں___؟ کیا جانتے ہیں کہ مردار اور حیوانات کی لاشیں جراثیم کی پرورش کا مرکز اور اس کے بڑھنے اور افزائشے نسل کی جگہ ہوا کرتی ہیں اسلام کے قوانی بنانے والا ان ساری چیزوں کو جانتا تھا اسی وجہ سے اور بعض دوسری وجوہات سے ان چیزوں اور دوسری بعض چیزوں کو نجس بتلایا ہے اور مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ اپنے آپ کو اور اپنے ماحول کو ان چیزوں سے پاک رکھین اور یہ قاعدہ کلی ہے کہ مسلمان مرد ہر اس چیز سے کہ جو جان اور جسم کے لئے بیماری کا موجب ہو عقل اور فہم کو آلودہ اور نجس کردیتی ہو اس سے دوری اختیار کرتا ہے وہ بعض چیزیں کہ جو اسلام میں نجس بتلائی گئی ہیں یہ ہیں_

۱)___ انسان کاپیشاب اور پائخانہ اور حرام گوشت حیوان کا پیشاب اور پائخانہ_

۲۱۴

۲)___ جس حیوان کا خون دہار مار کر نکلتا ہو اس کا خون اور مردار_

۳)___ کتّا اور سور_

۴)___ شراب اور جوکی شراب اور ہر وہ مائع جو نشہ آور ہو ایک مسلمان کا بدن اور لباس اور زندگی کا ماحول ان چیزوں سے پاک ہونا چاہیے_ کیا جانتے ہیں کہ ان چیزوں سے بدن اور لباس یا کوئی اور چیز نجس ہوجائے تو اسے پاک کرنے کا طریقہ کیا ہے___؟

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ ایک مسلمان کن چیزوں سے دوری اور اجتناب کرتا ہے؟

۲)___ بیماریوں سے حفظ ما تقدم کے طور پر کیا کرنا چاہیے

۳)___ جو چیزیں اسلام میں نجس ہیں انھیں بیان کیجئے

۲۱۵

تیسرا سبق

نماز کی اہمیت

نماز دین کا ستون ہے اور بہترین عبادت نماز ہے نماز پڑھنے والا اللہ کو بہت زیادہ دوست رکھتا ہے اورنماز میں مہربان خدا سے راز و نیاز او رگفتگو کرتا ہے اور اللہ کی بے حساب نعمتوں کا شکریہ ادا کرتا ہے_ خدا بھی نماز پڑھنے والوں کو اور بالخصوص بچّوں کو بہت زیادہ دوست رکھتا ہے اور ان کو بہت اچھی اور بہترین جزاء دیتا ہے ہر مسلمان نماز سے محبت کرتا ہے نماز پڑھنے اور خدا سے باتیں کرنے کو دوست رکھتا ہے اور اسے بڑا شمار کرتا ہے_ منتظر رہتا ہے کہ نماز کا وقت ہو اور خدا کے ساتھ نماز میںحاجات اور راز و نیاز کرے جب نماز کا وقت ہوجاتا ہے تو سارے کام چھوڑدیتا ہے اور اپنے آپ کو ہر قسم کی نجاست سے پاک کرتا ہے اور وضو کرتا ہے پاک

۲۱۶

لباس پہنتا ہے خوشبو لگاتا ہے اور اوّل وقت میں نماز میں مشغول ہو جاتا ہے اپنے آپ کوتمام فکروں سے آزاد کرتا ہے اور صرف اپنے خالق سے مانوس ہوجاتا ہے اور اس سے محبت کرتا ہے ادب سے اللہ کے سامنے کھڑا ہوجاتا ہے تکبیر کہتا ہے اور خدا کو بزرگی اور عظمت سے یاد کرتا ہے سورہ الحمد اور دوسری ایک سورہ کو صحیح پڑھتا ہے اور کامل رکوع اور سجود بجالاتا ہے نماز کے تمام اعمال کو آرام اور سکون سے بجالاتا ہے اور نماز کے ختم کرنے میں جلد بازی سے کام نہیں لیتا ایک دن ہمارے پیغمبر اسلام (ص) مسجد میں داخل ہوئے ایک آدمی کو دیکھا کہ بہت جلدی میں نماز پڑھ رہا ہے رکوع اور سجدے کو کامل بجا نہیں لاتا اور نماز کے اعمال کو آرام سے بجا نہیں لاتا آپ نے تعجب کیااور فرمایا کہ یہ آدمی نماز نہیں پڑھ رہا بلکہ ایک مرغ ہے جو اپنی چونچ زمین پر مار رہا ہے سیدھا ٹیرھا ہوتا ہے خدا کی قسم اگر اس قسم کی نماز کے ساتھ اس دنیا سے جائے تو مسلمان بن کر نہیں جائے گا اور آخرت میں عذاب میں مبتلا ہوگا:

بہتر ہے کہ نماز پڑھنے کے لئے مسجد میں جائیں اور اپنی نماز جماعت کے ساتھ بجالائیں_

نماز کے چند مسئلے

۱)___ مرد پر واجب ہے کہ مغرب اور عشاء اور صبح کی پہلی

۲۱۷

دو رکعت میں الحمد اور سورہ کو بلند آواز سے پڑھے_

۲)___ نماز پڑھنے والے کا لباس اور بدن پاک ہونا ضروری ہے_

۳)___ ایسی جگہ نماز پڑھنا کہ جہاں اس کا مالک راضی نہ ہویا ایسے لباس میں نماز پڑھنا کہ جس کا مالک راضی نہ ہو حرام اور باطل ہے_

۴)___ سفر میں چار رکعت نماز دو رکعت ہوجاتی ہے یعنی صبح کی طرح دو رکعت نماز پڑھی جائے کیسا سفر ہو اور کتنا سفر ہو کتنے دن کا سفر ہو ان کا جواب توضیح المسائل میں دیکھئے_

۲۱۸

چوتھا سبق

نماز آیات

جب سورج یا چاند گرہن لگے تو ایک مسلمان کو اس سے قیامت کے دن کی یاد آجاتی ہے اس قوت کی یاد میں کہ جس وقت تمام جہان زیر و زبر ہوجائے گا اور سورج اور چاند کا چہرہ تاریک ہوجائے گا اور مردے جزاء اور سزا کے لئے زندہ محشور ہوں گے سورج یا چاند گرہن یا زلزلہ کے آنے سے ایک زندہ دل مسلمان قدرت خدا کی نشانیوں میں سے ایک نشانی دیکھتا ہے اور گویا خلقت نظام کی علامت کا مشاہدہ کرتا ہے اور اس کا دل اللہ کی عظمت سے لرزجاتا ہے اور خدائے بے نیاز کی طرف احتیاج کا احساس کرتا ہے اور اللہ کے حکم کے تحت نماز آیات کے لئے کھڑا ہوجاتا ہے اور مہربان خدا سے راز و نیاز کرتا ہے اور اپنے پریشان اور بے آرام دل کو اطمینان دیتا ہے کیونکہ

۲۱۹

خدا کی یاد پریشان دل کو آرام دیتی ہے اور تاریک دلوں کو روشنی کا مدہ سناتی ہے لہذا اس سے اس کا دل آرام حاصل کرلیتا ہے اور مشکلات کے مقابلے او رحوادث کے حفظ ما تقدم کے لئے بہتر سوچتا ہے اور زندگی کے ٹھیک راستے کو پالیتا ہے_

نماز آیات کا پڑھنا جب سورج یا چاند گرہن لگے یا زلزلہ آئے ہر مسلمان پر واجب ہے نماز آیات کس طرح پڑھیں نماز آیات صبح کی نماز کی طرح دو رکعت ہوتی ہے صرف فرق یہ ہے کہ ہر ایک رکعت میں پانچ رکوع ہوتے ہیں اور ہر ایک رکوع کے لئے رکوع سے پہلے سورة الحمد اور کوئی ایک سورہ پڑھنا ہوتا ہے اور پانچویں رکوع کے بعد کھڑے ہوکر سجدے میں چلاجائے اور اس کے بعد دوسری رکعت پہلی رکعت کی طرح بجالائے اور دو سجدوں کے بعد تشہد اور سلام پڑھے اور نماز کو ختم کرے_

نماز آیات کو دوسرے طریقے سے بھی پڑھا جاسکتا ہے اس کی ترکیب اور باقی مسائل کو توضیح المسائل میںدیکھئے

سوالات

۱)___ سورج گرہن یا چاند گرہن کے وقت انسان کو کونسی چیز یاد آتی ہے؟

۲)___ نماز آیات کس طرح پڑھی جائے؟

۳)___ نماز آیات کا پڑھنا کیا فائدہ دیتا ہے؟

۴)___ کس وقت نماز آیات واجب ہوتی ہے؟

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285