‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) جلد ۲

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) 13%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 285

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 285 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 120413 / ڈاؤنلوڈ: 4189
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

پانچواں سبق

قرآن کی دو سورتیں

قرآن کی چند حصّوں میںتقسم کیا گیا ہے اور ہر حصّہ کو سورہ کہا جاتا ہے اور وہ بسم اللہ الرحمن الرحیم سے شروع ہوتی ہے اور پھر ہر سورہ کو چند حصّوں میں تقسیم کردیا گیا ہے کہ جس کے ہر حصّے کو آیت کہاجاتا ہے سورہ الحمد اور سورہ توحید کا ترجمہ یاد کیجئے اور نماز میں اس کے ترجمے کی طرف توجہ کیجئے بہتر یہی ہے کہ قرآن مجید کی کوئی چھوٹا سورہ یاد کیجئے کہ جسے سورہ الحمد کے بعد نماز میں پڑھا کیجئے

_بسم الله الرحمن الرحیم

شروع کرتا ہوں خدا کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

الحمد لله رب العالمین

الرّحمن الرّحیم

تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے جو بہت مہربان اور رحم والا ہے

۲۲۱

مالک یوم الدّین ايّاک نعبد و ايّاک نستعین

روز جزا کا مالک ہے ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں

اهدنا الصّراط المستقیم صراط الّذین انعمت علیهم

تو ہمیں سیدھے راستے پر قائم کرھ ان لوگوں کے راستہ پر کہ جن پر تو نے اپنی نعمتیں نازل کی

غیر المغضوب علیهم و لا الضّالین

ہیں نہ کہ ان لوگوں کے راستے پر کہ جن پر تیرا عذاب نازل ہوا اور نہ گمراہ لوگوں کے راستہ کی

بسم الله الرحمن الرحیم

شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

قل هو الله احد الله الصّمد لم یلد و

کہہ دیجئے کہ اللہ ایک ہے اللہ (ہر شی سے) بے نیاز ہے نہ اس نے کسی کو جنا

لم یولد و لم یکن لّه کفوا احد

اور نہ ہی اسے کسی نے جنا اور کوئی اس کا ہمسر نہیں

۲۲۲

چھٹا سبق

روزہ ایک بہت بڑی عبادت ہے

روزہ رکھنا اسلام کی عبادتوں میں سے ایک بہت بڑی عبادت ہے خدا روزہ رکھنے والوں کو دوست رکھتا ہے اور انہیں بہترین جزا اور انعام دیا جائے گا ہر مسلمان کو چاہیئے کہ وہ روزہ رکھے یعنی صبح صادق سے لے کر مغرب تک کھانے پینے اور دوسری چیزوں سے کہ جس سے روزہ باطل ہوجاتا ہے اجتناب کرے جب ہم روزہ رکھنا چاہیں تو پہلے نیت کریں یعنی ارادہ کریں کہ ہم اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لئے روزہ رکھتے ہیں خداوند عالم نے روزہ واجب کیا ہے تا کہ مسلمان خدا کی یاد میں ہوں اور خدا کو بہتر پہنچانیں اور اپنی خواہشوں پر غالب آئیں آخرت کو زیادہ یاد کریں اور اچھے کاموں کے بجالانے کے لئے آمادہ ہوں تا کہ اپنے اچھے کاموں کو آخرت کے لئے ذخیرہ کریں بھوک اور پیاس کا مزہ

۲۲۳

لیں اور غریبوں اور بھوکوں کی فکر کریں اور ان کی مدد کریں اور صحت اور سلامتی سے زیادہ بہرہ ور ہوں

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ جو صرف کھانا اور پینا چھوڑدے تو وہ روزہ دار نہیں ہوجاتا یعنی روزہ کے لئے صرف اتنا کافی نہیں ہے بلکہ تم روزہ دار تب ہوگئے جب کہ تمہازے کان اور زبان بھی روزہ دار ہوں یعنی حرام کام انجام نہ دیں تمہارے ہاتھ پاؤں اور بدن کے تمام اعضاء بھی روزہ دار ہوں یعنی برے کام انجام نہ دیں تا کہ تمہارا روزہ قبول ہو_ تم تب روزہ دار ہوگے جب کہ دوسرے دنوں سے بہتر اور خوش خلق ہو زبان کو بیکار اور فضول باتوں سے روکو جھوٹ نہ بولو کسی کا مذاق نہ اڑاؤ اور آپس میں دشمنی او رجھگڑا نہ کرو، حسد نہ کرو، کسی کی عیب جوئی اور بدگوئی نہ کرو، اپنے نوکروں اور خادموں پر ہمیشہ کی نسبت زیادہ مہربانی کرو، اور ان سے تھوڑا کام لوجو لڑکے اور لڑکیاں بلوغ اور رشد کی عمر کی پہنچ گئے ہوں اور ان ک لئے روزہ رکھنا شرعاً کسی دوسری وجہ سے ممنوع نہ ہو تو ان پر واجب ہے کہ وہ ماہ رمضان المبارک کا روزہ رکھیں چھوٹے بچّے بھی سحری کے کھانے میں اپنے گھر والوں کے ساتھ شرکت کریں سحری کھاکیں اور ظہر تک یا اس وقت تک کہ جہاں تک ان سے ہوسکتا ہے کوئی چیز نہ کھائیں پئیں تو اس طرح وہ بھی روزہ دار وں کے ساتھ ثواب اور انعام الہی میں شریک ہوجائیں گے جو شخص شرعی عذر کے علاوہ روزہ نہ رکھے گناہ گار ہے اور اس کے بعد اس کی

۲۲۴

قضا بھی بجالائے اور ہر دن کے گناہ کے تدارک کے لئے توبہ کرے اور ہر دن کے روزے کے لئے جو نہیں رکھا ساٹھ روزے رکھے یا ساتھ فقیروں کو کھانا کھلائے

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ روزہ رکھنے کی غرض کیا ہے جب روزہ رکھنا چاہیں تو کیا نیت کریں؟

۲)___ جب ہم روزہ دار ہوتے ہیں تو کن کاموں کے لئے آمادگی ظاہر کرتے ہیں اور کیوں؟

۳)___ روزہ دار انسان کیسے بھوکوں اور پیاسوں کے بارے میں سوچتا ہے؟

۲۲۵

ساتواں سبق

اسلام میں دفاع اور جہاد

ہر مسلمان کے بہترین اور اہم ترین فرائض میں سے ایک جہاد ہے جو مومن جہاد کرتا ہے وہ اخروی درجات اور اللہ کی مغفرت اور خاص رحمت الہی سے نوازا جاتا ہے مجاہد مومن میدان جہاد میں جاکر اپنی جان اور مال کو اللہ کی جاودانی بہشت کی قیمت پر فروخت کرتا ہے اور یقینا یہ معاملہ فائدہ مند اور توفیق آمیز ہے اور اس کے لئے اللہ تعالی کی رضا ہر انعام اور جزاء سے زیادہ قیمتی ہے_

پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا جو لوگ اللہ کے راستے میں بندگان خدا کی آزادی کے لئے قیام اور جہاد کرتے ہیں قیامت کے دن بہشت کے اس دروازے سے داخل ہوں گے کہ جس کا نام ''باب مجاہدین ہے اور یہ دروازہ صرف مجاہد مومن کے لئے کھولا جائے گا اور وہ

۲۲۶

نہایت شان و شوکت سے ہتھیار کندھے پر اٹھائے ہوئے سب کی آنکھوں کے سامنے اور تمام اہل جنّت سے پہلے بہشت میں داخل ہوگا اور اللہ کے مقرّب فرشتے اس پر سلام کریں گے اور اسے خوش آمدید کہیں گے اور دوسرے لوگ اس کے مرتبہ و مقام پر رشک کریں گے اور جو بھی خدا کی راہ میں جہاد اور جنگ کو چھوڑ دے گا_

خداوند عالم اس کے جسم کو ذلت و خواری کا لباس پہنائے گا وہ اپنا دین چھوڑ بیٹھتا ہے او رآخرت میں دردناک عذاب میں ہوگا خدا امت اسلامی کو ہتھیاروں کے قبضے اور ان کی سواریوں کی با رعب آواز سے بے نیاز کرتا ہے اور انہیں عزّت عطا فرماتا ہے؟

جو مومن مجاہد جہاد کے لئے منظّم صفوف اور نبیان مرصوص بن کرجاتے ہیں انہیں چاہیئے کہ وہ جنگ اور جہاد کے میدان میں خداوند عالم کی حدود کا خیال کریں جو دشمن ان کے مقابل میں لڑائی کے لئے آیا ہے اس سے پہلے توبہ کا مطالبہ نہ مانیں اور اللہ کی حکومت اور ولایت قبول نہ کریں تو پھر ہر مومن امام معصوم (ع) کی اجازت سے یا اسلامی رہبر کہ جس کی رہبری از روئے اسلام صحیح اور درست ہو، کی اجازت سے ان سے جنگ کرے اور

۲۲۷

متکبر و طاغوت کو سرنگوں کرے اور اللہ کے بندوں کو اپنی پوری طاقت و قوت سے غیر خدا کی بندگی سے آزاد کرائے اور اس راستے میں مرنے یا مرجانے سے نہ دڑے جیسا کہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ شہادت کی موت بہترین موت ہے اور یہ خدا کی راہ میں ماراجاتا ہے ، خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کہ اگر میدان جنگ میں دشمن کے ہزاروار سے ماراجاؤں یہ مرنا میرے لئے زیادہ خوشگوار ہے اس سے کہ اپنے بستر پر مروں، وہ جہاد کہ ظلم اور ستم ک بند سے رہائی دیتا ہے امام علیہ السلام کے اذن اور اجازت کے ساتھ یا مسلمانوں کے حقیقی رہبر اور نائب امام کی اجازت کے ساتھ مربوط ہے اور یہ ان کا فرض ہے جو طاقت اور قدرت رکھتے ہوں لیکن اگر اسلامی سرزمین اور مسلمانوں کی عزّت اور شرف اورناموس پر کوئی حملہ کرے تو پھر تمام پر خواہ مرد ہو یا عورت واجب ہے کہ جو کچھ اپنے اختیار میں رکھتے ہیں لے کر قیام کریں اور اپنی سرزمین اور عزّت و ناموس اور عظمت اسلام سے پوری طاقت سے دفاع کریں اس مقدس فرض کے بجالانے میں مرد بھی قیام کریں اور عورتیں بھی قیام کریں لڑکے بھی دشمن کے سرپر آگ کے گولے برسائیں اور لڑکیاں بھی_ ہر ایک کو چاہیئےہ ہتھیا ر اٹھائیں اور حملہ آور کو اپنی مقدس سرزمین سے باہر نکال پھینکیں اور اگر لو ہے کہ ہتھیار موجود نہ ہوں تو پھر لکڑی اور پتھر بلکہ دانتوں اور پنجوں سے بھی حملہ آور دشمن پر ہجوم کریں اور اپنی جانیں قربان کردیں اور پوری قدرت کے ساتھ جنگ کریں اور شہادت کے مرتبہ کو

۲۲۸

حاصل کرلیں اور آنے والی نسلوں کے لئے عزّت اور شرف کو وارثت میں چھوڑ جائیں اس مقدس جہاد میں جو دفاع کہلاتا ہے امام (ع) کے اذن کا انتظار نہیں کرنا چاہیئے اوروقت کو ضائع نہ کریں کیونکہ یہ جہاد مقدس اتنا ضروری اور حتمی ہے کہ اس میں امام (ع) اور رہبر کی اجازت کی ضرورت نہیں ہوا کرتی مملکت اسلامی کی سرزمین کا دفاع کرنا اتنا ضروری ہے کہ اسلام نے اس کی ذمہ داری ہر فرد پر واجب قرار دے دی ہے_

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ مجاہد مومن میدان جنگ میں جاکر اپنی جان و مال کو کس کے مقابلہ میں فروخت کرتا ہے اور اس معاملے کا نتیجہ کیا ہوتا ہے؟

۲)___ مومن مجاہد کس طرح بہشت میں وارد ہوگا؟

۳)___ ان لوگوں کا انجام کیا ہوتا ہے جو خدا کی راہ میں جہاد کو ترک کردیتے ہیں؟

۴)___ اللہ امت اسلامی کو کس راستے سے عزّت اور شرف اور بے نیازی تک پہنچاتا ہے؟

۵)___ جو مومن مجاہد جنگ کے لئے وارد میدان ہوتے ہیں وہ دشمنوں کے ساتھ ابتداء میں کیا سلوک کرتے ہیں؟

۶)___ امیرالمومنین علیہ السلام نے شہادت کے بارے

۲۲۹

میں کیا فرمایا ہے؟

۷)___ جہاد کس کے حکم سے کیا جاتا ہے؟

۸)___ دفاع کا کیا مطلب ہے، اسلامی سرزمین اور اسلامی شرف و عزّت کے حفظ کیلئے مسلمانوں کا فریضہ کیا ہے؟

۲۳۰

آٹھواں سبق

امربالمعروف و نہی عن المنکر

گرمیوں ک موسم میں ایک دن ہوا بہت گرم تھی حضرت علی علیہ السلام تھکے مادے پسینہ بہاتے گھر تشریف لائے آپ (ع) ن رون کی آواز سنی آپ (ع) ٹھہر گئے اور ہر طرف نگاہ کی کسی کو نہ دیکھا چند قدم آگ بڑھے ایک جوان عورت کوچہ کی دوسری طرف سے ظاہر ہوئی بیچاری دوڑ رہی تھی اور رو رہی تھی اور آنسو بہا رہی تھی ہانپتے ہوء اس نے اپنے آپ کو حضرت امیرالمومنین علیہ السلام تک پہنچایا اپنے آنسو دونوں ہاتھوں سے صاف کیا چاہتی تھی کہ بات کرے لیکن نہ کرسکی اس کا چہرہ پھر آنسؤوں سے ڈوب گیا امیرالمومنین علیہ السلام نے اس سے رون کی وجہ پوچھی عورت نے ڈوبتی ہوئی آواز میں رو کر کہا کہ میرے شوہر نے مجھ پر ظلم کیا ہے اور مجھے گھر سے باہر نکال دیا ہے اور مجھے مارنا چاہتا ہے یا امیرالمومنین (ع)

۲۳۱

آپ (ع) میری فریاد کو پہنچیں کہ آپ (ع) کے سوا میرا کوئی مددگار نہیں ہے_

امیرالمومنین علیہ السلام بہت تھکے ہوئے تھے آپ (ع) نے فرمایا تھوڑا صبر کرو ہوا ٹھنڈی ہوجائے اس وقت میں تیرے ساتھ جاؤں گا اور تیرے شوہر سے بات کروں گا اب دن بہت زیادہ گرم ہے اور میں بھی تھکا ہوا ہوں بہتر یہی ہے کہ تھوڑا صبر کرو

عورت نے جو ابھی تک رو رہی تھی کہا یا امیرالمومنین (ع) ڈرتی ہوں گہ اگر میںگھر دیر سے گئی تو میرا شوہر اور غضبناک ہوگا اور پھر معاملہ زیادہ بگڑجائے گا_

حضرت امیرالمومنین (ع) نے چند لمحے سوچا اور فرمایا نہیں: قسم بخدا امربالمعروف اور نہی عن المنکر میں کوتاہی نہیں کروں گا مجھے چاہئے کہ اس مظلوم کی مدد کروں اس کے بعد آپ (ع) اس عورت کے ساتھ اس کے گھر کو روانہ ہوگئے اور اس عورت کے گھر کے قریب پہنچے عورت نے اپناگھر دکھلایا اور تھوڑی دور ٹھہرگئی کیوں کہ آگے جانے سے ڈرتی تھی امیرالمومنین علیہ السلام نزدیک گئی اور دروازہ کھٹکھٹایا اورسلام کیا ایک طاقتور اور غضبناک جوان نے دروازہ کھولا

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے اس کے اپنی بیوی سے اختلاف کی تحقیق کی اور پھر بہت نرمی اور اخلاق سے فرمایا اے جوان کیوں اپنی بیوی کو اذیت دیتے ہو اور کیوں اسے گھر سے باہر نکال دیا ہے؟ خدا سے ڈر اور اپنی بیوی کو آزار نہ پہنچا میں تم سے درخواست کرتا ہوں کہ اپنی بیوی کے ساتھ مہربان رہ اور اسے نہ مارا کر اور اگر اس نے تجھے تکلیف

۲۳۲

دی ہے تو معاف کردے عورت گلی کے اس طرف کھڑی حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی گفتگو سن رہی تھی اور امید رکھتی تھی کہ اس کا شوہر امیرالمومنین علیہ السلام کی نصیحت قبول کرلے گا اور اپنی بری عادت کو چھوڑ د گا لیکن وہ جوان جو امیرالمومنین علیہ السلام کو نہیں پہچانتا تھا کہن لگا کہ آپ بیوی میری گھریلو زندگی میں دخل دیتے ہیں میں اگر چاہوں تو اسے قتل کردوں آپ سے کوئی واسطہ اور ربط نہیں_ ابھی اس کو آگ میں ڈالوں گا دیکھتا ہوں کہ تو کیا کرلے گا_ جب وہ بلند آواز سے یہ کہہ رہا تھا تو امیرالمومنین علیہ السلام نے اپنا سر نیچے کر رکھا تھا اور آہستہ آہستہ لا الہ الا اللہ پڑھ رہے تھے وہ جوان چیختا اور کہتا رہا کہ اس کا آپ سے کوئی واسطہ نہیں ابھی اسے جلاکر رکھ دوں گا چاہتا تھا کہ اپنی بیوی پر حملہ کرے کہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے اس پر وہ راستہ بند کر دیا اس کا ہاتھ پکڑا اور دوبارہ اسے سمجھایا اور نصیحت کی لیکن وہ جوان اپنی ضد سے باز نہ آیا گستاخی کرتے ہوئے چاہتا تھا کہ اس عورت پر حملہ کرے اور شاید واقعی چاہتاتھا کہ اسے آگ میں جلا دے حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کو غصّہ آیا اور فوراً اپنی تلوار میان سے نکالی اور اس جوان کے سر پرتان دی تلوار کی چمک اس جوان کی آنکھوں پر پڑی تو اس کا بدن لرزنے لگا حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے غضب ناک نگاہ اس جوا پر ڈالی اور فرمایا کہ میں تم سے اخلاق سے کہہ رہا ہوں اورتمہیں نیک کام کی طرف بلا رہا ہوں اور برے کام کی سزا سے ڈرا رہا ہوں لیکن تم ہو کہ بلاوجہ شور مچا رہے ہو اور بے ادبی اور گستاخی

۲۳۳

کر رہے ہو میں تمہیں اس عورت پر ظلم کرنے دوں گا؟ اپنے ظلم و ستم سے توبہ کرو اور خدا سے ڈرو اور بے سہارا بیوی کو اذیت نہ دو ورنہ میں تجھے تیرے برے کام کی سزادوں گا اسی حالت میں حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے اصحاب میں سے چند صحابہ وہاں پہنچ گئے اور آپ کو سلام کیا اس بیچارے جوان کا رنگ اڑا ہوا تھا اور تلوار کے نیچے کانپ رہا تھا اس نے اس وقت آپ (ع) کو پہچانا اپنے کام سے پشیمان ہوا معافی مانگی اور توبہ کی_

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے اپنی تلوار میان میں رکھی اور اس عورت سے فرمایا اپنے گھر جا اور شوہر کے ساتھ زیادہ موافقت اوراحترام سے زندگی بسر کراے عورت تو بھی اپنے شوہر سے مہربان اور مخلص رہ اور اسے غضبناک نہ کر

امربالمعروف اورنہی عن المنکر اسلام کے اہم واجبات میں سے ایک اجتماعی فرض اور ذمّہ داری ہے اسلام مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ خود نیک کام کریں اوردوسروں کو بھی نیک کام کی طرف بلائیں اسلام حکم دیتا ہے کہ مسلمان گناہ اور برائی سے دور رہیں اور دوسروں کو بھی برائی سے دور رکھیں خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے کہ تم بہترین ملّت ہو کیوں کہ اچھائی کا حکم دیتے ہو اور برائیوں سے روکتے ہو اور اللہ پر واقعی ایمان رکھتے ہو

۲۳۴

سوالات

۱)___ امربالمعروف کا مطلب بتائے

۲)___ نہی عن المنکر کا مطلب بیان کیجئے

۳)___ اگر کسی بچے کو اذیت کرتے دیکھیں تو کیا کریں گے؟ آپ کا فرض کیا ہے

۴)___ اگر کوئی مظلوم آپ سے مدد مانگے تو اسے کس طرح جواب دیںگے؟

۵)___ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے اس جوا کو کیسے امربالمعروف کیا؟

۶)___ اس عورت کو کس طرح امربالمعروف کیا؟

۷)____ خداوند عالم نے قرآن میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے متعلق کیا فرمایا ہے؟

۸)___ آپ اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کو کیسے امربالمعروف اور نہی عن المنکر کریں گے اگر ہوسکے تو کوئی مثال دیجئے؟

۲۳۵

نواں سبق

زکاة عمومی ضرورتوں کو پوری کرنے کیلئے ہوتی ہے

دین اسلام نے اجتماعی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ایک سرمائے کا انتظام کیا ہے کہ جسے زکاة کہا جاتا ہے زکاة مالی واجبات میں سے ایک واجب ہے پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا ہے کہ اللہ نے فقراء کی ضروریات کے مطابق سرمایہ داروں کے مال میں ایک حق قرار دیے دیا ہے کہ اگر وہ ادا کریں تو اجتماعی ضروریات پوری ہوسکتی ہیں اگر کوئی لوگوں میں بھوکا یا ننگا دیکھا جائے تو یہ اس وجہ سے ہوگا کہ سرمایہ دار اپنے اموال کے واجب حقوق ادا نہیں کرتے جو سرمایہ دار اپنے مال کی زکاة نہ دے قیامت کے دن اس بازپرس ہوگی اور بہت دردناک عذاب میں مبتلا ہوگا_

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا جو سرمایہ دار اپنے

۲۳۶

مال کی زکاة نہ دے نہ وہ مومن ہے اور نہ مسلمان

زکاة کون حضرات دیں

۱)___ جو لوگ زراعت اور باغبانی کرنے سے فصل پیدا کرتے ہیں جیسے گندم، جو، خرما، کشمش، اوران کی پیدا اور ایک خاص نصاب تک بھی ہوجاتی ہو تو انہیں ایک مقدار زکاة کے عنوان سے دینی ہوگا_

۲)___ جو لوگ اپنے سرمایہ کہ حیوانات کی پرورش اورنگہداشت پر خرچ کرتے ہیں جیسے بھہیڑ، بکریاں، گائے، اونٹ، پالتے ہیں اور ان کی تعداد بھی ایک مخصوص حد تک ہوجائے تو انہیں بھی اس سے زکاة کے عنوان سے کچھ تعداد دینی ہوگی_

۳)___ جو لوگ سونے چاندی کی ایک خاص مقدار جمع رکھتے ہیں کہ جسے خرچ نہیں کرتے اگر ان کا جمع شدہ یہ مال سال بھر پڑا رہے تو اس میں بھی ایک معيّن مقدار زکاة کے عنوان سے دیتی ہوگی کتنی مقدار زکاة ادا کی جائے گندم اور جو کی کتنی زکاة ہوتی ہے اور کیسے جواب ہوتی ہے_ بھیہڑ بکریوں، گائے ، اونٹ و غیرہ کی زکاة میں کیا شرائط ہیں او رکتنی زکاة واجب ہے یہ تمام باتیں آئندہ کتابوں میں بیان کریں گے ( اور بہتر یہ ہے کہ آدمی اپنے مجتہد کی کتاب توضیح المسائل سے دیکھے اور عمل کرے)

۲۳۷

زکاة کو کہاں خرچ کریں

زکاة مسلمانوں کے اجتماعی کاموں پر خرچ کی جائے جیسے زکاة کے روپیہ سے ہسپتال بنایا جائے اور اس کے مصارف میں خرچ کی جائے اور غریب بیماروں کا علاج کیا جائے تا کہ وہ تندرست ہوجائیں اور غریبوں کی زندگی کے لوازمات مہيّا کئے جائیں، جہالت کودور کرنے کے لئے تعلیمی اداے بنائے جائیں اور عمدہ وسائل مہيّا کر کے لوگوں کو دین اور علم سے روشناس کیا جائے زکاة سے عمدہ باغ اور پارک بنائے جاسکتے ہیں کہ جہاں لوگ اور بچّے جاکر کھیلیں کو دیں اور عمدہ لائبریریاں علمی اور دینی کتابوں کے مطالعے کے لئے بنائی جائیں، زکاة سے شہروںاوردیہات میں پانی ٹنکیاں بنائی جاسکتی ہیں تا کہ ہر ایک گھر میں بہتر اور عمدہ پانی مہیا ہوسکے زکاة سے دینی اور علمی کتابیں مہيّا کرکے سستی قیمت پر لوگوں کو شہروں اور دیہات میںمہيّا کی جائیں زکاة سے بڑی بڑی مسجدیں بنائی جائیں تا کہ تمام لوگ مسجد میں جائیں اور نماز جماعت کے ساتھ پڑھیں اور قرآن اور دین ہاں سیکھیں زکاة سے غریب طبقے کے لڑکوں اور لڑکیوں کی شادی کرائی جاسکتی ہے اور انہیں مکان اور دیگر لوازمات زندگی خرید کردیئےاسکتے ہیں زکاة سے مسلمانوں کے تمام اجتماعی امور انجام دیئے جاسکتے ہیں اس وقت کوئی آدمی غریب، بھوکا مقروض

۲۳۸

و غیرہ باقی نہ رہے گا تمام صحیح و سالم طاقتور با ایمان دیندار اور آرام سے زندگی بسر کریں گے اور اللہ کی عبادت کریں گے اور اپنی آخرت کے لئے اعمال صالح بجالاسکیں گے تا کہ اس دنیا میں اللہ کی بہترین نعمتوں سے اور پروردگار کی بہت زیادہ محبت سے استفاہ کرسکیں (اچھا انجام تو صرف نیک لوگوں کے لئے ہے)

۲۳۹

دسواں سبق

خمس

دین کی تبلیغ اور اس کیلئے زمین ہموار کرنے کا سرمایہ

خداوند عالم نے ہر مسلمان پرواجب قرار دیا ہے کہ وہ دین کی تبلیغ میں کوشش کرے اور دوسرے انسانوں کو اللہ کے فرامین اور آخرت سے آگاہ کرے اور اپنی جان اور مال سے اس راستے میں مدد کرے یعنی خود دین کی تبلیغ میں کوشش کرے اور اپنی آمدنی کا خمس بھی دے_

خمس کیا ہے؟ اور کس طرح دیا جائے

جس مسلمان نے تجارت از راعت کانوں صنعت و غیرہ سے جو منفعت حاصل کی ہو یا نوکری یا مزدوری و غیرہ سے معاوضہ لیا ہو تو

۲۴۰

اسے پہلے تو اپنی زندگی کے لوازمات سال بھی کے لئے حاصل کرلینے کا حق ہے او راگر کوئی چیز اس سے زائد ہو یا بچ جائے تو اسے اس کا خمس دینا چاہیئے یعنی ۵/۱ حصہ ادا کرے_

خمس کسے دیا جائے

خمس حاکم شرع عادل مجتہد ، کو دینا چاہیئے اور حاکم شرع اس مال کو لوگوں کو خدا اور دین خدا سے آگاہ کرنے میں اورمملکت اسلامی کے دفاع میں خرچ کرے گا لوگوں کی مشکلات دینی اور ان کے جوابات دینے کے لئے اہل علم کی تربیت کرے گا اور علماء کو شہروں اوردیہاتوں اوردوسرے ممالک میں بھیجے گا تا کہ لوگوں کو حقائق اسلامی سے روشناس کرائیں: عادل مجتہد خمس کے مال سے مفید دینی کتابیں خریدے یا چھاپے گا اور مفت یا سستی قیمت پر لوگوں میں تقسیم کردے گا اخبار اور دینی اور علمی ماہنامہ شائع کرائے گا_

نوجوان اور بچّوں کی دینی تعلیم و تربیت پر خرچ کرے گا اور ان کے لئے مفت کلاسیں جاری کرے گا اور علماء کی بھی ان علوم کی تدرس کے لئے تربیت کرے گا یعنی دینی مدارس قائم کرے گا تا کہ اس سے علماء اوردانشمند پیدا کئے جائیں_ عادل مجتہد خمس سے نادا رسادات جو کام نہیں کرسکتے یا اپنے سال بھر کے مصارف کو پورا نہیں کرسکتے ان کو زندگی بسر کرنے کے لئے بھی دے گا عادل مجتہد خمس اور زکاة سے ملّت

۲۴۱

اسلامیہ کی تمام ضروریات پورا کرے گا اور اسلامی مملکت کا پورا انتظام کرے گا اور صحیح اسلامی طرز پر چلائے گا_

سوالات

۱)___ معاشرہ کی عام ضروریات کیا ہوتی ہیں اور انہیں کس سرمایہ سے پورا کیا جائے گا؟

۲)___ ہمارے پیغمبر(ص) نے فقراء کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کیا فرمایا ہے؟

۳)___ کون لوگ زکاة ادا کریں اور آپ کن حضرات کو پہچانتے ہیں جو زکاة دیتے ہیں اور زکاة کو کس جگہ اور کس طرح خرچ کرتے ہیں؟

۴)___ زکاة کو کن جگہوں پر خرچ کیا جائے اگر تمام سرمایہ دار اس فریضہ پر عمل شروع کردیں اور اپنے مال کے واجب حقوق ادا کریں تو پھر لوگ کس طرح کی زندگی بسر کریں گے؟

۵)___ خمس کیا ہے کس طرح دیا جائے اور کسے دیا جائے

۲۴۲

گیارہواں سبق

حج کی پر عظمت عبادت

میں نے اپنے ماں باپ کے ساتھ حج بجالانے کے لئے سعودی عرب کا سفر کیا کتنا بہترین اور پر کیف سفر تھا اے کاش آپ بھی اس سفر میں ہوتے اور حج کے اعمال اور مناسک کو نزدیک سے دیکھتے جب ہم میقات پہنچے تو اپنے خوبصورت اور مختلف رنگوں والے لباس کو اتار دیا اور سادہ و سفید لباس جو احرام کہلاتا ہے پہنا_

جب ہم نے احرام باندھ لیا تومیرے باپ نے کہا بیٹا اب تم محرم ہو کیا تمہیں علم ہے کہ احرام کی حالت میں اللہ کی یاد میں زیادہ رہنا چاہیے کیا جانتے ہو کہ احرام کی حالت میں جھوٹ نہ بولیں اور نہ ہی قسم کھائیں اور نہ ہی حیوانات کو آزار دیں اور نہ کسی سے جنگ و جدال اور لڑائی کریں اور جتنا ہوسکے اپنی خواہشات پر قابو رکھیں اور آئندہ بھی اسی طرح رہیں

۲۴۳

بیٹا_ خانہ خدا کا حج ایک بہت بڑی عبادت ہے اور تربیت کرنے کا ایک بہت بڑا مدرسہ ہے اس مدرسہ میں ہم سادگی اور مساوات اور عاجزی اور عزت نفس کی مشق کرتے ہیں ہم نے احرام کا سادہ لباس پہنا اور دوسرے حاجیوں کی طرح لبّیک کہتے ہوئے مكّہ کی طرف روانہ ہوگئے ہزاروں آدمی مختلف نسلوں کے سادہ اور پاک لباس پہنے ہوئے تھے تمام ایک سطح اور مساوات اور برابری کے لباس میں لبیک کہتے ہوئے مكّہ کی طرف روانہ تھے ہم مكّہ معظّمہ پہنچے اور بہت اشتیاق اور شوق سے طواق کے لئے مسجد الحرام میں گئے کتنا باعظمت اور خوش نما تھا خانہ کعبہ ایک عظیم اجتماع جو انسان کو قیامت کے دن یا دلاتا تھا اور ذات الہی کی عظمت سامنے آتی تھی خانہ کعبہ کے اردگر چگر لگا کر طواف کر رہا تھا اس کے بعد ہم نے حج کے دوسرے اعمال اورمناسک اہل علم کی رہبری میں انجام دیئے حج کی پر عظمت عبادت ہمارے لئے دوسرے فوائد کی حامل بھی تھی میرے والد ان ایام میں مختلف ممالک کے لوگوں سے گفتگو کرتے رہے اور ان کے اخلاق اور آداب اور ان کے سیاسی اور اقتصادی اور فرہنگی حالات سے آگاہ ہونے کے بعد مجھ سے اور میری والدہ اور دوسرے دوستوں اورواقف کاروں سے بیان کرتے تھے اس لحاظ سے ہم دوسرے اسلامی ممالک کے مسلمانوں کے حالات سے مطلع ہوئے اورمفید اطلاعات سے آگاہ ہوئے_

ہر مسلمان پر واجب ہے کہ اگر استطاعت رکھتا ہو تو ایک

۲۴۴

مرتبہ زندگی میں خانہ کعبہ کی زیارت کو جائے اور حج کے مراسم اور اعمال بجالائے اور حج میں شریک ہو اور پختہ ایمان اورنورانی قلب کے ساتھ واپس لوٹ آئے امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا ہے کہ جو شخص واجب حج کو بغیر کسی عذرشرعی کے ترک کردے وہ دنیا سے مسلمان نہیں اٹھے گا اور قیامت کے دن غیر مسلم کی صف میںمحشور ہوگا

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ جو شخص احرام باندھ لیتا ہے تو اس کا کیا فریضہ ہوجاتا ہے اور اسے کن کاموں سے اجتناب کرنا چاہیئے؟

۲)___ حج کی عبادت بجالانے میں کون سے درسوں کی مشق کرنا چاہیئے؟

۳)___ ہم حج کے اعمال بجالاتے وقت کس کی یاد میں ہوتے ہیں؟

۴)___ حج کے کیا فائدے ہیں؟

۵)___ حج کن لوگوں پر واجب ہوتا ہے؟

۶)___ امام جعفر صادق (ع) نے حج کے بارے میں کیا فرمایا ہے؟

چند اصطلاحات کی وضاحت

میقات: وہ جگہ ہے جہاں سے احرام باندھ جاتا ہے

۲۴۵

احرام باندھنا: اپنے سابقہ کپڑوں کی جگہ سفید سادہ لباس پہننا اور اللہ کی اطاعت کرنا_

محرم: اسے کہتے ہیں جو احرام باندھ چکا ہو

لبّیک کہنا: یعنی اللہ کی دعوت کو قبول کرنا اور خاص عبادت کا احرام باندھتے وقت پڑھنا

طواف: خانہ کعبہ کے اردگرد سات چکر لگانا

۲۴۶

چھٹا حصّہ

اخلاق و آداب

۲۴۷

پہلا سبق

معاہدہ توڑا نہیں جاتا

گرمی کے موسوم میں ایک دن ہمارے پیغمبر حضرت محمد مصطفی (ع) دھوپ میں ایک پتھر پر بیٹھے ہوئے تھے دن بہت گرم تھا دھوپ پیغمبر اسلام (ع) کے سر اور چہرہ مبارک پر پڑ رہی تھی پیغمبر اسلام (ص) کی پیشانی سے پسینہ ٹپک رہا تھا گرمی کی شدّت سے کبھی اپنی جگہ سے اٹھتے اور پھر بیٹھ جاتے اور ایک جانب نگاہ کرتے کہ گویا کسی کے انتظار میں بیٹھے ہیں پیغمبر اسلام (ص) کے اصحاب کا ایک گروہ اس نظارے کو دور سے بیٹھ کر دیکھ رہا تھا وہ جلدی سے آئے تا کہ دیکھیں کہ کیا وجہ ہے سامنے آئے سلام کیا اور کہا یا رسول اللہ (ص) اس گرمی کے عالم میں آپ (ص) کیوں دھوپ میں بیٹھے ہوئے ہیں رسول خدا (ص) نے فرمایا صبح کے وقت جب ہوا ٹھنڈی تھی تو میں نے ایک شخص

۲۴۸

کے ساتھ وعدہ کیا کہ میں اس کا انتظار کروں گا وہ یہاں آجائے_ اب بہت دیر ہوگئی ہے اور میں یہاں اس کی انتظار میں بیٹھا ہوا ہوں_ انہوں نے کہا کہ یہاں دھوپ ہے آور آپ کو تکلیف ہو رہی ہے_ وہاں سایہ کے نیچے چل کر بیٹھے اور اس کا انتظار کیجئے پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا کہ میں نے اس آدمی سے یہاں کا وعدہ کیا ہے میں وعدہ خلافی نہیں کرتا اور اپنے پیمان کو نہیں توڑنا جب تک وہ نہ آئے میں یہاں سے نہیں ہٹوں گا_

ہمارے پیغمبر اسلام (ص) عہد و پیمان کو بہت اہمیت دیتے تھے اور پیمان کو توڑنا بہت بڑا گناہ سمجھتے تھے اورہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص عہد و پیمان کی وفا نہ کرے دیندار نہیں ہے اور یہ بھی فرمایا ہے کہ مسلمان اور مومن انسان ہمیشہ اپنے عہد و پیمان کا وفادار ہوتا ہے اور کبھی اپنے پیمان کو نہیں توڑنا اور یہ بھی فرماتے تھے کہ جو انسان سچّا امانتدار اورخوش اخلاق ہو اور اپنے عہد و پیمان کی وفاکرے تو آخرت میں مجھ سے زیادہ نزدیک ہوگا قرآن بھی تمام مسلمانوں کوحکم دیتا ہے کہ اپنے عہد و پیمان کی وفا کریں کیوں کہ قیامت کے دن عہداور وفاکے بارے میں سوال وجواب ہوگا_

سوالات

۱)___کون سے افراد قیامت کے دن پیغمبر اسلام (ص) کے نزدیک ہوں گے؟

۲۴۹

۲)___ خداوندنے قرآن مجید میںعہد وپیمان کی وفا کے بارے میں کیا فرمایا ہے؟

۳)____ کی دیندار انسان اپنے عہد کوتوڑتاہے؟ پیغمبر اسلام (ص) نے اس کے بارے میں کیا فرمایاہے؟

۴)___ آپ کے دوستوں میں سے کون زیادہ بہتراپنے پیمان پر وفادار رہتا ہے؟

۵)___ کیا آپ اپنے پیمان کی وفاداری کرتے ہیں؟ آپ کے دوست آپ کے متعلق کیا کہتے ہیں؟

۶)___ وعدہ خلافی کا کیا مطلب ہے؟

۲۵۰

دوسراسبق

مذاق کی ممانعت

اگر آپ سے کوئی مذاق کرتے تو آپ کی کیا حالت ہوجاتی ہے کیا ناراض ہوجاتے ہیں؟

اگر آپ درس پڑھتے وقت کوئی غلطی کریں اور دوسرے آپ کا مذاق اڑائیں اورآپ کی نقل اتاریں تو کیاآپ ناراض ہوتے ہیں کیاآپ کویہ بڑا لگتا ہے کیااسے ایک بے ادب انسان شمار کرتے ہیں دوسرے بھی آپ کی طرح مذاق اڑائے جانے پرنار اض ہوتے ہیں اورتمسخر ومذاق اڑانے والے کو دوست نہیںرکھتے اورخدا بھی مذاق اڑانے والے کودوست نہیں رکھتا اور اسے سخت سزا دیتا ہے خداوند عالم قرآن مجید میں انسانوں کو مذاق اڑانے اورمسخرہ کرنے سے منع کرتا ہے اورفرماتا ہے_

۲۵۱

اے انسانو جو خدا اور روز قیامت پر ایمان رکھتے ہو خبردار تم میں سے کوئی دوسرے کامذاق نہ اڑائے کیوں کہ ممکنہ ے کہ اپنے سے بہتر کامذاق اڑا رہا ہو ایک دوسرے کوبرا نہ کہو اور ایک دوسرے کو برے اوربھدے ناموں سے نہ بلاؤ ایک مسلمان کے لئے برا ہے کہ وہ کسی کی توہین کرے اور اسے معمولی شمار کرے پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا ہے جو شخص کسی مسلمان کا تمسخر یا مذاق اڑائے اوراس کی توہین کرے یا اسے معمولی سمجھ کرتکلیف دے تو اس کا یہ فعل ایسا ہی ہے جیسے اسنے مجھ سے جنگ کی ہو_

سوالات

۱)___ خداوند عالم قرآن میں تمسخر کرنے والے کے متعلق کیافرماتا ہے اورمسلمانوں کوکس اورکس طرح روکاہے؟

۲)___ ہمارے پیغمبر(ص) نے ایک مسلمان کے تمسخر کرنے کے بارے میں کیا فرمایا ہے؟

۳)___ تمہارے دوستوں میں کون ایسا ہے جو کسی کامذاق نہیں اڑاتا؟

۴)___ کیاتم نے آج تک کسی کا مذاق اڑایاہے؟ کس کی توہین کی ہے؟ کیا تمہیں علم نہ تھا کہ مذاق اڑانا گناہ ہے؟

۲۵۲

تیسرا سبق

گھر کے کاموں میں مدد کرنا

میرا نام محمود ہے فرحت و زیبا میری دوبہنیں ہیں فرحت زیبا سے چھوٹی ہے دونوں مدرسہ میں پڑھتی ہیں ہمارے گھر میں کل چھ افراد ہیں ہم نے گھر کے کام کو آپس میں تقسیم کرلیا ہے خرید وفروخت اورگھر سے باہرکے کام میرے والدکرتے ہیں اورمیں بھی ان کی ان کاموں میں مدد کرتا ہوں روٹی خریدتا ہوں دودھ خریدتا ہوں، سبزی اورپھل خریدتا ہوں_ فرحت اورزیبا گھر کے اندرونی کاموں میں میری والدہ کی مدد کرتی ہیں اورگھر کو صاف و ستھرا اور منظّم رکھنے میں ان کی مدد کرتی ہیں ان میں سے بعض کام فرحت نے اور بعض دوسرے کام زیبا نے اپنے ذمّہ رکھے ہیں ہمارے گھر میں ہر ایک کے ذمّہ ایک کام ہے کہ جسے وہ اپنا فریضہ جانتا ہے اور اسے انجام دیتا

۲۵۳

اور اسے کبھی یاد دلانا بھی نہیں پڑتا ہم گھر کے تمام کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں صرف ہمارا چھوٹا بھائی کہ جو دس مہینے کاہے کوئی کام انجام نہیں دیتا میری امّی کہتی ہیں کہ رضا سوائے رونے، دودھ پینے سونے اورہنسنے کے اورکوئی کام نہیں کرتا جب بڑا ہوگا تواس کے لئے بھی کوئی کام معيّن کردیا جائے گا میرے والدکا یہ عقیدہ ہے کہ گھر کے تمام افراد کوکوئی نہ کوئی کام قبول کرنا چاہیئے اور ہمیشہ اسے انجام دے کیونکہ گھر میں کام کرنا زندگی گزارنے کادرس لینا اورتجربہ کرنا ہوتا ہے جو کام نہیں کرتا وہ کچھ بھی حاصل نہیں کرسکتا_

پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا ہے کہ خدا اس آدمی کوجواپنے بوجھ کوکسی دوسرے پرڈالتاہے پسندنہیںکرتا اسے اپنی رحمت سے دور رکھتا ہے بہترین مسلمان وہ ہے جو گھر کے کاموں میں مدد کرے اور مہربان ہو _

ہمارے گھر کے افراد اپنے کاموں کے انجام دینے کے علاوہ دوسرے افراد کی بھی مدد کرتے ہیں مثلاً میں ایک دن عصر کے وقت گھر میں آیا تو دیکھا کہ میرے ابّاگھر کے صحن میں جھاڑودے رہے ہیں میں نے کہا ابّا جان آپ کیوں جھاڑودے رہے ہیں ابّانے کہا کہ تم نہیں دیکھتے کہ تمہاری ماں کے پاس بہت کام ہیں ہمیں چاہیئےہ اس کی مدد کریں ہم حضرت علی علیہ السلام کے شیعہ ہیں ہم دینداری میں آپ کی پیروی کرتے ہیں_

ہمارے امام اور پیشوا حضرت علی علیہ السلام اپنے گھر کے کاموں میں حضرت زہرا (س) کی مدد کرتے تھے یہاں تک کہ گھر میں

۲۵۴

جھاڑو دیتے تھے ہاں یہ بھی بتلادوں کہ ہمارے گھر کبھی بھی کوئی جھگڑا اورشور و غل نہیں ہوتا اگر میرے اور میری بہن کے درمیان کوئی اختلاف ہوجائے توہم اسے ہنسی خوشی اورمہربانی سے حل کرلیتے ہیں اور اگر ہم اسے حل نہ کرسکیں تو ماں کے سامنے جاتے ہیں یاصبر کرتے ہیں تا کہ ابّا آجائیں اورہمارے درمیان فیصلہ کریں_

میرے ابّا رات کوجلدی گھر آجاتے ہیں ہمارے درس کے متعلق بات چیت کرتے ہیں اورہماری کاپیوں کو دیکھتے ہیں اور ہماری راہنمائی کرتے میں جب ہمارے اورامّی کے کام ختم ہوجاتے ہیں توہم سب چھوٹی سی لائبریری میں جو گھر میں بنا رکھی ہے چلے جاتے ہیں اور اچھی کتابوں کا جو ہمارے ابّونے ہمارے لئے خرید رکھی ہیں مطالعہ کرتے ہیں میرا چھوٹا بھائی رضا بھی امّی کے ساتھ لائبریری میں آتا ہے اورامّی کے دامن میں بیٹھا رہتا ہے بجائے اس کے کہ مطالعہ کرے کبھی امّی کی کتاب کوپھاڑ ڈالتا ہے میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ میرے ماںباپ بھائی بہن ایسے اچھے ہیں اورمیں کوشش کرتا ہوں کہ اپنے فرائض کو اچھی طرح بجالاؤں اورگھر کے کاموں میں زیادہ مدد کروں

میرے استاد نے میرے اس مضمون کی کاپی پر یہ نوٹ لکھا

محمود بیٹا تم نے بہت اچھا اورسادہ لکھا ہے تمہارا مضمون سب سے اچھا ہے تم مقابلہ میں پہلے نمبر پر ہوجب میں نے تمہارا مضمون پڑھا تو بہت خوش ہوا اوراللہ تعالی کا شکرا دا کیا کہ اس طرح کا اچھا طالب علم بھی ہمارے مدرسہ میں موجودہے_ تمہیں خدا کا شکر کرنا

۲۵۵

چاہیئے ک اس طرح کے سمجھدار ماں باپ رکھتے ہو کتنا اچھا ہے کہ تمام لوگ اور گھر کے افراد تمہاری طرح ہوں ایک دوسرے کے یار ومددگارہوں اورتمام لڑکے تمہاری طرح مہربان، فداکار اور محنتی ہوں_

سوچئے اورجواب دیجئے

۱)___ ہمارے پیغمبر (ص) نے گھر میں کام کرنے کے بارے میںکیا فرمایاہے

۲)___ جو شخص اپنے بوجھ کودوسروں پر ڈالتا ہے اس کے بارے میںکیا فرمایا ہے؟

۳)___ آپ دوسروں کی مدد زیادہ کرتے ہیں یا دوسروں سے اپنے لئے زیادہ مددمانگتے ہیں؟

۴)___ کیا آپ اپنے بہن بھائی سے اختلاف کرتے ہیں اوراپنے اختلاف کوکس طر ح حل کرتے ہیں_

۵)___ کیاآپ اپنے اختلاف کو حل کرنے کے لئے کوئی بہتر حل پیداکر سکتے ہیں اوروہ کون سا ہے؟

۶)___ کیا آپ کے گھر میں کاموں کوتقسیم کیا گیا ہے اورآپ کے ذمّہ کون سا کام ہے؟

۷)___ کیا آپ کے گھر میں لائبریری ہے اورکون آپ کے لئے کتابیں انتخاب کر کے لاتاہے؟

۸)___ استاد نے محمود کے مضمون کی کاپی پرکیانوٹ لکھا

۲۵۶

تھا اور کیوںلکھا کہ وہ خدا کا شکر ادا کرے؟

۹)___ فداکاری کا مطلب کیا ہے اپنے دوستوں میںسے کسی ایک کی فداکاری کا تذکرہ کیجئے؟

۱۰)___ آپ بھی محمود کی طرح اپنے روز کے کاموں کولکھا کیجئے اوراپنی مدد کوجو گھر میں انجام دیتے ہیں اسے بیان کیجئے_

۲۵۷

چوتھا سبق

اپنے ماحول کوصاف ستھرارکھیں

میںحسن آبادگیا تھا میں نے اس گاؤں کے گلی کوچے دیکھ کر بہت تعجب کیاچچازادبھائی سے کہا تمہارے گاؤں میں تبدیلیاںہوئی ہیںسچ کہہ رہے ہوکئی سال ہوگئے ہیں کہ تم تمہارے گاؤںمیں نہیں آئے پہلے ہمارے گاؤں کی حالت اچھی نہ تھی تمام کوچے کثیف تھے اور گندگی سے بھرے ہوئے تھے لیکن چارسال ہوئے ہیںکہ ہمارے گاؤں کی حالت ہے بالکل بدل گئی ہے چارسال پہلے ایک عالم دین ہمارے گاؤں میں تشریف لائے اورلوگوں کی ہدایت اور راہنمائی میںمشغول ہوگئے دو تین مہینے کے بعد جب لوگوں سے واقفیت پیدا کرلی تو ایک رات لوگوں سے اس گاؤں کی حالت کے متعلق بہت اچھی گفتگو کے دوران فرمایااے لوگو دین اسلام ایک پاکیزگی

۲۵۸

اورصفائی والا دین ہے لباس، جسم، گھر، کوچے،حمام، مسجد اور دوسری تمام جگہوں کو صاف ہونا چاہیے میرے بھائیو اور جوانو کیا یہ صحیح ہے کہ تمہاری زندگی کا یہ ماحول اس طرح کثیف اورگندگی سے بھرا ہوکیا تمہیں خبر نہیں کہ ہمارے پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا کہ کوڑاکرکٹ اورگھر کی گندگی اپنے گھروں کے دروازے کے سامنے نہ ڈالا کرو کیونکہ گندگی ایک ایسی مخفی مخلوق کی جو انسان کو ضرر پہنچاتی ہے مرکز ہوتی ہے کیوں اپنی نالیوں اورکوچوں کوکثیف کرتے ہو گندا پانی اورگندی ہوا تمہیں بیمار کردے گی یہ پانی اور ہوا تم سب سے تعلق رکھتی ہے تم سب کو حق ہے کہ پاک اور پاکیزہ پانی اورصاف ہوا سے استفادہ کرو اور تندرست اوراچھی زندگی بسر کرو کسی کوحق نہیں کہ پانی اورہوا کو گندا کرے پانی اورہوا کو گندا اور کثیف کرنا ایک بہت بڑا ظلم ہے اورخدا ظالموں کو دوست نہیں رکھتا اورانہیں اس کی سزا دیتا ہے اے گاؤں کے رہنے والو میں نے تمہارے گاؤں کوصاف ستھرا رکھنے کاپروگرام بنایا ہے میری مددکرو تا کہ حسن آباد کوصاف ستھرا پاک وپاکیزہ بنادیں اس گاؤں والوںنے اس عالم کی پیش کش کو قبو ل کرلیا اوراعانت کاوعدہ کیا دوسرے دن صبح کوہم سب اپنے گھروں سے نکل پڑے وہ عالم ہم سے بھی زیادہ کام کرنے کے لئے تیار تھے ہم تمام آپس میں مل کر کام کرنے لگے اورگلیوں کوخوبصاف ستھرا کیا عالم دین نے ہمارا شکریہ ادا کیا اورہم نے ان کی راہنمائی کا شکریہ ادا کیا اس کے بعد گاؤں والوںنے ایک

۲۵۹

عہد وپیمان کیا کہ اپنے گھر کی گندگی اوردوسری خراب چیزوں کوکوچے یا نالی میں نہیںڈالیں گے بلکہ اکٹھا کرکے ہرروز گاؤں سے باہر لے جائیں گے اوراس کوگڑھے میںڈال کر اس پر مٹی ڈال دیں گے اورایک مدت کے بعد اسی سے کھاد کاکام لیں گے ایک اور رات اس عالم دین نے درخت لگانے کے متعلق ہم سے گفتگو کی اورکہا کہ زراعت کرنا اور درخت لگانا بہت عمدہ اورقیمتی کام ہے اسلام نے اس کے بارے میںبہت زیادہ تاکید کی ہے_ درخت ہوا کو صاف اورپاک رکھتے ہیں اورمیوے اور سایہ دیتے ہیں اور دوسرے بھی اس کے فوائدہیں_ ہمارے پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفی (ص) نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی پودا تمہارے ہاتھ میں ہوکہ اس پودے کو زمین میں کاشت کرنا چاہتے ہو اور ادہر موت تمہیں آپہنچے تواپنے کام سے ہاتھ نہ اٹھانا یہاں تک کہ اس پودے کو زمین میں گاڑدو کیوںکہ اللہ زمین کے آباد کرنے اوردرخت اگانے والے کو دوست رکھتا ہے جوشخص کوئی درخت اگانے والے کو دوست رکھتا ہے جو شخص کوئی درخت لگائے اوروہ میوہ دینے لگے تو خداوندعالم اس کے میوے کے برابر اسے انعام اور جزا دے گا لہذا کتنا اچھا ہے کہ ہم اس نہر کے اطراف میں درخت لگادیں تا کہ تمہارا گاؤں بھی خوبصورت ہوجائے اگر تم مددکرنے کا وعدہ کروتوکل سے کام شروع کردیں دیہات کے سبھی لوگوںنے اس پراتفاق کیا اور بعض نیک لوگوں نے پودے مفت فراہم کردیئےوسرے دن صبح ہم نے یہ کام شروع کردیادیہات والوں نے بہت خوشی خوشی ان پودوں کولگادیااس عالم نے سب کو اور

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285