‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) جلد ۲

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) 13%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 285

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 285 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 117972 / ڈاؤنلوڈ: 4038
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

ھ: جہالت کا اعتراف

1064۔ امام علی (ع): عقلمندی کی انتہاء ، اپنی جہالت کا اعتراف ہے۔

1065۔ امام علی (ع): یہ دنیا اسی حالت میںبر قراررہ سکتی ہے جس میں مالک نے قرار دیا ہے یعنی نعمت ، آزمائش ، آخرت کی جزا یاوہ بات جو تم نہیںجانتے ہو، اب اگر اس میں سے کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو اسے اپنی جہالت سمجھوکہ تم ابتدا میں جب پیدا ہوئے ہو تو جاہل ہی پیدا ہوئے ہوبعد میں تمہیںعلم دیا گیاہے اور اسی بنا پر مجہولات کی تعداد زیادہ ہے جس میںتمہاری رائے متحیر رہ جاتی ہے اور نگاہ بہک جاتی ہے ، اور بعد میں صحیح حقیقت نظر آتی ہے ۔

1066۔ امام علی (ع): اور یہ یاد رکھو کہ راسخون فی العلم وہی افراد ہیں جنہیں غیب الہی کے سامنے پڑتے ہوئے پردوں کے اندر درانہ داخل ہونے سے اس امر نے بے نیاز بنا دیاہے کہ وہ اس پوشیدہ غیب کا اجمالی اقرار رکھتے ہیں اور پروردگار نے ان کے اسی جذبہ کی تعریف کی ہے کہ جس چیز کو ان کا علم احاطہ نہیںکر سکتا اس کے بارے میں اپنی عاجزی کا اقرار کر لیتے ہیں اور اسی صفت کو اس نے رسوخ سے تعبیر کیا ہے کہ جس بات کی تحقیق ان کے ذمہ نہیںہے اسکی گہرائیوں میں جانے کا خیال نہیں رکھتے ہیں۔

1067۔ امام باقر(ع): جو جانتے ہو بیان کرو اور جو نہیں جانتے کہو(اللہ بہتر جانتا ہے)

۱۸۱

و: جہالت پر معذرت

1068۔ امام زین العاب دین (ع): خدایا! میں اپنی نادانی کے سبب تجھ سے معذرت چاہتا ہوں اور اپنے برے اعمال کے لئے تجھ سے بخشش طلب کرتا ہوں۔

ز: جہالت سے خدا کی پناہ چاہنا

1069۔ ام سلمہ: رسول خدا(ص) جب بھی گھر سے بر آمد ہوتے تھے تو فرماتے تھے: خدا کے نام سے، پروردگارا میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس سے کہ پھسلوں یا گمراہ ہو جاؤں، ستم کروںیا مجھ پرستم کیا جائے، جاہل رہوں یا مجھ پر کوئی چیز مخفی رہے۔

1070۔ امام علی (ع):نے جنگ صفین میں یوم الھریر کی دعا میں فرمایا: خدایا! بیشک میں...جہالت ،بیہودگی اور قول و فعل کی برائیوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔

1071۔ امام علی (ع): پروردگارا!...میں تیری پناہ چاہتاہوں اپنی قوت سے، اور تیری پناہ میں آنا چاہتا ہوں اپنی جرات سے ، اپنی جہالت کے سبب تیری پناہ کاطلبگار ہوں اور اپنے گناہوںکے باعث تیرے اسباب کی رسیوں کو پکڑنا چاہتا ہوں ۔

1072۔ امام علی (ع): پروردگارا! تیری پناہ چاہتا ہوں کہ علم کے عوض جہالت خریدوں جیسا کہ دوسروںنے کیاہے ، یا یہ کہ بردباری کے بدلہ حماقت خریدوں۔

1073۔ امام صادق(ع): صبح و شام کی دعا میں فرماتے ہیں؛ خدایا! ہم تیری مدد سے شام کرتے ہیں اور صبح بھی ، تیری بدولت زندہ رہتے ہیں اور مرتے بھی ہیں، اور تیری طرف پلٹے ہیں، اور میں تیری پناہ چاہتا ہوںکہ میںکسی کو رسوا کروں یا رسوا کیا جاؤں، گمراہ کروں یا گمراہ ہو جاؤں، ظلم کروںیا مجھ پرظلم کیا جائے، میں جاہل رہوں یا مجھ پر مخفی رہے۔

۱۸۲

1074۔ عبد الرحمن بن سیابہ: کابیان ہے کہ امام صادق(ع) نے یہ دعا مجھے دی: حمد اس خدا کے لئے جو صاحب حمد اور اس کا اہل ہے ، اسکی نہایت اور اس کا محل ہے ،...میںپناہ چاہتا ہوں کہ علم کے بدلہ جہالت ، بردباری کے عوض بدسلوکی، عدل کے بدلہ ستم ، نیکی کے بدلہ قطع تعلقی اور صبر کے عوض بیتابی کو خریدوں۔

ح: جہالت سے توبہ

1075۔ رسول خدا(ص):۔آپ ؐ اس طرح دعا فرماتے تھے۔بار الہا: میری خطا و جہالت، اور اپنے کام میں حد سے تجاوز کرنے اور جسکوتو مجھ سے بہتر جانتا ہے اس سے مجھکو معاف کر دے۔ پروردگارا! میرے مذاق او رسنجیدگی ، میری خطا اور دانستہ طور پر ہو جانے والے کاموں اور بقیہ میرے گناہوں سے مجھکو بخش دے۔

5/2

جاہل کے لئے حرام چیزیں

الف: علم کے بغیر لب کشائی

قرآن

(اور اپنے منہ سے وہ بات نکال رہے تھے جس کا تمہیں بھی علم نہیں تھا)

۱۸۳

حدیث

1076۔رسول خدا(ص): جو شخص علم کے بغیر لوگوںکو فتوے دیتا ہے وہ اصلاح سے زیادہ دین کو برباد کرتا ہے ۔

1077۔ رسول خدا(ص): جو شخص علم کے بغیر لوگوںکو فتویٰ دیتاہے وہ ناسخ و منسوخ اورمحکم و متشابہ میں فرق نہیں کر پاتا، لہذا وہ ہلاک ہے اور دوسروں کو ہلاک کردیتا ہے ۔

1078۔ رسول خدا(ص): جو بغیر علم کے فتوے دیتاہے اس پر آسمان و زمین کے ملائکہ لعنت بھیجتے ہیں۔

1079۔ رسول خدا(ص): وہ شخص جس کو بغیر تحقیق کے فتویٰ دیا جاتا ہے اس کا گناہ فتویٰ دینے والے کے سر ہے ۔

1080۔ امام علی (ع): جس کے بارے میں آگاہی نہیںرکھتے ہو، اطلاع نہ دو۔

1081۔ امام علی (ع): جو نہیںجانتے اس کو زبان پر جاری نہ کرو چوں کہ بیشترحق ان چیزوں میں ہے جن کا تم انکار کرتے ہو۔

1082۔ امام زین العاب دین (ع): خدایا! میں تیری پناہ چاہتا ہوں...کہ ظالم کی مدد کروں...یا بغیر علم کے علمی گفتگو کروں۔

1083۔ امام باقر(ع): جو علم اور الہی ہدایت کے بغیر فتویٰ دیتا ہے اس پر رحمت اور عذاب کے فرشتے لعنت کرتے ہیں اور اس کے فتوے پر عمل کرنے والے کا عقاب اسی کو ملیگا۔

۱۸۴

ب: نامعلوم چیز کا انکار

قرآن

(در حقیقت ان لوگوںنے اس چیز کی تکذیب کی ہے جس کا مکمل علم بھی نہیں ہے)

حدیث

1084۔ امام علی (ع): نے- اپنے بیٹے امام حسن ؑ: کو وصیت کرتے ہوئے - فرمایا: بیشک نادان وہ ہے جو نامعلوم چیزوں میں خود کو عالم شمار کرتا ہے اور اپنی ہی فکر و رائے پر اکتفا کرتا ہے ، ہمیشہ علماء سے دوری اختیار کرتا ہے اور انہیں برا بھلا کہتا ہے جو اسکی مخالفت کرتاہے اس کو خطا کا ر سمجھتا ہے اور جو شخص کچھ بھی نہیں جانتااسے گمراہ کرتا ہے ، پس جب اس کے سامنے کوئی امرآتا ہے جسے وہ نہیںجانتاتو اس سے انکار کر دیتا ہے اور اسے جھوٹ تصور کرتا ہے اور اپنی جہالت کی بدولت کہتا ہے : میں اس کو نہیں جانتا ہوںاور نہ اس سے پہلے کبھی اس کو دیکھا ہے اور گمان نہیں کرتا کہ بعد میںیہ وجود پذیربھی ہوگا۔ یہ ساری باتیں اس کا اپنی رائے پر اعتماد اور جہالت و کم علمی کے سبب ہیں۔ اور ہر وہ چیز جس کا وہ قائل ہے اور یا عدم علم کی بنیاد پر جس چیز کا غلط معتقد ہے اس سے دستبردار نہیںہوتا، اپنی نادانی سے استفادہ کرتا ہے اور حقیقت کا انکار کرتا ہے ، نیز اپنی جہالت و نادانی میں حیران و سرگرداں ہوتاہے اور تحصیل علم سے باز رہتاہے ۔

1085۔ امام علی (ع): جو کسی چیز سے ناواقف ہوتاہے اس کا دشمن ہو جاتا ہے ۔

۱۸۵

1086۔ اما م علی (ع): میں نے چار چیزیں کہیں کہ جنکی خدا نے اپنی کتاب میں تصدیق کی ، میں نے کہا: انسان اپنی زبان کے نیچے چھپا ہوتا ہے جب کلام کرتا ہے تو ظاہر ہو جاتا ہے ، پس خدا نے یہ آیت:(اور آپ ان کی گفتگو کے انداز سے انہیں بہر حال پہچان لیں گے)نازل کی، میں نے کہا: جو کسی چیز سے جاہل ہوتاہے اسکاد شمن ہوجاتاہے ، خدا نے فرمایا:( در حقیقت ان لوگوں نے اس چیز کی تکذیب کی ہے جس کا مکمل علم بھی نہیںہے اور اسکی تاویل بھی ان کے پاس نہیں آئی ہے) میں نے کہا: ہر شخص کی قدر و قیمت اسکی دانائی کے مطابق ہے ، خدا نے قصہ طالوت میں فرمایا:( انہیں اللہ نے تمہارے لئے منتخب کیاہے اور علم و جسم میں وسعت عطا فرمائی ہے)میں نے کہا: قتل، قتل کو کم کرتاہے ، خدا نے فرمایا:(صاحبان عقل تمہارے لئے قصاص میں زندگی ہے )

1087۔ امام علی (ع): جو کچھ میں نے زبان رسول سے سنا ہے اگر تمہارے سامنے بیان کردوں تو تم میرے پاس سے اٹھکر چلے جاؤ گے اور کہوگے ، یقینا علی سب سے بڑا جھوٹا اور سب سے بڑا فاسق ہے ، خدا فرماتا ہے :(بلکہ در حقیقت ان لوگوں نے اس چیز کی تکذیب کی جس کا مکمل علم بھی نہیں ہے)

1088۔ اما م صادق(ع): خدا نے اپنی کتاب میں دو آیتیں اپنے بندوں سے مخصوص کی ہیں : وہ لوگ جب تک نہیںجانتے لب کشائی نہیںکرتے اور جب تک علم نہیں رکھتے تردید نہیںکرتے ، خدا ارشاد فرماتا ہے :(کیا ان سے کتاب کا عہد نہیںلیا گیا کہ خبردار خدا کے بارے میں حق کے علاوہ کچھ نہ کہیں)نیز فرماتا ہے (یقینا ان لوگوں نے اس چیز کو جھٹلایا جس کا مکمل علم بھی نہیں رکھتے اور اسکی تاویل بھی ان کے پاس نہیں آئی ہے)

۱۸۶

5/3

ممدوح جہالت

1089۔ امام علی (ع): کتنے جاہلوں کی نجات ان کی جہالت میں ہے ۔

1090۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصارمیں ہے۔ دو گروہوںپر ہر چیز آسان ہے ؛ وہ عالم جو کام کے انجام سے واقف ہو، اور وہ جاہل جو اپنی حیثیت سے بے خبر ہو۔

1091۔ اما م علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے، اگر عقل کے نو حصے ہوتے تو جہالت کے ایک حصہ کی طرف محتاج ہوتی تاکہ عقلمند اپنے امور پر اسے مقدم کرے ،کیوں کہ عاقل ہمیشہ سہل انگار،نگراں اور خوفزدہ ہوتا ہے ۔

1092۔ امام علی (ع): بسا اوقات نادانی ، بردباری سے زیادہ مفید ہوتی ہے ۔

1093۔ ابراہیم بن محمد بن عرفہ: احمد بن یحیٰ ثعلب نے مجھے یہ اشعار سنائے اور بتایا کہ یہ اشعار علی (ع) بن ابی طالب کے ہےں:

اگر مجھے بردباری کی ضرورت ہے تو بیشک بعض اوقات مجھے جہالت کی زیادہ ضرورت ہے ۔ میں نادانی کو ندیم و ہمنشیں کے عنوان سے پسند نہیںکرتا لیکن ضرورت کے وقت پسند کرتاہوں میرے پاس بردباری کا مرکب ہے کہ جس کی لجام بھی بردباری ہی ہے ، اور میرے پاس جہالت کا مرکب ہے کہ جس کی زین نادانی ہے ۔

1094۔ امام حسین ؑ: اگر لوگ غور و فکر کرتے اور موت کو اسکی صورت میں تصور کرتے تو دنیا ویرانہ ہوجاتی۔

1095۔ امام عسکری ؑ: اگر تمام اہل دنیا عقلمند ہوتے تو دنیا ویران ہو جاتی۔

۱۸۷

1096۔ اما م صادق(ع)ـ: نے ۔ مفضل بن عمر۔ سے فرمایا: اے مفضل ! ان چیزوںکے بارے میں غور وفکر کرو کہ جن میں انسان کو اپنی مدت حیات کے متعلق آگاہی نہیں ہے ؛ اس لئے کہ انسان اگر اپنی عمر کی مقدار سے باخبر ہو جائے اور (بالفرض) اسکی زندگی کم ہو تو موت کے خوف سے کہ جس کا وقت معلوم ہے اسکی زندگی تلخ ہو جائیگی؛ بلکہ اس شخص کے مانند ہوگا کہ جس کا مال تباہ ہو گیا یابرباد ہونے کے قریب ہے ؛ گویا یہ شخص فقر اور مال و ثروت کی بربادی اور خوف فقر کے اندیشہ سے نہایت خوفزدہ رہتا ہے ۔

جبکہ یہ تلخی جو انسان کی فنائے عمرکے تصور سے پیدا ہوتی ہے انسان کے فنائے مال سے کہیں زیادہ تلخ ہے ؛ چونکہ جب کسی شخص کی ثروت کم ہو جاتی ہے تو وہ اسکی جگہ پر ثروت کے آنے کی امید رکھتا ہے ، جس کے سبب اس کو سکون حاصل ہوتا ہے ؛ لیکن جو عمرکی فنا کا یقین رکھتا ہے اس کے لئے صرف مایوسی ہوتی ہے ۔ اور اگر اسکی عمر طولانی ہوتی ہے اور وہ اس سے آگاہ ہو جاتاہے تو بقا کا اعتماد پیدا کرکے لذات اور معصیتوں میں غرق ہو جاتا ہے اور اس خیال سے عمل کرتاہے کہ اپنی لذتوںکو حاصل کرے اور آخیر عمر میں توبہ کرلیگا؛ یہ ایسی روش ہے کہ خدا پنے بندوں سے نہ پسند کرتا ہے اورنہ قبول۔

اگر تم کہو! کیا ایسا نہیں ہے کہ انسان ایک عرصے تک گناہ کرتاہے پھر توبہ کرتا ہے اور اسکی توبہ قبول ہوتی ہے۔؟!

ہم جواب دیں گے : ایسا اس لئے ہے کہ شہوت انسان پر غالب آجاتی ہے تونہ وہ کوئی منصوبہ بناتا ہے اور نہ ہی اس کے مطابق کوئی کام انجام دیتاہے ، لہذا خدا اس سے درگذر کریگا اور مغفرت کے ذریعہ اس پر فضل و احسان کریگا۔

لیکن وہ شخص جس نے اپنی زندگی کی بنا اس بات پر رکھی ہے کہ گناہ کرے گااور آخر عمر میں توبہ کرلیگا؛ یہ اس ذات کو دھوکا دینا چاہتاہے کہ جو دھوکا نہیںکھاتا اور کوشش کرتا ہے کہ جلد لذت اندوزہو اور اپنے نفس سے وعدہ کرتا رہتا ہے۔

۱۸۸

کہ بعد میں توبہ کر لیگا۔ حالانکہ اپنے وعدہ کو پورا نہیںکرتا؛ اس لئے کہ آسائش اور لذات سے چھٹکاراپانا اور توبہ کرنا، خصوصاً جب بوڑھا اور ناتواںہو جائے، نہایت دشوار کام ہے ، انسان توبہ کرنے میں ٹال مٹول کرکے امان نہیں پا سکتاچونکہ اسکی موت آپہنچتی ہے اور وہ توبہ کے بغیر دنیا سے چلا جاتا ہے ، اسکی مثال اس شخص کی سی ہے کہ جس کی گردن پر قرض ہو کہ جس کی میعاد آئندہ آئیگی اور وہ قرض کی ادائیگی کی قدرت ہونے کے باوجود ٹال مٹول کرتا رہتاہے یہاں تک کہ اسکی ادائیگی کا وقت آجاتاہے لیکن اب اس کے پاس مال نہ ہونے کی وجہ سے اسکی گردن پر قرض باقی رہ جاتاہے۔

لہذاا نسان کے لئے بہتر ہے کہ اپنی عمر کی مقدار سے واقف نہ ہو اور اپنی ساری زندگی موت سے خوفزدہ رہے تاکہ گناہوں سے پرہیز کرے اور نیک عمل بجالاتا رہے۔

اگر تم کہو: ایسے بھی لوگ ہیںجو اپنی زندگی کی مقدار سے با خبر نہیں ہیں اور ہر لمحہ موت کے انتظار میں ہیں لیکن ہمہ وقت بدکرداری اور محرمات کا ارتکاب کرتے ہیں۔

ہم جواب دیں گے: بیشک اس سلسلہ میں بہترین تدبیر وہ ہے جو اب جاری ہوئی ہے ؛ اگر انسان الہی تدبیر کے باوجود بدکرداری اور گناہوں سے دستبردار نہ ہو تو یہ اسکی عیش و نشاط اور سنگدلی کا نتیجہ ہے نہ کہ تدبیر میں کوتاہی کا، جیسے ڈاکٹر کبھی کوئی مفید دوا بیمار کے لئے تجویز کرتا ہے ؛ لیکن اگر مریض ڈاکٹر کے حکم کی مخالفت کرے اور اسکی پابندیوں پر عمل نہ کرے تو وہ ڈاکٹر کی تجویز سے بہرہ مند نہیں ہوتاا ور اس نقصان کا تعلق ڈاکٹر سے نہیںہے چونکہ اس نے بیماری کی شناخت کر لی ہے لیکن مریض نے اسکی بات قبول نہیںکی۔

۱۸۹

اگر انسان ہر لمحہ موت کے انتظار میں ہونے کے باوجود گناہوںسے دستبردار نہیں ہوتا تو اگر طولانی زندگی کا اطمینان ہو تو کہ بڑے گناہوں کا اور زیادہ ارتکاب کریگا، بہر حال موت کے انتظار میں رہنا، اس کے لئے دنیا میں اطمینان بقا سے بہترہے ، اور اس سے قطع نظر اگر موت کا انتظار ایک گروہ کے لئے مفید نہ ہو اور وہ لہو و لعب میں مصروف ہو اور اس سے نصیحت حاصل نہ کرے تو دوسرا گروہ نصیحت حاصل کریگا اور گناہوں سے گریز کریگااور نیک عمل بجالائیگا۔ اور اپنے اموال و گر انبہا اجناس کو فقراء و مساکین کوصدقہ دینے میںدریغ نہیں کریگا ۔ لہذا یہ انصاف نہیں ہے کہ یہ گروہ اس فضیلت سے بہرہ مند نہ ہوتو دوسرا گروہ بھی بہرہ مندنہ ہو۔

5/4

جاہل سے مناسب برتاؤ

الف: گفتگو کے وقت سلام کرنا

قرآن

(اور اللہ کے بندے وہی ہیں جو زمین پر آہستہ چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے خطاب کرتے ہیں تو سلامتی کا پیغام دے دیتے ہیں)

(اور جب لغویات سنتے ہیں تو کنارہ کشی اختیاکرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے لئے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لئے تمہارے اعمال ہیں ، تم پر ہمارا سلام کہ ہم جاہلوںکی صحبت پسند نہیںکرتے )

۱۹۰

حدیث

1097۔ نعمان بن مقرِّن : رسول خدا کے سامنے ایک شخص نے ایک شخص کو گالیاں دیں، اور اس نے اس کے جواب میں کہا: تم پر سلام ہو! رسول خدا(ص) نے فرمایا: یاد رکھو! تم دونوں کے درمیان ایک فرشتہ ہے جو تم سے دفاع کرتا ہے ، جب وہ تم کو گالی دیتا ہے اور کہتا ہے : تم ایسے ہو، تووہ(فرشتہ) اس سے کہتا ہے : بلکہ تم اور تم اس کے زیادہ مستحق ہو اور جب اس کے جواب میںکہتا ہے؛ تم پر سلام ہو! تو وہ (فرشتہ )کہتاہے : نہیں ، بلکہ تم(درود و سلام) کے مستحق ہو۔

1098۔ امام علی (ع): نے ۔ اپنے چاہنے والوں کی توصیف میں ۔ فرمایا: اگر تم انہیں دنوں میں دیکھو گے تو ایسی قوم پاؤ گے جو(زمین پر آہستہ چلتے ہیں) اور لوگوں سے اچھی باتیں کرتے ہیں:(اور جب جاہل ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو سلامتی کا پیغام دیتے ہیں) اور(اور جب لغو کاموںکے قریب سے گذرتے ہیں تو بزرگانہ انداز سے گذر جاتے ہیں)

1099۔ امام صادق(ع): نے۔ شیعوں کی توصیف میں۔ فرمایا: جب کوئی جاہل انہیں مخاطب کرتا ہے تو سلامتی کا پیغام دیتے ہیں اور جب کوئی حاجت مند ان کی پناہ میں آتا ہے تو اس پر رحم کرتے ہیں اور موت کے وقت غمگین نہیںہوتے۔

1100۔ اغانی: خلیفہ عباسی کا بیٹا ابراہیم، علی بن ابی طالب کا شدید دشمن تھا، ایک روز مامون سے کہا کہ میں نے خواب میں علی کو دیکھا ہے اور ان سے پوچھا: تم کون ہو؟ جواب دیا کہ علی ابن ابی طالب ہوں ، ابراہیم نے کہا: ہم دونوں کچھ دور گئے اور ایک پل نظر آیا انہوںنے چاہا کہ مجھ سے پہلے پل سے گذر جائیں۔ میںنے ان کو ؛پکڑا اور کہا: آپ امیر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیںجبکہ ہم اس کے زیادہ مستحق ہیں ، تو انہوںنے ایسا فصیح و بلیغ جواب نہ دیا جیسا کہ ان کی شہرت ہے، مامون نے کہا انہوںنے کیا جواب دیا؟ ابراہیم نے کہا: فقط سلاماً سلاماً کہا ہے۔مامون نے کہا: خدا کی قسم بلیغ ترین جواب تم کو دیا ہے ؛ ابراہیم نے کہا: کس طرح ؟ مامون نے کہا: تم کو یہ سمجھا دیا کہ تم جاہل ہو اور قابل گفتگو نہیںہو، خدا کا ارشاد ہے:(جب ان سے جاہل خطاب کرتے ہیں تو سلامتی کا پیغام دیتے ہیں) پس ابراہیم شرمندہ ہوا اور کہا: کاش کہ یہ واقعہ آپ کو نہ سنایا ہوتا۔

۱۹۱

ب: جھگڑے کے وقت خاموشی

1101۔ رسول خدا(ص): جناب موسیٰ ؑ نے جناب خضر سے ملاقات کی اور کہا: مجھکو نصیحت کیجئے! جناب خضر نے کہا: اے علم کے طلب کرنے والے.... اے موسیٰ ! اگر علم چاہتے ہو تو خود کو اس کےلئے وقف کر دو؛ اس لئے کہ علم اس شخص کےلئے ہے جو خود کو اس کےلئے وقف کر دیتا ہے...اور جاہلوں سے کنارہ کشی اختیار کرو اور احمقوںکے مقابل میں بردبار رہو، اس لئے کہ یہ بردباروںکےلئے فضیلت ہے اور علماء کیلئے زینت، اگر جاہل تم کو گالی دے تو تم نرمی کا برتاؤ کرتے ہوئے خاموش ہو جاؤ، اور دور اندیشی کےساتھ اس سے دوری اختیار کرو: چوں کہ تمہارے لئے جو نادانی و گالی باقی ہے وہی زیادہ ہے ۔

1102۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے ۔ جاہل کے ساتھ جھگڑانہ کرو۔

1103۔ امام علی (ع): بیوقوفوں سے جھگڑا نہ کرو، اور عورتوں پر فریفتہ نہ ہو اس لئے کہ یہ خصلتیں عاقلوںکوبدنام کرتی ہیں۔

1104۔ امام باقر(ع): مرد دو طرح کے ہوتے ہیں: مومن اور جاہل ، مومن کو اذیت نہ دو، اور جاہل کو جاہل نہ سمجھو ورنہ اس کے مانند ہو جاؤگے۔

ج: بردباری

1105۔ رسول خدا(ص): جس میں یہ تین چیزیں نہ ہونگی اسکاکوئی عمل صحیح نہیں ہوگا: پرہیزگاری جو اسے خدا کی نافرمانی سے باز رکھے ، اخلاق کہ جسکے سبب لوگوں کےساتھ مہربانی سے پیش آئے اور بردباری کہ جسکے ذریعہ جاہل کی جہالت کا جواب دے۔

1106۔ امام علی (ع): اپنے غیظ و غضب کو دور کروتاکہ رسوائی سے محفوظ رہو، اگر کوئی جاہل تمہارے ساتھ نادانی کرے تو ضروری ہے کہ تمہاری بردباری اس پر حاوی ہو۔

۱۹۲

1107۔ امام علی (ع):نے ۔ اپنے بیٹے اما م حسن ؑکو وصیت میں۔ فرمایا: میں تم کو وصیت کرتا ہوںکہ دوسروں کے گناہوںکو بخش دینا، غصہ کو پی جانا، صلہ رحم کرنا اور جاہل کے ساتھ بردباری کا مظاہرہ کرنا۔

1108۔ امام علی (ع): جاہل کو برداشت کرنا صدقہ ہے ۔

1109۔ امام علی (ع): مومن بردبار ہوتا ہے اور نادانی نہیں کرتا اور جب اس کے ساتھ کوئی نادانی کرتا ہے تو وہ بردباری کا ثبوت پیش کرتاہے ۔

1110۔ موسیٰ ؑ بن محمد محاربی : ایک شخص سے نقل کرتے ہیں: مامون نے امام رضا(ع) سے کہا: کیا آپ شعر نقل کرتے ہیں؟ فرمایا: مجھے بہت سارے اشعار یاد ہیں۔ اس نے کہا: بردباری کے متعلق کوئی بہترین شعر مجھے سنائےںامام (ع) نے فرمایا:

میں اپنے سے پست انسان کی جہالت کا شکار ہوں، میں نے اپنے نفس کو روک رکھا ہے کہ اس کا جواب جہالت سے دے، اگر عقلمندی میں اپنے مانند کسی کو پاؤں تو بردباری کاثبوت دوں؛ تاکہ میں اپنے مثل سے بلند ہو جاؤں؛ اور اگر علم و عقل میں ، میں اس سے کمتر ہوں تو اس کے لئے حق تقدم کا قائل ہوں۔

مامون نے کہا: کیا خوب شعر ہے؛ کس نے کہاہے؟! امام رضا(ع) نے فرمایا:ہمارے بعض جوانوں نے۔

۱۹۳

د: تعلیم

1111۔ امام کاظم (ع): نے ۔ ہشام بن حکم ۔ سے فرمایا: اے ہشام! جو کچھ نہیں جانتے اسے سیکھو؛ اور جو سیکھ لیا ہے اسے جاہل کو سکھاؤ، عالم کو اس کے علم کے سبب عظیم سمجھو اور اس سے جھگڑا نہ کرو اور جاہل کو اسکی نادانی کے سبب چھوٹا سمجھو، اس کو جھڑکو نہیں بلکہ خود سے قریب کرو اور تعلیم دو۔

1112۔ اما م صادق(ع): میںنے علی (ع) کی کتاب میں پڑھا ہے کہ خدا نے جاہلوں سے علم سیکھنے کا عہد و پیمان اس وقت تک نہیں لیا جب تک کہ علماء سے انہیں سکھانے کا عہد نہیں لے لیا، اس لئے کہ علم کا وجود جہالت سے پہلے ہے ۔

ھ: عدم اعتماد

1113۔ امام علی (ع): اپنے عقلمند دشمن پر اپنے نادان دوست سے زیادہ اعتماد کرو۔

1114۔ امام علی (ع):جو عاقل نہیں ہے اس کے عہد و پیمان پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔

و: نافرمانی

1115۔امام علی (ع): جاہل کی نافرمانی کرو تاکہ محفوظ رہو۔

۱۹۴

ز: اعراض

قرآن

(آپ عفو کا راستہ اختیار کریں نیکی کا حکم دیں اور جاہلوں سے کنارہ کشی کریں)

حدیث

1116۔ رسول خدا(ص): سب سے بڑا حکیم وہ ہے جو جاہل انسانوںسے فرار کرتا ہے ۔

1117۔ رسول خدا(ص):لوگ دو طرح کے ہوتے ہیں: مومن اور جاہل ، مومن کو اذیت نہ دو اور جاہل کی ہمنشینی اختیار نہ کرو۔

1118۔ امام علی (ع): نے ۔ امام حسن ؑسے اپنی وصیت میں ۔ فرمایا: کفر ان نعمت پستی ہے اور جاہل کی ہمنشینی نحوست ہے ۔

1119۔ امام علی (ع): ۔ آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے ۔ جاہل کی قربت اور اسکی ہمسائیگی تم کو اپنے شر سے محفوظ نہیںرکھتی، چوںکہ آگ سے جتنا زیادہ قریب ہوگے جلنے کا خطرہ اتنا ہی زیادہ ہوگا۔

1120۔ اما م علی (ع): جو عقل سے محروم ہے اسکی صحبت اختیار نہ کرو اورجو صاحب حسب و نسب نہیں ہے اس کو اپنا خاص نہ بناؤ کیوں کہ جو عقلمند نہیںہے وہ تم کو اپنے خیال میں فائدہ پہنچانے کے بجائے ضرر پہنچا ئیگا، اور جو صاحب حسب و نسب نہیںہے وہ اس کے ساتھ بھی برائی کرتا ہے جو اس کے ساتھ نیکی کرتا ہے ۔

1121۔ امام علی (ع):جو عقل سے محروم ہے اس سے نیکی کی امید نہ رکھواور جو بے نسب ہے اس پر اعتماد نہ کرو اس لئے کہ جو عقلمند نہیں ہے وہ اپنے خیال میں خیر خواہی کرتا ہے حالانکہ اس سے نقصان پہنچتا ہے اور بے نسب اصلاح کرنے کے بجائے تباہ کرتا ہے ۔

۱۹۵

1122۔ امام علی (ع): بدترین شخص کہ جس کی تم ہمنشینی اختیار کرتے ہو وہ جاہل ہے ۔

1123۔ امام علی (ع): بدترین دوست جاہل ہے ۔

1124۔ امام علی (ع): جاہل سے قطع تعلق ہونا عقلمند سے وابستہ ہونے کے برابر ہے ۔

1125۔ امام علی (ع): عاقل سے بچو جب تم اس کو غضبناک کردو، کریم سے بچو جب تم اسکی اہانت کرو، حقیر و پست سے بچو جب تم اس کا احترام کرو اور جاہل سے بچو جب تم اس کے ہمنشیں ہو جاؤ۔

1126۔ امام علی (ع): نادان کا دوست معرض ہلاکت میں ہوتا ہے ۔

1127۔ امام علی (ع): نادان کا دوست تباہی کے دہانے پر ہوتا ہے ۔

1128۔ امام عسکری:ؑ نادان کا دوست غمگین رہتا ہے ۔

1129۔ اما م کاظم (ع): عالم سے مزبلہ پر گفتگو ، جاہل سے گرانبہافرش پر گفتگو کرنے سے بہترہے ۔

1130۔ امام رضا(ع): نے ۔ محمد بن سنان کو ایک خط میں۔ تحریر فرمایا: خدا نے ہجرت کے بعد بادیہ نشینی کو حرام کر دیا تاکہ کوئی دین سے نہ پھرے ، انبیاء اور پیشواؤں کی نصرت کرنے سے گریز نہ کرے اس لئے کہ یہ (حرمت) تباہی و بربادی اور صاحبان حق کے حقوق کی پامالی کی وجہ سے ہے نہ اس جہت سے کہ بادیہ نشینی ناروا ہے ، لہذا اگر کوئی شخص دین سے مکمل طور پر آگاہ ہو تو اس کے لئے مناسب نہیں ہے کہ جاہلوںکے درمیان سکونت پذیر ہو اور اس چیز کا بھی خوف ہے کہ وہ کہیں علم کو چھوڑ کر جاہلوںکے جرگے میں پھنس جائے اور اس میں بہت آگے بڑھ جائے۔

۱۹۶

چھٹی فصل پہلی جاہلیت

6/1

مفہوم جاہلیت

قرآن

( اور پہلی جاہلیت جیسا بناؤ سنگار نہ کرو)

( اور ہم نے انہیں ایسی کتابیں نہیں عطا کی ہیں جنہیں یہ پڑھتے ہوں اور نہ ان کی طرف آپ سے پہلے کوئی ڈرانے والا بھیجا ہو)

( اور آپ طور کے کسی جانب اس وقت نہیں تھے جب ہم نے موسیٰ کو آواز دی لیکن یہ آپ کے پروردگار کی رحمت ہے کہ آپ اس قوم کو ڈرائیںجسکی طرف آپ سے پہلے کوئی پیغمبر نہیں آیا ہے کہ شاید وہ اس طرح عبرت و نصیحت حاصل کر لیں)

حدیث

1131۔رسول خدا(ص): اعمال میں ضعف اور لوگوں کی جہالت کی بنا پر جاہلیت کہا گیا ہے ...بیشک اہل جاہلیت غیر خدا کی عبادت کرتے تھے ، ان کے لئے آخرت میں ایک مدت ہوتی تھی جہاں تک وہ پہنچتے تھے اور اسکی ایک انتہا ہوتی تھی جہاں تک وہ جاتے تھے اور ان کے عقاب روز قیامت تک ٹال دیا گیا تھا، خدا نے ان کواپنی قدرت و بزرگی اور عزت کی بنا پر مہلت دے دی تھی لہذا قدرتمند ، کمزوروں پر مستلط ہوئے اور بڑے ، چھوٹوں کو اس دوران کھا گئے ۔

۱۹۷

1132۔ جعفر بن ابی طالب نے ۔ اپنی قوم کی حبشہ کے بادشاہ نجاشی سے اسطرح تعریف کی: اے بادشاہ! ہم لوگ جاہل تھے ، بتوںکی پرستش کرتے تھے مردار کھاتے تھے، برائیوںکا ارتکاب کرتے تھے ، قطع رحم کرتے تھے۔ اور پڑوسیوںکےساتھ بدسلوکی کرتے تھے، ہم میں سے قدرتمند کمزور کو کھاجاتا تھا، ہماری یہی کیفیت تھی کہ اللہ نے ہماری طرف ہمیں میں سے رسول بھیجا کہ ہم جسکے نسب، صداقت، امانت اور پاکدامنی سے واقف ہیں، اس نے ہمیں اللہ کیطرف دعوت دی تاکہ ہم اسکی وحدانیت کے قائل ہو جائیںاور اسکی عبادت کریں، اورجن چیزوںجیسے پتھر اور بت وغیرہ کی ہم اور ہمارے آباء و اجداد پرستش کیا کرتے تھے، انہیں چھوڑ دیں اور ہمیں سچ بولنے، ادائے امانت، صلہ رحم، پڑوسی کےساتھ نیکی، محرمات اور خونریزی سے پرہیز کرنے کا حکم دیا، ہمیں برائیوں، باطل کلام ،یتیم کا مال کھانے اور پاکدامن پر بہتان لگانے سے منع فرمایا۔ہمیں حکم دیا کہ ہم صرف اللہ کی عبادت کریں اور اسکے ساتھ کسی کو شریک قرار نہ دیں، ہمیں نماز و زکات اور روزہ کا حکم دیا...پس ہم نے اسکی تصدیق کی اور اس پر ایمان لے آئے، وہ جو کچھ لیکر آئے تھے ہم نے اسکی اتباع کی، ہم نے صرف خدا کی عبادت کی اور اسکے ساتھ کسی کو شریک قرار نہ دیا اور ہم پر جو حرام کیا تھا ہم نے اسے حرام جانا اور جو حلال کیاتھا ہم نے اسے حلال جانا، لہذا ہماری قوم نے ہم پر ستم کیا، ہمیں عذاب دیا اور ہمیں ہمارے دین سے پلٹانے کےلئے شکنجے دئے، تاکہ ہم خدا کی عبادت سے بت پرستی کی طرف پلٹ آئیں اور جن بری چیزوںکو حلال جانتے تھے انہیں دوبارہ حلال سمجھیں۔

1133۔ امام علی (ع): اما بعد! اللہ نے حضرت محمد مصطفیٰ(ص) کو اس دور میں بھیجا ہے جب عرب میں نہ کوئی کتاب پڑھنا جانتا تھا اور نہ نبوت اور وحی کا ادعاء کرنے والا تھا۔

1134۔ امام علی (ع): خدا نے انہیں اس وقت بھیجا جب انبیاء کا سلسلہ موقوف تھا اوربد عملی کا دور دورہ تھا اور امتیں غفلت میں ڈوبی ہوئی تھیں۔

۱۹۸

1135۔ امام علی (ع): میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اﷲکے بندہ اور رسول ہیں۔ انہیںاس وقت بھیجا جب ہدایت کے نشانات مٹ چکے تھے، دین کے راستے بے نشان ہوچکے تھے، انہوںنے جنکا واشگاف اندازسے اظہار کیا، لوگوںکو نصیحت کی ۔

1136۔ امام علی (ع): خدا نے انہیں اس وقت مبعوث کیاجب نہ کوئی نشان ہدایت تھا نہ کوئی منارئہ دین روشن تھا اور نہ کوئی راستہ واضح تھا۔

1137۔ امام علی (ع): اسکے بعد مالک نے آنحضرؐت کو حق کےساتھ مبعوث کیا جب دنیا فنا کی منزل سے قریب تر ہوگئی اور آخرت سر پر منڈلانے لگی دنیا کا اجالا اندھیروں میں تبدیل ہونے لگا اور وہ اپنے چاہنے والوںکےلئے ایک مصیبت بن گئی، اسکا فرش کھردرا ہوگیا اور وہ فنا کے ہاتھوں میں اپنی مہاردینے کےلئے تیار ہوگئی، اسطرح کہ اسکی مدت خاتمہ کے قریب پہنچ گئی اسکی فنا کے آثار قریب آگئے ،اسکے اہل ختم ہونے لگے اسکے حلقہ ٹوٹنے لگے، اس کے اسباب منتشر ہونے لگے، اسکے نشانات مٹنے لگے ، اسکے عیب کھلنے لگے ، اور اسکے دامن سمٹنے لگے۔

1138۔ امام علی (ع): اللہ نے انہیں اس وقت بھیجا جب لوگ گمراہی میں متحیر تھے اور فتنوں میں ہاتھ پاؤں مار رہے تھے ، خواہشات نے انہیں بہکا دیا تھا اور غرور نے ان کے قدموںمیں لغزش پیدا کر دی تھی جاہلیت نے انہیں سبک سر بنا دیاتھا، اور وہ غیر یقینی حالات اور جہالت کی بلاؤں میں حیران و سرگرداں تھے ، آ پ نے نصیحت کا حق ادا کر دیا ، سید ھے راستہ پر چلے اور لوگوںکو حکمت اور موعظہ حسنہ کی طرف دعوت دی۔

۱۹۹

1139۔ امام علی (ع): اے لوگو! اللہ نے تمہاری طرف رسول بھیجا اور ان پرحق کےساتھ کتاب نازل کی، حالانکہ اس وقت تم کتاب اور جو کچھ اس نے نازل کیا ہے اور رسول اور اسکے بھیجنے والے سے بیگانہ تھے اس وقت جبکہ ابنیاء کا سلسلہ موقوف تھااور امتیں خواب غفلت میں پڑی ہوئی تھیں، جہالت کا دور دورہ تھا، فتنے چھائے ہوئے تھے، محکم عہد و پیمان توڑے جارہے تھے، لوگ حقیقت سے اندھے تھے، جور و ستم کے سبب منحرف تھے، دینداری زیر پردہ تھی، جنگ کے شعلے بھڑک رہے تھے باغات دنیا کے گلستان پژمردہ ہوگئے تھے، انکے درختوں کی شاخیں خشک ہو چکی تھیں، باغ زندگی کے پتوں پر خزاں تھی، ثمرات حیات سے مایوسی پیدا ہو چکی تھی، پانی بھی تہ نشیںہو چکا تھا، ہدایت کے پرچم بھی سرنگوںہوچکے تھے اور ہلاکت کے نشانات بھی نمایاں تھے۔

یہ دنیا اپنے اہل کو ترش روئی سے دیکھ رہی تھی اور ان کی طرف پیٹھ کئے ہوئے تھی اور منہ بگاڑ کر پیش آرہی تھی اس کا ثمرہ فتنہ تھا اور اسکی غذا مردار ، اس کا اندرونی لباس خوف تھا اور بیرونی لباس تلوار، تم لوگ ٹکڑے ٹکڑے ہو چکے تھے ، اہل دنیا کی آنکھیں اندھی ہو چکی تھیں، ان کی تمام زندگی تاریک ہو چکی تھی، اپنے عزیز و رشتہ دار سے قطع تعلق کر چکے تھے، ایک دوسرے کا خون بہاتے تھے، اپنی نو زاد بچیوں کو زندہ در گور کر دیتے تھے، خوشحال زندگی اور عیش و آرام ان کے درمیان سے رخت سفر باندھ چکا تھا نہ خدا سے ثواب کی امید رکھتے تھے اور نہ ہی اس کے قہر و غضب سے ڈرتے تھے، ان کے زندہ اندھے اور ناپاک تھے، اور مردے آگ کے اندر لڑھک رہے تھے، پھر اس کے بعد رسول خدا اولین کی کتابوں سے ایک نسخہ لیکر آئے اور جو کچھ اس کے پاس حق و حقیقت تھی اسکی تصدیق کی اور حلال و حرام کو اچھی طرح سے جداکیا۔

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

بالخصوص بچّوں اورنوجوانوں کو تاکید کی کہ ان درختوںکی حفاظت کریں اوردیکھتے رہیں اورفرمایا کہ یہ درخت تم سب کے ہیں کس کو حق نہیں پہنچتا کہ اس عمومی درخت کو کووئی گزند پہنچائے ہوشیار رہنا کہ کوئی اس کی شاخیں نہ کاٹے کہ یہ گناہ بھی ہے، ہوشیار رہنا کہ حیوانات ان درختوں کوضرر نہ پہنچائیں جب سے ہم نے یہ سمجھا ہے کہ ہمارے پیغمبر (ص) شجر کاری کو پسند فرماتے ہیںجس کے نتیجے میں ہمارا گاؤں سرسبز اورمیوے دارباغوں سے پر ہوچکا ہے اس عالم کی رہنمائی اورلوگوں کی مدد سے اب حمام بھی صاف وستھرا ہوگیا ہے اورمسجد پاک و پاکیزہ ہے ایک اچھی لائبریری اورایک ڈسنپسری تمام لوازمات کے ساتھ یہاں موجودہے اوراس گاؤں کے چھوٹے بڑے لڑکے لڑکیاں پڑھے لکھے صاف و ستھرے ہیںجب میرے چچازاد بھائی کی بات یہاں تک پہنچی تو میںنے کہا کہ میں اس عالم دین اورتم کو اور تمام گاؤں میں رہنے والوں کو آفرین اور شاباش کہتا ہوں اے کاش تمام دیہات کے لوگ اور دوسرے شہروں کے لوگ بھی تم سے دینداری اور اچھی زندگی بسر کرنے کا درس لیتے_

سوالات

۱)___ آپ اپنے گھر کی کثافت اور گندگی کو کیا کرتے ہیں؟

۲۶۱

۲)___ جو شخص اپنے گھر کی گندگی نالی وغیرہ میں ڈالے تو اسے کیا کہتے ہیں اوراس کی کس طرح رہنمائی کریں گے؟

۳)___ جو شخص اپنے گھر کی گندگی کوچے یا سڑک پر ڈالتا ہے تو اسے کیا کہتے ہیں پیغمبر اسلام(ص) کی کونسی فرمائشے اس کے سامنے بیان کریں گے؟

۴)___ سڑک گلی کوچوں اور اپنے رہنے کی جگہ کو صاف رکھنے کیلئے کون سے کام انجام دینے چاہیں؟

۵)___ ہمارے پیغمبر اسلام(ص) نے شجرکاری کے متعلق کیا فرمایا ہے؟

۶)___ آپ درخت لگانے کے لئے کیا کوشش کرسکتے ہیں؟

۷)___ آپ عمومی درختوں کی حفاظت اور نگاہ دی کس طرح کرتے ہیں؟

۸)___ اب تک آپ نے کتنے درخت لگائے ہیں؟

۲۶۲

پانچواں سبق

جھوٹ کی سزا

ہم نے ایک دن سیر کا پروگرام بنایا اورہر ایک اپنے ساتھ کچھ خوراک لے آیا ادہر کلاس کی گنھٹی بجی سب خوش خوش ہنستے کھیلتے کلاس میں گئے منتظر تھے کہ استاد کلاس میں آئیں اور سیر کو جانے کے پروگرام کو بتلائیں_ سوچ رہے تھے کہ آج کتنا اچھا دن ہوگا ایک موٹر سیر کے لئے کرائے پر لے رکھی تھی وہ بھی آگئی اور مدرسہ کے دروازے کے سامنے کھڑی ہوگئی کلاس کے مانیٹر صاحب آج غیر حاضر تھے ہم جماعت لڑکیوں میں سے ایک لڑکا کہ جس کا نام حسن مانیٹر تھا استاد کی میز کے سامنے گیا اور کہا لڑکو لڑکو، میں اب مانیٹر کی جگہ ہوں جب استاد آئیں گے تو میں کہوں گا کھڑے ہوجاؤ تو تمام منظم طریقے سے کھڑے ہوجانا اور یاد رکھنا جو منظم طریقے سے

۲۶۳

کھڑا نہ ہوگا اسے استاد سیر کو نہیں لے جائیں گے تمام لڑکے چپ بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک حسن نے کہا کھڑے ہوجاؤ تمام لڑکے مؤدّب اور منظّم طریقہ سے کھڑے ہوگئے کلاس کا دروازہ کھلا ایک لڑکا جو آج دیر سے آیا تھا وہ اندر داخل ہوا_ حسن بلند آواز سے ہنسا اور اس کے کہا لڑکو میں نے مذاق کیا ہے بیٹھ جاؤ تھوڑا سا وقت گزر ا تھا تمام لڑکے استاد کے آنے کا انتظار کر رہے تھے حسن نے کلاس کے دروازے پر نگاہ کی اور چپ کھڑا ہوگیا اور اس کے بعد بلند آواز سے کہا کھڑے ہوجاؤ تمام لڑکے کھڑے ہوگئے کلاس کا دروازہ آرام سے کھلا_ تیسری کلاس کے ایک لڑکے نے جو اپنے بھائی کا بستہ لایا تھا کہ اسے یہاں دے جائے اس نے بھائی سے کہا کہ کیوں اپنا بستہ آج ساتھ نہیں لائے تھے؟بھائی نے جواب دیا کہ آج سیر کو جانا تھا بستہ کی ضرورت نہیں تھی اس دفعہ ہم پھر بیٹھ گئے لیکن بہت ناراض ہوئے حسن پہلے تو تھوڑاسا ہنسا لیکن بعد میں کہا لڑکو مجھے معاف کرنا میں نے غلطی کی تھی تم بیٹھ جاؤ میں باہر جاتا ہوں تا کہ دیکھوں کہ آج استاد کیوں نہیں آئے حسن چلاگیا اور تھوڑی دیر کے بعد واپس لوٹ آیا اور کہنے لگا لڑکو سنو سنو استاد نے کہا ہے کہ آج سیر کو نہیں جائیں گے لڑکوں کا شور بلند ہوا آپ نہیں سمجھ سکتے کہ لڑکے کتنے ناراض ہوئے اسی اسی حالت میں کلاس کا دروازہ کھلا حسن نے کلاس کے دروازے کی طرف دیکھا اور اپنے آپ کو سنبھالا اور کہا کھڑے ہوجاؤ

۲۶۴

کھڑے ہوجاؤ کوئی بھی نہ اٹھا سب نے کہا حسن جھوٹ بول رہا ہے جھوٹ کہہ رہے ہے لیکن اس دفعہ استاد کلاس میں داخل ہوچکا تھا اور کلاس کے دروازے کے پیچھے حسن کی گفتگو کو سن چکا تھا اس سے کہا کہ کس نے آپ کو کہا ہے کہ آج سیر کو نہیں جائیں گے کیوں میری طرف جھوٹ کی نسبت دی ہے حسن اپنا سر نیچے کئے ہوئے تھا اس نے کوئی جواب نہیں دیا استاد نے کہا لڑکو سب مدرسہ کے صحن میں چلے جاؤ اور قطار بناؤ تا کہ موٹر پر سوار ہوں ہم بہت خوش ہوئے مدرسے کے صحن میں گئے اور قطار بنائی اور اپنی اپنی باری پر موٹر میں سوار ہوگئے_ لیکن جب حسن موٹر پر سوار ہونا چاہتا تھا تو استاد نے اسے کہا___تم ہمارے ساتھ سیر کو نہیں جاسکتے ہم جھوٹے طالب علم کو ساتھ نہیں لے جاسکتے حسن نے رونا شروع کردیا استاد کا ہاتھ پکڑا اور کہا کہ میں نے غلطی کی ہے مجھے معاف کردیں اور بہت زیادہ اصرار کیا استاد نے کہا اے حسن میں تمہارے اس چلن سے بہت ناراض ہوں بہتر یہی ہے کہ ہمارے ساتھ سیر کولے جائیں تو اس وقت میں تمہیں اپنے ساتھ سیر کو لے جاؤں گا کیونکہ تمام لڑکے حسن کی دروغ گوئی سے ناراض ہوچکے تھے استاد سے انہوں نے کچھ نہ کہا اور کسی بچّے نے بھی استاد سے اس چیز کی درخواست نہ بلکہ بعض آہستہ سے کہہ رہے تھے کہ ہم نہیں _چاہتے کہ حسن ہمارے ساتھ سیر کو جائے

۲۶۵

استاد بھی موٹر پر سوار ہوگئے موٹر بچّوں کی مسرّت آمیز آواز میں مدرسے سے دور نکل گئی چوتھی کلاس کے لڑکوں میں سے صرف حسن مدرسہ میں رہ گیا چونکہ جھوٹ بولتا تھا ا سی لئے اپنی عزّت اور احترام کو کھو بیٹھا اور سیر سے بھی محروم ہوگیا یہ تو تھا اس دنیا کا نتیجہ لیکن آخرت میں جھوٹوں کی سزا سخت اور دائمی ہے_

ہمارے پیغمبر (ص) نے فرمایا مسلمان اورایمان دار شخص کبھی جھوٹ نہیں بولتا_

امام سجّاد (ع) نے فرمایا ہے جھوٹ سے بچو خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا خواہ مذاق میں ہو یا بالکل حقیقت ہو_

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے جھوٹ ایمان کو برباد اور ویران کردیتا ہے_

سوالات

۱)___ لڑکوں نے تمام واقعات میں حسن کی بات کوسچ سمجھا اور کیوں؟

۲)___ کیا لوگ جھوٹے کی بات پراعتماد کرتے ہیں اور کیوں؟

۳)___ کیا بتلا سکتے ہیں کہ طالب علم جو سیر کو گئے تھے کتنے تھے اور حسن کے ساتھ کتنے دوست تھے؟

۲۶۶

۴)___ آیا کوئی آدمی جھوٹے کے ساتھ دوستی کرتا ہے اور کیوں؟

۵)___ آپ کی نگاہ میںاگر حسن کو سیر پر لے جاتے تو بہتر نہ ہوتا اور کیوں؟

۶)___ اگر کوئی مزاح میں بھی جھوٹ بولتے تو اس کی کس طرح رہنمائی کریں گے اور اس سے کیا کہیں گے؟

۷)___ کیا مزاح میں جھوٹ بولنا برا اور گناہ ہے اور کیوں ؟

۸)___ آپ کی نگاہ میں حسن کیوں جھوٹ بولتا تھا؟

۹)___ جھوٹ ایمان کو ویران کردیتا ہے_ کا کیا مطلب ہے؟

۲۶۷

چھٹا سبق

سڑک سے کیسے گزریں

مدرسے میں چھٹی ہوئی لڑکے کی طرف روانہ ہوگئے پیدل چلنے کی جگہ پر بہت بھیڑ تھی جواد نے اپنے دوست رضا سے کہا کتنی بھیہڑ ہے یہاں تو چلنا بہت مشکل ہے آؤ سڑک کے کنارے چلیں رضا نے کہا سڑک موٹروں کے آنے جانے کی جگہ ہے پیدل چلنے والوں کے لئے نہیں سڑک پر چلنا خطرناک ہوتا ہے اور رائیوروں کے لئے بھی مشکل پیدا ہوجاتی ہے اللہ اس کو دوست نہیں رکھتا جو دوسروں کے لئے مشکلات پیدا کریں جواد نے کہا یہ تم کیا کہہ رہے ہو یہاں اس بھیر میں تو نہیں چلا سکتا خدا حافظ میں چلا یعنی سڑک کے ساتھ چلنے کے لئے یہ کہا اور رضا سے علی حدہ ہوگیا اور جلدی سے سڑک کے کنارے تیزی سے دوڑ نے لگا جواد

۲۶۸

سچ کہہ رہا تھا کہ فٹ پاتھ پر پیدل چلنے والوں کی بھیڑ تھی وہ تو اتنی جلدی سے نہیں چل سکتا ہے وہ چاہتا تھا کہ گھر جلدی پہنچ جائے_ رضا نے جب دیکھا کہ اس کا دوست بہت جلدی میں اس سے دور نکل گیا ہے تو اس نے سوچا کہ وہ بھی سڑک پر چلاجائے اور جواد سے پیچھے نہ رہ جائے لیکن اسے یاد آیا کہ اس نے تو خود جواد سے کہا تھا کہ خدا پسند نہیں کرتا کہ دوسروں کے لئے مشکلات پیدا کی جائیں اور سڑک پر چلنا خطرناک ہے اور ڈرائیوروں کے لئے مشکلات اور زحمت پیدا ہوجاتی ہے_ اسی سوچ میں تھا کہ بریک کی ایک مہیب آواز سنائی دی لوگ موٹر کی طرف دوڑے لیکن تھوڑی سی دیر بعد اس موٹر نے حرکت کی اور چلی گئی لوگ کہہ رہے تھے کہ خطرناک ایکسیڈنٹ تھا شاید کوئی مرگیا ہوگا اللہ کرے کہ ہسپتال تک جائے زندہ رہے رضا نے لوگوں کی یہ باتیں سنیں اور چند منٹ کے بعد گھر پہنچ گیا تھوڑا سا وقت گزرا تھا گویا ایک گھنٹہ_ جواد کی ماں رضا کے گھرآئی اور رضا سے پوچھا کہ جواد کو تو نہیں دیکھا تھا ابھی تک وہ نہیں آیا رضا نے کہا کہ جواد کہہ رہا تھا کہ مجھے کچھ کام ہے میں چاہتا ہوں کہ گھر جلدی جاؤں مجھ سے الگ ہوگیا اور جلدی میں سڑک پر دوڑنے لگا اسے ایکسیڈنٹ یاد آیا تو کہا اوہ: شاید جواد کا ایکسیڈنٹ ہوا ہے جواد کی ماں نے کہا ایکسیڈنٹ؟ تو پھر میرا لڑکا اب کہاں ہے؟ جواد نے کہا کہ میں نے کچھ نہیں دیکھا صرف سنا تھا کہ لوگ کہہ رہے تھے کہ ہسپتال لے گئے ہیں_ جواد کی ماں ہسپتال دوڑی گئی اور پوچھا کہ

۲۶۹

میرے بیٹے جواد کو یہاں لائے ہو کہا گیا کہ تمہارے لڑک کو دوگھنٹے پہلے یہاں لائے تھے آؤ اس کو دیکھو جواد کی ماں نے اسے دیکھا جواد تھا لیکن خونی چہرے کے ساتھ بستر پر لیٹا ہوا تھا_ دو دن کے بعد رضا اپنی ماں کے ساتھ اس کی عیادت کے لئے گیا جواد بستر پر سویا ہوا تھا اسے پلستر کیا گیا تھا اور اس کا تمام جسم درد کر رہا تھا ایک مہینے کے بعد بیسا کھی کی مدد سے مدرسہ گیا اور کلاس میں شریک ہوا استاد اور تمام ہم کلاس لڑکے اسے دیکھ کر خوش ہوئے اور اس حادثہ کے متعلق سوال کیا_

استاد نے کلاس کے لڑکوں کے سامنے اسکی وضاحت کی اور کہا کہ اس قسم کے حادثات سے بچنے کے لئے ٹریفک کے قواعد اور قوانین کی پابندی کی جائے کیونکہ ٹرفیک کے قوانین تمام دنیا میں خطرات کو کم کرنے کے لئے بنائے گئے ہیں جواد چاہتا تھا اکہ گھر جلدی پہنچ جائے لیکن ٹریفک کے قوانین کی خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے ہر روز کی نسبت وہ دیر سے گھر پہنچا حالانکہ اگر پیدل چلنے والی جگہ سے جاتا تو اس سے بہت زیادہ جلدی گھر پہنچ جاتا آپ جب بھی سڑک کی دوسری طرف جانا چاہیں تووہاں سے جائیں جہاں سفید خطوط بنائے گئے ہیں یاچوک کے نزدیک احتیاط سے دوسری طر ف جائیں سڑک پر دوڑ کرنہ جائیں اورکبھی بھی سڑک کے وسط میں نہ چلیں_

پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا ہے کہ راستے کے وسط میں جانا

۲۷۰

سوار لوگوں کے لئے ہے سوار انسان پیدل چلنے والوں پرتقدم کاحق رکھتا ہے_

سوالات

۱)___ حق تقدم کا کیا مطلب ہے کن لوگوں کو راستہ چلتے وقت تقدم کا حق ہے ہمارے پیغمبر (ص) نے اس کے متعلق کیا فرمایا ہے پیدل چلنے والوں کا حق سڑک پر کس طرف ہے؟

۲)___ جواد کا ایکسیڈنٹ کیوں ہوا اوررضانے اس سے کیا کہا تھا اگر رضا کی بات کومان لیتا توگھر کیسے پہنچ جاتا_

۳)___ جب کسی سڑک کو عبور کرنا چاہیں تو کس طرح اور کہاں سے عبور کریں گے؟

۴)___اس قسم کے حادثہ سے بچنے کے لئے کس قسم کی احتیاط کی ضرورت ہے؟

۵)___ ٹریفک کے بعض قوانین جو آپ جانتے ہیں بیان کریں؟

۶)___ جب جواد اپنی کلاس میں گیا تو استاد نے کس موضوع کو وضاحت سے بیان کیا؟

۷)___ کیا تم پہلے سے ٹریفک کے قوانین کی پابندی کرتے

۲۷۱

تھے؟ اور اب کیسے؟ ان کی پابندی کی کوشش کریں

ہم آپ کو مبارک باد دیتے ہیں کہ آپ نے یہ کتاب پڑھی ہے اور سمجھی ہے انشاء اللہ آپ اپنی زندگی میں اس پر عمل کریں گے کتنا اچھا ہے کہ آپ اپنے مخلص دوستوں کو بھی کہیں اس کتاب کو حاصل کر کے پڑھیں اور اس کی مشقوں کو حل کریں اور انہیں اچھی طرح یاد کریں اور جن کو یاد کرلیا ہے اسے اپنی زندگی کے لئے آئین قرار دیں اور اس پر عمل کریں_

۲۷۲

فہرست

عرض ناشر ۴

حصّہ اوّل ۷

خداشناسی ۷

پہلا سبق ۸

خدا خالق کائنات ۸

سوچو ا ور جواب دو ۱۰

تجزیہ کیجئے اور غور کیجئے ۱۱

تجزیہ کیجئے اور غور کیجئے ۱۲

تجربہ کیجئے اور فکر کیجئے ۱۲

دوسرا سبق ۱۴

خدا کی بہترین تخلیق_ پانی ۱۴

تجربہ کر کے غور کیجئے ۱۵

سوچئے اور خالی جگہیں پر کیجئے ۱۶

تیسرا سبق ۱۷

سیب کا درخت خداشناسی کا سبق دیتا ہے ۱۷

فکر کیجئے اور جواب دیجئے ۱۸

چوتھا سبق ۲۰

نباتات کے سبز پتے یا خداشناسی کی عمدہ کتابیں ۲۰

غور کیجئے اور جواب دیجئے ۲۲

۲۷۳

تجربہ اور تحقیق کیجئے ۲۲

مشق ۲۲

پانچواں سبق ۲۳

تجربے کی روش خداشناسی کا سبق دیتی ہے ۲۳

کیا بتلا سکتی ہو کہ غذا کسے راستے سے معدہ میں جاتی ہے؟ ۲۴

غور کریں اور جواب دیں ۲۶

چھٹا سبق ۲۸

خدا کی قدرت کے آثار اور اس کی علامتیں ۲۸

نظام تنفس اور دوران خون ۲۹

بہت غور سے ان سوالوں کا جواب دیجئے ۳۲

اس سے کیا سمجھتے ہیں؟ ۳۴

ساتواں سبق ۳۵

عالم و قادر خدا ۳۵

اس سبق کے متعلق آپ خود سوال بنائیں ۳۶

اور مشقیں بھی آپ خود بتلائیں ۳۷

آٹھواں سبق ۳۸

خدا جسم نہیں رکھتا ۳۸

کیا آپ جانتے ہیں جسم کیا ہے؟ ۳۸

''فکر کیجئے اور جواب دیجئے'' ۴۰

مشقیں ۴۰

۲۷۴

نواں سبق ۴۱

کیا خدا غیر مرئی ہے ۴۱

فکر کیجئے اور جواب دیجئے ۴۲

دسواں سبق ۴۳

موحّدین کے پیشوا حضرت ابراہیم (ع) ۴۳

غور کریں اور جواب دیں ۴۶

حصّہ دوم معاد ۴۸

حصّہ دوم معاد ۴۸

پہلا سبق ۴۹

کیا اچھائی اور برائی برابر ہیں ۴۹

اب ان سوالوں کے جواب دیں_ ۴۹

غور کیجئے اور جواب دیجئے ۵۱

دوسرا سبق ۵۲

پھول کی تلاش ۵۲

جزاء کا دن ۵۴

غور کیجئے اور جواب دیجئے ۵۶

تیسرا سبق ۵۸

جہان آخرت عالم برزخ اور قیامت ۵۸

برزخ میں سوال و جواب ۶۰

غور کیجئے او رجواب دیجئے ۶۱

۲۷۵

چوتھا سبق ۶۲

مردے کیسے زندہ ہونگے ۶۲

غور کیجئے اور جواب دیجئے ۶۴

پانچواں سبق ۶۵

کس طرح ۶۵

ہماری زندگی کے کام ۶۶

غور کیجئے اور جواب دیجئے ۶۸

حصّہ سوم ۶۹

حصّہ سوم ۶۹

نبوّت ۶۹

پہلا سبق ۷۰

صراط مستقیم ۷۰

غور کیجئے اور جواب دیجئے ۷۱

اور کیوں وضاحت کیجئے؟ ۷۲

دوسرا سبق ۷۳

کمال انسان ۷۳

انسان کو بھی اپنے مقصد خلقت کوحاصل کرنا چاہیے کس طرح اور کس کے ماتحت؟ ۷۴

غور کیجئے اور جواب دیجئے ۷۵

تیسرا سبق ۷۶

راہنما کیسا ہونا چاہیئے ۷۶

۲۷۶

چوتھا سبق ۷۷

پیغمبر کو کیسا ہونا چاہیے ۷۷

پانچواں سبق ۷۸

اجتناب گناہ کا فلسفہ ۷۸

چھٹا سبق ۷۹

پیغمبر آگاہ اورمعصوم راہنما ہیں ۷۹

غور کیجئے اور جواب دیجئے ۸۰

ساتواں سبق ۸۲

اسے کیسے پہنچانتے ہیں اور اس سے کیا چاہتے ہیں ۸۲

آٹھواں سبق ۸۵

رسالت کی نشانیاں ۸۵

سوالات ۸۷

نواں سبق ۸۸

نوجوان بت شکن ۸۸

حضرت ابراہیم (ع) نمرود کی عدالت میں ۹۰

حضرت ابراہیم (ع) اور اتش نمرود ۹۳

غور کیجئے اور جواب دیجئے ۹۵

دسواں سبق ۹۷

حضرت موسی (ع) خدا کے پیغمبر تھے ۹۷

حضرت موسی (ع) فرعون کے قصر میں ۹۹

۲۷۷

آخری فیصلہ ۱۰۱

سوالات ۱۰۳

گیارہواں سبق ۱۰۵

پیغمبر اسلام (ص) قریش کے قافلے میں ۱۰۵

سوالات ۱۰۸

بارہواں سبق ۱۰۹

مظلوموں کی حمایت کا معاہدہ ۱۰۹

غور کیجئے اور جواب دیجئے ۱۱۱

تیرہواں سبق ۱۱۳

پیغمبر اسلام (ص) کی بعثت ۱۱۳

غور کیجئے اور جواب دیجئے ۱۱۶

چودہواں سبق ۱۱۸

اپنے رشتہ داروں کو اسلام کی دعوت ۱۱۸

سوالات ۱۲۲

پندرہواں سبق ۱۲۴

صبر و استقامت ۱۲۴

غور کیجئے اور جواب دیجئے ۱۲۶

سولہواں سبق ۱۲۸

دین اسلام کا تعارف ۱۲۸

سوالات ۱۳۱

۲۷۸

سترہواں سبق ۱۳۳

مظلوم کا دفاع ۱۳۳

غور کیجئے اور جواب دیجئے ۱۳۷

اٹھارہواں سبق ۱۳۹

خدا کا آخری پیغمبر حضرت محمد(ص) ۱۳۹

ان مطالب کو دیکھتے ہوئے مندرجہ ذیل جملے مکمل کیجئے ۱۴۰

انیسواں سبق ۱۴۳

قرآن اللہ کا کلام ہے ۱۴۳

بیسواں سبق ۱۴۷

قرآن پیغمبر اسلام(ص) کا دائمی معجزہ ہے ۱۴۷

سوالات ۱۴۸

غور کیجئے اور جواب دیجئے ۱۴۹

اکیسواں سبق ۱۵۰

سبق آموز کہانی دو بھائی ۱۵۰

ایک تربیتی کہانی ظالم حریص قارون ۱۵۳

خوشبختی اور سعادت کس چیز میں ہے ۱۵۵

حضرت موسی (ع) کی دعا قبول ہوئی ۱۵۸

غور کیجئے اور جواب دیجئے ۱۵۸

چوتھا حصّہ ۱۶۰

چوتھا حصّہ ۱۶۰

۲۷۹

امامت ۱۶۰

پہلا سبق ۱۶۱

پیغمبر کا خلیفہ اور جانشین کون ہوسکتا ہے ۱۶۱

پیغمبر(ص) کا جانشین کیسا ہونا چاہیئے ۱۶۲

دوسرا سبق ۱۶۳

پیغمبر کا جانشین امام معصوم ہوتا ہے ۱۶۳

سوالات ۱۶۴

تیسرا سبق ۱۶۵

عید غدیر ۱۶۵

سوالات ۱۶۸

چوتھا سبق ۱۷۰

شیعہ ۱۷۰

غور کیجئے اور جواب دیجئے ۱۷۲

پانچواں سبق ۱۷۳

آٹھویں امام حضرت امام رضا علیہ السلام ۱۷۳

چھٹا سبق ۱۷۶

اسراف کیوں؟ ۱۷۶

غور کیجئے اور جواب دیجئے ۱۷۹

ساتواں سبق ۱۸۰

نویں امام ''حضرت امام محمد تقی علیہ السلام ۱۸۰

۲۸۰

281

282

283

284

285