‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) جلد ۲

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) 13%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 285

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 285 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 120631 / ڈاؤنلوڈ: 4192
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

زائد مقدار کو ہمارے لیئے ذخیرہ کرلیتے ہیں_ گائے بھیڑ بکریاں بھی غذا کی محتاج ہیں وہ دانے اور سبز گھاس کھاتی ہیں اور ہمیں دودھ مکھن دہی گوشت اور پنیر دیتی ہیں مرغیاں بھی دانہ کھاتی ہیں اور ہمارے لئے گوشت اور انڈے بناتی ہیں_ تمام حیوانات اور جانور غذا کے محتاج ہیں_

ان تمام کی غذا سبز نباتات کے ذریعے بنتی ہے_ کوئی انسان او رحیوان نباتات کے بغیر اپنی غذا تیار نہیں کرسکتا_ بلکہ تمام نباتات کے محتاج ہیں_ انسان نباتات اور حیوانات کا محتاج ہے اور حیوانات نباتات کے محتاج ہیں اور نباتات غذا تیار کرنے میں پانی مٹی اور ہوا اور سورج کی روشنی کے محتاج ہیں_

اب دیکھیں کہ کس ذات نے سورج کو اس طرح پیدا کیا ہے کہ وہ دنیا پر چمکے اور روشنی اور طاقت (انرجی) دے تا کہ نباتات ہمارے لئے غذا تیار کرسکیں؟ کس ذات نے درختوں اور نباتات کو اس نظم اور ترتیب اور ارتباط سے پیدا کیا اور خوبصورت سبز پتّوں کو غذا بنانے کی طاقت عنایت فرمائی ہے_

وہ دانا اور توانا ذات خدا ہے کہ جو تمام چیزوں کا عالم ہے اور ہر کام پر قدرت رکھتا ہے_

وہ عالم اور توانا ذات ہمیں دوست رکھتی ہے کہ ہماری تمام ضروریات کو پیش بینی کرتے ہوئے پیدا کردیا ہے_ ہم بھی اسے دوست رکھتی ہیں اس کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں اس کے فرمان کو مانتے اور اس پر عمل کرتے ہیں_ خدا سے بہتر کون ہے جو ہماری زندگی کے لئے راہنما ہوسکتا ہے؟

۲۱

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ روٹی کس چیز سے بناتے ہیں

۲)___ گندم کا پودا گندم اگانے میں کس چیز کا محتاج ہے_

۳)___ اگر سورج کی روشنی گندم کے پودے پر نہ پڑے تو کیا گندم وجود میں آسکتا ہے_

۴)___ اگر سبز پتے گندم کا پودا اور دوسری غذا نہ بنائیں تو کیا ہم غذا حاصل کرسکتے ہیں

۵)___ کس ذات نے ہماری ضروریات کی پیش بینی کی ہے اور جہاں کو اس نظم و ارتباط سے خلق کیا ہے؟

۶)___ ہمارا فریضہ ان نعمتوں کے مقابل کیا ہے؟

تجربہ اور تحقیق کیجئے

بڑے سبز پتّے ہوا کو بھی صاف کرنے کا کام کرتے ہیں: جانتے ہو کس طرح

مشق

۱)___ سبق کو ایک دفعہ بلند آواز سے پڑھیں_

۲)___ اس سبق میں کئی اور سوال بنائیں اور ان کے جواب اپنے دوست سے پوچھیں

۳)___ سبق کا خلاصہ بیان کریں اور اس سبق کی غرض و غایت کو بھی بیان کر یں

۴)___ اوپر کے سوالوں کا جواب خوبصورت خط سے اپنی کاپی میں لکھیں

۲۲

پانچواں سبق

تجربے کی روش خداشناسی کا سبق دیتی ہے

جب میں گھر آئی تو میری ماں نے کہا مریم آج عصر کے وقت کون سا سبق پڑھا ہے؟ میں نے علم حیاتات ''بیالوجی'' اور بحث نظام ہاضمہ کا سبق پڑھا ہے استاد نے پوچھا جانتی ہو کہ غذا کی نالی کیا ہے: معدہ کہاں ہے؟ آنتوں کا کیا کام ہے_ غذا کس طرح ہضم ہوتی ہے؟ شاگرد اس کا جو جواب دے رہے تھے وہ درست نہ تھا استاد نے کہا ان سوالوں کے متعلق تحقیق کرو ان کا صحیح اور کامل جواب یاد کرو اور کل اپنے دوستوں سے بیان کرنا میں حیاتیات کی کتاب لائی تا کہ آپ کی مدد سے ان سوالوں کے متعلق تحقیق کروں میری امّی بھی اپنی لائبریری سے ایک کتاب لائیں جس میں مختلف اور بہت زیادہ شکلیں موجود تھیں ایک شکل مجھے دکھلائی اور کہا اس تھیلی کو دیکھ رہی ہو ہم جب غذا کھاتے ہیں تو غذا اس تحصیلی میں جاتی ہے اس کا نام معدہ ہے

۲۳

کیا بتلا سکتی ہو کہ غذا کسے راستے سے معدہ میں جاتی ہے؟

میں نے شکل کو دیکھا اور کہا یقینا اس نالی کے ذریعہ جاتی ہوگی ماں نے کہا ہاں بالکل ٹھیک ہے اس کا نام غذا کی نالی ہے یہ نالی حلق کو معدہ سے ملاتی ہے_

ایک اور نالی حلق کو پھیپھڑوں سے ملاتی ہے جب ہم سانس لیتے ہیں تو ہو اس نالی سے پھیھپڑوں میں جاتی ہے_ ا س کا نام جانتی ہو میں نے شکل کو دیکھا اور کہا یہ ہوا کی نالی ہے_ میری امّی نے کہا یہ نالی غذا کے گذرنے کے لئے ہے اور یہ نالی ہوا کے گذرنے کے لئے ہے_ میں نے کہا کہ اگر غذا ہوا کی نالی سے جائے تو کیا ہوگا؟ امّی نے کہا غذا کو اس نالی سے نہیں جانا چاہتے ورنہ ہوا کے جانے کا راستہ بند ہوجائے گا اور ہمارا دم گھٹ جائے گا_ میں نے کہا پس کس لئے میرا دم ابھی تک نہیں گھٹا مجھے تو علم نہ تھا کہ غذا کو اس نالی سے نہ نگلوں امّی نے کہا: بیٹی: غذا نگلنا بہت عمدہ ہے اس شکل کودیکھو_ دیکھو حلق میں چار راستے ہیں ایک راستہ ناک کی طرف اور ایک راستہ منہ کی طرف اور ایک راستہ پھیھڑوں کی طرف اور ایک راستہ معدہ کی طرف_

جب ہم غذا کو نگلنا چاہتے ہیں تو صرف غذا والی نالی کھلتی ہے اسی لئے حلق میں دو دروازے ہماری ضرورت کے لئے حلق کئے گئے ہیں پس ایک دروازہ ہوا کی نالی کو بند کرتا ہے اور دوسرا دروازہ ناک والی نالی کو بند کرتا ہے ہوا کا دروازہ کہلاتا ہے اور وہ دروازہ جو ناک کی نالی کو بند کرتا ہے اسے چھوٹی زبان کہا جاتا ہے ہمیں ان دونوں دروازوں کی ضرورت ہے اگر یہ

۲۴

نہ ہوں تو پہلے لقمے کے نگلتے وقت گھٹ کر مرجائیں_ میں نے کہا_ کیا خوب: میں بھی ایک دوازہ ہوا والا دوسری چھوٹی زبان رکھتی ہوں ورنہ گھٹ کر مرجاتی_

امّی نے کہا مریم جان: کیا تو یہ خیال کرتی ہے کہ چھوٹی زبان اور دوسرا دروازہ خودبخود بے صرف و غرض وجود میں آگئے ہیں میں نے کہا: نہیں چونکہ ان کی غرض و غایت بالکل واضح اور معلوم ہے: ایک ناک کے راستے کو بند کرتی ہے اور دوسرا پھیھپڑوں کو جانے والی نالی کو ان کے کام اور غرض معین اور معلوم ہیں بغیر علّت کے وجود میں نہیں آئے واضح ہے کہ کس ذات عالم نے ان کو ہمارے لئے خلق کیا ہے_ امّی نے کہا_ شاباش_ بالکل ٹھیک کہا تو نے: جس نے ہم کو پیدا کیا ہے ہماری ضروریات کو جانتا تھا اور تمام چیزوں کو جانتا ہے اسے علم تھا کہ ہمیںاس دروازے کی ضرورت ہے چونکہ ہم کو سانس بھی لینا ہے اور غذا بھی کہانا ہے وہ جانتا تھا کہ غذا کو ہوا کی نالی میں نہیں جانا چاہیئے اسی غرض کے ماتحت ہوا کا دروازہ خلق کردیا ہے_ جب تک لقمے نگلتے رہیں گے ہوا کی نالی کا دروازہ بند رہے گا اور غذا اس میں نہیں جائے گی_ ہمیں پیدا کرنے والا خدا عالم اور قادر ہے اسے ہماری تمام ضروریات کا علم تھا اسی لئے ان کو ہماری ضرورت کے تحت خلق کیا_ مثلاً معدہ کی دیوار میں ہزاروں غدّے خلق فرمائے ہیں تا کہ مخصوص لعاب پیدا ہوکر غذا پر

۲۵

پڑے تا کہ غذا ہضم ہو اور مائع میں تبدیل ہوجائے_ ہمارے لئے آنتیں خلق فرمائی ہیں تا کہ مائع شدہ غذا معدہ سے آنتوں میں داخل ہو اور وہاں ہضم او رجذب ہو صفراوی پتا اور تلی کو خلق فرمایا ہے تا کہ مخصوص لعاب غذا پر پڑے تا کہ غذا مکمل طور پر ہضم ہوجائے_ جب غذا پوری طرح ہضم ہوجائے تو ضروری مواد کو آنتوں کی دیوار سے جذب کرتا ہے اور خون میں داخل ہوجاتا ہے اور تمام بدن تک پہنچتا رہتا ہے_ پیاری مریم_ ایک منظم کارخانہ جو نظام ہضم کہلاتا ہے خودبخود بغیر علت اور فائدہ ہے کے وجود میں نہیں آیا بلکہ مہربان اور دانا خدا نے ہمارے لئے ہماری ضرورت کے تحت اسے خلق کیا ہے_ غذا کھانے سے طاقت اور انرجی بنتی ہے اور پھر ہم زندہ رہ سکتے ہیں_ خداوند عالم کی مہربانی سے ہمیں توانائی حاصل ہوتی ہے جس کی بدولت ہم زندہ ہیں اور دیگر امور انجام دیتے ہیں_ ہم بھی اس کے شکر کے لئے اس طاقت کو اس کی اطاعت میں صرف کرتے ہیں اس کے فرمان اور احکام کو قبول کرتے ہیں او رگناہ و نافرمانی اور برے اخلاق سے دور رہتے ہیں تا کہ خدا ہم سے خوش ہو اور دنیا و آخرت میں بہت اعلی اور بہترین نعمتیں عنایت فرمائے_

یہ شکل اس عظیم کارخانے کی ہے جو منظم اور مرتبط غذا کے ہضم کے لئے بنایا گیا ہے اور نظام ہضم کہلاتا ہے_ مہربان خدا نے ہماری ضرورت کے تحت اسے خلق کیا_

کیا سوائے خدا علیم و قادر کے کوئی اتنا بڑا کارخانہ ہمارے لئے بنا سکتا ہے؟

غور کریں اور جواب دیں

۱)___ ہوا کی نالی کے لئے دروازہ بنانے کی غرض کیا ہے؟

۲۶

۲)___ چھوٹی زبان کے خلق کرنے کی غرض کیا ہے؟

۳)___ اگر یہ دروازے نہ ہوں تو ہم کیسے غذا کھاسکتے ہیں؟

۴)___ کیا یہ دروازے خودبخود بے غرض و غایت کے وجود میں آئے ہیں اور کیوں؟

۵)___ ہمارا نظام ہضم کن چیزوں سے بنا ہے؟

۶)___ ہمارے بدن میں غذا کس طرح ہضم ہوتی ہے؟

۷)___ کیا نظام ہضم بے ربط اور بے غرض ہے؟

۸)___ کیا ہم نے اس منظّم و مرتبط کارخانہ کو بنایا ہے؟

۹)___ نظام ہضم کے منظم اور مرتبط ہونے سے کیا نتیجہ لیتے ہیں؟

۱۰)___ اللہ تعالی کی اعلی اور عمدہ نعمتوں سے نوازے جائیں تو کیا کریں؟

۱۱)___ کیا آپ جانتے ہیں کہ غذا کے نگلنے کے وقت منہ کا راستہ کس طرح بند ہوجاتا ہے؟

ان سوالوں اور اس کے جوابوں کو خوبصورت خط کے ساتھ اپنی کاپی میں لکھیں

۲۷

چھٹا سبق

خدا کی قدرت کے آثار اور اس کی علامتیں

جب میں صبح اسکول پہنچا تو بچّے میرے ارد گرد اکٹھے ہوگئے گویا کہ انہیں کل رات کے حادثے کا علم تھا گھنٹی بجی اور ہم کلاس میں جا بیٹھے استاد کلاس میں آئے میں نے اپنے آنسو صاف کئے اور کھڑا ہوگیا لیکن میری آنکھیں اشک آلود تھیں لڑکوں نے کل رات کے متعلق جتنا انہیں علم تھا استاد کو بتلایا جب میرے بھائی احمد کو ہسپتال لے جا رہے تھے تو اس کا ہاتھ اور منہ سیاہ ہوگیا تھا شاگردوں نے پوچھا کہ کیوں احمد کا ہاتھ اور منہ سیاہ تھا_ سانس کا گھٹنا کیا ہے؟ کیوں احمد کے بھائی کا دم گھٹتا ہے کیا وہ ٹھیک ہوجائے گا؟ اس کا کس طرح علاج کریں گے؟ استاد نے کہا بچّوں جب تم ان سوالوں کا جواب چاہتے ہو تو ضروری ہے کہ خون کی حرکت اور تنفس کا درس جلدی شروع کردیا جائے کل حیاتیات کا علم ایک دوسرے کی مدد سے شروع

۲۸

کریں گے تم میں سے کون ہے جو کل ای بکرے کا دل اور پھیھپڑا اسکول لائے دو طالب علموں نے وعدہ کیا کہ ہم کسی بکرے کا دل اور پھیھپڑا اسکول لائیں گے دوسرے دن بکرے کا دل اور پھیھپڑا اسکول لے آئے استاد نے چھری سے دل کو چیرا اور اس کے مختلف حصّے شاگردوں کو دکھلائے اور دل و پھیھپڑے کا کام طالب علموں کو بتلایا تمام طالب علم دل اور پھیھپڑے کے عمل سے آگاہ ہوئے اور اپنے سوالوں کے جوابات سمجھے پھر استاد نے اس درس کا خلاصہ اس طرح لکھا اور شاگردوں کے سامنے رکھا

نظام تنفس اور دوران خون

اس درس سے ہم اپنے جسم کے بعض حالات سے باخبر ہوجائیں گے اور بدن کے کارخانے کی غرض و غایت اور ارتباط کو اچھی طرح جان لیں گے اور قدرت خدا کے آثار کا مشاہدہ کرنے سے خدا کو پہنچانیں گے_

آپ کو علم ہے کہ خون بدن کی رگوں میں ہمیشہ گردش میں رہتا ہے کیا آپ خون کی گردش کے فوائد کو بھی جانتے ہیں؟ خون بدن کے تمام خلیوں کے پہلو سے گزرتا ہے اور انھیں غذا و آکسیجن دیتا ہے_ خون کے کاموں میں سے ایک اہم کام بدن کے تمام خلیوں میں آکسیجن کو پہنچانا ہے خلیوں میں آکسیجن نہ پہنچے تو ہماری موت فوراً ہوجائے_ بدن میں حرارت اور انرجی

۲۹

آکسیجن کے ذریعہ سے پوری ہوتی ہے آکسیجن کو پہنچانے میں سرخ خلیے حصّہ دار ہیں سرخ خلیے جو خون میں تیرتے ہیں اور بدن میں پھرتے رہتے ہیں وہ بدن کے تمام خلیوں کو آکسیجن پہنچاتے رہتے ہیں_

لیکن آپ کو علم ہے کہ خون خودبخود حرکت نہیں کرتا بلکہ ایک طاقتور پمپ اس کام کو انجام دیتا ہے طاقت ور پمپ جو برابر یہ کام کرتا ہے اور خون کو تمام بدن میں گردش دیتا ہے کیا اس طاقتور پمپ کو پہچانتے ہیں اس کا نام جانتے ہیں کہ سرخ خلیے کہ جن کے ساتھ آکسیجن ہوتا ہے دل کی دھڑکن سے بدن کی بڑی شریان میں وارد ہوتے ہیں یہ شریان بدن میں جگہ جگہ تقسیم ہوجاتی ہے اور ہر شاخ پھر چھوٹی شاخوں میں تبدیل ہوجاتی ہے ان تمام میں سے باریک تر قسم کی رگیں کیلپری کہلاتی ہیں_

خون کیلپری سے خلیوں کے پہلو میں سے گزرتا ہے سرخ خلیے جو شاداب ہیں اپنے ساتھ آکسیجن رکھتے ہیں اور خلیوں کو دیتے ہیں اور خلیوں کو سالم و زندہ رکھتے ہیں اور کاربن ڈائی اکسائڈ جو ایک ہوا کی زہریلی قسم ہے اس سے لے لیتے ہیں سرخ خلیے اس ہوا کے لینے سے آدھے سیاہ ہو جاتے ہیں اور اگر چند منٹ ایسے رہیں تو تمام مرجائیں گے جسکے نتیجے میں ہماری موت بھی واقع ہوجائے گی خلیوں کو آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے تا کہ دوبارہ سرخ اور شاداب ہوجائیں اور اپنے کام کو پھر سے شروع کرسکیں لیکن کہاں سے آکسیجن لیں؟ اور کس طرح اپنا کام دوبارہ شروع کریں اور دل کی طرف لوٹیں ان نیم سیاہ خلیوں کا دل کی طرف لوٹنا دوسری رگوں کا محتاج ہے تا کہ نیم سیاہ خلیے ان رگوں کے ذریعہ دل کی طرف لوٹ سکیں_

۳۰

خداوند عالم اس ضرورت کو جانتا تھا لہذا دوسری رگیں خلیوں کو دل کی طرف لوٹانے کے لئے ہمارے بدن میں بنائی ہیں_

تعجب ہے کہ ان رگوں میں دروازے بھی بنے ہیں جو خون کی حرکت کو صرف دل کی طرف ممکن قرار دیتے ہیں دل گندے خون اور: سفید خلیوں کو ان سیاہ رگوں کے ذریعہ اپنی طرف کھینچتا ہے سیاہ اور گنہ خون دل کے پاس پہنچ کرکیا تازہ اور شاداب خون کے ساتھ مخلوط ہوجاتا ہے؟ نہیں_ مخلوط نہیں ہوتا کیونکہ خالق دانا نے دل کے وسط میں ایک قسم کی مضبوط دیوار بنائی ہے تا کہ تازہ خون اس گندے اور سیاہ خون سے مخلوط ہوسکے اور ہر ایک اپنی مخصوص جگہ پر رہے اب جب کہ نیم سیاہ خلیے دل کے پاس پہنچ جاتے ہیں اب دل میں بھی آکسیجن کی ضرورت ہے اور یہ چاہتے ہیں کہ اپنے آپ کو آزاد ہوا میں پہنجائیں اور آزاد ہوا سے آکسیجن حاصل کریں خالق بزرگ اور دانا نے دل سے ایک راستہ پھیھپڑوں کی طرف بنایا ہے تا کہ خلیے اس راستے سے آزاد ہوا ہیں اپنے آپ کو پہنچائیں اور آزاد ہوا سے جو پھیھپڑوں میں سے، استفادہ کریں دل اپنی ایک دھڑکن سے سیاہ خون اور سفید خلیوں کو اس راستے سے پھیھپڑے تک پہنچا دیتا ہے وہ آکسیجن لیتے ہیں اور کاربن ڈائی آکسائڈ کو خارج کردیتے ہیں_ کیا آپ کو علم ہے کہ سرخ خلیوں کی تعداد خون میں کتنی زیادہ ہے؟ کیا خلیوں کی تعداد کے مطابق پھیھپڑوں میں ہوا کی مقدار ان تمام کے لئے کا فی ہے؟ کیا یہ تمام آزاد ہوا کے نزدیک آسکتے ہیں کہ آکسیجن لے لیں اور کاربن ڈائی آکسائڈ خارج کردیں_

جی ہاں اہمارے بزرگ اور دانا خالق نے جو ہماری تمام ضروریات

۳۱

سے باخبر تھا لاکھول ہوائی کیسوں کے ذریعہ پھیھپڑوں میں ہمارے لئے پیش گوئی کی تھی اور خلق فرما دیا تھا یہ تھیلیاں ہر سانس لینے سے تازہ ہوا سے بھر جاتی ہیں اور وہی خلیے تازہ ہوا سے نزدیک ہوتے ہیں آکسیجن لے لیتے ہیں اور دل کی طرف لوٹ جاتے ہیں اور اپنا کام پھر سے شروع کردیتے ہیں بدن کے خلیے جو آکسیجن کے انتظار میں ہوتے ہیں آکسیجن حاصل کرتے ہیں اور بدن کی حرارت اور انرجی کو پورا کردیتے ہیں_ کون ذات ہے سوائے خدائے مہربان اور دانا کے جو خلیوں کی تعداد کو جانتی ہو؟ اور ان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے لاکھوں ہوائی کیسوں کو پھیھپڑوں میں خلق کیا ہے_ نظام تنفس اور نظام دوران خون آپس میں مربوط اور ہم آہنگ ہیں اور یہ ایک ہی غرض و غایت کے ساتھ وجود میں آئے ہیں کیا یہ دقیق اور منظم کارخانہ خودبخود بغیر کسی غرض و غایت کے پیدا ہوا ہے_ کیا بے شعور اور نادان مادہ اس قسم کا کارخانہ جو دقیق اور با مقصد ہے پیدا کرسکتا ہے؟ کون ہے سوائے ذات الہی حکیم اور قادر کے جو اس قسم کا دقیق اور عمدہ کارخانہ وجود میں لاسکے؟ ہم تنفس اور خون کی گردش کے اس عظیم منظم کارخانے کے دیکھنے اور مشاہدے سے پیدا کرنے والے خدا کی عظمت کو سمجھ سکتے ہیں اور اس کی بے شمار نعمتوں سے زیادہ واقف ہوسکتے ہیں_

اس کو بہتر پہچانتے ہیں اور اس کی بہتر عبادت اور شکر ادا کرتے ہیں:

بہت غور سے ان سوالوں کا جواب دیجئے

۱)___ خون کی گردش بدن میں کیا فائدہ رکھتی ہے؟

۳۲

۲)___ سرخ خلیے بدن میں کیا فائدہ دیتے ہیں؟

۳)___ خون کس ذریعے سے بدن میں حرکت کرتا ہے؟

۴)___ جب سرخ خلیے نیم سیاہ ہوجاتے ہیں تو کس راستے سے دل کی طرف لوٹ آتے ہیں؟

۵)___ کیا گندہ اور سیاہ خون دل میں تازہ خون سے مخلوط ہوجاتا ہے؟

۶)___ خلیے کہاں سے آکسیجن لیتے ہیں؟

۷)___ کیاتمام خلیے پھیھپڑوں کی تازہ ہوا سے استفادہ کرسکتے ہیں؟ اور کس طرح؟

۸)___ اگر خلیوں کو آکسیجن نہ ملے تو کیا ہوگا_

۹)___ اگر سرخ خلیوں کا دل کی طرف لوٹ آنے کا راستہ نہ ہو تو کیا ہوگا ...؟ خلیے کس راستے سے دل کی طرف لوٹ جاتے ہیں؟

۱۰)___ آکسیجن کس طرح پھیھپڑوں میں داخل ہوتی ہے؟

۱۱)___ اگر پھیھپڑے اور سانس لینے کا نظام نہ ہوتا تو کیسے صاف ہوا کرتا؟

۱۲)___ اگر ہوا میں آکسیجن نہ ہوتی تو کیا ہوتا خلیے کہاں سے آکسیجن لیتے اور کس طرح زندہ رہتے_

۱۳)___ کیا خون کی گردش اور نظام تنفس اس ارتباط اور نظم کے ساتھ خودبخود وجود میں آیا ہے؟

۱۴)___ یہ ہم آہنگی اور دقیق ربط جو بدن کے کارخانہ میں وجود ہے

۳۳

اس سے کیا سمجھتے ہیں؟

۱۵)___ اللہ تعالی کی ان تمام نعمتوں کے مقابل جو اس نے ہمیں عنایت کی ہیں ہماری ذمہ داری کیا ہے؟

۳۴

ساتواں سبق

عالم و قادر خدا

سبزیاں اور نباتات ہمارے لے بہت مفید اور کارآمد ہیں اپنی ضرورت سے زائد غذا بناتی ہیں اور ہمارے لئے ذخیرہ کرلیتی ہیں_ درختوں میں سے سب آم گلاب، مالٹے ضرورت سے زائد ہمارے لئے میوہ بناتے ہیں گاجر آلو اور پیاز کے پودے اضافی غذا کو اپنی جڑوں میں ذخیرہ کرتے ہیں_

جی ہاں اگر نباتات کے سبز پتے نہ ہوتے تو کس طرح غذا بناتے اور اگر سبز پتوں میں باریک سوراخ نہ ہوتے تو ہوا کہاں سے داخل ہوتی لیکن مہربان خدا نے نباتات میں سبز پتے خلق کئے اور پتوں میں چھوٹے چھوٹے خانے اور سوراخ بنائے_ تا کہ سبز پتّے غذا بناسکیں اور اگر نباتات اپنی ضرورت کے لئے غذا بناتے تو ہم کیا کھاتے؟ حیوانات کیا کھاتے

۳۵

لیکن احسان کرنے والے خدا ے نباتات کو اس طرح خلق کیا ہے کہ وہ اپنے مصرف سے زیادہ غذا بناسکیں اور اگر سوراخ کی روشنی نباتات تک نہ پہنچی تو پودے کس طاقت سے غذا درست کرسکتے تھے؟ لیکن خدائے علیم اور قدیر نے سوراخ کو ایسا پیدا کیا ہے کہ اس کی روشنی ضرورت کے مطابق نباتات تک پہنچ سکے تا کہ پتے سورج کی روشنی اور توانائی کی مدد سے غذا حاصل کرسکیں پس خدا تمام چیزوں کو جانتا ہے اور اس پر قادر ہے اسے علم تھا کہ ہمیں غذا کی ضرورت ہے اورہم خود نہیں بناسکتے اسی لئے نباتات کے سبز پتّے خلق کئے اور ان میں سوراخ رکھے تا کہ ہمارے لئے غذاسازی کا کارخانہ بن سکے_

اسے علم تھا کہ ہی چھوٹا کارخانہ سورج کی روشنی اور توانائی کا محتاج ہے لہذا سورج کو اس طرح خلق کیا کہ سورج کی توانائی اور روشنی جس قدر پتّوں کے لئے ضروری ہے اس چھوٹے کارخانے تک پہنچ سکے اگر خدا قادر نہ ہوتا تو ان کو نہ بناپاتا جو ہمارے لئے ضروری تھیں_

اگر خدا بخشش کرنے والا اور مہربان نہ ہوتا تو یہ تمام نعمتیں ہمیں عطا نہ کرتا پس معلوم ہوا کہ خدا عالم ہے، خدا قادر ہے، خدا رحمان یعنی بخشنے والا ہے''

خدا رحیم یعنی مہربان ہے:

اس سبق کے متعلق آپ خود سوال بنائیں

۱)

۳۶

۳)

اور مشقیں بھی آپ خود بتلائیں

۱)

۲)

۳)

۳۷

آٹھواں سبق

خدا جسم نہیں رکھتا

کیا آپ جانتے ہیں جسم کیا ہے؟

کتاب، قلم، میز، پتھر، درخت، زمین، سورج، اور وہ چیزیں جو ان کی طرح ہوں اور جگہ گھیرتی ہوں انہیں جسم کہا جاتا ہے یہاں تک کہ ہوا بھی جسم ہے اور جسم کو مادہ بھی کہاجاتا ہے ہر جسم مکان کا محتاج یعنی ایک جگہ چاہتا ہے کہ جس میں مستقر ہو کیونکہ بغیر مکان کے جسم وجود میں نہیں آسکتا_ ہر جسم ایک وقت میں ایک مکان سے زیادہ میں نہیں ہوتا جب وہ ایک مکان میں ہو گا تو اسی وقت دوسرے مکان میں نہیں ہوگا ہم جب مدرسہ میں ہوتے ہیں توگھر میں نہیں ہوتے اور جب گھر میں ہوتے ہیں تو مدرسہ میں نہیں ہوتے اور جب مدرسہ میں ہوتے ہیں تو وہ کام جو گھر میں ہو رہے ہوتے ہیں

۳۸

انہیں نہیں دیکھ سکتے اور جب گھر میں ہوتے ہیں تو وہ کام جو مدرسہ میں ہو رہے ہوتے ہیں انہیں نہیں دیکھ سکتے جسم کو آنکھ سے دیکھا جاسکتا ہے اور ہاتھ سے چھواجا سکتا ہے وہ چیزیں جو آنکھ سے دیکھتے ہیں یا دوسرے کسی عضو سے مس کرتے ہیں تمام کے تمام جسم اور جسمانی ہیں یہاں تک ہوا اور روشنی بھی؟

اب ان دو سوالوں کے متعلق فکر کریں_

کیا خدا جسم رکھتا ہے؟

کیا خدا کو آنکھ سے دیکھ سکتے ہیں؟

چونکہ خدا ہر چیز سے بے نیاز ہے اور اس کی قدرت او ردانائی کی کوئی انتہا نہیں اور کسی چیز اور کسی شخص کا محتاج نہیں _ پس خدا کا جسم نہیں ہے کیونکہ اگر جسم ہوتا تو مکان کا محتاج ہوتا اور چونکہ خدا کسی کا محتاج نہیں ہے کیونکہ اس نے خود مکان خلق کیا ہے لہذا جسم نہیں رکھتا کیونکہ خدا اگر جسم رکھتا ہوتا تو یہاں ہوتا اور وہاں نہ ہوتا اور پھر جو چیزیں وہاں ہوتیں انہیں خلق نہ کرسکتا اور نہ دیکھتا_ خدا جسم نہیں رکھتا اور نہ ہی ایک مخصوص جگہ پر مستقر ہے تا کہ دوسری جگہیں اس سے خالی ہوں ہر ایک شخص اور ہر ایک چیز کو اس نے پیدا کیا ہے خدا یہاں وہاں یہ مکان وہ مکان نہیں رکھتا اس کے سامنے تمام مکان برابر ہیں تمام کے ساتھ ہے او رتمام جگہوں سے مطلع ہے خدا چونکہ جسم نہیں رکھتا لہذا مکان نہیں رکھتا نہ زمین میں نہ آسمان میں خدا چونکہ جسم نہیں ہے آنکھوں سے نہیں دیکھا جاسکتا اور ہاتھوں سے نہیں چھواجا سکتا خدا یہاں کے نور سے بھی نہیں چوں کہ یہ نور جسمانی ہیں اور مکان کے محتاج ہیں لیکن خدا محتاج نہیں اس نے مکان کو پیدا کیا ہے اس نے آنکھ اور ہاتھ کو خلق کیا ہے اس نے نور کو پیدا کیا ہے

۳۹

اللہ کی بے پایاں قدرت ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے وہ تمام چیزوں اور تمام لوگوں سے باخبر ہے _

''فکر کیجئے اور جواب دیجئے''

۱)___ جو تمہارے اطراف میں اجسام ہیں انہیں شمار کرو؟

۲)___ میز جسم ہے یہ کس چیز کی محتاج ہے کیا یہ ممکن ہے کہ یہ کسی مکان میں نہ ہو؟

۳)___ کرسی جسم ہے کیا ہوسکتا ہے کہ ایک وقت میں دو مکان میں ہو؟

۴)__ _ کوئی ایسا جسم جانتے ہو کہ مکان کا محتاج نہ ہو؟ اور کیوں؟

۵)___ کیا خدا جسم رکھتا ہے؟ کیا خدا مکان کا محتاج ہے؟

۶)___ کیا خدا کو آنکھ سے دیکھا جاسکتا ہے؟

یہ سوال اور ان کے جواب خوبصورت خط سے اپنی کاپی میں لکھیں

مشقیں

۱)___ اس سبق کو ایک دفعہ بلند آواز سے پڑھیں

۲)___ سبق کو اپنے دوستوں سے بیان کریں

۳)___ اس درس کا خلاصہ لکھیں اور دوستوں کو پڑھ کر سنائیں

۴)___ کئی اور سوال بھی بنائیں اور ان کے جواب دوستوں سے پوچھیں

۴۰

نواں سبق

کیا خدا غیر مرئی ہے

محمود نقاشی کر رہا تھا اس نے کتنا خوبصورت کبوتر بنایا کیا محمود عقل و فہم رکھتا ہے؟ کیا آپ اس کی عقل و فہم کو دیکھ سکتے ہیں_ کیا کہہ سکتے ہیں کہ جب محمود کی عقل اور فہم کو نہیں دیکھ پائے لہذا وہ عقل اور فہم ہی نہیں رکھتا؟

لازماً جواب دیں گے کہ عقل اور فہم آنکھ سے نہیں دیکھی جاسکتی لیکن اس کی علامتیں اور نشانیاں آنکھ سے دیکھ رہے ہیں ان ہی علامات اور آثار کے دیکھنے سے درک کرتے ہیں کہ وہ عقل اور فہم رکھتا ہے_ جی ہاں یہ آپ کا جواب بالکل درست ہے عقل اور فہم کو آنکھ سے نہیں دیکھا جاتا کیوں کہ عقل اور فہم جسم نہیں ہے کہ آنکھ سے دیکھا جائے آنکھ اور دوسرے حواس صرف جسم کے آثار اور نشانیوں کو درک کرسکتے ہیں_ بہت سی چیزیں

۴۱

ایسی موجود ہیں کہ جنھیں آنکھ سے نہیں دیکھ سکتے لیکن ان کو آثار سے دیکھ لیتے ہیں اور ان کے وجود کا علم حاصل کرلیتے ہیں خدا بھی چونکہ جسم نہیں ہے لہذا آنکھ سے نہیں دیکھا جاسکتا اور دوسرے حواس سے بھی درک نہیں کیا جاسکتا لیکن اس جہان پر عظمت کی خلقت جو خود اس کی قدرت کے آثار اور علائم میں سے ہے اس سے اس کے وجود کا علم حاصل کیا جاسکتا ہے کہ اس عظیم جہان کا خالق او رانتظام کرنے والا موجود ہے_

فکر کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ اپنے دوست کودیکھیں کہ وہ کیا دیکھ رہا ہے؟

۲)___ کیا اس کی عقل اور فہم کو آنکھ سے دیکھ سکتے ہیں؟

۳)___ کس طرح جانتے ہیں کہ وہ عقل و فہم رکھتا ہے؟

۴)___کیا یہ کہہ سکتے ہیں کہ چونکہ اسکی عقل اور فہم کو نہیں دیکھ سکتے لہذا وہ عقل و فہم نہیں رکھتا؟

۵)___ ہمارے ظاہری حواس کس چیز کو درک کرسکتے ہیں؟

۶)___ کیا خدا کو آنکھ سے دیکھا جاسکتا ہے

۷)___ کیا خدا کو دوسرے کسی حواس سے محسوس کیا جاسکتا ہے اور کیا بتلا سکتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے؟

۸)___ کیا اب بھی کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ چوں کہ خدا نہیں دیکھا جاسکتا لہذا موجود نہیں ہے؟

۴۲

دسواں سبق

موحّدین کے پیشوا حضرت ابراہیم (ع)

حضرت ابراہیم (ع) علیہ السلام کے زمانے میں لوگ نادان اور جاہل تھے پہلے پیغمبروں کے دستور کو بھلاچکے تھے خداپرستی کے طور طریقے نہیں جانتے خدا کی پرستش کی جگہ بت پرستی کرتے تھے یعنی پتھر یا لکڑی سونا یا چاندی کے مجسمے انسانی یا حیوانی شکل میں بناتے تھے اور ان بے زبان اور عاجز بتوں کے سامنے سجدہ کرتے تھے اور ان کے سامنے زمین پر گرپڑتے اور ان کے لئے نذر و نیاز مانتے اور قربانی دیا کرتے تھے بعض لوگ سورج کی پرستش کرتے تھے اور بعض لوگ چاند یا ستاروں کی پرستش کرتے تھے_ جاہلوں کا ایک گروہ اس زمانہ میںطاقتور اور ظالموں کی پرستش کرتا تھا اور ان کی اطاعت واجب و لازم سمجھتا تھا اور بغیر سوچے سمجھے ظالموں کے دستور پر عمل کرتا تھا اپنے آپ کو ذلیل کر کے ان کے سامنے زمین پر گرتے تھے اور ان

۴۳

کے لئے بندگی کا اظہار کرتے تھے اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم (ع) کو چنا اور انھیں زندگی کا صحیح راستہ بتلایا اور حکم دیا کہ لوگوں کی تبلیغ کریں اور انھیں خداپرستی کے طور طریقے بتلائیں_

حضرت ابراہیم (ع) نے لوگوں سے فرمایا کہ بتوں میں کونسی قدرت ہے کہ تم ان سے محبت کرتے ہو اور ان کی پرستش کرتے ہو یہ مجسمے کیا کرسکتے ہیں یہ نہ تو دیکھتے ہیں نہ سنتے ہیں یہ نہ تو تمہیں کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ ہی تمہیں ضرر پہنچانے پر قدرت رکھتے ہیں_ تم کیوں اپنے اپ کو ان کے سامنے ذلیل کرتے ہو؟ تم کیوں ان کے سامنے زمین پر گرتے ہو؟ کیوں ان کی عبادت و اطاعت کرتے ہو؟ جو لوگ حضرت ابراہیم (ع) کی گفتگو سنتے اور اس کے متعلق فکر نہ کرتے تھے وہ آپ کے جواب میں کہتے کہ ہمارے آباؤ اجداد بت پرست تھے ہمارے دوست اور رفقاء بھی بت پرست تھے اور ہم اپنے گزرے ہوئے آباؤ اجداد کی پیروی کریں گے اور ان کے دین پر باقی رہیں گے_

حضرت ابراہیم علیہ السلام فرماتے تھے کہ تمہارے آباؤ اجداد نے اشتباہ کیا کہ وہ بت پرست بنے کیا تم میں عقل و شعور نہیں؟ کیا تم خود کچھ نہیں سمجھتے؟ کیا دیکھ نہیں رہے ہو کہ ان بتوں سے کچھ بھی تو نہیں ہوسکتا_ کس لئے تم اپنے آپ کو طاقتوروں اور ظالموں کے سامنے ذلیل کرتے ہو وہ بھی تمہاری طرح اللہ کی مخلوق ہیں_

لوگو میں اللہ کا پیغمبر ہوں اور اس کی طرف سے آ زادی اور سعادتمند ی کا پیغام لایا ہوں_ میری بات سنو تا کہ دنیا اور آخرت میں سعادت

۴۴

مند بن جاؤ: لوگو تمہارا پروردگار اور مالک وہ ہے کہ جس نے تم کو پیدا کیا ہے، زمین اور آسمان کو پیدا کیا ہے، کائنات اور اس میں رہنے والوں کے لئے انتظام کرتا ہے تمام قدرت اس کی طرف سے ہے دنیا کا نظام چلانا کسی کے سپرد نہیں کیا اور اس کے چلانے میں کس سے مدد نہیں لی وہ ایک ہے اور قادر مطلق ہے_ میں ان بتوں سے جن کی تم پرستش کرتے ہو بیزار ہوں اور ان کو دوست نہیں رکھتا اور ان کی اطاعت نہیں کرتا

خدا کو دوست رکھتا ہوں اور صرف اس کی پرستش کرتا ہوں کیوں کہ خدا نے مجھے پیدا کیا ہے_

بیماری سے شفا اور زندگی اور موت دنیا اور آخرت سب اس کے ہاتھ میں ہے_

میں امیدوار ہوں کہ قیامت کے دن بھی خداوند عالم مجھ پر مہربان ہوگا اور مجھ پر رحم کرے گا_

لوگو ایک خدا کی پرستش کرو کیوں کہ تمام قدرت خدا سے ہے، خدا ہے اور ہمیشہ رہے گا تمہاری مدد کرنے والا صرف خدا ہے تمہارا راہنما خدا کا پیغام ہے اسی کی طرف توجہ کرو اور صرف اسی کی پرستش کرو پرستش صرف ذات خدا کے ساتھ مخصوص ہے اس کے سواء اور کوئی لائق اطاعت اور پرستش نہیں ہے_

۴۵

غور کریں اور جواب دیں

۱)___ حضرت ابراہیم (ع) کے زمانے میں جاہل لوگ کن چیزوں اور کن لوگوں کی پرستش کرتے تھے؟ اور کن لوگوں کی اطاعت کو ضروری سمجھتے تھے؟

۲)___ اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم (ع) کو کیا فرمان دیا؟

۳)___ حضرت ابراہیم (ع) نے لوگوں سے کیا فرمایا اور کس طرح وضاحت کی کہ بت قابل پرستش نہیں ہیں؟

۴)___ کیا لوگ حضرت ابراہیم (ع) کی گفتگو پرغور کرتے تھے؟ اور آپ سے کیا کہتے تھے؟

۵)___ لوگوں نے حضرت ابراہیم (ع) کو کیا جواب دیا تھا وہ ٹھیک تھا یا غلط اور کیوں؟

۶)___ کیا یہ جائز ہے کہ ایک انسان دوسرے کے سامنے بندگی کا اظہار کرے؟

۷)___ آپ نے بت پرست دیکھا ہے؟

۸)___ حضرت ابراہیم (ع) کی توحید پر کیا دلیل تھی کیوں صرف خدا کو دوست رکھتے تھے اور صرف اسی کی پرستش کرتے تھے؟

۹)___ سوائے خدا کے اور کوئی کیوں قابل پرستش اور اطاعت نہیں؟

۱۰)___ کیا جو کسی ظالم کی اطاعت کرتا ہے وہ موحّد ہے؟

۱۱)___ کس کو موحّد کہتے ہیں موحّد آدمی کی امید کس سے ہوتی ہے؟

۴۶

۱۲)___ اس سبق سے ایک اور سوال بنائیں اوراپنے دوست سے کہیں کہ وہ اس کا جواب دے_

۴۷

حصّہ دوم معاد

۴۸

پہلا سبق

کیا اچھائی اور برائی برابر ہیں

آپ اچھے اور برے کے معنی سمجھتے ہیں اچھے اور برے انسان میں فرق کرسکتے ہیں جو انسان عدل چاہنے والا سچا، نیک کردار، صحیح با ادب، اور امین ہوا سے اچھا انسان شمار کرتے ہیں، لیکن بد اخلاق، جھوٹا، بدکردار، ظالم بے ادب خائن انسان کو برا انسان سمجھتے ہیں کیا آپ کے نزدیک برے اور اچھے انسان مساوی اور برابر ہیں_ کیا آپ اور تمام لوگ اچھے انسانوں کو دوست رکھتے ہیں اور برے آدمیوں سے بیزار ہیں خدا بھی اچھے کردار والے آدمیوں کو دوست رکھتا ہے اور برے انسانوں سے وہ بیزار ہے اسی لئے اللہ تعالی نے پیغمبر(ص) بھیجے ہیں تا کہ اچھے کاموں کی دعوت دیں اور برے کاموں سے روکیں

اب ان سوالوں کے جواب دیں_

۴۹

کیا اچھے لوگوں کے لئے کوئی جزا ہوگی اور برے لوگ اپنے اعمال بد کی سزا پائیں گے؟

کیا اچھے اور برے لوگ اس جہاں میں اپنے اعمال کی پوری اور کامل جزا اور سزا پالیتے ہیں؟

پس اچھے اور برے کہاں ایک دوسرے سے جدا ہوں گے اور کہاں اپنے اعمال کا پورا اور کامل نتیجہ دیکھ سکیں گے؟

اس دنیا کے بعد ایک اور دنیا ہے جسے آخرت کہا جاتا ہے کہ جہاں اچھے اور برے لوگ ایک دوسرے سے جدا ہوں گے اور اپنے اعمال کا ثمرہ پائیں گے اگر آخرت نہ ہو تو اچھے لوگ کس امید میں اچھا کام کریں اور کس لئے گناہ اور برائی سے دور ہیں_ اگر آخرت نہ ہو تو پیغمبروں کی دعوت بے مقصد اور بیہودہ ہوگی اچھائی اور برائی کے کوئی معنی نہ ہوں گے اگر آخرت ہمارے سامنے نہ ہو تو ہماری زندگی بے نتیجہ اور ہماری خلقت بھی بے معنی ہوگی_ کیا علیم و قادر خدا نے ا س لئے ہمیں پیدا کیا ہے کہ چند دن اس دنیا میں زندہ رہیں؟ یعنی کھائیں پئیں، پہنیں، سوئیں اور پھر مرجائیں اور اس کے بعد کچھ بھی نہیں یہ تو ایک بے نتیجہ اور بے معنی کام ہے اور اللہ تعالی بے معنی اور بے فائدہ کام انجام نہیں دیتا_ اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے ''ہم نے تمہیں عبث خلق نہیں کیا ہم نے تم کو پیدا کیا ہے تا کہ اس دنیا میں زندگی گزار و اچھے کام انجام دو اور لائق و کامل بن جاؤ اس کے بعد ہم تم کو اس دنیا سے ایک دوسری دنیا کی طرف لے جائیں گے تا کہ اس دنیا میں اپنے کاموں کا کامل نتیجہ پاؤ''

آخرت میں اچھے بروں سے جدا ہوجائیں گے جو لوگ نیک کام

۵۰

انجام دیتے رہے اور دین دار تھے وہ بہشت میں جائیں گے اور خوشی کی زندگی بسر کریں گے اللہ ان سے راضی ہے اور وہ بھی اپنی اچھی زندگی اور اللہ کی بے پایاں نعمتوں سے خوشنود اور راضی ہیں بے دین اور بد کردار لوگ دوزخ میں جائیں گے اور اپنے برے کاموں کی سزا پائیں گے اللہ ان پر ناراض ہے اور وہ دردناک عذاب کی زندگی بسر کریں گے اور ان کے لئے بہت سخت زندگی ہوگی

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ کون لوگ اچھے ہیں او رکون لوگ برے، ان صفات کو شمار کیجئے

۲)___ کیا برے اور اچھے لوگ آپ کے نزدیک مساوی ہیں؟

۳)___ کیا برے اور اچھے لوگ خدا کی نزدیک برابر ہیں؟

۴)___ پیغمبر(ص) لوگوں کو کن کاموں کی طرف دعوت دیتے ہیں اور کن کاموں سے روکتے ہیں؟

۵)___ کیا لوگ اس دنیا میں اپنے اعمال کی کامل جزاء پاتے ہیں؟

۶)___ کہاں اپنے اعمال کا کامل نتیجہ دیکھیں گے؟

۷)___ اگر آخرت نہ ہو تو اچھائی اور برائی کا کوئی معقول اور درست معنی ہوگا

۸)___ اگر آخرت نہ ہو تو ہماری زندگی کا کیا فائدہ ہوگا؟

۹)___ جب ہم سمجھ گئے کہ اس دنیا کے علاوہ ایک اور دنیا ہے تو ہم کس طرح زندگی گزاریں؟

۵۱

دوسرا سبق

پھول کی تلاش

ہمارے خاندان کے کچھ لوگ مری کے اطراف میں ایک دیہات میں رہتے ہیں وہ دیہات بہت خوبصورت ہے وہاں کی آب و ہوا معتدل ہے اس کے نزدیک ایک پہاڑ ہے کہ جس کا دامن سرخ اور زرد پھولوں سے بھرا ہوا ہے_

ایک دن میرے رشتہ دار بچّے میرے چچا کے گھر بیٹھے تھے عید الاضحی کا دن تھا_ ہم چاہتے تھے کہ کمرے کو پھولوں سے سجائیں میرے والد نے مجھ سے کہا کہ چلیں پھول ڈھونڈ لائیں اور اس کام میں ایک دوسرے کا مقابلہ کریں_

میں نے پوچھا کس طرح؟

والد نے کہا کہ تم تمام کے تمام پہاڑ کے دامن میں جاؤ وہاں بہت

۵۲

زیادہ پھول موجود ہیں پھول توڑو اور لوٹ آؤ لیکن خیال کرنا کہ پھولوں کی جڑوں کو ضرر نہ پہنچے مقابلہ کا وقت ایک گھنٹہ ہے تمام اس مقابلہ میں شریک ہو جاؤ پھول توڑو اور لوٹ آو جو زیادہ پھول لائے گا وہ زیادہ انعام پائے گا تمام بچّے مقابلہ میں شریک ہونے کے لئے آمادہ ہوگئے_

صبح کو ٹھیک سات بجے مقابلہ شروع ہوا کچھ بچے تو اس دیہات کے اطراف میں ہی رہ گئے اور کہنے لگے کہ راستہ دور ہے اور ہم تھک جائیں گے تم بھی یہیں رک جاؤ اور ہم ہمیں مل کر کھیلیں لیکن ہم نے ان کی باتوں پر کان نہ دھرا اور چلے گئے راستے میں دوڑتے اور ایک دوسرے سے آگے نکلتے تھے تا کہ پھولوں تک جلدی پہنچ جائیں راستہ دشوار آگیا بعض بچّے ٹھہر گئے آگے نہ بڑھے او رکہنے لگے کہ ہم یہیں سے پھول توڑیں گے_

میں میرا بھائی اور چچا کا بیٹا سب سے پہلے پہاڑ کے دامن میں پہنچ گئے کتنی بہترین اور خوبصورت جگہ تھی زرد اور سرخ پھولوں سے بھری پڑی تھی_ ہم تینوں نے فیصلہ کیا کہ ایک دوسرے کی مدد کریں اور اکھٹے پھول توڑیں میں اور چچا کا لڑکا پھول توڑنے تھے اور اپنے بھائی کے دامن میں ڈال دیتے تھے اس کا دامن پھولوں سے بھر گیا گھڑی دیکھی تو مقابلہ کا وقت ختم ہونے کے قریب تھا گھر کی طرف لوٹے دوسرے بچّے بھی لوٹ آئے تھے اور جانتے تھے کہ انہیں بہترین انعام ملے گا اور جو تھوڑے پھول توڑ لائے تھے خوش نہ تھے کیوں کہ جانتے تھے کہ مقابلہ میں بہتر مقام نہیں لے سکیں گے اور بہترین انعام حاصل نہیں کرسکیں گے اور جو خالی ہاتھ لوٹ آئے تھے شرمسار اور سرجھکائے ہوئے تھے والد کے پاس پہنچے جس نے جتنے پھول توڑے

۵۳

تھے انہیں دے دیئے اور انعام لیا لیکن جنہوں نے سستی کی تھی اور والد کے فرمان پر عمل نہیں کیا تھا انہوں نے انعام حاصل نہیں کیا بلکہ شرمسار تھے ان سے والد صاحب بھی خوش نہیں ہوئے اور ان کی کوئی پرواہ نہ کی وہ سرجھکائے اپنے آپ کو کہہ رہے تھے کاش ہم بھی کوشش کرتے کاش دوبارہ مقابلہ شروع ہو لیکن مقابلہ ختم ہوچکا تھا

جزاء کا دن

مقابلہ کے ختم ہوجانے کے بعد ہمارے والد نے ہم سے گفتگو کرنا شروع کی او رکہا '' میرے عزیز اور پیارے بچّو مقابلہ کے انعقاد کے لئے میرا نظریہ کچھ اور تھا میں اس سے تمہیں سمجھنا چاہتا تھا کہ یہ جہان مقابلہ کا جہان ہے_ ہم تمام اس جہان میں مقابلہ کرنے آئے ہیں اور قیامت کے دن اس کا انعام اور جازء حاصل کریں گے ہمارا مقابلہ نیک کاموں اور اچھے اعمال میں ہے_ اچھے اور برے کام کی جزاء اور سزا ہے اچھے اور برے لوگ اللہ کے نزدیک برابر نہیں _ ہماری خلقت اور کام و کوشش کرنا بے معنی اور بے فائدہ نہیں لوگوں کا ایک گروہ اللہ تعالی کے فرمان کا مطیع اور فرمانبردار ہے نیک کاموں کا بجالانے میں کوشش کرتا ہے وہ ہمیشہ اللہ کی یاد میں ہے اچھے اور صالح لوگوں سے دوستی کرتا ہے ان کی راہنمائی میں بہت زیادہ اچھے

۵۴

کام انجام دیتا ہے نیک کاموں میں سبقت لے جاتا ہے اپنے دوستوں اور ہمسایوں کی مدد کرتا ہے مظلوموں کی حمایت کرتا ہے

یہ لوگ آخرت میں بہترین انعام اور جزاء پائیں گے خدا ان سے خوش ہوگا اور وہ بھی خدا سے انعام لے کر خوش ہوں گے سب سے پہلے بہشت میں جائیں گے اور بہشت کے بہترین باغ میں اپنے دوستوں کے ساتھ خوش و خرّم زندگی بسر کرین گے ہمیشہ اللہ تعالی کی تازہ نعمتوں اور اس کی پاک محبت سے مستفید ہوں گے، اور لذت اٹھائیں گے_ ایک اور گروہ اس جہان میں اچھے کام انجام دیتا ہے وہ اچھے کاموں میں مدد بھی کرتا ہے اور اللہ کو یاد بھی کرتا ہے لیکن پہلے گروہ کی طرح کوشش نہیں کرتا اور سبقت لے جانے کے درپے نہیں ہوتا یہ بھی قیامت کے دن انعام او رجزاء پائیں گے اور بہشت میں جائیں گے لیکن ان کا انعام او رجزاء پہلے گروہ کی طرح نہیں ہوگا_ تیسرا گروہ ظالم اور بے دنیوں کا ہے وہ اللہ اور اس کے پیغمبر(ص) کے فرمان کو قبول نہیں کرتا اور اس پر عمل نہیں کرتا_ وہ خدا کو بھول گیا ہے، اچھے کام انجام نہیں دیتا، گناہ گار اور بداخلاق، اور بدکردار ہے لوگوں پر ظلم کرتا ہے اور یہ گروہ خالی ہاتھ آخرت میں سامنے آئے گا اچھے کام اپنے ساتھ نہیں لائے گا اپنے برے افعال اور ناپسندیدہ اعمال سے شرمندہ ہوگا_

جب اچھے لوگ انعام پائیں گے تو یہ افسوس کرے گا اور پشیمان ہوگا اور کہے گا_ کاش دنیا میں پھر بھیجا جائے تا کہ وہ نیک کام بجالائے لیکن افسوس کہ دوبارہ لوٹ جانا ممکن نہیں ہوگا اس گروہ کے لوگ جہنم میں جائیں گے اور اپنے برے کاموں کی سزا پائیں گے_

۵۵

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ کیا ہماری خلقت و کوشش بغیر کسی غرض اور غایت کے ہے اور کیا ہم ان کاموں اور کوششوں سے کوئی نتیجہ بھی لیں گے؟

۲)___ یہ جہان مقابلہ کی جگہ ہے، سے کیا مراد ہے؟

۳)___ متوجہ اور آگاہ انسان اس دنیا میں کن کاموں کی تلاش میں اور کن کاموں میں مقابلہ کر رہا ہے؟

۴)___ کون لوگ آخرت میں بہترین انعام پائیں گے؟

۵)___ ان لوگوں نے دنیا میں کیا کیا ہے؟

۶)___ ان کے اعمال اور کردار کیسے تھے، ان کے دوست کیسے تھے کن کاموں میں مقابلہ کرتے تھے؟

۷)___ آپ کی رفتار اور آپ کا کردار کیسے ہے، آپ کے دوستوں کا کردار کیسا ہے، کن کاموں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں اگر آپ کا کوئی دوست آپکو کسی ناپسندیدہ کام کی دعوت دے تو پھر بھی اس سے دوستی رکھتے ہیں؟

۸)___ کون لوگ قیامت کے دن شرمندہ ہوں گے کیوں افسوس کریں گے یہ لوگ اس دنیا میں کیسا کردار تھے ہیں؟

۹)___ دوسرے گروہ کا انعام اور جزاء کا پہلے گروہ کے انعام اور جزائ

۵۶

سے کیا فرق ہے اور کیوں؟

ان سوالوں کے جواب خوش خط لکھیں

۵۷

تیسرا سبق

جہان آخرت عالم برزخ اور قیامت

مرنے کے بعد فنا نہیں ہوتے بلکہ اس جہان سے دوسری دنیا کی طرف جاتے ہیں کہ جس کا نام جہان آخرت ہے، آخرت سے پہلے عالم برزخ ہے اور اس کے بعد قیامت ہے عالم برزخ ایک دنیا ہے جو دنیا و آخرت کے درمیان میں واقع ہے_خداوند عالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے کہ ان کے سامنے بزرخ ہے قیامت تک'' اور ایک جگہ فرماتا ہے ''گمان نہ کرو کہ وہ لوگ جو اللہ کے راستے میں قتل ہوجاتے ہیں وہ مرگئے ہیں بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار سے روزی پاتے ہیں'' خداوند عالم نے ہمیں پیغمبر(ص) اسلام کے ذریعہ خبر دی ہے کہ جب انسان مرجاتا ہے اور دنیا کو ترک کرتا ہے_ اور برزخ

۵۸

میں جاتا ہے تو عالم برزخ میں اس سے سوال کیا جاتا ہے کہ کتنے خدا کا عقیدہ رکھتے ہو_ کس کے فرمان کے مطیع تھے خدا کے یا غیر خدا کے، تیرا پیغمبر کون ہے، تیرا دن کیا ہے، تیرا رہبر و امام کون ہے، جس نے دنیا میں خداپرستی او ردینداری اور با ایمان زندگی گزاری ہوگی وہ آسانی سے جواب دے گا اور اس کا ایمان ظاہر ہوجائے گا اس مختصر سوال و جواب کے بعد برزخ میں آرام سے اور خوشی سے قیامت تک زندگی گزاریں گے اور عمدہ نعمتیں جو بہشتی نعمتوں کا نمونہ ہوں گی اسے دی جائیگی لیکن وہ لوگ جو خدا اور اس کے پیغمبر(ص) کو قبول نہ کرتے تھے اور اس کے فرمان کے مطیع نہ تھے بے دین اور ظالم تھے برزخ میں بھی خدا اور اس کے پیغمبر(ص) کا اقرار نہیں کریں گے ان کا کفر اور ان کے بے دینی ظاہر ہوگی اس قسم کے لوگ برزخ میں سختی اور عذاب میں مبتلا ہوں گے برزخ کا عذاب ان کے لئے جہنّم کے عذاب کا نمونہ ہوگا_ برزخ میں انسان کی حقیقت ظاہر ہوجائے گی اور اس کا ایمان اور کفر واضح ہوجائے گا جو شخص دنیا میں خدا و قیامت کے دن پیغمبروں(ص) پر واقعاً ایمان رکھتا تھا اور نیکوکار تھا برزخ میں اس کا ایمان ظاہر ہوجائے گا_ وہ صحیح اور صاف صاف جواب دے گا لیکن جو شخص واقعی ایمان نہیں رکھتا تھا اور ظالم و بدکار تھا برزخ میں اس کا کفر ظاہر ہوجائے گا اور وہ صحیح جواب نہیں دے سکے گا_

گناہ گار انسان جہنم کے عذاب کا نمونہ برزخ میں دیکھے گا اور اس کے اعمال کی سزا یہیں سے شروع ہوجائے گی پیغمبر اسلام حضرت محمد ابن عبداللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں کہ جو لوگ گھر مین بداخلاقی کرتے ہیں برزخ میں عذاب میں مبتلا ہوں گے حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا کہ

۵۹

جو لوگ خچل خوری کرتے ہیں اور جو لوگ شراب سے پرہیز نہیں کرتے برزخ میں عذاب میں مبتلا ہوں گے_

برزخ میں سوال و جواب

برزخ میں سوال و جواب حقیقی ہوگا جو لوگ برزخ میں جائیں گے ان سے حقیقتاً سوال ہوگا وہ یقینا ان سوال کا جواب دیں گے لیکن برزخ کا سوال و جواب دنیا کے سوال و جواب کی طرح نہیں_ جو لوگ برزخ میں ہیں سوال کو سنتے ہیں اور جواب دیتے ہیں لیکن اس کان اور زبان سے نہیں جس کے ذریعہ دنیا میں سنتے اور جواب دیتے تھے بلکہ برزخی زبان اور کان سے، ضروری نہیں کو بولنا اور سنتا ہمیشہ انہی لبوں، زبان اور انہی کانوں سے ہو_ مثلاً آپ خواب میں اپنے دوست سے کلام کرتے ہیں اس کی باتیں سنتے ہیں اور اس سے گفتگو کرتے ہیں کیا اسی کان اور زبان سے؟ یقینا نہیں_ کبھی خواب میں کسی ایسی جگہ جاتے ہیں کہ جہاں کبھی نہ گئے تھے لیکن بیدار ہونے کے بعد وہاں جائیں تو سمجھ جائیں گے کہ خواب میں اس جگہ کو دیکھا تھا خواب میں کس جسم کے ساتھ ادھر ادھر جاتے ہیں خواب میں کس آنکھ سے دیکھتے ہیں اور کس کان سے سنتے ہیں کیا اسی کان اور آنکھ سے؟ کیا اسی جسم سے، یقینا نہیں کیوں کہ یہ جسم بستر پر پڑا آرام

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285