‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) جلد ۲

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) 13%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 285

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 285 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 120626 / ڈاؤنلوڈ: 4192
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

نواں سبق

کیا خدا غیر مرئی ہے

محمود نقاشی کر رہا تھا اس نے کتنا خوبصورت کبوتر بنایا کیا محمود عقل و فہم رکھتا ہے؟ کیا آپ اس کی عقل و فہم کو دیکھ سکتے ہیں_ کیا کہہ سکتے ہیں کہ جب محمود کی عقل اور فہم کو نہیں دیکھ پائے لہذا وہ عقل اور فہم ہی نہیں رکھتا؟

لازماً جواب دیں گے کہ عقل اور فہم آنکھ سے نہیں دیکھی جاسکتی لیکن اس کی علامتیں اور نشانیاں آنکھ سے دیکھ رہے ہیں ان ہی علامات اور آثار کے دیکھنے سے درک کرتے ہیں کہ وہ عقل اور فہم رکھتا ہے_ جی ہاں یہ آپ کا جواب بالکل درست ہے عقل اور فہم کو آنکھ سے نہیں دیکھا جاتا کیوں کہ عقل اور فہم جسم نہیں ہے کہ آنکھ سے دیکھا جائے آنکھ اور دوسرے حواس صرف جسم کے آثار اور نشانیوں کو درک کرسکتے ہیں_ بہت سی چیزیں

۴۱

ایسی موجود ہیں کہ جنھیں آنکھ سے نہیں دیکھ سکتے لیکن ان کو آثار سے دیکھ لیتے ہیں اور ان کے وجود کا علم حاصل کرلیتے ہیں خدا بھی چونکہ جسم نہیں ہے لہذا آنکھ سے نہیں دیکھا جاسکتا اور دوسرے حواس سے بھی درک نہیں کیا جاسکتا لیکن اس جہان پر عظمت کی خلقت جو خود اس کی قدرت کے آثار اور علائم میں سے ہے اس سے اس کے وجود کا علم حاصل کیا جاسکتا ہے کہ اس عظیم جہان کا خالق او رانتظام کرنے والا موجود ہے_

فکر کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ اپنے دوست کودیکھیں کہ وہ کیا دیکھ رہا ہے؟

۲)___ کیا اس کی عقل اور فہم کو آنکھ سے دیکھ سکتے ہیں؟

۳)___ کس طرح جانتے ہیں کہ وہ عقل و فہم رکھتا ہے؟

۴)___کیا یہ کہہ سکتے ہیں کہ چونکہ اسکی عقل اور فہم کو نہیں دیکھ سکتے لہذا وہ عقل و فہم نہیں رکھتا؟

۵)___ ہمارے ظاہری حواس کس چیز کو درک کرسکتے ہیں؟

۶)___ کیا خدا کو آنکھ سے دیکھا جاسکتا ہے

۷)___ کیا خدا کو دوسرے کسی حواس سے محسوس کیا جاسکتا ہے اور کیا بتلا سکتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے؟

۸)___ کیا اب بھی کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ چوں کہ خدا نہیں دیکھا جاسکتا لہذا موجود نہیں ہے؟

۴۲

دسواں سبق

موحّدین کے پیشوا حضرت ابراہیم (ع)

حضرت ابراہیم (ع) علیہ السلام کے زمانے میں لوگ نادان اور جاہل تھے پہلے پیغمبروں کے دستور کو بھلاچکے تھے خداپرستی کے طور طریقے نہیں جانتے خدا کی پرستش کی جگہ بت پرستی کرتے تھے یعنی پتھر یا لکڑی سونا یا چاندی کے مجسمے انسانی یا حیوانی شکل میں بناتے تھے اور ان بے زبان اور عاجز بتوں کے سامنے سجدہ کرتے تھے اور ان کے سامنے زمین پر گرپڑتے اور ان کے لئے نذر و نیاز مانتے اور قربانی دیا کرتے تھے بعض لوگ سورج کی پرستش کرتے تھے اور بعض لوگ چاند یا ستاروں کی پرستش کرتے تھے_ جاہلوں کا ایک گروہ اس زمانہ میںطاقتور اور ظالموں کی پرستش کرتا تھا اور ان کی اطاعت واجب و لازم سمجھتا تھا اور بغیر سوچے سمجھے ظالموں کے دستور پر عمل کرتا تھا اپنے آپ کو ذلیل کر کے ان کے سامنے زمین پر گرتے تھے اور ان

۴۳

کے لئے بندگی کا اظہار کرتے تھے اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم (ع) کو چنا اور انھیں زندگی کا صحیح راستہ بتلایا اور حکم دیا کہ لوگوں کی تبلیغ کریں اور انھیں خداپرستی کے طور طریقے بتلائیں_

حضرت ابراہیم (ع) نے لوگوں سے فرمایا کہ بتوں میں کونسی قدرت ہے کہ تم ان سے محبت کرتے ہو اور ان کی پرستش کرتے ہو یہ مجسمے کیا کرسکتے ہیں یہ نہ تو دیکھتے ہیں نہ سنتے ہیں یہ نہ تو تمہیں کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ ہی تمہیں ضرر پہنچانے پر قدرت رکھتے ہیں_ تم کیوں اپنے اپ کو ان کے سامنے ذلیل کرتے ہو؟ تم کیوں ان کے سامنے زمین پر گرتے ہو؟ کیوں ان کی عبادت و اطاعت کرتے ہو؟ جو لوگ حضرت ابراہیم (ع) کی گفتگو سنتے اور اس کے متعلق فکر نہ کرتے تھے وہ آپ کے جواب میں کہتے کہ ہمارے آباؤ اجداد بت پرست تھے ہمارے دوست اور رفقاء بھی بت پرست تھے اور ہم اپنے گزرے ہوئے آباؤ اجداد کی پیروی کریں گے اور ان کے دین پر باقی رہیں گے_

حضرت ابراہیم علیہ السلام فرماتے تھے کہ تمہارے آباؤ اجداد نے اشتباہ کیا کہ وہ بت پرست بنے کیا تم میں عقل و شعور نہیں؟ کیا تم خود کچھ نہیں سمجھتے؟ کیا دیکھ نہیں رہے ہو کہ ان بتوں سے کچھ بھی تو نہیں ہوسکتا_ کس لئے تم اپنے آپ کو طاقتوروں اور ظالموں کے سامنے ذلیل کرتے ہو وہ بھی تمہاری طرح اللہ کی مخلوق ہیں_

لوگو میں اللہ کا پیغمبر ہوں اور اس کی طرف سے آ زادی اور سعادتمند ی کا پیغام لایا ہوں_ میری بات سنو تا کہ دنیا اور آخرت میں سعادت

۴۴

مند بن جاؤ: لوگو تمہارا پروردگار اور مالک وہ ہے کہ جس نے تم کو پیدا کیا ہے، زمین اور آسمان کو پیدا کیا ہے، کائنات اور اس میں رہنے والوں کے لئے انتظام کرتا ہے تمام قدرت اس کی طرف سے ہے دنیا کا نظام چلانا کسی کے سپرد نہیں کیا اور اس کے چلانے میں کس سے مدد نہیں لی وہ ایک ہے اور قادر مطلق ہے_ میں ان بتوں سے جن کی تم پرستش کرتے ہو بیزار ہوں اور ان کو دوست نہیں رکھتا اور ان کی اطاعت نہیں کرتا

خدا کو دوست رکھتا ہوں اور صرف اس کی پرستش کرتا ہوں کیوں کہ خدا نے مجھے پیدا کیا ہے_

بیماری سے شفا اور زندگی اور موت دنیا اور آخرت سب اس کے ہاتھ میں ہے_

میں امیدوار ہوں کہ قیامت کے دن بھی خداوند عالم مجھ پر مہربان ہوگا اور مجھ پر رحم کرے گا_

لوگو ایک خدا کی پرستش کرو کیوں کہ تمام قدرت خدا سے ہے، خدا ہے اور ہمیشہ رہے گا تمہاری مدد کرنے والا صرف خدا ہے تمہارا راہنما خدا کا پیغام ہے اسی کی طرف توجہ کرو اور صرف اسی کی پرستش کرو پرستش صرف ذات خدا کے ساتھ مخصوص ہے اس کے سواء اور کوئی لائق اطاعت اور پرستش نہیں ہے_

۴۵

غور کریں اور جواب دیں

۱)___ حضرت ابراہیم (ع) کے زمانے میں جاہل لوگ کن چیزوں اور کن لوگوں کی پرستش کرتے تھے؟ اور کن لوگوں کی اطاعت کو ضروری سمجھتے تھے؟

۲)___ اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم (ع) کو کیا فرمان دیا؟

۳)___ حضرت ابراہیم (ع) نے لوگوں سے کیا فرمایا اور کس طرح وضاحت کی کہ بت قابل پرستش نہیں ہیں؟

۴)___ کیا لوگ حضرت ابراہیم (ع) کی گفتگو پرغور کرتے تھے؟ اور آپ سے کیا کہتے تھے؟

۵)___ لوگوں نے حضرت ابراہیم (ع) کو کیا جواب دیا تھا وہ ٹھیک تھا یا غلط اور کیوں؟

۶)___ کیا یہ جائز ہے کہ ایک انسان دوسرے کے سامنے بندگی کا اظہار کرے؟

۷)___ آپ نے بت پرست دیکھا ہے؟

۸)___ حضرت ابراہیم (ع) کی توحید پر کیا دلیل تھی کیوں صرف خدا کو دوست رکھتے تھے اور صرف اسی کی پرستش کرتے تھے؟

۹)___ سوائے خدا کے اور کوئی کیوں قابل پرستش اور اطاعت نہیں؟

۱۰)___ کیا جو کسی ظالم کی اطاعت کرتا ہے وہ موحّد ہے؟

۱۱)___ کس کو موحّد کہتے ہیں موحّد آدمی کی امید کس سے ہوتی ہے؟

۴۶

۱۲)___ اس سبق سے ایک اور سوال بنائیں اوراپنے دوست سے کہیں کہ وہ اس کا جواب دے_

۴۷

حصّہ دوم معاد

۴۸

پہلا سبق

کیا اچھائی اور برائی برابر ہیں

آپ اچھے اور برے کے معنی سمجھتے ہیں اچھے اور برے انسان میں فرق کرسکتے ہیں جو انسان عدل چاہنے والا سچا، نیک کردار، صحیح با ادب، اور امین ہوا سے اچھا انسان شمار کرتے ہیں، لیکن بد اخلاق، جھوٹا، بدکردار، ظالم بے ادب خائن انسان کو برا انسان سمجھتے ہیں کیا آپ کے نزدیک برے اور اچھے انسان مساوی اور برابر ہیں_ کیا آپ اور تمام لوگ اچھے انسانوں کو دوست رکھتے ہیں اور برے آدمیوں سے بیزار ہیں خدا بھی اچھے کردار والے آدمیوں کو دوست رکھتا ہے اور برے انسانوں سے وہ بیزار ہے اسی لئے اللہ تعالی نے پیغمبر(ص) بھیجے ہیں تا کہ اچھے کاموں کی دعوت دیں اور برے کاموں سے روکیں

اب ان سوالوں کے جواب دیں_

۴۹

کیا اچھے لوگوں کے لئے کوئی جزا ہوگی اور برے لوگ اپنے اعمال بد کی سزا پائیں گے؟

کیا اچھے اور برے لوگ اس جہاں میں اپنے اعمال کی پوری اور کامل جزا اور سزا پالیتے ہیں؟

پس اچھے اور برے کہاں ایک دوسرے سے جدا ہوں گے اور کہاں اپنے اعمال کا پورا اور کامل نتیجہ دیکھ سکیں گے؟

اس دنیا کے بعد ایک اور دنیا ہے جسے آخرت کہا جاتا ہے کہ جہاں اچھے اور برے لوگ ایک دوسرے سے جدا ہوں گے اور اپنے اعمال کا ثمرہ پائیں گے اگر آخرت نہ ہو تو اچھے لوگ کس امید میں اچھا کام کریں اور کس لئے گناہ اور برائی سے دور ہیں_ اگر آخرت نہ ہو تو پیغمبروں کی دعوت بے مقصد اور بیہودہ ہوگی اچھائی اور برائی کے کوئی معنی نہ ہوں گے اگر آخرت ہمارے سامنے نہ ہو تو ہماری زندگی بے نتیجہ اور ہماری خلقت بھی بے معنی ہوگی_ کیا علیم و قادر خدا نے ا س لئے ہمیں پیدا کیا ہے کہ چند دن اس دنیا میں زندہ رہیں؟ یعنی کھائیں پئیں، پہنیں، سوئیں اور پھر مرجائیں اور اس کے بعد کچھ بھی نہیں یہ تو ایک بے نتیجہ اور بے معنی کام ہے اور اللہ تعالی بے معنی اور بے فائدہ کام انجام نہیں دیتا_ اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے ''ہم نے تمہیں عبث خلق نہیں کیا ہم نے تم کو پیدا کیا ہے تا کہ اس دنیا میں زندگی گزار و اچھے کام انجام دو اور لائق و کامل بن جاؤ اس کے بعد ہم تم کو اس دنیا سے ایک دوسری دنیا کی طرف لے جائیں گے تا کہ اس دنیا میں اپنے کاموں کا کامل نتیجہ پاؤ''

آخرت میں اچھے بروں سے جدا ہوجائیں گے جو لوگ نیک کام

۵۰

انجام دیتے رہے اور دین دار تھے وہ بہشت میں جائیں گے اور خوشی کی زندگی بسر کریں گے اللہ ان سے راضی ہے اور وہ بھی اپنی اچھی زندگی اور اللہ کی بے پایاں نعمتوں سے خوشنود اور راضی ہیں بے دین اور بد کردار لوگ دوزخ میں جائیں گے اور اپنے برے کاموں کی سزا پائیں گے اللہ ان پر ناراض ہے اور وہ دردناک عذاب کی زندگی بسر کریں گے اور ان کے لئے بہت سخت زندگی ہوگی

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ کون لوگ اچھے ہیں او رکون لوگ برے، ان صفات کو شمار کیجئے

۲)___ کیا برے اور اچھے لوگ آپ کے نزدیک مساوی ہیں؟

۳)___ کیا برے اور اچھے لوگ خدا کی نزدیک برابر ہیں؟

۴)___ پیغمبر(ص) لوگوں کو کن کاموں کی طرف دعوت دیتے ہیں اور کن کاموں سے روکتے ہیں؟

۵)___ کیا لوگ اس دنیا میں اپنے اعمال کی کامل جزاء پاتے ہیں؟

۶)___ کہاں اپنے اعمال کا کامل نتیجہ دیکھیں گے؟

۷)___ اگر آخرت نہ ہو تو اچھائی اور برائی کا کوئی معقول اور درست معنی ہوگا

۸)___ اگر آخرت نہ ہو تو ہماری زندگی کا کیا فائدہ ہوگا؟

۹)___ جب ہم سمجھ گئے کہ اس دنیا کے علاوہ ایک اور دنیا ہے تو ہم کس طرح زندگی گزاریں؟

۵۱

دوسرا سبق

پھول کی تلاش

ہمارے خاندان کے کچھ لوگ مری کے اطراف میں ایک دیہات میں رہتے ہیں وہ دیہات بہت خوبصورت ہے وہاں کی آب و ہوا معتدل ہے اس کے نزدیک ایک پہاڑ ہے کہ جس کا دامن سرخ اور زرد پھولوں سے بھرا ہوا ہے_

ایک دن میرے رشتہ دار بچّے میرے چچا کے گھر بیٹھے تھے عید الاضحی کا دن تھا_ ہم چاہتے تھے کہ کمرے کو پھولوں سے سجائیں میرے والد نے مجھ سے کہا کہ چلیں پھول ڈھونڈ لائیں اور اس کام میں ایک دوسرے کا مقابلہ کریں_

میں نے پوچھا کس طرح؟

والد نے کہا کہ تم تمام کے تمام پہاڑ کے دامن میں جاؤ وہاں بہت

۵۲

زیادہ پھول موجود ہیں پھول توڑو اور لوٹ آؤ لیکن خیال کرنا کہ پھولوں کی جڑوں کو ضرر نہ پہنچے مقابلہ کا وقت ایک گھنٹہ ہے تمام اس مقابلہ میں شریک ہو جاؤ پھول توڑو اور لوٹ آو جو زیادہ پھول لائے گا وہ زیادہ انعام پائے گا تمام بچّے مقابلہ میں شریک ہونے کے لئے آمادہ ہوگئے_

صبح کو ٹھیک سات بجے مقابلہ شروع ہوا کچھ بچے تو اس دیہات کے اطراف میں ہی رہ گئے اور کہنے لگے کہ راستہ دور ہے اور ہم تھک جائیں گے تم بھی یہیں رک جاؤ اور ہم ہمیں مل کر کھیلیں لیکن ہم نے ان کی باتوں پر کان نہ دھرا اور چلے گئے راستے میں دوڑتے اور ایک دوسرے سے آگے نکلتے تھے تا کہ پھولوں تک جلدی پہنچ جائیں راستہ دشوار آگیا بعض بچّے ٹھہر گئے آگے نہ بڑھے او رکہنے لگے کہ ہم یہیں سے پھول توڑیں گے_

میں میرا بھائی اور چچا کا بیٹا سب سے پہلے پہاڑ کے دامن میں پہنچ گئے کتنی بہترین اور خوبصورت جگہ تھی زرد اور سرخ پھولوں سے بھری پڑی تھی_ ہم تینوں نے فیصلہ کیا کہ ایک دوسرے کی مدد کریں اور اکھٹے پھول توڑیں میں اور چچا کا لڑکا پھول توڑنے تھے اور اپنے بھائی کے دامن میں ڈال دیتے تھے اس کا دامن پھولوں سے بھر گیا گھڑی دیکھی تو مقابلہ کا وقت ختم ہونے کے قریب تھا گھر کی طرف لوٹے دوسرے بچّے بھی لوٹ آئے تھے اور جانتے تھے کہ انہیں بہترین انعام ملے گا اور جو تھوڑے پھول توڑ لائے تھے خوش نہ تھے کیوں کہ جانتے تھے کہ مقابلہ میں بہتر مقام نہیں لے سکیں گے اور بہترین انعام حاصل نہیں کرسکیں گے اور جو خالی ہاتھ لوٹ آئے تھے شرمسار اور سرجھکائے ہوئے تھے والد کے پاس پہنچے جس نے جتنے پھول توڑے

۵۳

تھے انہیں دے دیئے اور انعام لیا لیکن جنہوں نے سستی کی تھی اور والد کے فرمان پر عمل نہیں کیا تھا انہوں نے انعام حاصل نہیں کیا بلکہ شرمسار تھے ان سے والد صاحب بھی خوش نہیں ہوئے اور ان کی کوئی پرواہ نہ کی وہ سرجھکائے اپنے آپ کو کہہ رہے تھے کاش ہم بھی کوشش کرتے کاش دوبارہ مقابلہ شروع ہو لیکن مقابلہ ختم ہوچکا تھا

جزاء کا دن

مقابلہ کے ختم ہوجانے کے بعد ہمارے والد نے ہم سے گفتگو کرنا شروع کی او رکہا '' میرے عزیز اور پیارے بچّو مقابلہ کے انعقاد کے لئے میرا نظریہ کچھ اور تھا میں اس سے تمہیں سمجھنا چاہتا تھا کہ یہ جہان مقابلہ کا جہان ہے_ ہم تمام اس جہان میں مقابلہ کرنے آئے ہیں اور قیامت کے دن اس کا انعام اور جازء حاصل کریں گے ہمارا مقابلہ نیک کاموں اور اچھے اعمال میں ہے_ اچھے اور برے کام کی جزاء اور سزا ہے اچھے اور برے لوگ اللہ کے نزدیک برابر نہیں _ ہماری خلقت اور کام و کوشش کرنا بے معنی اور بے فائدہ نہیں لوگوں کا ایک گروہ اللہ تعالی کے فرمان کا مطیع اور فرمانبردار ہے نیک کاموں کا بجالانے میں کوشش کرتا ہے وہ ہمیشہ اللہ کی یاد میں ہے اچھے اور صالح لوگوں سے دوستی کرتا ہے ان کی راہنمائی میں بہت زیادہ اچھے

۵۴

کام انجام دیتا ہے نیک کاموں میں سبقت لے جاتا ہے اپنے دوستوں اور ہمسایوں کی مدد کرتا ہے مظلوموں کی حمایت کرتا ہے

یہ لوگ آخرت میں بہترین انعام اور جزاء پائیں گے خدا ان سے خوش ہوگا اور وہ بھی خدا سے انعام لے کر خوش ہوں گے سب سے پہلے بہشت میں جائیں گے اور بہشت کے بہترین باغ میں اپنے دوستوں کے ساتھ خوش و خرّم زندگی بسر کرین گے ہمیشہ اللہ تعالی کی تازہ نعمتوں اور اس کی پاک محبت سے مستفید ہوں گے، اور لذت اٹھائیں گے_ ایک اور گروہ اس جہان میں اچھے کام انجام دیتا ہے وہ اچھے کاموں میں مدد بھی کرتا ہے اور اللہ کو یاد بھی کرتا ہے لیکن پہلے گروہ کی طرح کوشش نہیں کرتا اور سبقت لے جانے کے درپے نہیں ہوتا یہ بھی قیامت کے دن انعام او رجزاء پائیں گے اور بہشت میں جائیں گے لیکن ان کا انعام او رجزاء پہلے گروہ کی طرح نہیں ہوگا_ تیسرا گروہ ظالم اور بے دنیوں کا ہے وہ اللہ اور اس کے پیغمبر(ص) کے فرمان کو قبول نہیں کرتا اور اس پر عمل نہیں کرتا_ وہ خدا کو بھول گیا ہے، اچھے کام انجام نہیں دیتا، گناہ گار اور بداخلاق، اور بدکردار ہے لوگوں پر ظلم کرتا ہے اور یہ گروہ خالی ہاتھ آخرت میں سامنے آئے گا اچھے کام اپنے ساتھ نہیں لائے گا اپنے برے افعال اور ناپسندیدہ اعمال سے شرمندہ ہوگا_

جب اچھے لوگ انعام پائیں گے تو یہ افسوس کرے گا اور پشیمان ہوگا اور کہے گا_ کاش دنیا میں پھر بھیجا جائے تا کہ وہ نیک کام بجالائے لیکن افسوس کہ دوبارہ لوٹ جانا ممکن نہیں ہوگا اس گروہ کے لوگ جہنم میں جائیں گے اور اپنے برے کاموں کی سزا پائیں گے_

۵۵

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ کیا ہماری خلقت و کوشش بغیر کسی غرض اور غایت کے ہے اور کیا ہم ان کاموں اور کوششوں سے کوئی نتیجہ بھی لیں گے؟

۲)___ یہ جہان مقابلہ کی جگہ ہے، سے کیا مراد ہے؟

۳)___ متوجہ اور آگاہ انسان اس دنیا میں کن کاموں کی تلاش میں اور کن کاموں میں مقابلہ کر رہا ہے؟

۴)___ کون لوگ آخرت میں بہترین انعام پائیں گے؟

۵)___ ان لوگوں نے دنیا میں کیا کیا ہے؟

۶)___ ان کے اعمال اور کردار کیسے تھے، ان کے دوست کیسے تھے کن کاموں میں مقابلہ کرتے تھے؟

۷)___ آپ کی رفتار اور آپ کا کردار کیسے ہے، آپ کے دوستوں کا کردار کیسا ہے، کن کاموں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں اگر آپ کا کوئی دوست آپکو کسی ناپسندیدہ کام کی دعوت دے تو پھر بھی اس سے دوستی رکھتے ہیں؟

۸)___ کون لوگ قیامت کے دن شرمندہ ہوں گے کیوں افسوس کریں گے یہ لوگ اس دنیا میں کیسا کردار تھے ہیں؟

۹)___ دوسرے گروہ کا انعام اور جزاء کا پہلے گروہ کے انعام اور جزائ

۵۶

سے کیا فرق ہے اور کیوں؟

ان سوالوں کے جواب خوش خط لکھیں

۵۷

تیسرا سبق

جہان آخرت عالم برزخ اور قیامت

مرنے کے بعد فنا نہیں ہوتے بلکہ اس جہان سے دوسری دنیا کی طرف جاتے ہیں کہ جس کا نام جہان آخرت ہے، آخرت سے پہلے عالم برزخ ہے اور اس کے بعد قیامت ہے عالم برزخ ایک دنیا ہے جو دنیا و آخرت کے درمیان میں واقع ہے_خداوند عالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے کہ ان کے سامنے بزرخ ہے قیامت تک'' اور ایک جگہ فرماتا ہے ''گمان نہ کرو کہ وہ لوگ جو اللہ کے راستے میں قتل ہوجاتے ہیں وہ مرگئے ہیں بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار سے روزی پاتے ہیں'' خداوند عالم نے ہمیں پیغمبر(ص) اسلام کے ذریعہ خبر دی ہے کہ جب انسان مرجاتا ہے اور دنیا کو ترک کرتا ہے_ اور برزخ

۵۸

میں جاتا ہے تو عالم برزخ میں اس سے سوال کیا جاتا ہے کہ کتنے خدا کا عقیدہ رکھتے ہو_ کس کے فرمان کے مطیع تھے خدا کے یا غیر خدا کے، تیرا پیغمبر کون ہے، تیرا دن کیا ہے، تیرا رہبر و امام کون ہے، جس نے دنیا میں خداپرستی او ردینداری اور با ایمان زندگی گزاری ہوگی وہ آسانی سے جواب دے گا اور اس کا ایمان ظاہر ہوجائے گا اس مختصر سوال و جواب کے بعد برزخ میں آرام سے اور خوشی سے قیامت تک زندگی گزاریں گے اور عمدہ نعمتیں جو بہشتی نعمتوں کا نمونہ ہوں گی اسے دی جائیگی لیکن وہ لوگ جو خدا اور اس کے پیغمبر(ص) کو قبول نہ کرتے تھے اور اس کے فرمان کے مطیع نہ تھے بے دین اور ظالم تھے برزخ میں بھی خدا اور اس کے پیغمبر(ص) کا اقرار نہیں کریں گے ان کا کفر اور ان کے بے دینی ظاہر ہوگی اس قسم کے لوگ برزخ میں سختی اور عذاب میں مبتلا ہوں گے برزخ کا عذاب ان کے لئے جہنّم کے عذاب کا نمونہ ہوگا_ برزخ میں انسان کی حقیقت ظاہر ہوجائے گی اور اس کا ایمان اور کفر واضح ہوجائے گا جو شخص دنیا میں خدا و قیامت کے دن پیغمبروں(ص) پر واقعاً ایمان رکھتا تھا اور نیکوکار تھا برزخ میں اس کا ایمان ظاہر ہوجائے گا_ وہ صحیح اور صاف صاف جواب دے گا لیکن جو شخص واقعی ایمان نہیں رکھتا تھا اور ظالم و بدکار تھا برزخ میں اس کا کفر ظاہر ہوجائے گا اور وہ صحیح جواب نہیں دے سکے گا_

گناہ گار انسان جہنم کے عذاب کا نمونہ برزخ میں دیکھے گا اور اس کے اعمال کی سزا یہیں سے شروع ہوجائے گی پیغمبر اسلام حضرت محمد ابن عبداللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں کہ جو لوگ گھر مین بداخلاقی کرتے ہیں برزخ میں عذاب میں مبتلا ہوں گے حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا کہ

۵۹

جو لوگ خچل خوری کرتے ہیں اور جو لوگ شراب سے پرہیز نہیں کرتے برزخ میں عذاب میں مبتلا ہوں گے_

برزخ میں سوال و جواب

برزخ میں سوال و جواب حقیقی ہوگا جو لوگ برزخ میں جائیں گے ان سے حقیقتاً سوال ہوگا وہ یقینا ان سوال کا جواب دیں گے لیکن برزخ کا سوال و جواب دنیا کے سوال و جواب کی طرح نہیں_ جو لوگ برزخ میں ہیں سوال کو سنتے ہیں اور جواب دیتے ہیں لیکن اس کان اور زبان سے نہیں جس کے ذریعہ دنیا میں سنتے اور جواب دیتے تھے بلکہ برزخی زبان اور کان سے، ضروری نہیں کو بولنا اور سنتا ہمیشہ انہی لبوں، زبان اور انہی کانوں سے ہو_ مثلاً آپ خواب میں اپنے دوست سے کلام کرتے ہیں اس کی باتیں سنتے ہیں اور اس سے گفتگو کرتے ہیں کیا اسی کان اور زبان سے؟ یقینا نہیں_ کبھی خواب میں کسی ایسی جگہ جاتے ہیں کہ جہاں کبھی نہ گئے تھے لیکن بیدار ہونے کے بعد وہاں جائیں تو سمجھ جائیں گے کہ خواب میں اس جگہ کو دیکھا تھا خواب میں کس جسم کے ساتھ ادھر ادھر جاتے ہیں خواب میں کس آنکھ سے دیکھتے ہیں اور کس کان سے سنتے ہیں کیا اسی کان اور آنکھ سے؟ کیا اسی جسم سے، یقینا نہیں کیوں کہ یہ جسم بستر پر پڑا آرام

۶۰

کر رہا ہے اور آنکھیں بند کی ہوئی ہیں_

اس قسم کے خواب ممکن ہے کہ آپ نے دیکھے ہوں یا آپ کے کسی دوست نے دیکھے ہوں، برزخ کی دنیا واقعی اور حقیقی دنیا ہے اور اس میں سوال و جواب بھی حقیقی ہیں_ ہم نے خواب کو بطور مثال ذکر کیا ہے_

غور کیجئے او رجواب دیجئے

۱)___ آیا ہماری محنت اور کام بے فائدہ ہیں ہم اپنی کوشش کا نتیجہ کہاں دیکھیں گے؟

۲)___ آخرت سے پہلے کس دنیا میں جائیں گے؟

۳)___ خدا نے برزخ کے متعلق کیا فرمایا ہے؟

۴)___ جو شخص دنیا میں خدا اور پیغمبروں پر واقعی ایمان رکھتا ہے برزخ میں کیسی زندگی گذارے گا؟ اس دنیا کے سوالوں کا کس طرح جواب دے گا؟

۵)___ برزخ میں انسان سے کیا پوچھا جائے گا؟

۶)___ برزخ میں کن لوگوں کا ایمان ظاہر ہوگا؟

۷)___ کفر ا ور برائی کسکی ظاہر ہوگی؟

۸)___ آیا آخرت میں جھوٹ بولا جاسکتا ہے؟ اور کیوں؟

۹)___ کون سے لوگ برزخ میں عذاب میں مبتلا ہوں گے؟

۱۰)___ آیا برزخ کا سوال اور جواب اسی دنیاوی زبان اور کان سے ہوگا؟

۶۱

چوتھا سبق

مردے کیسے زندہ ہونگے

حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ کے پیغمبر(ص) تھے وہ آخرت اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے تھے انہیں علم تھا کہ آخرت میں مردے زندہ ہوں گے اور حساب و کتاب کے لئے حاضر ہوں گے لیکن اس غرض کے لئے کہ ان کا یقین کامل ہوجائے اللہ تعالی سے درخواست کی کہ مردوں کا زندہ کرنا انہیں دکھلائے انہوں نے خدا سے کہا معبود تو کس طرح مردوں کو زندہ کرتا ہے اللہ نے ان سے کہا کیا تم مردوں کو زندہ ہونے پر ایما نہیں رکھتے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جواب دیا کہ خدا یا ایمان رکھتا ہوں لیکن چاہتا ہوں کہ میرا دل اطمینان حاصل کرے، اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی درخواست قبول کرلی اور حکم دیا کہ چار پرندے انتخاب کرو اور انکو ذبح کرو اور ان کو ٹکڑے ٹکڑے کردو اور انہیں اچھی طرح کوٹ دو پھر انکو

۶۲

قیمہ شدہ گوشت اور پروں اور ہڈیوں کو کئی حصّوں میں تقسیم کردو اور ہر ایک حصّہ کو پہاڑ پر رکھ دو اسکے بعد پہاڑ کے وسط میں کھڑے ہوجاؤ اور ہر ایک پرندے کو اس کے نام کے ساتھ پکارو و ہ اللہ کے حکم سے تیرے حکم پر زندہ ہوں گے اور تیری طرف ڈورے آئیں گے اور تم جان لوگے کہ اللہ تعالی عالم و قادر ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالی کے اس حکم پر عمل کیا چار پرندے لئے ایک کبوتر دوسرا کوّا تیسرا مرغ اور چوتھا مور تھا، ان کو ذبح کیا اور ٹکڑے ٹکڑے کر کے انہیں کوٹ کو قیمہ بنادیا اور آپس میں ملادیا پھر ان کاگوشت تقسیم کر کے ہر ایک حصّہ کو پہاڑ پر رکھا اور اس پہاڑ کے وسط میں کھڑے ہوکر پہاڑ کی طرف دیکھا اور بلند آواز سے مور کو بلایا اور کہا اے مور ہماری طرف آؤ: مور کے ٹکڑے پہاڑ سے آنحضرت کی طرف آئے اور آپس میں ملتے گئے اور مور کی گردن، سر، پاؤں اور اس کے پرو ہیںبن گئے اور مور زندہ ہوگیا، اپنے پروں کو ہلایا اور حضرت ابراہیم کے سامنے چلنے لگا اسی طرح کبوتر، کوّا، اور مرغ بھی زندہ ہوگئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مردہ پرندوں کا اپنے اپنے جسم کے ساتھ زندہ ہونا اپنی آنکھوں سے دیکھا_

آپ(ع) کا ایمان اور یقین کامل تر ہوگیا اور اللہ تعالی کی قدرت کا مشاہدہ کیا اور آپ کا دل مطمئن ہوگیا اور آپ نے سمجھ لیا کہ قیامت کے دن مردے کس طرح زندہ ہوں گے_

۶۳

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ حضرت ابراہیم (ع) نے اللہ تعالی سے کونسی درخواست کی تھی

۲)___ اس درخواست کی غرض کیاتھی؟

۳)___ اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم (ع) کی درخواست کا کیا جواب دیا؟ اور انہیں کیا حکم دیا؟

۴)___ حضرت ابراہیم (ع) نے اللہ تعالی کے فرمان پر کس طرح عمل کیا؟

۵)___ کس طرح پرندوں کو زندہ کیا؟

۶)___ کس ذات نے پرندوں کے زندہ کرنے کی قدرت حضرت ابراہیم (ع) کو دی تھی؟

۷)___ حضرت ابراہیم (ع) نے اس تجربہ سے کیا نتیجہ لیا؟

۶۴

پانچواں سبق

کس طرح

آپ کس طرح کام کو یاد کرتے ہیں؟ اور کس طرح کام کرنے کے عادی بنتے ہیں؟ ایک کام کا بار بار کرنا آپ کی جان اور روح پر کیا اثر کرتا ہے، جب ایک کام کو بار بار انجام دیں تو وہ آپ کی روح پر کیا اثر کرتا ہے آہستہ آہستہ آپ اس کے عادی ہوجاتے ہیں اور پھر اس کام کو ٹھیک بجالاسکتے ہیں مثلا جب کچھ لکھتے ہیں تو یہ لکھنا آپ پر اثرانداز ہوتا ہے اگر لکھنے میں ذرا محنت کریں صاف اور اچھی طرح لکھیں تو یہ محنت کرنا آپ کی روح پر اثرانداز ہوگا کہ جس کے نتیجہ میں آپ کا خط خوشنما اور خوبصورت ہوجائے گا لیکن اگر لکھنے میں محنت نہ کریں تو یہ بے اعتنائی بر اثر چھوڑے گی جس کے نتیجے میں آپ کاخط بدنما ہو جائے گا ہم جتنے کام کرتے ہیں وہ بھی اسی طرح ہماری روح پر اثرانداز

۶۵

ہوتے ہیں اچھے کام اچھے اثر اور برے کام برا اثر چھوڑتے ہیں_

ہماری زندگی کے کام

جب ہم اچھے کام کرتے ہیں تو وہ ہماری روح پر اثرانداز ہوتے ہیں اور ہمیں پاک اور نورانی کردتے ہیں ہم نیک کام بجالانے سے ہمیشہ اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور اللہ تعالی سے انس و محبت کرتے ہیں اور نیک کام بجالانے کے انجام سے لذّت اٹھاتے ہیں صحیح عقیدہ ہے اور ہمیں نورانی اور خوش رو کردیتا ہے_ برے کردار اور ناپسندیدہ اطوار بھی انسان پر اثر چھوڑتے ہیں انسان کی روح کی پلید اور مردہ کردیتے ہیں پلید روح خدا کی یاد سے غافل ہوا کرتی ہے وہ برے کاموں کی عادی ہونے کی وجہ سے سیاہ اور مردہ ہوجاتی ہے اور انسان کو ترقی سے روک دیتی ہے ہماری خلقت بیکار نہیں ہے اور ہمارے کام بھی بیہودہ اور بے فائدہ نہیں ہیں ہمارے تمام کام خواہ اچھے ہوں یا برے ہم پر اثر انداز ہوتے ہیں اور یہ اثر باقی رہتا ہے ہم اپنے تمام کاموں کے اثرات آخرت میں دیکھیں گے بہشت اور اس کی عمدہ نعمتیں صحیح عقیدہ رکھنے اور اچھے کاموں کے کرنے سے ملتی

۶۶

ہیں اور جہنّم اور اس کے سخت عذاب باطل عقیدہ اور ناپسندیدہ کاموں کے نتیجے میں ہمارے تمام کام خواہ اچھے ہوں یا برے ہوں ہماری زندگی کے حساب میں لکھے جاتے ہیں اور وہ ہمیشہ باقی رہتے ہیں ممکن ہے کہ ہم اپنے کاموں سے غافل ہوجائیں لیکن وہ ہرگز فنا نہیں ہوتے اور تمام کے تمام علم خدا میں محفوظ ہیں آخرت میں ہم جب کہ غفلت کے پردے ہت چکے ہوں گے اپنے کاموں کا مشاہدہ کریں گے_

خدا قرآن میں فرماتا ہے_ کہ جب انسان کو حساب کے لئے لایا جائے گا اور وہ نامہ اعمال کو دیکھے گا اور اپنے اعمال کا مشاہدہ کرے گا تو تعجب سے کہے گا یہ کیسا نامہ اعمال ہے کہ جس میں میرے تمام کام درج ہیں کس طرح میرا کوئی بھی کام قلم سے نہیں چھوٹا_ اللہ تعالی کی طرف سے خطاب ہوگا تیرے کام دنیا میں تیرے ساتھ تھے لیکن تو ان سے غافل تھا اب جب کہ تیری روح بینا ہوئی ہے تو تو اس کو دیکھ رہا ہے ''دوسری جگہ ارشاد الہی ہوتا ہے''

جو شخص اچھے کام انجام دیتا ہے قیامت کے دن اسے دیکھے گا'' اور جو شخص برے کام انجام دیتا ہے معدہ ان کو قیامت کے دن مشاہدہ کرے گا_

اب جب کہ معلوم ہوگیا ہمارے تمام کام خواہ اچھے یا برے فنا نہیں ہوتے بلکہ وہ تمام کے تمام ہماری زندگی کے نامہ اعمال میں درج ہوجاتے ہیں اور آخرت میں ان کا کامل نتیجہ ہمیں ملے گا تو کیا ہمیں اپنے اخلاق اور کردار سے بے پرواہ ہونا چاہیئے؟

۶۷

کیا ہماری عقل نہیں کہتی؟ کہ خداوند عالم کی اطاعت کریں اور اس کے فرمان او رحکم پر عمل کریں؟

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ اچھے کام اور اچھا اخلاق ہماری روح پر کیا اثر چھوڑتے ہیں؟

۲)___ برے کام اور برے اخلاق کیا اثر چھوڑتے ہیں؟

۳)___ کیا ہمارے برے اور اچھے کام فنا ہوجاتے ہیں؟

۴)___ کن چیزوں کے ذریعہ سعادت اور کمال حاصل ہوتا ہے؟

۵)___ بہشت کی نعمتیں کن چیزوں سے ملتی ہیں؟

۶)___ جہنم کا عذاب کن چیزوں سے ملتا ہے؟

۷)___ ہمارے کام کہاں درج کئے جاتے ہیں؟

۸)___ کیا ہم اپنے کاموں کو دیکھ سکیں گے؟

۹)___ خداوند عالم ہمارے اعمال کے بارے میں کیا فرماتا ہے؟

۱۰)___ اب جب کہ سمجھ لیا ہے کہ ہمارے تمام کام محفوظ کر لئے جاتے ہیں تو ہمیں کون سے کام انجام دیتے چاہیئےور کسی طرح زندگی بسر کرنی چاہیئے

۶۸

حصّہ سوم

نبوّت

۶۹

پہلا سبق

صراط مستقیم

اگر زندگی میں کامیاب ہونا چاہیں تو کون سا راستہ اختیار کریں گے؟ دونوں جہانوں میں سعادت مند ہونے کے لئے کون سا منصوبہ آپ کے پاس موجود ہے؟ کیا آپ نے اس کے متعلق فکر کی ہے؟ اگر آپ چاہتے ہیں کہ کامل اور اچھا انسان بن جائیں تو کیا آپ کے پاس ہے؟

کیا آپ دوسروں کو دیکھ رہے ہیں جو راستہ انہوں نے اختیار کیا ہے آپ بھی اسی پر چلیں گے؟

جو پروگرام انہوں نے منتخب کیا ہے آپ بھی وہی انتخاب کریں گے؟

کیا راست کے انتخاب اورمقصود زندگی کے متعلق فکر نہیں کرتے کیا درست پروگرام کے انتخاب میںکبھی نہیں سوچتے؟

۷۰

شاید آپ کہیں کہ میں خود اچھا پروگرام بنا سکتا ہو کیا آپ اس جہان اور آخرت کی تمام ضروریات سے باخبر ہیں یا بے خبر؟ تو پھر کس طرح اچھا اور مکمل آپ خود بناسکتے ہیں؟

آپ شاید یہ کہیں کہ اہل عقل اور دانشور اور علماء میرے لئے زندگی کا پروگرام مہيّا کرسکتے ہیں لیکن کیا یہ حضرات آپ کی دنیا اور آخرت کی احتیاجات سے مطلع ہیں کیا یہ لوگ آخرت سے باخبر ہیں؟

پس کون ذات انسان کے کامل اور سعادت مند ہونے کاپروگرام بناسکتی ہے؟

انسان؟ یا انسان کا خالق؟ البتہ انسان کا خالق کیوں کہ اس نے انسان کوپیدا کیاہے وہ خلقت کے اسرار سے آگاہ ہے صرف وہی انسان کی دنیا اور آخرت میں زندگی کے شرائط سے باخبر ہے اسی لئے صرف وہی انسان کی زندگی کے باکمال اور سعادتمند ہونے کا پروگرام منظّم کرنے کا اہل ہے پس سعادت اور کمال کا بہترین پروگرام وہی ہوگا جو اللہ تعالی نے منظم کیا ہو اور اسے اپنے پیغمبروں کے ذریعے انسان تک پہنچاتا ہو کیا آپ نے کبھی سوچا ہے؟ کہ زندگی کے لئے کونسا راستہ انتخاب کریں گے؟

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ کیا آپ خود دنیا اور آخرت کے لئے پروگرام بناسکتے ہیں

۷۱

اور کیوں وضاحت کیجئے؟

۲)___ کیا کوئی دوسرا ایسا کرسکتا ہے اور کیوں؟

۳)___ پس ایسا کون کرسکتا ہے اور کیوں؟

۴)___ خداوند عالم نے انسان کی سعادت کا پروگرام کس کے ذریعہ بھیجا ہے؟

۵)___ اگر چاہیں کہ دنیا اور آخرت میںکامیاب اور سعادتمند ہوں تو کس پروگرام کا انتخاب کریں اور کیوں؟

۷۲

دوسرا سبق

کمال انسان

جب گیہوں کے دانے کو زمین میں ڈالیں اور اسے پانی دیں تو اس میں کیا تبدیلی آتی ہے؟ کون سا راستہ اختیار کرتا ہے؟ کیا کوئی خاص ہدف اور غرض اس کے سامنے ہے اور کس مقصد کو حاصل کرنا چاہتا ہے گیہوں کا دانا ابتداء ہی سے ایک معین ہدف کی طرف حرکت شروع کردیتا ہے اس مقصد اور غرض تک پہنچنے کے لئے بڑھتا ہے یعنی ابتداء میں گیہوں کا دانہ زمین میں جڑیں پھیلاتا ہے پھرتنا، اور پھر سبز ہوجاتا ہے او ربتدریج بڑا ہونے لگتا ہے اور خوش نکالتا ہے گیہوں کا ایک دانہ کئی خوشے بناتا ہے اور پھر یہی خوشے انبار بن جاتے ہیں اور اس انبار سے ہزاروں انسان استفادہ کرتے ہیں تمام نباتات گیہوں کے دانے کی طرح کمال کا راستہ طے کرتے ہیں اور معین اور معلوم غرض و غائت

۷۳

جو ہر ایک کے لئے معین ہوئی ہے کی طرف حرکت کرتے ہیں آپ اگر سیب کا دانہ کاشت کریں اور اسے پانی دیں اس کی ابتداء ہی سے آپکو معلوم ہوجائے گا کہ چھوٹا دانہ ایک معین غرض و ہدف رکھتا ہے اور اسی کی طرف حرکت شروع کرتا ہے اور اپنے کمال کو پہنچتا ہے یعنی چھوٹا دانہ جڑیں پھیلاتا ہے تنا اور شاخ نباتا ہے سبز ہوتا ہے اور بڑا ہوتا جاتا ہے ہر دن پہلے دن سے زیادہ کمال کی طرف ہوتا ہے بالآخر اس میں شگوفہ پھوٹتا ہے اور یہ خوبصورت شگوفہ سیب بن جاتا ہے اسی ترتیب سے وہ چھوٹا دانہ تکمیل کو پہنچتا ہے اور اپنی حرکت اور کوشش کے نتیجے کو انسان کے اختیار میں دے دیتا ہے اللہ تعالی جو عالم اور قادر ہے اور جس نے تمام چیزوں کو پیدا کیا ہے اور تکامل کا راستہ بھی انھیں ودیت کردیا ہے اور اس کے پہنچنے تک وسائل اور اسباب بھی ان کے لئے فراہم کردیئے ہیں مثلاً دوسرے پودے گیہوں اور سیب کے دانے کی طرح اپنے کمال کے لئے پانی، مٹی، ہوا، اور روشنی کے محتاج ہیں اللہ تعالی نے پانی، مٹی، روشنی اور ہوا، ان کے لئے پیدا کردی ہے تا کہ پودے ان سے استفادہ کریں اور مکمل ہوکر مقصد کو پالیں_

انسان کو بھی اپنے مقصد خلقت کوحاصل کرنا چاہیے کس طرح اور کس کے ماتحت؟

کون جانتا ہے کہ انسان کا جسم اور روح کن چیزوں کے محتاج ہیں اور کس طرح کمال حاصل کریں گی، البتہ صرف خدا جانتا ہے کیوں کہ تنہا وہی ذات ہے جو انسان کی خلقت کے اسرار سے آگاہ ہے اور وہی ذات

۷۴

ہے جو آخرت میں انسان کی ضرورت سے باخبر ہے اسی لئے خالق اور مالک نے تمام دنیا کی چیزوں کو اکمل بنایا ہے اور انسانیت کی معراج کے لئے پروگرام بنائے ہیں اور پیغمبروں کے وسیلے اور ذریعہ سے انسان تک پہنچائے ہیں_ آخری اور اہم ترین پروگرام آخری پیغمبر جو حضرت محمد صل اللہ علیہ و آلہ و سلم ہیں کے وسیلے سے تمام لوگوں کے لئے بھیجا ہے اس پروگرام کا نام تکامل دین اسلام ہے

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ تھوڑا سا گیہوں کسی برتن میں ڈالیں اور اسے پانی دیں دیکھیں گیہوں کا یہ دانہ کس طرح اپنے لئے راستہ معین کرلیتا ہے او رکس غرض کی طرف حرکت کرتا ہے؟

۲)___ سیب اور تمام پودے اور نباتات کے لئے غرض اور ہدف ہے، اس جملے کے کیا معنی ہیں؟

۳)___ نباتات کو کامل ہونے کے لئے کن کن چیزوں کی ضرورت ہے؟

۴)___ انسان کی معراج کا پروگرام کون بنا سکتا ہے؟ اور کیوں

۵)___ خدا نے انسان کی معراج کا پروگرام کنکے وسیلے ان تک پہنچایا ہے

۶)___ آخری اور مکمل ترین پروگرام ہمارے لئے کون لایا ہے؟

۷)___ اس آخری پروگرام کا کیا نام ہے؟

۷۵

تیسرا سبق

راہنما کیسا ہونا چاہیئے

جو بچّہ اپنا گھر بھول گیا ہو اسے کسکے سپرد کریں گے کون اس کی راہنمائی کر سکتا ہے اور اسے اس کے گھر پہنچا سکتا ہے؟ کیا وہ آدمی جو امین نہ ہو اس پر اعتماد کر کے بچّے کو اس کے سپرد کریں گے اور کیوں؟ اس کو جو اس کے گھر کو نہیں جانتا یا راستوں سے بھٹک جاتا ہے اسکی رہنمائی کے لئے انتخاب کریں گے؟ اور کیوں پس راہنما کو چاہئے کہ راستے کو ٹھیک جانتا ہو نیک اور امین ہو اور غلط راہنمائی نہ کرتا ہو پیغمبر وہ انسان ہوتا ہے جو امین اور نیک ہوتا ہے اللہ تعالی نے اسے لوگوں کی راہنمائی کے لئے چنا ہے اور اسے دنیا اور آخرت کی زندگی کا راستہ بتلایا ہے اور انسانوں کی رہبری اس کے سپرد کی ہے_

۷۶

چوتھا سبق

پیغمبر کو کیسا ہونا چاہیے

جب آپ کسی دوست کی طرف پیغام بھیجنا چاہتے ہوں تو یہ پیغام کس کے سپرد کرتے ہیں اس کے سپرد کرتے ہیں جو آپ کے دوست تک پہنچا دے یا جھوٹے اور غلط آدمی کو پیغام پہنچانے کے لئے منتخب کرتے ہیں یا کمزور حافظی اور غلطی کرنے والے کو ان میں سے کس کو پیغام پہنچاتے کے لئے انتخاب کرتے ہیں؟

جی ہاں پیغام پہنچانے کے لئے سچّا اور صحیح آدمی ہونا چاہیئے تا کہ پیغام کو بھول نہ جائے اسکے سننے اور پہنچانے میں غلطی نہ کرے خدا بھی اپنا پیغام پہنچانے کے لئے سچّے اور صحیح آدمی کو چنتا ہے اور اس کو پیغام دیتا ہے پیغمبر خدا کے پیغام کو صحیح حاصل کرتا ہے اور اس پیغام کو لوگوں تک پہنچاتا ہے _

۷۷

پانچواں سبق

اجتناب گناہ کا فلسفہ

میلے کچیلے کپڑوں کو ایک طشت میںدھویا ہو تو کون ہے جو اس میلے پانی کو پیئے گا؟ اگر وہی پانی کسی اندھے یا بے خبر انسان کو دیں تو ممکن ہے کہ وہ اسے پی لے_ لیکن آنکھوں والا اور انسان کیسے جو شخص اس کی گندگی اور خرابی کودیکھ رہا ہو اور اس کے باخبر اثرات کو جانتا ہو ایسے پانی کو دیکھ تو کیا اسے پیئے گا؟ جی ہاں ہر وہ شخص جو بینا اور آگاہ ہو وہ کوئی گندی اور خراب چیز سے اپنے آپ کو آلودہ نہیں کرے گا بلکہ اس سے نفرت اور بیزاری کرے گا اسی طرح پیغمبر بھی گناہ سے نفرت کرتے تھے وہ گناہ کے بجالانے پر قدرت رکھتے تھے لیکن کبھی گناہ نہیں کیا کیونکہ وہ گناہ کی پلیدی اور برائی کو دیکھ رہے تھے یہ اطلاع اور آگاہی ان کو خداوند عالم نے عطا فرمائی تھی_

۷۸

چھٹا سبق

پیغمبر آگاہ اورمعصوم راہنما ہیں

خداوند عالم نے اپنا پیغام پہنچانے کے لئے ایسے انسان کا انتخاب کیا جو امین ہیں انہیں دین کا کامل نمونہ قرار دیا ہے تا کہ ان کا کردار اور گفتار لوگوں کو خدا کی طرف راہنمائی کرے پیغمبر انسانوں میں بہترین اور کامل ترین فرد ہوتا ہے علم و اخلاق اور کردار میں تمام مردوں سے افضل ہوتا ہے خدا اس کی تربیت کرتا ہے اور پھر اس کا انتخاب کرتا ہے تا کہ لوگوں کا پیشوا اور نمونہ ہو_ پیغمبر دنیا اور آخرت کی سعادت کے راستے اچھی طرح جانتا ہے یعنی اللہ تعالی نے اسے جو بتلایا ہے پیغمبر خود ان راستوں پر چلتا ہے اور لوگوں کو ان راستوں پرچلنے کی راہنمائی اور اس کی طرف دعوت دیتا ہے پیغمبر خدا کو اچھی طرح پہنچانتا ہے اور اسے بہت دوست رکھتا ہے، دنیا اور آخرت جہنم اور بہشت سے پوری طرح آگاہ ہوتا ہے

۷۹

اچھے اور برے اخلاق کو اچھی طرح پہنچانتا ہے وہ گناہ کی پلیدی اور بدنمائی کو دیکھتا ہے اور یہ جانتا ہے کہ گناہ انسان کی روح کو آلودہ اور کثیف کردیتا ہے_ اللہ تعالی جو عالم اور قادر ہے اس نے یہ علم پیغمبر کے اختیار میں دیا ہے پیغمبر اس آگاہی اور علم سے گناہ کی گندگی اور بدنمائی کا مشاہدہ کرتا ہے اور جانتا ہے کہ خدا گناہ گار انسان کو دوست نہیں رکھتا اور اس سے ناراض ہوتا ہے اسی لئے پیغمبر ہرگز گناہ نہیں کرتا بلکہ گناہ سے نفرت کرتا ہے_

پیغمبر خدا کے پیغام کو بغیر کسی کمی و بیشی کے لوگوں تک پہنچاتا ہے اور اس سے غلطی اور نسیان نہیں ہوتا_ اور چونکہ گناہ اور غلطی نہیں کرتا لوگ بھی اس پر اعتماد کرتے ہیں اور اس کے کردار اور گفتار کو نمونہ قرار دیتے ہیں_ ایسے ہی انسان کو معصوم کہتے ہیں اور اللہ تعالی کے تمام پیغمبر معصوم ہوتے ہیں یعنی گناہ نہیں کرتے اور ان سے غلطی اورنسیان نہیں ہوتا وہ نیک اور امین ہوتے ہیں_

پیغمبر لوگوں میں سے عالم اور معصوم ہوتے ہیں اللہ کے پیغام کو پہنچاتے ہیں اور ان کی راہنمائی کرتے ہیں اور اللہ کی طرف اور دائمی سعادت کی طرف راہنمائی کرتے ہیں_

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ راہنما کے لئے کون سی حفاظت صفات ہونی چاہئیں؟

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285