‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) جلد ۲

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) 20%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 285

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 285 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 120416 / ڈاؤنلوڈ: 4189
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

حوالہ جات

۱ تفصيل كے لئے '' كتاب كفاية الاشرفى فى النص على الائمة الاثنى عشر'' اور كتاب '' الفقيہ للنعماني'' ص ۵۷ ، ص ۱۱۰_ '' بحار الانوار '' جلد ۳۶، ص ۲۲۶، ص ۳۷۲، '' غيبت شيخ'' ص ۹۹ ، ۸۷ _ اور '' غيبت مفيد '' كا مطالعہ فرمائيں اور كے علاوہ ولايت اور اس كى شرائط كے موضوع پر قرآن مجيد كا مطالعہ ہم كو بارہ اماموں پر انحصار كرنے كى ہدايت كرتا ہے_

۲''فانّ هذا الدين قد كان اسيراً فى ايدى الاشرار يعمل فيه بالهوى و تطلب به الدنيا'' (نہج البلاغہ فيض الاسلام خط ۵۳ ص ۱۰۱۰ مالك اشتر كے نام خط )

۳ شرح نہج البلاغہ جلد ۱ ص ۲۸_

۴ مزيد معلومات كے لئے'' تاريخ اسلام امامت حضرت كے زمانہ ميں '' سبق ۴ كى طرف رجوع فرمائيں _

۵ جو بيان اس مقدمہ ميں كلى طور پر آيا ہے اور جس بات كا دعوى كياگيا ہے آيندہ دروس ميں ائمہ معصومين كے بارے ميں خلفاء كے موقف اورمعصوم رہبروں كے اقدامات كے نمونوں كے ساتھ پيش كيا جائے گا_

۶ ارشاد مفيد /۹ مطبوعہ بيروت _ بحار جلد ۳۵/۵ منقول از تہذيب، كشف الغمہ مطبوعہ تبريز جلد ۱/۵۹ خانہ كعبہ ميں آپعليه‌السلام كى ولادت كے موضوع كو اہل سنّت كے بہت سے مورخين و محدثين نے لكھا ہے _ مزيد تفصيل كے لئے مروج الذہب جلد ۲/۲۴۹_ شرح الشفا جلد ۱/۱۵۱_ مستدرك حاكم جلد ۳/۲۸۳ شرح قصيدہ عبدالباقى آفندى از آلوسى /۵ ملاحظہ ہو_

۷ عمران كے چار بيٹے، طالب، عقيل ، جعفر اور علىعليه‌السلام تھے _ آپ ابوطالب كى كنيت سے مشہور تھے_ ليكن ابن ابى الحديد نے جلد ۱ ص ۱۱ پر حضرت عليعليه‌السلام كے والد كا نام عبدمناف لكھا ہے_

۸ سيرة ابن ہشام جلد ۱/۲۶۲، كامل ابن اثير جلد ۲/۵۸ ، كشف الغمہ جلد ۷۹، تاريخ طبرى ۲/۳۱۲_

۹ نہج البلاغہ خطبہ قاصعہ سے چند جملے از صبحى صالح حديث ۱۹۲ ص ۳۰۰ اور دو سطريں ص ۸۱۲ سے _

۱۰ تاريخ طبرى جلد ۲ ص ۳۱۰ كامل ابن اثير جلد ۲ ص ۵۰_ ابن ہشام جلد ۱ ص ۲۶۲، كشف الغمہ جلد ۱ ص ۸۶

۱۱ نہج البلاغہ فيض الاسلام خطبہ ۲۳ ص ۸۱۱ ، ص ۸۱۲ _

۱۲ سورہ شعراء آيت۲۱۴_

۱۳ تاريخ طبرى جلد ۲/۳۲۰_ مجمع البيان جلد ۷_۸/۲۰۶ _ الغدير جلد ۲/ ۳۷۹_ كامل ابن اثير جلد ۲/۶۲_ ۶۳

۲۱

إن هذا أخى و وصى و خليفتى فيكم فاسمعوا له و اطعوا'' _

۱۴ سيرة ابن ہشام جلد ۲/۱۲۴_ كامل ابن اثير جلد ۲/۱۰۱ _ ۱۰۳_ الصحيح من سيرة النبى جلد ۲/۲۳۸_

۱۵ تفسير الميزان جلد ۲/۹۹_ (دس جلدوالي) تفسير برہان جلد ۱/۲۰۶ ملاحظہ ہو_

۱۶ سورہ بقرہ /۲۰۷_

۱۷ مدينہ سے دو فرسخ دور قبا قبيلہ بنى عمروبن عوف كے سكونت كى جگہ تھي_ معجم البلدان جلد ۴/۳۰۱_

۱۸ مناقب ابن شہر آشوب جلد ۲/۵۸، الصحيح من سيرة النبى جلد ۲/۲۹۵_

۱۹''والله لو تَظَاهَرت الرحب على قتالى لما ولّيت عنها'' شرح نہج البلاغہ فيض الاسلام ص ، ۹۷۱_

۲۰ ارشاد مفيد /۵۲،۵۳_

۲۱ بحار جلد ۲/۲۰۵ ''لو وزن اليوم عملك بعمل امة محمد لرجع عملك بعملہم ...''_

۲۲ ارشاد مفيد /۶۵،۶۷_

۲۳ الغدير جلد ۱/۹_

۲۴ سورہ مائدہ /۳_

۲۵- الغدير جلد ۱/۹_۱۱_

۲۲

دوسراسبق:

حضرت علىعليه‌السلام كى سوانح عمري (دوسرا حصّہ )

۲۳

پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت سے خلافت تك

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اكرم كى وفات كے فوراًبعد ، بعض مسلمانوں نے سقيفہ بنى ساعدہ ميں جمع ہوكر جانشين پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم معين كرنے كے بارے ميں ايك مٹينگ كى ، باوجوداس كے كہ پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنى زندگى ہى ميں حضرت علىعليه‌السلام كو حكم پروردگار كے مطابق اپنا جانشين مقرر فرماديا تھا_ ليكن اس كے برخلاف لوگوں نے حكومت ، حضرت ابوبكر كے حوالہ كردى _ حضرت ابوبكر ۱۳ھ ق ميں ۶۳ سال كى عمر ميں اس دنيا سے چلے گئے _ان كى مدت خلافت دو سال تين ماہ تھي_(۱)

ان كے بعد حضرت عمر بن خطاب نے حضرت ابوبكر كى وصيت كے مطابق خلافت كى زمام سنبھالى اور آخر ذى الحجہ ۲۳ھق كو ابولو لو ''فيروز'' كے ہاتھوں قتل كرديئے گئے _اور ان كى خلافت كى مدت دس سال چھ ماہ اور چار دن تھى _(۲)

حضرت عمر نے اپنا خليفہ معين كرنے كے لئے ايك كميٹى تشكيل دى جس كا نتيجہ و ثمرہ حضرت عثمان ابن عفان كے حق ميں ظاہر ہوا_ انہوں نے حضرت عمر كے بعد محرم كے اواخر ميں ۲۴ھ ق كو خلافت كى باگ ڈور سنبھالى اور ذى الحج ۳۵ھ ق كو نا انصافى اور بيت المال ميں خرد برد كے الزامات كى وجہ سے مسلمانوں كى ايك شورش ميں ايك كثير جمعيت كے ہاتھوں قتل كرديئے گئے اور ان كى خلافت بارہ سال سے كچھ كم مدت تك رہى _(۳)

مذكورہ تينوں خلفاء ، پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بعد ، يكے ديگرے تقريباً ۲۵ سال تك لوگوں پر حكومت كرتے رہے_ اس طويل مدت ميں اسلام اور جانشينى پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حوالے سے سب سے زيادہ مستحق

۲۴

و سزاوار شخصيت اميرالمؤمنين على بن ابى طالب _كى تھى كہ جنھوں نے صبر و شكيبائي سے كام ليا اور گھر ميں بيٹھے رہے_

حضرت علىعليه‌السلام جوخلافت كو اپنا مسلم حق سمجھتے تھے ، ان لوگوں كے مقابل اٹھے جنہوں نے ان كے حق كو پامال كيا تھا، آپعليه‌السلام نے اعتراض كيا اور جہاں تك اسلام كى بلند مصلحتوں نے اجازت دى اس حد تك آپ نے اپنے احتجاج و استحقاق كو ان پر، روشن فرمايا_

اسلام كى عظيم خاتون حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ عليہا نے بھى اس احتجاج ميں آپ كا مكمل ساتھ ديا اور تاحيات ہر موڑ پر آپعليه‌السلام كى مدد كرتى رہيں اور انہوں نے عملى طور پرثابت كرديا كہ دوسروں كى حكومت غير قانونى ہے_

ليكن چونكہ اسلام ابھى نيا نيا تھا اس لئے حضرت عليعليه‌السلام نے تلوار اٹھانے اور جنگ كى آگ بھڑكانے سے گريز كيا_ كيونكہ طبيعى طور پر اس فعل سے اسلام كو نقصان پہنچتا_ اور ممكن تھا كہ پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى زحمتوں پر پانى پھر جاتا يہاں تك كہ آپعليه‌السلام نے اسلام كى آبرو بچانے كے لئے ضرورى مقامات پرتينوں خلفاء كى دينى امور اور بہت سے سياسى مشكلات ميں رہنمائي اور ان كى ہدايت سے دريغ نہيں فرمايا جيسا كہ يہ لوگ بھى مجبوراً، گاہے بہ گاہے آپعليه‌السلام كى علمى بزرگى اور قابل قدر خدمات كا اعتراف كرتے رہے چنانچہ خليفہ دوم اكثر كہا كرتے تھے: '' لو لا عليٌ لہلك عمر''(۴) يعنى اگر على نہ ہوتے تو عمر ہلاك ہوگئے ہوتے _

خلافت سے شہادت تك

حضرت عثمان كے قتل كے بعد اكثريت كے اصرار اور خواہش پر تقريباً مہاجرين و انصار كے اتفاق سے حضرت على _خلافت كے لئے منتخب كئے گئے_ امامعليه‌السلام نے پہلے اس عہدہ كو قبول كرنے سے انكار كيا_ واضح رہے كہ يہ انكار اس لئے نہيں تھا كہ آپعليه‌السلام اپنے اندر زمامدارى كى توانائي اور

۲۵

مصائب برداشت كرنے كى طاقت نہيں پاتے تھے، يا يہ كہ ان سے زيادہ مناسب، اصحاب كے درميان كوئي اور شخص بھى موجود تھا _ بلكہ يہ انكار اس لئے تھا كہ حضرتعليه‌السلام جانتے تھے كہ اسلامى معاشرہ گذشتہ خلفاء كى غلط سياست كى بناپر خصوصاً عثمان كے زمانہ خلافت ميں طبقاتى اختلاف اور اجتماعى و اقتصادى تفريق كا شكار ہوچكا تھا_ آپعليه‌السلام ديكھ رہے تھے كہ اصلى اسلام كے اصول و مفاہيم كہ جن پر پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنى زندگى كے طويل عرصہ ميں عمل كرتے رہے ہيں وہ فراموشى كى نذر ہوكر ختم ہوچكے ہيں _ ان تمام چيزوں كو اپنى جگہ پر لانے ميں مشكليں اور سختياں ہونگى _اور ان تمام باتوں كے پيش نظرحضرت عليعليه‌السلام نے چاہا كہ لوگوں كو آزما كر ديكھا جائے كہ وہ انقلاب اسلامى كى روش كو عملى طور پر اختيار كرنے پر كس حد تك آمادہ ہيں ، تا كہ بعد ميں ايسا نہ سمجھ بيٹھيں كہ عليعليه‌السلام نے ان كو غافل بنا كر، ان كى انقلابى تحريك اور شورش سے فائدہ اٹھاليا_

ان تمام باتوں اور دوسرى باتوں كو مد نظر ركھتے ہوئے امامعليه‌السلام نے اصحاب اور جمہور كے بہت اصرار كے باوجود فورى طور پر حكمرانى قبول كرنے سے انكار كرديا اور لوگوں كے جواب ميں فرمايا:

'' مجھے چھوڑ دو اور كسى دوسرے كو تلاش كرلو_ كيونكہ جو كام سامنے ہے اس ميں طرح طرح كى ايسى مشكلات ہيں كہ دلوں ميں ان كے تحمل كى طاقت اور عقلوں ميں ان كے قبول كرنے كے توانائي ا نہيں ہے _ عالم اسلام كے افق كو ظلم و بدعت كے سياہ بادلوں نے گھير ركھا ہے اور اسلام كا روشن راستہ متغير ہوچكا ہے تم يقين جانو كہ اگر ميں نے خلافت كو قبول كيا تو جو كچھ ميں جانتا ہوں اس كے مطابق تمہارے ساتھ سلوك كرونگا اور كسى بھى بولنے والے كى بات يا ملامت كرنے والے كى ملامت پر كان نہيں دھروں گا '' _(۵)

مجمع عام ميں تقرير اور اتمام حجت كے بعد جب لوگوں نے بہت زيادہ اصرار كيا تو آپعليه‌السلام نے جمعہ كے دن ۲۵ ذى الحجہ ۲۵ھ ق(۶) كو مجبوراً خلافت قبول كرلى اور لوگوں نے آپعليه‌السلام كى بيعت كي_

۲۶

حضرت على _منصب فرماں روائي پر

حضرت علىعليه‌السلام نے ايسے حالات ميں حكومت كى باگ ڈور سنبھالى كہ جب اسلامى معاشرہ شگاف اور اجتماعى و اقتصادى اختلاف كى بناپر تباہى وہلاكت كے دہانے پر پہنچ چكا تھا اور ہر طرح كى دشوارياں اور پيچيدہ مشكلات آپ كے انتظار ميں تھيں _

جن مقاصد كے لئے حضرت علىعليه‌السلام نے حكومت قبول كى تھى ان كو بروئے كار لانے كے لئے آپعليه‌السلام نے اپنى انقلابى سياست كوچند مرحلوں ميں رائج كيا_

اس سياست كے تين مرحلے تھے:

۱_ حقوق كا مرحلہ ۲_ مال كا مرحلہ ۳_ انتظام كا مرحلہ

اب ہم اختصار كے ساتھ مندرجہ بالا ،مراحل كا تجزيہ پيش كرتے ہيں _

الف_ حقوق كا مرحلہ

حقوق كے سلسلہ ميں امامعليه‌السلام كى اصلاحات ، تمام لوگوں كو مساوى حقوق دينے اور بيت المال سے بخشش و عطا كے سلسلہ ميں امتياز اور برترى كولغو قرار دينے پر مبنى تھے_ آپعليه‌السلام نے فرمايا: '' ذليل اور ستم ديدہ ميرے نزديك طاقتور ہيں يہاں تك كہ ميں ان كا حق انھيں واپس دلادوں اورطاقتور ميرے نزديك ناتواں ہے يہاں تك كہ ميں مظلوم كا حق اس سے واپس لے لوں _''(۷)

ب_ مالى مرحلہ

اس سلسلہ ميں امامعليه‌السلام نے جو پہلا اقدام كيا وہ اس دولت و ثروت كو واپس لينا تھا كہ جو عثمان كى خلافت كے زمانہ ميں ديدى گئي تھي_ اميرالمؤمنينعليه‌السلام نے اموال، ملكيت، پانى اور زمين(يعنى تيول) كو(۸) كہ جنہيں حضرت عثمان نے اپنے رشتہ داروں اور كارندوں كو بخش دياتھا ، بيت المال ميں واپس لے ليا_(۹)

۲۷

اس كے بعد اموال كى تقسيم ميں لوگوں كو اپنى سياست سے آگاہ كيا اورفرمايا:

'' اے لوگو ميں بھى تم ميں سے ايك فرد ہوں اور سود و زياں ميں تمہارے ساتھ شريك ہوں ميں پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى روش كى طرف تمہارى راہنمائي كرونگا اور ان كے قوانين كو تمہارے درميان جارى كروں گا _ آگاہ ہوجاؤ كہ ہر قطعہ زمين اور يتول (يعنى ملك، آب اور زمين) جو عثمان نے دوسروں كودے ديئے ہيں اورہر وہ مال ، كہ جومال خدا سے ديا گيا ہے ان سب كو بيت المال ميں واپس لوٹ جانا چاہئے_ بيشك كوئي بھى چيز حق كو ختم نہيں كرسكتي_ خدا كى قسم اگر ميں ديكھوں گا كہ يہ مال كسى عورت كو جہيز ميں ديا گيا ہے يا اس سے كوئي كنيز خريدى گئي ہے تو ميں سب كو واپس پلٹادوں گا _ بيشك عدالت ميں وسعت ہے اور اگر كسى پر عدالت سخت اور دشوار ہے تو ظلم و ستم اس پر اور بھى زيادہ دشوار ہوگا''(۱۰)

ج _ انتظامى مرحلہ

حضرت على _نے انتظامى سياست كو دو مرحلوں ميں عملى جامہ پہنايا:

۱_ غير صالح حكمرانوں كومعزول كرنا اور ہٹانا اس سلسلہ ميں آپعليه‌السلام فرماتے ہيں :

'' مجھے اس بات سے بہت دكھ ہے كہ اس امت كے بيوقوف اوربدكار لوگ ،امور كى باگ ڈور اپنے ہاتھوں ميں لئے ہوئے ہيں اس كے نتيجہ ميں مال خدا كو اپنے درميان ايك ہاتھ سے دوسرے ہاتھ ميں الٹ پھير كرتے ہيں اور خدا كے بندوں كو اپنى غلامى كى طرف كھينچے جا رہے ہيں يہ لوگ نيكو كاروں سے لڑتے ہيں اور فاسقوں كو اپنا ساتھى بناتے ہيں اس گروہ ميں كچھ لوگ ايسے بھى ہيں جو شراب پى چكے ہيں اور ان پر حد بھى جارى ہوچكى ہے اور ان ميں سے بعض نے اسلام كو قبول ہى نہيں كيا جب تك كہ ا ن كے لئے كوئي عطيہ معين نہيں ہوا(۱۱) ''

۲_ صالح اور لائق حكمرانوں كى تعيين اور ان كومختلف شہروں ميں بھيجنا_ عثمان بن حنيف كو بصرہ كا حاكم سہل بن حنيف كو شام كا حاكم اور قيس بن زياد كومصر كا حاكم بنايا اور ابوموسى اشعرى كو مالك

۲۸

اشتر كے اصرار كى بناپر ان كے عہدہ پر كوفہ ميں باقى ركھا _( ۱۲)

حضرت علىعليه‌السلام كے اقدامات پرمخالفين كا رد عمل

حضرت عليعليه‌السلام كے اصلاح طلب اقدامات جس طرح غريب اور ستم رسيدہ طبقہ كے لئے مسرت كا باعث تھے اسى طرح قريش كے غرور، خودبينى اور فوقيّت كے جذبہ پر كارى ضرب تھے، اس وجہ سے جب ثروت مندوں كے چيدہ افراد اور بڑے طبقہ نے اپنى ذاتى منفعت اور اپنى اجتماعى حيثيت كو خطرے ميں ديكھا تو حضرت علىعليه‌السلام كے ساتھ مذاكرہ اورمالى و حقوقى مسائل ميں آپعليه‌السلام كى سياست ميں تبديلى سے مايوس ہونے كے بعد ،علم مخالفت بلند كرديا اور لوگوں كو بيعت توڑدينے پر بھڑ كانے، مختلف بہانوں سے امامعليه‌السلام كى حيثيت كو كمزور كرنے اور داخلى جنگ و اختلاف كو ہوا دينے لگے_

حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے بعض ارشادات ميں اپنے مخالفين كو تين گروہوں ميں تقسيم كيا ہے اور فرمايا ہے كہ :

''ميں جب امر خلافت كے لئے اٹھا تو ايك گروہ نے بيعت توڑدى اور كچھ لوگ دين سے باہر نكل گئے اورايك گروہ نے شروع سے ہى طغيان و سركشى كي''_(۱۳)

اب اميرالمؤمنينعليه‌السلام كى اسلامى حكومت كے بالمقابل ان تينوں گروہوں كے موقف كو مختصراً بيان كيا جائے گا :

الف_ ناكثين (عہد توڑدينے والے)

پيسے كے پرستار ، لالچى اور تفرقہ پرداز افراد، امامعليه‌السلام كى سياست كے مقابلہ ميں آرام سے نہيں بيٹھے_ انہوں نے پہلا فتنہ بصرہ ميں كھڑاكيا_ اس فتنہ كے بيچ بونے والے افراد طلحہ و زبير تھے ، يہ دونوں بصرہ اور كوفہ كى گورنرى كا مطالبہ كر رہے تھے(۱۴) اور امامعليه‌السلام كے سامنے انہوں نے صريحا

۲۹

اظہار كرديا كہ ہم نے اس لئے آپعليه‌السلام كى بيعت كى ہے كہ خلافت كے كام ميں آپعليه‌السلام كے ساتھ شريك رہيں _(۱۵)

ليكن حضرت علىعليه‌السلام نے ان كى خواہش كى موافقت نہيں كى اوردونوں آخر ميں عمرہ كے بہانہ سے مكہ چھوڑ كر مدينہ چلے گئے اور وہاں جناب عائشےہ كى مدد اور جناب عثمان كے زمانہ كے بر طرف شدہ حكمران مكہ كے توسط سے طلحہ و زبير نے ايك سازش تيار كى ، ان كى اس ساز باز سے '' ناكثين'' كا مركزى ڈھانچہ تشكيل پاگيا_

ان لوگوں نے امويوں كى دولت سے استفادہ كرتے ہوئے خون عثمان كے انتقام كى آڑ ميں جناب عائشےہ كى رہبرى ميں ايك لشكر تيار كرليا اور بصرہ كى طرف چل پڑے اور بصرہ كا دفاع كرنيوالوں پر حملہ كرديا ، طرفين ميں شديد ٹكراؤ ہوا بہت سے لوگ قتل اور مجروح ہوئے اور حاكم بصرہ عثمان بن حنيف كے گرفتار ہوجانے كے بعد شہر بصرہ ان كے قبضہ ميں آگيا_

حضرت على _'' شام'' سے جنگ كرنے كے وسائل مہيا كرنے ميں لگے ہوئے تھے (اسلئے كہ معاويہ نے قانونى طور پر خلافت سے سركشى كا اعلان كركے امامعليه‌السلام كى بيعت كو رد كرديا تھا) جب عائشےہ ، طلحہ اور زبير كى شورش كى خبر آپعليه‌السلام تك پہونچى تو آپعليه‌السلام امت كے تفرقہ سے ڈرے اور آپعليه‌السلام نے يہ سمجھا كہ ان لوگوں كا خطرہ معاويہ كى سركشى سے زيادہ اہم ہے_ اگر فورى طور پر اس فتنہ كى آگ كو خاموش نہ كيا گيا تو ممكن ہے كہ خلافت حق كى بنياد متزلزل ہوجائے_

اس وجہ سے آپعليه‌السلام ، ان لوگوں سے جنگ پر آمادہ ہوگئے اور آپعليه‌السلام كا لشكر جلد ہى مدينہ سے باہر آگيا، مقام ''رَبذہ''(۱۶) سے آپعليه‌السلام نے كوفہ والوں كے لئے خطوط اور نمائندے بھيجے اور ان كو اپنى مدد كيلئے بلايا_

چنانچہ حضرت علىعليه‌السلام كے نمائندہ امام حسنعليه‌السلام اور عمار ياسر كى كوششوں كى بناپر كوفہ كے ہزاروں افراد،حضرت علىعليه‌السلام كى مدد كے لئے كوفہ چھوڑ كر مقام '' ذى قار''(۱۷) ميں حضرت عليعليه‌السلام سے ملحق ہوگئے_

۳۰

حضرت علىعليه‌السلام نے ان پيمان شكنوں سے ٹكراؤ سے پہلے مختلف ذرائع سے صلح كى كوشش كى اور اپنى طرف سے خون ريزى سے بچنے كے ليئے انتہائي كوشش كى ليكن كاميابى حاصل نہ ہوسكى اس لئے كہ شورش كرنيوالے جنگ كا پختہ ارادہ كرچكے تھے_

حضرت علىعليه‌السلام كو مجبوراً ان سے جنگ كرنا پڑى اور شديد جنگ كے بعد ،يہ فتنہ حضرت علىعليه‌السلام كى فتحيابى اور '' ناكثين'' كى شكست فاش پر ختم ہوا_ بہت سے لوگ قتل ہوئے اور بقيہ شام كى طرف بھاگ گئے يہ جنگ تاريخ ميں جنگ '' جمل'' كے نام سے مشہور ہے_

ب_ قاسطين

جب حضرت علىعليه‌السلام نے اسلامى معاشرہ كى فرماں روائي كى ذمہ دارى قبول كى تھى تو اسى وقت سے يہ ارادہ كرليا تھا كہ پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى سيرت كو ،جو مدت سے بھلائي جاچكى تھى زندہ كرديں گے، قانون الہى سے ہر طرح كى سركشى اور تمرد كى كوشش كو ختم كرديں گے اور بنى اميہ كى روش كو كہ جس كے سربراہ اور اس قانون شكنى كو جارى ركھنے والے معاويہ كو اسلامى معاشرے سے ہٹا ديں گے_

لہذا آپعليه‌السلام نے اپنى حكومت كے پہلے ہى دن سے يہ طے كرليا تھا كہ معاويہ كو شام كى گورنرى سے معزول كرديں گے، اس سلسلہ ميں كسى كى بات يا سفارش حتى ابن عباس كى بات بھى آپعليه‌السلام كے مؤقف كو بدلنے ميں مؤثر نہ ہوسكي_ كيونكہ آپعليه‌السلام كسى بھى صورت ميں معاويہ كے وجود كو اسلامى حكومت ميں برداشت نہيں كرسكتے تھے_

اولاً :اسلامى حكومت ميں معاويہ جيسے گور نروں كا وجود ، حضرت عثمان كى حكومت كے خلاف مسلمانوں كى شورش كا اہم ترين سبب تھا_ مسلمانوں نے بار باران لوگوں كو برطرف اور معزول كرنے كا مطالبہ كيا تھا _ اب اگر حضرت علىعليه‌السلام ان كو( اگرچہ تھوڑى اور محدود مدت كے لئے بھى ) باقى ركھتے تو لوگ نئي حكومت كے بارے ميں كيا فيصلہ كرتے؟

ثانياً :شام ميں معاويہ اور اس كى حكومت نے جو مقام و حيثيت پيدا كرلى تھى اس سے حضرت

۳۱

علىعليه‌السلام نے بخوبى يہ اندازہ لگاليا تھا كہ معاويہ كسى طرح بھى شام كى حكومت سے دست بردار نہيں ہوگا_ اب اگرحضرت علىعليه‌السلام كى طرف سے بھى تائيد ہوجاتى تو ہوسكتا تھا كہ كل اسى تائيد كو معاويہ اپنى حقّانيت كى سند سمجھ ليتا اور اس كو امامعليه‌السلام كى حكومت كے خلاف استعمال كرتا_

امامعليه‌السلام بخوبى جانتے تھے كہ معاويہ اپنى زندگى ميں شام ميں مركزى حكومت كے نمائندہ اور مامور كى حيثيت سے عمل نہيں كر رہا ہے _ بلكہ وہ شام كو اپنى حكومت سمجھتا ہے اور اس سرزمين پر اس كے سارے پروگرام اور كام حكومت كے اس سربراہ جيسے تھے جس نے خود حكومت كى بنياد ركھى ہو اور مختلف ذرائع سے اپنا اقتدار قائم كيا ہو _ وہ معروف اور صاحب نفوذ شخصيتوں كو خريد ليتا تھا اور قيمت كے ذريعہ دوسروں كومحروم كر كے اور لوگوں كے امن و امان كو چھين كر ايك گروہ كو مال و ثروت فراہم كرتا تھا _ وہ كسانوں ، تاجروں اورتمام ماليات ادا كرنے والوں كو شديد ظلم كا نشانہ بناتا اور ان سے مطلوبہ مال لے كر عربى قبائل كے ان رؤسا كو ديتا كہ ، جواس كى فوج كى مدد سے آزادى پسند ہر طرح كى تحريك كو كچلنے كے لئے آمادہ ہوتے تھے_ اس طرح انہوں نے اپنے آپ كو بہت دنوں تك اپنے منصب پر باقى ركھنے كے لئے آمادہ كر ركھا تھا _

معاويہ اور حضرت عثمان كا كرتا

معاويہ، حضرت علىعليه‌السلام كو اچھى طرح جانتا تھا وہ اس بات سے بے خبر نہيں تھا كہ علىعليه‌السلام بہت جلد اسے تمنّاؤں كى كرسى سے نيچے كھينچ ليں گے اور اس كى مادى خواہشوں ،آرام طلبيوں اور ہوس اقتدار كے درميان ايك مضبوط بند باندھ ديں گے _ اس لئے معاويہ نے اپنى جھوٹى حكومت كى بنياد كومضبوط كرنے اور اپنے مقاصد تك پہونچنے كے لئے انقلابى مسلمانوں كے ہاتھوں حضرت عثمان كے قتل كو بہترين موقع اور ذريعہ سمجھا _ اسى وجہ سے اس نے قتل عثمان كو بہت بڑا بنا كر پيش كيا اور شديد پروپيگنڈہ كے ذريعہ اس كو ايسا حادثہ و فاجعہ بناديا كہ شام والوں كے دل لرزگئے _

۳۲

معاويہ نے حكم ديا كہ جناب عثمان كے خون آلود كرتے كو انكى بيوى '' نائلہ'' كى كٹى ہوئي انگلى كے ساتھ_جس كو نعمان بن بشير لايا تھا(۱۸) _ دمشق كى جامع مسجد كے منبر كى بلندى پر لٹكايا جائے اوراس نے شام كے كچھ بوڑھوں كو اس كُرتے كے ارد گرد نوحہ سرائي اور عزادارى كے لئے آمادہ كيا _(۱۹) اس طرح انہوں نے شام كے لوگوں كے جذبات كو مركزى حكومت كے خلاف بھڑكاديا اور ان كو اتنا غصہ دلايا كہ وہ معاويہ سے بھى زيادہ غيظ و غضب ميں آگئے اور معاويہ سے زيادہ جنگ اور انتقام كے لئے آمادہ نظر آنے لگے_

طلحہ و زبير اور عائشےہ كى شورش نے بھى ، جو حضرت عثمان كى حمايت كے نام پر وجود ميں آئي تھي،معاويہ كے كام كواور آسان بناديا_ اب معاويہ ان چيزوں كى مدد سے شام والوں كو برانگيختہ كرسكتا تھا اور ان كو جس طرف چاہتا لے جاسكتا تھا _

آغاز جنگ

معاويہ كے اردگرد جب دنيا پرست اور بے ايمان لوگ جمع ہوگئے تو معاويہ جنگ كيلئے تيا ر ہوگيا تا كہ حق و عدل والى ،شرعى حكومت سے ٹكرا جائيں ، معاويہ كا لشكر صفين ميں پہنچا اور فرات كے كنار ے خيمہ زن ہوگيا اس كے ساتھيوں نے اصحاب اميرالمؤمنينعليه‌السلام پر پانى بند كرديا_

حضرت علىعليه‌السلام كوفہ ميں تھے جب آپعليه‌السلام كو خبر ملى كہ معاويہ ايك كثير لشكر كے ساتھ صفين ميں پہنچ چكا ہے تو آپعليه‌السلام اس سے مقابلہ كے لئے آمادہ ہوئے ، حضرت علىعليه‌السلام كے سپاہيوں كى فوج سيلاب كى طرح اٹھى اور فرات كے كنارے پہنچ كر(۲۰) معاويہ كے لشكر كے سامنے آگئي ليكن حضرت علىعليه‌السلام كے سپاہيوں نے ديكھا كہ فرات تك پہنچنے كا راستہ نہيں ہے_

حضرت علىعليه‌السلام نے خون ريزى نہ ہونے كى بڑى كوشش كى ليكن كامياب نہ ہوئے جنگ ناگزير تھي،حضرت علىعليه‌السلام كے سپاہيوں نے جنگ كے شروع ہى ميں شاميوں كوفرات كے كنارے سے

۳۳

بھگاديا اور شام كے لشكر كو بھارى نقصان پہنچايا_ جب عراق كے لشكر نے فرات كو اپنے ہاتھوں ميں لے ليا تو حضرت علىعليه‌السلام نے بڑے پن كا ثبوت ديا اور فرمايا: '' چھوڑ دوان كو پانى لينے دو ...''

اس كے بعد دونوں لشكروں كے درميان چھوٹے چھوٹے حملے ہوتے رہے_حضرت علىعليه‌السلام نہيں چاہتے تھے كہ اجتماعى حملہ شروع ہو _ اس لئے كہ آپعليه‌السلام كو يہ اميد تھى كہ دشمن، حق كے سامنے اپنى گردن جھكا دےں گے اور جنگ سے ہاتھ روك لےں گے ليكن دشمن اسى طرح آمادہ پيكار رہے _ طرفين اس كشيدگى كے جارى رہنے سے تھك گئے اس اعتبار سے ان كے درميان، صلح و موافقت كى كوئي اميد باقى نہ رہى _

جب حضرت علىعليه‌السلام نے حالات كا يہ رخ ديكھا تو اپنے اصحاب كو ايك بڑى جنگ كے لئے آمادہ كرليا _ معاويہ بھى جنگ كے لئے تيار ہوگيا نتيجہ ميں دونوں گروہوں كى آپس ميں مڈ بھيڑ ہوئي ''ليلة الہرير''(۲۱) ميں سخت ترين جنگ ہوئي _ ايسى جنگ كہ جس ميں سپاہى نماز كے وقت كو سمجھ نہيں پار ہے تھے اور بغير آرام كئے ہوئے مسلسل جنگ كر رہے تھے _(۲۲)

حضرت علىعليه‌السلام كے سپہ سالار، مالك اشتر نہايت مردانگى سے ميدان ميں حملہ كررہے تھے اور اپنے دلير اور نامورلشكر كو دشمن كى طرف بڑھاتے جاتے تھے ، پھر معاويہ كو ايسى شكست ہوئي كہ اس كے سپاہيوں كى تمام صفيں ٹوٹ گئيں اور ايسا لگتا تھا كہ حضرت علىعليه‌السلام كا لشكر ،فتحياب ہوجائے گا _ ليكن معاويہ، عمرو عاص كى مدد سے مكر و فريب كى فكر كرنے لگا اوردھوكہ سے قرآن كونيزہ پر بلند كرديا جس كى بناپر حضرت علىعليه‌السلام كے سپاہيوں ميں اختلاف اور شورش بر پاہوگئي _

آخر كار اپنے ساتھيوں كى طرف سے نہايت اصرار پر مجبور ہوكرحضرت علىعليه‌السلام نے ابوموسى اشعرى اورعمرو عاص كى حكميت پر چھوڑ ديا كہ وہ لوگ اسلام اور مسلمانوں كى مصلحتوں كا مطالعہ كريں اور اپنے نظريہ كا اعلان كريں _

مسئلہ حكميت كو قبول كرنے كے سلسلہ ميں حضرت علىعليه‌السلام اس منزل تك پہونچ گئے تھے كہ اگر اس كو قبول نہ كرتے تو شايد اپنے ہى كچھ سپاہيوں كے ہاتھوں قتل كرديئےاتے اور مسلمان شديد

۳۴

بحران ميں مبتلا ہوجاتے _

جب حكمين كے فيصلہ سنانے كا وقت آگيا تو دونوں نے اپنے نظريہ كو ظاہر كيا، عمرو عاص نے ابوموسى اشعرى كو دھوكہ ديا اور اس نے حكومت معاويہ كو برقرار ركھا، اس بات نے معاويہ كى حيلہ گرى كو آشكار كرديا_

ج_ مارقين

حكمين كے واقعہ كے بعد ،كچھ مسلمان جو حضرت علىعليه‌السلام كے ساتھ تھے انہوں نے علىعليه‌السلام كے خلاف خروج كيا اور اس حكميت كو قبول كرلينے كى بناء پر على كو تنقيد كا نشانہ بنانے لگے كہ جس كے قبول كر لينے كا يہى لوگ اصرار كر رہے تھے _

ان لوگوں كو چند دنوں كے بعد اپنى غلطى كا پتہ چل گيا اور وہ نادم ہوئے، انہوں نے اس بات كى كوشش كى كہ حضرت علىعليه‌السلام عہد و پيمان توڑديں(۲۳) ليكن علىعليه‌السلام پيمان توڑنے والوں ميں سے نہ تھے_

خوارج نے حضرت علىعليه‌السلام كے مقابلہ ميں صف آرائي كرلي، انہوں نے فتنہ و فساد برپا كيا _ كوفہ سے باہر نكل پڑے اور '' نہروان(۲۴) '' ميں خيمہ زن ہوگئے يہ لوگ بے گناہ افراد سے متعرض ہوئے اور قتل و غارت گرى كر كے لوگوں ميں خوف و دہشت طارى كررہے تھے_

حضرت علىعليه‌السلام كوشش كرنے لگے كہ لوگوں كو دوبارہ معاويہ سے جنگ پر آمادہ كيا جائے اور لوگوں نے دوسرى بار بھى آپ كى دعوت كو قبول كيا_

جب آپعليه‌السلام نے خوارج كى قتل و غارتگرى اور فساد كو ديكھا تو خوارج كے خطرہ كو معاويہ كے خطرہ سے بڑا محسوس كيا_ چونكہ وہ لوگ مركز خلافت كے قريب تھے_ اگر علىعليه‌السلام كے سپاہى معاويہ سے لڑنے كے لئے جانا چاہتے تو انہيں خوارج كے حملہ كا سامنا كرنا پڑتا اس لئے كہ خوارج اپنے علاوہ مسلمانوں كے تمام فرقوں كو كافر سمجھتے اور ان كے مال اور خون كوحلال جانتے تھے_(۲۵)

۳۵

اس وجہ سے حضرت علىعليه‌السلام كے سپاہيوں نے نہروان كى جانب كوچ كيا_ دونوں لشكروں ميں جنگ چھڑجانے سے پہلے علىعليه‌السلام نے اس بات كى كہ كوشش كى منطق كے ذريعہ ان لوگوں كے شبہات كو ان كے سامنے بيان كر كے ان كى ہدايت كى جائے اور خونريزى كا سد باب كيا جائے _ ليكن افسوس كہ وہ نادان ،خرد سے عاري، ہٹ دھرم، استدلال اور حقيقت ميں سے كچھ بھى سمجھنے پر آمادہ نہ تھے _

جب حضرت علىعليه‌السلام ان كى ہدايت سے مايوس ہوگئے اور يہ يقين ہوگيا كہ وہ لوگ راہ حق كى طرف ہرگز نہيں لوٹيں گے ، تب آپعليه‌السلام نے ان كے ساتھ جنگ كى _ امامعليه‌السلام كے لشكر نے دائيں اور بائيں طرف سے دشمن پر يلغار كردى اور خوارج كو درميان ركھ كر نيزہ و شمشير كے ساتھ ان پر ٹوٹ پڑے_ ابھى تھوڑى دير بھى نہ گذرى تھى كہ نو افراد كے علاوہ سب كو قتل كرڈالا_

حضرت علىعليه‌السلام كى شہادت

آخر كار حضرت علىعليه‌السلام نے تقريباً پانچ سال تك حكومت كرنے كے بعد ۱۹رمضان المبارك كى شب ۴۰ ھ ق كو نماز صبح كى ادائيگى كى حالت ميں مسجد كوفہ ميں ، پليدترين انسان ابن ملجم كى زہر آلود تلوار سے جو خوارج ميں سے تھا محراب حق ميں ضربت كھائي اور آپعليه‌السلام كا چہرہ آپعليه‌السلام كے خون سے گل رنگ ہوگيا _

اور دو روز بعد رمضان المبارك كى ۲۱ ويں شب كو جام شہادت نوش كيا _ شہادت كے بعد ان كے جسد اطہر كونجف كى مقدس سرزمين ميں سپرد خاك كيا گيا_

۳۶

سوالات

۱_ پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت كے بعد سقيفہ كے واقعہ كے سلسلہ ميں حضرت علىعليه‌السلام كا رد عمل كيا تھا اور آپ نے احقاق حق كے لئے تلوار كيوں نہ اٹھائي؟

۲ _ قتل عثمان كے بعد، حضرت علىعليه‌السلام نے فوراً خلافت كيوں نہ قبول كرلي؟

۳_ مالي، حقوقى اور انتظامى مرحلوں ميں ، حكمرانى قبول كرنے كے بعد حضرت علىعليه‌السلام كے اقدامات كومختصر اًبيان فرمايئے

۴_ حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت كے مخالفين كون لوگ تھے اور انہوں نے كون سى جنگيں چھيڑديں ؟

۵_ معاويہ كو محدود وقت تك اس كے عہدہ پر باقى ركھنے كے بارے ميں حضرت علىعليه‌السلام نے لوگوں كى منجملہ'' ابن عباس ''كى سفارش كيوں قبول نہيں كى ؟

۳۷

حوالہ جات

۱ مروج الذہب ، جلد۲/۲۹۸_

۲ مروج الذہب، جلد۲/۳۰۴_

۳ مروج الذہب جلد ۲/۳۳۳_

۴ بحار جلد ۴/۱۴۹، الغدير جلد ۴/۶۴_۶۶و جلد ۶ صفحات ۸۱، ۹۳، ۱۰۶، ۱۱۳ و جلد ۱۷ صفحہ ۱۵۱ و جلد ۸/۱۸۶ و شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد معتزلى جلد ۱ ص ۵۸_

۵ نہج البلاغہ ۹۲ '' صبحى صالحي''_

۶ كامل ابن اثير جلد ۳/۱۹۳ _

۷ نہج البلاغہ صبحى صالح'' الذليل عندى عزيز حتى اخذ الحق له و القوى عندى ضعيف حتى اخذ الحق منه'' _

۸ '' تيول'' سے مراد وہ ملك ، پانى اور زمين ہے جو حكومت كى طرف سے كسى كو واگذار كى جائے تا كہ وہ اس كى آمدنى سے استفادہ كرے ( فرہنگ عميد، جلد ۲، ص ۶۵۴)_

۹ مسعودى نے مروج الذہب ج ۲ ، ص ۳۵۳ پر اور ابن ابى الحديد نے شرح نہج البلاغہ جلد ۱، ص ۲۷ پر اس بات كى تصريح كى ہے زيادہ معلومات كے لئے مذكورہ بالا منابع كى طرف اور اسى طرح شرح نہج البلاغہ خوئي جلد ۳، ص ۲۱۵ اور فى ظلال نہج البلاغہ جلد ۱، ص ۱۳۰، شرح بحرانى جلد ۱ ، ص ۲۹۶ اور كتاب سيرة الائمہ مصنفہ علامہ سيد محمد امين جلد ،۱ ، جزء دوم ص ۱۱ ملاحظہ ہوں _

۱۰ ثورة الحسين مہدى شمن الدين ، ص ۷۵، نہج البلاغہ /۱۵، شرح ابن ابى الحديد جلد ۱، ص ۲۶۹_

۱۱ نہج البلاغہ خطبہ نمبر ۶۲_

۱۲ تاريخ يعقوبى جلد ۲/۱۷۹، كامل ابن اثير جلد ۳/۲۰۱_

۱۳ ''فلما نہضت بالأمر نكثت طائفة و مرتت أخرى و قسط آخرون''_ خطبہ شقشقيہ_

۱۴ كامل ابن اثير جلد ، ۲_ ص ۱۹۶_

۱۵ تاريخ يعقوبى جلد ۲، ص۱۸۰، شرح ابن ابى الحديد جلد ، ۱، ص ۲۳۰_

۱۶ ''ابوزر'' مدينہ كا ايك ديہات ہے جو مدينہ سے تين ميل كے فاصلہ پر واقع ہے اور مشہور صحابى ''جناب

۳۸

ابوذ''ر وہيں مدفون ہيں _ معجم البلدان جلد ۳/۲۷_

۱۷ ذى قار، بكر بن وائل سے متعلق كوفہ اور واسط كے درميان ايك ايسا حصہ تھا جہاں پانى موجود تھا_ معجم البلدان جلد ۴/۲۹۳_

۱۸ كامل ابن اثير جلد ۳/۱۹۲_

۱۹ وقعہ صفين ص ۱۲۷_

۲۰ طرفين كے لشكر كى تعداد ميں اختلاف ہے _ مسعودى نے مروج الذہب ميں حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر كى تعداد نوے ہزار اورمعاويہ كے لشكر كى تعداد پچاسى ہزار لكھى ہے _ مروج الذہب مسعودى جلد ۲ ص ۳۷۵_

۲۱ لغت ميں ''ہرير'' سر دى كى وجہ سے كتے كى نكلنے والى آواز كے معنى ميں ہے_ چونكہ اس رات شدت جنگ اور دونوں طرف سے سواروں كى يلغار كى بناپر دونوں چلّار ہے تھے _ اسى لئے اس رات كو ليلة الہرير كہتے ہيں _ معجم البلدان جلد ۵/ ۴۳ مجمع البحرين جلد ۳/ ۵۱۸ مادہ ہَرَرَ _

۲۲ وقعہ صفين /۴۷۵_

۲۳ يعني: وہ عہد و پيمان جو جنگ بندى كے بعد حضرت علىعليه‌السلام اورمعاويہ كے درميان منعقدہوا تھا__

۲۴ نہروان، واسط اور بغداد كے درميان ايك وسيع جگہ ہے جہاں اسكان و صافيہ جيسے شہر اس علاقہ ميں واقع تھے_ معجم البلدان جلد ۵/۳۲۴_

۲۵ ملل ونحل شہرستانى جلد ۲/۱۱۸_۱۲۲_

۳۹

تيسراسبق :

حضرت فاطمہ زہراء سلام الله علیها كى زندگي

۴۰

نواں سبق

کیا خدا غیر مرئی ہے

محمود نقاشی کر رہا تھا اس نے کتنا خوبصورت کبوتر بنایا کیا محمود عقل و فہم رکھتا ہے؟ کیا آپ اس کی عقل و فہم کو دیکھ سکتے ہیں_ کیا کہہ سکتے ہیں کہ جب محمود کی عقل اور فہم کو نہیں دیکھ پائے لہذا وہ عقل اور فہم ہی نہیں رکھتا؟

لازماً جواب دیں گے کہ عقل اور فہم آنکھ سے نہیں دیکھی جاسکتی لیکن اس کی علامتیں اور نشانیاں آنکھ سے دیکھ رہے ہیں ان ہی علامات اور آثار کے دیکھنے سے درک کرتے ہیں کہ وہ عقل اور فہم رکھتا ہے_ جی ہاں یہ آپ کا جواب بالکل درست ہے عقل اور فہم کو آنکھ سے نہیں دیکھا جاتا کیوں کہ عقل اور فہم جسم نہیں ہے کہ آنکھ سے دیکھا جائے آنکھ اور دوسرے حواس صرف جسم کے آثار اور نشانیوں کو درک کرسکتے ہیں_ بہت سی چیزیں

۴۱

ایسی موجود ہیں کہ جنھیں آنکھ سے نہیں دیکھ سکتے لیکن ان کو آثار سے دیکھ لیتے ہیں اور ان کے وجود کا علم حاصل کرلیتے ہیں خدا بھی چونکہ جسم نہیں ہے لہذا آنکھ سے نہیں دیکھا جاسکتا اور دوسرے حواس سے بھی درک نہیں کیا جاسکتا لیکن اس جہان پر عظمت کی خلقت جو خود اس کی قدرت کے آثار اور علائم میں سے ہے اس سے اس کے وجود کا علم حاصل کیا جاسکتا ہے کہ اس عظیم جہان کا خالق او رانتظام کرنے والا موجود ہے_

فکر کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ اپنے دوست کودیکھیں کہ وہ کیا دیکھ رہا ہے؟

۲)___ کیا اس کی عقل اور فہم کو آنکھ سے دیکھ سکتے ہیں؟

۳)___ کس طرح جانتے ہیں کہ وہ عقل و فہم رکھتا ہے؟

۴)___کیا یہ کہہ سکتے ہیں کہ چونکہ اسکی عقل اور فہم کو نہیں دیکھ سکتے لہذا وہ عقل و فہم نہیں رکھتا؟

۵)___ ہمارے ظاہری حواس کس چیز کو درک کرسکتے ہیں؟

۶)___ کیا خدا کو آنکھ سے دیکھا جاسکتا ہے

۷)___ کیا خدا کو دوسرے کسی حواس سے محسوس کیا جاسکتا ہے اور کیا بتلا سکتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے؟

۸)___ کیا اب بھی کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ چوں کہ خدا نہیں دیکھا جاسکتا لہذا موجود نہیں ہے؟

۴۲

دسواں سبق

موحّدین کے پیشوا حضرت ابراہیم (ع)

حضرت ابراہیم (ع) علیہ السلام کے زمانے میں لوگ نادان اور جاہل تھے پہلے پیغمبروں کے دستور کو بھلاچکے تھے خداپرستی کے طور طریقے نہیں جانتے خدا کی پرستش کی جگہ بت پرستی کرتے تھے یعنی پتھر یا لکڑی سونا یا چاندی کے مجسمے انسانی یا حیوانی شکل میں بناتے تھے اور ان بے زبان اور عاجز بتوں کے سامنے سجدہ کرتے تھے اور ان کے سامنے زمین پر گرپڑتے اور ان کے لئے نذر و نیاز مانتے اور قربانی دیا کرتے تھے بعض لوگ سورج کی پرستش کرتے تھے اور بعض لوگ چاند یا ستاروں کی پرستش کرتے تھے_ جاہلوں کا ایک گروہ اس زمانہ میںطاقتور اور ظالموں کی پرستش کرتا تھا اور ان کی اطاعت واجب و لازم سمجھتا تھا اور بغیر سوچے سمجھے ظالموں کے دستور پر عمل کرتا تھا اپنے آپ کو ذلیل کر کے ان کے سامنے زمین پر گرتے تھے اور ان

۴۳

کے لئے بندگی کا اظہار کرتے تھے اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم (ع) کو چنا اور انھیں زندگی کا صحیح راستہ بتلایا اور حکم دیا کہ لوگوں کی تبلیغ کریں اور انھیں خداپرستی کے طور طریقے بتلائیں_

حضرت ابراہیم (ع) نے لوگوں سے فرمایا کہ بتوں میں کونسی قدرت ہے کہ تم ان سے محبت کرتے ہو اور ان کی پرستش کرتے ہو یہ مجسمے کیا کرسکتے ہیں یہ نہ تو دیکھتے ہیں نہ سنتے ہیں یہ نہ تو تمہیں کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ ہی تمہیں ضرر پہنچانے پر قدرت رکھتے ہیں_ تم کیوں اپنے اپ کو ان کے سامنے ذلیل کرتے ہو؟ تم کیوں ان کے سامنے زمین پر گرتے ہو؟ کیوں ان کی عبادت و اطاعت کرتے ہو؟ جو لوگ حضرت ابراہیم (ع) کی گفتگو سنتے اور اس کے متعلق فکر نہ کرتے تھے وہ آپ کے جواب میں کہتے کہ ہمارے آباؤ اجداد بت پرست تھے ہمارے دوست اور رفقاء بھی بت پرست تھے اور ہم اپنے گزرے ہوئے آباؤ اجداد کی پیروی کریں گے اور ان کے دین پر باقی رہیں گے_

حضرت ابراہیم علیہ السلام فرماتے تھے کہ تمہارے آباؤ اجداد نے اشتباہ کیا کہ وہ بت پرست بنے کیا تم میں عقل و شعور نہیں؟ کیا تم خود کچھ نہیں سمجھتے؟ کیا دیکھ نہیں رہے ہو کہ ان بتوں سے کچھ بھی تو نہیں ہوسکتا_ کس لئے تم اپنے آپ کو طاقتوروں اور ظالموں کے سامنے ذلیل کرتے ہو وہ بھی تمہاری طرح اللہ کی مخلوق ہیں_

لوگو میں اللہ کا پیغمبر ہوں اور اس کی طرف سے آ زادی اور سعادتمند ی کا پیغام لایا ہوں_ میری بات سنو تا کہ دنیا اور آخرت میں سعادت

۴۴

مند بن جاؤ: لوگو تمہارا پروردگار اور مالک وہ ہے کہ جس نے تم کو پیدا کیا ہے، زمین اور آسمان کو پیدا کیا ہے، کائنات اور اس میں رہنے والوں کے لئے انتظام کرتا ہے تمام قدرت اس کی طرف سے ہے دنیا کا نظام چلانا کسی کے سپرد نہیں کیا اور اس کے چلانے میں کس سے مدد نہیں لی وہ ایک ہے اور قادر مطلق ہے_ میں ان بتوں سے جن کی تم پرستش کرتے ہو بیزار ہوں اور ان کو دوست نہیں رکھتا اور ان کی اطاعت نہیں کرتا

خدا کو دوست رکھتا ہوں اور صرف اس کی پرستش کرتا ہوں کیوں کہ خدا نے مجھے پیدا کیا ہے_

بیماری سے شفا اور زندگی اور موت دنیا اور آخرت سب اس کے ہاتھ میں ہے_

میں امیدوار ہوں کہ قیامت کے دن بھی خداوند عالم مجھ پر مہربان ہوگا اور مجھ پر رحم کرے گا_

لوگو ایک خدا کی پرستش کرو کیوں کہ تمام قدرت خدا سے ہے، خدا ہے اور ہمیشہ رہے گا تمہاری مدد کرنے والا صرف خدا ہے تمہارا راہنما خدا کا پیغام ہے اسی کی طرف توجہ کرو اور صرف اسی کی پرستش کرو پرستش صرف ذات خدا کے ساتھ مخصوص ہے اس کے سواء اور کوئی لائق اطاعت اور پرستش نہیں ہے_

۴۵

غور کریں اور جواب دیں

۱)___ حضرت ابراہیم (ع) کے زمانے میں جاہل لوگ کن چیزوں اور کن لوگوں کی پرستش کرتے تھے؟ اور کن لوگوں کی اطاعت کو ضروری سمجھتے تھے؟

۲)___ اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم (ع) کو کیا فرمان دیا؟

۳)___ حضرت ابراہیم (ع) نے لوگوں سے کیا فرمایا اور کس طرح وضاحت کی کہ بت قابل پرستش نہیں ہیں؟

۴)___ کیا لوگ حضرت ابراہیم (ع) کی گفتگو پرغور کرتے تھے؟ اور آپ سے کیا کہتے تھے؟

۵)___ لوگوں نے حضرت ابراہیم (ع) کو کیا جواب دیا تھا وہ ٹھیک تھا یا غلط اور کیوں؟

۶)___ کیا یہ جائز ہے کہ ایک انسان دوسرے کے سامنے بندگی کا اظہار کرے؟

۷)___ آپ نے بت پرست دیکھا ہے؟

۸)___ حضرت ابراہیم (ع) کی توحید پر کیا دلیل تھی کیوں صرف خدا کو دوست رکھتے تھے اور صرف اسی کی پرستش کرتے تھے؟

۹)___ سوائے خدا کے اور کوئی کیوں قابل پرستش اور اطاعت نہیں؟

۱۰)___ کیا جو کسی ظالم کی اطاعت کرتا ہے وہ موحّد ہے؟

۱۱)___ کس کو موحّد کہتے ہیں موحّد آدمی کی امید کس سے ہوتی ہے؟

۴۶

۱۲)___ اس سبق سے ایک اور سوال بنائیں اوراپنے دوست سے کہیں کہ وہ اس کا جواب دے_

۴۷

حصّہ دوم معاد

۴۸

پہلا سبق

کیا اچھائی اور برائی برابر ہیں

آپ اچھے اور برے کے معنی سمجھتے ہیں اچھے اور برے انسان میں فرق کرسکتے ہیں جو انسان عدل چاہنے والا سچا، نیک کردار، صحیح با ادب، اور امین ہوا سے اچھا انسان شمار کرتے ہیں، لیکن بد اخلاق، جھوٹا، بدکردار، ظالم بے ادب خائن انسان کو برا انسان سمجھتے ہیں کیا آپ کے نزدیک برے اور اچھے انسان مساوی اور برابر ہیں_ کیا آپ اور تمام لوگ اچھے انسانوں کو دوست رکھتے ہیں اور برے آدمیوں سے بیزار ہیں خدا بھی اچھے کردار والے آدمیوں کو دوست رکھتا ہے اور برے انسانوں سے وہ بیزار ہے اسی لئے اللہ تعالی نے پیغمبر(ص) بھیجے ہیں تا کہ اچھے کاموں کی دعوت دیں اور برے کاموں سے روکیں

اب ان سوالوں کے جواب دیں_

۴۹

کیا اچھے لوگوں کے لئے کوئی جزا ہوگی اور برے لوگ اپنے اعمال بد کی سزا پائیں گے؟

کیا اچھے اور برے لوگ اس جہاں میں اپنے اعمال کی پوری اور کامل جزا اور سزا پالیتے ہیں؟

پس اچھے اور برے کہاں ایک دوسرے سے جدا ہوں گے اور کہاں اپنے اعمال کا پورا اور کامل نتیجہ دیکھ سکیں گے؟

اس دنیا کے بعد ایک اور دنیا ہے جسے آخرت کہا جاتا ہے کہ جہاں اچھے اور برے لوگ ایک دوسرے سے جدا ہوں گے اور اپنے اعمال کا ثمرہ پائیں گے اگر آخرت نہ ہو تو اچھے لوگ کس امید میں اچھا کام کریں اور کس لئے گناہ اور برائی سے دور ہیں_ اگر آخرت نہ ہو تو پیغمبروں کی دعوت بے مقصد اور بیہودہ ہوگی اچھائی اور برائی کے کوئی معنی نہ ہوں گے اگر آخرت ہمارے سامنے نہ ہو تو ہماری زندگی بے نتیجہ اور ہماری خلقت بھی بے معنی ہوگی_ کیا علیم و قادر خدا نے ا س لئے ہمیں پیدا کیا ہے کہ چند دن اس دنیا میں زندہ رہیں؟ یعنی کھائیں پئیں، پہنیں، سوئیں اور پھر مرجائیں اور اس کے بعد کچھ بھی نہیں یہ تو ایک بے نتیجہ اور بے معنی کام ہے اور اللہ تعالی بے معنی اور بے فائدہ کام انجام نہیں دیتا_ اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے ''ہم نے تمہیں عبث خلق نہیں کیا ہم نے تم کو پیدا کیا ہے تا کہ اس دنیا میں زندگی گزار و اچھے کام انجام دو اور لائق و کامل بن جاؤ اس کے بعد ہم تم کو اس دنیا سے ایک دوسری دنیا کی طرف لے جائیں گے تا کہ اس دنیا میں اپنے کاموں کا کامل نتیجہ پاؤ''

آخرت میں اچھے بروں سے جدا ہوجائیں گے جو لوگ نیک کام

۵۰

انجام دیتے رہے اور دین دار تھے وہ بہشت میں جائیں گے اور خوشی کی زندگی بسر کریں گے اللہ ان سے راضی ہے اور وہ بھی اپنی اچھی زندگی اور اللہ کی بے پایاں نعمتوں سے خوشنود اور راضی ہیں بے دین اور بد کردار لوگ دوزخ میں جائیں گے اور اپنے برے کاموں کی سزا پائیں گے اللہ ان پر ناراض ہے اور وہ دردناک عذاب کی زندگی بسر کریں گے اور ان کے لئے بہت سخت زندگی ہوگی

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ کون لوگ اچھے ہیں او رکون لوگ برے، ان صفات کو شمار کیجئے

۲)___ کیا برے اور اچھے لوگ آپ کے نزدیک مساوی ہیں؟

۳)___ کیا برے اور اچھے لوگ خدا کی نزدیک برابر ہیں؟

۴)___ پیغمبر(ص) لوگوں کو کن کاموں کی طرف دعوت دیتے ہیں اور کن کاموں سے روکتے ہیں؟

۵)___ کیا لوگ اس دنیا میں اپنے اعمال کی کامل جزاء پاتے ہیں؟

۶)___ کہاں اپنے اعمال کا کامل نتیجہ دیکھیں گے؟

۷)___ اگر آخرت نہ ہو تو اچھائی اور برائی کا کوئی معقول اور درست معنی ہوگا

۸)___ اگر آخرت نہ ہو تو ہماری زندگی کا کیا فائدہ ہوگا؟

۹)___ جب ہم سمجھ گئے کہ اس دنیا کے علاوہ ایک اور دنیا ہے تو ہم کس طرح زندگی گزاریں؟

۵۱

دوسرا سبق

پھول کی تلاش

ہمارے خاندان کے کچھ لوگ مری کے اطراف میں ایک دیہات میں رہتے ہیں وہ دیہات بہت خوبصورت ہے وہاں کی آب و ہوا معتدل ہے اس کے نزدیک ایک پہاڑ ہے کہ جس کا دامن سرخ اور زرد پھولوں سے بھرا ہوا ہے_

ایک دن میرے رشتہ دار بچّے میرے چچا کے گھر بیٹھے تھے عید الاضحی کا دن تھا_ ہم چاہتے تھے کہ کمرے کو پھولوں سے سجائیں میرے والد نے مجھ سے کہا کہ چلیں پھول ڈھونڈ لائیں اور اس کام میں ایک دوسرے کا مقابلہ کریں_

میں نے پوچھا کس طرح؟

والد نے کہا کہ تم تمام کے تمام پہاڑ کے دامن میں جاؤ وہاں بہت

۵۲

زیادہ پھول موجود ہیں پھول توڑو اور لوٹ آؤ لیکن خیال کرنا کہ پھولوں کی جڑوں کو ضرر نہ پہنچے مقابلہ کا وقت ایک گھنٹہ ہے تمام اس مقابلہ میں شریک ہو جاؤ پھول توڑو اور لوٹ آو جو زیادہ پھول لائے گا وہ زیادہ انعام پائے گا تمام بچّے مقابلہ میں شریک ہونے کے لئے آمادہ ہوگئے_

صبح کو ٹھیک سات بجے مقابلہ شروع ہوا کچھ بچے تو اس دیہات کے اطراف میں ہی رہ گئے اور کہنے لگے کہ راستہ دور ہے اور ہم تھک جائیں گے تم بھی یہیں رک جاؤ اور ہم ہمیں مل کر کھیلیں لیکن ہم نے ان کی باتوں پر کان نہ دھرا اور چلے گئے راستے میں دوڑتے اور ایک دوسرے سے آگے نکلتے تھے تا کہ پھولوں تک جلدی پہنچ جائیں راستہ دشوار آگیا بعض بچّے ٹھہر گئے آگے نہ بڑھے او رکہنے لگے کہ ہم یہیں سے پھول توڑیں گے_

میں میرا بھائی اور چچا کا بیٹا سب سے پہلے پہاڑ کے دامن میں پہنچ گئے کتنی بہترین اور خوبصورت جگہ تھی زرد اور سرخ پھولوں سے بھری پڑی تھی_ ہم تینوں نے فیصلہ کیا کہ ایک دوسرے کی مدد کریں اور اکھٹے پھول توڑیں میں اور چچا کا لڑکا پھول توڑنے تھے اور اپنے بھائی کے دامن میں ڈال دیتے تھے اس کا دامن پھولوں سے بھر گیا گھڑی دیکھی تو مقابلہ کا وقت ختم ہونے کے قریب تھا گھر کی طرف لوٹے دوسرے بچّے بھی لوٹ آئے تھے اور جانتے تھے کہ انہیں بہترین انعام ملے گا اور جو تھوڑے پھول توڑ لائے تھے خوش نہ تھے کیوں کہ جانتے تھے کہ مقابلہ میں بہتر مقام نہیں لے سکیں گے اور بہترین انعام حاصل نہیں کرسکیں گے اور جو خالی ہاتھ لوٹ آئے تھے شرمسار اور سرجھکائے ہوئے تھے والد کے پاس پہنچے جس نے جتنے پھول توڑے

۵۳

تھے انہیں دے دیئے اور انعام لیا لیکن جنہوں نے سستی کی تھی اور والد کے فرمان پر عمل نہیں کیا تھا انہوں نے انعام حاصل نہیں کیا بلکہ شرمسار تھے ان سے والد صاحب بھی خوش نہیں ہوئے اور ان کی کوئی پرواہ نہ کی وہ سرجھکائے اپنے آپ کو کہہ رہے تھے کاش ہم بھی کوشش کرتے کاش دوبارہ مقابلہ شروع ہو لیکن مقابلہ ختم ہوچکا تھا

جزاء کا دن

مقابلہ کے ختم ہوجانے کے بعد ہمارے والد نے ہم سے گفتگو کرنا شروع کی او رکہا '' میرے عزیز اور پیارے بچّو مقابلہ کے انعقاد کے لئے میرا نظریہ کچھ اور تھا میں اس سے تمہیں سمجھنا چاہتا تھا کہ یہ جہان مقابلہ کا جہان ہے_ ہم تمام اس جہان میں مقابلہ کرنے آئے ہیں اور قیامت کے دن اس کا انعام اور جازء حاصل کریں گے ہمارا مقابلہ نیک کاموں اور اچھے اعمال میں ہے_ اچھے اور برے کام کی جزاء اور سزا ہے اچھے اور برے لوگ اللہ کے نزدیک برابر نہیں _ ہماری خلقت اور کام و کوشش کرنا بے معنی اور بے فائدہ نہیں لوگوں کا ایک گروہ اللہ تعالی کے فرمان کا مطیع اور فرمانبردار ہے نیک کاموں کا بجالانے میں کوشش کرتا ہے وہ ہمیشہ اللہ کی یاد میں ہے اچھے اور صالح لوگوں سے دوستی کرتا ہے ان کی راہنمائی میں بہت زیادہ اچھے

۵۴

کام انجام دیتا ہے نیک کاموں میں سبقت لے جاتا ہے اپنے دوستوں اور ہمسایوں کی مدد کرتا ہے مظلوموں کی حمایت کرتا ہے

یہ لوگ آخرت میں بہترین انعام اور جزاء پائیں گے خدا ان سے خوش ہوگا اور وہ بھی خدا سے انعام لے کر خوش ہوں گے سب سے پہلے بہشت میں جائیں گے اور بہشت کے بہترین باغ میں اپنے دوستوں کے ساتھ خوش و خرّم زندگی بسر کرین گے ہمیشہ اللہ تعالی کی تازہ نعمتوں اور اس کی پاک محبت سے مستفید ہوں گے، اور لذت اٹھائیں گے_ ایک اور گروہ اس جہان میں اچھے کام انجام دیتا ہے وہ اچھے کاموں میں مدد بھی کرتا ہے اور اللہ کو یاد بھی کرتا ہے لیکن پہلے گروہ کی طرح کوشش نہیں کرتا اور سبقت لے جانے کے درپے نہیں ہوتا یہ بھی قیامت کے دن انعام او رجزاء پائیں گے اور بہشت میں جائیں گے لیکن ان کا انعام او رجزاء پہلے گروہ کی طرح نہیں ہوگا_ تیسرا گروہ ظالم اور بے دنیوں کا ہے وہ اللہ اور اس کے پیغمبر(ص) کے فرمان کو قبول نہیں کرتا اور اس پر عمل نہیں کرتا_ وہ خدا کو بھول گیا ہے، اچھے کام انجام نہیں دیتا، گناہ گار اور بداخلاق، اور بدکردار ہے لوگوں پر ظلم کرتا ہے اور یہ گروہ خالی ہاتھ آخرت میں سامنے آئے گا اچھے کام اپنے ساتھ نہیں لائے گا اپنے برے افعال اور ناپسندیدہ اعمال سے شرمندہ ہوگا_

جب اچھے لوگ انعام پائیں گے تو یہ افسوس کرے گا اور پشیمان ہوگا اور کہے گا_ کاش دنیا میں پھر بھیجا جائے تا کہ وہ نیک کام بجالائے لیکن افسوس کہ دوبارہ لوٹ جانا ممکن نہیں ہوگا اس گروہ کے لوگ جہنم میں جائیں گے اور اپنے برے کاموں کی سزا پائیں گے_

۵۵

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ کیا ہماری خلقت و کوشش بغیر کسی غرض اور غایت کے ہے اور کیا ہم ان کاموں اور کوششوں سے کوئی نتیجہ بھی لیں گے؟

۲)___ یہ جہان مقابلہ کی جگہ ہے، سے کیا مراد ہے؟

۳)___ متوجہ اور آگاہ انسان اس دنیا میں کن کاموں کی تلاش میں اور کن کاموں میں مقابلہ کر رہا ہے؟

۴)___ کون لوگ آخرت میں بہترین انعام پائیں گے؟

۵)___ ان لوگوں نے دنیا میں کیا کیا ہے؟

۶)___ ان کے اعمال اور کردار کیسے تھے، ان کے دوست کیسے تھے کن کاموں میں مقابلہ کرتے تھے؟

۷)___ آپ کی رفتار اور آپ کا کردار کیسے ہے، آپ کے دوستوں کا کردار کیسا ہے، کن کاموں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں اگر آپ کا کوئی دوست آپکو کسی ناپسندیدہ کام کی دعوت دے تو پھر بھی اس سے دوستی رکھتے ہیں؟

۸)___ کون لوگ قیامت کے دن شرمندہ ہوں گے کیوں افسوس کریں گے یہ لوگ اس دنیا میں کیسا کردار تھے ہیں؟

۹)___ دوسرے گروہ کا انعام اور جزاء کا پہلے گروہ کے انعام اور جزائ

۵۶

سے کیا فرق ہے اور کیوں؟

ان سوالوں کے جواب خوش خط لکھیں

۵۷

تیسرا سبق

جہان آخرت عالم برزخ اور قیامت

مرنے کے بعد فنا نہیں ہوتے بلکہ اس جہان سے دوسری دنیا کی طرف جاتے ہیں کہ جس کا نام جہان آخرت ہے، آخرت سے پہلے عالم برزخ ہے اور اس کے بعد قیامت ہے عالم برزخ ایک دنیا ہے جو دنیا و آخرت کے درمیان میں واقع ہے_خداوند عالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے کہ ان کے سامنے بزرخ ہے قیامت تک'' اور ایک جگہ فرماتا ہے ''گمان نہ کرو کہ وہ لوگ جو اللہ کے راستے میں قتل ہوجاتے ہیں وہ مرگئے ہیں بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار سے روزی پاتے ہیں'' خداوند عالم نے ہمیں پیغمبر(ص) اسلام کے ذریعہ خبر دی ہے کہ جب انسان مرجاتا ہے اور دنیا کو ترک کرتا ہے_ اور برزخ

۵۸

میں جاتا ہے تو عالم برزخ میں اس سے سوال کیا جاتا ہے کہ کتنے خدا کا عقیدہ رکھتے ہو_ کس کے فرمان کے مطیع تھے خدا کے یا غیر خدا کے، تیرا پیغمبر کون ہے، تیرا دن کیا ہے، تیرا رہبر و امام کون ہے، جس نے دنیا میں خداپرستی او ردینداری اور با ایمان زندگی گزاری ہوگی وہ آسانی سے جواب دے گا اور اس کا ایمان ظاہر ہوجائے گا اس مختصر سوال و جواب کے بعد برزخ میں آرام سے اور خوشی سے قیامت تک زندگی گزاریں گے اور عمدہ نعمتیں جو بہشتی نعمتوں کا نمونہ ہوں گی اسے دی جائیگی لیکن وہ لوگ جو خدا اور اس کے پیغمبر(ص) کو قبول نہ کرتے تھے اور اس کے فرمان کے مطیع نہ تھے بے دین اور ظالم تھے برزخ میں بھی خدا اور اس کے پیغمبر(ص) کا اقرار نہیں کریں گے ان کا کفر اور ان کے بے دینی ظاہر ہوگی اس قسم کے لوگ برزخ میں سختی اور عذاب میں مبتلا ہوں گے برزخ کا عذاب ان کے لئے جہنّم کے عذاب کا نمونہ ہوگا_ برزخ میں انسان کی حقیقت ظاہر ہوجائے گی اور اس کا ایمان اور کفر واضح ہوجائے گا جو شخص دنیا میں خدا و قیامت کے دن پیغمبروں(ص) پر واقعاً ایمان رکھتا تھا اور نیکوکار تھا برزخ میں اس کا ایمان ظاہر ہوجائے گا_ وہ صحیح اور صاف صاف جواب دے گا لیکن جو شخص واقعی ایمان نہیں رکھتا تھا اور ظالم و بدکار تھا برزخ میں اس کا کفر ظاہر ہوجائے گا اور وہ صحیح جواب نہیں دے سکے گا_

گناہ گار انسان جہنم کے عذاب کا نمونہ برزخ میں دیکھے گا اور اس کے اعمال کی سزا یہیں سے شروع ہوجائے گی پیغمبر اسلام حضرت محمد ابن عبداللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں کہ جو لوگ گھر مین بداخلاقی کرتے ہیں برزخ میں عذاب میں مبتلا ہوں گے حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا کہ

۵۹

جو لوگ خچل خوری کرتے ہیں اور جو لوگ شراب سے پرہیز نہیں کرتے برزخ میں عذاب میں مبتلا ہوں گے_

برزخ میں سوال و جواب

برزخ میں سوال و جواب حقیقی ہوگا جو لوگ برزخ میں جائیں گے ان سے حقیقتاً سوال ہوگا وہ یقینا ان سوال کا جواب دیں گے لیکن برزخ کا سوال و جواب دنیا کے سوال و جواب کی طرح نہیں_ جو لوگ برزخ میں ہیں سوال کو سنتے ہیں اور جواب دیتے ہیں لیکن اس کان اور زبان سے نہیں جس کے ذریعہ دنیا میں سنتے اور جواب دیتے تھے بلکہ برزخی زبان اور کان سے، ضروری نہیں کو بولنا اور سنتا ہمیشہ انہی لبوں، زبان اور انہی کانوں سے ہو_ مثلاً آپ خواب میں اپنے دوست سے کلام کرتے ہیں اس کی باتیں سنتے ہیں اور اس سے گفتگو کرتے ہیں کیا اسی کان اور زبان سے؟ یقینا نہیں_ کبھی خواب میں کسی ایسی جگہ جاتے ہیں کہ جہاں کبھی نہ گئے تھے لیکن بیدار ہونے کے بعد وہاں جائیں تو سمجھ جائیں گے کہ خواب میں اس جگہ کو دیکھا تھا خواب میں کس جسم کے ساتھ ادھر ادھر جاتے ہیں خواب میں کس آنکھ سے دیکھتے ہیں اور کس کان سے سنتے ہیں کیا اسی کان اور آنکھ سے؟ کیا اسی جسم سے، یقینا نہیں کیوں کہ یہ جسم بستر پر پڑا آرام

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285