‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) جلد ۲

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) 20%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 285

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 285 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 121511 / ڈاؤنلوڈ: 4289
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

نواں سبق

کیا خدا غیر مرئی ہے

محمود نقاشی کر رہا تھا اس نے کتنا خوبصورت کبوتر بنایا کیا محمود عقل و فہم رکھتا ہے؟ کیا آپ اس کی عقل و فہم کو دیکھ سکتے ہیں_ کیا کہہ سکتے ہیں کہ جب محمود کی عقل اور فہم کو نہیں دیکھ پائے لہذا وہ عقل اور فہم ہی نہیں رکھتا؟

لازماً جواب دیں گے کہ عقل اور فہم آنکھ سے نہیں دیکھی جاسکتی لیکن اس کی علامتیں اور نشانیاں آنکھ سے دیکھ رہے ہیں ان ہی علامات اور آثار کے دیکھنے سے درک کرتے ہیں کہ وہ عقل اور فہم رکھتا ہے_ جی ہاں یہ آپ کا جواب بالکل درست ہے عقل اور فہم کو آنکھ سے نہیں دیکھا جاتا کیوں کہ عقل اور فہم جسم نہیں ہے کہ آنکھ سے دیکھا جائے آنکھ اور دوسرے حواس صرف جسم کے آثار اور نشانیوں کو درک کرسکتے ہیں_ بہت سی چیزیں

۴۱

ایسی موجود ہیں کہ جنھیں آنکھ سے نہیں دیکھ سکتے لیکن ان کو آثار سے دیکھ لیتے ہیں اور ان کے وجود کا علم حاصل کرلیتے ہیں خدا بھی چونکہ جسم نہیں ہے لہذا آنکھ سے نہیں دیکھا جاسکتا اور دوسرے حواس سے بھی درک نہیں کیا جاسکتا لیکن اس جہان پر عظمت کی خلقت جو خود اس کی قدرت کے آثار اور علائم میں سے ہے اس سے اس کے وجود کا علم حاصل کیا جاسکتا ہے کہ اس عظیم جہان کا خالق او رانتظام کرنے والا موجود ہے_

فکر کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ اپنے دوست کودیکھیں کہ وہ کیا دیکھ رہا ہے؟

۲)___ کیا اس کی عقل اور فہم کو آنکھ سے دیکھ سکتے ہیں؟

۳)___ کس طرح جانتے ہیں کہ وہ عقل و فہم رکھتا ہے؟

۴)___کیا یہ کہہ سکتے ہیں کہ چونکہ اسکی عقل اور فہم کو نہیں دیکھ سکتے لہذا وہ عقل و فہم نہیں رکھتا؟

۵)___ ہمارے ظاہری حواس کس چیز کو درک کرسکتے ہیں؟

۶)___ کیا خدا کو آنکھ سے دیکھا جاسکتا ہے

۷)___ کیا خدا کو دوسرے کسی حواس سے محسوس کیا جاسکتا ہے اور کیا بتلا سکتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے؟

۸)___ کیا اب بھی کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ چوں کہ خدا نہیں دیکھا جاسکتا لہذا موجود نہیں ہے؟

۴۲

دسواں سبق

موحّدین کے پیشوا حضرت ابراہیم (ع)

حضرت ابراہیم (ع) علیہ السلام کے زمانے میں لوگ نادان اور جاہل تھے پہلے پیغمبروں کے دستور کو بھلاچکے تھے خداپرستی کے طور طریقے نہیں جانتے خدا کی پرستش کی جگہ بت پرستی کرتے تھے یعنی پتھر یا لکڑی سونا یا چاندی کے مجسمے انسانی یا حیوانی شکل میں بناتے تھے اور ان بے زبان اور عاجز بتوں کے سامنے سجدہ کرتے تھے اور ان کے سامنے زمین پر گرپڑتے اور ان کے لئے نذر و نیاز مانتے اور قربانی دیا کرتے تھے بعض لوگ سورج کی پرستش کرتے تھے اور بعض لوگ چاند یا ستاروں کی پرستش کرتے تھے_ جاہلوں کا ایک گروہ اس زمانہ میںطاقتور اور ظالموں کی پرستش کرتا تھا اور ان کی اطاعت واجب و لازم سمجھتا تھا اور بغیر سوچے سمجھے ظالموں کے دستور پر عمل کرتا تھا اپنے آپ کو ذلیل کر کے ان کے سامنے زمین پر گرتے تھے اور ان

۴۳

کے لئے بندگی کا اظہار کرتے تھے اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم (ع) کو چنا اور انھیں زندگی کا صحیح راستہ بتلایا اور حکم دیا کہ لوگوں کی تبلیغ کریں اور انھیں خداپرستی کے طور طریقے بتلائیں_

حضرت ابراہیم (ع) نے لوگوں سے فرمایا کہ بتوں میں کونسی قدرت ہے کہ تم ان سے محبت کرتے ہو اور ان کی پرستش کرتے ہو یہ مجسمے کیا کرسکتے ہیں یہ نہ تو دیکھتے ہیں نہ سنتے ہیں یہ نہ تو تمہیں کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ ہی تمہیں ضرر پہنچانے پر قدرت رکھتے ہیں_ تم کیوں اپنے اپ کو ان کے سامنے ذلیل کرتے ہو؟ تم کیوں ان کے سامنے زمین پر گرتے ہو؟ کیوں ان کی عبادت و اطاعت کرتے ہو؟ جو لوگ حضرت ابراہیم (ع) کی گفتگو سنتے اور اس کے متعلق فکر نہ کرتے تھے وہ آپ کے جواب میں کہتے کہ ہمارے آباؤ اجداد بت پرست تھے ہمارے دوست اور رفقاء بھی بت پرست تھے اور ہم اپنے گزرے ہوئے آباؤ اجداد کی پیروی کریں گے اور ان کے دین پر باقی رہیں گے_

حضرت ابراہیم علیہ السلام فرماتے تھے کہ تمہارے آباؤ اجداد نے اشتباہ کیا کہ وہ بت پرست بنے کیا تم میں عقل و شعور نہیں؟ کیا تم خود کچھ نہیں سمجھتے؟ کیا دیکھ نہیں رہے ہو کہ ان بتوں سے کچھ بھی تو نہیں ہوسکتا_ کس لئے تم اپنے آپ کو طاقتوروں اور ظالموں کے سامنے ذلیل کرتے ہو وہ بھی تمہاری طرح اللہ کی مخلوق ہیں_

لوگو میں اللہ کا پیغمبر ہوں اور اس کی طرف سے آ زادی اور سعادتمند ی کا پیغام لایا ہوں_ میری بات سنو تا کہ دنیا اور آخرت میں سعادت

۴۴

مند بن جاؤ: لوگو تمہارا پروردگار اور مالک وہ ہے کہ جس نے تم کو پیدا کیا ہے، زمین اور آسمان کو پیدا کیا ہے، کائنات اور اس میں رہنے والوں کے لئے انتظام کرتا ہے تمام قدرت اس کی طرف سے ہے دنیا کا نظام چلانا کسی کے سپرد نہیں کیا اور اس کے چلانے میں کس سے مدد نہیں لی وہ ایک ہے اور قادر مطلق ہے_ میں ان بتوں سے جن کی تم پرستش کرتے ہو بیزار ہوں اور ان کو دوست نہیں رکھتا اور ان کی اطاعت نہیں کرتا

خدا کو دوست رکھتا ہوں اور صرف اس کی پرستش کرتا ہوں کیوں کہ خدا نے مجھے پیدا کیا ہے_

بیماری سے شفا اور زندگی اور موت دنیا اور آخرت سب اس کے ہاتھ میں ہے_

میں امیدوار ہوں کہ قیامت کے دن بھی خداوند عالم مجھ پر مہربان ہوگا اور مجھ پر رحم کرے گا_

لوگو ایک خدا کی پرستش کرو کیوں کہ تمام قدرت خدا سے ہے، خدا ہے اور ہمیشہ رہے گا تمہاری مدد کرنے والا صرف خدا ہے تمہارا راہنما خدا کا پیغام ہے اسی کی طرف توجہ کرو اور صرف اسی کی پرستش کرو پرستش صرف ذات خدا کے ساتھ مخصوص ہے اس کے سواء اور کوئی لائق اطاعت اور پرستش نہیں ہے_

۴۵

غور کریں اور جواب دیں

۱)___ حضرت ابراہیم (ع) کے زمانے میں جاہل لوگ کن چیزوں اور کن لوگوں کی پرستش کرتے تھے؟ اور کن لوگوں کی اطاعت کو ضروری سمجھتے تھے؟

۲)___ اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم (ع) کو کیا فرمان دیا؟

۳)___ حضرت ابراہیم (ع) نے لوگوں سے کیا فرمایا اور کس طرح وضاحت کی کہ بت قابل پرستش نہیں ہیں؟

۴)___ کیا لوگ حضرت ابراہیم (ع) کی گفتگو پرغور کرتے تھے؟ اور آپ سے کیا کہتے تھے؟

۵)___ لوگوں نے حضرت ابراہیم (ع) کو کیا جواب دیا تھا وہ ٹھیک تھا یا غلط اور کیوں؟

۶)___ کیا یہ جائز ہے کہ ایک انسان دوسرے کے سامنے بندگی کا اظہار کرے؟

۷)___ آپ نے بت پرست دیکھا ہے؟

۸)___ حضرت ابراہیم (ع) کی توحید پر کیا دلیل تھی کیوں صرف خدا کو دوست رکھتے تھے اور صرف اسی کی پرستش کرتے تھے؟

۹)___ سوائے خدا کے اور کوئی کیوں قابل پرستش اور اطاعت نہیں؟

۱۰)___ کیا جو کسی ظالم کی اطاعت کرتا ہے وہ موحّد ہے؟

۱۱)___ کس کو موحّد کہتے ہیں موحّد آدمی کی امید کس سے ہوتی ہے؟

۴۶

۱۲)___ اس سبق سے ایک اور سوال بنائیں اوراپنے دوست سے کہیں کہ وہ اس کا جواب دے_

۴۷

حصّہ دوم معاد

۴۸

پہلا سبق

کیا اچھائی اور برائی برابر ہیں

آپ اچھے اور برے کے معنی سمجھتے ہیں اچھے اور برے انسان میں فرق کرسکتے ہیں جو انسان عدل چاہنے والا سچا، نیک کردار، صحیح با ادب، اور امین ہوا سے اچھا انسان شمار کرتے ہیں، لیکن بد اخلاق، جھوٹا، بدکردار، ظالم بے ادب خائن انسان کو برا انسان سمجھتے ہیں کیا آپ کے نزدیک برے اور اچھے انسان مساوی اور برابر ہیں_ کیا آپ اور تمام لوگ اچھے انسانوں کو دوست رکھتے ہیں اور برے آدمیوں سے بیزار ہیں خدا بھی اچھے کردار والے آدمیوں کو دوست رکھتا ہے اور برے انسانوں سے وہ بیزار ہے اسی لئے اللہ تعالی نے پیغمبر(ص) بھیجے ہیں تا کہ اچھے کاموں کی دعوت دیں اور برے کاموں سے روکیں

اب ان سوالوں کے جواب دیں_

۴۹

کیا اچھے لوگوں کے لئے کوئی جزا ہوگی اور برے لوگ اپنے اعمال بد کی سزا پائیں گے؟

کیا اچھے اور برے لوگ اس جہاں میں اپنے اعمال کی پوری اور کامل جزا اور سزا پالیتے ہیں؟

پس اچھے اور برے کہاں ایک دوسرے سے جدا ہوں گے اور کہاں اپنے اعمال کا پورا اور کامل نتیجہ دیکھ سکیں گے؟

اس دنیا کے بعد ایک اور دنیا ہے جسے آخرت کہا جاتا ہے کہ جہاں اچھے اور برے لوگ ایک دوسرے سے جدا ہوں گے اور اپنے اعمال کا ثمرہ پائیں گے اگر آخرت نہ ہو تو اچھے لوگ کس امید میں اچھا کام کریں اور کس لئے گناہ اور برائی سے دور ہیں_ اگر آخرت نہ ہو تو پیغمبروں کی دعوت بے مقصد اور بیہودہ ہوگی اچھائی اور برائی کے کوئی معنی نہ ہوں گے اگر آخرت ہمارے سامنے نہ ہو تو ہماری زندگی بے نتیجہ اور ہماری خلقت بھی بے معنی ہوگی_ کیا علیم و قادر خدا نے ا س لئے ہمیں پیدا کیا ہے کہ چند دن اس دنیا میں زندہ رہیں؟ یعنی کھائیں پئیں، پہنیں، سوئیں اور پھر مرجائیں اور اس کے بعد کچھ بھی نہیں یہ تو ایک بے نتیجہ اور بے معنی کام ہے اور اللہ تعالی بے معنی اور بے فائدہ کام انجام نہیں دیتا_ اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے ''ہم نے تمہیں عبث خلق نہیں کیا ہم نے تم کو پیدا کیا ہے تا کہ اس دنیا میں زندگی گزار و اچھے کام انجام دو اور لائق و کامل بن جاؤ اس کے بعد ہم تم کو اس دنیا سے ایک دوسری دنیا کی طرف لے جائیں گے تا کہ اس دنیا میں اپنے کاموں کا کامل نتیجہ پاؤ''

آخرت میں اچھے بروں سے جدا ہوجائیں گے جو لوگ نیک کام

۵۰

انجام دیتے رہے اور دین دار تھے وہ بہشت میں جائیں گے اور خوشی کی زندگی بسر کریں گے اللہ ان سے راضی ہے اور وہ بھی اپنی اچھی زندگی اور اللہ کی بے پایاں نعمتوں سے خوشنود اور راضی ہیں بے دین اور بد کردار لوگ دوزخ میں جائیں گے اور اپنے برے کاموں کی سزا پائیں گے اللہ ان پر ناراض ہے اور وہ دردناک عذاب کی زندگی بسر کریں گے اور ان کے لئے بہت سخت زندگی ہوگی

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ کون لوگ اچھے ہیں او رکون لوگ برے، ان صفات کو شمار کیجئے

۲)___ کیا برے اور اچھے لوگ آپ کے نزدیک مساوی ہیں؟

۳)___ کیا برے اور اچھے لوگ خدا کی نزدیک برابر ہیں؟

۴)___ پیغمبر(ص) لوگوں کو کن کاموں کی طرف دعوت دیتے ہیں اور کن کاموں سے روکتے ہیں؟

۵)___ کیا لوگ اس دنیا میں اپنے اعمال کی کامل جزاء پاتے ہیں؟

۶)___ کہاں اپنے اعمال کا کامل نتیجہ دیکھیں گے؟

۷)___ اگر آخرت نہ ہو تو اچھائی اور برائی کا کوئی معقول اور درست معنی ہوگا

۸)___ اگر آخرت نہ ہو تو ہماری زندگی کا کیا فائدہ ہوگا؟

۹)___ جب ہم سمجھ گئے کہ اس دنیا کے علاوہ ایک اور دنیا ہے تو ہم کس طرح زندگی گزاریں؟

۵۱

دوسرا سبق

پھول کی تلاش

ہمارے خاندان کے کچھ لوگ مری کے اطراف میں ایک دیہات میں رہتے ہیں وہ دیہات بہت خوبصورت ہے وہاں کی آب و ہوا معتدل ہے اس کے نزدیک ایک پہاڑ ہے کہ جس کا دامن سرخ اور زرد پھولوں سے بھرا ہوا ہے_

ایک دن میرے رشتہ دار بچّے میرے چچا کے گھر بیٹھے تھے عید الاضحی کا دن تھا_ ہم چاہتے تھے کہ کمرے کو پھولوں سے سجائیں میرے والد نے مجھ سے کہا کہ چلیں پھول ڈھونڈ لائیں اور اس کام میں ایک دوسرے کا مقابلہ کریں_

میں نے پوچھا کس طرح؟

والد نے کہا کہ تم تمام کے تمام پہاڑ کے دامن میں جاؤ وہاں بہت

۵۲

زیادہ پھول موجود ہیں پھول توڑو اور لوٹ آؤ لیکن خیال کرنا کہ پھولوں کی جڑوں کو ضرر نہ پہنچے مقابلہ کا وقت ایک گھنٹہ ہے تمام اس مقابلہ میں شریک ہو جاؤ پھول توڑو اور لوٹ آو جو زیادہ پھول لائے گا وہ زیادہ انعام پائے گا تمام بچّے مقابلہ میں شریک ہونے کے لئے آمادہ ہوگئے_

صبح کو ٹھیک سات بجے مقابلہ شروع ہوا کچھ بچے تو اس دیہات کے اطراف میں ہی رہ گئے اور کہنے لگے کہ راستہ دور ہے اور ہم تھک جائیں گے تم بھی یہیں رک جاؤ اور ہم ہمیں مل کر کھیلیں لیکن ہم نے ان کی باتوں پر کان نہ دھرا اور چلے گئے راستے میں دوڑتے اور ایک دوسرے سے آگے نکلتے تھے تا کہ پھولوں تک جلدی پہنچ جائیں راستہ دشوار آگیا بعض بچّے ٹھہر گئے آگے نہ بڑھے او رکہنے لگے کہ ہم یہیں سے پھول توڑیں گے_

میں میرا بھائی اور چچا کا بیٹا سب سے پہلے پہاڑ کے دامن میں پہنچ گئے کتنی بہترین اور خوبصورت جگہ تھی زرد اور سرخ پھولوں سے بھری پڑی تھی_ ہم تینوں نے فیصلہ کیا کہ ایک دوسرے کی مدد کریں اور اکھٹے پھول توڑیں میں اور چچا کا لڑکا پھول توڑنے تھے اور اپنے بھائی کے دامن میں ڈال دیتے تھے اس کا دامن پھولوں سے بھر گیا گھڑی دیکھی تو مقابلہ کا وقت ختم ہونے کے قریب تھا گھر کی طرف لوٹے دوسرے بچّے بھی لوٹ آئے تھے اور جانتے تھے کہ انہیں بہترین انعام ملے گا اور جو تھوڑے پھول توڑ لائے تھے خوش نہ تھے کیوں کہ جانتے تھے کہ مقابلہ میں بہتر مقام نہیں لے سکیں گے اور بہترین انعام حاصل نہیں کرسکیں گے اور جو خالی ہاتھ لوٹ آئے تھے شرمسار اور سرجھکائے ہوئے تھے والد کے پاس پہنچے جس نے جتنے پھول توڑے

۵۳

تھے انہیں دے دیئے اور انعام لیا لیکن جنہوں نے سستی کی تھی اور والد کے فرمان پر عمل نہیں کیا تھا انہوں نے انعام حاصل نہیں کیا بلکہ شرمسار تھے ان سے والد صاحب بھی خوش نہیں ہوئے اور ان کی کوئی پرواہ نہ کی وہ سرجھکائے اپنے آپ کو کہہ رہے تھے کاش ہم بھی کوشش کرتے کاش دوبارہ مقابلہ شروع ہو لیکن مقابلہ ختم ہوچکا تھا

جزاء کا دن

مقابلہ کے ختم ہوجانے کے بعد ہمارے والد نے ہم سے گفتگو کرنا شروع کی او رکہا '' میرے عزیز اور پیارے بچّو مقابلہ کے انعقاد کے لئے میرا نظریہ کچھ اور تھا میں اس سے تمہیں سمجھنا چاہتا تھا کہ یہ جہان مقابلہ کا جہان ہے_ ہم تمام اس جہان میں مقابلہ کرنے آئے ہیں اور قیامت کے دن اس کا انعام اور جازء حاصل کریں گے ہمارا مقابلہ نیک کاموں اور اچھے اعمال میں ہے_ اچھے اور برے کام کی جزاء اور سزا ہے اچھے اور برے لوگ اللہ کے نزدیک برابر نہیں _ ہماری خلقت اور کام و کوشش کرنا بے معنی اور بے فائدہ نہیں لوگوں کا ایک گروہ اللہ تعالی کے فرمان کا مطیع اور فرمانبردار ہے نیک کاموں کا بجالانے میں کوشش کرتا ہے وہ ہمیشہ اللہ کی یاد میں ہے اچھے اور صالح لوگوں سے دوستی کرتا ہے ان کی راہنمائی میں بہت زیادہ اچھے

۵۴

کام انجام دیتا ہے نیک کاموں میں سبقت لے جاتا ہے اپنے دوستوں اور ہمسایوں کی مدد کرتا ہے مظلوموں کی حمایت کرتا ہے

یہ لوگ آخرت میں بہترین انعام اور جزاء پائیں گے خدا ان سے خوش ہوگا اور وہ بھی خدا سے انعام لے کر خوش ہوں گے سب سے پہلے بہشت میں جائیں گے اور بہشت کے بہترین باغ میں اپنے دوستوں کے ساتھ خوش و خرّم زندگی بسر کرین گے ہمیشہ اللہ تعالی کی تازہ نعمتوں اور اس کی پاک محبت سے مستفید ہوں گے، اور لذت اٹھائیں گے_ ایک اور گروہ اس جہان میں اچھے کام انجام دیتا ہے وہ اچھے کاموں میں مدد بھی کرتا ہے اور اللہ کو یاد بھی کرتا ہے لیکن پہلے گروہ کی طرح کوشش نہیں کرتا اور سبقت لے جانے کے درپے نہیں ہوتا یہ بھی قیامت کے دن انعام او رجزاء پائیں گے اور بہشت میں جائیں گے لیکن ان کا انعام او رجزاء پہلے گروہ کی طرح نہیں ہوگا_ تیسرا گروہ ظالم اور بے دنیوں کا ہے وہ اللہ اور اس کے پیغمبر(ص) کے فرمان کو قبول نہیں کرتا اور اس پر عمل نہیں کرتا_ وہ خدا کو بھول گیا ہے، اچھے کام انجام نہیں دیتا، گناہ گار اور بداخلاق، اور بدکردار ہے لوگوں پر ظلم کرتا ہے اور یہ گروہ خالی ہاتھ آخرت میں سامنے آئے گا اچھے کام اپنے ساتھ نہیں لائے گا اپنے برے افعال اور ناپسندیدہ اعمال سے شرمندہ ہوگا_

جب اچھے لوگ انعام پائیں گے تو یہ افسوس کرے گا اور پشیمان ہوگا اور کہے گا_ کاش دنیا میں پھر بھیجا جائے تا کہ وہ نیک کام بجالائے لیکن افسوس کہ دوبارہ لوٹ جانا ممکن نہیں ہوگا اس گروہ کے لوگ جہنم میں جائیں گے اور اپنے برے کاموں کی سزا پائیں گے_

۵۵

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ کیا ہماری خلقت و کوشش بغیر کسی غرض اور غایت کے ہے اور کیا ہم ان کاموں اور کوششوں سے کوئی نتیجہ بھی لیں گے؟

۲)___ یہ جہان مقابلہ کی جگہ ہے، سے کیا مراد ہے؟

۳)___ متوجہ اور آگاہ انسان اس دنیا میں کن کاموں کی تلاش میں اور کن کاموں میں مقابلہ کر رہا ہے؟

۴)___ کون لوگ آخرت میں بہترین انعام پائیں گے؟

۵)___ ان لوگوں نے دنیا میں کیا کیا ہے؟

۶)___ ان کے اعمال اور کردار کیسے تھے، ان کے دوست کیسے تھے کن کاموں میں مقابلہ کرتے تھے؟

۷)___ آپ کی رفتار اور آپ کا کردار کیسے ہے، آپ کے دوستوں کا کردار کیسا ہے، کن کاموں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں اگر آپ کا کوئی دوست آپکو کسی ناپسندیدہ کام کی دعوت دے تو پھر بھی اس سے دوستی رکھتے ہیں؟

۸)___ کون لوگ قیامت کے دن شرمندہ ہوں گے کیوں افسوس کریں گے یہ لوگ اس دنیا میں کیسا کردار تھے ہیں؟

۹)___ دوسرے گروہ کا انعام اور جزاء کا پہلے گروہ کے انعام اور جزائ

۵۶

سے کیا فرق ہے اور کیوں؟

ان سوالوں کے جواب خوش خط لکھیں

۵۷

تیسرا سبق

جہان آخرت عالم برزخ اور قیامت

مرنے کے بعد فنا نہیں ہوتے بلکہ اس جہان سے دوسری دنیا کی طرف جاتے ہیں کہ جس کا نام جہان آخرت ہے، آخرت سے پہلے عالم برزخ ہے اور اس کے بعد قیامت ہے عالم برزخ ایک دنیا ہے جو دنیا و آخرت کے درمیان میں واقع ہے_خداوند عالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے کہ ان کے سامنے بزرخ ہے قیامت تک'' اور ایک جگہ فرماتا ہے ''گمان نہ کرو کہ وہ لوگ جو اللہ کے راستے میں قتل ہوجاتے ہیں وہ مرگئے ہیں بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار سے روزی پاتے ہیں'' خداوند عالم نے ہمیں پیغمبر(ص) اسلام کے ذریعہ خبر دی ہے کہ جب انسان مرجاتا ہے اور دنیا کو ترک کرتا ہے_ اور برزخ

۵۸

میں جاتا ہے تو عالم برزخ میں اس سے سوال کیا جاتا ہے کہ کتنے خدا کا عقیدہ رکھتے ہو_ کس کے فرمان کے مطیع تھے خدا کے یا غیر خدا کے، تیرا پیغمبر کون ہے، تیرا دن کیا ہے، تیرا رہبر و امام کون ہے، جس نے دنیا میں خداپرستی او ردینداری اور با ایمان زندگی گزاری ہوگی وہ آسانی سے جواب دے گا اور اس کا ایمان ظاہر ہوجائے گا اس مختصر سوال و جواب کے بعد برزخ میں آرام سے اور خوشی سے قیامت تک زندگی گزاریں گے اور عمدہ نعمتیں جو بہشتی نعمتوں کا نمونہ ہوں گی اسے دی جائیگی لیکن وہ لوگ جو خدا اور اس کے پیغمبر(ص) کو قبول نہ کرتے تھے اور اس کے فرمان کے مطیع نہ تھے بے دین اور ظالم تھے برزخ میں بھی خدا اور اس کے پیغمبر(ص) کا اقرار نہیں کریں گے ان کا کفر اور ان کے بے دینی ظاہر ہوگی اس قسم کے لوگ برزخ میں سختی اور عذاب میں مبتلا ہوں گے برزخ کا عذاب ان کے لئے جہنّم کے عذاب کا نمونہ ہوگا_ برزخ میں انسان کی حقیقت ظاہر ہوجائے گی اور اس کا ایمان اور کفر واضح ہوجائے گا جو شخص دنیا میں خدا و قیامت کے دن پیغمبروں(ص) پر واقعاً ایمان رکھتا تھا اور نیکوکار تھا برزخ میں اس کا ایمان ظاہر ہوجائے گا_ وہ صحیح اور صاف صاف جواب دے گا لیکن جو شخص واقعی ایمان نہیں رکھتا تھا اور ظالم و بدکار تھا برزخ میں اس کا کفر ظاہر ہوجائے گا اور وہ صحیح جواب نہیں دے سکے گا_

گناہ گار انسان جہنم کے عذاب کا نمونہ برزخ میں دیکھے گا اور اس کے اعمال کی سزا یہیں سے شروع ہوجائے گی پیغمبر اسلام حضرت محمد ابن عبداللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں کہ جو لوگ گھر مین بداخلاقی کرتے ہیں برزخ میں عذاب میں مبتلا ہوں گے حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا کہ

۵۹

جو لوگ خچل خوری کرتے ہیں اور جو لوگ شراب سے پرہیز نہیں کرتے برزخ میں عذاب میں مبتلا ہوں گے_

برزخ میں سوال و جواب

برزخ میں سوال و جواب حقیقی ہوگا جو لوگ برزخ میں جائیں گے ان سے حقیقتاً سوال ہوگا وہ یقینا ان سوال کا جواب دیں گے لیکن برزخ کا سوال و جواب دنیا کے سوال و جواب کی طرح نہیں_ جو لوگ برزخ میں ہیں سوال کو سنتے ہیں اور جواب دیتے ہیں لیکن اس کان اور زبان سے نہیں جس کے ذریعہ دنیا میں سنتے اور جواب دیتے تھے بلکہ برزخی زبان اور کان سے، ضروری نہیں کو بولنا اور سنتا ہمیشہ انہی لبوں، زبان اور انہی کانوں سے ہو_ مثلاً آپ خواب میں اپنے دوست سے کلام کرتے ہیں اس کی باتیں سنتے ہیں اور اس سے گفتگو کرتے ہیں کیا اسی کان اور زبان سے؟ یقینا نہیں_ کبھی خواب میں کسی ایسی جگہ جاتے ہیں کہ جہاں کبھی نہ گئے تھے لیکن بیدار ہونے کے بعد وہاں جائیں تو سمجھ جائیں گے کہ خواب میں اس جگہ کو دیکھا تھا خواب میں کس جسم کے ساتھ ادھر ادھر جاتے ہیں خواب میں کس آنکھ سے دیکھتے ہیں اور کس کان سے سنتے ہیں کیا اسی کان اور آنکھ سے؟ کیا اسی جسم سے، یقینا نہیں کیوں کہ یہ جسم بستر پر پڑا آرام

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

 33 ہزار علماء فضلا نے اتفاق سے حضرت امام علی رضا علیہ السلام کا نام لیا۔”

آپ کی عبادت

آپ کی  عبادت کو سمجھنے کے لیے امام کا یہ فرمان سننا ہی کافی ہے کہ جس وقت آپ نے مشہور شاعر دعبل خزاعی کو عبا مرحمت فرمایا تو کہا “ اے دعبل اس عبا اس کی قدر جانو کہ اس عبا میں ہزار راتیں اور ہر رات ہزارر رکعت نمازیں پڑھی جاچکی ہیں۔” وہ لوگ جو جو آپ کو مدینہ سے طوس تک لائے تھے، تمام نے متفقہ طور پر آپ کی شب بیداری ، دعا و ندبہ تہجد کی پابندی اور اپنے رب کے حضور گریہ و زاری کا ذکر کیا ہے۔

آپ کی انکساری

ابراہیم بن عباس جو مدینہ سے طوس تک آپ کے ہمرکاب تھا، کہتا ہے کہ میں نے نہیں دیکھا کہ آپ نے کبھی کسی پر ظلم کیا ہو، کسی کی بات کاٹ لی ہو، کسی کی حاجت پوری نہ کی ہو، پاؤں پھیلا کر بیٹھے ہوں، کسی کی موجود گی میں تکیہ لگا کر بیٹھے ہوں، آپ کسی کے ساتھ تندی کے ساتھ نہیں بولتے تھے۔”

آپ کی سخاوت

ایک واقعہ کا ذکر کلینی علیہ الرحمہ نے کیا ہے اس بارے میں ہم اسی واقعے کا ذکر کرتے ہیں۔ راوی کہتا ہے کہ ہمارے ساتھ لوگوں کا ایک بڑا گروہ آپ کی خدمت میں موجود تھا، کہ ایک مسافر آیا اور کہا، مولا! میں آپ (ع) اور کے آباء کرام کا دوستدار ہوں میں نے اپنے راستے کا خرچ حج کے دوران کھودیا ہے اس سفر میں بغیر زاد راہ کے رہ گیا ہوں مہربانی کر کے سفر کے آخراجات کے لیے کچھ عنایت

۱۲۱

 فرما دیجئے جسے میں خراسان پہنچ کر آپ کی طرف سے صدقہ کروں گا۔ کیونکہ وہاں میری رہایش ہے۔ آپ اپنے کمرے میں تشریف لے گئے اور دو سو دینار لاکر دروازے کے اوپر سے ہاتھ میں تھما دیئے اور فرمایا صدقہ کرنے کی ضرورت نہیں اور اسے چلے جانے کو کہا وہ شخص چلا گیا۔ تو حاضرین نے پوچھا کہ رقم دروازے کے اوپر سے تھما دی اور اس کے چلے جانے کی خواہش کی اور اسے نہ دیکھنا چاہا۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ فرمایا میں نے یہ پسند نہیں کیا کہ اس کے چہرے پر سوال کی ذلت دیکھوں کیا تم نے نہیں سنا کہ حضور اکرم (ص) نے فرمایا ہے کہ چھپا کر دیا ہوا صدقہ ستر حج کے برابر ہے۔ آشکار گناہ رسوائی کا باعث ہے اور پوشیدہ گناہ بخش دیا جائے گا۔

یہ آںحضرت (ع) کے فضائل کے ایک جھلک ہے جسے ذکر کیا گیا۔ آپ کے فضائل حمیدہ ہارون رشید کی موت کے بعد اسلامی ممالک میں شورش برپا تھی اور ایک بحران کی حالت تھی۔ جس وقت ہارون نے اپنے بھائی کو نیست و نابود کیا اور اسلامی سلطنت کی زمام اقتدار اپنے ہاتھ میں لی تو یہ مناسب جانا کہ مختلف اسلامی علاقوں کے معزز افراد کو جمع کر کے ان کے ذریعے ہی ان شورشوں کا قلع قع کرے۔ لہذا اس نے 33 ہزار افراد کو مختلف ممالک سے بلاکر دار الخلافہ میں جمع کیا اور انہیں اپنا مشیر بنایا اسی دوران حضرت امام رضا علیہ السلام کی ولایت عہدی قبول کرنے پر مجبور کیا اور اس طرح اسلامی ممالک میں شورشوں پر قابو پایا۔ لیکن جب ہنگامے ختم ہوگئے اور مملکت میں امن و سکون قائم ہوگیا تو ان مشیروں میں سے اکثر ہارون غیظ کا نشانہ بنے۔ کچھ تو زندان میں محبوس ہوئے اور باقی قابل اعتنا نہ رہے اور بعض قتل کردئے گئے۔ قتل کئے جانے والوں کی فہرست میں حضرات امام رضا علیہ السلام کا نام بھی ہے۔ اس کو وضاحت کے ساتھ سمجھنے کے لیے چند نکات بیان کرتے ہیں۔

۱۲۲

1 ـ خود حضرت امام رضا علیہ السلام نے متعدد مواقع پر یہ اظہار فرمایا ہے کہ آپ کا خراسان کا سفر اور ہارون کی حکومت میں موجود ہونا آپ پر ایک مسلط شدہ امر تھا مدینہ سے کوچھ کرتے وقت مجلس عزاء کا پربا کرنا، اپنے جد بزرگوار کی قبر سے رخصت ہوتے وقت گریہ و زاری کرنا، مامون کے آدمی پہنچنے سے قبل ہی بیت اﷲ سے رخصت ہونا اور بار بار ولی  عہدی کو قبول نہ کرنا، مگر مجبور کرنے پر قبول کرنا لیکن اس میں بھی یہ شرائط رکھنا کہ امور مملکت میں دخل نہیں دیں گے۔ وغیرہ تمام اقدامات اس بات کے گواہ ہیں کہ ولی عہدی آپ پر مسلط کی گئی تھی۔ اور آپ(ع) نے خوشی سے اسے قبول نہیں کیا تھا۔

2 ـ حضرت امام رضا علیہ السلام مامون سے ملاقات کے بعد ہر وقت غیر معمولی طور پر غمگین رہتے تھے۔ جب بھی آپ نماز جمعہ سے لوٹتے تو موت کی تمنا کرتے تھے۔

3 ـ شاید اکیلے میں آپ کو ڈرایا دھمکایا جاتا ہو، یا ان کے منافقانہ سلوک سے آپ دل برداشتہ ہوں؟ یا اور کوئی دوسری وجہ ہو۔ وجہ معلوم نہیں مگر یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچی ہوئی تھی کہ آپ غیر معمولی طور پر غمگین رہتے تھے۔

4 ـ حضرت امام رضا علیہ السلام کا مرو میں آنا اسلام کے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہوا چونکہ اس زمانے میں طوس دوسرے لوگوں کے لیے علم کا مرکز تھا اگر حضرت امام رضا علیہ السلام طوس میں نہ ہوتے تو ان کے اعتراضات کوئی بھی حل نہیں کرسکتا تھا اور اگر یہ اعتراضات اور شبہات حل نہ ہوتے  تو اسلام کےلیے شدید خطرہ تھا۔

5ـ حضرت امام رضا علیہ السلام راستے میں نیشاپور میں پہنچے اور نیشاپور میں

۱۲۳

شیعوں کی تعداد غیر معمولی تھی۔ لوگوں کا ایک جم غفیر آپ کے استقبال کے لیے آیا اور اپنی عقیدت کی بناء پر امام علیہ السلام سے کوئی حدیث نہیں چاہی ۔ عقل کا تقاضا یہ ہے کہ حجت خدا ان کے لیے اس حساس موقع پر ایک بہترین تحفہ دے دیں آپ چند لمحے خاموش رہے اور جب لوگوں کا اشتیاق بڑھا تو آپ نے فرمایا۔

“  حدّثني‏ أبي‏ موسى‏ الكاظم‏، عن أبيه جعفر الصادق، عن أبيه محمّد الباقر، عن أبيه عليّ زين العابدين، عن أبيه الحسين الشّهيد بكربلا، عن أبيه عليّ بن أبي طالب كرّم اللّه وجهه و رضوان اللّه عليهم، أنّه قال: حدّثني حبيبي و قرّة عيني رسول اللّه صلّى اللّه عليه و آله و سلّم قال: حدّثني جبرئيل عن ربّ العزّة سبحانه و تعالى يقول: كلمة لا إله إلّا اللّه حصني فمن قالها دخل حصني و من دخل حصني أمن من عذابي”

ترجمہ : “ میرے پدر بزرگوار حضرت امام موسی کاظم (ع) نے اپنے والد گرامی حضرت امام جعفر صادق(ع) سے انہوں نے اپنے والد گرامی حضرت امام محمد باقر(ع) سے ، انہوں نے اپنے پدر گرامی حضرت امام زین العابدین(ع) سے ، انہوں نے اپنے پدر گرامی حضرت امام حسین سید الشہدا سے ، انہوں نے اپنے پدر بزرگوار حضرت علی ابن ابی طالب(ع) سے، انہوں نے فرمایا کہ رسول اکرم (ص) نے مجھ سے فرمایا کہ جبرائیل (ع) نے مجھ سے کہا کہ میں نے خداوند عالم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ کلمہ “لا إله إلّا اللّه ” میرا قلعہ ہے جس کسی نےلا إله إلّا اللّه کہا وہ میرے قلعے میں داخل ہوا اور جو میرے قلعہ میں داخل ہوا وہ میرے عذاب سے محفوظ رہا۔”

اس کے بعد آپ کی سواری روانہ ہوئی پھر آپ نے ہودج سے سر مبارک باہر نکالا اور فرمایابشرط ه ا و شروط ه ا و انا من شروط ه ا ۔ کلمہ لا الہ الا اﷲ کہنا سعادت کا موجب ہے مگر اس کے لیے کچھ بنیادی شرائط ہیں ان میں سے ایک شرط میں ہوں ( یعنی اقرار ولایت)

۱۲۴

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس روایت کےبارے میں چند کلمات لکھے جائیں کلمہ لا الہ الا اﷲ کا اقرار کرنا اور اس پر عمل کرنا موجب سعادت ہے۔ لا الہ الا اﷲ در حقیقت وہی قرآن ہے، وہی کتاب ہے، جو انسانی معاشرے کے لیے سعادت کا باعث ہے لیکن قرآن کے مطابق قرآن ولایت کے بغیر کچھ بھی نہیں۔

خداوند عالم نے جس وقت حضرت علی (ع) کو ولایت کے عہدے پر منسوب فرمایا تو آیت اکمال کو نازل فرمایا۔

“الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ‏ لَكُمْ دِينَكُمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَ رَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً”

“ آج کے دن ہم نے تمہارے لیے دین کو مکمل کیا اور تم پر اپنی نعمتیں تمام کیں۔ اور تمہارے لیے دین اسلام کو پسندیدہ قرار دیا۔”

اور آیت اکمال سے پہلے یعنی علی علیہ السلام کو منسوب بہ ولایت کرنے سے پہلے “ آیت بلغ” نازل فرمائی۔

“ يا أَيُّهَا الرَّسُولُ‏ بَلِّغْ‏ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَ إِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَما بَلَّغْتَ رِسالَتَهُ”

“ اے رسول(ص) جو کچھ تم پر نازل کیا ہے اسے تبلیغ کے ذریعے پہنچاؤ اگر تم نے اس کا پر چار نہیں کیا تو گویا رسالت کا حق ادا نہیں کیا۔”

حضرت امام رضا علیہ السلام نے شرطہا و شروطہا کہہ کر انہی آیات ، یعنی آیت اکمال اور آیت بلغ کی یاد دہانی فرمائی ہے اور فرماتے ہیں کہ کلمہ لا الہ الا اﷲ کی بنیاد ولایت ہے۔

جس چیز کی طرف ہمیں زیادہ سے زیادہ متوجہ ہونا چاہیے وہ ولایت کی حقیقت اور معنی ہیں۔ لغت کے اعتبار سے ولایت کے متعدد معنی ہیں۔ منجملہ ان معنوں میں سے ایک معنی دوستی کے بھی ہیں۔ یعنی تمام لوگوں کو چاہئے کہ اہل بیت علیہم السلام کو دوست رکھیں۔ اہل بیت علیہم السلام کی دوستی اور محبت ایک عظیم نعمت ہے اور ان کے ساتھ بغض و دشمنی رکھنا ایک عظیم نقصان اور رسوائی کا باعث ہے تمام شیعہ و سنی محدثین نے

۱۲۵

 روایت نقل کی ہے کہ حضور اکرم (ص) نے فرمایا ۔

“ أَلَا مَنْ‏ مَاتَ‏ عَلَى حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ شَهِيداً أَلَا وَ مَنْ مَاتَ عَلَى حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ مَغْفُوراً لَهُ أَلَا وَ مَنْ مَاتَ عَلَى حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ تَائِباً أَلَا وَ مَنْ مَاتَ عَلَى حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ مُؤْمِناً مُسْتَكْمِلَ الْإِيمَانِ أَلَا وَ مَنْ مَاتَ عَلَى بُغْضِ آلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ كَافِراً أَلَا وَ مَنْ مَاتَ عَلَى بُغْضِ آلِ مُحَمَّدٍ لَمْ يَشَمَّ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ”

“ ترجمہ : “ خبردار رہو جو محمد(ص) و آل(ع) محمد(ص) کی محبت کے ساتھ مرے گا، وہ شہید مرے گا خبردار رہو جو کوئی محمد (ص) و آل (ع) محمد(ص) کی محبت کی محبت مرے گا وہ بخشا جائے گا، جو محمد و آل محمد(ص) کی محبت میں مرے گا وہ تائب ہو کر مرے گا۔ جو محمد و آل محمد(ص) کی محبت کے ساتھ مرے مومن مرے گا اور ایمان کی تکمیل چاہنے کی راہ میں مرے گا۔ جو اہل بیت علیہم السلام کی دشمنی کے ساتھ مرے گا وہ کافر مرے گا۔ یاد رکھو! جو محمد و آل محمد (ص) کی دشمنی میں مرے گا اس کے دماغ تک بہشت کی خوشبو نہیں پہنچے گی۔”

ولایت کے ان معانوں میں سے ایک معنی سرپرستی کے بھی ہیں یعنی جس کسی دل میں علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی سرپرستی ہو وہ ولایت رکھتا ہے جس نے اپنے نفس کو صفات زذیلہ سے پاک کیا وہ ولایت رکھتا ہے۔ جس کسی کے دل کا سر پرست اندرونی و بیرونی طاغوت، اندرونی اور بیرونی شیطان ، آرزوئیں ، خواہشات اور بیجا تمنائیں ہوں اور جسے کسی کی خواہشات، تمنائیں اور اس کا ذاتی نظریہ، اہل بیت علیہم السلام کے نظریے سے اولیت رکھتا ہے، اس کا دل بے ولایت ہے بلکہ اس کا دل اہل بیت علیہم السلام کی محبت سے خالی ہے اس لیے تو حضرت امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں۔ “ اتباع کے بغیر ولایت و محبت بے معنی ہے۔”

یعنی اگر ایک شخص خدا کی نافرمانی کرتے ہوئے محبت و ولایت کا دعویدار رہے تو اس کا ایسا کرنا بیجا ہے اور ایسا شخص تو زمانے کا ایک نمونہ قرار پائے گا۔ ولایت

۱۲۶

 اہل بیت علیہم السلام یعنی ولایت الہی کو جاری و ساری دینے کا نام ہے۔

“اللَّهُ‏ وَلِيُ‏ الَّذِينَ‏ آمَنُوا يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ وَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَوْلِياؤُهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُمْ مِنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُماتِ أُولئِكَ أَصْحابُ النَّارِ هُمْ فِيها خالِدُونَ‏”

“ خدا مومنوں کا سرپرست ہے جو اندھیرے سے روشنی کی طرف نکالتا ہے۔کفر و ضلالت کی گمراہی ، خواہشات نفسانی کی گمراہی ، شیطانوں کی گمراہی اور پست و رذیل صفات کی گمراہی سے محفوظ رکھتا ہے ۔ اور کافروں کا سرپرست طاغوت ہے جو انہیں روشنی سے نکال کر تاریکی کی طرف لے جاتا ہے اندرونی اور بیرونی طاغوت پست صفات کا طاغوت اور ان کا انجام ہمیشہ کے لیے آگ ہے۔”

حضرت امام رضا علیہ السلام نے جس روایت کو بیان فرمایا ہے اس کا مطلب ہی یہی ہے کہ جس دل میں لا الہ الا اﷲ داخل ہوا اس دل کا سرپرست اﷲ ہے۔ اب اس کا عقیدہ ، اس کا نظریہ اور اس کا عمل ، اس کا اظہار کرتا ہے کہ دنیا میں سوائے اﷲ کے اور کوئی تاثیر نہیں اور اس کا دوام ولایت کی سرپرستی ہے جو اﷲ کا ایک مضبوط قلعہ ہے۔

اس لیے کہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ حضرت امام رضا علیہ السلام نے اس ایک جملے میں تمام ایمان ، تمام قرآن ، تمام سعادتوں اور تمام سنتوں کو بیان فرمایا ہے۔

اس روایت کا ایک ملتا جلتا بیان جو کہ رسول اکرم(ص) سے روایت کیا گیا ہے جس وقت حضور اکرم (ص) کا اعلانیہ تبلیغ کا حکم ملا“وَ أَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ‏ الْأَقْرَبِينَ‏” کا حکم ملا تو حضور اکرم(ص) نے قریش کے بزرگوں کو جمع کیا اور دعوت دی۔ ان کو جمع کر کے فرمایا۔

“قولوا لا إله‏ الّا اللَّه تفلحوا

اگر تم لوگ کلمہ لا الہ الا اﷲ کہو گے تو فلاح پاؤ گے۔ اور یاد رکھو تم میں سے سب سے پہلے جو کلمہ لا الہ الا اﷲ کہے گا وہی میرا وصی اور جانشین ہوگا۔”

۱۲۷

 اور تم سب سے پہلے جواب دینے والے حضرت امیرالمومنین علیہ السلام تھے۔

حضور اکرم(ص) نے کئی مرتبہ بات کا تکرار کیا ۔ مگر سوائے حضرت علی علیہ السلام کے اور کسی نے جواب نہیں دیا تو حضور اکرم(ص) نے فرمایا میرے بعد علی (ع) میرا وصی اور میرا جانشین ہوگا۔ حضور اکرم (ص) کا یہ ارشاد امام رضا علیہ السلام کے ارشاد کی تائید کرتا ہے۔

مضمون کے آخر میں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے مرو آتے وقت دعبل خزاعی نے جو اشعار کہے تھے اسے لکھا جائے۔ قصیدہ تو بہت بڑا ہے اور اس قصیدے کوصاحب کشف الغمہ نے اپنی مذکورہ کتاب میں مکمل درج کیا ہے ۔ اس کے چند اشعار ہم یہاں پر نقل کرتے ہیں دعبل آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے اشعار سناتے ہوئے یہاں تک پہنچا ۔

أفاطم‏ لو خلت الحسين مجدّلا                       و قد مات عطشانا بشطّ فرات‏

“ اے کاش فاطمہ(س) تم کربلا میں ہوتیں تو دیکھتیں کہ حسین (ع) نے دریائے فرات کے کنارے کس طرح پیاس کی حالت میں شہادت پائی۔”

اس کے بعد بغداد میں حضرت موسی بن جعفر علیہ السلام کی قبر کے ذکر تک پہنچا تو کہا۔

و قبر ببغداد لنفس زكية                              تضمنها الرحمن في الغرفات‏

“ اے فاطمہ(س) قبر سے باہر اور اس قبر پر گریہ کر جو بغداد میں ہے جسے نورانی رحمت نے گھیر رکھا ہے۔” یہ سن کر امام رضا علیہ السلام نے فرمایا۔ دعبل میں نے بھی ایک شعر کہا ہے اسے اس شعر کے بعد لکھ لینا اور وہ شعر یہ ہے۔

و قبر بطوس‏ يا لها من مصيبة                        ألحت على الأحشاء بالزفرات

إلى الحشر حتّى يبعث اللّه قائما                      يفرّج عنّا الهمّ و الكربات

۱۲۸

“ گریہ کرو اس قبر جو طوس میں ہے اس کے دل کو غموں نے چور چور کیا ہوا ہے اس کا یہ غم والم قیامت تک باقی رہنا ہے بلکہ قیام آل محمد(ص) تک باقی رہنا ہے جنہوں نے آکر اہل بیت (ع) کے تمام غموں کو دور کرنا ہے۔ دعبل کہنے لگا یا بن رسول اﷲ میں تو طوس میں آپ اہل بیت (ع) میں سے کسی کی قبر نہیں دیکھی ہے۔ حضرت نے فرمایا وہ قبر میری ہے کچھ مدت کے بعد میں طوس میں دفن کیا جاؤں گا جو کوئی بھی میری زیارت کرے گا وہ بہشت میں میرے ساتھ ہوگا  اور وہ بخشا جا چکا ہوگا۔ دعبل نے آگے کلام جاری رکھا اور کہا۔

خروج‏ امام‏ لا محالة خارج‏                           يقوم على اسم اللّه و البركات‏

يميز فينا كل حقّ و باطل‏                            و يجزي على النعماء و النقمات‏

“ امام(ع) کا خروج یقینا واقع ہونے والا ہے جو اﷲ کا نام کے کر اس کی برکتوں کے ساتھ قیام کرے گا ہمارے بارے میں حق و باطل کا فرق معلوم ہوجائے گا نیکوں کو جزاء اور بروں کو سزا ملے گی۔” جب دعبل یہاں تک پہنچا تو امام کھڑے ہوئے اور سرجھکا کر احتراما ہاتھ سر پر رکھا اور فرمایا دعبل اس امام کو جانتے ہو دعبل نے کہا کہ ہاں یہ امام(ع) اہل بیت (ع) میں سے ہوگا۔ اس کے ہاتھوں ہی اسلام کا پرچم روئے زمین پر گاڑھ دیا جائے گا اور سارے عالم میں اسلامی عدالت کا دور دورہ ہوگا نیز فرمایا دعبل میرے بعد میرا بیٹا محمد(ع) اس کے بعد اس کا فرزند علی(ع) ان کے بعد ان کا فرزند حسن(ع) اور حسن(ع) کے بعد اس کا بیٹا حجت خدا ہوگا۔ جو غیبت میں چلا جائے گا

۱۲۹

اور اس کا ظہور کا انتظار کیا جائے گا۔ جس کے ظہور کا وقت کسی کو معلوم نہیں۔ اس کے بعد آپ نے دعبل کو اپنی عبا اور سو دینار عطا فرمائے۔ جب دعبل قم میں آئے تو اس کا ہر دینار سو دینار میں خریدا گیا اور یہ پیش کش کی گئی  کہ اس عبا کو ہزار دینار میں خریدیں۔ مگر اس نے نہیں دیا۔ لیکن جب وہ قم سے باہر نکلے تو قم کے بعض لوگوں نے وہ عبا ان سے چھین لی۔

ختتام پر حضرت معصومہ قم علیہا السلام کا مختصر ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ خداوند عالم کے ہاں جن کا بہت بلند مقام ہے۔ آپ ایک ایسی خاتون ہیں جو امام (ع) کی بیٹی ہیں، امام(ع) کی بہن ہیں اور امام(ع) کی پھوپھی ہیں۔ وہی خاتون جس کے فیض قدم سے ہر زمانے میں حوزہ علمیہ کی برکتیں جاری ہیں آپ وہی خاتون ہیں جن کے بارے میں حضرت امام رضا علیہ السلام نے فرمایا “ جو کوئی حضرت معصومہ(ع) کی زیارت کرے گا اس پر بہشت واجب ہوجاتی ہے۔”آپ کی ولادت 183ہجری میں ہوئی چونکہ آپ کے برادر بزرگوار ( حضرت امام رضا علیہ السلام) مرو لے جائے گئے تو آپ نے اپنے بھائی سے ملاقات کی خاطر مدینہ سے مرو کی طرف سفر کیا۔ قم پہنچ کر آپ بیمار ہوگئیں اور 201 ہجری میں وفات پاگئیں۔ اس طرح اس معظمہ کی عمر مبارک اٹھارہ سال ہوتی ہے۔ آپ کے روضے میں حضرت جواد علیہ السلام کے پوتے اور چند بیٹیاں بھی مدفون ہیں اس طرح ائمہ طاہرین علیہم السلام کے اصحاب اور عرفا کی ایک بہت بڑی تعداد مدفون ہیں۔

۱۳۰

حضرت امام جواد علیہ السلام

آپ کا نام نامی محمد(ع) ہے۔ مشہور کنیت ابو جعفر ثانی اور ابن الرضا (ع) ہے آپ کے مشہور القاب جواد اور تقی ہیں۔

آپ کی عمر مبارک پچیس سال ہے اور حضرت زہرا سلام اﷲعلیہا کے بعد اہل بیت علیہم السلام میں اس قدر کم عمرکسی اور معصوم کی نہیں۔ آپ کی ولادت 10 رجب 195 ہجری کو جمعہ کی رات مدینہ منورہ میں ہوئی۔ اور آپ کی شہادت مامون الرشید کے بھائی معتصم عباسی کے حکم سے مامون کی بیٹی ام الفضل کے ذریعہ جو آپ کی بیوی تھیں۔ 30 ذی القعدہ کو واقع ہوئی۔ آپ کی امامت کی مدت 17 سال ہے جس وقت آپ کی عمر آٹھ سال کی تھی کہ آپ کے پدر بزرگوار کی شہادت واقع ہوئی اور آپ نےمنصب امامت سنبھالا۔

مامون حضرت امام رضا علیہ السلام کی شہادت کے بعد بغداد آیا اور وہی اپنی حکومت کا دار الخلافہ بنایا جب اس نے سنا کہ اسلامی ملکوں کے علماء نے مدینہ جاکر آپ کی امامت کو قبول کیا ہے تو اسے خوف لاحق ہوا اور حضرت جواد علیہ  السلام کو بغداد بلا کر بڑی تعظیم و تکریم کی اور اپنی بیٹی ام الفضل کا نکاح آپ سے کر دیا۔

ایک مدت کے بعد ام الفضل کےساتھ آپ  زیارت بیت اﷲ کی غرض سے حجاز چلے گئے۔ اعمال حج کی بجا آوری کے بعد مدینہ لوٹ آئے اور جب تک مامون زندہ تھے ۔

۱۳۱

 مدینے میں رہے۔ مامون کے مرنے کے بعد ان کے بھائی معتصم نے منصب خلافت سنبھالا چونکہ لوگ والہانہ طور پر حضرت جواد علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے اور دن بدن آپ کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا تھا جس سے معتصم گھبرانے لگا اور آپ کو بغداد بلا بھیجا اور تھوڑی مدت کے اندر آپ کو شہید کردیا گیا۔

حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی عمر مبارک اگرچہ بہت ہی مختصر تھی، اور اکثر عمر جلا وطنی میں گزر گئی لیکن اس کے باوجود آپ کی عمر مبارک ایک با برکت عمر تھی۔ یعقوب کلینی نے کافی میں حضرت امام رضا علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا ۔

“ هَذَا الْمَوْلُودُ الَّذِي‏ لَمْ يُولَدْ مَوْلُودٌ أَعْظَمُ بَرَكَته مِنْهُ”

“ اس بچے سے بڑھ کر اور کوئی با برکت بچہ پیدا نہیں ہوا ہے۔”

تمام اہل بیت عظام علیہم السلام کی طرح بھی نمایاں امتیازات کے حامل ہیں۔ آپ میدان علم کے ایک ایسے شہسوار تھے جن کا ثانی کوئی نہیں تھا۔ تاریخ میں مرقوم ہے کہ جیسے ہی حضرت امام رضا علیہ السلام نے شہادت پائی علماء و فضلاء کا ایک گروہ مدینہ منورہ میں آپ کی خدمت میں پہنچا اور چند ہی دنوں میں تیس ہزار مسئلے پوچھے آپ (ع) نے بلا تامل ان کا جواب دیا۔

جب آپ (ع) کو مامون عباسی نے بغداد بلا بھیجا اور اپنی  بیٹی ام الفضل کا نکاح آپ سے کرنا چاہا تو اس کے  خاندان میں ہلچل مچی اور بڑے اعتراضات ہونے لگے۔ مامون نے ان اعتراضات کو خاموش کرنے کے لیے ایک پر شکوہ مجلس ترتیب دی اور اس جلسے میں بڑے بڑے علماء اور فضلاء کو دعوت دی۔ اس زمانے کے ایک بہت بڑے عالم اور قاضی یحی بن اکثم اس بھرے دربار میں آپ سے پوچھتا ہے اگر کوئی  ایسا شکص جو احرام کی حالت میں ہے کسی شکار کو قتل کرے تو کیا حکم ہے؟ آپ نے فورا ہی اس مسئلے کی ایسی شقیں بیان فرمائیں کہ یحی بن اکثم کے ساتھ تمام حاضرین

۱۳۲

 مبہوت ہو کر رہ گئے آپ نے فرمایا ۔ “ وہ شکار اس نے حرم میں یا حرم کے باہر مارا؟ ۔ حکم کو جانتا تھا یا بے خبر تھا؟ غلطی سے مارا یا جان بوجھ کر مارا؟ وہ احرام والا آزاد تھا یا غلام ؟ بالغ تھا یانابالغ تھا؟ پہلی دفعہ ایسا کیا تھا یا اس سے پہلے بھی ایسا کیا تھا؟ یہ شکار پرندوں میں سے تھا یا نہیں؟ چھوٹا تھا یا بڑا؟ رات کے وقت قتل کیا تھا یا دن کو؟ حج کے لیے احرام پہنا تھا یا عمرے کے لیے؟ مامون نے دیکھا کہ مجمع پر سکوت طاری ہوگیا ہے تمام حاضرین خصوصا یحی بن اکثم شرمندہ اور مبہوت ہوچکے ہیں تو حضرت جواد علیہ السلام سے کہا نکاح پڑھیں آپ نے خطبہ نکاح پڑھا نکاح کے بعد مامون نے آپ سے یحی بن اکثم کے پوچھے ہوئے سوال کے تمام شقوں کے بارے میں پوچھا تو آپ نے تمام شقون کے تفصیلی جوابات دیے اور آخر میں یحی بن اکثم کوفی سے آپ نے ایک سوال پوچھا ہوسکتا ہے کہ مجلس عقد عروسی تھی شاید تفریح طبع کے لیے پوچھا ہو آپ نے اس سے پوچھا۔

“ وہ کون سی عورت ہے جو صبح کے وقت ایک مرد پر حرام تھی۔ دن چڑھا تو اس پر حلال ہوئی، ظہر کے وقت حرام ہوئی اور عصر کے وقت حلال ہوئی، مغرب کے وقت حرام ہوئی اور رات کے آخری حصے میں حلال ہوئی اور طلوع فجر سے پہلے حرام ہوئی۔ اور طلوع فجر کے بعد حلال ہوئی ہے۔ یحی بن اکثم نے کہا مجھے معلوم نہیں آپ ہی بتادیں تاکہ لوگوں کو بھی معلوم ہوجائے۔ آپ نے فرمایا ۔

وہ ایک کنیز ہے جو اول صبح میں نامحرم تھی جب دن چڑھا تو اس شخص نے خرید لیا اس پر حلال ہوئی۔ ظہر کے وقت اسے آزاد کیا اس پر حرام ہوئی عصر کے وقت نکاح کر لیا حلال ہوئی۔ مغرب کے وقت ظہار کیا اس پر حرام ہوئی اور نصف رات میں ظہار کا کفارہ دیا حلال ہوئی، رات کے آخر میں اسے طلاق دیا حرام ہوئی اور

۱۳۳

 طلوع فجر کے بعد رجوع کیا حلال ہوئی اگرچہ ایسے سوالات اور ان کے جوابات حضرت جواد علیہ السلام کے شایان شان نہیں معلوم ہوتے لیکن جب آپ کے لڑکپن پر اعتراض کیا تو جواب دیا اور شادی کے موقع کی مناسبت سے ایسا ہی سوال کر کے لا جواب ہونے پر مجبور کیا اور بھری محفل میں احسنت احسنت کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔ مامون کہنے لگا حضرت جواد علیہ السلام اگر چہ کم سن ہیں لیکن آل محمد(ص) کے چھوٹے بڑے میں کوئی فرق نہیں ہے اپنی بات خود منوا سکتے ہیں ۔ تیسرا مسئلہ چور کا تھا جو معتصم کے زمانے میں پیش آیا۔

جس وقت حضرت جواد علیہ السلام کو دوسری بار بغداد لایا گیا یا یوں کہا جائے کہ جب آپ کو شہید کرنے کے لیے بغداد لایا گیا اور وقت کے انتظار میں تھے مگر معتصم آپ کا احترام بجالایا تھا۔ ایک دن بڑے لوگوں کی محفل تھی امراء وزاراء اور علماء کی ایک کثیر تعداد موجود تھی ایک چور لایا گیا جس نے اپنے جرم کا اعتراف کیا ابن ابی داؤد جو اس زمانے کے عظیم علماء میں سے تھا اور قاضی وقت تھا انہوں نے آیت تیمم پر تکیہ کرتے ہوئے حکم دیا کہ کلائی سے اس چور کا ہاتھ کاٹا جائے جب کہ دوسرے علماء نے آیت وضو پر تکیہ کرتے ہوئے کہنی سے کاٹنے کا حکم دیا۔ یہ سن کر معتصم نے حضرت جواد علیہ السلام سے پوچھا تو آپ نے انگلیوں کی جڑوں سے کاٹنے کا حکم دیا اور دلیل کے طور پر آیت “ المساجد للہ” پیش کی یعنی “ سجدہ کی جگہیں اﷲ کے لیے ہیں” اور جو جگہیں اﷲ کے لیے ہیں انہیں نہیں کاٹا جاسکتا ۔ تمام مجلس سے صدائے تحسین بلند ہوئی اور آپ(ع) کےفتوی پر عمل ہوا۔

یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ حضرت جواد علیہ السلام نے حکم خدا کو بیان فرمایا ہے اور مجلس کے عمومی اذہان میں بات بٹھانے کے لیے آیت شریفہ سے استدلال کیا ہے وگرنہ فقہی اعتبار سے آیت شریفہ کو دلیل میں لانا نامکمل ہے اور

۱۳۴

 ائمہ علیہم السلام کی فقہ میں متعدد مواقع میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ سجدوں کے جگہوں کو بھی قطع کیا جائے جیسے محارب کہ قرآن کی رو سے جس کے ایک ہاتھ اور پاؤں کو کاٹا جائے گا یا قتل کیا جائے گا یا جلا وطن ہوگا۔

خلاصہ یہ کہ حضرت جواد علیہ السلام نے خدا کا حکم بیان فرمایا ہے چونکہ یہ لوگ دلیل طلب کردیتے ہیں تو آپ (ع) ان کے درمیان یہ تو نہیں کہہ سکتے تھے کہ میں قرآن کا بیان کرنے والا ہوں اور اﷲ کی ذات کے علاوہ ہر چیز کا علم رکھتا ہوں ۔ اور احکام الہی کو جانتا ہوں ۔ لہذا ان کو یقین دلانے کےلیے امام علیہ السلام نے آیت کریمہ کو دلیل کےطور پر پیش کیا ہے معلوم ہوتا ہے کہ جو حکم آپ نے اس مجلس میں بیان فرمایا ہے۔ تقیہ سے خالی نہیں  تھا۔

ابن ابی داؤد کہتا ہے یہ جلسہ مجھ پر اس قدر گراں گزرا کہ میں نے خداوند عالم سے موت کی تمنا کی۔ پھر بھی مجھ سے صبر نہیں ہوسکا کہ اپنے حسد کو ظاہر نہ کروں چند دنوں کے بعد میں معتصم کے پاس گیا اور کہا مجھے معلوم ہے کہ میں جہنمی تو ہو رہا ہوں مگر سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں کہ خلیفہ کو نصیحت کروں۔ یہ شخص جس کے فتوی پر آپ نے حکم جاری کیا اور ہمارے فتوے کو پائمال کیا ہے لوگ اس کو خلیفہ سمجھتے ہیں اور ان کی حمایت کرنا خلافت کو ان کے حوالہ کرنا ہے ۔ ابن ابی داؤد کہتا ہے کہ یہ سن کر خلیفہ متبنہ ہوا اور اس کی حالت متغیر ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ امام جواد علیہ السلام کے قتل کئے جانے کی ایک وجہ یہی چغلی تھی۔

اگر حسد ایک انسان میں داخل ہو اور ایک عالم اپنی نفس کی صلاح نہ کرسکے اور اگر ایک پست خصلت کسی انسان کو قابو کر لے اور اسے اپنے دام میں لائے تو جانتے ہوئے جہنم میں جا رہا ہے جسے کہ قرآن کریم کا فرمان ہے۔ “ کیا تم نے اس شخص کو نہیں دیکھا ہے جس نے اپنی خواہشات کو اپنا خدا بنایا ہوا ہے۔”

۱۳۵

انسان اگر تہذیب نفس حاصل نہ کرے تو ابن ابی داؤد بنتا ہے جس کی مثالیں تاریخ میں بے شمار ہیں۔ مختصر یہ کہ یہ علمی شجاعت امام جواد علیہ السلام کا خاصہ ہے۔ اس کی مثال تمام ائمہ (ع) میں نہیں ملتی لیکن جیسا کہ گزر چکے بعض مسائل حضرت امام جواد علیہ السلام کی شان کے لائق نہیں۔ آپ(ع) کے مقام علمی کو خود آپ (ع) سے سنتے ہیں۔

مشارق الانوار میں مذکور ہے جس وقت حضرت امام علی رضا علیہ السلام نے شہادت پائی تو حضرت جواد علیہ السلام نے مسجد نبوی میں آکر یوں خطبہ دیا۔

“أنا محمد بن علي الرضا أنا الجواد، أنا العالم بأنساب الناس في الأصلاب، أنا أعلم بسرائركم و ظواهركم، و ما أنتم صائرون إليه، علم منحنا به من قبل خلق الخلق أجمعين، و بعد فناء السّماوات و الأرضين، و لو لا تظاهر أهل الباطل و دولة أهل الضلال، و وثوب أهل الشك، لقلت قولا يعجب منه الأوّلون و الآخرون، ثم وضع يده الشريفة على فيه و قال: يا محمد اصمت كما صمت آباؤك من قبل”

“ میں محمد بن علی الجواد(ع) ہوں میں لوگوں کے انساب کا جاننے والا ہوں جو دنیا میں آئے ہوں یا نہ آئے ہوں۔ میں تم سے زیادہ تمہارے ظاہر اور باطن  کو بہتر جاننے والا ہوں۔ ہم یہ علم خلقت عالم سے بہت پہلے سے رکھتے ہیں اور عالم ہستی کے فنا ہونے کے بعد بھی اس کے حامل رہیں گے۔ اگر اہل باطل کی  حکومت اور گمراہوں کی ان کے ساتھ ہمنوائی اور جاہل عوام کے شکوک کا خطرہ نہ ہوتا تو میں ایسی چیزیں بیان کرتا کہ لوگ تعجب کرتے۔ اس کے بعد امام جواد علیہ السلام نے اپنا پاتھ زبان پر رکھ کر فرمایا خاموش ہوجاؤ جیسے کہ تیرے آباء نے خاموشی اختیار کی ہے۔”

آخر میں ہم حضرت جواد علیہ السلام کی روایات میں سے چند روایات بیان کرتے ہیں جو ہمارے لیے نصیحت کا باعث ہیں۔

“و قال جواد الائمه عليه السلام: الثقة باللّه ثمن‏ لكلّ‏ غال‏، و سلّم إلى كلّ عال”

۱۳۶

“ حضرت جواد علیہ السلام نے فرمایا اﷲ پر اعتماد ہر قیمتی چیز کی قیمت اور ہر بلندی کے لیے سیڑھی ہے۔”

“قَالَ عَلَيْهِ السَّلَامُ: كَيْفَ يَضِيعُ مَنِ اللَّهُ كَافِلُهُ؟ وَ كَيْفَ يَنْجُو مَنِ اللَّهُ طَالِبُهُ؟ وَ مَنِ‏ انْقَطَعَ‏ إِلَى‏ [غَيْرِ] اللَّهِ وَكَلَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ، وَ مَنْ عَمِلَ عَلَى غَيْرِ عِلْمٍ [مَا] أَفْسَدَ أَكْثَرُ مِمَّا يُصْلِحُ.”

“ وہ شخص کیسے ضائع ہوگا جس کی کفالت خدا کر رہا ہو۔ وہ شخص کیسے بچ سکتا ہے جسے خدا ڈھونڈ رہا ہو اور جو خدا کے غیر پر اعتماد کرے گا خدا اسے اسی کے حوالے کرے گا۔ جو شخص جانے بغیر کسی کام میں ہاتھ ڈالے گا وہ درست کرنے سے زیادہ تباہ کرے گا۔ یہ روایات جن کی مثال اہل بیت علیہم السلام کی روایات میں زیادہ ملتی ہیں۔ ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ ہر حالت میں ہم پر اعتماد رکھیں سب سے کٹ کر خدا سے تعلق جوڑیں یہی دونوں جہانوں کی سعادت کا باعث ہے خدا سے کٹ کر دوسروں کی طرف نظریں جمانے سے حیرانی پریشانی اور پشیمانی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔

جو چیز ایک انسان کو خوف پریشانی اور اضطراب سے نجات دلاسکتی ہے صرف اور صرف خدا کی ذات پر اعتماد کرنا ہے اور جو چیز دکھ اور پریشانی کا سبب بنتی  ہے خوف و اضطراب کو بڑھاتی ہے وہ دوسروں سے امید رکھتا ہے خداوند عالم نے قرآن کریم میں اس نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے۔

“وَ مَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ‏ لَهُ‏ مَخْرَجاً وَ يَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لا يَحْتَسِبُ وَ مَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ إِنَّ اللَّهَ بالِغُ أَمْرِهِ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْ‏ءٍ قَدْراً”

ترجمہ :۔ “ جو شخص تقوی کو پیشہ بنائے گا اﷲ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا کوئی

۱۳۷

راستہ پیدا کرے گا اور اسے ایسے راستے سے رزق دے گا جدھر اس کا گمان بھی نہ جاتا ہو۔ جو اﷲ پر توکل کرےگا پس وہ اس کے لیے کافی ہے اﷲ اپنا کام پورا کرکے رہتا ہے ہر چیز کےلیے ایک تقدیر مقرر کر رکھی ہے۔( سورہ طلاق آیت 2، 3)

یہ آیت کریمہ ہمیں بتاتی ہے کہ جو شخص خدا پر توکل کرے، خدا پر اعتماد کرے تو یہ اس کے لیے سعادت کا باعث ہوا ور خداوند عالم اس کا حامی و ناصر ہوگا۔ یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ فقط خدا پر اعتماد ہی  ہمارا چارہ ساز ہے، ہر قیمتی چیز کی قیمت ہے اور ہر بلندی کے لیے سیڑھی ہے۔ الثقة باللّه ثمن‏ لكلّ‏ غال‏، و سلّم إلى كلّ عال” خداوند عالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے۔

“مَثَلُ الَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ أَوْلِياءَ كَمَثَلِ‏ الْعَنْكَبُوتِ‏ اتَّخَذَتْ بَيْتاً وَ إِنَّ أَوْهَنَ الْبُيُوتِ لَبَيْتُ الْعَنْكَبُوتِ لَوْ كانُوا يَعْلَمُونَ‏.”

“ جو لوگ غیر خدا پر بھروسہ کرتے ہیں ان کی مثال اس مکڑی جیسی ہے جو اپنے لیے جالان بن کر گھر بناتی ہے۔ تم جان لو تمام گھروں میں سے مکڑی کا گھر کمزور اور بے بنیاد ہے۔” ( عنکبوت آیت 41)

انسان اسی وقت عزت کا مالک ہے، قائم ہے اور خدا کی عنایتوں کا مستحق ہے جب وہ غیر خدا سے کوئی امید نہ رکھے صرف اسی پر بھروسہ کرے و گرنہ زمانے کے حادثات اس کے مقاصد اور امیدوں تک کو نابود کردیں گے۔ اسی لیے تو امام (ع) نے فرمایا ۔

“ عزّ المؤمن‏ غناه‏ عن الناس من انقطع غير الله وکله الله اليه ”

اباصلت ہروی کا کہنا ہے کہ حضرت امام رضا علیہ السلام کی شہادت کے بعد میں مامون عباسی کے غضب کا نشانہ بن گیا اور قید میں ڈال دیا گیا۔ کیونکہ میں نے مامون ، اس کے گورنروں اور حکومت کے سرکردہ لوگوں پر امید لگائی تھی۔ لہذا ایک سال

۱۳۸

 تک زنجیروں میں جکڑا رہا ایک رات تمام سے اپنی امیدیں قطع کر کے خداوند عالم کے حضور اہل بیت علیہم السلام کا واسطہ دیتے ہوئے دعا کی اور خلوص دل سے اس کے ساتھ پیوستہ ہوگیا۔ اچانک میں نے قید خانے میں جواد الائمہ حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کو دیکھا۔ جب آپ پر نظر پڑی تو میں رویا اور شکوہ کرنے لگا کہ میری فریاد کو کیوں نہیں پہنچے فرمایا اباصلت تم نے ہمیں کب بلایا جو نہیں آئے؟

اس کے بعد میرا ہاتھ پکڑ کر نگہبانوں کے درمیان سے لے کر باہر نکالا اور فرمایا “ جاؤ اﷲ کا نام لے کر آئندہ تم کسی کے ہاتھ نہیں لگو گے۔”

یہاں یہ ذکر کرنا مناسب ہوگا کہ دنیاوی امور میں حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کا توسل بیمایوں ، مشکلات ، تنگیوں ، وغیرہ میں بہت زیادہ موثر ہے یہاں تک کہ اہل سنت بھی آپ کے روضہ مطہرہ میں آکر آپ کے وسیلے سے دعائیں مانگتے ہیں۔

۱۳۹

حضرت امام ہادی علیہ السلام

آپ کا نام نامی علی (ع) مشہور کنیت ابو الحسن ثالث اور ابن لرضا(ع) ہے اور آپ کے مشہور القاب نقی(ع) اور ہادی ہیں۔ آپ کی عمر مبارک چالیس سال تھی ۔ آپ نے دو رجب 214 ہجری میں ولادت پائی اور 3 رجب المرجب 254 ہجری کو معتز عباسی کے ہاتھوں زہر سے شہید ہوئے۔ آپ کی مدت امامت 33 سال ہے ۔ جب آپ سات سال کے تھے حضرت جواد علیہ السلام نے شہادت پائی اور آپ نے منصب امامت سنبھالا۔

13 سال تک مدینے میں رہے اس کے بعد متوکل عباسی کے حکم سے مجبورا آپ کو بغداد لے جایا گیا جہاں 20 برس تک رہے اور یہاں ہی آپ کو زہر دے کر شہید کردیا گیا۔

یہ مدت آپ نے قید خانے میں بیڑیوں کے ساتھ عام قید خانے اور بعض دفعہ آزاد رہ کر گزارے۔ اس وقت بھی آپ کی کڑی نگرانی کی جاتی تھی۔ اس طرح آپ نے میں بیس سال کا عرصہ بنی عباس کے ظلم و ستم کےتحت گزارا ۔ حضرت امام علی نقی علیہ السلام نے جس حاکم کے زمانے میں زندگی گزاری اے حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے نہج البلاغہ میں بنی عباس کا ظالم ترین خلیفہ کہا ہے۔ متوکل صرف یہ نہیں کہ آپ کو قید میں رکھتا ہے بلکہ زندان کے ساتھ ہی قبر بھی تیار رکھتا ہے اور تاریک زندان

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285