‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) جلد ۲

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) 20%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 285

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 285 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 117965 / ڈاؤنلوڈ: 4038
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

نواں سبق

کیا خدا غیر مرئی ہے

محمود نقاشی کر رہا تھا اس نے کتنا خوبصورت کبوتر بنایا کیا محمود عقل و فہم رکھتا ہے؟ کیا آپ اس کی عقل و فہم کو دیکھ سکتے ہیں_ کیا کہہ سکتے ہیں کہ جب محمود کی عقل اور فہم کو نہیں دیکھ پائے لہذا وہ عقل اور فہم ہی نہیں رکھتا؟

لازماً جواب دیں گے کہ عقل اور فہم آنکھ سے نہیں دیکھی جاسکتی لیکن اس کی علامتیں اور نشانیاں آنکھ سے دیکھ رہے ہیں ان ہی علامات اور آثار کے دیکھنے سے درک کرتے ہیں کہ وہ عقل اور فہم رکھتا ہے_ جی ہاں یہ آپ کا جواب بالکل درست ہے عقل اور فہم کو آنکھ سے نہیں دیکھا جاتا کیوں کہ عقل اور فہم جسم نہیں ہے کہ آنکھ سے دیکھا جائے آنکھ اور دوسرے حواس صرف جسم کے آثار اور نشانیوں کو درک کرسکتے ہیں_ بہت سی چیزیں

۴۱

ایسی موجود ہیں کہ جنھیں آنکھ سے نہیں دیکھ سکتے لیکن ان کو آثار سے دیکھ لیتے ہیں اور ان کے وجود کا علم حاصل کرلیتے ہیں خدا بھی چونکہ جسم نہیں ہے لہذا آنکھ سے نہیں دیکھا جاسکتا اور دوسرے حواس سے بھی درک نہیں کیا جاسکتا لیکن اس جہان پر عظمت کی خلقت جو خود اس کی قدرت کے آثار اور علائم میں سے ہے اس سے اس کے وجود کا علم حاصل کیا جاسکتا ہے کہ اس عظیم جہان کا خالق او رانتظام کرنے والا موجود ہے_

فکر کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ اپنے دوست کودیکھیں کہ وہ کیا دیکھ رہا ہے؟

۲)___ کیا اس کی عقل اور فہم کو آنکھ سے دیکھ سکتے ہیں؟

۳)___ کس طرح جانتے ہیں کہ وہ عقل و فہم رکھتا ہے؟

۴)___کیا یہ کہہ سکتے ہیں کہ چونکہ اسکی عقل اور فہم کو نہیں دیکھ سکتے لہذا وہ عقل و فہم نہیں رکھتا؟

۵)___ ہمارے ظاہری حواس کس چیز کو درک کرسکتے ہیں؟

۶)___ کیا خدا کو آنکھ سے دیکھا جاسکتا ہے

۷)___ کیا خدا کو دوسرے کسی حواس سے محسوس کیا جاسکتا ہے اور کیا بتلا سکتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے؟

۸)___ کیا اب بھی کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ چوں کہ خدا نہیں دیکھا جاسکتا لہذا موجود نہیں ہے؟

۴۲

دسواں سبق

موحّدین کے پیشوا حضرت ابراہیم (ع)

حضرت ابراہیم (ع) علیہ السلام کے زمانے میں لوگ نادان اور جاہل تھے پہلے پیغمبروں کے دستور کو بھلاچکے تھے خداپرستی کے طور طریقے نہیں جانتے خدا کی پرستش کی جگہ بت پرستی کرتے تھے یعنی پتھر یا لکڑی سونا یا چاندی کے مجسمے انسانی یا حیوانی شکل میں بناتے تھے اور ان بے زبان اور عاجز بتوں کے سامنے سجدہ کرتے تھے اور ان کے سامنے زمین پر گرپڑتے اور ان کے لئے نذر و نیاز مانتے اور قربانی دیا کرتے تھے بعض لوگ سورج کی پرستش کرتے تھے اور بعض لوگ چاند یا ستاروں کی پرستش کرتے تھے_ جاہلوں کا ایک گروہ اس زمانہ میںطاقتور اور ظالموں کی پرستش کرتا تھا اور ان کی اطاعت واجب و لازم سمجھتا تھا اور بغیر سوچے سمجھے ظالموں کے دستور پر عمل کرتا تھا اپنے آپ کو ذلیل کر کے ان کے سامنے زمین پر گرتے تھے اور ان

۴۳

کے لئے بندگی کا اظہار کرتے تھے اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم (ع) کو چنا اور انھیں زندگی کا صحیح راستہ بتلایا اور حکم دیا کہ لوگوں کی تبلیغ کریں اور انھیں خداپرستی کے طور طریقے بتلائیں_

حضرت ابراہیم (ع) نے لوگوں سے فرمایا کہ بتوں میں کونسی قدرت ہے کہ تم ان سے محبت کرتے ہو اور ان کی پرستش کرتے ہو یہ مجسمے کیا کرسکتے ہیں یہ نہ تو دیکھتے ہیں نہ سنتے ہیں یہ نہ تو تمہیں کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ ہی تمہیں ضرر پہنچانے پر قدرت رکھتے ہیں_ تم کیوں اپنے اپ کو ان کے سامنے ذلیل کرتے ہو؟ تم کیوں ان کے سامنے زمین پر گرتے ہو؟ کیوں ان کی عبادت و اطاعت کرتے ہو؟ جو لوگ حضرت ابراہیم (ع) کی گفتگو سنتے اور اس کے متعلق فکر نہ کرتے تھے وہ آپ کے جواب میں کہتے کہ ہمارے آباؤ اجداد بت پرست تھے ہمارے دوست اور رفقاء بھی بت پرست تھے اور ہم اپنے گزرے ہوئے آباؤ اجداد کی پیروی کریں گے اور ان کے دین پر باقی رہیں گے_

حضرت ابراہیم علیہ السلام فرماتے تھے کہ تمہارے آباؤ اجداد نے اشتباہ کیا کہ وہ بت پرست بنے کیا تم میں عقل و شعور نہیں؟ کیا تم خود کچھ نہیں سمجھتے؟ کیا دیکھ نہیں رہے ہو کہ ان بتوں سے کچھ بھی تو نہیں ہوسکتا_ کس لئے تم اپنے آپ کو طاقتوروں اور ظالموں کے سامنے ذلیل کرتے ہو وہ بھی تمہاری طرح اللہ کی مخلوق ہیں_

لوگو میں اللہ کا پیغمبر ہوں اور اس کی طرف سے آ زادی اور سعادتمند ی کا پیغام لایا ہوں_ میری بات سنو تا کہ دنیا اور آخرت میں سعادت

۴۴

مند بن جاؤ: لوگو تمہارا پروردگار اور مالک وہ ہے کہ جس نے تم کو پیدا کیا ہے، زمین اور آسمان کو پیدا کیا ہے، کائنات اور اس میں رہنے والوں کے لئے انتظام کرتا ہے تمام قدرت اس کی طرف سے ہے دنیا کا نظام چلانا کسی کے سپرد نہیں کیا اور اس کے چلانے میں کس سے مدد نہیں لی وہ ایک ہے اور قادر مطلق ہے_ میں ان بتوں سے جن کی تم پرستش کرتے ہو بیزار ہوں اور ان کو دوست نہیں رکھتا اور ان کی اطاعت نہیں کرتا

خدا کو دوست رکھتا ہوں اور صرف اس کی پرستش کرتا ہوں کیوں کہ خدا نے مجھے پیدا کیا ہے_

بیماری سے شفا اور زندگی اور موت دنیا اور آخرت سب اس کے ہاتھ میں ہے_

میں امیدوار ہوں کہ قیامت کے دن بھی خداوند عالم مجھ پر مہربان ہوگا اور مجھ پر رحم کرے گا_

لوگو ایک خدا کی پرستش کرو کیوں کہ تمام قدرت خدا سے ہے، خدا ہے اور ہمیشہ رہے گا تمہاری مدد کرنے والا صرف خدا ہے تمہارا راہنما خدا کا پیغام ہے اسی کی طرف توجہ کرو اور صرف اسی کی پرستش کرو پرستش صرف ذات خدا کے ساتھ مخصوص ہے اس کے سواء اور کوئی لائق اطاعت اور پرستش نہیں ہے_

۴۵

غور کریں اور جواب دیں

۱)___ حضرت ابراہیم (ع) کے زمانے میں جاہل لوگ کن چیزوں اور کن لوگوں کی پرستش کرتے تھے؟ اور کن لوگوں کی اطاعت کو ضروری سمجھتے تھے؟

۲)___ اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم (ع) کو کیا فرمان دیا؟

۳)___ حضرت ابراہیم (ع) نے لوگوں سے کیا فرمایا اور کس طرح وضاحت کی کہ بت قابل پرستش نہیں ہیں؟

۴)___ کیا لوگ حضرت ابراہیم (ع) کی گفتگو پرغور کرتے تھے؟ اور آپ سے کیا کہتے تھے؟

۵)___ لوگوں نے حضرت ابراہیم (ع) کو کیا جواب دیا تھا وہ ٹھیک تھا یا غلط اور کیوں؟

۶)___ کیا یہ جائز ہے کہ ایک انسان دوسرے کے سامنے بندگی کا اظہار کرے؟

۷)___ آپ نے بت پرست دیکھا ہے؟

۸)___ حضرت ابراہیم (ع) کی توحید پر کیا دلیل تھی کیوں صرف خدا کو دوست رکھتے تھے اور صرف اسی کی پرستش کرتے تھے؟

۹)___ سوائے خدا کے اور کوئی کیوں قابل پرستش اور اطاعت نہیں؟

۱۰)___ کیا جو کسی ظالم کی اطاعت کرتا ہے وہ موحّد ہے؟

۱۱)___ کس کو موحّد کہتے ہیں موحّد آدمی کی امید کس سے ہوتی ہے؟

۴۶

۱۲)___ اس سبق سے ایک اور سوال بنائیں اوراپنے دوست سے کہیں کہ وہ اس کا جواب دے_

۴۷

حصّہ دوم معاد

۴۸

پہلا سبق

کیا اچھائی اور برائی برابر ہیں

آپ اچھے اور برے کے معنی سمجھتے ہیں اچھے اور برے انسان میں فرق کرسکتے ہیں جو انسان عدل چاہنے والا سچا، نیک کردار، صحیح با ادب، اور امین ہوا سے اچھا انسان شمار کرتے ہیں، لیکن بد اخلاق، جھوٹا، بدکردار، ظالم بے ادب خائن انسان کو برا انسان سمجھتے ہیں کیا آپ کے نزدیک برے اور اچھے انسان مساوی اور برابر ہیں_ کیا آپ اور تمام لوگ اچھے انسانوں کو دوست رکھتے ہیں اور برے آدمیوں سے بیزار ہیں خدا بھی اچھے کردار والے آدمیوں کو دوست رکھتا ہے اور برے انسانوں سے وہ بیزار ہے اسی لئے اللہ تعالی نے پیغمبر(ص) بھیجے ہیں تا کہ اچھے کاموں کی دعوت دیں اور برے کاموں سے روکیں

اب ان سوالوں کے جواب دیں_

۴۹

کیا اچھے لوگوں کے لئے کوئی جزا ہوگی اور برے لوگ اپنے اعمال بد کی سزا پائیں گے؟

کیا اچھے اور برے لوگ اس جہاں میں اپنے اعمال کی پوری اور کامل جزا اور سزا پالیتے ہیں؟

پس اچھے اور برے کہاں ایک دوسرے سے جدا ہوں گے اور کہاں اپنے اعمال کا پورا اور کامل نتیجہ دیکھ سکیں گے؟

اس دنیا کے بعد ایک اور دنیا ہے جسے آخرت کہا جاتا ہے کہ جہاں اچھے اور برے لوگ ایک دوسرے سے جدا ہوں گے اور اپنے اعمال کا ثمرہ پائیں گے اگر آخرت نہ ہو تو اچھے لوگ کس امید میں اچھا کام کریں اور کس لئے گناہ اور برائی سے دور ہیں_ اگر آخرت نہ ہو تو پیغمبروں کی دعوت بے مقصد اور بیہودہ ہوگی اچھائی اور برائی کے کوئی معنی نہ ہوں گے اگر آخرت ہمارے سامنے نہ ہو تو ہماری زندگی بے نتیجہ اور ہماری خلقت بھی بے معنی ہوگی_ کیا علیم و قادر خدا نے ا س لئے ہمیں پیدا کیا ہے کہ چند دن اس دنیا میں زندہ رہیں؟ یعنی کھائیں پئیں، پہنیں، سوئیں اور پھر مرجائیں اور اس کے بعد کچھ بھی نہیں یہ تو ایک بے نتیجہ اور بے معنی کام ہے اور اللہ تعالی بے معنی اور بے فائدہ کام انجام نہیں دیتا_ اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے ''ہم نے تمہیں عبث خلق نہیں کیا ہم نے تم کو پیدا کیا ہے تا کہ اس دنیا میں زندگی گزار و اچھے کام انجام دو اور لائق و کامل بن جاؤ اس کے بعد ہم تم کو اس دنیا سے ایک دوسری دنیا کی طرف لے جائیں گے تا کہ اس دنیا میں اپنے کاموں کا کامل نتیجہ پاؤ''

آخرت میں اچھے بروں سے جدا ہوجائیں گے جو لوگ نیک کام

۵۰

انجام دیتے رہے اور دین دار تھے وہ بہشت میں جائیں گے اور خوشی کی زندگی بسر کریں گے اللہ ان سے راضی ہے اور وہ بھی اپنی اچھی زندگی اور اللہ کی بے پایاں نعمتوں سے خوشنود اور راضی ہیں بے دین اور بد کردار لوگ دوزخ میں جائیں گے اور اپنے برے کاموں کی سزا پائیں گے اللہ ان پر ناراض ہے اور وہ دردناک عذاب کی زندگی بسر کریں گے اور ان کے لئے بہت سخت زندگی ہوگی

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ کون لوگ اچھے ہیں او رکون لوگ برے، ان صفات کو شمار کیجئے

۲)___ کیا برے اور اچھے لوگ آپ کے نزدیک مساوی ہیں؟

۳)___ کیا برے اور اچھے لوگ خدا کی نزدیک برابر ہیں؟

۴)___ پیغمبر(ص) لوگوں کو کن کاموں کی طرف دعوت دیتے ہیں اور کن کاموں سے روکتے ہیں؟

۵)___ کیا لوگ اس دنیا میں اپنے اعمال کی کامل جزاء پاتے ہیں؟

۶)___ کہاں اپنے اعمال کا کامل نتیجہ دیکھیں گے؟

۷)___ اگر آخرت نہ ہو تو اچھائی اور برائی کا کوئی معقول اور درست معنی ہوگا

۸)___ اگر آخرت نہ ہو تو ہماری زندگی کا کیا فائدہ ہوگا؟

۹)___ جب ہم سمجھ گئے کہ اس دنیا کے علاوہ ایک اور دنیا ہے تو ہم کس طرح زندگی گزاریں؟

۵۱

دوسرا سبق

پھول کی تلاش

ہمارے خاندان کے کچھ لوگ مری کے اطراف میں ایک دیہات میں رہتے ہیں وہ دیہات بہت خوبصورت ہے وہاں کی آب و ہوا معتدل ہے اس کے نزدیک ایک پہاڑ ہے کہ جس کا دامن سرخ اور زرد پھولوں سے بھرا ہوا ہے_

ایک دن میرے رشتہ دار بچّے میرے چچا کے گھر بیٹھے تھے عید الاضحی کا دن تھا_ ہم چاہتے تھے کہ کمرے کو پھولوں سے سجائیں میرے والد نے مجھ سے کہا کہ چلیں پھول ڈھونڈ لائیں اور اس کام میں ایک دوسرے کا مقابلہ کریں_

میں نے پوچھا کس طرح؟

والد نے کہا کہ تم تمام کے تمام پہاڑ کے دامن میں جاؤ وہاں بہت

۵۲

زیادہ پھول موجود ہیں پھول توڑو اور لوٹ آؤ لیکن خیال کرنا کہ پھولوں کی جڑوں کو ضرر نہ پہنچے مقابلہ کا وقت ایک گھنٹہ ہے تمام اس مقابلہ میں شریک ہو جاؤ پھول توڑو اور لوٹ آو جو زیادہ پھول لائے گا وہ زیادہ انعام پائے گا تمام بچّے مقابلہ میں شریک ہونے کے لئے آمادہ ہوگئے_

صبح کو ٹھیک سات بجے مقابلہ شروع ہوا کچھ بچے تو اس دیہات کے اطراف میں ہی رہ گئے اور کہنے لگے کہ راستہ دور ہے اور ہم تھک جائیں گے تم بھی یہیں رک جاؤ اور ہم ہمیں مل کر کھیلیں لیکن ہم نے ان کی باتوں پر کان نہ دھرا اور چلے گئے راستے میں دوڑتے اور ایک دوسرے سے آگے نکلتے تھے تا کہ پھولوں تک جلدی پہنچ جائیں راستہ دشوار آگیا بعض بچّے ٹھہر گئے آگے نہ بڑھے او رکہنے لگے کہ ہم یہیں سے پھول توڑیں گے_

میں میرا بھائی اور چچا کا بیٹا سب سے پہلے پہاڑ کے دامن میں پہنچ گئے کتنی بہترین اور خوبصورت جگہ تھی زرد اور سرخ پھولوں سے بھری پڑی تھی_ ہم تینوں نے فیصلہ کیا کہ ایک دوسرے کی مدد کریں اور اکھٹے پھول توڑیں میں اور چچا کا لڑکا پھول توڑنے تھے اور اپنے بھائی کے دامن میں ڈال دیتے تھے اس کا دامن پھولوں سے بھر گیا گھڑی دیکھی تو مقابلہ کا وقت ختم ہونے کے قریب تھا گھر کی طرف لوٹے دوسرے بچّے بھی لوٹ آئے تھے اور جانتے تھے کہ انہیں بہترین انعام ملے گا اور جو تھوڑے پھول توڑ لائے تھے خوش نہ تھے کیوں کہ جانتے تھے کہ مقابلہ میں بہتر مقام نہیں لے سکیں گے اور بہترین انعام حاصل نہیں کرسکیں گے اور جو خالی ہاتھ لوٹ آئے تھے شرمسار اور سرجھکائے ہوئے تھے والد کے پاس پہنچے جس نے جتنے پھول توڑے

۵۳

تھے انہیں دے دیئے اور انعام لیا لیکن جنہوں نے سستی کی تھی اور والد کے فرمان پر عمل نہیں کیا تھا انہوں نے انعام حاصل نہیں کیا بلکہ شرمسار تھے ان سے والد صاحب بھی خوش نہیں ہوئے اور ان کی کوئی پرواہ نہ کی وہ سرجھکائے اپنے آپ کو کہہ رہے تھے کاش ہم بھی کوشش کرتے کاش دوبارہ مقابلہ شروع ہو لیکن مقابلہ ختم ہوچکا تھا

جزاء کا دن

مقابلہ کے ختم ہوجانے کے بعد ہمارے والد نے ہم سے گفتگو کرنا شروع کی او رکہا '' میرے عزیز اور پیارے بچّو مقابلہ کے انعقاد کے لئے میرا نظریہ کچھ اور تھا میں اس سے تمہیں سمجھنا چاہتا تھا کہ یہ جہان مقابلہ کا جہان ہے_ ہم تمام اس جہان میں مقابلہ کرنے آئے ہیں اور قیامت کے دن اس کا انعام اور جازء حاصل کریں گے ہمارا مقابلہ نیک کاموں اور اچھے اعمال میں ہے_ اچھے اور برے کام کی جزاء اور سزا ہے اچھے اور برے لوگ اللہ کے نزدیک برابر نہیں _ ہماری خلقت اور کام و کوشش کرنا بے معنی اور بے فائدہ نہیں لوگوں کا ایک گروہ اللہ تعالی کے فرمان کا مطیع اور فرمانبردار ہے نیک کاموں کا بجالانے میں کوشش کرتا ہے وہ ہمیشہ اللہ کی یاد میں ہے اچھے اور صالح لوگوں سے دوستی کرتا ہے ان کی راہنمائی میں بہت زیادہ اچھے

۵۴

کام انجام دیتا ہے نیک کاموں میں سبقت لے جاتا ہے اپنے دوستوں اور ہمسایوں کی مدد کرتا ہے مظلوموں کی حمایت کرتا ہے

یہ لوگ آخرت میں بہترین انعام اور جزاء پائیں گے خدا ان سے خوش ہوگا اور وہ بھی خدا سے انعام لے کر خوش ہوں گے سب سے پہلے بہشت میں جائیں گے اور بہشت کے بہترین باغ میں اپنے دوستوں کے ساتھ خوش و خرّم زندگی بسر کرین گے ہمیشہ اللہ تعالی کی تازہ نعمتوں اور اس کی پاک محبت سے مستفید ہوں گے، اور لذت اٹھائیں گے_ ایک اور گروہ اس جہان میں اچھے کام انجام دیتا ہے وہ اچھے کاموں میں مدد بھی کرتا ہے اور اللہ کو یاد بھی کرتا ہے لیکن پہلے گروہ کی طرح کوشش نہیں کرتا اور سبقت لے جانے کے درپے نہیں ہوتا یہ بھی قیامت کے دن انعام او رجزاء پائیں گے اور بہشت میں جائیں گے لیکن ان کا انعام او رجزاء پہلے گروہ کی طرح نہیں ہوگا_ تیسرا گروہ ظالم اور بے دنیوں کا ہے وہ اللہ اور اس کے پیغمبر(ص) کے فرمان کو قبول نہیں کرتا اور اس پر عمل نہیں کرتا_ وہ خدا کو بھول گیا ہے، اچھے کام انجام نہیں دیتا، گناہ گار اور بداخلاق، اور بدکردار ہے لوگوں پر ظلم کرتا ہے اور یہ گروہ خالی ہاتھ آخرت میں سامنے آئے گا اچھے کام اپنے ساتھ نہیں لائے گا اپنے برے افعال اور ناپسندیدہ اعمال سے شرمندہ ہوگا_

جب اچھے لوگ انعام پائیں گے تو یہ افسوس کرے گا اور پشیمان ہوگا اور کہے گا_ کاش دنیا میں پھر بھیجا جائے تا کہ وہ نیک کام بجالائے لیکن افسوس کہ دوبارہ لوٹ جانا ممکن نہیں ہوگا اس گروہ کے لوگ جہنم میں جائیں گے اور اپنے برے کاموں کی سزا پائیں گے_

۵۵

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ کیا ہماری خلقت و کوشش بغیر کسی غرض اور غایت کے ہے اور کیا ہم ان کاموں اور کوششوں سے کوئی نتیجہ بھی لیں گے؟

۲)___ یہ جہان مقابلہ کی جگہ ہے، سے کیا مراد ہے؟

۳)___ متوجہ اور آگاہ انسان اس دنیا میں کن کاموں کی تلاش میں اور کن کاموں میں مقابلہ کر رہا ہے؟

۴)___ کون لوگ آخرت میں بہترین انعام پائیں گے؟

۵)___ ان لوگوں نے دنیا میں کیا کیا ہے؟

۶)___ ان کے اعمال اور کردار کیسے تھے، ان کے دوست کیسے تھے کن کاموں میں مقابلہ کرتے تھے؟

۷)___ آپ کی رفتار اور آپ کا کردار کیسے ہے، آپ کے دوستوں کا کردار کیسا ہے، کن کاموں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں اگر آپ کا کوئی دوست آپکو کسی ناپسندیدہ کام کی دعوت دے تو پھر بھی اس سے دوستی رکھتے ہیں؟

۸)___ کون لوگ قیامت کے دن شرمندہ ہوں گے کیوں افسوس کریں گے یہ لوگ اس دنیا میں کیسا کردار تھے ہیں؟

۹)___ دوسرے گروہ کا انعام اور جزاء کا پہلے گروہ کے انعام اور جزائ

۵۶

سے کیا فرق ہے اور کیوں؟

ان سوالوں کے جواب خوش خط لکھیں

۵۷

تیسرا سبق

جہان آخرت عالم برزخ اور قیامت

مرنے کے بعد فنا نہیں ہوتے بلکہ اس جہان سے دوسری دنیا کی طرف جاتے ہیں کہ جس کا نام جہان آخرت ہے، آخرت سے پہلے عالم برزخ ہے اور اس کے بعد قیامت ہے عالم برزخ ایک دنیا ہے جو دنیا و آخرت کے درمیان میں واقع ہے_خداوند عالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے کہ ان کے سامنے بزرخ ہے قیامت تک'' اور ایک جگہ فرماتا ہے ''گمان نہ کرو کہ وہ لوگ جو اللہ کے راستے میں قتل ہوجاتے ہیں وہ مرگئے ہیں بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار سے روزی پاتے ہیں'' خداوند عالم نے ہمیں پیغمبر(ص) اسلام کے ذریعہ خبر دی ہے کہ جب انسان مرجاتا ہے اور دنیا کو ترک کرتا ہے_ اور برزخ

۵۸

میں جاتا ہے تو عالم برزخ میں اس سے سوال کیا جاتا ہے کہ کتنے خدا کا عقیدہ رکھتے ہو_ کس کے فرمان کے مطیع تھے خدا کے یا غیر خدا کے، تیرا پیغمبر کون ہے، تیرا دن کیا ہے، تیرا رہبر و امام کون ہے، جس نے دنیا میں خداپرستی او ردینداری اور با ایمان زندگی گزاری ہوگی وہ آسانی سے جواب دے گا اور اس کا ایمان ظاہر ہوجائے گا اس مختصر سوال و جواب کے بعد برزخ میں آرام سے اور خوشی سے قیامت تک زندگی گزاریں گے اور عمدہ نعمتیں جو بہشتی نعمتوں کا نمونہ ہوں گی اسے دی جائیگی لیکن وہ لوگ جو خدا اور اس کے پیغمبر(ص) کو قبول نہ کرتے تھے اور اس کے فرمان کے مطیع نہ تھے بے دین اور ظالم تھے برزخ میں بھی خدا اور اس کے پیغمبر(ص) کا اقرار نہیں کریں گے ان کا کفر اور ان کے بے دینی ظاہر ہوگی اس قسم کے لوگ برزخ میں سختی اور عذاب میں مبتلا ہوں گے برزخ کا عذاب ان کے لئے جہنّم کے عذاب کا نمونہ ہوگا_ برزخ میں انسان کی حقیقت ظاہر ہوجائے گی اور اس کا ایمان اور کفر واضح ہوجائے گا جو شخص دنیا میں خدا و قیامت کے دن پیغمبروں(ص) پر واقعاً ایمان رکھتا تھا اور نیکوکار تھا برزخ میں اس کا ایمان ظاہر ہوجائے گا_ وہ صحیح اور صاف صاف جواب دے گا لیکن جو شخص واقعی ایمان نہیں رکھتا تھا اور ظالم و بدکار تھا برزخ میں اس کا کفر ظاہر ہوجائے گا اور وہ صحیح جواب نہیں دے سکے گا_

گناہ گار انسان جہنم کے عذاب کا نمونہ برزخ میں دیکھے گا اور اس کے اعمال کی سزا یہیں سے شروع ہوجائے گی پیغمبر اسلام حضرت محمد ابن عبداللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں کہ جو لوگ گھر مین بداخلاقی کرتے ہیں برزخ میں عذاب میں مبتلا ہوں گے حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا کہ

۵۹

جو لوگ خچل خوری کرتے ہیں اور جو لوگ شراب سے پرہیز نہیں کرتے برزخ میں عذاب میں مبتلا ہوں گے_

برزخ میں سوال و جواب

برزخ میں سوال و جواب حقیقی ہوگا جو لوگ برزخ میں جائیں گے ان سے حقیقتاً سوال ہوگا وہ یقینا ان سوال کا جواب دیں گے لیکن برزخ کا سوال و جواب دنیا کے سوال و جواب کی طرح نہیں_ جو لوگ برزخ میں ہیں سوال کو سنتے ہیں اور جواب دیتے ہیں لیکن اس کان اور زبان سے نہیں جس کے ذریعہ دنیا میں سنتے اور جواب دیتے تھے بلکہ برزخی زبان اور کان سے، ضروری نہیں کو بولنا اور سنتا ہمیشہ انہی لبوں، زبان اور انہی کانوں سے ہو_ مثلاً آپ خواب میں اپنے دوست سے کلام کرتے ہیں اس کی باتیں سنتے ہیں اور اس سے گفتگو کرتے ہیں کیا اسی کان اور زبان سے؟ یقینا نہیں_ کبھی خواب میں کسی ایسی جگہ جاتے ہیں کہ جہاں کبھی نہ گئے تھے لیکن بیدار ہونے کے بعد وہاں جائیں تو سمجھ جائیں گے کہ خواب میں اس جگہ کو دیکھا تھا خواب میں کس جسم کے ساتھ ادھر ادھر جاتے ہیں خواب میں کس آنکھ سے دیکھتے ہیں اور کس کان سے سنتے ہیں کیا اسی کان اور آنکھ سے؟ کیا اسی جسم سے، یقینا نہیں کیوں کہ یہ جسم بستر پر پڑا آرام

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

حقیقت ماجرا:

بلاذری نے اپنی کتاب ''فتوح البلدان ''میں لکھا ہے :

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد قبیلۂ ''ازد '' نے اسلام سے منہ موڑا اور مرتد ہوگیا ۔ اس کی رہبری ''لقیط بن مالک ذوالتاّج'' کے ہاتھ میں تھی ۔ یہ لوگ ''دبا'' کیطرف بڑھے ۔ ابوبکر نے قبیلۂ ازد سے ''حذیفہ بن محصن بارقی'' اور ''عکرمہ بن ابی جہل مخرومی'' کو ایک گروہ کے ہمراہ ان کی سرکوبی کے لئے مامو کیا ۔

حذیفہ اوراس کے ساتھیوں نے ''دبا '' میں لقیط اور اس ساتھیوں سے جنگ کی،لقیط مارا گیا اور ''دبا'' کے باشنددوں کاایک گروہ اسیر ہوا ، انھیں ابوبکر کی خدمت میں مدینہ بھیج دیا گیا ، اس طرح یہ ماجر ا ختم ہوا اور قبیلۂ ''ازد '' دوبارہ اسلام لے آیا۔

بلاذری اضافہ کرکے لکھتا ہے :

''مہرہ بن حیدان بن عمرو قضا عہ '' کے کچھ گھرانے آپس میں جمع ہوئے ، عکرمہ ان کی طرف بڑھا لیکن ان سے جنگ نہیں کی ،کیو نکہ انہوں نے اپنے مال کی زکا ت خلیفہ کو ادا کر دی اور جان بچالی۔

ابن عثم نے اپنی کتاب ''فتوح'' میں لکھا ہے :

عکرمہ نے اس جنگ میں ''دبا'' کے ایک سوافراد کو قتل کر ڈالا تب وہ ہتھیا ر ڈال کر تسلیم ہوئے ۔ اس کے بعد ان کے سرداروں کے سرتن سے جدا کئے اور باقی بچے تین سو جنگی اور چار سو عورتوں اور بچوں کو اسیر بنا کر ابوبکر کے پاس مدینہ بھیج دیا۔

ابوبکر نے حکم دیا کہ مردوں کے سرتن سے جدا کئے جائیں اور ان کی عورتوں اور بچوں کو فروخت کیا جائے ۔ لیکن عمر نے شفاعت کی اور کہا یہ مسلمان ہیں اور قسم کھاتے ہیں کہ ہم نے کبھی اسلام منہ نہیں موڑ ا تھا ۔ یہاں پر ابوبکر نے اپنا فیصلہ بدل دیا کہ ان کے مال و منال پر قبضہ کر کے انہیں زندان بھیجدیا جائے ۔ یہ ابوبکر کے زمانے میں قیدی بنے رہے ۔ عمر نے خلافت ہاتھ میں لینے کے بعد انھیں آزاد کیا۔

۱۶۱

جانچ پڑتال کا نتیجہ :

سیف کہتا ہے کہ مسلمانوں نے ''دبا''کی جنگ میں مشرکین کے دس ہزار افراد قتل کردئے اور اسراء کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ صرف ان کا پانچوں حصہ آٹھ سو افراد پر مشتمل ابوبکر کی خدمت میں مدینہ بھیحا گیا !!

جب کہ دوسروں نے مقتولین واسرا حتیٰ ان کے سردار جن کے سرتن فتح کے بعد سے جدا کر کے قتل کیا گیا سب کی تعداد کل ملاکر آٹھ سو افراد بتائی ہے ۔

سیف کہتا ہے کہ ''مہرہ'' کی جنگ میں مشرکین دو گرو ہوں میں تقسیم ہو کر ریاست کے مسٔلہ پر ایک دوسرے سے جھگڑ پڑے تھے ۔ ان میں سے ایک بنام شخریت مسلمانوں سے جاملا اور مسلمانوں کے ساتھ مل کر مشرکین کی بیخ کنی کی اور ''دبا'' سے شدید تر جنگ ان کے ساتھ ہوئی۔ عکرمہ نے ان کے سردار کو قتل کیا اور باقی لوگوں کو خاک و خون میں غلطان کیا اور دل خواہ حدتک ان کو قتل ومجروح کر کے رکھدیا ۔ نیز دو ہزار نجیب اور آزاد عورتوں کو جنگی غنائم کے ساتھ ابوبکر کی خدمت میں مدینہ بھیجدیا ۔ اس فتح کے بعد اس علاقہ کے لوگوں نے اسلام کے سامنے سر تسلیم خم کیا اور دوبارہ اسلام کے دائرہ میں آئے جبکہ دوسروں نے کہا ہے کہ :

جون ہی عکرمہ اور اس کے ساتھی ''مھرہ '' کے نزدیک پہنچے وہا ں کے باشندوں نے زکات و مالیا ت دینے کا عہد کیا اور جنگ کی مصیبت سے اپنے آپ کو نجات دیدی ۔

جھوٹااور زندیقی سیف تن تنہا ان افسانوں کو جعل کر تا ہے تاکہ خون کے دریا بہا کر ، جانی تلفات کو حد سے زیا د ہ دکھا کر ، انسانوں کی بے احترامی کر کے صدر اسلام کے مسلمانوں کو بے رحم اور قسی القلب دکھا ئے اور اسلام اور مسلمانوں کو اس طرح پیش کرتا ہے جس کی وہ تمنا اور آرزو رکھتا ہے ۔

افسوس اس بات پر ہے کہ طبری جیسا عالم سیف کے ان تمام جھوٹ کے پلندوں کو اس کی اصلیت و حقیقیت کو جانتے ہوئے بھی اپنی تاریخ میں نقل کرتا ہے !!

۱۶۲

اور جب ابن اثیر ، ابن کثیر اور ابن خلدون جیسے علماء کی باری آتی ہے تو وہ بھی ان مطالب کو طبری سے نقل کر کے اپنی تاریخ کی کتابوں میں منعکس کرتے ہیں ۔

یاقوت حموی نے بھی سیف کی روایتوں پر اعتماد کر کے اس کے خیا لی مقامات جیسے ،جیروت ، ریاضتہ الروضہ ، ذات الخیم ، صبرات' ظہور ، لبان ،المر ، ینصب اور ان جیسی دیگر جگہوں کو اپنی کتاب ''معجم البلدان'' میں درج کر کے ان پر شرحیں لکھی ہیں ۔

سرانجام علامہ ابن حجر سیف کے افسانوں کے اداکاروں کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کی فہرست میں قرار دیتا ہے ۔اور''لہ ادراکُ''کا حکم جاری کرکے ان کی زندگی کے حالات پر روشنی ڈالتا ہے ۔اور اپنی بات کے خاتمہ پر حرف ''ز'' لکھ کر اعلا ن کر تا ہے کہ اس نے اس صحابی کا انکشاف کیاہے اور اس کے حالات پر شرح لکھکر دوسرے تذکرہ نویسوں پر اضافہ کیا ہے ۔

مصادر و مآخذ

صیحان بن صوحان کے بارے میں :

١۔''اصابہ ابن حجر (٢/١٩٣) دوسرا حصہ نمبر:٤٤٣١

عباد ناجی کے بارے میں :

١۔''اصابہ ''ابن حجر (٣/٨٧) تیسرا حصہ نمبر : ٦٢٩٨)

شحریب کے بارے میں :

''اصابہ'' ابن حجر (٢/١٦٠) نمبر: ٣٩٦٢

خریت بن راشد کے بارے میں :

١۔''اکمال '' ابن ماکولا (٢/٤٣٢)

۱۶۳

سیحان بن صو حان کے بارے میں :

١۔''اصابہ '' ابن حجر ( ٢/١٠٢) نمبر: ٣٦٣٠

تین صحابیوں کے بارے میں سیف کی روایتیں :

١۔''تاریخ طبری'' (١/١٩٧٩)

جنگ ''دبا' کے حقا ئق :

١۔''تاریخ اعثم '' (١/٧٤)

٢۔''فتوح البلدان'' بلاذری (٩٢۔٩٣) عمان کی خبر میں

عباد بن منصور ناجی کے بارے میں :

١۔''فہرست تاریخ طبری '' (٣٠٩)

٢۔''تاریخ طبری '' (٢/١٩٨٤)و(٢/٢٠١٧)و(٣/١١و٧٥و٨١و٨٤و٩١و٣١٩)

کہ جہاں بصرہ میں اس کے منصب قضاوت کے بارے میں گفتگو آئی ہے۔

٣۔خلاصہ تذھیب الکمال '' (١٥٨) اس کی تاریخ و فات بھی ذکر کی گئی ہے۔

٤۔''جرح و تعدیل '' (١/٨٦) تیسرا حصہ

۱۶۴

صوحان کے بیٹوں کے نام :

١۔''جمہرۂ انساب '' ابن حزم (٢٩٧) لفظ ''بنی عجل''

٢۔''اللباب '' ابن اثیر (٢/٦٢)

٣۔''تاریخ خلیفہ بن خیاط'' (١/١٧٢)

٤۔''طبقات''ابن خیاط (١/٣٢٧)سیف کی روایتوں میں ذکر ہوئے

سیف کی روایتوں میں مذکور اس داستان کے مقامات کی تفصیلات :

١۔''معجم البلدان'' حموی لفظ:

خیم (٢/٥١٠)

ریاضتہ الروضتہ (٢/٨٨١)

جیروت (٢/١٧٥)

صبرات (٣/٣٦٦)

ظہور (٣/٥٨٢)

اللبّان (٤/٣٤٥)

المر (٤/٤٩٥)

ینعب (٤/١٠٤١)

۱۶۵

چھٹا حصّہ:

ابو بکر کی مصاحبت کے سبب بننے والے اصحاب

یہ لوگ اس لئے اصحاب ہیں کہ :

٨٢۔شریک فزاری :نمائندہ کے طور پر ابوبکر کی خدمت پہنچا ہے ۔

٨٣۔ مسور بن عمرو: ابوبکر کے خط میں گواہ رہا ہے ۔

٨٤۔ معاویئہ عذری :. ابو بکر نے اس کے نام خط لکھا ہے

٨٥۔ ذویناق،و شہرذویناق: ابوبکر نے اس کو خط لکھا ہے ۔

٨٦۔معاویۂ ثقفی : ابو بکر کی سپاہ کا ایک افسر رہا ہے ۔

۱۶۶

٨٢واں جعلی صحابی شریک فزاری

ابن حجرکی ''اصابہ ''میں یہ صحابی یوں پہچنوایا گیا ہے :

شریک فزاری :

سیف بن عمر نے اس کانام لیا ہے اور کہا ہے ، جب خالدین ولید طلیحہ کی جنگ سے فارغ ہوا ، تو اسی زمانہ میں شریک فزاری نما ٰئندہ کی حیثیت سے ابوبکر کی خدمت میں پہنچا ہے ۔ ہم نے اس کی اس ملاقات کی داستان ''خارجہ بن حصن '' کے حالات میں بیان کی ہے ۔(ز)( ابن حجر کی بات کا خاتمہ)

اس صحابی کے لئے سیف کا خلق کیا ہوا نسب :

سیف نے شریف کو ''فزاری ''سے نسبت دی ہے اور یہ ''فزارةبن ذبیا ن بن بغیض بن ۔۔۔نزاربن معدبن عدنان'' سے نسبت ہے

فزاریوں کا شجرہ ٔ نسب ابن حزم کی کتاب ''جمہرۂ انساب''میں بطور کا مل آیاہے لیکن اس میں شریک '' نام کا کوئی شخص کہیں پر دکھائی نہیں دیتا ۔

شریک کی داستان :

ابن حجر نے شریک کے بارے میں جو روایت نقل کی ہے ، اس کے اشارہ کے پیش نظر نہ اس کی کتاب میں کسی اور جگہ اس کا ذکر ہے اور نہ کسی اور کتاب میں یہ روایت ملتی ہے اور یہ عالم ''خارجہ بن حصن '' کے حالات میں لکھتا ہے کہ جب خالدبن ولید '' بنی اسد '' کی جنگ سے فارغ ہوا ، تو''خارجہ'' ایک دوسرے گروہ کے ہمراہ نمایندگی کی حیثیت سے ابوبکر کی خدمت میں پہنچا ۔ اس خبر میں شریک کا کہیں نام و نشان نہیں آیا ہے !

اسی طرح طبری نے بھی ''شریک '' کے بارے میں سیف کی روایت کو درج نہیں کیا ہے ۔ یہ صرف ابن حجر ہے جس نے سیف کی روایت پر اعتماد کر کے اس کے''شریک فزاری ''کو اپنی کتاب کے تیسرے حصہ میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی کی حیثیت سے تعارف کرایا ہے۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس عالم نے اپنی کتاب کی جلد اول میں کسی اور ''شریک ''کا '' شریک غیر منسوب '' کے نام سے ذکر کیا ہے اور اس کے حالت پر روشنی ڈالی ہے۔

اس طرح علامہ ابن حجر نے اپنی کتاب ''اصابہ '' میں ''شریک '' کے نام سے دو ہم نام صحابیوں کے حالات پر روشنی ڈالی ہے ، کہ ان میں سے ایک سیف کا خیالی اور جعلی صحابی ہے جس کا کہیں وجود نہیں ہے ۔!!

۱۶۷

مصادر و مآخذ

شریک فزاری کے حالات :

١۔ ''اصابہ '' ابن حجر (٢/١٦٢) تیسرا حصہ نمبر :٣٩٧٧

شریک غیر منسوب کے حالات:

١۔''اصابہ '' ابن حجر ( ٢/١٤٩)

٢۔تاریخ بخاری (٢/٢٣٨) دوسرا حصہ

خارجہ بن حصن کے حالات:

١۔ ''اصابہ ''بن حجر (ا/٣٩٩)

فزارہ کا نسب:

''جمہرۂ انساب'' ابن حزم (٢٥٥۔٢٥٩)

٨٣واں جعلی صحابی مسور بن عمرو

ابن حجر نے اس صحابی کا تعارف یوں کرایا ہے :

مسوربن عمرو:

سیف بن عمر نے طلحہ بن اعلم سے اور اس نے عکرمہ سے نقل کیا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد جو عہد نامہ ابو بکر صدیقنے ''نجران '' کے باشندوں کے ساتھ طے کیا ، اس پر یہ صحابی بطور گواہ تھا ۔

۱۶۸

ابن فتحون نے اس صحابی کو ابن عبدالبر کی کتاب ''استیصاب'' سے دریافت کیا ہے۔ (ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

مذکورہ روایت کو طبری نے سیف سے نقل کر کے اپنی تاریخ میں ''اخابثِ عک'' کی داستان میں تفصیل کے ساتھ یوں درج کیا ہے :

جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کی خبر ''نجران '' کے باشندوں کو ملی ،توانہوں نے ایک وفد منتخب کر کے نمائندہ کے طور پر ابوبکرکے پاس بھیجا تاکہ خلیفہ کے ساتھ تجدید عہد کریں ۔ ''نجران'' کے باشندوں میں ''بنی افعی '' کے چالیس ہزار جنگجوتھے وہ ''بنی حارث''سے پہلے وہاں ساکن ہوئے تھے ۔

اس گروہ کے افراد ابوبکر کی خدمت میں پہنچے ، اوراپنے مطالبات بیان کئے ۔ابوبکر نے ان کے مطالبات منظور کئے اور یوں لکھا :

بسم اﷲالر حمن الر ّحیم

یہ پیمان بندہ ٔ خدا ابو بکر ،رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جانشین کی طرف سے نجران کے باشندوں کے لئے ہے۔ وہ نجران کے باشندوں کواپنی اور اپنے لشکر کی پناہ میں قرار دیتا ہے اور جس چیز کو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے بارے میں اپنے ذمہ لیا تھا ، سب کی تائید کر تاہے ، مگر وہ چیز جس کے بارے میں خود حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خدائے عزوجل کے حکم سے ان کی سرزمینوں میں اور دوسری عرب سرزمینوں میں اس سے عدول کیاہوکیونکہ ایک علاقہ میں دو قوانین راہلج نہ ہو سکتے ۔

اس بنا پر نجران کے باشندے اپنی جان ، قومیت ،تمام اموال و متعلقات ، جنگجوؤں ، حاضر و غائب ، پادریوں ، وراہبوں ،خرید و فروش جس صورت میں انجام پائے ، اورجو کچھ کم و زیادجو اختیار میں رکھتے ہیں سب کو اپنی پناہ میں لیتا ہے اور امان میں ہونے اعلان کرتاہے ۔ انہوں نے جو کچھ اپنے ذمہ لیا ہے اس کے وہ خود ذمہ دار ہیں ، کہ اگر اسے اداکیا ، تو ان سے ،مواخذہ بھی نہیں ہوگا اور نہ ان سے ان کے مال کا دسواں حصہ ضبط کیا جائے گا اور نہ پادری تبدیل ہوگا اور نہ کوئی راہب۔ ابوبکر ان تمام چیزوں کو نجران کے باشندوں کے لئے قبول کرتا ہے جنھیں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے لئے رسما ً قبول فرمایا ہے ، اور جو اس پیمان نامہ میں ذکرہوا ہے اور محمدرسول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اوردوسرے مسلمانوں نے قبول کیاہے ان تمام چیزوں کو قبول کرتا ہے ۔ ضروری راہنما ئیوں اورنظم وانتظام چلا نے میں ان کے حق کو اور ان دیگر حقوق کو قبول کرتاہے ۔

۱۶۹

مندجہ بالا مطالب موادتایئد ہیں ۔ دستخط مسوربن عمر و و عمرو غلام ابو بکر نئی سطر سے جیسا کہ ہم نے کہا ، طبری نے اس پیمان نامہ کو درج کیا ہے لیکن اس کی سند کا ذکر نہیں کیا ہے ۔ اس کے بر عکس ابن حجر نے ابوبکر کے پیمان نامہ کی سند کا ذکر کیا ہے لیکن اصل خط کو ثبت نہیں کیا ہے۔

ابن فتحون نے بھی سیف کی اس روایت پر اعتماد کر کے ابن عبدالبر کی کتاب ''استیعاب ''کے ضمیمہ میں ''مسور'' کے وجود پر باور کر کے اس کے حالات لکھے ہیں

جیسا کہ گزرا ، ابن حجر نے بھی سیف کی اسی روایت پر اعتماد کر کے ''مسور'' کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کے زمرہ میں قراردیا ہے اور اس کی دلیل یہ تھی کہ سیف کے کہنے کے مطابق ''مسور''نے ابوبکر کے نجران کے باشندوں کے ساتھ کئے گئے عہدنامہ پر گواہی اور تایئد کی ہے ۔

ابن حجر نے اس صحابی کو اپنی کتاب کے پہلے حصہ میں درج کیا ہے ، چونکہ سیف نے اپنے جعل کئے گئے اس صحابی کا نسب مشخص نہیں کیا ہے ، اسلئے ابن حجر نے بھی اس حد سے نہ گزر کر اس کے لئے کوئی نسب درج نہیں کیا ہے ۔

قابل ذکر ہے کہ ١٢٦ ھ میں سیف کا ہم عصر ، ''مسوربن عمربن عباد'' نامی ایک شخص بصرہ میں زندگی بسرکر تا تھا اور اس قدر مشہور ومعروف شخص تھا کہ ابن اثیر نے اپنی تاریخ میں اسے درج کیاہے ۔ اس شخص کا دادا یعنی ''عباد بن حصین حبطی''اپنے زمانہ کا ایک ناموار شہسوار تھا ۔ وہ بصرہ میں ''عبداﷲ زبیر '' کی حکومت کے دوران پلیس کا افسرتھا ۔ ایران کا '' آبادان''اسی کے نام پر رکھاگیا ہے ۔

اب یہ معلوم نہیں ہے کہ سیف نے اسی ''مسوربن عمروبن عباد ''کا نام اپنے جعلی صحابی کے لئے منتخب کیا ہے اور اسے عاریت لیا ہے تاکہ ابوبکر کے عہدنامہ میں اسے شاہد قرار دے یا یوں ہی ایک نام اس کے ذہن میں آیا ہے اور اس نے اپنی خیالی مخلوق پر وہ نام رکھ لیا ہے!!

۱۷۰

مصادر و مآخذ

مسور بن عمرو کے حالات :

١۔ ''اصابہ ''ابن حجر (٣/٣٩٩) حصہ اول نمبر: ٧٩٩٤

٢۔تاریخ طبری (١/١٩٨٨)کہ سیف کی روایت اور ابوبکر کا خط درج کیا ہے ۔

مسور بن عمروبن عباد کے حالات :

١۔''تاریخ ابن اثیر'' (٥/٢٤٣)

عباد بن حصین کے حالات:

١۔''معارف '' ابن قتیبہ (١٨٢)

٢۔''محبر'' (٢٢٢،٤٤٤)

٣۔''عیوان الاخبار'' ابن قتیبہ (١٢٨)

٤۔''معجم البلدان'' حموی لفظ ''عبادان''

٥۔''فتوح البلدان'' بلا ذری (٤٥٣)

مسور بن عمروعباد کا نسب:

''جمہرہ ٔ انساب'' ابن حزم (٢٠٧)

۱۷۱

٨٤ واں جعلی صحابی معاویہ عذری

ابن حجر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے :

معاویہ عذری :

سیف بن عمر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ابوبکر نے ایک خط میں اسے حکم دیا ہے کہ دین سے منحرف لوگوں اور مرتدوں سے لڑنے میں کسی قسم کی کسر باقی نہ رکھے۔ اور ہم نے بارہا کہا ہے کہ قدما صحابی کے علاوہ کسی اور کو سپہ سالاری کے عہدہ پر منتخب نہیں کرتے تھے ۔(ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

اس صحابی کے لئے سیف نے کیا نسب لکھا :

تاریخ طبری اور ''اصابہ '' میں سیف کی روایت کے مطابق اس صحابی کا نسب''عذری'' ہے۔ شہرت کی بنا پر یہ نسبت ''قضاعہ '' کے ایک قبیلہ ''عذرةبن سعد ھذیم ''تک پہنچتا ہے اور سیف کی مراد بھی یہی نسب تھا کیونکہ وہ سعد بن حذیم کے ارتداد کی بات کرتا ہے ۔

لیکن تاریخ ابن عساکر میں یہ نسب ''عدوی'' ذکر ہوا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ غلط ہے ۔

۱۷۲

معاویہ عذری کی داستان :

جس روایت کو ابن حجر نے معاویہ ٔ عذری ''کے تعارف میں درج کیا ہے اور ابن عساکر اور طبری نے اسی کو اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیا ہے ، ہم نے اس کو ''پینتالیسویں جعلی صحابی '' ''عمروبن حکم قضاعی ''(۱) کے حالات میں بیان کیا ہے۔

سیف کی اس روایت میں آیا تھا:

قبیلہ ٔ سعد ھذیم معاویہ اور اس کے ہم فکروں کا ایک گروہ مر تد ہوگیا۔ ان کے ارتداد کے نتیجہ میں ابوبکر نے ایک خط کے ذریعہ امام حسین کی بیٹی سکینہ کے جدماوری ، ''امرالقیس بن فلان '' اور ''عمروبن حکم '' کو حکم دیا کہ ''زمیل''سے نبردآزما ہونے کے لئے آمادہ ہو جایئں اور اسی قسم کا ایک دوسرا خط مغاویۂ عذری '' کے نام بھیجا۔

اور جب ''اسامہ بن زید ''واپس لوٹ کر ''قبائل قضاعہ ''میں پہنچا تو ابوبکر کے حکم کے مطابق ۔۔ (داستان کے آخر تک )

ابن حجر نے سیف کے اس مختصر جملہ یعنی:معاویہ عذری کو بھی ایسا ہی ایک خط لکھا ہے، پر تکیہ کر کے اس پر لباسِ وجود زیب تن کیا ہے اور طرح اسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کے پہلے دستہ میں شامل کرنے بعد اس کے حالات لکھے ہیں !!

یہ عالم اس تنہانام کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی کے عنوان سے پہچنوانے کے سلسلے میں یوں

____________________

١) ١٥٠ صحابی ساختگی (٣/١٩٥۔١٩٨)

۱۷۳

استدلال کرتا ہے کہ ''ہم نے بارہا کہا ہے کہ قدمانے۔۔۔۔تاآخر)

جبکہ ہم نے اس روایت کے صیحح نہ ہونے کے سلسلہ میں حقائق اور تاریخی روداوں سے اس کا موازنہ کر کے اسی کتاب کی ابتداء میں مفصل بحث کی ہے اور اب اس کی تکرار ضروری نہیں سمجھتے ہیں ۔

مصادر و مآخذ

معاویہ عذری کے حالات:

١۔''اصابہ '' ابن حجر (٣/٤١٧) حصہ اول نمبر : ٨٠٨٧

سعد ھذیم کے ارتداد کے بارے میں سیف کی روایت:

١۔''تاریخ طبری '' (١/١٨٧٢)

٢۔''تاریخ ابن عساکر '' (١/٤٣٢)

بنی عذرہ کا نسب

١۔''اللبا ب'' (٢/١٢٩)

٨٥واں جعلی صحابی ایک جعلی صحابی کے دو چہرے

شہر ذویناف (ذویناق)

ابن حجر نے اپنی کتاب ''اصابہ ''میں لفظ''ذیناق'' کے تحت لکھاہے :

اس صحابی کے حالات کی تشریح لفظ ''شہر'' کے تحت کی جائے گی(ز)

اس کے بعد لفظ'' شہر ْ'' کے تحت لکھتا ہے :

''شہر ذویناق'' یمن کا ایک علاقائی فرماں رواتھا ۔ طبری نے اس کانام ایک روایت کے تحت اپنی کتاب میں یوں درج کیاہے :

ابوبکر نے ''عمیر ذومران ، سعید ذی رود اور شہر ذی یناق '' کو ایک خط کے ضمن میں حکم دیا کہ ''فیروز'' کی اطاعت کریں اورمرتدوں کے ایک ساتھ جنگ میں اس کے احکام پر عمل کریں ۔(ز)

۱۷۴

ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

اب ہم دیکھتے ہیں کہ طبری کی روایت کی داستان کیا تھی ۔

طبری نے اپنی تاریخ میں '' یمانیوں کا دوسرا ارتداد'' کے عنوان سے اور ١١ھ کی روداد کے تحت سیف بن عمر سے نقل کر کے لکھا ہے :

جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کی خبر یمن کے لوگوں کو پہنچی تو ''قیس بن عبدیغوث مکشوح '' نے سرکشی کرکے ''فیروز، داذویہ ا ورجشیش''کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا ۔

ابوبکر نے ، ''عمرذی مران ، سعید ذی زود، سمیفع ذی کلاع، حوشب ذی ظلیم اور شہر ذی یناف '' کے نام لکھے گئے ایک خط میں اٹھیں اسلام سے متمسک ہونے ، خدا کی اطاعت کرنے اور لوگوں کی خدمت کرنے کی دعوت دی اور وعدہ کیاکہ ان کی مدد کیلئے ایک سپاہ کو بھی بھیجیں گے۔

اس خط کا متن یوں ہے :

ابوبکر ،جانشین رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے ''عمیر بن افلح ذی مران ، سعید بن عاقب ذی زود ، سمیفع ناکورذیکلاع ، حوشب ذی ظلیم اورشہری ذی یناف '' کے نام۔

امابعد، ایرانیوں کی مدد کے لئے جلدی کرو اور ان کے دشمنوں سے لڑو اور انھیں اپنی پناہ میں لے لو ، ''فیروز''کی اطاعت کرو اس کی خدمت کرنے کی کوشش کرووہ میری طرف سے اس علاقہ کا حکمراں ہے

ابوبکر نے اس خط کو ان سرداروں کے نام اس حالت میں لکھا کہ اس زمانہ میں وہ علاقہ''فیروز، دازویہ ،جشیش اورقیس '' کی باہمی حکمرانی میں تھا ۔ اس کے باوجود ابوبکرنے اس خط کے ذریعہ یمن کی حکومت کاحاکم فیروزکو منصوب کیا اور اس کے اس نئے عہدہ کا یمن کے سرداروں کو اعلان کیا ۔

جب یہ خبر ''قیس کوپہنچی توسخت بر ہم ہوا اور انتقام پر ُاتر آیا ۔ لہذا اس نے ذی کلاع کے نام ایک خط میں لکھا کہ ایرانی خانہ بدوش اور آوارہ لوگ ہیں اورآپ کی سرزمیوں میں سردار بن بیٹھے ہیں اور اگر انھیں فرصت دی جائے تو ہمیشہ آپ لوگوں پر سرداری کرتے رہیں گے۔ میرے خیال میں عقلمندی یہی ہے کہ ہم ان کے سرداروں کو قتل کر ڈالیں اور باقی لوگوں کو اپنے وطن سے نکال باہر کریں

۱۷۵

ذی کلاع اور دیگر سرداروں نے اگر چہ قیس کے خط پر کوئی اعتنا نہ کیا لیکن فیروز اور دوسرے ایرانیوں کو بھی اپنے حال پر چھوڑ دیااوران کی کوئی مدد نہیں کی.

قیس نے اکیلے ہی ایرانی سرداروں کو قتل کرکے باقی سب لوگوں کو یمن کی سرزمین سے بھگانے پر کمر کس لی سرانجام اس مقصد کو پانے کے لئے فرصت کی تلاش میں تھا. بالاخراس نے پیغمبری کے مدعی ''اسود عنسی '' جوکچھ مدت پہلے قتل کیا گیا تھا اور اس کے حامی یمن کے شہروں میں پراکندہ ہوگئے تھے ' ان کو اپنے مقصد کے لئے مناسب جانا۔لہذا اس نے مخفی طور سے ان کے ساتھ رابطہ قائم کیا اور انھیں اپنے گرد جمع کیا .وہ بھی ایک پناہ کی تلاش میں تھے ، قیس کی دعوت قبول کرکے اس کی مدد کرنے کے لئے آمادہ ہو گئے۔ اس مخفیا نہ رابطہ سے کوئی آگاہ نہ ہوا۔

زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ یمن کے شہر صنعا میں یہ افواہ پھیلی کہ اسودعنسی کے حامی شہر پر قبضہ کرنے کے لئے آرہے ہیں اس موقع پرقیس ریاکار نہ طور پر فوراً فیروزاور دازویہ '' کے پاس پہنچا اور خوف و وحشت کے عالم میں موجودہ حالات پران سے صلاح و مشورہ کرنے لگا تاکہ وہ شک نہ کریں کہ اس قضیہ میں اس کا اپنا ہاتھ ہے ۔ اس قدر ریا کاری اور مکاری سے پیش آیا کہ انہوں نے اس کی باتوں پر یقین کر لیااوراس کی رانمہایوئں سے مطمئن ہوگئے ۔

حکومت کا تختہ الٹنے میں قیس کی فریب کاریا ں :

دوسرے دن قیس نے ایک دعوت کا اہتمام کیا اور ''فیروز''داذویہ اور جشیش کو بھی اس میں شرکت کی دعوت دی ۔

داذویہ نے اپنے دو دوستوں سے پہلے قیس کے گھر میں قدم رکھا اور قیس نے بھی فرصت کو غنیمت سمجھ کر بے رحمی کے ساتھ اس کو

فوراً قتل کر ڈالا اور اس طرح اپنی راہ میں موجود رکاوٹوں میں سے ایک کو ہٹا نے میں کامیاب ہوا

زیادہ وقت نہ گزرا تھا کہ ''فیروز ''بھی آپہنچا ۔ جوں ہی قیس کے گھر کے قریب پہنچا اس نے دو عورتوں کوجن کے مکانوں کی چھتیں ایک دوسرے کے روبرو تھیں یہ کہتے ہوئے سنا :

بیچارہ فیروز!وہ بھی اپنے دوست ''داذویہ'' کے مانند قتل کیا جائے گا!

۱۷۶

فیروز یہ باتیں سنکر ہل کے رہ گیا اور فوراً پر وہا ں سے ہٹ گیا ۔

اسی حالت میں جشیش بھی آپہنچا اور رودا د سے مطلع ہوا اوردونوں جلدی سے وہا ں سے بھاگ کھڑے ہوئے ۔

قیس کے محافظوں اور حامیوں کو فیرز اور اس کے ساتھی کے فرار کے بارے میں ذرا دیر سے خبر ملی ۔ انہوں نے ان کا پیچھا کیا

لیکن فیروز اور جشیش بڑی تیزی کے ساتھہ ان سے دور ہو کر ''خولاں '' کے پہاڑ کی طرف بھاگ گئے تھے ،جہاں پر فیروز کے ماموں اور اس کے رشتہ دار رہتے تھے ، انہوں نے ان کے ہاں پناہ لے لی ۔قیس کے سپا ہی بھی مجبور ہو کر واپس لوٹے اور ماجر ا قیس سے بیان کیا ۔

قیس نے کسی مزاحمت کے بغیر صنعا پرحملہ کیا اور اسے بڑی آسانی کے ساتھ فتح کیا اور اس کے اطراف کے علاقوں پر بھی

قبضہ جما لیا ۔اسی اثنا ء میں ''اسودعنسی'' کے سوار بھی مشہرصنعا میں داخل ہوگئے اور قیس کی ہمت افزائی کی

اس دوران یمن کے لوگوں کی ایک جماعت فیروز کے گرد جمع ہوگئی ۔ اور اس نے بھی ان حالات کے بارہ میں خلیفہ ابو بکر کو رپورٹ بھیجی۔ عام لوگ بھی جن کے سرداروں کے نام ابوبکر نے''فیروز''کی اطاعت کے سلسلے میں خط لکھا تھا ، قیس کے گرد جمع ہوگئے ، لیکن ان کے سرداروں نے اس ماجرا کے سلسلے میں گوشہ نشینی اختیار کی ۔

قیس نے ایرانیوں کی نابودی کا بگل بجادیا اور انھیں تین حصوں میں تقسیم کردیا ۔ ایک وہ گروہ تھا جنہوں نے تسلیم ہوکر اس کی اطاعت اختیار کر لی تھی ،انھیں قیس نے ان کے رشتہ داروں کے ہمراہ پناہ دیدی ۔ اور فیروزکی وفا داری پر باقی رہنے والے لوگوں کو دوگروہوں میں

تقسیم کر دیا۔ ان میں سے ایک گروہ کو عدن بھیجدیا تاکہ وہا ں سے سمندری راستہ سے ایران چلے جائیں ۔ دوسرے گروہ کو براہ راست خشکی کے راستے ایران بھیجدیا اور ان سے کہا کہ اپنے وطن واپس چلے جاؤ۔ دونوں گروہوں کے ساتھ اپنے مامور بھی رکھے۔ (فیروز ) کے بیوی بچوں کو اس گروہ کے ہمراہ بھیجا جنھیں زمینی راستہ سے ایران بھیجدیا گیا تھا اور داذویہ کے رشتہ دار سمندری راستے سے بھیجدئے گئے تھے ۔

۱۷۷

فیروز کی قیس سے جنگ:

جب فیروذ،قیس کے اس کام سے آگاہ ہوا تو اس نے قیس سے جنگ کرنے کا فیصلہ کیا اوراس منصوبہ پر عمل کرنے کی غرض سے ''

''بنی عقیل بن ربیعہ بن عامر صعصعہ'' کے پاس ایک قاصد بھیجا اوراس سے مدد طلب کی ، انہوں نے اس کی درخواست منظورکی اور اس کی مدد کے لئے آگئے ۔

ایک اور قاصد کو ''عک '' بھیجا اور عکیوں سے بھی مدد طلب کی ۔ بنی عقیل کے سپاہی جو فیروز کی مدد کے لئے آئے تھے ، ''معاویہ''نامی حلفاء کا ایک شخص ان کا سپہ سالار تھا ۔راستے میں اس گروہ کی اس قافلے سے مڈبھیڑ ہوئی جسے قیس کے کچھ سوار اسیروں کے طور پر ایران لے جارئے تھے ۔ ایک شدید جنگ میں قیس کے تمام سوار مارے گئے اور اسیروں کے خاندان آزاد کرالئے گئے ۔

عکیوں کے سپاہیوں کی بھی راستے میں دوسرے گروہ سے مڈبھیڑ ہوئی اور ان کے درمیان بھی ایک گھمسان کی جنگ کے بعد تمام سپاہی مارے گئے اور ایرانی اسراء آزاد کرالئے گئے ۔

اس فتح و کامرانی کے بعد عقیلی اور عکی جنگجو فیروز کی مدد کے لئے آگے بڑھے۔فیروز بھی ان کی اور دوسرے یمینوں کی مدد سے جو اس سے ملحق ہوئے تھے، قیس سے جنگ کرنے کے لئے باہر نکلا اور شہر صنعاکے باہر قیس کے سپاہیوں سے نبرد آزما ہوا ۔ ان دو فوجیو ں کے درمیان ایک گھمسان کی جنگ چھڑ گئی ۔ یہ جنگ سرانجام قیس اور اس کے ساتھیوں کی برُی شکست پر تمام ہوئی ۔ اس جنگ میں قیس اور اس کے چند رشتہ دار بڑی مشکل سے زند ہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے ۔

عمر وبن معدی کرب نے ''قیس '' کی سرزنش میں یہ اشعار کہے ہیں :

تم نے صیحح وفاداری نہیں کی بلکہ اس کے برعکس مکروفریب سے کا م لیا ۔ اس دوران ایک تجربہ کار اور سختیاں برداشت کئے ہوئے شخص کے علاوہ کوئی یہ مشکلات برداشت نہیں کر سکتا ۔ اس حملے سے قیس کیسے افتخار کا تاج اپنے سر پر رکھ سکتا ہے جبکہ اس کا وہی حقدارہے جو اس کاسزاوارہو۔

۱۷۸

قیس نے عمروکے طنزاور سرزنش کے جواب میں اشعار کہے :

میں نے اپنی قوم کے ساتھ بے وفائی اور ظلم نہیں کیا ہے ۔

میں نے ان ظالموں کے خلاف ایک جرأتمندفوج تشکیل دی جنہوں نے قبائل ''عمروومرثد'' پر حملہ کیا تھا ۔

میں ایرانیوں کے ساتھ جنگ میں ایک دلیر اورشجاع اور باعزت پہلوان تھا ۔

داذویہ تمہارے لئے فخرو مباہا ت کا سبب نہیں ہے ، وہ ایسا ہے جس نے اس کے ہاں پناہ لی اس کو دشمن کے حوالے کیا ہے ۔

اور فیروز تو اس نے کل تم پر ظلم کیاہے اور تمہارے مال ومنال کو لوٹ چکا ہے اور تمہارے خاندان کو نابود کر چکا ہے ،لیکن آج

اس نے ناتواں اور ذلیل و خوار ہو کر تمہارے ہاں پناہ لے لی ہے !!

طبری اس داستان کے ضمن میں سیف سے نقل کر کے لکھتا ہے :

ابوبکر نے قیس کی گوشمالی اوراسود عنسی کے فراری سپاہیو ں کا پیچھا کرنے کے لئے ''مھاجر بن ابی امیہ ''کا انتخاب کیا ۔ مھاجر بن ابی امیہ ان

سب کو قتل عام کر کے فاتحانہ طور پر صنعا میں داخل ہوا اور قیس کو قیدی بناکرابوبکر کی خدمت میں بھیجدیا ۔ ابوبکر کی نگاہ جب قیس

پر پڑی ، تو انہوں نے پوچھا :

قیس !کیاتم نے خدا کے بندں سے جنگ کی ہے اور انھیں قتل کیا ہے ؟

اور مومنوں و مسلمانو ں کے بجائے دین سے مخرف مرتدوں و کافروں سے دوستی کرکے مدد طلب کی ہے؟

ابوبکر نے فیصلہ کیا کہ اگر داذویہ کے قتل میں قیس کی شرکت ثابت ہوجائے تو اسے قصاص کے طور پر سزائے موت دے گا

لیکن قیس نے پوری طاقت کے ساتھ اس قسم کے بے رحمانہ قتل کے الزام سے انکار کر دیا۔ سرانجام کافی دلائل وثبوت مہیانہ ہونے ٍکی وجہ سے ابوبکر نے قیس کو معاف کردیا اور نتیجہ کے طور پر وہ بھی صیحح وسالم اپنے گھر اورخاندان میں واپس چلاگیا۔(طبری کی بات کا خاتمہ )

۱۷۹

اس افسانہ کے راویوں کی تحقیق:

سیف نے اس روایت میں درج ذیل نام بعنوان راوی ذکر کئے ہیں :

١۔ مستینر بن یزید

٢۔عروة بن غزیہ دثینی ۔ ان دو کا نام سند کے طور پر روایت میں دوبار ذکر کیا گیا ہے ۔

٣۔ سہل بن یوسف ۔ روایت میں اس کا ایک بارنام آیا ہے ۔ ہم نے اس سے پہلے بارہا کہا ہے کہ سیف کے یہ تینوں راوی جعلی ہیں اور ان کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں ہے ۔

اصل حقیقت:

قیس کی داستان اور اس پر داذو یہ کے قتل کے الزام کے بارے میں بلاذری کی کتاب فتوح البلدان ۔ جس میں سیف ابن عمر سے روایت نقل نہیں کی گئی ہے، میں یوں لکھا ہے :

قیس کو ''داذویہ '' کو قتل کرنے کا ملزم ٹھہر یا گیا ۔ یہ خبر اور یہ کہ وہ ایرانیوں کو صنعاسے نکال باہر کرنا چاہتا ہے اس کی خبر بھی، ابوبکر کو پہنچی۔ ابوبکر اس خبر کو سن کر سخت برہم ہوئے ، اور صنعا میں مامور اپنے کاگزار ''مہاجر بن ابی امیہ'کو لکھا کہ قیس کوفوراً گرفتار کر کے مدینہ بیھجدے ۔

قیس کے مدینہ میں خلیفہ کی خدمت میں پہنچنے کے بعد ابوبکر نے منبر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس اسے پچاس بارقسم دی کہ '' اس نے داذویہ کو قتل نہیں کیا ہے ۔''

قیس نے خلیفہ کے حکم مطابق قسم کھائی ، ابوبکر نے بھی اسے چھوڑ دیا اور اس کو دیگر سپاہیوں کے ہمراہ رومیوں سے جنگ کرنے کے لئے شام کے محا ذکی طرف روانہ کر دیا ۔

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285