‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) جلد ۲

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) 20%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 285

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 285 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 121578 / ڈاؤنلوڈ: 4298
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

کر رہا ہے اور آنکھیں بند کی ہوئی ہیں_

اس قسم کے خواب ممکن ہے کہ آپ نے دیکھے ہوں یا آپ کے کسی دوست نے دیکھے ہوں، برزخ کی دنیا واقعی اور حقیقی دنیا ہے اور اس میں سوال و جواب بھی حقیقی ہیں_ ہم نے خواب کو بطور مثال ذکر کیا ہے_

غور کیجئے او رجواب دیجئے

۱)___ آیا ہماری محنت اور کام بے فائدہ ہیں ہم اپنی کوشش کا نتیجہ کہاں دیکھیں گے؟

۲)___ آخرت سے پہلے کس دنیا میں جائیں گے؟

۳)___ خدا نے برزخ کے متعلق کیا فرمایا ہے؟

۴)___ جو شخص دنیا میں خدا اور پیغمبروں پر واقعی ایمان رکھتا ہے برزخ میں کیسی زندگی گذارے گا؟ اس دنیا کے سوالوں کا کس طرح جواب دے گا؟

۵)___ برزخ میں انسان سے کیا پوچھا جائے گا؟

۶)___ برزخ میں کن لوگوں کا ایمان ظاہر ہوگا؟

۷)___ کفر ا ور برائی کسکی ظاہر ہوگی؟

۸)___ آیا آخرت میں جھوٹ بولا جاسکتا ہے؟ اور کیوں؟

۹)___ کون سے لوگ برزخ میں عذاب میں مبتلا ہوں گے؟

۱۰)___ آیا برزخ کا سوال اور جواب اسی دنیاوی زبان اور کان سے ہوگا؟

۶۱

چوتھا سبق

مردے کیسے زندہ ہونگے

حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ کے پیغمبر(ص) تھے وہ آخرت اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے تھے انہیں علم تھا کہ آخرت میں مردے زندہ ہوں گے اور حساب و کتاب کے لئے حاضر ہوں گے لیکن اس غرض کے لئے کہ ان کا یقین کامل ہوجائے اللہ تعالی سے درخواست کی کہ مردوں کا زندہ کرنا انہیں دکھلائے انہوں نے خدا سے کہا معبود تو کس طرح مردوں کو زندہ کرتا ہے اللہ نے ان سے کہا کیا تم مردوں کو زندہ ہونے پر ایما نہیں رکھتے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جواب دیا کہ خدا یا ایمان رکھتا ہوں لیکن چاہتا ہوں کہ میرا دل اطمینان حاصل کرے، اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی درخواست قبول کرلی اور حکم دیا کہ چار پرندے انتخاب کرو اور انکو ذبح کرو اور ان کو ٹکڑے ٹکڑے کردو اور انہیں اچھی طرح کوٹ دو پھر انکو

۶۲

قیمہ شدہ گوشت اور پروں اور ہڈیوں کو کئی حصّوں میں تقسیم کردو اور ہر ایک حصّہ کو پہاڑ پر رکھ دو اسکے بعد پہاڑ کے وسط میں کھڑے ہوجاؤ اور ہر ایک پرندے کو اس کے نام کے ساتھ پکارو و ہ اللہ کے حکم سے تیرے حکم پر زندہ ہوں گے اور تیری طرف ڈورے آئیں گے اور تم جان لوگے کہ اللہ تعالی عالم و قادر ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالی کے اس حکم پر عمل کیا چار پرندے لئے ایک کبوتر دوسرا کوّا تیسرا مرغ اور چوتھا مور تھا، ان کو ذبح کیا اور ٹکڑے ٹکڑے کر کے انہیں کوٹ کو قیمہ بنادیا اور آپس میں ملادیا پھر ان کاگوشت تقسیم کر کے ہر ایک حصّہ کو پہاڑ پر رکھا اور اس پہاڑ کے وسط میں کھڑے ہوکر پہاڑ کی طرف دیکھا اور بلند آواز سے مور کو بلایا اور کہا اے مور ہماری طرف آؤ: مور کے ٹکڑے پہاڑ سے آنحضرت کی طرف آئے اور آپس میں ملتے گئے اور مور کی گردن، سر، پاؤں اور اس کے پرو ہیںبن گئے اور مور زندہ ہوگیا، اپنے پروں کو ہلایا اور حضرت ابراہیم کے سامنے چلنے لگا اسی طرح کبوتر، کوّا، اور مرغ بھی زندہ ہوگئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مردہ پرندوں کا اپنے اپنے جسم کے ساتھ زندہ ہونا اپنی آنکھوں سے دیکھا_

آپ(ع) کا ایمان اور یقین کامل تر ہوگیا اور اللہ تعالی کی قدرت کا مشاہدہ کیا اور آپ کا دل مطمئن ہوگیا اور آپ نے سمجھ لیا کہ قیامت کے دن مردے کس طرح زندہ ہوں گے_

۶۳

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ حضرت ابراہیم (ع) نے اللہ تعالی سے کونسی درخواست کی تھی

۲)___ اس درخواست کی غرض کیاتھی؟

۳)___ اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم (ع) کی درخواست کا کیا جواب دیا؟ اور انہیں کیا حکم دیا؟

۴)___ حضرت ابراہیم (ع) نے اللہ تعالی کے فرمان پر کس طرح عمل کیا؟

۵)___ کس طرح پرندوں کو زندہ کیا؟

۶)___ کس ذات نے پرندوں کے زندہ کرنے کی قدرت حضرت ابراہیم (ع) کو دی تھی؟

۷)___ حضرت ابراہیم (ع) نے اس تجربہ سے کیا نتیجہ لیا؟

۶۴

پانچواں سبق

کس طرح

آپ کس طرح کام کو یاد کرتے ہیں؟ اور کس طرح کام کرنے کے عادی بنتے ہیں؟ ایک کام کا بار بار کرنا آپ کی جان اور روح پر کیا اثر کرتا ہے، جب ایک کام کو بار بار انجام دیں تو وہ آپ کی روح پر کیا اثر کرتا ہے آہستہ آہستہ آپ اس کے عادی ہوجاتے ہیں اور پھر اس کام کو ٹھیک بجالاسکتے ہیں مثلا جب کچھ لکھتے ہیں تو یہ لکھنا آپ پر اثرانداز ہوتا ہے اگر لکھنے میں ذرا محنت کریں صاف اور اچھی طرح لکھیں تو یہ محنت کرنا آپ کی روح پر اثرانداز ہوگا کہ جس کے نتیجہ میں آپ کا خط خوشنما اور خوبصورت ہوجائے گا لیکن اگر لکھنے میں محنت نہ کریں تو یہ بے اعتنائی بر اثر چھوڑے گی جس کے نتیجے میں آپ کاخط بدنما ہو جائے گا ہم جتنے کام کرتے ہیں وہ بھی اسی طرح ہماری روح پر اثرانداز

۶۵

ہوتے ہیں اچھے کام اچھے اثر اور برے کام برا اثر چھوڑتے ہیں_

ہماری زندگی کے کام

جب ہم اچھے کام کرتے ہیں تو وہ ہماری روح پر اثرانداز ہوتے ہیں اور ہمیں پاک اور نورانی کردتے ہیں ہم نیک کام بجالانے سے ہمیشہ اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور اللہ تعالی سے انس و محبت کرتے ہیں اور نیک کام بجالانے کے انجام سے لذّت اٹھاتے ہیں صحیح عقیدہ ہے اور ہمیں نورانی اور خوش رو کردیتا ہے_ برے کردار اور ناپسندیدہ اطوار بھی انسان پر اثر چھوڑتے ہیں انسان کی روح کی پلید اور مردہ کردیتے ہیں پلید روح خدا کی یاد سے غافل ہوا کرتی ہے وہ برے کاموں کی عادی ہونے کی وجہ سے سیاہ اور مردہ ہوجاتی ہے اور انسان کو ترقی سے روک دیتی ہے ہماری خلقت بیکار نہیں ہے اور ہمارے کام بھی بیہودہ اور بے فائدہ نہیں ہیں ہمارے تمام کام خواہ اچھے ہوں یا برے ہم پر اثر انداز ہوتے ہیں اور یہ اثر باقی رہتا ہے ہم اپنے تمام کاموں کے اثرات آخرت میں دیکھیں گے بہشت اور اس کی عمدہ نعمتیں صحیح عقیدہ رکھنے اور اچھے کاموں کے کرنے سے ملتی

۶۶

ہیں اور جہنّم اور اس کے سخت عذاب باطل عقیدہ اور ناپسندیدہ کاموں کے نتیجے میں ہمارے تمام کام خواہ اچھے ہوں یا برے ہوں ہماری زندگی کے حساب میں لکھے جاتے ہیں اور وہ ہمیشہ باقی رہتے ہیں ممکن ہے کہ ہم اپنے کاموں سے غافل ہوجائیں لیکن وہ ہرگز فنا نہیں ہوتے اور تمام کے تمام علم خدا میں محفوظ ہیں آخرت میں ہم جب کہ غفلت کے پردے ہت چکے ہوں گے اپنے کاموں کا مشاہدہ کریں گے_

خدا قرآن میں فرماتا ہے_ کہ جب انسان کو حساب کے لئے لایا جائے گا اور وہ نامہ اعمال کو دیکھے گا اور اپنے اعمال کا مشاہدہ کرے گا تو تعجب سے کہے گا یہ کیسا نامہ اعمال ہے کہ جس میں میرے تمام کام درج ہیں کس طرح میرا کوئی بھی کام قلم سے نہیں چھوٹا_ اللہ تعالی کی طرف سے خطاب ہوگا تیرے کام دنیا میں تیرے ساتھ تھے لیکن تو ان سے غافل تھا اب جب کہ تیری روح بینا ہوئی ہے تو تو اس کو دیکھ رہا ہے ''دوسری جگہ ارشاد الہی ہوتا ہے''

جو شخص اچھے کام انجام دیتا ہے قیامت کے دن اسے دیکھے گا'' اور جو شخص برے کام انجام دیتا ہے معدہ ان کو قیامت کے دن مشاہدہ کرے گا_

اب جب کہ معلوم ہوگیا ہمارے تمام کام خواہ اچھے یا برے فنا نہیں ہوتے بلکہ وہ تمام کے تمام ہماری زندگی کے نامہ اعمال میں درج ہوجاتے ہیں اور آخرت میں ان کا کامل نتیجہ ہمیں ملے گا تو کیا ہمیں اپنے اخلاق اور کردار سے بے پرواہ ہونا چاہیئے؟

۶۷

کیا ہماری عقل نہیں کہتی؟ کہ خداوند عالم کی اطاعت کریں اور اس کے فرمان او رحکم پر عمل کریں؟

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ اچھے کام اور اچھا اخلاق ہماری روح پر کیا اثر چھوڑتے ہیں؟

۲)___ برے کام اور برے اخلاق کیا اثر چھوڑتے ہیں؟

۳)___ کیا ہمارے برے اور اچھے کام فنا ہوجاتے ہیں؟

۴)___ کن چیزوں کے ذریعہ سعادت اور کمال حاصل ہوتا ہے؟

۵)___ بہشت کی نعمتیں کن چیزوں سے ملتی ہیں؟

۶)___ جہنم کا عذاب کن چیزوں سے ملتا ہے؟

۷)___ ہمارے کام کہاں درج کئے جاتے ہیں؟

۸)___ کیا ہم اپنے کاموں کو دیکھ سکیں گے؟

۹)___ خداوند عالم ہمارے اعمال کے بارے میں کیا فرماتا ہے؟

۱۰)___ اب جب کہ سمجھ لیا ہے کہ ہمارے تمام کام محفوظ کر لئے جاتے ہیں تو ہمیں کون سے کام انجام دیتے چاہیئےور کسی طرح زندگی بسر کرنی چاہیئے

۶۸

حصّہ سوم

نبوّت

۶۹

پہلا سبق

صراط مستقیم

اگر زندگی میں کامیاب ہونا چاہیں تو کون سا راستہ اختیار کریں گے؟ دونوں جہانوں میں سعادت مند ہونے کے لئے کون سا منصوبہ آپ کے پاس موجود ہے؟ کیا آپ نے اس کے متعلق فکر کی ہے؟ اگر آپ چاہتے ہیں کہ کامل اور اچھا انسان بن جائیں تو کیا آپ کے پاس ہے؟

کیا آپ دوسروں کو دیکھ رہے ہیں جو راستہ انہوں نے اختیار کیا ہے آپ بھی اسی پر چلیں گے؟

جو پروگرام انہوں نے منتخب کیا ہے آپ بھی وہی انتخاب کریں گے؟

کیا راست کے انتخاب اورمقصود زندگی کے متعلق فکر نہیں کرتے کیا درست پروگرام کے انتخاب میںکبھی نہیں سوچتے؟

۷۰

شاید آپ کہیں کہ میں خود اچھا پروگرام بنا سکتا ہو کیا آپ اس جہان اور آخرت کی تمام ضروریات سے باخبر ہیں یا بے خبر؟ تو پھر کس طرح اچھا اور مکمل آپ خود بناسکتے ہیں؟

آپ شاید یہ کہیں کہ اہل عقل اور دانشور اور علماء میرے لئے زندگی کا پروگرام مہيّا کرسکتے ہیں لیکن کیا یہ حضرات آپ کی دنیا اور آخرت کی احتیاجات سے مطلع ہیں کیا یہ لوگ آخرت سے باخبر ہیں؟

پس کون ذات انسان کے کامل اور سعادت مند ہونے کاپروگرام بناسکتی ہے؟

انسان؟ یا انسان کا خالق؟ البتہ انسان کا خالق کیوں کہ اس نے انسان کوپیدا کیاہے وہ خلقت کے اسرار سے آگاہ ہے صرف وہی انسان کی دنیا اور آخرت میں زندگی کے شرائط سے باخبر ہے اسی لئے صرف وہی انسان کی زندگی کے باکمال اور سعادتمند ہونے کا پروگرام منظّم کرنے کا اہل ہے پس سعادت اور کمال کا بہترین پروگرام وہی ہوگا جو اللہ تعالی نے منظم کیا ہو اور اسے اپنے پیغمبروں کے ذریعے انسان تک پہنچاتا ہو کیا آپ نے کبھی سوچا ہے؟ کہ زندگی کے لئے کونسا راستہ انتخاب کریں گے؟

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ کیا آپ خود دنیا اور آخرت کے لئے پروگرام بناسکتے ہیں

۷۱

اور کیوں وضاحت کیجئے؟

۲)___ کیا کوئی دوسرا ایسا کرسکتا ہے اور کیوں؟

۳)___ پس ایسا کون کرسکتا ہے اور کیوں؟

۴)___ خداوند عالم نے انسان کی سعادت کا پروگرام کس کے ذریعہ بھیجا ہے؟

۵)___ اگر چاہیں کہ دنیا اور آخرت میںکامیاب اور سعادتمند ہوں تو کس پروگرام کا انتخاب کریں اور کیوں؟

۷۲

دوسرا سبق

کمال انسان

جب گیہوں کے دانے کو زمین میں ڈالیں اور اسے پانی دیں تو اس میں کیا تبدیلی آتی ہے؟ کون سا راستہ اختیار کرتا ہے؟ کیا کوئی خاص ہدف اور غرض اس کے سامنے ہے اور کس مقصد کو حاصل کرنا چاہتا ہے گیہوں کا دانا ابتداء ہی سے ایک معین ہدف کی طرف حرکت شروع کردیتا ہے اس مقصد اور غرض تک پہنچنے کے لئے بڑھتا ہے یعنی ابتداء میں گیہوں کا دانہ زمین میں جڑیں پھیلاتا ہے پھرتنا، اور پھر سبز ہوجاتا ہے او ربتدریج بڑا ہونے لگتا ہے اور خوش نکالتا ہے گیہوں کا ایک دانہ کئی خوشے بناتا ہے اور پھر یہی خوشے انبار بن جاتے ہیں اور اس انبار سے ہزاروں انسان استفادہ کرتے ہیں تمام نباتات گیہوں کے دانے کی طرح کمال کا راستہ طے کرتے ہیں اور معین اور معلوم غرض و غائت

۷۳

جو ہر ایک کے لئے معین ہوئی ہے کی طرف حرکت کرتے ہیں آپ اگر سیب کا دانہ کاشت کریں اور اسے پانی دیں اس کی ابتداء ہی سے آپکو معلوم ہوجائے گا کہ چھوٹا دانہ ایک معین غرض و ہدف رکھتا ہے اور اسی کی طرف حرکت شروع کرتا ہے اور اپنے کمال کو پہنچتا ہے یعنی چھوٹا دانہ جڑیں پھیلاتا ہے تنا اور شاخ نباتا ہے سبز ہوتا ہے اور بڑا ہوتا جاتا ہے ہر دن پہلے دن سے زیادہ کمال کی طرف ہوتا ہے بالآخر اس میں شگوفہ پھوٹتا ہے اور یہ خوبصورت شگوفہ سیب بن جاتا ہے اسی ترتیب سے وہ چھوٹا دانہ تکمیل کو پہنچتا ہے اور اپنی حرکت اور کوشش کے نتیجے کو انسان کے اختیار میں دے دیتا ہے اللہ تعالی جو عالم اور قادر ہے اور جس نے تمام چیزوں کو پیدا کیا ہے اور تکامل کا راستہ بھی انھیں ودیت کردیا ہے اور اس کے پہنچنے تک وسائل اور اسباب بھی ان کے لئے فراہم کردیئے ہیں مثلاً دوسرے پودے گیہوں اور سیب کے دانے کی طرح اپنے کمال کے لئے پانی، مٹی، ہوا، اور روشنی کے محتاج ہیں اللہ تعالی نے پانی، مٹی، روشنی اور ہوا، ان کے لئے پیدا کردی ہے تا کہ پودے ان سے استفادہ کریں اور مکمل ہوکر مقصد کو پالیں_

انسان کو بھی اپنے مقصد خلقت کوحاصل کرنا چاہیے کس طرح اور کس کے ماتحت؟

کون جانتا ہے کہ انسان کا جسم اور روح کن چیزوں کے محتاج ہیں اور کس طرح کمال حاصل کریں گی، البتہ صرف خدا جانتا ہے کیوں کہ تنہا وہی ذات ہے جو انسان کی خلقت کے اسرار سے آگاہ ہے اور وہی ذات

۷۴

ہے جو آخرت میں انسان کی ضرورت سے باخبر ہے اسی لئے خالق اور مالک نے تمام دنیا کی چیزوں کو اکمل بنایا ہے اور انسانیت کی معراج کے لئے پروگرام بنائے ہیں اور پیغمبروں کے وسیلے اور ذریعہ سے انسان تک پہنچائے ہیں_ آخری اور اہم ترین پروگرام آخری پیغمبر جو حضرت محمد صل اللہ علیہ و آلہ و سلم ہیں کے وسیلے سے تمام لوگوں کے لئے بھیجا ہے اس پروگرام کا نام تکامل دین اسلام ہے

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ تھوڑا سا گیہوں کسی برتن میں ڈالیں اور اسے پانی دیں دیکھیں گیہوں کا یہ دانہ کس طرح اپنے لئے راستہ معین کرلیتا ہے او رکس غرض کی طرف حرکت کرتا ہے؟

۲)___ سیب اور تمام پودے اور نباتات کے لئے غرض اور ہدف ہے، اس جملے کے کیا معنی ہیں؟

۳)___ نباتات کو کامل ہونے کے لئے کن کن چیزوں کی ضرورت ہے؟

۴)___ انسان کی معراج کا پروگرام کون بنا سکتا ہے؟ اور کیوں

۵)___ خدا نے انسان کی معراج کا پروگرام کنکے وسیلے ان تک پہنچایا ہے

۶)___ آخری اور مکمل ترین پروگرام ہمارے لئے کون لایا ہے؟

۷)___ اس آخری پروگرام کا کیا نام ہے؟

۷۵

تیسرا سبق

راہنما کیسا ہونا چاہیئے

جو بچّہ اپنا گھر بھول گیا ہو اسے کسکے سپرد کریں گے کون اس کی راہنمائی کر سکتا ہے اور اسے اس کے گھر پہنچا سکتا ہے؟ کیا وہ آدمی جو امین نہ ہو اس پر اعتماد کر کے بچّے کو اس کے سپرد کریں گے اور کیوں؟ اس کو جو اس کے گھر کو نہیں جانتا یا راستوں سے بھٹک جاتا ہے اسکی رہنمائی کے لئے انتخاب کریں گے؟ اور کیوں پس راہنما کو چاہئے کہ راستے کو ٹھیک جانتا ہو نیک اور امین ہو اور غلط راہنمائی نہ کرتا ہو پیغمبر وہ انسان ہوتا ہے جو امین اور نیک ہوتا ہے اللہ تعالی نے اسے لوگوں کی راہنمائی کے لئے چنا ہے اور اسے دنیا اور آخرت کی زندگی کا راستہ بتلایا ہے اور انسانوں کی رہبری اس کے سپرد کی ہے_

۷۶

چوتھا سبق

پیغمبر کو کیسا ہونا چاہیے

جب آپ کسی دوست کی طرف پیغام بھیجنا چاہتے ہوں تو یہ پیغام کس کے سپرد کرتے ہیں اس کے سپرد کرتے ہیں جو آپ کے دوست تک پہنچا دے یا جھوٹے اور غلط آدمی کو پیغام پہنچانے کے لئے منتخب کرتے ہیں یا کمزور حافظی اور غلطی کرنے والے کو ان میں سے کس کو پیغام پہنچاتے کے لئے انتخاب کرتے ہیں؟

جی ہاں پیغام پہنچانے کے لئے سچّا اور صحیح آدمی ہونا چاہیئے تا کہ پیغام کو بھول نہ جائے اسکے سننے اور پہنچانے میں غلطی نہ کرے خدا بھی اپنا پیغام پہنچانے کے لئے سچّے اور صحیح آدمی کو چنتا ہے اور اس کو پیغام دیتا ہے پیغمبر خدا کے پیغام کو صحیح حاصل کرتا ہے اور اس پیغام کو لوگوں تک پہنچاتا ہے _

۷۷

پانچواں سبق

اجتناب گناہ کا فلسفہ

میلے کچیلے کپڑوں کو ایک طشت میںدھویا ہو تو کون ہے جو اس میلے پانی کو پیئے گا؟ اگر وہی پانی کسی اندھے یا بے خبر انسان کو دیں تو ممکن ہے کہ وہ اسے پی لے_ لیکن آنکھوں والا اور انسان کیسے جو شخص اس کی گندگی اور خرابی کودیکھ رہا ہو اور اس کے باخبر اثرات کو جانتا ہو ایسے پانی کو دیکھ تو کیا اسے پیئے گا؟ جی ہاں ہر وہ شخص جو بینا اور آگاہ ہو وہ کوئی گندی اور خراب چیز سے اپنے آپ کو آلودہ نہیں کرے گا بلکہ اس سے نفرت اور بیزاری کرے گا اسی طرح پیغمبر بھی گناہ سے نفرت کرتے تھے وہ گناہ کے بجالانے پر قدرت رکھتے تھے لیکن کبھی گناہ نہیں کیا کیونکہ وہ گناہ کی پلیدی اور برائی کو دیکھ رہے تھے یہ اطلاع اور آگاہی ان کو خداوند عالم نے عطا فرمائی تھی_

۷۸

چھٹا سبق

پیغمبر آگاہ اورمعصوم راہنما ہیں

خداوند عالم نے اپنا پیغام پہنچانے کے لئے ایسے انسان کا انتخاب کیا جو امین ہیں انہیں دین کا کامل نمونہ قرار دیا ہے تا کہ ان کا کردار اور گفتار لوگوں کو خدا کی طرف راہنمائی کرے پیغمبر انسانوں میں بہترین اور کامل ترین فرد ہوتا ہے علم و اخلاق اور کردار میں تمام مردوں سے افضل ہوتا ہے خدا اس کی تربیت کرتا ہے اور پھر اس کا انتخاب کرتا ہے تا کہ لوگوں کا پیشوا اور نمونہ ہو_ پیغمبر دنیا اور آخرت کی سعادت کے راستے اچھی طرح جانتا ہے یعنی اللہ تعالی نے اسے جو بتلایا ہے پیغمبر خود ان راستوں پر چلتا ہے اور لوگوں کو ان راستوں پرچلنے کی راہنمائی اور اس کی طرف دعوت دیتا ہے پیغمبر خدا کو اچھی طرح پہنچانتا ہے اور اسے بہت دوست رکھتا ہے، دنیا اور آخرت جہنم اور بہشت سے پوری طرح آگاہ ہوتا ہے

۷۹

اچھے اور برے اخلاق کو اچھی طرح پہنچانتا ہے وہ گناہ کی پلیدی اور بدنمائی کو دیکھتا ہے اور یہ جانتا ہے کہ گناہ انسان کی روح کو آلودہ اور کثیف کردیتا ہے_ اللہ تعالی جو عالم اور قادر ہے اس نے یہ علم پیغمبر کے اختیار میں دیا ہے پیغمبر اس آگاہی اور علم سے گناہ کی گندگی اور بدنمائی کا مشاہدہ کرتا ہے اور جانتا ہے کہ خدا گناہ گار انسان کو دوست نہیں رکھتا اور اس سے ناراض ہوتا ہے اسی لئے پیغمبر ہرگز گناہ نہیں کرتا بلکہ گناہ سے نفرت کرتا ہے_

پیغمبر خدا کے پیغام کو بغیر کسی کمی و بیشی کے لوگوں تک پہنچاتا ہے اور اس سے غلطی اور نسیان نہیں ہوتا_ اور چونکہ گناہ اور غلطی نہیں کرتا لوگ بھی اس پر اعتماد کرتے ہیں اور اس کے کردار اور گفتار کو نمونہ قرار دیتے ہیں_ ایسے ہی انسان کو معصوم کہتے ہیں اور اللہ تعالی کے تمام پیغمبر معصوم ہوتے ہیں یعنی گناہ نہیں کرتے اور ان سے غلطی اورنسیان نہیں ہوتا وہ نیک اور امین ہوتے ہیں_

پیغمبر لوگوں میں سے عالم اور معصوم ہوتے ہیں اللہ کے پیغام کو پہنچاتے ہیں اور ان کی راہنمائی کرتے ہیں اور اللہ کی طرف اور دائمی سعادت کی طرف راہنمائی کرتے ہیں_

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ راہنما کے لئے کون سی حفاظت صفات ہونی چاہئیں؟

۸۰

اس بات کا یقین کروگے؟ ہرگز نہیں بلکہ اس کا مذاق اڑاؤ گے پس کس طرح تم ایک تصویر کے بارے میں اس بات کے منکر ہوجاتے ہو اور کہتے ہو کہ یہ خود بخود وجود میں نہیں آسکتی ، لیکن جو انسان ناطق ہے اس کے بارے میں اس طرح کے اقوال کے منکر نہیں ہوتے۔

( حیوان کا جسم ایک حد معین پر رک جاتا ہے )

اے مفضل۔ اگر یہ فیصلہ کرلیا جائے کہ حیوان کے اندر کوئی تدبیر استعمال نہیں ہوئی تو وہ حیوانات جو ہمیشہ کھاتے پیتے ہیں ، کیونکر ان کے جسم ایک خاص و معین حد پر پہنچ کر رک جاتے ہیں اور رشد و نمو نہیں کرتے اور ہرگز اپنی حد سے تجاوز نہیں کرتے؟ بے شک یہ حکیم کی تدبیر ہے کہ تمام حیوانات کے جسم چاہے وہ حیوانات چھوٹے ہوں یا بڑے ایک حد تک نشوونما کرتے ہیں اور اس کے بعد وہ اس حد سے تجاوز نہیں کرتے ، جبکہ وہ ساری زندگی کھاتے پیتے ہیں ، ایسا اس لئے ہے کہ اگر جانور ہمیشہ رشد ونمو کرتے تو ان کے جسم بہت زیاد بڑے ہوجاتے اور ان کا قیافہ ایک دوسرے سے مشتبہ ہوتا، اور ان میں سے کسی ایک کے لئے بھی حد معین کی شناخت نہ ہوتی ، آخر کیوں انسان کا جسم راہ چلتے حرکت کرتے اور دقیق کاموں کے وقت سنگین ہوجاتا ہے ؟ سوائے اس کے کہ انسان کو اپنی زندگی میں جن چیزوں کی ضرورت ہے، جیسے لباس، لحاف، کفن وغیرہ کو حاصل کرنے میں اسے سختی و مشقت کا سامنا کرنا پڑے ، اس لئے کہ اگر انسان کو سختی و مشقت کا سامنا کرنا نہ پڑتا تو پھر کون سی چیز اُسے فحش باتوں سے روک سکتی تھی اور کس طرح وہ خدا کے سامنے تواضع اور لوگوں کے ساتھ مہربانی سے پیش آتا، کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جب انسان کو سختی و پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ خضوع و خشوع کے ساتھ اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اپنے مال کو صدقہ کرتا ہے اب مفضل۔ ذرا سوچو تو سہی اگر انسان کو مارنے کے باوجود درد محسوس نہ ہوتا تو پھر بادشاہ کس وسیلے سے مجرم کو اس کے کیے کی سزا دیتا، اور کس طرح طغیانگر افراد کو

۸۱

ذلیل کیا جاتا، اور کس طرح کوئی غلام اپنے آقا و مولا کے سامنے اپنے آپ کو ذلیل سمجھتا اور اپنی گردن کو اس کے سامنے جھکائے رکھتا، کیا ابن أبی العوجاء اور اس کے ساتھیوں کے لئے یہ حجت و دلیل کافی نہیں؟ کہ جو خداوند متعال کی تدبیر کا انکار کرتے ہیں ، اور اس گروہ مانویہ کے لئے جو درد و ألم کا انکار کرتے ہیں(وہ کہتے ہیں کہ انسان کو کسی بھی قسم کا درد و ألم نہیں ہوناچاہیے تھا )

اگر حیوان نر اور مادہ کی شکل میں پیدا نہ ہوتے تو کیا ان کی نسل منقطع نہ ہوجاتی، لہٰذا خداوند متعال نے حیوانات میں سے بعض کو نر اور بعض کو مادہ کی صورت میں پیدا کیا تاکہ حیوانات کی نسل کا سلسلہ باقی رہے اور منقطع ہونے نہ پائے اگر ان تمام کاموں میں تدبیر نہ ہوتی تو پھر کیونکر مرد و زن جب حد بلوغ پر پہنچتے ہیں تو ان کے زیر شکم بال اُگتے ہیں ، پھر مرد کے داڑھی اُگتی ہے جبکہ عورت کے نہیں اُگتی ، یہ اس لئے کہ خداوند متعال نے مرد کو عورت کے لئے سرپرست و نگہبان قرار دیا ہے۔ اور عورت کو مرد کے لئے عروس و تحفہ قرار دیا۔ پس مرد کو داڑھی عطا کی، جس میں مرد کے لئے جلالت و ہیبت و عزت ہے لیکن عورت کو داڑھی اس لئے عطا نہ کی تاکہ اس کے چہرے کی زیبائی اور خوبصورت باقی رہے اور اس میں اپنے شوہر کے لئے ایک لذت ہو، کیا تم نہیں دیکھتے کہ خلقت میں کس طرح ہر چیز تدبیر و حکمت کے مطابق ہے اور خطاء لغزش کا کوئی راستہ اُس میں دیکھائی نہیں دیتا، خداوند متعال اپنی تدبیر و حکمت کے تحت انسان کو وہی کچھ دیتا ہے جس کی اسے ضرورت ہے۔

مفضل کا بیان ہے کہ اس وقت وقت ِ زوال آپہنچا، میرے آقا ومولا نماز کے لئے کھڑے ہوگئے، آپ نے فرمایا تم کل صبح سویرے میرے پاس آجاؤ (انشاء اللہ) میں اپنے مولا کی خدمت سے ان تمام چیزوں پر خوشحال واپس پلٹا جو میں نے حاصل کیں اور آپ نے مجھے تعلیم کیں۔ میں خداوند متعال کا شکر گزار تھا اس پر جو کچھ اس نے مجھے عطا کیا اور یہ کہ اپنی نعمتیں مجھے بخشیں اور جو کچھ مجھے میرے آقا و مولا نے مجھے تعلیم دی اور اس رات میں ان تمام چیزوں پر جو مجھے عطا کی گئیں ، مسرور و خوشحال سویا۔

۸۲

( روز دوّم )

۸۳

۸۴

مفضل کا بیان ہے کہ میں دوسرے دن صبح سویرے امام ـ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا، اجازت لینے کے بعد آپ کی زیارت سے شرفیاب ہوا ، آپ نے مجھے بیٹھنے کے لئے کہا پھر امام ـ نے فرمایا: بیشک تمام تعریفیں اُس خدائے بزرگ کے لئے ہیں جو مدبر ہے جو ایک زمانے کے بعد دوسرے زمانے ایک طبقے کے بعد دوسرے طبقے اور ایک عالم کے بعد دوسرے عالم کا لانے والا ہے، تاکہ برے لوگوں کو اُن کے برے اعمال کے مطابق سزا دی جائے اور نیک اور اچھے افراد کو اُن کے نیک اور اچھے اعمال کے بدلے اجر وثواب عطا کیا جائے اور یہ سب باتیں اُس کے عدل کی بنیاد پر ہیں کہ جس کے أسماء پاک و پاکیزہ اور جس کی نعمتیں بے شمار ہیں جو ہرگز اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا مگر یہ کہ بندے خود اپنے نفسوں پر ظلم کرتے ہیں ، اس بات کی روشن دلیل اس کی آیتیں ہیں (کہ وہ فرماتا ہے )

( فَمن یَعْمَلْ مثقال ذرة خیراً یرا (٧) وَ مَن یَعْمَل مثقال ذرة شراً یره )(٨)

جس نے ذرہ برابر نیکی کی وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر بدی کی تو اُسے دیکھ لے گا(1)

اور اس قسم کی دوسری آیتیں کہ جن میں ہر چیز کا بیان موجود ہے جو خالق حکیم و حمید کی طرف سے نازل شدہ ہیں جن میں کسی بھی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں اور اسی بارے میں ہمارے سید و سردار حضرت محمد مصطفی (ص) ارشاد فرماتے ہیں کہ یہ سوائے تمہارے أعمال کی جزاء کے علاوہ کچھ بھی نہیں کہ جو روز قیامت تمہاری طرف پلٹائی جائے گی۔ مفضل کا بیان ہے کہ پھر کچھ دیر امام ـ نے اپنے سر کو جھکائے رکھا اور ارشاد فرمایا: اے مفضل ، لوگ نافرمانی اور سرکشی میں پڑے ہوئے ہیں، شیاطین اور طاغوت کی اتباع کرتے ہیں ، گویا یہ ایسے بینا ہیں جو اندھے ہیں اور نہیں دیکھتے اور ایسے کلام کرنے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورہ زلزال۔

۸۵

والے ہیں جو گونگے ہیں اور فکر نہیں رکھتے ، اور ایسے سننے والے ہیں جو بہر ے ہیں اور نہیں سنتے یہ لوگ دنیا کی پستی پر راضی ہوگئے ، اور گمان کرتے ہیں کہ وہ نیک اور ہوشیار ہیں اور اُن کاشمار ہدایت یافتہ لوگوں میں ہوتا ہے اس کے باوجود کہ وہ برے کاموں کی طرف اس طرح مائل اور غرق ہیں کہ جیسے وہ موت کے آنے سے أمن و امان میں ہیں اور ہر طرح کی جزاء و سزا سے بری ہیں ! صد افسوس ایسے لوگوں پر جن کے دل سخت ہوگئے ہیں اور وہ اس دن سے لاپروا ہیں کہ جس دن کی مصیبت طولانی اور شدید ہے ، جس دن کوئی دوست کسی دوست کے کام نہ آئے گا ، اور نہ کسی کی یاری و ہمدردی قبول کی جائے گی، سوائے اس کے کہ جس پر خدا اپنا رحم کرے۔

مفضل کا بیان ہے کہ امام ـ کے ان الفاظ نے مجھ پر گہرا اثر کیا اور میں گریہ کرنے لگا، امام ـ نے ارشاد فرمایا: اے مفضل گریہ نہ کرو اس لئے کہ تم ان تمام چیزوں سے بری ہو، کیوں کہ تم نے معرفت و شناخت کے ذریعے حقیقت کو قبول کیا اور نجات پائی ۔

( حیوانات کی خلقت )

پھر آپ نے فرمایا: اے مفضل ۔ اب میں تمہیں حیوانات کی خلقت کے بارے میں بتاتا ہوں تاکہ وہ تم پر اُسی طرح واضح ہوجائے جس طرح سے اس کے علاوہ دوسری تمام باتیں تم پر واضح اور روشن ہوچکی ہیں۔

( اے مفضل) فکر کرو حیوان کے بدن کی ساخت پر کہ کس طرح خلق کیا گیا ہے ، نہ زیادہ سخت مثل پتھر کے کہ اگر ایسا ہوتا تو حیوان کے لئے حرکت کرنا زحمت و مشقت کا باعث بنتا، اور وہ ہرگز اپنے کاموں کو بآسانی انجام نہیں دے سکتا تھا اور نہ ہی اتنا زیادہ نرم و نازک بنایا کہ وہ حمل اور باربرداری کے کام میں استعمال نہ کیا جاسکے پس خداوند متعال نے اس طرح کی تدبیر کی کہ اسے ظاہری طور پر نرم

۸۶

گوشت سے پیدا کیا اور اس کی کمر میں ایک ایسی مضبوط ہڈی کو رکھا جسے رگوں اور اعصاب نے گھیرا ہوا ہے جو ایک دوسرے کو مضبوطی سے گرفت میں لئے ہوئے ہیں اور اُس کے اُوپر ایک ایسی کھال کے لباس کو پہنایا جو تمام بدن کا احاطہ کئے ہوئے ہے، اس کی مثال لکڑی کی سی ہے جس پر کپڑا لپیٹ کر دھاگے سے مضبوطی سے باندھ دیا جائے اور اس کے اوپر گوند لگایا جائے تو لکڑیاں ، ہڈیوں کی مانند، کپڑا گوشت کی مانند، دھاگہ رگ و عصاب کی مانند اور گوند کھال کی مانند ہے ، اگر یہ بات ان حیوانات کے بارے میں کہی جائے کہ یہ محض اتفاقات کا نتیجہ ہیں اور کسی صانع اور خالق نے انہیں پیدا نہیں کیا۔ تو پھر ضروری ہے کہ بالکل یہی بات اُن تصاویر اور مجسموں کے بارے میں کہی جائے جو بے جان ہیں لیکن جب یہ بات بے جان تصاویر و مجسموں کے بارے میں کہنا صحیح نہیں ، تو پھر حیوانات کے بارے میں تو بدرجہ اولیٰ صحیح نہیں ہے۔

( حیوان کو ذہن کیوں نہ عطا کیا گیا )

اے مفضل ۔ اب تم حیوانات کے جسم پر غور کرو انہیں انسان کے لئے پیدا کیا گیا ہے لہٰذا جس طرح ان کے بدن کو گوشت ، ہڈی ، اعصاب عطا کئے اسی طرح انہیں کان اور آنکھ بھی عطا کئے، تاکہ انسان انہیں اپنی ضرویات کے استعمال میں لاسکے، اس لئے کہ اگر حیوانات بہرے، اندھے ہوتے تو انسان ان سے ہرگز فائدہ نہیں اُٹھا سکتا تھا اور خود حیوانات بھی اپنے کاموں کو انجام نہیں دے سکتے تھے لیکن انہیں ذہن عطا نہیں کیا گیا، تاکہ وہ انسان کے سامنے جھکے رہیں اور جب انسان اُن سے باربرداری کا کام لے تو یہ اسے انجام دینے سے منع نہ کریں اب اگر کوئی یہ کہے کہ بعض غلام بھی تو ایسے ہیں کہ جو انسان کے سامنے ذلیل ہیں اور سخت ترین کاموں کو انجام دینے کے لئے تیار ہیں ، جبکہ وہ صاحب عقل ہیں؟ تو اس سوال کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس قسم کے افراد بہت کم ہیں۔ اور اکثر افراد اس قسم

۸۷

کے سخت ترین کام مثلاً باربرداری، چکی چلانا وغیرہ کے انجام دینے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں اس کے علاوہ یہ کہ اگر اس قسم کے سخت کام بھی کہ جنہیں حیوانات انجام دیتے ہیں انسان کو انجام دینے پڑتے تو وہ دوسرے کاموں کو انجام نہیں دے سکتا تھا، اس لئے کہ ایک اونٹ یا خچرکی جگہ پر کئی آدمیوں کو کام کرنا پڑتا اور یہ کام انسانوں کو اس قدر مشغول رکھتا کہ جس کی تھکن ، سختی ، تنگی اور مشقت کی وجہ سے انسان کے پاس اتنا وقت باقی نہ رہتا کہ وہ صنعت یا دوسرے کاموں کو انجام دے سکے۔

( تین قسم کے جاندار کی خلقت )

اے مفضل ، تین قسم کے جاندار اور اُس تدبیرپر کہ جن کے تحت انہیں پیدا کیا گیا ہے ، غوروفکر کرو جس میں ان تینوں کی بھلائی ہے۔

( 1 ) انسان : جس کے لئے ذہانت و ادراک کو مقدر کیا تاکہ مختلف کام مثلاً تعمیرات ، تجارت ، بڑھئی کاکام ، سنہار کا کام او اس قسم کے دوسرے کام انجام دے ، لہٰذا اس کے لئے ہتھیلی ، پنجہ اور محکم انگلیاں پیدا کیں ، تاکہ وہ چیزوں کو پکڑ سکے اور مختلف چیزیں ایجاد کرکے انہیں محکم بنائے۔

( 1 ) گوشت کھانے والے جانور: جن کی تقدیر میں یہ رکھا گیا ہے کہ یہ اپنی زندگی شکار کرکے بسر کریں تو ان کے لئے چھوٹی انگلیوں والے پنجے اور چنگال کی مانند ناخن عطا کئے گئے ، جو شکار کو پکڑنے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں کہ جو صنعت کے لئے ہرگز مناسب نہیں۔

( 3 ) گھاس کھانے والے جانور: جو نہ صاحب صنعت ہیں اور نہ شکاری لہٰذا اُن میں سے بعض کو ایسے سُم عطا کئے جن میں شگاف ہے ، تاکہ اُن حیوانات کو چرتے وقت زمین کی سختی کا سامنا نہ کرنا پڑے اور بعض کے پاؤں انسان کے پاؤں سے شباہت رکھتے ہیں تاکہ یہ جانور زمین پر ٹھہر سکیں

۸۸

اور اُن سے باربرداری کی جاسکے ۔ اے مفضل ، فکر کرواس تدبیر پر کہ جو گوشت کھانے والے جانوروں کی خلقت میں استعمال ہوئی ہے ، تیز دانت ، چھوٹی مگر محکم انگلیاں اور وسیع و بزرگ منہ انہیں عطا کیا گیا ، یہ اس لئے کہ ان کی غذا گوشت ہے لہذا انہیں اس طرح کے اعضاء و جوارح عطا کیے کہ جو شکار کرنے میں ان کے مددگار ہوں۔ جیسا کہ بالکل یہی بات تم اُن پرندوں میں دیکھتے ہو جو درندہ صفت ہیں، کہ ان کے لئے بھی خصوصی چنگال خلق کیاگیا ہے تاکہ شکار کو پکڑنے اور پھاڑنے کے کام آئے ، اگر گھاس کھانے والے جانوروں کو جو نہ شکار کرتے ہیں اور نہ ہی گوشت کھاتے ہیں ، شکاری پرندوں کی طرح چنگال عطا کیا جاتا تو ان کے پاس یہ ایک زائد اور فضول چیز ہوتی کہ جس کی انہیں بالکل ضرورت نہیں ، بالکل اس طرح یہ بات بھی حکمت سے خالی ہوتی کہ اگر اُن حیوانات کو کہ جو درندہ صفت ہیں وہ چیزیں عطا نہ کی جاتی کہ جن کے وہ محتاج ہیں یعنی وہ چیزیں جن کے ذریعے وہ شکار کرکے اپنی زندگی بسر کرتے ہیں ، کیا تم نہیں دیکھتے کہ ان جانوورں کے لئے تمام اُن چیزوں کو فراہم کیا گیا ہے جو ان کے لئے مناسب اور ضروری تھیں یا یوں کہا جائے کہ جن کے اندر ان کی بقاء اور بھلائی تھی۔

( چوپائے )

اب ذرا چوپاؤں پر غور کرو کہ کس طرح اپنے والدین کی اتباع کرتے ہیں اور مستقل راہ چلتے ہیں اور حرکت کرنے میں مشغول رہتے ہیں اور ہرگز اپنی زندگی میں والدین کے حمل و نقل اور ان کی تربیت کے محتاج نہیں ہوتے جس طرح سے انسان اپنی زندگی میں والدین کی تربیت کا محتاج ہوتا ہے ایسا اس لئے ہے کہ چوپاؤں کی ماں کہ پاس وہ سب کچھ نہیں ہوتا کہ جو انسان کی ماں کے پاس موجود ہے، مثلاً علم تربیت، ہاتھوں اور انگلیوں کی قوت اور کیوں کہ یہ تمام چیزیں حیوان کے پاس موجود نہیں لہٰذا اُن کے بچوں کو ایسی قوت عطا کی کہ وہ خود مستقل طور پر کھڑے ہوتے ہیں اور بغیر ماں کی مدد کے راہ چلتے

۸۹

ہیں اور بالکل اسی چیز کا مشاہدہ تم بہت سے پرندوں میں بھی کروگے ، مثلاً خانگی مرغی، تیتر اور قیچ(1) وغیرہ کے بچے انڈے سے باہر آتے ہیں اور راہ چلنے لگتے ہیں اور دانہ چگتے ہیں لیکن وہ پرندے کہ جو ان سے زیادہ ضعیف اور لاغر ہیں کہ جن میں نہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی صلاحیت ہے اور نہ پرواز کی مثلاً پالتو کبوتر، جنگلی کبوتر اور حمّر(2) کے بچے، کہ ان کی ماں کے دل میں ان کی اتنی زیادہ محبت رکھی کہ تم اس بات کا مشاہدہ کرو گے کہ وہ خود اپنے بچوں کے منہ میں غذا دیتی ہے اور غذا دینے کا یہ عمل اُس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک اِ ن کے بچے خود غذا کو چگنے کی صلاحیت پیدا کرلیں اور وہ خود مستقل ہوجائیں کبوتر کو خانگی مرغی کی طرح بچے بھی زیادہ عطا نہ کئے تاکہ وہ اپنے تمام بچوں کی پرورش اچھی طرح کرسکے، اور وہ فاسد ہو کر ہلاک ہونے سے محفوظ رہیں یہ خداوند حکیم و خبیر کی عظیم تدبیر ہے کہ اُس نے ہر ایک کو وہی تمام چیزیں عطا کیں جو اس کے لئے شائستہ اور مناسب ہیں۔

( چوپاؤں کی حرکت )

اے مفضل۔ ذرا حیوانات کے پاؤں کی طرف دیکھو کہ جب وہ راہ چلتے ہیں تو دونوں پاؤں دو دو کرکے آگے بڑھاتے ہیں کہ اگر ایک ایک کرکے آگے بڑھاتے تو راہ چلنا ان کے لئے دشواری کا باعث بنتا اس لئے کہ حیوانات راہ چلتے وقت بعض کو حرکت اور بعض پاؤں پر تکیہ کرتے ہیں اور جن حیوانات کے دو پاؤں ہیں وہ ایک پاؤں کو حرکت اور دوسرے پاؤں پر تکیہ کرتے ہیں ، چوپائے جن دو پاؤں کو حرکت دیتے ہیں وہ اُن دو پاؤں سے مختلف ہیں کہ جن پر وہ تکیہ کرتے ہیں اس لئے کہ اگر وہ اگلے دو پاؤں کو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ چکور کی طرح مرغی کی ایک قسم۔

(2)۔ سرخی مائل پرندہ۔

۹۰

حرکت دیتے اور پچھلے دو پاؤں پر تکیہ کرتے یا اس کے خلاف ہوتا تو جانور کسی بھی صورت میں زمین پر نہیں ٹھہرسکتا تھا، جس طرح سے تخت کہ اگر اس کے ایک طرف کے دونوں پائے نکال لیے جائیں تو تخت فوراً زمین پر گر جائے ا سی وجہ سے حیوانات راہ چلتے وقت دائیں ہاتھ اور بائیں پیر، بائیں ہاتھ اور دائیں پیر کو ایک ساتھ حرکت دیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ زمین پر ٹھہرے رہتے ہیںاور نہیں گرتے۔

( حیوانات کس طرح اپنے سر کو انسان کے سامنے جھکائے ہوئے ہیں )

اے مفضل۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ گدھا چکی کو چلاتے وقت اپنی کس قدر قوت اُس میں لگاکر وزن کھینچتا ہے۔ گھوڑا ، کس طرح اپنے سر کو انسان کے سامنے جھکائے ہوئے ہے۔ اونٹ ، اگر فرار کرنے پر آجائے تو کئی مرد اس کی طاقت کا مقابلہ نہیں کرسکتے لیکن کس طرح ایک بچہ کی مانند مطیع و فرمانبردار دکھائی دیتا ہے، اور بالکل اسی طرح بیل کہ جو بے انتہاء قوی اور طاقت ور ہے ، مگر کس طرح اپنے مالک کے سامنے سرتسلیم خم کئے ہوئے فرمانبردار بنا ہوا ہے کہ کھیتی باڑی کے سخت تختے کو اپنی گردن پر بار کئے ہوئے زراعت کا کام انجام دیتا ہے ، گھوڑا کس طرح تیروں اور تلواروں کے درمیان ٹھہرا رہتا ہے اور وہ اپنے مالک کی اس بات پر راضی ہے کہ وہ اسے اس کام میں استعمال کرے اور بھیڑوں کا ریوڑ کہ جسے ایک آدمی چراتا ہے کہ اگر یہ ریوڑ منتشر ہوجائے اور ان میں سے ہر ایک الگ سمت فرار کرے تو چرواہا انہیں کبھی جمع نہیں کرسکتا،ا ور اس قسم کے دوسرے تمام حیوانات جنہیں انسان کا مطیع بنایا گیا ہے۔

اے مفضل کیا تمہیں معلوم ہے کہ آخر وہ انسان کے سامنے کیوں کر اپنا سر جھکائے ہوئے ہیں؟

اس لئے کہ وہ عقل و فکر نہیں رکھتے کہ اگر وہ عقل و فکر رکھتے تو بہت سے کاموں کو انجام نہ دیتے اونٹ اپنے مالک ، بیل اپنے مالک اور گوسفند اپنے ریوڑ سے فرار کرجاتا اور اس کے علاوہ یہ کہ یہ تمام جانور انسان کے خلاف ایک ہوجاتے، اور انسان کو ہلاک کردیتے کہ جب شیر، بھیڑیا، چیتا اور ریچھ سب

۹۱

ایک ہوجاتے تو کون ان کے مقابلہ میں ٹھہرتا، اب ذرا غور کرو کہ خدواند متعال نے کس طرح انہیں یہ سب کرنے سے روکا ہوا ہے بجائے اس کے کہ انسان ان سے ڈرتے وہ انسان سے ڈرتے ہیں اور ا س سے دور بھاگتے ہیں اور فقط اپنی غذا کی تلاش میں رات کے وقت باہر نکلتے ہیں ۔

ہاں، وہ اس قدر قوی اور طاقتور ہونے کے باوجود بھی انسان سے ڈرتے ہیں اور انسان کی طرف رُخ نہیں کرتے ورنہ یہ انسان کو تنگ کرکے رکھ دیتے۔

( کتّے میں صفت ِ مہر و محبّت )

اے مفضل۔تمام حیوانات میں سے کتے کو اپنے مالک کے لئے ایک خاص مہر و محبت عطا کی ہے تاکہ وہ اپنے مالک کی حفاظت کرے، اور یہ کتا گھر میں بھی آمدو رفت رکھتا ہے اور یہ خاص طور پر رات کی تاریکی میں اپنے مالک کو خوف وہراس سے بچاتا ہے اور اس کی محبت اس حد تک پہنچ جاتی ہے کہ وہ اپنے مالک کے قدموں پر اپنی جان قربان کردیتا ہے، اور نہ فقط مالک سے بلکہ مالک کے مال سے بھی اُلفت رکھتا ہے اور اس کی الفت کی انتہاء تو یہ ہے کہ اگر اسے بھوکا رکھا جائے اور اس پر شدید ظلم کیا جائے تو بھی صبر کا مظاہرہ کرتا ہے، کتے میں اس صفت اُلفت و محبت کو اس لئے پیدا کیا گیا ہے تاکہ وہ انسان کے لئے حفاظت کا کام انجام دے، اسی لئے کتے کے بدن کو اس قسم کے آلات مثلاً تیزدانت، درندہ جیسے چنگال اور خوفناک آواز عطا کی تاکہ چور اُس جگہ جانے سے اجتناب کرے اور خوف محسوس کرے کہ جہاں کتا پہرہ دے رہا ہو۔

۹۲

( حیوانات کی شکل و صورت )

اے مفضل ، اب ذرا حیوانات کی شکل و صورت پر غور کرو آنکھیں سامنے چہرے پر قرار دی گئی ہیں تاکہ تمام چیزوں کو آسانی سے دیکھ سکیں اور سامنے کی کسی چیز سے نہ ٹکرائیں یا یہ کہ گڑھے میں گرنے سے محفوظ رہیں اور ان کے منھ کو نیچے کی طرف کھلنے والا بنایا کہ اگر ان کا منھ بھی انسان کے منھ کی طرح سامنے کی طرف کھلتا تو وہ ہرگز زمین سے کسی بھی چیز کو نہیں اُٹھا سکتے تھے، مگر کیا تم نہیں دیکھتے کہ انسان اپنے منھ سے چیزوں کو اُٹھا کر نہیں کھا سکتا بلکہ غذا کھانے میں اپنے ہاتھوں سے مدد لیتا ہے ، اور یہ وہ فضیلت و برتری ہے جو انسان تمام کھانے والوں پر رکھتا ہے ، اور کیوں کہ حیوانات کے ہاتھ نہیں کہ وہ غذا کو زمین سے اُٹھا کر کھا سکیں لہٰذا اُن کے منھ کو نیچے کی طرف کھلنے والا بنایا تاکہ گھاس کو زمین سے اُٹھا سکیں اور اُن کے ہونٹوں میں ایسی قوت کو رکھا کہ جس کی مدد سے وہ نزدیک اور دور پڑی ہوئی چیزوں کو بآسانی اپنی طرف کھینچ سکتے ہیں۔

( جانوروں کو دُم کی ضرورت )

اے مفضل۔ جانوروں کی دُم اور اس کے فائدہ سے عبرت حاصل کرو، یہ دُم حیوان کی شرمگاہ پر پردے کی مانند ہے کہ جو اسے چھپائے ہوئے ہے اور دُم کے فوائد میں سے ایک فائدہ یہ ہے کہ حیوان کے شکم اور شرمگاہ کا درمیانی حصہ آلودہ ہوتا ہے جس پر مکھی اور مچھر جمع ہوتے ہیں اور یہ دُم انہیں اس جگہ سے دور کرنے کے عمل کو انجام دیتی ہے اور پھر حیوانات دُم کو حرکت دینے سے راحت و سکون محسوس کرتے ہیں اس لئے کہ جانور چاروں ہاتھوں پیروں پر کھڑے ہوتے ہیں، اگلے دو ہاتھ بدن کا

۹۳

وزن اُٹھاتے ہیں جن میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی لہٰذا حیوانات دُم کو دائیں اور بائیں حرکت دے کر راحت و سکون حاصل کرتے ہیں۔ دُم میں حیوانات کے لئے اور بھی بہت سے فائدہ ہیں جن کے ادراک سے عقل قاصر ہے کہ جو ضرورت پڑنے پر ظاہر ہوتے ہیں مثلاً اُس وقت کہ جب حیوان دلدل وغیرہ میں پھنس جائے تو دُم سے بہتر دوسری کوئی چیز نہیں جس سے پکڑ کر اُسے کھینچ لیا جائے اور دُم کے بالوں میں بھی انسان کے لئے بہت سے فائدہ ہیں جس سے انسان اپنی ضرورت پوری کرتا ہے، خداوند متعال نے اس کی کمر کو ہموار وقرار دیا اور پھر اسے ہاتھ اور پاؤں پر کھڑا کیا تاکہ سواری اورباربرداری کے کام آسکے اور ا س کی شرمگاہ کو پشت سے نمایاں رکھا تاکہ اس کے نر کو مقاربت کرتے وقت پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے کہ اگر اس کی شرمگاہ بھی زیر شکم عورت کی طرح ہوتی تو اس کا نر اس سے ہرگز مقاربت نہیں کرسکتا تھا، کیا تم نہیں دیکھتے کہ حیوان اپنی مادہ کے ساتھ روبرو ہو کر مقاربت نہیں کرسکتے جس طرح انسان اپنی زوجہ کے ساتھ کرتا ہے۔

( ہاتھی کی سونڈ کا حیرت انگیز عمل )

اے مفضل۔ غور وفکر کرو ہاتھی کی سونڈ اور اس میں استعمال شدہ لطیف تدبیر پر کہ وہ غذا کو اُٹھا کر منھ میں لے جانے کے لئے ہاتھ کی مانند ہے کہ اگر یہ نہ ہوتی تو ہاتھی کسی بھی چیز کو زمین سے اُٹھا کر نہیں کھا سکتا تھا، اس لئے کہ ہاتھی دوسرے حیوانات کی طرح گردن نہیں رکھتا کہ جسے زمین کی طرف بڑھائے پس گردن نہ ہونے کی وجہ سے اُسے لمبی سونڈ عطا کی گئی تاکہ اُس کی مدد سے وہ اپنی ضروریات کو پورا کرسکے، پس کون ہے وہ ذات جس نے اُس عضو کے عوض کہ جو موجود نہیں دوسرا عضو عطا کیا جو اُس کی کمی کو پورا کرتاہے؟ سوائے اس کے اور کوئی نہیں جو اپنی مخلوق پر رؤف و مہربان ہے پھر کس طرح سے اس عمل کو اتفاق کا نتیجہ کہا جائے جس طرح سے ستمگران کہتے ہیں۔

۹۴

اگر کوئی یہ سوال کرے کہ ہاتھی کو دوسرے چوپاؤں کی طرح گردن کیوں نہ عطا کی گئی؟ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہاتھی کا سر اور کان بہت وزنی ہیں کہ اگر یہ گردن کے اوپر ہوتے تو گردن کو توڑ ڈالتے اور ناکارہ بنادیتے، لہٰذا خداوند متعال نے ہاتھی کے سر کو دھڑ سے جوڑدیا، تاکہ ہاتھی کو سر اور کان کی سنگینی کا سامنا کرنا نہ پڑے اور سونڈ کو گردن کی جگہ قرار دیا تاکہ وہ غذا کو کھا سکے گویا حیوان کو گردن نہ ہونے کی صورت میں اسے ایک ایسی چیز عطا کی جو اس کی ضرورت کو پورا کرتی ہے۔

اب ذرا دیکھو کہ کس طرح ہاتھی کی مادہ کی شرمگاہ کو زیر شکم قرار دیا کہ جب یہ مقاربت چاہتی ہے تو اس کی شرمگاہ اُبھر کر آشکار ہوجاتی ہے تاکہ اس کا نر اس کے ساتھ مقاربت کرسکے۔ عبرت حاصل کرو اس سے کہ کس طرح ہاتھی کی مادہ کی شرمگاہ کو زیر شکم دوسرے چوپاؤں کے برخلاف قرار دیا پھر اس میں اس خصلت کو رکھا کہ وہ اس عمل کے لئے تیار رہے کہ جس میں اُس کی نسل کی بقاء ہے۔

( زرافہ،خداوند عالم کی قدرت کا عظیم شاہکار )

اے مفضل۔ زرافہ کی خلقت ، اس کے مختلف اعضاء اور اس کے اعضاء کی دوسرے حیوانات کے اعضاء سے شباہت پر غور کرو کہ اس کا جسم گھوڑے کی مانند، اس کی گردن اونٹ کی مانند،اس کے پاؤں گائے کی طرح اور اس کی کھال چیتے کی سی ہے۔ خداوند حکیم سے غافل بعض افراد یہ کہتے ہیں کہ اس قسم کے حیوانات مختلف نر و مادہ کے ملاپ کی وجہ سے وجود میں آتے ہیں اور ایسا اُس وقت ہوتا ہے کہ جب جانور پانی پینے کے لئے دریاؤں اور ندیوں کا رُخ کرتے ہیں اور وہاں یہ جانور مستی میں آجاتے ہیں اور مقاربت کرتے ہیں جس کے نتیجے میں اس قسم کے جانور وجود میں آتے ہیں دراصل ان کا مطلب یہ ہے کہ زرافہ اور اس قسم کے دوسرے جانور درحقیقت کئی جانوروں کی مقاربت کا نتیجہ ہیں، اس قسم کی گفتگو کرنا ا نکی غفلت اور نادانی کا ثبوت ہے جبکہ اس قسم کے حیوانات ایک دوسرے سے ہرگز مقاربت

۹۵

نہیں کرتے ، نہ گھوڑا اونٹ سے، اور نہ اونٹ گائے سے مقاربت کرتا ہے، سوائے ان چند حیوانات کے جو ایک دوسرے کی شبیہ ہیں جو آپس میں ایک دوسر سے مقاربت کرتے ہیں ، جیسے گھوڑا ، گدھے کے ساتھ مقاربت کرتا ہے کہ جس کے نتیجے میں خچر وجود میں آتا ہے، اور بھیڑیا بجو کے ساتھ مقاربت کرتا ہے کہ جس کے نتیجے میں سمع(1) وجود میں آتا ہے تو پس ان حیوانات کے ملاپ سے جو بھی جانور وجود میں آتے ہیں وہ ان دونوں کی شبیہ تو ہوتے ہیں مگر اس طرح نہیں کہ ایک عضو ایک جانور کی شبیہ اور دوسرا عضو دوسرے جانور کی شبیہ ہو کہ جیسا کہ زرافہ میں مشاہدہ کیا جاتا ہے کہ ایک عضو گھوڑے کی طرح ، دوسرا عضو اونٹ کی طرح اور تیسرا عضو گائے کی طرح، بلکہ وہ جانور جو دو مختلف ملاپ سے وجود میں آتے ہیں وہ ان دونوں کی شبیہ ہوتے ہیں بالکل اُسی طرح جس طرح سے تم خچر میں اس چیز کا

مشاہدہ کرتے ہو کہ اس ،سر، کان، اور پیر گدھے اور گھوڑے کے متوسط ہیں اور اس کی آواز گدھے اور گھوڑے کی آواز سے مل کر بنی ہے، پس زرافہ میں اس قسم کی چیز کانہ ہونا اس بات پر دلیل ہے کہ وہ کئی جانوروں کے ملاپ سے وجود میںنہیں آیا جس طرح سے جاہل و غافل افراد گمان کرتے ہیں ۔

( بندر انسان کی شبیہ )

اے مفضل۔ فکر کروبندر کی خلقت اور اُس کی شباہت پر جو وہ انسان سے بہت سے اعضاء میں رکھتا ہے، ان اعضاء سے مراد سر وصورت ، کندھا اور سینہ ہے اور بندر کے جسم کا اندرونی حصہ بھی انسان کے جسم کے اندرونی حصے سے شباہت رکھتا ہے اور بندر ایک مخصوص شباہت جو انسان سے رکھتا ہے وہ اس کا ادراک اور ذہن ہے جس کے ذریعے وہ اپنے مالک کے اشارے کو سمجھتا ہے اور وہ انسان کے بہت

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ بجو کی طرح کا ایک جانور

۹۶

سے کاموں کی حکایت کرتا ہے مختصر یہ کہ بندر کی خلقت انسان کی خلقت سے شباہت رکھتی ہے اس قسم کی حکمت و تدبیر اس جانور میں اس لئے رکھی ہے تاکہ انسان اس سے عبرت حاصل کرے اور اس بات کو جان لے کہ اس کی طینت بھی حیوانات میں سے ہے اور ان کی خلقت بھی حیوانات کی خلقت سے مشابہ ہے ، اگر وہ شرف و فضیلت جو خداوند عالم نے اپنے فضل وکرم سے عقل و ذہن وفکر و نطق کے ذریعہ انسان کو عطا نہ کیا ہوتا تو انسان جانوروں کی شبیہ ہوجاتا یقینا بندر کے جسم میں کچھ چیزیں ایسی پائی جاتی ہیں کہ جو اسے انسان سے جدا کرتی ہیں مثلاً نیچے کی طرف کھلنے والا منھ، لمبی دُم اور وہ بال جو بندر کے تمام جسم کو ڈھانپے ہوئے ہیں اگر بندر کا ذہن ،انسان کے ذہن کی مانند ، اس کی عقل ،انسان کی عقل کی طرح ، اس کی قوت نطق ، انسان کی قوت نطق کی طرح ہوتی تو کچھ زیادہ چیزیں اُسے انسان سے جد ا کرنے میں رکاوٹ نہ بنتیں ، پس انسان اور بندر کے درمیان درحقیقت اگر کوئی فرق ہے تو وہ بندر کے ناقص العقل اور قوت نطق کے نہ ہونے میں ہے۔

( حیوان کا لباس اور جوتے )

اے مفضل۔ ذرا غور کرو خداوند متعال کے لطف و کرم پر کہ کس طرح اُس نے حیوانات کو بالوں پشم اور کُرک کا لباس زیب تن کیا ،تاکہ یہ لباس انہیں سردی اور دوسری آفتوں سے محفوظ رکھے، اور انہیں سموں کی مدد سے پاؤں کی برہنگی سے محفوظ کیا کیوں کہ وہ ہتھیلی اور انگلیاں نہیں رکھتے کہ جس کے ذریعے جوتے کی سلائی کرسکیں، لہٰذا اُن کی خلقت ہی میں انہیں ایسا جوتا پہنایا کہ جب تک وہ زندہ ہیں وہ جوتا بھی باقی ہے اور اس کے بدلے وہ نیا جوتا پہننے کی ضرورت نہیں رکھتے، لیکن انسان کیوں کہ اہل فن ہے اس کی ہتھیلی اور انگلیاں اس قسم کے کاموں کو انجام دے سکتی ہیں وہ اپنا لباس سیتا ہے انہیں مختلف حالات کے تحت بدلتا رہتا ہے اور اس میں اس کے لئے کئی فائدے بھی ہیں من جملہ یہ کہ وہ

۹۷

لباس بنانے کی مصروفیت کی وجہ سے عبس اور بیہودہ کاموں سے بچا رہتا ہے اور اس کا اس کام میں مصروف رہنا اسے شرارت اور سرکشی سے بچاتا ہے اور لباس کے اتارنے اور پہننے میں اس کے لئے راحت و سکون ہے۔ اور پھر انسان اپنے لئے کئی قسم کے لباس تیار کرکے اپنے لئے زینت و خوبصورتی فراہم کرتا ہے، مختصر یہ کہ انہی کاموں میں اس کے لئے لذت و آرام ہے اور پھر جوتے کی صنعت میں اس کے لئے ذریعہ معاش کا بندوبست بھی ہے کہ وہ کام کرکے اپنے اہل و عیال کی پرورش کرے ، خلاصہ یہ کہ بال، پشم ، کُرک حیوانات کے لئے لباس اور سُم جوتے کی جگہ ہیں۔

( حشرات الارض اور درندوں کا مرتے وقت حیرت انگیز عمل )

اے مفضل۔ چوپاؤں کی عجیب و غریب خلقت پر غوروفکر کرو کہ کس طرح مرتے وقت اپنے آپ کو پوشیدہ کرتے ہیں جس طرح سے انسان اپنے مردوں کو دفن کرتا ہے پس اگر ایسا نہیں ہے تو پھر کہاں ہیں اُن وحشی درندوں کے لاشے کہ جو دکھائی نہیں دیتے اور وہ اس قدر کم تعداد میں بھی نہیں کہ جس کی وجہ سے وہ دکھائی نہ دیتے ہوں اور اگر کسی نے کہا کہ وہ تعداد میں انسانوں سے زیادہ ہیں تو اُس نے جھوٹ نہیں کہا، وہ سب جو تم بیابان اور پہاڑوں پر دیکھتے ہو ذرا شمار کرو اور اُن سے عبرت حاصل کرو جیسے ہرنوں کا گروہ، پہاڑی اور جنگلی گائیں، بارہ سنگھا، پہاڑی بکریاں اور اس قسم کے دوسرے وحشی درندے جیسے شیر، چیتا، بھیڑیا، وغیرہ اور مختلف اقسام کے حشرات الارض اور کیڑے مکوڑے اور اسی طرح مختلف قسم کے پرندے جیسے کوا، کبوتر، بطخ، سارس اور دوسرے ایسے پرندے کہ جو درندہ صفت ہیں (جیسے عقاب وغیرہ) کہ جب وہ مرتے ہیں تو دکھائی نہیں دیتے مگر ایک یا دو کہ جنہیں شکاری شکار کرلیتا ہے، یا کوئی درندہ انہیں پھاڑ دیتا ہے، ہاں جب یہ حیوانات اپنے اندر موت کے اثرات کو محسوس کرتے ہیں تو وہ اپنے آپ کو ایک پناہ گاہ کی طرف کھینچتے ہیں اور مخفی ہوجاتے ہیں اور وہیں مرجاتے

۹۸

ہیں ، اگر ایسا نہ ہوتا تو بیابان حیوانات کے لاشوں سے پُر ہوجاتے اور ان کی بدبو سے ہوا فاسد ہوجاتی اور مختلف بیماریاں وجود میں آتیں، ذرا غور کرو اس امر پر کہ جس کی رسائی انسان تک ہابیل و قابیل کے قصے سے ہوئی کہ خداوند متعال نے کوے کو اس بات پر مأمور کیا کہ وہ قابیل کو بتائے کہ وہ اپنے قتل کئے ہوئے بھائی کی لاش کو زمین میں دفن کرے اور اولاد آدم اس طرح عمل انجام دے، پس کس طرح حیوانات کی طبیعت میں اس غریزہ کو رکھا گیا تاکہ انسان ان کے ناگزیر اثرات سے محفوظ رہے۔

( گوزن(1) کا پیاسے ہونے پر حیرت انگیز عمل )

اے مفضل۔ بعض حیوانات کی ہوشیاری اور ان کی چالاکی پر غور کرو جو خداوند متعال نے اپنے لطف و کرم سے انہیں عطا کی تاکہ اس کی کوئی مخلوق بھی اس کی نعمتوں سے محروم نہ رہ جائے جانوروں کی یہ چالاکی اور ہوشیاری خود ان کی عقل اور تأمل سے نہیں بلکہ تمام چیزیں اس مصلحت کی وجہ سے ہیں کی جو ان کی خلقت میں استعمال ہوئی ہے۔

اب ذرا دیکھوکہ یہ گوزن جو سانپ کو کھاتا ہے اور کھانے کے بعد شدید پیاسا ہوجاتا ہے لیکن پھر بھی پانی پینے سے اپنے آپ کو روکتا ہے اس لئے کہ وہ ڈرتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ زہر اس کے سارے بدن میں سرایت کرجائے، اور اُسے ہلاک کردے پس وہ پیاس کی شدت سے پانی کے گڑھے کے کنارے کھڑا رہتا ہے اور آہ وبکا کرتا ہے لیکن پھر بھی پانی پینے سے اپنے آپ کو روکتا ہے کہ اگر پانی پی لے تو اُسی وقت ہلاک ہوجائے، اب ذرا غور کرو اس جانور کی طبیعت پر کہ جو موت کے ڈر سے تشنگی کے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)بارہ سنگھا،جنگلی گائے،وغیرہ

۹۹

غالب ہونے کے باوجود پانی نہیں پیتا اور یہ وہ مرحلہ ہے کہ جہاں شاید صابر انسان بھی اپنے آپ پر قابو نہ پاسکے۔

( لومڑی کس چالاکی سے اپنی غذا حاصل کرتی ہے )

اے مفضل۔ لومڑی کے ہاتھ جب غذا نہیں لگتی تو وہ اپنے آپ کو مردہ جیسا بناکر لیٹ جاتی ہے اور اس طرح پیٹ میں ہوا بھرتی ہے کہ پرندے یہ سمجھیں کہ وہ مردہ ہے ، اور جیسے ہی وہ لومڑی پربیٹھتے ہیں تاکہ وہ اسے پھاڑ ڈالیں اور کھالیں تو ایسی صورت میں لومڑی بلافاصلہ ان پرندوں پر جھپٹتی ہے اور ان کا شکار کرلیتی ہے وہ کون ہے جس نے بے زبان و بے عقل لومڑی کو یہ حیلہ و چالاکی سکھائی؟ سوائے اس کے کہ جو اس کی روزی کا ذمہ دار ہے، کہ وہ اسے اس حیلہ و چالاکی اور دوسرے وسیلہ کے ذریعہ روزی پہنچاتا ہے اس لئے کہ لومڑی دوسرے حیوانات کی طرح اپنے شکار کے سامنے مقابلہ کی قوت نہیں رکھتی، لہٰذا اسے زندگی بسر کرنے کے لئے یہ حیلہ و چالاکی سکھائی۔

( دریائی سور کے غذا حاصل کرنے کا طریقہ کار )

اے مفضل۔ دریائی سور جب یہ چاہتا ہے کہ کسی پرندہ کا شکار کرے تو اس کی چالاکی یہ ہوتی ہے کہ وہ مچھلی کا شکار کرتا ہے اور اسے مار دیتا ہے اور پھر اس کے شکم کو اس طرح چاک کرتا ہے کہ وہ پانی پر باقی رہے اور خود اُس کے نیچے چھپ جاتا ہے اور آہستہ آہستہ پانی کو ہلاتا رہتا ہے کہ وہ پانی کے نیچے دکھائی نہ دے، اور انتظار کرتا ہے یہاں تک کہ پرندہ مچھلی کے لاشے پر بیٹھتا ہے کہ اُسے کھالے ایسی صورت میں دریائی سور بلافاصلہ اس پرندہ پر جھپٹتا ہے اور اس کا شکار کرلیتا ہے ، اے مفضل۔ ذرا اس حیلہ و

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285