‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) جلد ۲

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) 13%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 285

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 285 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 117790 / ڈاؤنلوڈ: 4038
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

کر رہا ہے اور آنکھیں بند کی ہوئی ہیں_

اس قسم کے خواب ممکن ہے کہ آپ نے دیکھے ہوں یا آپ کے کسی دوست نے دیکھے ہوں، برزخ کی دنیا واقعی اور حقیقی دنیا ہے اور اس میں سوال و جواب بھی حقیقی ہیں_ ہم نے خواب کو بطور مثال ذکر کیا ہے_

غور کیجئے او رجواب دیجئے

۱)___ آیا ہماری محنت اور کام بے فائدہ ہیں ہم اپنی کوشش کا نتیجہ کہاں دیکھیں گے؟

۲)___ آخرت سے پہلے کس دنیا میں جائیں گے؟

۳)___ خدا نے برزخ کے متعلق کیا فرمایا ہے؟

۴)___ جو شخص دنیا میں خدا اور پیغمبروں پر واقعی ایمان رکھتا ہے برزخ میں کیسی زندگی گذارے گا؟ اس دنیا کے سوالوں کا کس طرح جواب دے گا؟

۵)___ برزخ میں انسان سے کیا پوچھا جائے گا؟

۶)___ برزخ میں کن لوگوں کا ایمان ظاہر ہوگا؟

۷)___ کفر ا ور برائی کسکی ظاہر ہوگی؟

۸)___ آیا آخرت میں جھوٹ بولا جاسکتا ہے؟ اور کیوں؟

۹)___ کون سے لوگ برزخ میں عذاب میں مبتلا ہوں گے؟

۱۰)___ آیا برزخ کا سوال اور جواب اسی دنیاوی زبان اور کان سے ہوگا؟

۶۱

چوتھا سبق

مردے کیسے زندہ ہونگے

حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ کے پیغمبر(ص) تھے وہ آخرت اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے تھے انہیں علم تھا کہ آخرت میں مردے زندہ ہوں گے اور حساب و کتاب کے لئے حاضر ہوں گے لیکن اس غرض کے لئے کہ ان کا یقین کامل ہوجائے اللہ تعالی سے درخواست کی کہ مردوں کا زندہ کرنا انہیں دکھلائے انہوں نے خدا سے کہا معبود تو کس طرح مردوں کو زندہ کرتا ہے اللہ نے ان سے کہا کیا تم مردوں کو زندہ ہونے پر ایما نہیں رکھتے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جواب دیا کہ خدا یا ایمان رکھتا ہوں لیکن چاہتا ہوں کہ میرا دل اطمینان حاصل کرے، اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی درخواست قبول کرلی اور حکم دیا کہ چار پرندے انتخاب کرو اور انکو ذبح کرو اور ان کو ٹکڑے ٹکڑے کردو اور انہیں اچھی طرح کوٹ دو پھر انکو

۶۲

قیمہ شدہ گوشت اور پروں اور ہڈیوں کو کئی حصّوں میں تقسیم کردو اور ہر ایک حصّہ کو پہاڑ پر رکھ دو اسکے بعد پہاڑ کے وسط میں کھڑے ہوجاؤ اور ہر ایک پرندے کو اس کے نام کے ساتھ پکارو و ہ اللہ کے حکم سے تیرے حکم پر زندہ ہوں گے اور تیری طرف ڈورے آئیں گے اور تم جان لوگے کہ اللہ تعالی عالم و قادر ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالی کے اس حکم پر عمل کیا چار پرندے لئے ایک کبوتر دوسرا کوّا تیسرا مرغ اور چوتھا مور تھا، ان کو ذبح کیا اور ٹکڑے ٹکڑے کر کے انہیں کوٹ کو قیمہ بنادیا اور آپس میں ملادیا پھر ان کاگوشت تقسیم کر کے ہر ایک حصّہ کو پہاڑ پر رکھا اور اس پہاڑ کے وسط میں کھڑے ہوکر پہاڑ کی طرف دیکھا اور بلند آواز سے مور کو بلایا اور کہا اے مور ہماری طرف آؤ: مور کے ٹکڑے پہاڑ سے آنحضرت کی طرف آئے اور آپس میں ملتے گئے اور مور کی گردن، سر، پاؤں اور اس کے پرو ہیںبن گئے اور مور زندہ ہوگیا، اپنے پروں کو ہلایا اور حضرت ابراہیم کے سامنے چلنے لگا اسی طرح کبوتر، کوّا، اور مرغ بھی زندہ ہوگئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مردہ پرندوں کا اپنے اپنے جسم کے ساتھ زندہ ہونا اپنی آنکھوں سے دیکھا_

آپ(ع) کا ایمان اور یقین کامل تر ہوگیا اور اللہ تعالی کی قدرت کا مشاہدہ کیا اور آپ کا دل مطمئن ہوگیا اور آپ نے سمجھ لیا کہ قیامت کے دن مردے کس طرح زندہ ہوں گے_

۶۳

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ حضرت ابراہیم (ع) نے اللہ تعالی سے کونسی درخواست کی تھی

۲)___ اس درخواست کی غرض کیاتھی؟

۳)___ اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم (ع) کی درخواست کا کیا جواب دیا؟ اور انہیں کیا حکم دیا؟

۴)___ حضرت ابراہیم (ع) نے اللہ تعالی کے فرمان پر کس طرح عمل کیا؟

۵)___ کس طرح پرندوں کو زندہ کیا؟

۶)___ کس ذات نے پرندوں کے زندہ کرنے کی قدرت حضرت ابراہیم (ع) کو دی تھی؟

۷)___ حضرت ابراہیم (ع) نے اس تجربہ سے کیا نتیجہ لیا؟

۶۴

پانچواں سبق

کس طرح

آپ کس طرح کام کو یاد کرتے ہیں؟ اور کس طرح کام کرنے کے عادی بنتے ہیں؟ ایک کام کا بار بار کرنا آپ کی جان اور روح پر کیا اثر کرتا ہے، جب ایک کام کو بار بار انجام دیں تو وہ آپ کی روح پر کیا اثر کرتا ہے آہستہ آہستہ آپ اس کے عادی ہوجاتے ہیں اور پھر اس کام کو ٹھیک بجالاسکتے ہیں مثلا جب کچھ لکھتے ہیں تو یہ لکھنا آپ پر اثرانداز ہوتا ہے اگر لکھنے میں ذرا محنت کریں صاف اور اچھی طرح لکھیں تو یہ محنت کرنا آپ کی روح پر اثرانداز ہوگا کہ جس کے نتیجہ میں آپ کا خط خوشنما اور خوبصورت ہوجائے گا لیکن اگر لکھنے میں محنت نہ کریں تو یہ بے اعتنائی بر اثر چھوڑے گی جس کے نتیجے میں آپ کاخط بدنما ہو جائے گا ہم جتنے کام کرتے ہیں وہ بھی اسی طرح ہماری روح پر اثرانداز

۶۵

ہوتے ہیں اچھے کام اچھے اثر اور برے کام برا اثر چھوڑتے ہیں_

ہماری زندگی کے کام

جب ہم اچھے کام کرتے ہیں تو وہ ہماری روح پر اثرانداز ہوتے ہیں اور ہمیں پاک اور نورانی کردتے ہیں ہم نیک کام بجالانے سے ہمیشہ اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور اللہ تعالی سے انس و محبت کرتے ہیں اور نیک کام بجالانے کے انجام سے لذّت اٹھاتے ہیں صحیح عقیدہ ہے اور ہمیں نورانی اور خوش رو کردیتا ہے_ برے کردار اور ناپسندیدہ اطوار بھی انسان پر اثر چھوڑتے ہیں انسان کی روح کی پلید اور مردہ کردیتے ہیں پلید روح خدا کی یاد سے غافل ہوا کرتی ہے وہ برے کاموں کی عادی ہونے کی وجہ سے سیاہ اور مردہ ہوجاتی ہے اور انسان کو ترقی سے روک دیتی ہے ہماری خلقت بیکار نہیں ہے اور ہمارے کام بھی بیہودہ اور بے فائدہ نہیں ہیں ہمارے تمام کام خواہ اچھے ہوں یا برے ہم پر اثر انداز ہوتے ہیں اور یہ اثر باقی رہتا ہے ہم اپنے تمام کاموں کے اثرات آخرت میں دیکھیں گے بہشت اور اس کی عمدہ نعمتیں صحیح عقیدہ رکھنے اور اچھے کاموں کے کرنے سے ملتی

۶۶

ہیں اور جہنّم اور اس کے سخت عذاب باطل عقیدہ اور ناپسندیدہ کاموں کے نتیجے میں ہمارے تمام کام خواہ اچھے ہوں یا برے ہوں ہماری زندگی کے حساب میں لکھے جاتے ہیں اور وہ ہمیشہ باقی رہتے ہیں ممکن ہے کہ ہم اپنے کاموں سے غافل ہوجائیں لیکن وہ ہرگز فنا نہیں ہوتے اور تمام کے تمام علم خدا میں محفوظ ہیں آخرت میں ہم جب کہ غفلت کے پردے ہت چکے ہوں گے اپنے کاموں کا مشاہدہ کریں گے_

خدا قرآن میں فرماتا ہے_ کہ جب انسان کو حساب کے لئے لایا جائے گا اور وہ نامہ اعمال کو دیکھے گا اور اپنے اعمال کا مشاہدہ کرے گا تو تعجب سے کہے گا یہ کیسا نامہ اعمال ہے کہ جس میں میرے تمام کام درج ہیں کس طرح میرا کوئی بھی کام قلم سے نہیں چھوٹا_ اللہ تعالی کی طرف سے خطاب ہوگا تیرے کام دنیا میں تیرے ساتھ تھے لیکن تو ان سے غافل تھا اب جب کہ تیری روح بینا ہوئی ہے تو تو اس کو دیکھ رہا ہے ''دوسری جگہ ارشاد الہی ہوتا ہے''

جو شخص اچھے کام انجام دیتا ہے قیامت کے دن اسے دیکھے گا'' اور جو شخص برے کام انجام دیتا ہے معدہ ان کو قیامت کے دن مشاہدہ کرے گا_

اب جب کہ معلوم ہوگیا ہمارے تمام کام خواہ اچھے یا برے فنا نہیں ہوتے بلکہ وہ تمام کے تمام ہماری زندگی کے نامہ اعمال میں درج ہوجاتے ہیں اور آخرت میں ان کا کامل نتیجہ ہمیں ملے گا تو کیا ہمیں اپنے اخلاق اور کردار سے بے پرواہ ہونا چاہیئے؟

۶۷

کیا ہماری عقل نہیں کہتی؟ کہ خداوند عالم کی اطاعت کریں اور اس کے فرمان او رحکم پر عمل کریں؟

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ اچھے کام اور اچھا اخلاق ہماری روح پر کیا اثر چھوڑتے ہیں؟

۲)___ برے کام اور برے اخلاق کیا اثر چھوڑتے ہیں؟

۳)___ کیا ہمارے برے اور اچھے کام فنا ہوجاتے ہیں؟

۴)___ کن چیزوں کے ذریعہ سعادت اور کمال حاصل ہوتا ہے؟

۵)___ بہشت کی نعمتیں کن چیزوں سے ملتی ہیں؟

۶)___ جہنم کا عذاب کن چیزوں سے ملتا ہے؟

۷)___ ہمارے کام کہاں درج کئے جاتے ہیں؟

۸)___ کیا ہم اپنے کاموں کو دیکھ سکیں گے؟

۹)___ خداوند عالم ہمارے اعمال کے بارے میں کیا فرماتا ہے؟

۱۰)___ اب جب کہ سمجھ لیا ہے کہ ہمارے تمام کام محفوظ کر لئے جاتے ہیں تو ہمیں کون سے کام انجام دیتے چاہیئےور کسی طرح زندگی بسر کرنی چاہیئے

۶۸

حصّہ سوم

نبوّت

۶۹

پہلا سبق

صراط مستقیم

اگر زندگی میں کامیاب ہونا چاہیں تو کون سا راستہ اختیار کریں گے؟ دونوں جہانوں میں سعادت مند ہونے کے لئے کون سا منصوبہ آپ کے پاس موجود ہے؟ کیا آپ نے اس کے متعلق فکر کی ہے؟ اگر آپ چاہتے ہیں کہ کامل اور اچھا انسان بن جائیں تو کیا آپ کے پاس ہے؟

کیا آپ دوسروں کو دیکھ رہے ہیں جو راستہ انہوں نے اختیار کیا ہے آپ بھی اسی پر چلیں گے؟

جو پروگرام انہوں نے منتخب کیا ہے آپ بھی وہی انتخاب کریں گے؟

کیا راست کے انتخاب اورمقصود زندگی کے متعلق فکر نہیں کرتے کیا درست پروگرام کے انتخاب میںکبھی نہیں سوچتے؟

۷۰

شاید آپ کہیں کہ میں خود اچھا پروگرام بنا سکتا ہو کیا آپ اس جہان اور آخرت کی تمام ضروریات سے باخبر ہیں یا بے خبر؟ تو پھر کس طرح اچھا اور مکمل آپ خود بناسکتے ہیں؟

آپ شاید یہ کہیں کہ اہل عقل اور دانشور اور علماء میرے لئے زندگی کا پروگرام مہيّا کرسکتے ہیں لیکن کیا یہ حضرات آپ کی دنیا اور آخرت کی احتیاجات سے مطلع ہیں کیا یہ لوگ آخرت سے باخبر ہیں؟

پس کون ذات انسان کے کامل اور سعادت مند ہونے کاپروگرام بناسکتی ہے؟

انسان؟ یا انسان کا خالق؟ البتہ انسان کا خالق کیوں کہ اس نے انسان کوپیدا کیاہے وہ خلقت کے اسرار سے آگاہ ہے صرف وہی انسان کی دنیا اور آخرت میں زندگی کے شرائط سے باخبر ہے اسی لئے صرف وہی انسان کی زندگی کے باکمال اور سعادتمند ہونے کا پروگرام منظّم کرنے کا اہل ہے پس سعادت اور کمال کا بہترین پروگرام وہی ہوگا جو اللہ تعالی نے منظم کیا ہو اور اسے اپنے پیغمبروں کے ذریعے انسان تک پہنچاتا ہو کیا آپ نے کبھی سوچا ہے؟ کہ زندگی کے لئے کونسا راستہ انتخاب کریں گے؟

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ کیا آپ خود دنیا اور آخرت کے لئے پروگرام بناسکتے ہیں

۷۱

اور کیوں وضاحت کیجئے؟

۲)___ کیا کوئی دوسرا ایسا کرسکتا ہے اور کیوں؟

۳)___ پس ایسا کون کرسکتا ہے اور کیوں؟

۴)___ خداوند عالم نے انسان کی سعادت کا پروگرام کس کے ذریعہ بھیجا ہے؟

۵)___ اگر چاہیں کہ دنیا اور آخرت میںکامیاب اور سعادتمند ہوں تو کس پروگرام کا انتخاب کریں اور کیوں؟

۷۲

دوسرا سبق

کمال انسان

جب گیہوں کے دانے کو زمین میں ڈالیں اور اسے پانی دیں تو اس میں کیا تبدیلی آتی ہے؟ کون سا راستہ اختیار کرتا ہے؟ کیا کوئی خاص ہدف اور غرض اس کے سامنے ہے اور کس مقصد کو حاصل کرنا چاہتا ہے گیہوں کا دانا ابتداء ہی سے ایک معین ہدف کی طرف حرکت شروع کردیتا ہے اس مقصد اور غرض تک پہنچنے کے لئے بڑھتا ہے یعنی ابتداء میں گیہوں کا دانہ زمین میں جڑیں پھیلاتا ہے پھرتنا، اور پھر سبز ہوجاتا ہے او ربتدریج بڑا ہونے لگتا ہے اور خوش نکالتا ہے گیہوں کا ایک دانہ کئی خوشے بناتا ہے اور پھر یہی خوشے انبار بن جاتے ہیں اور اس انبار سے ہزاروں انسان استفادہ کرتے ہیں تمام نباتات گیہوں کے دانے کی طرح کمال کا راستہ طے کرتے ہیں اور معین اور معلوم غرض و غائت

۷۳

جو ہر ایک کے لئے معین ہوئی ہے کی طرف حرکت کرتے ہیں آپ اگر سیب کا دانہ کاشت کریں اور اسے پانی دیں اس کی ابتداء ہی سے آپکو معلوم ہوجائے گا کہ چھوٹا دانہ ایک معین غرض و ہدف رکھتا ہے اور اسی کی طرف حرکت شروع کرتا ہے اور اپنے کمال کو پہنچتا ہے یعنی چھوٹا دانہ جڑیں پھیلاتا ہے تنا اور شاخ نباتا ہے سبز ہوتا ہے اور بڑا ہوتا جاتا ہے ہر دن پہلے دن سے زیادہ کمال کی طرف ہوتا ہے بالآخر اس میں شگوفہ پھوٹتا ہے اور یہ خوبصورت شگوفہ سیب بن جاتا ہے اسی ترتیب سے وہ چھوٹا دانہ تکمیل کو پہنچتا ہے اور اپنی حرکت اور کوشش کے نتیجے کو انسان کے اختیار میں دے دیتا ہے اللہ تعالی جو عالم اور قادر ہے اور جس نے تمام چیزوں کو پیدا کیا ہے اور تکامل کا راستہ بھی انھیں ودیت کردیا ہے اور اس کے پہنچنے تک وسائل اور اسباب بھی ان کے لئے فراہم کردیئے ہیں مثلاً دوسرے پودے گیہوں اور سیب کے دانے کی طرح اپنے کمال کے لئے پانی، مٹی، ہوا، اور روشنی کے محتاج ہیں اللہ تعالی نے پانی، مٹی، روشنی اور ہوا، ان کے لئے پیدا کردی ہے تا کہ پودے ان سے استفادہ کریں اور مکمل ہوکر مقصد کو پالیں_

انسان کو بھی اپنے مقصد خلقت کوحاصل کرنا چاہیے کس طرح اور کس کے ماتحت؟

کون جانتا ہے کہ انسان کا جسم اور روح کن چیزوں کے محتاج ہیں اور کس طرح کمال حاصل کریں گی، البتہ صرف خدا جانتا ہے کیوں کہ تنہا وہی ذات ہے جو انسان کی خلقت کے اسرار سے آگاہ ہے اور وہی ذات

۷۴

ہے جو آخرت میں انسان کی ضرورت سے باخبر ہے اسی لئے خالق اور مالک نے تمام دنیا کی چیزوں کو اکمل بنایا ہے اور انسانیت کی معراج کے لئے پروگرام بنائے ہیں اور پیغمبروں کے وسیلے اور ذریعہ سے انسان تک پہنچائے ہیں_ آخری اور اہم ترین پروگرام آخری پیغمبر جو حضرت محمد صل اللہ علیہ و آلہ و سلم ہیں کے وسیلے سے تمام لوگوں کے لئے بھیجا ہے اس پروگرام کا نام تکامل دین اسلام ہے

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ تھوڑا سا گیہوں کسی برتن میں ڈالیں اور اسے پانی دیں دیکھیں گیہوں کا یہ دانہ کس طرح اپنے لئے راستہ معین کرلیتا ہے او رکس غرض کی طرف حرکت کرتا ہے؟

۲)___ سیب اور تمام پودے اور نباتات کے لئے غرض اور ہدف ہے، اس جملے کے کیا معنی ہیں؟

۳)___ نباتات کو کامل ہونے کے لئے کن کن چیزوں کی ضرورت ہے؟

۴)___ انسان کی معراج کا پروگرام کون بنا سکتا ہے؟ اور کیوں

۵)___ خدا نے انسان کی معراج کا پروگرام کنکے وسیلے ان تک پہنچایا ہے

۶)___ آخری اور مکمل ترین پروگرام ہمارے لئے کون لایا ہے؟

۷)___ اس آخری پروگرام کا کیا نام ہے؟

۷۵

تیسرا سبق

راہنما کیسا ہونا چاہیئے

جو بچّہ اپنا گھر بھول گیا ہو اسے کسکے سپرد کریں گے کون اس کی راہنمائی کر سکتا ہے اور اسے اس کے گھر پہنچا سکتا ہے؟ کیا وہ آدمی جو امین نہ ہو اس پر اعتماد کر کے بچّے کو اس کے سپرد کریں گے اور کیوں؟ اس کو جو اس کے گھر کو نہیں جانتا یا راستوں سے بھٹک جاتا ہے اسکی رہنمائی کے لئے انتخاب کریں گے؟ اور کیوں پس راہنما کو چاہئے کہ راستے کو ٹھیک جانتا ہو نیک اور امین ہو اور غلط راہنمائی نہ کرتا ہو پیغمبر وہ انسان ہوتا ہے جو امین اور نیک ہوتا ہے اللہ تعالی نے اسے لوگوں کی راہنمائی کے لئے چنا ہے اور اسے دنیا اور آخرت کی زندگی کا راستہ بتلایا ہے اور انسانوں کی رہبری اس کے سپرد کی ہے_

۷۶

چوتھا سبق

پیغمبر کو کیسا ہونا چاہیے

جب آپ کسی دوست کی طرف پیغام بھیجنا چاہتے ہوں تو یہ پیغام کس کے سپرد کرتے ہیں اس کے سپرد کرتے ہیں جو آپ کے دوست تک پہنچا دے یا جھوٹے اور غلط آدمی کو پیغام پہنچانے کے لئے منتخب کرتے ہیں یا کمزور حافظی اور غلطی کرنے والے کو ان میں سے کس کو پیغام پہنچاتے کے لئے انتخاب کرتے ہیں؟

جی ہاں پیغام پہنچانے کے لئے سچّا اور صحیح آدمی ہونا چاہیئے تا کہ پیغام کو بھول نہ جائے اسکے سننے اور پہنچانے میں غلطی نہ کرے خدا بھی اپنا پیغام پہنچانے کے لئے سچّے اور صحیح آدمی کو چنتا ہے اور اس کو پیغام دیتا ہے پیغمبر خدا کے پیغام کو صحیح حاصل کرتا ہے اور اس پیغام کو لوگوں تک پہنچاتا ہے _

۷۷

پانچواں سبق

اجتناب گناہ کا فلسفہ

میلے کچیلے کپڑوں کو ایک طشت میںدھویا ہو تو کون ہے جو اس میلے پانی کو پیئے گا؟ اگر وہی پانی کسی اندھے یا بے خبر انسان کو دیں تو ممکن ہے کہ وہ اسے پی لے_ لیکن آنکھوں والا اور انسان کیسے جو شخص اس کی گندگی اور خرابی کودیکھ رہا ہو اور اس کے باخبر اثرات کو جانتا ہو ایسے پانی کو دیکھ تو کیا اسے پیئے گا؟ جی ہاں ہر وہ شخص جو بینا اور آگاہ ہو وہ کوئی گندی اور خراب چیز سے اپنے آپ کو آلودہ نہیں کرے گا بلکہ اس سے نفرت اور بیزاری کرے گا اسی طرح پیغمبر بھی گناہ سے نفرت کرتے تھے وہ گناہ کے بجالانے پر قدرت رکھتے تھے لیکن کبھی گناہ نہیں کیا کیونکہ وہ گناہ کی پلیدی اور برائی کو دیکھ رہے تھے یہ اطلاع اور آگاہی ان کو خداوند عالم نے عطا فرمائی تھی_

۷۸

چھٹا سبق

پیغمبر آگاہ اورمعصوم راہنما ہیں

خداوند عالم نے اپنا پیغام پہنچانے کے لئے ایسے انسان کا انتخاب کیا جو امین ہیں انہیں دین کا کامل نمونہ قرار دیا ہے تا کہ ان کا کردار اور گفتار لوگوں کو خدا کی طرف راہنمائی کرے پیغمبر انسانوں میں بہترین اور کامل ترین فرد ہوتا ہے علم و اخلاق اور کردار میں تمام مردوں سے افضل ہوتا ہے خدا اس کی تربیت کرتا ہے اور پھر اس کا انتخاب کرتا ہے تا کہ لوگوں کا پیشوا اور نمونہ ہو_ پیغمبر دنیا اور آخرت کی سعادت کے راستے اچھی طرح جانتا ہے یعنی اللہ تعالی نے اسے جو بتلایا ہے پیغمبر خود ان راستوں پر چلتا ہے اور لوگوں کو ان راستوں پرچلنے کی راہنمائی اور اس کی طرف دعوت دیتا ہے پیغمبر خدا کو اچھی طرح پہنچانتا ہے اور اسے بہت دوست رکھتا ہے، دنیا اور آخرت جہنم اور بہشت سے پوری طرح آگاہ ہوتا ہے

۷۹

اچھے اور برے اخلاق کو اچھی طرح پہنچانتا ہے وہ گناہ کی پلیدی اور بدنمائی کو دیکھتا ہے اور یہ جانتا ہے کہ گناہ انسان کی روح کو آلودہ اور کثیف کردیتا ہے_ اللہ تعالی جو عالم اور قادر ہے اس نے یہ علم پیغمبر کے اختیار میں دیا ہے پیغمبر اس آگاہی اور علم سے گناہ کی گندگی اور بدنمائی کا مشاہدہ کرتا ہے اور جانتا ہے کہ خدا گناہ گار انسان کو دوست نہیں رکھتا اور اس سے ناراض ہوتا ہے اسی لئے پیغمبر ہرگز گناہ نہیں کرتا بلکہ گناہ سے نفرت کرتا ہے_

پیغمبر خدا کے پیغام کو بغیر کسی کمی و بیشی کے لوگوں تک پہنچاتا ہے اور اس سے غلطی اور نسیان نہیں ہوتا_ اور چونکہ گناہ اور غلطی نہیں کرتا لوگ بھی اس پر اعتماد کرتے ہیں اور اس کے کردار اور گفتار کو نمونہ قرار دیتے ہیں_ ایسے ہی انسان کو معصوم کہتے ہیں اور اللہ تعالی کے تمام پیغمبر معصوم ہوتے ہیں یعنی گناہ نہیں کرتے اور ان سے غلطی اورنسیان نہیں ہوتا وہ نیک اور امین ہوتے ہیں_

پیغمبر لوگوں میں سے عالم اور معصوم ہوتے ہیں اللہ کے پیغام کو پہنچاتے ہیں اور ان کی راہنمائی کرتے ہیں اور اللہ کی طرف اور دائمی سعادت کی طرف راہنمائی کرتے ہیں_

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ راہنما کے لئے کون سی حفاظت صفات ہونی چاہئیں؟

۸۰

۲)___ خدا کسے، انسان کی راہنمائی کے لئے انتخاب کرتا ہے؟

۳)___ خداوند عالم کیسے انسانوں کو پیغام پہنچانے کے لئے انتخاب کرتا ہے؟

۵)___ پیغمبر کیوں گناہ سے آلودہ نہیں ہوتے اور گناہوں سے دور رہتے ہیں؟

۶)___ یہ فہم اور فراست پیغمبروں کو کس نے عطا کی ہے؟

۷)___ یہ علم و فراست کیسے پیغمبروں کے لئے عصمت کا موجب ہوجاتی ہے؟

۸)___ دین کا کامل نمونہ کا کیا مطلب ہے؟

۹)___ دین کا کامل نمونہ کون انسان ہے؟

۱۰)___ جو شخص گناہ سے آلودہ ہوجاتا ہے کیا وہ دین کا کامل نمونہ ہوسکتا ہے؟

۱۱)___ کب پیغمبر گفتار اور رفتار میں لوگوں کے لئے کامل نمونہ بن سکتا ہے؟

۱۲)___ اگر پیغمبر غلطی اور نسیان کرتا ہو تو کیالوگ اس پر پورا اعتماد کرسکتے ہیں؟

۱۳)___ معصوم کیسے کہتے ہیں؟

۸۱

ساتواں سبق

اسے کیسے پہنچانتے ہیں اور اس سے کیا چاہتے ہیں

آپ کے دوست محمود کا بیگ آپ کے گھر میں ہے ایک شخص کہتا ہے کہ میں محمود کی طرف سے آیا ہوں اور اس نے مجھے بھیجا ہے تا کہ اس کا بیگ آپ سے لے لوں اگر آپ اس انسان کو نہ جانتے ہوں تو اس صورت میں آپ کیا کریں گے فوراً اعتماد کر کے اسے بیگ دے دیں گے؟ یا اسے کیسے پہچانیں گے؟ کیا معلوم کریں گے کہ واقعاً اس کو محمود نے آپ کے پاس بھیجا ہے کیا اس کے پہچاننے کے لئے آپ اس سے خاص علامت کا مطالبہ نہیں کریں گے؟

یقینا آپ اس سے کہیں گے کہ نشانی بتلا دو اور بیگ لے جاؤ وہ اگر نشانی بتلائے اور مثلاً کہے کہ محمود نے کہا تھا کہ میرا بیگ مہمان خانے والے کمرہ میں پڑا ہے اور اس کے اندر ایک حساب کی کتاب ہے اور دوسری دینی علوم کی کتاب ایک اس میں آبی رنگ کاپن ہے اور ایک سرخ رنگ کی پنسل اور گھڑی

۸۲

ہے اگر اس کی یہ نشانیاں اور علامتیں درست ہوئیں تو آپ اسے کیا سمجھیں گے اور کیا کریں گے؟

اگر اس کی نشانیاں ٹھیک ہوئیں تو آپ سمجھیں گے کہ واقعی اسے محمود نے بھیجا ہے اور یہ اس کا معتمد ہے آپ بھی اس پر عمل کریں گے اور اس کا بیگ اسے دے دیں گے اس مثال پر توجہ کرنے کے بعد آپ کہہ سکتے ہیں کہ پیغمبر کو کیسے پہچانا جائے پیغمبر بھی خدا کا بھیجا ہوا ہوتا ہے اپنے تعرف کے لئے اللہ تعالی کی طرف سے مخصوص نشانیاں اور علامتیں لاتا ہے تا کہ لوگ اسے پہچان جائیں اور اس کی دعوت کو قبول کرلیں اگر پیغمبر اللہ تعالی کی طرف سے خاص علامتیں نہ لائیں تو لوگ اسے کیسے پہچانیں گے ؟ کس طرح جانیں گے کہ واقعہ خدا کا پیغمبر اور اسی کا بھیجا ہوا ہے اگر خدا مخصوص علامتیں جو معجزے کے نام سے موسوم ہیں پیغمبروں کے اختیار میں نہ دے تو لوگ اسے کس طرح پہچانیں گے؟ اور کس طرح سمجھیں گے کہ ان کا خدا کے ساتھ خاص ربط ہے؟ اور کس طرح ان پر اعتماد کرسکیں گے کس طرح ان کی دعوت کو قبول کرلیں گے؟ پیغمبری کی مخصوص علامت اور نشانی کا نام معجزہ ہے یعنی ایسا کام انجام دینا کہ جس کے بجالانے سے عام لوگ عاجز ہوں اور اسے نہ کرسکیں_ وہ کام خدا اور اس کے مخصوص بھیجے ہوئے انسان کے سوا اور کوئی اس طرح انجام نہ دے سکے جب دعوی کرے کہ میں خدا کا پیغمبر ہوں اور خدا سے خاص ربط رکھتا ہوں اور پھر معجزہ بھی لے آیا ہوں تو حق طلب انسان سمجھ جائے گا کہ وہ واقعی پیغمبر اور خدا کا بھیجا ہوا ہے اور خدا سے خاص ربط رکھتا ہے امین ہے اور اللہ کا مورد اعتماد ہے حق طلب

۸۳

لوگ بھی اس پر اعتماد کریں گے اور اس کی دعوت اور حکم کو قبول کرلیں گے اور کہیں گے چونکہ یہ وہ کام کرتا ةے جو صرف خدا کرسکتا ہے یعنی اس کے پاس معجزہ ہے لہذا وقعی پیغمبر ہے اور خدا کے ساتھ خاص ربط رکھتا ہے آگاہ اور حق طلب لوگ پیغمبروں کو معجزہ کی وجہ سے پہچانتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ یہ خدا کے بھیجے ہوئے ہیں_

۸۴

آٹھواں سبق

رسالت کی نشانیاں

آپ پڑھ چکے ہوں گے کہ پیغمبروں کے معجزات کیسے ہوتے ہیں اور یہ بھی جانتے ہوں گے کہ حضرت موسی علیہ السلام اپنے ہاتھ کو گریبان میں لے جاتے اور جب اسے باہر نکالتے تو وہ ایک خوبصورت ستارے کی طرح چمکتا تھا_ حضرت موسی علیہ السلام کا عصی اللہ کے حکم سے ایک زبردست سانپ بن جاتا اور اسی عصا نے اللہ کے حکم سے دریا کے پانی کو اسی طرح چیردیا کہ اس کی زمین ظاہر ہوگئی_

خداوند عالم نے ان کا اور دیگر کئی ایک معجزات کا ذکر قرآن میں کیا ہے_ حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق فرمایا ہے کہ مادر زاد اندھوں کو اللہ کے حکم سے بغیر کوئی دواء استعمال کئے شفا دے دیتے تھے_

مردوں کو اللہ کے حکم سے زندہ کرتے تھے مٹی سے پرندے

۸۵

کی صورت بناتے اور اللہ تعالی کے اذن سے اس میں پھونک مارتے تو اس میں روح آجاتی تھی او روہ پرندہ ہوجاتا تھا، اور اڑجاتا تھا_

حضرت عیسی علیہ السلام اسرار سے واقف تھے مثلا جس شخص نے گھر میں کوئی چیز کھائی ہو یا اس نے گھر میں کوئی چیز چھیا کر رکھی ہو تو آپ اس کی خبر دیتے تھے آپ جب گہوارے میں تھے تو لوگوں سے باتیں کرتے تھے نمرود کی جلائی ہوئی آگ اللہ کے اذن اور حکم سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے سرد ہوگئی اور آپ سالم رہے اور کوئی خراش آپ کو نہ پہنچی ہمارے پیغمبر علیہ السلام کے بھی بے شمار معجزے تھے آپ کے معجزات میں سے سب سے بڑا معجزہ قرآن کریم ہے آگے چل کر پیغمبر اسلام(ص) کے معجزات کے بارے میں بیان کیا جائے گا_

اب ہم یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ معجزہ کس طرح اور کس کی قدرت سے انجام پاتا ہے_

اللہ تعالی اپنی بے پناہ قدرت سے جو کام انجام دیتا چاہئے بجالا سکتا ہے خدا کے سواء کون ہے جو خشک لکڑی کو سانپ بنادے_ خدا کے سوا کون ہے جو ایک اشارے سے دریا چیردے_ خدا کے سواء کون ہے جو مادر زاد اندھے کو شفا دے دے اور وہ بینا ہوجائے_ خدا کے سوا کون ہے جو ایک بے جان مجسمہ کو زندہ کردے اور اس کو پر و بال آنکھ اور کان عطا کردے خدا کے سوا کون ہے جو غیب سے مطلع ہوسکتا ہے پیغمبر اس قدرت اور طاقت کے ذریعے جو اللہ تعالی نے انہیں عنایت فرمائی ہے ا للہ تعالی کے اذن سے ایسے کام انجام دیتے ہیں تا کہ حق طلب لوگ ان امور کے

۸۶

دیکھنے اور مشاہدہ کرنے سے سمجھ جائیں کہ ان تعلق اور خاص ربط خدا سے ہے اور اسی کے چنے ہوئے ہیں اور اسی کی طرف سے پیغام لائے ہیں_ اس قسم کے کاموں کو معجزہ کہاجاتا ہے معجزہ ایسا کام ہے کہ جسے خدا کے علاوہ یا اس کے خاص بھیجے ہوئے بندوں کے علاوہ کوئی بھی انجام نہیں دے سکتا جب خدا کسی کو پیغمبر بنا کر بھیجتا ہے تو کوئی نشانی اور معجزہ اسے دے دیتا ہے تا کہ اس کے ذریعہ پہچانا جائے اگر پیغمبر اللہ تعالی کی طرف سے واضح نشانی نہ لائیں تو لوگ انہیں کس طرح پہچانیں اور کس طرح جانیں کہ واقعی یہ خدا کا پیغمبر ہے_

سوالات

۱)___ کیا پیغمبر کے پہچاننے کے لئے کسی خاص نشانی کی ضرورت ہے اور کیوں؟

۲)___ پیغمبر کی نشانی کا کیا نام ہے؟

۳)___ حق طلب لوگ کس ذریعہ سے پیغمبر کو پہچانتے ہیں؟

۴)___ معجزہ کسے کہا جاتا ہے؟

۵)___ مشاہدہ معجزہ کے بعد کس طرح سمجھا جاتا ہے کہ اس کے لانے والے اللہ تعالی کے پیغمبر ہیں؟

۶)___ معجزہ کس کی قدرت سے انجام پاتا ہے؟

۷)___ پیغمبروں کو یہ قدرت کون عنایت کرتا ہے؟

۸۷

نواں سبق

نوجوان بت شکن

حضرت ابراہیم علیہ السلام جس دن کے انتظار میں تھے وہ دن آپہنچا کلہاڑ اٹھا کر بت خانہ کی طرف روانہ ہوئے اور مصمم ارادہ کرلیا کہ تمام بتوں کو توڑ ڈالیں گے_ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو معلوم تھا کہ یہ کام بہت خطرناک ہے اور انہیں علم تھا اگر انہیں بت توڑنے دیکھ لیں یا بت توڑنے کی آواز سن لیں تو اس وقت لوگ ان پر ہجوم کریں گے اور انہیں ختم کردیں گے لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام وقت شناس تھے اور جانتے تھے کہ کون سا وقت بت توڑنے کے لئے منتخب کریں لہذا جس دن شہر کے تمام لوگ عید مانے کے لئے بیابان میں جانے لگے تو انہوں نے چاہا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی اپنے ساتھ لے جائیں لیکن آپ ان کے ساتھ نہ گئے اور کہا کہ میں مریض ہوں لہذا شہر ہی میں رہوں گا_

۸۸

جب تمام لوگ بیابان کی طرف جاچکے تو حضرت ابراہیم (ع) ایک تیز کلھاڑے کو لے کر بت خانہ کی طرف گئے اور آہستہ سے اس میں داخل ہوئے وہاں کوئی بھی موجود نہ تھا بت اور چھوٹے بڑے مختلف اشکال کے مجسمے بت خانہ میں رکھے ہوئے تھے جاہل لوگوں نے ان کے سامنے غذا رکھی ہوئی تھی تا کہ بتوں کی نذر کی ہوئی غذا با برکت ہوجائے اور جب وہ بیابان سے واپس آئیں تو اس غذا کو کھائیں تا کہ بیمار نہ ہوں_

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک نگاہ بتوں پر ڈالی اور جاہل لوگوں کی اس حالت پر افسوس کیا اور اپنے آپ سے کہا کہ یہ لوگ کس قدر نادان ہیں کہ پتھر اور لکڑی سے بت بناتے ہیں اور پھر جنہیں انہوں نے خود بنایا ہے اس کی پرستش کرتے ہیں اس کے بعد آپ نے بتوں کی طرف نگاہ کی او رفرمایا کہ کیوں غذا نہیں کھاتے؟ کیوں کلام نہیں کرتے؟ یہ جملہ کہا اور طاقتور ہاتھ سے کلہاڑ اٹھایا اور بتوں کی طرف گئے اور جلدی جلدی بتوں کو زمین پر گرانا شروع کیا صرف ایک بڑے بت کو باقی رہنے دیا اور کلہاڑے کو اس کے کندھے پر ڈال کر بت خانہ سے باہر نکل آئے غروب آفتاب کے قریب لوگ بیابان سے واپس آئے اور بت خانے کی طرف گئے پہلے تو وحشت زدہ مبہوت اور متحیر کھڑے بتوں کو دیکھتے رہے اس کے بعد بے اختیار چیخے روئے اور اشک بہائے اور ایک دوسرے سے پوچھتے کہ کس نے ان بتوں کو توڑا ہے؟ کس نے اتنا بڑا گناہ کیا ہے؟ بت غضب ناک ہوں گے اور ہماری زندگی بد نصیبی سے ہم کنار کردیں گے بت خانہ کے بچاری نے یہ تمام رپورٹ نمرود تک پہنچائی نمرود غضب

۸۹

ناک ہوا اور حکم دیا کہ اس واقعہ کی تحقیق کی جائے اور مجرم کو پکڑا جائے حکومت کے عملے نے تحقیق و تفتیش کی او رخبر دی کہ ایک نوجوان جس کا نام ابراہیم ہے ایک زمانے سے بتوں کی بے حرمتی کی جسارت کرتا رہا ہے ممکن ہے کہ یہ بھی اسی نے کیا ہوا اور وہی مجرم او رگناہ گار ہو نمرود نے حکم دیا کہ اسے پکڑا جائے جناب ابراہیم علیہ السلام پکڑ کر نمرود کی عدالت میں لائے گئے

حضرت ابراہیم (ع) نمرود کی عدالت میں

عدالت لگائی گئی حج اور دوسرے ارکان اپنی اپنی جگہ پر بیٹھے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو عدالت میں لایا گیا_ جج اٹھا اور کہا کہ ہم سب کو معلوم ہے کہ تہوار کے دن بڑے بت خانہ کے بت توڑ دیئےئے ہیں اس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف متوجہ ہوکر کہا اے ابراہیم (ع) تمہیں اس واقعہ کے متعلق کیا علم ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک گہری نگاہ اس کی طرف کی او رکہا کہ یہ سوال مجھ سے کیوں کر رہے ہو_ جج نے کہا کہ میں یہ کس سے پوچھوں ابراہیم علیہ السلام نے بڑے ٹھنڈے انداز میں فرمایا کہ بتوں سے پوچھو؟ جج نے تعجب سے کہا کہ بتوں سے پوچھوں؟ ٹوٹے ہوئے بت تو جواب نہیں دیتے؟ ابراہیم علیہ السلام نے جج کی بات کو سنا اور تھوڑی دیر کے بعد کہا کہ دیکھو کہ بتوں کو کس چیز سے توڑا گیا ہے

۹۰

جج کو غصّہ آیااوراپنی جگہ سے اٹھا اور غصّہ کے عالم میں کہا کہ بتوں کو کلہاڑے سے توڑا گیا ہے لیکن اس کا کیا فائدہ ہم تو چاہتے ہیں کہ معلوم کریں کہ بتوں کو کسنے توڑاغ ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آرام و سکون سے فرمایا کہ سمجھنا چاہتے ہو کہ کسنے بتوں کو کلہاڑے سے توڑا ہے دیکھو کہ کلہاڑا کس کے ہاتھ میں ہے او رکس کے کندھے پر ہے؟ جج نے کہا کہ کلہاڑا تو برے بت کے کندھے پر ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بات کو کاٹتے ہوئے فرمایا کہ جتنا جلدی ہوسکے بڑے بت کو عدالت میں حاضر کرو کیونکہ وہ خود تو ٹوٹا نہیں ہے جج غصّہ میں آکر کہنے لگا اے ابراہیم کیا کہہ رہے ہو کتنے نادان ہو؟ بت تو بات نہیں کرتے نہ ہی کوئی چیز سنتے ہیں؟ پتھر سے تو کوئی تحقیق نہیں کی جاسکتی _

حضرت ابراہیم علیہ السلام اس نتیجے کے منتظر تھے_ کہا کہ تم نے اعتراف کرلیا ہے کہ بت بات نہیں کرتے اور نہ کوئی چیز سنتے ہیں پس کیوں ایسے نادان اور کمزور بتوں کی پرستش کرتے ہو؟ جج کے پاس حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس بات کا کوئی جواب نہ تھا تھوڑا سا صبر کیا اور کہا کہ اب ان باتوں کا وقت نہیں بہرحال بت توڑے گئے ہیں اور ہم تمہیں اس کا مجرم سمجھتے ہیں کیونکہ تم اس سے پہلے بھی بتوں کی بے حرمتی کی جسارت کرتے رہتے تھے لہذا تمہارا مجرم ہونا عدالت کے لئے ثابت ہے؟ سزا کے لئے تیار ہوجاؤ_

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک پر اسرار نگاہ جج کی طرف ڈالی اور فرمایا کہ تم میرے خلاف کوئی دلیل نہیں رکھتے میں بھی تمہاری سزا سے

۹۱

خوف زدہ نہیں ہوں_ خدائے قدیر میرا محافظ ہے میری نگاہ میں جس نے بھی بت توڑے ہیں وہ تمہارا خیر خواہ تھا اور اس نے اچھا کام انجام دیا ہے وہ چاہتاتھا کہ تمہیں سمجھائے کہ بت اس لائق نہیں کہ ان کی پرستش کی جائے اور میں بھی تمہیں واضح طور پر کہہ رہا ہوں کہ میں بت پرست نہیں ہوں اور بتوں کے ساتھ عقیدہ نہیں رکھتا اور بت پرستی کو اچھا کام نہیں جانتا میں ایک خدا کی پرستش کرتا ہوں وہ ایک خدا جو مہربان ہے اور جس نے زمین اور آسمان اور تمام جہان اور اس میں موجود ہر چیز کو خلق کیا ہے اور وہی اسے منظم کرتا ہے تمام کام اس کے ہاتھ میں ہیں_ خدا کے سواء کوئی بھی پرستش کے لائق نہیں ہیں اس کے حکم کو مانتا ہوں اور صرف اس کی عبادت کرتا ہوں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی گفتگو بعض سا معین پر اثر انداز ہوئی انہوں نے کہا کہ حق حضرت ابراہیم (ع) کے ساتھ ہے ہم ضلالت و گمراہی میں تھے_ اس طرح حضرت ابراہیم (ع) نے ایک عام مجلس میں لوگوں کے سامنے اپنا مدعی بیان کیا_ جج باوجود یکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خلاف کوئی دلیل نہیں رکھتا تھآ اس نے ابراہیم علیہ السلام کے خلاف حکم دیا کہ ابراہیم (ع) نے ہمارے بتوں کی بے حرمتی کی ہے اور بتوں کو توڑا ہے بتوں کو توڑنے کے جرم میں انہیں آگ میں ڈالیں گے اور ان کو جلادیں گے تا کہ راکھ ہوجائیں اور ان کا اور ان کے ہاتھوں کا کہ جنہوں نے بت توڑے ہیں نشان تک باقی نہ رہے اس نے یہ فیصلہ لکھا اور اس پر دستخط کئے اور اس حکم کے اجراء کو شہر کے بڑے بچاری کے سپرد کردیا_

۹۲

حضرت ابراہیم (ع) اور اتش نمرود

شہر کے بڑے بچاری نے نمرود کی عدالت کے جج کا حکم پڑھا اور کہا کہ ابراہیم (ع) نے ہمارے بتوں کی بے حرمتی کی ہے بتوں کو توڑا ہے اسے بتوں کے توڑنے کے جرم میں آگ میں ڈالیں گے اور جلا دیں گے اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف منہ موڑا اور کہا ہم تھوڑی دیر بعد تمہیں بتوں کے توڑنے کے جرم میں آگ میں ڈالیں گے اس آخری وقت میں اگر کوئی وصیت ہو تو کہو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے نورانی چہرے کے ساتھ بہت ہی سکون و آرام سے بلند آواز میں فرمایا_

لوگو میری نصیحت اور وصیت یہ ہے کہ ایک خدا پر ایمان لاؤ اور بت پرستی چھوڑوو_ ظالموں اور طاقتوروں کی اطاعت نہ کرو صرف خدا کی پرستش کرو اس کے فرمان کو قبول کرو بڑے بچاری نے حضرت ابراہیم (ع) کی بات کاٹ دی اور بہت غصّہ کے عالم میں کہنے لگا_

اے ابراہیم تم اب بھی ان باتوں سے دست بردار نہیں ہوتے ابھی تم جلادیئے جاؤگے_ اس کے بعد حکم دیا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں پھینک دو

حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں پھینک دیا گیا جاہلوں نے

۹۳

نعرہ لگایا بت زندہ باد_ ابراہیم (ع) بت شکن مردہ باد_ حضرت ابراہیم (ع) کہ جن کا دل عشق الہی سے پرتھا آسمان اور زمین کے وسط میں دعا کرتے تھے اور فرماتے تھے اے میرے واحد پروردگار_ اے مہربان پروردگار اے میری پناہ، اے وہ ذات کہ جس کا کوئی فرزند نہیں اور تو کسی کا فرزند نہیں، اے بے مثل خدا میں فتح اور کامرانی کے لئے تجھ سے مدد چاہتا ہوں_

حضرت ابراہیم علیہ السلام اس طریقہ سے آگ میں ڈالے گئے اور بڑے بچاری نے لوگوں سے کہا اے بابل کے شہریوں دیکھا ہم نے کس طرح حضرت ابراہیم(ع) کو جلادیا تمہیں معلوم ہونا چاہیئے کہ بت محترم اور ہر ایک کو بتوں کی پرستش کرنی چاہیئے اور نمرود کے حکم کی اطاعت کرنی چاہیئے_

اب نمرود کے حکم سے آگ کے بلند شعلے ابراہیم علیہ السلام کو راکھ کردیں گے لیکن اسے علم نہ تھا کہ اللہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مدد کی اور نمرود کی آگ اللہ کے حکم سے حضرت ابراہیم (ع) پر ٹھنڈی ہوگئی اور ان کے لئے سلامتی کا گہوارہ بن گئی کافی وقت گذر گیا لوگوں نے حیرت کے عالم میں ایک طرف اشارہ کیا اور کہا کہ حضرت ابراہیم (ع) آگ میں چل پھر رہے ہیں انہیں آگ نے نہیں جلایا_ ابراہیم علیہ السلام زندہ باد بڑا بچاری متحيّر ادھر ادھر دوڑتا تھا اور فریاد کرتا تھا اور نمرود بھی غصّہ اور تعجب سے فریاد کرتا تھا اور زمین پر پاؤں مارتا تھا_

حضرت ابراہیم (ع) جن کا دل ایمان سے پرتھا آہستہ آہستہ نیم جلی

۹۴

لکڑیوں اور آگ کے معمولی شعلوں پر پاؤں رکھتے ہوئے باہر آرہے تھے لوگ تعجب اور وحشت کے عالم میں آپ کی طرف دوڑے اور آپ کو دیکھنے لگے حضرت ابراہیم علیہ السلام کافی دیر چپ کھڑے رہے اس کے بعد ہاتھ اٹھا کر ان کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا تم نے اللہ تعالی کی قدرت کودیکھا اور اس کے ارادے کامشاہدہ کیا اب سمجھ لو کہ کوئی بھی اللہ تعالی کی قدرت سے مقابلہ نہیں کرسکتا کوئی بھی ارادہ سوائے ذات الہی کے ارادے کے غالب اور فتح یاب نہیں ہوسکتا ضعیف اور نادان بتوں کی عبادت سے ہاتھ اٹھا لو بت نہ پوجو، صرف خدائے وحدہ، لا شریک کی عبادت کرو''

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ حضرت ابراہیم (ع) لوگوں کے ساتھ بیابان کیوں نہ گئے تھے؟

۲)___ بتوں کو کیوں توڑا تھا اور بڑے بت کو سالم کیوں رہنے دیا تھا؟

۳)___ حضرت ابراہیم (ع) نے کسطرح ثابت کیا تھا کہ بت قابل پرستش نہیں ہیں؟

۴)___ حضرت ابراہیم (ع) نے نمرود کی عدالت میں کس طرح بت پرستوں کو مغلوب کیا؟

۵)___ حضرت ابراہیم (ع) کی آخری بات نمرود کی عدالت میں کیا تھی؟

۶)___ حضرت ابراہیم (ع) کی نصیحت کیا تھی؟

۹۵

۷)___ حضرت ابراہیم (ع) کے بت توڑنے اور عدالت میں گفتگو کرنے کی کیا غرض تھی اور اس سے کیا نتیجہ لیا؟

۸)___ حضرت ابراہیم (ع) کو آگ میں انہوں نے کیوں ڈالا اور کیا وہ اپنی غرض کو پہنچے؟

۹)___ جب حضرت ابراہیم (ع) کو آگ میں پھینکا گیا تو آپ نے اللہ تعالی سے کیا کہا؟

۱۰)___ جب آپ آگ سے باہر نکلے تو لوگوں سے کیا پوچھا اور ا ن سے کیا فرمایا؟

۱۱)___ کیا صرف حضرت ابراہیم (ع) کا مقصد تھا کہ نمرود اور بت پرستی کا مقابلہ کریں؟ یا ہر آگاہ ا نسان کا یہی مقصد حیات ہے؟

۱۲)___ کیا آپ بھی حضرت ابراہیم (ع) کی طرح بت پرستی کے ساتھ مقابلہ کرتے ہیں؟

۱۳)___ کیا ہمارے زمانے میں بت پرستوں کا وجود ہے اور کس طرح؟

۱۴)___ حضرت ابراہیم (ع) کی داستاں سے کیا درس آپ نے حاصل کیا ہے؟ اور کس طرح آپ اسے عملی طور سے انجام دیں گے اور اس بزرگ پیغمبر کے کردار پر کیسے عمل کریں گے؟

۹۶

دسواں سبق

حضرت موسی (ع) خدا کے پیغمبر تھے

پہلے زمانے میں ایک ظالم انسان مصر پر حکومت کرتاتھا کہ جسے فرعون کہا جاتا ہے فرعون ایک خودپسند اور مغرور انسان تھا لوگوں سے جھوٹ کہتا تھا کہ میں تمہارا بڑا خدا اورپروردگار ہوں تمہاری زندگی اورموت میرے ہاتھ میں ہے مصر کی وسیع زمین اور یہ نہریں سب میری ہیں تم بیغر سوچے سمجھے اور بیغر چوں و چرا کئے میری اطاعت کرو_ مصر کے نادان لوگ اس کے محکوم تھے اور اس کے حکم کو بغیر چوں و چرا کے قبول کرتے تھے اور اس کے سامنے زمین پر گرتے تھے صرف حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد جو مصر میں رہتی تھی او رخداپرست تھی فرعون کے سامنے زمین پر نہیں گرتی تھی یعنی اسے سجدہ نہیں کرتی تھی اسی لئے فرعون انہیں بہت سخت کاموں پر مامور کرتا اور یعقوب کی اولاد

۹۷

مجبور تھی کہ بغیر کوئی مزدوری لئے فرعون اور فرعونیوں کے لئے زراع کریں، کام کریں ان کے بہترین محل بنائیں لیکن اس تمام محنت اور کام کرنے کے باوجود بھی فرعون ان پر رحم نہیں کیا کرتا تھا ان کے ہاتھ پاؤں کاٹتا اور پھانسی پر لٹکاتا تھا ایسے زمانے میں خداوند عالم نے حضرت موسی (ع) کو پیغمبری کے لئے چنا_ خداوند عالم حضرت موسی علیہ السلام کے ساتھ کلام کرتاتھا اور جناب موسی (ع) اللہ تعالی کا کلام سنتے تھے اے موسی (ع) میںنے تمہیں لوگوں میں سے پیغام پہنچانے کے لئے چنا ہے میری بات کو سنو میں تیرا پروردگار ہوں، میرے سوا کوئی اور خدا نہیں، نماز پڑھو اور مجھے اپنی نماز میں یاد کرو اس کے بعد اللہ تعالی نے جب حضرت موسی علیہ السلام سے پوچھا یہ کیا ہے جو تو نے ہاتھ میں لے رکھا ہے_

حضرت موسی علیہ السلام نے جواب میں کہا یہ میرا عصا ہے جب تھک جاتا ہوں اس کا سہارا لے کر آرام کرتا ہوں بھیڑ بکریوں کو ہاکتا ہوں اور دوسرے فوائد بھی میرے اس میں موجود ہیں اللہ تعالی نے حکم دیا کہ اسے اپنے ہاتھ سے پھینکو حضرت موسی نے اپنے عصا کو زمین پر ڈالا بہت زیادہ تعجب سے دیکھا کہ عصا ایک بپھرا ہوا سانپ بن گیا ہے اور منہ کھول رکھا ہے اور آگے بڑھ رہا ہے حضرت موسی علیہ السلام ڈرے اللہ کا حکم ہوا کہ اسے پکڑو اور نہ ڈرو ہم اسے اپنی پہلی حالت میں لوٹا دیں گے اور پھر یہ عصا بن جائے گا حضرت موسی علیہ السلام نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور اسے پکڑا وہ دوبارہ بن گیا خداوند عالم نے حکم دیا اے موسی (ع) اپنے ہاتھ کو اپنے گریبان

۹۸

میں ڈالو_ حضرت موسی علیہ السلام نے اپنا ہاتھ گریبان میں ڈالا اور جب اسے باہر نکالا تو آپ کا ہاتھ ایک انڈے کی طرح سفید تھا اور چمک رہا تھا اللہ تعالی کی طرف سے حکم ہوا کہ اے موسی ان دو نشانیوں او رگمراہوں سے (یعنی ان دو معجزوں کے ساتھ) فرعون کی طرف جاؤ اور اسے دعوت دو کیوں کہ وہ بہت مغرور اور سرکش ہوگیا ہے پہلے اسے نرمی اور ملائمت کے ساتھ دعوت دنیا شاید نصیحت قبول کرلے یا ہمارے عذاب سے ڈرجائے اگر کوئی نشانی یا معجزہ طلب کرے تو اپنے عصا کو زمین پر ڈالو اور اپنے ہاتھ کو گریبان میں ڈال کر اسے دکھلاؤ_

حضرت موسی (ع) فرعون کے قصر میں

فرعون اور اہلیان مصر قصر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ حضرت موسی (ع) وارد ہوئے فرعون جناب موسی علیہ السلام کو پہلے سے پہچانتا تھا ان کی طرف تھوڑی دیر متوجہ رہا پھر پوچھا کہ تم موسی (ع) ہو_ حضرت موسی علیہ السلام نے فرمایا ہاں: میں موسی ہوں میں خدا کی طرف سے آیا ہوں تا کہ تمہیں ہدایت خواہی اور سرکشی کو ترک کرو اللہ تعالی کے فرمان کی اطاعت کرو تا کہ سعادتمند بن جاؤ اللہ تعالی نے مجھے حکم دیا ہے کہ بنی اسرائیل کو ذلّت و خواری سے نجاد دلاؤں_

۹۹

فرعون نے غصّہ اور تکبّر سے کہا اے موسی آخر تمہارا خدا کون ہے حضرت موسی علیہ السلام نے فرمایا کہ میرا خدا وہ ہے کہ جس نے زمین اور آسمان کوپیدا کیا ہے تجھے اور تیرے باپ دادا کو پیدا کیا ہے تمام موجودات کو پیدا کیا ہے وہی سب کو روزی دینے والا اور ہدایت کرنے والا ہے فرعون حضرت موسی (ع) کی بات کو اچھی طرح سمجھتا تھا اپنے آپ کو نادانی میں ڈالا بجائے اس کے کہ حضرت موسی علیہ السلام کو جواب دیتا قصر میں بیٹھے لوگوں کی طرف رخ کر کے کہا_

کیا مصر کی بڑی سلطنت میری نہیں، کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں کیا تمہاری زندگی اورموت میرے ہاتھ میں نہیں کیا میں تمہیں روزی دینے والا نہیں ہوں اپنے سواء تمہارے لئے میں کوئی پروردگار نہیں جانتا ہمیں حضرت موسی کے خدا کی کیا ضرورت ہے؟

حضرت موسی علیہ السلام نے بڑے اطمینان سے کہا اے لوگو تم اس دنیا کے بعد ایک اور دنیا کی طرف جاؤ گے وہاں ایک اوردنیا کی طرف جاؤ گے وہاں ایک اور زندگی ہے تمہیں چاہیے کہ ایسے کام کرو کہ جس سے آخرت میں بھی سعادتمند رہو اللہ تعالی کے علاوہ آخرت اور اس دنیا کی بدبختی اور سعادت کے اسباب کو کوئی نہیں جانتا وہ دنیا اور آخرت کا پیدا کرنے والا ہے میں اسی کی طرف سے آیا ہوں اور اسی کا پیغام لایا ہوں، میں اللہ کا رسول ہوں میں اسی لئے آیا ہوں تا کہ تمہیں زندگی کا بہترین دستور دوں اور تم دنیا وآخرت میں اچھی زندگی بسر کرو اور سعادتمند ہوجاؤ_

فرعون نے بے اعتنائی او رتکبّر سے کہا_ کیاتم اپنی پیغمبری پر کوئی

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285