‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) جلد ۲

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) 13%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 285

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 285 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 121455 / ڈاؤنلوڈ: 4282
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) جلد ۲

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

نام کتاب تعلیم دین - ساده زبان میں؛جلد دوم

تالیف آیة اللہ ابراہیم امینی

ترجمه شیخ الجامعہ مولانا الحاج اختر عباس صاحب

نظرثانی حجة الاسلام مولانا نثار احمد صاحب

کتابت جعفرخان سلطانپور

ناشر انصاریان پبلیکیشنز قم ایران

طبع صدر قم

تعداد سه ہزار

تاریخ ۱۴۱۴ ھ

۳

عرض ناشر

کتاب تعلیم دین سادہ زبان میں حوزہ علمیہ قم کی ایک بلند پایہ علمی شخصیت حضرت آیة اللہ ابراہیم امینی کی گرامی مایہ تالیفات میں سے ایک سلسلہ ''آموزش دین در زبان سادہ'' کا اردو ترجمہ ہے_

اس کتاب کو خصوصیت کے ساتھ بچوں اور نوجوانوں کے لئے تحریر کیا گیا ہے_ لیکن اس کے مطالب اعلی علمی پیمانہ کے حامل ہیں اس بناپر اعلی تعلیم یافتہ اور پختہ عمر کے افراد بھی اسی سے استفادہ کرسکتے ہیں_

بچوں اور جوانوں کی مختلف ذہنی سطحوں کے پیش نظر اس سلسلہ کتب کو چارجلدوں میں تیار کیا گیا ہے_ کتاب خدا اس سلسلہ کتب کی چوتھی جلد کے ایک حصّہ پر مشتمل ہے جسے کتاب کی ضخامت کے پیش نظر علیحدہ شائع کیا جارہا ہے_

اس سلسلہ کتب کی امتیازی خصوصیات درج ذیل ہے_

___ کتاب کے مضامین گوکہ اعلی مطالب پر مشتمل ہیں لیکن انھیں دل نشین پیرائے اور سادہ زبان میں پیش کیا گیا ہے تا کہ یہ بچّوں کے لئے قابل

۴

فہم اور دلچسپ ہوں_

___ اصول عقائد کے بیان کے وقت فلسفیانہ موشگافیوں سے پرہیز کرتے ہوئے اتنا سادہ استدلالی طریقہ اختیار کیا گیا ہے کہ نوعمر طلباء اسے آسانی سے سمجھ سکتے ہیں_

___ مطالب و معانی کے بیان کے وقت یہ کوشش کی گئی ہے کہ پڑھنے والوں کی فطرت خداجوئی بیدار کی جائے تا کہ وہ از خود مطالب و مفاہیم سے آگاہ ہوکر انھیں دل کی گہرائیوں سے قبول کریں اور ان کا ایمان استوار پائیدار ہوجائے_

___ ہماری درخواست پر حضرت حجة الاسلام و المسلمین شیخ الجامعہ الحاج مولانا اختر عباس صاحب قبلہ دام ظلہ نے ان چاروں کتابوں کا ترجمہ کیا_

ان کتابوں کو پہلا ایڈیشن پاکستان میں شائع ہوا تھا اور اب اصل متن مؤلف محترم کی نظر ثانی کے بعد اور اردو ترجمہ حجة الاسلام جناب مولانا نثار احمد ہندی کی نظر ثانی اور بازنویسی کے بعد دوبارہ شائع کیا جارہا ہے اپنی اس ناچیز سعی کو حضرت بقیة اللہ الاعظم امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی خدمت میں ہدیہ کرتا ہوں

___ ہماری دلی آرزو ہے کہ قارئین گرامی کتاب سے متعلق اپنی آراء اور قیمتی مشوروں سے مطلع فرمائیں

والسلام ناشر محمد تقی انصاریان

۵

بسم اللہ الرحمن الرحیم

شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو رحمن و رحیم ہے

نام کتاب تعلیم دین _ سادہ زبان میں

تالیف آیة اللہ ابراہیم امینی

ترجمہ شیخ الجامعہ مولانا الحاج اختر عباس صاحب

نظر ثانی حجة الاسلام مولانا نثار احمد صاحب

کتابت جعفر خان سلطانپوری

ناشر انصاریان پبلیکشنزقم ایران

طبع صدر قم

تعداد سہ ہزار

تاریخ ۱۴۱۴ ھ

۶

حصّہ اوّل

خداشناسی

۷

پہلا سبق

خدا خالق کائنات

جب میرے ابّا جان نے کھانے کا آخری لقمہ کھایا تو کہا الحمد اللہ رب العالمین_ میں نے کہا: ابا جان الحمد اللہ رب العلمین کا کیا مطلب ہے کیوں آپ ہمیشہ کھانا کھانے کے بعد یہ جملہ کہتے ہیں؟

میرے ابا نے کہا: بیٹے میں اس جملے سے خداوند عالم کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور اس کی نعمتوں کا شکر بجالاتا ہوں وہ خدا جس نے تمام چیزوں کو پیدا کیا ہے اور پرورش کرتا ہے یہ تمام نعمتیں خدا نے ہمیں دی ہیں جب ہم ان سے استفادہ کرتے ہیں تو ضروری ہے کہ نعمتوں کے مالک کا شکریہ ادا کریں_

اسی غذا او رکھانے میں ذرا غور کرو کہ خدا نے ہمیں کتنی نعمتیں بخشی ہیں آنکھ سے غذا کو دیکھتے ہیں، ہاتھ سے لقمہ اٹھاتے ہیں اور منہ میں ڈالتے ہیں

۸

اور لبوں کے ذریعہ کو بند کرتے ہیں او رزبان کے ذریعہ لقمے کو منہ کے اندر پھیرتے ہیں اور دانتوں سے چباتے ہیں اور پھر اندر نگل لیتے ہیں لیکن یہی کام جو بظاہر سادہ نظر آتے ہیں بہت دقیق اور حیرت انگیز ہیں_ انگلیوں اور ہاتھوں کو کتنا خوبصورت اور مناسب خلق کیا گیا ہے_ انگلیاں خواہش کے مطابق کھلتی اور بند ہوجاتی ہیں اور جس قدر ضروری ہوتا ہے کھل جاتی ہیں ہاتھ کو جس طرح چاہیں پھیر سکتے ہیں انگلیاں ہماری ضرورت کو پورا کرتی ہیں کبھی تم نے سوچا ہے کہ اگر ہمارے ہاتھ اس طرح ہمارے اختیار میں نہ ہوتے تو ہم کیا کرتے_

دانتوں کی تخلیق کس قدر دلچسپ اور مشکل ہے_ آئینے میں اپنے دانتوں کو دیکھوان میں سے بعض تیز اور غذا کو چبانے کے لئے ہیں اگر ہمارے دانت نہ ہوتے تو ہم کیسے غذا کھاتے اور اگرتمام دانت ایک ہی طرح کے ہوتے تو بھی غذا کو صحیح طریقے سے نہیں چبا سکتے تھے_

بیٹا سب سے بڑھ کر تعجب خیز لعاب دہن ہے لعاب غذا کو ہضم ہونے کے لئے لازمی ہے اسی لئے نوالہ جتنا چبایا جائے جلدی اور بہتر ہضم ہوتا ہے اس کے علاوہ لعاب لقمے کو تر کرتا ہے تا کہ آسانی سے گلے سے اتر سکے لعاب تین چھوٹے غدوں سے ترشح کرتا ہے ان غدّوں کو لعابی غدّہ کہا جاتا ہے_ دیکھنے اگر ہمارا منہ خشک ہوتا تو ہم کیا کرتے کیا غذا کھاسکتے تھے؟ کیا کلام کرسکتے تھے؟ دیکھو یہی لعاب دہن کتنی بڑی نعمت ہے_ لعابی غدّے کتنے مفید اور اہم کام انجام دیتے ہیں اب بیٹے بتاؤ کس کو ہماری فکر تھی اور کون جانتا تھا کہ ہمارا منہ تر ہونا چاہیے کون ہماری فکر میں تھا اور جانتا تھا کہ غذا کے ہضم ہونے کیلئے اور بات کرنے کے لئے لعاب ضروری ہے اسی لئے لعابی غدّے ہمارے منہ

۹

میں خلق کردیئےاس کو ہماری فکر تھی اور جانتا تھا کہ ہم کو لب چاہیں؟ کسکو ہماری فکر تھی اور جانتا تھا کہ ہمیں ہاتھ اور انگلیاں در کار ہیں_ میں باپ کی بات غور سے سن رہا تھا_ میں نے جواب دیا ابا جان مجھے معلوم ہے کہ خدا کو ہماری فکر تھی وہ ہماری ضروریات سے باخبر تھا_ جس کی ہمیں ضرورت تھی اس نے بنادیا_ میرے باپ نے کہا: شاباش بیٹا تم نے درست کہا ہے، لعابی غدّے خودبخود وجود میں نہیں آئے دانت اور لب اور انگلیاں خودبخود بغیر حساب کئے پیدا نہیں ہوئیں یہ تمام نظم و ترتیب اس بات کی دلیل ہے کہ ان کی خلقت ایک دانا ذات سے وابستہ ہے اور پیدائشے کا سرچشمہ اور منبع خدا ہے_ میرے بیٹے: جب انسان اللہ تعالی کی بخشش کو دیکھتا ہے تو بے اختیار اس کا خوبصورت نام لیتا ہے اور اس کی ستائشے اور تعریف کرتا ہے اور اس کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرتا ہے_ احمد جان الحمد اللہ رب العلمین یعنی تمام تعریفیں اس خدا کے ساتھ مخصوص ہیں جو ساری کائنات کا پروردگار ہے_

سوچو ا ور جواب دو

۱)___ احمد نے باپ سے کیا پوچھا؟

۲)___ احمد کا باپ کھانے کے بعد کیا کرتا تھا کس کا شکریہ ادا کرتا تھا؟

۳)___ کیا اللہ کی نعمتوں کو شمار کرسکتے ہیں؟

۴)___ احمد کے باپ کن نعمتوں کا تذکرہ اپنے بیٹے کے سامنے کیا؟

۵)___ لعابی غدے پیدا کرنے کی غرض کیا ہے؟

۱۰

۶)___ جب باپ نے احمد سے کہا دیکھو اور بتلاؤ تو احمد سے کیا تو پوچھا تھا اور احمد نے اس کا کیا جواب دیا تھا؟

۷)___ یہ نظم اور ترتیب جو ہمارے بدن میں ہے کس چیز کی دلیل ہے

۸)___ الحمد اللہ رب العلمین کا کیا مطلب ہے؟

۹)___ آپ غذا کے بعد کس طرح

تجزیہ کیجئے اور غور کیجئے

اپنی انگلیوں کو بند کیجئے اور مٹھی بنایئےسی حالت میں کہ جب انگلیاں بند ہیں ایک ہاتھ میں پنسل لیجئے اور لکھیئے؟

چمچہ اٹھایئےور غذا کھایئے

اگر ہم انگلیاں نہ رکھتے ہوتے تو کس طرح لکھتے؟ کس طرح غذا کھاتے اگر انگلیاں ہمارے ارادے کے ما تحت کھلتی اور بند نہ ہوتیں تو ہم کیسے کام کرتے_

اب آپ انگلیاں کھولیئے اور پھر انہیں حرکت نہ دیجئے اسی حالت میں ان انگلیوں سے پنسل اٹھایئےور اپنا نام لکھئے_

چمچہ اٹھایئےور اس سے غذا کھایئےکیا ایسا کرسکتے ہیں پس ہمارا خدا بہت علیم اور حکیم ہے کہ جس نے انگلیوں کو ہمارے اختیار میں قرار دیا ہے تا کہ وہ ہمارے ارادے اور خواہش پر کھلیں

۱۱

اور بند ہوں: سوائے ذات الہی کے کون اتنا عالم اور قادر ہے کہ انگلیوں کو اس طرح بنائے_

تجزیہ کیجئے اور غور کیجئے

لبوں کو بغیر حرکت کے رکیھے اور پھر کلام کیجئے_ کیا ایسا کرسکتے ہیں کیا تم کلمات ادا کرسکتے ہیں؟ جب لبوں کو کھولے رکھیں تو کیا خوراک چبا سکتے ہیں_ کیا خوراک آپ کے منہ سے نہیں گرجائے گی؟ ہم زبان سے کون سے کام انجام دیتے ہیں بات کرتے ہیں غذا کا مزا چھکتے ہیں اور کیا؟ کیا غذا چباتے وقت زبان کو حرکت نہ دینے پر قادر ہیں_ تجربہ کیجئے_

زبان غذا کھانے کے وقت جاری کیا مدد کرتی ہے؟ اگر زبان نہ رکھتے تو کس طرح غذا کھاتے؟ کس طرح باتیں کرتے؟ کس نے سوائے ذات الہی کے جو دانا اور توانا ہے ہمارے لئے لب اور زبان خلق کی ہے_

تجربہ کیجئے اور فکر کیجئے

زبان کو منہ میں پھیریئےپ کیا چیز محسوس کرتے ہیں؟

دانت تالو اور کیا

۱۲

اب لعاب کو نگلیئےور پھر اندر کے حصّہ میں زبان پھیریئےکیا آپ کا پورا منہ خشک ہوتا ہے: یہ تازہ لعاب کہاں سے پیدا ہوگیا؟ کیا جانتے ہیں کہ اگر ایسا نہ ہو تو کیا ہوجائے گا_

آپ بات نہیں کرسکیں گے غذا نہیں کھاسکیں گے اور آپ کا منہ خشک ہوجائے گا_

کس ذات نے دانتوں کو آپ کے لئے پیش بینی کر کے خلق کیا ہے سوائے ذات الہی حکیم اور دانا کے کون یہ ہمارے لئے بنا سکتا ہے_

۱۳

دوسرا سبق

خدا کی بہترین تخلیق_ پانی

جب پیاسے ہوتے ہیں تو کیا کرتے ہیں_ پانی پیتے ہیں_ جی ہاں ہم سب پانی کے محتاج ہیں حیوانات جب پیاسے ہوتے ہیں تو کیا کرتے ہیں؟ پانی پیتے ہیں_ جی ہاں حیوانات بھی پانی کے محتاج ہیں_ کیا نباتات بھی پیاسے ہوتے ہیں_ جی ہاں نباتات بھی پیاسے ہوتے ہیں وہ بھی پانی کے محتاج ہیں لیکن وہ ہماری طرح پانی نہیں پیتے بلکہ پانی کو اپنی جڑوں کے ذریعہ زمین سے حاصل کرتے ہیں_

اگر نباتات کو پانی نہ پہنچے تو خشک ہوجائیں گے_

اگر حیوانات پانی نہ پئیں تو پیاس سے مرجائیں گے_

اگر پانی نہ ہو تو ہم بھی پیاس سے مرجائیں گے_

اگر پانی نہ ہو تو گندم اور جو پیدا نہ ہوں گے اور اس وقت ہمارے

۱۴

پاس روٹی نہ ہوگی کہ کھاسکیں: اگر پانی نہ ہو تو تمام حیوانات مرجائیں گے تو پھر ہمارے پاس نہ گوشت ہوگا اور نہ دودھ نہ پنیر اور نہ دہی ہوگا کہ انہیں کھا سکیں_ لیکن خدا بہت مہربان ہے میٹھا اور مزے دار پانی پیدا کیا ہے اور ہمارے اختیار میں رکھا ہے تا کہ پی سکیں اور اپنے آپ کو اس سے صاف کرسکیں اور اس سے کاشت کاری کرسکیں_ اس کو حیوانات پئیں اور ہمارے لئے دودھ اور گوشت مہیا کریں_ خدا ہم کو دوست رکھتا ہے اسی لئے مزے دار اور میٹھا پانی اوردوسری سیکڑوں نعمتیں ہمارے لئے پیدا کی ہیں ہم بھی مہربان خدا کو دوست رکھتے ہیں اور اس کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور ان کو خدا کے حکم کے مطابق صرف کرتے ہیں_

تجربہ کر کے غور کیجئے

تھوڑا سا نمک گلاس میں ڈالیئے تو پانی نمکین ہوجائے گا کیا اسے پیاس دور کرنے کے لئے پی سکتے ہیں_ نہیں _ نمکین پانی سے پیاس میں اضافہ ہوتا ہے_ نمکین پانی کا شتکاری کے لئے بھی اچھا نہیں ہے_

جی ہاں_ اگر تمام پانی نمکین اور کڑوے ہوتے تو ہم کیا کرتے؟ روٹی نہ ہوتی دودھ اور گوشت و پنیر نہ ہوتا اس وقت کیا کرتے؟

اگر تمام پانی زمین میں چلا جائے اور ختم ہوجائے تو ہم کیا کریں گے کس طرح زندگی گذاریں گے؟ کیا پھر بھی زندہ رہ سکیں گے؟ پس خدا بہت مہربان ہے کہ جس نے مزے دار پانی پیدا کیا اور ہمارے اختیار میں دیا_

۱۵

اگر نباتات کو پانی نہ ملے تو خشک ہوجائیں_ اگر حیوانات پانی نہ پئیں تو پیاس سے مرجائیں_ اگر پانی نہ ہو تو ہم بھی پیاس سے مرجائیں_ خدا بہت مہربان ہے کہ جس نے میٹھا اور مزے دار پانی پیدا کیا اور ہمارے اختیار میں دے دیا تا کہ ہم پئیں اور اپنے آپ کو اس سے دھوئیں اور اس سے کھیتی باڑی کریں حیوانات پئیں اور ہمارے لئے دودھ اور گوشت مہيّا کریں_

سوچئے اور خالی جگہیں پر کیجئے

۱)___ اگر پانی___ تو اس وقت___ روٹی نہ ہوگی اگر پانی نہ___ تو ہمارے پاس___ میوے ___اگر پانی ___نہ ہو تو اس وقت ہم گوشت دودھ اور پنیر نہ رکھتے ہوں گے ___خدا ہم کو دوست رکھتا ہے اور دوسری سیکڑوں نعمتیں ہمارے لئے ___ہم بھی مہربان خدا___ اور اس کی نعمتوں ___اور ان کو ___صرف کرتے ہیں_

۱۶

تیسرا سبق

سیب کا درخت خداشناسی کا سبق دیتا ہے

سیب مفید اور خوش ذائقہ میوہ ہے شاید آپ نے بھی یہ عمدہ میوہ کھایا ہو سیب میں بہت سے وٹامن ہیں ہمارا جسم ان کا محتاج ہے خدا نے سیب کا درخت پیدا کیا تا کہ ہماری ضروریات کو پورا کرے سیب کے درخت پر پھل لگنے کے لئے ان چند چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے_

۱) ___ پانی

۲)___ معدنی اجزاء جو مٹی میں موجود ہیں

۳)___ کاربن ڈائی آکسائیڈ جو ہوا میں موجود ہے_

۴)___ روشنائی اور طاقت جو سورج میں ہے_

سیب کے درخت کی جٹریں پانی اور معدنی اجزاء زمین سے لیتی ہیں سیب کے درخت کا جسم اور اس کی شاخیں بہت باریک رگوں سے

۱۷

پانی او رمعدنی اجزاء کو اوپر لے جاتی ہیں اور پتوں تک پہنچاتی ہیں کاربن ڈائی آکسائیڈ پتّوں کے باریک سوراخوں سے پتوں کے اندر جاتی ہے سورج کی روشنی بھی پتّوں پر پڑتی ہے_ پتّے سورج کی روشنی کی مدد سے پانی اور معدنی اجزاء اور کاربن ڈائی آکسائیڈ سے بہت خوش ذائقہ شربت تیار کرتے ہیں اور اس خوش ذائقہ شربت کو بہت باریک رگوں سے درخت کے تمام جسم میں پھیلا دیتے ہیں_ سیب کا درخت اس شربت کی کچھ مقدار تو خود ہضم کر کے بڑھتا جاتا ہے اور باقی کو خوبصورت اور خوش ذائقہ میوے کی شکل میں باہر نکلتا ہے ہم اس مزے دار پھل کو کھا کر لذت حاصل کرتے ہیں خوش ذائقہ ہونے کے علاوہ یہ خوبصورت میوے ہمارے بدن میں طاقت پیدا کرتے ہیں_ خدائے علیم و قدیر نے اس نظم اور ترتیب کو درخت کی خلقت میں قرار دیا ہے تا کہ ہمارے لئے سیب بنائے اور ہم خوش ذائقہ میوے سے استفادہ کرسکیں تا کہ ہمیشہ آزاد اور سعادت مند زندگی گذاریں_

فکر کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ سیب کا درخت سیب کے بنانے میں کن چیزوں کا محتاج ہے

۲)___ پانی اور معدنی اجزاء کس طرح پتوں میں جاتے ہیں

۳)___ کاربن ڈائی آکسائیڈ اور آکسیجن کہاں موجود ہے اور کس طرح پتوں میں داخل ہوتی ہے_

۴)___ پتّے کس طاقت کے ذریعہ سیب بناتے ہیں؟

۱۸

۵)___ کس ذات نے یہ ارتباط اور نظم اور ترتیب سیب کے درخت میں ایجاد کیا ہے تا کہ سیب کا درخت ہمارے لئے سیب کا پھل بنائے_

۶)___ اگر زندگی میں ہمیشہ سعادت مند اور آزاد رہنا چاہیں تو کس کے فرمان کی پیروی کریں_

۷)___ اللہ کی نعتوں کو کس طرح اور کس راستے میں خرچ کریں_

۱۹

چوتھا سبق

نباتات کے سبز پتے یا خداشناسی کی عمدہ کتابیں

ہم سب کو غذا کی ضرورت ہے بغیر غذا کے زندہ نہیں رہ سکتے درخت اور نباتات ہمارے لئے غذا تیار کرتے ہیں تا کہ کام کرسکیں درختوں کے سبز پتّے غذا بنانے کے چھوٹے چھوٹے کارخانے ہیں جو کام میں مشغول ہیں اور ہمارے لئے غذا بناتے ہیں_ نباتات اور درخت بھی سیب کے درخت کی طرح پانی اور معدنی اجزاء جٹروں کے ذریعے زمین سے لیتے ہیں اور چھوٹی نالیوں کے ذریعے پتوں تک پہنچاتے ہیں کاربن ڈائی آکسائڈ ہوا ہیں موجود پتوں کے بہت باریک سوراخوں سے داخل ہوتی ہے سورج کی روشنی اور شعاعیں (انرجی) بھی پتوں پر پڑتی ہیں اس وقت سبز پتّوں والا کارخانہ اپنا کام شروع کردیتا ہے اور سورج کی روشنی کی مدد سے غذا بناتا ہے نباتات اپنی ضرورت سے زیادہ غذا بناتے ہیں البتہ کچھ مقدار خود ہضم کرلیتے ہیں تا کہ زندہ رہ سکیں اور

۲۰

زائد مقدار کو ہمارے لیئے ذخیرہ کرلیتے ہیں_ گائے بھیڑ بکریاں بھی غذا کی محتاج ہیں وہ دانے اور سبز گھاس کھاتی ہیں اور ہمیں دودھ مکھن دہی گوشت اور پنیر دیتی ہیں مرغیاں بھی دانہ کھاتی ہیں اور ہمارے لئے گوشت اور انڈے بناتی ہیں_ تمام حیوانات اور جانور غذا کے محتاج ہیں_

ان تمام کی غذا سبز نباتات کے ذریعے بنتی ہے_ کوئی انسان او رحیوان نباتات کے بغیر اپنی غذا تیار نہیں کرسکتا_ بلکہ تمام نباتات کے محتاج ہیں_ انسان نباتات اور حیوانات کا محتاج ہے اور حیوانات نباتات کے محتاج ہیں اور نباتات غذا تیار کرنے میں پانی مٹی اور ہوا اور سورج کی روشنی کے محتاج ہیں_

اب دیکھیں کہ کس ذات نے سورج کو اس طرح پیدا کیا ہے کہ وہ دنیا پر چمکے اور روشنی اور طاقت (انرجی) دے تا کہ نباتات ہمارے لئے غذا تیار کرسکیں؟ کس ذات نے درختوں اور نباتات کو اس نظم اور ترتیب اور ارتباط سے پیدا کیا اور خوبصورت سبز پتّوں کو غذا بنانے کی طاقت عنایت فرمائی ہے_

وہ دانا اور توانا ذات خدا ہے کہ جو تمام چیزوں کا عالم ہے اور ہر کام پر قدرت رکھتا ہے_

وہ عالم اور توانا ذات ہمیں دوست رکھتی ہے کہ ہماری تمام ضروریات کو پیش بینی کرتے ہوئے پیدا کردیا ہے_ ہم بھی اسے دوست رکھتی ہیں اس کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں اس کے فرمان کو مانتے اور اس پر عمل کرتے ہیں_ خدا سے بہتر کون ہے جو ہماری زندگی کے لئے راہنما ہوسکتا ہے؟

۲۱

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ روٹی کس چیز سے بناتے ہیں

۲)___ گندم کا پودا گندم اگانے میں کس چیز کا محتاج ہے_

۳)___ اگر سورج کی روشنی گندم کے پودے پر نہ پڑے تو کیا گندم وجود میں آسکتا ہے_

۴)___ اگر سبز پتے گندم کا پودا اور دوسری غذا نہ بنائیں تو کیا ہم غذا حاصل کرسکتے ہیں

۵)___ کس ذات نے ہماری ضروریات کی پیش بینی کی ہے اور جہاں کو اس نظم و ارتباط سے خلق کیا ہے؟

۶)___ ہمارا فریضہ ان نعمتوں کے مقابل کیا ہے؟

تجربہ اور تحقیق کیجئے

بڑے سبز پتّے ہوا کو بھی صاف کرنے کا کام کرتے ہیں: جانتے ہو کس طرح

مشق

۱)___ سبق کو ایک دفعہ بلند آواز سے پڑھیں_

۲)___ اس سبق میں کئی اور سوال بنائیں اور ان کے جواب اپنے دوست سے پوچھیں

۳)___ سبق کا خلاصہ بیان کریں اور اس سبق کی غرض و غایت کو بھی بیان کر یں

۴)___ اوپر کے سوالوں کا جواب خوبصورت خط سے اپنی کاپی میں لکھیں

۲۲

پانچواں سبق

تجربے کی روش خداشناسی کا سبق دیتی ہے

جب میں گھر آئی تو میری ماں نے کہا مریم آج عصر کے وقت کون سا سبق پڑھا ہے؟ میں نے علم حیاتات ''بیالوجی'' اور بحث نظام ہاضمہ کا سبق پڑھا ہے استاد نے پوچھا جانتی ہو کہ غذا کی نالی کیا ہے: معدہ کہاں ہے؟ آنتوں کا کیا کام ہے_ غذا کس طرح ہضم ہوتی ہے؟ شاگرد اس کا جو جواب دے رہے تھے وہ درست نہ تھا استاد نے کہا ان سوالوں کے متعلق تحقیق کرو ان کا صحیح اور کامل جواب یاد کرو اور کل اپنے دوستوں سے بیان کرنا میں حیاتیات کی کتاب لائی تا کہ آپ کی مدد سے ان سوالوں کے متعلق تحقیق کروں میری امّی بھی اپنی لائبریری سے ایک کتاب لائیں جس میں مختلف اور بہت زیادہ شکلیں موجود تھیں ایک شکل مجھے دکھلائی اور کہا اس تھیلی کو دیکھ رہی ہو ہم جب غذا کھاتے ہیں تو غذا اس تحصیلی میں جاتی ہے اس کا نام معدہ ہے

۲۳

کیا بتلا سکتی ہو کہ غذا کسے راستے سے معدہ میں جاتی ہے؟

میں نے شکل کو دیکھا اور کہا یقینا اس نالی کے ذریعہ جاتی ہوگی ماں نے کہا ہاں بالکل ٹھیک ہے اس کا نام غذا کی نالی ہے یہ نالی حلق کو معدہ سے ملاتی ہے_

ایک اور نالی حلق کو پھیپھڑوں سے ملاتی ہے جب ہم سانس لیتے ہیں تو ہو اس نالی سے پھیھپڑوں میں جاتی ہے_ ا س کا نام جانتی ہو میں نے شکل کو دیکھا اور کہا یہ ہوا کی نالی ہے_ میری امّی نے کہا یہ نالی غذا کے گذرنے کے لئے ہے اور یہ نالی ہوا کے گذرنے کے لئے ہے_ میں نے کہا کہ اگر غذا ہوا کی نالی سے جائے تو کیا ہوگا؟ امّی نے کہا غذا کو اس نالی سے نہیں جانا چاہتے ورنہ ہوا کے جانے کا راستہ بند ہوجائے گا اور ہمارا دم گھٹ جائے گا_ میں نے کہا پس کس لئے میرا دم ابھی تک نہیں گھٹا مجھے تو علم نہ تھا کہ غذا کو اس نالی سے نہ نگلوں امّی نے کہا: بیٹی: غذا نگلنا بہت عمدہ ہے اس شکل کودیکھو_ دیکھو حلق میں چار راستے ہیں ایک راستہ ناک کی طرف اور ایک راستہ منہ کی طرف اور ایک راستہ پھیھڑوں کی طرف اور ایک راستہ معدہ کی طرف_

جب ہم غذا کو نگلنا چاہتے ہیں تو صرف غذا والی نالی کھلتی ہے اسی لئے حلق میں دو دروازے ہماری ضرورت کے لئے حلق کئے گئے ہیں پس ایک دروازہ ہوا کی نالی کو بند کرتا ہے اور دوسرا دروازہ ناک والی نالی کو بند کرتا ہے ہوا کا دروازہ کہلاتا ہے اور وہ دروازہ جو ناک کی نالی کو بند کرتا ہے اسے چھوٹی زبان کہا جاتا ہے ہمیں ان دونوں دروازوں کی ضرورت ہے اگر یہ

۲۴

نہ ہوں تو پہلے لقمے کے نگلتے وقت گھٹ کر مرجائیں_ میں نے کہا_ کیا خوب: میں بھی ایک دوازہ ہوا والا دوسری چھوٹی زبان رکھتی ہوں ورنہ گھٹ کر مرجاتی_

امّی نے کہا مریم جان: کیا تو یہ خیال کرتی ہے کہ چھوٹی زبان اور دوسرا دروازہ خودبخود بے صرف و غرض وجود میں آگئے ہیں میں نے کہا: نہیں چونکہ ان کی غرض و غایت بالکل واضح اور معلوم ہے: ایک ناک کے راستے کو بند کرتی ہے اور دوسرا پھیھپڑوں کو جانے والی نالی کو ان کے کام اور غرض معین اور معلوم ہیں بغیر علّت کے وجود میں نہیں آئے واضح ہے کہ کس ذات عالم نے ان کو ہمارے لئے خلق کیا ہے_ امّی نے کہا_ شاباش_ بالکل ٹھیک کہا تو نے: جس نے ہم کو پیدا کیا ہے ہماری ضروریات کو جانتا تھا اور تمام چیزوں کو جانتا ہے اسے علم تھا کہ ہمیںاس دروازے کی ضرورت ہے چونکہ ہم کو سانس بھی لینا ہے اور غذا بھی کہانا ہے وہ جانتا تھا کہ غذا کو ہوا کی نالی میں نہیں جانا چاہیئے اسی غرض کے ماتحت ہوا کا دروازہ خلق کردیا ہے_ جب تک لقمے نگلتے رہیں گے ہوا کی نالی کا دروازہ بند رہے گا اور غذا اس میں نہیں جائے گی_ ہمیں پیدا کرنے والا خدا عالم اور قادر ہے اسے ہماری تمام ضروریات کا علم تھا اسی لئے ان کو ہماری ضرورت کے تحت خلق کیا_ مثلاً معدہ کی دیوار میں ہزاروں غدّے خلق فرمائے ہیں تا کہ مخصوص لعاب پیدا ہوکر غذا پر

۲۵

پڑے تا کہ غذا ہضم ہو اور مائع میں تبدیل ہوجائے_ ہمارے لئے آنتیں خلق فرمائی ہیں تا کہ مائع شدہ غذا معدہ سے آنتوں میں داخل ہو اور وہاں ہضم او رجذب ہو صفراوی پتا اور تلی کو خلق فرمایا ہے تا کہ مخصوص لعاب غذا پر پڑے تا کہ غذا مکمل طور پر ہضم ہوجائے_ جب غذا پوری طرح ہضم ہوجائے تو ضروری مواد کو آنتوں کی دیوار سے جذب کرتا ہے اور خون میں داخل ہوجاتا ہے اور تمام بدن تک پہنچتا رہتا ہے_ پیاری مریم_ ایک منظم کارخانہ جو نظام ہضم کہلاتا ہے خودبخود بغیر علت اور فائدہ ہے کے وجود میں نہیں آیا بلکہ مہربان اور دانا خدا نے ہمارے لئے ہماری ضرورت کے تحت اسے خلق کیا ہے_ غذا کھانے سے طاقت اور انرجی بنتی ہے اور پھر ہم زندہ رہ سکتے ہیں_ خداوند عالم کی مہربانی سے ہمیں توانائی حاصل ہوتی ہے جس کی بدولت ہم زندہ ہیں اور دیگر امور انجام دیتے ہیں_ ہم بھی اس کے شکر کے لئے اس طاقت کو اس کی اطاعت میں صرف کرتے ہیں اس کے فرمان اور احکام کو قبول کرتے ہیں او رگناہ و نافرمانی اور برے اخلاق سے دور رہتے ہیں تا کہ خدا ہم سے خوش ہو اور دنیا و آخرت میں بہت اعلی اور بہترین نعمتیں عنایت فرمائے_

یہ شکل اس عظیم کارخانے کی ہے جو منظم اور مرتبط غذا کے ہضم کے لئے بنایا گیا ہے اور نظام ہضم کہلاتا ہے_ مہربان خدا نے ہماری ضرورت کے تحت اسے خلق کیا_

کیا سوائے خدا علیم و قادر کے کوئی اتنا بڑا کارخانہ ہمارے لئے بنا سکتا ہے؟

غور کریں اور جواب دیں

۱)___ ہوا کی نالی کے لئے دروازہ بنانے کی غرض کیا ہے؟

۲۶

۲)___ چھوٹی زبان کے خلق کرنے کی غرض کیا ہے؟

۳)___ اگر یہ دروازے نہ ہوں تو ہم کیسے غذا کھاسکتے ہیں؟

۴)___ کیا یہ دروازے خودبخود بے غرض و غایت کے وجود میں آئے ہیں اور کیوں؟

۵)___ ہمارا نظام ہضم کن چیزوں سے بنا ہے؟

۶)___ ہمارے بدن میں غذا کس طرح ہضم ہوتی ہے؟

۷)___ کیا نظام ہضم بے ربط اور بے غرض ہے؟

۸)___ کیا ہم نے اس منظّم و مرتبط کارخانہ کو بنایا ہے؟

۹)___ نظام ہضم کے منظم اور مرتبط ہونے سے کیا نتیجہ لیتے ہیں؟

۱۰)___ اللہ تعالی کی اعلی اور عمدہ نعمتوں سے نوازے جائیں تو کیا کریں؟

۱۱)___ کیا آپ جانتے ہیں کہ غذا کے نگلنے کے وقت منہ کا راستہ کس طرح بند ہوجاتا ہے؟

ان سوالوں اور اس کے جوابوں کو خوبصورت خط کے ساتھ اپنی کاپی میں لکھیں

۲۷

چھٹا سبق

خدا کی قدرت کے آثار اور اس کی علامتیں

جب میں صبح اسکول پہنچا تو بچّے میرے ارد گرد اکٹھے ہوگئے گویا کہ انہیں کل رات کے حادثے کا علم تھا گھنٹی بجی اور ہم کلاس میں جا بیٹھے استاد کلاس میں آئے میں نے اپنے آنسو صاف کئے اور کھڑا ہوگیا لیکن میری آنکھیں اشک آلود تھیں لڑکوں نے کل رات کے متعلق جتنا انہیں علم تھا استاد کو بتلایا جب میرے بھائی احمد کو ہسپتال لے جا رہے تھے تو اس کا ہاتھ اور منہ سیاہ ہوگیا تھا شاگردوں نے پوچھا کہ کیوں احمد کا ہاتھ اور منہ سیاہ تھا_ سانس کا گھٹنا کیا ہے؟ کیوں احمد کے بھائی کا دم گھٹتا ہے کیا وہ ٹھیک ہوجائے گا؟ اس کا کس طرح علاج کریں گے؟ استاد نے کہا بچّوں جب تم ان سوالوں کا جواب چاہتے ہو تو ضروری ہے کہ خون کی حرکت اور تنفس کا درس جلدی شروع کردیا جائے کل حیاتیات کا علم ایک دوسرے کی مدد سے شروع

۲۸

کریں گے تم میں سے کون ہے جو کل ای بکرے کا دل اور پھیھپڑا اسکول لائے دو طالب علموں نے وعدہ کیا کہ ہم کسی بکرے کا دل اور پھیھپڑا اسکول لائیں گے دوسرے دن بکرے کا دل اور پھیھپڑا اسکول لے آئے استاد نے چھری سے دل کو چیرا اور اس کے مختلف حصّے شاگردوں کو دکھلائے اور دل و پھیھپڑے کا کام طالب علموں کو بتلایا تمام طالب علم دل اور پھیھپڑے کے عمل سے آگاہ ہوئے اور اپنے سوالوں کے جوابات سمجھے پھر استاد نے اس درس کا خلاصہ اس طرح لکھا اور شاگردوں کے سامنے رکھا

نظام تنفس اور دوران خون

اس درس سے ہم اپنے جسم کے بعض حالات سے باخبر ہوجائیں گے اور بدن کے کارخانے کی غرض و غایت اور ارتباط کو اچھی طرح جان لیں گے اور قدرت خدا کے آثار کا مشاہدہ کرنے سے خدا کو پہنچانیں گے_

آپ کو علم ہے کہ خون بدن کی رگوں میں ہمیشہ گردش میں رہتا ہے کیا آپ خون کی گردش کے فوائد کو بھی جانتے ہیں؟ خون بدن کے تمام خلیوں کے پہلو سے گزرتا ہے اور انھیں غذا و آکسیجن دیتا ہے_ خون کے کاموں میں سے ایک اہم کام بدن کے تمام خلیوں میں آکسیجن کو پہنچانا ہے خلیوں میں آکسیجن نہ پہنچے تو ہماری موت فوراً ہوجائے_ بدن میں حرارت اور انرجی

۲۹

آکسیجن کے ذریعہ سے پوری ہوتی ہے آکسیجن کو پہنچانے میں سرخ خلیے حصّہ دار ہیں سرخ خلیے جو خون میں تیرتے ہیں اور بدن میں پھرتے رہتے ہیں وہ بدن کے تمام خلیوں کو آکسیجن پہنچاتے رہتے ہیں_

لیکن آپ کو علم ہے کہ خون خودبخود حرکت نہیں کرتا بلکہ ایک طاقتور پمپ اس کام کو انجام دیتا ہے طاقت ور پمپ جو برابر یہ کام کرتا ہے اور خون کو تمام بدن میں گردش دیتا ہے کیا اس طاقتور پمپ کو پہچانتے ہیں اس کا نام جانتے ہیں کہ سرخ خلیے کہ جن کے ساتھ آکسیجن ہوتا ہے دل کی دھڑکن سے بدن کی بڑی شریان میں وارد ہوتے ہیں یہ شریان بدن میں جگہ جگہ تقسیم ہوجاتی ہے اور ہر شاخ پھر چھوٹی شاخوں میں تبدیل ہوجاتی ہے ان تمام میں سے باریک تر قسم کی رگیں کیلپری کہلاتی ہیں_

خون کیلپری سے خلیوں کے پہلو میں سے گزرتا ہے سرخ خلیے جو شاداب ہیں اپنے ساتھ آکسیجن رکھتے ہیں اور خلیوں کو دیتے ہیں اور خلیوں کو سالم و زندہ رکھتے ہیں اور کاربن ڈائی اکسائڈ جو ایک ہوا کی زہریلی قسم ہے اس سے لے لیتے ہیں سرخ خلیے اس ہوا کے لینے سے آدھے سیاہ ہو جاتے ہیں اور اگر چند منٹ ایسے رہیں تو تمام مرجائیں گے جسکے نتیجے میں ہماری موت بھی واقع ہوجائے گی خلیوں کو آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے تا کہ دوبارہ سرخ اور شاداب ہوجائیں اور اپنے کام کو پھر سے شروع کرسکیں لیکن کہاں سے آکسیجن لیں؟ اور کس طرح اپنا کام دوبارہ شروع کریں اور دل کی طرف لوٹیں ان نیم سیاہ خلیوں کا دل کی طرف لوٹنا دوسری رگوں کا محتاج ہے تا کہ نیم سیاہ خلیے ان رگوں کے ذریعہ دل کی طرف لوٹ سکیں_

۳۰

خداوند عالم اس ضرورت کو جانتا تھا لہذا دوسری رگیں خلیوں کو دل کی طرف لوٹانے کے لئے ہمارے بدن میں بنائی ہیں_

تعجب ہے کہ ان رگوں میں دروازے بھی بنے ہیں جو خون کی حرکت کو صرف دل کی طرف ممکن قرار دیتے ہیں دل گندے خون اور: سفید خلیوں کو ان سیاہ رگوں کے ذریعہ اپنی طرف کھینچتا ہے سیاہ اور گنہ خون دل کے پاس پہنچ کرکیا تازہ اور شاداب خون کے ساتھ مخلوط ہوجاتا ہے؟ نہیں_ مخلوط نہیں ہوتا کیونکہ خالق دانا نے دل کے وسط میں ایک قسم کی مضبوط دیوار بنائی ہے تا کہ تازہ خون اس گندے اور سیاہ خون سے مخلوط ہوسکے اور ہر ایک اپنی مخصوص جگہ پر رہے اب جب کہ نیم سیاہ خلیے دل کے پاس پہنچ جاتے ہیں اب دل میں بھی آکسیجن کی ضرورت ہے اور یہ چاہتے ہیں کہ اپنے آپ کو آزاد ہوا میں پہنجائیں اور آزاد ہوا سے آکسیجن حاصل کریں خالق بزرگ اور دانا نے دل سے ایک راستہ پھیھپڑوں کی طرف بنایا ہے تا کہ خلیے اس راستے سے آزاد ہوا ہیں اپنے آپ کو پہنچائیں اور آزاد ہوا سے جو پھیھپڑوں میں سے، استفادہ کریں دل اپنی ایک دھڑکن سے سیاہ خون اور سفید خلیوں کو اس راستے سے پھیھپڑے تک پہنچا دیتا ہے وہ آکسیجن لیتے ہیں اور کاربن ڈائی آکسائڈ کو خارج کردیتے ہیں_ کیا آپ کو علم ہے کہ سرخ خلیوں کی تعداد خون میں کتنی زیادہ ہے؟ کیا خلیوں کی تعداد کے مطابق پھیھپڑوں میں ہوا کی مقدار ان تمام کے لئے کا فی ہے؟ کیا یہ تمام آزاد ہوا کے نزدیک آسکتے ہیں کہ آکسیجن لے لیں اور کاربن ڈائی آکسائڈ خارج کردیں_

جی ہاں اہمارے بزرگ اور دانا خالق نے جو ہماری تمام ضروریات

۳۱

سے باخبر تھا لاکھول ہوائی کیسوں کے ذریعہ پھیھپڑوں میں ہمارے لئے پیش گوئی کی تھی اور خلق فرما دیا تھا یہ تھیلیاں ہر سانس لینے سے تازہ ہوا سے بھر جاتی ہیں اور وہی خلیے تازہ ہوا سے نزدیک ہوتے ہیں آکسیجن لے لیتے ہیں اور دل کی طرف لوٹ جاتے ہیں اور اپنا کام پھر سے شروع کردیتے ہیں بدن کے خلیے جو آکسیجن کے انتظار میں ہوتے ہیں آکسیجن حاصل کرتے ہیں اور بدن کی حرارت اور انرجی کو پورا کردیتے ہیں_ کون ذات ہے سوائے خدائے مہربان اور دانا کے جو خلیوں کی تعداد کو جانتی ہو؟ اور ان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے لاکھوں ہوائی کیسوں کو پھیھپڑوں میں خلق کیا ہے_ نظام تنفس اور نظام دوران خون آپس میں مربوط اور ہم آہنگ ہیں اور یہ ایک ہی غرض و غایت کے ساتھ وجود میں آئے ہیں کیا یہ دقیق اور منظم کارخانہ خودبخود بغیر کسی غرض و غایت کے پیدا ہوا ہے_ کیا بے شعور اور نادان مادہ اس قسم کا کارخانہ جو دقیق اور با مقصد ہے پیدا کرسکتا ہے؟ کون ہے سوائے ذات الہی حکیم اور قادر کے جو اس قسم کا دقیق اور عمدہ کارخانہ وجود میں لاسکے؟ ہم تنفس اور خون کی گردش کے اس عظیم منظم کارخانے کے دیکھنے اور مشاہدے سے پیدا کرنے والے خدا کی عظمت کو سمجھ سکتے ہیں اور اس کی بے شمار نعمتوں سے زیادہ واقف ہوسکتے ہیں_

اس کو بہتر پہچانتے ہیں اور اس کی بہتر عبادت اور شکر ادا کرتے ہیں:

بہت غور سے ان سوالوں کا جواب دیجئے

۱)___ خون کی گردش بدن میں کیا فائدہ رکھتی ہے؟

۳۲

۲)___ سرخ خلیے بدن میں کیا فائدہ دیتے ہیں؟

۳)___ خون کس ذریعے سے بدن میں حرکت کرتا ہے؟

۴)___ جب سرخ خلیے نیم سیاہ ہوجاتے ہیں تو کس راستے سے دل کی طرف لوٹ آتے ہیں؟

۵)___ کیا گندہ اور سیاہ خون دل میں تازہ خون سے مخلوط ہوجاتا ہے؟

۶)___ خلیے کہاں سے آکسیجن لیتے ہیں؟

۷)___ کیاتمام خلیے پھیھپڑوں کی تازہ ہوا سے استفادہ کرسکتے ہیں؟ اور کس طرح؟

۸)___ اگر خلیوں کو آکسیجن نہ ملے تو کیا ہوگا_

۹)___ اگر سرخ خلیوں کا دل کی طرف لوٹ آنے کا راستہ نہ ہو تو کیا ہوگا ...؟ خلیے کس راستے سے دل کی طرف لوٹ جاتے ہیں؟

۱۰)___ آکسیجن کس طرح پھیھپڑوں میں داخل ہوتی ہے؟

۱۱)___ اگر پھیھپڑے اور سانس لینے کا نظام نہ ہوتا تو کیسے صاف ہوا کرتا؟

۱۲)___ اگر ہوا میں آکسیجن نہ ہوتی تو کیا ہوتا خلیے کہاں سے آکسیجن لیتے اور کس طرح زندہ رہتے_

۱۳)___ کیا خون کی گردش اور نظام تنفس اس ارتباط اور نظم کے ساتھ خودبخود وجود میں آیا ہے؟

۱۴)___ یہ ہم آہنگی اور دقیق ربط جو بدن کے کارخانہ میں وجود ہے

۳۳

اس سے کیا سمجھتے ہیں؟

۱۵)___ اللہ تعالی کی ان تمام نعمتوں کے مقابل جو اس نے ہمیں عنایت کی ہیں ہماری ذمہ داری کیا ہے؟

۳۴

ساتواں سبق

عالم و قادر خدا

سبزیاں اور نباتات ہمارے لے بہت مفید اور کارآمد ہیں اپنی ضرورت سے زائد غذا بناتی ہیں اور ہمارے لئے ذخیرہ کرلیتی ہیں_ درختوں میں سے سب آم گلاب، مالٹے ضرورت سے زائد ہمارے لئے میوہ بناتے ہیں گاجر آلو اور پیاز کے پودے اضافی غذا کو اپنی جڑوں میں ذخیرہ کرتے ہیں_

جی ہاں اگر نباتات کے سبز پتے نہ ہوتے تو کس طرح غذا بناتے اور اگر سبز پتوں میں باریک سوراخ نہ ہوتے تو ہوا کہاں سے داخل ہوتی لیکن مہربان خدا نے نباتات میں سبز پتے خلق کئے اور پتوں میں چھوٹے چھوٹے خانے اور سوراخ بنائے_ تا کہ سبز پتّے غذا بناسکیں اور اگر نباتات اپنی ضرورت کے لئے غذا بناتے تو ہم کیا کھاتے؟ حیوانات کیا کھاتے

۳۵

لیکن احسان کرنے والے خدا ے نباتات کو اس طرح خلق کیا ہے کہ وہ اپنے مصرف سے زیادہ غذا بناسکیں اور اگر سوراخ کی روشنی نباتات تک نہ پہنچی تو پودے کس طاقت سے غذا درست کرسکتے تھے؟ لیکن خدائے علیم اور قدیر نے سوراخ کو ایسا پیدا کیا ہے کہ اس کی روشنی ضرورت کے مطابق نباتات تک پہنچ سکے تا کہ پتے سورج کی روشنی اور توانائی کی مدد سے غذا حاصل کرسکیں پس خدا تمام چیزوں کو جانتا ہے اور اس پر قادر ہے اسے علم تھا کہ ہمیں غذا کی ضرورت ہے اورہم خود نہیں بناسکتے اسی لئے نباتات کے سبز پتّے خلق کئے اور ان میں سوراخ رکھے تا کہ ہمارے لئے غذاسازی کا کارخانہ بن سکے_

اسے علم تھا کہ ہی چھوٹا کارخانہ سورج کی روشنی اور توانائی کا محتاج ہے لہذا سورج کو اس طرح خلق کیا کہ سورج کی توانائی اور روشنی جس قدر پتّوں کے لئے ضروری ہے اس چھوٹے کارخانے تک پہنچ سکے اگر خدا قادر نہ ہوتا تو ان کو نہ بناپاتا جو ہمارے لئے ضروری تھیں_

اگر خدا بخشش کرنے والا اور مہربان نہ ہوتا تو یہ تمام نعمتیں ہمیں عطا نہ کرتا پس معلوم ہوا کہ خدا عالم ہے، خدا قادر ہے، خدا رحمان یعنی بخشنے والا ہے''

خدا رحیم یعنی مہربان ہے:

اس سبق کے متعلق آپ خود سوال بنائیں

۱)

۳۶

۳)

اور مشقیں بھی آپ خود بتلائیں

۱)

۲)

۳)

۳۷

آٹھواں سبق

خدا جسم نہیں رکھتا

کیا آپ جانتے ہیں جسم کیا ہے؟

کتاب، قلم، میز، پتھر، درخت، زمین، سورج، اور وہ چیزیں جو ان کی طرح ہوں اور جگہ گھیرتی ہوں انہیں جسم کہا جاتا ہے یہاں تک کہ ہوا بھی جسم ہے اور جسم کو مادہ بھی کہاجاتا ہے ہر جسم مکان کا محتاج یعنی ایک جگہ چاہتا ہے کہ جس میں مستقر ہو کیونکہ بغیر مکان کے جسم وجود میں نہیں آسکتا_ ہر جسم ایک وقت میں ایک مکان سے زیادہ میں نہیں ہوتا جب وہ ایک مکان میں ہو گا تو اسی وقت دوسرے مکان میں نہیں ہوگا ہم جب مدرسہ میں ہوتے ہیں توگھر میں نہیں ہوتے اور جب گھر میں ہوتے ہیں تو مدرسہ میں نہیں ہوتے اور جب مدرسہ میں ہوتے ہیں تو وہ کام جو گھر میں ہو رہے ہوتے ہیں

۳۸

انہیں نہیں دیکھ سکتے اور جب گھر میں ہوتے ہیں تو وہ کام جو مدرسہ میں ہو رہے ہوتے ہیں انہیں نہیں دیکھ سکتے جسم کو آنکھ سے دیکھا جاسکتا ہے اور ہاتھ سے چھواجا سکتا ہے وہ چیزیں جو آنکھ سے دیکھتے ہیں یا دوسرے کسی عضو سے مس کرتے ہیں تمام کے تمام جسم اور جسمانی ہیں یہاں تک ہوا اور روشنی بھی؟

اب ان دو سوالوں کے متعلق فکر کریں_

کیا خدا جسم رکھتا ہے؟

کیا خدا کو آنکھ سے دیکھ سکتے ہیں؟

چونکہ خدا ہر چیز سے بے نیاز ہے اور اس کی قدرت او ردانائی کی کوئی انتہا نہیں اور کسی چیز اور کسی شخص کا محتاج نہیں _ پس خدا کا جسم نہیں ہے کیونکہ اگر جسم ہوتا تو مکان کا محتاج ہوتا اور چونکہ خدا کسی کا محتاج نہیں ہے کیونکہ اس نے خود مکان خلق کیا ہے لہذا جسم نہیں رکھتا کیونکہ خدا اگر جسم رکھتا ہوتا تو یہاں ہوتا اور وہاں نہ ہوتا اور پھر جو چیزیں وہاں ہوتیں انہیں خلق نہ کرسکتا اور نہ دیکھتا_ خدا جسم نہیں رکھتا اور نہ ہی ایک مخصوص جگہ پر مستقر ہے تا کہ دوسری جگہیں اس سے خالی ہوں ہر ایک شخص اور ہر ایک چیز کو اس نے پیدا کیا ہے خدا یہاں وہاں یہ مکان وہ مکان نہیں رکھتا اس کے سامنے تمام مکان برابر ہیں تمام کے ساتھ ہے او رتمام جگہوں سے مطلع ہے خدا چونکہ جسم نہیں رکھتا لہذا مکان نہیں رکھتا نہ زمین میں نہ آسمان میں خدا چونکہ جسم نہیں ہے آنکھوں سے نہیں دیکھا جاسکتا اور ہاتھوں سے نہیں چھواجا سکتا خدا یہاں کے نور سے بھی نہیں چوں کہ یہ نور جسمانی ہیں اور مکان کے محتاج ہیں لیکن خدا محتاج نہیں اس نے مکان کو پیدا کیا ہے اس نے آنکھ اور ہاتھ کو خلق کیا ہے اس نے نور کو پیدا کیا ہے

۳۹

اللہ کی بے پایاں قدرت ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے وہ تمام چیزوں اور تمام لوگوں سے باخبر ہے _

''فکر کیجئے اور جواب دیجئے''

۱)___ جو تمہارے اطراف میں اجسام ہیں انہیں شمار کرو؟

۲)___ میز جسم ہے یہ کس چیز کی محتاج ہے کیا یہ ممکن ہے کہ یہ کسی مکان میں نہ ہو؟

۳)___ کرسی جسم ہے کیا ہوسکتا ہے کہ ایک وقت میں دو مکان میں ہو؟

۴)__ _ کوئی ایسا جسم جانتے ہو کہ مکان کا محتاج نہ ہو؟ اور کیوں؟

۵)___ کیا خدا جسم رکھتا ہے؟ کیا خدا مکان کا محتاج ہے؟

۶)___ کیا خدا کو آنکھ سے دیکھا جاسکتا ہے؟

یہ سوال اور ان کے جواب خوبصورت خط سے اپنی کاپی میں لکھیں

مشقیں

۱)___ اس سبق کو ایک دفعہ بلند آواز سے پڑھیں

۲)___ سبق کو اپنے دوستوں سے بیان کریں

۳)___ اس درس کا خلاصہ لکھیں اور دوستوں کو پڑھ کر سنائیں

۴)___ کئی اور سوال بھی بنائیں اور ان کے جواب دوستوں سے پوچھیں

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285