‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) جلد ۲

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) 20%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 285

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 285 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 118020 / ڈاؤنلوڈ: 4041
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

چند مسائل :

مسئلہ ۸۲ _ اگر ان مواقيت اور انكى بالمقابل جگہ كا علم نہ ہو تو يہ بينہ شرعيہ كے ساتھ ثابت ہو جاتے ہيں يعنى دو عادل گواہ اسكى گواہى دے ديں يا اس شياع كے ساتھ بھى ثابت ہو جاتے ہيں جو موجب اطمينان ہو اور جستجو كركے علم حاصل كرنا واجب نہيں ہے اور اگر نہ علم ہو نہ گواہ اور نہ شياع تو ان مقامات كوجاننے والے شخص كى بات سے حاصل ہونے والا ظن و گمان كافى ہے _

مسئلہ ۸۳ _ ميقات سے پہلے احرام باندھنا صحيح نہيں ہے مگر يہ كہ ميقات سے پہلے كسى معين جگہ سے احرام باندھنے كى نذر كرلے جيسے كہ مدينہ يا اپنے شہر سے احرام باندھنے كى نذر كرے تو اس كا احرام صحيح ہے _

مسئلہ ۸۴ _ اگر جان بوجھ كر يا غفلت يا لا علمى كى وجہ سے بغير احرام كے ميقات سے گزر جائے تو اس پر واجب ہے كہ احرام كيلئے ميقات كى طرف پلٹے _

۶۱

مسئلہ ۸۵_ اگر غفلت ، نسيان يا مسئلہ كا علم نہ ہونے كى وجہ سے ميقات سے آگے گزر جائے اور وقت كى تنگى يا كسى اور عذر كى وجہ سے ميقات تك پلٹ بھى نہ سكتا ہو ليكن ابھى تك حرم ميں داخل نہ ہوا ہو تو احوط وجوبى يہ ہے كہ جس قدر ممكن ہو ميقات كى سمت كى طرف پلٹے اور وہاں سے احرام باندھے اور اگر حرم ميں داخل ہو چكا ہو تواگر اس سے باہر نكلنا ممكن ہو تو اس پر يہ واجب ہے اور حرم كے باہر سے احرام باندھے گا اور اگر حرم سے باہرنكلنا ممكن نہ ہو تو حرم ميں جس جگہ ہے وہيں سے احرام باندھے _

مسئلہ ۸۶_ اپنے اختيار كے ساتھ احرام كو ميقات سے مؤخر كرنا جائز نہيں ہے چاہے اس سے آگے دوسرا ميقات ہو يا نہ _

مسئلہ ۸۷ _ جس شخص كو مذكورہ مواقيت ميں سے كسى ايك سے احرام باندھنے سے منع كرديا جائے تو اس كيلئے دوسرے ميقات سے احرام باندھنا جائز ہے _

مسئلہ ۸۸_ جدہ مواقيت ميں سے نہيں ہے اور نہ يہ مواقيت كے

۶۲

بالمقابل ہے لذا اختيار ى صورت ميں جدہ سے احرام باندھنا صحيح نہيں ہے بلكہ احرام باندھنے كيلئے كسى ميقات كى طرف جانا ضرورى ہے مگر ي ۴ہ كہ اس پر قدرت نہ ركھتا ہو تو پھر جدہ سے نذر كركے احرام باندھے_

مسئلہ ۸۹_ اگر ميقات سے آگے گزر جانے كے بعد مُحرم متوجہ ہو كہ اس نے صحيح احرام نہيں باندھا پس اگر ميقات تك پلٹ سكتا ہو تو يہ واجب ہے اور اگر نہ پلٹ سكتا ہو مگر مكہ مكرمہ كے راستے سے تو '' ادنى الحل'' سے عمرہ مفردہ كا احرام باندھ كر مكہ ميں داخل ہو اور اعمال بجا لانے كے بعد عمرہ تمتع كے احرام كيلئے ، كسى ميقات پر جائے _

مسئلہ ۹۰_ ظاہر يہ ہے كہ اگر حج كے فوت نہ ہونے كا اطمينان ہو تو عمرہ تمتع كے احرام سے خارج ہونے كے بعد اور حج بجا لانے سے پہلے مكہ مكرمہ سے نكلنا جائز ہے اگر چہ احوط استحبابى يہ ہے كہ ضرورت و حاجت كے بغير نہ نكلے جيسے كہ اس صورت ميں احوط يہ ہے كہ نكلنے سے پہلے مكہ ميں حج كا احرام باندھ لے مگر يہ كہ اس كام ميں اس كيلئے حرج ہو تو پھر اپنى

۶۳

احتياج كيلئے بغير احرام كے باہر جا سكتا ہے اور جو شخص اس احتياط پر عمل كرنا چاہے اور ايك يا چند مرتبہ مكہ سے نكلنے پر مجبور ہو جيسے كاروانوں كے خدام وغيرہ تو وہ مكہ مكرمہ ميں داخل ہونے كيلئے پہلے عمرہ مفردہ كا احرام باندھ ليں اور عمرہ تمتع كو اس وقت تك مؤخر كرديں كہ جس ميں اعمال حج سے پہلے عمرہ تمتع كو انجام دينا ممكن ہو پھر ميقات سے عمرہ تمتع كيلئے احرام باندھيں پس جب عمرہ سے فارغ ہو جائيں تو مكہ سے حج كيلئے احرام باندھيں _

مسلئہ ۹۱_ عمرہ تمتع اور حج كے درميان مكہ سے خارج ہونے كا معيار موجودہ شہر مكہ سے خارج ہونا ہے پس ايسى جگہ جاناكہ جو اس وقت مكہ مكرمہ كا حصہ شمار ہوتى ہے اگر چہ ماضى ميں وہ مكہ سے باہر تھى مكہ سے خارج ہونا شمار نہيں ہو گا _

مسئلہ ۹۲_ اگر عمرہ تمتع كو انجام دينے كے بعد مكہ سے بغير احرام كے باہر چلا جائے تو اگر اسى مہينے ميں واپس پلٹ آئے كہ جس ميں اس نے عمرہ كو انجام ديا ہے تو بغير احرام كے واپس پلٹے ليكن اگر عمرہ كرنے والے مہينے كے

۶۴

غير ميں پلٹے جيسے كہ ذيقعد ميں عمرہ بجالاكر باہر چلا جائے پھر ذى الحج ميں واپس پلٹے تو اس پر واجب ہے كہ مكہ ميں داخل ہونے كيلئے عمرہ كا احرام باندھے اور حج كے ساتھ متصل عمرہ تمتع ، دوسرا عمرہ ہو گا _

مسئلہ ۹۳_ احوط وجوبى يہ ہے كہ عمرہ تمتع اور حج كے درميان عمرہ مفردہ كو انجام نہ دے ليكن اگر بجا لائے تو اس سے اسكے سابقہ عمرہ كو كوئي نقصان نہيں ہوگا اور اس كے حج ميں بھى كوئي اشكال نہيں ہے _

۶۵

دوسرى فصل :احرام

مسئلہ ۹۴_ احرام كے مسائل كى چار اقسام ہيں:

۱_ وہ اعمال جو احرام كى حالت ميں يا احرام كيلئے واجب ہيں_

۲_ وہ اعمال جواحرام كى حالت ميں مستحب ہيں_

۳_ وہ اعمال جو احرام كى حالت ميں حرام ہيں _

۴_ وہ اعمال جو احرام كى حالت ميں مكروہ ہيں_

۱_ احرام كے واجبات

اول : نيت

اور اس ميں چند امور معتبر ہيں :

۶۶

الف : قصد،يعنى حج يا عمرہ كے اعمال كے بجالانے كا قصد كرنا پس جو شخص مثلاً عمرہ تمتع كا احرام باندھنا چاہے وہ احرام كے وقت عمرہ تمتع كو انجام دينے كا قصد كرے_

مسئلہ ۹۵_ قصد ميں اعمال كى تفصيلى صورت كو دل سے گزارنا معتبر نہيں ہے بلكہ اجمالى صورت كافى ہے پس اس كيلئے جائز ہے كہ اجمالى طور پر واجب اعمال كو انجام دينے كا قصد كرے پھر ان ميں سے ايك ايك كو ترتيب كے ساتھ بجالائے _

مسئلہ ۹۶_ احرام كى صحت ميں محرمات احرام كو ترك كرنے كا قصد كرنا معتبر نہيں ہے بلكہ بعض محرمات كے ارتكاب كا عزم بھى اسكى صحت كو نقصان نہيں پہنچاتا ہاں ان محرمات كے انجام دينے كا قصد كرنا كہ جن سے حج يا عمرہ باطل ہو جاتا ہے جيسے جماع _ بعض موارد ميں _تو وہ اعمال كے انجام دينے كے قصد كے ساتھ جمع نہيں ہو سكتا بلكہ يہ احرام كے قصد كے منافى ہے_

۶۷

ب : قربت اور اللہ تعالى كيلئے اخلاص ،كيونكہ عمرہ ، حج اور ان كا ہر ہر عمل عبادت ہے پس ہر ايك كو صحيح طور پر انجام دينے كيلئے ''قربةً الى اللہ ''كا قصد كرنا ضرورى ہے _

ج _ اس بات كى تعيين كہ احرام عمرہ كيلئے ہے يا حج كيلئے اور پھر يہ كہ حج ، حج تمتع ہے يا قران يا افراد اور يہ كہ اس كا اپنا ہے يا كسى اور كى طرف سے اور يہ كہ يہ حجة الاسلام ہے يا نذر كا حج يا مستحبى حج _

مسئلہ ۹۷_ اگر مسئلہ سے لاعلمى يا غفلت كى وجہ سے عمرہ كے بدلے ميں حج كى نيت كرلے تو اس كا احرام صحيح ہے مثلاً اگر عمرہ تمتع كيلئے احرام باندھتے وقت كہے '' حج تمتع كيلئے احرام باندھ رہا ہو ں ''قربةً الى اللہ '' ليكن اسى عمل كا قصد ركھتا ہو جسے لوگ انجام دے رہے ہيں يہ سمجھتے ہوئے كہ اس عمل كا نام حج ہے تو اس كا احرام صحيح ہے _

مسئلہ ۹۸_ نيت ميں زبان سے بولنا يا دل ميں گزارنا شرط نہيں ہے بلكہ صرف فعل كے عزم سے نيت ہو جاتى ہے_

۶۸

مسئلہ ۹۹_ نيت كا احرام كے ہمراہ ہونا شرط ہے پس سابقہ نيت كافى نہيں ہے مگر يہ كہ احرام كے وقت تك مستمر رہے _

دوم : تلبيہ

مسئلہ ۱۰۰_ احرام كى حالت ميں تلبيہ ايسے ہى ہے جيسے نماز ميں تكبيرة الاحرام پس جب حاجى تلبيہ كہہ دے تو مُحرم ہو جائيگا اور عمرہ تمتع كے اعمال شروع ہو جائيں گے اور يہ تلبيہ در حقيقت خدائے رحيم كى طرف سے مكلفين كو حج كى دعوت ، كا قبول كرنا ہے اسى لئے اسے پورے خشوع و خضوع كے ساتھ بجالانا چاہيے اور تلبيہ كى صورت على الاصح يوں ہے _ ''لَبَّيكَ اَللّهُمَّ لَبَّيكَ لَبَّيكَ لَا شَريكَ لَكَ لَبَّيكَ ''

اگر اس مقدار پر اكتفا كرے تو اس كا احرام صحيح ہے اور احوط استحبابى يہ ہے كہ مذكورہ چا رتلبيوں كے بعديوں كہے : ''انَّ الْحَمْدَ وَ النّعْمَةَ لَكَ وَ الْمُلْكَ لَا شَريكَ لَكَ لَبَّيكَ''

۶۹

اور اگر مزيد احتياط كرنا چاہے تو يہ بھى كہے :

''لَبَّيْكَ اللّهُمَّ لَبَّيْكَ انَّ الْحَمْدَ وَ النّعْمَةَ لَكَ وَ الْمُلْكَ لَا شَريكَ لَكَ لَبَّيكَ

اور مستحب ہے كہ اسكے ساتھ ان جملات كا بھى اضافہ كرے جو معتبر روايت ميں وارد ہوئے ہيں :

لَبَّيْكَ ذَا الْمَعارج لَبَّيْك لَبَّيْكَ داعياً الى دار السَّلام لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ غَفَّارَ الذُنُوب لَبَّيْكَ لَبَّيكَ ا َهْلَ التَّلْبيَة لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ ذَا الْجَلال وَالإكْرام لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ تُبْديُ ، وَالْمَعادُ إلَيْكَ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ تَسْتَغْنى وَ يُفْتَقَرُ إلَيْكَ لَبَّيْك، لَبَّيْكَ مَرْهُوباً وَ مَرْغُوباً إلَيْكَ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ إلهَ الْحَقّ لَبَّيْكَ ، لَبَّيْكَ ذَا النَّعْمَائ وَالْفَضْل: الْحَسَن الْجَميل لَبَّيْكَ ، لَبَّيْكَ كَشّافَ الْكُرَب الْعظام لَبَّيْكَ ، لَبَّيْكَ عَبْدُكَ وَ ابْنُ عَبْدَيْكَ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ يا كَريمُ لَبَّيْكَ

مسئلہ ۱۰۱_ ايك مرتبہ تلبيہ كہنا واجب ہے ليكن جتنا ممكن ہو اس كا تكر ار كرنا مستحب ہے _

۷۰

مسئلہ ۱۰۲_ تلبيہ كى واجب مقدار كو عربى قواعد كے مطابق صحيح طور پر ادا كرنا واجب ہے پس صحيح طورپر قادر ہو تے ہوئے اگر چہ سيكھ كر يا كسى دوسرے كے دہروانے سے _غلط كافى نہيں ہے پس اگر وقت كى تنگى كى وجہ سے سيكھنے پر قادر نہ ہو اور كسى دوسرے كے دہروانے كے ساتھ بھى صحيح طريقے سے پڑھنے پر قدرت نہ ركھتا ہو تو جس طريقے سے ممكن ہو ادا كرے اور احوط يہ ہے كہ اسكے ساتھ ساتھ نائب بھى بنائے_

مسئلہ ۱۰۳_ جو شخص جان بوجھ كر تلبيہ كو ترك كردے تو اس كا حكم اس شخص والا حكم ہے جو جان بوجھ كر ميقات سے احرام كو ترك كردے جو كہ گزرچكا ہے _

مسئلہ ۱۰۴_ جو شخص تلبيہ كو صحيح طور پر انجام نہ دے اور عذر بھى نہ ركھتا ہو تو اس كا حكم وہى ہے جو جان بوجھ كر تلبيہ كو ترك كرنے كا حكم ہے _

مسئلہ ۱۰۵_ مكہ مكرمہ كے گھروں كو ديكھتے ہى _ اگر چہ ان نئے گھروں كو جو اس وقت مكہ كا حصہ شمار ہوتے ہيں _ تلبيہ كو ترك كردينا واجب ہے على الاحوط

۷۱

اور اسى طرح روز عرفہ كے زوال كے وقت تلبيہ كو روك دينا واجب ہے _

مسئلہ ۱۰۶_ حج تمتع ، عمرہ تمتع ، حج افراد اور عمرہ مفردہ كيلئے احرام منعقد نہيں ہو سكتا مگر تلبيہ كے ساتھ ليكن حج قران كيلئے احرام تلبيہ كے ساتھ بھى ہو سكتا ہے اور اشعار يا تقليد كے ساتھ بھى اور اشعار صرف قربانى كے اونٹ كے ساتھ مختص ہے ليكن تقليد اونٹ كو بھى شامل ہے اور قربانى كے ديگر جانوروں كو بھى _

مسلئہ ۱۰۷_ اشعار ہے اونٹ كى كہان كے اگلے حصے ميں نيزہ مار كر اسے خون كے ساتھ لتھيڑنا تا كہ پتا چلے كہ يہ قربانى ہے اور تقليد يہ ہے كہ قربانى كى گردن ميں دھاگہ يا جوتا لٹكا دياجائے تا كہ پتا چلے كہ يہ قربانى ہے_

سوم : دو كپڑوں كا پہننا

اور يہ تہبند اور چادر ہيں پس محرم پر جس لباس كا پہننا حرام ہے اسے اتار كر انہيں پہن لے گا پہلے تہبند باندھ كر دوسرے كپڑے كو شانے پر ڈال

۷۲

لے گا _

مسئلہ ۱۰۸_ احوط وجوبى يہ ہے كہ دونوں كپڑوں كو احرام اور تلبيہ كى نيت سے پہلے پہن لے _

مسئلہ ۱۰۹_ تہبند ميں شرط نہيں ہے كہ وہ ناف اور گھٹنوں كو چھپانے والا ہو بلكہ اس كا متعارف صورت ميں ہونا كافى ہے _

مسئلہ ۱۱۰_ تہبند كا گردن پر باندھنا جائز نہيں ہے ليكن اسكے بكسوا (پن) اورسنگ و غيرہ كے ساتھ باندھنے سے كوئي مانع نہيں ہے اسى طرح اسے دھاگے كے ساتھ باندھنے سے بھى كوئي مانع نہيں ہے _ (اگر چادر كے اگلے حصے كو باندھنا متعارف ہو) اسى طرح اسے سوئي اور پن كے ساتھ باندھنے سے بھى كوئي مانع نہيں ہے _

مسئلہ ۱۱۱_ احوط وجوبى يہ ہے كہ دونوں كپڑوں كو قربةًالى اللہ كے قصد سے پہنے _

مسئلہ ۱۱۲_ ان دو كپڑوں ميں وہ سب شرائط معتبر ہيں جو نمازى كے

۷۳

لباس ميں معتبر ہيں پس خالص ريشم، حرام گوشت جانور سے بنا يا گيا ، غصبى اور اس نجاست كے ساتھ نجس شدہ لباس كافى نہيں ہے كہ جو نماز ميں معاف نہيں ہے _

مسئلہ ۱۱۳_ تہبند ميں شرط ہے كہ اس سے جلد نظر نہ آئے ليكن چادر ميں يہ شرط نہيں ہے جبتك چادر كے نام سے خارج نہ ہو _

مسئلہ ۱۱۴_ دو كپڑوں كے پہننے كا وجوب مرد كے ساتھ مختص ہے اور عورت كيلئے اپنے كپڑوں ميں احرام باندھنا جائز ہے چاہے وہ سلے ہوئے ہوں يا نہ ،البتہ نمازى كے لباس كے گذشتہ شرائط كى رعايت كرنے كے ساتھ _

مسئلہ ۱۱۵_ شرط ہے كہ عورت كے احرام كا لباس خالص ريشم كا نہ ہو _

مسئلہ ۱۱۶_ دونوں كپڑوں ميں يہ شرط نہيں ہے كہ وہ بُنے ہوئے ہوں_ اور نہ بُنے ہوئے ميں يہ شرط ہے كہ وہ كاٹن يا اُون و غيرہ كا ہو بلكہ چمڑے ، نائلون يا پلاسٹك كے لباس ميں بھى احرام باندھنا كافى ہے البتہ اگر ان پر

۷۴

كپڑا ہونا صادق آئے اور ان كا پہننا متعارف ہو اسى طرح نمدے و غيرہ ميں احرام باندھنے سے بھى كوئي مانع نہيں ہے _

مسئلہ ۱۱۷_ اگرا حرام باندھنے كے ارادے كے وقت جان بوجھ كرسلا ہوا لباس نہ اتارے تو اسكے احرام كا صحيح ہونا اشكال سے خالى نہيں ہے پس احوط وجوبى يہ ہے كہ اسے اتارنے كے بعد دوبارہ نيت كرے اور تلبيہ كہے_

مسئلہ ۱۱۸_ اگر سردى و غيرہ كى وجہ سے سلا ہوا لباس پہننے پر مجبور ہو تو قميص و غيرہ جيسے رائج لباس سے استفادہ كرنا جائز ہے ليكن اس كا پہننا جائز نہيں ہے بلكہ اسكے اگلے اور پچھلے حصے يا اوپرى اور نچلے حصے كو الٹا كركے اپنے اوپر اوڑھ لے _

مسئلہ ۱۱۹_ محرم كيلئے حمام ميں جانے ، تبديل كرنے يا دھونے و غيرہ كيلئے احرام كے كپڑوں كا اتارنا جائز ہے _

مسئلہ ۱۲۰_ محرم كيلئے سردى و غيرہ سے بچنے كيلئے دوسے زيادہ كپڑوں كا

۷۵

اوڑھنا جائز ہے پس دو يا زيادہ كپڑوں كو اپنے شانوں كے اوپر يا كمركے ارد گرد اوڑھ لے _

مسئلہ ۱۲۱_ اگر احرام كا لباس نجس ہوجائے تو احوط وجوبى يہ ہے كہ اسے پاك كرے يا تبديل كرے _

مسئلہ ۱۲۲_ احرام كى حالت ميں حدث اصغر يا اكبر سے پاك ہونا شرط نہيں ہے پس جنابت يا حيض كى حالت ميں احرام باندھنا جائز ہے ہاں احرام سے پہلے غسل كرنا مستحب مؤكد ہے اور اس مستحب غسل كو غسل احرام كہاجاتا ہے اور احوط يہ ہے كہ اسے تر ك نہ كرے_

۲_ احرام كے مستحبات

مسئلہ ۱۲۳_ مستحب ہے احرام سے پہلے بدن كا پاك ہونا ،اضافى بالوں كا صاف كرنا ،ناخن كاٹنا _ نيز مستحب ہے مسواك كرنا اور مستحب ہے احرام سے پہلے غسل كرنا ، ميقات ميں يا ميقات تك پہنچنے سے پہلے_ مثلاً مدينہ

۷۶

ميں _ اور ايك قول كے مطابق احوط يہ ہے كہ اس غسل كو ترك نہ كيا جائے اور مستحب ہے كہ نماز ظہر يا كسى اور فريضہ نماز يا دوركعت نافلہ نماز كے بعد احرام باندھے بعض احاديث ميں چھ ركعت مستحب نماز وارد ہوئي ہے اور اسكى زيادہ فضيلت ہے اور ذيقعد كى پہلى تاريخ سے اپنے سر اورداڑھى كے بالوں كو بڑھانا بھى مستحب ہے _

۳_ احرام كے مكروہات

مسئلہ ۱۲۴_ سياہ ،ميلے كچيلے اور دھارى دار كپڑے ميں احرام باندھنا مكروہ ہے اور بہتر يہ ہے كہ احرام كے لباس كا رنگ سفيد ہو اور زرد بستر يا تكيے پر سونا مكروہ ہے اسى طرح احرام سے پہلے مہندى لگانا مكروہ ہے البتہ اگر اس كا رنگ احرام كى حالت ميں بھى باقى رہے _اگر اسے كوئي پكارے تو ''لبيك'' كے ساتھ جواب دينا مكروہ ہے اور حمام ميں داخل ہونا اور بدن كو تھيلى و غيرہ كے ساتھ دھونا بھى مكروہ ہے _

۷۷

۴_ احرام كے محرمات

مسئلہ ۱۲۵_ احرام كے شروع سے لے كر جبتك احرام ميں ہے محرم كيلئے چند چيزوں سے اجتناب كرنا واجب ہے _ ان چيزوں كو '' محرمات احرام '' كہا جاتا ہے _

مسئلہ ۱۲۶_ محرمات احرام بائيس چيزيں ہيں _ان ميں سے بعض صرف مرد پر حرام ہيں _ پہلے ہم انہيں اجمالى طور پر ذكر كرتے ہيں پھر ان ميں سے ہر ايك كو تفصيل كے ساتھ بيان كريں گے اور ان ميں سے ہر ايك پر مترتب ہونے والے احكام كو بيان كريں گے_

احرام كے محرمات مندرجہ ذيل ہيں:

۱_ سلے ہوئے لباس كا پہننا

۲_ ايسى چيز كا پہننا جو پاؤں كے اوپر والے سارے حصے كو چھپالے

۳_ مرد كا اپنے سر كو اور عورت كا اپنے چہرے كو ڈھانپنا

۴_ سر پر سايہ كرنا

۷۸

۵_ خوشبو كا استعمال كرنا

۶_ آئينے ميں ديكھنا

۷_ مہندى كا استعمال كرنا

۸_ بدن كو تيل لگانا

۹_ بدن كے بالوں كو زائل كرنا

۱۰_ سرمہ ڈالنا

۱۱_ ناخن كاٹنا

۱۲_ انگوٹھى پہننا

۱۳_ بدن سے خون نكالنا

۱۴_ فسوق ( يعنى جھوٹ بولنا ، گالى دينا ، فخر كرنا)

۱۵_جدال جيسے ''لا واللہ _ بلى واللہ ''كہنا

۱۶_ حشرات بدن كومارنا

۱۷_ حرم كے درختوں اور پودوں كواكھيڑنا

۱۸_ اسلحہ اٹھانا

۷۹

۱۹_ خشكى كا شكار كرنا

۲۰_ جماع كرنا اور شہوت كو بھڑ كانے والا ہر كام جيسے شہوت كے ساتھ

ديكھنا بوسہ لينا اور چھونا

۲۱_نكاح كرنا

۲۲_استمنا كرنا

مسئلہ ۱۲۷_ ان ميں سے بعض محرمات ويسے بھى حرام ہيں اگر چہ محرم نہ ہو ليكن احرام كى حالت ميں ان كاگناہ زيادہ ہے_

محرمات احرام كے احكام :

۱_ سلے ہوئے لباس كا پہننا

مسئلہ ۱۲۸_ احرام كى حالت ميں مردپر سلے ہوئے كپڑوں كا پہننا حرام ہے اور اس سے مراد ہر وہ لباس ہے كہ جس ميں گردن ، ہاتھ يا پاؤں داخل

۸۰

۲)___ خدا کسے، انسان کی راہنمائی کے لئے انتخاب کرتا ہے؟

۳)___ خداوند عالم کیسے انسانوں کو پیغام پہنچانے کے لئے انتخاب کرتا ہے؟

۵)___ پیغمبر کیوں گناہ سے آلودہ نہیں ہوتے اور گناہوں سے دور رہتے ہیں؟

۶)___ یہ فہم اور فراست پیغمبروں کو کس نے عطا کی ہے؟

۷)___ یہ علم و فراست کیسے پیغمبروں کے لئے عصمت کا موجب ہوجاتی ہے؟

۸)___ دین کا کامل نمونہ کا کیا مطلب ہے؟

۹)___ دین کا کامل نمونہ کون انسان ہے؟

۱۰)___ جو شخص گناہ سے آلودہ ہوجاتا ہے کیا وہ دین کا کامل نمونہ ہوسکتا ہے؟

۱۱)___ کب پیغمبر گفتار اور رفتار میں لوگوں کے لئے کامل نمونہ بن سکتا ہے؟

۱۲)___ اگر پیغمبر غلطی اور نسیان کرتا ہو تو کیالوگ اس پر پورا اعتماد کرسکتے ہیں؟

۱۳)___ معصوم کیسے کہتے ہیں؟

۸۱

ساتواں سبق

اسے کیسے پہنچانتے ہیں اور اس سے کیا چاہتے ہیں

آپ کے دوست محمود کا بیگ آپ کے گھر میں ہے ایک شخص کہتا ہے کہ میں محمود کی طرف سے آیا ہوں اور اس نے مجھے بھیجا ہے تا کہ اس کا بیگ آپ سے لے لوں اگر آپ اس انسان کو نہ جانتے ہوں تو اس صورت میں آپ کیا کریں گے فوراً اعتماد کر کے اسے بیگ دے دیں گے؟ یا اسے کیسے پہچانیں گے؟ کیا معلوم کریں گے کہ واقعاً اس کو محمود نے آپ کے پاس بھیجا ہے کیا اس کے پہچاننے کے لئے آپ اس سے خاص علامت کا مطالبہ نہیں کریں گے؟

یقینا آپ اس سے کہیں گے کہ نشانی بتلا دو اور بیگ لے جاؤ وہ اگر نشانی بتلائے اور مثلاً کہے کہ محمود نے کہا تھا کہ میرا بیگ مہمان خانے والے کمرہ میں پڑا ہے اور اس کے اندر ایک حساب کی کتاب ہے اور دوسری دینی علوم کی کتاب ایک اس میں آبی رنگ کاپن ہے اور ایک سرخ رنگ کی پنسل اور گھڑی

۸۲

ہے اگر اس کی یہ نشانیاں اور علامتیں درست ہوئیں تو آپ اسے کیا سمجھیں گے اور کیا کریں گے؟

اگر اس کی نشانیاں ٹھیک ہوئیں تو آپ سمجھیں گے کہ واقعی اسے محمود نے بھیجا ہے اور یہ اس کا معتمد ہے آپ بھی اس پر عمل کریں گے اور اس کا بیگ اسے دے دیں گے اس مثال پر توجہ کرنے کے بعد آپ کہہ سکتے ہیں کہ پیغمبر کو کیسے پہچانا جائے پیغمبر بھی خدا کا بھیجا ہوا ہوتا ہے اپنے تعرف کے لئے اللہ تعالی کی طرف سے مخصوص نشانیاں اور علامتیں لاتا ہے تا کہ لوگ اسے پہچان جائیں اور اس کی دعوت کو قبول کرلیں اگر پیغمبر اللہ تعالی کی طرف سے خاص علامتیں نہ لائیں تو لوگ اسے کیسے پہچانیں گے ؟ کس طرح جانیں گے کہ واقعہ خدا کا پیغمبر اور اسی کا بھیجا ہوا ہے اگر خدا مخصوص علامتیں جو معجزے کے نام سے موسوم ہیں پیغمبروں کے اختیار میں نہ دے تو لوگ اسے کس طرح پہچانیں گے؟ اور کس طرح سمجھیں گے کہ ان کا خدا کے ساتھ خاص ربط ہے؟ اور کس طرح ان پر اعتماد کرسکیں گے کس طرح ان کی دعوت کو قبول کرلیں گے؟ پیغمبری کی مخصوص علامت اور نشانی کا نام معجزہ ہے یعنی ایسا کام انجام دینا کہ جس کے بجالانے سے عام لوگ عاجز ہوں اور اسے نہ کرسکیں_ وہ کام خدا اور اس کے مخصوص بھیجے ہوئے انسان کے سوا اور کوئی اس طرح انجام نہ دے سکے جب دعوی کرے کہ میں خدا کا پیغمبر ہوں اور خدا سے خاص ربط رکھتا ہوں اور پھر معجزہ بھی لے آیا ہوں تو حق طلب انسان سمجھ جائے گا کہ وہ واقعی پیغمبر اور خدا کا بھیجا ہوا ہے اور خدا سے خاص ربط رکھتا ہے امین ہے اور اللہ کا مورد اعتماد ہے حق طلب

۸۳

لوگ بھی اس پر اعتماد کریں گے اور اس کی دعوت اور حکم کو قبول کرلیں گے اور کہیں گے چونکہ یہ وہ کام کرتا ةے جو صرف خدا کرسکتا ہے یعنی اس کے پاس معجزہ ہے لہذا وقعی پیغمبر ہے اور خدا کے ساتھ خاص ربط رکھتا ہے آگاہ اور حق طلب لوگ پیغمبروں کو معجزہ کی وجہ سے پہچانتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ یہ خدا کے بھیجے ہوئے ہیں_

۸۴

آٹھواں سبق

رسالت کی نشانیاں

آپ پڑھ چکے ہوں گے کہ پیغمبروں کے معجزات کیسے ہوتے ہیں اور یہ بھی جانتے ہوں گے کہ حضرت موسی علیہ السلام اپنے ہاتھ کو گریبان میں لے جاتے اور جب اسے باہر نکالتے تو وہ ایک خوبصورت ستارے کی طرح چمکتا تھا_ حضرت موسی علیہ السلام کا عصی اللہ کے حکم سے ایک زبردست سانپ بن جاتا اور اسی عصا نے اللہ کے حکم سے دریا کے پانی کو اسی طرح چیردیا کہ اس کی زمین ظاہر ہوگئی_

خداوند عالم نے ان کا اور دیگر کئی ایک معجزات کا ذکر قرآن میں کیا ہے_ حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق فرمایا ہے کہ مادر زاد اندھوں کو اللہ کے حکم سے بغیر کوئی دواء استعمال کئے شفا دے دیتے تھے_

مردوں کو اللہ کے حکم سے زندہ کرتے تھے مٹی سے پرندے

۸۵

کی صورت بناتے اور اللہ تعالی کے اذن سے اس میں پھونک مارتے تو اس میں روح آجاتی تھی او روہ پرندہ ہوجاتا تھا، اور اڑجاتا تھا_

حضرت عیسی علیہ السلام اسرار سے واقف تھے مثلا جس شخص نے گھر میں کوئی چیز کھائی ہو یا اس نے گھر میں کوئی چیز چھیا کر رکھی ہو تو آپ اس کی خبر دیتے تھے آپ جب گہوارے میں تھے تو لوگوں سے باتیں کرتے تھے نمرود کی جلائی ہوئی آگ اللہ کے اذن اور حکم سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے سرد ہوگئی اور آپ سالم رہے اور کوئی خراش آپ کو نہ پہنچی ہمارے پیغمبر علیہ السلام کے بھی بے شمار معجزے تھے آپ کے معجزات میں سے سب سے بڑا معجزہ قرآن کریم ہے آگے چل کر پیغمبر اسلام(ص) کے معجزات کے بارے میں بیان کیا جائے گا_

اب ہم یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ معجزہ کس طرح اور کس کی قدرت سے انجام پاتا ہے_

اللہ تعالی اپنی بے پناہ قدرت سے جو کام انجام دیتا چاہئے بجالا سکتا ہے خدا کے سواء کون ہے جو خشک لکڑی کو سانپ بنادے_ خدا کے سوا کون ہے جو ایک اشارے سے دریا چیردے_ خدا کے سواء کون ہے جو مادر زاد اندھے کو شفا دے دے اور وہ بینا ہوجائے_ خدا کے سوا کون ہے جو ایک بے جان مجسمہ کو زندہ کردے اور اس کو پر و بال آنکھ اور کان عطا کردے خدا کے سوا کون ہے جو غیب سے مطلع ہوسکتا ہے پیغمبر اس قدرت اور طاقت کے ذریعے جو اللہ تعالی نے انہیں عنایت فرمائی ہے ا للہ تعالی کے اذن سے ایسے کام انجام دیتے ہیں تا کہ حق طلب لوگ ان امور کے

۸۶

دیکھنے اور مشاہدہ کرنے سے سمجھ جائیں کہ ان تعلق اور خاص ربط خدا سے ہے اور اسی کے چنے ہوئے ہیں اور اسی کی طرف سے پیغام لائے ہیں_ اس قسم کے کاموں کو معجزہ کہاجاتا ہے معجزہ ایسا کام ہے کہ جسے خدا کے علاوہ یا اس کے خاص بھیجے ہوئے بندوں کے علاوہ کوئی بھی انجام نہیں دے سکتا جب خدا کسی کو پیغمبر بنا کر بھیجتا ہے تو کوئی نشانی اور معجزہ اسے دے دیتا ہے تا کہ اس کے ذریعہ پہچانا جائے اگر پیغمبر اللہ تعالی کی طرف سے واضح نشانی نہ لائیں تو لوگ انہیں کس طرح پہچانیں اور کس طرح جانیں کہ واقعی یہ خدا کا پیغمبر ہے_

سوالات

۱)___ کیا پیغمبر کے پہچاننے کے لئے کسی خاص نشانی کی ضرورت ہے اور کیوں؟

۲)___ پیغمبر کی نشانی کا کیا نام ہے؟

۳)___ حق طلب لوگ کس ذریعہ سے پیغمبر کو پہچانتے ہیں؟

۴)___ معجزہ کسے کہا جاتا ہے؟

۵)___ مشاہدہ معجزہ کے بعد کس طرح سمجھا جاتا ہے کہ اس کے لانے والے اللہ تعالی کے پیغمبر ہیں؟

۶)___ معجزہ کس کی قدرت سے انجام پاتا ہے؟

۷)___ پیغمبروں کو یہ قدرت کون عنایت کرتا ہے؟

۸۷

نواں سبق

نوجوان بت شکن

حضرت ابراہیم علیہ السلام جس دن کے انتظار میں تھے وہ دن آپہنچا کلہاڑ اٹھا کر بت خانہ کی طرف روانہ ہوئے اور مصمم ارادہ کرلیا کہ تمام بتوں کو توڑ ڈالیں گے_ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو معلوم تھا کہ یہ کام بہت خطرناک ہے اور انہیں علم تھا اگر انہیں بت توڑنے دیکھ لیں یا بت توڑنے کی آواز سن لیں تو اس وقت لوگ ان پر ہجوم کریں گے اور انہیں ختم کردیں گے لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام وقت شناس تھے اور جانتے تھے کہ کون سا وقت بت توڑنے کے لئے منتخب کریں لہذا جس دن شہر کے تمام لوگ عید مانے کے لئے بیابان میں جانے لگے تو انہوں نے چاہا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی اپنے ساتھ لے جائیں لیکن آپ ان کے ساتھ نہ گئے اور کہا کہ میں مریض ہوں لہذا شہر ہی میں رہوں گا_

۸۸

جب تمام لوگ بیابان کی طرف جاچکے تو حضرت ابراہیم (ع) ایک تیز کلھاڑے کو لے کر بت خانہ کی طرف گئے اور آہستہ سے اس میں داخل ہوئے وہاں کوئی بھی موجود نہ تھا بت اور چھوٹے بڑے مختلف اشکال کے مجسمے بت خانہ میں رکھے ہوئے تھے جاہل لوگوں نے ان کے سامنے غذا رکھی ہوئی تھی تا کہ بتوں کی نذر کی ہوئی غذا با برکت ہوجائے اور جب وہ بیابان سے واپس آئیں تو اس غذا کو کھائیں تا کہ بیمار نہ ہوں_

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک نگاہ بتوں پر ڈالی اور جاہل لوگوں کی اس حالت پر افسوس کیا اور اپنے آپ سے کہا کہ یہ لوگ کس قدر نادان ہیں کہ پتھر اور لکڑی سے بت بناتے ہیں اور پھر جنہیں انہوں نے خود بنایا ہے اس کی پرستش کرتے ہیں اس کے بعد آپ نے بتوں کی طرف نگاہ کی او رفرمایا کہ کیوں غذا نہیں کھاتے؟ کیوں کلام نہیں کرتے؟ یہ جملہ کہا اور طاقتور ہاتھ سے کلہاڑ اٹھایا اور بتوں کی طرف گئے اور جلدی جلدی بتوں کو زمین پر گرانا شروع کیا صرف ایک بڑے بت کو باقی رہنے دیا اور کلہاڑے کو اس کے کندھے پر ڈال کر بت خانہ سے باہر نکل آئے غروب آفتاب کے قریب لوگ بیابان سے واپس آئے اور بت خانے کی طرف گئے پہلے تو وحشت زدہ مبہوت اور متحیر کھڑے بتوں کو دیکھتے رہے اس کے بعد بے اختیار چیخے روئے اور اشک بہائے اور ایک دوسرے سے پوچھتے کہ کس نے ان بتوں کو توڑا ہے؟ کس نے اتنا بڑا گناہ کیا ہے؟ بت غضب ناک ہوں گے اور ہماری زندگی بد نصیبی سے ہم کنار کردیں گے بت خانہ کے بچاری نے یہ تمام رپورٹ نمرود تک پہنچائی نمرود غضب

۸۹

ناک ہوا اور حکم دیا کہ اس واقعہ کی تحقیق کی جائے اور مجرم کو پکڑا جائے حکومت کے عملے نے تحقیق و تفتیش کی او رخبر دی کہ ایک نوجوان جس کا نام ابراہیم ہے ایک زمانے سے بتوں کی بے حرمتی کی جسارت کرتا رہا ہے ممکن ہے کہ یہ بھی اسی نے کیا ہوا اور وہی مجرم او رگناہ گار ہو نمرود نے حکم دیا کہ اسے پکڑا جائے جناب ابراہیم علیہ السلام پکڑ کر نمرود کی عدالت میں لائے گئے

حضرت ابراہیم (ع) نمرود کی عدالت میں

عدالت لگائی گئی حج اور دوسرے ارکان اپنی اپنی جگہ پر بیٹھے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو عدالت میں لایا گیا_ جج اٹھا اور کہا کہ ہم سب کو معلوم ہے کہ تہوار کے دن بڑے بت خانہ کے بت توڑ دیئےئے ہیں اس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف متوجہ ہوکر کہا اے ابراہیم (ع) تمہیں اس واقعہ کے متعلق کیا علم ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک گہری نگاہ اس کی طرف کی او رکہا کہ یہ سوال مجھ سے کیوں کر رہے ہو_ جج نے کہا کہ میں یہ کس سے پوچھوں ابراہیم علیہ السلام نے بڑے ٹھنڈے انداز میں فرمایا کہ بتوں سے پوچھو؟ جج نے تعجب سے کہا کہ بتوں سے پوچھوں؟ ٹوٹے ہوئے بت تو جواب نہیں دیتے؟ ابراہیم علیہ السلام نے جج کی بات کو سنا اور تھوڑی دیر کے بعد کہا کہ دیکھو کہ بتوں کو کس چیز سے توڑا گیا ہے

۹۰

جج کو غصّہ آیااوراپنی جگہ سے اٹھا اور غصّہ کے عالم میں کہا کہ بتوں کو کلہاڑے سے توڑا گیا ہے لیکن اس کا کیا فائدہ ہم تو چاہتے ہیں کہ معلوم کریں کہ بتوں کو کسنے توڑاغ ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آرام و سکون سے فرمایا کہ سمجھنا چاہتے ہو کہ کسنے بتوں کو کلہاڑے سے توڑا ہے دیکھو کہ کلہاڑا کس کے ہاتھ میں ہے او رکس کے کندھے پر ہے؟ جج نے کہا کہ کلہاڑا تو برے بت کے کندھے پر ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بات کو کاٹتے ہوئے فرمایا کہ جتنا جلدی ہوسکے بڑے بت کو عدالت میں حاضر کرو کیونکہ وہ خود تو ٹوٹا نہیں ہے جج غصّہ میں آکر کہنے لگا اے ابراہیم کیا کہہ رہے ہو کتنے نادان ہو؟ بت تو بات نہیں کرتے نہ ہی کوئی چیز سنتے ہیں؟ پتھر سے تو کوئی تحقیق نہیں کی جاسکتی _

حضرت ابراہیم علیہ السلام اس نتیجے کے منتظر تھے_ کہا کہ تم نے اعتراف کرلیا ہے کہ بت بات نہیں کرتے اور نہ کوئی چیز سنتے ہیں پس کیوں ایسے نادان اور کمزور بتوں کی پرستش کرتے ہو؟ جج کے پاس حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس بات کا کوئی جواب نہ تھا تھوڑا سا صبر کیا اور کہا کہ اب ان باتوں کا وقت نہیں بہرحال بت توڑے گئے ہیں اور ہم تمہیں اس کا مجرم سمجھتے ہیں کیونکہ تم اس سے پہلے بھی بتوں کی بے حرمتی کی جسارت کرتے رہتے تھے لہذا تمہارا مجرم ہونا عدالت کے لئے ثابت ہے؟ سزا کے لئے تیار ہوجاؤ_

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک پر اسرار نگاہ جج کی طرف ڈالی اور فرمایا کہ تم میرے خلاف کوئی دلیل نہیں رکھتے میں بھی تمہاری سزا سے

۹۱

خوف زدہ نہیں ہوں_ خدائے قدیر میرا محافظ ہے میری نگاہ میں جس نے بھی بت توڑے ہیں وہ تمہارا خیر خواہ تھا اور اس نے اچھا کام انجام دیا ہے وہ چاہتاتھا کہ تمہیں سمجھائے کہ بت اس لائق نہیں کہ ان کی پرستش کی جائے اور میں بھی تمہیں واضح طور پر کہہ رہا ہوں کہ میں بت پرست نہیں ہوں اور بتوں کے ساتھ عقیدہ نہیں رکھتا اور بت پرستی کو اچھا کام نہیں جانتا میں ایک خدا کی پرستش کرتا ہوں وہ ایک خدا جو مہربان ہے اور جس نے زمین اور آسمان اور تمام جہان اور اس میں موجود ہر چیز کو خلق کیا ہے اور وہی اسے منظم کرتا ہے تمام کام اس کے ہاتھ میں ہیں_ خدا کے سواء کوئی بھی پرستش کے لائق نہیں ہیں اس کے حکم کو مانتا ہوں اور صرف اس کی عبادت کرتا ہوں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی گفتگو بعض سا معین پر اثر انداز ہوئی انہوں نے کہا کہ حق حضرت ابراہیم (ع) کے ساتھ ہے ہم ضلالت و گمراہی میں تھے_ اس طرح حضرت ابراہیم (ع) نے ایک عام مجلس میں لوگوں کے سامنے اپنا مدعی بیان کیا_ جج باوجود یکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خلاف کوئی دلیل نہیں رکھتا تھآ اس نے ابراہیم علیہ السلام کے خلاف حکم دیا کہ ابراہیم (ع) نے ہمارے بتوں کی بے حرمتی کی ہے اور بتوں کو توڑا ہے بتوں کو توڑنے کے جرم میں انہیں آگ میں ڈالیں گے اور ان کو جلادیں گے تا کہ راکھ ہوجائیں اور ان کا اور ان کے ہاتھوں کا کہ جنہوں نے بت توڑے ہیں نشان تک باقی نہ رہے اس نے یہ فیصلہ لکھا اور اس پر دستخط کئے اور اس حکم کے اجراء کو شہر کے بڑے بچاری کے سپرد کردیا_

۹۲

حضرت ابراہیم (ع) اور اتش نمرود

شہر کے بڑے بچاری نے نمرود کی عدالت کے جج کا حکم پڑھا اور کہا کہ ابراہیم (ع) نے ہمارے بتوں کی بے حرمتی کی ہے بتوں کو توڑا ہے اسے بتوں کے توڑنے کے جرم میں آگ میں ڈالیں گے اور جلا دیں گے اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف منہ موڑا اور کہا ہم تھوڑی دیر بعد تمہیں بتوں کے توڑنے کے جرم میں آگ میں ڈالیں گے اس آخری وقت میں اگر کوئی وصیت ہو تو کہو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے نورانی چہرے کے ساتھ بہت ہی سکون و آرام سے بلند آواز میں فرمایا_

لوگو میری نصیحت اور وصیت یہ ہے کہ ایک خدا پر ایمان لاؤ اور بت پرستی چھوڑوو_ ظالموں اور طاقتوروں کی اطاعت نہ کرو صرف خدا کی پرستش کرو اس کے فرمان کو قبول کرو بڑے بچاری نے حضرت ابراہیم (ع) کی بات کاٹ دی اور بہت غصّہ کے عالم میں کہنے لگا_

اے ابراہیم تم اب بھی ان باتوں سے دست بردار نہیں ہوتے ابھی تم جلادیئے جاؤگے_ اس کے بعد حکم دیا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں پھینک دو

حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں پھینک دیا گیا جاہلوں نے

۹۳

نعرہ لگایا بت زندہ باد_ ابراہیم (ع) بت شکن مردہ باد_ حضرت ابراہیم (ع) کہ جن کا دل عشق الہی سے پرتھا آسمان اور زمین کے وسط میں دعا کرتے تھے اور فرماتے تھے اے میرے واحد پروردگار_ اے مہربان پروردگار اے میری پناہ، اے وہ ذات کہ جس کا کوئی فرزند نہیں اور تو کسی کا فرزند نہیں، اے بے مثل خدا میں فتح اور کامرانی کے لئے تجھ سے مدد چاہتا ہوں_

حضرت ابراہیم علیہ السلام اس طریقہ سے آگ میں ڈالے گئے اور بڑے بچاری نے لوگوں سے کہا اے بابل کے شہریوں دیکھا ہم نے کس طرح حضرت ابراہیم(ع) کو جلادیا تمہیں معلوم ہونا چاہیئے کہ بت محترم اور ہر ایک کو بتوں کی پرستش کرنی چاہیئے اور نمرود کے حکم کی اطاعت کرنی چاہیئے_

اب نمرود کے حکم سے آگ کے بلند شعلے ابراہیم علیہ السلام کو راکھ کردیں گے لیکن اسے علم نہ تھا کہ اللہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مدد کی اور نمرود کی آگ اللہ کے حکم سے حضرت ابراہیم (ع) پر ٹھنڈی ہوگئی اور ان کے لئے سلامتی کا گہوارہ بن گئی کافی وقت گذر گیا لوگوں نے حیرت کے عالم میں ایک طرف اشارہ کیا اور کہا کہ حضرت ابراہیم (ع) آگ میں چل پھر رہے ہیں انہیں آگ نے نہیں جلایا_ ابراہیم علیہ السلام زندہ باد بڑا بچاری متحيّر ادھر ادھر دوڑتا تھا اور فریاد کرتا تھا اور نمرود بھی غصّہ اور تعجب سے فریاد کرتا تھا اور زمین پر پاؤں مارتا تھا_

حضرت ابراہیم (ع) جن کا دل ایمان سے پرتھا آہستہ آہستہ نیم جلی

۹۴

لکڑیوں اور آگ کے معمولی شعلوں پر پاؤں رکھتے ہوئے باہر آرہے تھے لوگ تعجب اور وحشت کے عالم میں آپ کی طرف دوڑے اور آپ کو دیکھنے لگے حضرت ابراہیم علیہ السلام کافی دیر چپ کھڑے رہے اس کے بعد ہاتھ اٹھا کر ان کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا تم نے اللہ تعالی کی قدرت کودیکھا اور اس کے ارادے کامشاہدہ کیا اب سمجھ لو کہ کوئی بھی اللہ تعالی کی قدرت سے مقابلہ نہیں کرسکتا کوئی بھی ارادہ سوائے ذات الہی کے ارادے کے غالب اور فتح یاب نہیں ہوسکتا ضعیف اور نادان بتوں کی عبادت سے ہاتھ اٹھا لو بت نہ پوجو، صرف خدائے وحدہ، لا شریک کی عبادت کرو''

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ حضرت ابراہیم (ع) لوگوں کے ساتھ بیابان کیوں نہ گئے تھے؟

۲)___ بتوں کو کیوں توڑا تھا اور بڑے بت کو سالم کیوں رہنے دیا تھا؟

۳)___ حضرت ابراہیم (ع) نے کسطرح ثابت کیا تھا کہ بت قابل پرستش نہیں ہیں؟

۴)___ حضرت ابراہیم (ع) نے نمرود کی عدالت میں کس طرح بت پرستوں کو مغلوب کیا؟

۵)___ حضرت ابراہیم (ع) کی آخری بات نمرود کی عدالت میں کیا تھی؟

۶)___ حضرت ابراہیم (ع) کی نصیحت کیا تھی؟

۹۵

۷)___ حضرت ابراہیم (ع) کے بت توڑنے اور عدالت میں گفتگو کرنے کی کیا غرض تھی اور اس سے کیا نتیجہ لیا؟

۸)___ حضرت ابراہیم (ع) کو آگ میں انہوں نے کیوں ڈالا اور کیا وہ اپنی غرض کو پہنچے؟

۹)___ جب حضرت ابراہیم (ع) کو آگ میں پھینکا گیا تو آپ نے اللہ تعالی سے کیا کہا؟

۱۰)___ جب آپ آگ سے باہر نکلے تو لوگوں سے کیا پوچھا اور ا ن سے کیا فرمایا؟

۱۱)___ کیا صرف حضرت ابراہیم (ع) کا مقصد تھا کہ نمرود اور بت پرستی کا مقابلہ کریں؟ یا ہر آگاہ ا نسان کا یہی مقصد حیات ہے؟

۱۲)___ کیا آپ بھی حضرت ابراہیم (ع) کی طرح بت پرستی کے ساتھ مقابلہ کرتے ہیں؟

۱۳)___ کیا ہمارے زمانے میں بت پرستوں کا وجود ہے اور کس طرح؟

۱۴)___ حضرت ابراہیم (ع) کی داستاں سے کیا درس آپ نے حاصل کیا ہے؟ اور کس طرح آپ اسے عملی طور سے انجام دیں گے اور اس بزرگ پیغمبر کے کردار پر کیسے عمل کریں گے؟

۹۶

دسواں سبق

حضرت موسی (ع) خدا کے پیغمبر تھے

پہلے زمانے میں ایک ظالم انسان مصر پر حکومت کرتاتھا کہ جسے فرعون کہا جاتا ہے فرعون ایک خودپسند اور مغرور انسان تھا لوگوں سے جھوٹ کہتا تھا کہ میں تمہارا بڑا خدا اورپروردگار ہوں تمہاری زندگی اورموت میرے ہاتھ میں ہے مصر کی وسیع زمین اور یہ نہریں سب میری ہیں تم بیغر سوچے سمجھے اور بیغر چوں و چرا کئے میری اطاعت کرو_ مصر کے نادان لوگ اس کے محکوم تھے اور اس کے حکم کو بغیر چوں و چرا کے قبول کرتے تھے اور اس کے سامنے زمین پر گرتے تھے صرف حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد جو مصر میں رہتی تھی او رخداپرست تھی فرعون کے سامنے زمین پر نہیں گرتی تھی یعنی اسے سجدہ نہیں کرتی تھی اسی لئے فرعون انہیں بہت سخت کاموں پر مامور کرتا اور یعقوب کی اولاد

۹۷

مجبور تھی کہ بغیر کوئی مزدوری لئے فرعون اور فرعونیوں کے لئے زراع کریں، کام کریں ان کے بہترین محل بنائیں لیکن اس تمام محنت اور کام کرنے کے باوجود بھی فرعون ان پر رحم نہیں کیا کرتا تھا ان کے ہاتھ پاؤں کاٹتا اور پھانسی پر لٹکاتا تھا ایسے زمانے میں خداوند عالم نے حضرت موسی (ع) کو پیغمبری کے لئے چنا_ خداوند عالم حضرت موسی علیہ السلام کے ساتھ کلام کرتاتھا اور جناب موسی (ع) اللہ تعالی کا کلام سنتے تھے اے موسی (ع) میںنے تمہیں لوگوں میں سے پیغام پہنچانے کے لئے چنا ہے میری بات کو سنو میں تیرا پروردگار ہوں، میرے سوا کوئی اور خدا نہیں، نماز پڑھو اور مجھے اپنی نماز میں یاد کرو اس کے بعد اللہ تعالی نے جب حضرت موسی علیہ السلام سے پوچھا یہ کیا ہے جو تو نے ہاتھ میں لے رکھا ہے_

حضرت موسی علیہ السلام نے جواب میں کہا یہ میرا عصا ہے جب تھک جاتا ہوں اس کا سہارا لے کر آرام کرتا ہوں بھیڑ بکریوں کو ہاکتا ہوں اور دوسرے فوائد بھی میرے اس میں موجود ہیں اللہ تعالی نے حکم دیا کہ اسے اپنے ہاتھ سے پھینکو حضرت موسی نے اپنے عصا کو زمین پر ڈالا بہت زیادہ تعجب سے دیکھا کہ عصا ایک بپھرا ہوا سانپ بن گیا ہے اور منہ کھول رکھا ہے اور آگے بڑھ رہا ہے حضرت موسی علیہ السلام ڈرے اللہ کا حکم ہوا کہ اسے پکڑو اور نہ ڈرو ہم اسے اپنی پہلی حالت میں لوٹا دیں گے اور پھر یہ عصا بن جائے گا حضرت موسی علیہ السلام نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور اسے پکڑا وہ دوبارہ بن گیا خداوند عالم نے حکم دیا اے موسی (ع) اپنے ہاتھ کو اپنے گریبان

۹۸

میں ڈالو_ حضرت موسی علیہ السلام نے اپنا ہاتھ گریبان میں ڈالا اور جب اسے باہر نکالا تو آپ کا ہاتھ ایک انڈے کی طرح سفید تھا اور چمک رہا تھا اللہ تعالی کی طرف سے حکم ہوا کہ اے موسی ان دو نشانیوں او رگمراہوں سے (یعنی ان دو معجزوں کے ساتھ) فرعون کی طرف جاؤ اور اسے دعوت دو کیوں کہ وہ بہت مغرور اور سرکش ہوگیا ہے پہلے اسے نرمی اور ملائمت کے ساتھ دعوت دنیا شاید نصیحت قبول کرلے یا ہمارے عذاب سے ڈرجائے اگر کوئی نشانی یا معجزہ طلب کرے تو اپنے عصا کو زمین پر ڈالو اور اپنے ہاتھ کو گریبان میں ڈال کر اسے دکھلاؤ_

حضرت موسی (ع) فرعون کے قصر میں

فرعون اور اہلیان مصر قصر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ حضرت موسی (ع) وارد ہوئے فرعون جناب موسی علیہ السلام کو پہلے سے پہچانتا تھا ان کی طرف تھوڑی دیر متوجہ رہا پھر پوچھا کہ تم موسی (ع) ہو_ حضرت موسی علیہ السلام نے فرمایا ہاں: میں موسی ہوں میں خدا کی طرف سے آیا ہوں تا کہ تمہیں ہدایت خواہی اور سرکشی کو ترک کرو اللہ تعالی کے فرمان کی اطاعت کرو تا کہ سعادتمند بن جاؤ اللہ تعالی نے مجھے حکم دیا ہے کہ بنی اسرائیل کو ذلّت و خواری سے نجاد دلاؤں_

۹۹

فرعون نے غصّہ اور تکبّر سے کہا اے موسی آخر تمہارا خدا کون ہے حضرت موسی علیہ السلام نے فرمایا کہ میرا خدا وہ ہے کہ جس نے زمین اور آسمان کوپیدا کیا ہے تجھے اور تیرے باپ دادا کو پیدا کیا ہے تمام موجودات کو پیدا کیا ہے وہی سب کو روزی دینے والا اور ہدایت کرنے والا ہے فرعون حضرت موسی (ع) کی بات کو اچھی طرح سمجھتا تھا اپنے آپ کو نادانی میں ڈالا بجائے اس کے کہ حضرت موسی علیہ السلام کو جواب دیتا قصر میں بیٹھے لوگوں کی طرف رخ کر کے کہا_

کیا مصر کی بڑی سلطنت میری نہیں، کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں کیا تمہاری زندگی اورموت میرے ہاتھ میں نہیں کیا میں تمہیں روزی دینے والا نہیں ہوں اپنے سواء تمہارے لئے میں کوئی پروردگار نہیں جانتا ہمیں حضرت موسی کے خدا کی کیا ضرورت ہے؟

حضرت موسی علیہ السلام نے بڑے اطمینان سے کہا اے لوگو تم اس دنیا کے بعد ایک اور دنیا کی طرف جاؤ گے وہاں ایک اوردنیا کی طرف جاؤ گے وہاں ایک اور زندگی ہے تمہیں چاہیے کہ ایسے کام کرو کہ جس سے آخرت میں بھی سعادتمند رہو اللہ تعالی کے علاوہ آخرت اور اس دنیا کی بدبختی اور سعادت کے اسباب کو کوئی نہیں جانتا وہ دنیا اور آخرت کا پیدا کرنے والا ہے میں اسی کی طرف سے آیا ہوں اور اسی کا پیغام لایا ہوں، میں اللہ کا رسول ہوں میں اسی لئے آیا ہوں تا کہ تمہیں زندگی کا بہترین دستور دوں اور تم دنیا وآخرت میں اچھی زندگی بسر کرو اور سعادتمند ہوجاؤ_

فرعون نے بے اعتنائی او رتکبّر سے کہا_ کیاتم اپنی پیغمبری پر کوئی

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285