‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) جلد ۲

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) 13%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 285

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 285 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 117777 / ڈاؤنلوڈ: 4038
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

۲)___ خدا کسے، انسان کی راہنمائی کے لئے انتخاب کرتا ہے؟

۳)___ خداوند عالم کیسے انسانوں کو پیغام پہنچانے کے لئے انتخاب کرتا ہے؟

۵)___ پیغمبر کیوں گناہ سے آلودہ نہیں ہوتے اور گناہوں سے دور رہتے ہیں؟

۶)___ یہ فہم اور فراست پیغمبروں کو کس نے عطا کی ہے؟

۷)___ یہ علم و فراست کیسے پیغمبروں کے لئے عصمت کا موجب ہوجاتی ہے؟

۸)___ دین کا کامل نمونہ کا کیا مطلب ہے؟

۹)___ دین کا کامل نمونہ کون انسان ہے؟

۱۰)___ جو شخص گناہ سے آلودہ ہوجاتا ہے کیا وہ دین کا کامل نمونہ ہوسکتا ہے؟

۱۱)___ کب پیغمبر گفتار اور رفتار میں لوگوں کے لئے کامل نمونہ بن سکتا ہے؟

۱۲)___ اگر پیغمبر غلطی اور نسیان کرتا ہو تو کیالوگ اس پر پورا اعتماد کرسکتے ہیں؟

۱۳)___ معصوم کیسے کہتے ہیں؟

۸۱

ساتواں سبق

اسے کیسے پہنچانتے ہیں اور اس سے کیا چاہتے ہیں

آپ کے دوست محمود کا بیگ آپ کے گھر میں ہے ایک شخص کہتا ہے کہ میں محمود کی طرف سے آیا ہوں اور اس نے مجھے بھیجا ہے تا کہ اس کا بیگ آپ سے لے لوں اگر آپ اس انسان کو نہ جانتے ہوں تو اس صورت میں آپ کیا کریں گے فوراً اعتماد کر کے اسے بیگ دے دیں گے؟ یا اسے کیسے پہچانیں گے؟ کیا معلوم کریں گے کہ واقعاً اس کو محمود نے آپ کے پاس بھیجا ہے کیا اس کے پہچاننے کے لئے آپ اس سے خاص علامت کا مطالبہ نہیں کریں گے؟

یقینا آپ اس سے کہیں گے کہ نشانی بتلا دو اور بیگ لے جاؤ وہ اگر نشانی بتلائے اور مثلاً کہے کہ محمود نے کہا تھا کہ میرا بیگ مہمان خانے والے کمرہ میں پڑا ہے اور اس کے اندر ایک حساب کی کتاب ہے اور دوسری دینی علوم کی کتاب ایک اس میں آبی رنگ کاپن ہے اور ایک سرخ رنگ کی پنسل اور گھڑی

۸۲

ہے اگر اس کی یہ نشانیاں اور علامتیں درست ہوئیں تو آپ اسے کیا سمجھیں گے اور کیا کریں گے؟

اگر اس کی نشانیاں ٹھیک ہوئیں تو آپ سمجھیں گے کہ واقعی اسے محمود نے بھیجا ہے اور یہ اس کا معتمد ہے آپ بھی اس پر عمل کریں گے اور اس کا بیگ اسے دے دیں گے اس مثال پر توجہ کرنے کے بعد آپ کہہ سکتے ہیں کہ پیغمبر کو کیسے پہچانا جائے پیغمبر بھی خدا کا بھیجا ہوا ہوتا ہے اپنے تعرف کے لئے اللہ تعالی کی طرف سے مخصوص نشانیاں اور علامتیں لاتا ہے تا کہ لوگ اسے پہچان جائیں اور اس کی دعوت کو قبول کرلیں اگر پیغمبر اللہ تعالی کی طرف سے خاص علامتیں نہ لائیں تو لوگ اسے کیسے پہچانیں گے ؟ کس طرح جانیں گے کہ واقعہ خدا کا پیغمبر اور اسی کا بھیجا ہوا ہے اگر خدا مخصوص علامتیں جو معجزے کے نام سے موسوم ہیں پیغمبروں کے اختیار میں نہ دے تو لوگ اسے کس طرح پہچانیں گے؟ اور کس طرح سمجھیں گے کہ ان کا خدا کے ساتھ خاص ربط ہے؟ اور کس طرح ان پر اعتماد کرسکیں گے کس طرح ان کی دعوت کو قبول کرلیں گے؟ پیغمبری کی مخصوص علامت اور نشانی کا نام معجزہ ہے یعنی ایسا کام انجام دینا کہ جس کے بجالانے سے عام لوگ عاجز ہوں اور اسے نہ کرسکیں_ وہ کام خدا اور اس کے مخصوص بھیجے ہوئے انسان کے سوا اور کوئی اس طرح انجام نہ دے سکے جب دعوی کرے کہ میں خدا کا پیغمبر ہوں اور خدا سے خاص ربط رکھتا ہوں اور پھر معجزہ بھی لے آیا ہوں تو حق طلب انسان سمجھ جائے گا کہ وہ واقعی پیغمبر اور خدا کا بھیجا ہوا ہے اور خدا سے خاص ربط رکھتا ہے امین ہے اور اللہ کا مورد اعتماد ہے حق طلب

۸۳

لوگ بھی اس پر اعتماد کریں گے اور اس کی دعوت اور حکم کو قبول کرلیں گے اور کہیں گے چونکہ یہ وہ کام کرتا ةے جو صرف خدا کرسکتا ہے یعنی اس کے پاس معجزہ ہے لہذا وقعی پیغمبر ہے اور خدا کے ساتھ خاص ربط رکھتا ہے آگاہ اور حق طلب لوگ پیغمبروں کو معجزہ کی وجہ سے پہچانتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ یہ خدا کے بھیجے ہوئے ہیں_

۸۴

آٹھواں سبق

رسالت کی نشانیاں

آپ پڑھ چکے ہوں گے کہ پیغمبروں کے معجزات کیسے ہوتے ہیں اور یہ بھی جانتے ہوں گے کہ حضرت موسی علیہ السلام اپنے ہاتھ کو گریبان میں لے جاتے اور جب اسے باہر نکالتے تو وہ ایک خوبصورت ستارے کی طرح چمکتا تھا_ حضرت موسی علیہ السلام کا عصی اللہ کے حکم سے ایک زبردست سانپ بن جاتا اور اسی عصا نے اللہ کے حکم سے دریا کے پانی کو اسی طرح چیردیا کہ اس کی زمین ظاہر ہوگئی_

خداوند عالم نے ان کا اور دیگر کئی ایک معجزات کا ذکر قرآن میں کیا ہے_ حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق فرمایا ہے کہ مادر زاد اندھوں کو اللہ کے حکم سے بغیر کوئی دواء استعمال کئے شفا دے دیتے تھے_

مردوں کو اللہ کے حکم سے زندہ کرتے تھے مٹی سے پرندے

۸۵

کی صورت بناتے اور اللہ تعالی کے اذن سے اس میں پھونک مارتے تو اس میں روح آجاتی تھی او روہ پرندہ ہوجاتا تھا، اور اڑجاتا تھا_

حضرت عیسی علیہ السلام اسرار سے واقف تھے مثلا جس شخص نے گھر میں کوئی چیز کھائی ہو یا اس نے گھر میں کوئی چیز چھیا کر رکھی ہو تو آپ اس کی خبر دیتے تھے آپ جب گہوارے میں تھے تو لوگوں سے باتیں کرتے تھے نمرود کی جلائی ہوئی آگ اللہ کے اذن اور حکم سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے سرد ہوگئی اور آپ سالم رہے اور کوئی خراش آپ کو نہ پہنچی ہمارے پیغمبر علیہ السلام کے بھی بے شمار معجزے تھے آپ کے معجزات میں سے سب سے بڑا معجزہ قرآن کریم ہے آگے چل کر پیغمبر اسلام(ص) کے معجزات کے بارے میں بیان کیا جائے گا_

اب ہم یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ معجزہ کس طرح اور کس کی قدرت سے انجام پاتا ہے_

اللہ تعالی اپنی بے پناہ قدرت سے جو کام انجام دیتا چاہئے بجالا سکتا ہے خدا کے سواء کون ہے جو خشک لکڑی کو سانپ بنادے_ خدا کے سوا کون ہے جو ایک اشارے سے دریا چیردے_ خدا کے سواء کون ہے جو مادر زاد اندھے کو شفا دے دے اور وہ بینا ہوجائے_ خدا کے سوا کون ہے جو ایک بے جان مجسمہ کو زندہ کردے اور اس کو پر و بال آنکھ اور کان عطا کردے خدا کے سوا کون ہے جو غیب سے مطلع ہوسکتا ہے پیغمبر اس قدرت اور طاقت کے ذریعے جو اللہ تعالی نے انہیں عنایت فرمائی ہے ا للہ تعالی کے اذن سے ایسے کام انجام دیتے ہیں تا کہ حق طلب لوگ ان امور کے

۸۶

دیکھنے اور مشاہدہ کرنے سے سمجھ جائیں کہ ان تعلق اور خاص ربط خدا سے ہے اور اسی کے چنے ہوئے ہیں اور اسی کی طرف سے پیغام لائے ہیں_ اس قسم کے کاموں کو معجزہ کہاجاتا ہے معجزہ ایسا کام ہے کہ جسے خدا کے علاوہ یا اس کے خاص بھیجے ہوئے بندوں کے علاوہ کوئی بھی انجام نہیں دے سکتا جب خدا کسی کو پیغمبر بنا کر بھیجتا ہے تو کوئی نشانی اور معجزہ اسے دے دیتا ہے تا کہ اس کے ذریعہ پہچانا جائے اگر پیغمبر اللہ تعالی کی طرف سے واضح نشانی نہ لائیں تو لوگ انہیں کس طرح پہچانیں اور کس طرح جانیں کہ واقعی یہ خدا کا پیغمبر ہے_

سوالات

۱)___ کیا پیغمبر کے پہچاننے کے لئے کسی خاص نشانی کی ضرورت ہے اور کیوں؟

۲)___ پیغمبر کی نشانی کا کیا نام ہے؟

۳)___ حق طلب لوگ کس ذریعہ سے پیغمبر کو پہچانتے ہیں؟

۴)___ معجزہ کسے کہا جاتا ہے؟

۵)___ مشاہدہ معجزہ کے بعد کس طرح سمجھا جاتا ہے کہ اس کے لانے والے اللہ تعالی کے پیغمبر ہیں؟

۶)___ معجزہ کس کی قدرت سے انجام پاتا ہے؟

۷)___ پیغمبروں کو یہ قدرت کون عنایت کرتا ہے؟

۸۷

نواں سبق

نوجوان بت شکن

حضرت ابراہیم علیہ السلام جس دن کے انتظار میں تھے وہ دن آپہنچا کلہاڑ اٹھا کر بت خانہ کی طرف روانہ ہوئے اور مصمم ارادہ کرلیا کہ تمام بتوں کو توڑ ڈالیں گے_ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو معلوم تھا کہ یہ کام بہت خطرناک ہے اور انہیں علم تھا اگر انہیں بت توڑنے دیکھ لیں یا بت توڑنے کی آواز سن لیں تو اس وقت لوگ ان پر ہجوم کریں گے اور انہیں ختم کردیں گے لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام وقت شناس تھے اور جانتے تھے کہ کون سا وقت بت توڑنے کے لئے منتخب کریں لہذا جس دن شہر کے تمام لوگ عید مانے کے لئے بیابان میں جانے لگے تو انہوں نے چاہا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی اپنے ساتھ لے جائیں لیکن آپ ان کے ساتھ نہ گئے اور کہا کہ میں مریض ہوں لہذا شہر ہی میں رہوں گا_

۸۸

جب تمام لوگ بیابان کی طرف جاچکے تو حضرت ابراہیم (ع) ایک تیز کلھاڑے کو لے کر بت خانہ کی طرف گئے اور آہستہ سے اس میں داخل ہوئے وہاں کوئی بھی موجود نہ تھا بت اور چھوٹے بڑے مختلف اشکال کے مجسمے بت خانہ میں رکھے ہوئے تھے جاہل لوگوں نے ان کے سامنے غذا رکھی ہوئی تھی تا کہ بتوں کی نذر کی ہوئی غذا با برکت ہوجائے اور جب وہ بیابان سے واپس آئیں تو اس غذا کو کھائیں تا کہ بیمار نہ ہوں_

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک نگاہ بتوں پر ڈالی اور جاہل لوگوں کی اس حالت پر افسوس کیا اور اپنے آپ سے کہا کہ یہ لوگ کس قدر نادان ہیں کہ پتھر اور لکڑی سے بت بناتے ہیں اور پھر جنہیں انہوں نے خود بنایا ہے اس کی پرستش کرتے ہیں اس کے بعد آپ نے بتوں کی طرف نگاہ کی او رفرمایا کہ کیوں غذا نہیں کھاتے؟ کیوں کلام نہیں کرتے؟ یہ جملہ کہا اور طاقتور ہاتھ سے کلہاڑ اٹھایا اور بتوں کی طرف گئے اور جلدی جلدی بتوں کو زمین پر گرانا شروع کیا صرف ایک بڑے بت کو باقی رہنے دیا اور کلہاڑے کو اس کے کندھے پر ڈال کر بت خانہ سے باہر نکل آئے غروب آفتاب کے قریب لوگ بیابان سے واپس آئے اور بت خانے کی طرف گئے پہلے تو وحشت زدہ مبہوت اور متحیر کھڑے بتوں کو دیکھتے رہے اس کے بعد بے اختیار چیخے روئے اور اشک بہائے اور ایک دوسرے سے پوچھتے کہ کس نے ان بتوں کو توڑا ہے؟ کس نے اتنا بڑا گناہ کیا ہے؟ بت غضب ناک ہوں گے اور ہماری زندگی بد نصیبی سے ہم کنار کردیں گے بت خانہ کے بچاری نے یہ تمام رپورٹ نمرود تک پہنچائی نمرود غضب

۸۹

ناک ہوا اور حکم دیا کہ اس واقعہ کی تحقیق کی جائے اور مجرم کو پکڑا جائے حکومت کے عملے نے تحقیق و تفتیش کی او رخبر دی کہ ایک نوجوان جس کا نام ابراہیم ہے ایک زمانے سے بتوں کی بے حرمتی کی جسارت کرتا رہا ہے ممکن ہے کہ یہ بھی اسی نے کیا ہوا اور وہی مجرم او رگناہ گار ہو نمرود نے حکم دیا کہ اسے پکڑا جائے جناب ابراہیم علیہ السلام پکڑ کر نمرود کی عدالت میں لائے گئے

حضرت ابراہیم (ع) نمرود کی عدالت میں

عدالت لگائی گئی حج اور دوسرے ارکان اپنی اپنی جگہ پر بیٹھے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو عدالت میں لایا گیا_ جج اٹھا اور کہا کہ ہم سب کو معلوم ہے کہ تہوار کے دن بڑے بت خانہ کے بت توڑ دیئےئے ہیں اس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف متوجہ ہوکر کہا اے ابراہیم (ع) تمہیں اس واقعہ کے متعلق کیا علم ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک گہری نگاہ اس کی طرف کی او رکہا کہ یہ سوال مجھ سے کیوں کر رہے ہو_ جج نے کہا کہ میں یہ کس سے پوچھوں ابراہیم علیہ السلام نے بڑے ٹھنڈے انداز میں فرمایا کہ بتوں سے پوچھو؟ جج نے تعجب سے کہا کہ بتوں سے پوچھوں؟ ٹوٹے ہوئے بت تو جواب نہیں دیتے؟ ابراہیم علیہ السلام نے جج کی بات کو سنا اور تھوڑی دیر کے بعد کہا کہ دیکھو کہ بتوں کو کس چیز سے توڑا گیا ہے

۹۰

جج کو غصّہ آیااوراپنی جگہ سے اٹھا اور غصّہ کے عالم میں کہا کہ بتوں کو کلہاڑے سے توڑا گیا ہے لیکن اس کا کیا فائدہ ہم تو چاہتے ہیں کہ معلوم کریں کہ بتوں کو کسنے توڑاغ ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آرام و سکون سے فرمایا کہ سمجھنا چاہتے ہو کہ کسنے بتوں کو کلہاڑے سے توڑا ہے دیکھو کہ کلہاڑا کس کے ہاتھ میں ہے او رکس کے کندھے پر ہے؟ جج نے کہا کہ کلہاڑا تو برے بت کے کندھے پر ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بات کو کاٹتے ہوئے فرمایا کہ جتنا جلدی ہوسکے بڑے بت کو عدالت میں حاضر کرو کیونکہ وہ خود تو ٹوٹا نہیں ہے جج غصّہ میں آکر کہنے لگا اے ابراہیم کیا کہہ رہے ہو کتنے نادان ہو؟ بت تو بات نہیں کرتے نہ ہی کوئی چیز سنتے ہیں؟ پتھر سے تو کوئی تحقیق نہیں کی جاسکتی _

حضرت ابراہیم علیہ السلام اس نتیجے کے منتظر تھے_ کہا کہ تم نے اعتراف کرلیا ہے کہ بت بات نہیں کرتے اور نہ کوئی چیز سنتے ہیں پس کیوں ایسے نادان اور کمزور بتوں کی پرستش کرتے ہو؟ جج کے پاس حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس بات کا کوئی جواب نہ تھا تھوڑا سا صبر کیا اور کہا کہ اب ان باتوں کا وقت نہیں بہرحال بت توڑے گئے ہیں اور ہم تمہیں اس کا مجرم سمجھتے ہیں کیونکہ تم اس سے پہلے بھی بتوں کی بے حرمتی کی جسارت کرتے رہتے تھے لہذا تمہارا مجرم ہونا عدالت کے لئے ثابت ہے؟ سزا کے لئے تیار ہوجاؤ_

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک پر اسرار نگاہ جج کی طرف ڈالی اور فرمایا کہ تم میرے خلاف کوئی دلیل نہیں رکھتے میں بھی تمہاری سزا سے

۹۱

خوف زدہ نہیں ہوں_ خدائے قدیر میرا محافظ ہے میری نگاہ میں جس نے بھی بت توڑے ہیں وہ تمہارا خیر خواہ تھا اور اس نے اچھا کام انجام دیا ہے وہ چاہتاتھا کہ تمہیں سمجھائے کہ بت اس لائق نہیں کہ ان کی پرستش کی جائے اور میں بھی تمہیں واضح طور پر کہہ رہا ہوں کہ میں بت پرست نہیں ہوں اور بتوں کے ساتھ عقیدہ نہیں رکھتا اور بت پرستی کو اچھا کام نہیں جانتا میں ایک خدا کی پرستش کرتا ہوں وہ ایک خدا جو مہربان ہے اور جس نے زمین اور آسمان اور تمام جہان اور اس میں موجود ہر چیز کو خلق کیا ہے اور وہی اسے منظم کرتا ہے تمام کام اس کے ہاتھ میں ہیں_ خدا کے سواء کوئی بھی پرستش کے لائق نہیں ہیں اس کے حکم کو مانتا ہوں اور صرف اس کی عبادت کرتا ہوں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی گفتگو بعض سا معین پر اثر انداز ہوئی انہوں نے کہا کہ حق حضرت ابراہیم (ع) کے ساتھ ہے ہم ضلالت و گمراہی میں تھے_ اس طرح حضرت ابراہیم (ع) نے ایک عام مجلس میں لوگوں کے سامنے اپنا مدعی بیان کیا_ جج باوجود یکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خلاف کوئی دلیل نہیں رکھتا تھآ اس نے ابراہیم علیہ السلام کے خلاف حکم دیا کہ ابراہیم (ع) نے ہمارے بتوں کی بے حرمتی کی ہے اور بتوں کو توڑا ہے بتوں کو توڑنے کے جرم میں انہیں آگ میں ڈالیں گے اور ان کو جلادیں گے تا کہ راکھ ہوجائیں اور ان کا اور ان کے ہاتھوں کا کہ جنہوں نے بت توڑے ہیں نشان تک باقی نہ رہے اس نے یہ فیصلہ لکھا اور اس پر دستخط کئے اور اس حکم کے اجراء کو شہر کے بڑے بچاری کے سپرد کردیا_

۹۲

حضرت ابراہیم (ع) اور اتش نمرود

شہر کے بڑے بچاری نے نمرود کی عدالت کے جج کا حکم پڑھا اور کہا کہ ابراہیم (ع) نے ہمارے بتوں کی بے حرمتی کی ہے بتوں کو توڑا ہے اسے بتوں کے توڑنے کے جرم میں آگ میں ڈالیں گے اور جلا دیں گے اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف منہ موڑا اور کہا ہم تھوڑی دیر بعد تمہیں بتوں کے توڑنے کے جرم میں آگ میں ڈالیں گے اس آخری وقت میں اگر کوئی وصیت ہو تو کہو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے نورانی چہرے کے ساتھ بہت ہی سکون و آرام سے بلند آواز میں فرمایا_

لوگو میری نصیحت اور وصیت یہ ہے کہ ایک خدا پر ایمان لاؤ اور بت پرستی چھوڑوو_ ظالموں اور طاقتوروں کی اطاعت نہ کرو صرف خدا کی پرستش کرو اس کے فرمان کو قبول کرو بڑے بچاری نے حضرت ابراہیم (ع) کی بات کاٹ دی اور بہت غصّہ کے عالم میں کہنے لگا_

اے ابراہیم تم اب بھی ان باتوں سے دست بردار نہیں ہوتے ابھی تم جلادیئے جاؤگے_ اس کے بعد حکم دیا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں پھینک دو

حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں پھینک دیا گیا جاہلوں نے

۹۳

نعرہ لگایا بت زندہ باد_ ابراہیم (ع) بت شکن مردہ باد_ حضرت ابراہیم (ع) کہ جن کا دل عشق الہی سے پرتھا آسمان اور زمین کے وسط میں دعا کرتے تھے اور فرماتے تھے اے میرے واحد پروردگار_ اے مہربان پروردگار اے میری پناہ، اے وہ ذات کہ جس کا کوئی فرزند نہیں اور تو کسی کا فرزند نہیں، اے بے مثل خدا میں فتح اور کامرانی کے لئے تجھ سے مدد چاہتا ہوں_

حضرت ابراہیم علیہ السلام اس طریقہ سے آگ میں ڈالے گئے اور بڑے بچاری نے لوگوں سے کہا اے بابل کے شہریوں دیکھا ہم نے کس طرح حضرت ابراہیم(ع) کو جلادیا تمہیں معلوم ہونا چاہیئے کہ بت محترم اور ہر ایک کو بتوں کی پرستش کرنی چاہیئے اور نمرود کے حکم کی اطاعت کرنی چاہیئے_

اب نمرود کے حکم سے آگ کے بلند شعلے ابراہیم علیہ السلام کو راکھ کردیں گے لیکن اسے علم نہ تھا کہ اللہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مدد کی اور نمرود کی آگ اللہ کے حکم سے حضرت ابراہیم (ع) پر ٹھنڈی ہوگئی اور ان کے لئے سلامتی کا گہوارہ بن گئی کافی وقت گذر گیا لوگوں نے حیرت کے عالم میں ایک طرف اشارہ کیا اور کہا کہ حضرت ابراہیم (ع) آگ میں چل پھر رہے ہیں انہیں آگ نے نہیں جلایا_ ابراہیم علیہ السلام زندہ باد بڑا بچاری متحيّر ادھر ادھر دوڑتا تھا اور فریاد کرتا تھا اور نمرود بھی غصّہ اور تعجب سے فریاد کرتا تھا اور زمین پر پاؤں مارتا تھا_

حضرت ابراہیم (ع) جن کا دل ایمان سے پرتھا آہستہ آہستہ نیم جلی

۹۴

لکڑیوں اور آگ کے معمولی شعلوں پر پاؤں رکھتے ہوئے باہر آرہے تھے لوگ تعجب اور وحشت کے عالم میں آپ کی طرف دوڑے اور آپ کو دیکھنے لگے حضرت ابراہیم علیہ السلام کافی دیر چپ کھڑے رہے اس کے بعد ہاتھ اٹھا کر ان کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا تم نے اللہ تعالی کی قدرت کودیکھا اور اس کے ارادے کامشاہدہ کیا اب سمجھ لو کہ کوئی بھی اللہ تعالی کی قدرت سے مقابلہ نہیں کرسکتا کوئی بھی ارادہ سوائے ذات الہی کے ارادے کے غالب اور فتح یاب نہیں ہوسکتا ضعیف اور نادان بتوں کی عبادت سے ہاتھ اٹھا لو بت نہ پوجو، صرف خدائے وحدہ، لا شریک کی عبادت کرو''

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ حضرت ابراہیم (ع) لوگوں کے ساتھ بیابان کیوں نہ گئے تھے؟

۲)___ بتوں کو کیوں توڑا تھا اور بڑے بت کو سالم کیوں رہنے دیا تھا؟

۳)___ حضرت ابراہیم (ع) نے کسطرح ثابت کیا تھا کہ بت قابل پرستش نہیں ہیں؟

۴)___ حضرت ابراہیم (ع) نے نمرود کی عدالت میں کس طرح بت پرستوں کو مغلوب کیا؟

۵)___ حضرت ابراہیم (ع) کی آخری بات نمرود کی عدالت میں کیا تھی؟

۶)___ حضرت ابراہیم (ع) کی نصیحت کیا تھی؟

۹۵

۷)___ حضرت ابراہیم (ع) کے بت توڑنے اور عدالت میں گفتگو کرنے کی کیا غرض تھی اور اس سے کیا نتیجہ لیا؟

۸)___ حضرت ابراہیم (ع) کو آگ میں انہوں نے کیوں ڈالا اور کیا وہ اپنی غرض کو پہنچے؟

۹)___ جب حضرت ابراہیم (ع) کو آگ میں پھینکا گیا تو آپ نے اللہ تعالی سے کیا کہا؟

۱۰)___ جب آپ آگ سے باہر نکلے تو لوگوں سے کیا پوچھا اور ا ن سے کیا فرمایا؟

۱۱)___ کیا صرف حضرت ابراہیم (ع) کا مقصد تھا کہ نمرود اور بت پرستی کا مقابلہ کریں؟ یا ہر آگاہ ا نسان کا یہی مقصد حیات ہے؟

۱۲)___ کیا آپ بھی حضرت ابراہیم (ع) کی طرح بت پرستی کے ساتھ مقابلہ کرتے ہیں؟

۱۳)___ کیا ہمارے زمانے میں بت پرستوں کا وجود ہے اور کس طرح؟

۱۴)___ حضرت ابراہیم (ع) کی داستاں سے کیا درس آپ نے حاصل کیا ہے؟ اور کس طرح آپ اسے عملی طور سے انجام دیں گے اور اس بزرگ پیغمبر کے کردار پر کیسے عمل کریں گے؟

۹۶

دسواں سبق

حضرت موسی (ع) خدا کے پیغمبر تھے

پہلے زمانے میں ایک ظالم انسان مصر پر حکومت کرتاتھا کہ جسے فرعون کہا جاتا ہے فرعون ایک خودپسند اور مغرور انسان تھا لوگوں سے جھوٹ کہتا تھا کہ میں تمہارا بڑا خدا اورپروردگار ہوں تمہاری زندگی اورموت میرے ہاتھ میں ہے مصر کی وسیع زمین اور یہ نہریں سب میری ہیں تم بیغر سوچے سمجھے اور بیغر چوں و چرا کئے میری اطاعت کرو_ مصر کے نادان لوگ اس کے محکوم تھے اور اس کے حکم کو بغیر چوں و چرا کے قبول کرتے تھے اور اس کے سامنے زمین پر گرتے تھے صرف حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد جو مصر میں رہتی تھی او رخداپرست تھی فرعون کے سامنے زمین پر نہیں گرتی تھی یعنی اسے سجدہ نہیں کرتی تھی اسی لئے فرعون انہیں بہت سخت کاموں پر مامور کرتا اور یعقوب کی اولاد

۹۷

مجبور تھی کہ بغیر کوئی مزدوری لئے فرعون اور فرعونیوں کے لئے زراع کریں، کام کریں ان کے بہترین محل بنائیں لیکن اس تمام محنت اور کام کرنے کے باوجود بھی فرعون ان پر رحم نہیں کیا کرتا تھا ان کے ہاتھ پاؤں کاٹتا اور پھانسی پر لٹکاتا تھا ایسے زمانے میں خداوند عالم نے حضرت موسی (ع) کو پیغمبری کے لئے چنا_ خداوند عالم حضرت موسی علیہ السلام کے ساتھ کلام کرتاتھا اور جناب موسی (ع) اللہ تعالی کا کلام سنتے تھے اے موسی (ع) میںنے تمہیں لوگوں میں سے پیغام پہنچانے کے لئے چنا ہے میری بات کو سنو میں تیرا پروردگار ہوں، میرے سوا کوئی اور خدا نہیں، نماز پڑھو اور مجھے اپنی نماز میں یاد کرو اس کے بعد اللہ تعالی نے جب حضرت موسی علیہ السلام سے پوچھا یہ کیا ہے جو تو نے ہاتھ میں لے رکھا ہے_

حضرت موسی علیہ السلام نے جواب میں کہا یہ میرا عصا ہے جب تھک جاتا ہوں اس کا سہارا لے کر آرام کرتا ہوں بھیڑ بکریوں کو ہاکتا ہوں اور دوسرے فوائد بھی میرے اس میں موجود ہیں اللہ تعالی نے حکم دیا کہ اسے اپنے ہاتھ سے پھینکو حضرت موسی نے اپنے عصا کو زمین پر ڈالا بہت زیادہ تعجب سے دیکھا کہ عصا ایک بپھرا ہوا سانپ بن گیا ہے اور منہ کھول رکھا ہے اور آگے بڑھ رہا ہے حضرت موسی علیہ السلام ڈرے اللہ کا حکم ہوا کہ اسے پکڑو اور نہ ڈرو ہم اسے اپنی پہلی حالت میں لوٹا دیں گے اور پھر یہ عصا بن جائے گا حضرت موسی علیہ السلام نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور اسے پکڑا وہ دوبارہ بن گیا خداوند عالم نے حکم دیا اے موسی (ع) اپنے ہاتھ کو اپنے گریبان

۹۸

میں ڈالو_ حضرت موسی علیہ السلام نے اپنا ہاتھ گریبان میں ڈالا اور جب اسے باہر نکالا تو آپ کا ہاتھ ایک انڈے کی طرح سفید تھا اور چمک رہا تھا اللہ تعالی کی طرف سے حکم ہوا کہ اے موسی ان دو نشانیوں او رگمراہوں سے (یعنی ان دو معجزوں کے ساتھ) فرعون کی طرف جاؤ اور اسے دعوت دو کیوں کہ وہ بہت مغرور اور سرکش ہوگیا ہے پہلے اسے نرمی اور ملائمت کے ساتھ دعوت دنیا شاید نصیحت قبول کرلے یا ہمارے عذاب سے ڈرجائے اگر کوئی نشانی یا معجزہ طلب کرے تو اپنے عصا کو زمین پر ڈالو اور اپنے ہاتھ کو گریبان میں ڈال کر اسے دکھلاؤ_

حضرت موسی (ع) فرعون کے قصر میں

فرعون اور اہلیان مصر قصر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ حضرت موسی (ع) وارد ہوئے فرعون جناب موسی علیہ السلام کو پہلے سے پہچانتا تھا ان کی طرف تھوڑی دیر متوجہ رہا پھر پوچھا کہ تم موسی (ع) ہو_ حضرت موسی علیہ السلام نے فرمایا ہاں: میں موسی ہوں میں خدا کی طرف سے آیا ہوں تا کہ تمہیں ہدایت خواہی اور سرکشی کو ترک کرو اللہ تعالی کے فرمان کی اطاعت کرو تا کہ سعادتمند بن جاؤ اللہ تعالی نے مجھے حکم دیا ہے کہ بنی اسرائیل کو ذلّت و خواری سے نجاد دلاؤں_

۹۹

فرعون نے غصّہ اور تکبّر سے کہا اے موسی آخر تمہارا خدا کون ہے حضرت موسی علیہ السلام نے فرمایا کہ میرا خدا وہ ہے کہ جس نے زمین اور آسمان کوپیدا کیا ہے تجھے اور تیرے باپ دادا کو پیدا کیا ہے تمام موجودات کو پیدا کیا ہے وہی سب کو روزی دینے والا اور ہدایت کرنے والا ہے فرعون حضرت موسی (ع) کی بات کو اچھی طرح سمجھتا تھا اپنے آپ کو نادانی میں ڈالا بجائے اس کے کہ حضرت موسی علیہ السلام کو جواب دیتا قصر میں بیٹھے لوگوں کی طرف رخ کر کے کہا_

کیا مصر کی بڑی سلطنت میری نہیں، کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں کیا تمہاری زندگی اورموت میرے ہاتھ میں نہیں کیا میں تمہیں روزی دینے والا نہیں ہوں اپنے سواء تمہارے لئے میں کوئی پروردگار نہیں جانتا ہمیں حضرت موسی کے خدا کی کیا ضرورت ہے؟

حضرت موسی علیہ السلام نے بڑے اطمینان سے کہا اے لوگو تم اس دنیا کے بعد ایک اور دنیا کی طرف جاؤ گے وہاں ایک اوردنیا کی طرف جاؤ گے وہاں ایک اور زندگی ہے تمہیں چاہیے کہ ایسے کام کرو کہ جس سے آخرت میں بھی سعادتمند رہو اللہ تعالی کے علاوہ آخرت اور اس دنیا کی بدبختی اور سعادت کے اسباب کو کوئی نہیں جانتا وہ دنیا اور آخرت کا پیدا کرنے والا ہے میں اسی کی طرف سے آیا ہوں اور اسی کا پیغام لایا ہوں، میں اللہ کا رسول ہوں میں اسی لئے آیا ہوں تا کہ تمہیں زندگی کا بہترین دستور دوں اور تم دنیا وآخرت میں اچھی زندگی بسر کرو اور سعادتمند ہوجاؤ_

فرعون نے بے اعتنائی او رتکبّر سے کہا_ کیاتم اپنی پیغمبری پر کوئی

۱۰۰

گواہ بھی رکھتے ہو کوئی معجزہ ہے تمہارے پاس؟

حضرت موسی علیہ السلام نے فرمایا ہاں اس وقت آپ نے اپنا عصا فرعون کے سامنے ڈالا فرعون اور فرعونیوں نے اچانک اپنے سامنے ایک بپھرا ہوا سانپ دیکھا کہ ان کی طرف آرہا ہے فریاد کرنے لگے حضرت موسی علیہ السلام جھکے اور اس بپھرے ہوئے سانپ کو پکڑ لیا اور وہ دوبارہ عصا ہوگیا حضرت موسی علیہ السلام سے انہوں نے مہلت مانگی_

آخری فیصلہ

حضرت موسی علیہ السلام بہت کوشش کے باوجود فرعون اور فرعونیوں کے ایمان لانے سے نا امید ہوگئے اور اللہ کے حکم سے آخری فیصلہ کیا کہ جیسے بھی ہو بنی اسرائیل کو فرعون اور فرعونیوں کے ظلم و ستم سے نجات دلائیں اور پھر بنی اسرائیل کو خفیہ طور پر حکم دیا کہ اپنے اموال کو جمع کریں اور بھاگ جائیں بنی اسرائیل ایک تاریک رات میں حضرت موسی (ع) کے ساتھ مصر سے بھاگ گئے صبح اس کی خبر فرعون کو ملی وہ غضبناک ہوا اور ایک بہت بڑا لشکر بنی اسرائیل کے پیچھے بھیجا تا کہ انہیں گرفتار کر کے تمام کو قتل اور نیست و نابود کردے بنی اسرائیل نے حضرت موسی علیہ السلام کے حکم سے ایک راستہ اختیار کیا اور جلدی سے آگے بڑھنے لگے چلتے چلتے دریا تک پہنچ گئے جب انہوں نے راستہ بند

۱۰۱

دیکھا کہ آگے دریا ہے اور پیچھے فرعون کا لشکر، تو بہت پریشان ہوئے اور حضرت موسی علیہ السلام پر اعتراض کرنے لگے ہمیں کیوں اس دن کے لئے لے آئے ہو کیوں ہمیں مصر سے باہر نکالا ہے ابھی فرعون کا لشکر پہنچ جائے گا او رہمیں قتل کردے گا چوں کہ حضرت موسی کو اللہ تعالی کے حکم پر مکمل یقین تھا اس لئے فرمایا ہمیں کوئی قتل نہیں کرے گا خدا ہمارے ساتھ ہے ہماری رہنمائی کرے گا اور نجات دے گا_

فرعون کا لشکر بہت نزدیک پہنچ گیا تھا اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام پر وحی کی کہ اے موسی (ع) اپنے عصا کو دریا پر مارو حضرت موسی علیہ السلام نے اللہ تعالی کے حکم سے اپنا عصا بلند کیا اور پانی پر مارا اللہ کے حکم سے پانی دو پاٹ ہوگیا اور دریا کی تہہ ظاہر ہوگئی بنی اسرائیل خوشی خوشی دریا میں داخل ہوگئے اور اس کی تھوڑی دیر بعد فرعون اور اس کا لشکر بھی آپہنچا بہت زیادہ تعجب سے دیکھا کہ اولاد یعفوب زمین پر جا رہی ہے تھوڑی دیر دریا کے کنارے ٹھہرے اور اس عجیب منظر کو دیکھتے رہے پھر وہ بھی دریا میں داخل ہوگئے_

جب بنی اسرائیل کا آخری فرد دریا سے نکل رہا تھا تو فرعون کی فوج دریا میں داخل ہوچکی تھی دونوں طرف کا پانی بہت مہیب آواز سے ایک دوسرے پر پڑا اور فرعون اور اس کے پیروکار دریا میں ڈوب گئے اور دریا نے اللہ تعالی کے فرمان کے مطابق تمام سرکشی اور ظلم کا خاتمہ کردیا وہ اپنے پروردگار کی طرف لوٹ گئے تا کہ آخرت میں اپنے ظلم و ستم کی سزا پائیں اور اپنے برے اعمال کی وجہ سے عذاب میںمبتلا کر

۱۰۲

دیئےائیں ''ظالموں کا انجام یہی ہوتا ہے''

حضرت موسی (ع) اور تمام پیغمبر خدا کی طر ف سے آئے ہیں تا کہ لوگوں کو خدائے وحدہ، لاشریک کی طرف دعوت دیں اور آخرت سے آگاہ کریں پیغمبر لوگوں کی آزادی اور عدالت کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور ظلم و ستم کا مقابلہ کرتے ہیں_

سوالات

۱)___ حضرت موسی (ع) کا آخری فیصلہ کیا تھا؟

۲)___ اولاد یعقوب نے کیوں حضرت موسی (ع) پر اعتراض کیا تھا اور کیا کہا تھا؟ اور کیا ان کا اعتراض درست تھا؟

۳)___ کیا حضرت موسی (ع) بھی اولاد یعقوب کی طرح پریشان ہوئے تھے؟

۴)___ حضرت موسی (ع) نے اولاد یعقوب (ع) کے اعتراض کے جواب میں کیا کہا تھا؟

۵)___ سمندر کس کے ارادے اور کس کی قدرت سے دوپاٹ ہوگیا تھا اور کس کے حکم اور قدرت سے دوبارہ مل گیا تھا دنیا کا مالک اور اس کا انتظام کس کے ہاتھ میں ہے؟

۶)___ فرعون اور اس کے پیروکار کس کی طرف گئے اور آخرت میں کس طرح زندگی بسر کریں گے؟

۱۰۳

۷)___ حضرت موسی علیہ السلام اور دوسرے پیغمبروں کی غرض اور ہدف کیا تھا؟

۸)___ اس غرض او رہدف پر آپ کس طرح عمل کریں گے؟

۱۰۴

گیارہواں سبق

پیغمبر اسلام (ص) قریش کے قافلے میں

حضرت محمدمصطفی (ص) آٹھ سال کے بچّے ہی تھے کہ آپ(ص) کے دادا جناب عبدالمطلب (ع) دنیا سے رخصت ہوگئے جناب عبدالمطلب نے اپنی وفات کے وقت اپنے بیٹے جناب ابوطالب (ع) سے وصیت کی کہ پیغمبر اسلام(ص) کی حفاظت اور حمایت کریں اور ان سے کہا کہ محمد(ص) یتیم ہے یہ اپنے ماں باپ کی نعمت سے محروم ہے اسے تمہراے سپرد کرتا ہوں تا کہ تم اس کی خوب حفاظت اور حمایت کرو اس کا مستقبل روشن ہے اور یہ بہت بڑے مقام پر پہنچے گا_

حضرت ابوطالب (ع) نے اپنے باپ کی وصیت کو قبول کیا اور پیغمبر اسلام(ص) کی سرپرستی اپنے ذمہ لے لی اور مہربان باپ کی طرح آپ(ص) کی حفاظت کرتے رہے_ پیغمبر اسلام (ص) تقریباً بارہ سال کے تھے کہ

۱۰۵

اپنے چچا جناب ابوطالب (ع) کے ساتھ قریش کے تجارتی قافلہ کے ساتھ شام کا سفر کیا یہ سفر بارہ سال کے لڑکے جناب مصطفی (ص) کے لئے بہت مشکل اور دشوار تھا لیکن قدرتی مناظر پہاڑوں اور بیابانوں کا دیکھنا راستے کی سختی اور سفر کی تھکان کو کم کر رہا تھا آپ(ص) کے لئے وسیع بیابانوں اور اونچے اونچے شہروں اور دیہاتوں کا دیکھنا لذت بخش تھا_

کاروان بصرہ شہر کے نزدیک پہنچا وہاں قدیم زمانے سے ایک عبادت گاہ بنائی گئی تھی اور ہمیشہ عیسائی علماء میں سے کوئی ایک عالم اس عبادت گاہ میں عبادت میں مشغول رہتا تھا کیوں کہ حضرت عیسی اور دوسرے سابقہ انبیاء نے آخری پیغمبر (ص) کے آنے اور ان کی مخصوص علامتوں اور نشانیوں کی خبر دی تھی اس عبادتگاہ کا نام دیر تھا اس زمانے میں بحیرانا می پادری اس دیر میں رہتا تھا اور اس میں عبادت کرتا تھا_

جب قریش کا قافلہ دور سے کھائی دیا تو بحیرا دیر سے باہر آیا اور ایک تعجب انگیز چیز دیکھی قافلے نے آرام کرنے کے لئے اپنا سامان وہاں اتارا کا رواں والوں نے ادھر ادھر آگ جلائی اور کھانا پکانے میں مشغول ہوگئے بحیرا بڑی دقیق نگاہ سے کاروان کے افراد کو دیکھ رہا تھا_ تعجب انگیز چیز نے اس کی توجّہ کو مکمل جذب کرلیا تھا_ سابقہ روش کے خلاف کہ وہ کبھی بھی کسی قافلے کی پرواہ نہیں کرتا تھا اس دفعہ قافلہ والوں کی دعوت کی جب قافلے والے دیر میں داخل ہو رہے تھے تو وہ ہر ایک کو خوش آمدید کہہ رہا تھا اور غور سے ہر ایک کے چہرے کو دیکھتا تھا کہ گویا کسی گم شدہ کی تلاش میں ہے اچانک بلند آواز سے کہا بیٹا آگے آو تا کہ میں

۱۰۶

تجھے اچھی طرح دیکھ سکوں، آگے آؤ آگے آؤ، چھوٹے بچے نے اس کی توجّہ کو اپنی طرف مبذول کرلیا اسے اپنے سامنے کھڑا کیا اور جھکا اپنا ہاتھ اس کے کندھے پر رکھا اور کافی دیر تک نزدیک سے آپ(ص) کے چہرے کو دیکھتا رہا، آپ(ص) کا نام پوچھا تو کہا گیا، محمد(ص) کافی دیر خاموش کھڑا رہا اور ترچھی آنکھوں سے آپ(ص) کو بار بار دیکھتا رہا اس کے بعد بہت احترا سے جناب محمد مصطفی (ص) کے سامنے بیٹھا اور آپ کا ہاتھ پکڑا اور کئی ایک سوال کئے اچھی طرح تحقیق اور جستجو کی آپ(ص) کے چچا سے بات کی اور دوسروں سے بھی کئی ایک سوال کئے، اس نے اپنی گمشدہ چیز کو حاصل کرلیا تھا وہ بہت خوش دکھائی دیتا تھا

ابوطالب (ع) کی طرف متوجہ ہوا اور کہا یہ بچّہ روشن مستقبل رکھتا ہے اور بہت بڑے رتبے پر پہنچے گا یہ بچّہ وہی پیغمبر (ص) ہے جس کی سابقہ انبیاء نے آنے کی خبر دی ہے میں نے کتابوں میں اس کی نشانیاں پڑھی ہیں اور یہ اللہ کا آخری پیغمبر ہے بہت جلد پیغمبری کے لئے مبعوث ہوگا اور اس کا دین تمام عالم پر پھیل جائے گا اس بچّے کی قدر کرنا اور اس کی حفاظت اور نگہداشت میں احتیاط کرنا_

قافلہ والوں نے آرام کرنے کے بعد اپنے اسباب کو باندھا اور وہ چل پڑے بحیرا دیر کے باہر کھڑا تھا اور جناب محمد مصطفی (ص) کو دیکھ رہا تھا اور اشک بہا رہا تھا تھوڑی دیر بعد قافلہ آنکھوں سے غائب ہوگیا بحیرا اپنے کمرے میں واپس لوٹا اور اکیلے بیٹھے غور و فکر میں ڈوب گیا_

۱۰۷

سوالات

۱)___ جناب ابوطالب (ع) کا حضرت محمد مصطفی (ص) سے کیا رشتہ تھا اور جناب عبدالمطلب (ع) کے بعد کون سی ذمہ داری انہوں نے سنبھالی تھی؟

۲)___ جناب عبدالمطلب(ع) نے وفات کے وقت اپنے بیٹے ابوطالب (ع) سے کیا کہا؟ اور ان سے کیا وصیت کی؟

۳)__ _ بحیرا کس کا منتظر تھا؟ کس شخص کو دیکھنا چاہتا تھا؟ کہاں سے وہ آپ(ص) کو پہچانتا تھا؟

۴)___ بحیرا نے قافلے کی کیوں دعوت کی؟

۵)___ بحیرا پیغمبر اسلام(ص) کو کیوں دوست رکھتا تھا جب وہ تنہا ہوا تو کیا فکر کر رہا تھا؟

۱۰۸

بارہواں سبق

مظلوموں کی حمایت کا معاہدہ

ایک دن قریش کے سردار مسجد الحرام میں اکٹھے تھے اتنے میں ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا اور فریاد کی اے لوگو اے جوانو، اے سردارو، تمام چپ ہوگئے تا کہ اس مسافر کی بات کو اچھی طرح سن سکیں اس نے کہا_ اے مكّہ کے لوگو کیاتم میں کوئی جواں مرد نہیں؟ کیوں میری فریاد کو کوئی بھی نہیں آتا؟ کیوں کوئی میری مدد نہیں کرتا_

میں دور سے تمہارے شہر مین جنس لایا ہوں تا کہ اسے فروخت کر کے اس کے پیسے سے اپنے خاندان کی زندگی کے وسائل اور خوراک مہيّا کروں میری اولاد میرے انتظار میں ہے تا کہ ان کے لئے لباس اور خوراک لے جاؤں کل تمہارے سرداروں میں سے ایک کی اولاد نے مجھ سے نجس خریدی میں نے جنس اس کے گھر لے جا کر اس کی تحویل میں دی

۱۰۹

جب جنس کے پیسے کا مطالبہ کیا تو اس نے جواب دیا چپ رہو اور بات نہ کرو_

میں اس شہر کے سرداورں میں سے ہوں اگر تو چاہتا ہے کہ اس شہر میں آمد و رفت رکھے اور امن سے رہے تو مجھ سے اس کے پیسے نہ لے میں نے جب اصرار کیا تو اس نے مجھے گالیاں دیں اور مارا پیٹا کیا یہ درست ہے کہ طاقتور کمزورں کا حق پائمال کرے_ کیا یہ درست ہے کہ ایک طاقتور آدمی میری محنت کی حاصل کردہ کمائی کو لے لے اور میری اولاد کو بھوکا رکھے میری فریاد رسی کوئی نہیں کرتا؟

کسی میں جرات نہ تھی کہ اس مسافر کی مدد کرسکے کیونکہ طاقتور اسے بھی مارتے پیٹے تھے اور اس زمانے میں مكّہ کسی حکومت کے ماتحت بھی نہ تھا بلکہ ہر ایک اپنے قبیلے کی حمایت اور دفاع کیا کرتا تھا لہذا مسافروں کی حفاظت کرنے والا کوئی نہ تھا ظالم اور طاقتور ان پر ظلم کرتے اور ان کے حق کو پامال کیا کرتے تھے_

اس قریش کے اجتماع میں سے پیغمبر اسلام (ص) کے چچا زبیر اٹھے اور اس مظلوم کی بات کی حمایت کی اور کہا کہ ہمیں مظلوموں کے لئے کوئی فکر کرنی چاہیئے اور ان کی مدد کے لئے کھڑا ہونا چاہیے ہر آدمی اس حالت سے بیزار ہے اور چاہتا ہے کہ کمزور اور بے سہارا لوگوں کی مدد کرے آج عصر کے وقت عبداللہ کے گھر اکھٹے ہوں_

اس دن وقت عصر لوگوں کا ایک گروہ جو انصاف پسند اور سمجھدار تھے عبداللہ کے گھر اکٹھے ہوگئے انہوں نے طاقتوروں کے ظلم کے

۱۱۰

بارے میں بات چیت کی او رظلم و ستم کے روکنے کے لئے ایک معاہدہ طے کیا تا کہ ایک دوسرے کی مدد سے کمزور اور بے سہارا لوگوں کی حمایت کریں معاہدہ لکھا گیا اور تمام نے دستخط کئے اس کے بعد تمام کے تمام اس طاقتور سردار کے گھر گئے اور اس سے اس مسافر کی جنس کی قیمت وصول کی اور اسے دے دی وہ آدمی خوشحال ہوگیا اور اپنے اہل و عیال کے لئے لباس اور خوراک خریدی اور اپنے گھر واپس لوٹ گیا ہمارے پیغمبر اسلام(ص) ان افراد میں سے ایک موثر اور فعال رکن تھے کہ جنہوں نے وہ معاہدہ طے کیاتھا اور آخر عمر تک اس معاہدے کے وفادار رہے پیغمبر اسلام (ص) اس معاہدے کی تعریف کیا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ میں نے مظلوموں کی حمایت کے معاہدے میں شرکت کی تھی اور جب تک زندہ ہوں گا اس کا وفادار رہوں گے بہت قیمتی اور روزنی معاہدہ تھا میں اسے بہت دوست رکھتا ہوں اور اس معاہدہ کی اہمیت کو مال و زر سے زیادہ قیمتی جانتا ہوں اور اس معاہدے کو وسیع و عریض میدان سے پر قیمتی اونٹوں کے عوض بھی توڑنے کے لئے تیار نہیں ہوں ہمارے پیغمبر اس وقت بیس سال کے جوان تھے اور ابھی تک اعلان رسالت نہیں کیا تھا_

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ مظلوموں کی حمایت کا معاہدہ کس کی تحریک پر تشکیل پایا

۲)___ اس سردار زادہ نے کون سا ظلم کیا تھا جنس کے فروخت

۱۱۱

کرنے والے نے اپنا روپیہ وصول کرنے کے لئے کیا طریقہ اختیار کیا؟

۳)___ طاقت کا کیا مطلب ہے اگر کوئی آپ پر ظلم کرے تو آپ کیا کریں گے کوئی مثال یاد ہو تو بیان کریں؟

۴)___ کبھی آپ نے کسی مظلوم کی حمایت کی ہے؟

۵)___ ہمارے پیغمبر اسلام(ص) کی عمر اس وقت کتنی تھی اور اس معاہدے کے متعلق کیا فرمایا کرتے تھے؟

۶)___ اگر کسی بچّے پر ظلم ہوتے دیکھیں تو آپ کیا کریں گے اور کس طرح اس کی مدد کریں گے؟

۷)___ اگر دیکھیں کہ بچّے کسی حیوان کو تکلیف دے رہے ہیں تو کیا کریں گے اور اس حیوان کی کس طرح مدد کریں گے؟

۹)___ اس واقعہ سے کیا درس ملتا ہے ہم پیغمبر اسلام (ص) کی کس طرح پیروی کریں؟

۱۱۲

تیرہواں سبق

پیغمبر اسلام (ص) کی بعثت

شہر مكّہ کے نزدیک ایک بلند اور خوبصورت پہاڑ ہے جس کا نام حراء ہے حراء میں ایک چھوٹا غار ہے جو اس بلند پہاڑ کی چوٹی پر واقع ہے_

پیغمبر اسلام(ص) اعلان رسالت سے قبل کبھی کبھی اس غار میں جاتے تھے اور اس پر سکون جگہ پر خلوت میں عبادت اور غور و فکر کیا کرتے تھے رات کو غار کے نزدیک ایک چٹان پر کھڑے ہوجاتے اور بہت دیر تک مكّہ کے صاف آسمان اور خوبصورت ستاروں کے جھر مٹ کو دیکھتے رہتے اور ان مخلوقات کی عظمت و جلالت کا تماشا کیا کرتے اس کے بعد غار میں جاتے اور اس وسیع کائنات کے خالق کے ساتھ راز و نیاز کیا کرتے تھے اور کہتے تھے پروردگارا اس وسیع کائنات اور سورج اور خوبصورت ستاروں کو تونے بلاوجہ پیدا نہیں کیا ان کی خلقت سے کسی غرض و غایت

۱۱۳

کو نظر میں رکھا ہے_

ایک دن بہت سہانا سحری کا وقت تھا پیغمبر اسلام (ص) اس غار میں عبادت کر رہے تھے کہ پیغمبر کی عظمت کو اپنے تمام کمال کے ساتھ مشاہدہ کیا اللہ کا فرشتہ جبرائیل آپ(ص) کی خدمت میںحاضر ہوئے اور کہا

اے محمد(ص) آپ(ص) اللہ کے پیغمبر (ص) ہیں میرے اللہ نے حکم دیا ہے کہ لوگوں کو شرک اور بت پرستی اور ذلت و خواری سے نجات دیں اور ان کو آزادی اور خداپرستی کی عظمت او رتوحید کی دعوت دیں اے محمد(ص) آپ(ص) خدا کے پیغمبر ہیں لوگوں کودین اسلام کی طرف بلائیں_

حضرت محمد مصطفی (ص) نے جناب جبرائیل کو دیکھا او رجو اللہ تعالی کی طرف سے پیغام آیا تھا اسے قبول کیا_

اس کے بعد ایمان سے لبریز دل کے ساتھ کو ہ حراء سے نیچے اترے او راپنے گھر روانہ ہوئے آپ کی شفیق اور مہربان بیوی جناب خدیجہ (ص) خندہ پیشانی سے آپ(ص) کے نورانی اور ہشّاش بشّاش چہرے کو دیکھ کر خوشحال ہوگئیں حضرت محمد مصطفی (ص) خدا کے پیغمبر ہوچکے تھے اپنی رفیقہ حیات سے فرمایا

میں کوہ حراء پر تھا وہاں خدا کا عظیم فرشتہ جبرائیل کو دیکھا ہے کہ وہ آسمانی صدا میں مجھ سے کہہ رہے تھے اے محمد(ص) تو اللہ کا پیغمبر ہے اللہ نے تجھے حکم دیا ہے کہ لوگوں کو شرک اور بت پرستی اور ذلت و خواری سے نجات دے اوران کو آزادی اور یگانہ پرستی اور توحید کی دعوت دے_

۱۱۴

جناب خدیجہ سلام اللہ علیہا نے اپنے سچے اور امین شوہر سے کہا مجھے اس سے پہلے علم تھا کہ آپ(ص) اللہ تعالی کے پیغمبر ہیں اور میں اس عظیم دن کے انتظار میں تھی حضرت عیسی علیہ السلام نے آپ(ص) کی پیغمبری کی بشارت دی ہے ٹھیک ہے اللہ تعالی نے آپ کے ذمّہ بہت اہم ذمّہ داری دی ہے میں اللہ تعالی کی وحدانیت کی گواہی دیتی ہوں اور آپ(ص) کی پیغمبری پر ایمان لاتی ہوں اور تمام حالات میں آپ(ص) کی مددگار اور حامی رہوں گی

حضرت علی (ع) جو ایک ذہین نوجوان تھے انہوں نے پیغمبر اسلام(ص) کی پیغمبری پر ایمان کا اظہار کیا اور یہ پہلے شخص تھے کہ جنہوں نے اسلام اور ایمان کا اظہار کیا_ ایک مدّت تک مسلمانوں کی تعداد ان تین افراد سے زیادہ نہ تھی لیکن ان تینوں افراد نے جو بلند ہمّت اور آہنی ارادے کے مالک تھے پورے بت پرستی اور بے دینی کے ماحول سے مقابلہ کیا ابتدائی دور میں صرف یہی تینوں افراد نماز کے لئے کھڑے ہوتے اور لوگوں کی حیرت زدہ آنکھوں کے سامنے خدائے وحدہ لا شریک سے گفتگو اور راز و نیاز کیا کرتے تھے_

ایک شخص کہتا ہے کہ ایک دن میں مسجد الحرام میں بیٹھا تھا میں نے دیکھا کہ ایک خوبصورت انسان مسجد میں وارد ہوا اس نے آسمان کی طرف نگاہ کی اور کھڑا ہوگیا ایک نوجوان اس کے دائیں طرف کھڑا ہوگیا اور اس کے بعد ایک عورت آئی اور اس کی پشت پر کھڑی ہوگئی کچھ دیر کھڑے رہے اور کچھ کلمات کہتے

۱۱۵

رہے اس کے بعد جھکے اور پھر کھڑے ہوگئے اور پھر بیٹھ گئے اور اپنے سرزمین کی طرف نیچے کئے رہے میں نے بہت تعجب کیا اور اپنے پہلو میں بیٹھے ہوئے شخص سے پوچھا، عباس، یہ کون ہیں؟ اور کیا کر رہے ہیں_

عباس نے کہا کہ وہ خوبصورت انسان جو آگے کھڑا ہے محمد(ص) میرے بھائی کا لڑکا ہے وہ عورت خدیجہ (ص) اس کی باوفا بیوی ہے اور وہ نوجوان علی (ع) ہیں جو میرے دوسرے بھائی کا لڑکا ہے محمد(ص) کہتا ہے کہ خدا نے اسے پیغمبری کے لئے چنا ہے یہ عورت اور وہ نوجوان اس پر ایمان لے آئے ہیں اور اس کے دین کو قبول کرلیا ہے ان تین آدمیوں کے علاوہ اس کے دین پر اور کوئی نہیں ہے محمد کہتا ہے کہ دین اسلام تمام جہان کے لوگوں کے لئے ہے اور بہت جلدی لوگ اس دین کو قبول کرلیں گے اور بہت سارے لوگ مسلمان ہوجائیں گے ہمارے پیغمبر اسلام(ص) ستائس رجب کو پیغمبری کے لئے مبعوث ہوئے اس دن کو مبعث کا دن کہا جاتا ہے ہمارے پیغمبر اسلام(ص) کی عمر اس وقت چالیس سال کی تھی_

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ ہمارے پیغمبر اسلام(ص) مبعوث ہونے سے پہلے عبادت اورغور و فکر کے لئے کہاں جایا کرتے تھے؟ اور کن چیزوں کو دیکھا کرتے تھے اور خدا سے کیا کہا کرتے تھے؟

۱۱۶

۲)___ کبھی آپ نے ستاروں سے پرے آسمان کو دیکھا ہے اور پھر کیا غور فکر کیا ہے؟

۳)___ جو فرشتہ پیغمبر اسلام(ص) کے لئے پیغام لایا تھا اس کا کیا نام تھا؟

۴)___ پیغمبر اسلام (ص) کس حالت میں حراء پہاڑی سے نیچے اترے اور اپنی رفیقہ حیات جناب خدیجہ سے کیا کہا؟

۵)___ آپ (ص) کی بیوی نے آپ (ص) کی بات سننے کے بعد کیا کہا؟

۶)___ پیغمبر اسلام (ص) کس عمر میں پیغمبری کے لئے چنے گئے تھے_

۷)___ مبعث کا دن کا نسا دن ہے کیا آپ نے اس عظیم دن کو کبھی جشن منایا ہے اس کی مناسب سے کسی جشن میں شریک ہوئے ہیں؟

۱۱۷

چودہواں سبق

اپنے رشتہ داروں کو اسلام کی دعوت

جب پیغمبر اسلام (ص) حضرت محمد بن عبداللہ صل اللہ علیہ و آلہ وسلم پیغمبری کے لئے مبعوث ہوئے تو تین سال تک مخفی طور سے دین اسلام کی دعوت دیتے رہے آپ اطراف مکہ مسجدالحرام کے گوشہ و کنار میں بعض لوگوں سے اسلام کی گفتگو فرماتے اور انہیں دین اسلام سمجھاتے اور اس کی تبلیغ کرتے رہتے تھے جہاں بھی کسی لائق اور سمجھ دار آدمی کو دیکھتے اس کے سامنے اپنی پیغمبری کا اظہار کرتے اور اسے بت پرستی اور ظلم و ستم کرنے سے روکتے اور ظالموں کے ظلم و ستم کی برائی ان سے بیان کرتے آپ محروم اور پسماندہ لوگوں کے لئے دلسوزی اور چارہ جوئی کرتے آپ لوگوں سے فرماتے تھے_

میں خدا کا آخری پیغمبر ہوں مجھے اللہ تعالی نے حکم دیا ہے کہ

۱۱۸

تمہاری راہنمائی کروں اور اس ناگوار حالات سے تمہیں نجات دلواؤں اور تمہیں آزادی اور خداپرستی اور توحید کی طرف دعوت دوں اور تمہاری رہبری کروں تم اس عظیم مقصد میں میری مدد کرو،

پیغمبر اسلام(ص) کیاس تین سال کی کوشش سے مکہ کے لوگوں میں سے بعض لوگوں نے دین اسلام کو قبول کیا اور مخفی طور سے مسلمان ہوگئے اس کے بعد اللہ تعالی سے آپ(ص) کو حکم ملا کہ اب آپ اپنے نزدیکی رشتہ داروں کو دین اسلام کی دعوت دیں پیغمبر اسلام (ص) نے اللہ تعالی کے اس فرمان کے مطابق اپنے قریبی رشتہ داروں کو جو تقریباً چالیس ادمی تھے اپنے گھر بالایا اس معین دن میں تمام مہمان آپ(ص) کے گھر آئے_

آنحضرت (ص) نے خندہ پیشانی سے انہیں خوش آمدید کہا اور بہت محبت سے ان کی پذیرائی کی کھانا کھانے کے بعد پیغمبر اسلام (ص) چاہتے تھے کہ کوئی بات کریں لیکن ابولہب نے مہلت نہ دی اور لوگوں سے کہا ہوشیار رہنا کہیں محمد(ص) تمہیں فریب نے دے دے یہ کہا اور اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا تمام لوگ بھی کھڑے ہوگئے اور اس سے مجلس کا شیرازہ بکھر گیا جب مہمان آپ(ص) کے گھر سے باہر نکلے تو ایک دوسرے کو کہہ رہے تھے دیکھا محمد(ص) نے کس طرح ہماری مہمان نوازی کی بہت عجیب تھا کہ تھوڑی خوراک بنائی تھی لیکن اس معمولی غذا سے ہم تمام سیر ہوگئے واقعی کتنا بہترین اور خوش مزہ کھانا بنایا تھا ایک کہتا کہ کیسے اس معمولی خوراک سے ہم تمام سیر ہو گئے دوسرا ابولہب سے غصّے کے عالم میں کہتا کہ کیوں تم نے مجلس کا شیرازہ بکھیر دیا کیوں تو نے محمد(ص) کی بات نہ سننے دی اور کیوں غذا کھانے کے

۱۱۹

فوراً بعد اٹھ کھڑے ہوئے اور حضرت محمد(ص) کے گھر سے باہر نکل آئے_

دوسرے دن پیغمبر اسلام (ص) نے حضرت علی (ع) سے فرمایا کہ اس دن مجھے بات کرنے کا موقع نہیں دیا گیا تا کہ میں اللہ کا پیغام سناؤں تم دوبارہ غذا بناؤ اور تمام رشتہ داروں کو مہمانی کے لئے بلاؤ شاید اللہ کا پیغام ان تک پہنچا سکوں اور آزادی و سعادت مندی کی طرف ان کی رہبری کرسکوں_ مہمانی کا دوسرا دن آپہنچا مہمان پہنچ گئے پیغمبر اسلام (ص) نے پہلے دن کی طرح انھیں مہربانی اور محبت سے خوش آمدید کہا اور خوش روئی سے ان کی پذیرائی کی کھانا کھانے کے بعد پیغمبر اسلام(ص) نے مہمانوں سے اصرار کے ساتھ تقاضہ کیا کہ بیٹھے رہیں اور میری بات کو سنیں ایک گروہ آرام سے بیٹھ رہا لیکن دوسرا گروہ (جیسے ابولہب و غیرہ) نے شور و غل شروع کردیا پیغمبر اسلام (ص) نے ان سے فرمایا توجہ کرو اللہ تعالی کی طرف سے میں اللہ کا آخری پیغمبر ہوں اللہ تعالی کی طرف سے تمہارے اور پوری دنیا کے لئے پیغام لایا ہوں آزادی کا پیغام سعادتمندی کا پیغام ، اے میرے رشتہ دارو تم آخرت میں اچھے کاموں کے عوض جزاء پاؤگے اور برے کاموں کے عوض سزا پاؤ گے خوبصورت بہشت نیک لوگوں کے لئے ہمیشہ کے لئے ہے اور برے لوگوں کے لئے ابدی جہنّم کا عذاب ہے اے میرے رشتہ داروں میں دنیا اور آخرت کی تمام خوبیوں کو تمہارے لئے لایا ہوں کوئی بھی اس سے بہتر پیغام تمہارے لئے نہیں لایا کون ہے کہ میری اس راستے میںمدد کرے تا کہ میرا بھائی ، وصی، وزیر اور میرا جانشین و خلیفہ قرار پائے_

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285