عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں

عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں23%

عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 258

عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 258 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 138938 / ڈاؤنلوڈ: 5394
سائز سائز سائز
عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں

عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

کی ہے ایسی خالص عبادت، عشق محبوب سے مکمل لبریز ہے اور اس محبت کا اثر خدا کی جانب پیش قدمی کا بہت اہم سبب ہے، کمال مطلق کی جانب پیش قدمی گناہو ں اور تمام آلودگیو ں سے کنارہ کشی کا پیش خیمہ ہے ۔

حقیقی عبادت گذار اس بات کی سعی پیہم کرتا ہے کہ خود کو محبوب کے جیسا قراردے اور ا سی طرح سے خود کو صفات جمال و جلا ل الٰہیہ کا پر توقرار دیتا ہے اور یہ امور انسان کے تربیت وتکامل میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔

سوالات

۱۔خدا کی وحدانیت پر دلیل پیش کریں ؟

۲۔ مراتب توحید کیا ہیں ؟

۳۔ توحید افعال سے مراد کیاہے ؟

۴۔ توحید در عبادت کی وضاحت کیجئے ؟

۶۱

آٹھواں سبق

صفات خدا (فصل اول )

جس طرح سے شناخت خدا وندمتعال اور اس کے اصل وجو د کو جا ننا آسان ہے اسی طرح اس کے صفات سے آگاہی چنداں آسان نہیں ہے .کیونکہ خد اکی شنا خت کے لئے آسمان کے ستارے، درختوں کے پتے ،متنوع برگ وگیاہ ، جاندار اشیاء بلکہ ایٹمی ذرات کی تعداد یہ سب اس کے وجود پر دلیل ہیں یہ سب کے سب اس کے عظمت کی نشانیاں ہیں، لیکن اس کی صفات کی پہچان کے لئے غوروخو ض او ر دقت نظر کی ضرورت ہے تاکہ تشبیہ اور قیا س آرائی سے دور رہیں صفات خدا کی شناخت کی پہلی شرط ،صفات مخلو قات کی خدا سے نفی کرنا او رخدا کاکسی مخلوق سے تشبیہ نہ دینا ہے کیو نکہ خدا کی کسی صفت کا مخلوقات کی صفت سے کسی طرح موازنہ ہو ہی نہیں سکتا ،مادی صفات میں سے کو ئی صفت اس کی پاک ذات میں دخیل نہیں ہے کیو نکہ مادی صفت محدودیت کا سبب ہے اور وہ لا محدود ہے اور تمام مراتب کمال کا مجموعہ ہے لہٰذا ہم اس کی ذات کوکماحقہ درک نہیں کر سکتے اور اس طرح کی کو ئی امید بھی نہیں رکھنی چاہئے ۔

یہاں پر یہ سوال پیدا ہو تا ہے کہ عقل، خد اکی حقیقت ذات اور اس کے صفات کو کیوں نہیں درک کر سکتی ؟ تو اس کاجواب اس طرح دیا جا سکتا ہے کہ اس کی ذات اقدس ہررخ سے بے نظیر و لا محدود ہے ،علم ،قدرت اور اس کے تمام صفات اس کی ذات کی طرح لا محدود ہیں ، اور دوسری طرف ہم او رجو کچھ ہم سے مربوط ہے ، علم ،قدرت ،حیات ،فرمان ،مکا ن، سب محدود ومتناہی ہے ۔تو ان تمام تر محدودیت کے ساتھ اس کی حقیقت ذات کو کہ جولامحدود ہے کیسے درک کر سکتے ہیں ؟!اس کی حقیقت ذات کو آخر کیسے درک کریں جس کی کو ئی شبیہ ومثیل نہیں ؟۔

۶۲

صفات ثبوتیہ و سلبیہ :

صفات خدا کو دو قسموںمیں تقسیم کر سکتے ہیں ۔ ثبوتیہ و سلبیہ

صفات ثبوتیہ یا جمالیہ

''عالم ،قادر ، حی، مرید ، مدرک ، سمیع ، بصیر ، متکلم و صادق ''۔خدا وند کمال مطلق ہے جو کچھ صفات ثبوتیہ کے عنوان سے پیش کیا گیا ہے وہ اصول صفات ہیں نہ یہ کہ خدا ان میں منحصر و محدود ہے ۔

صفات سلبیہ یا جلالیہ

''وہ مرکب ومجسم نہیں ، قابل دید و محلول نہیں ،اس کا کوئی شریک نہیں ''

صفات ذات و صفات فعل

صفات ثبوتیہ کی دوقسمیں ہیں ۔ صفات ذات و صفات فعل

صفات ذات: جو اس کی عین ذات ہیں انہیں کو ذات خدا وندی سے جدا نہیں کرسکتے جیسے علم ،قدرت،حیات ،اور جن کی بھی ان تینوں صفات کی طرف بازگشت ہو جیسے سمیع ، بصیر، قدیم، ازلی، ابدی، مدرک، حکیم، غنی، کریم ،عزیز و غیرہ ۔

صفات فعل : وہ صفات جو افعال خدا وندسے متعلق ہیں یعنی جب تک وہ افعال اس سے صادر نہ ہو ں وہ صفات اس سے متصف نہیں ہو ںگے جیسے خالق رازق یااس کے ماننددوسرے صفات اور کبھی اس سے یہ صفات سلب بھی ہو جا تے ہیں جیسے''کان اللّٰهُ ولمْ یُخلق شیئاً ثُم خَلَق ۔أراد اللّه شیئاً ولم یرد شیئاً آخر شاء ولم یشائ''وه خدا تھا جس نے خلق نہیں کیا تھا پھراس نے خلق کیا، خدا نے ایک چیز کا ارادہ، کیا دوسری چیز کا ارادہ نہیں کیا ، چاہا اور نہیں چاہا ۔''تکلم مع موسیٰ ولم یتکلم مع فرعون یُحب مَن أطاعہُ ولا یُحب مَنْ عصاہ'' حضرت موسی سے ہم کلام ہوا فرعون سے کلام نہیںکیا ،جو اس کی اطاعت کرتا ہے اس کو دوست رکھتا ہے اور جو اس کی نا فرمانی کرتاہے اس کو دوست نہیں رکھتا ، اس کے صفات فعل میں ''اذا '' اور ''اِن'' کا لفظ داخل و شامل ہو تا ہے جیسے '' اِذا أراد شیئاً و اِن شائَ اللّه'' اس کی صفات ذات میں ''اِذا عَلِم اللّه ''اور''اِن عَلِم ''نہیں کہہ سکتے۔

۶۳

علم خداوند

وہ واجب الوجود جو عالم علم کل ہے اس کی حیرت انگیز نظم و ہماہنگی پوری کائنات پر محیط ہے ،جو اس کے لا متناہی علم کا بیّن ثبوت ہے اس کے علم کے لئے ماضی حال ،مستقبل سب برابر ہے ، اس کا علم ازل و ابد پر محیط ہے کروڑوں سال قبل و بعد کاعلم اس کے نزدیک آج کے علم کے برابر ہے جس طرح سے کل کا ئنا ت کا خالق ہے اسی طرح تمام ذرات کی تعداد اور ان کے اسرار مکنونہ کا مکمل عالم ہے انسان کے نیک و بد اعمال نیز ان کی نیات ومقاصد سے آگا ہ و باخبر ہے ،علم خداوند اس کی عین ذات ہے اور اس کی ذات سے جدا نہیں ۔

( وَ اعلموا أَنَّ اللّهَ بِکلِّ شَیئٍ عَلِیمُ ) ( ۱ ) جان لو کہ خد اہر شی ٔسے آگا ہ ہے۔( وَهَوَ اللّهُ فیِ السَّمٰواتِ وَ فیِ الأَرضِ یَعلَمُ سرَّکُم وَجَهَرَکُم وَ یَعلمُ ما تََکسِبُونَ ) ( ۲ ) ''وہ خد اوہ ہے جو زمینو ں و آسمانو ں میں تمہارے ظاہر و باطن کا عالم ہے او رجو کچھ تم انجام دیتے ہو اس کا عالم ہے'' ۔

____________________

(۱) سورہ بقرہ آیة ۲۳۱

(۲)سورہ انعام آیة ،۳

۶۴

سوالات

۱۔عقل، خد اکی حقیقت ذات اور ا س کے صفات تک کیو ں نہیں پہنچ سکتی ؟

۲۔صفات ثبوتیہ وصفات سلبیہ کی تعریف کریں ؟

۳۔ صفات ذات و صفا ت فعل میں کیافرق ہے ؟

۶۵

نواں سبق

صفات خدا وند (فصل دوم )

خد اوند متعال بے پنا ہ قوتوں کامالک ہے اتنی بڑی کا ئنا ت اپنی تمام عظمتوں او روسعتوں کے ساتھ سیارات وکواکب ،کہکشائیں، بے کراں سمندر ، دریا اور ان میں مختلف النوع مخلو قات و موجودات سب کے سب اس کی قدرتوں کے کرشمہ ہیں ! خدا ہر چیز پر قادر ہے اور ہر شی ٔپر اس کی قدرت یکساں و مساوی ہے۔

( تَبَارَک الّذیِ بِیَدِهِ المُلک وَهُوعلیٰ کُلِّ شَیئٍ قَدیرُ ) ( ۱ ) ''بابرکت ہے وہ ذات جس کے قبضۂ قدرت میں کا ئنا ت کی باگ ڈور ہے وہ ہر چیز پر قادر ہے'' ۔

( لِلّه مُلک السَّمٰواتِ والأَرضِ وَماَ فِیهنَّ وَ هُو علیٰ کُلِّ شَیئٍ قَدیرُ ) ( ۲ ) ''زمین وآسمان اورجوکچھ اس کے درمیان ہے ان سب کی حکومت خدا سے مخصوص ہے او روہ ہرچیز پرقادر ہے'' ۔

( فلَا أُقسِمُ بِربِّ المَشَارقِ وَالمَغَاربِ اِنَّا لَقَادِرُونَ ) ( ۳ ) میں

____________________

(۱) سورہ ملک آیة ۱

(۲) مائدہ آیة ۱۲۰

(۳) معارج آیة ۴۰

۶۶

تمام مشرق و مغرب کے پروردگا ر کی قسم کھا کر کہتا ہو ں کہ ہم قدرت رکھنے والے ہیں۔

قران کی متعدد آیات جوقدرت خداوندعالم کو بیا ن کرتی ہیں اس سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ قدرت خد الئے کو ئی حدو قید نہیں ہے بلکہ جس وقت وہ چاہے انجام دے دیتا ہے او رجب کسی چیز کی نا بودی کا ارادہ کرے تواس چیز کومٹ ہی جا نا ہے ۔

خلا صہ یہ کہ کسی قسم کی ناتوانی او رضعف کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔آسمان، عظیم ترین سیارات اور ذرات سب اس کے لئے یکساںاور برابر ہیں ۔

عن علیٍّ علیه السلام :وما الجلیل واللطیف والثقیل والخفیف والقوی والضعیف من خلقه اِلّا سواء

امیر المومنین فرماتے ہیں:'' آشکا ر وپوشیدہ، وزنی او ر ہلکا ،قوی وضعیف یہ سب کے سب خلقت میں اس کے نزدیک برابر ہیں''( ۱ )

امام جعفر صادق نے فرمایا : جس وقت حضرت موسیٰ طور پر تشریف لے گئے عرض کی ! خدا یا ! اپنے خزانے کا نظارہ کرادے تو خدا نے فرمایا : میراخزانہ یوں ہے کہ جس وقت میں کسی چیز کا ارادہ کرکے کسی چیز کو کہو ںکہ ہو جا تو وہ وجو د میں آجائے گی( ۲ )

____________________

(۱) نہج البلاغہ خ :۸۰

(۲)توحید صدوق باب ۹ حدیث ۱۷

۶۷

قدرت خداکے متعلق ایک سوال

کبھی کبھی یہ سوال اٹھا یا جا تا ہے کہ کیا خدا اپنا جیسا ایک خدا پیدا کرسکتا ہے؟

اگر یہ جواب دیا جا ئے کہ کیو ں نہیں ؟تو دو خداہو جا ئیں گے ! اوراگر کہا جائے کہ نہیں کرسکتا تو ایسی صورت میں قدرت خدا محدود ہو جا ئے گی ۔ یا یہ کہ کیا خدا اتنی بڑی کائنات کو ایک مرغی کے انڈے کے اندر دنیا کو چھوٹی اور انڈے کو بڑ ا کئے بغیر سمو سکتاہے۔؟

اس کے جو اب میں یہ کہا جا ئے گا کہ ایسے مواقع کے لئے (نہیں ہو سکتا ) یا (نہیں کرسکتا ) کی لفظیں استعمال نہیں کریں گے ،یا واضح لفظوں میں یہ کہا جا ئے کہ یہ سوال ہی نامعقول ہے کیو نکہ جب ہم یہ کہیں گے کہ کیا خدا اپنے جیسا دوسرا بنا سکتا ہے تو خود لفظ (خلقت) کے یہ معنی ہیں کہ وہ شیء ممکن الوجود و مخلو ق ہے اور جب ہم یہ کہیں گے (خدا وند ) کے معنی وہ شی ٔہے جو واجب الوجود ہے ۔

تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ کیا خدا اس با ت پر قادر ہے کہ ایسی چیز کو خلق کرے جو ایک ہی وقت میں واجب الوجو د بھی ہو اور نہ بھی ہو، ممکن الوجود بھی ہو اور غیر ممکن الوجود بھی ، خالق بھی ہو اور مخلوق بھی یہ سوال غلط ہے خدا ہر چیز پر قادر ہے۔

اسی طرح سے جب یہ کہا جا ئے کہ کیا خدا اس بات پر قادر ہے کہ کل کا ئنا ت کو ایک مرغی کے انڈے میں سمودے اس طرح سے کہ نہ دنیا چھوٹی ہو اور نہ انڈا بڑا تو اس کے معنی یہ ہو ئے کہ دنیا اپنی تمام تر وسعتوں کے ساتھ بڑی بھی ہے اور چھوٹی بھی اس سوال کے بے تکے ہو نے کی وجہ سے جواب کی بالکل ضرورت نہیں ہے کیو نکہ محال سے قدرت کا تعلق خود محال ہے ۔

اسی سوال کو ایک شخص نے حضرت امیرںسے پوچھا تھا آپ نے فرمایا:

____________________

(۱) نہج البلاغہ خ :۸۰

(۲)توحید صدوق باب ۹ حدیث ۱۷

۶۸

اِنَّ اللّه تبارک وتعالیٰ لا ینسب اِلیٰ العجز والّذیِ سألتنیِ لا یکون ''خدا کی جا نب عجز و ناتوانی کی نسبت نہیں دی جاسکتی ؛لیکن تم نے جو سوال کیا وہ انہونی ہے''( ۱ )

ایک روایت میں آیا ہے کہ امام رضاںنے ( اس سوال کے جو اب میں ) فرمایا : ہا ں کیو ں نہیں انڈے سے بھی چھوٹی چیزمیں اس دنیا کو رکھ سکتا ہے خدا اس بات پر قادر ہے کہ دنیا کو تمہاری آنکھ کے اندر رکھ دے جو انڈے سے بھی چھوٹی ہے (در حقیقت یہ جو اب مولا کا نقضی جو اب تھا کیو نکہ سوال کرنے والا ایسے مسائل کے تحلیل کی طاقت نہیں رکھتا تھا)۔( ۲ )

خدا حی وقیوم ہے

خدا حیات جاوداں کا مالک ہے وہ ثابت و قائم ہے وہ اپنی ذات پر قائم ہے دوسری موجودات اس کی وجہ سے قائم ہیں حیات خدا اور حیات موجو دات میں فرق ہے کیو نکہ حیات ،خد اکی عین ذات ہے نہ عارضی ہے اور نہ ہی وقتی ۔

حیات خدا یعنی اس کا علم او راس کی قدرت ،خدا کی حیات ذاتی ،ازلی ،ابدی، نہ بدلنے والی اور ہر طرح کی محدودیت سے خالی ہے وہ قیوم ہے یعنی موجودات کے مختلف امو ر اس کے ہاتھ میں ہیں مخلوقات کی رزق ،عمر ،حیات اور موت اس کے حسن تدبیر کی وجہ سے ہے ۔

____________________

(۱) توحید صدوق باب ۹ ، حدیث ۹

(۲)پیام قرآن ج ۴، ص ۱۸۳

۶۹

اسی لئے یا حی یا قیوم جا مع اذکا رمیں سے ایک ہے اس لئے کہ (حی) اس کے بہترین صفات ذات یعنی علم وقدرت میں سے ہے اور (قیوم ) اس کے صفات فعل میں سے ہے اس وجہ سے امیر المومنین سے نے ارشاد فرمایا :فلسنا نعلمُ کُنه عظمتک ِالَّا انَّا نعلم اِنَّک حیّ قیُّوم لا تاخذ ک سِنةُ ولا نوم ( ۱ )

''ہم کبھی تیری حقیقت ذات کو درک نہیں کر سکتے ہم بس اتنا جا نتے ہیں کہ حی و قیوم ہے اور کبھی بھی تجھے نینداور جھپکی نہیں آتی (اپنے بندوں کے حال سے بے خبر نہیں ہے )''

امیر المو منین سے روایت ہے آپ فرماتے ہیں کہ جنگ بدر کے دن میں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس گیا تو دیکھا کہ آپ سجدے میں سر رکھ کر ''یا حی یا قیوم '' کا ورد کر رہے ہیں کئی دفعہ گیا اور واپس آگیا آپ مستقل اسی ذکر کا ورد فرمارہے تھے یہا ں تک جنگ بدر فتح ہو گئی ۔( ۲ )

جو کچھ اب تک ذکر کیا گیا ہے وہ صفات خد ا کے اصول تھے اور دوسری صفات بھی ہیں کہ جن کے صرف ترجمہ پر اکتفا کیا جائے گا ۔

قدیم و ابدی : یعنی ہمیشہ سے تھا اور ہمیشہ رہے گا اس کے لئے آغاز و انتہا نہیں ہے( هُوَ الأَوّلُ و الآخِرُ والظَّاهرُ والباطِنُ وَ هُوَ بِکُلِّ شَیئٍ عَلِیمُ ) ( ۳ ) ''وہ اول و آخر ہے وہ ظاہر و باطن ہے وہ ہرشی ٔکا جاننے والا ہے ''۔

____________________

(۱) نہج البلا غہ خ ،۱۶۰

(۲) تفسیر روح البیا ن آیہ الکرسی کے بیان میں۔

(۳) حدید آیة،۳

۷۰

مرید : یعنی وہ صاحب ارادہ ہے وہ اپنے کاموں میں مجبو ر نہیں ہے وہ جس کام کو بھی انجام دیتا ہے اس کا ہدف اور اس کی حکمت پیش نظر ہو تی ہے (وہ حکیم ہے )

مدرک : ساری چیزوں کو درک کرتا ہے .ساری چیزوں کو دیکھتا ہے او رہر آواز کو سنتا ہے۔ ( وہ سمیع و بصیر ہے )

متکلم : خدا ہو ائوں میں آواز پیدا کر سکتا ہے وہ اپنے رسولوں سے گفتگو کرتا ہے اس کی گفتگو زبا ن و لب و حلق کی محتا ج نہیں ۔

صادق : یعنی خدا جوکچھ کہتا ہے سچ کہتا ہے اور عین حقیقت ہے کیو نکہ جھوٹ جھل ونادانی کے باعث یا کسی کمزوری کے سبب ہوتا ہے او رخد اان سے پاک ومنزہ ہے۔

خلا صہ کلام یہ کہ خد اکمال مطلق ہے او رکسی قسم کا نقض و عیب اس کی ذات سے متصف نہیں اور ہم کو اس کی صفات کی شناخت میں بھی اپنے عجز کا اعتراف کرنا چاہئے ۔

۷۱

ذات خد امیں تفکر منع ہے

صفات کے بارے میں جو مختصر بیا ن تھا اس کے بعد یہ جاننا ضروری ہے کہ صفات خدا عین ذات ہیں لہٰذانہ اس کی ذات او ر نہ ہی اس کی صفات میں از حد تفکر کریں کیو نکہ از حد تفکر حیرانی او ر سر گردانی کاسبب ہے صرف اس کی مخلوقات میں غور خوض کریں ۔

قال الاما مُ البا قر علیه السلام : ''تکلموا فیِ خلق اللّه ولا تکلموا فیِ اللّٰه فأَنَّ الکلام فی اللّٰهِ لا یزاد صاحبة الا تحیّراً ''خلقت خداکے با رے میں گفتگو کرو .خدا کے با رے میں گفتگو نہ کرو اس لئے کہ خدا کے بارے میں گفتگو صاحب کلا م کے حق میں تحیّر کے سوا کچھ اضا فہ نہ کرے گا۔

علامہ مجلسی او ردیگر علما ء نے کہا ہے کہ ذات و صفات خدا میں تفکر و تکلم سے منع کرنے کا مطلب کیفیت ذات خدا وندعالم ہے ۔

قال الامام الباقر علیه السلام: اِیاکم و التفکّر فی اللّٰه لکن اِذَا أردتم أن تَنظروا اِلیٰ عظمته فانظروا اِلیٰ عظیم خلقه '' ذات خد امیں غور و خو ض سے پرہیز کرو جب جب بھی اس کی عظمتوں کودیکھنا چاہوتو اس کی عظیم خلقت (اس دنیا )کودیکھو ''۔( ۱ )

____________________

(۱) اصول کا فی باب نہی از کلام در کیفیت حدیث ،۱۔۷

۷۲

سوالا ت

۱۔ خدا کے قدرت کی نشانیا ں کیا ہیں ؟

۲۔ قدیم ، ابدی ،متکلم ، صادق کے کیا معنی ہیں ؟

۳۔ ذات خد امیں غو ر و خو ض کیوں منع ہے ؟

۷۳

دسواں سبق

صفات سلبیہ

ایک جملہ میں یو ں کہا جا سکتا ہے کہ صفات سلبیہ یعنی : خدا وند ہر طرح کے عیب و نقص ، عوارض نیز صفات ممکنات سے پاک ومنزہ ہے ۔ لیکن ان صفات میں بعض پر بحث کی گئی ہے جیسے وہ مرکب نہیں ہے ، جسم نہیں رکھتا ، قابل رئویت نہیں ، اس کے لئے زمان ومکا ن ،کو ئی ٹھکا نہ یا جہت معین نہیں کرسکتے .وہ ہر طرح کے نیاز و احتیاج سے دور ہے، اس کی ذات والا صفات محل حوادث نہیں اور عوارض وتغییر وتبدل کا شکا ر نہیں ہو سکتی ،صفات خدا ونداس کی عین ذات ہے اس کی ذات مقدس پر اضا فہ نہیں ہے ۔

سید الاولیاء امیرالمومنین ایک خطبہ کی ابتدا میں یو ں گویا ہیں''لا یشغله شأن ولا یغیره زمان ولا یحویه مکان ولایصفه لسان ''کو ئی چیز اس کو اپنے آپ میں مشغول نہیں کرسکتی، زما نہ کا تغییر وتبدل اس میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکتا کو ئی مکان اپنے میں سمو نہیں سکتا ،کو ئی زبا ن اس کی مدح نہیں کر سکتی۔( ۱ )

____________________

(۱)نہج البلا غہ خطبہ،۱۷۸

۷۴

دوسری حدیث میں امام جعفر صادق سے نقل ہے کہ''اِنَّ اللّهَ تبارک و تعالیٰ لا یُوصف بزمان ولا مکان ولا حرکة ولا انتقال ولا سکون بل هو خالق الزمان والمکان والحرکة والانتقال تعالی اللّه عما یقول الظالمون علوًا کبیراً ''خدا وندتعالی کی تعریف وتوصیف زمان و مکا ن ،حرکت و انتقال مکان و سکو ن کے ذریعہ سے نہیں کی جا سکتی ، وہ زمان ومکا ن نیزحرکت ونقل مکا ن، ،اور سکون کا خالق ہے ،خدا اس سے کہیں زیادہ بلند و بالا ہے جو ظالم او رستمگر افراد تصور کرتے ہیں۔( ۱ )

صفات سلبی کی وضاحت

خدا مرکب نہیں ہے یعنی اجزاء ترکیبی نہیں رکھتا کیو نکہ ہر مرکب اپنے اجزاء کامحتاج ہو تا ہے جبکہ خدا کسی شی ٔ کا محتا ج نہیں ہے ، وحدانیت کی بحث میں ہم نے یہ بات کہی تھی کہ خدا کمال مطلق ہے ، اور ا س کے لئے کو ئی حد ومقدار نہیں ہیں ،لہٰذا اس بات کی جا نب ہماری توجہ ضروری ہے کہ جو محدودیت یا احتیا ج کا سبب ہے وہ ممکنات سے مخصوص ہے خدا ان سے پاک و منزہ ہے تعالی اللّہ عنہ ذلک علواً کبیراً۔

خدا جسم نہیں رکھتا اور دکھائی نہیں دے گا

( لاَ تُدرِکُهُ الأبصَارُ و هُوَ یُدرِک الأبصارَ وَهو اللّطِیفُ الخَبِیر ) ( ۲ ) آنکھیں اس کو دیکھ نہیں سکتی وہ تمام آنکھوں کو دیکھتا ہے وہ لطیف وخبیر ہے

____________________

(۱) کتاب بحارالانوار ج۳ ،ص،۳۰۹

(۲) سورہ انعام آیة ۔۱۰۳

۷۵

سوال : خدا کو دیکھنا کیو ں ناممکن ہے ؟

جواب : اس لئے کہ دیکھنے کے جو لوازمات ہیں ،ان میں سے کوئی ایک بھی خداکے لئے ممکن نہیں یعنی خدا کو اگردیکھنا چاہیں تو ضروری ہے کہ وہ جسم رکھتا ہو جہت اورسمت رکھتا ہو ،اجزاء رکھتا ہو اس لئے کہ ہر جسم اجزاء و عوارض جیسے رنگ ،حجم اور ابعاد رکھتا ہے ،نیز تمام اجسام تغییر وتبدل رکھتے ہیں اور مکا ن کے محتاج ہیں اور یہ سب ممکنات کی خصوصیات ہیں ، اورنیاز واحتیاج کے شکا رہیں خدا ان سے پاک ومنزہ ہے۔

خلا صہ کلا م یہ کہ نہ خدا جسم ہے اورنہ ہی دیکھا جاسکتا ہے ( اہل سنت کے بعض فرقے اس بات کے قائل ہیں کہ خدا روز محشر مجسم ہوگا اور دکھا ئی دے گا اس کے ضمن میں ان کی جانب سے بہت ساری باتیں مضحکہ خیز ہیں اورکسی عقل و منطق سے سروکا ر نہیں رکھتیں ۔

امام علی رضا سے روایت ہے :أنّه لَیس مِنَّا مَن زعم أَنَّ اللّٰه عزَّوجلَّ جسم ونحن منه براء فی الدنیا والآخرة ( ۱ ) جو شخص اس بات کا قائل ہے کہ خدا جسم و جسمانیت رکھتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے او رہم دنیا وآخرت میں ایسے شخص سے دور و بیزار ہیں ۔

____________________

(۱)توحید صدوق باب ۶، حدیث، ۲۰

۷۶

وہ لا مکاں ہے او رہر جگہ ہے

مادہ سے خالی ایک شی ٔ کی شناخت ان انسانو ں کے لئے جو ہمیشہ مادی

قیدخانہ میں اسیر رہے اور اس کے عادی ہو گئے بہت ہی مشکل کام ہے شناخت خدا کا پہلا زینہ اس (خدا ) کو صفات مخلوقات سے منزہ جاننا ہے ،جب تک ہم خداکو لا مکا ن ولا زمان نہ جا نیں گے در حقیقت اس کی معرفت ہی حاصل نہیںکر سکتے ۔محل او رمکان رکھنا جسم وجسمانیت کالازمہ ہے او رہم پہلے ہی عرض کر چکے ہیں کہ وہ جسم نہیں رکھتا وہ ہر جگہ ہے ۔

وہ ہر جگہ ہے

( وَللَّهِ المَشرِقُ والمَغرِبُ فَأَینَمَا تُولُوا فَثَمَّ وَجهُ اللَّهِ اِنَّ اللّٰهَ واسِعُ عَلیمُ ) ( ۱ ) مشرق ومغرب اللہ ہی کے لئے ہے اور تم جس جانب بھی رخ کروگے خدا وہاں موجود ہے خدا بے نیاز اور صاحب علم و حکمت ہے ۔

( وَهُوَ مَعَکُم أَینَ مَا کُنتُم وَاللّهُ بِمَا تَعملُونَ بَصیرُ ) ( ۲ ) تم جس جگہ بھی ہو خدا تمہارے ہمراہ ہے اور جو کچھ تم انجام دیتے ہو اس پر ناظر ہے ۔

امام موسی کا ظم ںنے فرمایا :اِنَّ اللّٰهَ تبارک وتعالیٰ کان لم ینزل بلا زمان ولا مکان وهو الآن کما کان لا یخلو منه مکان ولا یشغل به مکان ولا یحلّ فی مکان ( ۳ ) خدا ہمیشہ سے زمان ومکان کے بغیر موجود تھا اور اب بھی ہے، کو ئی جگہ اس سے خالی نہیں اور درعین حال کسی جگہ میں قید نہیںاس نے کسی مکا ن میں حلول نہیںکیا۔

____________________

(۱)سورہ بقرہ ص ۱۱۵۔

(۲) سورہ حدید آیة ،۴

(۳) توحید صدوق باب ۲۸،حدیث ۱۲

۷۷

ایک شخص نے حضرت امام علی سے سوال کیا کہ مولا ہمارا خدازمین وآسمان کو پید اکرنے سے پہلے کہاں تھا ؟آپ نے فرمایا : کہاں کا لفظ مکا ن کے حوالے سے ہے جبکہ وہ اس وقت بھی تھا جب مکان نہیں تھا۔( ۱ )

____________________

(۱) سابق حوالہ حدیث،۴

۷۸

خدا کہا ں ہے ؟

کتاب ارشاد واحتجاج میں ذکر ہے کہ ایک یہودی مفّکر، خلفاء میں سے ایک کے پاس آیا او رسوال کیا کہ آپ جانشین رسول ہیں ؟ انھو ں نے جو اب دیا ہاں اس نے کہا خد اکہا ں ہے ؟

انہو ں نے جواب دیا آسمان میں عرش اعظم پر بر اجمان ہے اس نے کہا پھر تو زمین اس کے حیطۂ قدرت سے خالی ہے خلیفہ ناراض ہو گئے اور چیخ کر بولے فوراً یہاں سے دفع ہو جا ئو ورنہ قتل کرادوںگا ،یہودی حیران ہوکر اسلام کا مذاق اڑا تا ہو ا باہر نکل گیا۔

جب امیرالمومنین ںکو اس بات کی اطلاع ہو ئی توآپ نے اس کو طلب کیا اور فرمایا میں تمہارے سوال اور دئے گئے جواب دونوںسے باخبر ہوں،لیکن میں بتاتا ہو ں کہ اس نے مکا ن کو خلق کیا ہے لہٰذا اس کے لئے یہ ناممکن ہے کہ وہ خود صاحب مکان ہو اور کسی مکان میں مقید ہو۔

وہ اس سے کہیں بلند وبالا ہے کہ مکان اس کو اپنے آپ میں سمو لے ،کیاتم

۷۹

نے اپنی کتابوں میں نہیں پڑھا کہ ایک دن حضرت موسی بن عمران بیٹھے ہو ئے تھے۔

ایک فرشتہ مشرق سے آیا آپ نے پوچھا کہا ں سے آرہے ہو ؟اس نے جواب دیا خدا کے پاس تھا اس کے بعد ایک فرشتہ مغرب سے آیا آپ نے پوچھا کہا ں سے آرہے ہو ؟اس نے جواب دیا خدا کے پاس تھا اس کے بعد ایک فرشتہ آیاآپ نے سوال کیاکہاں سے آرہے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ ساتویں آسمان میں خدا کے پاس تھا اس کے بعد ایک فرشتہ اور آیا اس سے سوال کیا کہا ں تھے؟ اس نے کہازمین کے ساتویں طبق سے خدا کے پاس تھا ،اس کے بعد حضرت موسی نے کہاپاک ہے وہ ذات جس کے وجود سے کوئی جگہ خالی نہیں ہے اور اس کے نزدیک کوئی جگہ دوسری سے نزدیک نہیں ۔

یہودی نے کہا کہ : میں اس بات کی گواہی دیتا ہو ںکہ حق مبین یہی ہے اور آپ پوری کائنات میں سب سے زیادہ وصی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اہلیت رکھتے ہیں ۔( ۱ )

ہم دعا کرتے وقت ہاتھ آسمان کی جانب کیوں بلند کرتے ہیں ؟

ہشام بن حکم کہتے ہیں کہ ایک کا فر ،حضرت امام جعفر صادق کی خدمت میں حاضر ہو ا اور'' الرحمن علی العرش استوی '' کی تفسیر جاننی چاہی امام نے دوران تفسیر وضاحت فرماتے ہو ئے ارشاد فرمایا : خدا کسی مخلوق ومکان کا محتاج نہیں بلکہ تمام مخلوقات اس کی محتاج ہیں ، اس نے عرض کی تو پھر دعا کرتے وقت

____________________

(۱) پیام قرآن نقل جلد۴ ،ص ۲۷۴

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

۶/۱۲

مے کشی

۷۱۱۔ امام علی (ع): خدا نے شراب خوری کے ترک کو عقل کی حفاظت کے لئے واجب کیا ہے ۔

۷۱۲۔ امام علی (ع): خدا نے شراب کو حرام کیا ہے ، اس لئے کہ اس میں تباہی ہے، اور شراب خوروںکی عقلوںکو تبدیل کر دیتی ہے ، نیز انکار خداا ور اللہ اور اس کے رسولوںپربہتان، دوسری تباہیوں اور قتل کا موجب ہے ۔

۶/۱۳

پانچ چیزوں کی مستی

۷۱۳۔ امام علی (ع): مناسب ہیکہ عقلمند خود کو مال کی مستی ، قدرت کی مستی ، علم کی مستی ، مدح و تعریف کی مستی اور جوانی کی مستی سے محفوظ رکھے؛ کیوں کہ یہ سب ناپاک بدبودار ہوائیںہیں کہ عقل کو سلب کرتی اور وقار کو سبک بناتی ہیں۔

۱۲۱

۶/۱۴

زیادہ لہوو لعب

۷۱۴۔ امام علی (ع): جو زیادہ لہو و لعب میں مبتلا ہوتا ہے اسکی عقل کم ہو جاتی ہے ۔

۷۱۵۔ امام علی (ع): جو شخص کھیل کا عاشق اور عیش و نشاط کا شیدائی ہوتا ہے ، عقلمند نہیں ہے ۔

۷۱۶۔ امام علی (ع): عقل کھیل کو د سے نتیجہ خیز نہیں ہوتی ہے۔

۷۱۷۔ امام علی (ع): جس شخص پر ہنسی مذاق کا غلبہ ہوتا ہے اسکی عقل تباہ ہو جاتی ہے ۔

۷۱۸۔ امام علی (ع): جو شخص زیادہ ہنسی مذاق میں مبتلا رہتا ہے اسکی بیہودگی بڑھ جاتی ہے ۔

۶/۱۵

بیکاری

۷۱۹۔ امام صادق(ع): ترک تجارت عقل کو کم کر دیتا ہے ۔

۷۲۰۔ امام صادق(ع): ترک تجارت عقل کو زائل کر دیتا ہے ۔

۷۲۱۔ فضیل اعور : کا بیان ہے کہ ، میں نے دیکھا کہ معاذ بن کثیر نے امام صادق(ع) سے عرض کیا: میں مالدار ہو چکا ہوں لہذا تجارت کو چھوڑنا چاہتا ہوں! امام نے فرمایا: اگر تم نے ایسا کیا تو تمہاری عقل کم ہو جائیگی۔( یا اس کے مانند امام نے کوئی جملہ کہا ہے)

۱۲۲

۷۲۲۔ کپڑے فروش معاذ: کا بیان ہے کہ امام صادق(ع) نے مجھ سے فرمایا: اے معاذ! کیا تجارت کرنے کی توانائی نہیں رکھتے یا اس سے بے رغبت ہو گئے ہو؟! میں نے عرض کیا نہ ناتواں ہو ا ہوں اور نہ ہی اس سے اکتایا ہوںفرمایا: پھرکیا وجہ ہے ؟ میں نے عرض کیا: آپ کے حکم کا منتظر تھا، جب ولید قتل ہوا اس وقت میرے پاس کافی مال تھا اور کسی کی کوئی چیز میرے پاس نہیں تھی ، اور گمان کرتا ہوں کہ تا زندگی کھاؤ نگا اور ختم نہیںہوگا، پس فرمایاتجارت نہ چھوڑوکیونکہ بیکاری عقل کو زائل کر دیتی ہے ، اپنے اہل و عیال کے لئے کوشش کرو؛ ایسا نہ کرو کہ وہ تمہاری بد گوئی کریں۔

۷۲۳۔ اسباط بن سالم(ہندوستانی کپڑے بیچنے والے) کا بیان ہے کہ ایک روز امام صادق ؑ نے کھدر کے کپڑے فروخت کرنے والے معاذ کے متعلق سوال کیا اور میں بھی وہاں موجود تھا، کہا گیا: کہ معاذ نے تجارت چھوڑ دی ہے ، امام نے فرمایا! شیطان کا عمل ہے؛ شیطان کا عمل ہے ؛ یقینا جو شخص تجارت کو چھوڑ دیتا ہے اسکی دو تہائی عقل زائل ہو جاتی ہے ۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ جب شام سے قافلہ پہنچا تو رسول خدا(ص) نے ان سے خریداری کی اور ان سے تجارت کی اور فائدہ حاصل کیا اور اپنے قرض کو ادا فرمایا۔

۶/۱۶

زیادہ طلبی

۷۲۴۔ امام علی (ع):ضرورت سے زیادہ طلب کرنے کے سبب عقلیں ضائع ہو جاتی ہیں۔

۱۲۳

۶/۱۷

نادان کی ہمنشینی

۷۲۵۔ امام علی (ع): جو شخص نادان کی ہمنشینی اختیار کرتا ہے اسکی عقل کم ہو جاتی ہے ۔

۷۲۶۔ امام علی (ع): عقل کی نابودی کا سبب نادانوں کی ہمنشینی ہے ۔

۶/۱۸

حد سے تجاوز کرنا

۷۲۷۔ امام علی (ع): جو اپنی حد اور حیثیت سے تجاوز کرتاہے عقلمند نہیں ہے ۔

۷۲۸۔ امام علی (ع): جو شخص اپنی بساط سے زیادہ قدم اٹھاتاہے عقلمند نہیںہے ۔

۶/۱۹

بیوقوفوں سے مجادلہ

۷۲۹۔ امام علی (ع): جو شخص بیوقوفوں سے مجادلہ کرتا ہے عقلمند نہیں ہے ۔

۱۲۴

۶/۲۰

عاقل کی بات پر کان نہ دھرنا

۷۳۰۔ امام علی (ع): جو شخص صاحبان عقل کی باتیں نہیں سنتا اسکی عقل مردہ ہو جاتی ہے ۔

۷۳۱۔ امام کاظم (ع): نے ۔ہشام بن حکم ۔ سے فرمایا: اے ہشام! جو شخص تین چیزوں کو تین چیزوں پر مسلط کریگا، گویا اس نے اپنی عقل کی پامالی میںمدد کی ہے: جس نے طولانی آرزو کے سبب اپنے چراغ فکر کو بجھا دیا، جس نے حکمت کی خوبیوں کو فضول کلامی کے باعث محو کر دےا، اور جس نے اپنی شہوات نفسانی کے ذریعہ عبرت آموزی کے نور کو خاموش کر دےا ، تو گویا اس نے اپنی عقل کی تباہی میں اپنی ہوا و ہوس کی مدد کی اور جس نے اپنی عقل تباہی کی اسکی دنیاو دین دونوں برباد ہو جائیں گے ۔

۶/۲۱

جنگلی جانور اور گائے کا گوشت

۷۳۲۔ امام رضا(ع): جنگلی جانوراور گائے کا گوشت زیادہ کھانے کے سبب عقل میں تبدیلی ، فہم میں حیرانی ، کند ذہنی اور بیشتر فراموشی پیدا ہو تی ہے ۔

۱۲۵

ساتویں فصل عاقل کے فرائض

۷/۱

عاقل کے واجبات

قرآن

(اے صاحبان عقل اللہ سے ڈرتے رہو شاید کہ تم اس طرح کامیاب ہو جاؤ)

( اے ایمان والو! اور عقل والو اللہ سے ڈرو کہ اس نے تمہاری طرف اپنے ذکر کو نازل کیا ہے )

حدیث

۷۳۳۔ رسول خدا(ص): چار چیزیں میری امت کے ہر عاقل و خرد مند پر واجب ہیں۔ دریافت کیا گیا، اے رسول خدا وہ چار چیزیں کیا ہیں: فرمایا: علم کا سننا، اس کا محفوظ رکھنا، نشر کرنا اور اس پر عمل کرنا۔

۷۳۴۔ رسول خدا(ص): عاقل وہ ہے جو خدا کی اطاعت کرتا ہے گرچہ بد صورت اور پست مقام رکھتا ہو۔

۷۳۵۔ رسول خدا(ص): جب عقل کے بارے میں پوچھا گیا۔ تو فرمایا: (عقل) طاعت خدا پر عمل ہے اور یقینا خدا کے احکام پر عمل کرنے والے ہی عقلمند ہوتے ہیں۔

۱۲۶

۷۳۶۔ رسول خدا(ص): اپنے رب کی اطاعت کرو عقلمند کہے جاؤ گے اور معصیت نہ کرو کہ جاہل کہے جاؤ گے ۔

۷۳۷۔ امام علی (ع): عاقل وہ ہے جو اپنے پروردگار کی اطاعت کی خاطر اپنی خواہشات نفس کی مخالفت کرتا ہے ۔

۷۳۸۔ امام علی (ع): اگر خدائے سبحان نے اپنی طاعت کی ترغیب نہ بھی کی ہوتی تو بھی وہ مستحق تھا کہ اسکی رحمت کی امید سے اسکی طاعت کی جائے ۔

۷۳۹۔ امام علی (ع)؛ آپ سے منسوب کلمات قصارمیں ہے۔ عقلمند پر لازم ہے کہ حکمت کے ذریعہ عقل کو زندہ کرنے کےلئے زیادہ کوشاں رہے ان غذاؤں کی نسبت کہ جن سے اپنے جسم کو زندہ رکھتا ہے ۔

۷۴۰۔ امام علی (ع): اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو! اسطرح جسطرح وہ صاحب عقل ڈرتا ہے جسکے دل کو فکر آخرت نے مشغول کر لیا ہو اور اسکا بدن خوفِ خدا سے خستہ حال ہے اور شب داری نے اسکی بچی کھچی نیند کو بھی شب بیداری میں بدل دیا ہو اور امیدوںنے اسکے دل کی تپش کو پیاس میں گذار دیا ہو ۔اور زہد نے اسکے خواہشات کو پیروں تلے روند دیا ہو اور ذکر خدا اسکی زبان پر تیزی سے دوڑ رہا ہو اور اس نے قیامت کے امن و امان کےلئے یہی خوف کا راستہ اختیار کر لیاہو اور سیدھی راہ پر چلنے کےلئے ٹیڑھی راہوں سے کترا کر چلا ہو اور مطلوب راستے تک پہنچنے کےلئے درمیانی راستہ اختیار کیا ہو،۔ نہ خوش فریبیوں نے اس میں اضطراب پیدا کیا ہو اور نہ مشتبہ امور نے اسکی آنکھوںپر پردہ ڈالا ہو، بشارت کی مسرت اور نعمتوںکی راحت بہترین نیند اور پر امن ترین دن میں حاصل کر لی ہو۔

دنیا کی گذر گاہ سے قابل تعریف انداز سے گذر جائے اور آخرت کا زاد راہ نیک بختی کے ساتھ آگے بھیج دے وہاںکے خطرات کے پیش نظر عمل میں سبقت کی اور مہلت کے اوقات میں تیز رفتاری سے قدم بڑھایا، طلب آخرت میں رغبت کےساتھ آگے بڑھا اور برائیوں سے مسلسل فرار کرتا رہا۔ آج کے دن کل پر نگاہ رکھی، اور ہمیشہ اگلی منزلوںکو دیکھتا رہا۔

لہذا یقینا ثواب و عطا کےلئے جنت اور عذاب و وبال کےلئے جہنم سے بالا تر کیا ہے اور پھر خدا سے بہتر مدد کرنے والا اور انتقام لینے والا کون ہے اور قرآن کے علاوہ حجت اور سند کیا ہے ۔

۱۲۷

۷/۲

عاقل کے لئے حرام اشیائ

قرآن

(کہدیجئے کہ آؤ ہم تمہیں بتائیں کہ تمہارے پروردگار نے کیا کیا حرام کیا ہے ، خبردار کسی کو اسکا شریک نہ بنانا اور ماں باپ کےساتھ اچھا برتاؤ کرنا اپنی اولاد کو غربت کی بنا پر قتل نہ کرنا کہ ہم تمہیں بھی رزق دے رہے ہیں اور انہیں بھی، اور بدکاریوں کے قریب نہ جانا وہ ظاہرہوں یا چھپی ہوئی اور کسی ایسے نفس کو جسے خدا نے حرام کر دیا ہے قتل نہ کرنا مگر یہ کہ تمہارا کوئی حق ہو، یہ وہ باتیں ہیں جنکی خدا نے تمہیں نصیحت کی ہے تاکہ تمہیں عقل آجائے)

حدیث

۷۴۱۔ امام علی (ع): اگر خدا نے محرمات سے روکا نہ بھی ہوتا تو بھی وہ مستحق تھا کہ عقلمند ان سے اجتناب کرے۔

۷۴۲۔ امام علی (ع): اگر خدا نے اپنی نافرمانی پر عتاب کا وعدہ نہ بھی کیا ہوتا تو بھی وہ مستحق تھا کہ شکر نعمت کے عنوان سے اسکی نافرمانی نہ کی جائے ۔

۷۴۳۔ امام علی (ع): منعم کم از کم جس چیز کا استحقاق رکھتا ہے وہ یہ ہےکہ اسکی نعمتوں کے سبب اسکی نافرمانی نہ کی جائے۔

۷۴۴۔ امام علی (ع): گناہوں سے پرہیزعقلمندوںکی صفت اور بزرگواروںکی عادت ہے ۔

۷۴۵۔ امام علی (ع): عقلمند وہ ہے جو گناہوںسے دور اور لغزشوں سے پاک ہوتاہے ۔

۱۲۸

۷۴۶۔ امام علی (ع): عقلمند کی کوشش گناہوں کے ترک اور عیوب کی اصلاح کے لئے ہوتی ہے ۔

۷۴۷۔ امام علی (ع): عقل برائیوں سے پاک کرتی ہے اور نیکیوں کا حکم دیتی ہے۔

۷۴۸۔ امام علی (ع): عاقل جھوٹ نہیں بولتا اور مومن زنا کا ارتکاب نہیں کرتا۔

۷۴۹۔ امام علی (ع): فطرت عقل برے کاموں سے روکتی ہے ۔

۷۵۰۔ امام علی (ع): عقلمندی کی نشانی اسراف سے اجتناب اور اچھی تدبیرہے ۔

۷۵۱۔ امام علی (ع): دور اندیشی کے لئے اسکی عقل کی بدولت پستیوں سے ایک باز رکھنے والا ہوتا ہے ۔

۷۵۲۔ امام علی (ع): عقل کی اساس، پاکدامنی اور اس کا پھل گناہوں سے بیزاری ہے ۔

۷۵۳۔ امام علی (ع): دلوں کے لئے برے خیالات ہیں لیکن عقلیں دلوں کوان سے باز رکھتی ہیں۔

۷۵۴۔ امام علی (ع): نفوس آزاد ہیں لیکن عقلیں انہیں آلودگیوں سے باز رکھتی ہیں۔

۷۵۵۔ امام علی (ع): عقلمند جھوٹ نہیں بولتا چاہے اس کے فائدہ ہی میں ہو۔

۱۲۹

۷/۳

عاقل کے لئے مناسب اشیائ

۷۵۶۔ رسول خدا(ص): عاقل اگر عاقل ہے تو اسے چاہئے کہ اپنے دن کے اوقات کو چار حصوں میں تقسیم کرے: ایک حصہ میں ، اپنے پروردگار سے مناجات کرے، ایک حصہ میں اپنے نفس کا محاسبہ کرے، ایک حصہ میںایسے صاحبان علم کے پاس جائے جو اسے دین سے آشنا اور نصیحت کریں اور ایک حصہ کو اپنے نفس اور دنیا کی حلال و حسین لذتوںکے لئے مخصوص کرے۔

۷۵۷۔ ابو ذر غفاری: میں نے پوچھا اے رسول خدا: صحف ابراہیم میں کیا تھا؟ فرمایا: اس میں امثال اور عبرتیں تھیں: اگر عقلمند کی عقل مغلوب نہیں ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اپنی زبان کی حفاظت کرے ، اپنے زمانہ سے واقفیت رکھے اور اپنے کام کی طرف متوجہ رہے ، یقینا ہر وہ شخص جس کا کلام اس کے عمل کے مطابق ہوتاہے تو وہ کم سخن ہو جاتاہے مگر یہ کہ جو اس سے مربوط ہو۔

۷۵۸۔ رسول خدا(ص): مناسب ہے کہ عاقل تین چیزوںکے علاوہ گھر سے باہر قدم نہ نکالے: کسب معاش کےلئے، یا آخرت کے لئے یا غیر حرام سے لذت کے لئے۔

۷۵۹۔ رسول خدا(ص):نے علی (ع): کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا:اے علی ! مناسب نہیں ہے کہ عاقل تین چیزوںکے علاوہ گھر سے قدم نکالے : کسب معاش کے لئے ، قیامت کے لئے زادراہ مہیا کرنے کے لئے اورغیر حرام سے لذت اندوزی کے لئے ۔

۷۶۰۔ رسول خدا(ص): عاقل کے لئے ضروری ہے کہ اپنے زمانہ سے آگاہی رکھتا ہو۔

۷۶۱۔ امام علی (ع): نے ۔ اپنے بیٹے اما م حسن ؑ۔ کو وصیت کرتے ہوئے ۔ فرمایا: بیٹا! عاقل کے لئے ضروری ہے کہ اپنے موقع کی نزاکت کو دیکھے۔ اپنی زبان کی حفاظت کرے اور اہل زمانہ کو پہچانے۔

۱۳۰

۷۶۲۔ امام صادق(ع): فرماتے ہیں کہ حکمت آل داؤدمیں ہے عقلمند کےلئے لازم ہےکہ وہ اپنے زمانہ سے واقف ہو، اپنی حیثیت کی طرف متوجہ ہو اور اپنی زبان پر قابو رکھے۔

۷۶۳۔ رسول خدا(ص): خدا پر ایمان کے بعدعقل کا سرمایہ ، حیا اور حسن اخلاق ہے ۔

۷۶۴۔ رسول خدا(ص):خدا پر ایمان کے بعد عقل کا سرمایہ لوگوںسے اظہار محبت ہے ۔

۷۶۵۔ رسول خدا(ص): دین کے بعد عقل کاسرمایہ لوگوںکے ساتھ اظہار محبت اور ہر اچھے اور برے کے ساتھ نیکی کرنا ہے ۔

۷۶۶۔ رسول خدا(ص): عقل کی اساس مہربانی کرنا ہے ۔

۷۶۷۔ رسول خدا(ص): خدا پر ایمان کے بعد عقل کا سرمایہ لوگوںکے ساتھ مہربانی کرنا ہے مگر یہ کہ کوئی حق ضائع نہ ہو۔

۷۶۸۔ امام علی (ع): عقل کا سرمایہ کاموں میں اطمینان ہے اور حماقت کا سرمایہ عجلت پسندی ہے ۔

۷۶۹۔ اما م حسن ؑ: عقل کا سرمایہ لوگوںکے ساتھ حسن ِ معاشرت ہے ۔

۷۷۰۔ امام علی (ع): عقل کا سرمایہ خواہشات نفسانی سے جہاد ہے ۔

۷۷۱۔ امام علی (ع): عقل کے ذریعہ خواہشات نفسانی کا مقابلہ کرو۔

۷۷۲۔ امام علی (ع): جس شخص کی عقل اسکی خواہشات پر غالب آگئی وہ کامیاب ہو گیا۔

۷۷۳۔ امام علی (ع): جس شخص کی عقل اسکی شہوت پراور بردباری اس کے غیظ و غضب پر غالب آجائے تو وہ حسن سیرت کا مستحق ہے ۔

۷۷۴۔ امام علی (ع): غیظ و غضب کا خاموشی کے سبب اور شہوت کا عقل کے ذریعہ علاج کرو۔

۱۳۱

۷۷۵۔ امام علی (ع): خواہشات نفسانی کو اپنی عقل کے ذریعہ قتل کر دو تاکہ ہدایت یافتہ ہو جاؤ۔

۷۷۶۔ امام علی (ع): بردباری چھپانے والا پردہ ہے اورعقل شمشیر براں ہے ، لہذا اپنے اخلاق کی کمیوںکو بردباری سے چھپاؤ اور خواہشات کو عقل کے ذریعہ قتل کردو۔

۷۷۷۔ امام علی (ع): خبردار، خبردار، اے سننے والو!کوشش، کوشش، اے عقلمندو! آگاہ شخص کے مانند تمہیں کوئی خبر نہیںدے سکتا۔

۷۷۸۔ امام علی (ع): لہو و لعب میں مبتلا عاقل ہدایت تک نہیں پہنچتا لیکن کوشش اور جد و جہد کرنے والا پہنچتا ہے ۔

۷۷۹۔ امام علی (ع): ضروری ہے کہ عاقل قیامت کے لئے کوشش کرے اور زیادہ سے زیادہ توشہ فراہم کرے۔

۷۸۰۔ امام علی (ع): عاقل کے لئے سزاوار ہے کہ ہمیشہ رہنمائی کا خواہاں ہو اور خود رائی ترک کر دے۔

۷۸۱۔ امام علی (ع): مناسب ہے کہ عاقل کسی بھی حالت میں اطاعت پروردگار اور جہاد بالنفس سے دستبردار نہ ہو۔

۷۸۲۔ امام علی (ع): عاقل کے لئے ضروری ہے کہ اپنے مال کے سبب تعریف حاصل کرے اور خود کو سوال سے محفوظ رکھے۔

۷۸۳۔ امام علی (ع): عاقل کے لئے سزاوار ہے کہ علماء اور ابرار کی ہمنشینی زیادہ سے زیادہ اختیار کرے ، اور اشرار و فجار کی ہمنشینی سے پرہیز کرے۔

۷۸۴۔ امام علی (ع): عاقل کے لئے ضروری ہے کہ جب تعلیم دے تو سختی سے پیش نہ آئے اور جب تحصیل کرے تو لاپروائی نہ کرے۔

۷۸۵۔ امام علی (ع): عاقل کے لئے ضروری ہے کہ جب جاہل کو خطاب کرے تو اس طرح کرے جیسے طبیب، مریض سے کرتاہے ۔

۱۳۲

۷۸۶۔ امام علی (ع): عاقل کے لئے ضروری ہے کہ اپنے چہرے کو آئینہ میں دیکھے اگر حسین ہے تو اس کے ساتھ قبیح عمل کو مخلوط نہ کرے کہ حسن و قبیح یک جا ہو جائیں ، اور اگر قبیح ہو ، تو بھی قبیح عمل انجام نہ دے کہ دو قبیح یک جا ہو جائیں گے۔

۷۸۷۔ امام علی (ع): عاقل کے لئے ضروری ہے کہ جب کسی مصیبت میں گرفتار ہو جائے تو صبرکرے یہاں تک کہ اس کا وقت گذر جائے، چونکہ اس کا وقت گذرنے سے قبل اس کے دور کرنے کی کوشش مزید رنج کا باعث ہوگی ۔

۷۸۸۔ امام علی (ع): ضروری ہے کہ انسان کا علم اس کے نطق سے زیادہ ہو اور اسکی عقل اسکی زبان پر غالب ہو۔

۷۸۹۔ امام علی (ع): آ پ سے منسوب کلمات قصارمیںہے ، عاقل کے لئے ضروری ہے کہ ضرورت کے وقت نرمی سے پیش آئے اور ہر زہ سرائی سے پرہیز کرے۔

۷۹۰۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصارمیںہے ۔ عاقل کے لئے سزاوار ہے کہ غذا کی لذت کے وقت دوا کی تلخی کو یاد کرے۔

۷۹۱۔امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصارمیں ہے ۔ عاقل کے لئے ضروری ہے کہ اپنی نیکی و خوبی کو جاہل، پست اور بیوقوفوں کے سپرد نہ کرے، اس لئے کہ جاہل خوبی کو نہیں پہچانتا اور نہ ہی اس کا شکر کرتا ہے ۔

۷۹۲۔امام صادق(ع): عاقل کے لئے ضروری ہیکہ سچا ہو تاکہ اس کے قول پر اعتماد کیا جائے اور شکر گذار ہو تاکہ شکر فراوانی (نعمت) کا موجب ہو۔

۷۹۳۔ امام علی (ع): عاقل کے لئے ہر کام میں نیکی ہے اور جاہل کے لئے ہر حالت میں خسارہ ہے ۔

۷۹۴۔ امام علی (ع): عاقل کے لئے ہر کام میں ریاضت ہے ۔

۷۹۵۔ امام علی (ع): عاقل کے لئے ہر کلمہ میں شرافت و فضیلت ہے ۔

۱۳۳

۷۹۶۔ امام علی (ع): عاقل کے لئے ضروری ہے کہ دین ، رائے ، اخلاق اور ادب میں اپنی برائیوںکو شمار کرے اور انہیں اپنے سینہ یا ڈائری میں لکھے پھر ان کے ازالہ کی کوشش کرے۔

۷۹۷۔ امام صادق(ع): عاقل کے لئے علم و ادب کا سیکھنا ضروری ہے کیوں کہ اسی پر اس کا دار و مدار ہے۔

۷۹۸۔ امام صادق(ع): زیارت امام حسین (ع) میں ۔ فرماتے ہیں: بار الٰہا: بیشک میںگواہی دیتا ہوںکہ یہ قبر تیرے حبیب اور خلق میں تیرے برگزیدہ کے فرزند کی ہے ، وہ تیری کرامت کے سبب کامیاب ہیں ، تونے ان کواپنی کتاب کے ذریعہ مکرم کیا ہے ، تونے ان کو اپنی وحی کا امین شمار کیا ہے اور ان کو اس سے مخصوص کیا ہے ، تونے ان کو انبیاء کی میراث عطا کی ہے، اور ان کو اپنی مخلوق پر حجت قرار دیا ہے تو انہوںہے بھی اتمام حجت میں امت سے تمام عذر کو دور کر دیا اور تیری راہ میں اپنا خون بہایا تاکہ تیرے بندوں کو گمراہی و جہالت ، تاریکی اور شک و تردید سے نجات دیں اور تباہی و پستی سے ہدایات و روشنی کی طرف رہنمائی کریں۔

۷۹۹۔ امام صادق(ع): روز اربعین زیارت امام حسین (ع) میں۔ فرماتے ہیں: خدایا! میں گواہی دیتا ہوںکہ وہ تیرے دوست اور تیرے ولی کے فرزند اور تیرے برگزیدہ اور گزیدہ کے فرزند ہیں۔ تیری کرامت پر فائز ہیں، تونے انکو شہادت کے ذریعہ مکرم کیا ہے، اور انکو سعادت سے مخصوص کیا ہے ، انکو پاکیزگی ولادت کے ساتھ منتخب کیاہے، اور انکو سرداروں میں سے سردار بنا یا ہے، اور قائدوں میںسے قائد بنایا ہے ، اور اسلام سے دفاع کرنے والوں میں ایک بڑا دفاع کرنے والا بنایا ہے اور تونے انکو انبیاء کی میراث عطا کی ہے ، اور اپنے اوصیاء میں سے انکو اپنی مخلوق پر حجت قرار دیا ہے تو انہوںنے بھی اتمام حجت میں امت سے تمام عذر کو دور کر دیا اور امت کی نصیحت کو انجام دیا اور تیری راہ میں اپنا خون بہایا تاکہ تیرے بندوں کو جہالت اور گمراہی کی حیرانی سے نجات دیں۔

۸۰۰۔ امام کاظم (ع): عاقل کے لئے ضروری ہے کہ۔ جب کوئی کام انجام دے تو خدا سے شرم کرے اور جب نعمتوں سے سرشار ہو تو اپنے ساتھ اپنے علاوہ کسی اور کو شریک کرے۔

۸۰۱۔امام رضا(ع): جو خدا کی معرفت رکھتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ خدا کو قضا و قدر میں متہم قرار نہ دے اور رزق دینے میں اس کو سست شمار نہ کرے۔

۱۳۴

۷/۴

عاقل کے لئے نامناسب اشیائ

۸۰۲۔امام علی (ع): عاقل کے لئے سزاوار نہیں ہے کہ امید کی بنا پر خوشی کا اظہار کرے؛ کیوں کہ امید دھوکا ہے ۔

۸۰۳۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصارمیں ہے ۔ عاقل کے لئے مناسب نہیں ہے کہ دوسروں سے اپنی اطاعت کرائے جبکہ خوداسکا نفس اس کا مطیع نہ ہو۔

۸۰۴۔ امام علی (ع): عاقل کےلئے سزاوار نہیں ہے کہ جب راہ امن حاصل ہو جائے تو وہ خوف سے گوشہ نشینی اختیار کرے۔

۸۰۵۔ اما م علی (ع): تعجب ہے کہ عقلمند شہوت پر کس طرح نظر ڈالتا ہے کہ بعد میں اس کےلئے حسرت و ندامت کا باعث ہوتی ہے۔

۸۰۶۔ امام علی (ع): شریح بن حارث کے نام اپنے خط میں تحریر فرماتے ہیں۔ میںنے سنا ہے کہ تم نے اسّی دینار کا مکان خریدا ہے اور اس کے لئے بیعنامہ بھی لکھا ہے اور اس پر گواہی بھی لی ہے؟

اے شریح!عنقریب تیرے پاس وہ شخص آنے والا ہے جو نہ اس تحریر کو دیکھے گا اور نہ تجھ سے گواہوں کے بارے میں سوال کریگا بلکہ تجھے اس گھر سے نکال کر تنِ تنہا قبر کے حوالے کر دیگا۔اگر تم نے یہ مکان دوسرے کے مال سے خریدا ہے اور غیر حلال سے قیمت اداکی ہے تو تمہیں دنیا و آخرت دونوں میں خسارہ ہوا ہے ۔یاد رکھو! اگر تم اس مکان کو خریدتے وقت میرے پاس آتے اور مجھ سے دستاویز لکھواتے تو ایک درہم میں بھی خریدنے کے لئے تیار نہ ہوتے۔ اسی دینار تو بہت بڑی بات ہے ، میں اسکی دستاویز اس طرح لکھتا: یہ وہ مکان ہے جسے ایک بندہ ذلیل نے اس مرنے والے سے خرید ا ہے جسے کوچ کے لئے آمادہ کر دیا گیا ہے ، یہ مکان دنیائے پر فریب میں واقع ہے جہاں فنا ہونے والوں کی بستی ہے اور ہلاک ہونے والوں کا علاقہ ہے

۱۳۵

۔ اس مکان کے حدود اربعہ یہ ہےں؛ ایک حد اسباب آفات کی طرف ہے اور دوسری اسباب مصائب سے ملتی ہے ۔ تیسری حد ہلاک کر دینے والی خواہشات کی طرف ہے اور چوتھی گمراہ کرنے والے شیطان کی طرف اور اسی طرف اس گھر کا دروازہ کھلتا ہے ۔ اس مکان کو امیدوں کے فریب خوردہ نے اجل کے راہ گیر سے خریدا ہے ، جس کے ذریعہ قناعت کی عزت سے نکل کر طلب و خواہش کی ذلت میں داخل ہو گیا ہے ۔ اب اگر اس خریدار کو اس سو دے میں کوئی خسارہ ہوا تو یہ اس ذات کی ذمہ داری ہے جو بادشاہوں کے جسموںکا تہہ و بالا کرنے والا ۔ جابروںکی جان نکال لینے والا۔ فرعونوں کی سلطنت کو تباہ کر دینے والا، کسریٰ، قیصر، تبع اور حِمیر اورزیادہ سے زیادہ مال جمع کرنے والوں ، مستحکم عمارتیں بنا کر انہیں سجانے والوں ، ان میں بہترین فرش بچھانے والوں اور اولاد کے خیال سے ذخیرہ کرنے والوں اور جاگیر بنانے والوںکو فنا کے گھاٹ اتار دینے والا ہے۔ کہ ان سب کو قیامت موقف حساب اور منز ل ثواب عذاب میں حاضر کر دے جب حق و باطل کا حتمی فیصلہ ہوگا'' اور اہل باطل یقینا خسارہ میںہوں گے'' میری ان باتوں کی گواہی اس عقل نے دی ہے جو خواہشات کی قید سے آزاد اور دنیا کی وابستگیوں سے محفوظ ہے''۔

۸۰۷۔ امام صادق(ع): تین چیزیں ایسی ہیں کہ عاقل کو انہیں ہر گز فراموش نہیں کرنا چاہئے:

دنیا کی بے ثباتی، حالات کی تبدیلی اور وہ آفات کہ جن سے اماں نہیں۔

۱۳۶

دوسرا حصہ

جہل

اس حصہ کی فصلیں:

پہلی فصل : مفہوم جہل

دوسری فصل : جہل سے پرہیز

تیسری فصل : جاہلوں کے اقسام

چوتھی فصل : جہل کے علامات

پانچویں فصل : جاہل کے احکام

چھٹی فصل : پہلی جاہلیت

ساتویں فصل : دوسری جاہلیت

آٹھویں فصل : جاہلیت کا خاتمہ

۱۳۷

پہلی فصل مفہوم جہل

۸۰۸۔ امام حسن ؑ:نے اپنے والد کے جواب میں جب جہل کی تعریف کے متعلق پوچھا ۔تو فرمایا: فرصت سے فائدہ اٹھانے کی قدرت نہ ہونے کے باوجود اس پر جلدی سے ٹوٹ پڑنا اور جواب دینے سے عاجز رہنا ہے۔

۸۰۹۔ امام علی (ع): محال امور میں تمہاری رغبت کا ہونا نادانی ہے ۔

۸۱۰۔ امام علی (ع): دنیا کی فریبکاریوںکو دیکھتے ہوئے اس کی طرف رخ کرنا جہالت ہے ۔

۸۱۱۔ امام علی (ع): بغیر کوشش و عمل کے رتبہ و مقام کا طلب کرنا نادانی ہے ۔

۸۱۲۔ عیسیٰؑ: نے اپنے حواریوں سے فرمایا: دیکھو تمہارے اندر جہالت کی دو نشانیاں ہیں: بلا سبب ہنسنا اور شب زندہ داری کے بغیر صبح کو سونا۔

۸۱۳۔ امام علی (ع): شب زندہ داری کے بغیر سونا جہالت کی نشانی ہے۔

۸۱۴۔ امام صادق(ع): بلا سبب ہنسنا نادانی کی نشانیوں میں سے ہے ۔

۸۱۵۔ امام صادق(ع): جہالت تین چیزوں میں ہے: دوست بدلنا،بغیر وضاحت کے علیحدگی، اس چیز کی جستجو کرنا جس میں کوئی فائدہ نہیںہے۔

۱۳۸

۸۱۶۔ امام صادق(ع): مصباح الشریعہ میں آ پ سے منسوب کلام میں ہے ۔ جہالت ایسی صورت ہے جو اولاد آدم میں قرار دی گئی ہے، اسکی طرف رخ کرنا تاریکی اور گریز کرنا روشنی ہے، بندہ اس کے ساتھ ساتھ اس طرح پھرتا ہے جیسے سورج کے ساتھ ساتھ سایہ ، کیا ایسے انسان کو نہیں دیکھتے جو اپنی خصوصیات سے ناواقف ہے لیکن اپنی تعریف کرتاہے حالانکہ اسی عیب کو جب دوسروں میں ملاحظہ کرتا ہے تو اس سے نفرت کرتا ہے ۔ اور کبھی اسے دیکھتے ہو ۔

جو اپنی کچھ ذاتی خصوصیات سے آشنا ہوتاہے اور ان سے نفرت کرتا ہے حالانکہ جب اپنے غیر میںمشاہدہ کرتاہے تو تعریف کرتا ہے پس ایسا انسان عصمت و رسوائی کے درمیان سرگرداں ہے ، اگر عصمت کی طرف رخ کیا تو واقع تک پہنچ جائیگا اور اگر رسوائی کی طرف رخ کیا تو واقع سے دور ہو جائیگا۔

جہالت کی کنجی خوشنودی اور اس پر اعتقاد ہے ، علم کی کنجی توفیق کی موافقت کے ساتھ تبادلہ ہے ، اور جاہل کی پست ترین صفت یہ ہے کہ بغیر لیاقت کے علم کا دعویٰ کرتا ہے اور اس سے بھی بدتر اس کا اپنی جہالت سے ناواقف ہونا ہے اور اسکی بالا ترین صفت جہالت سے انکار ہے جہالت اوردنیاو حرص کے علاوہ کوئی چیز ایسی نہیں کہ جس کا اثبات درحقیقت اسکی نفی ہو۔ یہ سب گویا ایک ہیں اور ان میںکا ایک سب کے برابرہے۔

۱۳۹

مفہوم جہل کی تحقیق

اسلام نے معرفت شناسی کے جو مختلف ابواب پیش کئے ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ دین الہی ایک عظیم معاشرہ بنانے کے لئے ہر چیز سے قبل اور ہر چیز سے بیشتر، فکر و نظر اور آگاہی و معرفت کو اہمیت دی ہے ، اور جہالت کے گڑھے میں گرنے اور فکر کو نظر انداز کرنے سے تنبیہ کی ہے ۔

اسلام کی نگاہ میں جہل ایسی آفت ہے کہ جوانسان کی رونق اور خوبیوں کو پامال کر دیتا ہے اور تمام اجتماعی و فردی برائیوں کا سر چشمہ ہے ، جب تک یہ آفت جڑ سے نہیں اکھاڑی جائیگی اس وقت تک فضیلتیں ابھر کر سامنے نہیں آ سکتیں اور نہ ہی انسانی معاشرہ وجود پذیر ہو سکتا ہے۔

اسلام کی نظر میں جہل تمام برائیوں کا سر چشمہ ، عظیم ترین مصیبت، مہلک و بدترین بیماری اور خطرناک ترین دشمن ہے ۔ جاہل انسان روئے زمین پر چوپائے سے بدتر، بلکہ زندوں کے درمیان ایک لاش ہے ۔

وہ آیات و احادیث جو جہل اور جاہل کی مذمت اور اس کے علامات و احکام اور جہل سے دوری کے متعلق وارد ہوئی ہیں ان کو اچھی طرح سمجھنے کے لئے ضروری ہیکہ پہلے یہ جانیںکہ جہل کیا ہے ؛ آیا مطلق جہل اسلام کی نظر میں مذموم و خطرناک ہے یا کوئی خاص جہل ہے ؟

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258