عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں

عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں23%

عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 258

عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 258 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 138862 / ڈاؤنلوڈ: 5392
سائز سائز سائز
عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں

عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

۵) ان آیات ميں سے کسی آیت کا پڑھنا جن کے پڑھنے سے سجدہ واجب ہو جاتا ہے اور وہ آیات چار سورتوں ميں ہيں :

١) قرآن مجيد کی ٣٢ ویں سورہ (الٓمٓ تنزیل) ٢) قرآن مجيد کی ۴ ١ ویں سورہ(حٰمٓ سجدہ)

٣) قرآن مجيد کی ۵ ٣ ویں سورہ (والنجم) ۴) قرآن مجيدکی ٩ ۶ ویں سورہ (إقرا)

اور بنابر احتياط واجب ان چار سورتوں کا بقيہ حصہ پڑھنے سے پرہيز کرے۔ یهاں تک کہ بِسْم اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم کو ان سوروں کو قصد سے، بلکہ ان کے بعض حصوں کو ان سوروں کے قصد سے پڑھنے سے بھی پرہيز کرے۔

وہ چيزيں جو جنب شخص پر مکروہ ہيں

مسئلہ ٣ ۶ ٢ نو چيزیں جنب شخص کے لئے مکروہ ہيں :

١-٢)کھانا اور پينا، ليکن وضو کرلے یا ہاتھ دهو لے تو مکروہ نہيں ہے ۔ ،

٣) ان سوروں کی سات سے زیادہ آیات کی تلاوت کرنا جن ميں واجب سجدہ نہيں ہے ۔

۴) بدن کا کوئی حصہ قرآن کی جلد، حاشيے یا حروف قرآن کی درميانی جگہوں سے مس کرنا۔

۵) قرآ ن ساته رکھنا۔

۶) سونا، ليکن اگر وضو کرلے یا پانی نہ ہونے کے باعث غسل کے بدلے تيمم کرلے تو مکروہ نہيں ۔

٧) مهندی اور اس جيسی چيزوں سے خضاب کرنا۔

٨) بدن پر تيل ملنا۔

٩) محتلم ہونے، یعنی نيند ميں منی نکلنے کے بعد جماع کرنا۔

غسل جنابت

مسئلہ ٣ ۶ ٣ غسل جنابت بذات خود مستحب ہے اور ان واجبات کی وجہ سے واجب ہوجاتاہے جن کے لئے طهارت شرط ہے ۔ ہاں، نماز ميت، سجدہ سهو سوائے اس سجدہ سهوکے جو بھولے ہوئے تشهد کے لئے ہوتا ہے ، سجدہ شکر اور قرآن کے واجب سجدوں کے لئے غسل جنابت ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ٣ ۶۴ یہ ضروری نہيں کہ غسل کرتے وقت نيت کرے کہ واجب غسل کر رہا ہے یا مستحب، بلکہ اگر قصد قربت (جس کی تفصيل وضو کے احکام ميں گزر چکی ہے )اور خلوص کے ساته غسل کرے تو کافی ہے ۔

۶۱

مسئلہ ٣ ۶۵ اگر کسی شخص کو یقين ہو یا اس بات پر شرعی دليل قائم ہوجائے کہ نما زکا وقت داخل ہو چکاہے اور واجب کی نيت سے غسل کرلے، ليکن اس کا ارادہ وجوب سے مقيد نہ ہو اور بعد ميں معلوم ہو کہ غسل وقت سے پهلے کر ليا ہے تو اس کا غسل صحيح ہے ۔

مسئلہ ٣ ۶۶ غسل چاہے واجب ہو یا مستحب دو طریقوں سے انجام دیا جاسکتا ہے :

١)ترتيبی ٢) ارتماسی

غسل ترتيبی

مسئلہ ٣ ۶ ٧ غسل ترتيبی ميں غسل کی نيت سے پهلے سر اور گردن اور بعد ميں بدن دهونا ضروری ہے اور بنابر احتياط واجب بدن کو پهلے دائيں طرف اور بعد ميں بائيں طرف سے دهوئے۔ اگر جان بوجه کر یا بھولے سے یا مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے سر کو بدن کے بعد دهوئے تو یہ دهونا کافی ہوگا ليکن بدن کو دوبارہ دهونا ضروری ہے اور اگر دائيں طرف کو بائيں طرف کے بعد دهوئے تو بنابر احتياط واجب بائيں طرف کو دوبارہ دهوئے۔ پانی کے اندر تينوں اعضاء کو غسل کی نيت سے حرکت دینے سے غسل ترتيبی کا ہوجانا محل اشکال ہے ۔

مسئلہ ٣ ۶ ٨ بنا بر احتياط واجب آدهی ناف اور آدهی شرمگاہ کو دائيں طرف اور آدهی کو بائيں طرف کے ساته دهوئے اور بہتر یہ ہے کہ تمام ناف اور تمام شرمگاہ کو دونوں اطراف کے ساته دهوئے۔

مسئلہ ٣ ۶ ٩ اس بات کا یقين پيدا کرنے کے لئے کہ تينوں حصوں یعنی سر وگردن، دائيں طرف اور بائيںطرف کو اچھی طرح دهو ليا ہے ، جس حصے کو دهو ئے اس کے ساته دوسرے حصے کی کچھ مقدار بھی دهولے، بلکہ احتياط مستحب یہ ہے کہ گردن کے دائيں کے طرف کے پورے حصے کو بدن کے دائيں حصے اور گردن کے بائيں طرف کے پورے حصے کو بدن کے بائيں حصے کے ساته دهوئے۔

مسئلہ ٣٧٠ اگرغسل کرنے بعد معلوم ہو کہ بدن کاکچه حصہ نہيں دهلاہے اورمعلوم نہ ہوکہ وہ حصہ سر، دائيں جانب یا بائيں جانب ميں سے کس جانب ہے توسر کودهوناضروری نہيں اوربائيں جانب ميں جس حصے کے نہ دهلنے کا احتمال ہو اسے دهونا ضروری ہے اور دائيں جانب ميں جس حصے کے نہ دهلنے کا احتمال ہو احتياط کی بنا پر اسے بائيں جانب سے پهلے دهوئے۔

مسئلہ ٣٧١ اگرغسل کر نے کے بعدمعلوم ہو کہ بدن کا کچھ حصہ نہيں د هلا تو اگروہ حصہ بائيں جانب ميں ہو تو فقط اس حصے کو دهونا کافی ہے اور اگرو ہ حصہ دائيں جانب ہو تو اس حصے کو دهونے کے بعد احتياط واجب کی بنا پر بائيں جانب کو بھی دهوئے اور اگروہ حصہ سر وگردن ميں ہو تو اس حصے کو دهونے کے بعد بدن دهوئے اوراحتياط واجب کی بنا پر دائيں جانب کو بائيں جانب سے پهلے دهوئے۔

۶۲

مسئلہ ٣٧٢ اگرکوئی شخص غسل مکمل ہونے سے پهلے بائيں جانب کی کچھ مقدار دهلنے ميں شک کرے تو فقط اس مقدار کو دهونا کافی ہے ليکن اگربائيں جانب کی کچھ مقدار دهونے کے بعد دائيں جانب کی کچھ مقدار دهلنے ميں شک کر ے تو احتياط واجب کی بنا پراسے دهونے کے بعد بائيں جانب بھی دهوئے اور اگربدن کود ہوناشروع کرنے بعد سروگردن کی کچھ مقدار کے دهلنے ميں شک کرے تو شک کی کوئی حيثيت نہيں ہے اور اس کاغسل صحيح ہے ۔

غسل ارتماسی

مسئلہ ٣٧٣ پورے بدن کوپانی ميں ڈبو دینے سے غسل ارتماسی ہوجاتاہے اورجب پهلے سے جسم کاکچه حصہ پانی ميں موجودهواور پھرباقی جسم کوپانی ميں ڈبوئے توغسل ارتماسی صحيح ہونے ميں اشکال ہے اوراحتياط واجب کی بنا پراس طرح غسل کرے کہ عرفاًکهاجائے کہ پورا بدن ایک ساته پانی ميں ڈوباہے۔

مسئلہ ٣٧ ۴ - غسل ارتماسی ميں احتياط واجب کی بنا پرضروری ہے کہ جسم کاپهلا حصہ پانی ميں داخل ہونے سے لے کر آخری حصے کے داخل ہونے تک غسل کی نيت کوباقی رکھے۔

مسئلہ ٣٧ ۵ اگرغسل ارتماسی کے بعدمعلوم ہوکہ بدن کے کسی حصے تک پانی نہيں پهنچاہے توچاہے اسے وہ جگہ معلوم ہویانہ ہو، دوبارہ غسل کرناضروری ہے ۔

مسئلہ ٣٧ ۶ اگرغسل ترتيبی کے لئے وقت نہ ہوليکن ارتماسی کے لئے وقت ہوتوضروری ہے کہ غسل ارتماسی کرے۔

مسئلہ ٣٧٧ جس شخص نے حج یاعمرے کااحرام باندهاہو وہ غسل ارتماسی نہيں کرسکتا اور روزہ دارکے غسل ارتماسی کرنے کاحکم مسئلہ نمبر” ١ ۶ ٢ ۵ “ ميں آئے گا۔

غسل کے احکام

مسئلہ ٣٧٨ غسل ارتماسی یاترتيبی سے پهلے پورے بدن کاپاک ہونالازم نہيں بلکہ غسل کی نيت سے معتصم پانی ميں غوطہ لگانے یااس پانی کوبدن پرڈالنے سے بدن پاک ہوجائے توغسل صحيح ہے اورمعتصم اس پانی کوکہتے ہيں جو نجاست سے فقط مل جانے سے نجس نہيں ہوتا، جيسے بارش کاپانی،کراورجاری پانی۔

مسئلہ ٣٧٩ حرام سے جنب ہونے والااگرگرم پانی سے غسل کرے توپسينہ آنے کے باوجوداس کاغسل صحيح ہے اوراحتياط مستحب ہے کہ ٹھنڈے پانی سے غسل کرے۔

۶۳

مسئلہ ٣٨٠ اگرغسل ميں بدن کاکوئی حصہ دهلنے سے رہ جائے توغسل ارتماسی باطل ہے اورغسل ترتيبی کاحکم مسئلہ نمبر ” ٣٧١ “ ميں گذرچکاہے۔ ہاں، وہ حصے جنہيں عرفاً باطن سمجھا جاتا ہے جيسے ناک اورکان کے اندرونی حصے، ان کودهوناضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ٣٨١ جس حصے کے بارے ميں شک ہو کہ بدن کا ظاہری حصہ ہے یا باطنی حصہ، اگرمعلوم ہوکہ پهلے ظاہر تھا تو اسے دهوناضروری ہے اور اگر معلوم ہو کہ ظاہر نہيں تھا تو دهونا ضروری نہيں ہے اور اگر گذشتہ حالت معلوم نہ ہو تو بنا براحتياط واجب اسے دهوئے۔

مسئلہ ٣٨٢ اگرگوشوارہ اوراس جيسی چيزوں کے سوراخ اس قدر کشادہ ہوں کہ سوراخ کااندرونی حصہ ظاہر شمار ہوتا ہو تو اسے دهوناضروری ہے اوراس صورت کے علاوہ اسے دهوناضروری نہيں ۔

مسئلہ ٣٨٣ هروہ چيزجوپانی پهنچنے ميں رکاوٹ بنتی ہواسے بدن سے صاف کرناضروری ہے اوراگراس چيزکے صاف ہونے کایقين کئے بغيرغسل ارتماسی کرے تو دوبارہ غسل کرناضروری ہے اوراگرغسل ترتيبی کرے تواس کاحکم مسئلہ نمبر ” ٣٧٢ “ ميں گذرچکاہے۔

مسئلہ ٣٨ ۴ اگرغسل کرتے ہوئے شک کرے کہ پانی پهنچنے ميں رکاوٹ بننے والی کوئی چيزاس کے بدن پرہے یا نہيں توضروری ہے کہ تحقيق کرے یهاں تک کہ اسے اطمينان ہوجائے کہ اس کے بدن پرکوئی رکاوٹ نہيں ہے ۔

مسئلہ ٣٨ ۵ بدن کاجزشمارہونے والے چھوٹے چھوٹے بالوں کوغسل ميں دهوناضروری ہے اورلمبے بالوں کا دهونا ضروری نہيں ہے بلکہ اگر پانی کسی طریقے سے بال ترکئے بغيرکھال تک پهنچ جائے توغسل صحيح ہے ،ليکن اگربال گيلے کئے بغيرکھال تک پانی پهنچاناممکن نہ ہوتوضروری ہے کہ بدن تک پانی پهنچانے کے لئے ان بالوں کوبهی دهوئے۔

مسئلہ ٣٨ ۶ وضوصحيح ہونے کی تمام گذشتہ شرائط غسل صحيح ہونے ميں بھی شرط ہيں ، جيسے پانی کا پاک اورمباح ہونا، ليکن غسل ميں ضروری نہيں ہے کہ بدن کو اوپر سے نيچے کی جانب دهویا جائے اور اس کے علاوہ غسل ترتيبی ميں ایک حصہ د ہونے کے فوراًبعد دوسراحصہ دهونا بھی ضروری نہيں ہے ، لہٰذا اگرسرو گردن دهونے کے بعد وقفہ کرے اورکچه دیر بعد بدن دهوئے یادایاںحصہ دهوئے پھر کچھ دیر صبرکرنے کے بعد بایاں حصہ دهوئے توکوئی حرج نہيں ہے ۔ ہاں، جو شخص پيشاب وپاخانہ روکنے پر قدرت نہ رکھتاہو اگرغسل کر نے اورنماز پڑھنے کی مدت تک روک سکے تو ضروری ہے کہ فوراًغسل مکمل کرے اور اس کے بعدفوراً نماز بھی پڑھے۔

مسئلہ ٣٨٧ جو شخص حمام کے مالک کی اجرت نہ د ینے کا ارادہ رکھتا ہو یا اس کی اجازت لئے بغيرادهار کی نيت سے حمام ميں غسل کرے تواگرچہ بعدميں حمام کے مالک کوراضی کرلے، اس کاغسل باطل ہے ۔

۶۴

مسئلہ ٣٨٨ اگرحمام کا مالک حمام ميں ادهار غسل کرنے پر راضی ہو ليکن کوئی شخص اس کا ادهار ادا نہ کرنے یا مال حرام سے ادا کرنے کے ارادے سے غسل کرے تو اس کاغسل باطل ہے ۔

مسئلہ ٣٨٩ اگرحمام کے مالک کو ایسے مال سے اجرت دے جس کا خمس ادا نہ کيا گيا ہو تو یہ حرام ہے اوراس کاغسل باطل ہے ۔

مسئلہ ٣٩٠ اگرحمام ميں حوض کے پانی ميں پاخانے کے مقام کو صاف کرے اورغسل کرنے سے پهلے شک کرے کہ اس وجہ سے اب مالک غسل کرنے پر راضی ہے یا نہيں تو اس کا غسل باطل ہے ، مگر یہ کہ غسل کرنے سے پهلے حمام کے مالک کوراضی کرلے۔

مسئلہ ٣٩١ اگرشک کرے کہ غسل کيا یا نہيں تو ضروری ہے کہ غسل کرے، ليکن اگرغسل کرنے کے بعد اس کے صحيح ہونے ميں شک کرے تواگر احتمال دے کہ غسل کرتے وقت متوجہ تھا تو اس کا غسل صحيح ہے ۔

مسئلہ ٣٩٢ اگرغسل کے دوران پيشاب جيسا کوئی حدث اصغر صادر ہو تو احتياط واجب کی بنا پرغسل مکمل کرنے کے بعد غسل کا اعادہ کرنے کے ساته ساته وضو بھی کرے مگر یہ کہ غسل ترتيبی سے غسل ارتماسی کی طرف عدول کرلے۔

مسئلہ ٣٩٣ اگر وقت تنگ ہونے کی وجہ سے مکلف کی ذمہ داری تيمم کرنا تھی ليکن وہ اس خيال سے کہ غسل اور نمازکے لئے وقت ہے غسل کرے تو اگر اس نے جنابت سے طهارت حاصل کرنے یاقرآن پڑھنے وغيرہ کے ارادے سے غسل کيا ہو تو صحيح ہے ، ليکن اگرموجودہ نمازپڑھنے کے لئے اس طرح کے ارادے سے غسل کرے کہ اگریہ نماز واجب نہ ہوتی تو اس کا غسل کرنے کا کوئی ارادہ نہ تھا تو اس صورت ميں اس کا غسل باطل ہے ۔

مسئلہ ٣٩ ۴ جو شخص جنب ہوا ہو اور اس نے نماز پڑھی ہو، اگر شک کرے کہ اس نے غسل کيا ہے یا نہيں تو اگر احتمال دے کہ نماز شروع کرتے وقت اس جانب متوجہ تھا تو اس کی نماز صحيح ہے ليکن بعد والی نمازوں کے لئے غسل کرنا ضروری ہے اور اگر نمازکے بعد حدث اصغر صادر ہوا ہو تو ضروری ہے کہ وضو بھی کرے اور پڑھی ہوئی نماز کو بھی وقت باقی ہونے کی صورت ميں دهرائے اور اگر وقت گذر چکا ہو تو اس کی قضا کرے۔

مسئلہ ٣٩ ۵ جس پرچندغسل واجب ہوں وہ ان کو عليحدہ عليحدہ انجام دے سکتا ہے ، ليکن پهلے غسل کے بعد باقی غسلوں کے لئے وجوب کی نيت نہ کرے اوراسی طرح سب کی نيت سے ایک غسل بھی کرسکتاہے ، بلکہ اگران ميں سے کسی خاص غسل کی نيت کرے تو باقی غسلوں کے لئے بھی کافی ہے ۔

۶۵

مسئلہ ٣٩ ۶ اگر بدن پر کسی جگہ قرآنی آیت یاخداوند متعال کا نام لکھا ہو اور غسل ترتيبی کرنا چاہے تو ضروری ہے کہ پانی اس طرح بدن پر ڈالے کہ اس حصے سے بدن کا کوئی حصہ مس نہ ہو اور اگر ترتيبی وضو کرناچاہے اوراعضائے وضو پرکہيں آیت قرآنی لکھی ہو تب بھی یهی حکم ہے اور اگر خدوند متعال کا نام ہو تب بھی احتياط واجب کی بنا پریهی حکم ہے اورغسل ووضوميں انبياء، ائمہ اورحضرت زهراء ع کے ناموں کے سلسلے ميں احتياط کا خيال رکھنا مستحب ہے ۔

مسئلہ ٣٩٧ جس شخص نے غسل جنابت کيا ہو ضروری ہے کہ وہ نمازکے لئے وضو نہ کرے، بلکہ استحاضہ متوسطہ کے غسل کے علاوہ واجب غسلوں اور مسئلہ نمبر ” ۶۵ ٠ “ ميں آنے والے مستحب غسلوں کے ساته بھی بغير وضو نماز پڑھ سکتا ہے اگرچہ احتياط مستحب ہے کہ وضو بھی کرے۔

استحاضہ

عورت کو آنے والے خونوں ميں سے ایک خون استحاضہ ہے اورجس عورت کوخون استحاضہ آئے اسے مستحاضہ کہتے ہيں ۔

مسئلہ ٣٩٨ خون استحاضہ اکثر اوقات زرد اور سرد ہوتا ہے اور شدت اورجلن کے بغيرآنے کے علاوہ گاڑھا بھی نہيں ہوتا ہے ليکن ممکن ہے کبهی سياہ یا سرخ اور گرم وگاڑھا ہو اور شدت وجلن کے ساته آئے۔

مسئلہ ٣٩٩ استحاضہ کی تين قسميں ہيں : قليلہ،متوسطہ اورکثيرہ۔

استحاضہ قليلہ: یہ ہے کہ جو روئی عورت اپنے ساته رکھتی ہے خون فقط اس کے اوپر والے حصے کو آلودہ کرے اوراندر تک سرایت نہ کرے۔

استحاضہ متوسطہ: یہ ہے کہ خون روئی ميں سرایت کرجائے چاہے کسی ایک کونے ميں هی، ليکن عورتيں خون سے بچنے کے لئے عموماً جو کپڑا یا اس جيسی چيز باندهتی ہيں ، اس تک نہ پهنچے۔

استحاضہ کثيرہ: یہ ہے کہ خون روئی ميں سرایت کرکے کپڑے تک پهنچ جائے۔

۶۶

احکام استحاضہ

مسئلہ ۴ ٠٠ استحاضہ قليلہ والی عورت کے لئے ضروری ہے کہ ہر نمازکے لئے وضوکرے اور احتياط واجب کی بنا پر روئی تبدیل کرے اور اگر شرمگاہ کے ظاہری حصے پر خون لگا ہو تو اسے پاک کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ۴ ٠١ استحاضہ متوسطہ والی عورت کے لئے ضروری ہے کہ ہر نمازِ صبح کے لئے غسل کرے اور دوسری صبح تک سابقہ مسئلے ميں مذکورہ استحاضہ قليلہ کے وظيفے پرعمل کرے اورجب بھی نمازِ صبح کے علاوہ کسی دوسری نماز سے پهلے یہ صورت حال پيش آئے تواس نمازکے لئے غسل کرے اوردوسری صبح تک اپنی نمازوں کے لئے استحاضہ قليلہ والے کام انجام دے۔

جس نماز سے پهلے غسل ضروری تھا اگر عمداً یا بھول کر غسل نہ کرے تو بعد والی نماز سے پهلے غسل کرے، چاہے خون آرہا ہو یا رک چکا ہو۔

مسئلہ ۴ ٠٢ استحاضہ کثيرہ والی عورت کے لئے سابقہ مسئلے ميں استحاضہ متوسطہ کے مذکورہ احکام پر عمل کرنے کے علاوہ احتياط واجب کی بنا پر ہر نماز کے لئے کپڑے کو تبدیل یا پاک کر نا بھی ضروری ہے اورضروری ہے کہ ایک غسل نمازظہر وعصر کے لئے اور ایک نماز مغرب وعشا کے لئے انجام دے اور نماز ظہر وعصر اوراسی طرح مغرب وعشا کے درميان وقفہ نہ کرے اور اگر وقفہ کردے تو دوسری نماز چاہے عصر ہو یا عشاء، اس کے لئے غسل کرے اور استحاضہ کثيرہ ميں غسل، وضو کی جگہ کافی ہے ۔

مسئلہ ۴ ٠٣ اگر خون استحاضہ وقتِ نماز سے پهلے بھی آیا ہو تو اگر عورت نے اس خون کے لئے وضو یا غسل نہ کيا ہو تو ضروری ہے کہ نماز سے پهلے وضو یا غسل کرے اگر چہ اس وقت مستحاضہ نہ ہو۔

مسئلہ ۴ ٠ ۴ جس مستحاضہ متوسطہ کے لئے وضواور غسل ضروری ہے ، ان دونوںميں سے جسے بھی پهلے انجام دے صحيح ہے ، ليکن بہترہے کہ پهلے وضوکرے۔هاں، مستحاضہ کثيرہ اگروضوکرناچاہے توضروری ہے کہ غسل سے پهلے کرے۔

مسئلہ ۴ ٠ ۵ مستحاضہ قليلہ اگر نماز صبح کے بعد متوسطہ ہوجائے تو ضروری ہے کہ نماز ظہر وعصر کے لئے غسل کرے اوراگر نماز ظہر وع-صر کے بعد متوسطہ ہوجائے تو ضروری ہے کہ نماز مغرب وعشا کے لئے غسل کرے۔

مسئلہ ۴ ٠ ۶ اگرمستحاضہ قليلہ یامتوسطہ نماز صبح کے بعدکثيرہ ہوجائے تو ضروری ہے کہ ایک غسل نماز ظہر وعصر کے لئے اور ایک غسل نماز مغرب وعشا کے لئے کرے اور اگر نماز ظہر وعصر کے بعد کثيرہ ہوجائے تو ضروری ہے کہ نماز مغرب وعشا کے لئے غسل کرے۔

۶۷

مسئلہ ۴ ٠٧ مستحاضہ کثيرہ یامتوسطہ جب نماز کا وقت داخل ہونے تک اپنی حالت پرباقی ہو، اگرنمازکاوقت داخل ہونے سے پهلے نمازکے لئے غسل کرے توباطل ہے ليکن اذانِ صبح سے تهوڑی دیرپهلے جائزهے کہ قصدرجاء سے غسل کرکے نمازشب پڑھے اورطلوع فجرکے بعداحتياط واجب کی بنا پرنمازِصبح کے لئے غسل کااعادہ کرناضروری ہے ۔

مسئلہ ۴ ٠٨ مستحاضہ عورت پرنمازیوميہ ،جس کاحکم گذرچکاہے ،کے علاوہ هرواجب ومستحب نماز کے لئے ضروری ہے کہ مستحاضہ کے لئے ذکرشدہ تمام کاموں کوانجام دے اورمستحاضہ کثيرہ وضوبهی کرے۔ اسی طرح اگرپڑھی ہوئی نمازیوميہ کو احتياطاً دوبارہ پڑھنا چاہے یافرادیٰ پڑھی ہوئی نمازیوميہ کوباجماعت پڑھناچاہے تب بھی یهی حکم ہے اوراگراس نمازکوایسی فریضہ یوميہ کے وقت ميں پڑھناچاہے جس کے لئے غسل کياہے تواحتياط واجب کی بنا پردوبارہ غسل کرے۔هاں، اگرنمازکے فوراً بعدنمازاحتياط،بھولاہواسجدہ ،بھولاہواتشهد یا تشهد بھولنے کی وجہ سے واجب ہونے والا سجدہ سهو انجام دے تو استحاضہ والے کام انجام دیناضروری نہيں ہيں اورنمازکے سجدہ سهوکے لئے استحاضہ کے کام بجالانا ضروری نہيں ہيں ۔

مسئلہ ۴ ٠٩ جس مستحاضہ کاخون رک گياہواس کے لئے فقط پهلی نمازکے لئے مستحاضہ والے کام کرناضروری ہيں اوربعدوالی نمازوں کے لئے لازم نہيں ہيں ۔

مسئلہ ۴ ١٠ اگرمستحاضہ کواپنے استحاضہ کی قسم معلوم نہ ہو تونماز پڑھتے وقت ضروری ہے کہ یااحتياط کے مطابق عمل کرے یااپنے استحاضہ کی تحقيق کرے مثلاتهوڑی روئی شرمگاہ ميں داخل کرنے کے بعدنکالے اوراستحاضہ کی تينوں قسموں ميں سے اپنے استحاضہ کی قسم معلوم ہونے کے بعداس قسم کے وظيفے پرعمل کرے، ليکن اگریہ جانتی ہوکہ جس وقت تک وہ نمازپڑھے گی اس کے استحاضہ ميں تبدیلی واقع نہ ہوگی تووہ نمازکاوقت داخل ہونے سے پهلے بھی اپنے استحا ضہ کی تحقيق کرسکتی ہے ۔

مسئلہ ۴ ١١ اگرمستحاضہ اپنے استحاضہ کی تحقيق کئے بغيرنمازميں مشغول ہوجائے تواگرقصدقربت ہو اور اس نے اپنے وظيفے کے مطابق عمل کياہو، مثلاًاس کااستحاضہ قليلہ ہو اور اس نے استحاضہ قليلہ کے وظيفے کے مطابق عمل کيا ہو تو اس کی نمازصحيح ہے اوراگرقصدقربت نہ ہویااپنے وظيفے کے مطابق عمل نہ کياہومثلاً اس کااستحاضہ متوسطہ ہواوراس نے استحاضہ قليلہ کے وظيفے پرعمل کياہوتواس کی نمازباطل ہے ۔

مسئلہ ۴ ١٢ اگرمستحاضہ اپنے استحاضہ کی تحقيق نہ کرسکتی ہو اور نہ ہی یہ جانتی ہوکہ اس کااستحاضہ کس قسم کاہے تواحتياط واجب یہ ہے کہ زیادہ والا وظيفہ انجام دے تاکہ یقين ہوجائے کہ اس نے اپنی شرعی ذمہ داری انجام دے دی ہے ، مثلااگرنہ جانتی ہوکہ اس کااستحاضہ قليلہ ہے یامتوسطہ تواستحاضہ متوسطہ والے کاموں کوانجام دے اوراگرنہ جانتی ہوکہ اس کااستحاضہ متوسطہ ہے یاکثيرہ تواستحاضہ کثيرہ والے کام انجام دینے کے علاوہ هرنمازکيلئے وضو بھی کرے، ليکن اگرجانتی ہوکہ پهلے اس کااستحاضہ کس قسم کاتهاضروری ہے کہ اس قسم کے وظيفہ کے مطابق عمل کرے۔

۶۸

مسئلہ ۴ ١٣ اگرخون استحاضہ ابتدائی مرحلہ ميں اندرہی موجودہواورباہرنہ آئے توعورت کے غسل یاوضوکوباطل نہيں کرتااوراگرخون کی تهوڑی سی مقداربهی باہرآجائے تووضواورغسل کوباطل کردیتی ہے ۔

مسئلہ ۴ ١ ۴ اگر مستحاضہ عورت نماز کے بعد اپنی تحقيق کرے اور خون نہ ہو تو اگرچہ جانتی ہو کہ خون دوبار ہ آئے گا تب بھی اسی پهلے والے وضوسے نماز پڑھ سکتی ہے ۔

مسئلہ ۴ ١ ۵ مستحاضہ اگرجانتی ہوکہ جب سے اس نے وضویاغسل شروع کياہے خون باہرنہيں آیاہے تووہ نماز کو اس وقت تک مو خٔرکرسکتی ہے جب تک اسے اس حالت کے باقی رہنے کاعلم ہو۔

مسئلہ ۴ ١ ۶ اگرمستحاضہ جانتی ہوکہ نماز کا وقت گذرنے سے پهلے مکمل طورپرپاک ہوجائے گی یانمازپڑھنے کی مقدارميں اس کاخون رک جائے گا توضروری ہے کہ صبرکرے اورنمازاس وقت پڑھے جب پاک ہو۔

مسئلہ ۴ ١٧ اگروضواورغسل کے بعدخون باہرآنارک جائے اورمستحاضہ جانتی ہوکہ اگرنمازميں اتنی تاخير کرے کہ جس وقت ميں وضو، غسل اور اس کے بعد نماز ادا کی جا سکے، تو مکمل پاک ہوجائے گی توضروری ہے کہ نمازميں تاخير کرے اور جب مکمل پاک ہوجائے تو دوبارہ وضو اور غسل کرکے نماز پڑھے اوراگر وقت نماز تنگ ہوجائے تودوبارہ وضو اور غسل کرناضروری نہيں ہے ، بلکہ احتياط واجب کی بنا پرغسل کی نيت سے اوراسی طرح وضوکی نيت سے تيمم کرکے نمازپڑھے۔

مسئلہ ۴ ١٨ مستحاضہ کثيرہ اورمتوسطہ جب مکمل طورپرخون سے پاک ہوجائے توضروری ہے کہ غسل کرے، ليکن اگرجانتی ہوکہ آخری نمازکے لئے غسل شروع کرنے کے بعدسے خون نہيں آیاہے اوروہ مکمل پاک ہوگئی ہے تودوبارہ غسل کرنالازم نہيں ہے ۔

مسئلہ ۴ ١٩ مستحاضہ قليلہ ،متوسطہ اورکثيرہ کے لئے ضروری ہے کہ اپنے وظيفہ پرعمل کرنے کے بعدنمازميں تاخير نہ کرے سوائے اس مورد کے جو مسئلہ نمبر” ۴ ١ ۵ “ ميں گذرچکا ہے ، ليکن نمازسے پهلے اذان واقامت کهنے ميں کوئی حرج نہيں ہے اورنمازميں قنوت اوراس جيسے دوسرے مستحب کام بھی انجام دے سکتی ہے اوراگرنمازکے واجب اجزاء کی مقدارميں پاک ہوتواحتياط مستحب ہے کہ مستحبات کوترک کرے۔

مسئلہ ۴ ٢٠ -اگرمستحاضہ اپنے وضویاغسل کے وظيفے اور نمازکے درميان وقفہ کردے توضروری ہے کہ اپنے وظيفے کے مطابق دوبارہ وضویاغسل کرکے بلافاصلہ نمازميں مشغول ہوجائے، سوائے اس کے کہ جانتی ہوکہ اس حالت پر باقی ہے جومسئلہ نمبر ” ۴ ١ ۵ “ ميں گذرچکی ہے ۔

۶۹

مسئلہ ۴ ٢١ اگرخونِ استحاضہ کااخراج مسلسل جاری رہے اورمنقطع نہ ہوتوضررنہ ہونے کی صورت ميں ضروری ہے کہ غسل کے بعدخون کوباہرآنے سے روکے اورلاپرواہی کرنے کی صورت ميں خون باہرآجائے توضروری ہے کہ دوبارہ غسل کرے اوراگرنمازبهی پڑھ لی ہوتودوبارہ پڑھے۔

مسئلہ ۴ ٢٢ اگرغسل کرتے ہوئے خون نہ رکے توغسل صحيح ہے ليکن اگرغسل کے دوران استحاضہ متوسطہ کثيرہ ہو جائے تو شروع سے غسل کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ۴ ٢٣ احتياط مستحب ہے کہ مستحاضہ، روزے والے پورے دن ميں جتنا ممکن ہوخون کو باہر آنے سے روکے۔

مسئلہ ۴ ٢ ۴ مستحاضہ کثيرہ کاروزہ اس حالت ميں صحيح ہے جب وہ دن کی نمازوں کے واجب غسل انجام دے اوراسی طرح احتياط واجب کی بنا پرجس دن روزہ رکھنے کا ارادہ ہو اس سے پهلے والی رات ميں نماز مغرب و عشا کے لئے بھی غسل کرے۔

مسئلہ ۴ ٢ ۵ اگرنمازعصرکے بعدمستحاضہ ہوجائے اورغروب تک غسل نہ کرے تو اس کا روزہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ۴ ٢ ۶ اگرمستحاضہ قليلہ، نمازسے پهلے متوسطہ یاکثيرہ ہوجائے تو ضروری ہے کہ مستحاضہ متوسطہ یاکثيرہ کے سلسلے ميں مذکورہ احکام پر عمل کرے اوراگراستحاضہ متوسطہ کثيرہ ہوجائے توضروری ہے کہ مستحاضہ کثيرہ کے کام انجام دے۔ لہٰذا اگر استحاضہ متوسطہ کے لئے غسل کياہوتواس کافائدہ نہيں ہے اورکثيرہ کے لئے دوبارہ غسل کرناضروری ہے ۔

مسئلہ ۴ ٢٧ اگرنمازکے دوران مستحاضہ متوسطہ، کثيرہ ہوجائے توضروری ہے کہ نماز توڑ دے اور استحاضہ کثيرہ کا غسل اوراس کے دوسرے کام انجام دے کردوبارہ نمازپڑھے اوراحتياط مستحب کی بنا پرغسل سے پهلے وضوکرے اور اگر غسل کے لئے وقت نہ ہو تو ضروری ہے کہ وضوکرکے غسل کے بدلے تيمم کرے اوراگرتيمم کيلئے بھی وقت نہ ہوتو احتياط واجب کی بنا پراسی حالت ميں نمازتمام کرے، ليکن وقت ختم ہونے کے بعدقضاکرناضروی ہے ۔

اسی طرح اگرنمازکے دوران مستحاضہ قليلہ، متوسطہ یاکثيرہ ہوجائے توضروری ہے کہ نمازتوڑ دے اور مستحاضہ متوسطہ یا کثيرہ کے وظائف انجام دے۔

مسئلہ ۴ ٢٨ اگرنمازکے دوران خون رک جائے اورمستحاضہ کومعلوم نہ ہوکہ اندربهی بند ہوا یا نہيں اور نماز کے بعد معلوم ہوکہ بندهوگياتهاتووضواورغسل ميں سے جو وظيفہ تھااسے انجام دے کردوبارہ نمازپڑھے۔

۷۰

مسئلہ ۴ ٢٩ اگرمستحاضہ کثيرہ، متوسطہ ہوجائے توضروری ہے کہ پهلی نمازکيلئے کثيرہ والے اوربعدوالی نمازوں کے لئے متوسطہ والے کام انجام دے، مثلا اگرنماز ظهرسے پهلے مستحاضہ کثيرہ، متوسطہ ہو جائے تو ضروری ہے کہ نماز ظہر کے لئے غسل کرے اور نماز عصر، مغرب اورعشا کے لئے وضو کرے، ليکن اگر نماز ظہر کے لئے غسل نہ کرے اورفقط نماز عصر پڑھنے کا وقت باقی ہو تونماز عصرکے لئے غسل کرناضروری ہے اور اگر نماز عصر کے لئے بھی غسل نہ کرے تو ضروری ہے کہ نماز مغرب کے لئے غسل کرے اور اگر اس کے لئے بھی غسل نہ کرے اورفقط نمازعشا پڑھنے کاوقت ہو تو نماز عشا کے لئے غسل کرناضروری ہے ۔

مسئلہ ۴ ٣٠ اگرہرنمازسے پهلے مستحاضہ کثيرہ کا خون رک جاتا ہو اور دوبارہ آجاتاہوتوخون رکنے کے وقت ميں اگر غسل کرکے نمازپڑھی جا سکتی ہو تو ضروری ہے کہ اس وقت کے دوران ہی غسل کرکے نمازپڑھے اوراگرخون رکنے کا وقفہ اتناطویل نہ ہوکہ طهارت کرکے نمازپڑھ سکے تووهی ایک غسل کافی ہے اوراگرغسل اورنمازکے کچھ حصے کے لئے وقت ہو تو احتياط واجب کی بناپراس وقت ميں غسل کرے نمازپڑھے۔

مسئلہ ۴ ٣١ اگرمستحاضہ کثيرہ، قليلہ ہوجائے توضروری ہے کہ پهلے نمازکے لئے کثيرہ والے اوربعدوالی نمازوں کے لئے قليلہ والے کام انجام دے اوراگرمستحاضہ متوسطہ، قليلہ ہوجائے توبهی ضروری ہے کہ پهلی نمازکے لئے متوسطہ کے وظيفے اور بعد والی نمازوں کے لئے قليلہ کے وظيفے پر عمل کرے۔

مسئلہ ۴ ٣٢ اگرمستحاضہ اپنے واجب وظيفے ميں سے کوئی ایک کام بھی ترک کرے تواس کی نمازباطل ہے ۔

مسئلہ ۴ ٣٣ جس مستحاضہ نے نمازکے لئے وضویاغسل کياہے احتياط واجب کی بنا پر حالت اختيار ميں اپنے بدن کے کسی حصے کو قرآن کی عبارت سے مس نہيں کرسکتی اور اضطرار کی صورت ميں جائز ہے ، ليکن احتياط کی بنا پر وضو کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ۴ ٣ ۴ جس مستحاضہ نے اپناواجب غسل انجام دیاہے اس کے لئے مسجد ميں جانا،مسجدميں ٹہرنا، واجب سجدے والی آیت کی تلاوت کرنااوراس کے شوهرکے لئے اس سے نزدیکی کرنا حلال ہے ، اگرچہ اس نے نماز ادا کرنے کے لئے انجام دئے جانے والے دوسرے کام مثلاً روئی اور کپڑا تبدیل کرنے کا کام انجام نہ دیا ہو اور بنا بر اقویٰ یہ سارے کام غسل کے بغيربهی جائز ہيں اگرچہ ترک کرنا احوط ہے ۔

مسئلہ ۴ ٣ ۵ اگرمستحاضہ کثيرہ اورمتوسطہ نمازکے وقت سے پهلے واجب سجدے والی آیت پڑھنا،مسجدجانایااس کاشوهراس سے نزدیکی کرناچاہے تو احتياط مستحب ہے کہ وہ عورت غسل کرلے۔

مسئلہ ۴ ٣ ۶ مستحاضہ پرنمازآیات واجب ہے اورنمازآیات کے لئے بھی وہ تمام کام ضروری ہيں جونمازیوميہ کے لئے گزرچکے ہيں اوراحتياط کی بنا پرمستحاضہ کثيرہ وضوبهی کرے۔

۷۱

مسئلہ ۴ ٣٧ جب بھی مستحاضہ پرنمازیوميہ کے اوقات ميں نمازآیات واجب ہوجائے اور دونوں نمازوں کو بلافاصلہ پڑھنا چاہے تب بھی ضروری ہے کہ یوميہ اورآیات دونوں نمازوں کے لئے عليٰحدہ عليٰحدہ مستحاضہ کے وظائف پر عمل کرے۔

مسئلہ ۴ ٣٨ مستحاضہ کے لئے ضروری ہے کہ قضا نمازوں کی ادائيگی پاک ہونے تک مو خٔرکردے اورقضاکے لئے وقت تنگ ہونے کی صورت ميں ضروری ہے کہ هرقضانمازکے لئے ادانمازکے واجبات بجالائے۔

مسئلہ ۴ ٣٩ اگرعورت جانتی ہوکہ اسے آنے والاخون زخم کاخون نہيں ہے اورشرعاً اس پرحيض ونفاس کا حکم بھی نہيں ہے توضروری ہے کہ استحاضہ کے احکام پر عمل کرے، بلکہ اگر شک ہو کہ خون استحاضہ ہے یادوسرے خونوں سے کوئی تو ان کی علامت نہ ہونے کی صورت ميں احتياط واجب کی بنا پراستحاضہ کے کام انجام دے۔

حيض

حيض وہ خون ہے جو غالباً ہر مهينے چند دنوں کے لئے عورتوں کے رحم سے خارج ہوتا ہے ۔

عورت کو جب حيض کا خون آئے تو اسے حائض کہتے ہيں ۔

مسئلہ ۴۴ ٠ حيض کا خون عموماً گاڑھا و گرم ہوتا ہے اور اس کا رنگ سياہ یا سرخ ہوتا ہے ۔ یہ شدت اور تهوڑی سی جلن کے ساته خارج ہوتا ہے ۔

مسئلہ ۴۴ ١ ساٹھ برس پورے کرنے کے بعد عورت یائسہ ہو جاتی ہے ، چنانچہ اس کے بعد اسے جو خون آئے وہ حيض نہيں ہے اور احتياط واجب یہ ہے کہ پچاس سال مکمل ہوجانے کے بعدسے ساٹھ سال کی عمر پوری ہونے تک یائسہ اور غير یائسہ دونوں کے احکام پر عمل کرے چاہے قریشی ہو یا غير قریشی، لہٰذا اس دوران اگر علاماتِ حيض کے ساته یا ایامِ عادت ميں خون آئے تو احتياط واجب کی بنا پر ان کاموں کو ترک کر دے جنہيں حائض ترک کرتی ہے اور مستحاضہ کے افعال بھی بجا لائے۔

مسئلہ ۴۴ ٢ اگر کسی لڑکی کو نو سال کی عمر تک پهنچنے سے پهلے خون آئے تو وہ حيض نہيں ہے ۔

مسئلہ ۴۴ ٣ حاملہ اور بچے کو دودھ پلانے والی عورت کو بھی حيض آنا ممکن ہے اور حاملہ وغير حاملہ کے درميان احکامِ حيض ميں کوئی فرق نہيں ہے ۔هاں، اگر حاملہ عورت اپنی عادت کے ایام شروع ہونے کے بيس روز بعد حيض کی علامات کے ساته خون دیکھے تو احتياط واجب کی بنا پر اس کے لئے ضروری ہے کہ حائضہ پر حرام کاموں کو ترک کردے اور مستحاضہ کے افعال بھی بجالائے۔

مسئلہ ۴۴۴ جس لڑکی کو معلوم نہ ہو کہ وہ نو سال کی ہو چکی ہے یا نہيں ، اگر اسے ایسا خون آئے جس ميں حيض کی علامات نہ ہوں تو وہ حيض نہيں ہے اور اگر اس خون ميں حيض کی علامات موجود ہوں تو وہ حيض ہے اور شرعاً اس کی عمر پورے نو سال ہوگئی ہے ۔

۷۲

مسئلہ ۴۴۵ جس عورت کو شک ہو کہ یائسہ ہوگئی ہے یا نہيں ، اگر وہ خون دیکھے اور نہ جانتی ہو کہ یہ حيض ہے یا نہيں تو اس کی ذمہ داری ہے کہ خود کو یائسہ نہ سمجھے۔

مسئلہ ۴۴۶ حيض کی مدت تين دن سے کم اور دس دن سے زیادہ نہيں ہوسکتی۔

مسئلہ ۴۴ ٧ حيض کے لئے ضروری ہے کہ پهلے تين دن لگاتار آئے، لہٰذا اگر مثال کے طور پر کسی عورت کو دو دن خون آئے پھر ایک دن نہ آئے اور پھر ایک دن خون آجائے تو وہ حيض نہيں ہے ، اگرچہ احتياط مستحب یہ ہے کہ دوسری صورت جيسی صورتحال ميں ان کاموں کو ترک کردے جنہيں حائض ترک کرتی ہے اور مستحاضہ کے افعال بھی بجا لائے۔

مسئلہ ۴۴ ٨ حيض کی ابتدا ميں خون کا باہر آنا ضروری ہے ، ليکن یہ ضروری نہيں کہ پورے تين دن خون نکلتا رہے، بلکہ اگر شرم گاہ ميں بھی خون موجود ہو تو کافی ہے ۔هاں، خون کا رحم ميں ہونا کافی نہيں ہے ، البتہ اگر تين دنوں ميں تهوڑے سے وقت کے لئے کوئی عورت پاک ہو بھی جائے جيسا کہ عورتوں کے درميان معمول ہے تب بھی وہ حيض ہے ۔

مسئلہ ۴۴ ٩ ضروری نہيں ہے کہ عورت پهلی اور چوتھی رات کو بھی خون دیکھے ليکن یہ ضروری ہے کہ دوسری اور تيسری رات کو خون منقطع نہ ہو۔ پس اگر پهلے دن اذانِ صبح کے وقت سے تيسرے دن غروب آفتاب تک متواتر خون آتا رہے اور کسی وقت قطع نہ ہو تو بغير کسی اشکال کے وہ حيض ہے ۔ اسی طرح سے اگر پهلے دن دوپہر سے خون آنا شروع ہو اور چوتھے دن اسی وقت قطع ہو تو وہ بھی حيض ہے ، ليکن اگر طلوعِ آفتاب سے شروع ہو کر تيسرے دن غروب تک رہے تو احتياط واجب کی بنا پر ان کاموں کو ترک کر دے جنہيں حائض ترک کرتی ہے اور مستحاضہ کے افعال بھی بجالائے۔

مسئلہ ۴۵ ٠ اگر کوئی عورت تين دن متواتر علامات حيض کے ساته یا عادت کے ایام ميں خون دیکھے اور پاک ہوجائے، چنانچہ اگر وہ دوبارہ علاماتِ حيض کے ساته یا عادت کے ایام ميں خون دیکھے تو جن دنوں ميں وہ خون دیکھے اور جن دنوں ميں وہ پاک ہو، ان تمام دنوں کو ملاکر اگر دس دنوں سے زیادہ نہ ہوں تو جن دنوں ميں وہ پاک تهی، وہ بھی حيض ہے ۔

مسئلہ ۴۵ ١ اگر کسی عورت کو تين دن سے زیادہ اور دس دن سے کم خون آئے اور اسے یہ علم نہ ہو کہ یہ خون پهوڑے یا زخم کا ہے یا حيض کا، تو اگر خون ميں علامات حيض موجود ہوں یا ایام عادت ہوں تو ضروری ہے کہ اسے حيض قرار دے۔ اس صورت کے علاوہ اگر جانتی ہو کہ سابقہ حالت طهارت تھی یا سابقہ حالت کو نہ جانتی ہو تو اپنے آپ کو پاک سمجھے اور اگر جانتی ہو کہ سابقہ حالت حيض تھی تو جهاں تک سابقہ حالت کے تمام خون اور مشکوک خون کا شرعاً حيض ہونا ممکن ہو، اسے حيض قرار دے۔

مسئلہ ۴۵ ٢ اگر کوئی عورت خون دیکھے جسے تين دن نہ گزرے ہوں اور جس کے بارے ميں اسے علم نہ ہو کہ زخم کا خون ہے یا حيض کا اور ایامِ عادت ميں نہ ہو اور اس ميں صفات حيض نہ ہوں، تواگر سابقہ حالت حيض ہو جيسا کہ سابقہ مسئلے ميں بيان ہوچکا، تو ضروری ہے کہ اسے حيض قرار دے ورنہ ضروری ہے کہ اپنی عبادات کو بجالائے۔

۷۳

مسئلہ ۴۵ ٣ اگر کسی عورت کو خون آئے اور اسے شک ہو کہ یہ خون حيض ہے یا استحاضہ ، تو اس ميں حيض کی شرائط موجود ہونے کی صورت ميں ضروری ہے کہ اسے حيض قرار دے۔

مسئلہ ۴۵۴ اگر کسی عورت کو خون آئے اور اسے یہ معلوم نہ ہو کہ یہ حيض ہے یا بکارت کا خون ، توضروری ہے کہ یااپنے بارے ميں تحقيق کرے یعنی روئی کی کچھ مقدار شرمگاہ ميں رکھے اور تهوڑی دیر انتظار کرے پھر روئی باہر نکالے، پس اگر خون روئی کے اطراف ميں لگا ہو تو خون بکارت ہے اور اگر خون ساری روئی تک پهنچ چکا ہو تو حيض ہے اور یا احتياط کرتے ہوئے ان کاموں کو بھی ترک کرے جو حائضہ پر حرام ہيں اور ان اعمال کو بھی انجام دے جو پاک عورت پر واجب ہيں ۔

مسئلہ ۴۵۵ اگر کسی عورت کو تين دن سے کم خون آئے اور پاک ہو جائے اور پھر تين دن تک ایام عادت یا علاماتِ حيض کے ساته آئے تو دوسرا خون حيض ہے اور پهلا خون اگرچہ ایام عادت ميں ہو حيض نہيں ہے ۔

حائضہ کے احکام

مسئلہ ۴۵۶ حائضہ پر چند چيزیں حرام ہيں :

اوّل: نماز جيسی عبادات جن کے لئے وضو، غسل یا تيمم کرنا پڑتا ہے ۔ ان عبادات کے حرام ہونے سے مراد یہ ہے کہ انہيں حکمِ خدا کی بجاآوری اور مطلوبيتِ شرعی کے قصد سے انجام دینا جائز نہيں ہے ۔ ليکن نماز ميت جيسی عبادات جن کے لئے وضو، غسل یا تيمم ضروری نہيں ہے ، انہيں انجام دینے ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

دوم:احکامِ جنابت ميں مذکورہ تمام چيزیں جو مجنب پر حرام ہيں ۔

سوم:فرج ميں جماع جو کہ مرد و عورت دونوں پر حرام ہے چاہے ختنہ گاہ کی مقدار سے بھی کم دخول ہو اور منی بھی نہ نکلے اور احتياط واجب کی بنا پر حائضہ کے ساته پشت کی جانب سے بھی وطی کرنے ميں اجتناب کرے۔ ہاں، حائضہ سے نزدیکی کے علاوہ بوسہ دینے اور چھيڑ چھاڑ جيسی لذت حاصل کرنے ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ۴۵ ٧ جماع کرنا ان ایام ميں بھی حرام ہے جب عورت کا حيض قطعی نہ ہو ليکن اس پر شرعاً خون کو حيض سمجھنا ضروری ہو، لہٰذا جو عورت دس دن سے زیادہ خون دیکھے اور آئندہ آنے والے حکم کی بنا پر ان ميں سے اپنی رشتہ دار خواتين کے حيض کی عادت والے ایام کو حيض قرار دینا ضروری ہو تو ان ایام ميں اس کا شوہر اس سے نزدیکی نہيں کرسکتا ہے ۔

۷۴

مسئلہ ۴۵ ٨ اگر مرد بيوی سے حالت حيض ميں نزدیکی کرے تو احتياط مستحب کی بنا پر ایام حيض کے پهلے حصے ميں اٹھ ارہ، دوسرے حصّے ميں نو اور تيسرے حصے ميں ساڑے چار چنے کے برابر سکہ دار سونا بطور کفارہ ادا کرے۔ مثلاً جس عورت کو چھ دن حيض آتا ہو اگر اس کا شوہر پهلی اور دوسری رات یا دن ميں اس سے جماع کرے تو اٹھ ارہ چنے کے برابر سونا، تيسری اور چوتھی رات یا دن ميں نَو چنے اور پانچویں اور چھٹی رات یا دن ميں نزدیکی کرے تو ساڑھے چار چنے کے برابر سونا دے اور عورت پر کفارہ نہيں ہے ۔

مسئلہ ۴۵ ٩ احتياط مستحب کی بنا پر حائضہ کے ساته پشت کی جانب سے نزدیکی کرنے کا کفارہ سابقہ مسئلے کے مطابق ادا کرے۔

مسئلہ ۴۶ ٠ اگر سکہ دار سونا نہ ہو تو اس کی قيمت ادا کرے اور اگر اس کی قيمت ميں ، جماع کرتے وقت اور فقير کو ادا کرتے وقت اختلاف ہو تو فقير کو ادا کرتے وقت کی قيمت حساب کرے۔

مسئلہ ۴۶ ١ اگر کوئی اپنی بيوی کے ساته ایام حيض کے پهلے، دوسرے اور تيسرے ہر حصے ميں جماع کرے تو احتياط مستحب کی بنا پر ہر حصّے کا کفارہ دے جو مجموعاً ساڑھے اکتيس چنے ہيں ۔

مسئلہ ۴۶ ٢ اگر حائضہ سے متعدد بار نزدیکی کرے تو احتياط مستحب ہے کہ ہر جماع کے لئے عليحدہ کفارہ دے۔

مسئلہ ۴۶ ٣ اگر مرد نزدیکی کے دوران مطلع ہو جائے کہ بيوی حائضہ ہوگئی ہے تو ضروری ہے کہ فوراً اس سے جدا ہو جائے اور اگر جدا نہ ہو تو احتياط مستحب کی بنا پر کفارہ دے۔

مسئلہ ۴۶۴ اگرمرد حائضہ عورت سے زنا کرے یا نامحرم حائضہ کو بيوی سمجھ کر اس کے ساته جماع کرے تو احتياط مستحب کی بنا پر کفارہ دے۔

مسئلہ ۴۶۵ جو شخص کفارہ دینے کی قدرت نہ رکھتا ہو احتياط مستحب کی بنا پر ایک فقير کو صدقہ دے اور اگر یہ بھی نہ کرسکے تو استغفار کرے۔

مسئلہ ۴۶۶ اگر کوئی شخص جاہل قاصر ہونے کی وجہ سے یا بھول کر اپنی بيوی سے حالت حيض ميں نزدیکی کرے تو کفارہ نہيں ہے ، ليکن جاہل مقصر ميں محل اشکال ہے ۔

مسئلہ ۴۶ ٧ اگر بيوی کو حائضہ سمجھتے ہوئے اس سے نزدیکی کرے اور بعد ميں معلوم ہو کہ حائضہ نہيں تھی تو کفارہ نہيں ہے ۔

مسئلہ ۴۶ ٨ اگر عورت کو حالت حيض ميں طلاق دے تو جيسا کہ طلاق کے احکام ميں بتایا جائے گا، ایسی طلاق باطل ہے ۔

مسئلہ ۴۶ ٩ گر عورت خود کے بارے ميں حائضہ ہونے یا پاک ہونے کی خبر دے تو قبول کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ۴ ٧٠ اگر عورت نماز پڑھتے ہوئے حائضہ ہو جائے تو اس کی نماز باطل ہے ۔

۷۵

مسئلہ ۴ ٧١ اگر عورت نماز پڑھتے ہوئے شک کرے کہ حائضہ ہوئی یا نہيں تو اس کی نماز صحيح ہے ، ليکن اگر نماز کے بعد معلوم ہو کہ نماز کے دوران حائضہ ہوگئی تھی تو اس حالت ميں پڑھی ہوئی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ۴ ٧٢ خون حيض سے پاک ہونے کے بعد اگر نماز اور دوسری عبادتيں جن کے لئے وضو، غسل یا تيمم ضروری ہوتا ہے ، انجام دینا چاہے تو ضروری ہے کہ غسل کرے اور اس کا طریقہ غسل جنابت کی طرح ہے اور احتياط مستحب ہے کہ غسل سے پهلے وضو بھی کرے۔

مسئلہ ۴ ٧٣ حيض سے پاک ہونے کے بعد اگر چہ غسل نہ کيا ہو، عورت کو طلاق دینا صحيح ہے اور اس وقت اس کا شوہر اس سے جماع بھی کرسکتا ہے ، ليکن جماع ميں احتياط واجب کی بنا پرضروری ہے شرمگاہ دهونے کے بعدهو اور احتياط مستحب ہے کہ غسل سے پهلے، خصوصاً جب شدید خواہش نہ ہو، مجامعت نہ کرے۔ ہاں، مسجد ميں ٹھ هرنے اور قرآن کے حروف کو مس کرنے جيسے کام جو حائضہ پر حرام تهے، جب تک غسل نہ کرے حلال نہيں ہوں گے۔

مسئلہ ۴ ٧ ۴ اگر اتنا پانی نہ ہو جس سے وضو اور غسل دونوں کئے جا سکيں ليکن صرف غسل کرنے کے لئے کافی ہو تو غسل کرنا ضروری ہے اور احتياط مستحب کی بنا پر وضوکے بدلے تيمم کرے اور اگر صرف وضو کرنے کے لئے پانی ہو اور غسل کے لئے نہ ہو تو ضروری ہے کہ وضو کرے اور غسل کے بدلے تيمم کرے اور اگر وضو اور غسل دونوں کے لئے پانی نہ ہو تو غسل اور وضو کے بدلے ایک ایک تيمم کرے۔

مسئلہ ۴ ٧ ۵ عورت نے جو نمازیں حالت حيض ميں ترک کی ہيں ان کی قضا نہيں ہے اور نماز آِیات کا حکم مسئلہ نمبر ” ١ ۵ ١ ۴ “ ميں آئے گا، جب کہ رمضان کے روزوں کی قضا کرناضروری ہے ۔هاں، معين نذر والے روزے یعنی نذر کی ہو کہ مثلاً فلاں دن روزہ رکہوں گی اور اسی دن حائضہ ہو تو احتياط واجب کی بنا پر قضا کرے۔

مسئلہ ۴ ٧ ۶ نماز کا وقت داخل ہونے کے بعد عورت جانتی ہو کہ اگر دیر کی تو حائضہ ہو جائے گی تو ضروری ہے کہ فوراً نماز پڑھے اور اگر احتمال ہو تب بھی احتياط واجب کی بنا پر یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ۴ ٧٧ اگر عورت اوّل وقت ميں نماز پڑھنے ميں تاخير کرے اور اتنا وقت گذر جائے کہ وہ اپنے حال کے اعتبار سے ایک شرائط رکھنے والی اور مبطلات سے محفوظ نماز انجام دے سکتی ہو اور حائضہ ہو جائے تو اس نماز کی قضا واجب ہے ۔ احتياط واجب کی بنا پر یهی حکم اس وقت بھی ہے جب وقت اتنا گذرا ہو کہ صرف حدث سے طهارت، چاہے تيمم کے ذ ریعے ہی سهی، کے ساته نماز ادا کر سکتی ہو، جب کہ اس کے لئے نماز کی باقی شرائط مثلاً ستر پوشی یا خبث سے طهارت کا انتظام کرنا ممکن نہ ہو۔

مسئلہ ۴ ٧٨ اگر عورت نماز کے آخر وقت ميں خون سے پاک ہو جائے اور ابهی اتنا وقت باقی ہو کہ غسل کرکے ایک یا ایک سے زیادہ رکعت نماز پڑھی جا سکے تو ضروری ہے کہ نماز پڑھے اور اگر نہ پڑھے تو اس کی قضا ضروری ہے ۔

۷۶

مسئلہ ۴ ٧٩ اگر حيض سے پاک ہونے کے بعد عورت کے پاس نماز کے وقت ميں غسل کرنے کی گنجائش نہ ہو، ليکن تيمم کرکے وقت نماز ميں نماز پڑھ سکتی ہو تو احتياط واجب ہے کہ تيمم کر کے نماز پڑھے اور نہ پڑھنے کی صورت ميں اس پر قضا نہيں ہے ۔ البتہ اگر کسی اور وجہ سے اس کی شرعی ذمہ داری تيمم ہو مثلاً اس کے لئے پانی مضر ہو تو واجب ہے کہ تيمم کر کے نماز پڑھے اور نہ پڑھنے کی صورت ميں قضا واجب ہے ۔

مسئلہ ۴ ٨٠ اگر حيض سے پاک ہونے کے بعد عورت شک کرے کہ نماز کے لئے وقت ہے یا نہيں تو ضروری ہے کہ اپنی نماز پڑھے۔

مسئلہ ۴ ٨١ اگر اس خيال سے کہ نماز کے مقدمات فراہم کر کے ایک رکعت نماز کے لئے بھی وقت نہيں ہے ، نماز نہ پڑھے، پھر بعد ميں معلوم ہو کہ وقت تھا تو اس نماز کی قضا کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ۴ ٨٢ مستحب ہے کہ حائضہ، نماز کے وقت ميں خود کو خون سے پاک کرے، روئی اور کپڑے کو تبدیل کرے، وضو کرے اور اگر وضو نہ کرسکتی ہو تو تيمم کرکے کسی پاک جگہ رو بقبلہ ہو کر بيٹھے اور نماز کی مقدار ميں ذکر، تسبيح تهليل اور حمد الٰهی ميں مشغول ہو۔

مسئلہ ۴ ٨٣ حائضہ کے لئے مهندی اور اس جيسی چيز سے خضاب کرنا اور بدن کے کسی حصے کو قرآن کے الفاظ کے درميانی حصّوں سے مس کرنا مکروہ ہے ۔هاں، قرآن ساته رکھنے اور پڑھنے ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

حائضہ عورتوں کی اقسام

مسئلہ ۴ ٨ ۴ حائضہ عورتوں کی چھ قسميں ہيں :

(اوّل) وقتيہ و عددیہ عادت والی عورت: یہ وہ عورت ہے جو مسلسل دو ماہ وقت معين پر خون دیکھے اور اس کے ایام حيض کی تعداد بھی دونوں مهينوں ميں مساوی ہو مثلاً مسلسل دو ماہ مهينے کی پهلی سے ساتویں تک خون دیکھے ۔

(دوم) و قتيہ عادت والی عورت: یہ وہ عورت ہے جو مسلسل دو ماہ تک وقت معين پر خون دیکھے ليکن دونوں مهينوں ميں اس کے ایام حيض کی تعداد برابر نہ ہو مثلاً مسلسل دو ماہ پهلی سے خون دیکھے ليکن پهلے مهينے ساتویں اور دوسرے مهينے آٹھ ویں تاریخ کو خون سے پاک ہو۔

۷۷

(سوم) عددیہ عادت والی عورت: یہ وہ عورت ہے جس کے ایام حيض کی تعداد مسلسل دو ماہ ایک دوسرے کے برابر ہو ليکن ان دونوںمهينوں ميں خون دیکھنے کا وقت ایک نہ ہو مثلاً پهلے مهينے پهلی سے پانچویں تک اور دوسرے مهينے بارہ سے سترہ تاریخ تک خون دیکھے ۔

اورایک مهينے ميں دو مرتبہ مساوی ایام ميں خون دیکھنے سے عادت طے ہونا محل اشکال ہے ، مثلاً مهينے کی ابتدا ميں پانچ روز اور دس یا زیادہ دنوں بعد دوبارہ پانچ روز خون دیکھے ۔

(چهارم) مضطربہ: یہ وہ عورت ہے جس نے چند ماہ خون دیکھا ہو ليکن اس کی عادت ہی معين نہ ہوئی ہو یا پرانی عادت بگڑ گئی ہو اور نئی عادت طے نہ ہوئی ہو ۔

(پنجم) مبتدئہ: یہ وہ عورت ہے جس نے پهلی مرتبہ خون دیکھا ہو۔

(ششم)ناسيہ: یہ وہ عورت ہے جو اپنی عادت بھول گئی ہو ان ميں سے ہر ایک کے مخصوص احکام ہيں جو آئندہ مسائل ميں بيان ہوں گے۔

١۔وقتيہ و عدديہ عادت والی عورت مسئلہ ۴ ٨ ۵ وقتيہ و عددیہ عادت والی خواتين کی دو اقسام ہيں :

(اوّل) وہ عورت جو مسلسل دو ماہ وقت معين پر حيض دیکھے اور وقت معين پر پاک ہو جائے مثلاً مسلسل دو ماہ پهلی سے خون دیکھے اور ساتویں کو پاک ہو جائے۔ لہٰذا اس عورت کی عادت مهينے کی پهلی سے ساتویں تک ہے ۔

(دوم) وہ عورت جو دو ماہ مسلسل وقت معين پر حيض دیکھے اور تين یا اس سے زیادہ دن گزرنے کے بعد ایک دن یا زیادہ ایام پاک رہے اور پھر دوبارہ حيض دیکھے ليکن خون والے اور درميانی پاکی والے ایام کا مجموعہ دس دن سے زیادہ نہ ہو اور دونوں مهينوں ميں خون والے اور درميانی پاکی کے ایام کا مجموعہ برابر ہو۔ لہٰذا اس کی عادت ان تمام ایام کی ہے کہ جن ميں خون دیکھا اور جن ميں پاک رہی ہے ، البتہ یہ ضروری نہيں ہے کہ دونوں مهينوں ميں درميانی پاکی کے ایام مساوی ہوں، مثلا اگر پهلے مهينے پهلی سے تيسری تاریخ تک خون دیکھے اور پھر تين دن پاک گزرنے کے بعد دوبارہ تين دن خون دیکھے اور دوسرے مهينے تين دن خون دیکھنے کے بعد تين دن سے کم یا زیادہ پاک رہے اور دوبارہ خون دیکھے اور مجموعہ نو دن ہو تو اس صورت ميں پورے نو دن حيض ہيں اور اس عورت کی عادت نو دن ہے ۔

۷۸

مسئلہ ۴ ٨ ۶ وقتيہ و عددیہ عادت والی عورت اگر اپنی عادت کے ایام ميں یا عادت سے اتنا پهلے خون دیکھے کہ عرفاً کها جائے کہ اس کی عادت جلدی آگئی ہے تو اگرچہ اس خون ميں حيض کی علامات نہ ہوں تب بھی ضروری ہے کہ حائضہ کے سلسلے ميں مذکورہ احکام پر عمل کرے۔هاں، اگر بعد ميں معلوم ہو کہ حيض نہيں تھا مثلاً تين دن پورے ہونے سے پهلے پاک ہو جائے تو ضروری ہے کہ جن عبادتوں کو ترک کيا تھا ان کی قضا کرے۔ یهی حکم اس وقت بھی ہے جب ایام عادت کی ابتدا ميں تاخير سے خون دیکھے ليکن عادت سے باہر نہ ہو، البتہ اگر ایام عادت کے تمام ہونے کے بعد خون دیکھے اور اس ميں حيض کی کوئی علامت نہ ہو تو اگر ایام عادت کے ختم ہونے کے دو یا زیادہ دنوں کے بعد ہو تو حيض نہيں ہے اور اگردو دن سے کم مدت ہو تو احتياط واجب کی بنا پر تروک حائض اور افعال مستحاضہ ميں جمع کرے۔

مسئلہ ۴ ٨٧ وقتيہ اور عددیہ عادت والی عورت اگر عادت کے تمام ایام کے ساته ساته عادت سے پهلے والے ایام ميں حيض کی علامات کے ساته یا اس طرح خون دیکھے کہ عرفاً کها جائے کہ اس کی عادت پهلے آگئی ہے اور عادت کے بعد کے ایام ميں بھی حيض کی علامات کے ساته خون دیکھے اور یہ سب مجموعی طور پر دس دن سے زیادہ نہ ہو تو سب حيض ہے اور اگر زیادہ ہو تو فقط عادت والا خون حيض ہے اور اس سے پهلے اور بعد والا استحاضہ ہے ۔ لہٰذا عادت سے پهلے اور بعد والے ایام ميں ترک کی ہوئی عبادات کی قضا ضروری ہے ۔

اگر عادت کے تمام ایام کے ساته عادت سے پهلے والے ایام ميں حيض کی علامات کے ساته یا اس طرح کہ عرفاً کها جائے کہ اس کی عادت پهلے آگئی ہے ، خون دیکھے جو مجموعی طور پر دس دن سے زیادہ نہ ہو تو سب حيض ہے اور اگر دس دن سے زیادہ ہو تو فقط عادت کے ایام حيض ہيں اور عادت سے پهلے والا خون استحاضہ ہے ۔ لہٰذا ان ایام ميں ترک کی ہوئی عبادات کی قضا ضروری ہے ۔

اگر عادت کے تمام ایام کے ساته ساته عادت کے بعد بھی حيض کی علامات کے ساته خون دیکھے جو مجموعی طور پر دس دن سے زیادہ نہ ہو تو سب حيض ہے اور اگر عادت کے بعد والے خون ميں حيض کی علامات نہ ہوں تو احتياط واجب کی بنا پر عادت کے بعد والے ایام ميں تروک حائض اور افعال استحاضہ ميں جمع کرے، البتہ اگر مجموعہ دس دن سے زیادہ ہو جائے تو عادت والے ایام حيض اور باقی استحاضہ ہيں ۔

۷۹

مسئلہ ۴ ٨٨ وقتيہ اور عددیہ عادت والی عورت اگر عادت کے کچھ دن اور عادت سے اتنا پهلے کہ عرفاً کها جائے کہ اس کی عادت جلدی آگئی ہے یا عادت سے پهلے حيض کی علامات کے ساته خون دیکھے جو مجموعی طور پر دس دن سے زیادہ نہ ہو تو سب حيض ہے اور اگر دس دن سے زیادہ ہو تو عادت کے ایام ميں آئے ہوئے خون کے ساته عادت سے پهلے والے جن ایام کا مجموعہ اس کی عادت کے برابر ہو وہ حيض ہے بشرطيکہ عادت سے پهلے والے خون کے بارے ميں عرفاً کها جاتا ہو کہ اس کی عادت جلدی آگئی ہے یا اس ميں حيض کی علامات ہوں اور ان سے پهلے والے ایام کو استحاضہ شمار کرے۔

اور اگر عادت کے کچھ دن اور اس کے بعد چند دن خون دیکھے جو مجموعی طور پر دس دن سے زیادہ نہ ہو اور عادت کے بعد والے خون ميں حيض کی علامات بھی موجود ہوں تو سب کا سب حيض ہے اور اگر عادت کے بعد والے خون ميں حيض کی علامات موجود نہ ہوں، تو عادت اور اس کے بعد والے جتنے ایام مل کر عادت کے دنوں کی تعداد بنتی ہوان کو حيض قرار دے اور اس کے بعد دسویں دن تک احتياط واجب کی بنا پر تروک حائض اور اعمال مستحاضہ ميں جمع کرے ۔ ہاں، اگر سب مل کر دس دن سے زیادہ ہو تو عادت کی مقدار کے ایام کو حيض اور باقی کو استحاضہ قرار دے۔

مسئلہ ۴ ٨٩ جو عورت عادت والی ہو، اگر تين دن یا اس زیادہ خون دیکھنے کے بعد پاک ہو جائے اور دوبارہ خون دیکھے اور دونوں خونوں کے درميان دس دن سے کم فاصلہ ہو اور خون دیکھنے والے ایام کے ساته درميان ميں پاک رہنے والے ایام کا مجموعہ دس دن سے زیادہ ہو مثلاً پانچ دن خون دیکھے پھر پانچ دن پاک رہے اور دوبارہ پانچ دن خون دیکھے تو اس کی چند صورتيں ہيں :

١) پهلی مرتبہ دیکھا ہوا سارا خون عادت کے ایام ميں ہو اور پاک ہونے کے بعد جو دوسرا خون دیکھا ہو وہ عادت کے دنوں ميں نہ ہو، اس صورت ميں پهلے والے سارے خون کو حيض اور دوسرے خون کو استحاضہ قرار دے۔ یهی حکم ہے جب پهلے خون کی کچھ مقدار عادت ميں اور کچھ مقدار عادت سے پهلے دیکھے بشرطيکہ خون عادت سے اتنا پهلے دیکھے کہ عرفاً کها جائے کہ اس کی عادت جلدی آگئی ہے یا حيض کی علامات کے ساته ہو، چاہے عادت سے پهلے ہو یا عادت کے بعد ہو۔

٢) پهلا خون عادت کے ایام ميں نہ ہو اور دوسرے خون ميں سے سارا یا کچھ خون پهلی صورت ميں مذکورہ طریقے کے مطابق عادت کے دنوں ميں ہو تو ضروری ہے کہ دوسری مرتبہ کے سارے خون کو حيض اور پهلے خون کو استحاضہ قرار دے۔

٣) پهلے اور دوسرے خون ميں سے تهوڑی تهوڑی مقدار عادت کے ایام ميں ہو اور پهلی مرتبہ کا جو خون عادت کے ایام ميں ہو وہ تين دن سے کم نہ ہو تو اس صورت ميں یہ مقدار درميانی پاکی اور دوسری مرتبہ کے عادت ميں آئے ہوئے خون کے ساته اگر دس دن سے زیادہ نہ ہو تو حيض ہے ، جب کہ پهلے خون ميں سے عادت سے پهلے والا اور دوسرے ميں سے عادت کے بعد والا خون استحاضہ ہے مثلاً اگر اس کی عادت مهينے کی تيسری سے دسویں تک ہو تو جب مهينے کی پهلی سے چھٹی تک خون دیکھے پھر دو دن پاک رہے اس کے بعد پندرہویں تک خون دیکھے تو تين سے دس تک حيض ہے اور پهلے، دوسرے اور گيارہ سے پندرہ تک استحاضہ ہے ۔

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

۶/۱۲

مے کشی

۷۱۱۔ امام علی (ع): خدا نے شراب خوری کے ترک کو عقل کی حفاظت کے لئے واجب کیا ہے ۔

۷۱۲۔ امام علی (ع): خدا نے شراب کو حرام کیا ہے ، اس لئے کہ اس میں تباہی ہے، اور شراب خوروںکی عقلوںکو تبدیل کر دیتی ہے ، نیز انکار خداا ور اللہ اور اس کے رسولوںپربہتان، دوسری تباہیوں اور قتل کا موجب ہے ۔

۶/۱۳

پانچ چیزوں کی مستی

۷۱۳۔ امام علی (ع): مناسب ہیکہ عقلمند خود کو مال کی مستی ، قدرت کی مستی ، علم کی مستی ، مدح و تعریف کی مستی اور جوانی کی مستی سے محفوظ رکھے؛ کیوں کہ یہ سب ناپاک بدبودار ہوائیںہیں کہ عقل کو سلب کرتی اور وقار کو سبک بناتی ہیں۔

۱۲۱

۶/۱۴

زیادہ لہوو لعب

۷۱۴۔ امام علی (ع): جو زیادہ لہو و لعب میں مبتلا ہوتا ہے اسکی عقل کم ہو جاتی ہے ۔

۷۱۵۔ امام علی (ع): جو شخص کھیل کا عاشق اور عیش و نشاط کا شیدائی ہوتا ہے ، عقلمند نہیں ہے ۔

۷۱۶۔ امام علی (ع): عقل کھیل کو د سے نتیجہ خیز نہیں ہوتی ہے۔

۷۱۷۔ امام علی (ع): جس شخص پر ہنسی مذاق کا غلبہ ہوتا ہے اسکی عقل تباہ ہو جاتی ہے ۔

۷۱۸۔ امام علی (ع): جو شخص زیادہ ہنسی مذاق میں مبتلا رہتا ہے اسکی بیہودگی بڑھ جاتی ہے ۔

۶/۱۵

بیکاری

۷۱۹۔ امام صادق(ع): ترک تجارت عقل کو کم کر دیتا ہے ۔

۷۲۰۔ امام صادق(ع): ترک تجارت عقل کو زائل کر دیتا ہے ۔

۷۲۱۔ فضیل اعور : کا بیان ہے کہ ، میں نے دیکھا کہ معاذ بن کثیر نے امام صادق(ع) سے عرض کیا: میں مالدار ہو چکا ہوں لہذا تجارت کو چھوڑنا چاہتا ہوں! امام نے فرمایا: اگر تم نے ایسا کیا تو تمہاری عقل کم ہو جائیگی۔( یا اس کے مانند امام نے کوئی جملہ کہا ہے)

۱۲۲

۷۲۲۔ کپڑے فروش معاذ: کا بیان ہے کہ امام صادق(ع) نے مجھ سے فرمایا: اے معاذ! کیا تجارت کرنے کی توانائی نہیں رکھتے یا اس سے بے رغبت ہو گئے ہو؟! میں نے عرض کیا نہ ناتواں ہو ا ہوں اور نہ ہی اس سے اکتایا ہوںفرمایا: پھرکیا وجہ ہے ؟ میں نے عرض کیا: آپ کے حکم کا منتظر تھا، جب ولید قتل ہوا اس وقت میرے پاس کافی مال تھا اور کسی کی کوئی چیز میرے پاس نہیں تھی ، اور گمان کرتا ہوں کہ تا زندگی کھاؤ نگا اور ختم نہیںہوگا، پس فرمایاتجارت نہ چھوڑوکیونکہ بیکاری عقل کو زائل کر دیتی ہے ، اپنے اہل و عیال کے لئے کوشش کرو؛ ایسا نہ کرو کہ وہ تمہاری بد گوئی کریں۔

۷۲۳۔ اسباط بن سالم(ہندوستانی کپڑے بیچنے والے) کا بیان ہے کہ ایک روز امام صادق ؑ نے کھدر کے کپڑے فروخت کرنے والے معاذ کے متعلق سوال کیا اور میں بھی وہاں موجود تھا، کہا گیا: کہ معاذ نے تجارت چھوڑ دی ہے ، امام نے فرمایا! شیطان کا عمل ہے؛ شیطان کا عمل ہے ؛ یقینا جو شخص تجارت کو چھوڑ دیتا ہے اسکی دو تہائی عقل زائل ہو جاتی ہے ۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ جب شام سے قافلہ پہنچا تو رسول خدا(ص) نے ان سے خریداری کی اور ان سے تجارت کی اور فائدہ حاصل کیا اور اپنے قرض کو ادا فرمایا۔

۶/۱۶

زیادہ طلبی

۷۲۴۔ امام علی (ع):ضرورت سے زیادہ طلب کرنے کے سبب عقلیں ضائع ہو جاتی ہیں۔

۱۲۳

۶/۱۷

نادان کی ہمنشینی

۷۲۵۔ امام علی (ع): جو شخص نادان کی ہمنشینی اختیار کرتا ہے اسکی عقل کم ہو جاتی ہے ۔

۷۲۶۔ امام علی (ع): عقل کی نابودی کا سبب نادانوں کی ہمنشینی ہے ۔

۶/۱۸

حد سے تجاوز کرنا

۷۲۷۔ امام علی (ع): جو اپنی حد اور حیثیت سے تجاوز کرتاہے عقلمند نہیں ہے ۔

۷۲۸۔ امام علی (ع): جو شخص اپنی بساط سے زیادہ قدم اٹھاتاہے عقلمند نہیںہے ۔

۶/۱۹

بیوقوفوں سے مجادلہ

۷۲۹۔ امام علی (ع): جو شخص بیوقوفوں سے مجادلہ کرتا ہے عقلمند نہیں ہے ۔

۱۲۴

۶/۲۰

عاقل کی بات پر کان نہ دھرنا

۷۳۰۔ امام علی (ع): جو شخص صاحبان عقل کی باتیں نہیں سنتا اسکی عقل مردہ ہو جاتی ہے ۔

۷۳۱۔ امام کاظم (ع): نے ۔ہشام بن حکم ۔ سے فرمایا: اے ہشام! جو شخص تین چیزوں کو تین چیزوں پر مسلط کریگا، گویا اس نے اپنی عقل کی پامالی میںمدد کی ہے: جس نے طولانی آرزو کے سبب اپنے چراغ فکر کو بجھا دیا، جس نے حکمت کی خوبیوں کو فضول کلامی کے باعث محو کر دےا، اور جس نے اپنی شہوات نفسانی کے ذریعہ عبرت آموزی کے نور کو خاموش کر دےا ، تو گویا اس نے اپنی عقل کی تباہی میں اپنی ہوا و ہوس کی مدد کی اور جس نے اپنی عقل تباہی کی اسکی دنیاو دین دونوں برباد ہو جائیں گے ۔

۶/۲۱

جنگلی جانور اور گائے کا گوشت

۷۳۲۔ امام رضا(ع): جنگلی جانوراور گائے کا گوشت زیادہ کھانے کے سبب عقل میں تبدیلی ، فہم میں حیرانی ، کند ذہنی اور بیشتر فراموشی پیدا ہو تی ہے ۔

۱۲۵

ساتویں فصل عاقل کے فرائض

۷/۱

عاقل کے واجبات

قرآن

(اے صاحبان عقل اللہ سے ڈرتے رہو شاید کہ تم اس طرح کامیاب ہو جاؤ)

( اے ایمان والو! اور عقل والو اللہ سے ڈرو کہ اس نے تمہاری طرف اپنے ذکر کو نازل کیا ہے )

حدیث

۷۳۳۔ رسول خدا(ص): چار چیزیں میری امت کے ہر عاقل و خرد مند پر واجب ہیں۔ دریافت کیا گیا، اے رسول خدا وہ چار چیزیں کیا ہیں: فرمایا: علم کا سننا، اس کا محفوظ رکھنا، نشر کرنا اور اس پر عمل کرنا۔

۷۳۴۔ رسول خدا(ص): عاقل وہ ہے جو خدا کی اطاعت کرتا ہے گرچہ بد صورت اور پست مقام رکھتا ہو۔

۷۳۵۔ رسول خدا(ص): جب عقل کے بارے میں پوچھا گیا۔ تو فرمایا: (عقل) طاعت خدا پر عمل ہے اور یقینا خدا کے احکام پر عمل کرنے والے ہی عقلمند ہوتے ہیں۔

۱۲۶

۷۳۶۔ رسول خدا(ص): اپنے رب کی اطاعت کرو عقلمند کہے جاؤ گے اور معصیت نہ کرو کہ جاہل کہے جاؤ گے ۔

۷۳۷۔ امام علی (ع): عاقل وہ ہے جو اپنے پروردگار کی اطاعت کی خاطر اپنی خواہشات نفس کی مخالفت کرتا ہے ۔

۷۳۸۔ امام علی (ع): اگر خدائے سبحان نے اپنی طاعت کی ترغیب نہ بھی کی ہوتی تو بھی وہ مستحق تھا کہ اسکی رحمت کی امید سے اسکی طاعت کی جائے ۔

۷۳۹۔ امام علی (ع)؛ آپ سے منسوب کلمات قصارمیں ہے۔ عقلمند پر لازم ہے کہ حکمت کے ذریعہ عقل کو زندہ کرنے کےلئے زیادہ کوشاں رہے ان غذاؤں کی نسبت کہ جن سے اپنے جسم کو زندہ رکھتا ہے ۔

۷۴۰۔ امام علی (ع): اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو! اسطرح جسطرح وہ صاحب عقل ڈرتا ہے جسکے دل کو فکر آخرت نے مشغول کر لیا ہو اور اسکا بدن خوفِ خدا سے خستہ حال ہے اور شب داری نے اسکی بچی کھچی نیند کو بھی شب بیداری میں بدل دیا ہو اور امیدوںنے اسکے دل کی تپش کو پیاس میں گذار دیا ہو ۔اور زہد نے اسکے خواہشات کو پیروں تلے روند دیا ہو اور ذکر خدا اسکی زبان پر تیزی سے دوڑ رہا ہو اور اس نے قیامت کے امن و امان کےلئے یہی خوف کا راستہ اختیار کر لیاہو اور سیدھی راہ پر چلنے کےلئے ٹیڑھی راہوں سے کترا کر چلا ہو اور مطلوب راستے تک پہنچنے کےلئے درمیانی راستہ اختیار کیا ہو،۔ نہ خوش فریبیوں نے اس میں اضطراب پیدا کیا ہو اور نہ مشتبہ امور نے اسکی آنکھوںپر پردہ ڈالا ہو، بشارت کی مسرت اور نعمتوںکی راحت بہترین نیند اور پر امن ترین دن میں حاصل کر لی ہو۔

دنیا کی گذر گاہ سے قابل تعریف انداز سے گذر جائے اور آخرت کا زاد راہ نیک بختی کے ساتھ آگے بھیج دے وہاںکے خطرات کے پیش نظر عمل میں سبقت کی اور مہلت کے اوقات میں تیز رفتاری سے قدم بڑھایا، طلب آخرت میں رغبت کےساتھ آگے بڑھا اور برائیوں سے مسلسل فرار کرتا رہا۔ آج کے دن کل پر نگاہ رکھی، اور ہمیشہ اگلی منزلوںکو دیکھتا رہا۔

لہذا یقینا ثواب و عطا کےلئے جنت اور عذاب و وبال کےلئے جہنم سے بالا تر کیا ہے اور پھر خدا سے بہتر مدد کرنے والا اور انتقام لینے والا کون ہے اور قرآن کے علاوہ حجت اور سند کیا ہے ۔

۱۲۷

۷/۲

عاقل کے لئے حرام اشیائ

قرآن

(کہدیجئے کہ آؤ ہم تمہیں بتائیں کہ تمہارے پروردگار نے کیا کیا حرام کیا ہے ، خبردار کسی کو اسکا شریک نہ بنانا اور ماں باپ کےساتھ اچھا برتاؤ کرنا اپنی اولاد کو غربت کی بنا پر قتل نہ کرنا کہ ہم تمہیں بھی رزق دے رہے ہیں اور انہیں بھی، اور بدکاریوں کے قریب نہ جانا وہ ظاہرہوں یا چھپی ہوئی اور کسی ایسے نفس کو جسے خدا نے حرام کر دیا ہے قتل نہ کرنا مگر یہ کہ تمہارا کوئی حق ہو، یہ وہ باتیں ہیں جنکی خدا نے تمہیں نصیحت کی ہے تاکہ تمہیں عقل آجائے)

حدیث

۷۴۱۔ امام علی (ع): اگر خدا نے محرمات سے روکا نہ بھی ہوتا تو بھی وہ مستحق تھا کہ عقلمند ان سے اجتناب کرے۔

۷۴۲۔ امام علی (ع): اگر خدا نے اپنی نافرمانی پر عتاب کا وعدہ نہ بھی کیا ہوتا تو بھی وہ مستحق تھا کہ شکر نعمت کے عنوان سے اسکی نافرمانی نہ کی جائے ۔

۷۴۳۔ امام علی (ع): منعم کم از کم جس چیز کا استحقاق رکھتا ہے وہ یہ ہےکہ اسکی نعمتوں کے سبب اسکی نافرمانی نہ کی جائے۔

۷۴۴۔ امام علی (ع): گناہوں سے پرہیزعقلمندوںکی صفت اور بزرگواروںکی عادت ہے ۔

۷۴۵۔ امام علی (ع): عقلمند وہ ہے جو گناہوںسے دور اور لغزشوں سے پاک ہوتاہے ۔

۱۲۸

۷۴۶۔ امام علی (ع): عقلمند کی کوشش گناہوں کے ترک اور عیوب کی اصلاح کے لئے ہوتی ہے ۔

۷۴۷۔ امام علی (ع): عقل برائیوں سے پاک کرتی ہے اور نیکیوں کا حکم دیتی ہے۔

۷۴۸۔ امام علی (ع): عاقل جھوٹ نہیں بولتا اور مومن زنا کا ارتکاب نہیں کرتا۔

۷۴۹۔ امام علی (ع): فطرت عقل برے کاموں سے روکتی ہے ۔

۷۵۰۔ امام علی (ع): عقلمندی کی نشانی اسراف سے اجتناب اور اچھی تدبیرہے ۔

۷۵۱۔ امام علی (ع): دور اندیشی کے لئے اسکی عقل کی بدولت پستیوں سے ایک باز رکھنے والا ہوتا ہے ۔

۷۵۲۔ امام علی (ع): عقل کی اساس، پاکدامنی اور اس کا پھل گناہوں سے بیزاری ہے ۔

۷۵۳۔ امام علی (ع): دلوں کے لئے برے خیالات ہیں لیکن عقلیں دلوں کوان سے باز رکھتی ہیں۔

۷۵۴۔ امام علی (ع): نفوس آزاد ہیں لیکن عقلیں انہیں آلودگیوں سے باز رکھتی ہیں۔

۷۵۵۔ امام علی (ع): عقلمند جھوٹ نہیں بولتا چاہے اس کے فائدہ ہی میں ہو۔

۱۲۹

۷/۳

عاقل کے لئے مناسب اشیائ

۷۵۶۔ رسول خدا(ص): عاقل اگر عاقل ہے تو اسے چاہئے کہ اپنے دن کے اوقات کو چار حصوں میں تقسیم کرے: ایک حصہ میں ، اپنے پروردگار سے مناجات کرے، ایک حصہ میں اپنے نفس کا محاسبہ کرے، ایک حصہ میںایسے صاحبان علم کے پاس جائے جو اسے دین سے آشنا اور نصیحت کریں اور ایک حصہ کو اپنے نفس اور دنیا کی حلال و حسین لذتوںکے لئے مخصوص کرے۔

۷۵۷۔ ابو ذر غفاری: میں نے پوچھا اے رسول خدا: صحف ابراہیم میں کیا تھا؟ فرمایا: اس میں امثال اور عبرتیں تھیں: اگر عقلمند کی عقل مغلوب نہیں ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اپنی زبان کی حفاظت کرے ، اپنے زمانہ سے واقفیت رکھے اور اپنے کام کی طرف متوجہ رہے ، یقینا ہر وہ شخص جس کا کلام اس کے عمل کے مطابق ہوتاہے تو وہ کم سخن ہو جاتاہے مگر یہ کہ جو اس سے مربوط ہو۔

۷۵۸۔ رسول خدا(ص): مناسب ہے کہ عاقل تین چیزوںکے علاوہ گھر سے باہر قدم نہ نکالے: کسب معاش کےلئے، یا آخرت کے لئے یا غیر حرام سے لذت کے لئے۔

۷۵۹۔ رسول خدا(ص):نے علی (ع): کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا:اے علی ! مناسب نہیں ہے کہ عاقل تین چیزوںکے علاوہ گھر سے قدم نکالے : کسب معاش کے لئے ، قیامت کے لئے زادراہ مہیا کرنے کے لئے اورغیر حرام سے لذت اندوزی کے لئے ۔

۷۶۰۔ رسول خدا(ص): عاقل کے لئے ضروری ہے کہ اپنے زمانہ سے آگاہی رکھتا ہو۔

۷۶۱۔ امام علی (ع): نے ۔ اپنے بیٹے اما م حسن ؑ۔ کو وصیت کرتے ہوئے ۔ فرمایا: بیٹا! عاقل کے لئے ضروری ہے کہ اپنے موقع کی نزاکت کو دیکھے۔ اپنی زبان کی حفاظت کرے اور اہل زمانہ کو پہچانے۔

۱۳۰

۷۶۲۔ امام صادق(ع): فرماتے ہیں کہ حکمت آل داؤدمیں ہے عقلمند کےلئے لازم ہےکہ وہ اپنے زمانہ سے واقف ہو، اپنی حیثیت کی طرف متوجہ ہو اور اپنی زبان پر قابو رکھے۔

۷۶۳۔ رسول خدا(ص): خدا پر ایمان کے بعدعقل کا سرمایہ ، حیا اور حسن اخلاق ہے ۔

۷۶۴۔ رسول خدا(ص):خدا پر ایمان کے بعد عقل کا سرمایہ لوگوںسے اظہار محبت ہے ۔

۷۶۵۔ رسول خدا(ص): دین کے بعد عقل کاسرمایہ لوگوںکے ساتھ اظہار محبت اور ہر اچھے اور برے کے ساتھ نیکی کرنا ہے ۔

۷۶۶۔ رسول خدا(ص): عقل کی اساس مہربانی کرنا ہے ۔

۷۶۷۔ رسول خدا(ص): خدا پر ایمان کے بعد عقل کا سرمایہ لوگوںکے ساتھ مہربانی کرنا ہے مگر یہ کہ کوئی حق ضائع نہ ہو۔

۷۶۸۔ امام علی (ع): عقل کا سرمایہ کاموں میں اطمینان ہے اور حماقت کا سرمایہ عجلت پسندی ہے ۔

۷۶۹۔ اما م حسن ؑ: عقل کا سرمایہ لوگوںکے ساتھ حسن ِ معاشرت ہے ۔

۷۷۰۔ امام علی (ع): عقل کا سرمایہ خواہشات نفسانی سے جہاد ہے ۔

۷۷۱۔ امام علی (ع): عقل کے ذریعہ خواہشات نفسانی کا مقابلہ کرو۔

۷۷۲۔ امام علی (ع): جس شخص کی عقل اسکی خواہشات پر غالب آگئی وہ کامیاب ہو گیا۔

۷۷۳۔ امام علی (ع): جس شخص کی عقل اسکی شہوت پراور بردباری اس کے غیظ و غضب پر غالب آجائے تو وہ حسن سیرت کا مستحق ہے ۔

۷۷۴۔ امام علی (ع): غیظ و غضب کا خاموشی کے سبب اور شہوت کا عقل کے ذریعہ علاج کرو۔

۱۳۱

۷۷۵۔ امام علی (ع): خواہشات نفسانی کو اپنی عقل کے ذریعہ قتل کر دو تاکہ ہدایت یافتہ ہو جاؤ۔

۷۷۶۔ امام علی (ع): بردباری چھپانے والا پردہ ہے اورعقل شمشیر براں ہے ، لہذا اپنے اخلاق کی کمیوںکو بردباری سے چھپاؤ اور خواہشات کو عقل کے ذریعہ قتل کردو۔

۷۷۷۔ امام علی (ع): خبردار، خبردار، اے سننے والو!کوشش، کوشش، اے عقلمندو! آگاہ شخص کے مانند تمہیں کوئی خبر نہیںدے سکتا۔

۷۷۸۔ امام علی (ع): لہو و لعب میں مبتلا عاقل ہدایت تک نہیں پہنچتا لیکن کوشش اور جد و جہد کرنے والا پہنچتا ہے ۔

۷۷۹۔ امام علی (ع): ضروری ہے کہ عاقل قیامت کے لئے کوشش کرے اور زیادہ سے زیادہ توشہ فراہم کرے۔

۷۸۰۔ امام علی (ع): عاقل کے لئے سزاوار ہے کہ ہمیشہ رہنمائی کا خواہاں ہو اور خود رائی ترک کر دے۔

۷۸۱۔ امام علی (ع): مناسب ہے کہ عاقل کسی بھی حالت میں اطاعت پروردگار اور جہاد بالنفس سے دستبردار نہ ہو۔

۷۸۲۔ امام علی (ع): عاقل کے لئے ضروری ہے کہ اپنے مال کے سبب تعریف حاصل کرے اور خود کو سوال سے محفوظ رکھے۔

۷۸۳۔ امام علی (ع): عاقل کے لئے سزاوار ہے کہ علماء اور ابرار کی ہمنشینی زیادہ سے زیادہ اختیار کرے ، اور اشرار و فجار کی ہمنشینی سے پرہیز کرے۔

۷۸۴۔ امام علی (ع): عاقل کے لئے ضروری ہے کہ جب تعلیم دے تو سختی سے پیش نہ آئے اور جب تحصیل کرے تو لاپروائی نہ کرے۔

۷۸۵۔ امام علی (ع): عاقل کے لئے ضروری ہے کہ جب جاہل کو خطاب کرے تو اس طرح کرے جیسے طبیب، مریض سے کرتاہے ۔

۱۳۲

۷۸۶۔ امام علی (ع): عاقل کے لئے ضروری ہے کہ اپنے چہرے کو آئینہ میں دیکھے اگر حسین ہے تو اس کے ساتھ قبیح عمل کو مخلوط نہ کرے کہ حسن و قبیح یک جا ہو جائیں ، اور اگر قبیح ہو ، تو بھی قبیح عمل انجام نہ دے کہ دو قبیح یک جا ہو جائیں گے۔

۷۸۷۔ امام علی (ع): عاقل کے لئے ضروری ہے کہ جب کسی مصیبت میں گرفتار ہو جائے تو صبرکرے یہاں تک کہ اس کا وقت گذر جائے، چونکہ اس کا وقت گذرنے سے قبل اس کے دور کرنے کی کوشش مزید رنج کا باعث ہوگی ۔

۷۸۸۔ امام علی (ع): ضروری ہے کہ انسان کا علم اس کے نطق سے زیادہ ہو اور اسکی عقل اسکی زبان پر غالب ہو۔

۷۸۹۔ امام علی (ع): آ پ سے منسوب کلمات قصارمیںہے ، عاقل کے لئے ضروری ہے کہ ضرورت کے وقت نرمی سے پیش آئے اور ہر زہ سرائی سے پرہیز کرے۔

۷۹۰۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصارمیںہے ۔ عاقل کے لئے سزاوار ہے کہ غذا کی لذت کے وقت دوا کی تلخی کو یاد کرے۔

۷۹۱۔امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصارمیں ہے ۔ عاقل کے لئے ضروری ہے کہ اپنی نیکی و خوبی کو جاہل، پست اور بیوقوفوں کے سپرد نہ کرے، اس لئے کہ جاہل خوبی کو نہیں پہچانتا اور نہ ہی اس کا شکر کرتا ہے ۔

۷۹۲۔امام صادق(ع): عاقل کے لئے ضروری ہیکہ سچا ہو تاکہ اس کے قول پر اعتماد کیا جائے اور شکر گذار ہو تاکہ شکر فراوانی (نعمت) کا موجب ہو۔

۷۹۳۔ امام علی (ع): عاقل کے لئے ہر کام میں نیکی ہے اور جاہل کے لئے ہر حالت میں خسارہ ہے ۔

۷۹۴۔ امام علی (ع): عاقل کے لئے ہر کام میں ریاضت ہے ۔

۷۹۵۔ امام علی (ع): عاقل کے لئے ہر کلمہ میں شرافت و فضیلت ہے ۔

۱۳۳

۷۹۶۔ امام علی (ع): عاقل کے لئے ضروری ہے کہ دین ، رائے ، اخلاق اور ادب میں اپنی برائیوںکو شمار کرے اور انہیں اپنے سینہ یا ڈائری میں لکھے پھر ان کے ازالہ کی کوشش کرے۔

۷۹۷۔ امام صادق(ع): عاقل کے لئے علم و ادب کا سیکھنا ضروری ہے کیوں کہ اسی پر اس کا دار و مدار ہے۔

۷۹۸۔ امام صادق(ع): زیارت امام حسین (ع) میں ۔ فرماتے ہیں: بار الٰہا: بیشک میںگواہی دیتا ہوںکہ یہ قبر تیرے حبیب اور خلق میں تیرے برگزیدہ کے فرزند کی ہے ، وہ تیری کرامت کے سبب کامیاب ہیں ، تونے ان کواپنی کتاب کے ذریعہ مکرم کیا ہے ، تونے ان کو اپنی وحی کا امین شمار کیا ہے اور ان کو اس سے مخصوص کیا ہے ، تونے ان کو انبیاء کی میراث عطا کی ہے، اور ان کو اپنی مخلوق پر حجت قرار دیا ہے تو انہوںہے بھی اتمام حجت میں امت سے تمام عذر کو دور کر دیا اور تیری راہ میں اپنا خون بہایا تاکہ تیرے بندوں کو گمراہی و جہالت ، تاریکی اور شک و تردید سے نجات دیں اور تباہی و پستی سے ہدایات و روشنی کی طرف رہنمائی کریں۔

۷۹۹۔ امام صادق(ع): روز اربعین زیارت امام حسین (ع) میں۔ فرماتے ہیں: خدایا! میں گواہی دیتا ہوںکہ وہ تیرے دوست اور تیرے ولی کے فرزند اور تیرے برگزیدہ اور گزیدہ کے فرزند ہیں۔ تیری کرامت پر فائز ہیں، تونے انکو شہادت کے ذریعہ مکرم کیا ہے، اور انکو سعادت سے مخصوص کیا ہے ، انکو پاکیزگی ولادت کے ساتھ منتخب کیاہے، اور انکو سرداروں میں سے سردار بنا یا ہے، اور قائدوں میںسے قائد بنایا ہے ، اور اسلام سے دفاع کرنے والوں میں ایک بڑا دفاع کرنے والا بنایا ہے اور تونے انکو انبیاء کی میراث عطا کی ہے ، اور اپنے اوصیاء میں سے انکو اپنی مخلوق پر حجت قرار دیا ہے تو انہوںنے بھی اتمام حجت میں امت سے تمام عذر کو دور کر دیا اور امت کی نصیحت کو انجام دیا اور تیری راہ میں اپنا خون بہایا تاکہ تیرے بندوں کو جہالت اور گمراہی کی حیرانی سے نجات دیں۔

۸۰۰۔ امام کاظم (ع): عاقل کے لئے ضروری ہے کہ۔ جب کوئی کام انجام دے تو خدا سے شرم کرے اور جب نعمتوں سے سرشار ہو تو اپنے ساتھ اپنے علاوہ کسی اور کو شریک کرے۔

۸۰۱۔امام رضا(ع): جو خدا کی معرفت رکھتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ خدا کو قضا و قدر میں متہم قرار نہ دے اور رزق دینے میں اس کو سست شمار نہ کرے۔

۱۳۴

۷/۴

عاقل کے لئے نامناسب اشیائ

۸۰۲۔امام علی (ع): عاقل کے لئے سزاوار نہیں ہے کہ امید کی بنا پر خوشی کا اظہار کرے؛ کیوں کہ امید دھوکا ہے ۔

۸۰۳۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصارمیں ہے ۔ عاقل کے لئے مناسب نہیں ہے کہ دوسروں سے اپنی اطاعت کرائے جبکہ خوداسکا نفس اس کا مطیع نہ ہو۔

۸۰۴۔ امام علی (ع): عاقل کےلئے سزاوار نہیں ہے کہ جب راہ امن حاصل ہو جائے تو وہ خوف سے گوشہ نشینی اختیار کرے۔

۸۰۵۔ اما م علی (ع): تعجب ہے کہ عقلمند شہوت پر کس طرح نظر ڈالتا ہے کہ بعد میں اس کےلئے حسرت و ندامت کا باعث ہوتی ہے۔

۸۰۶۔ امام علی (ع): شریح بن حارث کے نام اپنے خط میں تحریر فرماتے ہیں۔ میںنے سنا ہے کہ تم نے اسّی دینار کا مکان خریدا ہے اور اس کے لئے بیعنامہ بھی لکھا ہے اور اس پر گواہی بھی لی ہے؟

اے شریح!عنقریب تیرے پاس وہ شخص آنے والا ہے جو نہ اس تحریر کو دیکھے گا اور نہ تجھ سے گواہوں کے بارے میں سوال کریگا بلکہ تجھے اس گھر سے نکال کر تنِ تنہا قبر کے حوالے کر دیگا۔اگر تم نے یہ مکان دوسرے کے مال سے خریدا ہے اور غیر حلال سے قیمت اداکی ہے تو تمہیں دنیا و آخرت دونوں میں خسارہ ہوا ہے ۔یاد رکھو! اگر تم اس مکان کو خریدتے وقت میرے پاس آتے اور مجھ سے دستاویز لکھواتے تو ایک درہم میں بھی خریدنے کے لئے تیار نہ ہوتے۔ اسی دینار تو بہت بڑی بات ہے ، میں اسکی دستاویز اس طرح لکھتا: یہ وہ مکان ہے جسے ایک بندہ ذلیل نے اس مرنے والے سے خرید ا ہے جسے کوچ کے لئے آمادہ کر دیا گیا ہے ، یہ مکان دنیائے پر فریب میں واقع ہے جہاں فنا ہونے والوں کی بستی ہے اور ہلاک ہونے والوں کا علاقہ ہے

۱۳۵

۔ اس مکان کے حدود اربعہ یہ ہےں؛ ایک حد اسباب آفات کی طرف ہے اور دوسری اسباب مصائب سے ملتی ہے ۔ تیسری حد ہلاک کر دینے والی خواہشات کی طرف ہے اور چوتھی گمراہ کرنے والے شیطان کی طرف اور اسی طرف اس گھر کا دروازہ کھلتا ہے ۔ اس مکان کو امیدوں کے فریب خوردہ نے اجل کے راہ گیر سے خریدا ہے ، جس کے ذریعہ قناعت کی عزت سے نکل کر طلب و خواہش کی ذلت میں داخل ہو گیا ہے ۔ اب اگر اس خریدار کو اس سو دے میں کوئی خسارہ ہوا تو یہ اس ذات کی ذمہ داری ہے جو بادشاہوں کے جسموںکا تہہ و بالا کرنے والا ۔ جابروںکی جان نکال لینے والا۔ فرعونوں کی سلطنت کو تباہ کر دینے والا، کسریٰ، قیصر، تبع اور حِمیر اورزیادہ سے زیادہ مال جمع کرنے والوں ، مستحکم عمارتیں بنا کر انہیں سجانے والوں ، ان میں بہترین فرش بچھانے والوں اور اولاد کے خیال سے ذخیرہ کرنے والوں اور جاگیر بنانے والوںکو فنا کے گھاٹ اتار دینے والا ہے۔ کہ ان سب کو قیامت موقف حساب اور منز ل ثواب عذاب میں حاضر کر دے جب حق و باطل کا حتمی فیصلہ ہوگا'' اور اہل باطل یقینا خسارہ میںہوں گے'' میری ان باتوں کی گواہی اس عقل نے دی ہے جو خواہشات کی قید سے آزاد اور دنیا کی وابستگیوں سے محفوظ ہے''۔

۸۰۷۔ امام صادق(ع): تین چیزیں ایسی ہیں کہ عاقل کو انہیں ہر گز فراموش نہیں کرنا چاہئے:

دنیا کی بے ثباتی، حالات کی تبدیلی اور وہ آفات کہ جن سے اماں نہیں۔

۱۳۶

دوسرا حصہ

جہل

اس حصہ کی فصلیں:

پہلی فصل : مفہوم جہل

دوسری فصل : جہل سے پرہیز

تیسری فصل : جاہلوں کے اقسام

چوتھی فصل : جہل کے علامات

پانچویں فصل : جاہل کے احکام

چھٹی فصل : پہلی جاہلیت

ساتویں فصل : دوسری جاہلیت

آٹھویں فصل : جاہلیت کا خاتمہ

۱۳۷

پہلی فصل مفہوم جہل

۸۰۸۔ امام حسن ؑ:نے اپنے والد کے جواب میں جب جہل کی تعریف کے متعلق پوچھا ۔تو فرمایا: فرصت سے فائدہ اٹھانے کی قدرت نہ ہونے کے باوجود اس پر جلدی سے ٹوٹ پڑنا اور جواب دینے سے عاجز رہنا ہے۔

۸۰۹۔ امام علی (ع): محال امور میں تمہاری رغبت کا ہونا نادانی ہے ۔

۸۱۰۔ امام علی (ع): دنیا کی فریبکاریوںکو دیکھتے ہوئے اس کی طرف رخ کرنا جہالت ہے ۔

۸۱۱۔ امام علی (ع): بغیر کوشش و عمل کے رتبہ و مقام کا طلب کرنا نادانی ہے ۔

۸۱۲۔ عیسیٰؑ: نے اپنے حواریوں سے فرمایا: دیکھو تمہارے اندر جہالت کی دو نشانیاں ہیں: بلا سبب ہنسنا اور شب زندہ داری کے بغیر صبح کو سونا۔

۸۱۳۔ امام علی (ع): شب زندہ داری کے بغیر سونا جہالت کی نشانی ہے۔

۸۱۴۔ امام صادق(ع): بلا سبب ہنسنا نادانی کی نشانیوں میں سے ہے ۔

۸۱۵۔ امام صادق(ع): جہالت تین چیزوں میں ہے: دوست بدلنا،بغیر وضاحت کے علیحدگی، اس چیز کی جستجو کرنا جس میں کوئی فائدہ نہیںہے۔

۱۳۸

۸۱۶۔ امام صادق(ع): مصباح الشریعہ میں آ پ سے منسوب کلام میں ہے ۔ جہالت ایسی صورت ہے جو اولاد آدم میں قرار دی گئی ہے، اسکی طرف رخ کرنا تاریکی اور گریز کرنا روشنی ہے، بندہ اس کے ساتھ ساتھ اس طرح پھرتا ہے جیسے سورج کے ساتھ ساتھ سایہ ، کیا ایسے انسان کو نہیں دیکھتے جو اپنی خصوصیات سے ناواقف ہے لیکن اپنی تعریف کرتاہے حالانکہ اسی عیب کو جب دوسروں میں ملاحظہ کرتا ہے تو اس سے نفرت کرتا ہے ۔ اور کبھی اسے دیکھتے ہو ۔

جو اپنی کچھ ذاتی خصوصیات سے آشنا ہوتاہے اور ان سے نفرت کرتا ہے حالانکہ جب اپنے غیر میںمشاہدہ کرتاہے تو تعریف کرتا ہے پس ایسا انسان عصمت و رسوائی کے درمیان سرگرداں ہے ، اگر عصمت کی طرف رخ کیا تو واقع تک پہنچ جائیگا اور اگر رسوائی کی طرف رخ کیا تو واقع سے دور ہو جائیگا۔

جہالت کی کنجی خوشنودی اور اس پر اعتقاد ہے ، علم کی کنجی توفیق کی موافقت کے ساتھ تبادلہ ہے ، اور جاہل کی پست ترین صفت یہ ہے کہ بغیر لیاقت کے علم کا دعویٰ کرتا ہے اور اس سے بھی بدتر اس کا اپنی جہالت سے ناواقف ہونا ہے اور اسکی بالا ترین صفت جہالت سے انکار ہے جہالت اوردنیاو حرص کے علاوہ کوئی چیز ایسی نہیں کہ جس کا اثبات درحقیقت اسکی نفی ہو۔ یہ سب گویا ایک ہیں اور ان میںکا ایک سب کے برابرہے۔

۱۳۹

مفہوم جہل کی تحقیق

اسلام نے معرفت شناسی کے جو مختلف ابواب پیش کئے ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ دین الہی ایک عظیم معاشرہ بنانے کے لئے ہر چیز سے قبل اور ہر چیز سے بیشتر، فکر و نظر اور آگاہی و معرفت کو اہمیت دی ہے ، اور جہالت کے گڑھے میں گرنے اور فکر کو نظر انداز کرنے سے تنبیہ کی ہے ۔

اسلام کی نگاہ میں جہل ایسی آفت ہے کہ جوانسان کی رونق اور خوبیوں کو پامال کر دیتا ہے اور تمام اجتماعی و فردی برائیوں کا سر چشمہ ہے ، جب تک یہ آفت جڑ سے نہیں اکھاڑی جائیگی اس وقت تک فضیلتیں ابھر کر سامنے نہیں آ سکتیں اور نہ ہی انسانی معاشرہ وجود پذیر ہو سکتا ہے۔

اسلام کی نظر میں جہل تمام برائیوں کا سر چشمہ ، عظیم ترین مصیبت، مہلک و بدترین بیماری اور خطرناک ترین دشمن ہے ۔ جاہل انسان روئے زمین پر چوپائے سے بدتر، بلکہ زندوں کے درمیان ایک لاش ہے ۔

وہ آیات و احادیث جو جہل اور جاہل کی مذمت اور اس کے علامات و احکام اور جہل سے دوری کے متعلق وارد ہوئی ہیں ان کو اچھی طرح سمجھنے کے لئے ضروری ہیکہ پہلے یہ جانیںکہ جہل کیا ہے ؛ آیا مطلق جہل اسلام کی نظر میں مذموم و خطرناک ہے یا کوئی خاص جہل ہے ؟

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258