عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں

عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں23%

عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 258

عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 258 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 138937 / ڈاؤنلوڈ: 5394
سائز سائز سائز
عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں

عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

۶/۱۲

مے کشی

۷۱۱۔ امام علی (ع): خدا نے شراب خوری کے ترک کو عقل کی حفاظت کے لئے واجب کیا ہے ۔

۷۱۲۔ امام علی (ع): خدا نے شراب کو حرام کیا ہے ، اس لئے کہ اس میں تباہی ہے، اور شراب خوروںکی عقلوںکو تبدیل کر دیتی ہے ، نیز انکار خداا ور اللہ اور اس کے رسولوںپربہتان، دوسری تباہیوں اور قتل کا موجب ہے ۔

۶/۱۳

پانچ چیزوں کی مستی

۷۱۳۔ امام علی (ع): مناسب ہیکہ عقلمند خود کو مال کی مستی ، قدرت کی مستی ، علم کی مستی ، مدح و تعریف کی مستی اور جوانی کی مستی سے محفوظ رکھے؛ کیوں کہ یہ سب ناپاک بدبودار ہوائیںہیں کہ عقل کو سلب کرتی اور وقار کو سبک بناتی ہیں۔

۱۲۱

۶/۱۴

زیادہ لہوو لعب

۷۱۴۔ امام علی (ع): جو زیادہ لہو و لعب میں مبتلا ہوتا ہے اسکی عقل کم ہو جاتی ہے ۔

۷۱۵۔ امام علی (ع): جو شخص کھیل کا عاشق اور عیش و نشاط کا شیدائی ہوتا ہے ، عقلمند نہیں ہے ۔

۷۱۶۔ امام علی (ع): عقل کھیل کو د سے نتیجہ خیز نہیں ہوتی ہے۔

۷۱۷۔ امام علی (ع): جس شخص پر ہنسی مذاق کا غلبہ ہوتا ہے اسکی عقل تباہ ہو جاتی ہے ۔

۷۱۸۔ امام علی (ع): جو شخص زیادہ ہنسی مذاق میں مبتلا رہتا ہے اسکی بیہودگی بڑھ جاتی ہے ۔

۶/۱۵

بیکاری

۷۱۹۔ امام صادق(ع): ترک تجارت عقل کو کم کر دیتا ہے ۔

۷۲۰۔ امام صادق(ع): ترک تجارت عقل کو زائل کر دیتا ہے ۔

۷۲۱۔ فضیل اعور : کا بیان ہے کہ ، میں نے دیکھا کہ معاذ بن کثیر نے امام صادق(ع) سے عرض کیا: میں مالدار ہو چکا ہوں لہذا تجارت کو چھوڑنا چاہتا ہوں! امام نے فرمایا: اگر تم نے ایسا کیا تو تمہاری عقل کم ہو جائیگی۔( یا اس کے مانند امام نے کوئی جملہ کہا ہے)

۱۲۲

۷۲۲۔ کپڑے فروش معاذ: کا بیان ہے کہ امام صادق(ع) نے مجھ سے فرمایا: اے معاذ! کیا تجارت کرنے کی توانائی نہیں رکھتے یا اس سے بے رغبت ہو گئے ہو؟! میں نے عرض کیا نہ ناتواں ہو ا ہوں اور نہ ہی اس سے اکتایا ہوںفرمایا: پھرکیا وجہ ہے ؟ میں نے عرض کیا: آپ کے حکم کا منتظر تھا، جب ولید قتل ہوا اس وقت میرے پاس کافی مال تھا اور کسی کی کوئی چیز میرے پاس نہیں تھی ، اور گمان کرتا ہوں کہ تا زندگی کھاؤ نگا اور ختم نہیںہوگا، پس فرمایاتجارت نہ چھوڑوکیونکہ بیکاری عقل کو زائل کر دیتی ہے ، اپنے اہل و عیال کے لئے کوشش کرو؛ ایسا نہ کرو کہ وہ تمہاری بد گوئی کریں۔

۷۲۳۔ اسباط بن سالم(ہندوستانی کپڑے بیچنے والے) کا بیان ہے کہ ایک روز امام صادق ؑ نے کھدر کے کپڑے فروخت کرنے والے معاذ کے متعلق سوال کیا اور میں بھی وہاں موجود تھا، کہا گیا: کہ معاذ نے تجارت چھوڑ دی ہے ، امام نے فرمایا! شیطان کا عمل ہے؛ شیطان کا عمل ہے ؛ یقینا جو شخص تجارت کو چھوڑ دیتا ہے اسکی دو تہائی عقل زائل ہو جاتی ہے ۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ جب شام سے قافلہ پہنچا تو رسول خدا(ص) نے ان سے خریداری کی اور ان سے تجارت کی اور فائدہ حاصل کیا اور اپنے قرض کو ادا فرمایا۔

۶/۱۶

زیادہ طلبی

۷۲۴۔ امام علی (ع):ضرورت سے زیادہ طلب کرنے کے سبب عقلیں ضائع ہو جاتی ہیں۔

۱۲۳

۶/۱۷

نادان کی ہمنشینی

۷۲۵۔ امام علی (ع): جو شخص نادان کی ہمنشینی اختیار کرتا ہے اسکی عقل کم ہو جاتی ہے ۔

۷۲۶۔ امام علی (ع): عقل کی نابودی کا سبب نادانوں کی ہمنشینی ہے ۔

۶/۱۸

حد سے تجاوز کرنا

۷۲۷۔ امام علی (ع): جو اپنی حد اور حیثیت سے تجاوز کرتاہے عقلمند نہیں ہے ۔

۷۲۸۔ امام علی (ع): جو شخص اپنی بساط سے زیادہ قدم اٹھاتاہے عقلمند نہیںہے ۔

۶/۱۹

بیوقوفوں سے مجادلہ

۷۲۹۔ امام علی (ع): جو شخص بیوقوفوں سے مجادلہ کرتا ہے عقلمند نہیں ہے ۔

۱۲۴

۶/۲۰

عاقل کی بات پر کان نہ دھرنا

۷۳۰۔ امام علی (ع): جو شخص صاحبان عقل کی باتیں نہیں سنتا اسکی عقل مردہ ہو جاتی ہے ۔

۷۳۱۔ امام کاظم (ع): نے ۔ہشام بن حکم ۔ سے فرمایا: اے ہشام! جو شخص تین چیزوں کو تین چیزوں پر مسلط کریگا، گویا اس نے اپنی عقل کی پامالی میںمدد کی ہے: جس نے طولانی آرزو کے سبب اپنے چراغ فکر کو بجھا دیا، جس نے حکمت کی خوبیوں کو فضول کلامی کے باعث محو کر دےا، اور جس نے اپنی شہوات نفسانی کے ذریعہ عبرت آموزی کے نور کو خاموش کر دےا ، تو گویا اس نے اپنی عقل کی تباہی میں اپنی ہوا و ہوس کی مدد کی اور جس نے اپنی عقل تباہی کی اسکی دنیاو دین دونوں برباد ہو جائیں گے ۔

۶/۲۱

جنگلی جانور اور گائے کا گوشت

۷۳۲۔ امام رضا(ع): جنگلی جانوراور گائے کا گوشت زیادہ کھانے کے سبب عقل میں تبدیلی ، فہم میں حیرانی ، کند ذہنی اور بیشتر فراموشی پیدا ہو تی ہے ۔

۱۲۵

ساتویں فصل عاقل کے فرائض

۷/۱

عاقل کے واجبات

قرآن

(اے صاحبان عقل اللہ سے ڈرتے رہو شاید کہ تم اس طرح کامیاب ہو جاؤ)

( اے ایمان والو! اور عقل والو اللہ سے ڈرو کہ اس نے تمہاری طرف اپنے ذکر کو نازل کیا ہے )

حدیث

۷۳۳۔ رسول خدا(ص): چار چیزیں میری امت کے ہر عاقل و خرد مند پر واجب ہیں۔ دریافت کیا گیا، اے رسول خدا وہ چار چیزیں کیا ہیں: فرمایا: علم کا سننا، اس کا محفوظ رکھنا، نشر کرنا اور اس پر عمل کرنا۔

۷۳۴۔ رسول خدا(ص): عاقل وہ ہے جو خدا کی اطاعت کرتا ہے گرچہ بد صورت اور پست مقام رکھتا ہو۔

۷۳۵۔ رسول خدا(ص): جب عقل کے بارے میں پوچھا گیا۔ تو فرمایا: (عقل) طاعت خدا پر عمل ہے اور یقینا خدا کے احکام پر عمل کرنے والے ہی عقلمند ہوتے ہیں۔

۱۲۶

۷۳۶۔ رسول خدا(ص): اپنے رب کی اطاعت کرو عقلمند کہے جاؤ گے اور معصیت نہ کرو کہ جاہل کہے جاؤ گے ۔

۷۳۷۔ امام علی (ع): عاقل وہ ہے جو اپنے پروردگار کی اطاعت کی خاطر اپنی خواہشات نفس کی مخالفت کرتا ہے ۔

۷۳۸۔ امام علی (ع): اگر خدائے سبحان نے اپنی طاعت کی ترغیب نہ بھی کی ہوتی تو بھی وہ مستحق تھا کہ اسکی رحمت کی امید سے اسکی طاعت کی جائے ۔

۷۳۹۔ امام علی (ع)؛ آپ سے منسوب کلمات قصارمیں ہے۔ عقلمند پر لازم ہے کہ حکمت کے ذریعہ عقل کو زندہ کرنے کےلئے زیادہ کوشاں رہے ان غذاؤں کی نسبت کہ جن سے اپنے جسم کو زندہ رکھتا ہے ۔

۷۴۰۔ امام علی (ع): اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو! اسطرح جسطرح وہ صاحب عقل ڈرتا ہے جسکے دل کو فکر آخرت نے مشغول کر لیا ہو اور اسکا بدن خوفِ خدا سے خستہ حال ہے اور شب داری نے اسکی بچی کھچی نیند کو بھی شب بیداری میں بدل دیا ہو اور امیدوںنے اسکے دل کی تپش کو پیاس میں گذار دیا ہو ۔اور زہد نے اسکے خواہشات کو پیروں تلے روند دیا ہو اور ذکر خدا اسکی زبان پر تیزی سے دوڑ رہا ہو اور اس نے قیامت کے امن و امان کےلئے یہی خوف کا راستہ اختیار کر لیاہو اور سیدھی راہ پر چلنے کےلئے ٹیڑھی راہوں سے کترا کر چلا ہو اور مطلوب راستے تک پہنچنے کےلئے درمیانی راستہ اختیار کیا ہو،۔ نہ خوش فریبیوں نے اس میں اضطراب پیدا کیا ہو اور نہ مشتبہ امور نے اسکی آنکھوںپر پردہ ڈالا ہو، بشارت کی مسرت اور نعمتوںکی راحت بہترین نیند اور پر امن ترین دن میں حاصل کر لی ہو۔

دنیا کی گذر گاہ سے قابل تعریف انداز سے گذر جائے اور آخرت کا زاد راہ نیک بختی کے ساتھ آگے بھیج دے وہاںکے خطرات کے پیش نظر عمل میں سبقت کی اور مہلت کے اوقات میں تیز رفتاری سے قدم بڑھایا، طلب آخرت میں رغبت کےساتھ آگے بڑھا اور برائیوں سے مسلسل فرار کرتا رہا۔ آج کے دن کل پر نگاہ رکھی، اور ہمیشہ اگلی منزلوںکو دیکھتا رہا۔

لہذا یقینا ثواب و عطا کےلئے جنت اور عذاب و وبال کےلئے جہنم سے بالا تر کیا ہے اور پھر خدا سے بہتر مدد کرنے والا اور انتقام لینے والا کون ہے اور قرآن کے علاوہ حجت اور سند کیا ہے ۔

۱۲۷

۷/۲

عاقل کے لئے حرام اشیائ

قرآن

(کہدیجئے کہ آؤ ہم تمہیں بتائیں کہ تمہارے پروردگار نے کیا کیا حرام کیا ہے ، خبردار کسی کو اسکا شریک نہ بنانا اور ماں باپ کےساتھ اچھا برتاؤ کرنا اپنی اولاد کو غربت کی بنا پر قتل نہ کرنا کہ ہم تمہیں بھی رزق دے رہے ہیں اور انہیں بھی، اور بدکاریوں کے قریب نہ جانا وہ ظاہرہوں یا چھپی ہوئی اور کسی ایسے نفس کو جسے خدا نے حرام کر دیا ہے قتل نہ کرنا مگر یہ کہ تمہارا کوئی حق ہو، یہ وہ باتیں ہیں جنکی خدا نے تمہیں نصیحت کی ہے تاکہ تمہیں عقل آجائے)

حدیث

۷۴۱۔ امام علی (ع): اگر خدا نے محرمات سے روکا نہ بھی ہوتا تو بھی وہ مستحق تھا کہ عقلمند ان سے اجتناب کرے۔

۷۴۲۔ امام علی (ع): اگر خدا نے اپنی نافرمانی پر عتاب کا وعدہ نہ بھی کیا ہوتا تو بھی وہ مستحق تھا کہ شکر نعمت کے عنوان سے اسکی نافرمانی نہ کی جائے ۔

۷۴۳۔ امام علی (ع): منعم کم از کم جس چیز کا استحقاق رکھتا ہے وہ یہ ہےکہ اسکی نعمتوں کے سبب اسکی نافرمانی نہ کی جائے۔

۷۴۴۔ امام علی (ع): گناہوں سے پرہیزعقلمندوںکی صفت اور بزرگواروںکی عادت ہے ۔

۷۴۵۔ امام علی (ع): عقلمند وہ ہے جو گناہوںسے دور اور لغزشوں سے پاک ہوتاہے ۔

۱۲۸

۷۴۶۔ امام علی (ع): عقلمند کی کوشش گناہوں کے ترک اور عیوب کی اصلاح کے لئے ہوتی ہے ۔

۷۴۷۔ امام علی (ع): عقل برائیوں سے پاک کرتی ہے اور نیکیوں کا حکم دیتی ہے۔

۷۴۸۔ امام علی (ع): عاقل جھوٹ نہیں بولتا اور مومن زنا کا ارتکاب نہیں کرتا۔

۷۴۹۔ امام علی (ع): فطرت عقل برے کاموں سے روکتی ہے ۔

۷۵۰۔ امام علی (ع): عقلمندی کی نشانی اسراف سے اجتناب اور اچھی تدبیرہے ۔

۷۵۱۔ امام علی (ع): دور اندیشی کے لئے اسکی عقل کی بدولت پستیوں سے ایک باز رکھنے والا ہوتا ہے ۔

۷۵۲۔ امام علی (ع): عقل کی اساس، پاکدامنی اور اس کا پھل گناہوں سے بیزاری ہے ۔

۷۵۳۔ امام علی (ع): دلوں کے لئے برے خیالات ہیں لیکن عقلیں دلوں کوان سے باز رکھتی ہیں۔

۷۵۴۔ امام علی (ع): نفوس آزاد ہیں لیکن عقلیں انہیں آلودگیوں سے باز رکھتی ہیں۔

۷۵۵۔ امام علی (ع): عقلمند جھوٹ نہیں بولتا چاہے اس کے فائدہ ہی میں ہو۔

۱۲۹

۷/۳

عاقل کے لئے مناسب اشیائ

۷۵۶۔ رسول خدا(ص): عاقل اگر عاقل ہے تو اسے چاہئے کہ اپنے دن کے اوقات کو چار حصوں میں تقسیم کرے: ایک حصہ میں ، اپنے پروردگار سے مناجات کرے، ایک حصہ میں اپنے نفس کا محاسبہ کرے، ایک حصہ میںایسے صاحبان علم کے پاس جائے جو اسے دین سے آشنا اور نصیحت کریں اور ایک حصہ کو اپنے نفس اور دنیا کی حلال و حسین لذتوںکے لئے مخصوص کرے۔

۷۵۷۔ ابو ذر غفاری: میں نے پوچھا اے رسول خدا: صحف ابراہیم میں کیا تھا؟ فرمایا: اس میں امثال اور عبرتیں تھیں: اگر عقلمند کی عقل مغلوب نہیں ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اپنی زبان کی حفاظت کرے ، اپنے زمانہ سے واقفیت رکھے اور اپنے کام کی طرف متوجہ رہے ، یقینا ہر وہ شخص جس کا کلام اس کے عمل کے مطابق ہوتاہے تو وہ کم سخن ہو جاتاہے مگر یہ کہ جو اس سے مربوط ہو۔

۷۵۸۔ رسول خدا(ص): مناسب ہے کہ عاقل تین چیزوںکے علاوہ گھر سے باہر قدم نہ نکالے: کسب معاش کےلئے، یا آخرت کے لئے یا غیر حرام سے لذت کے لئے۔

۷۵۹۔ رسول خدا(ص):نے علی (ع): کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا:اے علی ! مناسب نہیں ہے کہ عاقل تین چیزوںکے علاوہ گھر سے قدم نکالے : کسب معاش کے لئے ، قیامت کے لئے زادراہ مہیا کرنے کے لئے اورغیر حرام سے لذت اندوزی کے لئے ۔

۷۶۰۔ رسول خدا(ص): عاقل کے لئے ضروری ہے کہ اپنے زمانہ سے آگاہی رکھتا ہو۔

۷۶۱۔ امام علی (ع): نے ۔ اپنے بیٹے اما م حسن ؑ۔ کو وصیت کرتے ہوئے ۔ فرمایا: بیٹا! عاقل کے لئے ضروری ہے کہ اپنے موقع کی نزاکت کو دیکھے۔ اپنی زبان کی حفاظت کرے اور اہل زمانہ کو پہچانے۔

۱۳۰

۷۶۲۔ امام صادق(ع): فرماتے ہیں کہ حکمت آل داؤدمیں ہے عقلمند کےلئے لازم ہےکہ وہ اپنے زمانہ سے واقف ہو، اپنی حیثیت کی طرف متوجہ ہو اور اپنی زبان پر قابو رکھے۔

۷۶۳۔ رسول خدا(ص): خدا پر ایمان کے بعدعقل کا سرمایہ ، حیا اور حسن اخلاق ہے ۔

۷۶۴۔ رسول خدا(ص):خدا پر ایمان کے بعد عقل کا سرمایہ لوگوںسے اظہار محبت ہے ۔

۷۶۵۔ رسول خدا(ص): دین کے بعد عقل کاسرمایہ لوگوںکے ساتھ اظہار محبت اور ہر اچھے اور برے کے ساتھ نیکی کرنا ہے ۔

۷۶۶۔ رسول خدا(ص): عقل کی اساس مہربانی کرنا ہے ۔

۷۶۷۔ رسول خدا(ص): خدا پر ایمان کے بعد عقل کا سرمایہ لوگوںکے ساتھ مہربانی کرنا ہے مگر یہ کہ کوئی حق ضائع نہ ہو۔

۷۶۸۔ امام علی (ع): عقل کا سرمایہ کاموں میں اطمینان ہے اور حماقت کا سرمایہ عجلت پسندی ہے ۔

۷۶۹۔ اما م حسن ؑ: عقل کا سرمایہ لوگوںکے ساتھ حسن ِ معاشرت ہے ۔

۷۷۰۔ امام علی (ع): عقل کا سرمایہ خواہشات نفسانی سے جہاد ہے ۔

۷۷۱۔ امام علی (ع): عقل کے ذریعہ خواہشات نفسانی کا مقابلہ کرو۔

۷۷۲۔ امام علی (ع): جس شخص کی عقل اسکی خواہشات پر غالب آگئی وہ کامیاب ہو گیا۔

۷۷۳۔ امام علی (ع): جس شخص کی عقل اسکی شہوت پراور بردباری اس کے غیظ و غضب پر غالب آجائے تو وہ حسن سیرت کا مستحق ہے ۔

۷۷۴۔ امام علی (ع): غیظ و غضب کا خاموشی کے سبب اور شہوت کا عقل کے ذریعہ علاج کرو۔

۱۳۱

۷۷۵۔ امام علی (ع): خواہشات نفسانی کو اپنی عقل کے ذریعہ قتل کر دو تاکہ ہدایت یافتہ ہو جاؤ۔

۷۷۶۔ امام علی (ع): بردباری چھپانے والا پردہ ہے اورعقل شمشیر براں ہے ، لہذا اپنے اخلاق کی کمیوںکو بردباری سے چھپاؤ اور خواہشات کو عقل کے ذریعہ قتل کردو۔

۷۷۷۔ امام علی (ع): خبردار، خبردار، اے سننے والو!کوشش، کوشش، اے عقلمندو! آگاہ شخص کے مانند تمہیں کوئی خبر نہیںدے سکتا۔

۷۷۸۔ امام علی (ع): لہو و لعب میں مبتلا عاقل ہدایت تک نہیں پہنچتا لیکن کوشش اور جد و جہد کرنے والا پہنچتا ہے ۔

۷۷۹۔ امام علی (ع): ضروری ہے کہ عاقل قیامت کے لئے کوشش کرے اور زیادہ سے زیادہ توشہ فراہم کرے۔

۷۸۰۔ امام علی (ع): عاقل کے لئے سزاوار ہے کہ ہمیشہ رہنمائی کا خواہاں ہو اور خود رائی ترک کر دے۔

۷۸۱۔ امام علی (ع): مناسب ہے کہ عاقل کسی بھی حالت میں اطاعت پروردگار اور جہاد بالنفس سے دستبردار نہ ہو۔

۷۸۲۔ امام علی (ع): عاقل کے لئے ضروری ہے کہ اپنے مال کے سبب تعریف حاصل کرے اور خود کو سوال سے محفوظ رکھے۔

۷۸۳۔ امام علی (ع): عاقل کے لئے سزاوار ہے کہ علماء اور ابرار کی ہمنشینی زیادہ سے زیادہ اختیار کرے ، اور اشرار و فجار کی ہمنشینی سے پرہیز کرے۔

۷۸۴۔ امام علی (ع): عاقل کے لئے ضروری ہے کہ جب تعلیم دے تو سختی سے پیش نہ آئے اور جب تحصیل کرے تو لاپروائی نہ کرے۔

۷۸۵۔ امام علی (ع): عاقل کے لئے ضروری ہے کہ جب جاہل کو خطاب کرے تو اس طرح کرے جیسے طبیب، مریض سے کرتاہے ۔

۱۳۲

۷۸۶۔ امام علی (ع): عاقل کے لئے ضروری ہے کہ اپنے چہرے کو آئینہ میں دیکھے اگر حسین ہے تو اس کے ساتھ قبیح عمل کو مخلوط نہ کرے کہ حسن و قبیح یک جا ہو جائیں ، اور اگر قبیح ہو ، تو بھی قبیح عمل انجام نہ دے کہ دو قبیح یک جا ہو جائیں گے۔

۷۸۷۔ امام علی (ع): عاقل کے لئے ضروری ہے کہ جب کسی مصیبت میں گرفتار ہو جائے تو صبرکرے یہاں تک کہ اس کا وقت گذر جائے، چونکہ اس کا وقت گذرنے سے قبل اس کے دور کرنے کی کوشش مزید رنج کا باعث ہوگی ۔

۷۸۸۔ امام علی (ع): ضروری ہے کہ انسان کا علم اس کے نطق سے زیادہ ہو اور اسکی عقل اسکی زبان پر غالب ہو۔

۷۸۹۔ امام علی (ع): آ پ سے منسوب کلمات قصارمیںہے ، عاقل کے لئے ضروری ہے کہ ضرورت کے وقت نرمی سے پیش آئے اور ہر زہ سرائی سے پرہیز کرے۔

۷۹۰۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصارمیںہے ۔ عاقل کے لئے سزاوار ہے کہ غذا کی لذت کے وقت دوا کی تلخی کو یاد کرے۔

۷۹۱۔امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصارمیں ہے ۔ عاقل کے لئے ضروری ہے کہ اپنی نیکی و خوبی کو جاہل، پست اور بیوقوفوں کے سپرد نہ کرے، اس لئے کہ جاہل خوبی کو نہیں پہچانتا اور نہ ہی اس کا شکر کرتا ہے ۔

۷۹۲۔امام صادق(ع): عاقل کے لئے ضروری ہیکہ سچا ہو تاکہ اس کے قول پر اعتماد کیا جائے اور شکر گذار ہو تاکہ شکر فراوانی (نعمت) کا موجب ہو۔

۷۹۳۔ امام علی (ع): عاقل کے لئے ہر کام میں نیکی ہے اور جاہل کے لئے ہر حالت میں خسارہ ہے ۔

۷۹۴۔ امام علی (ع): عاقل کے لئے ہر کام میں ریاضت ہے ۔

۷۹۵۔ امام علی (ع): عاقل کے لئے ہر کلمہ میں شرافت و فضیلت ہے ۔

۱۳۳

۷۹۶۔ امام علی (ع): عاقل کے لئے ضروری ہے کہ دین ، رائے ، اخلاق اور ادب میں اپنی برائیوںکو شمار کرے اور انہیں اپنے سینہ یا ڈائری میں لکھے پھر ان کے ازالہ کی کوشش کرے۔

۷۹۷۔ امام صادق(ع): عاقل کے لئے علم و ادب کا سیکھنا ضروری ہے کیوں کہ اسی پر اس کا دار و مدار ہے۔

۷۹۸۔ امام صادق(ع): زیارت امام حسین (ع) میں ۔ فرماتے ہیں: بار الٰہا: بیشک میںگواہی دیتا ہوںکہ یہ قبر تیرے حبیب اور خلق میں تیرے برگزیدہ کے فرزند کی ہے ، وہ تیری کرامت کے سبب کامیاب ہیں ، تونے ان کواپنی کتاب کے ذریعہ مکرم کیا ہے ، تونے ان کو اپنی وحی کا امین شمار کیا ہے اور ان کو اس سے مخصوص کیا ہے ، تونے ان کو انبیاء کی میراث عطا کی ہے، اور ان کو اپنی مخلوق پر حجت قرار دیا ہے تو انہوںہے بھی اتمام حجت میں امت سے تمام عذر کو دور کر دیا اور تیری راہ میں اپنا خون بہایا تاکہ تیرے بندوں کو گمراہی و جہالت ، تاریکی اور شک و تردید سے نجات دیں اور تباہی و پستی سے ہدایات و روشنی کی طرف رہنمائی کریں۔

۷۹۹۔ امام صادق(ع): روز اربعین زیارت امام حسین (ع) میں۔ فرماتے ہیں: خدایا! میں گواہی دیتا ہوںکہ وہ تیرے دوست اور تیرے ولی کے فرزند اور تیرے برگزیدہ اور گزیدہ کے فرزند ہیں۔ تیری کرامت پر فائز ہیں، تونے انکو شہادت کے ذریعہ مکرم کیا ہے، اور انکو سعادت سے مخصوص کیا ہے ، انکو پاکیزگی ولادت کے ساتھ منتخب کیاہے، اور انکو سرداروں میں سے سردار بنا یا ہے، اور قائدوں میںسے قائد بنایا ہے ، اور اسلام سے دفاع کرنے والوں میں ایک بڑا دفاع کرنے والا بنایا ہے اور تونے انکو انبیاء کی میراث عطا کی ہے ، اور اپنے اوصیاء میں سے انکو اپنی مخلوق پر حجت قرار دیا ہے تو انہوںنے بھی اتمام حجت میں امت سے تمام عذر کو دور کر دیا اور امت کی نصیحت کو انجام دیا اور تیری راہ میں اپنا خون بہایا تاکہ تیرے بندوں کو جہالت اور گمراہی کی حیرانی سے نجات دیں۔

۸۰۰۔ امام کاظم (ع): عاقل کے لئے ضروری ہے کہ۔ جب کوئی کام انجام دے تو خدا سے شرم کرے اور جب نعمتوں سے سرشار ہو تو اپنے ساتھ اپنے علاوہ کسی اور کو شریک کرے۔

۸۰۱۔امام رضا(ع): جو خدا کی معرفت رکھتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ خدا کو قضا و قدر میں متہم قرار نہ دے اور رزق دینے میں اس کو سست شمار نہ کرے۔

۱۳۴

۷/۴

عاقل کے لئے نامناسب اشیائ

۸۰۲۔امام علی (ع): عاقل کے لئے سزاوار نہیں ہے کہ امید کی بنا پر خوشی کا اظہار کرے؛ کیوں کہ امید دھوکا ہے ۔

۸۰۳۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصارمیں ہے ۔ عاقل کے لئے مناسب نہیں ہے کہ دوسروں سے اپنی اطاعت کرائے جبکہ خوداسکا نفس اس کا مطیع نہ ہو۔

۸۰۴۔ امام علی (ع): عاقل کےلئے سزاوار نہیں ہے کہ جب راہ امن حاصل ہو جائے تو وہ خوف سے گوشہ نشینی اختیار کرے۔

۸۰۵۔ اما م علی (ع): تعجب ہے کہ عقلمند شہوت پر کس طرح نظر ڈالتا ہے کہ بعد میں اس کےلئے حسرت و ندامت کا باعث ہوتی ہے۔

۸۰۶۔ امام علی (ع): شریح بن حارث کے نام اپنے خط میں تحریر فرماتے ہیں۔ میںنے سنا ہے کہ تم نے اسّی دینار کا مکان خریدا ہے اور اس کے لئے بیعنامہ بھی لکھا ہے اور اس پر گواہی بھی لی ہے؟

اے شریح!عنقریب تیرے پاس وہ شخص آنے والا ہے جو نہ اس تحریر کو دیکھے گا اور نہ تجھ سے گواہوں کے بارے میں سوال کریگا بلکہ تجھے اس گھر سے نکال کر تنِ تنہا قبر کے حوالے کر دیگا۔اگر تم نے یہ مکان دوسرے کے مال سے خریدا ہے اور غیر حلال سے قیمت اداکی ہے تو تمہیں دنیا و آخرت دونوں میں خسارہ ہوا ہے ۔یاد رکھو! اگر تم اس مکان کو خریدتے وقت میرے پاس آتے اور مجھ سے دستاویز لکھواتے تو ایک درہم میں بھی خریدنے کے لئے تیار نہ ہوتے۔ اسی دینار تو بہت بڑی بات ہے ، میں اسکی دستاویز اس طرح لکھتا: یہ وہ مکان ہے جسے ایک بندہ ذلیل نے اس مرنے والے سے خرید ا ہے جسے کوچ کے لئے آمادہ کر دیا گیا ہے ، یہ مکان دنیائے پر فریب میں واقع ہے جہاں فنا ہونے والوں کی بستی ہے اور ہلاک ہونے والوں کا علاقہ ہے

۱۳۵

۔ اس مکان کے حدود اربعہ یہ ہےں؛ ایک حد اسباب آفات کی طرف ہے اور دوسری اسباب مصائب سے ملتی ہے ۔ تیسری حد ہلاک کر دینے والی خواہشات کی طرف ہے اور چوتھی گمراہ کرنے والے شیطان کی طرف اور اسی طرف اس گھر کا دروازہ کھلتا ہے ۔ اس مکان کو امیدوں کے فریب خوردہ نے اجل کے راہ گیر سے خریدا ہے ، جس کے ذریعہ قناعت کی عزت سے نکل کر طلب و خواہش کی ذلت میں داخل ہو گیا ہے ۔ اب اگر اس خریدار کو اس سو دے میں کوئی خسارہ ہوا تو یہ اس ذات کی ذمہ داری ہے جو بادشاہوں کے جسموںکا تہہ و بالا کرنے والا ۔ جابروںکی جان نکال لینے والا۔ فرعونوں کی سلطنت کو تباہ کر دینے والا، کسریٰ، قیصر، تبع اور حِمیر اورزیادہ سے زیادہ مال جمع کرنے والوں ، مستحکم عمارتیں بنا کر انہیں سجانے والوں ، ان میں بہترین فرش بچھانے والوں اور اولاد کے خیال سے ذخیرہ کرنے والوں اور جاگیر بنانے والوںکو فنا کے گھاٹ اتار دینے والا ہے۔ کہ ان سب کو قیامت موقف حساب اور منز ل ثواب عذاب میں حاضر کر دے جب حق و باطل کا حتمی فیصلہ ہوگا'' اور اہل باطل یقینا خسارہ میںہوں گے'' میری ان باتوں کی گواہی اس عقل نے دی ہے جو خواہشات کی قید سے آزاد اور دنیا کی وابستگیوں سے محفوظ ہے''۔

۸۰۷۔ امام صادق(ع): تین چیزیں ایسی ہیں کہ عاقل کو انہیں ہر گز فراموش نہیں کرنا چاہئے:

دنیا کی بے ثباتی، حالات کی تبدیلی اور وہ آفات کہ جن سے اماں نہیں۔

۱۳۶

دوسرا حصہ

جہل

اس حصہ کی فصلیں:

پہلی فصل : مفہوم جہل

دوسری فصل : جہل سے پرہیز

تیسری فصل : جاہلوں کے اقسام

چوتھی فصل : جہل کے علامات

پانچویں فصل : جاہل کے احکام

چھٹی فصل : پہلی جاہلیت

ساتویں فصل : دوسری جاہلیت

آٹھویں فصل : جاہلیت کا خاتمہ

۱۳۷

پہلی فصل مفہوم جہل

۸۰۸۔ امام حسن ؑ:نے اپنے والد کے جواب میں جب جہل کی تعریف کے متعلق پوچھا ۔تو فرمایا: فرصت سے فائدہ اٹھانے کی قدرت نہ ہونے کے باوجود اس پر جلدی سے ٹوٹ پڑنا اور جواب دینے سے عاجز رہنا ہے۔

۸۰۹۔ امام علی (ع): محال امور میں تمہاری رغبت کا ہونا نادانی ہے ۔

۸۱۰۔ امام علی (ع): دنیا کی فریبکاریوںکو دیکھتے ہوئے اس کی طرف رخ کرنا جہالت ہے ۔

۸۱۱۔ امام علی (ع): بغیر کوشش و عمل کے رتبہ و مقام کا طلب کرنا نادانی ہے ۔

۸۱۲۔ عیسیٰؑ: نے اپنے حواریوں سے فرمایا: دیکھو تمہارے اندر جہالت کی دو نشانیاں ہیں: بلا سبب ہنسنا اور شب زندہ داری کے بغیر صبح کو سونا۔

۸۱۳۔ امام علی (ع): شب زندہ داری کے بغیر سونا جہالت کی نشانی ہے۔

۸۱۴۔ امام صادق(ع): بلا سبب ہنسنا نادانی کی نشانیوں میں سے ہے ۔

۸۱۵۔ امام صادق(ع): جہالت تین چیزوں میں ہے: دوست بدلنا،بغیر وضاحت کے علیحدگی، اس چیز کی جستجو کرنا جس میں کوئی فائدہ نہیںہے۔

۱۳۸

۸۱۶۔ امام صادق(ع): مصباح الشریعہ میں آ پ سے منسوب کلام میں ہے ۔ جہالت ایسی صورت ہے جو اولاد آدم میں قرار دی گئی ہے، اسکی طرف رخ کرنا تاریکی اور گریز کرنا روشنی ہے، بندہ اس کے ساتھ ساتھ اس طرح پھرتا ہے جیسے سورج کے ساتھ ساتھ سایہ ، کیا ایسے انسان کو نہیں دیکھتے جو اپنی خصوصیات سے ناواقف ہے لیکن اپنی تعریف کرتاہے حالانکہ اسی عیب کو جب دوسروں میں ملاحظہ کرتا ہے تو اس سے نفرت کرتا ہے ۔ اور کبھی اسے دیکھتے ہو ۔

جو اپنی کچھ ذاتی خصوصیات سے آشنا ہوتاہے اور ان سے نفرت کرتا ہے حالانکہ جب اپنے غیر میںمشاہدہ کرتاہے تو تعریف کرتا ہے پس ایسا انسان عصمت و رسوائی کے درمیان سرگرداں ہے ، اگر عصمت کی طرف رخ کیا تو واقع تک پہنچ جائیگا اور اگر رسوائی کی طرف رخ کیا تو واقع سے دور ہو جائیگا۔

جہالت کی کنجی خوشنودی اور اس پر اعتقاد ہے ، علم کی کنجی توفیق کی موافقت کے ساتھ تبادلہ ہے ، اور جاہل کی پست ترین صفت یہ ہے کہ بغیر لیاقت کے علم کا دعویٰ کرتا ہے اور اس سے بھی بدتر اس کا اپنی جہالت سے ناواقف ہونا ہے اور اسکی بالا ترین صفت جہالت سے انکار ہے جہالت اوردنیاو حرص کے علاوہ کوئی چیز ایسی نہیں کہ جس کا اثبات درحقیقت اسکی نفی ہو۔ یہ سب گویا ایک ہیں اور ان میںکا ایک سب کے برابرہے۔

۱۳۹

مفہوم جہل کی تحقیق

اسلام نے معرفت شناسی کے جو مختلف ابواب پیش کئے ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ دین الہی ایک عظیم معاشرہ بنانے کے لئے ہر چیز سے قبل اور ہر چیز سے بیشتر، فکر و نظر اور آگاہی و معرفت کو اہمیت دی ہے ، اور جہالت کے گڑھے میں گرنے اور فکر کو نظر انداز کرنے سے تنبیہ کی ہے ۔

اسلام کی نگاہ میں جہل ایسی آفت ہے کہ جوانسان کی رونق اور خوبیوں کو پامال کر دیتا ہے اور تمام اجتماعی و فردی برائیوں کا سر چشمہ ہے ، جب تک یہ آفت جڑ سے نہیں اکھاڑی جائیگی اس وقت تک فضیلتیں ابھر کر سامنے نہیں آ سکتیں اور نہ ہی انسانی معاشرہ وجود پذیر ہو سکتا ہے۔

اسلام کی نظر میں جہل تمام برائیوں کا سر چشمہ ، عظیم ترین مصیبت، مہلک و بدترین بیماری اور خطرناک ترین دشمن ہے ۔ جاہل انسان روئے زمین پر چوپائے سے بدتر، بلکہ زندوں کے درمیان ایک لاش ہے ۔

وہ آیات و احادیث جو جہل اور جاہل کی مذمت اور اس کے علامات و احکام اور جہل سے دوری کے متعلق وارد ہوئی ہیں ان کو اچھی طرح سمجھنے کے لئے ضروری ہیکہ پہلے یہ جانیںکہ جہل کیا ہے ؛ آیا مطلق جہل اسلام کی نظر میں مذموم و خطرناک ہے یا کوئی خاص جہل ہے ؟

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

نکات: 157

پیام: 158

آیت 77: 159

پیام: 159

آیت 78: 161

نکات: 161

پیام: 161

آیت 79: 162

نکات: 162

پیام: 162

آیت 80: 163

نکات: 163

پیام: 164

آیت 81: 165

پیام: 165

آیت 82: 166

نکات: 166

پیام: 166

آیت 83: 167

نکات: 167

پیام: 169

۲۴۱

آیت 84: 170

نکات: 170

پیام: 171

آیت 85: 172

نکات: 172

پیام: 172

آیت 86: 173

نکات: 173

پیام: 173

آیت 87: 175

نکات: 175

پیام: 176

آیت 88: 176

نکات: 177

پیام: 178

آیت 89: 179

نکات: 179

پیام: 180

آیت 90: 180

پیام: 181

آیت 91: 182

۲۴۲

نکات: 182

پیام: 183

آیت 92: 184

نکات: 184

پیام: 185

آیت 93: 186

نکات: 186

پیام: 188

آیت 94: 189

نکات: 189

پیام: 192

آیت 95: 193

نکات: 193

پیام: 193

آیت 96: 194

نکات: 194

پیام: 194

آیت 97: 195

نکات: 195

پیام: 196

آیت 98: 196

۲۴۳

نکات: 196

پیام: 197

آیت 99: 198

نکات: 198

پیام: 200

آیت 100: 201

نکات: 201

پیام: 202

آیت 101: 204

نکات: 204

پیام: 208

آیت 102: 211

پیام: 211

آیت 103: 212

نکات: 212

پیام: 212

آیت 104: 213

نکات: 213

پیام: 214

آیت 105: 215

نکات: 215

۲۴۴

پیام: 216

آیت 106: 217

نکات: 217

مخلص انسان کی علامتیں 218

مومن مشرک کی علامتیں 219

پیام: 220

آیت 107: 220

نکات: 220

پیام: 221

آیت 108: 222

نکات: 222

پیام: 222

آیت 109: 223

نکات: 223

پیام: 223

آیت 110: 225

نکات: 225

انبیاء (ع)کی ناامیدی کا نمونہ 226

قوم کی انبیاء (ع)سے بدگمانی کا نمونہ 226

خداکی مدد 227

خدائی قہر 227

۲۴۵

پیام: 227

آیت 111: 229

نکات: 229

پیام: 230

۲۴۶

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258