عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں

عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں23%

عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 258

عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 258 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 138828 / ڈاؤنلوڈ: 5392
سائز سائز سائز
عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں

عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

اور اگر یہ دوسری صورت درست ہے تو اسکی تعیین کرنا ضروری ہے کہ وہ خاص جہل کون سا ہے۔

کون سا جہل تمام برائیوں کا سرچشمہ ہے ؟

کون سا جہل عظیم ترین مصیبت ہے؟

کون سا جہل بدترین اور سب سے مہلک بیماری ہے ؟

کون سا جہل شدید ترین فقر ہے ؟

کون سا جہل خطرناک ترین دشمن ہے ؟

کون سا جاہل قرآن کی رو سے ، چوپائے سے بدتر۔ہے ، اور کس جہل کو امام علی (ع) نے ۔ زندوںکے درمیان لاش۔ سے تعبیر کیا ہے ۔

۱۴۱

مفہوم جہل

مذموم جہل کے چار معنی ہیں:

اول: مطلق جہل

دوم: تمام مفید و کارساز علوم و معارف سے جہالت

سوم: انسان کے لئے ضروری و اہمترین معارف سے جہالت

چہارم : جہل، عقل کے مقابل میں ایک قوت ہے۔

معانی کی وضاحت

۱۔ مطلق جہل

گر چہ بادی النظر میں یہ محسوس ہوتا کہ مطلق جہل مضر اور مذموم ہے لیکن غور و فکر کے بعد معلوم ہوتاہے کہ ہر چیز کا نہ جاننا مذموم اور جاننا پسند یدہ نہیں ہے بلکہ اس کے بر خلاف کچھ چیزوں کا جاننا مضر و مہلک اور کچھ چیزوں کا نہ جاننا مفید و کارساز ہے اسلام میں اسی دلیل کی بنا پربعض امور اوربعض پوشیدہ چیزوںکی تحقیق و جستجو کو ممنوع قرار دیا گیا ہے ۔

اس موضوع کی مزید وضاحت، اس فصل کے باب''احکام جاہل'' اور کتاب ''علم و حکمت قرآ ن و حدیث کو روشنی میں'' کے باب احکام تعلم کے(شق ج۔ جن چیزوں کا سیکھنا حرام ہے) اسی طرح اس کتاب کے ''آداب سوال'' کے ''باب چہارم'' میں مذکورہ احادیث میںکی گئی ہے ۔

۱۴۲

۲۔ مفید معارف سے جہالت

بلا شک و شبہ اسلام تمام مفید علوم و معارف کو احترام کی نظر سے دیکھتا ہے اور ان کے سیکھنے کی دعوت بھی دیتاہے ، بلکہ اگر معاشرہ کو ان کی حاجت و ضرورت ہو اور ایسے افراد موجود نہ ہوں جو اس ضرورت کے لئے کافی ہوں تو ان علوم و فنون کو واجب قرار دیاہے۔ لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہےں کہ ان تمام علوم کے متعلق جہل تمام لوگوں کے لئے مذموم یا خطرناک ہو۔

بعبارت دیگر ، ادبیات، صرف و نحو، منطق و کلام ، فلسفہ،ریاضیات، فیزکس، کیمیا اور دیگر علوم و فنون جو انسان کی خدمت کے لئے ہیں وہ اسلام کی نظر میں قابل احترم اور اہمیت کے حامل ہیں لیکن ان تمام علوم کا نہ جاننا تمام برائیوںکا سر چشمہ ، عظیم ترین مصیبت، بدترین بیماری، خطرناک ترین دشمن ، شدید ترین فقر نہیں ہے ، اور ان علوم میں سے جو بعض یا تمام کو نہیں جانتا ہے اسے روئے زمین پر چو پائے سے بدتر یا زندوںمیں مردہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔

۳۔ انسان کی ضروری معارف سے جہالت

وہ معارف و علوم جو انسان کو اسکی ابتداء و انتہاء سے آشنا اور اسکی غرض خلقت کی حکمت کو کشف کرتے ہیں وہ اسکی زندگی کے اہمترین و ضروری معارف میں سے ہیں۔

انسان کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ وہ کس طرح وجود میں آیا؟ اور اسکی غرض خلقت کیاہے؟ کون سا عمل انجام دے کہ اپنی غرض خلقت کے فلسفہ تک پہنچ جائے؟ کون سے خطرات اسے ڈراتے ہیں؟

۱۴۳

وہ معارف جو ان تمام مسائل کا جواب دیتے ہیںوہ میراث انبیاء ہیں ۔ یہ معارف تمام خیر و برکت کا سرچشمہ، عقل عملی اور جوہر علم کے روشن و بارونق ہونے کے لئے زمین ہموار کرتے ہیں۔ اور ان معارف سے لاعلمی انسانی معاشرہ کو دشوار ترین مشکلات اور دردناک مصائب میں مبتلا کرتی ہے۔

البتہ تنہا ان معارف کا جاننا ہی کافی نہیں ہے ؛ بلکہ یہ معارف اس وقت کا ر آمد و کارساز ہیںجب عقل کے ذریعہ جہل چوتھے مفہوم کے لحاظ سے مہار کیا جائے ۔

۴۔ عقل کے مقابل میں ایک قوت

اسلامی نصوص میں جہل کا چوتھا مفہوم گذشتہ مفاہیم کے بر خلاف ایک امر وجودی ہے نہ کہ عدمی ، اور عقل کے مقابل مخفی و پوشدہ شعور ہے اور عقل کے مانند مخلوق خدا ہے جس کے کچھ آثار و مقتضیات ہیں کہ جنہیں'' عقل کے سپاہی'' کے مقابل میں''جہل کے سپاہی'' سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس جہل کو قوت سے اس لئے تعبیر کیا ہے تاکہ یہ پوری طور پر عقل کے مقابل قرار پا سکے اس قوت کے لئے دوسرے بھی نام ہیںکہ جن کا بیان خلقت عقل کی بحث میں ہو چکا ہے ۔

جیسا کہ علامات عقل کے باب اول میں ذکر ہو چکا ہے کہ تمام اعتقادی و اخلاقی اورعملی حسن وجمال جیسے خیر، علم ، معرفت ، حکمت ، ایمان ، عدل ، انصاف، الفت، رحمت، مودت، مہربانی ، برکت، قناعت، سخاوت، امانت، شہامت ، حیا، نظافت ،امید، وفا، صداقت، بردباری، صبر، تواضع ،بے نیازی، نشاط وغیرہ کو عقل کے سپاہیوں میںشمار کیاہے ۔

اور ان کے مقابل میں تمام اعتقادی و اخلاقی اورعملی برائیوں جیسے : شر، جہل، حماقت، کفر، ستم ،جدائی، قساوت، قطع رحم ، عداوت، بغض، غضب، بے برکتی، حرص ، بخل ، خیانت، بزدلی ، بے حیائی، آلودگی ، ہتک ، کثافت، نا امیدی ، کذب، سفاہت،بیتابی، تکبر، فقر اور سستی وغیرہ کو جہل کے سپاہیوں میں شمار کیا ہے ۔

۱۴۴

انسان ان دونوں قوتوں کے سلسلہ میں صاحب اختیار ہے کہ ان میں سے جس کو چاہے انتخاب کرے اور پروان چڑھائے۔ وہ قادر ہیکہ اپنی قوت عقل کا اتباع کرے اور اس کو زندہ کرکے جہل و شہوت اور نفس امارہ کو فنا کر دے۔ اور عقل کے سپاہی اور اس کے مقتضیات کی تربیت کرکے انسان کے بلند مقصد تک پہنچ جائے اور خدا کا نمائندہ بن جائے ۔ یا قوت جہل کا اتباع اور اس کے سپاہی اور مقتضیات کی تربیت کرکے پست ترین حالت اور قعر مذلت میں گر جائے۔

اس وضاحت کی روشنی میں دو مہم اور قابل غور نکات روشن ہو جاتے ہیں ،وہ یہ ہیں:-

۱۔خطرناک ترین جہل

پہلا نکتہ یہ ہے کہ گر چہ اسلام تیسرے معنی کے اعتبار سے مذموم جہل کی شدت سے مخالفت کرتا ہے ؛ لیکن اس مکتب کی نظر میں خطرناک ترین جہل، چوتھے معنی کے اعتبار سے ہے ؛ یعنی ایسی راہ کا انتخاب کہ جس کی طرف قوت جہل انسان کو دعوت دیتی ہے؛ کیوں کہ اگر انسان اس راہ پرگامزن ہو جسے عقل نے معین کیا ہے تو بلا شبہ علم و حکمت اور دیگر عقل کے سپاہی انسان کواس کے مبدا و مقصد تک پہنچاتے اور تمام مفید و سازگار معارف کی طرف ہدایت کرتے ہیں اور وہ اپنی استعداد اور کوشش کے مطابق اپنی خلقت کے فلسفہ تک پہنچتا ہے۔

لیکن اگر انسان ایسی راہ کا انتخاب کرے جو جہل کا تقاضا تھاتو جہل کے سپاہی مفید معارف اور ایسے بلند حقائق جوانسان کو انسانیت کے بلند مقصد سے آشنا کرتے ہیں کی راہ شناخت کو مسدود کر دیتے ہیں۔ لہذا اس حالت میں اگر کوئی اعلم دوراں بھی ہو جائے تو بھی اس کا علم اسکی ہدایت کے لئے کافی نہ ہوگا اور جہل کی بیماری اسے موت کے گھاٹ اتار دیگی(اور خدا نے اسی حالت کو دیکھ کر اسے گمراہی میں چھوڑ دیا ہے)

۱۴۵

اس بنیاد پر اسلامی روایات میں جب جہل کے متعلق تحقیق کی جاتی ہے تو بحث کا اصلی محور جہل کا چوتھا معنی قرار پاتاہے، البتہ جہل کے بقیہ معنی و مفاہیم بھی ترتیب وار اہمیت کے حامل ہیں۔

۲۔ عقل و جہل کا تقابل

دوسرا مہم نکتہ یہ ہے کہ اسلامی نصوص میں عقل و جہل کے تقابل کا راز کیاہے۔ اور دوسرا سوال یہ ہے کہ معمولا جہل علم کے مقابل میں پیش کیا جاتا ہے لیکن اسلامی نصوص اور اس کے کے اتباع میں حدیث کی کتابوں میں معمول کے خلاف جہل کو کیو ںعقل کے مقابل قرار دیا گیا ہے؟

جب آپ حدیث کی کتابوں کی طرف رجوع کریں گے تو عنوان ''علم و جہل'' نہیں پا سکیں گے اور اس کے بر خلاف عنوان ''عقل و جہل'' ا کثر یا تفصیلی کتابوںمیں پائیں گے اس کا راز یہ ہے کہ اسلام، جہل کو چوتھے معنی کے لحاظ سے جو کہ امر وجودی ہے اور عقل کے مقابل ہے جہل کے دوسرے اور تیسرے معنی۔ امر عدمی اور علم کے مقابل ہے سے زیادہ خطرناک جانتا ہے ۔

بعبارت دیگر، اسلامی نصوص میں عقل و جہل کا تقابل اس چیز کی علامت ہے کہ اسلام عقل کے مقابل جہل کو علم کے مقابل جہل سے زیادہ خطرناک جانتا ہے اور جب تک اس جہل کی بیخ کنی نہ ہوگی صرف علم کے مقابل جہل کی بیخ کنی سے معاشرہ کے لئے اساسی فائدہ حاصل نہیں ہو سکتااور یہ نکتہ نہایت ظریف اور دقیق ہے لہذا اسے غنیمت سمجھو!

۱۴۶

دوسری فصل جہل سے بچو

۲/۱

جہل کی مذمت

قرآن

( بیشک ہم نے امانت کو آسمان ، زمین اور پہاڑ سب کے سامنے پیش کیا اور سب نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا اور خوف ظاہر کیا بس انسان نے اس بوجھ کواٹھا لیا کہ انسان اپنے حق میں ظالم اور نادان ہے)

الف: عظیم ترین مصائب

حدیث

۸۱۷۔ امام علی (ع): عظیم ترین مصائب نادانی ہے ۔

۸۱۸۔ امام علی (ع): شدید ترین مصائب میں سے جہل کاغلبہ بھی ہے ۔

۸۱۹۔ امام علی (ع): بدترین مصائب جہالت ہے۔

۸۲۰۔ امام صادق(ع): کوئی بھی مصیبت جہل سے بڑھکر نہیں۔

۱۴۷

ب: بدترین بیماری

۸۲۱۔ امام علی (ع): بدترین بیماری نادانی ہے۔

۸۲۲۔ امام علی (ع): جہالت، بدترین بیماری ہے ۔

۸۲۳۔امام علی (ع): جہالت سے بڑھ کر ناتواں کرنے والی کوئی بیماری نہیں ہے۔

۸۲۴۔امام علی (ع): جہالت بیماری اور سستی ہے۔

۸۲۵۔ امام علی (ع): انسان میں جہالت جذام سے زیادہ مضر ہے ۔

ج: شدید ترین فقر

۸۲۶۔ رسول خدا(ص): اے علی (ع):جہالت سے بدتر کوئی فقرنہیں۔

۸۲۷۔ امام علی (ع): کوئی بے نیازی عقل کے مانند نہیں اور کوئی فقر جہالت کے مثل نہیں۔

۸۲۸۔ امام علی (ع): جاہل کے لئے کوئی بے نیازی نہیں۔

د: خطرناک ترین دشمن

۸۲۹۔ رسول خدا(ص): ہر انسان کا دوست اسکی عقل ہے اور دشمن اسکی جہالت ہے ۔

۸۳۰۔ رسول خدا(ص): وہ شخص کہ جس کا فہم اس کے لئے نفع بخش نہیں ہے تو اسکی نادانی اس کے لئے مضر ہے۔

۸۳۱۔ امام علی (ع): کوئی دشمن ، جہل سے زیادہ خطرناک نہیں۔

۸۳۲۔ امام علی (ع): جہل سب سے بڑا دشمن ہے ۔

۸۳۳۔ امام عسکری ؑ: نادانی ، دشمن ہے اور بردباری حکمرانی ہے ۔

۱۴۸

ھ: رسوا ترین بے حیائی

۸۳۴۔ امام علی (ع): کوئی بے حیائی نادانی سے بدتر نہیں۔

۸۳۵۔ امام علی (ع): جہالت کی مذمت کے لئے یہی کافی ہے کہ جاہل خود اس سے بیزاری اختیار کرتا ہے ۔

۸۳۶۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے ۔ خوبصورت انسان کے لئے کتنا قبیح ہے کہ جاہل ہو وہ اس خوبصورت مکان کی طرح ہے کہ جس کے رہنے والے شریر لوگ ہوں یا ایسے باغ کی مانند ہے کہ جس کو الو ؤںنے آباد کیا ہو، اور یا(بھیڑ بکریوں) کے ریوڑ کے مثل ہے کہ جس کی نگہبانی بھیڑ یاکر رہا ہو۔

۲/۲

جاہل کی مذمت

قرآن

( اللہ کے نزدیک بدترین زمین پر چلنے والے وہ بہرے اور گونگے ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے ہیں)

حدیث

۸۳۷۔ رسول خدا(ص): اللہ تعالیٰ نے کسی بندہ کو رسوا و ذلیل نہیں کیا مگر یہ کہ اسے علم و ادب سے محروم رکھا ہو۔

۸۳۸۔ امام علی (ع): جب خدا کسی بندہ کو رسوا کرنا چاہتا ہے تو اسے علم وانش سے محروم کر دیتا ہے ۔

۸۳۹ ۔ رسول خدا(ص): وہ دل جس میں حکمت نہیں ویران گھر کی طرح ہے ؛ لہذا سیکھو اور سکھاؤ؛ علم و فقہ حاصل کرو اور جاہل مت مرو، یقینا خدا جاہل کے عذر کو قبول نہیں کریگا۔

۱۴۹

۸۴۰۔ رسول خدا(ص): جاہل زاہد شیطان کا ٹھٹھا ہے ۔

۸۴۱۔امام علی (ع): جسم کی بلندی و بزرگی سے کوئی فائدہ نہیں جبکہ دل نقصان میں ہو۔

۸۴۲۔ امام علی (ع): اللہ تعالیٰ کے نزدیک مبغوض ترین خلائق، جاہل ہے ؛ کیوں کہ خدا نے اس کو اس نعمت سے محروم رکھا ہے کہ جس کے ذریعہ اس نے اپنے تمام بندوں پر احسان کیا ہے ؛ اور وہ عقل ہے ۔

۸۴۳۔ امام علی (ع): جاہل کا عمل وبال ہے اور اس کا علم گمراہی ہے ۔

۸۴۴۔ امام علی (ع): بدبخت ترین انسان ، جاہل ہے ۔

۸۴۵۔ امام علی (ع): جاہل زندوں کے درمیان مردہ ہے ۔

۸۴۶۔ امام علی (ع): جاہل، چھوٹا ہے چاہے بوڑھا ہی ہو اور عالم بزرگ ہے چاہے چھوٹا ہی ہو۔

۸۴۷۔ امام علی (ع): جاہل ایسی چٹان ہے کہ جس سے پانی کے چشمے نہیں پھوٹتے، ایسا درخت ہے کہ جس کی شاخ سر سبز نہیںہوتی اور ایسی زمین ہے کہ جس پر سبزہ نہیںاگتا۔

۸۴۸۔ امام علی (ع): جاہل کے لئے ہر حالت میں خسارہ ہے ۔

۸۴۹۔ امام علی (ع): ہر جاہل فتنہ میں مبتلا ہے ۔

۸۵۰۔ امام علی (ع): جاہل ، حیران و سرگرداں ہے ۔

۸۵۱۔ امام علی (ع): جاہل کا تسلط اس کے عیوب کو آشکار کرتا ہے ۔

۸۵۲۔ امام علی (ع): جاہل کے ہاتھ میں نعمت، مزبلہ پر گلزار کے مانند ہے ۔

۸۵۳۔ امام علی (ع):جاہل کی نعمت جتنی حسین ہوتی جائیگی اتنی ہی قبیح ہوتی جائیگی۔

۸۵۴۔ امام علی (ع): جاہل کی حکومت اس مسافر کی سی ہے جو ایک جگہ نہیں ٹھہرتا ۔

۸۵۵۔ امام علی (ع): جو عقل سے محروم ہے ، اس سے امید نہ رکھو۔

۱۵۰

۸۵۶۔ امام علی (ع): نیکوکار کی زبان ، جاہلوں کی حماقت سے باز رہتی ہے ۔

۸۵۷۔ امام علی (ع): تلوار کی تیزی کے علاوہ جاہل کو کوئی روک نہیں سکتا۔

۸۵۸۔ امام علی (ع): نے واقعہ جمل کے بعد اہل بصرہ کی مذمت میں فرمایا: تمہاری زمین پانی سے قریب اور آسمان سے دور ہے ، تمہاری عقلیں ہلکی اور تمہاری دانائی احمقانہ ہے ، تم ہر تیرانداز کا نشانہ ، ہر بھوکے کا لقمہ اور ہر شکاری کا شکار ہو۔

۸۵۹۔ امام علی (ع): نادان دوست کی ہمنشینی اختیار مت کرو اور اس سے پرہیز کرو کتنے نادانوں نے دوستی کے سبب بردبار انسانوں کو ہلاکت کے دہانے تک پہنچا دیاہے۔

۸۶۰۔ امام باقر(ع): بیشک وہ دل جس میں ذرا بھی علم نہ ہو، اس کھنڈر کے مانند ہے جس کا کوئی آباد کرنے والا نہ ہو۔

۸۶۱۔ امام عسکری ؑ: جاہل کی تربیت اورعادی کو اسکی عادت سے روکنا معجزہ ہے ۔

۸۶۲۔ لقمان : صاحب علم و حکمت کا تمہیں مارنا اور اذیت پہنچانااس سے بہتر ہے کہ جاہل خوشبودار تیل سے تمہاری مالش کرے۔

۱۵۱

۲/۳

نادر اقوال

۸۶۳۔ رسول خدا(ص): خدا نے جہل کے سبب کسی کو عزیز نہیں کیا اور بردباری کے سبب کسی کو رسوا نہیں کیا۔

۸۶۴۔ امام علی (ع): فضائل سے ناواقفیت ،بد ترین رذائل ہے۔

۸۶۵۔ امام علی (ع): نادانی و بخل ، برائی اور ضرر ہے ۔

۸۶۶۔ امام علی (ع): نادانی سے بدترکوئی موت نہیں۔

۸۶۷۔ امام علی (ع): جہل وبال ہے ۔

۸۶۸۔ امام علی (ع): جہل کے ساتھ کوئی مذہب ترقی نہیں کر سکتا۔

۸۶۹۔ امام علی (ع): بیشک تم لوگ نادانی کی بدولت نہ کسی مطلوب کو حاصل کر سکتے ہو اور نہ کسی نیکی تک پہنچ سکتے ہو اور نہ ہی کسی مقصد آخرت تک تمہاری رسائی ہو سکتی ہے۔

۸۷۰۔ امام علی (ع): یقینا جہل سے بے رغبتی اتنی ہی ہے کہ جتنی مقدار میں عقلمندی سے رغبت ہے ۔

۱۵۲

تیسری فصل جاہلوں کے اقسام

۸۷۱۔ امام علی (ع): لوگ چار طرح کے ہوتے ہیں: وہ شخص جو جانتا ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ میں جانتا ہوں۔ ایسا شخص حقیقتاً عالم ہے لہذا اس سے سوال کرو؛ وہ شخص جو نہیں جانتا لیکن یہ جانتا ہے کہ میں نہیں جانتا ہوں راہ ہدایت کا طالب ہے لہذا اسکی ہدایت کرو، وہ شخص جو نہیں جانتا اور یہ بھی نہیں جانتا کہ نہیں جانتا ہوں ، ایسا شخص جاہل ہے اسے چھوڑ دو، اور وہ شخص جو جانتا ہے لیکن یہ نہیں جانتا کہ میں جانتا ہوں یہ سویا ہوا اہے لہذا سے بیدار کرو۔

۸۷۲۔ امام صادق(ع): لوگ چار طرح کے ہوتے ہیں: وہ شخص جو جانتا ہے اور یہ بھی جاتاہیکہ میں جانتا ہوں پس یہ شخص عالم ہے لہذا اس سے علم حاصل کرو؛ وہ شخص جو جانتا ہے اور یہ نہیں جانتا کہ میں جانتاہوں یہ سویا ہوا ہے اسے بیدار کرو، وہ شخص جو نہیں جانتا اور یہ جانتاہے کہ نہیں جانتا ہوں ایسا شخص جاہل ہے اسے تعلیم دو، اور وہ شخص جو نہیںجانتا اور یہ بھی نہیں جانتا کہ نہیں جانتا ہوں یہ احمق ہے اس سے اجتناب کرو۔

اقسام جہل کی وضاحت

جیسا کہ ان روایات میں اشارہ کیا گیا ہے کہ حقائق کی معرفت کے اعتبار سے انسان کی چار حالتیں ہیں اور ان حالات میں سے ہر حالت کے لئے فرد اور معاشرہ کے لحاظ سے خاص احکام و تکالیف ہیں، وہ حالات حسب ذیل ہیں۔

۱۵۳

۱۔ علم

پہلی حالت، علم و آگاہی ہے ؛ جو شخص جانتا ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ میں جانتا ہوں اسے عالم کہا جاتا ہے ، ایسا شخص دوسروں کے لئے معلم بننے کا حق رکھتا ہے اور اسلام کی رو سے ایسے شخص کا فریضہ لوگوں کو تعلیم دینا اور لوگوںکافریضہ علم حاصل کرنا ہے ، جیسا کہ ارشاد خدا ہے:

( فسئلوا اهل الذکر ان کنتم لا تعلمون)

اہل ذکر سے پوچھو اگر تم نہیں جانتے!

۲۔ غفلت

دوسری حالت، غفلت ہے ؛ غافل وہ شخص ہے جو جانتا ہے اور یہ نہیں جانتا کہ میں جانتا ہوں ، یہاں پر بیدار لوگوں پر لازم ہیکہ اسے خواب غفلت سے بیدار کریں(فذاک نائم فأنبهوه) وہ سویا ہوا ہے اسے بیدار کرو(و ذکر فان الذکریٰ تنفع المؤمنین) اور یاد دہانی کرتے رہو کہ یاد دہانی صاحبان ایمان کے حق میں مفید ہوتی ہے ۔

۳۔ جہل بسیط

تیسری حالت، جہل بسیط ہے ؛ جاہل وہ ہے جوکچھ نہیں جانتا؛ اور چاہے وہ جانتا ہو کہ میں نہیں جانتا ہوں یا نہ جانتا ہو کہ نہیں جانتا ہوں ، ہر حالت میں عالم پر لازم ہے کہ اسے تعلیم دے اور اس پر ضروری ہے کہ سیکھے تاکہ آیت( فسئلوا اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون ) کا مصداق قرار پائے۔

۱۵۴

۴۔ جہل مرکب

چوتھی حالت، جہل مرکب ہے ؛ یہ جہل دو جہل سے مرکب ہے ، وہ دو جہل عدم علم اور توہم علم ہےں۔ جاہل مرکب وہ ہے جو نہیںجانتا اور خیال کرتا ہے کہ میں جانتا ہوں ،بظاہر اس فصل کی روایات میں وارد اس جملہ( لا یعلم ولا یعلم انہ لا یعلم) یعنی نہیںجانتا اور یہ بھی نہیں جانتاکہ نہیںجانتا ہوں؛ اور اسی طرح(لا یدری ولا یدری انہ لا یدری)یعنی نہیں جانتا اور یہ بھی نہیں جانتاکہ نہیں جانتا ؛ یہی معنی مراد ہےں لہذا علی علیہ السلام نے ایسے جاہل کے مقابل میں لوگوں کا وظیفہ یہ قرار دیا ہے کہ اسے چھوڑ دیا جائے :- (فذاک جاہل فارفضوہ؛ پس یہ جاہل ہے اسے چھوڑ دو) اور امام صادق(ع) نے لوگوں کو ایسے شخص سے اجتناب کا حکم دیا ہے: (فذاک احمق فاجتنبوہ؛ وہ جاہل ہے اس سے اجتناب کرو)

لا علاج بیماری

اس سلسلہ کی احادیث کے اندر جاہلوں کے اقسام کے حوالہ سے جو ہدایت پیش کی گئی ہے اس کے متعلق اساسی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ معاشرہ کے آگاہ افراد پر غافل اور جاہل بسیط کو آگاہ کرنا کیوں لازم ہے؛ لیکن جاہل مرکب کے متعلق نہ فقط یہ کہ کوئی فریضہ نہیں ہے بلکہ فریضہ یہ ہے کہ اس سے اجتناب کیا جائے اور چھوڑ دیا جائے؟

جواب یہ ہے کہ جہل مرکب، خطرناک ترین اقسام جہل ہے اور در حقیقت لا علاج بیماری ہے جو شخص نہیںجانتا اور یہ خیال کرتا ہے کہ جانتا ہے وہ اپنے خیال اور احساس آگاہی کی ایسی خطرناک بیماری میں مبتلا ہے کہ جو ناقابل علاج ہے۔

۱۵۵

اس سلسلہ میں امام صادق - فرماتے ہیں:

''من اعجب بنفسه هلک، ومن اعجب برأیه هلک، وان عیسیٰ بن مریم (ع) قال: داویت المرضی فشفیتهم باذن اﷲ، وابرأت الاکمه والابرص باذن اﷲ، وعالجت الموتیٰ فاحییتهم باذن اﷲ، وعالجت الاحمق فلم اقدر علیٰ اصلاحه فقیل یا روح اﷲ، وما الاحمق؟ قال: المعجب برأیه ونفسه، الذی یریٰ الفضل کله له لا علیه، ویوجب الحق کله لنفسه ولا یوجب علیها حقا، فذاک الاحمق الذی لا حیلة فی مداواته''

جو شخص اپنے متعلق خوش فہمی میں مبتلا ہوتا ہے تباہ ہو جاتا ہے ، اور جو اپنی رائے و نظر سے خوش ہوتا ہے ہلاک ہو جاتا ہے ، بیشک عیسیؑ بن مریم فرماتے ہیں( بیماروںکا خدا کے اذن سے علاج کیا شفایاب ہوگئے، نابینا اور کوڑھیوںکو خدا کے اذن سے شفا بخشی ؛ اور مردوں کو باذن الہی زندہ کیا؛ اور احمق کا علاج کیالیکن اسکی اصلاح نہ کرسکا!

پوچھا گیا: اے روح اللہ! احمق کون ہے ؟ فرمایا:( وہ شخص جو خود کواور اپنی رائے ہی کو صحیح سمجھتا ہے)تمام فضیلتوں کو اپنا ہی حق سمجھتاہے ، اپنے کسی عیب کو تسلیم نہیں کرتا اپنے حقوق کوواجب جانتا ہے اور اپنے اوپرکسی کاحق واجب نہیں سمجھتا یہ شخص ایسا احمق و نادان ہے کہ جس کا کوئی علاج نہیں ہے۔

اس وضاحت کے لحاظ سے حقیقی احمق و نادان وہ شخص نہیںہے جو دماغی مشکلات میں مبتلا ہو اور جسمی بیماریوںکی وجہ سے مسائل کے سمجھنے پر قادر نہ ہو۔ اس طرح کے مریض اگر طبیعی طور پر قابل علاج نہ ہوں تو معجزہ کے ذریعہ ان کا علاج ممکن ہے ۔ حقیقی احمق وہ ہے کہ جس کا دماغ سالم ہو؛ لیکن خود بینی اور احساس دانائی کی بیماری نے اسکی عقل و فکر کو فاسد کر دیا ہے جس کے نتیجہ میں عقل عملی کی دعوت کو قبول نہیں کرتا لہذا اسکی عقل کی فنا و موت کازمانہ آپہنچتا ہے ۔ ایسے مردہ کا علاج ممکن نہیں ۔ ایسے مردہ کو حضرت عیسیؑ بھی زندہ نہیںکر سکتے۔

۱۵۶

حضرت عیسیٰ باذن خدا ہر قسم کی جسمی بیماریوں کا طبی آلات کے بغیر علاج کرتے تھے؛ یہاں تک کہ مردوںکو بھی زندہ کرتے تھے؛ لیکن مردہ فکرو عقل کے زندہ کرنے پر قادر نہ تھے، کسی بنی کو اس پر قدرت نہ تھی جیسا کہ قرآن کریم خاتم الانبیاء محمد مصطفی ؐ سے فرماتا ہے:

(انک لا تسمع الموتیٰ ولا تسمع الصم الدعائ)

یقینا آپ اپنی آواز نہ مردوں کو سنا سکتے ہیں اور نہ ہی بہروںکو۔

اس قسم کے انسان فقط دنیا کے ظواہر پر نظر رکھتے ہیں اور حقیقت سے غافل ہوتے ہیں:

(یعلمون ظاهرا من الحیاة الدنیا و هم عن الآخرة هم غافلون)

یہ لوگ صرف زندگانی دنیا کے ظاہر کو جانتے ہیں اور آخرت کی طرف سے بالکل غافل ہیں۔

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مردہ کو تعلیم دینا بے سود ہے اور جس کی عقل و فکر مردہ ہو چکی ہو وہ خطرناک ترین چوپائے میں تبدیل ہو جاتاہے جیسا کہ قرآن کا ارشادہے:

( ان شر الدواب عند اﷲ الصم البکم الذین لایعقلون)

اللہ کے نزدیک بدترین زمین پر چلنے والے وہ بہرے اور گونگے ہیںجو عقل سے کام نہیں لیتے ہیں۔

اسی بنا پر، ایسے شخص سے قریب ہونا ہی خطرناک ہے : کیوں کہ عقلی و فکری بیماری متعدی ہوتی ہے ممکن ہے کہ دوسروںمیںسرایت کر جائے لہذا لوگوںکا ریضہ یہ ہے کہ ایسی بیماریوں سے اجتناب کریں اور اس سے دور رہیں؛ جیسا کہ خدا فرماتا ہے :

(فاعرض عن من تولیٰ عن ذکرنا و لو یرد الا الحیاة الدنیا)

لہذا جو شخص بھی ہمارے ذکر سے منہ پھیرے اور زندگانی دنیا کے علاوہ کچھ نہ چاہے آپ بھی اس سے کنارہ کش ہو جائیں۔

۱۵۷

چوتھی فصل جہل کے علامات

۴/۱

آثار جہل

الف : کفر

قرآن مجید

(جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو کچھ خدا نے نازل کیا ہے اس کا اتباع کرو تو کہتے ہیں کہ ہم اس کا اتباع کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے ۔ک یا یہ ایسا ہی کریںگے چاہے ان کے باپ دادا بے عقل ہی رہے ہوں اور ہدایت یافتہ نہ ہوں)

(جو لوگ کافر ہو گئے ہیں ان کے پکارنے والے کی مثال اس شخص کی سی ہے جو جانوروں کو آواز دے اور جانور پکار اور آواز کے علاوہ کچھ نہ سنیں اور نہ سمجھیںیہ کفار بہرے، گونگے اور اندھے ہیں۔ انہیں عقل سے سروکار نہیں ہے)

(اور جب تم نماز کے لئے اذان دیتے ہو تو یہ اس کو مذاق اور کھیل بنا لیتے ہیں اس لئے کہ یہ بالکل بے عقل قوم ہیں)

حدیث

۸۷۳۔ رسول خدا(ص): تمام خوبیاں عقل کے سبب حاصل ہوتی ہیں اور جسکے پاس عقل نہیںہے اسکے پاس دین نہیں۔

۸۷۴۔ رسول خدا(ص): انسان کی اصل اسکی عقل ہے اور جس کے پاس عقل نہیںہے اس کے پاس دین نہیں۔

۸۷۵۔ رسول خدا(ص): انسان کا دین اسکی عقل ہے اور جس کے پاس عقل نہیںہے اس کے پاس دین نہیں۔

۱۵۸

۸۷۶۔ امام علی (ع): کوئی شخص کافر نہیں ہو ا مگر یہ کہ جاہل تھا۔

۸۷۷۔ امام علی (ع): کافر ایسا پست حیلہ باز، خیانتکار ، اور مغرور ہے جو اپنی جہالت کے سبب نقصان میں ہے۔

۸۷۸۔ امام علی (ع): کافر، بدکارجاہل ہے ۔

۸۷۹۔ امام علی (ع): جاہل جب بخل سے کام لیتا ہے تو مالدار ہوجاتا ہے اور جب مالدار ہو جاتا ہے توبے دین ہو جاتا ہے۔

۸۸۰۔ امام علی (ع): علی بن اسباط: کسی معصوم ؑ سے نقل کرتے ہیں: خدا کی جانب سے حضرت عیسیؑ کو کی جانے والی نصیحتوں میں ملتا ہے: اے عیسی! میرے ساتھ کسی چیز کو شریک مت قرار دو....ہر جگہ حق کے ساتھ رہو، خواہ ٹکڑے ٹکڑے کرکے آگ میں جلا دئے جاؤ۔ پھر بھی میری معرفت کے بعد کفر اختیار نہ کرنا تاکہ جاہلوں میں سے نہ ہوجاؤ۔

ب: برائیاں

۸۸۱۔ رسول خدا(ص): جہل تمام برائیوں کا سرغنہ ہے ۔

۸۸۲۔ امام علی (ع): جہالت تمام برائیوں کی جڑہے ۔

۸۸۳۔ امام علی (ع): جہالت ہر کام کی تباہی ہے ۔

۸۸۴۔ امام علی (ع): جہالت کے سبب تمام برائیاں پیدا ہوتی ہیں۔

۸۸۵۔ امام علی (ع): جہالت برائی کا سرچشمہ ہے ۔

۱۵۹

ج: علم اور عالم سے دشمنی

۸۸۶۔ امام علی (ع): لوگ نامعلوم چیزوںکے دشمن ہوتے ہیں۔

۸۸۷۔ امام علی (ع): جو کسی چیز سے ناواقف ہوتا ہے اس کا دشمن ہوتا ہے ۔

۸۸۸۔امام علی (ع): جو شخص کسی چیز سے بے خبر ہوتا ہے اس میں عیب نکالتا ہے ۔

۸۸۹۔ امام علی (ع): جو شخص کسی چیز کی معرفت سے قاصر ہوتا ہے اس میں نقص نکالتا ہے ۔

۸۹۰۔ امام علی (ع): کسی نے بھی جاہلوں کی طرح علماء کی مخالفت نہیںکی۔

۸۹۱۔ امام علی (ع): جن چیزوںکو نہیں جانتے ان کے دشمن نہ بنو اس لئے کہ بیشتر علم انہیں چیزوں میں ہے جنہیں تم نہیںجانتے۔

د: روح کی موت

۸۹۲۔ امام علی (ع): جہل، زندوںکو مردہ اور بدبختوں کو دوام بخشتا ہے ۔

۸۹۳۔ امام علی (ع): جہالت موت ہے اور سستی فنا ہے ۔

۸۹۴۔ امام علی (ع): جاہل مردہ ہوتا ہے چاہے زندہ ہی کیوں نہ ہو۔

۸۹۵۔ امام علی (ع): عالم مردوں کے درمیان زندہ اور جاہل زندوں کے درمیان مردہ ہے ۔

۸۹۶۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصارمیں ہے ۔ فضائل سے ناواقفیت موت کے برابر ہے۔

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

مسئلہ ١ ۴ ٨٧ اگر امام غلطی سے ایسی رکعت ميں قنوت پڑھ لے جس ميں قنوت نہيں ہے یا جس رکعت ميں تشهد نہيں ہے اس ميں تشهد پڑھنے ميں مشغول ہو جائے تو ضروری ہے کہ ماموم قنوت اور تشهد نہ پڑھے ليکن وہ امام سے پهلے رکوع ميں نہيں جا سکتا اور امام سے پهلے قيام نہيں کرسکتا ہے بلکہ ضروری ہے کہ انتظار کرے تاکہ امام کا قنوت اور تشهد تمام ہوجائے اور اپنی بقيہ نماز کو امام کے ساته پڑھے۔

نمازجماعت ميں امام اور ماموم کا وظيفہ

مسئلہ ١ ۴ ٨٨ اگر ماموم ایک مرد ہو تو احتياط واجب کی بنا پر وہ امام کی دائيں طرف کهڑا ہو اور اگر ایک مرد اور ایک عورت یا چند عورتيں ہوں تو مرد دائيں طرف اور بقيہ عورتيں امام کے پيچهے کهڑی ہو ں اور اگر چند مرد اور ایک یا چند عورتيں ہوں تومرد امام کے پيچهے اور عورتيں مردوں کے پيچهے کهڑی ہوں اور اگر ایک یا چند عورتيں ہوں تو امام کے پيچهے کهڑی ہوں اور ایک عورت ہونے کی صورت ميں مستحب ہے کہ امام کے پيچهے دائيں سمت ميں اس طرح کهڑی ہو کہ اس کی سجدے کی جگہ امام کے گھٹنوں یا قدم کے مقابل ہو۔

مسئلہ ١ ۴ ٨٩ اگر ماموم اور امام دونوں عورتيں ہوں تو احتياط واجب یہ ہے کہ وہ سب ایک دوسرے کے برابر ميں کهڑی ہوں اور امام ان سے آگے نہ ہو۔

وہ چيزيں جو نمازجماعت ميں مستحب ہيں

مسئلہ ١ ۴ ٩٠ مستحب ہے کہ امام صف کے درميان ميں کهڑا ہو اور صاحبان علم، کمال اور تقویٰ پهلی صف ميں کھڑے ہوں۔

مسئلہ ١ ۴ ٩١ مستحب ہے کہ جماعت کی صفيں منظّم ہو ں اور ایک صف ميں کھڑے ہوئے نمازیوں کے درميان فاصلہ نہ ہو اور ان کے کاندهے ایک دوسرے کے مقابل ہوں۔

مسئلہ ١ ۴ ٩٢ مستحب ہے کہ ”قد قامت الصلاة“ کهنے کے بعد مامومين کھڑے ہوجائيں۔

مسئلہ ١ ۴ ٩٣ مستحب ہے کہ امام اس ماموم کی حالت دیکھ کرنماز پڑھائے جو مامومين ميں سب سے زیادہ ضعيف ہو اور قنوت، رکو ع،اور سجدے کو طول نہ دے، ليکن اگر جانتا ہو کہ تمام مامومين طول دینے کی طرف مائل ہيں تو کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ١ ۴ ٩ ۴ مستحب ہے کہ امام جماعت الحمد،سورہ،اور بلند آواز سے پڑھے جانے والے اذکار نماز ميں اپنی آواز اتنی اونچی کرے کہ دوسرے مامومين سن ليں، ليکن ضروری ہے کہ اپنی آواز حد سے زیادہ اونچی نہ کرے۔

مسئلہ ١ ۴ ٩ ۵ اگر امام کو رکوع کے دوران یہ معلوم ہوجائے کہ کوئی ماموم ابهی ابهی آیا ہے اور اقتدا کرنا چاہتا ہے تو مستحب ہے کہ رکوع کواپنے معمول سے دگنا طول دے اور اس کے بعد کهڑا ہوجائے، اگرچہ اسے یہ معلوم ہوجائے کہ کوئی اور بھی اقتدا کے لئے آیا ہے ۔

۲۴۱

وہ چيزيں جو نمازجماعت ميں مکروہ ہيں

مسئلہ ١ ۴ ٩ ۶ اگر جماعت کی صفوں کے درميان جگہ خالی ہو تو مکروہ ہے کہ انسان اکيلا کهڑا ہو۔

مسئلہ ١ ۴ ٩٧ ماموم کا اذکارِ نماز کو اس طرح پڑھنا کہ امام سن لے مکروہ ہے ۔

مسئلہ ١ ۴۶ ٨ جس مسافر کونماز ظهر،عصراور عشا دو رکعت پڑھنا ہيں ، اس کے لئے کسی ایسے شخص کی اقتدا کرنا جو مسافر نہيں ہے مکروہ ہے او رجو شخص مسافر نہيں اس کے لئے کسی ایسے شخص کی اقتدا کرنا جو مسافر ہو مکروہ ہے ۔

نماز آيات

مسئلہ ١ ۴ ٩٩ نماز آیات کہ جس کے پڑھنا کا طریقہ بعد ميں بيان ہوگا چار چيزوں کی وجہ سے واجب ہوتی ہے :

١) سورج گرہن ۔

٢) چاند گرہن۔ اگر چہ ان کے کچھ حصے کو ہی گرہن لگے اور اس کی وجہ سے کوئی خوف زدہ بھی نہ ہوا ہو۔

٣) زلزلہ، اگرچہ کوئی خوف زدہ بھی نہ ہوا ہو۔

۴) گرج چمک اور سرخ وسياہ آندهی اور ان جيسی دوسری آسمانی نشانياں، اس صورت ميں کہ اکثر لوگ ان سے خوف زدہ ہوجائيں۔ جها ں تک زمينی حادثات کا تعلق ہے جيسے کہ دریا کا پانی خشک ہوجانا اور پهاڑ کا گرنا جو کہ اکثر لوگوں کہ خوف زدہ ہونے کاباعث ہوتاہے ، تو ان ميں نماز آیات پڑھنا مستحب ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٠٠ جن چيزوں کی وجہ سے نماز آیات پڑھنا واجب ہے اگروہ ایک سے زیادہ ہو جائيں تو ضروری ہے کہ انسان ان ميں سے ہر ایک کے لئے نمازآیات پڑھے۔ مثلاً سورج گرہن بھی ہو اور زلزلہ بھی آجائے تو ضروری ہے کہ ایک نمازآیات سورج گرہن کے لئے اور ایک نماز آیات زلزلے کے لئے پڑھے۔

مسئلہ ١ ۵ ٠١ جس شخص پر ایک سے زیادہ نماز آیا ت کی قضا واجب ہو خواہ وہ ایک چيز کی وجہ سے واجب ہوئی ہوں جيسے کہ تين مرتبہ سورج گرہن ہوا ہو اور اس شخص نے تينوں مرتبہ نماز آیات نہ پڑھی ہو، یا چند چيزوں کی وجہ سے واجب ہوئی ہوں جيسے کہ سورج گرہن بھی ہوا ہو اور چاند گرہن بهی، ا ن کی قضا بجا لاتے وقت ضروری نہيں ہے کہ وہ شخص یہ معين کرے کہ کون سی نماز کی قضا کر رہا ہوں، البتہ احتياط مستحب یہ ہے کہ اگرچہ اجمالا ہی سهی، انہيں معين کرے مثلاًیہ نيت کرے کہ جو پهلی نماز آیات یا دوسری نماز آیات جو مجھ پر واجب ہوئی تھی اس کی قضا بجا لا رہا ہوں۔

مسئلہ ١ ۵ ٠٢ جن چيزوں کی وجہ سے نماز آیات پڑھنا واجب ہے اگر وہ کسی جگہ واقع ہوجائيں تو صرف اسی جگہ کے لوگوں کے لئے نماز آیات پڑھنا واجب ہے اور دوسرے مقامات کے لوگوں کے لئے اس کا پڑھنا واجب نہيں ہے ۔

۲۴۲

مسئلہ ١ ۵ ٠٣ سورج یا چاند کو گرہن لگنے کی صورت ميں نمازآیا ت پڑھنے کا وقت اسی وقت سے شروع ہوتا ہے جب سورج یا چاند کو گهن لگنا شروع ہوجائے اور اس وقت تک باقی رہتا ہے جب سورج یا چاند مکمل طور پر گرہن سے نکل آئيں اور احتياط مستحب یہ ہے کہ اتنی تاخير نہ کرے کہ سور ج یا چاند گرہن سے نکلنا شروع ہوجائيں، بلکہ گرہن کی ابتدا ميں ہی نماز آیات پڑھنا مستحب ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٠ ۴ اگر کوئی شخص نماز آیات پڑھنے ميں اتنی تاخير کرے کہ چاند یا سورج گرہن سے نکلنا شروع ہو جائيں تو اس کی نمازادا ہے ، ليکن پورا سورج یاچاند،گرہن سے نکل جانے کی صورت ميں اس کی نمازقضا ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٠ ۵ اگر چاند گرہن یا سورج گرہن کی مدت ایک رکعت کے برابر یا اس سے بھی کم ہو تو نماز آیات واجب اور ادا ہے ۔اسی طرح اگر گرہن کی مدت ایک رکعت سے زیادہ ہو اور انسان نمازنہ پڑھے یهاں تک کہ ایک رکعت کے برابر یا اس سے بھی کم وقت باقی رہ گيا ہو تب بھی نماز آیات واجب اور ادا ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٠ ۶ انسان کے لئے واجب ہے کہ زلزلہ،گرج چمک اور انهی جيسی دوسری چيزوں کے وقوع کے وقت نماز آیات پڑھے اور ضروری ہے کہ نماز کو اتنی دیر سے نہ پڑھے کہ عرفا لوگ اسے تاخير کہيں اور تاخير کرنے کی صورت ميں اپنی نماز پڑھے ليکن احتياط واجب کی بنا پر ادا یا قضا کی نيت نہ کرے۔

مسئلہ ١ ۵ ٠٧ اگر کسی شخص کو سورج یا چاند گرہن لگنا معلوم نہ ہو اور ان کے گرہن سے نکلنے کے بعد پتہ چلے کہ پورے چاند یا سورج کو گرہن لگا تھا تو ضروری ہے کہ نماز آیات کی قضا بجا لائے، ليکن اگر یہ معلوم ہو کہ ان کی کچھ مقدار کو گرہن لگا تھا تو قضا ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٠٨ اگر کچھ لوگ کہيں کہ سورج یاچاند کو گرہن لگا ہے اور انسان کو ان کے کهنے سے یقين یا اطمينان پيدا نہ ہو اور اس گروہ ميں سے کوئی ایسا شخص موجودنہ ہو جس کا شرعی طورپر کوئی اعتبار ہو او رانسان نماز آیات نہ پڑھے اور بعد ميں یہ معلوم ہوکہ ان لوگوںنے صحيح کها تھا تو پورے چاند یاسورج کو گرہن لگنے کی صورت ميں ضروری ہے کہ نماز آیات بجا لائے، ليکن اگر ان کے کچھ حصے کو گرہن لگا ہو تو نماز آیات پڑھنا ضروری نہيں ہے ۔اسی طرح اگر دو اشخاص کہ جن کے عادل ہونے کا علم نہ ہو یا ایک شخص کہ جس کے قابل اعتماد ہونے کا علم نہ ہو، اگر یہ کہيں کہ سورج یاچاند کو گرہن لگا ہے اور بعد ميں معلوم ہوجائے کہ وہ دونوں عادل تهے یا وہ ایک شخص ایسا قابل اعتماد تھا کہ جس کے قول کے بر خلاف بات کاگمان نہ تھا تب بھی یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٠٩ اگر انسان کو ان لوگوں کے کهنے سے جو علمی قاعدے کی رو سے چاند گرہن یا سورج گرہن کے بارے ميں بتاتے ہيں ، اطمينان پيدا ہوجائے کہ سورج یا چاند گهن ہوا ہے تو ضروری هے _کہ نماز آیات پڑھے۔ نيز اگر وہ لوگ یہ کہيں کہ فلاں وقت

۲۴۳

سورج یا چاند کو گهن لگے گا اور فلاں وقت تک رہے گا اور انسان کو ان کے کهنے سے اطمينان پيدا ہوجائے تو ضروری ہے کہ وہ اپنے اطمينان پر عمل کرے۔

مسئلہ ١ ۵ ١٠ اگر کسی شخص کو معلوم ہو جائے کہ جو نماز آیات پڑھی تھی وہ باطل تھی تو اسے دوبارہ پڑھنا واجب ہے اور وقت گذرنے کی صورت ميں ضروری ہے کہ قضا کرے۔

مسئلہ ١ ۵ ١١ اگر پنجگانہ نمازوں کے اوقات ميں کسی شخص پر نماز آیات بھی واجب ہو جائے اور دونوں نمازوں کے لئے وقت وسيع ہو تو وہ پهلے کوئی بھی نماز پڑھ سکتا ہے اور اگر ان دونوں ميں سے کسی ایک کا وقت تنگ ہو تو جس نماز کا وقت تنگ ہو ضروری ہے کہ اسے پهلے پڑھے اور اگر دونوں کا وقت تنگ ہو تو ضروری ہے کہ پهلے یوميہ پڑھے۔

مسئلہ ١ ۵ ١٢ اگر کسی شخص کو پنجگانہ نمازوں کے د رميان یہ معلوم ہو جائے کہ نماز آیات کا وقت تنگ ہے اور نماز پنجگانہ کا وقت بھی تنگ ہو تو ضروری ہے کہ اسے مکمل کرنے کے بعد نماز آیات پڑھے اور اگر نماز یوميہ کا وقت تنگ نہ ہو تو ضروری ہے کہ اسے چھوڑ دے اور پهلے نماز آیات پڑھے اور اس کے بعد نماز یوميہ بجا لائے۔

مسئلہ ١ ۵ ١٣ اگر نماز آیات کے دوران کسی شخص کو یہ معلوم ہو جائے کہ یوميہ نماز کا وقت تنگ ہے تو ضروری ہے کہ وہ نماز آیات کو چھوڑ دے اور نماز یوميہ شروع کر دے اور نماز مکمل کرنے کے بعد، کوئی ایسا کام انجام دینے سے پهلے جو نماز کو باطل کر دیتا ہوضروری ہے کہ نماز آیات جهاں سے چھوڑی تھی وہيں سے مکمل کرے۔

مسئلہ ١ ۵ ١ ۴ اگر کسی عورت کے حيض یا نفاس کی حالت ميں سورج یا چاند کو گهن لگ جائے تو اس پر نماز آیات اورا س کی قضا واجب نہيں ہے ليکن غير موقت جيسے کہ زلزلہ اور گرج چمک ميں عورت کے پاک ہونے کے بعد ادا یا قضا کی نيت کے بغير نماز آیات بجالانا ضروری ہے ۔

نماز آيات کا طريقہ

مسئلہ ١ ۵ ١ ۵ نماز آیات دو رکعت ہے اور ہر رکعت ميں پانچ رکوع ہيں ۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ انسان نيت کرنے کے بعد تکبيرة الاحرام کهے اور ایک مرتبہ الحمد اور ایک پورا سورہ پڑھے اور رکوع ميں چلا جائے، پھر رکوع سے سر اٹھ الے اور دوبارہ ایک مرتبہ الحمد اور ایک سورہ پڑھے اور رکوع ميں چلا جائے اور اسی طرح پانچ رکوع کرے اور پانچویں رکوع سے سر اٹھ انے کے بعد دو سجدے کرے اور کهڑا ہوجائے اور دوسری رکعت کو بھی پهلی رکعت کی طرح بجا لائے اور تشهد پڑھ کر سلام پهيرے۔

مسئلہ ١ ۵ ١ ۶ نماز آیات ميں الحمد پڑھنے کے بعد انسان یہ بھی کر سکتا ہے کہ ایک سورے کے پانچ حصے کرے اور ایک آیت یا اس سے کم یا زیادہ پڑھے اور رکوع ميں چلا جائے، پھر رکوع سے اٹھ کر الحمد پڑھے بغير اسی سورہ کا دوسرا حصہ پڑھے اور رکوع ميں چلا جائے اور اسی طرح یہ عمل دهراتا رہے۔ یهاں تک کہ پانچویں رکوع سے پهلے سورہ مکمل کر لے۔

۲۴۴

مثلا سورہ قل ہو اللّٰہ احد کی نيت سے ”بسم الله الرحمن الرحيم “پڑھے اور رکوع ميں جائے اور اس کے بعد کهڑا ہوجائے اور ”قل ہو اللّٰہ احد “ کهے اور دوبارہ رکوع ميں جائے اور رکوع کے بعد کهڑا ہوا ور ”الله الصمد “ کهے پھر رکوع ميں جائے اور کهڑا ہوا اور ”لم یلد ولم یولد“ کهے اور رکوع ميں چلا جائے اور رکوع سے سر اٹھ ا لے اور ”ولم یکن لہ کفوا احد“ کهے اور اس کے بعد پانچویں رکوع ميں چلا جائے، رکوع سے سر اٹھ انے کے بعد دوسجدے کرے۔ دوسری رکعت بھی پهلی رکعت کی طرح بجا لائے اور دوسرے سجدے کے بعد تشهد اور سلام پڑھ کر نماز مکمل کرے۔ نيز یہ بھی جائز ہے کہ ایک سورے کو پانچ سے کم حصوں ميں تقسيم کرے ليکن جب بھی سورہ مکمل کرے ضروری ہے کہ بعد والی رکوع سے پهلے الحمد پڑھے اور اس کے بعد ایک سورہ یا اس کا کچھ حصہ پڑھے۔

مسئلہ ١ ۵ ١٧ اگر کوئی شخص نماز آیات کی ایک رکعت ميں پانچ دفعہ الحمد اور سورہ پڑھے اور دوسری رکعت ميں ایک دفعہ الحمد اور سورے کو پانچ حصوں ميں تقسيم کردے تو کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ١٨ جو چيزیں پنجگانہ نماز ميں واجب اور مستحب ہيں وہ نماز آیات ميں بھی واجب اور مستحب ہيں البتہ اگر نماز آیات جماعت کے ساته ہو رہی ہو تو اذان اور اقامت کے بجائے تين دفعہ بطور رجاء ”الصلاة“کها جائے۔

مسئلہ ١ ۵ ١٩ نماز آیات پڑھنے والے کے لئے مستحب ہے کہ پانچویں اور دسویں رکوع سے سر اٹھ انے کے بعد ”سمع اللّٰہ لمن حمدہ“ پڑھے۔ نيز ہر رکوع سے پهلے اور اس کے بعد تکبير کهنا مستحب ہے ، ليکن پانچویں اور دسویں رکوع کے بعد تکبير کهنا مستحب نہيں ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٢٠ مستحب ہے کہ دوسرے، چوتھے، چھٹے، آٹھ ویں اور دسویں رکوع سے پهلے قنوت پڑھا جائے اور اگر صرف دسویں رکوع سے پهلے پڑھ ليا جائے تب بھی کافی ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٢١ اگر کوئی شخص نمازآیات ميں شک کرے کہ کتنی رکعت پڑھی ہے اور کسی نتيجے پر نہ پهنچے تو اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٢٢ اگر شک کرے کہ پهلی رکعت کے آخری رکوع ميں ہے یا دوسری رکعت کے پهلے رکوع ميں اور کسی نتيجے پر نہ پهنچ سکے تو اس کی نماز باطل ہے ۔هاں، اگر رکوع کی تعداد ميں شک کرے تو کم پر بنا رکھے مگر یہ کہ شک کرے کہ چار رکوع بجا لایا ہے یا پانچ کہ اس صورت ميں اگر سجدے ميں جانے کے لئے جھکا نہ ہو تو ضروری ہے کہ جس رکوع کے لئے جھک گيا تھا اسے بجا لائے اور اگر سجدے ميں جانے کے لئے جھک جانے کے بعد اور سجدے ميں پهنچنے سے پهلے شک ہوا ہو تواحتياط واجب کی بنا پر واپس پلٹ آئے اور رکوع بجا لائے اور نماز مکمل کر کے دوبارہ بجا لائے، ليکن اگر سجدے ميں پهنچ گيا ہو تو ضروری ہے کہ اپنے شک کی پروا نہ کرے۔

مْسئلہ ١ ۵ ٢٣ نماز آیات کا ہر رکوع ایک رکن ہے اور اگر ان ميں عمدا یا سهواً کمی یابيشی ہو جائے تو نماز باطل ہے ۔

۲۴۵

عيد فطر و عيدقربان کی نمازيں

مسئلہ ١ ۵ ٢ ۴ امام عليہ السلام کے زمانے ميں عيد فطر وعيد قربان کی نمازیں واجب ہيں اور ضروری ہے کہ یہ نمازیں جماعت کے ساته پڑھی جائيں ليکن ہمارے زمانے ميں جب کہ امام عصر عليہ السلام پردہ غيبت ميں ہيں ، یہ نمازیں مستحب ہيں اور باجماعت اور فرادیٰ دونوں طرح پڑھی جا سکتی ہيں ۔هاں، با جماعت پڑھنے کی صورت ميں احتياط واجب کی بنا پر نمازیوں کی تعدادپانچ افراد سے کم نہ ہو۔

مسئلہ ١ ۵ ٢ ۵ عيد فطر وعيد قربان کی نماز کا وقت عيد کے روز طلوع آفتاب سے ظہر تک ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٢ ۶ عيد قربان کی نماز سور ج چڑھ آنے کے بعد مستحب ہے اور عيد فطر ميں مستحب ہے کہ سور ج چڑھ آنے کے بعد افطار کيا جائے اور احتياط واجب کی بنا پر فطرہ دینے کے بعد نماز عيد ادا کی جائے۔

مسئلہ ١ ۵ ٢٧ عيد فطر وقربان کی نمازدو رکعت ہے جس کی پهلی رکعت ميں الحمد اور سورہ پڑھنے کے بعد ضروری ہے کہ پانچ تکبيریں کهے اور ہر تکبير کے بعد احتياط واجب کی بنا پر ایک قنوت پڑھے ۔ پانچویں قنوت کے بعد ایک اور تکبير کہہ کر رکوع ميں چلا جائے اور دوسجدوں کے بعد اٹھ کهڑا ہو۔ دوسری رکعت ميں چار تکبيریںکهے اور ہر تکبير کے بعد ایک قنوت پڑھے، پانچویں تکبير کہہ کر رکوع ميں چلا جائے، رکوع کے بعد دوسجدے بجا لائے اور تشهد و سلام پڑھے۔

مسئلہ ١ ۵ ٢٨ عيد فطر وقربا ن کی نماز کے قنوت ميں جو دعا اور ذکر بھی پڑھا جائے کافی ہے ، ليکن بہتر ہے کہ وہ دعا جو شيخ طوسی رحمة الله عليہ نے اپنی کتاب مصباح المتهجد ميں نقل کی ہے ، پڑھی جائے اور وہ دعا یہ ہے :

اَللّٰهُمَّ ا هَْٔلَ الْکِبْرِیَاءِ وَالْعَظَمَةِ وَ ا هَْٔلَ الْجُوْدِ وَ الْجَبَرُوْتِ وَ ا هَْٔلَ الْعَفْوِ وَ الرَّحْمَةِ وَ ا هَْٔلَ التَّقْویٰ وَ الْمَغْفِرَةِا سَْٔئَلُکَ بِحَقِّ هٰذَا الْيَوْمِ الَّذِیْ جَعَلْتَه لِلْمُسْلِمِيْنَ عِيْداً وَّ لِمُحَمَّدٍ صَلیَّ اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ آلِه ذُخْراً وَّ شَرَفاً وَّ کَرَامَةً وَّ مَزِیْدًا ا نَْٔ تُصَلِّیَ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ وَّ ا نَْٔ تُدْخِلَنِیْ فِیْ کُلِّ خَيْرٍ ا دَْٔخَلْتَ فِيْهِ مُحَمَّدًا وَّ آلَ مُحَمَّدٍ وَّ ا نَْٔ تُخْرِجَنِیْ مِنْ کُل سُوْءٍ ا خَْٔرَجْتَ مِنْهُ مُحَمَّدًا وَّ آلَ مُحَمَّدٍ صَلَوَاتُکَ عَلَيْهِ وَ عَلَيْهِمْ، اَللّٰهُمَّ إِنِّیْ ا سَْٔئَلُکَ خَيْرَ مَا سَئَلَکَ بِه عِبَادُک الصَّالِحُوْنَ وَ ا عَُٔوْذُ بِکَ مِمَّا اسْتَعَاذَ مِنْهُ عِبَادُکَ الصَّالِحُوْنَ (الْمُخْلِصُوْنَ، الْمُخْلَصُوْنَ)

اور اس سے بھی بہتر یہ ہے کہ وہ دعا جو شيخ طوسی نے اپنی کتاب تہذیب ميں معتبر سند کے ساته ذکر کی ہے ، اسے پڑھا جائے۔ وہ دعا یہ ہے :

۲۴۶

ا شَْٔهَدُ ا نَْٔ لاَّ إِلٰهَ إِلاَّ اللّٰهُ وَحْدَه لاَ شَرِیْکَ لَه وَ ا شَْٔهَدُ ا نََّٔ مُحَمَّدًا عَبْدُه وَ رَسُوْلُه، اَللَّهُمَّ اَنْتَ ا هَْٔلُ الْکِبْرِیَاءِوَالْعَظَمَةِ وَ ا هَْٔلُ الْجُوْدِ وَ الْجَبَرُوْتِ وَ الْقُدْرَةِ وَ السُّلْطَانِ وَ الْعِزَّةِ، ا سَْٔئَلُکَ فِیْ هٰذَا الْيَوْمِ الَّذِیْ جَعَلْتَه لِلْمُسْلِمِيْنَ عِيْدًا وَّ لِمُحَمَّدٍ صَلیَّ اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ آلِه ذُخْراً وَّ مَزِیْداً، ا سَْٔئَلُکَ ا نَْٔ تُصَلِّیَ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ وَّ ا نَْٔ تُصَلِّیَ عَلیٰ مَلاَئِکَتِکَ الْمُقَرَّبِيْنَ وَ ا نَْٔبِيَائِکَ الْمُرْسَلِيْنَ وَ ا نَْٔ تَغْفِرَ لَنَا وَ لِجَمِيْعِ الْمُوْ مِٔنِيْنَ وَ الْمُوْ مِٔنَاتِ وَ الْمُسْلِمِيْنَ وَ الْمُسْلِمَات اْلا حَْٔيَاءِ مِنْهُمْ وَ اْلا مَْٔوَاتِ، ا لٔلّٰهُمَّ إِنیِّ ا سَْٔئَلُکَ مِنْ خَيْرِ مَا سَئَلَکَ عِبَادُکَ الْمُرْسَلُوْنَ وَ ا عَُٔوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا عَاذَ بِه عِبَادُکَ الْمُخْلَصُوْنَ، اَللّٰهُ اَکْبَرُ اَوَّلُ کُلِّ شَيْیٍ وَّ آخِرُه وَ بَدِیْعُ کُلِّ شَيْیٍ وَّ مُنْتَهَاهُ وَ عَالِمُ کُلِّ شَيْیٍ وَّ مَعَادُه وَ مَصِيْر کُلِّ شَيْیٍ إِلَيْهِ وَ مَرَدُّه وَ مُدَبِّرُ اْلاُمُوْرِ وَ بَاعِثُ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ، قَابِلُ الْاَعْمَالِ مُبْدِی الْخَفِيَّاتِ مُعْلِنُ السَّرَائِرِ، اَللّٰهُ اَکْبَر عَظِيْمُ الْمَلَکُوْتِ شَدِیْدُ الْجَبَرُوْتِ حَیٌّ لاَّ یَمُوْتُ دَائِمٌ لاَّ یَزُوْلُ إِذَا قَضیٰ اَمْراً فَإِنَّمَا یَقُوْلُ لَه کُنْ فَيَکُوْنُ، اَللّٰهُ اَکْبَر خَشَعَتْ لَکَ الْاَصْوَاتُ وَ عَنَتْ لَکَ الْوُجُوْهُ وَ حَارَتْ دُوْنَکَ الْاَبْصَارُ وَ کَلَّتِ الْاَلْسُنُ عَنْ عَظَمَتِکَ وَ النَّوَاصِیَ کُلُّهَا بِيَدِکَ وَ مَقَادِیْرُ الْاُمُوْرِ کُلُّهَا اِلَيْکَ، لاَ یَقْضِیْ فِيْهَا غَيْرُکَ وَ لاَ یَتِمُّ مِنْهَا شَيْیءٌ دُوْنَکَ، اَللّٰهُ اَکْبَرُ اَحَاطَ بِکُلِّ شَيْیٍ حِفْظُکَ وَ قَهَرَ کُلَّ شَيْیٍ عِزُّکَ وَ نَفَذَ کّلَّ شَيْیٍ اَمْرُکَ وَ قَامَ کُلُّ شَيْیٍ بِکَ وَ تَوَاضَعَ کُلُّ شَيْیٍ لِعَظَمَتِکَ وَ ذَلَّ کُل شَيْیٍ لِعِزَّتِکَ وَ اسْتَسْلَمَ کُلُّ شَيْیٍ لِقُدْرَتِکَ وَ خَضَعَ کُلُّ شَيْیٍ لِمُلْکِکَ، اَللّٰهُ اَکْبَرُ

مسئلہ ١ ۵ ٢٩ امام عصر (عجل الله تعالی فرجہ)کے زمانہ غيبت ميں اگر نماز عيد جماعت سے پڑھی جائے تو احتياط مستحب کی بنا پر نماز کے بعد دو خطبے پڑھے جائيں اور بہتر یہ ہے کہ عيد فطر کے خطبے ميں فطرے کے احکام بيان ہوں اور عيد قربان ميں قربانی کے احکام بيان ہوں ۔

مسئلہ ١ ۵ ٣٠ عيد کی نماز کے لئے کوئی سورہ مخصوص نہيں ہے ليکن بہتر ہے کہ پهلی رکعت ميں الحمد کے بعدسورہ سبح اسم ربک الاعلیٰ (سورہ: ٨٧ )پڑھا جائے اور دوسری رکعت ميں سورہ والشمس (سورہ : ٩١ )پڑھا جائے اور سب سے افضل یہ ہے کہ پهلی رکعت ميں سورہ والشمس اور دوسری رکعت ميں سورہ غاشيہ (سورہ: ٨٨ )پڑھا جائے۔

مسئلہ ١ ۵ ٣١ نماز عيد صحر ا ميں پڑھنا مستحب ہے ، ليکن مکہ مکرمہ ميں مستحب ہے کہ مسجد الحرام ميں پڑھی جائے۔

مسئلہ ١ ۵ ٣٢ مستحب ہے کہ امام جماعت اور مامو م نماز سے پهلے غسل کریں اور روئی سے بُنا ہوا سفيد عمامہ سر پر باندہيں کہ جس کا ایک سرا سينے پر اور دوسرا سرا دونوں شانوں کے درميان ہو اور مستحب ہے کہ نمازکے لئے پيدل، ننگے پير اور باوقار طریقے سے جایا جائے۔

مسئلہ ١ ۵ ٣٣ مستحب ہے کہ عيد کی نمازميں زمين پر سجدہ کيا جائے، تکبيریں کہتے وقت ہاتھوں کو بلند کيا جائے اورامام جماعت بلند آواز سے قرائت کرے۔

۲۴۷

مسئلہ ١ ۵ ٣ ۴ مستحب ہے کہ عيد فطر کی رات کو مغرب وعشا کی نماز کے بعد اور عيد فطر کے دن نماز صبح کے بعد یہ تکبيریں کهی جائيں :

اَللّٰهُ اَکْبَرُ، اَللّٰهُ اَکْبَرُ، لاَ اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ وَاللّٰهُ اَکْبَرُ، اَللّٰهُ اَکْبَرُ، وَلِلّٰهِ الْحَمْدُ اَللّٰهُ اَکْبَرُ عَلیٰ مَاهدَانَا ۔

مسئلہ ١ ۵ ٣ ۵ عيد قربان ميں دس نمازوں کے بعد جن ميں سے پهلی نماز، عيد کے دن کی نماز ظہر ہے اور آخری نماز بارہویں ذی الحجہ کی نماز صبح ہے ، ان تکبيرات کا پڑھنا مستحب ہے جن کا ذکر سابقہ مسئلہ ميں ہو چکا ہے اور ان کے بعد ”اَللّٰهُ اَکْبَرُ عَلیٰ مَا رَزَقَنَا مِنْ بَهِيْمَةِ الْاَنْعَامِ وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ عَلیٰ مَا اَبْلَانَا “ کهے، ليکن اگر عيد قربان کے موقع پر انسان منیٰ ميں ہو تو مستحب ہے کہ یہ تکبيریں پندرہ نمازوں کے بعد پڑھے جن ميں سے پهلی نماز عيد کے دن کی نمازظہر ہے اور آخری تيرہویں ذی الحجہ کی نماز صبح ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٣ ۶ احتياط مستحب ہے کہ عورتيں نماز عيد پڑھنے کے لئے نہ جائيں، ليکن یہ احتياط عمر رسيدہ عورتوں کے لئے نہيں ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٣٧ نماز عيد ميں بھی دوسری نمازوں کی طرح مقتدی کے لئے ضروری ہے کہ الحمد اورسورہ کے علاوہ نماز کے باقی اذکار خود پڑھے۔

مسئلہ ١ ۵ ٣٨ اگر ماموم اس وقت پهنچے جب امام نماز کی کچھ تکبيریں کہہ چکا ہو تو امام کے رکوع ميں جانے کے بعد ضروری ہے کہ جتنی تکبيریں اور قنوت اس نے امام کے ساته نہيں پڑہيں انہيں پڑھے اور امام کے ساته رکوع ميں مل جائے اور اگر ہر قنوت ميں ایک مرتبہ ”سُبْحَانَ اللّٰہِ “ یا ایک مرتبہ”اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ “ کہہ دے تو کافی ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٣٩ اگر کوئی شخص نماز عيد ميں اس وقت پهنچے جب امام رکوع ميں ہو تووہ نيت کر کے اور پهلی تکبير کہہ کر رکوع ميں جاسکتا ہے اگر چہ احتياط یہ ہے کہ نماز کو رجاء کی نيت سے بجا لائے۔

مسئلہ ١ ۵۴ ٠ اگر نماز عيد ميں آخری رکعت کا ایک سجدہ یا تشهد بھول جائے اور اس نے کوئی ایسا کام انجام نہ دیا ہو جس سے نماز باطل ہوجاتی ہے تو ضروری ہے کہ واپس پلٹ کر اس کو بجا لائے اور اگروہ کسی اور رکعت کا سجدہ بھول گيا ہو تو احتياط واجب کی بنا پر اس کی قضا بجا لائے۔

اسی طرح کسی بھی صورت ميں اگر اس سے کوئی ایسا فعل سرزد ہو جس کے لئے نماز پنجگانہ ميں ، چاہے احتياط کی بنا پر، سجدہ سهو لازم ہے تواحتياط واجب کی بنا پر دو سجدہ سهو بجا لائے۔

۲۴۸

نماز کے لئے اجير بنانا

مسئلہ ١ ۵۴ ١ انسان کے مرنے کے بعد ان نمازوں اور دوسری عبادتوں کے لئے جنہيں اس نے اپنی زندگی ميں انجام نہ دیا ہو کسی دوسرے شخص کو اجير بنا یا جاسکتا ہے ، یعنی اسے اجرت دی جائے تاکہ وہ انہيں بجا لائے اور اگر کوئی شخص بغير اجرت لئے ان عبادات کو بجا لائے تب بھی صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۵۴ ٢ انسان بعض مستحب کاموں مثلا روضہ رسول(ص) کی زیارت یا قبور ائمہ عليهم السلام کی زیارت کے لئے زندہ اشخاص کی طرف سے اجير بن سکتا ہے اس معنیٰ ميں کہ اجارہ ميں ان اشخاص کی طرف سے ان مخصوص کاموں ميں نيابت کا قصد رکھتا ہو، چنانچہ یہ شخص انہيں کاموں کو بغير اجرت لئے بھی انجام دے سکتا ہے ۔ نيز یہ بھی کر سکتا ہے کہ مستحب کام انجام دے کر اس کا ثواب مردہ یا زندہ اشخاص کو هدیہ کر دے۔

مسئلہ ١ ۵۴ ٣ جو شخص ميت کی قضا نمازوں کے لئے اجير بنے اس کے لئے ضروری ہے کہ نماز کے مسائل ميں یا تو وہ خود مجتهد ہو یا نماز، تقليد کے مطابق صحيح طریقے سے ادا کرسکے یا احتياط پر عمل کرسکے۔

مسئلہ ١ ۵۴۴ ضروری ہے کہ اجير نيت کرتے وقت ”ميت “ کو معين کرے۔هاں، یہ ضروری نہيں ہے ميت کا نام جانتا ہو، پس اگر وہ نيت کرے کہ یہ نماز اس شخص کے لئے پڑھ رہا ہوں جس کے لئے ميں اجير ہوا ہوں تو کافی ہے ۔

مسئلہ ١ ۵۴۵ ضروری ہے کہ اجير جو عمل بجا لائے اس کے لئے نيت کرے کہ جو کچھ ميت کے ذمے ہے وہ بجا لا رہا ہوں اور اگر اجير کوئی عمل انجام دے اور اس کا ثواب ميت کو هدیہ کرے تو یہ کافی نہيں ہے ۔

مسئلہ ١ ۵۴۶ ضروری ہے کہ اجير کسی ایسے شخص کو مقرر کيا جائے جس کے بارے ميں جانتے ہوں یا ان کے پاس شرعی حجت ہو کہ وہ عمل کو بجالائے گا مثلاً وہ اطمينان رکھتے ہوں یا دو عادل شخص یا ایک قابل اطمينان شخص جس کے قول کے بر خلاف بات کا گمان نہ ہو،خبر دیں کہ وہ عمل کو بجا لائے گا۔

مسئلہ ١ ۵۴ ٧ جس شخص کو ميت کی نمازوں کے لئے اجير بنایا جائے اگر یہ ثابت ہو جائے کہ وہ عمل کو بجا نہيں لایا ہے یا باطل طریقے سے بجا لایا ہے تو ضروری ہے دوبارہ کسی شخص کو اجير مقرر کيا جائے۔

مسئلہ ١ ۵۴ ٨ اگر کوئی شخص شک کرے کہ اجير نے عمل انجام دیا ہے یا نہيں تو اگر وہ قابل اطمينان ہو اور یہ کهے کہ ميں نے انجام دے دیا ہے یا کوئی شرعی گواہی یا کسی ایسے قابل اعتماد شخص کا قول موجود ہو کہ جس کے قول کے برخلاف بات کا گمان نہ ہو تو کافی ہے اور اگر وہ شک کرے کہ اس اجير کا عمل صحيح تھا یا نہيں تو وہ اس کے عمل کو صحيح سمجھ لے۔

مسئلہ ١ ۵۴ ٩ جو شخص کوئی عذر رکھتا ہو مثلا تيمم کر کے یا بيٹھ کر نمازپڑھتا ہو اسے ميت کی نمازوں کے لئے اجير مقرر نہيں کيا جاسکتا خواہ ميت کی نمازیں بھی اسی طرح قضا ہوئی ہوں۔

۲۴۹

مسئلہ ١ ۵۵ ٠ مرد عورت کی طرف سے اور عورت مرد کی طرف سے اجير بن سکتے ہيں ۔نيز نماز کو بلند یا آهستہ آواز سے پڑھنے ميں ضروری ہے کہ اجير اپنے وظيفے پر عمل کرے۔

مسئلہ ١ ۵۵ ١ ميت کی قضا نمازوں ميں ترتيب واجب نہيں ، اگرچہ احتياط مستحب یہ ہے کہ ترتيب کا خيال رکھا جائے، ليکن اُن نمازوں ميں ترتيب ضروری ہے کہ جن کی ادا ميں ترتيب ضروری ہے مثلا ایک دن کی نماز ظہر وعصر یا مغرب وعشا۔

مسئلہ ١ ۵۵ ٢ اگر اجير کے ساته طے کيا جائے کہ عمل کو ایک مخصوص طریقے سے انجام دے گا تو ضروری ہے کہ اس عمل کو اسی طریقے سے انجام دے مگر یہ کہ اس عمل کے صحيح نہ ہونے کا علم رکھتا ہو کہ اس صورت ميں اس عمل کے لئے اجير نہيں بن سکتا اور اگر کچھ طے نہ کيا ہو تو ضروری ہے کہ وہ عمل اپنے وظيفے کے مطابق بجالائے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ اپنے وظيفے اور ميت کے وظيفے ميں سے جو بھی احتياط کے زیادہ قریب ہو اسی پر عمل کرے، مثلاً اگر ميت کا وظيفہ تين مرتبہ تسبيحات اربعہ پڑھنا تھا اور اس کی اپنی تکليف ایک بار پڑھنا ہو تو تين بار پڑھے۔

مسئلہ ١ ۵۵ ٣ اگر اجير کے ساته یہ طے نہ کيا جائے کہ نماز کے مستحبات کتنی مقدار ميں پڑھے گا تو ضروری ہے کہ عموماً جتنے مستحبات نماز ميں پڑھے جاتے ہيں انہيں بجالائے۔

مسئلہ ١ ۵۵۴ اگر انسان ميت کی قضا نمازوں کے لئے کئی اشخاص کو اجير مقرر کرے تو جو کچھ مسئلہ ١ ۵۵ ١ ميں بتایا گيا ہے اس کی بنا پر ضروری نہيں کہ وہ ہر اجير کے لئے وقت معين کرے۔

مسئلہ ١ ۵۵۵ اگر کوئی شخص اجير بنے کہ مثال کے طور پر ایک سال ميں ميت کی نمازیں پڑھ دے گا اور سال ختم ہونے سے پهلے مر جائے تو ضروری ہے کہ ان نمازوں کے لئے جن کے بارے ميں علم ہوکہ وہ انہيں بجا نہيں لایا، کسی اور شخص کو اجير مقرر کيا جائے اور جن نمازوں کے بارے ميں احتمال ہو کہ وہ انہيں بجانہيں لایا تھا احتياط واجب کی بنا پر ان کے لئے بھی اجير مقرر کيا جائے۔

مسئلہ ١ ۵۵۶ جس شخص کو ميت کی قضا نمازوں کے لئے اجير مقرر کيا ہو اگر وہ ساری نمازیں پڑھنے سے پهلے مر جائے اور اس نے ان سب نمازوں کی اجرت بھی وصول کر لی ہوتو اگر اس کے ساته یہ طے کيا گيا ہو کہ ساری نمازیں وہ خود ہی پڑھے گا اور وہ ان کے بجالانے پر قادر بھی تھا تو اجارہ کا معاملہ صحيح ہے اور اجرت دینے والا باقی نمازوں کی اجرت المثل واپس لے سکتا ہے یا اجارہ کو فسخ کرتے ہوئے اس مقدار کی اجرت المثل جو ادا ہو چکی ہے ، دے کر باقی مقدار کی اجرت واپس لے سکتا ہے اور اگر وہ ان نمازوں کی ادائيگی پر قادر نہيں تھا تو مرنے کے بعد والی نمازوں ميں اجارہ باطل ہے اور اجرت دینے والا باقی ماندہ نمازوں کی اجرت مُسمّی لے سکتا ہے یا پهلے والی مقدار کے اجارہ کو فسخ کرتے ہو ئے اس مقدار کی اجرت المثل ادا کرسکتا ہے اور اگر یہ طے نہ کيا گيا

۲۵۰

ہو کہ وہ خود پڑھے گا تو ضروری ہے کہ اجير کے ورثاء اس کے مال سے کسی اور کو اجير بنائيں، ليکن اگر اس نے کوئی مال نہ چھوڑا ہو تو اس کے ورثاء پر کچھ بھی واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ١ ۵۵ ٧ اگر اجير ميت کی قضا نمازیں پڑھنے سے پهلے مر جائے اور اس کی اپنی بھی نمازیں قضا ہوئی ہوں تو سابقہ مسئلے ميں جو طریقہ بتایا گيا ہے اس پر عمل کرنے کے بعداگر اس کے مال سے کچھ بچے تو اس صورت ميں کہ جب اس نے وصيت کی ہو اور اس کی نمازوں کی اجرت اس کے تمام مال کے تيسرے حصے سے زیاہ ہوتو ورثاء کے اجازت دینے کی صورت ميں اس کی تمام نمازوں کے لئے اجير مقرر کيا جا سکتا ہے اور اجازت نہ دینے کی صورت ميں اس کے مال کا تيسرا حصہ اس کی نمازوں پر خرچ کریں۔

روزے کے احکام

روزہ یہ ہے کہ انسان اذانِ صبح سے مغرب تک، ان چيزوں سے کہ جن کا بيان بعدميں آئے گا، قصد قربت،جس کا بيان وضو کے مسائل ميں گزرچکا اور اخلاص کے ساته، پرہيز کرے۔

اس مسئلے اور بعد ميں آنے والے مسائل ميں احتياط واجب کی بنا پر مغرب سے مراد وہ وقت ہے کہ سورج غروب ہونے کے بعد مشرق کی جانب سے نمودار ہونے والی سرخی انسان کے سر کے اوپر سے گزر جائے۔

نيت

مسئلہ ١ ۵۵ ٨ روزے کی نيت ميں ضروری نہيں ہے کہ انسان نيت کے الفاظ کو دل سے گزارے یا مثلاً یہ کهے کہ ميں کل روزہ رکہوں گا، بلکہ اگر صرف یهی ارادہ رکھتا ہو کہ قربت کی نيت اور اخلاص کے ساته اذان صبح سے مغرب تک، ان کاموں کو انجام نہ دے گا جو روزے کو باطل کر دیتے ہيں تو کافی ہے ۔ اور یہ یقين حاصل کرنے کے لئے کہ اس پوری مدت ميں روزے سے تھا ضروری ہے کہ اذانِ صبح سے کچھ دیر پهلے اور مغرب کے کچھ دیر بعد بھی روزے کو باطل کر دینے والے کاموں سے پرہيز کرے۔

مسئلہ ١ ۵۵ ٩ انسان ماہ رمضان کی ہر رات ميں اس کے اگلے دن کے روزے کی نيت کر سکتا ہے اور اسی طرح مهينے کی پهلی رات کو ہی سارے روزوں کی نيت بھی کر سکتا ہے اورپہر دوبارہ ہر رات نيت دهرانا ضروری نہيں ہے اور اسی نيت پر باقی رہنا کافی ہے ۔

مسئلہ ١ ۵۶ ٠ ماہ رمضان کے روزے کی نيت کا وقت پهلی رات ميں ، رات کی ابتدا سے اذان صبح تک ہے اور پهلی رات کے علاوہ دوسری راتوںميں رات کی ابتدا سے پهلے بھی نيت کی جاسکتی ہے ، مثلاً پهلے دن عصر کے وقت نيت کرے کہ اگلے دن قربة الی الله روزہ رکھے گا اور اسی نيت پر باقی رہے اگر چہ اذان صبح کے بعد تک سوتا رہے۔

۲۵۱

مسئلہ ١ ۵۶ ١ مستحب روزے کی نيت کا وقت رات کی ابتدا سے لے کر اس وقت تک ہے کہ سورج غروب ہونے ميں نيت کرنے کی مقدار کا وقت باقی رہ جائے، پس اگر اس وقت تک روزے کو باطل کر دینے والا کوئی کام انجام نہ دیا ہو اور مستحب روزے کی نيت کرلے تو اس کا روزہ صحيح ہے ليکن اگر سورج غروب ہوجائے تو روزے کا صحيح ہونا محل اشکا ل ہے ۔

مسئلہ ١ ۵۶ ٢ جو شخص روزے کی نيت کئے بغير اذان صبح سے پهلے سوجائے، اگر ظہر سے پهلے بيدار ہو اور روزے کی نيت کرے تو اگر اس کا روزہ ایسا واجب روزہ ہوکہ جس کا وقت معين ہے ، چاہے ماہ رمضان کا روزہ یا ماہ رمضان کے علاوہ کوئی اور روزہ، جيسے اس نے نذر کی ہو کہ کسی معين دن روزہ رکھے گا، تو روزے کا صحيح ہونا محل اشکال ہے اور اگر اس کا روزہ ایسا واجب ہو کہ جس کا وقت معين نہ ہو تو روزہ صحيح ہے ۔

اور اگر ظہر کے بعد بيدار ہو تو واجب روزے کی نيت نہيں کر سکتا ہے چاہے واجب غير معين ہو، ليکن ماہ رمضان کی قضا ميں ظہر سے عصر تک نيت کا جائز نہ ہونا احتياط کی بنا پر ہے ۔

مسئلہ ١ ۵۶ ٣ جو شخص ماہ رمضان کے علاوہ کوئی روزہ رکھنا چاہے تو ضروری ہے کہ اس روزے کو معين کرے، مثلاً نيت کرے کہ قضا، نذر یا کفارے کا روزہ رکھتا ہوں، ليکن ماہ رمضان ميں یہ ضروری نہيں کہ ماہ رمضان کا روزہ رکھنے کی نيت کرے، بلکہ اگر اسے علم نہ ہو کہ رمضان ہے یا بھول جائے اورکسی دوسرے روزے کی نيت کرلے تب بھی وہ ماہ رمضان کا روزہ شمار ہوگا۔

مسئلہ ١ ۵۶۴ اگر کوئی جانتا ہو کہ ماہ رمضان ہے اور جان بوجه کر رمضان کے علاوہ کسی اور روزے کی نيت کرلے تو وہ ماہ رمضان کا روزہ شمار نہيں ہوگا اور اسی طرح بنابر احتياط واجب جس روزے کی نيت کی ہے وہ بھی روزہ شمار نہيں ہوگا۔

مسئلہ ١ ۵۶۵ اگر پهلے روزے کی نيت سے روزہ رکھے اور بعد ميں معلوم ہو کہ دوسری یاتيسری تاریخ تھی تو اس کا روزہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۵۶۶ اگر اذان صبح سے پهلے نيت کرے اور بے ہوش ہوجائے اور دن ميں کسی وقت ہوش آئے تو بنابر احتياط واجب ضروری ہے کہ اس دن کے روزے کو پورا کرے اور اس کی قضا بھی بجالائے۔

مسئلہ ١ ۵۶ ٧ اگر اذان صبح سے پهلے نيت کرے پھر اس پر نشہ طاری ہو جائے اور دن ميں ہوش آئے تو احتياط واجب یہ ہے کہ اس دن کا روزہ پورا کرے اور قضا بھی کرے۔

مسئلہ ١ ۵۶ ٨ اگر اذانِ صبح سے پهلے نيت کرے اور سوجائے اور مغرب کے بعد بيدار ہو تو اس کا روزہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۵۶ ٩ اگر کسی کو علم نہ ہو یا بھول جائے کہ ماہ رمضان ہے تو اگر ظہر سے پهلے متوجہ ہو اور اس نے روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام دے دیا ہو یا ظہر کے بعد متوجہ ہو کہ ماہ رمضان ہے تو اس کا روزہ باطل ہے ، ليکن ضروری ہے کہ مغرب تک روزے کو باطل کرنے والا کوئی کام انجام نہ دے اور رمضان کے بعد اس کی قضا بھی کرے اور اگر ظہر سے پهلے متوجہ ہو اور اس نے روزہ باطل کرنے والا کوئی کام بھی انجام نہ دیا ہو تب بھی احتياط واجب کی بنا پر یهی حکم ہے ۔

۲۵۲

مسئلہ ١ ۵ ٧٠ اگر بچہ ماہ رمضان ميں اذانِ صبح سے پهلے بالغ ہو جائے تو اس دن کا روزہ رکھنا اس پر ضروری ہے اور اگر اذان کے بعد بالغ ہو تو اس پر روزہ واجب نہيں ہے ، اگر چہ احتياط مستحب یہ ہے کہ اگر ظہر سے پهلے بالغ ہو اور اس نے روزے کی نيت کر رکھی ہو تو روزہ پورا کرے اور اگر نيت نہ بھی کی ہو اورروزہ باطل کرنے والا کوئی کام بھی انجام نہ دیا ہو تو نيت کرے اور روزہ رکھے۔

مسئلہ ١ ۵ ٧١ جو شخص کسی ميت کے روزے اجرت لے کر رکھ رہا ہواس کے لئے مستحب روزہ رکھنے ميں کوئی حرج نہيں ، ليکن جس شخص کے ماہ رمضان کے روزے قضا ہوں وہ مستحب روزے نہيں رکھ سکتا اوراگر رمضان کے علاوہ کوئی اور واجب روزہ اس کے ذمّے ہو پھر بھی احتياط واجب کی بنا پر یهی حکم ہے ۔

اور اگر بھولے سے مستحب روزہ رکھ لے اور ظہر سے پهلے متوجہ ہوجائے تو اس کا مستحب روزہ باطل ہے ليکن وہ اپنی نيت کو غير معين واجب روزے کی طرف پلٹا سکتا ہے ، جب کہ معين واجب روزے کی طرف نيت کو پلٹانا محل اشکال ہے اور اگر ظہر کے بعد متوجہ ہو تو وہ اپنی نيت کو واجب روزے کی طرف نہيں پلٹاسکتا اگر چہ واجب غير معين ہی کيوں نہ ہو اور یہ حکم ماہِ رمضان کے قضا روزوں ميں زوال کے بعد سے عصر تک احتياط واجب کی بناپر ہے ۔هاں، اگر مغرب کے بعد یاد آئے تو اس کا مستحب روزہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٧٢ اگر کسی شخص پر رمضان کے علاوہ کوئی معين روزہ واجب ہو مثلاً نذر کی ہو کہ مقررہ دن روزہ رکہوں گا اور جان بوجه کر اذانِ صبح تک نيت نہ کرے تو اس کا روزہ باطل ہے اور اگر معلوم نہ ہو کہ اس دن کا روزہ اس پر واجب ہے یا بھول جائے تو اگرچہ ظہر سے پهلے یاد آجائے اور روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام نہ دیا ہو، بنا بر احتياط اس کا بھی یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٧٣ اگر غير معين واجب روزے مثلاً کفارے کے روزے کے لئے، ظہر کے نزدیک تک عمداً نيت نہ کرے تو کوئی حرج نہيں ، بلکہ اگر نيت سے پهلے پختہ ارادہ رکھتا ہو کہ روزہ نہيں رکھے گا یا متردد ہو کہ روزہ رکھے یا نہ رکھے تو اگر روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام نہ دیا ہو اور ظہر سے پهلے نيت کر لے تو اُس کا روزہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٧ ۴ اگر کوئی کافر ماہ رمضان ميں ظہر سے پهلے مسلمان ہوجائے تو چاہے اس نے اذان صبح سے اس وقت تک روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام نہ دیا ہو، پھر بھی اس کا روزہ صحيح نہيں ۔

مسئلہ ١ ۵ ٧ ۵ اگر کوئی مریض ماہ رمضان کے دن کے وسط ميں ظہر سے پهلے یا اس کے بعد تندرست ہو جائے تو اِس دن کا روزہ اس پر واجب نہيں ہے خواہ اُس وقت تک روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام نہ دیا ہو۔

۲۵۳

مسئلہ ١ ۵ ٧ ۶ جس دن کے بارے ميں انسان کو شک ہو کہ شعبان کا آخری دن ہے یا رمضان کا پهلا تو اُس پر واجب نہيں کہ وہ اس دن روزہ رکھے اور اگر روزہ رکھنا چاہے تو رمضان کے روزے کی نيت نہيں کر سکتا، نہ ہی یہ نيت کر سکتا ہے کہ اگر رمضان ہے تو رمضان کا روزہ اور اگر رمضان نہيں تو قضا یا اس جيسا کوئی اور روزہ رکھ رہا ہوں، بلکہ ضروری ہے کہ کسی واجب روزے مثلاً قضا کی نيت کرلے یا مستحب روزے کی نيت کرے۔ چنانچہ بعد ميں پتہ چلے کہ ماہ رمضان تھا تو رمضان کا روزہ شمار ہوگا۔ ہاں، اگر وہ یہ نيت کرے کہ جس چيز کا اسے حکم دیا گيا ہے اس کو انجام دے رہا ہوں اور بعد ميں معلوم ہو کہ رمضان تھا تو یہ کافی ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٧٧ جس دن کے بارے ميں شک ہو کہ شعبان کا آخری دن ہے یا رمضان کا پهلا دن، اگر اُس دن قضا یا اس کی مانند کوئی واجب یا مستحب روزہ رکھ لے اور دن ميں کسی وقت اسے پتہ چلے کہ ماہ رمضان ہے تو ضروری ہے کہ ماہ رمضان کے روزے کی نيت کرے۔

مسئلہ ١ ۵ ٧٨ اگر کسی واجب معين روزے ميں جيسے ماہ رمضان کے روزے ميں انسان اپنی نيت سے کہ مبطلات روزہ سے خدا کی خاطر بچے، پلٹ جائے یا پلٹنے کے بارے ميں متردد ہو یا یہ نيت کرے کہ روزہ توڑنے والی چيزوں ميں سے کسی کو انجام دے یا متردد ہو کہ ایسی کوئی چيز انجام دے یا نہ دے تو اُس کا روزہ باطل ہے ، اگرچہ جو ارادہ کيا ہو اُس سے توبہ بھی کرے اور نيت کو روزے کی طرف بھی پهير دے اور روزہ باطل کرنے والا کوئی کام بھی انجام نہ دے۔

مسئلہ ١ ۵ ٧٩ وہ بات جس کے بارے ميں پچهلے مسئلے ميں بتایا گيا کہ واجب معين روزے کو باطل کردیتی ہے ،غير معين واجب روزے مثلاً کفارے یا غير معين نذر کے روزے کو باطل نہيں کرتی، لہٰذا اگر ظہر سے پهلے دوبارہ اپنی نيت کو روزے کی طرف پهير دے تو اُس کا روزہ صحيح ہے ۔

مبطلاتِ روزہ

مسئلہ ١ ۵ ٨٠ نو چيزیں روزے کو باطل کر دیتی ہيں ، اگر چہ ان ميں سے بعض چيزوںسے روزہ احتياط کی بنا پر باطل ہوتا ہے :

ا ) کھانا اور پينا

٢ ) جماع

٣ ) استمنا۔ استمنا یہ ہے کہ انسان اپنے یا کسی دوسرے کے ساته جماع کے علاوہ کوئی ایسا کام کرے کہ اس کی منی خارج ہو جائے۔

۴ ) خدا، پيغمبر(ص) یا ائمہ معصومين عليهم السلام سے کوئی جھوٹی بات منسوب کرنا۔

۵ ) احتياط واجب کی بنا پر غبار کا حلق تک پهنچانا۔

۲۵۴

۶ ) پورے سر کو پانی ميں ڈبونا۔

٧ ) اذانِ صبح تک جنابت حيض یا نفا س پر باقی رہنا۔

٨ٌ) کسی بهنے والی چيز سے انيما کرنا۔

٩ ) قے کرنا۔

ان کے احکام آئندہ مسائل ميں بيان کئے جائيں گے۔

١۔ کھانا اور پينا

مسئلہ ١ ۵ ٨١ اگر روزہ دار اس طرف متوجہ ہوتے ہوئے کہ روزے سے ہے جان بوجه کر کوئی چيز کھائے یا پئے تو اُس کا روزہ باطل ہو جائے گا، خواہ وہ ایسی چيز ہو جسے عموماً کهایا یا پيا جاتا ہو جيسے روٹی اور پانی یا ایسی ہو جسے عموماً کهایا یا پيا نہ جاتا ہو جيسے مٹی اور درخت کا شيرہ، خواہ کم ہو یا زیادہ، حتی اگر تری کو منہ سے نکالے اور دوبارہ منہ ميں لے جائے اور نگل لے تو روزہ باطل ہو جائے گا، سوائے ا س کے کہ یہ تری تهوک سے مل کر اِس طرح ختم ہو جائے کہ پھر اسے باہر کی تری نہ کها جاسکے۔

مسئلہ ١ ۵ ٨٢ اگرکھانا کھانے کے دوران معلوم ہو جائے کہ صبح ہو گئی ہے توضروری ہے کہ لقمہ اگل دے اور اگر عمداً نگل لے تو اُس کا روزہ باطل ہے اور اس پر کفارہ بھی واجب ہو جائے گاجس کی تفصيلات آگے آئيںگی۔

مسئلہ ١ ۵ ٨٣ اگر روزہ دار بھولے سے کوئی چيز کها یا پی لے تو اُس کا روزہ باطل نہيں ہوتا۔

مسئلہ ١ ۵ ٨ ۴ دوا کی جگہ استعمال ہونے والے یا عضو کو بے حس کردینے والے انجکشن کے استعمال ميں کوئی حرج نہيں اور احتياط مستحب یہ ہے کہ روزہ دار اُس انجکشن سے پرہيز کرے کہ جو پانی اور غذا کی جگہ استعمال ہوتا ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٨ ۵ اگر روزہ دار دانتوں کے درميان ميں رہ جانے والی چيز کو اپنے روزے کی طرف متوجہ ہونے کے باوجود عمداً نگل لے تو اُس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

مسئلہ ١ ۵ ٨ ۶ روزہ رکھنے والے کے لئے ضروری نہيں ہے کہ اذان سے پهلے اپنے دانتوں ميں خلال کرے، ليکن اگر جانتا ہو یا اطمينان ہو کہ جو غذا دانتوں کے درميان ميں رہ گئی ہے وہ دن ميں اندر چلی جائے گی، چنانچہ وہ خلال نہ کرے اور وہ چيز پيٹ کے اندر چلی جائے تو اُس کا روزہ باطل ہوجائے گا۔

مسئلہ ١ ۵ ٨٧ لعاب دهن کو نگلنا، اگرچہ کهٹائی یا اس کی مانند چيزوں کے تصور سے منہ ميں جمع ہوجائے، روزے کو باطل نہيں کرتا۔

۲۵۵

مسئلہ ١ ۵ ٨٨ سر اور سينے کے بلغم کو نگلنے ميں ، جب تک کہ وہ منہ کے اندر والے حصے تک نہ پهنچے، کوئی حرج نہيں ، ليکن اگر منہ ميں آجائيں تو احتياط واجب یہ ہے کہ انہيں نہ نگلا جائے۔

مسئلہ ١ ۵ ٨٩ اگر روزہ دار اِس قدر پياسا ہوجائے کہ اسے خوف ہو کہ وہ پياس کی وجہ سے مر جائے گا تو اس پر اتنا پانی پينا واجب ہے کہ مرنے سے نجات مل جائے، ليکن اُس کا روزہ باطل ہوجائے گا اور اگر رمضان ہو تو باقی دن روزہ باطل کر دینے والے کاموں سے پرہيز ضروری ہے ۔ اِسی طرح اگر اُسے خوف ہو کہ پانی نہ پينے کی وجہ سے اُسے قابلِ ذکر ضرر پهنچے گا یا پانی نہ پينا اُس کے لئے ایسی مشقّت کا باعث بنے گا جوعرفاً قابل برداشت نہ ہو تو اِن دو صورتوں ميں اِس قدر پانی پی سکتا ہے کہ اُس کا ضرر اور مشقّت دور ہو جائے۔

مسئلہ ١ ۵ ٩٠ بچے یا پرندے کے لئے غذا کو چبانا اور غذا اور ان جيسی چيزوں کو چکهنا جو عام طور پر حلق تک نہيں پهنچتيں، اگر چہ اتفاق سے حلق تک پهنچ جائيں روزہ کو باطل نہيں کرتا، ليکن اگر انسان شروع سے جانتا ہو یا مطمئن ہو کہ حلق تک پهنچ جائيں گی تو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا اورضروری ہے کہ اس کی قضا کرے اور حلق تک پهنچنے کی صورت ميں اس پر کفارہ بھی واجب ہے مسئلہ ١ ۵ ٩١ انسان کمزوری کی وجہ سے روزہ نہيں چھوڑ سکتا، ليکن اگر کمزوری اِس حد تک ہو کہ روزہ دار کے لئے عام طور پر قابل برداشت نہ ہو تو پھرروزہ چھوڑ دینے ميں کوئی حرج نہيں ۔

٢۔ جماع

مسئلہ ١ ۵ ٩٢ جماع روزے کو باطل کر دیتا ہے اگر چہ صرف ختنہ گاہ کے برابر داخل ہو اور منی بھی خارج نہ ہو۔ اوربيوی کے علاوہ کسی اور سے جماع کی صورت ميں اگر منی خارج نہ ہو تو یہ حکم احتياط کی بنا پر ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٩٣ اگر ختنہ گاہ سے کم مقدار داخل ہو اور منی بھی خارج نہ ہو تو روزہ باطل نہيں ہوگا۔

مسئلہ ١ ۵ ٩ ۴ اگر کوئی شخص عمداً جماع کرے اورختنہ گاہ کے برابر داخل کرنے کا ارادہ بھی رکھتا ہواور پھر شک کرے کہ اُس مقدار کے برابر دخول ہوا ہے یا نہيں تو اُس کا روزہ باطل ہے اور اس کی قضا کرنا ضروری ہے اور احتياط واجب یہ ہے کہ باقی دن روزہ باطل کرنے والے کاموں سے پرہيزکرے، ليکن کفارہ واجب نہيں ۔

مسئلہ ١ ۵ ٩ ۵ اگر بھول جائے کہ روز ے سے ہے اور جماع کرلے یا بے اختيار جماع کرے تواس کا روزہ باطل نہيں ہوگا، ليکن اگر دوران جماع اُسے یاد آجائے یا اُسے اختيار حاصل ہو جائے تو ضروری ہے کہ فوراً جماع کو ترک کردے اور اگر ترک نہ کرے تو اُس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

۲۵۶

٣۔ استمنا

مسئلہ ١ ۵ ٩ ۶ اگر روزہ دار استمنا کرے، یعنی جماع کے علاوہ کوئی ایسا کام کرے کہ اُس کی منی خارج ہو، تو اُس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

مسئلہ ١ ۵ ٩٧ اگر بے اختيار، انسان کی منی خارج ہو جائے تو روزہ باطل نہيں ہوگا۔

مسئلہ ١ ۵ ٩٨ جو روزہ دار جانتا ہو کہ اگر دن ميں سو گيا تومحتلم ہو جائے گا یعنی نيند ميں اس کے جسم سے منی خارج ہو جائے گی، تو اُس کے لئے سونا جائز ہے اور اگر محتلم ہو جائے تو اُس کا روزہ باطل نہيں ہوگا۔هاں، احتياط مستحب یہ ہے کہ وہ نہ سوئے خصوصاً جب نہ سونے کی وجہ سے اسے کوئی تکليف بھی نہ ہو۔

مسئلہ ١ ۵ ٩٩ اگر روزہ دار منی خارج ہونے کی حالت ميں نيند سے بيدار ہوجائے تو اس کو خارج ہونے سے روکناواجب نہيں ۔

مسئلہ ١ ۶ ٠٠ جب روزہ دار محتلم ہوجائے تو وہ پيشاب اور استبرا کر سکتا ہے اگرچہ وہ جانتا ہو کہ پيشاب اور استبرا کی وجہ سے باقی ماندہ منی نالی سے باہر آجائے گی۔

مسئلہ ١ ۶ ٠١ جو روزہ دار محتلم ہو گيا ہو اگر وہ جانتا ہو کہ نالی ميں منی باقی رہ گئی ہے اورغسل سے پهلے پيشاب نہ کرنے کی صورت ميں غسل کے بعد منی خارج ہوگی تو بناء بر احتياط واجب ضروری ہے کہ غسل سے پهلے پيشاب کرے۔

مسئلہ ١ ۶ ٠٢ جو شخص یہ جاننے کے باوجود کہ عمداً منی خارج کرنا روزے کو باطل کر دیتا ہے ، اگر منی کے باہر آنے کی نيت سے مثلاً بيوی سے هنسی مذاق اور چھيڑ چھاڑ کرے تو چاہے منی خارج نہ بھی ہو اُس کا روزہ باطل ہوجائے گا اور ضروری ہے کہ قضا کرے اور بنا بر احتياطِ واجب بقيہ دن روزہ باطل کرنے والے کاموں سے پرہيز کرنا بھی ضروری ہے ۔

مسئلہ ١ ۶ ٠٣ اگر روزہ دار منی خارج ہونے کا ارادہ کئے بغير مثال کے طور پر اپنی بيوی سے چھيڑ چھاڑ اور هنسی مذاق کرے، چنانچہ اگر اطمينان رکھتا ہو کہ اُس سے منی خارج نہ ہوگی اگر چہ اتفاق سے منی خارج ہو بھی جائے تو اُس کا روزہ صحيح ہے ، ليکن اگر اطمينان نہ ہو تو منی خارج ہونے کی صورت ميں اس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

۴ ۔ خدا اور رسول صلی الله عليہ و آلہ سے جهوٹ منسوب کرنا

مسئلہ ١ ۶ ٠ ۴ اگر روزہ دار زبان سے، لکھ کر، اشارے سے یا کسی اور طریقے سے خدا، پيغمبر(ص) یا ائمہ معصومين عليهم السلام سے عمداً کوئی جھوٹی بات منسوب کرے تو اگرچہ فوراً یہ کہہ دے کہ ميں نے جھوٹ کها ہے یا توبہ کرلے، اُس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔ جب کهباقی انبياء (علی نبينا و آلہ و عليهم السلام )اور ان کے اوصياء کی طرف جھوٹی نسبت دینا احتياطِ واجب کی بنا پر روزے کو باطل کر دیتا ہے ، مگر یہ کہ ان سے دی ہوئی یہ جھوٹی نسبت الله تعالیٰ سے منسوب ہو جائے تواس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

۲۵۷

یهی حکم حضرت زهرا عليها السلام کی طرف جھوٹی نسبت دینے کا ہے سوائے اس کہ کے یہ جھوٹی نسبت خدا، رسول صلی الله عليہ و آلہ وسلم یا ائمہ عليهم السلام ميں سے کسی سے منسوب ہو جائے، کہ اس صورت ميں روزہ باطل ہو جائے گا۔

مسئلہ ١ ۶ ٠ ۵ اگر کوئی ایسی حدیث نقل کرنا چاہے جس کے متعلق نہ جانتا ہو کہ سچ ہے یا جھوٹ اور اُس حدیث کے معتبر ہونے پر دليل بھی نہ ہو تو احتياطِ واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ جو اِس حدیث کا راوی ہے یا مثال کے طور پرجس کتاب ميں یہ حدیث تحریر ہے ، اس کا حوالہ دے۔

مسئلہ ١ ۶ ٠ ۶ اگر کسی روایت کو سچ سمجھتے ہوئے، خدا یا پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم یا ائمہ عليهم السلام سے منسوب کرے اور بعد ميں معلوم ہو کہ وہ جھوٹ تھی تو اس کا روزہ باطل نہيں ہو گا۔

مسئلہ ١ ۶ ٠٧ جو شخص جانتا ہو کہ خدا، پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم اور ائمہ عليهم السلام سے جھوٹ منسوب کرنا روزے کو باطل کردیتا ہے اگر کسی چيز کو جس کے متعلق وہ جانتا ہو کہ جھوٹ ہے ، ان حضرات سے منسوب کرے اور بعد ميں معلوم ہو کہ جو کچھ کها تھا سچ تھا تو بھی اس کا روزہ باطل ہے اور بنا بر احتياطِ واجب بقيہ دن روزہ باطل کرنے والے کاموں سے پرہيز کرے۔

مسئلہ ١ ۶ ٠٨ کسی دوسرے کے گڑھے ہوئے جھوٹ کو اگر جان بوجه کر خدا، پيغمبر صلی الله

عليہ و آلہ وسلم اور ائمہ عليهم السلام سے منسوب کرے تو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا، ليکن اگر جس نے جھوٹ گڑھا ہے اس کا قول نقل کرے تو روزہ باطل نہيں ہوگا۔

مسئلہ ١ ۶ ٠٩ اگر روزہ دار سے پوچها جائے کہ آیا پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم یا کسی ایک امام عليہ السلام نے اس طرح فرمایا ہے ، اور وہ جواب ميں جان بوجه کر ہاں کی جگہ نہيں اور نہيں کی جگہ ہاں کهے تو اس کا روزہ باطل ہوجائے گا۔

مسئلہ ١ ۶ ١٠ اگرخدا یا پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم یا کسی امام عليہ السلام سے کوئی سچ بات نقل کرے، بعد ميں کهے کہ ميں نے جھوٹ کها تھا یا رات کو ان حضرات سے کوئی جھوٹی بات منسوب کرے اور اگلے دن روزے کے عالم ميں کهے کہ جو ميں نے کل رات کها تھا وہ سچ ہے تو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

۵ ۔ غبار حلق تک پهنچانا

مسئلہ ١ ۶ ١١ احتياط کی بنا پر غبار کا حلق تک پهنچانا روزے کو باطل کر دیتا ہے خوا ہ غبار اس چيز کاہو جس کا کھانا حلال ہے جيسے آٹا یا ایسی چيز کا ہو جس کا کھانا حرام ہے جيسے مٹی۔

مسئلہ ١ ۶ ١٢ اگر ہوا کی وجہ سے کوئی غبار پيدا ہو اور انسان متوجہ ہونے کے باوجود دهيان نہ رکھے اور غبار حلق تک پهنچ جائے تو احتياطِ واجب کی بنا پر اس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

۲۵۸