عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں

عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں15%

عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 258

عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 258 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 138936 / ڈاؤنلوڈ: 5394
سائز سائز سائز
عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں

عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

۸۹۷۔ امام علی (ع): جس شخص میں نیک صفات میں سے کوئی صفت مستحکم ہو جائے تو میں اس کو اس صفت کی وجہ سے تحمل کرونگا اور اس کے علاوہ دیگر صفات کے فقدان پر اسے معاف کر دونگا۔لیکن عقل اور دین کے فقدان پر اسے معاف نہیں کرونگا اس لئے کہ دین سے دوری امن و امان سے دوری ہے ، اور خوف کے عالم میں زندگی خوشگوار نہیں ہوتی، عقل کا فقدان ، حیات کا فقدان ہے جس کو صرف مردوںپر قیاس کیا جاتا ہے ۔

ھ: برے اخلاق

۸۹۸۔ صالح بن مسمار: کا بیان ہیکہ مجھے یہ خبر ملی کہ رسول خدا(ص) نے اس آیت(اے انسان تجھے رب کریم کے بارے میںکس شی نے دھوکا میں رکھا) کی تلاوت کی پھر فرمایا: اسکی جہالت نے۔

۸۹۹۔ امام علی (ع): حرص،برائی اور بخل جہل کانتیجہ ہےں۔

۹۰۰۔ امام علی (ع): نادانی کی بنیاد حماقت ہے ۔

۹۰۱۔ امام علی (ع): اپنی دعا میں فرماتے ہیں: میں ناواقف ہوں اور میںنے اپنی ناواقفیت کی بنا پر تیری نافرمانی کی ہے ۔ اپنی نادانی کے سبب گناہوںکا ارتکاب کیا ہے ، میری لا علمی کی وجہ سے دنیا نے مجھے منحرف کیا ہے ، اپنی جہالت کی بدولت تیری یاد سے غافل ہوا اور اپنی بے خبری کے باعث دنیا کی طرف مائل ہوا۔

۹۰۲۔ اما م صادق(ع): نادانی تین چیزوں میں ہے: غرور، زیادہ جھگڑا اور خدا سے بے خبری۔یہی لوگ خسارہ میں ہیں۔

۹۰۳۔ امام علی (ع): جو شخص نیکی کرنے سے بخل کرتا ہے وہ عقلمند نہیں۔

۱۶۱

و: اختلاف و جدائی

قرآن

(یہ کبھی تم سے اجتماعی طور پر جنگ نہ کریں گے مگر یہ کہ محفوظ بستیوں میں ہوں یا دیواروںکے پیچھے ہوں ان کی دھاک آپس میں بہت ہے اور تم یہ خیال کرتے ہو کہ یہ سب متحد ہیں ہرگز نہیں ان کے دلوں میں سخت تفرقہ ہے اور یہ اس لئے کہ اس قوم کے پاس عقل نہیں ہے)

حدیث

۹۰۴۔ امام علی (ع): اگر جاہل خاموش رہتے تو لوگوں میں اختلاف نہ ہوتا۔

۹۰۵۔امام علی (ع):نے اہل بصرہ کو مخاطب کرکے۔ فرمایا: اے وہ قوم! جس کے بدن حاضر ہیں اور عقلیں غائب۔ تمہاری خواہشات گوناگوں ہیں اور تمہارے حکام تمہاری بغاوت میں مبتلا ہیں۔ تمہارا امیر اللہ کی اطاعت کرتا ہے اور تم اسکی نافرمانی کرتے ہو؛ اور شام کا حاکم اللہ کی معصیت کرتا ہے اور اسکی قوم اسکی اطاعت کرتی ہے !

۹۰۶۔ امام علی (ع): اے وہ لوگ جنکے نفوس مختلف ہیں اور دل متفرق،بدن حاضرہیں اور عقلیں غائب، میں تمہیں مہربانی کے ساتھ حق کی دعوت دیتا ہوں اور تم اس طرح فرار کرتے ہو جیسے شیر کی ڈکار سے بکریاں!

۱۶۲

ز: لغزش

۹۰۷۔ امام علی (ع): جو شخص اپنے قدم رکھنے کی جگہ کو نہیںدیکھتا وہ پھسلتا ہے ۔

۹۰۸۔ امام علی (ع): جہالت قدم کو متزلزل کر دیتی ہے اور پشیمانی کی باعث ہوتی ہے۔

۹۰۹۔ امام علی (ع): جہل ایسی سرکش سواری ہے کہ جو اس پر سوار ہوگا پھسل جائیگا اور جو اسکی ہمراہی کریگا بھٹک جائیگا۔

۹۱۰۔ امام علی (ع): جاہل کی واقع تک رسائی ، عالم کی لغزش کے برابر ہے ۔

۹۱۱۔امام علی (ع): جاہل کی واقع تک رسائی ، عاقل کی لغزش کے مانند ہے ۔

۹۱۲۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے۔جاہلوں کے صحیح ہونے کامعیار،علماء کے اشتباہ جیسا ہے ۔

ح: ذلت

۹۱۳۔ امام علی :ؑ جو شخص عقل کو گنوا دیتا ہے ، ذلت اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔

۹۱۴۔ امام علی (ع): کتنے ہی معزز افراد کو جہالت نے ذلیل کر دیا ۔

۹۱۵۔ امام علی (ع): جہالت کی ذلت، عظیم ترین ذلت ہے ۔

۹۱۶۔ امام علی (ع): ذلت و پستی کے لئے نادانی ہی کافی ہے ۔

۹۱۷۔ امام علی (ع): جاہل خود کو بلند کرتا ہے لیکن پست ہو جاتا ہے۔

۹۱۸۔ امام علی (ع): دولتمند کی نادانی اس کو پست بنا دیتی ہے اور فقیرکی دانائی اس کو بلند کرتی ہے ۔

۹۱۹۔ امام صادق(ع): نادانی ، ذلت ہے ۔

۱۶۳

ط: افراط و تفریط

۹۲۰۔ امام علی (ع): جاہل ہمیشہ کوتاہی کرتا ہوا پایا جاتا ہے ۔

۹۲۱۔ امام علی (ع): جاہل ہمیشہ افراط و تفریط کا شکا ررہتا ہے (یعنی حد سے آگے بڑھ جاتا ہے یا پیچھے رہ جاتا ہے)

ی: دنیا و آخرت کی برائی

۹۲۲۔ رسول خدا(ص): دنیا وآخرت کی برائی جہالت کے سبب ہے ۔

۹۲۳۔ امام علی (ع): نادانی ،آخرت کو تباہ کردیتی ہے ۔

ک: نادر اقوال

۹۲۴۔ رسول خدا(ص): جو شخص کہتا ہے ''میں عالم ہوں'' در حقیقت وہ جاہل ہے ۔

۹۲۵۔ رسول خدا(ص): جہالت، گمراہی ہے ۔

۹۲۶۔ امام علی (ع): حماقت، نادانی کا نتیجہ ہے۔

۹۲۷۔ امام علی (ع): جہل کا ہتھیار، بیوقوفی ہے ۔

۹۲۸۔ امام علی (ع): جو جہالت کی بنا پر جھگڑے کرتا رہتا ہے وہ حق کی طرف سے اندھا ہو جاتا ہے ۔

۹۲۹۔ امام علی (ع): جو شخص جاہل ہوتا ہے ، اسکی پروا نہیںکی جاتی۔

۹۳۰۔ امام علی (ع): نادانی فریب وضرر کوکھینچتی ہے ۔

۹۳۱۔ امام علی (ع): جو شخص اپنی عقل کو ضائع کر دیتا ہے ، اسکی کم عقلی کا اندازہ ہو جاتا ہے ۔

۹۳۲۔ امام علی (ع): جو شخص کم عقل ہوجاتا ہے ، اسکی باتیں بری ہوتی ہیں۔

۱۶۴

۹۳۳۔ امام علی (ع): جس شخص کی عقل کم ہوتی ہے ، مذاق زیادہ کرتا ہے ۔

۹۳۴۔ امام علی (ع): آزمائے بغیر ہر شخص پر اعتماد کرنا، کم عقلی کی نشانی ہے ۔

۹۳۵۔ امام علی (ع): جو شخص نادان و کم عقل سے دوستی کرتا ہے ، خود اسکی کم عقلی کی نشانی ہے ۔

۹۳۶۔ امام علی (ع): جو شخص نیکیوںکو برے اعمال کے ذریعہ طلب کرتا ہے وہ، اپنی عقل و شعور کو تباہ و برباد کر دیتا ہے ۔

۹۳۷۔ امام علی (ع): عقل ، ہدایت اور نجات دیتی ہے اور جہالت گمراہ و نابود کر دیتی ہے ۔

۹۳۸۔ اما م زین العاب دین (ع): میری نظر میں یقینا ایک محتاج کا دوسرے محتاج سے طلب کرنا، اسکی کوتاہ فکری اور عقلی گمراہی کی نشانی ہے ۔

۹۳۹۔ امام باقر(ع): جوانمردی یہ ہے کہ طمع نہ کرو کہ ذلیل ہو جاؤگے، دست نیاز نہ بڑھاؤ کہ سبک ہو جاؤگے، بخل نہ کرو کہ گالی کھاؤ گے اور جہالت نہ کروکہ دشمن سمجھے جاؤ گے۔

۹۴۰۔ محمد بن خالد: نے امام صادق(ع) کے چاہنے والوں میں سے کسی ایک سے نقل کیاہے کہ؛ امام صادق(ع) نے فرمایا: ایمان اور کفر کے درمیان صرف کم عقلی کا فاصلہ ہے ، پوچھا گیا: اے فرزند رسول یہ کیونکر ممکن ہے ؟ فرمایا: یقینا ایک بندہ اپنی حاجت کو لیکر دوسرے بندہ کے پاس جاتا ہے ، جبکہ اگر خالص نیت سے خدا کو پکارا ہوتا تو نہایت کم مدت میںاپنی مراد پاجاتا۔

۹۴۱۔ امام صادق(ع): اے مفضل! جو عقل سے کام نہیںلیتا وہ کامیاب نہیںہوتااور جو علم نہیں رکھتا وہ عقل سے کام بھی نہیںلیتا۔

۹۴۲۔ امام جوادؑ: جو شخص وارد ہونے کی جگہوں سے ناواقف ہوتاہے نکلتے وقت یہ جگہیں اسکو تھکا دیتی ہےں۔

۱۶۵

۴/۲

جاہلوں کے صفات

(اور اس وقت کوبھی یاد کرو جب موسیٰ نے قوم سے کہا خدا کا حکم ہے کہ ایک گائے ذبح کرو تو ان لوگوںنے کہا کہ آپ ہمارامذاق بنا رہے ہیں ،فرمایا پناہ بخدا کہ میںجاہلوںمیں سے ہو جاؤں)

(ارشاد ہوا کہ نوح یہ تمہارے اہل سے نہیںہیں یہ عمل غیر صالح ہے لہذا مجھ سے اس چیز کے بارے میں سوال نہ کرو جس کا تمہیں علم نہیں ہے ۔ میںتمہیں نصیحت کرتا ہوںکہ تمہارا شمار جاہلوںمیں نہ ہو جائے)

(یوسف نے کہا پروردگار یہ قید مجھے اس کام سے زیادہ محبوب ہے جس کی طرف یہ دعوت دے رہی ہیں اور اگر تو ان کے مکر کو میری طرف سے موڑ نہ دیگا تو میں ان کی طرف مائل ہو سکتا ہوں اور میرا شمار بھی جاہلوں میںہو سکتا ہے) ملاحظہ کریں: بقرہ:۱۷۰و ۱۷۱، مائدہ:۵۸، حشر:۱۴

حدیث

۹۴۳۔ رسول خدا(ص): اپنے رب کی اطاعت کر و تاکہ عقلمند کہے جاؤ اور اسکی نافرمانی نہ کرو کہ جاہل کہے جاؤ۔

۹۴۴۔ رسول خدا(ص): جاہل وہ ہے جو خدا کی نافرمانی کرتا ہے چاہے خوبصوت اوربا حیثیت ہی ہو۔

۹۴۵۔ رسول خدا(ص): نے اس شخص کے جواب میں جس نے جاہل کی نشانیوںکے بارے میں پوچھا تھا۔ فرمایا: اگر اس کی ہمنشینی اختیارکروگے تو تمہیں تھکاڈالیگا، اگر اس سے کنارہ کش رہوگے تو تمہیں گالی دیگا۔اگر کچھ تمہیں عطا کریگا تو تم پر احسان جتا ئیگا اور اگر تم اسے کچھ دوگے تو ناشکری کریگا، اگر رازداں بناؤگے تو خیانت کریگا، اگر وہ تمہیں رازداںبنائے گا تو تم پر الزام لگائےگا، اگر بے نیاز ہو جائیگا تو اترائیگااور نہایت بد اخلاقی و سخت کلامی سے پیش آئیگا، اگر فقیر ہو جائیگا تو بے جھجک خدا کی نعمتوںکا انکار کریگا،

۱۶۶

اگر خوش ہوگا تو اسراف اور سرکشی کریگا، اگر محزون ہوگا تو ناامید ہوجائیگا، اگرہنسیگا تو قہقہہ لگائیگا، اگر گریہ کریگا تو بیتاب ہو جائیگا اور خود کو ابرار میں شمار کریگا، حالانکہ نہ خدا سے محبت کرتاہے اور نہ ہی خدا سے ڈرتا ہے اور خدا سے نہ حیا کرتاہے اور نہ ہی اسے یاد کرتا ہے،اگر اسے راضی کروگے تو تمہاری تعریف کریگا اور تمہارے اندر جو خوبیاں نہیںپائی جاتی ہیں ان کی بھی تمہاری طرف نسبت دیگا اور اگر تم سے ناراض ہوگا تو تمہاری تعریف نہیں کریگا اور جو برائیاں تمہارے اندر نہیںہیں ان کی بھی تمہاری طرف نسبت دیگا،یہ جاہل کی روش ہے ۔

۹۴۶۔ رسول خدا(ص): دنیا اس شخص کی قیامگاہ ہے جسکے گھر نہیں، اس شخص کی ثروت ہے جسکے پاس ثروت نہیں، اس کےلئے ذخیرہ ہے جو عقلمند نہیں، دنیوی خواہشات کو وہ طلب کرتا ہے جو فہم و ادراک نہیں رکھتا، دنیا کےلئے وہ دشمنی کرتا ہے جو عالم نہیں ۔ دنیا کےلئے وہ حسد کرتا ہے جو شعورنہیںرکھتا۔ اور دنیا کےلئے وہ کوشش کرتاہے جو یقین نہیں رکھتا۔

۹۴۷۔ رسول خدا(ص): جاہل کی صفت یہ ہے کہ جو اس سے گھل مل جاتا ہے اس پر ظلم کرتا ہے ۔اپنے سے کم لوگوںپر تجاوز کرتا ہے، اپنے سے بلند لوگوںکا مقابلہ کرتا ہے ، اسکی گفتگو فکر و تدبر کے بغیر ہوتی ہے ، جب کلام کرتا ہے تو گناہ کامرتکب ہوتا ہے ، جب خاموش رہتا ہے تو غفلت کرتا ہے ، اگر کوئی فتنہ کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے تو اسکی طرف ٹوٹ پڑتا ہے اور اس کے سبب ہلاک ہو جاتاہے ، جب کوئی فضیلت دیکھتا ہے تو اس سے روگردانی اورسستی کرتا ہے ، گذشتہ گناہوں سے نہ خوفزدہ ہو تا ہے اور نہ ہی اپنی باقی عمر میں گناہوں سے پرہیز کرتا ہے ۔ نیک کاموں میں سستی اور اس سے کنارہ کشی اختیار کرتا ہے اور جو اچھائیاں ا س سے ترک یا ضائع ہو گئی ہیں ان پرافسوس نہیں کرتا____یہ دس خصلتیں جاہل کے خصوصیات میں سے ہیں جو عقل کی نعمت سے محروم ہے ۔

۹۴۸۔ رسول خدا(ص): جاہل میںچھہ خصلتیں پائی جاتی ہیں: کسی برائی کے بغیر ناراضگی ، بے فائدہ گفتگو، بے محل عطا و بخشش، راز کا فاش کرنا، ہر شخص پر اعتماد اور اپنے دوست و دشمن کونہ پہچاننا۔

۱۶۷

۹۴۹۔ رسول خدا(ص): نادان اپنی بے حیائی کو آشکار کرتا ہے چاہے لوگوںکے درمیان دور اندیش اور اچھا سمجھا جاتا ہو۔

۹۵۰۔ اما م علی (ع): خدا کے مقابل میںسوائے بد بخت جاہل کے کوئی جرئت نہیںکرتا۔

۹۵۱۔ امام علی (ع): جاہل وہ ہے جو خدا کی نافرمانی کے لئے اپنے خواہشات کی پیروی کرتا ہے۔

۹۵۲۔ امام علی (ع): جاہل نہ پشیمان ہوتا ہے اور نہ ہی برے کاموں سے دستبردار ہوتا ہے ۔

۹۵۳۔ امام علی (ع): جاہل وہ ہے جو اپنے خواہشات کے چنگل اور فریب میں آجاتا ہے ۔

۹۵۴۔ امام علی (ع):جاہل وہ ہے جس کو اسکی حاجتیں دھوکا دیتی ہےں۔

۹۵۵۔ امام علی (ع): جاہل وہی ہے جس کو اسکی حاجتیں غلام بنا لیتی ہیں۔

۹۵۶۔ امام علی (ع): جاہل، ناممکن اورباطل چیزوںکے سبب دھوکا کھاتا ہے ۔

۹۵۷۔ اما م علی (ع): عاقل اپنے عمل پر اعتماد کرتاہے اور جاہل اپنی آرزو پر۔

۹۵۸۔ امام علی (ع): جاہل اپنی امیدپر اعتماد کرتا ہے اور عمل میںکوتاہی کرتا ہے ۔

۹۵۹۔ امام علی (ع): جاہل اپنے ہی جیسوں کی طرف جھکتاہے ۔

۹۶۰۔ امام علی (ع): عاقل کمال کا طالب ہوتا ہے اور جاہل مال کا۔

۹۶۱۔ امام علی (ع):جاہل ان چیزوں سے وحشت کرتا ہے جن سے حکیم مانوس ہوتا ہے ۔

۹۶۲۔۔ امام علی (ع): زبان ایسا پیمانہ ہے کہ جہل جس کو ہلکااور عقل جس کو سنگین بناتی ہے ۔

۹۶۳۔ امام علی (ع): جاہل وہ ہے جو اپنے خیر خواہ کو دھوکا دیتا ہے۔

۹۶۴۔ امام علی (ع): یقینا وہ جاہل ہے جو اپنے دشمنوں کو خیر خواہ سمجھتا ہے ۔

۹۶۵۔ امام علی (ع): جاہلوںکا اتباع جہالت کی نشانی ہے ۔

۱۶۸

۹۶۶۔ امام علی (ع): جاہلوںکی اطاعت اور فضولیات کی کثرت، جہالت کی نشانیاں ہیں۔

۹۶۷۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے۔ جاہل پر برہان قائم کرنا آسان ہے ،لیکن جاہل سے اس کا اعتراف کرانا دشوارہے ۔

۹۶۸۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصارمیں ہے ۔ جاہل کو اپنے دل میں حماقت کادرد محسوس کرنے سے وہ چیز باز رکھتی ہے جو مست کو کانٹوں میں ہاتھ ڈالنے کے احساس سے باز رکھتی ہے ۔

۹۶۹۔ امام علی (ع): مردوں کے ساتھ نفرت، جاہلوںکی صفت ہے ۔

۹۷۰۔ امام علی (ع): جاہل اپنی کوتاہی کو نہیں جانتا اور اپنے خیر خواہ کی بات قبول نہیں کرتا۔

۹۷۱۔ امام علی (ع): جاہل ، عالم کو نہیں پہچانتا، اس لئے کہ وہ اس سے قبل عالم نہیں تھا۔

۹۷۲۔ امام علی (ع): جاہل باز نہیں آتا اور نصیحتوں سے بہرہ مند نہیںہوتا۔

۹۷۳۔ امام علی (ع): جاہل کی فکر گمراہی ہے ۔

۹۷۴۔ امام علی (ع): عالم اپنے دل و دماغ سے دیکھتاہے اور جاہل اپنی آنکھ اور نظر سے۔

۹۷۵۔ امام علی (ع): جاہل کی ناراضگی اس کے قول سے ظاہر ہوتی ہے اور عاقل کی ناراضگی اس کے عمل سے۔

۹۷۶۔ امام علی (ع): جاہل کی فکر و رائے فنا ہو جاتی ہے۔

۹۷۷۔ امام علی (ع): جاہل کی کوئی گمشدہ نہیں ہے۔

۹۷۸۔ امام علی (ع): جو شخص تمہاری طرف رغبت رکھتا ہے اس سے کنارہ کشی کم عقلی ہے اور جو تم سے کنارہ کشی اختیار کرتا ہے اسکی طرف تمہا راراغب ہونا اپنے نفس کو ذلیل کرنا ہے ۔

۸۷۹۔ امام علی (ع): جاہلوںکی ہمنشینی بے عقلی کی نشانی ہے ۔

۱۶۹

۹۸۰۔ امام علی (ع): آرزؤں کی کثرت عقل کی بربادی کی علامت ہے ۔

۹۸۱۔ امام علی (ع): عاقل اپنے علم کے ذریعہ بے نیاز ہوتاہے اور جاہل اپنے مال کے ذریعہ ۔

۹۸۲۔ امام علی (ع): جاہل کا سرمایہ اس کا مال اور آرزو ہے ۔

۹۸۳۔ امام علی (ع): جاہل اپنی نادانی کے سبب گمراہ کرتا ہے اور اپنی خواہشات کی بنا پر خود فریب کھاتاہے لہذاا سکی بات بے اعتباراور عمل مذموم ہوتاہے ۔

۹۸۴۔ امام علی (ع): بیشک لالچ و طمع جاہلوںکے قلوب کو پریشان کرتی ہے ،امیدیںانہیں گروی بنا لیتی ہیں اور نیرنگیاں انہیں اسیرکر لیتی ہیں۔

۹۸۵۔ امام علی (ع): اے لوگو! یاد رکھو یقینا وہ عقلمند نہیں ہے جو اپنے متعلق نازیبا کلمات کے سبب بپھر جائے ، وہ حکیم و آگاہ نہیںہے جو جاہل کی تعریف سے خوش ہو، لوگ اپنی خوبیوں کے فرزند ہیں اور ہر انسان کی قدرو قیمت اسکی خوبیوں کے مطابق ہے پس علمی باتیں کرو تاکہ تمہاری قدر و منزلت آشکار ہو جائے۔

۹۸۶۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصارمیں ہے، جاہل دنیا کی مذمت کرتا ہے اور خرچ کرنے میں بخل کرتا ہے، سخاو ت کی تعریف کرتاہے اور بخشش سے بخل کرتا ہے، طولانی آرزؤں کے ساتھ توبہ کی تمنا کرتا ہے، موت کے خوف سے توبہ کرنے میں جلدی نہیںکرتا، اس کام کی جزا کی امید رکھتا ہے کہ جسے انجام نہیں دیاہے ، لوگوں سے فرار کرتا ہے تاکہ اسے ڈھونڈیں، خود کو پوشیدہ رکھتا ہے تاکہ مشہور ہو جائے، خود کی ملامت کرتا ہے تاکہ اسکی مدح کی جائے ، لوگوںکو اپنی مدح سرائی سے روکتا ہے جبکہ پسند کرتاہے کہ اسکی مدح و ثنا ہوتی رہے۔

۹۸۷۔ امام صادق(ع): جاہل کے صفات میں سے یہ ہے کہ جاہل(سوال) سننے سے پہلے جواب دیتاہے ، سمجھنے سے پہلے جھگڑنے لگتا ہے اور نامعلوم چیزوںکا فیصلہ کرتا ہے ۔

۱۷۰

۹۸۸۔ امام صادق(ع): عاقل در گذر کرتا ہے اور جاہل دھوکا دیتا ہے ۔

۹۸۹۔ امام صادق(ع): مصباح الشریعہ میں آپ سے منسوب کلام میںہے ۔جاہل کی ادنیٰ صفت لیاقت کے بغیر علم کا دعویٰ کرنا ہے اور اس سے بڑھ کر اس کا اپنی جہالت سے ناواقف ہونا ہے اور اس سے بھی بڑھکر اس کا اس سے انکار کرنا ہے ۔

۹۹۰۔ امام کاظم (ع):جاہل کو جو عاقل پر تعجب ہوتا ہے وہ عاقل کے جاہل پر تعجب سے زیادہ ہوتا ہے ۔

۹۹۱۔ امام ہادی(ع): جاہل اپنی زبان کا اسیر ہوتاہے ۔

۹۹۲۔ امام ہادی(ع): مسخرہ پن بیوقوفوںکا مذاق اور نادانوںکاشعارہے ۔

۹۹۳۔ عیسی(ع):میں تم سے صحیح کہتا ہوں: حکیم ، نادان سے عبرت حاصل کرتا ہے اور نادان اپنے خواہشات نفسانی سے ۔

۴/۳

جہالت کے لئے اتنا ہی کافی ہے

الف: خودرائی

۹۹۴۔ رسول خدا(ص): انسا ن کی دانائی کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ خدا کی بندگی کرے اور نادانی کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ اپنی رائے کا شیفتہ ہو۔

۹۹۵۔ امام علی (ع): تمہارے علم کے لئے بس یہی کافی ہے کہ تم خدا سے ڈرو، اور تمہاری نادانی کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ تم اپنے علم سے خوش رہو۔

۱۷۱

ب: خود کو اچھا سمجھنا

۹۹۶۔ رسول خدا(ص): انسان کے علم و آگاہی کے لئے بس یہی کافی ہے کہ خدا سے ڈرے اور اسکی نادانی کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ(ہر حالت میں) خود کو اچھا سمجھتا ہے ۔

۹۹۷۔ امام علی (ع):انسان کی جہالت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ اپنے نفس سے راضی ہو۔

ج: اپنے عیوب سے بے خبری

۹۹۸۔ امام علی (ع): انسان کی جہالت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ اپنے عیوب سے بے خبر ہو اور لوگوں پر ان چیزوں کی وجہ سے طنز کرے کہ جن میں خود بھی ملوث ہو۔

۹۹۹۔ امام علی (ع):انسان کی جہالت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ اپنے عیوب سے بے خبر ہو۔

د: اپنی قدر و منزلت سے ناواقفیت

۱۰۰۰۔ رسول خدا(ص): عالم وہ ہے جو اپنی قدر کو جانتا ہو اورانسان کی جہالت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنی قدر کو نہ پہچانے۔

۱۰۰۱۔ امام علی (ع): عالم وہ ہے جو اپنی قدر کو جانتا ہواور جاہل وہ ہے جو خود سے بے خبر ہو۔

۱۰۰۲۔ امام علی (ع): عاقل وہ ہے جو اپنے مقام کو پہچانتا ہو اور جاہل وہ ہے جو اپنی حدود کو نہ جانتا ہو،

۱۰۰۳۔ امام علی (ع): انسان کی نادانی کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنی حدود سے ناواقف ہو۔

۱۷۲

۱۰۰۴۔ امام علی (ع):نے (گورنر کے کاتب کے خصوصیات کے سلسلہ میں ) فرمایا: یہ لوگ معاملات میں اپنے صحیح مقام سے ناواقف نہ ہوں کہ اپنی قدر و منزلت کا نہ پہچاننے والا دوسرے کے مقام و مرتبہ سے یقینا زیادہ ناواقف ہوگا۔

۱۰۰۵۔ امام علی (ع): جو شخص اپنی قدرو منزلت نہیں پہچانتا ، اپنی حدود سے گذر جاتا ہے

ھ: علم و عمل میں منافات

۱۰۰۶۔ امام علی (ع): عالم کی جہالت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ اس کا علم اس کے عمل سے منافات رکھتا ہو۔

و:خود را فضیحت دیگراں را نصیحت

۱۰۰۷۔ امام علی (ع): انسان کی جہالت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ دوسروں کے جس فعل کو ناپسند کرتا ہے اسی کو خود انجام دیتا ہے ۔

۱۰۰۸۔ لقمان : تمہاری جہالت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ دوسرں کو جن چیزوں سے روکتے ہو ان ہی کاخودارتکاب کرتے ہو۔ تمہاری عقلمندی کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ لوگ تمہارے شر سے محفوظ رہیں۔

ز: گناہوںکا ارتکاب

۱۰۰۹۔ امام علی (ع): انسان کی نادانی کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ جس سے منع کرتا ہے اسی کو انجام دیتا ہے ۔

۱۰۱۰۔ امام کاظم (ع): اے ہشام!...تمہاری جہالت کےلئے اتنا ہی کافی ہے جس سے منع کرتے ہو اسی کو انجام دیتے ہو۔

۱۷۳

ح: ہر معلوم چیز کا اظہار

۱۰۱۱۔ رسول خدا(ص): تمہارے جھوٹ کے لئے اتنا ہی کافی ہے جو کچھ سنو زبان پر جاری کرو اور جہالت کی نشانیوںمیں سے ایک یہ ہے کہ جو کچھ جانتے ہو اس کا اظہارکرو۔

۱۰۱۲۔ امام علی (ع): تمہاری نادانی کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ جو کچھ جانتے ہو اس کا اظہار کرو۔

ط: ہر سنی چیز کا انکار

۱۰۱۳۔ امام علی (ع):لوگ جو بھی تم سے بیان کرتے ہیں اسکا انکار نہ کرو کہ تمہاری نادانی کے لئے اتنا ہی کافی ہے۔

ی: خدا کو دھوکا دینا

۱۰۱۴۔ رسول خدا(ص): جہالت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ خدا کو دھوکا دیں۔

ک: بے سبب ہنسنا

۱۰۱۵۔ امام علی (ع): انسان کی جہالت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ بے سبب ہنسے۔

۱۷۴

۴/۴

جاہل ترین انسان

۱۰۱۶۔ رسول خدا(ص): عقل کے اعتبار سے ناقص ترین انسان وہ ہے جو بادشاہ سے زیادہ خائف ہوتا ہے اور اسکی زیادہ پیروی کرتاہے ۔

۱۰۱۷۔ رسول خدا(ص): عقل کے لحاظ سے ناقص ترین انسان وہ ہے جو شیطان کی سب سے زیادہ اطاعت کرے اور سب سے زیادہ اس کے حکم کی تعمیل کرے۔

۱۰۱۸۔ امام صادق: عقل کے اعتبار سے ناقص ترین انسان وہ ہے جو اپنے سے چھوٹے پر ـ ظلم کرتا ہے اور معذرت کرنے والے سے درگزر نہیں کرتا۔

۱۰۱۹۔ امام علی (ع): بیشک جاہل ترین انسان وہ شخص ہے جو اپنی قدر ومنزلت نہ جانتا ہو اور انسان کی جہالت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنی قدر ومنزلت نہ پہچانے۔

۱۰۲۰۔ امام علی (ع): سب سے بڑی نادانی یہ ہے کہ انسان خود سے بے خبر ہو۔

۱۰۲۱۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے ۔ سب سے بڑا جاہل وہ شخص ہے جو ایک پتھر سے دو بار پھسلے۔

۱۰۲۲۔ امام علی (ع): سب سے بڑا جاہل گناہوں کی تکرار کرنے والا ہے ۔

۱۰۲۳۔ امام علی (ع): جاہل ترین انسان وہ ہے جو چاپلوس اور تعریف کرنے والے کی بات کے فریب میں آجائے، جو قبیح کو اس کے لئے حسن اور خیر خواہ کو دشمن بنا کر پیش کرتاہے ۔

۱۷۵

۱۰۲۴۔ امام علی (ع): جہالت کی انتہاء یہ ہے کہ انسان اپنی نادانی پر فخر کرے۔

۱۰۲۵۔ امام علی (ع): عظیم ترین جہالت ، قدرتمند سے نفرت ، فاجر سے دوستی اور دغاباز پر اعتماد ہے۔

۱۰۲۶۔ امام علی (ع): سب سے بڑی جہالت لوگوںکے ساتھ نفرت و دشمنی کرنا ہے ۔

۱۰۲۷۔ امام علی (ع): اس سے بڑی جہالت اور کیا ہوگی کہ ان چیزوںکے سبب خود کوبڑا سمجھنا جو تمہارے لئے باقی رہنے والی نہیں ہیںاور نہ تم ان کے لئے باقی رہوگے۔

۱۰۲۸۔ امام علی (ع): جو شخص علم کے بلند درجہ تک پہنچنے کا مدعی ہے گویا اس نے اپنی نادانی کی انتہاء کو آشکار کر دیا ہے۔

۱۰۲۹۔ امام علی (ع): جو نادان کو دوست بناتا ہے وہ اپنی کثرت نادانی پر دلیل قائم کرتاہے ۔

۱۰۳۰۔ رسول خدا(ص): جو خدا کی نعمتوںکو صرف کھانے ،پینے کی چیزوں میں دیکھتا ہے ، اس کا علم کم اورجہالت زیادہ ہے۔

۱۰۳۱۔ امام علی (ع): کثرت خطا، کثرت نادانی کا پتہ دیتی ہے۔

۱۰۳۲۔ امام علی (ع): نادانی کی انتہاء ظلم و ستم ہے۔

۱۰۳۳۔ امام علی (ع): حماقت کا سرمایہ خشونت ہے ۔

۱۷۶

پانچویں فصل نادانوں کے فرائض

۵/۱

جاہل پر واجب چیزیں

الف: سیکھنا

۱۰۳۴۔ رسول خدا(ص): جو تعلم کی ایک ساعت کی رسوائی برداشت نہیںکرتا، وہ ہمیشہ نادانی کی ذلت میں رہیگا۔

۱۰۴۵۔ رسول خدا(ص): عالم کے لئے سزاوار نہیںکہ وہ اپنے علم پر سکوت اختیار کرے اور اسی طرح جاہل کے لئے مناسب نہیں کہ وہ اپنی جہالت پر خاموش رہے ۔ چنانچہ خدا کا ارشاد ہے(اہل ذکر سے پوچھو اگر تم نہیں جانتے)

۱۰۳۶۔ امام علی (ع): ایک شخص نے کہا: اے اللہ کے رسول! کون سی چیز مجھ سے جہالت کی حجت کو دور کرتی ہے ؟ فرمایا: علم ، پھر اس نے کہا: کون سی چیز مجھ سے علم کی حجت کو دور کر سکتی ہے ؟ فرمایا: عمل

۱۰۳۷۔ امام علی (ع): اے لوگو! جان لو جو زبان پر قابو نہیںرکھتا، پشیمان ہوتاہے ،جو نہیں سیکھتاوہ جاہل رہتاہے اورجو بردبار ہونے کی کوشش نہیں کرتا وہ بردبارنہیںہو سکتا۔

۱۰۳۸۔ امام علی (ع): جو نہیںسیکھتاعالم نہیںہو سکتا

۱۰۳۹۔ امام علی (ع): جاہل اگر نہیں جانتا تو اسے سیکھنے سے حیا نہیں کرنی چاہئے۔

۱۰۴۰۔ امام علی (ع): جو شخص نہیں جانتا اسے سیکھنے سے گریز نہیںکرنا چاہئے۔

۱۰۴۱۔ امام علی (ع): جہالت کی بیماری عالم کے سامنے پیش کی جاتی ہے ۔

۱۷۷

۱۰۴۲۔امام علی (ع): اگر پانچ خصلتیں نہ ہوتیں تو تمام لوگ صالح ہوجاتے: جہالت پر قناعت، حرص دنیا، فراوانی کے باوجود بخل، عمل میں ریاکاری اور خود رائی۔

۱۰۴۳۔ ابن جریج: کا بیان ہے کہ جنگ جمل میں محمد بن حنفیہ اپنے باپ (علی ) کا پرچم اٹھائے ہوئے تھے۔ باپ نے محمد بن حنفیہ میں کچھ سستی دیکھی تو پرچم لے لیا۔ محمد کا بیان ہے : میں والد کی خدمت میں پہنچا اور تقاضا کیا کہ مجھے علم دو بارہ عطا کر دیں انہونے کافی دیر تک دینے سے انکار کیا، پھر دے دیااور فرمایا:۔

لو اور اچھی طرح اٹھاؤ ، اور اپنے ساتھیوں کے بیچ میں آجاؤ اور پرچم کے اوپری حصہ کو جھکنے نہ دو اور اس کو اس طرح بلند کرو کہ تمہارے تمام ساتھی دیکھ سکیں ، محمد کا کہنا ہے کہ جو کچھ مجھ سے کہا تھا میں نے اس پر عمل کیا، تو عمار یاسر نے کہا: اے ابو القاسم! آج کتنے سلیقہ سے پرچم اٹھائے ہوئے ہوامیرالمومنین نے فرمایا:تمہارا مقصد کیا ہے؟ عمار نے کہا: علم سیکھنے کے بغیر حاصل نہیں ہوتا۔

۱۰۴۴۔ اما م زین العاب دین (ع): خدا نے حضرت دانیال پر وحی کی :میرے بندہ دانیال!....بیشک میرے بندوں میںسب سے زیادہ محبوب وہ متقی ہے جو بے پناہ ثواب کا طالب ہوتاہے جو ہمیشہ علماء کے ساتھ رہتا ہے اور حکماء کی پیروی کرتا ہے اور ان کی باتیں قبول کرتاہے ، بیشک میںنے اکثر لوگوں کوجہل سے پیدا کیا ہے ۔

۱۰۴۵۔ امام باقر(ع):خطبہ ابو ذر میںہے: اے نادان علم حاصل کر، یقینا وہ دل جس میں علم نہیںہوتاا س کھنڈر کے مانند ہے جس کا کوئی آباد کرنے والا نہیں۔

۱۰۴۶۔ منیۃ المرید:میں ہے کہ خدا انجیل کے ستر ہویں سورہ میں فرماتا ہے: حیف ہے اس شخص پر کہ جو علم کو سنتا ہے لیکن اس کا طالب نہیں ہوتا، وہ جاہلوں کے ساتھ کس طرح آگ کی طرف لایاجائیگا؟ علم کی جستجو میں رہو اور اسے سیکھو! اس لئے کہ اگر علم تمہیں سعادتمند نہ بنا سکا تو بدبخت بھی نہیں بنائےگا اگر تمہیں بلند نہ کر سکا تو پست بھی نہیں کریگا، اگر تمہیں غنی نہ بنا سکا تو فقیر بھی نہیں بنائیگا اور اگر فائدہ نہ پہنچا سکا تو ضرر بھی نہیں پہنچائیگا۔

۱۷۸

ب :توبہ

۱۰۴۷۔ امام علی (ع): جو گناہوں سے باز نہیں رہتا وہ جاہل ہے ۔

۱۰۴۸۔ امام زین العاب دین (ع): اپنی دعاء میں فرماتے ہیں : خدایا! محمد و آل محمد پر درود بھیج، ہمیں ایسے لوگوں میں قرار دے جو شہوات کے بجائے تیری یاد میں مشغول ہیں ، اور جنہوںنے واضح و روشن معرفت کی بنا پر غرور و تکبر کے اسباب کی مخالفت کی ہے ، اورآتش شہوت کے پردوں کو آب توبہ کے چھڑکنے سے چاک کر دیا ہے اور جہالت کے ظروف کو زندگی کے آب خالص سے دھوڈالا ہے۔

ج: تقویٰ

۱۰۴۹۔ امام باقر ؑ: خدا تقویٰ کے سبب ان چیزوںکو محفوظ رکھتاہے جو بندہ کی عقل سے پوشیدہ ہوتی ہیں اور تقویٰ کے ذریعہ اسکی نابینائی اور نادانی کو دور کرتا ہے ۔

د: شبہ کے وقت احتیاط

۱۰۵۰۔ رسول خدا(ص): اے علی : مومن کے صفات میں سے یہ ہے کہ...وہ محرمات سے دوری اور شبہات کے وقت احتیاط کرے۔

۱۰۵۱۔ امام علی (ع): دور اندیشی کی بنیاد شبہ کے وقت احتیاط ہے ۔

۱۰۵۲۔ امام علی (ع):(آپ سے منسوب کلمات قصارمیں ہے) سب سے بہتر عبادت خود کو معصیت سے باز رکھنا اور شبہ کے وقت احتیاط ہے ۔

۱۷۹

۱۰۵۳۔ امام علی (ع): شبہات میں احتیاط جیسی کوئی پر ہیزگاری نہیں ہے ۔

۱۰۵۴۔ امام علی (ع): سب سے بڑاحق یہ ہے کہ انسان علم ہونے کے باوجود احتیاط کرے۔

۱۰۵۵۔ امام علی (ع): نے انتقال کے وقت اپنے بیٹے امام حسن (ع) کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا: بیٹا! میں تمہیں وقت پر نماز ادا کرنے، زکات کو اسکے مستحق تک اسکی جگہ پر پہنچانے اور شبہات کے وقت خاموشی کی وصیت کرتا ہوں۔

۱۰۵۶۔ امام علی (ع): اگر بندے لا علمی کے وقت احتیاط کرتے تو کافر ہوتے اور نہ گمراہ۔

۱۰۵۷۔ امام صادق(ع): اگر بندے نادانی کے وقت احتیاط کرتے تومنکر ہوتے اور نہ کفراختیار کرتے۔

۱۰۵۸۔ امام زین العاب دین (ع):اگر کوئی امر تمہارے لئے واضح ہو جائے تو اس کو قبول کر لو ورنہ خاموش رہو تاکہ محفوظ رہو، اور اس کے علم کو خدا کی طرف پلٹا دو اس لئے کہ تمہارے لئے آسمان و زمین کے فاصلہ سے زیادہ گنجائش ہے۔

۱۰۵۹۔ اما م باقر(ع): شبہ کے وقت احتیاط کرنا ہلاکت میں پڑنے سے بہتر ہے اور اس حدیث کا چھوڑ دینا جسے خود تم نے روایت نہیں کیا ہے ، اس حدیث کی روایت کرنے سے بہتر ہے کہ جس پر تمہیں مکمل طور پر دسترسی نہیںہے ۔

۱۰۶۰۔ امام باقر(ع): یقینا خدا ئے عز وجل نے کچھ امور کو حلال ، کچھ کو حرام اور کچھ کو واجب قرار دیا ہے اور مثالیں بیان کی ہیں اور کچھ سنتوںکوجاری کیاہے.....اگر خدا کی جانب سے کوئی دلیل ہو، اور اپنے کام پر یقین ہو اور تمہاراموقف آشکار ہو تو (لے لو)ورنہ شبہ ناک امور کے پیچھے مت جاؤ۔

۱۰۶۱۔ زرارہ بن اعین : میں نے امام باقر(ع) سے دریافت کیا: بندوںپر خدا کا کیا حق ہے ؟ فرمایا: زبان پر وہی چیز یں جاری کریں جنہیں جانتے ہوں اور جنہیں نہیں جانتے ان میں احتیاط کریں ۔

۱۰۶۲۔ ہشام بن سالم : میں نے امام صادق(ع) سے دریافت کیا: بندوںپر خدا کا کیا حق ہے ؟ فرمایا جو کچھ جانتے ہوں انہیں زبان پر جاری کریں اور جو نہیںجانتے ان سے باز رہیں۔ اگر انہوںنے ایسا کیا تو گویا حق خدا کو ادا کیا۔

۱۰۶۳۔ امام صادق(ع): خاموشی اور فراوان خزانہ ،بردبار کی زینت اور جاہل کی پردہ پوشی ہے ۔

۱۸۰

ھ: جہالت کا اعتراف

1064۔ امام علی (ع): عقلمندی کی انتہاء ، اپنی جہالت کا اعتراف ہے۔

1065۔ امام علی (ع): یہ دنیا اسی حالت میںبر قراررہ سکتی ہے جس میں مالک نے قرار دیا ہے یعنی نعمت ، آزمائش ، آخرت کی جزا یاوہ بات جو تم نہیںجانتے ہو، اب اگر اس میں سے کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو اسے اپنی جہالت سمجھوکہ تم ابتدا میں جب پیدا ہوئے ہو تو جاہل ہی پیدا ہوئے ہوبعد میں تمہیںعلم دیا گیاہے اور اسی بنا پر مجہولات کی تعداد زیادہ ہے جس میںتمہاری رائے متحیر رہ جاتی ہے اور نگاہ بہک جاتی ہے ، اور بعد میں صحیح حقیقت نظر آتی ہے ۔

1066۔ امام علی (ع): اور یہ یاد رکھو کہ راسخون فی العلم وہی افراد ہیں جنہیں غیب الہی کے سامنے پڑتے ہوئے پردوں کے اندر درانہ داخل ہونے سے اس امر نے بے نیاز بنا دیاہے کہ وہ اس پوشیدہ غیب کا اجمالی اقرار رکھتے ہیں اور پروردگار نے ان کے اسی جذبہ کی تعریف کی ہے کہ جس چیز کو ان کا علم احاطہ نہیںکر سکتا اس کے بارے میں اپنی عاجزی کا اقرار کر لیتے ہیں اور اسی صفت کو اس نے رسوخ سے تعبیر کیا ہے کہ جس بات کی تحقیق ان کے ذمہ نہیںہے اسکی گہرائیوں میں جانے کا خیال نہیں رکھتے ہیں۔

1067۔ امام باقر(ع): جو جانتے ہو بیان کرو اور جو نہیں جانتے کہو(اللہ بہتر جانتا ہے)

۱۸۱

و: جہالت پر معذرت

1068۔ امام زین العاب دین (ع): خدایا! میں اپنی نادانی کے سبب تجھ سے معذرت چاہتا ہوں اور اپنے برے اعمال کے لئے تجھ سے بخشش طلب کرتا ہوں۔

ز: جہالت سے خدا کی پناہ چاہنا

1069۔ ام سلمہ: رسول خدا(ص) جب بھی گھر سے بر آمد ہوتے تھے تو فرماتے تھے: خدا کے نام سے، پروردگارا میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس سے کہ پھسلوں یا گمراہ ہو جاؤں، ستم کروںیا مجھ پرستم کیا جائے، جاہل رہوں یا مجھ پر کوئی چیز مخفی رہے۔

1070۔ امام علی (ع):نے جنگ صفین میں یوم الھریر کی دعا میں فرمایا: خدایا! بیشک میں...جہالت ،بیہودگی اور قول و فعل کی برائیوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔

1071۔ امام علی (ع): پروردگارا!...میں تیری پناہ چاہتاہوں اپنی قوت سے، اور تیری پناہ میں آنا چاہتا ہوں اپنی جرات سے ، اپنی جہالت کے سبب تیری پناہ کاطلبگار ہوں اور اپنے گناہوںکے باعث تیرے اسباب کی رسیوں کو پکڑنا چاہتا ہوں ۔

1072۔ امام علی (ع): پروردگارا! تیری پناہ چاہتا ہوں کہ علم کے عوض جہالت خریدوں جیسا کہ دوسروںنے کیاہے ، یا یہ کہ بردباری کے بدلہ حماقت خریدوں۔

1073۔ امام صادق(ع): صبح و شام کی دعا میں فرماتے ہیں؛ خدایا! ہم تیری مدد سے شام کرتے ہیں اور صبح بھی ، تیری بدولت زندہ رہتے ہیں اور مرتے بھی ہیں، اور تیری طرف پلٹے ہیں، اور میں تیری پناہ چاہتا ہوںکہ میںکسی کو رسوا کروں یا رسوا کیا جاؤں، گمراہ کروں یا گمراہ ہو جاؤں، ظلم کروںیا مجھ پرظلم کیا جائے، میں جاہل رہوں یا مجھ پر مخفی رہے۔

۱۸۲

1074۔ عبد الرحمن بن سیابہ: کابیان ہے کہ امام صادق(ع) نے یہ دعا مجھے دی: حمد اس خدا کے لئے جو صاحب حمد اور اس کا اہل ہے ، اسکی نہایت اور اس کا محل ہے ،...میںپناہ چاہتا ہوں کہ علم کے بدلہ جہالت ، بردباری کے عوض بدسلوکی، عدل کے بدلہ ستم ، نیکی کے بدلہ قطع تعلقی اور صبر کے عوض بیتابی کو خریدوں۔

ح: جہالت سے توبہ

1075۔ رسول خدا(ص):۔آپ ؐ اس طرح دعا فرماتے تھے۔بار الہا: میری خطا و جہالت، اور اپنے کام میں حد سے تجاوز کرنے اور جسکوتو مجھ سے بہتر جانتا ہے اس سے مجھکو معاف کر دے۔ پروردگارا! میرے مذاق او رسنجیدگی ، میری خطا اور دانستہ طور پر ہو جانے والے کاموں اور بقیہ میرے گناہوں سے مجھکو بخش دے۔

5/2

جاہل کے لئے حرام چیزیں

الف: علم کے بغیر لب کشائی

قرآن

(اور اپنے منہ سے وہ بات نکال رہے تھے جس کا تمہیں بھی علم نہیں تھا)

۱۸۳

حدیث

1076۔رسول خدا(ص): جو شخص علم کے بغیر لوگوںکو فتوے دیتا ہے وہ اصلاح سے زیادہ دین کو برباد کرتا ہے ۔

1077۔ رسول خدا(ص): جو شخص علم کے بغیر لوگوںکو فتویٰ دیتاہے وہ ناسخ و منسوخ اورمحکم و متشابہ میں فرق نہیں کر پاتا، لہذا وہ ہلاک ہے اور دوسروں کو ہلاک کردیتا ہے ۔

1078۔ رسول خدا(ص): جو بغیر علم کے فتوے دیتاہے اس پر آسمان و زمین کے ملائکہ لعنت بھیجتے ہیں۔

1079۔ رسول خدا(ص): وہ شخص جس کو بغیر تحقیق کے فتویٰ دیا جاتا ہے اس کا گناہ فتویٰ دینے والے کے سر ہے ۔

1080۔ امام علی (ع): جس کے بارے میں آگاہی نہیںرکھتے ہو، اطلاع نہ دو۔

1081۔ امام علی (ع): جو نہیںجانتے اس کو زبان پر جاری نہ کرو چوں کہ بیشترحق ان چیزوں میں ہے جن کا تم انکار کرتے ہو۔

1082۔ امام زین العاب دین (ع): خدایا! میں تیری پناہ چاہتا ہوں...کہ ظالم کی مدد کروں...یا بغیر علم کے علمی گفتگو کروں۔

1083۔ امام باقر(ع): جو علم اور الہی ہدایت کے بغیر فتویٰ دیتا ہے اس پر رحمت اور عذاب کے فرشتے لعنت کرتے ہیں اور اس کے فتوے پر عمل کرنے والے کا عقاب اسی کو ملیگا۔

۱۸۴

ب: نامعلوم چیز کا انکار

قرآن

(در حقیقت ان لوگوںنے اس چیز کی تکذیب کی ہے جس کا مکمل علم بھی نہیں ہے)

حدیث

1084۔ امام علی (ع): نے- اپنے بیٹے امام حسن ؑ: کو وصیت کرتے ہوئے - فرمایا: بیشک نادان وہ ہے جو نامعلوم چیزوں میں خود کو عالم شمار کرتا ہے اور اپنی ہی فکر و رائے پر اکتفا کرتا ہے ، ہمیشہ علماء سے دوری اختیار کرتا ہے اور انہیں برا بھلا کہتا ہے جو اسکی مخالفت کرتاہے اس کو خطا کا ر سمجھتا ہے اور جو شخص کچھ بھی نہیں جانتااسے گمراہ کرتا ہے ، پس جب اس کے سامنے کوئی امرآتا ہے جسے وہ نہیںجانتاتو اس سے انکار کر دیتا ہے اور اسے جھوٹ تصور کرتا ہے اور اپنی جہالت کی بدولت کہتا ہے : میں اس کو نہیں جانتا ہوںاور نہ اس سے پہلے کبھی اس کو دیکھا ہے اور گمان نہیں کرتا کہ بعد میںیہ وجود پذیربھی ہوگا۔ یہ ساری باتیں اس کا اپنی رائے پر اعتماد اور جہالت و کم علمی کے سبب ہیں۔ اور ہر وہ چیز جس کا وہ قائل ہے اور یا عدم علم کی بنیاد پر جس چیز کا غلط معتقد ہے اس سے دستبردار نہیںہوتا، اپنی نادانی سے استفادہ کرتا ہے اور حقیقت کا انکار کرتا ہے ، نیز اپنی جہالت و نادانی میں حیران و سرگرداں ہوتاہے اور تحصیل علم سے باز رہتاہے ۔

1085۔ امام علی (ع): جو کسی چیز سے ناواقف ہوتاہے اس کا دشمن ہو جاتا ہے ۔

۱۸۵

1086۔ اما م علی (ع): میں نے چار چیزیں کہیں کہ جنکی خدا نے اپنی کتاب میں تصدیق کی ، میں نے کہا: انسان اپنی زبان کے نیچے چھپا ہوتا ہے جب کلام کرتا ہے تو ظاہر ہو جاتا ہے ، پس خدا نے یہ آیت:(اور آپ ان کی گفتگو کے انداز سے انہیں بہر حال پہچان لیں گے)نازل کی، میں نے کہا: جو کسی چیز سے جاہل ہوتاہے اسکاد شمن ہوجاتاہے ، خدا نے فرمایا:( در حقیقت ان لوگوں نے اس چیز کی تکذیب کی ہے جس کا مکمل علم بھی نہیںہے اور اسکی تاویل بھی ان کے پاس نہیں آئی ہے) میں نے کہا: ہر شخص کی قدر و قیمت اسکی دانائی کے مطابق ہے ، خدا نے قصہ طالوت میں فرمایا:( انہیں اللہ نے تمہارے لئے منتخب کیاہے اور علم و جسم میں وسعت عطا فرمائی ہے)میں نے کہا: قتل، قتل کو کم کرتاہے ، خدا نے فرمایا:(صاحبان عقل تمہارے لئے قصاص میں زندگی ہے )

1087۔ امام علی (ع): جو کچھ میں نے زبان رسول سے سنا ہے اگر تمہارے سامنے بیان کردوں تو تم میرے پاس سے اٹھکر چلے جاؤ گے اور کہوگے ، یقینا علی سب سے بڑا جھوٹا اور سب سے بڑا فاسق ہے ، خدا فرماتا ہے :(بلکہ در حقیقت ان لوگوں نے اس چیز کی تکذیب کی جس کا مکمل علم بھی نہیں ہے)

1088۔ اما م صادق(ع): خدا نے اپنی کتاب میں دو آیتیں اپنے بندوں سے مخصوص کی ہیں : وہ لوگ جب تک نہیںجانتے لب کشائی نہیںکرتے اور جب تک علم نہیں رکھتے تردید نہیںکرتے ، خدا ارشاد فرماتا ہے :(کیا ان سے کتاب کا عہد نہیںلیا گیا کہ خبردار خدا کے بارے میں حق کے علاوہ کچھ نہ کہیں)نیز فرماتا ہے (یقینا ان لوگوں نے اس چیز کو جھٹلایا جس کا مکمل علم بھی نہیں رکھتے اور اسکی تاویل بھی ان کے پاس نہیں آئی ہے)

۱۸۶

5/3

ممدوح جہالت

1089۔ امام علی (ع): کتنے جاہلوں کی نجات ان کی جہالت میں ہے ۔

1090۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصارمیں ہے۔ دو گروہوںپر ہر چیز آسان ہے ؛ وہ عالم جو کام کے انجام سے واقف ہو، اور وہ جاہل جو اپنی حیثیت سے بے خبر ہو۔

1091۔ اما م علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے، اگر عقل کے نو حصے ہوتے تو جہالت کے ایک حصہ کی طرف محتاج ہوتی تاکہ عقلمند اپنے امور پر اسے مقدم کرے ،کیوں کہ عاقل ہمیشہ سہل انگار،نگراں اور خوفزدہ ہوتا ہے ۔

1092۔ امام علی (ع): بسا اوقات نادانی ، بردباری سے زیادہ مفید ہوتی ہے ۔

1093۔ ابراہیم بن محمد بن عرفہ: احمد بن یحیٰ ثعلب نے مجھے یہ اشعار سنائے اور بتایا کہ یہ اشعار علی (ع) بن ابی طالب کے ہےں:

اگر مجھے بردباری کی ضرورت ہے تو بیشک بعض اوقات مجھے جہالت کی زیادہ ضرورت ہے ۔ میں نادانی کو ندیم و ہمنشیں کے عنوان سے پسند نہیںکرتا لیکن ضرورت کے وقت پسند کرتاہوں میرے پاس بردباری کا مرکب ہے کہ جس کی لجام بھی بردباری ہی ہے ، اور میرے پاس جہالت کا مرکب ہے کہ جس کی زین نادانی ہے ۔

1094۔ امام حسین ؑ: اگر لوگ غور و فکر کرتے اور موت کو اسکی صورت میں تصور کرتے تو دنیا ویرانہ ہوجاتی۔

1095۔ امام عسکری ؑ: اگر تمام اہل دنیا عقلمند ہوتے تو دنیا ویران ہو جاتی۔

۱۸۷

1096۔ اما م صادق(ع)ـ: نے ۔ مفضل بن عمر۔ سے فرمایا: اے مفضل ! ان چیزوںکے بارے میں غور وفکر کرو کہ جن میں انسان کو اپنی مدت حیات کے متعلق آگاہی نہیں ہے ؛ اس لئے کہ انسان اگر اپنی عمر کی مقدار سے باخبر ہو جائے اور (بالفرض) اسکی زندگی کم ہو تو موت کے خوف سے کہ جس کا وقت معلوم ہے اسکی زندگی تلخ ہو جائیگی؛ بلکہ اس شخص کے مانند ہوگا کہ جس کا مال تباہ ہو گیا یابرباد ہونے کے قریب ہے ؛ گویا یہ شخص فقر اور مال و ثروت کی بربادی اور خوف فقر کے اندیشہ سے نہایت خوفزدہ رہتا ہے ۔

جبکہ یہ تلخی جو انسان کی فنائے عمرکے تصور سے پیدا ہوتی ہے انسان کے فنائے مال سے کہیں زیادہ تلخ ہے ؛ چونکہ جب کسی شخص کی ثروت کم ہو جاتی ہے تو وہ اسکی جگہ پر ثروت کے آنے کی امید رکھتا ہے ، جس کے سبب اس کو سکون حاصل ہوتا ہے ؛ لیکن جو عمرکی فنا کا یقین رکھتا ہے اس کے لئے صرف مایوسی ہوتی ہے ۔ اور اگر اسکی عمر طولانی ہوتی ہے اور وہ اس سے آگاہ ہو جاتاہے تو بقا کا اعتماد پیدا کرکے لذات اور معصیتوں میں غرق ہو جاتا ہے اور اس خیال سے عمل کرتاہے کہ اپنی لذتوںکو حاصل کرے اور آخیر عمر میں توبہ کرلیگا؛ یہ ایسی روش ہے کہ خدا پنے بندوں سے نہ پسند کرتا ہے اورنہ قبول۔

اگر تم کہو! کیا ایسا نہیں ہے کہ انسان ایک عرصے تک گناہ کرتاہے پھر توبہ کرتا ہے اور اسکی توبہ قبول ہوتی ہے۔؟!

ہم جواب دیں گے : ایسا اس لئے ہے کہ شہوت انسان پر غالب آجاتی ہے تونہ وہ کوئی منصوبہ بناتا ہے اور نہ ہی اس کے مطابق کوئی کام انجام دیتاہے ، لہذا خدا اس سے درگذر کریگا اور مغفرت کے ذریعہ اس پر فضل و احسان کریگا۔

لیکن وہ شخص جس نے اپنی زندگی کی بنا اس بات پر رکھی ہے کہ گناہ کرے گااور آخر عمر میں توبہ کرلیگا؛ یہ اس ذات کو دھوکا دینا چاہتاہے کہ جو دھوکا نہیںکھاتا اور کوشش کرتا ہے کہ جلد لذت اندوزہو اور اپنے نفس سے وعدہ کرتا رہتا ہے۔

۱۸۸

کہ بعد میں توبہ کر لیگا۔ حالانکہ اپنے وعدہ کو پورا نہیںکرتا؛ اس لئے کہ آسائش اور لذات سے چھٹکاراپانا اور توبہ کرنا، خصوصاً جب بوڑھا اور ناتواںہو جائے، نہایت دشوار کام ہے ، انسان توبہ کرنے میں ٹال مٹول کرکے امان نہیں پا سکتاچونکہ اسکی موت آپہنچتی ہے اور وہ توبہ کے بغیر دنیا سے چلا جاتا ہے ، اسکی مثال اس شخص کی سی ہے کہ جس کی گردن پر قرض ہو کہ جس کی میعاد آئندہ آئیگی اور وہ قرض کی ادائیگی کی قدرت ہونے کے باوجود ٹال مٹول کرتا رہتاہے یہاں تک کہ اسکی ادائیگی کا وقت آجاتاہے لیکن اب اس کے پاس مال نہ ہونے کی وجہ سے اسکی گردن پر قرض باقی رہ جاتاہے۔

لہذاا نسان کے لئے بہتر ہے کہ اپنی عمر کی مقدار سے واقف نہ ہو اور اپنی ساری زندگی موت سے خوفزدہ رہے تاکہ گناہوں سے پرہیز کرے اور نیک عمل بجالاتا رہے۔

اگر تم کہو: ایسے بھی لوگ ہیںجو اپنی زندگی کی مقدار سے با خبر نہیں ہیں اور ہر لمحہ موت کے انتظار میں ہیں لیکن ہمہ وقت بدکرداری اور محرمات کا ارتکاب کرتے ہیں۔

ہم جواب دیں گے: بیشک اس سلسلہ میں بہترین تدبیر وہ ہے جو اب جاری ہوئی ہے ؛ اگر انسان الہی تدبیر کے باوجود بدکرداری اور گناہوں سے دستبردار نہ ہو تو یہ اسکی عیش و نشاط اور سنگدلی کا نتیجہ ہے نہ کہ تدبیر میں کوتاہی کا، جیسے ڈاکٹر کبھی کوئی مفید دوا بیمار کے لئے تجویز کرتا ہے ؛ لیکن اگر مریض ڈاکٹر کے حکم کی مخالفت کرے اور اسکی پابندیوں پر عمل نہ کرے تو وہ ڈاکٹر کی تجویز سے بہرہ مند نہیں ہوتاا ور اس نقصان کا تعلق ڈاکٹر سے نہیںہے چونکہ اس نے بیماری کی شناخت کر لی ہے لیکن مریض نے اسکی بات قبول نہیںکی۔

۱۸۹

اگر انسان ہر لمحہ موت کے انتظار میں ہونے کے باوجود گناہوںسے دستبردار نہیں ہوتا تو اگر طولانی زندگی کا اطمینان ہو تو کہ بڑے گناہوں کا اور زیادہ ارتکاب کریگا، بہر حال موت کے انتظار میں رہنا، اس کے لئے دنیا میں اطمینان بقا سے بہترہے ، اور اس سے قطع نظر اگر موت کا انتظار ایک گروہ کے لئے مفید نہ ہو اور وہ لہو و لعب میں مصروف ہو اور اس سے نصیحت حاصل نہ کرے تو دوسرا گروہ نصیحت حاصل کریگا اور گناہوں سے گریز کریگااور نیک عمل بجالائیگا۔ اور اپنے اموال و گر انبہا اجناس کو فقراء و مساکین کوصدقہ دینے میںدریغ نہیں کریگا ۔ لہذا یہ انصاف نہیں ہے کہ یہ گروہ اس فضیلت سے بہرہ مند نہ ہوتو دوسرا گروہ بھی بہرہ مندنہ ہو۔

5/4

جاہل سے مناسب برتاؤ

الف: گفتگو کے وقت سلام کرنا

قرآن

(اور اللہ کے بندے وہی ہیں جو زمین پر آہستہ چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے خطاب کرتے ہیں تو سلامتی کا پیغام دے دیتے ہیں)

(اور جب لغویات سنتے ہیں تو کنارہ کشی اختیاکرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے لئے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لئے تمہارے اعمال ہیں ، تم پر ہمارا سلام کہ ہم جاہلوںکی صحبت پسند نہیںکرتے )

۱۹۰

حدیث

1097۔ نعمان بن مقرِّن : رسول خدا کے سامنے ایک شخص نے ایک شخص کو گالیاں دیں، اور اس نے اس کے جواب میں کہا: تم پر سلام ہو! رسول خدا(ص) نے فرمایا: یاد رکھو! تم دونوں کے درمیان ایک فرشتہ ہے جو تم سے دفاع کرتا ہے ، جب وہ تم کو گالی دیتا ہے اور کہتا ہے : تم ایسے ہو، تووہ(فرشتہ) اس سے کہتا ہے : بلکہ تم اور تم اس کے زیادہ مستحق ہو اور جب اس کے جواب میںکہتا ہے؛ تم پر سلام ہو! تو وہ (فرشتہ )کہتاہے : نہیں ، بلکہ تم(درود و سلام) کے مستحق ہو۔

1098۔ امام علی (ع): نے ۔ اپنے چاہنے والوں کی توصیف میں ۔ فرمایا: اگر تم انہیں دنوں میں دیکھو گے تو ایسی قوم پاؤ گے جو(زمین پر آہستہ چلتے ہیں) اور لوگوں سے اچھی باتیں کرتے ہیں:(اور جب جاہل ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو سلامتی کا پیغام دیتے ہیں) اور(اور جب لغو کاموںکے قریب سے گذرتے ہیں تو بزرگانہ انداز سے گذر جاتے ہیں)

1099۔ امام صادق(ع): نے۔ شیعوں کی توصیف میں۔ فرمایا: جب کوئی جاہل انہیں مخاطب کرتا ہے تو سلامتی کا پیغام دیتے ہیں اور جب کوئی حاجت مند ان کی پناہ میں آتا ہے تو اس پر رحم کرتے ہیں اور موت کے وقت غمگین نہیںہوتے۔

1100۔ اغانی: خلیفہ عباسی کا بیٹا ابراہیم، علی بن ابی طالب کا شدید دشمن تھا، ایک روز مامون سے کہا کہ میں نے خواب میں علی کو دیکھا ہے اور ان سے پوچھا: تم کون ہو؟ جواب دیا کہ علی ابن ابی طالب ہوں ، ابراہیم نے کہا: ہم دونوں کچھ دور گئے اور ایک پل نظر آیا انہوںنے چاہا کہ مجھ سے پہلے پل سے گذر جائیں۔ میںنے ان کو ؛پکڑا اور کہا: آپ امیر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیںجبکہ ہم اس کے زیادہ مستحق ہیں ، تو انہوںنے ایسا فصیح و بلیغ جواب نہ دیا جیسا کہ ان کی شہرت ہے، مامون نے کہا انہوںنے کیا جواب دیا؟ ابراہیم نے کہا: فقط سلاماً سلاماً کہا ہے۔مامون نے کہا: خدا کی قسم بلیغ ترین جواب تم کو دیا ہے ؛ ابراہیم نے کہا: کس طرح ؟ مامون نے کہا: تم کو یہ سمجھا دیا کہ تم جاہل ہو اور قابل گفتگو نہیںہو، خدا کا ارشاد ہے:(جب ان سے جاہل خطاب کرتے ہیں تو سلامتی کا پیغام دیتے ہیں) پس ابراہیم شرمندہ ہوا اور کہا: کاش کہ یہ واقعہ آپ کو نہ سنایا ہوتا۔

۱۹۱

ب: جھگڑے کے وقت خاموشی

1101۔ رسول خدا(ص): جناب موسیٰ ؑ نے جناب خضر سے ملاقات کی اور کہا: مجھکو نصیحت کیجئے! جناب خضر نے کہا: اے علم کے طلب کرنے والے.... اے موسیٰ ! اگر علم چاہتے ہو تو خود کو اس کےلئے وقف کر دو؛ اس لئے کہ علم اس شخص کےلئے ہے جو خود کو اس کےلئے وقف کر دیتا ہے...اور جاہلوں سے کنارہ کشی اختیار کرو اور احمقوںکے مقابل میں بردبار رہو، اس لئے کہ یہ بردباروںکےلئے فضیلت ہے اور علماء کیلئے زینت، اگر جاہل تم کو گالی دے تو تم نرمی کا برتاؤ کرتے ہوئے خاموش ہو جاؤ، اور دور اندیشی کےساتھ اس سے دوری اختیار کرو: چوں کہ تمہارے لئے جو نادانی و گالی باقی ہے وہی زیادہ ہے ۔

1102۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے ۔ جاہل کے ساتھ جھگڑانہ کرو۔

1103۔ امام علی (ع): بیوقوفوں سے جھگڑا نہ کرو، اور عورتوں پر فریفتہ نہ ہو اس لئے کہ یہ خصلتیں عاقلوںکوبدنام کرتی ہیں۔

1104۔ امام باقر(ع): مرد دو طرح کے ہوتے ہیں: مومن اور جاہل ، مومن کو اذیت نہ دو، اور جاہل کو جاہل نہ سمجھو ورنہ اس کے مانند ہو جاؤگے۔

ج: بردباری

1105۔ رسول خدا(ص): جس میں یہ تین چیزیں نہ ہونگی اسکاکوئی عمل صحیح نہیں ہوگا: پرہیزگاری جو اسے خدا کی نافرمانی سے باز رکھے ، اخلاق کہ جسکے سبب لوگوں کےساتھ مہربانی سے پیش آئے اور بردباری کہ جسکے ذریعہ جاہل کی جہالت کا جواب دے۔

1106۔ امام علی (ع): اپنے غیظ و غضب کو دور کروتاکہ رسوائی سے محفوظ رہو، اگر کوئی جاہل تمہارے ساتھ نادانی کرے تو ضروری ہے کہ تمہاری بردباری اس پر حاوی ہو۔

۱۹۲

1107۔ امام علی (ع):نے ۔ اپنے بیٹے اما م حسن ؑکو وصیت میں۔ فرمایا: میں تم کو وصیت کرتا ہوںکہ دوسروں کے گناہوںکو بخش دینا، غصہ کو پی جانا، صلہ رحم کرنا اور جاہل کے ساتھ بردباری کا مظاہرہ کرنا۔

1108۔ امام علی (ع): جاہل کو برداشت کرنا صدقہ ہے ۔

1109۔ امام علی (ع): مومن بردبار ہوتا ہے اور نادانی نہیں کرتا اور جب اس کے ساتھ کوئی نادانی کرتا ہے تو وہ بردباری کا ثبوت پیش کرتاہے ۔

1110۔ موسیٰ ؑ بن محمد محاربی : ایک شخص سے نقل کرتے ہیں: مامون نے امام رضا(ع) سے کہا: کیا آپ شعر نقل کرتے ہیں؟ فرمایا: مجھے بہت سارے اشعار یاد ہیں۔ اس نے کہا: بردباری کے متعلق کوئی بہترین شعر مجھے سنائےںامام (ع) نے فرمایا:

میں اپنے سے پست انسان کی جہالت کا شکار ہوں، میں نے اپنے نفس کو روک رکھا ہے کہ اس کا جواب جہالت سے دے، اگر عقلمندی میں اپنے مانند کسی کو پاؤں تو بردباری کاثبوت دوں؛ تاکہ میں اپنے مثل سے بلند ہو جاؤں؛ اور اگر علم و عقل میں ، میں اس سے کمتر ہوں تو اس کے لئے حق تقدم کا قائل ہوں۔

مامون نے کہا: کیا خوب شعر ہے؛ کس نے کہاہے؟! امام رضا(ع) نے فرمایا:ہمارے بعض جوانوں نے۔

۱۹۳

د: تعلیم

1111۔ امام کاظم (ع): نے ۔ ہشام بن حکم ۔ سے فرمایا: اے ہشام! جو کچھ نہیں جانتے اسے سیکھو؛ اور جو سیکھ لیا ہے اسے جاہل کو سکھاؤ، عالم کو اس کے علم کے سبب عظیم سمجھو اور اس سے جھگڑا نہ کرو اور جاہل کو اسکی نادانی کے سبب چھوٹا سمجھو، اس کو جھڑکو نہیں بلکہ خود سے قریب کرو اور تعلیم دو۔

1112۔ اما م صادق(ع): میںنے علی (ع) کی کتاب میں پڑھا ہے کہ خدا نے جاہلوں سے علم سیکھنے کا عہد و پیمان اس وقت تک نہیں لیا جب تک کہ علماء سے انہیں سکھانے کا عہد نہیں لے لیا، اس لئے کہ علم کا وجود جہالت سے پہلے ہے ۔

ھ: عدم اعتماد

1113۔ امام علی (ع): اپنے عقلمند دشمن پر اپنے نادان دوست سے زیادہ اعتماد کرو۔

1114۔ امام علی (ع):جو عاقل نہیں ہے اس کے عہد و پیمان پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔

و: نافرمانی

1115۔امام علی (ع): جاہل کی نافرمانی کرو تاکہ محفوظ رہو۔

۱۹۴

ز: اعراض

قرآن

(آپ عفو کا راستہ اختیار کریں نیکی کا حکم دیں اور جاہلوں سے کنارہ کشی کریں)

حدیث

1116۔ رسول خدا(ص): سب سے بڑا حکیم وہ ہے جو جاہل انسانوںسے فرار کرتا ہے ۔

1117۔ رسول خدا(ص):لوگ دو طرح کے ہوتے ہیں: مومن اور جاہل ، مومن کو اذیت نہ دو اور جاہل کی ہمنشینی اختیار نہ کرو۔

1118۔ امام علی (ع): نے ۔ امام حسن ؑسے اپنی وصیت میں ۔ فرمایا: کفر ان نعمت پستی ہے اور جاہل کی ہمنشینی نحوست ہے ۔

1119۔ امام علی (ع): ۔ آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے ۔ جاہل کی قربت اور اسکی ہمسائیگی تم کو اپنے شر سے محفوظ نہیںرکھتی، چوںکہ آگ سے جتنا زیادہ قریب ہوگے جلنے کا خطرہ اتنا ہی زیادہ ہوگا۔

1120۔ اما م علی (ع): جو عقل سے محروم ہے اسکی صحبت اختیار نہ کرو اورجو صاحب حسب و نسب نہیں ہے اس کو اپنا خاص نہ بناؤ کیوں کہ جو عقلمند نہیںہے وہ تم کو اپنے خیال میں فائدہ پہنچانے کے بجائے ضرر پہنچا ئیگا، اور جو صاحب حسب و نسب نہیںہے وہ اس کے ساتھ بھی برائی کرتا ہے جو اس کے ساتھ نیکی کرتا ہے ۔

1121۔ امام علی (ع):جو عقل سے محروم ہے اس سے نیکی کی امید نہ رکھواور جو بے نسب ہے اس پر اعتماد نہ کرو اس لئے کہ جو عقلمند نہیں ہے وہ اپنے خیال میں خیر خواہی کرتا ہے حالانکہ اس سے نقصان پہنچتا ہے اور بے نسب اصلاح کرنے کے بجائے تباہ کرتا ہے ۔

۱۹۵

1122۔ امام علی (ع): بدترین شخص کہ جس کی تم ہمنشینی اختیار کرتے ہو وہ جاہل ہے ۔

1123۔ امام علی (ع): بدترین دوست جاہل ہے ۔

1124۔ امام علی (ع): جاہل سے قطع تعلق ہونا عقلمند سے وابستہ ہونے کے برابر ہے ۔

1125۔ امام علی (ع): عاقل سے بچو جب تم اس کو غضبناک کردو، کریم سے بچو جب تم اسکی اہانت کرو، حقیر و پست سے بچو جب تم اس کا احترام کرو اور جاہل سے بچو جب تم اس کے ہمنشیں ہو جاؤ۔

1126۔ امام علی (ع): نادان کا دوست معرض ہلاکت میں ہوتا ہے ۔

1127۔ امام علی (ع): نادان کا دوست تباہی کے دہانے پر ہوتا ہے ۔

1128۔ امام عسکری:ؑ نادان کا دوست غمگین رہتا ہے ۔

1129۔ اما م کاظم (ع): عالم سے مزبلہ پر گفتگو ، جاہل سے گرانبہافرش پر گفتگو کرنے سے بہترہے ۔

1130۔ امام رضا(ع): نے ۔ محمد بن سنان کو ایک خط میں۔ تحریر فرمایا: خدا نے ہجرت کے بعد بادیہ نشینی کو حرام کر دیا تاکہ کوئی دین سے نہ پھرے ، انبیاء اور پیشواؤں کی نصرت کرنے سے گریز نہ کرے اس لئے کہ یہ (حرمت) تباہی و بربادی اور صاحبان حق کے حقوق کی پامالی کی وجہ سے ہے نہ اس جہت سے کہ بادیہ نشینی ناروا ہے ، لہذا اگر کوئی شخص دین سے مکمل طور پر آگاہ ہو تو اس کے لئے مناسب نہیں ہے کہ جاہلوںکے درمیان سکونت پذیر ہو اور اس چیز کا بھی خوف ہے کہ وہ کہیں علم کو چھوڑ کر جاہلوںکے جرگے میں پھنس جائے اور اس میں بہت آگے بڑھ جائے۔

۱۹۶

چھٹی فصل پہلی جاہلیت

6/1

مفہوم جاہلیت

قرآن

( اور پہلی جاہلیت جیسا بناؤ سنگار نہ کرو)

( اور ہم نے انہیں ایسی کتابیں نہیں عطا کی ہیں جنہیں یہ پڑھتے ہوں اور نہ ان کی طرف آپ سے پہلے کوئی ڈرانے والا بھیجا ہو)

( اور آپ طور کے کسی جانب اس وقت نہیں تھے جب ہم نے موسیٰ کو آواز دی لیکن یہ آپ کے پروردگار کی رحمت ہے کہ آپ اس قوم کو ڈرائیںجسکی طرف آپ سے پہلے کوئی پیغمبر نہیں آیا ہے کہ شاید وہ اس طرح عبرت و نصیحت حاصل کر لیں)

حدیث

1131۔رسول خدا(ص): اعمال میں ضعف اور لوگوں کی جہالت کی بنا پر جاہلیت کہا گیا ہے ...بیشک اہل جاہلیت غیر خدا کی عبادت کرتے تھے ، ان کے لئے آخرت میں ایک مدت ہوتی تھی جہاں تک وہ پہنچتے تھے اور اسکی ایک انتہا ہوتی تھی جہاں تک وہ جاتے تھے اور ان کے عقاب روز قیامت تک ٹال دیا گیا تھا، خدا نے ان کواپنی قدرت و بزرگی اور عزت کی بنا پر مہلت دے دی تھی لہذا قدرتمند ، کمزوروں پر مستلط ہوئے اور بڑے ، چھوٹوں کو اس دوران کھا گئے ۔

۱۹۷

1132۔ جعفر بن ابی طالب نے ۔ اپنی قوم کی حبشہ کے بادشاہ نجاشی سے اسطرح تعریف کی: اے بادشاہ! ہم لوگ جاہل تھے ، بتوںکی پرستش کرتے تھے مردار کھاتے تھے، برائیوںکا ارتکاب کرتے تھے ، قطع رحم کرتے تھے۔ اور پڑوسیوںکےساتھ بدسلوکی کرتے تھے، ہم میں سے قدرتمند کمزور کو کھاجاتا تھا، ہماری یہی کیفیت تھی کہ اللہ نے ہماری طرف ہمیں میں سے رسول بھیجا کہ ہم جسکے نسب، صداقت، امانت اور پاکدامنی سے واقف ہیں، اس نے ہمیں اللہ کیطرف دعوت دی تاکہ ہم اسکی وحدانیت کے قائل ہو جائیںاور اسکی عبادت کریں، اورجن چیزوںجیسے پتھر اور بت وغیرہ کی ہم اور ہمارے آباء و اجداد پرستش کیا کرتے تھے، انہیں چھوڑ دیں اور ہمیں سچ بولنے، ادائے امانت، صلہ رحم، پڑوسی کےساتھ نیکی، محرمات اور خونریزی سے پرہیز کرنے کا حکم دیا، ہمیں برائیوں، باطل کلام ،یتیم کا مال کھانے اور پاکدامن پر بہتان لگانے سے منع فرمایا۔ہمیں حکم دیا کہ ہم صرف اللہ کی عبادت کریں اور اسکے ساتھ کسی کو شریک قرار نہ دیں، ہمیں نماز و زکات اور روزہ کا حکم دیا...پس ہم نے اسکی تصدیق کی اور اس پر ایمان لے آئے، وہ جو کچھ لیکر آئے تھے ہم نے اسکی اتباع کی، ہم نے صرف خدا کی عبادت کی اور اسکے ساتھ کسی کو شریک قرار نہ دیا اور ہم پر جو حرام کیا تھا ہم نے اسے حرام جانا اور جو حلال کیاتھا ہم نے اسے حلال جانا، لہذا ہماری قوم نے ہم پر ستم کیا، ہمیں عذاب دیا اور ہمیں ہمارے دین سے پلٹانے کےلئے شکنجے دئے، تاکہ ہم خدا کی عبادت سے بت پرستی کی طرف پلٹ آئیں اور جن بری چیزوںکو حلال جانتے تھے انہیں دوبارہ حلال سمجھیں۔

1133۔ امام علی (ع): اما بعد! اللہ نے حضرت محمد مصطفیٰ(ص) کو اس دور میں بھیجا ہے جب عرب میں نہ کوئی کتاب پڑھنا جانتا تھا اور نہ نبوت اور وحی کا ادعاء کرنے والا تھا۔

1134۔ امام علی (ع): خدا نے انہیں اس وقت بھیجا جب انبیاء کا سلسلہ موقوف تھا اوربد عملی کا دور دورہ تھا اور امتیں غفلت میں ڈوبی ہوئی تھیں۔

۱۹۸

1135۔ امام علی (ع): میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اﷲکے بندہ اور رسول ہیں۔ انہیںاس وقت بھیجا جب ہدایت کے نشانات مٹ چکے تھے، دین کے راستے بے نشان ہوچکے تھے، انہوںنے جنکا واشگاف اندازسے اظہار کیا، لوگوںکو نصیحت کی ۔

1136۔ امام علی (ع): خدا نے انہیں اس وقت مبعوث کیاجب نہ کوئی نشان ہدایت تھا نہ کوئی منارئہ دین روشن تھا اور نہ کوئی راستہ واضح تھا۔

1137۔ امام علی (ع): اسکے بعد مالک نے آنحضرؐت کو حق کےساتھ مبعوث کیا جب دنیا فنا کی منزل سے قریب تر ہوگئی اور آخرت سر پر منڈلانے لگی دنیا کا اجالا اندھیروں میں تبدیل ہونے لگا اور وہ اپنے چاہنے والوںکےلئے ایک مصیبت بن گئی، اسکا فرش کھردرا ہوگیا اور وہ فنا کے ہاتھوں میں اپنی مہاردینے کےلئے تیار ہوگئی، اسطرح کہ اسکی مدت خاتمہ کے قریب پہنچ گئی اسکی فنا کے آثار قریب آگئے ،اسکے اہل ختم ہونے لگے اسکے حلقہ ٹوٹنے لگے، اس کے اسباب منتشر ہونے لگے، اسکے نشانات مٹنے لگے ، اسکے عیب کھلنے لگے ، اور اسکے دامن سمٹنے لگے۔

1138۔ امام علی (ع): اللہ نے انہیں اس وقت بھیجا جب لوگ گمراہی میں متحیر تھے اور فتنوں میں ہاتھ پاؤں مار رہے تھے ، خواہشات نے انہیں بہکا دیا تھا اور غرور نے ان کے قدموںمیں لغزش پیدا کر دی تھی جاہلیت نے انہیں سبک سر بنا دیاتھا، اور وہ غیر یقینی حالات اور جہالت کی بلاؤں میں حیران و سرگرداں تھے ، آ پ نے نصیحت کا حق ادا کر دیا ، سید ھے راستہ پر چلے اور لوگوںکو حکمت اور موعظہ حسنہ کی طرف دعوت دی۔

۱۹۹

1139۔ امام علی (ع): اے لوگو! اللہ نے تمہاری طرف رسول بھیجا اور ان پرحق کےساتھ کتاب نازل کی، حالانکہ اس وقت تم کتاب اور جو کچھ اس نے نازل کیا ہے اور رسول اور اسکے بھیجنے والے سے بیگانہ تھے اس وقت جبکہ ابنیاء کا سلسلہ موقوف تھااور امتیں خواب غفلت میں پڑی ہوئی تھیں، جہالت کا دور دورہ تھا، فتنے چھائے ہوئے تھے، محکم عہد و پیمان توڑے جارہے تھے، لوگ حقیقت سے اندھے تھے، جور و ستم کے سبب منحرف تھے، دینداری زیر پردہ تھی، جنگ کے شعلے بھڑک رہے تھے باغات دنیا کے گلستان پژمردہ ہوگئے تھے، انکے درختوں کی شاخیں خشک ہو چکی تھیں، باغ زندگی کے پتوں پر خزاں تھی، ثمرات حیات سے مایوسی پیدا ہو چکی تھی، پانی بھی تہ نشیںہو چکا تھا، ہدایت کے پرچم بھی سرنگوںہوچکے تھے اور ہلاکت کے نشانات بھی نمایاں تھے۔

یہ دنیا اپنے اہل کو ترش روئی سے دیکھ رہی تھی اور ان کی طرف پیٹھ کئے ہوئے تھی اور منہ بگاڑ کر پیش آرہی تھی اس کا ثمرہ فتنہ تھا اور اسکی غذا مردار ، اس کا اندرونی لباس خوف تھا اور بیرونی لباس تلوار، تم لوگ ٹکڑے ٹکڑے ہو چکے تھے ، اہل دنیا کی آنکھیں اندھی ہو چکی تھیں، ان کی تمام زندگی تاریک ہو چکی تھی، اپنے عزیز و رشتہ دار سے قطع تعلق کر چکے تھے، ایک دوسرے کا خون بہاتے تھے، اپنی نو زاد بچیوں کو زندہ در گور کر دیتے تھے، خوشحال زندگی اور عیش و آرام ان کے درمیان سے رخت سفر باندھ چکا تھا نہ خدا سے ثواب کی امید رکھتے تھے اور نہ ہی اس کے قہر و غضب سے ڈرتے تھے، ان کے زندہ اندھے اور ناپاک تھے، اور مردے آگ کے اندر لڑھک رہے تھے، پھر اس کے بعد رسول خدا اولین کی کتابوں سے ایک نسخہ لیکر آئے اور جو کچھ اس کے پاس حق و حقیقت تھی اسکی تصدیق کی اور حلال و حرام کو اچھی طرح سے جداکیا۔

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258