عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں

عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں23%

عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 258

عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 258 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 138870 / ڈاؤنلوڈ: 5393
سائز سائز سائز
عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں

عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

دوسری فصل عقل کی قیمت

۲/۱

خدا کا تحفہ

۳۱۔ رسول خدا(ص): عقل خدا کا تحفہ ہے ۔

۳۲۔ امام علی(ع) : عقلیں عطایا ہیں ، آداب کسبی ہیں۔

۳۳۔ امام علی(ع) : عقل فطری چیز ہے اور علم کسبی ہے ۔

۳۴۔ امام علی(ع) : جب خدا اپنے بندہ کی بھلائی چاہتا ہے تو اسے پائدار عقل اور صحیح کردار سے نوازتا ہے ۔

۳۵۔ امام علی(ع) : جب خدا کسی انسان کو پائدار عقل اور صحیح کردار عطا کرتا ہے تو اس پر اپنی نعمتوں کو فراوان اور اپنے احسان کو زیادہ کرتا ہے ۔

۳۶۔ ابو ہاشم جعفری: میں امام رضا - کی خدمت میں حاضر تھا۔ عقل کا ذکر چھڑ گیاتو آپؑ نے فرمایا: اے ابو ہاشم! عقل خدا کا عطیہ ہے ...جو شخص زحمت سے خود کو عقلمند بنانا چاہتا ہے اس کے اندر جہالت کے سوا اور کسی چیز کا اضافہ نہیں ہوتا۔

۳۷۔ سنن ادریس ؑ میں ہے جب خدا اپنے بندوں کو دوست رکھتا ہے تو انہیں عقل سے سر فراز کرتا ہے اور اپنے انبیاء و اولیاء کو روح القدس سے مخصوص کیا ہے ۔

۲۱

۲/۲

بہترین عطیہ

۳۸۔ رسول خدا(ص): خدا نے بندوں کے درمیان کوئی چیز عقل سے افضل تقسیم نہیںکی ہے ۔لہذا عقلمند کا سونا جاہل کے جاگنے سے بہتر ہے ، عاقل کا کھڑا رہنا جاہل کے چلنے سے افضل ہے خدا نے کسی نبی یا رسول کو اس وقت بھیجا جب ان کی عقل کامل اور تمام امت(والوں) کی عقلوں سے بہتر ہو گئی، جو کچھ نبی اپنے اندر پوشیدہ رکھتا ہے وہ کوشش کرنے والوںکی کوششوں سے افضل ہے اور بندہ الٰہی فرائض کو اس وقت انجام دیتا ہے جب انہیں سمجھ لیتا ہے ۔ سارے عبادتگذار اپنی کثرت عبادت کے سبب عقلمند کے مرتبہ کو نہیں پاسکتے عقلاء ہی اولو الالباب (صاحبان عقل) ہیں۔ خدا نے ان کے بارے میں فرمایا ہے (وما یذکر الا اولو الالباب) صرف صاحبان عقل ہی وعظ و نصیحت کو قبول کرتے ہیں۔

۳۹۔ رسول خدا(ص): بابرکت ہے وہ (ذات) جس نے اپنے بندوںکے درمیان عقل کو مختلف پیرا یوںمیں تقسیم کیا ہے ۔ کبھی دو انسانوںکے کردار، نیکیوں ، روزوں اور نمازوں کے لحاظ سے برابر ہو جاتے ہیں لیکن عقل کے اعتبار سے دونوں میں اتنا ہی فرق ہوتا ہے جتناذرہ اور کوہِ احد میں ہے۔ خدا نے اپنی مخلوق کے درمیان عقل سے بہتر کوئی حصہ تقسیم نہیںکیاہے۔

۴۰۔ تاریخ یعقوبی: رسول خدا(ص) سے پوچھا گیا: بندہ کو سب سے بہتر کون سی چیز عطا کی گی ئ ہے ؟ فرمایا: عقل فطری جو پیدا ئشی ہوتی ہے ۔ پھر پوچھا گیا۔ اگر کوئی اس سے بہرہ مند نہ ہو؟ فرمایا: عقل کسب کرے۔

۴۱۔ جامع الاحادیث: امیر المومنینؑ سے پوچھا گیا کہ ا نسان کو سب سے افضل جو چیز عطا کی گئی ہے وہ کیا ہے ؟فرمایا: عقل فطری پوچھا گیا: اگر عقل فطری نہ ہو؟ فرمایا:وہ بھائی ہے کہ جس سے مشورہ کیا جائے۔

۲۲

پھر پوچھاگیا: اگر یہ بھی نہ ہو؟ فرمایا: بزم میں خاموش رہے پوچھا گیا: اگر یہ بھی نہ ہو؟ فرمایا :موت سر پہ ہے۔

۴۲۔ امام علی(ع) : بہترین عطیہ عقل ہے ۔

۴۳۔ امام علی(ع) : کامل نعمتوںکی نشانی عقل کی فراوانی ہے ۔

۴۴۔ امام علی(ع) : سب سے افضل نعمت عقل ہے ۔

۴۵۔ امام علی(ع) : انسان کا سب سے بہترین حصہ اسکی عقل ہے ۔ اگر اسکی رسوائی ہوتی ہے تو عقل اسے عزت بخشتی ہے اگر وہ پستی کی طرف جاتا ہے تو عقل اسے رفعت عطا کرتی ہے اور اگر گمراہ ہوتا ہے تو عقل اسکی ہدایت کرتی ہے اور اگر کچھہ کہتا ہے تو عقل اسکی حفاظت کرتی ہے ۔

۴۶۔ امام علی(ع) : عقل سے بہتر کوئی نعمت نہیں۔

۴۷۔ امام حسن (ع): عقل بندوںکے لئے خدا کا بہترین عطیہ ہے کیوں کہ یہ دنیوی آفات سے نجات اور آخرت میں عذاب دوزخ سے سلامتی کا باعث ہے ۔

۴۸۔ امام علی(ع) : آپ سے منسوب دیوان میں ہے : خدا کی طرف سے انسان کے لئے بہترین حصہ اسکی عقل ہے نیکیوں میں سے کوئی بھی نیکی اس کے مرتبہ کو نہیںپہنچ سکتی ۔ جب رحمن انسان کی عقل کو کامل کرتا ہے تو اسکی بصیرت و اخلاق بھی کامل ہو جاتے ہیں۔

۲۳

۲/۳

انسان کی اصل

۴۹۔ رسول خدا(ص): اے گروہ قریش! انسان کا حسب اس کا دین ہے ، اسکی جوانمردی اس کا اخلاق ہے اور اسکی عقل اسکی اصل ہے ۔

۵۰۔ امام علی(ع) : انسان کی اصل اسکی عقل ہے ، اسکی عقل اس کا دین ہے اور ہر ایک کی جوانمردی یہ ہے کہ وہ خود کو کہاں قراردیتاہے ۔

۵۱۔ امام علی(ع) : ہوشیار انسان کی اصل اسکی عقل ہے۔ اسکی جوانمردی اسکا اخلاق ہے۔ اور اسکا دین اسکا حسب ہے ۔

۵۲۔ امام صادق ؑ: انسان کی اصل اسکی عقل ہے ، اسکی شرافت دین اورعظمت تقوے سے ہے تمام انسان آدم کی اولاد کے ہونے اعتبار سے برابر ہےں۔

۵۳۔ امام علی(ع) : انسان عقل و صورت کا مجموعہ ہے ، بے عقل شخص جو صرف انسان کی صورت رکھتا ہے کامل نہیں ہے اور بے جان مخلوق کی طرح ہے جو تجربی عقل کی جستجو کرتا ہے اسے چاہئے کہ اصول اور فصول (حواشی) کو بھی جانے ، کتنے لوگ ایسے ہیں جو فصول کی تلاش میں ہیں اور اصول کو نظر انداز کرتے ہیں، جس نے اصول کو حاصل کر لیا وہ فضول چیزوں سے بے نیاز ہو گیا۔

۵۴۔ امام علی(ع) : انسان کی عقل اس کا نظام ہے ، ادب اس کا استحکام ہے صداقت اس کا پیشوا ہے اور شکر اس کا کمال ہے ۔

۵۵۔ امام صادق(ع): عقل انسان کا پشت پناہ ہے عقل سے ہوشیاری، فہم ،حفظ اور علم حاصل ہوتا ہے عقل سے انسان کمال تک پہنچتا ہے عقل ہی انسان کا راہنما، بصیرت دینے والی اور اسکے ہر کام کی کنجی ہے ۔

۲۴

۲/۴

انسان کی قیمت

۵۶۔ ابن عباس رسول خدا(ص) سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: انسانوں میں سب سے افضل سب سے زیادہ عقلمند انسان ہے ، ابن عباس نے کہا اور وہ آپکا نبی ہے ۔

۵۷۔ امام علی(ع) : ہر انسان کی قیمت اسکی عقل کے مطابق ہے ۔

۵۸۔ امام علی(ع) : ہر انسان کی قیمت کا اندازہ اس کے علم و عقل سے ہوتا ہے ۔

۵۹۔ امام علی(ع) : انسان اپنی عقل کا رہین منت ہے۔

۶۰۔ امام علی(ع) : انسان کی فضیلت کا عنوان عقل اور اس کا حسن اخلاق ہے ۔

۶۱۔ امام علی(ع) : انسان کی فضیلت عقل سے ہے ۔

۶۲۔ امام علی(ع) : انسان کی دو فضیلتیں ہیں: عقل اورزبان، عقل سے فائدہ حاصل کرتا ہے اورزبان سے فائدہ پہنچاتا ہے ۔

۶۳۔ امام علی(ع) :، فضائل کی انتہا عقل ہے ۔

۶۴۔ امام علی(ع) : اعلیٰ ترین رتبہ عقل ہے۔

۶۵۔ امام علی(ع) : بزرگی و شرافت عقل و ادب سے ہے نہ کہ مال اور حسب سے ۔

۶۶۔ امام علی(ع) : انسان کا امتیاز اسکی عقل کی بدولت ہے اور حسن و جمال اسکی دلیری ہے ۔

۲۵

۲/۵

اسلام کا پہلا پایہ

۶۷۔ امام علی(ع) ـ:اسلام کے سات ستون ہیں: پہلا ستون عقل جس پر صبر کا دار و مدار ہے، دوسرا ستون، آبرو مندی اور صداقت ہے ، تیسرا ستون،رائج طریقہ کے مطابق تلاوت قرآن، چوتھا ستون ، دوستی و دشمنی خدا کے لئے ہو ، پانچواں ستون، آل محمد کی ولایت کی معرفت اور ان کے حقوق کی رعایت، چھٹا ستون : دوستوں اور بھائیوں کی حمایت اور ان کے حقوق کی رعایت۔ ساتواں ستون: لوگوںکے ساتھ حسن سلوک۔

۲/۶

انسان کا دوست

۶۸۔ امام علی(ع) : اپنے فرزند امام حسن سے وصیت میں فرمایا: بیٹا! عقل انسان کا دوست ہے ۔

۶۹۔ امام علی(ع) : انسان اپنی معلومات کا دوست ہے ۔

۷۰۔ امام علی(ع) : عقل ایسا دوست ہے جس سے رابطہ ٹوٹ جاتا ہے اور خواہشات ایسا دشمن ہے کہ جس کی پیروی کی جاتی ہے ۔

۷۱۔امام علی(ع) : عقل قابل تعریف دوست ہے ۔

۷۲۔ امام علی(ع) : عقل بہترین ساتھی ہے ۔

۷۳۔ امام رضا(ع): ہر انسان کا دوست اسکی عقل ہے اور اس کا دشمن اسکی جہالت ہے ۔

۲۶

۲/۷

مومن کا دوست اور رہنما

۷۴۔ رسول خدا(ص): علم مومن کا دوست، عقل اس کا رہنما، عمل اس کا سر پرست، بردباری اس کا وزیر، صبر اس کے لشکر کا امیر، مہربانی اس کا باپ، اور نرمی اس کا بھائی ہے ۔

۷۵۔ امام علی(ع) : عقل مومن کا دوست ہے ۔

۷۶۔ امام علی(ع) : حسن عقل بہترین رہبرہے ۔

۷۷۔ امام صادق(ع): عقل، مومن کا رہنما ہے ۔

۲/۸

مومن کا پشت پناہ

۷۸۔ رسول خدا(ص): ہر چیزکے لئے ایک پشت پناہ ہے اور مومن کا پشت پناہ اسکی عقل ہے لہذا مومن اپنی عقل کے مطابق اپنے پروردگار کی عبادت کرتاہے ۔

۷۹۔ رسول خدا(ص): گھر کا دار و مداراسکی بنیادپر ہے ، دین کا ستون خدا وند متعال کی معرفت ، اسکی وحدانیت کایقین اور عقل قامع ہے ۔ لوگوں نے پوچھااے رسول خدا! قامع کیا ہے ؟ فرمایا: گناہوں سے پرہیز، اطاعت خدا کا شوق اور اس کے تمام احسانات و نعمات اور نیک آزمائش پر شکر کرنا ہے ۔

۲۷

۸۰۔ رسول خدا(ص): ہر چیز کے لئے اوزار اور طاقت کی ضرورت ہوتی ہے اور مومن کا اوزار طاقت وعقل ہے ہر تاجر کا ایک سرمایہ ہوتا ہے اور مجتہدین کا سرمایہ عقل ہے ہر ویرانہ کے لئے آبادی ہے اور آخرت کی آبادی عقل ہے ۔ ہر سفر میں پناہ کےلئے خیمہ نصب کیا جاتا ہے اور مسلمانوںکا خیمہ عقل ہے ۔

۸۱۔ امام علی(ع) : مومن ہشیار و عقلمند ہوتا ہے ۔

۲/۹

بہترین زینت

۸۲۔ امام علی(ع) : بہترین زینت عقل ہے اور بلدترین رتبہ علم ہے ۔

۸۳۔ امام علی(ع) : عقل سے زیادہ خوبصورت کوئی جمال نہیں۔

۸۴۔ امام علی(ع) : سب سے اچھازیور عقل ہے ۔

۸۵۔امام علی(ع) : مرد کی زینت اسکی عقل ہے ۔

۸۶۔ امام علی(ع) : عقل زینت ہے جہالت رسوائی ہے ۔

۸۷۔ امام علی(ع) : عقلمند کی زینت عقل ہے ۔

۸۸۔ امام علی(ع) : عقل ایسا نیا لباس ہے جو کہنہ نہیں ہوتا۔

۸۹۔ امام علی(ع) : انسان کا حسب اس کا علم ہے اور اس کا جمال اسکی عقل ہے ۔

۹۰۔ امام علی(ع) : حسن عقل ظاہر اور باطن کی زینت ہے ۔

۹۱۔ امام علی(ع) : وہ شخص کامیاب نہیںہو سکتا کہ جس کو اسکی عقل نہ سنوار سکے۔

۹۲۔ امام علی(ع) : دین کی زینت عقل ہے ۔

۲۸

۹۳۔ امام عسکری(ع): چہرے کا حسن ، ظاہری جمال ہے اور عقل کا حسن ، باطنی جمال ہے ۔

۹۴۔ اما م علیؑ: آپ سے منسوب دیوان میںہے۔

جوان لوگوں کے درمیان عقل کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہے اس کا علم اور تجربہ عقل کے مطابق ہوتا ہے۔

صحیح عقل جوان کو لوگوںکے درمیان زینت عطا کرتی ہے، چاہے اس کا کار و بار بے رونق ہو۔

اور کم عقلی جوان کو لوگوں کے درمیان رسوا کرتی ہے چاہے اس کا خاندان کا منصب کتنا ہی بلند کیوںنہ ہو۔

۲/۱۰

سب سے بڑی بے نیازی

۹۵۔رسول خدا(ص): جہالت سے بڑھکر کوئی فقر نہیں اور عقل سے زیادہ منفعت بخش کوئی سرمایہ نہیں ہے۔

۹۶۔ امام علی(ع) : عظیم ترین بے نیازی عقل ہے ۔

۹۷۔ امام علی(ع) : سب سے عظیم بے نیازی عقل ہے جو دنیا وآخرت میں سب سے بلند رتبہ شمار ہوتی ہے ۔

۹۸۔ امام علی(ع) : سب سے بڑی بے نیازی عقل ہے ۔

۹۹۔ امام علی(ع) : عقل سے زیادہ نفع بخش کوئی سرمایہ نہیںہے۔

۱۰۰۔ امام علی(ع) : عقل کی بے نیازی کافی ہے ۔

۱۰۱۔ امام علی(ع) : عقل جیسی کوئی بے نیازی نہیںہے۔

۱۰۲۔ امام علی(ع) : کوئی عقلمند نادارنہیں۔

۱۰۳۔ امام علی(ع) : آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے : سب سے زیادہ گرانبہا سرمایہ ایسی عقل ہے جو سعادت سے نزدیک ہو ۔

۲۹

۱۰۴۔ امام صادق(ع): کوئی بے نیازی عقل سے بہتر نہیں ، کوئی فقر بیوقوفی سے بدتر نہیںہے۔

۲/۱۱

علم محتاجِ عقل ہے

۱۰۵۔ امام علی(ع) : آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے ۔ عقل صاحب عقل کے لئے ہر گز ضرر رساں نہیں اور عقل کے بغیر علم کے صاحب علم کے لئے نقصاندہ ہے ۔

۱۰۶۔ اما م علی(ع) : ہر وہ علم جس کی حمایت عقل نہ کرے گمراہی ہے ۔

۱۰۷۔ امام علی(ع) : ہر وہ شخص جس کا علم اسکی عقل سے زیادہ ہوتاہے وہ علم اس کے لئے وبال ہوجاتاہے۔

۱۰۸۔ امام علی(ع) : بندوں پر خدا کی سب سے بڑی بخشش علم ، عقل ،بادشاہت، اور عدل ہے ۔

۱۰۹۔ امام علی(ع) : کوئی چیز اس عقل سے بہتر نہیںجو علم کے ہمراہ ہو، اس علم سے افضل نہیں جو حلم کے ساتھ ہو اور اس حلم سے برترنہیں جو قدرت کے ساتھ ہو۔

۱۱۰۔ امام علی(ع) : آپ ؑ سے منسوب دیوان میں ہے ۔

اگر تم صاحب علم ہو اور صاحب عقل نہیں ہو تو اس شخص کے مانند ہو کہ جسکے پاس جوتیاں ہوںلیکن پیر نہ ہوں

اگر عقلمند ہو اورعلم سے عاری ہوتو اس شخص کی طرح ہو کہ جس کے پیر ہوںلیکن جوتے نہ ہوں

دیکھو! ایسا انسان اپنی عقل کا نیام ہے اور تیر کے بغیر ترکش بے سود ہوتاہے ۔

۳۰

۲/۱۲

نادر اقوال

۱۱۱۔ رسول خدا(ص): اللہ نے عقل کو اپنے اس ذخیرئہ نور سے پیدا کیا ہے جو اس کے علم سابق میں مخفی تھا کہ جس کی کسی نبی مرسل اور ملک مقرب کو اطلاع نہ تھی۔ پھر علم کو عقل کا نفس، فہم کو اسکی روح، زہد کو اس کا سر، حیاء کو اسکی آنکھیں، حکمت کو اسکی زبان، مہربانی کو اس کا منہ، اور رحمت کو اس کا دل قرار دیا۔ اس کے بعد عقل کی ان دس چیزوں یقین، ایمان، صداقت، سکون، اخلاص، مہربانی ،عطیہ، قناعت، تسلیم اور شکر کے ذریعہ اس کی تقویت کی۔

۱۱۲۔ امام علی(ع) : عقلیں ذخیرہ اور اعمال خزانے ہیں۔

۱۱۳۔ امام علی(ع) : عقل قوی ترین بنیاد ہے ۔

۱۱۴۔ امام علی(ع) : عقل تقرب کا باعث اور جہالت دوری کا سبب ہے ۔

۱۱۵۔ امام علی(ع) : عقل بہترین امید ہے ۔

۱۱۶۔ امام علی(ع) : عقل اچھی فکر کا باعث ہے ۔

۱۱۷۔ امام علی(ع) : عقل گرانقدر شرف ہے جو نابود نہیں ہوتا۔

۱۱۸۔ امام علی(ع) : انسان کارشد اسکی عقل سے ہے ۔

۱۱۹۔ امام علی(ع) : خدا وند سبحان کے نزدیک آگاہ عقل اور (آلودگیوں) سے پاک نفس سے زیادہ کوئی چیز سر خرو نہ ہوگی۔

۱۲۰۔ امام علی(ع) : انسان کا حسب اسکی عقل ہے اور اسکی جوانمردی اس کا اخلاق ہے ۔

۱۲۱۔ امام علی(ع) : انسان کے کمال کی انتہاء اسکی صحیح عقل ہے ۔

۳۱

۱۲۲۔ امام علی(ع) : ہر چیز کی ایک انتہاء ہوتی ہے اور انسان کی انتہاء اسکی عقل ہے ۔

۱۲۳۔ امام علی(ع) : خدا وند سبحان پائدار عقل اور صحیح کام کو پسند کرتا ہے ۔

۱۲۴۔ امام علی(ع) : عقل دھوکا نہیں کھاتی۔

۱۲۵۔امام علی(ع) : عقل شفاء ہے ۔

۱۲۶۔ امام علی(ع) :عقل شمشیر براں ہے ۔

۱۲۷۔ امام علی(ع) : کوئی بھی عدم، عدم عقل سے بدتر نہیں۔

۱۲۸۔ امام علی(ع) : عقل کے بغیر دین کی اصلاح نہیں ہو سکتی ۔

۱۲۹۔ امام علی(ع) : عقل کا فوت ہونا بد بختی ہے ۔

۱۳۰۔ اما م علی(ع) : کوئی بھی بیماری کم عقلی سے زیادہ تکلیف دہ نہیںہے۔

۱۳۱۔ امام علی(ع) : ادب جب تک عقل کے ساتھ نہ ہو مفید نہیںہے۔

۱۳۲۔ اما م حسن (ع): آگاہ ہو جاؤ! عقل پناہگاہ ہے اور بردباری زینت ہے۔

۱۳۳۔ اما م کاظم (ع):نے ہشام بن حکم سے فرمایا اے ہشام! لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا۔ اے فرزند! دنیا ایسا گہرا سمندر ہے کہ جس میں بے شمار مخلوق غرق ہو چکی ہے۔ لہذا کوشش کرو کہ اس میں تمہاری کشتی ، تقوائے الٰہی، اس کا ساحل ایمان، بادبان(خدا پر) توکل، ناخدا عقل ،رہنما علم اورسوار صبرہو۔

۳۲

تیسری فصل تعقل

۳/۱

تعقل کی تاکید

قرآن

(اسی طرح پروردگار اپنی آیات کو بیان کرتا ہے کہ شاید تمہیں عقل آجائے۔)

(وہی وہ ہے جو حیات و موت کا دینے والا ہے اور اسی کے اختیار میں دن و رات کی آمد و رفت ہے تم عقل کو کیوںنہیں استعمال کرتے ہو۔)

(خدا اسی طرح مردوں کو زندہ کرتا ہے اور تمہیںاپنی نشانیاں دکھاتا ہے کہ شاید تمہیں عقل آجائے۔)

(بیشک ہم نے تمہاری طرف وہ کتاب نازل کی ہے جسمیں خو د تمہارا بھی ذکر ہے تو کیا تم اتنی بھی عقل نہیںرکھتے ہو۔)

ملاحظہ کریں: بقرہ : ۱۶۴، انعام : ۳۲،۱۵۱، اعراف: ۱۶۹، ھود: ۵۱، یوسف :۲،۱۰۹، رعد: ۴،نحل : ۱۲، ۶۷ حج: ۴۶، نور: ۶۱، قصص:۶۰، عنکبوت: ۳۵، روم:۲۴و ۲۸، یس ۶۲، ۶۸، ص:۲۹، غافر:۶۷و۷۰، زخرف: ۳، جاثیہ ۵و۱۳، حدید: ۱۷۔

۳۳

حدیث

۱۳۴۔ رسول خدا(ص): عقل سے راہنمائی حاصل کرو تاکہ ہدایت یافتہ ہو جاؤ، عقل کی نافرمانی نہ کرو ورنہ پشیمان ہوگے۔

۱۳۵۔ رسول خدا(ص): بہترین چیز جس سے خدا کی عبادت و بندگی ہوتی ہے وہ عقل ہے ۔

۱۳۶۔ رسول خدا(ص): دنیا و آخرت میںتمام اعمال کا پیشوا عقل ہے ۔

۱۳۷۔ ابن عمر رسول خدا سے نقل کرنے ہیں کہ آپؐ نے آیت(تبارک الذی بیده الملک) کو(ایکم احسن عملا) تک پڑھا، پھر فرمایا: تم میں سب سے بہترین عمل والا وہ شخص ہے جس کی عقل سب سے بہتر ہے اور سب سے زیادہ محرمات خدا سے پرہیز کرنے والا اور طاعت خدا میںسب سے زیادہ جلدی کرنے والا ہے ۔

۱۳۸۔ رسول خدا(ص): نے اپنی وصیت میں ابن مسعود سے فرمایا: اے ابن مسعود! جب بھی کوئی کام انجام دو تو علم و عقل کے معیار پر انجام دو اور تدبر و علم کے بغیر کام انجام نہ دو اس لئے کہ خدا وند متعال کا ارشاد ہے(اس عورت کے مانند نہ ہو جاؤ کہ جس نے اپنے دھاگوںکو مضبوط و محکم بنانے کے بعد خود ہی توڑ ڈالا ہو)

۱۳۹۔ رسول خدا(ص) :دور جاہلیت کے تمہارے بہترین افراد، اسلام میں بھی تمہارے بہترین افراد ہیں اگر غور و فکر سے کام لیں۔

۱۴۰۔ رسول خدا(ص): رسولوں کے بعد اہل جنت کا سردارسب سے زیادہ عقلمند شخص ہوگا۔ اور لوگوں میں سب سے افضل انسان وہ ہے جوان میں زیادہ عقلمند ہے ۔

۳۴

۱۴۱۔ رسول خدا(ص): اے علی ! جب لوگ نیک اعمال کے ذریعہ خدا سے تقرب حاصل کریں تو تم عقلمندی کو اپنا شعار بنا لیناکہ اس کے ذریعہ تم خدا کا تقرب اور دنیوی و اخروی درجات کو پا لوگے۔

۱۴۲۔ عطا: ابن عباس عائشہ کے پاس گئے اور کہا اے ام المومنین، ایک شخص معمولی شب زندہ داری کرتا ہے اور زیادہ سوتا ہے دوسرا شخص بیشتر شب زندہ داری کرتا ہے اور کم سوتا ہے آپکی نظر میں کون زیادہ محبوب ہے ؟! عائشہ نے کہا:(میں نے یہی سوال رسول خدا(ص) سے پوچھا) تو آپؐ نے فرمایا: جسکی عقل زیادہ بہتر ہو، میں نے کہا: یا رسول اللہ ؐمیں آپ سے ان دونوں کی عبادت کے متعلق سوال کررہی ہوں؟ تو آنحضرت نے فرمایا : اے عائشہ ان دونوں سے انکی عقل کے مطابق سوال کیا جائیگا، جو زیادہ عقل مند ہے وہی دنیا و آخرت میں افضل ہے ۔

۱۴۳۔ ابو ایوب انصاری رسول خدا(ص) سے نقل کرتے ہیںکہ آپؐ نے فرمایا: دو شخص وارد مسجد ہوئے دونوں نے نماز پڑھی جب وہ پلٹے تو ایک کی نما ز کا وزن کوہ احد کے سے زیادہ تھا جبکہ دوسرے کی نمازکا وزن ایک ذرہ کے برابر بھی نہیںتھا ، ابو حمید ساعدی نے پوچھا: اے رسول خدا(ص)!ایسا کیوںہے ؟ فرمایا:ایسا اس وقت ہوتا ہے جبکہ ان دونوں میں سے ایک محرمات الٰہی سے زیادہ پرہیز کرتا ہو اور کار خیر کی طرف جلدی کرنے میں زیادہ دلچسپی ہو اور چاہے مستحبات میں دوسرے سے پیچھے ہی کیوں نہ ہو۔

۱۴۴۔ خدا ئے تبارک و تعالیٰ: حدیث معراج میں فرماتا ہے ، اے احمد! عقل کے زائل ہونے سے پہلے اسے استعمال کرو، جو عقل سے کام لیتاہے وہ نہ خطا کرتا ہے اور نہ سرکشی ۔

۳۵

۱۴۵۔ امام علی(ع) : بیشتر تفکر اور غور خوض کثرت تکرار اور تحصیل علم سے زیادہ مفید ہے ۔

۱۴۶۔ امام علی(ع) : عقل سے راہنمائی حاصل کرو اور خواہشات کی مخالفت کرو کامیاب ہوجاؤگے۔

۱۴۷۔ امام علی(ع) : عقل بلند ہستیوں تک پہنچنے کا زینہ ہے ۔

۱۴۸۔ امام علی(ع) : انسان کا رتبہ اسکی عقل کے مطابق ہے ۔

۱۴۹۔ امام علی(ع) : انسان کا کمال اسکی عقل کی وجہ سے ہے اور اسکی قیمت اسکی فضیلت کی بنا پر ہے ۔

۱۵۰۔ امام علی(ع) : انسان کا کمال عقل سے ہے ۔

۱۵۱۔ امام علی(ع) : خوبصورتی کا تعلق زبان سے اور کمال کا تعلق عقل سے ہے ۔

۱۵۲۔ امام علی(ع) : لوگ ایک دوسرے پرعلم و عقل کے ذریعہ فضیلت رکھتے ہیں نہ کہ اموال و حسب کے ذریعہ۔

۱۵۳۔ امام علی(ع) : جہالت سے اتنی ہی بے رغبتی ہوتی ہے جتنی عقل سے رغبت ہوتی ہے ۔

۱۵۴۔ امام علی(ع) : جو شخص عقل سے نصیحت لیتا ہے اسے یہ دھوکا نہیں دیتی۔

۱۵۵۔ امام علی(ع) : جو شخص عقل سے مدد چاہتا ہے اسکی یہ مدد کرتی ہے ۔

۱۵۶۔ امام علی(ع) ــ: جو شخص عقل سے راہنمائی حاصل کرتا ہے اسکی یہ راہنمائی کرتی ہے ۔

۱۵۷۔ امام علی(ع) : جو شخص اپنی عقل سے عبرت حاصل کرتا ہے راستہ پا جاتا ہے ۔

۱۵۸۔ امام علی(ع) : جو اپنی عقل کا مالک ہو جاتا ہے وہ حکیم ہے ۔

۱۵۹۔ امام علی(ع) : عقل عیوب کا پردہ ہے۔

۳۶

۱۶۰۔ امام کاظم (ع):نے ہشام بن حکم سے فرمایا: اے ہشام! اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی کتاب میں صاحبان عقل و فہم کو بشارت دی ہے پس فرمایا: (میرے ان بندوںکو بشارت دے دیجئے جو باتوں کو سنتے ہیں اور جو بات اچھی ہوتی ہے اسکی اتباع کرتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جنہیںخدا نے ہدایت دی ہے اور یہی وہ لوگ ہےں جو صاحبان عقل ہیں)

اے ہشام! خدا وند عالم نے لوگوں پر اپنی دلیلوں کو عقل کے ذریعہ مکمل کیا ہے ، (قوتِ ) بیان کے ذریعہ انبیاء کی مدد اور برہان کے ذریعہ اپنی ربوبیت کی طرف انکی راہنمائی کی ہے۔ فرمایا: (تمہارا معبود ایک معبود ہے نہیں کوئی معبود مگر اس رحمن و رحیم کے، بیشک زمین و آسمان کی خلقت، روز و شب کی رفت و آمد، ان کشتیوں میں جو دریاؤں میں لوگوں کے فائدہ کےلئے چلتی ہیں، اور اس پانی میں جسے خدانے آسمان سے نازل کرکے اسکے ذریعہ مردہ زمینوں کو زندہ کر دیا ہے اور اس میں طرح طرح کے چوپائے پھیلا دئیے ہیں اور ہواؤں کے چلنے میں اور آسمان و زمین کے درمیان مسخر کئے جانے والے بادل میں صاحبان عقل کےلئے اللہ کی نشانیاں پائی جاتی ہیں)

اے ہشام! خدا نے بعنوان مدبراپنی معرفت کےلئے ان چیزوں کو نشانی قرار دیا ہے (اور اس نے تمہارے لئے رات و دن اور آفتاب و ماہتاب سب کو تمہارا تابع کر دیا ہے اور ستارے بھی اسی کے حکم کے تابع ہیں بیشک اس میں بھی صاحبان عقل کےلئے قدرت کی بہت سی نشانیاں پائی جاتی ہیں)اور فرمایا:(وہی خدا ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفے سے پھر علقہ سے پھر تم کو بچہ بنا کر باہر لاتا ہے پھر زندہ رکھتا ہے کہ توانائیوں کو پہنچو پھر بوڑھے ہو جائے اور تم میں سے بعض کو پہلے ہی اٹھا لیا جاتا ہے اور تم کو اس لئے زندہ رکھتا ہے کہ اپنی مقررہ مدت کو پہنچ جاؤ اور شاہد تمہیں عقل بھی آجائے)خدا فرماتا ہے (اور رات و دن کی رفت و آمد میں اور جو رزق خدا نے آسمان سے نازل کیا ہے جسکے ذریعہ مردہ زمینوں کو زندہ کر دیا ہے اور ہواؤںکو چلانے میں اور آسمان و زمین کے درمیان مسخر کئے جانے والے بادل میں صاحبان عقل کےلئے اللہ کی نشانیاں ہیں)

۳۷

خدا فرماتا ہے (خدا مردہ زمینوں کا زندہ کرنے والا ہے اور ہم نے تمام نشانیوںکو واضح کر کے بیان کر دیا ہے تاکہ تم عقل سے کام لے سکو) نیز فرماتا ہے (اور انگور کے باغات ہیں اور زراعت ہے اور کھجوریںہیں جن میں بعض دو شاخ کی ہیں اور بعض ایک شاخ کی ہیں اور سب ایک ہی پانی سے سینچے جاتے ہیں اور ہم بعض کو بعض پر کھانے میں ترجیح دیتے ہیں اور اس میں بھی صاحبان عقل کےلئے نشانیاں پائی جاتی ہیں) خدا کاارشاد ہے (اور اسکی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ وہ بجلی کو خوف اور امید کا مرکز بنا کر دکھلاتا ہے اور آسمان سے پانی برساتا ہے پھر اسکے ذریعہ مردہ زمینوںکو زندہ بناتا ہے بیشک اس میں بھی عقل رکھنے والی قوم کےلئے بہت سی نشانیاں ہیں) اور فرمایا( کہہ دیجئے کہ آؤ ہم تمہیں بتائیںکہ تمہارے پروردگار نے تمہارے لئے کیا کیا حرام کیا ہے خبردار کسی کو اسکا شریک نہ بنانا اور ماں باپ کےساتھ اچھا برتاؤ کرنا اپنی اولاد کو غربت کی بنا پر قتل نہ کرنا کہ ہم تمہیں بھی رزق دے رہے ہیں اور انہیں بھی اور بدکاریوں کے قریب نہ جانا وہ ظاہر ہوں یا پوشیدہ اور کسی ایسے نفس کو جسے خدا نے حرام کر دیا ہے قتل نہ کرنا مگر یہ کہ تمہارا کوئی حق ہو یہ وہ باتیں ہیں جنکی خدا نے نصیحت کی ہے تاکہ تمہیں عقل آجائے) پروردگار کا ارشاد ہے (کیا اس میں تمہارے مملوک غلام و کنیز میںکوئی تمہارا شریک ہے کہ تم سب برابر ہو جاؤ اور تمہیں انکا خوف اسی طرح ہو جس طرح اپنے نفوس کے بارے میں خوف ہوتا ہے ۔ بیشک ہم اپنی نشاینوںکو صاحبان عقل کےلئے اسی طرح واضح کرکے بیان کرتے ہیں)

اے ہشام! خدا نے اپنے انبیاء و رسل کو اپنے بندوںکی طرف اس لئے بھیجا ہے تاکہ وہ خدا کی معرفت حاصل کریں ۔ انبیاء کی دعوت پر اچھی طرح سے لبیک کہنے والے وہ افراد ہیں جنہوںنے خدا کو اچھی طرح سے پہچانا ہے ۔ امر خدا کے متعلق لوگوں میں سب سے زیادہ جاننے والا وہ شخص ہے جس کی عقل سب سے بہتر ہے ۔ اور جو سب سے زیادہ کامل العقل ہے دنیا و آخرت میں اس کا درجہ سب سے بلند ہے ۔

۳۸

۱۶۱۔ جابر بن عبد اللہ: رسول خدا(ص) نے اس آیت( اور یہ مثالیں ہم تمام عالم انسانیت کےلئے بیان کر رہے ہیں اور علماء کے علاوہ انہیں کوئی نہیں سمجھتاہے ) کی تلاوت کی اور فرمایا: عالم وہ ہے جو خدا کی معرفت رکھتا ہے اور اس کے حکم کی طاعت اور اس کے غضب سے دوری اختیار کرتا ہے۔

۱۶۲۔ رسول خدا(ص)ــ: اللہ تعالیٰ نے عقل کو تین حصوں (خدا کی اچھی طرح معرفت، اسکی بہترین طاعت اور اس کے حکم کے سامنے مناسب ثابت قدمی) میں تقسیم کیا ہے ، جس کے اندر یہ حصے ہوں گے اسکی عقل کامل ہے اور جس میں یہ نہیں ہوں گے وہ عاقل نہیں ہے ۔

۱۶۳۔ رسول خدا(ص): بہت سے عقلمند ایسے ہیں جنہوںنے امر خدا کو سمجھ لیا ہے لیکن لوگوں کی نظروں میں حقیر اورکریہہ المنظر شمار ہوتے ہیں جبکہ کل یہی نجات پائیں گے اور بہت سے افرادلوگوں کی نظروں میں شستہ زبان اور حسین منظر شمار ہوتے ہیں جبکہ کل قیامت میں یہی ہلاک ہوں گے۔

۱۶۴۔ رسول خدا(ص): انسان کا دین اس وقت تک ہرگز مکمل نہیںہو سکتا جب تک کہ اسکی عقل مکمل نہ ہو جائے۔

۱۶۵۔ رسول خدا(ص): ملائکہ نے عقل ہی کے ذریعہ طاعت خدا کے لئے جد و جہد کی اوربنی آدم میں سے مومنین نے بھی اپنی عقل کے مطابق طاعت خدا کے سلسلہ میں سعی و کوشش کی ۔ خدا کی سب سے زیادہ اطاعت کرنے والے وہی لوگ ہیں جو زیادہ عقل رکھتے ہیں۔

۱۶۶۔ ابن عباس:رسول خدا(ص) سے روایت کرتے ہیں : لوگوں میںسے زیادہ با فضل انسان وہ ہے جوان میں سب سے زیادہ عقلمند ہے ، ابن عباس نے کہا: اور وہ تمہارانبی ہے ۔

۱۶۷۔ امام صادق(ع): تمہیں کیا ہو گیا ہے جو ایک دوسرے سے الگ رہتے ہو! ، مومنین میں سے بعض بعض سے افضل ہیں، بعض کی نمازیں دوسروں سے زیادہ ہیںاور بعض کی نگاہیںبعض سے زیادہ گہری ہیںیہی درجات ہیں۔

نوٹ: یہ تمام آیات و روایات جو لوگوں کو تفکر، تدبر، تذکر، تفقہ اور بصیرت کی دعوت دے رہی ہیں ،ان میں معرفت اور زندگی کے صحیح راستوں کے انتخاب کی تاکید کی گئی ہے ۔

۳۹

۳/۲

ہمیشہ غور و فکر سے کام لو

قرآن

(اور یقینا ہم نے انسان و جنات کی ایک کثیر تعداد کو گویا جہنم کے لئے پیدا کیا ہے کہ ان کے پاس دل ہیں مگر سمجھتے نہیں ہیں اور آنکھیں ہیں مگر دیکھتے نہیں اور کان ہیں مگر سنتے نہیں، یہ چوپایوں جیسے ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں اور یہی لوگ اصل میںغافل ہیں)

(اور وہ ان لوگوں پر خباثت کو لازم قرار دیتا ہے جو عقل سے کام نہیں لیتے ہیں)

( جو اس دنیا میں اندھا ہے وہ قیامت میں بھی اندھا اور بھٹکا ہوا رہیگا)

(حیف ہے تمہارے اوپر اور تمہارے ان خداؤں پر جنہیں تم نے خدا ئے برحق کو چھوڑ کر اختیار کیاہے کیا تمہیں اتنی بھی عقل نہیں ہے)

(اور پھر کہیں گے کہ اگر ہم بات سن لیتے اور سمجھتے ہوتے تو آج جہنم والوں میں نہ ہوتے)

(اور وہ لوگوں جو کافر ہیںا ان کےلئے آتش جہنم ہے اور نہ انکی قضا آئیگی کہ مر جائیں اور نہ عذاب میں کمی کی جائیگی ہم ہر کافر کو سزا دیںگےں اور یہ وہاں فریاد کرینگے کہ پروردگار ہمیں نکال لے ہم اب نیک عمل کریںگے اسکے بر خلاف جو پہلے کیا کرتے تھے تو کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہیں دی تھی جسمیں عبرت حاصل کرنے والے عبرت حاصل کر سکتے تھے اور تمہارے پاس ڈرانے والا بھی آیا تھا لہذا اب عذاب کا مزہ چکھو کہ ظالمین کا کوئی مدد گار نہیں ہے )

(کیا آپ کا خیال یہ ہے کہ ان کی اکثریت کچھ سنتی اور سمجھتی ہے ہر گز نہیں یہ سب جانوروںجیسے ہیں بلکہ ان سے بھی کچھ زیادہ ہی گمراہ ہیں)

ملاحظہ فرمائیںـ:۴۴و۷۶۔آل عمران: ۶۵، یونس ۱۶، عنکبوت: ۳۵،۴۳۔ صافات ۱۳۸۔ فاطر:۳۷۔ جاثیہ: ۲۳۔ احقاف:۲۶

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

تمام مہمان چپ بیٹھے تھے کسی نے بھی اس آسمانی دعوت کو جواب نہیں دیا: صرف حضرت علی (ع) کہ جن کی عمر تقریباً چودہ سال کی تھی اٹھے اور کہا اے خدا کے رسول(ص) : میں حاضر ہوں کہ آپ(ص) کی نصرت و مدد کروں_ پیغمبر اسلام (ص) نے محبت کے انداز میں حضرت علی علیہ السلام کو دیکھا اور پھر اپنی گفتگو کو دوبارہ حاضرین کے لئے دہرایا اور آخر میں دوبارہ پوچھا کون میرے اس کام میں مدد کرنے کے لئے تیار ہے تا کہ میرا بھائی اور وزیر اور وصی او رجانشین اور خلیفہ ہو؟ اس دفعہ بھی پیغمبر اسلام (ص) کی آسمانی دعوت کا کسی نے جواب نہیں دیا تمام چپ بیٹھے رہے_

حضرت علی علیہ السلام نے اس سکوت کوتوڑتے ہوئے محکم ارادے اور جذبے بھرے انداز میں کہا یا رسول اللہ میں حاضر ہوں کہ آپ(ص) کی مدد کروں میں حاضر ہوں کہ آپ(ص) کی اعانت کروں پیغمبر اسلام (ص) نے محبت بھری نگاہ اس فداکار نوجوان پر ڈالی اور اپنی بات کا تیسری بار پھر تکرار کیا اور کہا_ اے میرے رشتہ دارو میں دنیا اور آخرت کی تمام بھلائیاں تمہارے لئے لایا ہوں مجھے محکم ہوا ہے کہ تمہیں خداپرستی اور توحید کی دعوت دوں کون ہے کہ اس کام میں میری مدد کرے تا کہ وہ میرا بھائی اور وزیر، وصی، اور جانشین و خلیفہ ہو اس دفعہ بھی تمام خاموش تھے فقط حضرت علی علیہ السلام ان کے درمیان سے اٹھے اور محکم ارادے سے کہا یا رسول اللہ(ص) میں حاضر ہوں کہ آپ(ص) کی مدد کروں میں آپ(ص) کے تمام کاموں میں مدد کروں گا اس وقت مہمانوں کی حیرت زدگی کے عالم میں پیغمبر اسلام (ص) نے حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ پکڑا

۱۲۱

اور ان کے مدد کے معاہدہ اور پیمان کو قبول فرمایا اور مہمانوں میں اعلان کیا_ کہ یہ نوجوان میرا بھائی میرا وزیر میرا وصی اور میرا خلیفہ ہے اس کی بات کو سنو اور اس پر عمل کرو بہت سے مہمان ناراض ہوئے وہ وہاں سے اٹھے اور پیغمبر اسلام(ص) کی باتوں کا مزاق اڑانے لگے اور ابوطالب (ع) سے کہنے لگے کہ آج سے علی علیہ السلام تمہارا حاکم ہوگیا ہے_ محمد(ص) نے حکم دیا ہے کہ تم اپنے بیٹے کی باتوں کو سنوں اور اس پر عمل کرو اور اس کی پیروی کرو_

سوالات

۱)___ پیغمبر اسلام(ص) لوگوں کو ابتداء میں اسلام کے لئے کیسے مدعو کرتے تھے اور کتنے عرصہ تک ایسا کرتے رہے؟

۲)___ پیغمبر اسلام(ص) لوگوں کو کس غرض اور ہدف کی طرف دعوت دیتے تھے اور ان سے کیا چاہتے تھے؟

۳)___ تین سال کے بعد اللہ تعالی کا آپ(ص) کو کیا حکم ملا؟

۴)___ پیغمبر اسلام (ص) نے حکم کی تعمیل کے لئے کیا کیا ؟

۵)___ جب مہمان گھر سے باہر نکلتے تھے تو ایک دوسرے سے کیا کہتے تھے نیز انہوں نے ابولہب سے کیا کہا؟

۶)___ دوسرے دن کی مجلس میں پیغمبر (ص) نے اپنے رشتہ داروں سے کیا فرمایا تھا اور ان سے کس چیز کا مطالبہ کیا تھا ؟

۱۲۲

۷)___ کس نے پیغمبر اسلام(ص) کی دعو کا مثبت جواب دیا اور کیا کہا؟

۸)___ پیغمبر اسلام (ص) نے حضرت علی (ع) کا تعارف کس عنوان سے کرایا؟

۹)___ مہمانوں نے حضرت رسول (ص) کی بات کا کیا مطلب سمجھا اور اسے جناب ابوطالب (ع) سے کس انداز میں کہنا شروع کیا؟

اپنے دوستوں کو بلایئےہ واقعہ کو سنایئےور اس موضوع پر ان سے گفتگو کیجئے تا کہ اس پیغام کے پہنچانے میں آپ اپنی ذمہ داری کو ادا کرسکیں؟

۱۲۳

پندرہواں سبق

صبر و استقامت

ابتدائے اسلام میں مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی اور جو تھے بھی ان کی اکثریت فقیر، کا رکن اور مزدور قسم کے لوگوں کی تھی لیکن اللہ اور اس کے پیغمبر(ص) پر صحیح اور پختہ ایمان لاچکے تھے_ اللہ پر ایمان کو قیمتی سرمایہ جانتے تھے دین اسلام کی عظمت کے قائل تھے اور اس عظیم دین اسلام کی حفاظت کے لئے کوشش کرتے تھے اور اسلام کی ترقی کے لئے جان کی قربانی تک پیش کردیتے اور استقامت دکھلاتے تھے وہ صحیح بامراد، مستقل مزاج اور فدا ہونے والے انسان تھے_

مكّہ کے طاقتور اور بت پرست نئے نئے مسلمان ہونے والوں کا مذاق اڑاتے اور گالیاں دیتے اور ناروا کلمات کہتے تھے ان کو بہت سخت کاموں پر لگاتے اور انہیں تکلیفیں پہنچاتے تا کہ دین اسلام

۱۲۴

سے دست بردار اور کافر ہوجائیں_ لوہے کی زرہ ان کے بدن پر پہناتے اور پہاڑ اور میدان کے درمیان تپتے سورج کے سامنے کھڑا کئے رکھتے زرہ گرم ہوجاتی اور ان کے جسم کو جلا ڈالتی پھر ان کو اسی حالت میں پتھروں اور گرم ریت پر گھیسٹتے اور کہتے کہ دین اسلام کو چھوڑ دو اور محمد(ص) کو ناروا اور ناسزا کلمات کہو تا کہ ہم تمہیں ایسے شکنجہ میں نہ ڈالیں لیکن وہ فداکار مسلمان تھے لہذا وہ سخت شکنجوں کو برداشت کرتے تھے اور اللہ پر ایمان اور حضرت محمد(ص) کی پیروی سے دست بردار نہ ہوتے تھے اور اللہ پر ایمان اور حضرت محمد(ص) کی پیروی سے دست بردار نہ ہوتے تھے انہوں نے اتنا صبر اور استقامت کا ثبوت دیا کہ مكّہ کے بہانہ باز بت پرست تھک گئے اور اپنی کمزوری اور پریشانی کا اظہار کیا ان بہادر مسلمانوں کا ایمان اور ان کی استقامت تھی کہ جس نے اسلام کو نابود ہونے سے محفوظ رکھا عمّار ایسے ہی بہادر مسلمانوں میں ایک تھے ظالم بت پرست انہیں اور ان کے باپ یاسر اور ان کی ماں سميّہ کو پکڑ کر شہر سے باہر لے جاتے اور گرم و جلا دینے والی ریت پر مكّہ کے اطراف میں دوپہر کے وقت مختلف اذیتیں دیتے عمّار کی ماں کہ جس پر ہمارے بہت درود و سلام ہوں پہلی عورت ہیں جو اسلام کے راستے میں شہید ہوئیں جب پیغمبر(ص) ان کی دردناک اذیتوں سے مطلع ہوتے اور ان فداکار مسلمانوں کا دفاع نہ کرسکتے تھے تو ان کی حوصلہ افزائی کرتے اور فرماتے کہ صبر و استقامت سے کام لو اپنے ایمان اور عقیدہ کو محفوظ رکھو کیونکہ سب کو آخرت ہی کی طرف لوٹنا ہے اور تمہارے لئے اللہ کا وعدہ بہشت بریں ہے یہ تمہیں معلوم ہونا چاہیئے آخر کار تم ہی کامیاب

۱۲۵

ہوگے بلال بھی ان بہادر اور فداکار مسلمانوں میں سے ایک تھے وہ دین اسلام کو اپی جان سے زیادہ عزیز سمجھتے تھے ظالم انسان انھیں دوپہر کے وقت جلتی دھوپ میں ریت پر لٹاتے اور بہت بڑا پتھر ان کے سینے پر رکھ دیتے تھے اور ان سے مطالبہ کرتے تھے کہ وہ دین اسلام سے پھر جائیں اور خدا و پیغمبر اسلام (ص) کو ناسزا کلمات کہیں اور بتوں کی عظمت بیان کریں لیکن وہ بجائے اس کے کہ اسلام کا انکار کرتے اور بتوں کی تعریف کرتے ہمیشہ یہی کہتے تھے، احد، احد، یعنی ایک خدا، ایک خدا، صمد، صمد، یعنی بے نیاز اور محتاجوں کی پناہ گاہ خدا_

اسلام کے فدائیوں نے تکلیفیں اٹھائیں اور مصیبتیں برداشت کیں اور اس طرح دین اسلام کی حفاظت کی اور اسے ہم تک پہنچایا_ اب دین اسلام کے راستے میں ہماری فداکاری اور جہاد کاوقت ہے دیکھیں کس طرح ہم اتنی بڑی ذمہ داری سے عہدہ براء ہوتے ہیں_

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ وہ مسلمانوں جو صحیح ایمان لائے تھے ان کی صفات کیسی تھیں؟

۲)___ بت پرست مسلمانوں کو کیوں تکلیفیں اور اذیتیں پہنچاتے تھے؟

۱۲۶

۳)___ صبر کا کیا مطلب ہے ان سچّے مسلمانوں کا دین کے راستے میں صبر کس طرح تھا؟

۴)___ اسلام میں پہلے شہدی کا نام کیا ہے اور وہ کس طرح شہید ہوا؟

۴)___ ہمارے پیغمبر(ص) نے ان فداکار مسلمانوں سے کیا فرمایا اور ان کی کیسے دلجوئی کی؟

۵)___ بلال کون تھے بت پرست ان سے کیا چاہتے تھے اور وہ جواب میں کیا کہتے تھے؟

۷)___ دین اسلام کو صحیح مسلمانوں نے کس طرح حفاظت کی؟

۸)___ اسلام کے قوانین کی حفاظت اور اس کے دفاع کے بارے میں ہماری کیا ذمّہ داری ہے؟

۱۲۷

سولہواں سبق

دین اسلام کا تعارف

ابتدائے اسلام میں مسلمانوں کی تعداد بہت تھوڑی تھی مكّہ کے بت پرست ان مسلمانوں سے دشمنی اور مخالفت کرتے تھے اور انھیں تکلیف پہنچاتے تھے مسلمانوں کے پاس چونکہ قدرت اور طاقت نہ تھی وہ ان بت پرستوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے انہوںیہی بہتر سمجھا کہ حبشہ کی طرف ہجرت کرجائیں تا کہ ملک میں دین اسلام پر آزادانہ عمل کرسکیں اسی نظریہ کے تحت گروہ در گروہ کشتی پر سوار ہوتے اور مخفی طور پر حبشہ کی طرف ہجرت کرجاتے_

حبشہ کا بادشاہ نجّاشی تھا (نجّاشی حبشہ کے چند ایک بادشاہوں کا لقب تھا) یہ عیسائی تھا مسلمانوں کے وہاں پہنچنے سے باخبر ہوا تو ان کو مہربانی اور خوش اخلاقی سے پناہ دی_ جب مكّہ کے بت پرستوں کو

۱۲۸

مسلمانوں کے ہجرت کرجانے کی اطلاع ملی تو بہت ناراض اور غضبناک ہوئے دو آدمیوں کو بہت قیمتی تحائف دے کر حبشہ روانہ کیا تا کہ مسلمانوں کو وہاں سے پکڑ کر مكّہ واپس لے آئیں_ وہ دو آدمی حبشہ آئے اور نجاشی کے پاس گئے اور اس کی تعظیم بجالائے اور اسے تحائف پیش کئے نجّاشی نے پوچھا کہاں سے آئے ہو اور کیا کام ہے انہوں نے کہا کہ ہم آپ کے دیدار کے لئے شہر مكّہ سے آئے ہیں ہمارے نادان جوانوں میں سے ایک تعداد ہمارے دین سے خارج ہوگئی ہے اور ہمارے بتوں کی پرستش سے ہاتھ اٹھایا ہے یہ آپ کے ملک میں بھاگ کر آگئے ہیںمكّہ کے اشراف اور سردار آپ سے تقاضہ کرتے ہیں کہ ان کو پکڑ کر ہمارے حوالے کردیں تا کہ ان کو ہم اپنے شہر لے جائیں اور انہیں سزا و تنبیہ کریں، نجّاشی نے ان دونوں سے کہا کہ مجھے تحقیق کرنی ہوگی اس کے بعد نجّاشی نے مسلمانوں کو اپنے محل میں دعوت دی اور عیسائی علماء کے سامنے ان سے سوالات کئے نجّاشی نے مسلمانوں سے پوچھا کہ تمہارا اس سے پہلے کیا دین تھا اب تمہارا کیا دین ہے کیوں ہمارے ملک میں ہجرت کی ہے جناب جعفر ابن ابی طالب (ع) نے جو ایک فداکار او رمومن جو ان تھے جواب دیا کہ ہمارے شہر میں طاقت ور کمزوروں پر ظلم کرتے ہیں وہاں کے لوگ بت پرست ہیں مردار گوشت کھاتے ہیں برے اور ناپسندیدہ کام انجام دیتے ہیں اپنوں کے ساتھ باوفا اور مہربان نہیں ہیں_ ہمسایوں کو تکلیف دیتے ہیں ان حالات میں اللہ تعالی نے ہمارے لئے ایک پیغمبر جو ہمارے در میان سچائی اور امانت میں مشہور ہے بھیجا ہے وہ ہمارے لئے

۱۲۹

اللہ تعالی کی طرف سے دین اسلام لایا ہے، دین اسلام اس وقت نجّاشی نے اپنی جگہ س حرکت اور تھوڑاسا آگے بڑھا تا کہ غور سے سنے کہ دین اسلام کیا ہے اور کیا کہتا ہے_

جناب جعفر تھوڑی دیر کے لئے چپ ہوگئے اور ایک نگاہ عیسائی علماء کی طرف کی اور کہا کہ دین اسلام ہمیں کہتا ہے کہ بت پرستی نہ کرو اور ایک خدا کی عبادت کرو اور صرف اسی کے حکم کو قبول کرو دین اسلام ہمیں کہتا ہے: سچّے بنو_ امانت دار بنو وفادار ہوجاؤ رشتہ داروں کے ساتھ مہربانی کرو_ ہمسایوں سے اچھائی کرو_ کسی کا رشتہ داروں کے ساتھ مہربانی کرو_ ہمسایوں سے اچھائی نہ کرو، کسی کو گالیاں نہ دو، لغو اور بیہودہ کلام نہ کرو، یتیم کا مال ظلم سے نہ کھاؤ نماز پڑھو، اور اپنے مال کا کچھ حصّہ اچھے کاموں میں خرچ کرو نجاشی اور عیسائی علماء خوب غور سے سن رہے تھے اور آپ کی گفتگو سے لذّت حاصل کر رہے تھے لیکن وہ دو آدمی غصّے سے اپنے ہونٹوں کو چبا رہے تھے اور غصّے کے عالم میں مسلمانوں کو دیکھ رہے تھے_

جناب جعفر نے اپنی گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے کہا_ اے حبشہ کے بادشاہ دین اسلام کو حضرت محمد(ص) اللہ کی طرف سے لائے ہیں ہم نے اسے قبول کیا ہے اور خدا و اس کے پیغمبر(ص) پر ایمان لائے ہیں اور مسلمان ہوگئے ہیں مكّہ کے بت پرست اس سے ناراض ہوئے اور جتنا ہوسکتا تھا انہوں نے ہمیں تکلیف پہنچائی اور اذیتیں دیں_ ہم مجبور ہوئے کہ اپنے شہر سے ہجرت کر کے اس ملک میں پناہ لیں تا

۱۳۰

کہ اللہ تعالی کی عبادت کرسکیں اور اپنے مذہب کے اعمال اور عبادات کو آزادنہ طور پر بجالاسکیں_

نجاشی حضرت جعفر کی گفتگو سن کر خوش ہوا اور کہا کہ تمہارے پیغمبر(ص) کے کلام اور جناب عیسی علیہ السلام کے کلام کا سرچشمہ ایک ہے دونوں اللہ کے کلام ہیں تم اس ملک میں آزاد ہو تو اپنے دین کے اعمال کو اور عبادت کو آزادانہ طور سے انجام دے سکتے ہو اور دین اسلام پر باقی رہو واقعی کتنا اچھا دین ہے_

اس کے بعد ان دو بت پرستوں کو آوازدی اور کہا کہ میں رشوت نہیں لیتا جو چیزیں تم لائے تھے انھیں اٹھا لو اور جلدی یہاں سے چلے جاؤ_

یقین جانو کہ میں مسلمانوں کو تمہارے حوالہ نہیں کروں گا جتنا جلدی ہو مكّہ لوٹ جاؤ_

وہ دو آدمی تحائف کو لیکر شرمندہ باہر نکلے اور مكّہ کی طرف چلے گئے_

سوالات

۱)___ ہجرت کے کیا معنی ہیں مسلمانوں نے کیوں ہجرت کی_

۲)___ حبشہ کے بادشاہ کیا دین تھا اور مسلمانوں کو کیوں واپس نہ کیا؟

۱۳۱

۳)___ جعفر کون تھے انہوں نے عیسائی علماء کے سامنے پیغمبر(ص) اور دین اسلام کے متعلق کیا گفتگو کی؟

۴)___ اگر آپ سے دین اسلام اور پیغمبر(ص) کے بارے میں سوال کیا جائے تو کیا جواب دیں گے؟ اسلام اور پیغمبر(ص) کا کیسے تعارف کروائیں گے؟

۵)___ نجّاشی نے جناب جعفر کی گفتگو سننے کے بعد کیا کہا_ بت پرستوں کے ساتھ کیا سلوک کیا اور کیا ان کے تحائف کو قبول کرلیا_ اور کیوں؟

۱۳۲

سترہواں سبق

مظلوم کا دفاع

ایک بوڑھا آدمی کسی بیابان میں رہتا تھا اونٹوں کی پرورش اور نگہبانی کرتا تھا اونٹوں کو شہروں میں لے جا کر بیجتا اور اس سے اپنے گھر بار اور بچّوں کی ضروریات خریدتا تھا ایک دفعہ اونٹوں کو لیکر مکہ گیا_ لوگ اس کے اردگرد جمع تھے اور اونٹوں کی قیمت کے متعلق گفتگو کر رہے تھے اچانک ابوجہل آیا اور دوسروں کی پرواہ کئے بغیر اس بوڑھے آدمی سے کہا کہ اونٹ صرف مجھے فروخت کرنا صرف مجھے سمجھ گئے دوسروں نے جب ابوجہل کی سخت لہجے میں بات سنی تو سب وہاں سے چلے گئے اور اسے اس بوڑھے اونٹ فروش کے ساتھ تنہا چھوڑ دیا ابوجہل نے کہا کہ اونٹ میرے گھر لے آؤ اس بوڑھے آدمی نے اس کے حکم کی تعمیل کی اور اونٹ اس کے گھر پہنچا دیئےور روپیہ کا تقاضہ کیا ابوجہل نے بلند آواز سے

۱۳۳

کہا کون سا روپیہ میں اس شہر کا سردار ہوں اگر چاہتے ہو پھر مكّہ آؤ اور اونٹ فروخت کرو تو پھر تمہیں چاہیے کہ اونٹوں کا روپیہ مجھ سے نہ لو سمجھ گئے بوڑھے آدمی نے کہا کہ یہی اونٹ میرا سارا سرمایہ ہے میں نے اس کی پرورش اور حفاظت میں بہت مصیبتیں اٹھائی ہیں اس سرمایہ سے چاہتا تھا کہ اپنے اور اپنے گھر والوں کے لئے روزی مہيّا کروں اس لئے تمہیں زیب نہیں دیتا کہ میں خالی ہاتھ لوٹ جاؤں اور تمام زندگی اور کام سے رہ جاؤں چونکہ ابوجہل ایک ظالم اورخودپسند آدمی تھا بجائے اس کے کہ اس کا حق ادا کرتا غضبناک ہو کر کہا کہ تم نے وہ نہیں سنا جو میں نے کہا ہے بہت جلدی یہاں سے دفع ہوجاؤ ورنہ کوڑوں سے تیرا جواب دوں گا سمجھ گئے اس بوڑھے آدمی نے دیکھا کہ اگر تھوڑی دیر اور بیٹھتا ہوں تو ممکن ہے کہ مار بھی کھاؤں مجبور ہوکر وہ اس ظالم بے رحم کے گھر سے اٹھ کر چلا گیا راستے میں اپنے واقعہ کو چند گزرنے والوں سے بیان کیا اور ان سے مدد مانگی لیکن کوئی بھی اس کی مدد کرنے کو تیار نہ ہوا بلکہ وہ جواب دیتے کہ ابوجہل ہمارا شہری ہے وہ قریش میں سے طاقت ور آدمی ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے اسے کوئی بھی روک نہیں سکتا وہ بوڑھا آدمی گلی کوچہ میں سرگردان جارہا تھا کہ مسجد الحرام تک پہنچ گیا وہاں قریش کی عمومی مجلس میں ابوجہل کی شکایت کی دو آدمیوں نے از راہ مذاق اس بوڑھے آدمی سے کہا اس آدمی کو دیکھو_ یہ محمد(ص) ہے اس نے کہنا شروع کیا ہے کہ میں خدا کا آخری پیغمبر ہوں وہ ابوجہل کا دوست ہے وہ تیرا حق ابوجہل سے لے سکتا ہے جاؤ اس کے پاس وہ جھوٹ

۱۳۴

بول رہے تھے ہمارے پیغمبر(ص) ابوجہل کے دوست نہ تھے بلکہ اس کے اور اس کے کاموں کے دشمن تھے خدا نے حضرت محمد(ص) کو پیغمبری کے لئے چنا تھا تا کہ وہ ظالموں کے دشمن رہیں اور ان کے ساتھ مقابلہ کریں اور بہادر نیک لوگوں کی مدد سے ظالموں اور خودپسندوں کو ختم کریں خدا نے حضرت محمد(ص) کو لوگوں کی رہبری کے لئے بھیجا تھا تا کہ اجتماع میں عدل اور انصاف کو برقرار رکھیں اور لوگ آزادانہ خدا کی پرستش کریں وہ جھوٹ بول رہے تھے لیکن بوڑھا مظلوم انسان ان کی باتوں کو صحیح خیال کر رہا تھا وہ سمجھتا تھا کہ واقعی حضرت محمد(ص) ابوجہل کے دوست ہیں لہذا وہ بوڑھا آدمی حضرت محمد(ص) کے پاس آیا تا کہ آپ(ص) سے مدد کرنے کی درخواست کرے جو لوگ قریش کی عمومی مجلس میں بیٹھے ہوے تھے ہنس رہے تھے اور مذاق کر رہے تھے اور کہتے تھے کون ہے جو ابوجہل سے بات کرسکتا ہے وہ قریش کا طاقتور انسان ہے کسی میں جرات نہیںکہ اس کی مخالفت کرے ابوجہل محمد(ص) کو بھی مارے گا اور وہ شرمندہ واپس لوٹیں گے وہ بوڑھا آدمی حضرت محمد(ص) کے پاس پہنچا اور اپنی سرگزست بیان کی اور آپ سے مدد چاہی حضرت محمد(ص) نے اس کی شکایت کو غور سے سنا اور فرمایا کہ میرے ساتھ آو وہ بوڑھا آدمی پیغمبر اسلام(ص) کے ساتھ ابوجہل کے گھر پہنچا کچھ آڈمی تھوڑے فاصلے پر ان کے پیچھے ہولئے تا کہ دیکھیں کہ اس کا نتیجہ کیا ہوتا ہے ابوجہل کے گھر پہنچے اونٹوں کی آواز اوبجہل کے گھر سے سنائی دے رہی تھی پیغمبر اسلام (ص) نے دروازہ کھٹکھٹایا ابوجہل نے سخت لہجے میں کہا کہ

۱۳۵

کون ہے دروازہ کھولو محمد(ص) ہوں: بوڑھے آدمی نے جب ابوجہل کی سخت آواز سنی تو چند قدم پیچھے ہٹ کر علیحدہ کھڑا ہوگیا ابوجہل نے دروازہ کھولا_ حضرت محمد صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک جائزہ لیا اور پھر تیز نگاہ سے اسے دیکھا اور سخت غصّے کی حالت میں فرمایا اے ابوجہل کیوں کیوں کھڑے ہو جلدی کرو اس کے پیسے دو ابوجہل گھر گیا جو لوگ دور کھڑے تھے انہوں نے گمان کیا کہ ابوجہل اندر گیا ہے تا کہ چابک یا تلوار اٹھالائے گا لیکن ان کی امید کے برعکس وہ پریشان حالت میں گھر سے باہر آیا اور لرزتے ہاتھ سے اشرفیوں کی ایک تھیلی بوڑھے آدمی کو دے دی بوڑھے آدمی نے وہ تھیلی لے لی_ پیغمبر اسلام(ص) نے اس سے فرمایا کہ تھیلی کو کھولو اور روپیہ گن کر دیکھو کہیں کم نہ ہوں اس بوڑھے آدمی نے روپیہ گنا اور کہا کہ پورے ہیں اس نے پیغمبر اسلام(ص) کا شکریہ ادا کیا جو لوگ دور سے اس واقعہ کا مشاہدہ کر رہے تھے انہوں نے تعجب کیا اس کے بعد جب ابوجہل کو دیکھا تو اسے ملامت کی اور کہا کہ محمد(ص) سے ڈرگیا تھا کتنا ڈرپوک ہے تو ابوجہل نے جواب میں کہا وہ جب میرے گھر آئے اور غصّے سے مجھے دیکھ کر روپیہ دینے کے لئے کہا تو اس قدر خوف اور اضطراب مجھ پر طاری ہوا کہ میں مجبور ہوگیا کہ ان کے حکم پر عمل کروں اور اونٹوں کی قیمت ادا کروں اگر تم میری جگہ ہوتے تو اس کے سوا کوئی چارہ تمہارے لئے بھی نہ ہوتا_

اس دن کے بعد جب بھی ابوجہل اور اشراف مكّہ اکٹھے مل کر

۱۳۶

بیٹھتے اور حضرت محمد(ص) اور آپ کے اصحاب کے متعلق گفتگو کرتے تو کہتے کہ محمد(ص) کے پیروکاروں کو اتنی تکلیفیں دیں گے وہ محمد(ص) کو تنہا چھوڑدیںگے اور دین اسلام سے دست پردار ہوجائیں گے محمد(ص) کو اتنا تنگ کریں گے کہ پھر وہ ہم سے مقابلہ نہ کرسکیں گے اور کمزوروں کا حق ہم سے وصول نہ کرسکیں گے آپ کی سمجھے ہیں کیا تکلیف دینے اور اذیتیں پہنچانے سے سچے مسلمانوں نے دین اسلام کو چھوڑ دیا تھا؟

کیا آپ سمجھتے ہیں کہ پیغمبر اسلام(ص) نے ان سے مقابلہ کرنا چھوڑ دیا تھا کہ آپ سمجھتے ہیں کہ پھر پیغمبر اسلام(ص) نے مظلوموں کی مدد نہیں کی ...؟

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ کیاہمارے پیغمبر(ص) ابوجہل کے دوست تھے خدا نے آپ(ص) کو کس غرض کے لئے پیغمبری کے لئے چنا تھا؟

۲)___ لوگوں نے اس بوڑھے آدمی کی مدد کیوں نہ کی؟

۳)___ جب وہ آدمی لوگوں سے مدد مانگتا تھا تو اس کو کیا جواب ملتا تھا اور کیا ان کا جواب درست تھا اور اگر درست نہیں تھا تو کیوں؟

۴)___ اگر کوئی تم سے مدد طلب کرے تو اسے کیا جواب دوگے؟

۵)___ تم نے آج تک کسی مظلوم کی مدد کی ہے اور کسی طرح بیان کیجئے؟

۱۳۷

۶)___ ہمارے پیغمبر(ص) ابوجہل سے کیسے پیش آئے اور اس سے کیا فرمایا؟

۷)___ پیغمبر اسلام(ص) کے اس کردار سے آپ کیا درس لیتے ہیں اور کس طرح پیغمبر(ص) کے اس کردار کی آپ پیروری کریں گے؟

۸)___ بت پرستوں نے کیوں مسلمانوں کو اذیتیں پہنچانے کا ارادہ کیا تھا؟

۱۳۸

اٹھارہواں سبق

خدا کا آخری پیغمبر حضرت محمد(ص)

اللہ تعالی نے جب سے محمد مصطفی (ص) کو پیغمبری کے لئے چنا ہے انہیں اپنا آخری پیغمبر قرار دیا ہے ہمارے پیغمبر گرامی قدر نے اس ابتدائی دعوت کے وقت سے اللہ تعالی کے حکم سے خود کو آخری نبی ہونے کا اعلان کردیا تھا یعنی اعلان کیا تھا کہ میں اللہ کا آخری پیغمبر ہوں میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں آئے گا تمام وہ لوگ جو ابتداء اسلام میں آنحضرت(ص) پر ایمان لائے تھے اور مسلمان ہوئے تھے جانتے تھے کہ آپ خدا کے آخری پیغمبر ہیں قرآن کریم نے بھی جو اللہ کا کلام اور پیغمبر اسلام(ص) کا دائمی معجزہ ہے_

حضرت محمد مصطفی (ص) کو آخری پیغمبر بتلایا ہے قرآن فرماتا ہے کہ محمد(ص) رسول خدا اور خاتم النبین ہیں لہذا جو مسلمان ہیں اور قرآن کو اللہ کی کتاب مانتے ہیں حضرت محمد(ص) کو اللہ کا آخری پیغمبر تسلیم کرتے ہیں_

۱۳۹

ہمارا یہ ایمان ہے کہ اسلام کا آئین اتنا دقیق اور کامل ہے کہ حق طلب انسانوں کو ہمیشہ اور ہر وقت سعادت اور کمال تک پہنچاتا ہے وہ خدا جو تمام انسانوں کی ضروریات کو تمام زبانوں میں جانتا تھا قرآن کے تربیتی پروگرام کو اس طرح دقیق اور کامل و منظّم کیا ہے کہ انسان کے کمال کی ضروریات مہيّا کردی ہیں اسی لئے جتنا بھی انسان ترقی کرجائے اور اس کے علم و کمال میں زیادتی ہوجائے پھر بھی قرآن کا جو اللہ کا کلام اور اس کی طرف سے ہدایت ہے اسی طرح محتاج ہے جس طرح اللہ کی دوسری مخلوقات جیسے پانی، سورج، ہوا، و غیرہ ہمیشہ او رہر حالت میں محتاج ہیں_

انسان کی اسلامی تربیت کا آئین قرآن میں ہے اور قرآن آسمانی کتابوں کی آخری کتاب ہے اور دین اسلام کی ہمیشہ رہنے والی کتاب ہے کہ جس کی خداوند عالم نے فداکار مسلمانوں کی مدد سے محافظت کی ہے اور ہم تک پہنچایا ہے یہ عظیم کتاب انسان کی تربیت کا کامل ترین آئین ہے اسی لئے اللہ تعالی نے دین اسلام کو آخری آسمانی دین اور ہمارے پیغمبر(ص) کو آخری پیغام لے آنے والا بتلایا ہے_

ان مطالب کو دیکھتے ہوئے مندرجہ ذیل جملے مکمل کیجئے

۱)___ اللہ تعالی نے جب سے حضرت محمد(ص) کو پیغمبری کے لئے چنا ہے انھیں___ دیا ہے

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258