عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں

عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں15%

عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 258

عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 258 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 138948 / ڈاؤنلوڈ: 5394
سائز سائز سائز
عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں

عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

اورمہروانگوٹھی بھی تمہیں لوٹا دوںگا حکومت میرے لئے خلائق کو نجات دینے کے علاوہ کچھ نہیں تھی ۔

تم ان کے ساتھ عدالت کے ساتھ پیش بادشاہ ان باتوں کو سننے کے بعد ایسا مسحور ہوا اور خود کو یوسف (ع)کی معنوی عظمتوں کے مقابلے میں اس طرح حقیر سمجھنے لگا کہ یک بارگی بول اٹھا(اشهدان لا اله الا اللّٰه و انک رسوله) میں بھی ایمان لے آیا لیکن تم کو حاکم رہنا پڑے گا۔(فإنّکَ لدینا مکین امین)

افراد کی تشخیص اور ان کے انتخاب میں قرآنی معیار کی طرف توجہ کرنی چاہیئے''حفیظ و علیم'' کے علاوہ قرآن مجید میں دوسرے معیار بھی ذکر کئے گئے ہیں ان میں سے بعض حسب ذیل ہیں:

ایمان: افمن کان مومنا کمن کان فاسقا لایستوون ۔(1)

کیا جو مومن ہو وہ فاسق کی طرح ہوسکتا ہے ؟ یہ دونوں برابر نہیں ہوسکتے۔

سبقت:والسابقون السابقون اولئک المقربون (2)

اور سبقت لے جانے والے تو آگے بڑھنے والے ہی ہیں یہی مقرب لوگ ہیں۔

ہجرت:والذین آمنوا و لم یهاجروا ما لکم من ولایتهم من شی (3)

--------------

( 1 ) سورہ سجدہ آیت 18

( 2 )سورہ واقعہ آیت 10 ۔ 11

( 3 )سورہ انفال آیت 72

۱۲۱

اور جو لوگ ایمان تو لائے مگر انہوں نے ہجرت نہیں کی انکی ولایت سے تمہارا کوئی تعلق نہیں ہے۔

علمی و جسمی قوت:وزاده بسط فی العلم والجسم (1)

اور اسے (طالوت کو) اللہ نے علم اور جسمانی طاقت کی فراوانی سے نوازاہے۔

خاندانی فضیلت:ماکان ابوک امرأَ سوءٍ (2) تیرا باپ برا آدمی نہ تھا۔

جہادومبارزت:فضل اللّٰه المجاهدین علی القاعدین اجراً عظیما (3)

اللہ تعالی نے بیٹھنے والوں کی نسبت جہاد کرنے والوں کو اجر عظیم کی فضیلت بخشی ہے۔

پیام:

1۔جب ضرروت پڑے تو حساس عہدوں کی فرمائش کرنی چاہیئے(اجْعَلْنِی )

2۔نبوت؛ حکومت اور سیاست سے جدا نہیں ہے جس طرح دیانت سیاست سے جدا نہیں ہے(اجْعَلْنِی عَلَی خَزَائِنِ الْأَرْضِ)

--------------

( 1 )سورہ بقرہ آیت 247

( 2 )سورہ مریم آیت 28

( 3 )سورہ نساء آیت 95

۱۲۲

3۔اسلامی حاکم کےلئے کسی خاص مملکت کا باشندہ ہونا ضروری نہیں ہے حضرت یوسف (ع) مصری نہیں تھے لیکن حکومت مصر میں عہدہ دار ہوئے(بعبارت دیگر قوم پرستی ( Nationalism )ممنوع ہے)

4۔بوقت ضرورت اپنی لیاقت و شائستگی کا بیان توکل ، زہد ، اور اخلاص سے منافات نہیں رکھتا۔(إِنِّی حَفِیظٌ عَلِیمٌ )

5۔دو صفات جو بادشاہ نے حضرت یوسف (ع) کے لئے بیان کئے ''مکین ، امین'' اور دو صفات جو حضرت یوسف (ع) نے خود اپنے لئے بیان فرمائے''حفیظ ، علیم'' ہیں ،ان بیانات سے بہترین اور شائستہ عہدےداروں کے اوصاف سمجھ میں آتے ہیں کہ ان کے اوصاف قدرت ، امانت ، حفاظت اور اپنے متعلقہ کام میں مہارت عہدےداروں کے لئے ضروری ہے ۔

6۔منصوبہ بندی اور مصارف و اخراجات کی نگرانی کرتے وقت آئندہ آنی والی نسلوں کا حصہ بھی ملحوظ خاطر ہونا چاہیئے(حَفِیظٌ عَلِیمٌ )

آیت 56:

(56) وَکَذَلِکَ مَکَّنَّا لِیُوسُفَ فِی الْأَرْضِ یَتَبَوَّأُ مِنْهَا حَیْثُ یَشَاءُ نُصِیبُ بِرَحْمَتِنَا مَنْ نَشَاءُ وَلاَنُضِیعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ ۔

''اور ہم نے یوسف کو اس ملک میں اقتدار دیا کہ اس میں جہاں چاہیں اپنا مسکن بنالیں ہم جس پر چاہتے ہیں اپنا فضل کرتے ہیں اور ہم نیکوکاروں کے اجر کو اکارت نہیں کرتے''۔

۱۲۳

آیت 57:

(57) وَلَأَجْرُ الْآخِرَ خَیْرٌ لِلَّذِینَ آمَنُوا وَکَانُوا یَتَّقُونَ

''اور جو لوگ ایمان لائے اور پرہیزگاری کرتے رہے ان کےلئے آخرت کا اجر اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے''۔

نکات:

ان دو آیتوں میں حضرت یوسف (ع) کی توصیف محسن ، مومن اور متقی کہہ کر کی گئی ہے(1) اس پورے سورہ میں خداوندعالم کے ارادے کا مخلوق کے ارادہ سے تقابل کیا جاسکتا ہے (یعنی اس سورہ میں مختلف لوگوں کے مختلف ارادے تھے لیکن خدا کا ارادہ سب پر مسلط ہو کر رہا )

برادران یوسف (ع) نے ارادہ کیا تھا کہ حضرت یوسف (ع) کو کنویںمیں ڈال کر انکو غلام بنا کر ذلیل و رسوا کریں لیکن عزیز مصر نے سفارش کرتے ہوئے کہا تھا''اکرمی مثواه' 'یعنی انکی عزت کرو۔

-------------

( 1 )خداوندعالم نے آیہ شریفہ میں یوسف علیہ السلام کو محسنین کے مصادیق میں سے ایک مصداق قرار دیا ہے قرآن مجید میں محسنین کے لئے دس سے زیادہ الطاف خاصہ خداوندی مذکور ہیں۔

۱۲۴

عزیز مصر کی بیوی نے ارادہ کیا تھا کہ آپ (ع)کے دامن کردار کو آلودہ کردے لیکن خداوندعالم نے اس سے بچا لیا۔زلیخا نے چاہا تھا کہ حضرت یوسف (ع) کو زندان میں بھیج کر ان کی مقاومت کو درہم برہم کردے اور ان کی تحقیر کرے ''لیسجنن ولیکونا من الصاغرین'' لیکن ان سب کے مقابلے میں خداوندعالم نے ارادہ کیا تھا کہ ان کو صاحب عزت قرار دے اور ان کو مصر کا حاکم قراردے۔(مَکَّنَّا لِیُوسُفَ...)

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا یوسف (ع) اس آزاد مرد انسان کا نام ہے جس پر بھائیوں کی حسادت ، کنویں میں ڈالا جانا ، شہوت ، تہمت ، ریاست و قدرت کوئی چیز بھی ان کی مقاومت پر اثرانداز نہ ہوسکی(1) ۔

قرآن مجید میں لفظ'' خیر '' مختلف امور کے سلسلے میں استعمال کیا گیا ہے ۔

مومن کے لئے آخرت بہتر ہے(والاخر خیر و ابقی) (2)

روزہ داروں کے لئے روزہ بہتر ہے(ان تصومواخیرلکم) (3)

حاجی کے لئے قربانی بہتر ہے(لکم فیها خیر) (4)

انسانوں کے لئے تقوی بہتر ہے(ولباس التقوی ذلک خیر) (5)

--------------

( 1 )تفسیر نور الثقلین.

( 2 )سورہ اعلیٰ آیت 17

( 3 )سورہ بقرہ آیت 184

( 4 )سورہ حج آیت 36

( 5 )سورہ اعراف آیت 26

۱۲۵

سپاہی کے لئے جہاد بہتر ہے(عسی ان تکرهوا شیائً و هو خیرلکم) (1)

جزائے اخروی جزائے دنیوی سے بہتر ہے کیونکہ آخرت کی جزا :

(الف) نامحدود ہے(لهم ما یشاون) (2)

(ب) ختم ہونے والی نہیں ہے(خالدین) (3)

(ج)کسی خاص مکان میںمحدود نہ ہوگی(نتبوا من الجنه حیث نشائ) (4)

(د)ہمارے لئے اس کا حساب کرنا ممکن نہیں(اجرَهم بغیر حساب) (5)

(ھ)وہاںامراض ، آفات اور پریشانیوں کا گزر نہیں(لایصدعون) (6)

(و)اضطراب و بے چینی کا گزر نہیں(لاخوف علیهم ولا هم یحزنون) (7)

(ز)جزا پانے والے اولیا، خداوندعالم کے پڑوسی ہیں(وهم جیرانی)

--------------

( 1 )سورہ بقرہ آیت 216

( 2 )سورہ زمر آیت 34

( 3 )سورہ فرقان آیت 16

( 4 )سورہ زمر آیت 74

( 5 )سورہ زمر آیت 10

( 6 )سورہ واقعہ آیت 19

( 7 )سورہ بقرہ آیت 112

۱۲۶

پیام:

1۔خدا کی سنت ہے کہ پاکدامن اور باتقوی افراد کو عزت بخشے گا۔(کذلک...)

2۔اگرچہ بظاہر بادشاہ مصر نے حضرت یوسف (ع) سے کہا تھا کہ(انک الیوم لدینا مکین) لیکن در حقیقت خدا وندعالم نے حضرت یوسف (ع) کو قدرت دی تھی(مکن)

3۔حضرت یوسف (ع) کے اختیارات کا دائرہ وسیع تھا(حیث یشائ)

4۔مملکت کے بحرانی حالات میں حکومتیں اس بات کا اختیار رکھتی ہیں کہ لوگوں کے اپنے اموال و املاک میں تصرف کی آزادی کو محدود کرتے ہوئے اسے اپنے اختیار میںلے کر عمومی مصالح میں خرچ کریں(یَتَبَوَّأُ مِنْهَا حَیْثُ یَشَائ)

5۔قدرت اگر اہل افراد کے ہاتھوں میں ہوتو رحمت ہے وگرنہ نقصان دہ ہے(نُصِیبُ بِرَحْمَتِنَ)

6۔اگر انسان تقوی الٰہی اختیار کرے تو خدا اپنی رحمتیں اس پر نازل کرتا ہے(نُصِیبُ بِرَحْمَتِنَا...لِلَّذِینَ...کَانُوا یَتَّقُونَ)

7۔الٰہی نظریہئ کائنات میں کوئی کام بھی بغیر اجر کے نہیں رہتا ہے(لاَنُضِیعُ )

8۔لوگوں کے حقوق کا ضائع کرنایا تو جہالت کی بنیاد پر ہوتا ہے یا بخل کی وجہ سے یا پھر نادانی کی وجہ سے یا...جن میں سے کوئی بھی خدا میں موجود نہیں ہے۔(لاَنُضِیعُ)

9۔مشیت الٰہی ،بانظم اور قانون وضابطہ سے ہے(نُصِیبُ بِرَحْمَتِنَا... وَلاَ نُضِیعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ )

10۔حالانکہ تمام چیزیں مشیت الٰہی کے تحت ہوتی ہےں لیکن چونکہ خداوندعالم حکیم ہے لہٰذا کسی کوبھی بغیر لیاقت کے قدرت و صلاحیت نہیں دیتا(أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ)

۱۲۷

11۔نیک سیرت اور اچھے اعمال بجالانے والے اشخاص جہاں دنیاوی زندگی میں نعمتوں سے بہرہ مند ہوتے ہیں وہاں آخرت میں اس سے کہیں بہتر اجر و ثواب ان کے شامل حال ہوتا ہے۔( وَلاَ نُضِیعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ وَلَأَجْرُ الْآخِرَ خَیْرٌ )

12۔راہ خدا پر گامزن مردانِ خدا کے لئے مادی وسائل اور ظاہری حکومت لذت آور نہیں ہے بلکہ ان کے لئے جو چیز مطلوب و محبوب ہے وہ آخرت ہے(وَلَأَجْرُ الْآخِرَ خَیْرٌ )

13۔ایمان کے ساتھ ساتھ باتقوی ہونا بھی ضروری ہے وگرنہ گنہگار مومن کی عاقبت مبہم اور غیر یقینی ہے( آمَنُوا وَکَانُوا یَتَّقُونَ)

14۔وہ تقوی قابل قدر ہے جس میں پائیداری و ہمیشگی پائی جائے،(کَانُوا یَتَّقُونَ)

15۔ایمان و تقوی کا لازم ملزوم ہونا آخرت کے اجر و ثواب سے بہرہ مند

ہونے کی شرط ہے(وَلَأَجْرُ الْآخِرَ خَیْرٌ لِلَّذِینَ آمَنُوا وَکَانُوا یَتَّقُونَ )

16۔اگر نیک سیرت افراد کو اس دنیا میں اجر و مقام و منزلت نہ مل سکے تو اسے مایوس اور مضمحل نہیں ہونا چاہیئے کیونکہ آخرت میںاس کی جزا مل جائے گی۔(لاَنُضِیع... وَلَأَجْرُ الْآخِرَ خَیْرٌ)

۱۲۸

آیت 58:

(58) وَجَاءَ إِخْوَ یُوسُفَ فَدَخَلُوا عَلَیْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنکِرُونَ

''اور (چونکہ کنعان میں بھی قحط تھا، اس وجہ سے) یوسف (ع) کے (سوتیلے)بھائی (غلہ خریدنے کےلئے مصر میں)آئے اور یوسف کے پاس گئے تو یوسف نے ان کو فوراً پہچان لیا اور وہ یوسف کو پہچان نہیں رہے تھے''۔

نکات:

حضرت یوسف (ع) کی پیشین گوئی کے عین مطابق لوگوں کو سات سال تک بے حساب نعمت اور بارش میسر رہی ۔لیکن جب دوسرے سات سال آئے اور لوگ قحط وخشک سالی سے دوچار ہوئے تو اس خشک سالی کا دائرہ مصر سے فلسطین و کنعان تک آگے بڑھ گیا۔

حضرت یعقوب (ع) نے اپنے فرزندوں سے کہا کہ گیہوں مہیا کرنے کے لئے مصر ج ۔ وہ لوگ مصر میں وارد ہوئے اور اپنی درخواست پیش کی ۔ حضرت یوسف (ع) نے ان تقاضا مندوں کے درمیان اپنے بھائیوں کو دیکھ لیا لیکن وہ لوگ حضرت یوسف (ع) کو پہچان نہ سکے اور حق بھی یہی تھا کہ نہ پہچانیں کیونکہ حضرت یوسف (ع) کو کنویں میں ڈالنے سے لے کر مصر کی حکومت تک پہنچنے میں تقریباً 20 بیس سے تیس 30 سال کا عرصہ گزر چکا تھا ۔(1)

--------------

( 1 )یوسف (ع)کو جب کنویں سے نکالا گیاتو آپ (ع)نوجوان تھے (یابشری ھذا غلام)چند سال عزیز مصر کے خدمت گزار رہے،چندسال قید خانہ میں زندگی بسر کی، زندان سے آزادی کے بعد بھی سات سال کا دور(نعمات کی فراوانی اورکثیر پانی کا زمانہ )گزرچکا تھا۔ اب جب قحط کا زمانہ آیا تو اس وقت برادران یوسف مصر آئے۔

۱۲۹

پیام:

1۔خشک سالی کے زمانہ میں معین اور محدود مقدارمیں غذا تقسیم کرنی چاہیئے اور ہر شخص کوا پنا حصہ لینے کے لئے خود آنا چاہیئے تا کہ دوسرے اس کے نام سے سوء استفادہ نہ کرسکیں(اخو )حالانکہ ممکن تھا کہ ایک بھائی کو سب کا نمائندہ بنا کر مصر روانہ کردیا جاتا لیکن سب بھائی اکٹھے مصر آئے ۔

2۔خشک سالی کے زمانہ میں اگر دوسرے شہروں کے افراد امداد طلب کریں تو ان کی مدد کرنی چاہیئے( وَجَاءَ إِخْوَ یُوسُفَ)

3۔حضرت یوسف (ع) سے لوگ بہت آسانی سے ملاقات کرلیا کرتے تھے یہاں تک کہ غیر مصری افراد بھی(وَجَاءَ إِخْوَ یُوسُفَ ...فَدَخَلُو) (حکمرانوں کو ایسا پروگرام بنانا چاہیئے کہ لوگ بآسانی ان سے ملاقات کرسکیں)

آیت 59:

(59) وَلَمَّا جَهَّزَهُمْ بِجَهَازِهِمْ قَالَ ائْتُونِی بِأَخٍ لَکُمْ مِنْ أَبِیکُمْ ألاَ تَرَوْنَ أَنِّی أُوفِی الْکَیْلَ وَأَنَا خَیْرُ الْمُنزِلِینَ

''اور جب یوسف ان کے لئے سامان تیار کرچکے تو کہنے لگے :(دوبارہ تو)باپ کی طرف سے اپنے ایک سوتیلے بھائی کو میرے پاس لانا ۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ میں پورا ناپتا ہوں اور بہترین مہمان نواز ہوں؟''

۱۳۰

نکات:

حضرت یوسف (ع) نے فرمایا(ائْتُونِی بِأَخٍ لَکُمْ ) یعنی آئندہ اپنے اس بھائی کو اپنے ہمراہ لانا جو تمہارا پدری بھائی ہے آپ (ع)نے یہ نہیں فرمایا : میرے بھائی کو لیتے آنا ،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف (ع) نے دانستہ تجاہل سے گفتگو کا سلسلہ جاری کیا تھا ۔

ان لوگوں نے بھی (جیسا کہ تفاسیر میں آیا ہے) بتانا شروع کردیا کہ ہم حضرت یعقوب (ع) کے فرزند اور جناب ابراہیم کے پوتے ہیں، ہمارے والدگرامی ضعیف ہوچکے ہیں جو اپنے اس فرزند کے غم و اندوہ میں جسے بھیڑئے نے پھاڑ ڈالا تھا،وہ سالہاسال سے گریہ کررہے ہیں ۔ انہوں نے گوشہ نشینی اختیار کرلی ہے اور نابینا ہوچکے ہیں ہم لوگوں نے اپنے ایک بھائی کو انہی کی خدمت کے لئے چھوڑ دیا ہے ممکن ہو تو اس بھائی اور والد کا حصہ ہمیں عنایت فرمادیں تاکہ ہم خوشحال ہوکر واپس لوٹیں (یہ سن کر)حضرت یوسف (ع)نے حکم دیا کہ :دس اونٹوں پر لادے جانے والے بار میں دو حصوں( حضرت یعقوب (ع) اور ان کے بیٹے کے لئے )کا اضافہ کردیا جائے۔ حضرت یوسف (ع)نے اپنے بھائیوں کو اپنی طرف کھینچنے اور جذب کرنے کےلئے فرمایا(انَا خَیْرُ الْمُنزِلِینَ ) (یعنی ) میں بہترین میزبان ہوں اس کا اثر یہ ہوا کہ اس جملے کو سنتے ہی وہ لوگ حضرت یوسف کے زیادہ قریب ہوگئے لیکن (مقام افسوس ہے) کہ خداوندعالم اپنے بندوں کو اپنی طرف کھینچنے اور جذب کرنے کے لئے مختلف تعبیرات استعمال فرماتا ہے لیکن اس کے باوجود بہت سے افراد اس کی طرف مائل نہیں ہوتے!!۔(1)

--------------

( 1 )خیر الرازقین ، وہ بہترین روزی دینے والا ہے۔سورہ مومنون آیت 72 ۔ خیر الغافرین ، وہ بہترین بخشنے والا ہے سورہ اعراف آیت 155 ۔ خیر الفاتحین ، وہ بہترین گشایش کرنے والا ہے۔سورہ اعراف آیت 89 ۔ خیرالماکرین ، وہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے سورہ انفال آیت 30 ۔ خیر الحاکمین ، وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے، سورہ یونس آیت 109

۱۳۱

پیام:

1۔حضرت یوسف (ع) اس غلے کی ذاتی طور پر نگرانی فرمارہے تھے جو مصر میںخشک سالی کے ایام کے لئے ذخیرہ کیا گیا تھا(جَهَّزَهُمْ )

2۔راز داری و سچائی دونوں ضروری ہیں حضرت یوسف (ع) نے فرمایا(أَخٍ لَکُمْ) ''تمہارا بھائی'' ''میرا بھائی نہیں فرمایا'' تاکہ سچائی اور راز داری دونوں کا پاس رکھا جاسکے ۔

3۔بحران اورخشک سالی کے زمانہ میں بھی بے عدالتی اور کم ناپ تول ممنوع ہے(أُوفِی الْکَیْل)

4۔معاملے کے دوران ''جنس'' کی مقدار معین ہونی چاہیئے(الْکَیْل)

5۔جولوگ ، ادارے یا ممالک کسی کی اقتصادی مدد کرتے ہیں وہ اس کی صحیح سمت رہنمائی یا دیگر مصلحتوں کے پیش نظر بعض شرطوں کو پیش کرسکتے ہیں(ائْتُونِی بِأَخٍ...)

6۔کسی ادارے یا ملک میں کام کرنے والے افراد اگر کوئی برا کام کریں یا عدل و انصاف سے کام لیں تو اس کا سارا کریڈٹ سربراہ کو جاتا ہے۔(أَنِّی أُوفِی (ع)(ع)الْکَیْلَ )

7۔مہمان نوازی انبیاء (ع)کے اخلاق میں سے ہے(خَیْرُ الْمُنزِلِین)

8۔وہ مسافر یا کاروان جو آپ کے علاقہ میں وارد ہو ،اس کا احترام کرنا چاہیئے اگرچہ قحط کا زمانہ ہی کیوں نہ ہو۔(خَیْرُ الْمُنزِلِین)

۱۳۲

آیت 60:

(60) فَإِنْ لَمْ تَأْتُونِی بِهِ فَلاَ کَیْلَ لَکُمْ عِندِی وَلاَ تَقْرَبُونِ.

''پس اگر تم اس کو میرے پاس نہ ل گے تو تمہارے لئے نہ میرے پاس کچھ (غلہ وغیرہ) ہوگا اور نہ ہی تم میرے نزدیک آسکوگے''۔

پیام:

1۔انتظامی امور میں محبت و دھمکی دونوں ضروری ہیں حضرت یوسف (ع) نے پہلے مژدہ ئ محبت دیا(أنَا خَیْرُ الْمُنزِلِینَ ) پھر تہدید اورالٹی میٹم ( ultimatum )دیا(فَإِنْ لَمْ تَأْتُونِی)

2۔قانون کو جاری کرتے وقت ،بھائی، خاندان اور دیگر افراد کے درمیان فرق نہیں کرنا چاہیئے(فَلاَکَیْلَ لَکُمْ ) (ہر شخص کا ایک خاص حصہ تھا اور اسے اپنا حصہ خود آکر لینا تھا)

3۔دھمکی و وعید میں ضروری نہیں ہے کہ سربراہ و مدیر صددرصد اس دھمکی کے اجرا کا ارادہ بھی رکھتا ہو(فَلاَکَیْلَ لَکُمْ) (کیونکہ حضرت یوسف (ع) ایسے نہ تھے کہ وہ قحط کے زمانہ میں اپنے بھائیوں کو مرتا ہوا دیکھےں)

4۔رہبری کی ایک بڑی شرط یہ ہے کہ وہ اپنے منصوبے اور پروگرام ( program ) کا اجرا کرنے میں مصمم ارادے کا حامل ہو( فَلاَ کَیْلَ لَکُمْ وَلاَ تَقْرَبُون)

۱۳۳

آیت 61:

(61)قَالُوا سَنُرَاوِدُ عَنْهُ أَبَاهُ وَإِنَّا لَفَاعِلُونَ

''وہ لوگ کہنے لگے ہم اس کے والد سے اس کے بارے میں جاتے ہی درخواست کریں گے اور ہم ضرور اس کام کو کریں گے''۔

نکات:

مراود: یعنی پے درپے اور مسلسل التماس کے ساتھ یا دھوکہ کے ساتھ رجوع کرنے کو کہتے ہیں۔

ان بھائیوں کی گفتگو میں اب بھی حسد کی بو محسوس کی جاسکتی ہے ذرا غور کیجئے ''ابانا'' ہمارے باپ کی بجائے ''اباہ'' اس کے باپ کہا ہے جب کہ سورہ کے آغاز میں ان کی گفتگو یہ ہے کہ (لیوسف و اخوہ احب الی ابینا منا)یعنی حضرت یعقوب (ع)ہمارے باپ ہیں لیکن یوسف (ع)اور ان کے بھائی کو ہم سے زیادہ چاہتے ہیں۔

۱۳۴

آیت 62:

(62) وَقَالَ لِفِتْیَانِهِ اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُمْ فِی رِحَالِهِمْ لَعَلَّهُمْ یَعْرِفُونَهَا إِذَا انقَلَبُوا إِلَی أَهْلِهِمْ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ

''اور یوسف نے اپنے ملازموں کو حکم دیا کہ ان کی (جمع)پونجی جو غلے کی قیمت تھی ان کے سامان میں (چپکے سے) رکھ دو تاکہ جب یہ لوگ اپنے اہل (و عیال) کے پاس لوٹ کرجائیں تو اپنی پونجی کو پہچان لیں (اور اس طمع میں) شاید پھر لوٹ کر آئیں''۔

نکات:

حضرت یوسف (ع) جیسی شخصیت جن کے بارے میں گزشتہ آیات نے صادق ، محسن ، مخلص جیسے گراں بہا الفاظ کے ذریعہ قصیدے پڑھے ،ان سے یہ بات ناممکن ہے کہ وہ بیت المال کو اپنے باپ اوربھائیوں میں تقسیم کردیں، ممکن ہے کہ آپ (ع)نے غلے کی قیمت اپنی ذاتی ملکیت سے ادا کی ہو۔

پیسہ لوٹا دیا تا کہ فقر و ناداری دوسرے سفر میں حائل نہ ہونے پائے( لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ)

علاوہ ازیں پیسہ کا لوٹا دینا اس بات کی دلیل ہے کہ ہم قلبی لگ کی بنیاد پر دوبارہ بلا رہے ہیں اور بھائی کو بلانے میں ہمارا کوئی بُرا ارادہ بھی نہیں ہے ،نیز حضرت یوسف، اجناس کے درمیان ان کی رقم کو مخفیانہ طور پر رکھوا کر نہ صرف ان پر کوئی احسان جتلانا نہیں چاہتے تھے بلکہ چوروں اور رہزنوں سے اس رقم کو محفوظ بھی کررہے تھے ۔

حضرت یوسف (ع) کہ جو کل تک غلام تھے آج آپ کے اردگرد غلام ہیں( لِفِتْیَانِهِ) لیکن بھائیوں سے ملاقات کے وقت نہ ہی ان سے انتقام لیا ،نہ ہی کوئی گلہ شکوہ کیا اور نہ ہی دل میں کینہ رکھا، بلکہ ان کا سرمایہ لوٹا کر انہیں متوجہ کیا کہ میں تم لوگوں کو چاہتا ہوں ۔

۱۳۵

پیام:

1۔لائق و فائق رہبر کے منصوبے ، نئے اور جدید ہونے چاہیئےں( اجْعَلُو)

2۔انتقام و کینہ کچھ بھی نہیں بلکہ آئندہ کے رابطے کو یقینی بنانے کے لئے ہدیہ پیش کیا جارہا ہے۔( اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُمْ فِی رِحَالِهِمْ... لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ )

3۔لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے کے لئے روپے پیسے کی پرواہ نہیں کرنی چاہیئے ۔(اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُمْْ... لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ)

4۔محتاجی و نیاز مندی کے زمانے میں بوڑھے باپ اور بھائیوں سے پیسہ لینا کرامت نفس کے منافی ہے( اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُمْ فِی رِحَالِهِمْ)

5۔صلہ رحم یعنی مدد کرنا ، نہ کہ کاروبار کرنا( اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُم)

6۔برائیوں کا بدلہ اچھائیوں سے دینا چاہیئے( اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُم)

7۔پروگرام ( pragrams )اور منصوبوں کے سو فیصد قابل عمل ہونے کا یقین ضروری نہیں ہے( لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ)

۱۳۶

آیت 63:

(63) فَلَمَّا رَجَعُوا إِلَی أَبِیهِمْ قَالُوا یَاأَبَانَا مُنِعَ مِنَّا الْکَیْلُ فَأَرْسِلْ مَعَنَا أَخَانَا نَکْتَلْ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ

''غرض جب یہ لوگ اپنے والد کے پاس پلٹ کر آئے تو سب نے مل کر عرض کی اے بابا! ہمیں (آئندہ) غلہ ملنے کی ممانعت کردی گئی ہے لہٰذا آپ ہمارے ساتھ ہمارے بھائی (بنیامین) کو بھیج دیجئے تاکہ ہم (پھر) غلہ حاصل کریں اور بے شک ہم اس کی پوری حفاظت کریں گے''۔

پیام:

1۔حضرت یعقوب (ع) کو اپنے خاندان اور بیٹوں پر مکمل کنٹرول اور تسلط حاصل تھا(یَاأَبَانَا مُنِعَ )

2۔باپ کو حق ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو حکم دے یا کسی کام سے روک دے(فَأَرْسِلْ)

3۔بنیامین اپنے باپ کی اجازت کے بغیر سفر نہیں کرتے تھے(فَأَرْسِلْ مَعَنَ)

4۔کسی چیز کو لینے اور کسی کے اعتماد کو حاصل کرنے کے لئے عواطف و احساسات سے استفادہ کیا جاتا ہے(أَخَانَا )

5۔مجرم چونکہ اپنے ضمیر کی عدالت میں پریشان ہوتا ہے لہٰذا اپنی گفتگو میںپے درپے یقین دلانے کی کوشش کرتا ہے(إِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ) ''لفظإنّا ''اور حرف لام اور اس جملے کا جملہ اسمیہ ہونا یہ سب تاکید پر دلالت کرتے ہیں یعنی آپ(ع) کے بیٹے آپ(ع) کو بھرپور یقین دلوانا چاہتے تھے ۔

۱۳۷

آیت 64:

(64) قَالَ هَلْ آمَنُکُمْ عَلَیْهِ إِلاَّ کَمَا أَمِنتُکُمْ عَلَی أَخِیهِ مِنْ قَبْلُ فَاﷲُ خَیْرٌ حَافِظًا وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ

''(حضرت )یعقوب(ع) بولے : کیا میں اس کے بارے میں تم پر اسی طرح اعتماد کروں جس طرح اس سے پہلے اس کے بھائی (یوسف) کے بارے میں کیا تھا؟ اللہ بہترین محافظ ہے اور وہ بہترین رحم کرنے والا ہے''۔

نکات:

سوال: حضرت یعقوب(ع) کے بیٹوںکی بری سیرت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ سوال اٹھتا ہے کہ دوبارہ حضرت یعقوب (ع) نے پھر کیوں اپنے دوسرے فرزند (بنیامین ) کو ان کے حوالے کردیا؟

اس سوال کے جواب میں فخر رازی نے متعدد احتمالات پیش کئے ہیں جس کی بنیاد پر حضرت یعقوب (ع) کے اس عمل کی توجیہ کی جاسکتی ہے :

1۔حضرت یوسف (ع) کے بھائی گزشتہ عمل کی بنیاد پر اپنا مقصد (باپ کی نگاہ میں محبوبیت) حاصل نہ کرسکے تھے۔

2۔وہ بنیامین سے حضرت یوسف (ع) کی نسبت کم حسد کرتے تھے ۔

3۔شایدخشک سالی کی وجہ سے مشکلات اتنی زیادہ ہوگئی ہوں کہ بنیامین کے ہمراہ دوسرا سفر ضروری ہو گیا ہو۔

4۔حضرت یوسف (ع) کے واقعہ کو دسیوں سال گزر چکے تھے اور اس کا زخم کافی ہلکا ہوچکا تھا۔

5۔خداوندعالم نے حضرت یعقوب(ع) سے ان کے بچے کی حفاظت کا وعدہ کرلیا تھا۔

۱۳۸

پیام:

1۔جس شخص کا گزشتہ ریکارڈ( record ) خراب ہو اس پر فوراً اعتماد کرنا صحیح نہیںہے۔(هَلْ آمَنُکُمْ )

2۔ماضی کی تلخ یادیں انسان کو آئندہ پیش آنے والے حادثات کا سامنا کرنے کے لئے آمادہ کردیتی ہیں۔( هَلْ آمَنُکُمْ ...عَلَی أَخِیهِ مِنْ قَبْلُ)

3۔خداوندعالم کی بے نظیر رحمت کو پیش نظر رکھتے ہوئے نیز اس پر توکل و بھروسہ کرتے ہوئے حادثات ِ زندگی کا مقابلہ کرنا چاہیئے( فَاﷲُ خَیْرٌ حَافِظًا وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ)

4۔ایک شکست یا کسی تلخ تجربے کی بنیاد پر انسان کو پیچھے نہیں ہٹنا چاہیئے۔(هَلْ آمَنُکُمْ عَلَیْهِ...فَاﷲُ خَیْرٌ حَافِظً) (1) یعقوب نے خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے دوبارہ بھی دوسرے فرزند کو ان کے حوالے کردیا۔

5۔رحمت خدا، سرچشمہ حفاظت ہے( فَاﷲُ خَیْرٌ حَافِظًا وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ)

آیت 65:

(65)وَلَمَّا فَتَحُوا مَتَاعَهُمْ وَجَدُوا بِضَاعَتَهُمْ رُدَّتْ إِلَیْهِمْ قَالُوا یَاأَبَانَا مَا نَبْغِی هَذِهِ بِضَاعَتُنَا رُدَّتْ إِلَیْنَا وَنَمِیرُ أَهْلَنَا وَنَحْفَظُ أَخَانَا وَنَزْدَادُ کَیْلَ بَعِیرٍ ذَلِکَ کَیْلٌ یَسِیرٌ

''اور جب ان لوگوں نے اپنے اپنے اسباب کھولے تو اپنی اپنی پونجی کو دیکھا کہ بعینہ واپس کردی گئی ہے (تو اپنے باپ سے) کہنے لگے اے بابا! ہمیں(اور) کیا چاہیے (دیکھئے ) یہ ہماری (جمع) پونجی تک تو ہمیں واپس دےدی گئی ہے (اور

--------------

( 1 )آیت نمبر 12 میں حضرت یعقوب(ع) نے حضرت یوسف (ع)کے لئے ان کے بھائیوں کے محافظ ہونے پر بھروسہ کیا تھا جس کے نتیجے میں یوسف (ع)کی جدائی اور نابینائی کا داغ اٹھانا پڑا لیکن بنیامین کے مورد میں خدا پر بھروسہ کیا اور کہا(فَاﷲُ خَیْرٌ حَافِظًا) نتیجہ یہ ہوا کہ بینائی بھی مل گئی اور فراق و جدائی ،وصال و ملن میں تبدیل ہوگئی۔

۱۳۹

غلہ مفت ملا اب آپ بنیامین کو جانے دیجئے تو ) ہم اپنے اہل و عیال کے واسطے غلہ لائیں گے اور اپنے بھائی کی پوری حفاظت کریں گے۔ اور ایک بار شتر غلہ اور بڑھوا لائیں گے یہ (جو اب کی دفعہ لائے تھے ) تھوڑا سا غلہ ہے (یا معنی یہ ہو کہ ایک اضافی اونٹ کا بار عزیز مصر کےلئے معمولی چیز ہے)''

نکات:

کلمہ ''نمیر'' مادہ ''میر ''سے ہے یعنی کھانے پینے کا سامان''نمیر اهلنا'' یعنی اپنے گھر والوں کی غذا فراہم کریں گے ۔

جملہ'' َنَزْدَادُ کَیْلَ بَعِیرٍ'' سے استفادہ ہوتا ہے کہ ہر شخص کا حصہ ایک بارِ شتر تھا جس کی بنیاد پر خود حاضر ہونا ضروری تھاتا کہ اسے حاصل کرسکے ۔

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

۱۱۵۷۔ امام باقر(ع): رسول خدا(ص) فتح مکہ کے روز منبر پر گئے اور فرمایا: اے لوگو! اللہ نے غرور جاہلیت اور آباء و اجداد پر تمہارے فخر کو تم سے دور کیا۔ یاد رکھو! تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے خلق ہوئے ہیں، آگاہ ہو جاؤ! خدا کے بندوں میں سب سے بہتر وہ بندہ ہے جو خدا کا خوف رکھتا ہے بیشک عرب ہونا، عرب باپ کی بنا پر نہیں ہے بلکہ عرب ہونا، ایک تکلم کی زبان ہے ، لہذا جس کا عمل کم ہوگا اس کا حسب و نسب اس کا جبران نہیںکریگا۔

۱۱۵۸۔ امام علی (ع): تمہارا فرض ہے کہ تمہارے دلوں میں جو عصبیت اور جاہلیت کے کینوں کی آگ بھڑک رہی ہے اسے بجھا دو کہ یہ غرور ایک مسلمان کے اندر شیطانی وسوسوں ، نخوتوں، فتنہ انگیزیوں اور فسوں کاریوں کا نتیجہ ہے ۔

۱۱۵۹۔ امام علی (ع): حسد اور کینہ سے پرہیز کرو! اس لئے کہ یہ جاہلیت کی خصلتیں ہیں:(اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لئے کیا بھیجا ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو کہ وہ یقینا تمہارے اعمال سے باخبر ہے ۔)

۱۱۶۰۔ امام علی (ع): خدا را خدا سے ڈرو! تکبر کے غرور اور جاہلیت کے تفاخر کے سلسلہ میں کہ یہ عداوتوں کے پیدا ہونے کی جگہ اور شیطان کی فسوں کاری کی منزل ہے ، اسی کے ذریعہ اس نے گذشتہ قوموں اور اگلی نسلوں کو دھوکا دیا ہے ، یہاں تک کہ وہ لوگ جہالت کے اندھیروں اور ضلالت کے گڑھوں میں گر پڑے، وہ اپنے ہنکانے والے کے مکمل تابع اور کھیچنے والے کے سراپا اطاعت تھے، یہی وہ امر ہے جس میں قلوب سب ایک جیسے ہیں اور نسلیں اسی راہ پر چلتی رہی ہیں اور یہی وہ تکبر ہے جس کی پردہ پوشی سے سینے تنگ ہیں۔

آگاہ ہو جاؤ! اپنے ان بزرگوں اور سرداروں کی اطاعت سے محتاط رہو جنہوںنے اپنے حسب پر غرور کیااور اپنے نسب کی بنیاد پر اونچے بن گئے، بد نما چیزوں کو اللہ کے سر ڈال دیا اور اس کے حسنات کا صریحی انکار کر دیا ہے ، انہوںنے اس کے فیصلہ سے مقابلہ کیاہے اور اسکی نعمتوں پر غلبہ حاصل کر نا چاہا ہے ، یہی وہ لوگ ہیں جو عصبیت کی بنیاد ، فتنوں کے ستون اور جاہلیت کے غرور کی تلوار ہیں۔

۲۲۱

۱۱۶۱۔ امام علی (ع): تمہارے چھوٹوں کو چاہئے کہ اپنے بڑوں کی پیروی اور بڑوں کا فرض ہے کہ اپنے چھوٹوں پر مہربانی کریں، اور خبردار تم لوگ جاہلیت کے ان ظالموں جیسے نہ ہو جانا جو نہ دین کا علم حاصل کرتے تھے اور نہ اللہ کے بارے میں عقل و فہم سے کام لیتے تھے، انکی مثال ان انڈوں کے چھلکوں جیسی ہے جو شتر مرغ کے انڈے دینے کی جگہ پر رکھے ہوںکہ انکا توڑنا تو جرم ہے لیکن پرورش کرنا بھی سوائے شر کے کوئی نتیجہ نہیں دے سکتاہے ۔

۱۱۶۲۔ محمد قصری: بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام صادق(ع) سے زکات کے بارے میں سوال کیا: تو فرمایاؑ: خدا نے جنکو زکات دینے کا حکم دیا ہے انہیں کے درمیان اسے تقسیم کرو لیکن قرضداروںکے حصہ سے ان قرضداروںکا قرض ادا نہیں کیا جاسکتا جو مہر کے مقروض ہیں اور نہ ہی ان افراد کا قرض ادا کیا جائیگا جو جاہلیت کی دعوت دیتے ہیں، میں نے عرض کیا!جاہلیت کی دعوت کیاہے؟فرمایا: وہ شخص جو یہ کہتا ہے : اے فلاں قبیلہ کی اولاد، پھران کے درمیان قتل و خونریزی برپا ہو جاتی ہے انہیںقرضداروںکے حصہ سے نہیں دیا جا سکتا؛ اسی طرح اس حصہ سے اس شخص کو بھی نہیں دیا جا سکتا جو لو گوں کے اموال میں لاپروائی برتتا ہے ۔

۱۱۶۳۔ جابر: مہاجرین و انصار کے دو غلاموں میں جھگڑا ہو گیا ، مہاجر کے غلام نے فریاد کی اے مہاجرین میری مدد کو آؤ! اور انصار کے غلام نے فریاد کی اے انصار مدد کو پہنچو! رسول خدا(ص) باہر تشریف لائے اور فرمایا: یہ اہل جاہلیت کا دعویٰ کیسا ہے؟ ان لوگوں نے کہا: اے رسول خدا(ص) یہ دعوائے جاہلیت نہیں صرف دو غلاموںنے آپس میں جھگڑا کیا ہے ایک نے دوسرے کو زمین پر پٹخ دیا ہے، رسولخدؐا نے فرمایا: کوئی مضائقہ نہیں، ہر شخص کو چاہئے کہ اپنے بھائی کی مدد کرے چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم، اگر ظالم ہے تو اسکو اسکے ظلم سے باز رکھے یہی اس کےلئے مدد ہے اور اگر مظلوم ہے تو اسکی مدد کرے۔

۲۲۲

۱۱۶۴۔علی بن ابراہیم : رسولخدا ؐ کے اصحاب ، رسول خدا(ص) کے پاس آئے اور اپنے حاجات کے پورے ہونے کےلئے خدا سے دعا کرنے کی درخواست کی۔ انکا تقاضا ایسی چیزوں کے سلسلہ میں تھا جو ان کےلئے حلال و مباح نہ تھا، پس خدا نے آیت نازل کی:وہ لوگ گناہ، ظلم اور رسول کی نافرمانی کے ساتھ راز کی باتیں کرتے ہیں۔اور جب وہ لوگ رسولخدؐاکے پاس آئے:انعم صباحا وانعم مساء اً کہا جو کہ اہل جاہلیت کا سلام تھا، تو خدا نے آیت نازل فرمائی:اور جب تمہارے پاس آتے ہیں تو اسطرح سلام کرتے ہیں کہ جسطرح خدا نے انہیں نہیں سکھایا ہے پھر رسول خدا(ص) نے ارشاد فرمایا: خدا نے ہمارے لئے اسکے عوض میں اس سے بہتر قرار دیا ہے جو کہ اہل جنت کا سلام ہے اور وہ (سلام علیکم) ہے۔

۶/۴

جاہلیت کے جرائم

الف :بیٹیوں کو زندہ دفن کرنا

قرآن

(اور جب ان میں سے کسی کو بیٹی کی بشارت دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا ہے اور وہ خون کے گھونٹ پینے لگتا ہے ، قوم سے منھ چھپاتا ہے کہ بہت بری خبر سنائی گئی ہے اب اس کو ذلت سمیت زندہ رکھے یا دفنا دے یقینا یہ لوگ بہت برا فیصلہ کر رہے ہیں)

(اور جب زندہ در گور بیٹیوں کے بارے میں سوال کیا جائیگا کہ انہیں کس گناہ میں مارا گیا ہے)

۲۲۳

حدیث

۱۱۶۵۔ رسول خدا(ص) :خدا نے تمہارے لئے ماؤں کی نافرمانی ، بیٹیوں کو زندہ در گور کرنا اور حقوق و واجبات کی عدم ادائیگی کو حرام قرار دیا ہے ۔ وہ تم سے قیل و قال ، کثرت سوال اور مال کے ضائع کرنے کو ناپسند کرتا ہے ۔

۱۱۶۶۔امام صادق(ع): ایک شخص رسول خدا(ص) کی خدمت میں آیا اور کہا: میرے یہاں بیٹی پیدا ہوئی اور میں نے اسکی پرورش کی یہاں تک کہ وہ بالغ ہو گئی پھر اسے لباس پہنایا، آراستہ کیا اور کنویں میں لے جاکر ڈال دیا۔ اسکی جو آخری آواز میں نے سنی وہ یہ تھی کہ اے ابا جان! (اے اللہ کے رسول )اس عمل کا کفارہ کیا ہے ؟ رسول خدا(ص)نے فرمایا کیا تمہاری ماں زندہ ہے؟ کہا: نہیں، فرمایا:ؐ کیا تمہاری خالہ زندہ ہے؟ کہا: ہاں، فرمایا: اس کے ساتھ نیکی کرو کہ خالہ ماں کی جگہ پر ہوتی ہے تمہارے گناہوں کا کفارہ ہو جائیگا۔

ابو خدیجہ کہتا ہے : میں نے امام صادق(ع) سے پوچھا: یہ کس زمانہ میں پیش آیا تھا؟ فرمایا: جاہلیت میں ، وہ اپنی بیٹیوں کو اسیری کے خوف سے قتل کر دیتے تھے کہ کہیں اسیر ہوگئیں تو دوسری قوموں میں جاکر ان کے شکم سے بچے پیدا ہوں گے۔

ب: اولاد کشی

قرآن

(اور اسی طرح ان شریکوں نے بہت سے مشرکین کےلئے اولاد کے قتل کو بھی آراستہ کر دیا ہے تاکہ انکو تباہ و برباد اور ان پر دین کو مشتبہ کر دیں حالانکہ خدا اسکے خلاف چاہ لیتا تو یہ کچھ نہیں کر سکتے تھے لہذا آپ انکوانکی افتراء پردازی پر چھوڑ دیں اور پریشان نہ ہوں)

۲۲۴

(یقینا وہ لوگ خسارہ میں ہیں جنہوںنے حماقت میں بغیر جانے بوجھے اپنی اولاد کو قتل کر دیا اور جو رزق خدا نے انہیں دیا تھا اسے اسی پر بہتان لگا کر اپنے اوپر حرام کر لیا یہ سب بہک گئے ہیں اور ہدایت یافتہ نہیںہیں)

(پیغمبر اگر ایمان لانے والی عورتیں آپ کے پاس اس امر پر بیعت کرنے کے لئے آئیں کہ کسی کو خدا کا شریک نہیں بنائیں گی اور چوری نہیں کریں گی ، زنا نہیں کریں گی، اولاد کو قتل نہیں کریں گی اور اپنے ہاتھ پاؤں کے سامنے سے کوئی بہتان (لڑکا) لیکر نہیں آئیں گی، اور کسی نیکی میں آپکی مخالفت نہیں کریں گی تو آپ ان سے بیعت لے لیںاور ان کے حق میں استغفار کریں کہ خدا بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے)

(اور خبردار اپنی اولاد کو فاقہ کے خوف سے قتل نہ کرنا ہم انہیں بھی رزق دیتے ہیں اور تمہیں بھی بیشک ان کا قتل کر دینا بہت بڑا گناہ ہے)

ج: بد کرداری

(اور یہ کوئی برا کام کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے آباء و اجداد کو اسی طریقہ پر پایا ہے اور اللہ نے یہی حکم دیا ہے ، آپ فرما دیجئے کہ خدا بری بات کا حکم نہیں دے سکتا کیا تم خدا کے خلاف وہ کہہ رہے ہو جو جانتے بھی نہیں ہو)

(کہدیجئے کہ ہمارے رب نے صرف بدکاریوں کو حرام کیا ہے چاہے وہ ظاہری ہو ں یا باطنی اور گناہ، ناحق ظلم اور بلا دلیل کسی چیز کو خدا کا شریک بنانے اور بلا جانے بوجھے کسی بات کو خدا کی طرف منسوب کرنے کو حرام قرار دیا ہے)

۲۲۵

حدیث

۱۱۶۷۔ امام زین العاب دین (ع): جب ظاہری اور باطنی بدکرداریوں کے بارے میں آپ سے پوچھا گیا تو فرمایا: ظاہری بدکرداری ، باپ کی بیوی کے ساتھ نکاح ہے اور باطنی بدکرداری زنا ہے۔

۱۱۶۸۔ امام کاظم (ع): نے خدا کے اس قول:(کہدیجئے ہمارے رب نے ظاہری و باطنی بدکرداریوں، گناہ اور ناحق ظلم کو حرام قرار دیا ہے)کے بارے میں فرمایا: ظاہری بد کرداری یعنی کھلی زنا کاری اور پرچم کو نصب کرنا ہے جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں فاحشہ عورتیں بدکرداری و زناکاری کےلئے (اپنے گھروں پر) پرچم نصب کرتی تھیں، اور باطنی بدکرداری یعنی باپ کی بیوی سے نکاح کرنا ہے اس لئے کہ بعثت نبی ؐ سے قبل جب کوئی شخص مر جاتا اور اس کے کوئی بیوی ہوتی تھی تو اس کا بیٹا اگر وہ ماں نہیںہوتی تھی تو اس کے ساتھ نکاح کر لیتا تھا،پس خدا نے اس کو حرام قرار دیا ۔

د: لڑکیوں کو بد کاری پر مجبور کرنا

قرآن

(اور خبردار اپنی کنیزوںکو اگر وہ پاکدامنی کی خواہش مند ہیں تو زنا پر مجبور نہ کرنا کہ ان سے زندگانی دنیا کا فائدہ حاصل کرنا چاہو کہ جو بھی انہیں مجبور کریگا خدا مجبوری کے بعد ان عورتوں کے حق میں بہت زیادہ بخشنے والا اور مہربان ہے )

۲۲۶

حدیث

۱۱۶۹۔ امام باقر(ع): عرب اور قریش کنیزوںکو خریدتے تھے اور ان کے لئے بہت زیادہ مالیت رکھتے تھے، اور کہتے تھے: جاؤ فاحشہ گیری کرو اور پیسے کماؤ؛ پس خدا نے انہیں اس کام سے منع فرمایا۔

ھ: شراب، جوا، بت اور پانسہ

قرآن

(ایمان والو! شراب، جوا، بت ،پانسہ یہ سب شیطانی اعمال ہیں لہذا ان سے بچو تاکہ کامیابی حاصل کر سکو)

حدیث

۱۱۷۰۔امام باقر(ع): جب خدا نے رسول خدا(ص) پر نازل کیا:(ایمان والو! شراب میسر،(جوا)، انصاب (بت) اور ازلام (پانسہ) یہ سب گندے شیطانی اعمال ہیں لہذا ان سے پرہیز کرو تاکہ کامیابی حاصل کر سکو)

تو پوچھا گیا: اے رسول خدا(ص)، میسر کیا ہے؟ فرمایا: ہر وہ چیز جس سے جوا کھیلا جائے حتی کہ نرو کے مہرے اور اخروٹ، پوچھا گیا: انصاب کیا ہے؟ فرمایا: وہ چیزیں جو اپنے معبود وں کےلئے ذبح کرتے ہیں، پھر پوچھا گیا: ازلام کیا ہے؟ فرمایا: وہ پانسہ ہے کہ جس کے ذریعہ تقسیم کرتے تھے۔

۱۱۷۱۔ امام باقر(ع): نے خدا کے اس قول:(ایمان والو! شراب، جوا، بت اور پانسہ یہ سب گندے شیطانی اعمال ہیں لہذا ان سے پرہیز کرو تاکہ کامیابی حاصل کرسکو)کے بارے میں فرمایا:.......انصاب یہ ایسے بت تھے کہ جنکی مشرکین پرستش کرتے تھے اور ازلام ایسے پانسے ہیں کہ زمانہئ جاہلیت میں مشرکین عرب جنکے ذریعہ تقسیم کرتے تھے۔

۲۲۷

و: خون مالی

۱۱۷۲۔اسماء بنت عمیس: (ولادت امام حسن (ع) کے متعلق بیان فرماتی ہیں) نبی اکرمؐ نے امام حسن (ع) کی ولادت کے ساتویں روز دو سیاہ مینڈھوں سے عقیقہ کیا اور ایک ران اور ایک دینار دایہ کو دیا پھر ان کے سر کو مونڈا ور ان کے بال کے برابر سکہ صدقہ دیا، پھر سرکوخَلوق(ایک قسم کی خوشبو جس کا جزء اعظم زعفران ہوتا ہے) سے دھویا اور فرمایا: اے اسمائ! خون مالی کرنا جاہلیت کا عمل ہے ۔

۱۱۷۳۔ عاصم کوزی : کابیان ہے کہ میں نے امام صادق(ع) سے سنا ہے کہ وہ اپنے والد سے نقل کرتے تھے کہ رسول خدا(ص) نے امام حسن (ع) ور امام حسین (ع) کاایک ایک مینڈھے سے عقیقہ کیا، دایہ کو ہدیہ دیا اور ان کی ولادت کے ساتویں روز ان کے سروں کو مونڈا اور ان کے بالوں کے برابر چاندی صدقہ کی۔

راوی کہتا ہے کہ میں نے امام صادق ؑ سے عرض کیا: کیاعقیقہ کے خون سے بچہ کے سر پر مالش کی جا سکتی ہے؟ فرمایا: یہ شرک ہے۔ میں نے کہا: سبحان اللہ! شرک ہے ؟ فرمایا: اگر شرک نہیں ہے تو یقینا زمانہ جاہلیت کا عمل ہے اسلام میں اس سے روکا گیا ہے۔

ز: بد شگونی

۱۱۷۴۔ ابو حسان : ایک شخص نے عائشہ سے کہا کہ ابو ہریرہ ، پیغمبر اکرم ؐسے روایت کرتا ہے کہ آنحضرت نے فرمایا: عورت، گھر اور چوپائے باعث بدشگونی ہیں ، عائشہ نہایت ناراض ہوئی گویا ان کا آدھا حصہ آسمان پر چلا گیا اور آدھا زمین پر باقی تھا، پھر کہا: بیشک دور جاہلیت کے افراد ان چیزوںکو بدشگونی سمجھتے تھے۔

۲۲۸

۱۱۷۵۔ عائشہ: رسول خدا(ص) فرماتے تھے: جاہلیت کے افراد کہا کرتے تھے، تین چیزیں بدشگونی کا باعث ہےں، عورت، چوپایہ اور گھر، پھر یہ آیت پڑھی:(زمین میں کوئی بھی مصیبت وارد ہوتی ہے یا تمہارے نفس پر نازل ہوتی ہے تو نفس کے پیدا ہونے سے قبل وہ کتاب الٰہی میں مقدر ہو چکی ہے اور یہ خدا کےلئے بہت آسان ہے)

ح: جنات کی پناہ ڈھونڈنا

قرآن

(اور یہ کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ جنات میں سے بعض کی پناہ ڈھونڈ رہے تھے تو انہوںنے گرفتاری میں اور اضافہ کر دیا)

حدیث

۱۱۷۶۔ زرارہ: میں نے امام صادق(ع) سے اس آیت:(اور یہ کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ جنات میں سے بعض کی پناہ ڈھونڈ رہے تھے تو انہوںنے گرفتاری میں اور اضافہ کر دیا)کی تفسیر کے بارے میں دریافت کیا تو فرمایا: ایک شخص فال کھولنے اورتقدیر کا حال بتانے والے کے پاس گیا کہ شیطان جس سے کانا پھونسی کرتا تھا، اور اس سے کہا: اپنے شیطان سے کہو کہ فلاں نے تمہاری پناہ لی ہے ۔

ط:جنات کے لئے قربانی کرنا

۱۱۷۷۔ امام علی (ع): بیشک رسول خدا(ص) جنات کےلئے قربانی کرنے سے روکتے تھے ، پوچھا گیا : اے رسولخدؐا: جنات کےلئے قربانی کیاہے ؟ نبی ؐ نے فرمایا: جو لوگ اپنے گھروں میں رہنے والے جنات سے ڈرتے تھے ان کےلئے قربانی کرتے تھے۔

۲۲۹

ی: گھونگا پہننا

۱۱۷۸۔ قاضی نعمان: رسول خدا(ص) نے تمائم اور تَوَل سے منع کیا؛ ''تمائم'' ڈورے میں پروئے ہوئے گھونگے یا نوشتے جسے لوگ اپنے گلے میں آویزاں کرتے ہیں، اور ''تَوَل'' وہ کام ہے جسے عورتیں اپنے شوہروںکی نظر میں محبوب ہونے کےلئے انجام دیتی ہیں؛ جو فال بینی اور قسمت بینی کے مانند ہے نیز پیغمبر نے سحر سے روکا ہے۔

ک: میت پر عورتوںکا بین کرنا

۱۱۷۹۔رسول خدا(ص): مردوں پر عورتوں کا جمع ہو کر وا ویلا کرنا جاہلیت کا عمل ہے ۔

۱۱۸۰۔ رسول خدا(ص): جاہلیت کے رسم و رواج میں سے میت پر بین کرنا، انسان کا اپنے بیٹے سے بیزار ہونا اور لوگوںپر فخر کرنا ہے۔

۱۱۸۱۔انس: رسول خدا(ص) نے عورتوں سے بیعت لیتے وقت ان سے یہ بیعت لی کہ میت پر بین نہیں کرینگی عورتوںنے کہا: اے رسولخدا! دور جاہلیت میں کچھ عورتوں نے میت پر بین کرنے میں ہماری مدد کی تھی کیا ہم انکی مدد کر سکتے ہیں؟ رسول خدا(ص) نے فرمایا: اسلام میں یہ عمل شائستہ نہیں ہے۔

۱۱۸۲۔ رسول خدا(ص): نے اس آیت:(اور کسی نیکی میں ان کی مخالفت نہیں کریں گی)کی تفسیر میں فرمایا: جمع ہو کر رونے والی عورتیں مراد ہیں۔

۲۳۰

ل: غیر خدا کی قسم کھانا

۱۱۸۳۔ زرارہ : کا بیان ہے کہ میںنے امام باؑقر سے اس آیت:(پس خدا کو اسطرح یاد رکھو جسطرح اپنے باپ دادا کو یاد کرتے ہو بلکہ اس سے بھی زیادہ)کی تفسیرکے بارے میں پوچھا تو فرمایا: اہل جاہلیت کا تکیہ کلام یہ تھا: نہیں، تمہارے باپ کی قسم، ہاں، تمہارے باپ کی قسم، پھر اسکے بعد انہیں یہ حکم دیا گیا کہ وہ کہیں: نہیں، خدا کی قسم، ہاں، خدا کی قسم۔

۱۱۸۴۔ امام صادق(ع): میںمناسب نہیں سمجھتا کہ غیر خدا کی قسم کھائی جائے، کسی کا یہ کہنا: نہیں، تمہارا برا چاہنے والا ایسا ہو جائے۔ اہل جاہلیت کاقول ہے، اگر کوئی شخص یہ یا ایسی ہی کوئی دوسری قسم کھائیگا تو وہ خدا کی قسم سے چشم پوشی کریگا۔ ۶/۵

اسلام کا جاہلیت کے رواج کو مٹا نا

۱۱۸۵۔ رسول خدا(ص): بیشک اللہ نے مجھے عالمین کےلئے رحمت بنا کر بھیجا ہے اور اس لئے بھی تاکہ گانے بجانے کے آلات، بانسری، رواج جاہلیت اور بتوںکو نابود کروں۔

۱۱۸۶۔ رسول خدا(ص): خدا کے نزدیک مبغوض ترین انسان تین قسم کے ہیں: جو حرم میں بے دینی اختیار کرے ،جو اسلام میں جاہلیت کے رسم و رواج کے پیچھے جائے اور وہ جو کسی کا ناحق خون بہانے کے در پے ہو۔

۱۱۸۷۔ رسول خدا(ص): نے روز عرفہ کے خطبہ میں فرمایا: یاد رکھو! میں نے جاہلیت کی ہر رسم کو ترک کیا اور اپنے پیروں تلے کچلا ہے ۔ جاہلیت کے خون کا بدلہ بھی ترک کیا جائےگا۔ اور یقینا پہلا خون جسے ترک کرونگا وہ ابن ربیعہ بن حارث کا ہے۔ قبیلہ بنی سعد میں دوران رضاعت کو گذار رہا تھا اور قبیلہ ہذ یل نے اسے قتل کر دیا، اور جاہلیت کا سود بھی لغو ہے ، پہلا سود جو میں لغو کرونگا وہ عباس بن عبد المطلب کا ہے؛ بیشک یہ تمام چیزیںلغو ہیں۔

۲۳۱

۱۱۸۸۔ ابو عبیدہ: جاہلیت میں یَشکرُ کے نمایاں کاموںمیں سے یہ ہے: فتح مکہ کے روز رسول خدا(ص) نے خطبہ دیا اور فرمایا: آگاہ ہو جاؤ: میںنے سوائے حاجیوں کو پانی پلانے اور کعبہ کی پردہ پوشی کے جاہلیت کی ہر بزرگی کو اپنے پیروں سے کچلا ہے ۔ اس وقت اسود بن ربیعہ بن ابو الاسود بن مالک بن ربیعہ بن جمیل بن ثعلبہ بن عمرو بن عثمان بن حبیب بن یشکر کھڑا ہوا اور کہا: اے رسول خدا! یقینا میرے والد زمانہ جاہلیت میں اپنے اموال کو سفر میں بیچارہ ہوجانے والے کو صدقہ دیتے تھے ، اگر یہ میرے لئے بزرگی ہے تو اسے چھوڑ دوںاور اگر بزرگی و شرافت نہیںہے تو میں سزا وار ہوں کہ اس کو انجام دیتا رہوں؟ رسول خدا(ص) نے فرمایا: یہ تمہارے لئے باعث افتخار ہے لہذا تم اس کو قبول کرو۔

۱۱۸۹۔ علی بن ابراہیم : رسول خدا(ص) نے دس ہجری میں،حجۃ الوداع انجام دیا؛ سر زمین منا میں حمد و ثنائے الٰہی کے بعد جو ارشاد فرمایا تھا اس کا ایک ٹکڑا یہ ہے :

فرمایا...یاد رکھو! جاہلیت کی تمام خاندانی سر بلندیاںیا بدعت اور تمام خون و مال میرے پیروںکے نیچے ہیں ، کوئی شخص آپس میں ایک دوسرے پر تقویٰ کے سوا کوئی فضیلت نہیں رکھتا، کیا میں نے پہنچادیا؟: انہوںنے کہا: ہاں! آپ ؐ نے فرمایا: خدایا: گواہ رہنا، پھر فرمایا: خبردار! تمام جاہلیت کے سود لغو ہیں؛ اور پہلا سود جو لغو ہوا وہ عباس بن عبد المطلب کا ہے ، آگاہ ہو کہ تمام جاہلیت کے خون کو لغو کر دیا گیا ہے پہلا خون جو لغو ہوا ہے وہ ربیعہ کا ہے کیا میںنے پہنچادیا؟ لوگوںنے کہا: ہاں، نبی نے فرمایا: خدایا! گواہ رہنا۔

۱۱۹۰۔ رسول خدا(ص): نے خطبہ حجۃ الوداع میں فرمایا: جاہلیت کا سودختم کر دیا گیا ہے اور پہلا سود جس سے میں آغاز کرتا ہوں وہ عباس بن عبد المطلب کا ہے ، جاہلیت کا خون بھی معاف کر دیاگیا ہے، اور بیشک پہلا خون جس سے ابتدا کرتا ہوںوہ عامر بن ربیعہ بن حارث بن عبد المطلب کا ہے، اور بیشک جاہلیت کے تمام افتخارات کو چھوڑ دیا گیا ہے سوائے کعبہ کی پردہ پوشی اورحاجیوں کو پانی پلانے کے، عمداً قتل کےلئے قصاص ہے اور قتلِ شبہ عمد جو کہ لاٹھی یا پتھر سے قتل ہو تو اس کےلئے سو اونٹ دیت ہے؛ جو اس میں اضافہ کریگا اسکا تعلق جاہلیت سے ہوگا۔

۲۳۲

۱۱۹۱۔ امام باقر(ع): فتح مکہ کے دن رسول خدا(ص) منبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا: اے لوگو! خدا نے تمہاری جاہلیت کے غرور اور آباو اجداد کی جاہلیت کے تفاخر کو دور کیا۔ آگاہ ہو کہ تم سب کے سب آدم سے اور آدم مٹی سے پیدا ہوئے ہیں۔ دیکھو! سب سے بہتر خدا کا بندہ وہ شخص ہے جو خدا سے زیادہ ڈرے۔ بیشک عرب ہو نا اس باپ کے سبب نہیںہے جس نے تمہیں پیدا کیاہے؛ بلکہ یہ ایک زبان ہے جو بولی جاتی ہے ؛ جس کے عمل میں کو تاہی ہوگی اس کا حسب و نسب اس کا جبران نہیں کریگا۔ جان لو! تمام جاہلیت کے خون یا کینے قیامت تک میرے قدموں کے نیچے ہیں۔

۱۱۹۲۔ رسول خدا(ص): بیشک اللہ نے جو زمانہ جاہلیت میں با شرف تھے انہیں اسلام کے سبب پست کیا اور جو زمانہ جاہلیت میں پست تھے انہیں اسلام کے باعث شرف عطا کیا، جو دور جاہلیت میں رسوا تھے انہیں اسلام کے سبب عزت عطا کی۔ اور اسلام کے سبب زمانہ جاہلیت کی نخوتوں، قبیلوں کے فخر و مباہات اور اونچے حسب و نسب کو ختم کیا، چنانچہ اب تمام لوگ (کالے ، گورے، قرشی اور عربی و عجمی) آدم کی اولاد ہیں اور آدم کو خدا نے مٹی سے خلق کیا ہے ۔ اور روز قیامت خدا کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب وہ ہوگا جو ان میںسب سے زیادہ اطاعت گذار اور سب سے بڑا متقی ہے۔

۱۱۹۳۔ امام صادق(ع): رسول خدا(ص) رسم جاہلیت کے بر خلاف( مشعر الحرام سے منا کی طرف) نکلے دور جاہلیت میں لوگ مشعر سے گھوڑے اور اونٹوںکے ساتھ تیزی سے نکلتے تھے، لیکن رسول خدا(ص)نہایت سکون و وقار کے ساتھ مشعر سے منا کی طرف چلے۔ لہذا تم بھی ذکر خدا اور استغفار کرتے ہوئے چلو اور اپنی زبان پہ ذکر خدا جاری رکھو، اور جب وادی مُحَسِّریہ جمع اور منا کے درمیان عظیم وادی ہے اور منا سے نزدیک ہے میں پہنچوتو وہاں سے تیزی سے گذر جاؤ۔

۱۱۹۴۔ امام باقر(ع): رسول خدا(ص) نے علی (ع) سے فرمایا:اے علی (ع)! بنی مصطلق کے طائفہ بنی خزیمہ کے پاس جاؤ اور انہیں ولید بن خالد کے کرتوت سے راضی کرو۔ آگاہ ہو کہ رسول خدا(ص) نے اپنے پیروںکواٹھایا اور فرمایا: اے علی (ع) ، اہل جاہلیت کے فیصلہ کو اپنے پیروںکو نیچے قرار دو۔ پھر علی (ع) ان کے پاس گئے اور حکم خدا کے مطابق ان کے درمیان فیصلہ کیا۔ جب پیغمبرکے پاس پلٹ کر آئے تو رسول خدا(ص) نے فرمایا: اے علی : مجھے بتاؤ تم نے کیاکیا...

۲۳۳

۱۱۹۵۔ امام باقر(ع): رسول خدا(ص) نے علی (ع) بن ابی طالب ؐ کو بلایا اور فرمایا: اے علی (ع)! اس قوم(بنی خزیمہ) کے پاس جاؤ اور ان کے حالات کا جائزہ لو، اور رسم جاہلیت کو اپنے پیروں کے نیچے قرار دو۔ لہذا علی (ع) نکلے اوران کی طرف روانہ ہوئے اور ان کے پاس رسول خدا(ص) کا بھیجا ہوا کچھ مال تھا، اس کے ذریعہ ان کے خون کی دیت اور تلف شدہ اموال یہاں تک کہ کتے کے پانی پینے کے کاسہ کا بھی خسارہ دیا۔

۱۱۹۶۔ امام زین العاب دین (ع) : بیشک اللہ نے اسلام کے سبب حقارت و پستی کو دور کیا اور اس کے ذریعہ کمی ونقص کوزائل کیا نیز اسکی بدولت کمینگی کو شرافت میں تبدیل کیا، لہذا مسلمان کے لئے کوئی پستی نہیںہے پستی اور حقارت صرف وہی ہے جو دوران جاہلیت تھی۔

۱۱۹۷۔ امام صادق(ع): اہل مصیبت کے سامنے کھانا اہل جاہلیت کی صفت ہے ۔ اسلامی سنت یہ ہے کہ اہل عزا و مصیبت کے لئے کھانا بھیجا جائے۔ جیسا کہ پیغمبر اسلام ؐ نے جب جعفر بن ابی طالب کی خبر موت سنی تو حکم دیا کہ ان کے گھر والوںکے لئے کھانا پہنچایا جائے۔

۲۳۴

۶/۶

اچھی سنن کی تائید

۱۱۹۸۔ رسول خدا(ص): نے معاذ بن جبل کو یمن روانہ کرتے وقت انہیں وصیت کی کہ رسم جاہلیت کو پامال کر دینا سوائے ان رسم و رواج کے کہ جنکی اسلام نے حمایت کی ہے اور اسلام کے تمام چھوٹے بڑے امور کو ظاہر کرنا۔

۱۱۹۹۔رسول خدا(ص): نے معاذ بن جبل کو یمن روانہ کرتے وقت انہیں وصیت کی کہ: عاداتِ جاہلیت کا خاتمہ کرنا مگر یہ کہ جو نیک ہوں۔

۱۲۰۰۔ رسول خدا(ص): بیشک عبد المطلب نے زمانہ جاہلیت میں پانچ سنتیں جاری کی تھیں، جنہیں خدا عز و جل نے اسلام میں جاری و ساری رکھا: باپ کی بیویوں کو اولاد پر حرام کیا تھا، خدا نے آیت نازل کی:(اپنے باپ کی بیویوں کے ساتھ نکاح نہ کرو)

جب کوئی خزانہ پاتے تھے تو اس میں سے خمس نکالتے اور صدقہ دیتے تھے خدا نے آیت نازل کی( آگاہ ہو جاؤ کہ جو چیز تمہیں غنیمت میں ملے اسکا خمس خدا و رسول کے لئے ہے اور.....تا آخر)جب زمزم کنویںکو کھودا تو اس کا نام ''سقایۃ الحاج'' رکھا ، خدا نے آیت نازل کی( کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد الحرام کی آبادی کو اس جیسا سمجھ لیا ہے جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے ....تا آخر) قتل پر سو اونٹوں کی دیت قرار دی تھی، خدا نے اسلام میں اسے بھی جاری رکھا، اور قریش طواف کے لئے خاص عدد کے قائل نہ تھے مگر عبد المطلب نے سات چکر قرار دئےے تھے، اور خدا نے اسلام میں اس کو جاری و ساری رکھا۔

۱۲۰۱۔ رسول خدا(ص): اسلام میں کوئی عہد و پیمان نہیںہے جو عہد و پیمان زمانہ جاہلیت میں تھا خدا نے اسی کو محکم کیا ہے ۔

۲۳۵

۱۲۰۲۔عمرو بن شعیب: اپنے باپ سے اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم ؐ، فتح مکہ کے سال کعبہ کے زینے پر بیٹھے ہوئے تھے، پس خدا کی حمد و ثنا کی اور فرمایا: جس کا بھی زمانہ جاہلیت میںکوئی عہد و پیمان تھا اسلام نے اس کو مزید محکم کیا ہے ۔

۱۲۰۳۔ جوحصہ بھی زمانہ جاہلیت میں تقسیم ہوا وہ اسی تقسیم پر باقی ہے، اور جو حصہ بھی اسلام نے درک کیا ہے پس وہ اسلام کا حصہ ہوگا۔

۱۲۰۴۔ رسول خدا(ص): ہر گھر اور زمین جو جاہلیت میں تقسیم ہوئی وہ اسی جاہلیت کی تقسیم پر ہے اور ہر وہ گھر اور زمین جسے اسلام نے درک کیا ہے لیکن تقسیم نہیں ہوئی تھی وہ اسلام کے حکم پر تقسیم ہوگی۔

۱۲۰۵۔ رسول خدا(ص): ہر وہ میراث جو جاہلیت میں تقسیم ہوئی تھی وہ اسی تقسیم پر باقی ہے۔ اور ہر وہ میراث جسے اسلام نے درک کیا وہ اسلام کی رو سے تقسیم ہوگی۔

۱۲۰۶۔ ابن عباس:جاہلیت کا جماعتی حلف لوگوں کے درمیان رکاوٹ تھا اور جو بھی قسم صبر کھاتا تھا- یعنی کسی کو اس لئے قید کرتا تاکہ وہ قسم کھائے- ان گناہوں کے سبب کہ جو اس نے انجام دیئے تھے تاکہ اسے خدائی عذاب دکھاکر محارم کو کچلنے سے باز رکھیں، لہذا قسم صبر سے اجتناب کرتے اور اس سے ڈرتے تھے پس جب خدا نے حضرت محمد(ص) کو مبعوث کیاتو اس قسم کو بر قرار رکھا۔

۱۲۰۷۔ فُضیل بن عیاض : کا بیان ہے کہ میں نے امام صادق(ع) سے کہا: جاہلیت کے رسم و رواج میں سے کیا کوئی چیز محترم بھی ہے؟ فرمایا: اہل جاہلیت نے ہر وہ چیز جو دین ابراہیم سے تھی اسے تباہ و برباد کر دیا، سوائے ختنہ کرنے اور شادی و حج کے ۔ وہ لوگ ان تین کے پابند رہے اور انہیں ضائع نہیں کیا۔

۲۳۶

۱۲۰۸۔ عبد اللہ بن عمر:عمر نے رسول خدا سے عرض کیا: اے رسول خدا! زمانہ جاہلیت میں میں نے نذر کیا تھا کہ ایک شب مسجد الرام میں اعتکاف کرونگا، رسول خدا(ص) نے فرمایا: تم اپنی نذر کو پورا کرو۔

۱۲۰۹۔ رسول خدا(ص): یاد رکھو! رجب اللہ کا اَصَمّ (بھاری)مہینہ ہے جو نہایت عظیم ہے ۔ رجب کے مہینہ کو ''اصم'' اس وجہ سے کہا گیا ہے کہ کوئی بھی مہینہ خدا کے نزدیک احترام و فضیلت میں اس کے برابر نہیںہے زمانہ جاہلیت کے افراد اس مہینے کو عظیم سمجھتے تھے اور اسلام کے بعد اسکی عظمت و فضیلت دو بالا ہو گئی۔

۱۲۱۰۔ مجاہد: سائب بن عبد اللہ نے کہا: فتح مکہ کے روز مجھے پیغمبر اسلام ؐ کی خدمت میں لایا گیا۔ عثمان بن عفان اور زبیر مجھ کو لے آئے تھے ، انہوںنے سائب کی تعریف کی تو پیغمبر ؐنے ان سے فرمایا: اسکے بارے میں مجھے اطلاع نہ دو، وہ دور جاہلیت میں میرا ہمنشین تھا۔ سائب نے کہا: ہاں ، اے رسولخدا! آپ بہت اچھے ہمنشیں تھے، تو رسول خدا(ص) نے فرمایا: اے سائب! زمانہ جاہلیت میں جو تمہارے عادات و اطوار تھے ان پر نظر کرو اور انہیں اسلام میں محفوظ رکھو، مہمانوں کو کھانا کھلاؤ، یتیموں کا احترام کرو اور پڑوسی کے ساتھ نیکی کرو۔

۱۲۱۱۔ زرارہ: میں نے امام باقر(ع)کی خدمت میں عرض کیا: لوگ نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا: زمانہ جاہلیت میںجو تم میں سے زیادہ شریف تھا وہ تم میں اسلام میں بھی زیادہ شریف ہے ؛ امام ؑ نے فرمایا: وہ سچ کہتے ہیں، لیکن نہ اس طرح کہ جیسا کہ وہ گمان کرتے ہیں؛ دور جاہلیت میںسب سے زیادہ باشرف وہ انسان ہے جو ان میں بیشتر سخی، سب سے زیادہ خوش اخلاق اور پڑوسیوںکے ساتھ سب سے زیادہ نیکی کرنے والا اور سب سے کم اذیت پہنچانے والا ہے ۔ انہوںنے جب اسلام قبول کیا تو ان کی خوبیاں دو بالا ہو گئیں۔

۲۳۷

۱۲۱۲۔ علقمہ بن یزید بن سوید ازدی : کا بیان ہے کہ سوید بن حارث نے کہا: میں اپنے قبیلہ کی ساتویں فرد تھا کہ رسول خدا(ص) کی خدمت میں وارد ہوا، رسول خدا(ص): میرے طور طریقہ سے خوش ہوئے اور فرمایا: تم لوگ کیسے ہو؟ ہم نے کہا: ہم مومن ہیں، رسول خدؐا مسکرائے اور فرمایا: ہر قول کی ایک حقیقت ہوتی ہے اور تمہارے ایمان کی حقیقت کیا ہے ؟ سوید کہتاہے کہ ہم نے کہا: پندرہ خصلتیں ہیں، پانچ خصلتوں کا آپ کے نمائندوں نے حکم دیا کہ ہم ان پر ایمان لے آئے، اور پانچ خصلتوں کے متعلق حکم دیا کہ ہم ان پر عمل کریں اور پانچ خصلتیں زمانہ جاہلیت میں ہمارے اندر تھیں اب بھی ہم ان پر عمل پیرا ہیں مگر یہ کہ آپ ان میں جس کو ناپسند کریں۔

رسول خدا ؐ نے فرمایا: وہ پانچ خصلتیں کیا ہیں جن پر ایمان لانے کامیرے نمائندوں نے تمہیں حکم دیا ہے؟ ہم نے کہا: یہ کہ ہم خدا پر، اس کے فرشتوں پر، اسکی کتابوںپر، اس کے انبیاء اور مرنے کے بعد زندہ ہونے پر ایمان لے آئےں۔

فرمایاؐ: پانچ خصلتیں جن پر عمل کرنے کا میرے نمائندوں نے تمہیں حکم دیا ہے؟ ہم نے کہا: لا الٰہ الا اللہ و محمد رسول اللہ؛ ہم نمازقائم کریں ، زکات ادا کریں ، حج خانہ خدا بجالائیں، اور ماہ رمضان کا روزہ رکھیں ؛ اور فرمایا:ؐ وہ پانچ خصلتیں کہ زمانہ جاہلیت میں جن کے عادی ہو چکے تھے وہ کیا ہیں؟ ہم نے کہا: عیش و آرام پر شکر، مصیبت پر صبر، دشمن سے مقابلہ کے وقت صبر (ثابت قدمی)، راضی بقضائے الٰہی اور دشمنوں کی ملامت و سرزنش کے وقت صبر۔ تو رسول خدا(ص) نے فرمایا: قریب تھا کہ بردبار علماء اپنی صداقت کی بناپر انبیاء ہو جائیں۔

۲۳۸

ساتویں فصل دوسری جاہلیت

۷/۱

پیچھے کی طرف پلٹنا

قرآن

(اور محمد صرف اللہ کے رسول ہیں جن سے پہلے بہت سے رسول گذر چکے ہیں کیا اگر وہ مر جائیں یا قتل ہو جائیں توتم الٹے پیروں پلٹ جاؤگے تو جو بھی ایسا کریگا وہ خدا کا کوئی نقصان نہیں کریگا اور خدا تو عنقریب شکر گذاروںکو ان کی جزا دیگا)

حدیث

۱۲۱۳۔ امام باقر(ع): نے اس آیت:(اور پہلی جاہلیت جیسا بناؤ سنگارنہ کرو)کی تفسیر کے سلسلہ میں فرمایا: عنقریب دوسری جاہیت آنے والی ہے۔

۱۲۱۴۔ رسول خدا(ص): میں دو جاہلیتوں کے درمیان مبعوث ہوا ہوں، دوسری جاہلیت پہلی سے بدتر ہے ۔

۱۲۱۵۔ رسول خدا(ص): قیامت برپا نہیں ہوگی جب تک کہ علم محدود نہ ہو جائے۔

۱۲۱۶۔ رسول خدا(ص): آثار قیامت میں سے علم کا کم ہونا اور جہالت کا آشکار ہونا ہے ۔

۱۲۱۷۔ رسول خدا(ص): قیامت کی نشانیوں میں سے علم کا اٹھ جانا اور جہالت کاراسخ ہونا ہے ۔

۲۳۹

۱۲۱۸۔ رسول خدا(ص): بیشک قیامت سے قبل کچھ ایسے دن آئیں گے جن میں جہالت پھیلیگی اور علم اٹھا لیا جائیگا۔

۱۲۱۹۔ امام علی (ع): یا درکھو! تم نے اپنے ہاتھوں کو اطاعت کے بندھنوں سے جھاڑ لیا ہے اور اللہ کی طرف سے اپنے گرد کھنچے ہوئے حصار میں جاہلیت کے احکام کی بنا پر رخنہ پیدا کر دیا ہے ۔ اللہ نے اس امت کے اجتماع پر یہ احسان کیا ہے کہ انہیں الفت کی ایسی بندشوں میں گرفتار کر دیا ہے کہ اسی کے زیر سایہ سفر کرتے ہیں اور اسی کے پہلو میں پناہ لیتے ہیں اور یہ وہ نعمت ہیں جس کی قدر و قیمت کو کوئی بھی نہیںسمجھ سکتا ہے اس لئے کہ ہر قیمت سے بڑی قیمت اور شرف و کرامت سے بالاتر کرامت ہے ، اور یاد رکھو! کہ تم ہجرت کے بعد پھر صحرائی بدو ہو گئے ہو اور باہمی دوستی کے بعد پھر گروہوں میں تقسیم ہو گئے ہو، تمہارا اسلام سے رابطہ صرف نام کارہ گیا ہے اور تم ایمان میں سے صرف علامتوں کو پہچانتے ہو۔

۷/۲

جاہلیت کی طرف پلٹنے کے اسباب

الف: امام کی عدم معرفت

۱۲۲۰۔ رسول خدا(ص): جو شخص امام کے بغیر مرا اسکی موت جاہلیت کی موت ہے۔

۱۲۲۱۔ رسول خدا(ص): وہ شخص جو مر جائے اور اس کے اوپر کوئی امام نہ ہو اسکی موت، جاہلیت کی موت ہے۔

۱۲۲۲۔ رسول خدا(ص): وہ شخص جو مر جائے اور اپنے امام کو نہ پہچانتا ہو اسکی موت ،جاہلیت کی موت ہے۔

۱۲۲۳۔ رسول خدا(ص): وہ شخص جس کو اس عالم میں موت آئے کہ اسکی گردن پر کسی(امام )کی بیعت نہ ہو اسکی موت جہالت کی موت ہے۔

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258