عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں

عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں23%

عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 258

عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 258 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 138897 / ڈاؤنلوڈ: 5394
سائز سائز سائز
عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں

عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

دوسری فصل عقل کی قیمت

۲/۱

خدا کا تحفہ

۳۱۔ رسول خدا(ص): عقل خدا کا تحفہ ہے ۔

۳۲۔ امام علی(ع) : عقلیں عطایا ہیں ، آداب کسبی ہیں۔

۳۳۔ امام علی(ع) : عقل فطری چیز ہے اور علم کسبی ہے ۔

۳۴۔ امام علی(ع) : جب خدا اپنے بندہ کی بھلائی چاہتا ہے تو اسے پائدار عقل اور صحیح کردار سے نوازتا ہے ۔

۳۵۔ امام علی(ع) : جب خدا کسی انسان کو پائدار عقل اور صحیح کردار عطا کرتا ہے تو اس پر اپنی نعمتوں کو فراوان اور اپنے احسان کو زیادہ کرتا ہے ۔

۳۶۔ ابو ہاشم جعفری: میں امام رضا - کی خدمت میں حاضر تھا۔ عقل کا ذکر چھڑ گیاتو آپؑ نے فرمایا: اے ابو ہاشم! عقل خدا کا عطیہ ہے ...جو شخص زحمت سے خود کو عقلمند بنانا چاہتا ہے اس کے اندر جہالت کے سوا اور کسی چیز کا اضافہ نہیں ہوتا۔

۳۷۔ سنن ادریس ؑ میں ہے جب خدا اپنے بندوں کو دوست رکھتا ہے تو انہیں عقل سے سر فراز کرتا ہے اور اپنے انبیاء و اولیاء کو روح القدس سے مخصوص کیا ہے ۔

۲۱

۲/۲

بہترین عطیہ

۳۸۔ رسول خدا(ص): خدا نے بندوں کے درمیان کوئی چیز عقل سے افضل تقسیم نہیںکی ہے ۔لہذا عقلمند کا سونا جاہل کے جاگنے سے بہتر ہے ، عاقل کا کھڑا رہنا جاہل کے چلنے سے افضل ہے خدا نے کسی نبی یا رسول کو اس وقت بھیجا جب ان کی عقل کامل اور تمام امت(والوں) کی عقلوں سے بہتر ہو گئی، جو کچھ نبی اپنے اندر پوشیدہ رکھتا ہے وہ کوشش کرنے والوںکی کوششوں سے افضل ہے اور بندہ الٰہی فرائض کو اس وقت انجام دیتا ہے جب انہیں سمجھ لیتا ہے ۔ سارے عبادتگذار اپنی کثرت عبادت کے سبب عقلمند کے مرتبہ کو نہیں پاسکتے عقلاء ہی اولو الالباب (صاحبان عقل) ہیں۔ خدا نے ان کے بارے میں فرمایا ہے (وما یذکر الا اولو الالباب) صرف صاحبان عقل ہی وعظ و نصیحت کو قبول کرتے ہیں۔

۳۹۔ رسول خدا(ص): بابرکت ہے وہ (ذات) جس نے اپنے بندوںکے درمیان عقل کو مختلف پیرا یوںمیں تقسیم کیا ہے ۔ کبھی دو انسانوںکے کردار، نیکیوں ، روزوں اور نمازوں کے لحاظ سے برابر ہو جاتے ہیں لیکن عقل کے اعتبار سے دونوں میں اتنا ہی فرق ہوتا ہے جتناذرہ اور کوہِ احد میں ہے۔ خدا نے اپنی مخلوق کے درمیان عقل سے بہتر کوئی حصہ تقسیم نہیںکیاہے۔

۴۰۔ تاریخ یعقوبی: رسول خدا(ص) سے پوچھا گیا: بندہ کو سب سے بہتر کون سی چیز عطا کی گی ئ ہے ؟ فرمایا: عقل فطری جو پیدا ئشی ہوتی ہے ۔ پھر پوچھا گیا۔ اگر کوئی اس سے بہرہ مند نہ ہو؟ فرمایا: عقل کسب کرے۔

۴۱۔ جامع الاحادیث: امیر المومنینؑ سے پوچھا گیا کہ ا نسان کو سب سے افضل جو چیز عطا کی گئی ہے وہ کیا ہے ؟فرمایا: عقل فطری پوچھا گیا: اگر عقل فطری نہ ہو؟ فرمایا:وہ بھائی ہے کہ جس سے مشورہ کیا جائے۔

۲۲

پھر پوچھاگیا: اگر یہ بھی نہ ہو؟ فرمایا: بزم میں خاموش رہے پوچھا گیا: اگر یہ بھی نہ ہو؟ فرمایا :موت سر پہ ہے۔

۴۲۔ امام علی(ع) : بہترین عطیہ عقل ہے ۔

۴۳۔ امام علی(ع) : کامل نعمتوںکی نشانی عقل کی فراوانی ہے ۔

۴۴۔ امام علی(ع) : سب سے افضل نعمت عقل ہے ۔

۴۵۔ امام علی(ع) : انسان کا سب سے بہترین حصہ اسکی عقل ہے ۔ اگر اسکی رسوائی ہوتی ہے تو عقل اسے عزت بخشتی ہے اگر وہ پستی کی طرف جاتا ہے تو عقل اسے رفعت عطا کرتی ہے اور اگر گمراہ ہوتا ہے تو عقل اسکی ہدایت کرتی ہے اور اگر کچھہ کہتا ہے تو عقل اسکی حفاظت کرتی ہے ۔

۴۶۔ امام علی(ع) : عقل سے بہتر کوئی نعمت نہیں۔

۴۷۔ امام حسن (ع): عقل بندوںکے لئے خدا کا بہترین عطیہ ہے کیوں کہ یہ دنیوی آفات سے نجات اور آخرت میں عذاب دوزخ سے سلامتی کا باعث ہے ۔

۴۸۔ امام علی(ع) : آپ سے منسوب دیوان میں ہے : خدا کی طرف سے انسان کے لئے بہترین حصہ اسکی عقل ہے نیکیوں میں سے کوئی بھی نیکی اس کے مرتبہ کو نہیںپہنچ سکتی ۔ جب رحمن انسان کی عقل کو کامل کرتا ہے تو اسکی بصیرت و اخلاق بھی کامل ہو جاتے ہیں۔

۲۳

۲/۳

انسان کی اصل

۴۹۔ رسول خدا(ص): اے گروہ قریش! انسان کا حسب اس کا دین ہے ، اسکی جوانمردی اس کا اخلاق ہے اور اسکی عقل اسکی اصل ہے ۔

۵۰۔ امام علی(ع) : انسان کی اصل اسکی عقل ہے ، اسکی عقل اس کا دین ہے اور ہر ایک کی جوانمردی یہ ہے کہ وہ خود کو کہاں قراردیتاہے ۔

۵۱۔ امام علی(ع) : ہوشیار انسان کی اصل اسکی عقل ہے۔ اسکی جوانمردی اسکا اخلاق ہے۔ اور اسکا دین اسکا حسب ہے ۔

۵۲۔ امام صادق ؑ: انسان کی اصل اسکی عقل ہے ، اسکی شرافت دین اورعظمت تقوے سے ہے تمام انسان آدم کی اولاد کے ہونے اعتبار سے برابر ہےں۔

۵۳۔ امام علی(ع) : انسان عقل و صورت کا مجموعہ ہے ، بے عقل شخص جو صرف انسان کی صورت رکھتا ہے کامل نہیں ہے اور بے جان مخلوق کی طرح ہے جو تجربی عقل کی جستجو کرتا ہے اسے چاہئے کہ اصول اور فصول (حواشی) کو بھی جانے ، کتنے لوگ ایسے ہیں جو فصول کی تلاش میں ہیں اور اصول کو نظر انداز کرتے ہیں، جس نے اصول کو حاصل کر لیا وہ فضول چیزوں سے بے نیاز ہو گیا۔

۵۴۔ امام علی(ع) : انسان کی عقل اس کا نظام ہے ، ادب اس کا استحکام ہے صداقت اس کا پیشوا ہے اور شکر اس کا کمال ہے ۔

۵۵۔ امام صادق(ع): عقل انسان کا پشت پناہ ہے عقل سے ہوشیاری، فہم ،حفظ اور علم حاصل ہوتا ہے عقل سے انسان کمال تک پہنچتا ہے عقل ہی انسان کا راہنما، بصیرت دینے والی اور اسکے ہر کام کی کنجی ہے ۔

۲۴

۲/۴

انسان کی قیمت

۵۶۔ ابن عباس رسول خدا(ص) سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: انسانوں میں سب سے افضل سب سے زیادہ عقلمند انسان ہے ، ابن عباس نے کہا اور وہ آپکا نبی ہے ۔

۵۷۔ امام علی(ع) : ہر انسان کی قیمت اسکی عقل کے مطابق ہے ۔

۵۸۔ امام علی(ع) : ہر انسان کی قیمت کا اندازہ اس کے علم و عقل سے ہوتا ہے ۔

۵۹۔ امام علی(ع) : انسان اپنی عقل کا رہین منت ہے۔

۶۰۔ امام علی(ع) : انسان کی فضیلت کا عنوان عقل اور اس کا حسن اخلاق ہے ۔

۶۱۔ امام علی(ع) : انسان کی فضیلت عقل سے ہے ۔

۶۲۔ امام علی(ع) : انسان کی دو فضیلتیں ہیں: عقل اورزبان، عقل سے فائدہ حاصل کرتا ہے اورزبان سے فائدہ پہنچاتا ہے ۔

۶۳۔ امام علی(ع) :، فضائل کی انتہا عقل ہے ۔

۶۴۔ امام علی(ع) : اعلیٰ ترین رتبہ عقل ہے۔

۶۵۔ امام علی(ع) : بزرگی و شرافت عقل و ادب سے ہے نہ کہ مال اور حسب سے ۔

۶۶۔ امام علی(ع) : انسان کا امتیاز اسکی عقل کی بدولت ہے اور حسن و جمال اسکی دلیری ہے ۔

۲۵

۲/۵

اسلام کا پہلا پایہ

۶۷۔ امام علی(ع) ـ:اسلام کے سات ستون ہیں: پہلا ستون عقل جس پر صبر کا دار و مدار ہے، دوسرا ستون، آبرو مندی اور صداقت ہے ، تیسرا ستون،رائج طریقہ کے مطابق تلاوت قرآن، چوتھا ستون ، دوستی و دشمنی خدا کے لئے ہو ، پانچواں ستون، آل محمد کی ولایت کی معرفت اور ان کے حقوق کی رعایت، چھٹا ستون : دوستوں اور بھائیوں کی حمایت اور ان کے حقوق کی رعایت۔ ساتواں ستون: لوگوںکے ساتھ حسن سلوک۔

۲/۶

انسان کا دوست

۶۸۔ امام علی(ع) : اپنے فرزند امام حسن سے وصیت میں فرمایا: بیٹا! عقل انسان کا دوست ہے ۔

۶۹۔ امام علی(ع) : انسان اپنی معلومات کا دوست ہے ۔

۷۰۔ امام علی(ع) : عقل ایسا دوست ہے جس سے رابطہ ٹوٹ جاتا ہے اور خواہشات ایسا دشمن ہے کہ جس کی پیروی کی جاتی ہے ۔

۷۱۔امام علی(ع) : عقل قابل تعریف دوست ہے ۔

۷۲۔ امام علی(ع) : عقل بہترین ساتھی ہے ۔

۷۳۔ امام رضا(ع): ہر انسان کا دوست اسکی عقل ہے اور اس کا دشمن اسکی جہالت ہے ۔

۲۶

۲/۷

مومن کا دوست اور رہنما

۷۴۔ رسول خدا(ص): علم مومن کا دوست، عقل اس کا رہنما، عمل اس کا سر پرست، بردباری اس کا وزیر، صبر اس کے لشکر کا امیر، مہربانی اس کا باپ، اور نرمی اس کا بھائی ہے ۔

۷۵۔ امام علی(ع) : عقل مومن کا دوست ہے ۔

۷۶۔ امام علی(ع) : حسن عقل بہترین رہبرہے ۔

۷۷۔ امام صادق(ع): عقل، مومن کا رہنما ہے ۔

۲/۸

مومن کا پشت پناہ

۷۸۔ رسول خدا(ص): ہر چیزکے لئے ایک پشت پناہ ہے اور مومن کا پشت پناہ اسکی عقل ہے لہذا مومن اپنی عقل کے مطابق اپنے پروردگار کی عبادت کرتاہے ۔

۷۹۔ رسول خدا(ص): گھر کا دار و مداراسکی بنیادپر ہے ، دین کا ستون خدا وند متعال کی معرفت ، اسکی وحدانیت کایقین اور عقل قامع ہے ۔ لوگوں نے پوچھااے رسول خدا! قامع کیا ہے ؟ فرمایا: گناہوں سے پرہیز، اطاعت خدا کا شوق اور اس کے تمام احسانات و نعمات اور نیک آزمائش پر شکر کرنا ہے ۔

۲۷

۸۰۔ رسول خدا(ص): ہر چیز کے لئے اوزار اور طاقت کی ضرورت ہوتی ہے اور مومن کا اوزار طاقت وعقل ہے ہر تاجر کا ایک سرمایہ ہوتا ہے اور مجتہدین کا سرمایہ عقل ہے ہر ویرانہ کے لئے آبادی ہے اور آخرت کی آبادی عقل ہے ۔ ہر سفر میں پناہ کےلئے خیمہ نصب کیا جاتا ہے اور مسلمانوںکا خیمہ عقل ہے ۔

۸۱۔ امام علی(ع) : مومن ہشیار و عقلمند ہوتا ہے ۔

۲/۹

بہترین زینت

۸۲۔ امام علی(ع) : بہترین زینت عقل ہے اور بلدترین رتبہ علم ہے ۔

۸۳۔ امام علی(ع) : عقل سے زیادہ خوبصورت کوئی جمال نہیں۔

۸۴۔ امام علی(ع) : سب سے اچھازیور عقل ہے ۔

۸۵۔امام علی(ع) : مرد کی زینت اسکی عقل ہے ۔

۸۶۔ امام علی(ع) : عقل زینت ہے جہالت رسوائی ہے ۔

۸۷۔ امام علی(ع) : عقلمند کی زینت عقل ہے ۔

۸۸۔ امام علی(ع) : عقل ایسا نیا لباس ہے جو کہنہ نہیں ہوتا۔

۸۹۔ امام علی(ع) : انسان کا حسب اس کا علم ہے اور اس کا جمال اسکی عقل ہے ۔

۹۰۔ امام علی(ع) : حسن عقل ظاہر اور باطن کی زینت ہے ۔

۹۱۔ امام علی(ع) : وہ شخص کامیاب نہیںہو سکتا کہ جس کو اسکی عقل نہ سنوار سکے۔

۹۲۔ امام علی(ع) : دین کی زینت عقل ہے ۔

۲۸

۹۳۔ امام عسکری(ع): چہرے کا حسن ، ظاہری جمال ہے اور عقل کا حسن ، باطنی جمال ہے ۔

۹۴۔ اما م علیؑ: آپ سے منسوب دیوان میںہے۔

جوان لوگوں کے درمیان عقل کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہے اس کا علم اور تجربہ عقل کے مطابق ہوتا ہے۔

صحیح عقل جوان کو لوگوںکے درمیان زینت عطا کرتی ہے، چاہے اس کا کار و بار بے رونق ہو۔

اور کم عقلی جوان کو لوگوں کے درمیان رسوا کرتی ہے چاہے اس کا خاندان کا منصب کتنا ہی بلند کیوںنہ ہو۔

۲/۱۰

سب سے بڑی بے نیازی

۹۵۔رسول خدا(ص): جہالت سے بڑھکر کوئی فقر نہیں اور عقل سے زیادہ منفعت بخش کوئی سرمایہ نہیں ہے۔

۹۶۔ امام علی(ع) : عظیم ترین بے نیازی عقل ہے ۔

۹۷۔ امام علی(ع) : سب سے عظیم بے نیازی عقل ہے جو دنیا وآخرت میں سب سے بلند رتبہ شمار ہوتی ہے ۔

۹۸۔ امام علی(ع) : سب سے بڑی بے نیازی عقل ہے ۔

۹۹۔ امام علی(ع) : عقل سے زیادہ نفع بخش کوئی سرمایہ نہیںہے۔

۱۰۰۔ امام علی(ع) : عقل کی بے نیازی کافی ہے ۔

۱۰۱۔ امام علی(ع) : عقل جیسی کوئی بے نیازی نہیںہے۔

۱۰۲۔ امام علی(ع) : کوئی عقلمند نادارنہیں۔

۱۰۳۔ امام علی(ع) : آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے : سب سے زیادہ گرانبہا سرمایہ ایسی عقل ہے جو سعادت سے نزدیک ہو ۔

۲۹

۱۰۴۔ امام صادق(ع): کوئی بے نیازی عقل سے بہتر نہیں ، کوئی فقر بیوقوفی سے بدتر نہیںہے۔

۲/۱۱

علم محتاجِ عقل ہے

۱۰۵۔ امام علی(ع) : آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے ۔ عقل صاحب عقل کے لئے ہر گز ضرر رساں نہیں اور عقل کے بغیر علم کے صاحب علم کے لئے نقصاندہ ہے ۔

۱۰۶۔ اما م علی(ع) : ہر وہ علم جس کی حمایت عقل نہ کرے گمراہی ہے ۔

۱۰۷۔ امام علی(ع) : ہر وہ شخص جس کا علم اسکی عقل سے زیادہ ہوتاہے وہ علم اس کے لئے وبال ہوجاتاہے۔

۱۰۸۔ امام علی(ع) : بندوں پر خدا کی سب سے بڑی بخشش علم ، عقل ،بادشاہت، اور عدل ہے ۔

۱۰۹۔ امام علی(ع) : کوئی چیز اس عقل سے بہتر نہیںجو علم کے ہمراہ ہو، اس علم سے افضل نہیں جو حلم کے ساتھ ہو اور اس حلم سے برترنہیں جو قدرت کے ساتھ ہو۔

۱۱۰۔ امام علی(ع) : آپ ؑ سے منسوب دیوان میں ہے ۔

اگر تم صاحب علم ہو اور صاحب عقل نہیں ہو تو اس شخص کے مانند ہو کہ جسکے پاس جوتیاں ہوںلیکن پیر نہ ہوں

اگر عقلمند ہو اورعلم سے عاری ہوتو اس شخص کی طرح ہو کہ جس کے پیر ہوںلیکن جوتے نہ ہوں

دیکھو! ایسا انسان اپنی عقل کا نیام ہے اور تیر کے بغیر ترکش بے سود ہوتاہے ۔

۳۰

۲/۱۲

نادر اقوال

۱۱۱۔ رسول خدا(ص): اللہ نے عقل کو اپنے اس ذخیرئہ نور سے پیدا کیا ہے جو اس کے علم سابق میں مخفی تھا کہ جس کی کسی نبی مرسل اور ملک مقرب کو اطلاع نہ تھی۔ پھر علم کو عقل کا نفس، فہم کو اسکی روح، زہد کو اس کا سر، حیاء کو اسکی آنکھیں، حکمت کو اسکی زبان، مہربانی کو اس کا منہ، اور رحمت کو اس کا دل قرار دیا۔ اس کے بعد عقل کی ان دس چیزوں یقین، ایمان، صداقت، سکون، اخلاص، مہربانی ،عطیہ، قناعت، تسلیم اور شکر کے ذریعہ اس کی تقویت کی۔

۱۱۲۔ امام علی(ع) : عقلیں ذخیرہ اور اعمال خزانے ہیں۔

۱۱۳۔ امام علی(ع) : عقل قوی ترین بنیاد ہے ۔

۱۱۴۔ امام علی(ع) : عقل تقرب کا باعث اور جہالت دوری کا سبب ہے ۔

۱۱۵۔ امام علی(ع) : عقل بہترین امید ہے ۔

۱۱۶۔ امام علی(ع) : عقل اچھی فکر کا باعث ہے ۔

۱۱۷۔ امام علی(ع) : عقل گرانقدر شرف ہے جو نابود نہیں ہوتا۔

۱۱۸۔ امام علی(ع) : انسان کارشد اسکی عقل سے ہے ۔

۱۱۹۔ امام علی(ع) : خدا وند سبحان کے نزدیک آگاہ عقل اور (آلودگیوں) سے پاک نفس سے زیادہ کوئی چیز سر خرو نہ ہوگی۔

۱۲۰۔ امام علی(ع) : انسان کا حسب اسکی عقل ہے اور اسکی جوانمردی اس کا اخلاق ہے ۔

۱۲۱۔ امام علی(ع) : انسان کے کمال کی انتہاء اسکی صحیح عقل ہے ۔

۳۱

۱۲۲۔ امام علی(ع) : ہر چیز کی ایک انتہاء ہوتی ہے اور انسان کی انتہاء اسکی عقل ہے ۔

۱۲۳۔ امام علی(ع) : خدا وند سبحان پائدار عقل اور صحیح کام کو پسند کرتا ہے ۔

۱۲۴۔ امام علی(ع) : عقل دھوکا نہیں کھاتی۔

۱۲۵۔امام علی(ع) : عقل شفاء ہے ۔

۱۲۶۔ امام علی(ع) :عقل شمشیر براں ہے ۔

۱۲۷۔ امام علی(ع) : کوئی بھی عدم، عدم عقل سے بدتر نہیں۔

۱۲۸۔ امام علی(ع) : عقل کے بغیر دین کی اصلاح نہیں ہو سکتی ۔

۱۲۹۔ امام علی(ع) : عقل کا فوت ہونا بد بختی ہے ۔

۱۳۰۔ اما م علی(ع) : کوئی بھی بیماری کم عقلی سے زیادہ تکلیف دہ نہیںہے۔

۱۳۱۔ امام علی(ع) : ادب جب تک عقل کے ساتھ نہ ہو مفید نہیںہے۔

۱۳۲۔ اما م حسن (ع): آگاہ ہو جاؤ! عقل پناہگاہ ہے اور بردباری زینت ہے۔

۱۳۳۔ اما م کاظم (ع):نے ہشام بن حکم سے فرمایا اے ہشام! لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا۔ اے فرزند! دنیا ایسا گہرا سمندر ہے کہ جس میں بے شمار مخلوق غرق ہو چکی ہے۔ لہذا کوشش کرو کہ اس میں تمہاری کشتی ، تقوائے الٰہی، اس کا ساحل ایمان، بادبان(خدا پر) توکل، ناخدا عقل ،رہنما علم اورسوار صبرہو۔

۳۲

تیسری فصل تعقل

۳/۱

تعقل کی تاکید

قرآن

(اسی طرح پروردگار اپنی آیات کو بیان کرتا ہے کہ شاید تمہیں عقل آجائے۔)

(وہی وہ ہے جو حیات و موت کا دینے والا ہے اور اسی کے اختیار میں دن و رات کی آمد و رفت ہے تم عقل کو کیوںنہیں استعمال کرتے ہو۔)

(خدا اسی طرح مردوں کو زندہ کرتا ہے اور تمہیںاپنی نشانیاں دکھاتا ہے کہ شاید تمہیں عقل آجائے۔)

(بیشک ہم نے تمہاری طرف وہ کتاب نازل کی ہے جسمیں خو د تمہارا بھی ذکر ہے تو کیا تم اتنی بھی عقل نہیںرکھتے ہو۔)

ملاحظہ کریں: بقرہ : ۱۶۴، انعام : ۳۲،۱۵۱، اعراف: ۱۶۹، ھود: ۵۱، یوسف :۲،۱۰۹، رعد: ۴،نحل : ۱۲، ۶۷ حج: ۴۶، نور: ۶۱، قصص:۶۰، عنکبوت: ۳۵، روم:۲۴و ۲۸، یس ۶۲، ۶۸، ص:۲۹، غافر:۶۷و۷۰، زخرف: ۳، جاثیہ ۵و۱۳، حدید: ۱۷۔

۳۳

حدیث

۱۳۴۔ رسول خدا(ص): عقل سے راہنمائی حاصل کرو تاکہ ہدایت یافتہ ہو جاؤ، عقل کی نافرمانی نہ کرو ورنہ پشیمان ہوگے۔

۱۳۵۔ رسول خدا(ص): بہترین چیز جس سے خدا کی عبادت و بندگی ہوتی ہے وہ عقل ہے ۔

۱۳۶۔ رسول خدا(ص): دنیا و آخرت میںتمام اعمال کا پیشوا عقل ہے ۔

۱۳۷۔ ابن عمر رسول خدا سے نقل کرنے ہیں کہ آپؐ نے آیت(تبارک الذی بیده الملک) کو(ایکم احسن عملا) تک پڑھا، پھر فرمایا: تم میں سب سے بہترین عمل والا وہ شخص ہے جس کی عقل سب سے بہتر ہے اور سب سے زیادہ محرمات خدا سے پرہیز کرنے والا اور طاعت خدا میںسب سے زیادہ جلدی کرنے والا ہے ۔

۱۳۸۔ رسول خدا(ص): نے اپنی وصیت میں ابن مسعود سے فرمایا: اے ابن مسعود! جب بھی کوئی کام انجام دو تو علم و عقل کے معیار پر انجام دو اور تدبر و علم کے بغیر کام انجام نہ دو اس لئے کہ خدا وند متعال کا ارشاد ہے(اس عورت کے مانند نہ ہو جاؤ کہ جس نے اپنے دھاگوںکو مضبوط و محکم بنانے کے بعد خود ہی توڑ ڈالا ہو)

۱۳۹۔ رسول خدا(ص) :دور جاہلیت کے تمہارے بہترین افراد، اسلام میں بھی تمہارے بہترین افراد ہیں اگر غور و فکر سے کام لیں۔

۱۴۰۔ رسول خدا(ص): رسولوں کے بعد اہل جنت کا سردارسب سے زیادہ عقلمند شخص ہوگا۔ اور لوگوں میں سب سے افضل انسان وہ ہے جوان میں زیادہ عقلمند ہے ۔

۳۴

۱۴۱۔ رسول خدا(ص): اے علی ! جب لوگ نیک اعمال کے ذریعہ خدا سے تقرب حاصل کریں تو تم عقلمندی کو اپنا شعار بنا لیناکہ اس کے ذریعہ تم خدا کا تقرب اور دنیوی و اخروی درجات کو پا لوگے۔

۱۴۲۔ عطا: ابن عباس عائشہ کے پاس گئے اور کہا اے ام المومنین، ایک شخص معمولی شب زندہ داری کرتا ہے اور زیادہ سوتا ہے دوسرا شخص بیشتر شب زندہ داری کرتا ہے اور کم سوتا ہے آپکی نظر میں کون زیادہ محبوب ہے ؟! عائشہ نے کہا:(میں نے یہی سوال رسول خدا(ص) سے پوچھا) تو آپؐ نے فرمایا: جسکی عقل زیادہ بہتر ہو، میں نے کہا: یا رسول اللہ ؐمیں آپ سے ان دونوں کی عبادت کے متعلق سوال کررہی ہوں؟ تو آنحضرت نے فرمایا : اے عائشہ ان دونوں سے انکی عقل کے مطابق سوال کیا جائیگا، جو زیادہ عقل مند ہے وہی دنیا و آخرت میں افضل ہے ۔

۱۴۳۔ ابو ایوب انصاری رسول خدا(ص) سے نقل کرتے ہیںکہ آپؐ نے فرمایا: دو شخص وارد مسجد ہوئے دونوں نے نماز پڑھی جب وہ پلٹے تو ایک کی نما ز کا وزن کوہ احد کے سے زیادہ تھا جبکہ دوسرے کی نمازکا وزن ایک ذرہ کے برابر بھی نہیںتھا ، ابو حمید ساعدی نے پوچھا: اے رسول خدا(ص)!ایسا کیوںہے ؟ فرمایا:ایسا اس وقت ہوتا ہے جبکہ ان دونوں میں سے ایک محرمات الٰہی سے زیادہ پرہیز کرتا ہو اور کار خیر کی طرف جلدی کرنے میں زیادہ دلچسپی ہو اور چاہے مستحبات میں دوسرے سے پیچھے ہی کیوں نہ ہو۔

۱۴۴۔ خدا ئے تبارک و تعالیٰ: حدیث معراج میں فرماتا ہے ، اے احمد! عقل کے زائل ہونے سے پہلے اسے استعمال کرو، جو عقل سے کام لیتاہے وہ نہ خطا کرتا ہے اور نہ سرکشی ۔

۳۵

۱۴۵۔ امام علی(ع) : بیشتر تفکر اور غور خوض کثرت تکرار اور تحصیل علم سے زیادہ مفید ہے ۔

۱۴۶۔ امام علی(ع) : عقل سے راہنمائی حاصل کرو اور خواہشات کی مخالفت کرو کامیاب ہوجاؤگے۔

۱۴۷۔ امام علی(ع) : عقل بلند ہستیوں تک پہنچنے کا زینہ ہے ۔

۱۴۸۔ امام علی(ع) : انسان کا رتبہ اسکی عقل کے مطابق ہے ۔

۱۴۹۔ امام علی(ع) : انسان کا کمال اسکی عقل کی وجہ سے ہے اور اسکی قیمت اسکی فضیلت کی بنا پر ہے ۔

۱۵۰۔ امام علی(ع) : انسان کا کمال عقل سے ہے ۔

۱۵۱۔ امام علی(ع) : خوبصورتی کا تعلق زبان سے اور کمال کا تعلق عقل سے ہے ۔

۱۵۲۔ امام علی(ع) : لوگ ایک دوسرے پرعلم و عقل کے ذریعہ فضیلت رکھتے ہیں نہ کہ اموال و حسب کے ذریعہ۔

۱۵۳۔ امام علی(ع) : جہالت سے اتنی ہی بے رغبتی ہوتی ہے جتنی عقل سے رغبت ہوتی ہے ۔

۱۵۴۔ امام علی(ع) : جو شخص عقل سے نصیحت لیتا ہے اسے یہ دھوکا نہیں دیتی۔

۱۵۵۔ امام علی(ع) : جو شخص عقل سے مدد چاہتا ہے اسکی یہ مدد کرتی ہے ۔

۱۵۶۔ امام علی(ع) ــ: جو شخص عقل سے راہنمائی حاصل کرتا ہے اسکی یہ راہنمائی کرتی ہے ۔

۱۵۷۔ امام علی(ع) : جو شخص اپنی عقل سے عبرت حاصل کرتا ہے راستہ پا جاتا ہے ۔

۱۵۸۔ امام علی(ع) : جو اپنی عقل کا مالک ہو جاتا ہے وہ حکیم ہے ۔

۱۵۹۔ امام علی(ع) : عقل عیوب کا پردہ ہے۔

۳۶

۱۶۰۔ امام کاظم (ع):نے ہشام بن حکم سے فرمایا: اے ہشام! اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی کتاب میں صاحبان عقل و فہم کو بشارت دی ہے پس فرمایا: (میرے ان بندوںکو بشارت دے دیجئے جو باتوں کو سنتے ہیں اور جو بات اچھی ہوتی ہے اسکی اتباع کرتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جنہیںخدا نے ہدایت دی ہے اور یہی وہ لوگ ہےں جو صاحبان عقل ہیں)

اے ہشام! خدا وند عالم نے لوگوں پر اپنی دلیلوں کو عقل کے ذریعہ مکمل کیا ہے ، (قوتِ ) بیان کے ذریعہ انبیاء کی مدد اور برہان کے ذریعہ اپنی ربوبیت کی طرف انکی راہنمائی کی ہے۔ فرمایا: (تمہارا معبود ایک معبود ہے نہیں کوئی معبود مگر اس رحمن و رحیم کے، بیشک زمین و آسمان کی خلقت، روز و شب کی رفت و آمد، ان کشتیوں میں جو دریاؤں میں لوگوں کے فائدہ کےلئے چلتی ہیں، اور اس پانی میں جسے خدانے آسمان سے نازل کرکے اسکے ذریعہ مردہ زمینوں کو زندہ کر دیا ہے اور اس میں طرح طرح کے چوپائے پھیلا دئیے ہیں اور ہواؤں کے چلنے میں اور آسمان و زمین کے درمیان مسخر کئے جانے والے بادل میں صاحبان عقل کےلئے اللہ کی نشانیاں پائی جاتی ہیں)

اے ہشام! خدا نے بعنوان مدبراپنی معرفت کےلئے ان چیزوں کو نشانی قرار دیا ہے (اور اس نے تمہارے لئے رات و دن اور آفتاب و ماہتاب سب کو تمہارا تابع کر دیا ہے اور ستارے بھی اسی کے حکم کے تابع ہیں بیشک اس میں بھی صاحبان عقل کےلئے قدرت کی بہت سی نشانیاں پائی جاتی ہیں)اور فرمایا:(وہی خدا ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفے سے پھر علقہ سے پھر تم کو بچہ بنا کر باہر لاتا ہے پھر زندہ رکھتا ہے کہ توانائیوں کو پہنچو پھر بوڑھے ہو جائے اور تم میں سے بعض کو پہلے ہی اٹھا لیا جاتا ہے اور تم کو اس لئے زندہ رکھتا ہے کہ اپنی مقررہ مدت کو پہنچ جاؤ اور شاہد تمہیں عقل بھی آجائے)خدا فرماتا ہے (اور رات و دن کی رفت و آمد میں اور جو رزق خدا نے آسمان سے نازل کیا ہے جسکے ذریعہ مردہ زمینوں کو زندہ کر دیا ہے اور ہواؤںکو چلانے میں اور آسمان و زمین کے درمیان مسخر کئے جانے والے بادل میں صاحبان عقل کےلئے اللہ کی نشانیاں ہیں)

۳۷

خدا فرماتا ہے (خدا مردہ زمینوں کا زندہ کرنے والا ہے اور ہم نے تمام نشانیوںکو واضح کر کے بیان کر دیا ہے تاکہ تم عقل سے کام لے سکو) نیز فرماتا ہے (اور انگور کے باغات ہیں اور زراعت ہے اور کھجوریںہیں جن میں بعض دو شاخ کی ہیں اور بعض ایک شاخ کی ہیں اور سب ایک ہی پانی سے سینچے جاتے ہیں اور ہم بعض کو بعض پر کھانے میں ترجیح دیتے ہیں اور اس میں بھی صاحبان عقل کےلئے نشانیاں پائی جاتی ہیں) خدا کاارشاد ہے (اور اسکی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ وہ بجلی کو خوف اور امید کا مرکز بنا کر دکھلاتا ہے اور آسمان سے پانی برساتا ہے پھر اسکے ذریعہ مردہ زمینوںکو زندہ بناتا ہے بیشک اس میں بھی عقل رکھنے والی قوم کےلئے بہت سی نشانیاں ہیں) اور فرمایا( کہہ دیجئے کہ آؤ ہم تمہیں بتائیںکہ تمہارے پروردگار نے تمہارے لئے کیا کیا حرام کیا ہے خبردار کسی کو اسکا شریک نہ بنانا اور ماں باپ کےساتھ اچھا برتاؤ کرنا اپنی اولاد کو غربت کی بنا پر قتل نہ کرنا کہ ہم تمہیں بھی رزق دے رہے ہیں اور انہیں بھی اور بدکاریوں کے قریب نہ جانا وہ ظاہر ہوں یا پوشیدہ اور کسی ایسے نفس کو جسے خدا نے حرام کر دیا ہے قتل نہ کرنا مگر یہ کہ تمہارا کوئی حق ہو یہ وہ باتیں ہیں جنکی خدا نے نصیحت کی ہے تاکہ تمہیں عقل آجائے) پروردگار کا ارشاد ہے (کیا اس میں تمہارے مملوک غلام و کنیز میںکوئی تمہارا شریک ہے کہ تم سب برابر ہو جاؤ اور تمہیں انکا خوف اسی طرح ہو جس طرح اپنے نفوس کے بارے میں خوف ہوتا ہے ۔ بیشک ہم اپنی نشاینوںکو صاحبان عقل کےلئے اسی طرح واضح کرکے بیان کرتے ہیں)

اے ہشام! خدا نے اپنے انبیاء و رسل کو اپنے بندوںکی طرف اس لئے بھیجا ہے تاکہ وہ خدا کی معرفت حاصل کریں ۔ انبیاء کی دعوت پر اچھی طرح سے لبیک کہنے والے وہ افراد ہیں جنہوںنے خدا کو اچھی طرح سے پہچانا ہے ۔ امر خدا کے متعلق لوگوں میں سب سے زیادہ جاننے والا وہ شخص ہے جس کی عقل سب سے بہتر ہے ۔ اور جو سب سے زیادہ کامل العقل ہے دنیا و آخرت میں اس کا درجہ سب سے بلند ہے ۔

۳۸

۱۶۱۔ جابر بن عبد اللہ: رسول خدا(ص) نے اس آیت( اور یہ مثالیں ہم تمام عالم انسانیت کےلئے بیان کر رہے ہیں اور علماء کے علاوہ انہیں کوئی نہیں سمجھتاہے ) کی تلاوت کی اور فرمایا: عالم وہ ہے جو خدا کی معرفت رکھتا ہے اور اس کے حکم کی طاعت اور اس کے غضب سے دوری اختیار کرتا ہے۔

۱۶۲۔ رسول خدا(ص)ــ: اللہ تعالیٰ نے عقل کو تین حصوں (خدا کی اچھی طرح معرفت، اسکی بہترین طاعت اور اس کے حکم کے سامنے مناسب ثابت قدمی) میں تقسیم کیا ہے ، جس کے اندر یہ حصے ہوں گے اسکی عقل کامل ہے اور جس میں یہ نہیں ہوں گے وہ عاقل نہیں ہے ۔

۱۶۳۔ رسول خدا(ص): بہت سے عقلمند ایسے ہیں جنہوںنے امر خدا کو سمجھ لیا ہے لیکن لوگوں کی نظروں میں حقیر اورکریہہ المنظر شمار ہوتے ہیں جبکہ کل یہی نجات پائیں گے اور بہت سے افرادلوگوں کی نظروں میں شستہ زبان اور حسین منظر شمار ہوتے ہیں جبکہ کل قیامت میں یہی ہلاک ہوں گے۔

۱۶۴۔ رسول خدا(ص): انسان کا دین اس وقت تک ہرگز مکمل نہیںہو سکتا جب تک کہ اسکی عقل مکمل نہ ہو جائے۔

۱۶۵۔ رسول خدا(ص): ملائکہ نے عقل ہی کے ذریعہ طاعت خدا کے لئے جد و جہد کی اوربنی آدم میں سے مومنین نے بھی اپنی عقل کے مطابق طاعت خدا کے سلسلہ میں سعی و کوشش کی ۔ خدا کی سب سے زیادہ اطاعت کرنے والے وہی لوگ ہیں جو زیادہ عقل رکھتے ہیں۔

۱۶۶۔ ابن عباس:رسول خدا(ص) سے روایت کرتے ہیں : لوگوں میںسے زیادہ با فضل انسان وہ ہے جوان میں سب سے زیادہ عقلمند ہے ، ابن عباس نے کہا: اور وہ تمہارانبی ہے ۔

۱۶۷۔ امام صادق(ع): تمہیں کیا ہو گیا ہے جو ایک دوسرے سے الگ رہتے ہو! ، مومنین میں سے بعض بعض سے افضل ہیں، بعض کی نمازیں دوسروں سے زیادہ ہیںاور بعض کی نگاہیںبعض سے زیادہ گہری ہیںیہی درجات ہیں۔

نوٹ: یہ تمام آیات و روایات جو لوگوں کو تفکر، تدبر، تذکر، تفقہ اور بصیرت کی دعوت دے رہی ہیں ،ان میں معرفت اور زندگی کے صحیح راستوں کے انتخاب کی تاکید کی گئی ہے ۔

۳۹

۳/۲

ہمیشہ غور و فکر سے کام لو

قرآن

(اور یقینا ہم نے انسان و جنات کی ایک کثیر تعداد کو گویا جہنم کے لئے پیدا کیا ہے کہ ان کے پاس دل ہیں مگر سمجھتے نہیں ہیں اور آنکھیں ہیں مگر دیکھتے نہیں اور کان ہیں مگر سنتے نہیں، یہ چوپایوں جیسے ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں اور یہی لوگ اصل میںغافل ہیں)

(اور وہ ان لوگوں پر خباثت کو لازم قرار دیتا ہے جو عقل سے کام نہیں لیتے ہیں)

( جو اس دنیا میں اندھا ہے وہ قیامت میں بھی اندھا اور بھٹکا ہوا رہیگا)

(حیف ہے تمہارے اوپر اور تمہارے ان خداؤں پر جنہیں تم نے خدا ئے برحق کو چھوڑ کر اختیار کیاہے کیا تمہیں اتنی بھی عقل نہیں ہے)

(اور پھر کہیں گے کہ اگر ہم بات سن لیتے اور سمجھتے ہوتے تو آج جہنم والوں میں نہ ہوتے)

(اور وہ لوگوں جو کافر ہیںا ان کےلئے آتش جہنم ہے اور نہ انکی قضا آئیگی کہ مر جائیں اور نہ عذاب میں کمی کی جائیگی ہم ہر کافر کو سزا دیںگےں اور یہ وہاں فریاد کرینگے کہ پروردگار ہمیں نکال لے ہم اب نیک عمل کریںگے اسکے بر خلاف جو پہلے کیا کرتے تھے تو کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہیں دی تھی جسمیں عبرت حاصل کرنے والے عبرت حاصل کر سکتے تھے اور تمہارے پاس ڈرانے والا بھی آیا تھا لہذا اب عذاب کا مزہ چکھو کہ ظالمین کا کوئی مدد گار نہیں ہے )

(کیا آپ کا خیال یہ ہے کہ ان کی اکثریت کچھ سنتی اور سمجھتی ہے ہر گز نہیں یہ سب جانوروںجیسے ہیں بلکہ ان سے بھی کچھ زیادہ ہی گمراہ ہیں)

ملاحظہ فرمائیںـ:۴۴و۷۶۔آل عمران: ۶۵، یونس ۱۶، عنکبوت: ۳۵،۴۳۔ صافات ۱۳۸۔ فاطر:۳۷۔ جاثیہ: ۲۳۔ احقاف:۲۶

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

کر رہا ہے اور آنکھیں بند کی ہوئی ہیں_

اس قسم کے خواب ممکن ہے کہ آپ نے دیکھے ہوں یا آپ کے کسی دوست نے دیکھے ہوں، برزخ کی دنیا واقعی اور حقیقی دنیا ہے اور اس میں سوال و جواب بھی حقیقی ہیں_ ہم نے خواب کو بطور مثال ذکر کیا ہے_

غور کیجئے او رجواب دیجئے

۱)___ آیا ہماری محنت اور کام بے فائدہ ہیں ہم اپنی کوشش کا نتیجہ کہاں دیکھیں گے؟

۲)___ آخرت سے پہلے کس دنیا میں جائیں گے؟

۳)___ خدا نے برزخ کے متعلق کیا فرمایا ہے؟

۴)___ جو شخص دنیا میں خدا اور پیغمبروں پر واقعی ایمان رکھتا ہے برزخ میں کیسی زندگی گذارے گا؟ اس دنیا کے سوالوں کا کس طرح جواب دے گا؟

۵)___ برزخ میں انسان سے کیا پوچھا جائے گا؟

۶)___ برزخ میں کن لوگوں کا ایمان ظاہر ہوگا؟

۷)___ کفر ا ور برائی کسکی ظاہر ہوگی؟

۸)___ آیا آخرت میں جھوٹ بولا جاسکتا ہے؟ اور کیوں؟

۹)___ کون سے لوگ برزخ میں عذاب میں مبتلا ہوں گے؟

۱۰)___ آیا برزخ کا سوال اور جواب اسی دنیاوی زبان اور کان سے ہوگا؟

۶۱

چوتھا سبق

مردے کیسے زندہ ہونگے

حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ کے پیغمبر(ص) تھے وہ آخرت اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے تھے انہیں علم تھا کہ آخرت میں مردے زندہ ہوں گے اور حساب و کتاب کے لئے حاضر ہوں گے لیکن اس غرض کے لئے کہ ان کا یقین کامل ہوجائے اللہ تعالی سے درخواست کی کہ مردوں کا زندہ کرنا انہیں دکھلائے انہوں نے خدا سے کہا معبود تو کس طرح مردوں کو زندہ کرتا ہے اللہ نے ان سے کہا کیا تم مردوں کو زندہ ہونے پر ایما نہیں رکھتے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جواب دیا کہ خدا یا ایمان رکھتا ہوں لیکن چاہتا ہوں کہ میرا دل اطمینان حاصل کرے، اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی درخواست قبول کرلی اور حکم دیا کہ چار پرندے انتخاب کرو اور انکو ذبح کرو اور ان کو ٹکڑے ٹکڑے کردو اور انہیں اچھی طرح کوٹ دو پھر انکو

۶۲

قیمہ شدہ گوشت اور پروں اور ہڈیوں کو کئی حصّوں میں تقسیم کردو اور ہر ایک حصّہ کو پہاڑ پر رکھ دو اسکے بعد پہاڑ کے وسط میں کھڑے ہوجاؤ اور ہر ایک پرندے کو اس کے نام کے ساتھ پکارو و ہ اللہ کے حکم سے تیرے حکم پر زندہ ہوں گے اور تیری طرف ڈورے آئیں گے اور تم جان لوگے کہ اللہ تعالی عالم و قادر ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالی کے اس حکم پر عمل کیا چار پرندے لئے ایک کبوتر دوسرا کوّا تیسرا مرغ اور چوتھا مور تھا، ان کو ذبح کیا اور ٹکڑے ٹکڑے کر کے انہیں کوٹ کو قیمہ بنادیا اور آپس میں ملادیا پھر ان کاگوشت تقسیم کر کے ہر ایک حصّہ کو پہاڑ پر رکھا اور اس پہاڑ کے وسط میں کھڑے ہوکر پہاڑ کی طرف دیکھا اور بلند آواز سے مور کو بلایا اور کہا اے مور ہماری طرف آؤ: مور کے ٹکڑے پہاڑ سے آنحضرت کی طرف آئے اور آپس میں ملتے گئے اور مور کی گردن، سر، پاؤں اور اس کے پرو ہیںبن گئے اور مور زندہ ہوگیا، اپنے پروں کو ہلایا اور حضرت ابراہیم کے سامنے چلنے لگا اسی طرح کبوتر، کوّا، اور مرغ بھی زندہ ہوگئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مردہ پرندوں کا اپنے اپنے جسم کے ساتھ زندہ ہونا اپنی آنکھوں سے دیکھا_

آپ(ع) کا ایمان اور یقین کامل تر ہوگیا اور اللہ تعالی کی قدرت کا مشاہدہ کیا اور آپ کا دل مطمئن ہوگیا اور آپ نے سمجھ لیا کہ قیامت کے دن مردے کس طرح زندہ ہوں گے_

۶۳

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ حضرت ابراہیم (ع) نے اللہ تعالی سے کونسی درخواست کی تھی

۲)___ اس درخواست کی غرض کیاتھی؟

۳)___ اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم (ع) کی درخواست کا کیا جواب دیا؟ اور انہیں کیا حکم دیا؟

۴)___ حضرت ابراہیم (ع) نے اللہ تعالی کے فرمان پر کس طرح عمل کیا؟

۵)___ کس طرح پرندوں کو زندہ کیا؟

۶)___ کس ذات نے پرندوں کے زندہ کرنے کی قدرت حضرت ابراہیم (ع) کو دی تھی؟

۷)___ حضرت ابراہیم (ع) نے اس تجربہ سے کیا نتیجہ لیا؟

۶۴

پانچواں سبق

کس طرح

آپ کس طرح کام کو یاد کرتے ہیں؟ اور کس طرح کام کرنے کے عادی بنتے ہیں؟ ایک کام کا بار بار کرنا آپ کی جان اور روح پر کیا اثر کرتا ہے، جب ایک کام کو بار بار انجام دیں تو وہ آپ کی روح پر کیا اثر کرتا ہے آہستہ آہستہ آپ اس کے عادی ہوجاتے ہیں اور پھر اس کام کو ٹھیک بجالاسکتے ہیں مثلا جب کچھ لکھتے ہیں تو یہ لکھنا آپ پر اثرانداز ہوتا ہے اگر لکھنے میں ذرا محنت کریں صاف اور اچھی طرح لکھیں تو یہ محنت کرنا آپ کی روح پر اثرانداز ہوگا کہ جس کے نتیجہ میں آپ کا خط خوشنما اور خوبصورت ہوجائے گا لیکن اگر لکھنے میں محنت نہ کریں تو یہ بے اعتنائی بر اثر چھوڑے گی جس کے نتیجے میں آپ کاخط بدنما ہو جائے گا ہم جتنے کام کرتے ہیں وہ بھی اسی طرح ہماری روح پر اثرانداز

۶۵

ہوتے ہیں اچھے کام اچھے اثر اور برے کام برا اثر چھوڑتے ہیں_

ہماری زندگی کے کام

جب ہم اچھے کام کرتے ہیں تو وہ ہماری روح پر اثرانداز ہوتے ہیں اور ہمیں پاک اور نورانی کردتے ہیں ہم نیک کام بجالانے سے ہمیشہ اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور اللہ تعالی سے انس و محبت کرتے ہیں اور نیک کام بجالانے کے انجام سے لذّت اٹھاتے ہیں صحیح عقیدہ ہے اور ہمیں نورانی اور خوش رو کردیتا ہے_ برے کردار اور ناپسندیدہ اطوار بھی انسان پر اثر چھوڑتے ہیں انسان کی روح کی پلید اور مردہ کردیتے ہیں پلید روح خدا کی یاد سے غافل ہوا کرتی ہے وہ برے کاموں کی عادی ہونے کی وجہ سے سیاہ اور مردہ ہوجاتی ہے اور انسان کو ترقی سے روک دیتی ہے ہماری خلقت بیکار نہیں ہے اور ہمارے کام بھی بیہودہ اور بے فائدہ نہیں ہیں ہمارے تمام کام خواہ اچھے ہوں یا برے ہم پر اثر انداز ہوتے ہیں اور یہ اثر باقی رہتا ہے ہم اپنے تمام کاموں کے اثرات آخرت میں دیکھیں گے بہشت اور اس کی عمدہ نعمتیں صحیح عقیدہ رکھنے اور اچھے کاموں کے کرنے سے ملتی

۶۶

ہیں اور جہنّم اور اس کے سخت عذاب باطل عقیدہ اور ناپسندیدہ کاموں کے نتیجے میں ہمارے تمام کام خواہ اچھے ہوں یا برے ہوں ہماری زندگی کے حساب میں لکھے جاتے ہیں اور وہ ہمیشہ باقی رہتے ہیں ممکن ہے کہ ہم اپنے کاموں سے غافل ہوجائیں لیکن وہ ہرگز فنا نہیں ہوتے اور تمام کے تمام علم خدا میں محفوظ ہیں آخرت میں ہم جب کہ غفلت کے پردے ہت چکے ہوں گے اپنے کاموں کا مشاہدہ کریں گے_

خدا قرآن میں فرماتا ہے_ کہ جب انسان کو حساب کے لئے لایا جائے گا اور وہ نامہ اعمال کو دیکھے گا اور اپنے اعمال کا مشاہدہ کرے گا تو تعجب سے کہے گا یہ کیسا نامہ اعمال ہے کہ جس میں میرے تمام کام درج ہیں کس طرح میرا کوئی بھی کام قلم سے نہیں چھوٹا_ اللہ تعالی کی طرف سے خطاب ہوگا تیرے کام دنیا میں تیرے ساتھ تھے لیکن تو ان سے غافل تھا اب جب کہ تیری روح بینا ہوئی ہے تو تو اس کو دیکھ رہا ہے ''دوسری جگہ ارشاد الہی ہوتا ہے''

جو شخص اچھے کام انجام دیتا ہے قیامت کے دن اسے دیکھے گا'' اور جو شخص برے کام انجام دیتا ہے معدہ ان کو قیامت کے دن مشاہدہ کرے گا_

اب جب کہ معلوم ہوگیا ہمارے تمام کام خواہ اچھے یا برے فنا نہیں ہوتے بلکہ وہ تمام کے تمام ہماری زندگی کے نامہ اعمال میں درج ہوجاتے ہیں اور آخرت میں ان کا کامل نتیجہ ہمیں ملے گا تو کیا ہمیں اپنے اخلاق اور کردار سے بے پرواہ ہونا چاہیئے؟

۶۷

کیا ہماری عقل نہیں کہتی؟ کہ خداوند عالم کی اطاعت کریں اور اس کے فرمان او رحکم پر عمل کریں؟

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ اچھے کام اور اچھا اخلاق ہماری روح پر کیا اثر چھوڑتے ہیں؟

۲)___ برے کام اور برے اخلاق کیا اثر چھوڑتے ہیں؟

۳)___ کیا ہمارے برے اور اچھے کام فنا ہوجاتے ہیں؟

۴)___ کن چیزوں کے ذریعہ سعادت اور کمال حاصل ہوتا ہے؟

۵)___ بہشت کی نعمتیں کن چیزوں سے ملتی ہیں؟

۶)___ جہنم کا عذاب کن چیزوں سے ملتا ہے؟

۷)___ ہمارے کام کہاں درج کئے جاتے ہیں؟

۸)___ کیا ہم اپنے کاموں کو دیکھ سکیں گے؟

۹)___ خداوند عالم ہمارے اعمال کے بارے میں کیا فرماتا ہے؟

۱۰)___ اب جب کہ سمجھ لیا ہے کہ ہمارے تمام کام محفوظ کر لئے جاتے ہیں تو ہمیں کون سے کام انجام دیتے چاہیئےور کسی طرح زندگی بسر کرنی چاہیئے

۶۸

حصّہ سوم

نبوّت

۶۹

پہلا سبق

صراط مستقیم

اگر زندگی میں کامیاب ہونا چاہیں تو کون سا راستہ اختیار کریں گے؟ دونوں جہانوں میں سعادت مند ہونے کے لئے کون سا منصوبہ آپ کے پاس موجود ہے؟ کیا آپ نے اس کے متعلق فکر کی ہے؟ اگر آپ چاہتے ہیں کہ کامل اور اچھا انسان بن جائیں تو کیا آپ کے پاس ہے؟

کیا آپ دوسروں کو دیکھ رہے ہیں جو راستہ انہوں نے اختیار کیا ہے آپ بھی اسی پر چلیں گے؟

جو پروگرام انہوں نے منتخب کیا ہے آپ بھی وہی انتخاب کریں گے؟

کیا راست کے انتخاب اورمقصود زندگی کے متعلق فکر نہیں کرتے کیا درست پروگرام کے انتخاب میںکبھی نہیں سوچتے؟

۷۰

شاید آپ کہیں کہ میں خود اچھا پروگرام بنا سکتا ہو کیا آپ اس جہان اور آخرت کی تمام ضروریات سے باخبر ہیں یا بے خبر؟ تو پھر کس طرح اچھا اور مکمل آپ خود بناسکتے ہیں؟

آپ شاید یہ کہیں کہ اہل عقل اور دانشور اور علماء میرے لئے زندگی کا پروگرام مہيّا کرسکتے ہیں لیکن کیا یہ حضرات آپ کی دنیا اور آخرت کی احتیاجات سے مطلع ہیں کیا یہ لوگ آخرت سے باخبر ہیں؟

پس کون ذات انسان کے کامل اور سعادت مند ہونے کاپروگرام بناسکتی ہے؟

انسان؟ یا انسان کا خالق؟ البتہ انسان کا خالق کیوں کہ اس نے انسان کوپیدا کیاہے وہ خلقت کے اسرار سے آگاہ ہے صرف وہی انسان کی دنیا اور آخرت میں زندگی کے شرائط سے باخبر ہے اسی لئے صرف وہی انسان کی زندگی کے باکمال اور سعادتمند ہونے کا پروگرام منظّم کرنے کا اہل ہے پس سعادت اور کمال کا بہترین پروگرام وہی ہوگا جو اللہ تعالی نے منظم کیا ہو اور اسے اپنے پیغمبروں کے ذریعے انسان تک پہنچاتا ہو کیا آپ نے کبھی سوچا ہے؟ کہ زندگی کے لئے کونسا راستہ انتخاب کریں گے؟

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ کیا آپ خود دنیا اور آخرت کے لئے پروگرام بناسکتے ہیں

۷۱

اور کیوں وضاحت کیجئے؟

۲)___ کیا کوئی دوسرا ایسا کرسکتا ہے اور کیوں؟

۳)___ پس ایسا کون کرسکتا ہے اور کیوں؟

۴)___ خداوند عالم نے انسان کی سعادت کا پروگرام کس کے ذریعہ بھیجا ہے؟

۵)___ اگر چاہیں کہ دنیا اور آخرت میںکامیاب اور سعادتمند ہوں تو کس پروگرام کا انتخاب کریں اور کیوں؟

۷۲

دوسرا سبق

کمال انسان

جب گیہوں کے دانے کو زمین میں ڈالیں اور اسے پانی دیں تو اس میں کیا تبدیلی آتی ہے؟ کون سا راستہ اختیار کرتا ہے؟ کیا کوئی خاص ہدف اور غرض اس کے سامنے ہے اور کس مقصد کو حاصل کرنا چاہتا ہے گیہوں کا دانا ابتداء ہی سے ایک معین ہدف کی طرف حرکت شروع کردیتا ہے اس مقصد اور غرض تک پہنچنے کے لئے بڑھتا ہے یعنی ابتداء میں گیہوں کا دانہ زمین میں جڑیں پھیلاتا ہے پھرتنا، اور پھر سبز ہوجاتا ہے او ربتدریج بڑا ہونے لگتا ہے اور خوش نکالتا ہے گیہوں کا ایک دانہ کئی خوشے بناتا ہے اور پھر یہی خوشے انبار بن جاتے ہیں اور اس انبار سے ہزاروں انسان استفادہ کرتے ہیں تمام نباتات گیہوں کے دانے کی طرح کمال کا راستہ طے کرتے ہیں اور معین اور معلوم غرض و غائت

۷۳

جو ہر ایک کے لئے معین ہوئی ہے کی طرف حرکت کرتے ہیں آپ اگر سیب کا دانہ کاشت کریں اور اسے پانی دیں اس کی ابتداء ہی سے آپکو معلوم ہوجائے گا کہ چھوٹا دانہ ایک معین غرض و ہدف رکھتا ہے اور اسی کی طرف حرکت شروع کرتا ہے اور اپنے کمال کو پہنچتا ہے یعنی چھوٹا دانہ جڑیں پھیلاتا ہے تنا اور شاخ نباتا ہے سبز ہوتا ہے اور بڑا ہوتا جاتا ہے ہر دن پہلے دن سے زیادہ کمال کی طرف ہوتا ہے بالآخر اس میں شگوفہ پھوٹتا ہے اور یہ خوبصورت شگوفہ سیب بن جاتا ہے اسی ترتیب سے وہ چھوٹا دانہ تکمیل کو پہنچتا ہے اور اپنی حرکت اور کوشش کے نتیجے کو انسان کے اختیار میں دے دیتا ہے اللہ تعالی جو عالم اور قادر ہے اور جس نے تمام چیزوں کو پیدا کیا ہے اور تکامل کا راستہ بھی انھیں ودیت کردیا ہے اور اس کے پہنچنے تک وسائل اور اسباب بھی ان کے لئے فراہم کردیئے ہیں مثلاً دوسرے پودے گیہوں اور سیب کے دانے کی طرح اپنے کمال کے لئے پانی، مٹی، ہوا، اور روشنی کے محتاج ہیں اللہ تعالی نے پانی، مٹی، روشنی اور ہوا، ان کے لئے پیدا کردی ہے تا کہ پودے ان سے استفادہ کریں اور مکمل ہوکر مقصد کو پالیں_

انسان کو بھی اپنے مقصد خلقت کوحاصل کرنا چاہیے کس طرح اور کس کے ماتحت؟

کون جانتا ہے کہ انسان کا جسم اور روح کن چیزوں کے محتاج ہیں اور کس طرح کمال حاصل کریں گی، البتہ صرف خدا جانتا ہے کیوں کہ تنہا وہی ذات ہے جو انسان کی خلقت کے اسرار سے آگاہ ہے اور وہی ذات

۷۴

ہے جو آخرت میں انسان کی ضرورت سے باخبر ہے اسی لئے خالق اور مالک نے تمام دنیا کی چیزوں کو اکمل بنایا ہے اور انسانیت کی معراج کے لئے پروگرام بنائے ہیں اور پیغمبروں کے وسیلے اور ذریعہ سے انسان تک پہنچائے ہیں_ آخری اور اہم ترین پروگرام آخری پیغمبر جو حضرت محمد صل اللہ علیہ و آلہ و سلم ہیں کے وسیلے سے تمام لوگوں کے لئے بھیجا ہے اس پروگرام کا نام تکامل دین اسلام ہے

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ تھوڑا سا گیہوں کسی برتن میں ڈالیں اور اسے پانی دیں دیکھیں گیہوں کا یہ دانہ کس طرح اپنے لئے راستہ معین کرلیتا ہے او رکس غرض کی طرف حرکت کرتا ہے؟

۲)___ سیب اور تمام پودے اور نباتات کے لئے غرض اور ہدف ہے، اس جملے کے کیا معنی ہیں؟

۳)___ نباتات کو کامل ہونے کے لئے کن کن چیزوں کی ضرورت ہے؟

۴)___ انسان کی معراج کا پروگرام کون بنا سکتا ہے؟ اور کیوں

۵)___ خدا نے انسان کی معراج کا پروگرام کنکے وسیلے ان تک پہنچایا ہے

۶)___ آخری اور مکمل ترین پروگرام ہمارے لئے کون لایا ہے؟

۷)___ اس آخری پروگرام کا کیا نام ہے؟

۷۵

تیسرا سبق

راہنما کیسا ہونا چاہیئے

جو بچّہ اپنا گھر بھول گیا ہو اسے کسکے سپرد کریں گے کون اس کی راہنمائی کر سکتا ہے اور اسے اس کے گھر پہنچا سکتا ہے؟ کیا وہ آدمی جو امین نہ ہو اس پر اعتماد کر کے بچّے کو اس کے سپرد کریں گے اور کیوں؟ اس کو جو اس کے گھر کو نہیں جانتا یا راستوں سے بھٹک جاتا ہے اسکی رہنمائی کے لئے انتخاب کریں گے؟ اور کیوں پس راہنما کو چاہئے کہ راستے کو ٹھیک جانتا ہو نیک اور امین ہو اور غلط راہنمائی نہ کرتا ہو پیغمبر وہ انسان ہوتا ہے جو امین اور نیک ہوتا ہے اللہ تعالی نے اسے لوگوں کی راہنمائی کے لئے چنا ہے اور اسے دنیا اور آخرت کی زندگی کا راستہ بتلایا ہے اور انسانوں کی رہبری اس کے سپرد کی ہے_

۷۶

چوتھا سبق

پیغمبر کو کیسا ہونا چاہیے

جب آپ کسی دوست کی طرف پیغام بھیجنا چاہتے ہوں تو یہ پیغام کس کے سپرد کرتے ہیں اس کے سپرد کرتے ہیں جو آپ کے دوست تک پہنچا دے یا جھوٹے اور غلط آدمی کو پیغام پہنچانے کے لئے منتخب کرتے ہیں یا کمزور حافظی اور غلطی کرنے والے کو ان میں سے کس کو پیغام پہنچاتے کے لئے انتخاب کرتے ہیں؟

جی ہاں پیغام پہنچانے کے لئے سچّا اور صحیح آدمی ہونا چاہیئے تا کہ پیغام کو بھول نہ جائے اسکے سننے اور پہنچانے میں غلطی نہ کرے خدا بھی اپنا پیغام پہنچانے کے لئے سچّے اور صحیح آدمی کو چنتا ہے اور اس کو پیغام دیتا ہے پیغمبر خدا کے پیغام کو صحیح حاصل کرتا ہے اور اس پیغام کو لوگوں تک پہنچاتا ہے _

۷۷

پانچواں سبق

اجتناب گناہ کا فلسفہ

میلے کچیلے کپڑوں کو ایک طشت میںدھویا ہو تو کون ہے جو اس میلے پانی کو پیئے گا؟ اگر وہی پانی کسی اندھے یا بے خبر انسان کو دیں تو ممکن ہے کہ وہ اسے پی لے_ لیکن آنکھوں والا اور انسان کیسے جو شخص اس کی گندگی اور خرابی کودیکھ رہا ہو اور اس کے باخبر اثرات کو جانتا ہو ایسے پانی کو دیکھ تو کیا اسے پیئے گا؟ جی ہاں ہر وہ شخص جو بینا اور آگاہ ہو وہ کوئی گندی اور خراب چیز سے اپنے آپ کو آلودہ نہیں کرے گا بلکہ اس سے نفرت اور بیزاری کرے گا اسی طرح پیغمبر بھی گناہ سے نفرت کرتے تھے وہ گناہ کے بجالانے پر قدرت رکھتے تھے لیکن کبھی گناہ نہیں کیا کیونکہ وہ گناہ کی پلیدی اور برائی کو دیکھ رہے تھے یہ اطلاع اور آگاہی ان کو خداوند عالم نے عطا فرمائی تھی_

۷۸

چھٹا سبق

پیغمبر آگاہ اورمعصوم راہنما ہیں

خداوند عالم نے اپنا پیغام پہنچانے کے لئے ایسے انسان کا انتخاب کیا جو امین ہیں انہیں دین کا کامل نمونہ قرار دیا ہے تا کہ ان کا کردار اور گفتار لوگوں کو خدا کی طرف راہنمائی کرے پیغمبر انسانوں میں بہترین اور کامل ترین فرد ہوتا ہے علم و اخلاق اور کردار میں تمام مردوں سے افضل ہوتا ہے خدا اس کی تربیت کرتا ہے اور پھر اس کا انتخاب کرتا ہے تا کہ لوگوں کا پیشوا اور نمونہ ہو_ پیغمبر دنیا اور آخرت کی سعادت کے راستے اچھی طرح جانتا ہے یعنی اللہ تعالی نے اسے جو بتلایا ہے پیغمبر خود ان راستوں پر چلتا ہے اور لوگوں کو ان راستوں پرچلنے کی راہنمائی اور اس کی طرف دعوت دیتا ہے پیغمبر خدا کو اچھی طرح پہنچانتا ہے اور اسے بہت دوست رکھتا ہے، دنیا اور آخرت جہنم اور بہشت سے پوری طرح آگاہ ہوتا ہے

۷۹

اچھے اور برے اخلاق کو اچھی طرح پہنچانتا ہے وہ گناہ کی پلیدی اور بدنمائی کو دیکھتا ہے اور یہ جانتا ہے کہ گناہ انسان کی روح کو آلودہ اور کثیف کردیتا ہے_ اللہ تعالی جو عالم اور قادر ہے اس نے یہ علم پیغمبر کے اختیار میں دیا ہے پیغمبر اس آگاہی اور علم سے گناہ کی گندگی اور بدنمائی کا مشاہدہ کرتا ہے اور جانتا ہے کہ خدا گناہ گار انسان کو دوست نہیں رکھتا اور اس سے ناراض ہوتا ہے اسی لئے پیغمبر ہرگز گناہ نہیں کرتا بلکہ گناہ سے نفرت کرتا ہے_

پیغمبر خدا کے پیغام کو بغیر کسی کمی و بیشی کے لوگوں تک پہنچاتا ہے اور اس سے غلطی اور نسیان نہیں ہوتا_ اور چونکہ گناہ اور غلطی نہیں کرتا لوگ بھی اس پر اعتماد کرتے ہیں اور اس کے کردار اور گفتار کو نمونہ قرار دیتے ہیں_ ایسے ہی انسان کو معصوم کہتے ہیں اور اللہ تعالی کے تمام پیغمبر معصوم ہوتے ہیں یعنی گناہ نہیں کرتے اور ان سے غلطی اورنسیان نہیں ہوتا وہ نیک اور امین ہوتے ہیں_

پیغمبر لوگوں میں سے عالم اور معصوم ہوتے ہیں اللہ کے پیغام کو پہنچاتے ہیں اور ان کی راہنمائی کرتے ہیں اور اللہ کی طرف اور دائمی سعادت کی طرف راہنمائی کرتے ہیں_

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ راہنما کے لئے کون سی حفاظت صفات ہونی چاہئیں؟

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258