عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں

عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں23%

عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 258

عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 258 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 138920 / ڈاؤنلوڈ: 5394
سائز سائز سائز
عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں

عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

دوسری فصل عقل کی قیمت

۲/۱

خدا کا تحفہ

۳۱۔ رسول خدا(ص): عقل خدا کا تحفہ ہے ۔

۳۲۔ امام علی(ع) : عقلیں عطایا ہیں ، آداب کسبی ہیں۔

۳۳۔ امام علی(ع) : عقل فطری چیز ہے اور علم کسبی ہے ۔

۳۴۔ امام علی(ع) : جب خدا اپنے بندہ کی بھلائی چاہتا ہے تو اسے پائدار عقل اور صحیح کردار سے نوازتا ہے ۔

۳۵۔ امام علی(ع) : جب خدا کسی انسان کو پائدار عقل اور صحیح کردار عطا کرتا ہے تو اس پر اپنی نعمتوں کو فراوان اور اپنے احسان کو زیادہ کرتا ہے ۔

۳۶۔ ابو ہاشم جعفری: میں امام رضا - کی خدمت میں حاضر تھا۔ عقل کا ذکر چھڑ گیاتو آپؑ نے فرمایا: اے ابو ہاشم! عقل خدا کا عطیہ ہے ...جو شخص زحمت سے خود کو عقلمند بنانا چاہتا ہے اس کے اندر جہالت کے سوا اور کسی چیز کا اضافہ نہیں ہوتا۔

۳۷۔ سنن ادریس ؑ میں ہے جب خدا اپنے بندوں کو دوست رکھتا ہے تو انہیں عقل سے سر فراز کرتا ہے اور اپنے انبیاء و اولیاء کو روح القدس سے مخصوص کیا ہے ۔

۲۱

۲/۲

بہترین عطیہ

۳۸۔ رسول خدا(ص): خدا نے بندوں کے درمیان کوئی چیز عقل سے افضل تقسیم نہیںکی ہے ۔لہذا عقلمند کا سونا جاہل کے جاگنے سے بہتر ہے ، عاقل کا کھڑا رہنا جاہل کے چلنے سے افضل ہے خدا نے کسی نبی یا رسول کو اس وقت بھیجا جب ان کی عقل کامل اور تمام امت(والوں) کی عقلوں سے بہتر ہو گئی، جو کچھ نبی اپنے اندر پوشیدہ رکھتا ہے وہ کوشش کرنے والوںکی کوششوں سے افضل ہے اور بندہ الٰہی فرائض کو اس وقت انجام دیتا ہے جب انہیں سمجھ لیتا ہے ۔ سارے عبادتگذار اپنی کثرت عبادت کے سبب عقلمند کے مرتبہ کو نہیں پاسکتے عقلاء ہی اولو الالباب (صاحبان عقل) ہیں۔ خدا نے ان کے بارے میں فرمایا ہے (وما یذکر الا اولو الالباب) صرف صاحبان عقل ہی وعظ و نصیحت کو قبول کرتے ہیں۔

۳۹۔ رسول خدا(ص): بابرکت ہے وہ (ذات) جس نے اپنے بندوںکے درمیان عقل کو مختلف پیرا یوںمیں تقسیم کیا ہے ۔ کبھی دو انسانوںکے کردار، نیکیوں ، روزوں اور نمازوں کے لحاظ سے برابر ہو جاتے ہیں لیکن عقل کے اعتبار سے دونوں میں اتنا ہی فرق ہوتا ہے جتناذرہ اور کوہِ احد میں ہے۔ خدا نے اپنی مخلوق کے درمیان عقل سے بہتر کوئی حصہ تقسیم نہیںکیاہے۔

۴۰۔ تاریخ یعقوبی: رسول خدا(ص) سے پوچھا گیا: بندہ کو سب سے بہتر کون سی چیز عطا کی گی ئ ہے ؟ فرمایا: عقل فطری جو پیدا ئشی ہوتی ہے ۔ پھر پوچھا گیا۔ اگر کوئی اس سے بہرہ مند نہ ہو؟ فرمایا: عقل کسب کرے۔

۴۱۔ جامع الاحادیث: امیر المومنینؑ سے پوچھا گیا کہ ا نسان کو سب سے افضل جو چیز عطا کی گئی ہے وہ کیا ہے ؟فرمایا: عقل فطری پوچھا گیا: اگر عقل فطری نہ ہو؟ فرمایا:وہ بھائی ہے کہ جس سے مشورہ کیا جائے۔

۲۲

پھر پوچھاگیا: اگر یہ بھی نہ ہو؟ فرمایا: بزم میں خاموش رہے پوچھا گیا: اگر یہ بھی نہ ہو؟ فرمایا :موت سر پہ ہے۔

۴۲۔ امام علی(ع) : بہترین عطیہ عقل ہے ۔

۴۳۔ امام علی(ع) : کامل نعمتوںکی نشانی عقل کی فراوانی ہے ۔

۴۴۔ امام علی(ع) : سب سے افضل نعمت عقل ہے ۔

۴۵۔ امام علی(ع) : انسان کا سب سے بہترین حصہ اسکی عقل ہے ۔ اگر اسکی رسوائی ہوتی ہے تو عقل اسے عزت بخشتی ہے اگر وہ پستی کی طرف جاتا ہے تو عقل اسے رفعت عطا کرتی ہے اور اگر گمراہ ہوتا ہے تو عقل اسکی ہدایت کرتی ہے اور اگر کچھہ کہتا ہے تو عقل اسکی حفاظت کرتی ہے ۔

۴۶۔ امام علی(ع) : عقل سے بہتر کوئی نعمت نہیں۔

۴۷۔ امام حسن (ع): عقل بندوںکے لئے خدا کا بہترین عطیہ ہے کیوں کہ یہ دنیوی آفات سے نجات اور آخرت میں عذاب دوزخ سے سلامتی کا باعث ہے ۔

۴۸۔ امام علی(ع) : آپ سے منسوب دیوان میں ہے : خدا کی طرف سے انسان کے لئے بہترین حصہ اسکی عقل ہے نیکیوں میں سے کوئی بھی نیکی اس کے مرتبہ کو نہیںپہنچ سکتی ۔ جب رحمن انسان کی عقل کو کامل کرتا ہے تو اسکی بصیرت و اخلاق بھی کامل ہو جاتے ہیں۔

۲۳

۲/۳

انسان کی اصل

۴۹۔ رسول خدا(ص): اے گروہ قریش! انسان کا حسب اس کا دین ہے ، اسکی جوانمردی اس کا اخلاق ہے اور اسکی عقل اسکی اصل ہے ۔

۵۰۔ امام علی(ع) : انسان کی اصل اسکی عقل ہے ، اسکی عقل اس کا دین ہے اور ہر ایک کی جوانمردی یہ ہے کہ وہ خود کو کہاں قراردیتاہے ۔

۵۱۔ امام علی(ع) : ہوشیار انسان کی اصل اسکی عقل ہے۔ اسکی جوانمردی اسکا اخلاق ہے۔ اور اسکا دین اسکا حسب ہے ۔

۵۲۔ امام صادق ؑ: انسان کی اصل اسکی عقل ہے ، اسکی شرافت دین اورعظمت تقوے سے ہے تمام انسان آدم کی اولاد کے ہونے اعتبار سے برابر ہےں۔

۵۳۔ امام علی(ع) : انسان عقل و صورت کا مجموعہ ہے ، بے عقل شخص جو صرف انسان کی صورت رکھتا ہے کامل نہیں ہے اور بے جان مخلوق کی طرح ہے جو تجربی عقل کی جستجو کرتا ہے اسے چاہئے کہ اصول اور فصول (حواشی) کو بھی جانے ، کتنے لوگ ایسے ہیں جو فصول کی تلاش میں ہیں اور اصول کو نظر انداز کرتے ہیں، جس نے اصول کو حاصل کر لیا وہ فضول چیزوں سے بے نیاز ہو گیا۔

۵۴۔ امام علی(ع) : انسان کی عقل اس کا نظام ہے ، ادب اس کا استحکام ہے صداقت اس کا پیشوا ہے اور شکر اس کا کمال ہے ۔

۵۵۔ امام صادق(ع): عقل انسان کا پشت پناہ ہے عقل سے ہوشیاری، فہم ،حفظ اور علم حاصل ہوتا ہے عقل سے انسان کمال تک پہنچتا ہے عقل ہی انسان کا راہنما، بصیرت دینے والی اور اسکے ہر کام کی کنجی ہے ۔

۲۴

۲/۴

انسان کی قیمت

۵۶۔ ابن عباس رسول خدا(ص) سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: انسانوں میں سب سے افضل سب سے زیادہ عقلمند انسان ہے ، ابن عباس نے کہا اور وہ آپکا نبی ہے ۔

۵۷۔ امام علی(ع) : ہر انسان کی قیمت اسکی عقل کے مطابق ہے ۔

۵۸۔ امام علی(ع) : ہر انسان کی قیمت کا اندازہ اس کے علم و عقل سے ہوتا ہے ۔

۵۹۔ امام علی(ع) : انسان اپنی عقل کا رہین منت ہے۔

۶۰۔ امام علی(ع) : انسان کی فضیلت کا عنوان عقل اور اس کا حسن اخلاق ہے ۔

۶۱۔ امام علی(ع) : انسان کی فضیلت عقل سے ہے ۔

۶۲۔ امام علی(ع) : انسان کی دو فضیلتیں ہیں: عقل اورزبان، عقل سے فائدہ حاصل کرتا ہے اورزبان سے فائدہ پہنچاتا ہے ۔

۶۳۔ امام علی(ع) :، فضائل کی انتہا عقل ہے ۔

۶۴۔ امام علی(ع) : اعلیٰ ترین رتبہ عقل ہے۔

۶۵۔ امام علی(ع) : بزرگی و شرافت عقل و ادب سے ہے نہ کہ مال اور حسب سے ۔

۶۶۔ امام علی(ع) : انسان کا امتیاز اسکی عقل کی بدولت ہے اور حسن و جمال اسکی دلیری ہے ۔

۲۵

۲/۵

اسلام کا پہلا پایہ

۶۷۔ امام علی(ع) ـ:اسلام کے سات ستون ہیں: پہلا ستون عقل جس پر صبر کا دار و مدار ہے، دوسرا ستون، آبرو مندی اور صداقت ہے ، تیسرا ستون،رائج طریقہ کے مطابق تلاوت قرآن، چوتھا ستون ، دوستی و دشمنی خدا کے لئے ہو ، پانچواں ستون، آل محمد کی ولایت کی معرفت اور ان کے حقوق کی رعایت، چھٹا ستون : دوستوں اور بھائیوں کی حمایت اور ان کے حقوق کی رعایت۔ ساتواں ستون: لوگوںکے ساتھ حسن سلوک۔

۲/۶

انسان کا دوست

۶۸۔ امام علی(ع) : اپنے فرزند امام حسن سے وصیت میں فرمایا: بیٹا! عقل انسان کا دوست ہے ۔

۶۹۔ امام علی(ع) : انسان اپنی معلومات کا دوست ہے ۔

۷۰۔ امام علی(ع) : عقل ایسا دوست ہے جس سے رابطہ ٹوٹ جاتا ہے اور خواہشات ایسا دشمن ہے کہ جس کی پیروی کی جاتی ہے ۔

۷۱۔امام علی(ع) : عقل قابل تعریف دوست ہے ۔

۷۲۔ امام علی(ع) : عقل بہترین ساتھی ہے ۔

۷۳۔ امام رضا(ع): ہر انسان کا دوست اسکی عقل ہے اور اس کا دشمن اسکی جہالت ہے ۔

۲۶

۲/۷

مومن کا دوست اور رہنما

۷۴۔ رسول خدا(ص): علم مومن کا دوست، عقل اس کا رہنما، عمل اس کا سر پرست، بردباری اس کا وزیر، صبر اس کے لشکر کا امیر، مہربانی اس کا باپ، اور نرمی اس کا بھائی ہے ۔

۷۵۔ امام علی(ع) : عقل مومن کا دوست ہے ۔

۷۶۔ امام علی(ع) : حسن عقل بہترین رہبرہے ۔

۷۷۔ امام صادق(ع): عقل، مومن کا رہنما ہے ۔

۲/۸

مومن کا پشت پناہ

۷۸۔ رسول خدا(ص): ہر چیزکے لئے ایک پشت پناہ ہے اور مومن کا پشت پناہ اسکی عقل ہے لہذا مومن اپنی عقل کے مطابق اپنے پروردگار کی عبادت کرتاہے ۔

۷۹۔ رسول خدا(ص): گھر کا دار و مداراسکی بنیادپر ہے ، دین کا ستون خدا وند متعال کی معرفت ، اسکی وحدانیت کایقین اور عقل قامع ہے ۔ لوگوں نے پوچھااے رسول خدا! قامع کیا ہے ؟ فرمایا: گناہوں سے پرہیز، اطاعت خدا کا شوق اور اس کے تمام احسانات و نعمات اور نیک آزمائش پر شکر کرنا ہے ۔

۲۷

۸۰۔ رسول خدا(ص): ہر چیز کے لئے اوزار اور طاقت کی ضرورت ہوتی ہے اور مومن کا اوزار طاقت وعقل ہے ہر تاجر کا ایک سرمایہ ہوتا ہے اور مجتہدین کا سرمایہ عقل ہے ہر ویرانہ کے لئے آبادی ہے اور آخرت کی آبادی عقل ہے ۔ ہر سفر میں پناہ کےلئے خیمہ نصب کیا جاتا ہے اور مسلمانوںکا خیمہ عقل ہے ۔

۸۱۔ امام علی(ع) : مومن ہشیار و عقلمند ہوتا ہے ۔

۲/۹

بہترین زینت

۸۲۔ امام علی(ع) : بہترین زینت عقل ہے اور بلدترین رتبہ علم ہے ۔

۸۳۔ امام علی(ع) : عقل سے زیادہ خوبصورت کوئی جمال نہیں۔

۸۴۔ امام علی(ع) : سب سے اچھازیور عقل ہے ۔

۸۵۔امام علی(ع) : مرد کی زینت اسکی عقل ہے ۔

۸۶۔ امام علی(ع) : عقل زینت ہے جہالت رسوائی ہے ۔

۸۷۔ امام علی(ع) : عقلمند کی زینت عقل ہے ۔

۸۸۔ امام علی(ع) : عقل ایسا نیا لباس ہے جو کہنہ نہیں ہوتا۔

۸۹۔ امام علی(ع) : انسان کا حسب اس کا علم ہے اور اس کا جمال اسکی عقل ہے ۔

۹۰۔ امام علی(ع) : حسن عقل ظاہر اور باطن کی زینت ہے ۔

۹۱۔ امام علی(ع) : وہ شخص کامیاب نہیںہو سکتا کہ جس کو اسکی عقل نہ سنوار سکے۔

۹۲۔ امام علی(ع) : دین کی زینت عقل ہے ۔

۲۸

۹۳۔ امام عسکری(ع): چہرے کا حسن ، ظاہری جمال ہے اور عقل کا حسن ، باطنی جمال ہے ۔

۹۴۔ اما م علیؑ: آپ سے منسوب دیوان میںہے۔

جوان لوگوں کے درمیان عقل کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہے اس کا علم اور تجربہ عقل کے مطابق ہوتا ہے۔

صحیح عقل جوان کو لوگوںکے درمیان زینت عطا کرتی ہے، چاہے اس کا کار و بار بے رونق ہو۔

اور کم عقلی جوان کو لوگوں کے درمیان رسوا کرتی ہے چاہے اس کا خاندان کا منصب کتنا ہی بلند کیوںنہ ہو۔

۲/۱۰

سب سے بڑی بے نیازی

۹۵۔رسول خدا(ص): جہالت سے بڑھکر کوئی فقر نہیں اور عقل سے زیادہ منفعت بخش کوئی سرمایہ نہیں ہے۔

۹۶۔ امام علی(ع) : عظیم ترین بے نیازی عقل ہے ۔

۹۷۔ امام علی(ع) : سب سے عظیم بے نیازی عقل ہے جو دنیا وآخرت میں سب سے بلند رتبہ شمار ہوتی ہے ۔

۹۸۔ امام علی(ع) : سب سے بڑی بے نیازی عقل ہے ۔

۹۹۔ امام علی(ع) : عقل سے زیادہ نفع بخش کوئی سرمایہ نہیںہے۔

۱۰۰۔ امام علی(ع) : عقل کی بے نیازی کافی ہے ۔

۱۰۱۔ امام علی(ع) : عقل جیسی کوئی بے نیازی نہیںہے۔

۱۰۲۔ امام علی(ع) : کوئی عقلمند نادارنہیں۔

۱۰۳۔ امام علی(ع) : آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے : سب سے زیادہ گرانبہا سرمایہ ایسی عقل ہے جو سعادت سے نزدیک ہو ۔

۲۹

۱۰۴۔ امام صادق(ع): کوئی بے نیازی عقل سے بہتر نہیں ، کوئی فقر بیوقوفی سے بدتر نہیںہے۔

۲/۱۱

علم محتاجِ عقل ہے

۱۰۵۔ امام علی(ع) : آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے ۔ عقل صاحب عقل کے لئے ہر گز ضرر رساں نہیں اور عقل کے بغیر علم کے صاحب علم کے لئے نقصاندہ ہے ۔

۱۰۶۔ اما م علی(ع) : ہر وہ علم جس کی حمایت عقل نہ کرے گمراہی ہے ۔

۱۰۷۔ امام علی(ع) : ہر وہ شخص جس کا علم اسکی عقل سے زیادہ ہوتاہے وہ علم اس کے لئے وبال ہوجاتاہے۔

۱۰۸۔ امام علی(ع) : بندوں پر خدا کی سب سے بڑی بخشش علم ، عقل ،بادشاہت، اور عدل ہے ۔

۱۰۹۔ امام علی(ع) : کوئی چیز اس عقل سے بہتر نہیںجو علم کے ہمراہ ہو، اس علم سے افضل نہیں جو حلم کے ساتھ ہو اور اس حلم سے برترنہیں جو قدرت کے ساتھ ہو۔

۱۱۰۔ امام علی(ع) : آپ ؑ سے منسوب دیوان میں ہے ۔

اگر تم صاحب علم ہو اور صاحب عقل نہیں ہو تو اس شخص کے مانند ہو کہ جسکے پاس جوتیاں ہوںلیکن پیر نہ ہوں

اگر عقلمند ہو اورعلم سے عاری ہوتو اس شخص کی طرح ہو کہ جس کے پیر ہوںلیکن جوتے نہ ہوں

دیکھو! ایسا انسان اپنی عقل کا نیام ہے اور تیر کے بغیر ترکش بے سود ہوتاہے ۔

۳۰

۲/۱۲

نادر اقوال

۱۱۱۔ رسول خدا(ص): اللہ نے عقل کو اپنے اس ذخیرئہ نور سے پیدا کیا ہے جو اس کے علم سابق میں مخفی تھا کہ جس کی کسی نبی مرسل اور ملک مقرب کو اطلاع نہ تھی۔ پھر علم کو عقل کا نفس، فہم کو اسکی روح، زہد کو اس کا سر، حیاء کو اسکی آنکھیں، حکمت کو اسکی زبان، مہربانی کو اس کا منہ، اور رحمت کو اس کا دل قرار دیا۔ اس کے بعد عقل کی ان دس چیزوں یقین، ایمان، صداقت، سکون، اخلاص، مہربانی ،عطیہ، قناعت، تسلیم اور شکر کے ذریعہ اس کی تقویت کی۔

۱۱۲۔ امام علی(ع) : عقلیں ذخیرہ اور اعمال خزانے ہیں۔

۱۱۳۔ امام علی(ع) : عقل قوی ترین بنیاد ہے ۔

۱۱۴۔ امام علی(ع) : عقل تقرب کا باعث اور جہالت دوری کا سبب ہے ۔

۱۱۵۔ امام علی(ع) : عقل بہترین امید ہے ۔

۱۱۶۔ امام علی(ع) : عقل اچھی فکر کا باعث ہے ۔

۱۱۷۔ امام علی(ع) : عقل گرانقدر شرف ہے جو نابود نہیں ہوتا۔

۱۱۸۔ امام علی(ع) : انسان کارشد اسکی عقل سے ہے ۔

۱۱۹۔ امام علی(ع) : خدا وند سبحان کے نزدیک آگاہ عقل اور (آلودگیوں) سے پاک نفس سے زیادہ کوئی چیز سر خرو نہ ہوگی۔

۱۲۰۔ امام علی(ع) : انسان کا حسب اسکی عقل ہے اور اسکی جوانمردی اس کا اخلاق ہے ۔

۱۲۱۔ امام علی(ع) : انسان کے کمال کی انتہاء اسکی صحیح عقل ہے ۔

۳۱

۱۲۲۔ امام علی(ع) : ہر چیز کی ایک انتہاء ہوتی ہے اور انسان کی انتہاء اسکی عقل ہے ۔

۱۲۳۔ امام علی(ع) : خدا وند سبحان پائدار عقل اور صحیح کام کو پسند کرتا ہے ۔

۱۲۴۔ امام علی(ع) : عقل دھوکا نہیں کھاتی۔

۱۲۵۔امام علی(ع) : عقل شفاء ہے ۔

۱۲۶۔ امام علی(ع) :عقل شمشیر براں ہے ۔

۱۲۷۔ امام علی(ع) : کوئی بھی عدم، عدم عقل سے بدتر نہیں۔

۱۲۸۔ امام علی(ع) : عقل کے بغیر دین کی اصلاح نہیں ہو سکتی ۔

۱۲۹۔ امام علی(ع) : عقل کا فوت ہونا بد بختی ہے ۔

۱۳۰۔ اما م علی(ع) : کوئی بھی بیماری کم عقلی سے زیادہ تکلیف دہ نہیںہے۔

۱۳۱۔ امام علی(ع) : ادب جب تک عقل کے ساتھ نہ ہو مفید نہیںہے۔

۱۳۲۔ اما م حسن (ع): آگاہ ہو جاؤ! عقل پناہگاہ ہے اور بردباری زینت ہے۔

۱۳۳۔ اما م کاظم (ع):نے ہشام بن حکم سے فرمایا اے ہشام! لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا۔ اے فرزند! دنیا ایسا گہرا سمندر ہے کہ جس میں بے شمار مخلوق غرق ہو چکی ہے۔ لہذا کوشش کرو کہ اس میں تمہاری کشتی ، تقوائے الٰہی، اس کا ساحل ایمان، بادبان(خدا پر) توکل، ناخدا عقل ،رہنما علم اورسوار صبرہو۔

۳۲

تیسری فصل تعقل

۳/۱

تعقل کی تاکید

قرآن

(اسی طرح پروردگار اپنی آیات کو بیان کرتا ہے کہ شاید تمہیں عقل آجائے۔)

(وہی وہ ہے جو حیات و موت کا دینے والا ہے اور اسی کے اختیار میں دن و رات کی آمد و رفت ہے تم عقل کو کیوںنہیں استعمال کرتے ہو۔)

(خدا اسی طرح مردوں کو زندہ کرتا ہے اور تمہیںاپنی نشانیاں دکھاتا ہے کہ شاید تمہیں عقل آجائے۔)

(بیشک ہم نے تمہاری طرف وہ کتاب نازل کی ہے جسمیں خو د تمہارا بھی ذکر ہے تو کیا تم اتنی بھی عقل نہیںرکھتے ہو۔)

ملاحظہ کریں: بقرہ : ۱۶۴، انعام : ۳۲،۱۵۱، اعراف: ۱۶۹، ھود: ۵۱، یوسف :۲،۱۰۹، رعد: ۴،نحل : ۱۲، ۶۷ حج: ۴۶، نور: ۶۱، قصص:۶۰، عنکبوت: ۳۵، روم:۲۴و ۲۸، یس ۶۲، ۶۸، ص:۲۹، غافر:۶۷و۷۰، زخرف: ۳، جاثیہ ۵و۱۳، حدید: ۱۷۔

۳۳

حدیث

۱۳۴۔ رسول خدا(ص): عقل سے راہنمائی حاصل کرو تاکہ ہدایت یافتہ ہو جاؤ، عقل کی نافرمانی نہ کرو ورنہ پشیمان ہوگے۔

۱۳۵۔ رسول خدا(ص): بہترین چیز جس سے خدا کی عبادت و بندگی ہوتی ہے وہ عقل ہے ۔

۱۳۶۔ رسول خدا(ص): دنیا و آخرت میںتمام اعمال کا پیشوا عقل ہے ۔

۱۳۷۔ ابن عمر رسول خدا سے نقل کرنے ہیں کہ آپؐ نے آیت(تبارک الذی بیده الملک) کو(ایکم احسن عملا) تک پڑھا، پھر فرمایا: تم میں سب سے بہترین عمل والا وہ شخص ہے جس کی عقل سب سے بہتر ہے اور سب سے زیادہ محرمات خدا سے پرہیز کرنے والا اور طاعت خدا میںسب سے زیادہ جلدی کرنے والا ہے ۔

۱۳۸۔ رسول خدا(ص): نے اپنی وصیت میں ابن مسعود سے فرمایا: اے ابن مسعود! جب بھی کوئی کام انجام دو تو علم و عقل کے معیار پر انجام دو اور تدبر و علم کے بغیر کام انجام نہ دو اس لئے کہ خدا وند متعال کا ارشاد ہے(اس عورت کے مانند نہ ہو جاؤ کہ جس نے اپنے دھاگوںکو مضبوط و محکم بنانے کے بعد خود ہی توڑ ڈالا ہو)

۱۳۹۔ رسول خدا(ص) :دور جاہلیت کے تمہارے بہترین افراد، اسلام میں بھی تمہارے بہترین افراد ہیں اگر غور و فکر سے کام لیں۔

۱۴۰۔ رسول خدا(ص): رسولوں کے بعد اہل جنت کا سردارسب سے زیادہ عقلمند شخص ہوگا۔ اور لوگوں میں سب سے افضل انسان وہ ہے جوان میں زیادہ عقلمند ہے ۔

۳۴

۱۴۱۔ رسول خدا(ص): اے علی ! جب لوگ نیک اعمال کے ذریعہ خدا سے تقرب حاصل کریں تو تم عقلمندی کو اپنا شعار بنا لیناکہ اس کے ذریعہ تم خدا کا تقرب اور دنیوی و اخروی درجات کو پا لوگے۔

۱۴۲۔ عطا: ابن عباس عائشہ کے پاس گئے اور کہا اے ام المومنین، ایک شخص معمولی شب زندہ داری کرتا ہے اور زیادہ سوتا ہے دوسرا شخص بیشتر شب زندہ داری کرتا ہے اور کم سوتا ہے آپکی نظر میں کون زیادہ محبوب ہے ؟! عائشہ نے کہا:(میں نے یہی سوال رسول خدا(ص) سے پوچھا) تو آپؐ نے فرمایا: جسکی عقل زیادہ بہتر ہو، میں نے کہا: یا رسول اللہ ؐمیں آپ سے ان دونوں کی عبادت کے متعلق سوال کررہی ہوں؟ تو آنحضرت نے فرمایا : اے عائشہ ان دونوں سے انکی عقل کے مطابق سوال کیا جائیگا، جو زیادہ عقل مند ہے وہی دنیا و آخرت میں افضل ہے ۔

۱۴۳۔ ابو ایوب انصاری رسول خدا(ص) سے نقل کرتے ہیںکہ آپؐ نے فرمایا: دو شخص وارد مسجد ہوئے دونوں نے نماز پڑھی جب وہ پلٹے تو ایک کی نما ز کا وزن کوہ احد کے سے زیادہ تھا جبکہ دوسرے کی نمازکا وزن ایک ذرہ کے برابر بھی نہیںتھا ، ابو حمید ساعدی نے پوچھا: اے رسول خدا(ص)!ایسا کیوںہے ؟ فرمایا:ایسا اس وقت ہوتا ہے جبکہ ان دونوں میں سے ایک محرمات الٰہی سے زیادہ پرہیز کرتا ہو اور کار خیر کی طرف جلدی کرنے میں زیادہ دلچسپی ہو اور چاہے مستحبات میں دوسرے سے پیچھے ہی کیوں نہ ہو۔

۱۴۴۔ خدا ئے تبارک و تعالیٰ: حدیث معراج میں فرماتا ہے ، اے احمد! عقل کے زائل ہونے سے پہلے اسے استعمال کرو، جو عقل سے کام لیتاہے وہ نہ خطا کرتا ہے اور نہ سرکشی ۔

۳۵

۱۴۵۔ امام علی(ع) : بیشتر تفکر اور غور خوض کثرت تکرار اور تحصیل علم سے زیادہ مفید ہے ۔

۱۴۶۔ امام علی(ع) : عقل سے راہنمائی حاصل کرو اور خواہشات کی مخالفت کرو کامیاب ہوجاؤگے۔

۱۴۷۔ امام علی(ع) : عقل بلند ہستیوں تک پہنچنے کا زینہ ہے ۔

۱۴۸۔ امام علی(ع) : انسان کا رتبہ اسکی عقل کے مطابق ہے ۔

۱۴۹۔ امام علی(ع) : انسان کا کمال اسکی عقل کی وجہ سے ہے اور اسکی قیمت اسکی فضیلت کی بنا پر ہے ۔

۱۵۰۔ امام علی(ع) : انسان کا کمال عقل سے ہے ۔

۱۵۱۔ امام علی(ع) : خوبصورتی کا تعلق زبان سے اور کمال کا تعلق عقل سے ہے ۔

۱۵۲۔ امام علی(ع) : لوگ ایک دوسرے پرعلم و عقل کے ذریعہ فضیلت رکھتے ہیں نہ کہ اموال و حسب کے ذریعہ۔

۱۵۳۔ امام علی(ع) : جہالت سے اتنی ہی بے رغبتی ہوتی ہے جتنی عقل سے رغبت ہوتی ہے ۔

۱۵۴۔ امام علی(ع) : جو شخص عقل سے نصیحت لیتا ہے اسے یہ دھوکا نہیں دیتی۔

۱۵۵۔ امام علی(ع) : جو شخص عقل سے مدد چاہتا ہے اسکی یہ مدد کرتی ہے ۔

۱۵۶۔ امام علی(ع) ــ: جو شخص عقل سے راہنمائی حاصل کرتا ہے اسکی یہ راہنمائی کرتی ہے ۔

۱۵۷۔ امام علی(ع) : جو شخص اپنی عقل سے عبرت حاصل کرتا ہے راستہ پا جاتا ہے ۔

۱۵۸۔ امام علی(ع) : جو اپنی عقل کا مالک ہو جاتا ہے وہ حکیم ہے ۔

۱۵۹۔ امام علی(ع) : عقل عیوب کا پردہ ہے۔

۳۶

۱۶۰۔ امام کاظم (ع):نے ہشام بن حکم سے فرمایا: اے ہشام! اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی کتاب میں صاحبان عقل و فہم کو بشارت دی ہے پس فرمایا: (میرے ان بندوںکو بشارت دے دیجئے جو باتوں کو سنتے ہیں اور جو بات اچھی ہوتی ہے اسکی اتباع کرتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جنہیںخدا نے ہدایت دی ہے اور یہی وہ لوگ ہےں جو صاحبان عقل ہیں)

اے ہشام! خدا وند عالم نے لوگوں پر اپنی دلیلوں کو عقل کے ذریعہ مکمل کیا ہے ، (قوتِ ) بیان کے ذریعہ انبیاء کی مدد اور برہان کے ذریعہ اپنی ربوبیت کی طرف انکی راہنمائی کی ہے۔ فرمایا: (تمہارا معبود ایک معبود ہے نہیں کوئی معبود مگر اس رحمن و رحیم کے، بیشک زمین و آسمان کی خلقت، روز و شب کی رفت و آمد، ان کشتیوں میں جو دریاؤں میں لوگوں کے فائدہ کےلئے چلتی ہیں، اور اس پانی میں جسے خدانے آسمان سے نازل کرکے اسکے ذریعہ مردہ زمینوں کو زندہ کر دیا ہے اور اس میں طرح طرح کے چوپائے پھیلا دئیے ہیں اور ہواؤں کے چلنے میں اور آسمان و زمین کے درمیان مسخر کئے جانے والے بادل میں صاحبان عقل کےلئے اللہ کی نشانیاں پائی جاتی ہیں)

اے ہشام! خدا نے بعنوان مدبراپنی معرفت کےلئے ان چیزوں کو نشانی قرار دیا ہے (اور اس نے تمہارے لئے رات و دن اور آفتاب و ماہتاب سب کو تمہارا تابع کر دیا ہے اور ستارے بھی اسی کے حکم کے تابع ہیں بیشک اس میں بھی صاحبان عقل کےلئے قدرت کی بہت سی نشانیاں پائی جاتی ہیں)اور فرمایا:(وہی خدا ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفے سے پھر علقہ سے پھر تم کو بچہ بنا کر باہر لاتا ہے پھر زندہ رکھتا ہے کہ توانائیوں کو پہنچو پھر بوڑھے ہو جائے اور تم میں سے بعض کو پہلے ہی اٹھا لیا جاتا ہے اور تم کو اس لئے زندہ رکھتا ہے کہ اپنی مقررہ مدت کو پہنچ جاؤ اور شاہد تمہیں عقل بھی آجائے)خدا فرماتا ہے (اور رات و دن کی رفت و آمد میں اور جو رزق خدا نے آسمان سے نازل کیا ہے جسکے ذریعہ مردہ زمینوں کو زندہ کر دیا ہے اور ہواؤںکو چلانے میں اور آسمان و زمین کے درمیان مسخر کئے جانے والے بادل میں صاحبان عقل کےلئے اللہ کی نشانیاں ہیں)

۳۷

خدا فرماتا ہے (خدا مردہ زمینوں کا زندہ کرنے والا ہے اور ہم نے تمام نشانیوںکو واضح کر کے بیان کر دیا ہے تاکہ تم عقل سے کام لے سکو) نیز فرماتا ہے (اور انگور کے باغات ہیں اور زراعت ہے اور کھجوریںہیں جن میں بعض دو شاخ کی ہیں اور بعض ایک شاخ کی ہیں اور سب ایک ہی پانی سے سینچے جاتے ہیں اور ہم بعض کو بعض پر کھانے میں ترجیح دیتے ہیں اور اس میں بھی صاحبان عقل کےلئے نشانیاں پائی جاتی ہیں) خدا کاارشاد ہے (اور اسکی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ وہ بجلی کو خوف اور امید کا مرکز بنا کر دکھلاتا ہے اور آسمان سے پانی برساتا ہے پھر اسکے ذریعہ مردہ زمینوںکو زندہ بناتا ہے بیشک اس میں بھی عقل رکھنے والی قوم کےلئے بہت سی نشانیاں ہیں) اور فرمایا( کہہ دیجئے کہ آؤ ہم تمہیں بتائیںکہ تمہارے پروردگار نے تمہارے لئے کیا کیا حرام کیا ہے خبردار کسی کو اسکا شریک نہ بنانا اور ماں باپ کےساتھ اچھا برتاؤ کرنا اپنی اولاد کو غربت کی بنا پر قتل نہ کرنا کہ ہم تمہیں بھی رزق دے رہے ہیں اور انہیں بھی اور بدکاریوں کے قریب نہ جانا وہ ظاہر ہوں یا پوشیدہ اور کسی ایسے نفس کو جسے خدا نے حرام کر دیا ہے قتل نہ کرنا مگر یہ کہ تمہارا کوئی حق ہو یہ وہ باتیں ہیں جنکی خدا نے نصیحت کی ہے تاکہ تمہیں عقل آجائے) پروردگار کا ارشاد ہے (کیا اس میں تمہارے مملوک غلام و کنیز میںکوئی تمہارا شریک ہے کہ تم سب برابر ہو جاؤ اور تمہیں انکا خوف اسی طرح ہو جس طرح اپنے نفوس کے بارے میں خوف ہوتا ہے ۔ بیشک ہم اپنی نشاینوںکو صاحبان عقل کےلئے اسی طرح واضح کرکے بیان کرتے ہیں)

اے ہشام! خدا نے اپنے انبیاء و رسل کو اپنے بندوںکی طرف اس لئے بھیجا ہے تاکہ وہ خدا کی معرفت حاصل کریں ۔ انبیاء کی دعوت پر اچھی طرح سے لبیک کہنے والے وہ افراد ہیں جنہوںنے خدا کو اچھی طرح سے پہچانا ہے ۔ امر خدا کے متعلق لوگوں میں سب سے زیادہ جاننے والا وہ شخص ہے جس کی عقل سب سے بہتر ہے ۔ اور جو سب سے زیادہ کامل العقل ہے دنیا و آخرت میں اس کا درجہ سب سے بلند ہے ۔

۳۸

۱۶۱۔ جابر بن عبد اللہ: رسول خدا(ص) نے اس آیت( اور یہ مثالیں ہم تمام عالم انسانیت کےلئے بیان کر رہے ہیں اور علماء کے علاوہ انہیں کوئی نہیں سمجھتاہے ) کی تلاوت کی اور فرمایا: عالم وہ ہے جو خدا کی معرفت رکھتا ہے اور اس کے حکم کی طاعت اور اس کے غضب سے دوری اختیار کرتا ہے۔

۱۶۲۔ رسول خدا(ص)ــ: اللہ تعالیٰ نے عقل کو تین حصوں (خدا کی اچھی طرح معرفت، اسکی بہترین طاعت اور اس کے حکم کے سامنے مناسب ثابت قدمی) میں تقسیم کیا ہے ، جس کے اندر یہ حصے ہوں گے اسکی عقل کامل ہے اور جس میں یہ نہیں ہوں گے وہ عاقل نہیں ہے ۔

۱۶۳۔ رسول خدا(ص): بہت سے عقلمند ایسے ہیں جنہوںنے امر خدا کو سمجھ لیا ہے لیکن لوگوں کی نظروں میں حقیر اورکریہہ المنظر شمار ہوتے ہیں جبکہ کل یہی نجات پائیں گے اور بہت سے افرادلوگوں کی نظروں میں شستہ زبان اور حسین منظر شمار ہوتے ہیں جبکہ کل قیامت میں یہی ہلاک ہوں گے۔

۱۶۴۔ رسول خدا(ص): انسان کا دین اس وقت تک ہرگز مکمل نہیںہو سکتا جب تک کہ اسکی عقل مکمل نہ ہو جائے۔

۱۶۵۔ رسول خدا(ص): ملائکہ نے عقل ہی کے ذریعہ طاعت خدا کے لئے جد و جہد کی اوربنی آدم میں سے مومنین نے بھی اپنی عقل کے مطابق طاعت خدا کے سلسلہ میں سعی و کوشش کی ۔ خدا کی سب سے زیادہ اطاعت کرنے والے وہی لوگ ہیں جو زیادہ عقل رکھتے ہیں۔

۱۶۶۔ ابن عباس:رسول خدا(ص) سے روایت کرتے ہیں : لوگوں میںسے زیادہ با فضل انسان وہ ہے جوان میں سب سے زیادہ عقلمند ہے ، ابن عباس نے کہا: اور وہ تمہارانبی ہے ۔

۱۶۷۔ امام صادق(ع): تمہیں کیا ہو گیا ہے جو ایک دوسرے سے الگ رہتے ہو! ، مومنین میں سے بعض بعض سے افضل ہیں، بعض کی نمازیں دوسروں سے زیادہ ہیںاور بعض کی نگاہیںبعض سے زیادہ گہری ہیںیہی درجات ہیں۔

نوٹ: یہ تمام آیات و روایات جو لوگوں کو تفکر، تدبر، تذکر، تفقہ اور بصیرت کی دعوت دے رہی ہیں ،ان میں معرفت اور زندگی کے صحیح راستوں کے انتخاب کی تاکید کی گئی ہے ۔

۳۹

۳/۲

ہمیشہ غور و فکر سے کام لو

قرآن

(اور یقینا ہم نے انسان و جنات کی ایک کثیر تعداد کو گویا جہنم کے لئے پیدا کیا ہے کہ ان کے پاس دل ہیں مگر سمجھتے نہیں ہیں اور آنکھیں ہیں مگر دیکھتے نہیں اور کان ہیں مگر سنتے نہیں، یہ چوپایوں جیسے ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں اور یہی لوگ اصل میںغافل ہیں)

(اور وہ ان لوگوں پر خباثت کو لازم قرار دیتا ہے جو عقل سے کام نہیں لیتے ہیں)

( جو اس دنیا میں اندھا ہے وہ قیامت میں بھی اندھا اور بھٹکا ہوا رہیگا)

(حیف ہے تمہارے اوپر اور تمہارے ان خداؤں پر جنہیں تم نے خدا ئے برحق کو چھوڑ کر اختیار کیاہے کیا تمہیں اتنی بھی عقل نہیں ہے)

(اور پھر کہیں گے کہ اگر ہم بات سن لیتے اور سمجھتے ہوتے تو آج جہنم والوں میں نہ ہوتے)

(اور وہ لوگوں جو کافر ہیںا ان کےلئے آتش جہنم ہے اور نہ انکی قضا آئیگی کہ مر جائیں اور نہ عذاب میں کمی کی جائیگی ہم ہر کافر کو سزا دیںگےں اور یہ وہاں فریاد کرینگے کہ پروردگار ہمیں نکال لے ہم اب نیک عمل کریںگے اسکے بر خلاف جو پہلے کیا کرتے تھے تو کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہیں دی تھی جسمیں عبرت حاصل کرنے والے عبرت حاصل کر سکتے تھے اور تمہارے پاس ڈرانے والا بھی آیا تھا لہذا اب عذاب کا مزہ چکھو کہ ظالمین کا کوئی مدد گار نہیں ہے )

(کیا آپ کا خیال یہ ہے کہ ان کی اکثریت کچھ سنتی اور سمجھتی ہے ہر گز نہیں یہ سب جانوروںجیسے ہیں بلکہ ان سے بھی کچھ زیادہ ہی گمراہ ہیں)

ملاحظہ فرمائیںـ:۴۴و۷۶۔آل عمران: ۶۵، یونس ۱۶، عنکبوت: ۳۵،۴۳۔ صافات ۱۳۸۔ فاطر:۳۷۔ جاثیہ: ۲۳۔ احقاف:۲۶

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

حقیقت ماجرا:

بلاذری نے اپنی کتاب ''فتوح البلدان ''میں لکھا ہے :

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد قبیلۂ ''ازد '' نے اسلام سے منہ موڑا اور مرتد ہوگیا ۔ اس کی رہبری ''لقیط بن مالک ذوالتاّج'' کے ہاتھ میں تھی ۔ یہ لوگ ''دبا'' کیطرف بڑھے ۔ ابوبکر نے قبیلۂ ازد سے ''حذیفہ بن محصن بارقی'' اور ''عکرمہ بن ابی جہل مخرومی'' کو ایک گروہ کے ہمراہ ان کی سرکوبی کے لئے مامو کیا ۔

حذیفہ اوراس کے ساتھیوں نے ''دبا '' میں لقیط اور اس ساتھیوں سے جنگ کی،لقیط مارا گیا اور ''دبا'' کے باشنددوں کاایک گروہ اسیر ہوا ، انھیں ابوبکر کی خدمت میں مدینہ بھیج دیا گیا ، اس طرح یہ ماجر ا ختم ہوا اور قبیلۂ ''ازد '' دوبارہ اسلام لے آیا۔

بلاذری اضافہ کرکے لکھتا ہے :

''مہرہ بن حیدان بن عمرو قضا عہ '' کے کچھ گھرانے آپس میں جمع ہوئے ، عکرمہ ان کی طرف بڑھا لیکن ان سے جنگ نہیں کی ،کیو نکہ انہوں نے اپنے مال کی زکا ت خلیفہ کو ادا کر دی اور جان بچالی۔

ابن عثم نے اپنی کتاب ''فتوح'' میں لکھا ہے :

عکرمہ نے اس جنگ میں ''دبا'' کے ایک سوافراد کو قتل کر ڈالا تب وہ ہتھیا ر ڈال کر تسلیم ہوئے ۔ اس کے بعد ان کے سرداروں کے سرتن سے جدا کئے اور باقی بچے تین سو جنگی اور چار سو عورتوں اور بچوں کو اسیر بنا کر ابوبکر کے پاس مدینہ بھیج دیا۔

ابوبکر نے حکم دیا کہ مردوں کے سرتن سے جدا کئے جائیں اور ان کی عورتوں اور بچوں کو فروخت کیا جائے ۔ لیکن عمر نے شفاعت کی اور کہا یہ مسلمان ہیں اور قسم کھاتے ہیں کہ ہم نے کبھی اسلام منہ نہیں موڑ ا تھا ۔ یہاں پر ابوبکر نے اپنا فیصلہ بدل دیا کہ ان کے مال و منال پر قبضہ کر کے انہیں زندان بھیجدیا جائے ۔ یہ ابوبکر کے زمانے میں قیدی بنے رہے ۔ عمر نے خلافت ہاتھ میں لینے کے بعد انھیں آزاد کیا۔

۱۶۱

جانچ پڑتال کا نتیجہ :

سیف کہتا ہے کہ مسلمانوں نے ''دبا''کی جنگ میں مشرکین کے دس ہزار افراد قتل کردئے اور اسراء کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ صرف ان کا پانچوں حصہ آٹھ سو افراد پر مشتمل ابوبکر کی خدمت میں مدینہ بھیحا گیا !!

جب کہ دوسروں نے مقتولین واسرا حتیٰ ان کے سردار جن کے سرتن فتح کے بعد سے جدا کر کے قتل کیا گیا سب کی تعداد کل ملاکر آٹھ سو افراد بتائی ہے ۔

سیف کہتا ہے کہ ''مہرہ'' کی جنگ میں مشرکین دو گرو ہوں میں تقسیم ہو کر ریاست کے مسٔلہ پر ایک دوسرے سے جھگڑ پڑے تھے ۔ ان میں سے ایک بنام شخریت مسلمانوں سے جاملا اور مسلمانوں کے ساتھ مل کر مشرکین کی بیخ کنی کی اور ''دبا'' سے شدید تر جنگ ان کے ساتھ ہوئی۔ عکرمہ نے ان کے سردار کو قتل کیا اور باقی لوگوں کو خاک و خون میں غلطان کیا اور دل خواہ حدتک ان کو قتل ومجروح کر کے رکھدیا ۔ نیز دو ہزار نجیب اور آزاد عورتوں کو جنگی غنائم کے ساتھ ابوبکر کی خدمت میں مدینہ بھیجدیا ۔ اس فتح کے بعد اس علاقہ کے لوگوں نے اسلام کے سامنے سر تسلیم خم کیا اور دوبارہ اسلام کے دائرہ میں آئے جبکہ دوسروں نے کہا ہے کہ :

جون ہی عکرمہ اور اس کے ساتھی ''مھرہ '' کے نزدیک پہنچے وہا ں کے باشندوں نے زکات و مالیا ت دینے کا عہد کیا اور جنگ کی مصیبت سے اپنے آپ کو نجات دیدی ۔

جھوٹااور زندیقی سیف تن تنہا ان افسانوں کو جعل کر تا ہے تاکہ خون کے دریا بہا کر ، جانی تلفات کو حد سے زیا د ہ دکھا کر ، انسانوں کی بے احترامی کر کے صدر اسلام کے مسلمانوں کو بے رحم اور قسی القلب دکھا ئے اور اسلام اور مسلمانوں کو اس طرح پیش کرتا ہے جس کی وہ تمنا اور آرزو رکھتا ہے ۔

افسوس اس بات پر ہے کہ طبری جیسا عالم سیف کے ان تمام جھوٹ کے پلندوں کو اس کی اصلیت و حقیقیت کو جانتے ہوئے بھی اپنی تاریخ میں نقل کرتا ہے !!

۱۶۲

اور جب ابن اثیر ، ابن کثیر اور ابن خلدون جیسے علماء کی باری آتی ہے تو وہ بھی ان مطالب کو طبری سے نقل کر کے اپنی تاریخ کی کتابوں میں منعکس کرتے ہیں ۔

یاقوت حموی نے بھی سیف کی روایتوں پر اعتماد کر کے اس کے خیا لی مقامات جیسے ،جیروت ، ریاضتہ الروضہ ، ذات الخیم ، صبرات' ظہور ، لبان ،المر ، ینصب اور ان جیسی دیگر جگہوں کو اپنی کتاب ''معجم البلدان'' میں درج کر کے ان پر شرحیں لکھی ہیں ۔

سرانجام علامہ ابن حجر سیف کے افسانوں کے اداکاروں کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کی فہرست میں قرار دیتا ہے ۔اور''لہ ادراکُ''کا حکم جاری کرکے ان کی زندگی کے حالات پر روشنی ڈالتا ہے ۔اور اپنی بات کے خاتمہ پر حرف ''ز'' لکھ کر اعلا ن کر تا ہے کہ اس نے اس صحابی کا انکشاف کیاہے اور اس کے حالات پر شرح لکھکر دوسرے تذکرہ نویسوں پر اضافہ کیا ہے ۔

مصادر و مآخذ

صیحان بن صوحان کے بارے میں :

١۔''اصابہ ابن حجر (٢/١٩٣) دوسرا حصہ نمبر:٤٤٣١

عباد ناجی کے بارے میں :

١۔''اصابہ ''ابن حجر (٣/٨٧) تیسرا حصہ نمبر : ٦٢٩٨)

شحریب کے بارے میں :

''اصابہ'' ابن حجر (٢/١٦٠) نمبر: ٣٩٦٢

خریت بن راشد کے بارے میں :

١۔''اکمال '' ابن ماکولا (٢/٤٣٢)

۱۶۳

سیحان بن صو حان کے بارے میں :

١۔''اصابہ '' ابن حجر ( ٢/١٠٢) نمبر: ٣٦٣٠

تین صحابیوں کے بارے میں سیف کی روایتیں :

١۔''تاریخ طبری'' (١/١٩٧٩)

جنگ ''دبا' کے حقا ئق :

١۔''تاریخ اعثم '' (١/٧٤)

٢۔''فتوح البلدان'' بلاذری (٩٢۔٩٣) عمان کی خبر میں

عباد بن منصور ناجی کے بارے میں :

١۔''فہرست تاریخ طبری '' (٣٠٩)

٢۔''تاریخ طبری '' (٢/١٩٨٤)و(٢/٢٠١٧)و(٣/١١و٧٥و٨١و٨٤و٩١و٣١٩)

کہ جہاں بصرہ میں اس کے منصب قضاوت کے بارے میں گفتگو آئی ہے۔

٣۔خلاصہ تذھیب الکمال '' (١٥٨) اس کی تاریخ و فات بھی ذکر کی گئی ہے۔

٤۔''جرح و تعدیل '' (١/٨٦) تیسرا حصہ

۱۶۴

صوحان کے بیٹوں کے نام :

١۔''جمہرۂ انساب '' ابن حزم (٢٩٧) لفظ ''بنی عجل''

٢۔''اللباب '' ابن اثیر (٢/٦٢)

٣۔''تاریخ خلیفہ بن خیاط'' (١/١٧٢)

٤۔''طبقات''ابن خیاط (١/٣٢٧)سیف کی روایتوں میں ذکر ہوئے

سیف کی روایتوں میں مذکور اس داستان کے مقامات کی تفصیلات :

١۔''معجم البلدان'' حموی لفظ:

خیم (٢/٥١٠)

ریاضتہ الروضتہ (٢/٨٨١)

جیروت (٢/١٧٥)

صبرات (٣/٣٦٦)

ظہور (٣/٥٨٢)

اللبّان (٤/٣٤٥)

المر (٤/٤٩٥)

ینعب (٤/١٠٤١)

۱۶۵

چھٹا حصّہ:

ابو بکر کی مصاحبت کے سبب بننے والے اصحاب

یہ لوگ اس لئے اصحاب ہیں کہ :

٨٢۔شریک فزاری :نمائندہ کے طور پر ابوبکر کی خدمت پہنچا ہے ۔

٨٣۔ مسور بن عمرو: ابوبکر کے خط میں گواہ رہا ہے ۔

٨٤۔ معاویئہ عذری :. ابو بکر نے اس کے نام خط لکھا ہے

٨٥۔ ذویناق،و شہرذویناق: ابوبکر نے اس کو خط لکھا ہے ۔

٨٦۔معاویۂ ثقفی : ابو بکر کی سپاہ کا ایک افسر رہا ہے ۔

۱۶۶

٨٢واں جعلی صحابی شریک فزاری

ابن حجرکی ''اصابہ ''میں یہ صحابی یوں پہچنوایا گیا ہے :

شریک فزاری :

سیف بن عمر نے اس کانام لیا ہے اور کہا ہے ، جب خالدین ولید طلیحہ کی جنگ سے فارغ ہوا ، تو اسی زمانہ میں شریک فزاری نما ٰئندہ کی حیثیت سے ابوبکر کی خدمت میں پہنچا ہے ۔ ہم نے اس کی اس ملاقات کی داستان ''خارجہ بن حصن '' کے حالات میں بیان کی ہے ۔(ز)( ابن حجر کی بات کا خاتمہ)

اس صحابی کے لئے سیف کا خلق کیا ہوا نسب :

سیف نے شریف کو ''فزاری ''سے نسبت دی ہے اور یہ ''فزارةبن ذبیا ن بن بغیض بن ۔۔۔نزاربن معدبن عدنان'' سے نسبت ہے

فزاریوں کا شجرہ ٔ نسب ابن حزم کی کتاب ''جمہرۂ انساب''میں بطور کا مل آیاہے لیکن اس میں شریک '' نام کا کوئی شخص کہیں پر دکھائی نہیں دیتا ۔

شریک کی داستان :

ابن حجر نے شریک کے بارے میں جو روایت نقل کی ہے ، اس کے اشارہ کے پیش نظر نہ اس کی کتاب میں کسی اور جگہ اس کا ذکر ہے اور نہ کسی اور کتاب میں یہ روایت ملتی ہے اور یہ عالم ''خارجہ بن حصن '' کے حالات میں لکھتا ہے کہ جب خالدبن ولید '' بنی اسد '' کی جنگ سے فارغ ہوا ، تو''خارجہ'' ایک دوسرے گروہ کے ہمراہ نمایندگی کی حیثیت سے ابوبکر کی خدمت میں پہنچا ۔ اس خبر میں شریک کا کہیں نام و نشان نہیں آیا ہے !

اسی طرح طبری نے بھی ''شریک '' کے بارے میں سیف کی روایت کو درج نہیں کیا ہے ۔ یہ صرف ابن حجر ہے جس نے سیف کی روایت پر اعتماد کر کے اس کے''شریک فزاری ''کو اپنی کتاب کے تیسرے حصہ میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی کی حیثیت سے تعارف کرایا ہے۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس عالم نے اپنی کتاب کی جلد اول میں کسی اور ''شریک ''کا '' شریک غیر منسوب '' کے نام سے ذکر کیا ہے اور اس کے حالت پر روشنی ڈالی ہے۔

اس طرح علامہ ابن حجر نے اپنی کتاب ''اصابہ '' میں ''شریک '' کے نام سے دو ہم نام صحابیوں کے حالات پر روشنی ڈالی ہے ، کہ ان میں سے ایک سیف کا خیالی اور جعلی صحابی ہے جس کا کہیں وجود نہیں ہے ۔!!

۱۶۷

مصادر و مآخذ

شریک فزاری کے حالات :

١۔ ''اصابہ '' ابن حجر (٢/١٦٢) تیسرا حصہ نمبر :٣٩٧٧

شریک غیر منسوب کے حالات:

١۔''اصابہ '' ابن حجر ( ٢/١٤٩)

٢۔تاریخ بخاری (٢/٢٣٨) دوسرا حصہ

خارجہ بن حصن کے حالات:

١۔ ''اصابہ ''بن حجر (ا/٣٩٩)

فزارہ کا نسب:

''جمہرۂ انساب'' ابن حزم (٢٥٥۔٢٥٩)

٨٣واں جعلی صحابی مسور بن عمرو

ابن حجر نے اس صحابی کا تعارف یوں کرایا ہے :

مسوربن عمرو:

سیف بن عمر نے طلحہ بن اعلم سے اور اس نے عکرمہ سے نقل کیا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد جو عہد نامہ ابو بکر صدیقنے ''نجران '' کے باشندوں کے ساتھ طے کیا ، اس پر یہ صحابی بطور گواہ تھا ۔

۱۶۸

ابن فتحون نے اس صحابی کو ابن عبدالبر کی کتاب ''استیصاب'' سے دریافت کیا ہے۔ (ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

مذکورہ روایت کو طبری نے سیف سے نقل کر کے اپنی تاریخ میں ''اخابثِ عک'' کی داستان میں تفصیل کے ساتھ یوں درج کیا ہے :

جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کی خبر ''نجران '' کے باشندوں کو ملی ،توانہوں نے ایک وفد منتخب کر کے نمائندہ کے طور پر ابوبکرکے پاس بھیجا تاکہ خلیفہ کے ساتھ تجدید عہد کریں ۔ ''نجران'' کے باشندوں میں ''بنی افعی '' کے چالیس ہزار جنگجوتھے وہ ''بنی حارث''سے پہلے وہاں ساکن ہوئے تھے ۔

اس گروہ کے افراد ابوبکر کی خدمت میں پہنچے ، اوراپنے مطالبات بیان کئے ۔ابوبکر نے ان کے مطالبات منظور کئے اور یوں لکھا :

بسم اﷲالر حمن الر ّحیم

یہ پیمان بندہ ٔ خدا ابو بکر ،رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جانشین کی طرف سے نجران کے باشندوں کے لئے ہے۔ وہ نجران کے باشندوں کواپنی اور اپنے لشکر کی پناہ میں قرار دیتا ہے اور جس چیز کو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے بارے میں اپنے ذمہ لیا تھا ، سب کی تائید کر تاہے ، مگر وہ چیز جس کے بارے میں خود حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خدائے عزوجل کے حکم سے ان کی سرزمینوں میں اور دوسری عرب سرزمینوں میں اس سے عدول کیاہوکیونکہ ایک علاقہ میں دو قوانین راہلج نہ ہو سکتے ۔

اس بنا پر نجران کے باشندے اپنی جان ، قومیت ،تمام اموال و متعلقات ، جنگجوؤں ، حاضر و غائب ، پادریوں ، وراہبوں ،خرید و فروش جس صورت میں انجام پائے ، اورجو کچھ کم و زیادجو اختیار میں رکھتے ہیں سب کو اپنی پناہ میں لیتا ہے اور امان میں ہونے اعلان کرتاہے ۔ انہوں نے جو کچھ اپنے ذمہ لیا ہے اس کے وہ خود ذمہ دار ہیں ، کہ اگر اسے اداکیا ، تو ان سے ،مواخذہ بھی نہیں ہوگا اور نہ ان سے ان کے مال کا دسواں حصہ ضبط کیا جائے گا اور نہ پادری تبدیل ہوگا اور نہ کوئی راہب۔ ابوبکر ان تمام چیزوں کو نجران کے باشندوں کے لئے قبول کرتا ہے جنھیں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے لئے رسما ً قبول فرمایا ہے ، اور جو اس پیمان نامہ میں ذکرہوا ہے اور محمدرسول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اوردوسرے مسلمانوں نے قبول کیاہے ان تمام چیزوں کو قبول کرتا ہے ۔ ضروری راہنما ئیوں اورنظم وانتظام چلا نے میں ان کے حق کو اور ان دیگر حقوق کو قبول کرتاہے ۔

۱۶۹

مندجہ بالا مطالب موادتایئد ہیں ۔ دستخط مسوربن عمر و و عمرو غلام ابو بکر نئی سطر سے جیسا کہ ہم نے کہا ، طبری نے اس پیمان نامہ کو درج کیا ہے لیکن اس کی سند کا ذکر نہیں کیا ہے ۔ اس کے بر عکس ابن حجر نے ابوبکر کے پیمان نامہ کی سند کا ذکر کیا ہے لیکن اصل خط کو ثبت نہیں کیا ہے۔

ابن فتحون نے بھی سیف کی اس روایت پر اعتماد کر کے ابن عبدالبر کی کتاب ''استیعاب ''کے ضمیمہ میں ''مسور'' کے وجود پر باور کر کے اس کے حالات لکھے ہیں

جیسا کہ گزرا ، ابن حجر نے بھی سیف کی اسی روایت پر اعتماد کر کے ''مسور'' کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کے زمرہ میں قراردیا ہے اور اس کی دلیل یہ تھی کہ سیف کے کہنے کے مطابق ''مسور''نے ابوبکر کے نجران کے باشندوں کے ساتھ کئے گئے عہدنامہ پر گواہی اور تایئد کی ہے ۔

ابن حجر نے اس صحابی کو اپنی کتاب کے پہلے حصہ میں درج کیا ہے ، چونکہ سیف نے اپنے جعل کئے گئے اس صحابی کا نسب مشخص نہیں کیا ہے ، اسلئے ابن حجر نے بھی اس حد سے نہ گزر کر اس کے لئے کوئی نسب درج نہیں کیا ہے ۔

قابل ذکر ہے کہ ١٢٦ ھ میں سیف کا ہم عصر ، ''مسوربن عمربن عباد'' نامی ایک شخص بصرہ میں زندگی بسرکر تا تھا اور اس قدر مشہور ومعروف شخص تھا کہ ابن اثیر نے اپنی تاریخ میں اسے درج کیاہے ۔ اس شخص کا دادا یعنی ''عباد بن حصین حبطی''اپنے زمانہ کا ایک ناموار شہسوار تھا ۔ وہ بصرہ میں ''عبداﷲ زبیر '' کی حکومت کے دوران پلیس کا افسرتھا ۔ ایران کا '' آبادان''اسی کے نام پر رکھاگیا ہے ۔

اب یہ معلوم نہیں ہے کہ سیف نے اسی ''مسوربن عمروبن عباد ''کا نام اپنے جعلی صحابی کے لئے منتخب کیا ہے اور اسے عاریت لیا ہے تاکہ ابوبکر کے عہدنامہ میں اسے شاہد قرار دے یا یوں ہی ایک نام اس کے ذہن میں آیا ہے اور اس نے اپنی خیالی مخلوق پر وہ نام رکھ لیا ہے!!

۱۷۰

مصادر و مآخذ

مسور بن عمرو کے حالات :

١۔ ''اصابہ ''ابن حجر (٣/٣٩٩) حصہ اول نمبر: ٧٩٩٤

٢۔تاریخ طبری (١/١٩٨٨)کہ سیف کی روایت اور ابوبکر کا خط درج کیا ہے ۔

مسور بن عمروبن عباد کے حالات :

١۔''تاریخ ابن اثیر'' (٥/٢٤٣)

عباد بن حصین کے حالات:

١۔''معارف '' ابن قتیبہ (١٨٢)

٢۔''محبر'' (٢٢٢،٤٤٤)

٣۔''عیوان الاخبار'' ابن قتیبہ (١٢٨)

٤۔''معجم البلدان'' حموی لفظ ''عبادان''

٥۔''فتوح البلدان'' بلا ذری (٤٥٣)

مسور بن عمروعباد کا نسب:

''جمہرہ ٔ انساب'' ابن حزم (٢٠٧)

۱۷۱

٨٤ واں جعلی صحابی معاویہ عذری

ابن حجر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے :

معاویہ عذری :

سیف بن عمر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ابوبکر نے ایک خط میں اسے حکم دیا ہے کہ دین سے منحرف لوگوں اور مرتدوں سے لڑنے میں کسی قسم کی کسر باقی نہ رکھے۔ اور ہم نے بارہا کہا ہے کہ قدما صحابی کے علاوہ کسی اور کو سپہ سالاری کے عہدہ پر منتخب نہیں کرتے تھے ۔(ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

اس صحابی کے لئے سیف نے کیا نسب لکھا :

تاریخ طبری اور ''اصابہ '' میں سیف کی روایت کے مطابق اس صحابی کا نسب''عذری'' ہے۔ شہرت کی بنا پر یہ نسبت ''قضاعہ '' کے ایک قبیلہ ''عذرةبن سعد ھذیم ''تک پہنچتا ہے اور سیف کی مراد بھی یہی نسب تھا کیونکہ وہ سعد بن حذیم کے ارتداد کی بات کرتا ہے ۔

لیکن تاریخ ابن عساکر میں یہ نسب ''عدوی'' ذکر ہوا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ غلط ہے ۔

۱۷۲

معاویہ عذری کی داستان :

جس روایت کو ابن حجر نے معاویہ ٔ عذری ''کے تعارف میں درج کیا ہے اور ابن عساکر اور طبری نے اسی کو اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیا ہے ، ہم نے اس کو ''پینتالیسویں جعلی صحابی '' ''عمروبن حکم قضاعی ''(۱) کے حالات میں بیان کیا ہے۔

سیف کی اس روایت میں آیا تھا:

قبیلہ ٔ سعد ھذیم معاویہ اور اس کے ہم فکروں کا ایک گروہ مر تد ہوگیا۔ ان کے ارتداد کے نتیجہ میں ابوبکر نے ایک خط کے ذریعہ امام حسین کی بیٹی سکینہ کے جدماوری ، ''امرالقیس بن فلان '' اور ''عمروبن حکم '' کو حکم دیا کہ ''زمیل''سے نبردآزما ہونے کے لئے آمادہ ہو جایئں اور اسی قسم کا ایک دوسرا خط مغاویۂ عذری '' کے نام بھیجا۔

اور جب ''اسامہ بن زید ''واپس لوٹ کر ''قبائل قضاعہ ''میں پہنچا تو ابوبکر کے حکم کے مطابق ۔۔ (داستان کے آخر تک )

ابن حجر نے سیف کے اس مختصر جملہ یعنی:معاویہ عذری کو بھی ایسا ہی ایک خط لکھا ہے، پر تکیہ کر کے اس پر لباسِ وجود زیب تن کیا ہے اور طرح اسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کے پہلے دستہ میں شامل کرنے بعد اس کے حالات لکھے ہیں !!

یہ عالم اس تنہانام کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی کے عنوان سے پہچنوانے کے سلسلے میں یوں

____________________

١) ١٥٠ صحابی ساختگی (٣/١٩٥۔١٩٨)

۱۷۳

استدلال کرتا ہے کہ ''ہم نے بارہا کہا ہے کہ قدمانے۔۔۔۔تاآخر)

جبکہ ہم نے اس روایت کے صیحح نہ ہونے کے سلسلہ میں حقائق اور تاریخی روداوں سے اس کا موازنہ کر کے اسی کتاب کی ابتداء میں مفصل بحث کی ہے اور اب اس کی تکرار ضروری نہیں سمجھتے ہیں ۔

مصادر و مآخذ

معاویہ عذری کے حالات:

١۔''اصابہ '' ابن حجر (٣/٤١٧) حصہ اول نمبر : ٨٠٨٧

سعد ھذیم کے ارتداد کے بارے میں سیف کی روایت:

١۔''تاریخ طبری '' (١/١٨٧٢)

٢۔''تاریخ ابن عساکر '' (١/٤٣٢)

بنی عذرہ کا نسب

١۔''اللبا ب'' (٢/١٢٩)

٨٥واں جعلی صحابی ایک جعلی صحابی کے دو چہرے

شہر ذویناف (ذویناق)

ابن حجر نے اپنی کتاب ''اصابہ ''میں لفظ''ذیناق'' کے تحت لکھاہے :

اس صحابی کے حالات کی تشریح لفظ ''شہر'' کے تحت کی جائے گی(ز)

اس کے بعد لفظ'' شہر ْ'' کے تحت لکھتا ہے :

''شہر ذویناق'' یمن کا ایک علاقائی فرماں رواتھا ۔ طبری نے اس کانام ایک روایت کے تحت اپنی کتاب میں یوں درج کیاہے :

ابوبکر نے ''عمیر ذومران ، سعید ذی رود اور شہر ذی یناق '' کو ایک خط کے ضمن میں حکم دیا کہ ''فیروز'' کی اطاعت کریں اورمرتدوں کے ایک ساتھ جنگ میں اس کے احکام پر عمل کریں ۔(ز)

۱۷۴

ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

اب ہم دیکھتے ہیں کہ طبری کی روایت کی داستان کیا تھی ۔

طبری نے اپنی تاریخ میں '' یمانیوں کا دوسرا ارتداد'' کے عنوان سے اور ١١ھ کی روداد کے تحت سیف بن عمر سے نقل کر کے لکھا ہے :

جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کی خبر یمن کے لوگوں کو پہنچی تو ''قیس بن عبدیغوث مکشوح '' نے سرکشی کرکے ''فیروز، داذویہ ا ورجشیش''کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا ۔

ابوبکر نے ، ''عمرذی مران ، سعید ذی زود، سمیفع ذی کلاع، حوشب ذی ظلیم اور شہر ذی یناف '' کے نام لکھے گئے ایک خط میں اٹھیں اسلام سے متمسک ہونے ، خدا کی اطاعت کرنے اور لوگوں کی خدمت کرنے کی دعوت دی اور وعدہ کیاکہ ان کی مدد کیلئے ایک سپاہ کو بھی بھیجیں گے۔

اس خط کا متن یوں ہے :

ابوبکر ،جانشین رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے ''عمیر بن افلح ذی مران ، سعید بن عاقب ذی زود ، سمیفع ناکورذیکلاع ، حوشب ذی ظلیم اورشہری ذی یناف '' کے نام۔

امابعد، ایرانیوں کی مدد کے لئے جلدی کرو اور ان کے دشمنوں سے لڑو اور انھیں اپنی پناہ میں لے لو ، ''فیروز''کی اطاعت کرو اس کی خدمت کرنے کی کوشش کرووہ میری طرف سے اس علاقہ کا حکمراں ہے

ابوبکر نے اس خط کو ان سرداروں کے نام اس حالت میں لکھا کہ اس زمانہ میں وہ علاقہ''فیروز، دازویہ ،جشیش اورقیس '' کی باہمی حکمرانی میں تھا ۔ اس کے باوجود ابوبکرنے اس خط کے ذریعہ یمن کی حکومت کاحاکم فیروزکو منصوب کیا اور اس کے اس نئے عہدہ کا یمن کے سرداروں کو اعلان کیا ۔

جب یہ خبر ''قیس کوپہنچی توسخت بر ہم ہوا اور انتقام پر ُاتر آیا ۔ لہذا اس نے ذی کلاع کے نام ایک خط میں لکھا کہ ایرانی خانہ بدوش اور آوارہ لوگ ہیں اورآپ کی سرزمیوں میں سردار بن بیٹھے ہیں اور اگر انھیں فرصت دی جائے تو ہمیشہ آپ لوگوں پر سرداری کرتے رہیں گے۔ میرے خیال میں عقلمندی یہی ہے کہ ہم ان کے سرداروں کو قتل کر ڈالیں اور باقی لوگوں کو اپنے وطن سے نکال باہر کریں

۱۷۵

ذی کلاع اور دیگر سرداروں نے اگر چہ قیس کے خط پر کوئی اعتنا نہ کیا لیکن فیروز اور دوسرے ایرانیوں کو بھی اپنے حال پر چھوڑ دیااوران کی کوئی مدد نہیں کی.

قیس نے اکیلے ہی ایرانی سرداروں کو قتل کرکے باقی سب لوگوں کو یمن کی سرزمین سے بھگانے پر کمر کس لی سرانجام اس مقصد کو پانے کے لئے فرصت کی تلاش میں تھا. بالاخراس نے پیغمبری کے مدعی ''اسود عنسی '' جوکچھ مدت پہلے قتل کیا گیا تھا اور اس کے حامی یمن کے شہروں میں پراکندہ ہوگئے تھے ' ان کو اپنے مقصد کے لئے مناسب جانا۔لہذا اس نے مخفی طور سے ان کے ساتھ رابطہ قائم کیا اور انھیں اپنے گرد جمع کیا .وہ بھی ایک پناہ کی تلاش میں تھے ، قیس کی دعوت قبول کرکے اس کی مدد کرنے کے لئے آمادہ ہو گئے۔ اس مخفیا نہ رابطہ سے کوئی آگاہ نہ ہوا۔

زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ یمن کے شہر صنعا میں یہ افواہ پھیلی کہ اسودعنسی کے حامی شہر پر قبضہ کرنے کے لئے آرہے ہیں اس موقع پرقیس ریاکار نہ طور پر فوراً فیروزاور دازویہ '' کے پاس پہنچا اور خوف و وحشت کے عالم میں موجودہ حالات پران سے صلاح و مشورہ کرنے لگا تاکہ وہ شک نہ کریں کہ اس قضیہ میں اس کا اپنا ہاتھ ہے ۔ اس قدر ریا کاری اور مکاری سے پیش آیا کہ انہوں نے اس کی باتوں پر یقین کر لیااوراس کی رانمہایوئں سے مطمئن ہوگئے ۔

حکومت کا تختہ الٹنے میں قیس کی فریب کاریا ں :

دوسرے دن قیس نے ایک دعوت کا اہتمام کیا اور ''فیروز''داذویہ اور جشیش کو بھی اس میں شرکت کی دعوت دی ۔

داذویہ نے اپنے دو دوستوں سے پہلے قیس کے گھر میں قدم رکھا اور قیس نے بھی فرصت کو غنیمت سمجھ کر بے رحمی کے ساتھ اس کو

فوراً قتل کر ڈالا اور اس طرح اپنی راہ میں موجود رکاوٹوں میں سے ایک کو ہٹا نے میں کامیاب ہوا

زیادہ وقت نہ گزرا تھا کہ ''فیروز ''بھی آپہنچا ۔ جوں ہی قیس کے گھر کے قریب پہنچا اس نے دو عورتوں کوجن کے مکانوں کی چھتیں ایک دوسرے کے روبرو تھیں یہ کہتے ہوئے سنا :

بیچارہ فیروز!وہ بھی اپنے دوست ''داذویہ'' کے مانند قتل کیا جائے گا!

۱۷۶

فیروز یہ باتیں سنکر ہل کے رہ گیا اور فوراً پر وہا ں سے ہٹ گیا ۔

اسی حالت میں جشیش بھی آپہنچا اور رودا د سے مطلع ہوا اوردونوں جلدی سے وہا ں سے بھاگ کھڑے ہوئے ۔

قیس کے محافظوں اور حامیوں کو فیرز اور اس کے ساتھی کے فرار کے بارے میں ذرا دیر سے خبر ملی ۔ انہوں نے ان کا پیچھا کیا

لیکن فیروز اور جشیش بڑی تیزی کے ساتھہ ان سے دور ہو کر ''خولاں '' کے پہاڑ کی طرف بھاگ گئے تھے ،جہاں پر فیروز کے ماموں اور اس کے رشتہ دار رہتے تھے ، انہوں نے ان کے ہاں پناہ لے لی ۔قیس کے سپا ہی بھی مجبور ہو کر واپس لوٹے اور ماجر ا قیس سے بیان کیا ۔

قیس نے کسی مزاحمت کے بغیر صنعا پرحملہ کیا اور اسے بڑی آسانی کے ساتھ فتح کیا اور اس کے اطراف کے علاقوں پر بھی

قبضہ جما لیا ۔اسی اثنا ء میں ''اسودعنسی'' کے سوار بھی مشہرصنعا میں داخل ہوگئے اور قیس کی ہمت افزائی کی

اس دوران یمن کے لوگوں کی ایک جماعت فیروز کے گرد جمع ہوگئی ۔ اور اس نے بھی ان حالات کے بارہ میں خلیفہ ابو بکر کو رپورٹ بھیجی۔ عام لوگ بھی جن کے سرداروں کے نام ابوبکر نے''فیروز''کی اطاعت کے سلسلے میں خط لکھا تھا ، قیس کے گرد جمع ہوگئے ، لیکن ان کے سرداروں نے اس ماجرا کے سلسلے میں گوشہ نشینی اختیار کی ۔

قیس نے ایرانیوں کی نابودی کا بگل بجادیا اور انھیں تین حصوں میں تقسیم کردیا ۔ ایک وہ گروہ تھا جنہوں نے تسلیم ہوکر اس کی اطاعت اختیار کر لی تھی ،انھیں قیس نے ان کے رشتہ داروں کے ہمراہ پناہ دیدی ۔ اور فیروزکی وفا داری پر باقی رہنے والے لوگوں کو دوگروہوں میں

تقسیم کر دیا۔ ان میں سے ایک گروہ کو عدن بھیجدیا تاکہ وہا ں سے سمندری راستہ سے ایران چلے جائیں ۔ دوسرے گروہ کو براہ راست خشکی کے راستے ایران بھیجدیا اور ان سے کہا کہ اپنے وطن واپس چلے جاؤ۔ دونوں گروہوں کے ساتھ اپنے مامور بھی رکھے۔ (فیروز ) کے بیوی بچوں کو اس گروہ کے ہمراہ بھیجا جنھیں زمینی راستہ سے ایران بھیجدیا گیا تھا اور داذویہ کے رشتہ دار سمندری راستے سے بھیجدئے گئے تھے ۔

۱۷۷

فیروز کی قیس سے جنگ:

جب فیروذ،قیس کے اس کام سے آگاہ ہوا تو اس نے قیس سے جنگ کرنے کا فیصلہ کیا اوراس منصوبہ پر عمل کرنے کی غرض سے ''

''بنی عقیل بن ربیعہ بن عامر صعصعہ'' کے پاس ایک قاصد بھیجا اوراس سے مدد طلب کی ، انہوں نے اس کی درخواست منظورکی اور اس کی مدد کے لئے آگئے ۔

ایک اور قاصد کو ''عک '' بھیجا اور عکیوں سے بھی مدد طلب کی ۔ بنی عقیل کے سپاہی جو فیروز کی مدد کے لئے آئے تھے ، ''معاویہ''نامی حلفاء کا ایک شخص ان کا سپہ سالار تھا ۔راستے میں اس گروہ کی اس قافلے سے مڈبھیڑ ہوئی جسے قیس کے کچھ سوار اسیروں کے طور پر ایران لے جارئے تھے ۔ ایک شدید جنگ میں قیس کے تمام سوار مارے گئے اور اسیروں کے خاندان آزاد کرالئے گئے ۔

عکیوں کے سپاہیوں کی بھی راستے میں دوسرے گروہ سے مڈبھیڑ ہوئی اور ان کے درمیان بھی ایک گھمسان کی جنگ کے بعد تمام سپاہی مارے گئے اور ایرانی اسراء آزاد کرالئے گئے ۔

اس فتح و کامرانی کے بعد عقیلی اور عکی جنگجو فیروز کی مدد کے لئے آگے بڑھے۔فیروز بھی ان کی اور دوسرے یمینوں کی مدد سے جو اس سے ملحق ہوئے تھے، قیس سے جنگ کرنے کے لئے باہر نکلا اور شہر صنعاکے باہر قیس کے سپاہیوں سے نبرد آزما ہوا ۔ ان دو فوجیو ں کے درمیان ایک گھمسان کی جنگ چھڑ گئی ۔ یہ جنگ سرانجام قیس اور اس کے ساتھیوں کی برُی شکست پر تمام ہوئی ۔ اس جنگ میں قیس اور اس کے چند رشتہ دار بڑی مشکل سے زند ہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے ۔

عمر وبن معدی کرب نے ''قیس '' کی سرزنش میں یہ اشعار کہے ہیں :

تم نے صیحح وفاداری نہیں کی بلکہ اس کے برعکس مکروفریب سے کا م لیا ۔ اس دوران ایک تجربہ کار اور سختیاں برداشت کئے ہوئے شخص کے علاوہ کوئی یہ مشکلات برداشت نہیں کر سکتا ۔ اس حملے سے قیس کیسے افتخار کا تاج اپنے سر پر رکھ سکتا ہے جبکہ اس کا وہی حقدارہے جو اس کاسزاوارہو۔

۱۷۸

قیس نے عمروکے طنزاور سرزنش کے جواب میں اشعار کہے :

میں نے اپنی قوم کے ساتھ بے وفائی اور ظلم نہیں کیا ہے ۔

میں نے ان ظالموں کے خلاف ایک جرأتمندفوج تشکیل دی جنہوں نے قبائل ''عمروومرثد'' پر حملہ کیا تھا ۔

میں ایرانیوں کے ساتھ جنگ میں ایک دلیر اورشجاع اور باعزت پہلوان تھا ۔

داذویہ تمہارے لئے فخرو مباہا ت کا سبب نہیں ہے ، وہ ایسا ہے جس نے اس کے ہاں پناہ لی اس کو دشمن کے حوالے کیا ہے ۔

اور فیروز تو اس نے کل تم پر ظلم کیاہے اور تمہارے مال ومنال کو لوٹ چکا ہے اور تمہارے خاندان کو نابود کر چکا ہے ،لیکن آج

اس نے ناتواں اور ذلیل و خوار ہو کر تمہارے ہاں پناہ لے لی ہے !!

طبری اس داستان کے ضمن میں سیف سے نقل کر کے لکھتا ہے :

ابوبکر نے قیس کی گوشمالی اوراسود عنسی کے فراری سپاہیو ں کا پیچھا کرنے کے لئے ''مھاجر بن ابی امیہ ''کا انتخاب کیا ۔ مھاجر بن ابی امیہ ان

سب کو قتل عام کر کے فاتحانہ طور پر صنعا میں داخل ہوا اور قیس کو قیدی بناکرابوبکر کی خدمت میں بھیجدیا ۔ ابوبکر کی نگاہ جب قیس

پر پڑی ، تو انہوں نے پوچھا :

قیس !کیاتم نے خدا کے بندں سے جنگ کی ہے اور انھیں قتل کیا ہے ؟

اور مومنوں و مسلمانو ں کے بجائے دین سے مخرف مرتدوں و کافروں سے دوستی کرکے مدد طلب کی ہے؟

ابوبکر نے فیصلہ کیا کہ اگر داذویہ کے قتل میں قیس کی شرکت ثابت ہوجائے تو اسے قصاص کے طور پر سزائے موت دے گا

لیکن قیس نے پوری طاقت کے ساتھ اس قسم کے بے رحمانہ قتل کے الزام سے انکار کر دیا۔ سرانجام کافی دلائل وثبوت مہیانہ ہونے ٍکی وجہ سے ابوبکر نے قیس کو معاف کردیا اور نتیجہ کے طور پر وہ بھی صیحح وسالم اپنے گھر اورخاندان میں واپس چلاگیا۔(طبری کی بات کا خاتمہ )

۱۷۹

اس افسانہ کے راویوں کی تحقیق:

سیف نے اس روایت میں درج ذیل نام بعنوان راوی ذکر کئے ہیں :

١۔ مستینر بن یزید

٢۔عروة بن غزیہ دثینی ۔ ان دو کا نام سند کے طور پر روایت میں دوبار ذکر کیا گیا ہے ۔

٣۔ سہل بن یوسف ۔ روایت میں اس کا ایک بارنام آیا ہے ۔ ہم نے اس سے پہلے بارہا کہا ہے کہ سیف کے یہ تینوں راوی جعلی ہیں اور ان کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں ہے ۔

اصل حقیقت:

قیس کی داستان اور اس پر داذو یہ کے قتل کے الزام کے بارے میں بلاذری کی کتاب فتوح البلدان ۔ جس میں سیف ابن عمر سے روایت نقل نہیں کی گئی ہے، میں یوں لکھا ہے :

قیس کو ''داذویہ '' کو قتل کرنے کا ملزم ٹھہر یا گیا ۔ یہ خبر اور یہ کہ وہ ایرانیوں کو صنعاسے نکال باہر کرنا چاہتا ہے اس کی خبر بھی، ابوبکر کو پہنچی۔ ابوبکر اس خبر کو سن کر سخت برہم ہوئے ، اور صنعا میں مامور اپنے کاگزار ''مہاجر بن ابی امیہ'کو لکھا کہ قیس کوفوراً گرفتار کر کے مدینہ بیھجدے ۔

قیس کے مدینہ میں خلیفہ کی خدمت میں پہنچنے کے بعد ابوبکر نے منبر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس اسے پچاس بارقسم دی کہ '' اس نے داذویہ کو قتل نہیں کیا ہے ۔''

قیس نے خلیفہ کے حکم مطابق قسم کھائی ، ابوبکر نے بھی اسے چھوڑ دیا اور اس کو دیگر سپاہیوں کے ہمراہ رومیوں سے جنگ کرنے کے لئے شام کے محا ذکی طرف روانہ کر دیا ۔

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258