عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں

عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں23%

عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 258

عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 258 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 138932 / ڈاؤنلوڈ: 5394
سائز سائز سائز
عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں

عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

م: خرفہ

۲۶۹۔ رسول خدا(ص): تمہارے لئے خرفہ کھانا ضروری ہے کیوں کہ اس سے زیر کی بڑھتی ہے بیشک اگر کوئی چیز عقل کو بڑھاتی ہے تو وہ یہی ہے ۔

ن: لیمو

۲۷۰۔ رسول خدا(ص): لیمو کھاؤ اس لئے کہ یہ دل کو روشنی عطا کرتا اور دماغ کوقوی کرتاہے ۔

س: باقلا

۲۷۱۔امام صادق(ع): باقلا کھانے سے پنڈلیاں گودے دار ہوتی ہیں اور دماغ بڑھتا ہے ۔

۶۱

پانچویں فصل عقل کی نشانیاں

۵/۱

عقل و جہل کے سپاہی

۲۷۲۔ سماعہ بن مہران: میںامام صادق(ع) کی خدمت میں حاضر تھا اور وہاںآپ کے کچھ چاہنے والے بھی موجود تھے عقل اور جہل کاتذکرہ آیا تو امام صادق(ع) نے فرمایا: عقل اور جہل اور ان دونوں کے سپاہیوںکو پہچا

نو تاکہ ہدایت پا جاؤ۔ سماعہ کہتا ہے کہ ؛ میںنے عرض کیا، میری جان آپ پر فدا ہو جائے! ہم کچھ نہیں جانتے سوائے یہ کہ جو آپ نے سکھایا ہے ، امام صادق(ع) نے فرمایا: عقل خدا کی پہلی روحانی مخلوق ہے جسے عرش کے دائیں طرف کے اپنے نور سے خلق کیا، پھر اس سے کہا : پیچھے ہٹو وہ پیچھے ہٹ گئی ، پھر کہا:آگے آؤ، آگے آگئی، اس کے بعد اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: میں نے تجھے عظیم مخلوق بنا کر پیدا کیا ہے اور تجھے اپنی تمام مخلوقات پر عزت عطا کی ہے ۔

فرمایا: پھر خدا نے جہل کو شور اور تاریک سمندر سے پیدا کیا، اس کے بعد اس سے کہا: پیچھے ہٹ جا وہ ہٹ گیا، پھر کیا: آگے آ، لیکن آگے نہیں آیا، پھر خدا نے اس سے کہا: تونے خود کوبڑا سمجھ لیا ہے پھر خدا نے اس پر لعنت کی ۔

اس کے بعد عقل کے لئے پچھتر سپاہی قرار دئیے، خدا نے عقل کوجو عزت و احترام عطا کیا ہے جب جہل نے اسے دیکھا تو اس کے دل میں کینہ پیدا ہوا اور کہا: اے پروردگار یہ بھی مخلوق میری ہی طرح ہے، تونے اسے پیدا کرکے عزت بخشی ،قوی بنایااور میں اس کے بر خلاف ہوں مجھ میں کوئی طاقت نہیں ہے ، مجھے بھی عقل کی طرح سپاہی عطا کر، خدا نے قبول فرمایا اور کہا: اگر تونے اس کے بعد نافرمانی کی تو میں تجھے اور تیرے سپاہیوںکو اپنی رحمت سے خارج کر دونگا، جہل راضی ہوا، خدا نے اسے پچھتر(۷۵) سپاہی عطا کئے ۔ وہ ۷۵ سپاہی جو خدا نے عقل کو عطا کئےے ہیں(درج ذیل ہیں) :

۶۲

خیر جو کہ عقل کا وزیر ہے اور اسکی ضد شر ہے جو کہ جہل کا وزیر ہے ، ایمان کہ جس کی ضد کفر ہے ، تصدیق کہ جس کی ضد انکار ہے ، امید کہ جس کی ضد ناامیدی ہے ، عدل کہ جس کی ضد ستم ہے ،خوشنودی کہ جس کی ضد ناراضگی ہے ، شکر کہ جس کی ضد ناشکری ہے ، طمع کہ جس کی ضد مایوسی ہے ، توکل کہ جس کی ضد حرص ہے ، مہربانی کہ جس کی ضد سنگدلی ہے ، رحمت کہ جس کی ضد غضب ہے ،علم کہ جس کی ضد جہل ہے ، فہم کہ جس کی ضد حماقت ہے ، عفت کہ جس کی ضد بدکرداری ہے ، زہد کہ جس کی ضد رغبت ہے ، نرمی کہ جس کی ضد سختی و تندی ہے ، خوف و ہراس کہ جس کی ضد جرئت مندی اور بیباکی ہے ، تواضع کہ جس کی ضد تکبر ہے، آہستگی کہ جس کی ضد جلد بازی ہے ،بردباری کہ جس کی ضد بیتابی ہے، خاموشی کہ جس کی ضد بکواس ہے ،تابع کہ جس کی ضد سرکشی ہے ، تسلیم کہ جس کی ضد شک ہے ، صبر کہ جس کی ضدگھبراہٹ ہے، چشم پوشی کہ جس کی ضد انتقام ہے ، غنی کہ جس کی ضد فقر ہے ، یاد دہانی کہ جس کی ضد بے خبری ہے ، یاد رکھنا کہ جس کی ضد فراموشی ہے ، عطوفت کہ جس کی ضد جدائی ہے ، قناعت کہ جس کی ضد حرص و لالچ ہے ، ہمدردی کہ جس کی ضد دریغ ہے، دوستی کہ جس کی ضد عداوت ہے، وفا کہ جس کی ضد بے وفائی ہے ، طاعت کہ جس کی ضد معصیت ہے ، خضوع کہ جس کی ضد غرور ہے ، سلامتی کہ جس کی ضد گرفتاری ہے ، محبت کہ جس کی ضد بغض و کینہ ہے ، صداقت کہ جس کی ضد جھوٹ ہے ، حق کہ جس کی ضد باطل ہے امانت کہ جس کی ضد خیانت ہے ، اخلاص کہ جس کی ضد ملاوٹ ہے ، دلیری کہ جس کی ضد بزدلی ہے ، فہم کہ جس کی ضد کند ذہنی ہے ، معرفت کہ جس کی ضد انکار ہے ، رازداری کہ جس کی ضد فاش کرنا ہے ، یک رنگی کہ جس کی ضد دوروئی ہے ، پردہ پوشی کہ جس کی ضد افشاء ہے ، نمازگذاری کہ جس کی ضد ضائع کرنا ہے ، روزہ رکھنا کہ جس کی ضد کھانا ہے ، جہاد کہ جس کی ضد جنگ سے فرار ہے ، حج کہ جس کی ضد پیمان شکنی ہے ، بات کو ہضم کرنا کہ جس کی ضد چغلخوری ہے ۔

۶۳

والدین کے ساتھ نیکی کہ جس کی ضد اذیت رسانی ہے، حقیقت کہ جس کی ضد ریاکاری ہے ، نیکی کہ جس کی ضد برائی ہے، پوشیدگی کہ جس کی ضد خودنمائی ہے ، تقیہ کہ جس کی ضد لاپروائی ہے، انصاف کہ جس کی ضد جانبداری ہے ، پائداری کہ جس کی ضد تجاوز ہے ، پاکیزگی کہ جس کی ضد آلودگی ہے ، حیاء کہ جس کی ضد بے حیائی ہے ، میانہ روی کہ جس کی ضد حد سے بڑھ جانا ہے ۔، آسودگی و راحت کہ جس کی ضد تھکن ہے ، آسانی کہ جس کی ضد سختی ہے ، برکت کہ جس کی ضد بے برکتی ہے ، عافیت کہ جس کی ضد بلاء ہے اعتدال کہ جس کی ضد افراط ہے ، حکمت کہ جس کی ضد ہوی و ہوس ہے، وقار کہ جس کی ضد خفت ہے ، سعادت کہ جس کی ضد بد بختی ہے۔

توبہ کہ جس کی ضد اصرار گناہ ہے ، استغفار کہ جس کی ضد بیہودگی ہے، محافظت کہ جس کی ضد حقیر و پست سمجھنا ہے، دعا کہ جس کی ضد دعا سے باز رہنا ہے ، نشاط و فرحت کہ جس کی ضد کاہلی ہے ، خوشی کہ جس کی ضد حزن ہے ، الفت کہ جس کی ضد فراق ہے سخاوت کہ جس کی ضد بخل ہے ۔

عقل کے یہ تمام سپاہی صرف بنی یا وصی نبی اور ا س مومن میں جمع ہو تے ہیں جس کے دل کا امتحان اللہ نے ایمان کے ذریعہ لیا ہے، لیکن ہمارے دیگر محبین عقل کے سپاہیوں میں سے بعض کے حامل ہو جائیں کہ جن کے سبب درجہ کمال تک پہنچ جائیں اور جہالت کے سپاہیوں سے پاک ہو جائیں تو اس صورت میں انبیاء و اوصیاء کے ساتھ بلند درجہ میں ہوں گے، اس مقام تک رسائی عقل اور اس کے سپاہیوں کی معرفت اور جہل اور اس کے سپاہیوں سے علٰحدگی کے سبب ہو سکتی ہے۔ خدا وند ہمیں اور آپکو اپنی اطاعت و خوشنودی کی توفیق عطا فرمائے۔

۶۴

۵/۲

عقل کے آثار

الف۔ علم و حکمت

قرآن

(وہ جس کو بھی چاہتا ہے حکمت عطا کر دیتا ہے اور جسے حکمت عطا کر دی جائے اسے گویا خیر کثیر عطا کر دیا گیا اور اس بات کو صاحبان عقل کے سوا کوئی نہیں سمجھتا ہے )

(اس واقعہ میں نصیحت کا سامان موجود ہے اس انسان کے لئے جس کے پاس دل ہو یا جو حضور قلب کے ساتھ بات سنتا ہو)

ملاحظہ کریں:آل عمران: ۷،رعد:۱۹، ابراہیم ۵۲، سورہ ص:۲۹اور ۴۳ زمر: ۹ اور ۲۱، غافر:۵۴۔

حدیث

۲۷۳۔ سلیمان بن خالد: میں نے امام صادق(ع) سے اس قول خدا( جسے حکمت عطا کی گئی گویا اسے خیر کثیر عطا کیا گیا) کے بارے میں پوچھا تو فرمایا کہ حکمت سے معرفت اور دین میں تفقہ مراد ہے ، لہذاتم میں سے جو شخص فقیہ ہو گیا وہ حکیم ہو گیا۔

۲۷۴۔ امام کاظم (ع): نے ہشام بن حکم کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا۔ اے ہشام اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں فرماتا ہے (اس واقعہ میں نصیحت کا سامان موجود ہے اس انسان کے لئے جس کے پاس دل ہو) قلب سے عقل مراد ہے ، نیز فرماتا ہے (یقینا ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی ) امام نے فرمایا : فہم و عقل مراد ہے....

۶۵

اے ہشام! خدا نے اپنے انبیاء ومرسلین کوا پنے بندوں کی طرف نہیں بھیجا ہے مگر یہ کہ وہ خدا کے بارے میں غور و خوض کریں۔ اور انبیاء کی دعوت کو سب سے اچھی طرح اس شخص نے قبول کیا ہے جو سب سے بہتر معرفت رکھتا ہے اورامر خدا کے بارے میں سب سے زیادہ علم رکھنے والا وہ شخص ہے جس کی عقل سب سے بہتر ہے اور ان میں جس کی عقل زیادہ کامل ہے دنیا و آخرت میں اس کا درجہ زیادہ بلند ہے...اے ہشام ! تمہارا عمل اللہ کے نزدیک کیوں کر پاک ہو سکتا ہے جبکہ تمہارا دل امر پروردگار سے منحرف ہے اور اپنی خواہشات کی پیروی کرکے انہیں اپنی عقل پر غالب کر لیا ہے ؟!....اے ہشام ! حق کی بنیاد طاعت خدا پر ہے ، اور بغیر طاعت کے نجات نہیں مل سکتی ، طاعت علم سے حاصل ہوتی ہے اور علم سیکھنے سے حاصل ہوتا ہے اور سیکھنے کا تعلق عقل سے ہے ، البتہ علم ، خدا رسیدہ عالم کے بغیر حاصل نہیںہو سکتا اور علم کی معرفت کا دارومدار عقل پر ہے ....بیشک وہ شخص خدا کا خوف نہیں رکھتا جو خدا کے بارے میں آگاہی نہیں رکھتا ، اور جو خدا کے بارے میں آگاہی نہیں رکھتا اس کا دل مستحکم معرفت کا گروی نہیں ہو سکتا کہ جس کے ذریعہ وہ اپنے دل میں حقیقت معرفت کو درک اور محسوس کر سکے، اور ایسی معرفت کا حامل وہی ہو سکتا ہے کہ جس کا قول اس کے کردار کی تصدیق کرتا ہے اور اسکاباطن اس کے ظاہر سے ہم آہنگ ہوتاہے، کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے عقل کے ظاہر کو اس کے باطن کی علامت اور اس کا غماز قرار دیا ہے۔

۲۷۵۔ امام کا ظم ؑ: اے ہشام! بیشک عقل علم کے ساتھ ہے ، چنانچہ ارشا د ہے :'' اور مثالیں ہم تمام عالم انسانیت کے لئے بیان کر رہے ہیں لیکن انہیں صاحب علم کے علاوہ کوئی نہیں سمجھ سکتا ہے''

۲۷۶۔ امام علی (ع): عقل اور علم دونوں ایک دوسرے سے اس طرح ملے ہوئے ہیں کہ نہ کبھی جدا ہوں گے اور نہ ہی آپس میں ٹکرائیں گے ۔

۶۶

۲۷۷۔ رسول خدا(ص): عقل جہالت سے باز رکھتی ہے اور نفس نہایت سر کش چوپایہ کی طرح ہے کہ اگر بے مہار چھوڑ دیا جائے تو سر گرداںرہتا ہے ، پس جہالت کی مہار عقل ہے ۔

۲۷۸۔ امام علی (ع): جس نے غورکیا وہ سمجھ گیا۔

۲۷۹۔ امام علی (ع): عقل علم کا ستون اور فہم کی طرف دعوت دینے والی ہے ۔

۲۸۰۔ امام علی (ع): عقلوں کے ذریعہ علوم کی بلندیوںتک رسائی ہوتی ہے ۔

۲۸۱۔ امام علی (ع): علم کا مرکب عقل اور حلم کا مرکب علم ہے ۔

۲۸۲۔ امام علی (ع): علم، عقل کا عنوان ہے ۔

۲۸۳۔ امام علی (ع): علم ، عقل پر دلالت کرتا ہے لہذا جس نے جان لیا عقلمند ہے ۔

۲۸۴۔ امام علی (ع): عقل کے ذریعہ حقیقت حکمت حاصل ہوتی ہے اور حکمت کے ذریعہ حقیقت عقل ۔

۲۸۵۔ امام علی (ع): حکمت عقلمندوں کا باغ اور فضلاء کی تفریحگاہ ہے ۔

۲۸۶۔ امام علی (ع): جس شخص کی عقل اس کے قابو میں ہے وہ حکیم ہے۔

۲۸۷۔ امام صادق ؑ: انسان کا پشت پناہ عقل ہے اور زیرکی، فہم، حفظ اور علم کا سرچشمہ عقل ہے ، عقل کے ذریعہ انسان کمال تک پہنچتا ہے ، عقل انسان کا رہنما ہے ، اسے بصیرت و بینائی عطا کرنے والی اور اس کے کاموں کی کنجی ہے ، اگر انسان کی عقل کی تائیدنور سے ہو تو وہ عالم ، حافظ،ذاکر، زیرک اور صاحب فہم ہے اس کے ذریعہ ''کس طرح ، کیوں اور کہاں'' کے جواب سے بھی واقف ہو جائیگا، نیز اپنے خیر خواہ اور دھوکا دینے والے کو پہچان لیگا۔ اگر وہ انہیں جان لیگا تو ان کے موقع و محل سے بھی واقف ہو جائیگا اور خدا کی وحدانیت کو خالص کر لیگااور اسکی طاعت کا اقرار کریگا، اگر ایسا ہو جائے تو چھوٹ جانے والی چیزوں کو پالیگااور آئندہ کے لئے محتاط رہیگا، اور وہ اپنے متعلق سمجھ لیگا کہ اس دنیا میں اسکی زندگی گذارنے کا مقصد کیا ہے اور کہاں سے آیا ہے اور کہاں پلٹ کر جائیگا، یہ تمام عقل کی تائید و حمایت سے ہےں۔

۲۸۸۔ امام صادق ؑ: نے عقل و جہل کے سپاہیوں کی توصیف کرتے ہوئے فرمایا: حکمت اور اسکی ضد خواہشات نفسانی ہے۔

۶۷

ب۔ معرفت خدا

۲۸۹۔رسول خدا(ص): اللہ تعالیٰ نے عقل کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے ،جس شخص میں یہ حصے ہیںاسکی عقل کامل ہے اور جس میں یہ نہیں ہیںوہ عقل سے بے بہرہ ہے : خدا کی بہترین معرفت،اسکی بہترین طاعت اور امرپروردگارپر اچھی طرح صابررہنا۔

۲۹۰۔ تحف العقول۔ اہل نجران سے ایک نصرانی مدینہ آیا، وہ سخنور، با وقار اور با ھیبت تھا، پوچھا گیا: کہ اے رسول خدا ؐ! کس چیز نے اس نصرانی کو عقلمند بنایا ہے ؟!رسول خدا ؐنے قائل کو ڈانٹا اور فرمایا: خاموش ہو جاؤ! عقلمند وہ شخص ہے جو خدا کی وحدانیت کا قائل اور اس کا مطیع ہو۔

۲۹۱۔امام علی -: مخلوقات کے ذریعہ خدا پر استدلال کیا جاتا ہے ، اور عقل کے وسیلہ سے خدا کی معرفت مستحکم ہوتی ہے اور فکر کے ذریعہ اسکی حجتیں ثابت ہوتی ہیں۔

۲۹۲۔ امام علی -: ساری تعریف اللہ کے لئے ہے...وہ خدا جو پوشیدہ امور سے نہاں ہے اور عقلوں میں آشکار ان چیزوں کے سبب ہے جنہیں اپنی مخلوق میں تدبیر کی نشانیاں قرار دیاہے وہ خدا کہ جس کے بارے میں جب انبیاء سے پوچھا گیا تو وہ اسکی توصیف نہ حد کے ذریعہ کر سکے اور نہ ہی جزء کے ذریعہ ، بلکہ اسکی توصیف اس کے افعال کے ذریعہ کی ، اور اسکی طرف اسکی آیات کے ذریعہ راہنمائی کی ۔ غور و خوض کرنے والوں کی عقلیں خدا کا انکار نہیں کر سکتی ہیں۔ کیوں کہ جو آسمان و زمین کا خالق اور ان کے درمیان تمام چیزوںکا صانع ہے ، اسکی قدرت کا انکار ممکن نہیں ہے ۔

۶۸

۲۹۳۔ امام صادق -: ہر کام کا آغاز اور اسکی ابتدا اور استحکام و آباد کاری ، کہ جس سے ہر منفعت کا تعلق ہے ، عقل ہے ؛ کہ جس کو اللہ نے اپنی مخلوق کے لئے زینت اورنور قرار دیا ہے ، عقل کے ذریعہ بندوں نے اپنے خالق کو پہچانا اور خود کو مخلوق جانا، اور اس کو اپنا مدبر اور خود کو اسکی تدبیر کے ما تحت سمجھا اور اس کے باقی اور خود کے فانی ہونے کا علم ہوا جو کچھ اسکی مخلوق (آسمان و زمین ، سورج و چاند اور شب و روز) میں دیکھتے ہیںاپنی عقلوں کے ذریعہ اس پر دلیل قائم کرتے ہیں کہ ان چیزوںکااور خودہماراایک خالق وکار ساز ہے جو ہمیشہ سے تھا اور ہمیشہ رہیگا، اور عقل کے وسیلہ سے حسن کو قبیح سے جدا کرتے ہیں اور اس سے بھی واقف ہوتے ہیں کہ جہالت میںتاریکی ہے اور علم میںنور ہے یہ ہیں وہ چیزیں جن کی طرف عقل رہنمائی کرتی ہے ۔

پوچھا گیا: کیا بندے صرف عقل پر اکتفا کریں؟! فرمایا: عقلمند اپنی عقل کے ذریعہ (جسے اللہ نے اس کے لئے ستون ، زینت اور ہدایت قرار دیا ہے) جانتا ہے کہ خداہی حق ہے ، وہ اس کا پروردگار ہے ، اوریہ بھی جان لیتاہے کہ اس کے خالق کی کچھ پسند اور کچھ نا پسند ہے کچھ طاعت اور کچھ معصیت ہے ، فقط عقل ہی کے ذریعہ ان چیزوں کو نہیں حاصل کر سکتا، وہ جانتا ہے کہ ان چیزوں تک رسائی علم اور تحصیل علم کے بغیر ممکن نہیں ہے ، وہ اپنی عقل سے بہرہ مند نہ ہوتا اگر وہ اپنے علم کے ذریعہ ان چیزوں تک نہ پہنچتا، پس عاقل پر اس علم و ادب کا سیکھنا واجب ہے کہ جس کے بغیر اسکی کوئی حیثیت نہ ہو۔

۲۹۴۔ امام کاظم (ع): نے ہشام سے اپنی وصیت میں فرمایا: اے ہشام: بدن کا نور آنکھوں میں ہے ۔ اگرآنکھیںروشن ہیں تو بدن بھی نورانی ہوگا۔ اور روح کی روشنی عقل ہے لہذا اگر بندہ عقلمند ہو تو اپنے پروردگار سے آگاہ ہوگا اور جو اپنے پروردگار سے آگاہ ہوگا وہ اپنے دین میں صاحب بصیرت ہوگا۔ اور اگر بندہ اپنے پروردگار سے نا آشنا ہو تو اس کا دین پائیدار نہیں ہوگا۔ اور جس طرح زندہ روح کے بغیر جسم قائم نہیں رہ سکتا اسی طرح سچی نیت کے بغیر دین بھی قائم نہیں رہ سکتا اور عقل کے بغیر سچی نیت ثابت نہیںرہ سکتی۔

۲۹۵۔ امام رضا(ع): عقل کے ذریعہ خدا کی تصدیق کی جاتی ہے ۔

۶۹

ج۔دین

۲۹۶۔ رسول خدا(ص): جس کے پاس عقل نہیں اس کے پاس دین نہیں ہے ۔

۲۹۷۔ امام علی (ع): جبریل ؑ حضرت آدم ؑ پر نازل ہوئے اور فرمایا: اے آدم! مجھے حکم دیا گیاکہ تمہیں تین چیزوں میں سے ایک کا اختیار دوں لہذا ، ایک لے لو اور دو چھوڑ دو، حضرت آدم نے کہا: اے جبریل ! وہ تین (چیزیں) کیا ہیں؟! کہا: عقل ، حیا اور دین ، پس حضرت آدم نے کہا: میں نے عقل کوانتخاب کیا، اس وقت جبریل نے حیا اور دین کی طرف رخ کرکے کہا: تم دونوں جاؤ اور عقل کا ساتھ چھوڑ دو، تو ان دونوں نے کہا: اے جبریل! ہم مامور ہیں کہ ہمیشہ عقل کے ساتھ رہیں ، جبریل نے کہا: تم خود جانو اور اوپر پرواز کر گئے۔

۲۹۸۔ امام علی (ع): مومن ایمان نہیں لاتا یہاں تک کہ عقلمند ہو جائے۔

۲۹۹۔ امام علی (ع): دین اور ادب عقل کا نتیجہ ہیں۔

۳۰۰۔ امام صادق(ع): جو شخص عقلمند ہے وہی دیندار ہے اور جو دیندار ہے وہ داخل بہشت ہوگا۔

۳۰۱۔ ارشاد القلوب: توریت موسیؑ میں ہے ، کوئی عقل دینداری کے مانند نہیں۔

د۔ کمال دین

۳۰۲۔ رسول خدا(ص): انسان کا دین ہر گز کامل نہیں ہو سکتا جب تک کہ اسکی عقل کامل نہ ہو۔

۳۰۳۔ رسول خدا(ص): کسی شخص کا اسلام تمہیں خوش نہ کرے جب تک کہ تم اسکی عقلمندی نہ دیکھ لو۔

۳۰۴۔ رسول خدا(ص): کسی شخص کا اسلام تمہیں فریفتہ نہ کرے مگر یہ کہ تم اسکی عقل کی گہرائی کو جان لو۔

۷۰

۳۰۵۔ امام علی (ع): جس میں یہ تین خصلتیں ، عقل ، حلم اور علم ، ہوں اس کا ایمان کامل ہے ۔

۳۰۶۔ امام علی (ع): دین، عقل کے مطابق ہوتا ہے اور قوت یقین ، دین کے مطابق ہے ۔

۳۰۷۔ امام کاظم (ع): جس طرح جسم، زندہ روح کے بغیر قائم نہیں رہتا اسی طرح دین بھی سچی نیت کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا اور سچی نیت کا دار و مدار عقل پر ہے ۔

ھ۔ مکارم اخلاق

۳۰۸۔ رسول خدا(ص): نے اس شخص کے جواب میں''کہ جس نے پوچھا عقل کیاہے؟ اور اسکی کیفیت کیا ہے؟ عقل سے کون سی چیزیں پیدا ہوتی ہیں اورکون سی چیزیں پیدا نہیںہوتیں اور اقسام عقل کیا ہیں؟'' فرمایا: عقل، جہالت کی نکیل ہے، روح شریر ترین چوپائے کے مانند ہے کہ اگر اسے مہار نہ کیا جائے تو سر گرداںرہتا ہے، پس عقل ، جہالت کی مہار ہے ، اللہ نے عقل کو خلق کیا اور اس سے کہا: آگے آؤ وہ آگے آگئی، پھر کہا: پیچھے ہٹو ، پیچھے ہٹ گئی ، تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: میری عزت و جلال کی قسم ، میں نے تجھ سے زیادہ عظیم اور اطاعت گذار مخلوق نہیں پیدا کی، میں تیرے ہی سبب آغاز کرتا ہوں اور تیرے ہی ذریعہ پلٹاؤنگا، تیرے ہی سبب جزا و سزادوںگا ، پس حلم کا سر چشمہ عقل، علم کامنبع حلم، رشد کا مرکزعلم، پاکدامنی کا سرچشمہ رشد، تحفظ کا منبع پاکدامنی ، حیا کا سرچشمہ تحفظ، متانت کا مرکزحیا، نیکیوں پر دوام کامنبع متانت، برائیوں سے پرہیز کا سرچشمہ نیکیوں پر دوام اور ناصح کی اطاعت کا سرچشمہ برائیوں سے پرہیز ہے ۔

۳۰۹۔رسول خدا(ص): لوگوں کے ساتھ مہربانی نصف عقل ہے ۔

۳۱۰۔ رسول خدا(ص): حسن ادب ، عقل کے صحیح ہونے کی دلیل ہے ۔

۳۱۱۔ امام علی (ع): بیوقوفوں کی ہمنشینی سے اخلاق تباہ ہو جاتے ہیں اور عاقلوںکی ہمنشینی سے اخلاق سنور جاتے ہیں۔

۳۱۲۔ امام علی (ع): انسان میں ادب ایسا درخت ہے جس کی جڑ عقل ہے ۔

۳۱۳۔ امام علی (ع): ادب، عقل کی دلیل اور علم، دل کی دلیل ہے ۔

۳۱۴۔ امام علی (ع): بہترین عقل، ادب ہے ۔

۷۱

۳۱۵۔ امام علی (ع): عقلمندی کی حد عاقبت اندیشی اور قضائے الہی پر راضی رہناہے ۔

۳۱۶۔ امام علی (ع): دور اندیش انسان اپنی عقل کی بنا پر ہر پستی سے باز رہتا ہے ۔

۳۱۷۔ امام علی (ع): اچھی فکر والا ذلیل نہیں ہوگا۔

۳۱۸۔ امام علی (ع): نفس کے کمال کا انحصار عقل پر ہے۔

۳۱۹۔ امام علی (ع): پسندیدہ اخلاق، عقل کا ثمرہ ہے ۔

۳۲۰۔ امام علی (ع): عقل کے مانند کوئی چیز فضیلتوں کو نہیں سنوارتی۔

۳۲۱۔ امام علی (ع): خوف خدا رکھنے والاعقلمند ہے ۔

۳۲۲۔ امام علی (ع): عقل درخت کے مانند ہے کہ جس کا میوہ سخاوت اور حیا ہے....

۳۲۳۔ امام علی (ع): عقل ایسا درخت ہے کہ جس کی جڑ تقویٰ ِ شاخیں حیا اور پھل ورع ہے تقویٰ تین خصلتوں ، فہم دین ، دنیا سے بے رغبتی اور خدا سے لو لگانے کی دعوت دیتا ہے ، اور حیا، تین خصلتوں ، یقین ، حسن خلق اور تواضع کی دعوت دیتی ہے اور ورع، تین خصلتوں ، صداقت ، نیکیوںکی طرف بڑھنے اور ترک شبہات کی دعوت دیتا ہے۔

۳۲۴۔ امام علی (ع): عقل کا نتیجہ عبرت و پشتپناہی اور جہل کانتیجہ غفلت و خود پسندی ہے۔

۳۲۵۔ امام علی (ع): انسان کی عقل کی شناخت اسکی پاکدامنی اور قناعت کی آراستگی سے ہوتی ہے ۔

۳۲۶۔ امام علی (ع): تمہارے لئے سخاوت ضروری ہے؛ اس لئے کہ یہ عقل کا ثمر ہے ۔

۳۲۷۔امام علی (ع): عقلمند کے لئے یہی کافی ہے کہ اپنے خواہشات کو کم رکھے۔

۳۲۸۔ امام علی (ع): عقلمندی کی علامت حسن سلوک ہے ۔

۳۲۹۔ امام علی (ع): عقلمندی کی علامت لوگوں سے نیک برتاؤ ہے۔

۳۳۰۔ امام علی (ع): کوئی عقلمندی تجاہل کے مثل نہیں۔

۷۲

۳۳۱۔ امام علی (ع): عقلمندی ہر جگہ انس و الفت کے ساتھ ہوتی ہے ۔

۳۳۲۔ امام علی (ع): بردباری عقلمندی کی دلیل اور فضیلت کی علامت ہے ۔

۳۳۳۔ امام علی (ع): عقلمند پہچانا نہیں جاتا مگر یہ کہ بردباری ، تقاضوں کی کمی اور نیکیوں کے ذریعہ۔

۳۳۴۔ امام علی (ع): ہر چیز کی زکات ہوتی ہے اور عقلمندی کی زکات جاہلوں کو برداشت کرنا ہے ۔

۳۳۵۔ امام علی (ع): انسان کی جوانمردی اسکی عقل کے مطابق ہوتی ہے ۔

۳۳۶۔ امام علی (ع):علم کے ذریعہ نفس کا جہادعقل کی نشانی ہے ۔

۳۳۷۔ امام علی (ع): عقلمندی، گناہوں سے دوری ،عاقبت اندیشی اور احتیاط ہے ۔

۳۳۸۔ امام علی (ع): عقل، ہوشیاری کا سبب ہے ۔

۳۳۹۔ امام علی (ع):...مومن کی عقلمندی کی نشانی خود کے ساتھ انصاف ، اپنی مخالفت کے وقت غیظ و غضب کا ترک کرنا اور جب حق اس کے لئے روشن ہو جائے تو اس کا قبول کرنا ہے ۔

۳۴۰۔ امام علی (ع): بردباری ایسا نور ہے کہ جس کی اساس عقلمندی ہے ۔

۳۴۱۔ امام علی (ع): عقلمندی سے بردباری میں اضافہ ہوتا ہے ۔

۳۴۲۔ امام علی (ع): عقل کی فراوانی سے بردباری میں اضافہ ہوتا ہے۔

۳۴۳۔ امام علی (ع): عقلمندی یہ ہے کہ میانہ روی اختیار کرو اور اسراف نہ کرو ،وعدہ کرو تو اسکی خلاف ورزی نہ کرو اور جب غصہ آجائے تو بردباری کا مظاہرہ کرو۔

۳۴۴۔ امام علی (ع): سکون عقلمندی کی نشانی ہے۔

۳۴۵۔ امام علی (ع):عقلمندی کا نتیجہ حق کاپابند ہونا ہے ۔

۷۳

۳۴۶۔ امام علی (ع): عقلمندی کا نتیجہ صداقت ہے ۔

۳۴۷۔ امام علی (ع): عقلمندی کا نتیجہ دنیا سے بیزاری اور خواہشات کی پامالی ہے ۔

۳۴۸۔ امام علی (ع): عقلمندی کا نتیجہ پائداری ہے۔

۳۴۹۔ امام علی (ع): جو عقلمند ہوگا فیاض ہوجائےگا۔

۳۵۰۔ امام علی (ع): عقلمندی کی جڑ پاکدامنی ہے اور اس کا نتیجہ گناہوں سے بچناہے ۔

۳۵۱۔ امام علی (ع):جو عقلمند ہوگا سمجھے گااور جو عقلمند ہوگا پاکدامن ہو جائیگا۔

۳۵۲۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے ۔ کسی کی گفتگو سے خوش نہ ہو جب تک کہ اس کے کردار سے راضی نہ ہو جاؤ، اور اس کے کردار کو اس وقت تک پسند نہ کروجب تک کہ اسکی عقلمندی سے راضی نہ ہو جاؤ اور اسکی عقلمندی سے اس وقت تک راضی نہ ہو جب تک کہ اسکی حیا سے راضی نہ ہو جاؤ، کیوں کہ انسان بزرگی و پستی سے مرکب ہے لہذا جب اسکی حیا قوی ہوگی تو اسکی عظمت بھی مستحکم ہو جائیگی اور اگر حیا کم ہوگی تو اسکی پستی مستحکم ہو جائیگی۔

۳۵۳۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے ، عقل اور مکارم اخلاق کا معیار، آبرو مندی ، واجبات کی جزا، انجام مستحبات، عہد و پیمان کی پابندی اور وعدوں کی وفا ہے ۔

۳۵۴۔ اما م حسن (ع): جس شخص کے پاس عقل نہیں اس کے پاس ادب نہیں۔

۷۴

۳۵۵۔ امام حسن (ع): جب آپ ؑ سے عقل کے متعلق پوچھا گیا، تو فرمایا غم و غصہ کو گھونٹ گھونٹ کر کے پینا ہے ، یہاں تک کہ موقع ہاتھ آجا ئے۔

۳۵۶۔ اما م حسین (ع): جب آپؑ سے عقل کے بارے میں پوچھا گیا، تو فرمایا: غم و غصہ کو گھونٹ گھونٹ کر کے پی جانا اور دشمنوں کے ساتھ مہربانی کرنا ہے ۔

۳۵۷۔ امام صادق(ع): لوگوں کے ساتھ نیک برتاؤسے پیش آنا ایک تہائی عقلمند ی ہے ۔

۳۵۸۔ امام صادق(ع): عقلمند ، عقلمند نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس میں یہ تین چیزیں کامل نہ ہوجائیں: خوشی و ناراضگی دونوں حالتوں میں حق اداکرنا، جو چیز اپنے لئے پسند کرتا ہے وہی لوگوں کے لئے بھی پسند کرنا اور دوسروں کی لغزش کے وقت بردباری کا مظاہرہ کرنا۔

۳۵۹۔ امام صادق(ع): بندوں کے درمیان پانچ سے کم خصلتیں تقسیم نہیںہوئی ہیں:یقین، قناعت، صبر، شکر اور عقل جو ان تمام کو کامل کرنے والی ہے ۔

و۔ نیک اعمال

قرآن

(کیا وہ شخص جو یہ جانتا ہے کہ جو کچھ آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل ہوا سب بر حق ہے وہ اس کے جیسا ہو سکتا ہے جو بالکل اندھا ہے( ہرگز نہیں) اس بات کو صرف صاحبان عقل ہی سمجھ سکتے ہیں)

( جو عہد خدا کو پورا کرتے ہیں اور عہد شکنی نہیں کرتے ہیں)

( اور جو ان تعلقات کو قائم رکھتے ہیں جنہیں خدا نے قائم رکھنے کا حکم دیا اور اپنے پروردگار سے ڈرتے رہتے ہیں اور بدترین حساب سے خوفزدہ رہتے ہیں)

۷۵

حدیث

۳۶۰۔ رسول خدا(ص): طاعت پروردگار کے سلسلہ میں فرشتوں نے عقل کے ذریعہ جد و جہد اور کوشش کی ، اور مؤمنین نے اپنی عقل کے مطابق طاعت خدا میںسعی و کوشش کی ، پس وہ لوگ جو بیشتر عقل کے مالک ہیں وہ بیشتر خدا کی پیروی کرتے ہیں۔

۳۶۱۔ رسول خدا(ص): جب آپ سے عقل کے متعلق سوال کیا گیا، تو فرمایا: حکم خدا کی تعمیل کرنا ہے ، اور بیشک حکم خدا کی تعمیل کرنے والے عقلاء ہی ہیں۔

۳۶۲۔ جابر بن عبد اللہ : نبی نے اس آیت (اور مثالیں ہم عالم انسانیت کے لئے بیان کر رہے ہیں لیکن انہیں صاحب علم کے علاوہ کوئی نہیں سمجھ سکتاہے)کی تلاوت کی اور فرمایا: عالم و ہ شخص ہے جو خدا کے بارے میں آگاہی رکھتا ہے اور اسکی پیروی کرتا اور اس کے غضب سے پرہیز کرتا ہے ۔

۳۶۳۔ سوید بن غفلہ: کا بیان ہے ایک روز ابو بکر نکلے ، رسول خدا نے ان کا خیر مقدم کیاتو ابو بکر نے پوچھا، اے رسول خدا! آپ کس چیز کی بدولت مبعوث ہوئے؟ فرمایا: عقل کے سبب ، ابو بکر نے عرض کیا: عقل تک ہماری رسائی کیسے ہو سکتی ہے؟ رسول خدا نے فرمایا: عقل کی کوئی حد نہیں جو حلال خدا کو حلال اور حرام خدا کو حرام سمجھے اسے عقلمند کہا جاتا ہے ۔ لہذا جو اس کے علاوہ سعی و کوشش کر یگا وہ عابد کہا جائیگا اور اگر اس سے زیادہ کوشش کریگا تو سخی کہا جائیگا اور جو عبادت میں جد و جہد اور نیکیوں کی مشکلات کو برداشت کرتا ہے لیکن ایسی عقل کا حامل نہیں ہے جو اسے حکم خدا کی پیروی اور اسکی نواہی سے پرہیز کی طرف ہدایت کرے، یہی لوگ اپنے کام کے اعتبار سے خسارہ میں ہیں اور ان کی سعی و کوشش زندگانی دنیا میں تباہ و برباد ہوگئی در حالانکہ وہ اپنے گمان کے مطابق نیک کام انجام دے رہے ہیں۔

۷۶

۳۶۴۔ امام علی (ع): عقلیں افکار کی پیشوا اور افکار دلوںکے پیشوا ہیں ، قلوب حواس کے پیشوا اور حواس اعضا کے پیشوا ہیں۔

۳۶۵۔ امام علی (ع): اطاعت ، عقل کے مطابق ہوتی ہے ۔

۳۶۶۔ امام علی (ع): جس کی عقل کامل ہوتی ہے اسکاکام نیک ہو تا ہے ۔

۳۶۷۔ امام علی (ع): جو شخص اپنی عقل کو خواہشات پر مقدم رکھتا ہے اسکی سعی مشکور ہوتی ہے ۔

۳۶۸۔ امام علی (ع): عقلمندی کی نشانیوں میں سے عادلانہ رویہ اختیار کرنا ہے ۔

۳۶۹۔ امام علی (ع): عنصر عقل( انسان ) کو عدالت سے کام لینے پر ابھارتا ہے ۔

۳۷۰۔ امام علی (ع): عقلمندی یہ ہیکہ جو جانتے ہو وہی کہو اور جو کہتے ہو اس پر عمل کرو۔

۳۷۱۔ امام علی (ع):جو شخص اپنی زبان کوصحیح رکھتا ہے اسکی عقل سنورجاتی ہے ۔

۳۷۲۔ امام علی (ع): معذرت، عقلمندی کی نشانی ہے ۔

۳۷۳۔ امام علی (ع): عقلمندی کا نتیجہ نیکو کاروںکی ہمنشینی ہے ۔

۳۷۴۔ امام صادق(ع): عقلمندی کی بہترین سرشت، عبادت ہے ، اس کے لئے محکم ترین سخن علم ہے ؛ اسکی عظیم ترین بہرہ مندی حکمت اور اس کا عظیم ترین ذخیرہ نیکیاںہیں۔

۷۷

ز۔ ہر شی کو اسکی جگہ پر رکھنا

۳۷۵۔ امام علی (ع): عاقل وہ ہے جو ہر شی کو اسکی جگہ پر رکھتا ہے اور جاہل اس کے بر خلاف ہوتا ہے ۔

۳۷۶۔امام علی (ع):آپ سے گذارش کی گئی کہ عاقل کی توصیف فرمائیں ۔ تو فرمایاکہ عاقل وہ ہے جو ہر شی کو اسکی جگہ پر رکھتا ہے! عرض کیاگیا، پھر جاہل کی تعریف کیا ہے ۔ فرمایایہ تو میں بیان کر چکا ۔

۳۷۷۔ امام علی (ع): عقلمند وہ ہے جو اپنے کام کو بحسن وخوبی انجام دیتا ہے اورموقع و محل کے اعتبار سے کوشش کرتا ہے۔

۳۷۸۔ امام علی (ع): عاقل کے لئے مناسب نہیںکہ حدود سے تجاوز کرے ، بلکہ ہر چیز کو اسکی جگہ پر قرار دے۔

فائدہ

جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں آثار عقل میں سے ہر چیز کو اسکی جگہ پر قرار دیناہے اور دوسری جانب ، یہی معنیٰ عدل کی تعریف میں گذر چکے ہےں ۔ لہذا ان دونوں احادیث کے موازنہ سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ آثار عقل میں سے عدل کی رعایت بھی ہے اور عاقل ، عدل کے مطابق عمل کرتا ہے۔ اور اس نتیجہ کی بعض احادیث میں وضاحت کی گئی ہے ۔

ح۔ بہتر کا انتخاب

۳۷۹۔ امام علی (ع): عقل تمہیں زیادہ نفع بخش کا حکم دیتی ہے اور جوانمردی زیادہ حسن و جمال کا۔

۳۸۰۔ امام علی (ع): جو شخص خیر کو شر سے جدا نہیں کر سکتاوہ چوپایوں کے مثل ہے ۔

۳۸۱۔ امام علی (ع): عاقل وہ نہیں ہے کہ جو خوبی کو بدی سے پہچانے، بلکہ عاقل وہ ہے جو دوبرائیوں کے درمیان زیادہ مناسب کی تشخیص کرے۔

۷۸

ط۔ عمر کو غنیمت سمجھنا

۳۸۲۔ امام علی (ع): عقلمند وہ ہے جو غیر مفید کاموں میں خود کو ضائع نہیں کرتا اور وہ چیز جو اس کے ساتھ ہمیشہ رہنے والی نہیں ہے اسے ذخیرہ نہیں کرتا۔

۳۸۳۔ امام علی (ع): اگر عقل سالم ہو تو ہر انسان اپنی فرصت کو غنیمت سمجھتا ہے ۔

ی۔ صحیح بات

۳۸۴۔ امام علی (ع): عقل کی نشانیوں میں سے صحیح بات کہنا ہے ۔

۳۸۵۔ امام علی (ع): اچھی گفتگو فراوانی عقل کی نشانی ہے ۔

۳۸۶۔ امام علی (ع): انسان کی عقل کا اندازہ اسکی اچھی گفتگو سے اور اس کے نسب کی پاکیزگی کا اندازہ اس کے بہترین افعال سے ہوتا ہے ۔

۳۸۷۔ امام صادق(ع): انسان تین طرح کے ہوتے ہیں ، عاقل ، احمق اور فاجر، عاقل وہ ہے جب اس سے کلام کیا جاتا ہے تو وہ جواب دیتا ہے ، جب وہ خود بولتا ہے تو سچ بولتا ہے اور جب سنتا ہے توسمجھتا ہے ، اور احمق وہ ہے جب کلام کرتا ہے تو جلد بازی کرتا ہے جب گفتگو کرتا ہے تو حیران ہوتا ہے اور جب برائیوں کی طرف ابھارا جاتا ہے تو اسے کر بیٹھتا ہے اور فاجر وہ ہے اگر اسے امانتدار سمجھوگے تو وہ خیانت کریگا اور اگر اس سے گفتگو کروگے تو تمہیں متھم کر دیگا۔

۷۹

ک۔ تجربات کا تحفظ

۳۸۸۔امام علی (ع): عقلمندی ، تجربات کا تحفظ ہے اور بہترین تجربہ وہی ہے جس سے تمہیں نصیحت حاصل ہو۔

۳۸۹۔امام علی (ع): تجربات کا تحفظ عقلمندی کا سرمایہ ہے ۔

۳۹۰۔ امام حسن (ع): جب آپ سے آپ کے پدر بزرگوار نے عقل کے متعلق دریافت کیا۔ تو فرمایا: (عقلمندی) یہ ہے کہ جو کچھ دل کے سپرد کیا ہے وہ اسے محفوظ رکھے!

۳۹۱۔ امام علی (ع): عاقل وہ شخص ہے جو اپنے تجربات سے نصیحت حاصل کرے۔

ل۔ حسن تدبیر

۳۹۲۔ رسول خدا(ص): نے حضرت علی (ع) کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا۔ کوئی عقل تدبیر کی مانند نہیں۔

۳۹۳۔ امام علی (ع): عقل کی فراوانی کی بہترین دلیل حسن تدبیر ہے ۔

۳۹۴۔ امام علی (ع): عقلمندی کی نشانی بیہودگی سے اجتناب اور حسن تدبیر ہے ۔

م۔صحیح گمان

۳۹۵۔ امام علی (ع): عاقل کا گمان پیشینگوئی ہے ۔

۳۹۶۔ امام علی (ع): صحیح گمان صاحبان عقل کی روش ہے ۔

۳۹۷۔ امام علی (ع): عقلمند کا گمان ، جاہل کے یقین سے زیادہ درست ہوتا ہے۔

۳۹۸۔ امام علی (ع): صاحبان عقل و خرد کا گمان ، حقیقت سے زیادہ قریب ہوتا ہے ۔

۳۹۹۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے ۔عقل ، صحیح گمان اور ماضی کی بنیاد پر مستقبل کی معرفت ہے ۔

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

ھ: جہالت کا اعتراف

1064۔ امام علی (ع): عقلمندی کی انتہاء ، اپنی جہالت کا اعتراف ہے۔

1065۔ امام علی (ع): یہ دنیا اسی حالت میںبر قراررہ سکتی ہے جس میں مالک نے قرار دیا ہے یعنی نعمت ، آزمائش ، آخرت کی جزا یاوہ بات جو تم نہیںجانتے ہو، اب اگر اس میں سے کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو اسے اپنی جہالت سمجھوکہ تم ابتدا میں جب پیدا ہوئے ہو تو جاہل ہی پیدا ہوئے ہوبعد میں تمہیںعلم دیا گیاہے اور اسی بنا پر مجہولات کی تعداد زیادہ ہے جس میںتمہاری رائے متحیر رہ جاتی ہے اور نگاہ بہک جاتی ہے ، اور بعد میں صحیح حقیقت نظر آتی ہے ۔

1066۔ امام علی (ع): اور یہ یاد رکھو کہ راسخون فی العلم وہی افراد ہیں جنہیں غیب الہی کے سامنے پڑتے ہوئے پردوں کے اندر درانہ داخل ہونے سے اس امر نے بے نیاز بنا دیاہے کہ وہ اس پوشیدہ غیب کا اجمالی اقرار رکھتے ہیں اور پروردگار نے ان کے اسی جذبہ کی تعریف کی ہے کہ جس چیز کو ان کا علم احاطہ نہیںکر سکتا اس کے بارے میں اپنی عاجزی کا اقرار کر لیتے ہیں اور اسی صفت کو اس نے رسوخ سے تعبیر کیا ہے کہ جس بات کی تحقیق ان کے ذمہ نہیںہے اسکی گہرائیوں میں جانے کا خیال نہیں رکھتے ہیں۔

1067۔ امام باقر(ع): جو جانتے ہو بیان کرو اور جو نہیں جانتے کہو(اللہ بہتر جانتا ہے)

۱۸۱

و: جہالت پر معذرت

1068۔ امام زین العاب دین (ع): خدایا! میں اپنی نادانی کے سبب تجھ سے معذرت چاہتا ہوں اور اپنے برے اعمال کے لئے تجھ سے بخشش طلب کرتا ہوں۔

ز: جہالت سے خدا کی پناہ چاہنا

1069۔ ام سلمہ: رسول خدا(ص) جب بھی گھر سے بر آمد ہوتے تھے تو فرماتے تھے: خدا کے نام سے، پروردگارا میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس سے کہ پھسلوں یا گمراہ ہو جاؤں، ستم کروںیا مجھ پرستم کیا جائے، جاہل رہوں یا مجھ پر کوئی چیز مخفی رہے۔

1070۔ امام علی (ع):نے جنگ صفین میں یوم الھریر کی دعا میں فرمایا: خدایا! بیشک میں...جہالت ،بیہودگی اور قول و فعل کی برائیوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔

1071۔ امام علی (ع): پروردگارا!...میں تیری پناہ چاہتاہوں اپنی قوت سے، اور تیری پناہ میں آنا چاہتا ہوں اپنی جرات سے ، اپنی جہالت کے سبب تیری پناہ کاطلبگار ہوں اور اپنے گناہوںکے باعث تیرے اسباب کی رسیوں کو پکڑنا چاہتا ہوں ۔

1072۔ امام علی (ع): پروردگارا! تیری پناہ چاہتا ہوں کہ علم کے عوض جہالت خریدوں جیسا کہ دوسروںنے کیاہے ، یا یہ کہ بردباری کے بدلہ حماقت خریدوں۔

1073۔ امام صادق(ع): صبح و شام کی دعا میں فرماتے ہیں؛ خدایا! ہم تیری مدد سے شام کرتے ہیں اور صبح بھی ، تیری بدولت زندہ رہتے ہیں اور مرتے بھی ہیں، اور تیری طرف پلٹے ہیں، اور میں تیری پناہ چاہتا ہوںکہ میںکسی کو رسوا کروں یا رسوا کیا جاؤں، گمراہ کروں یا گمراہ ہو جاؤں، ظلم کروںیا مجھ پرظلم کیا جائے، میں جاہل رہوں یا مجھ پر مخفی رہے۔

۱۸۲

1074۔ عبد الرحمن بن سیابہ: کابیان ہے کہ امام صادق(ع) نے یہ دعا مجھے دی: حمد اس خدا کے لئے جو صاحب حمد اور اس کا اہل ہے ، اسکی نہایت اور اس کا محل ہے ،...میںپناہ چاہتا ہوں کہ علم کے بدلہ جہالت ، بردباری کے عوض بدسلوکی، عدل کے بدلہ ستم ، نیکی کے بدلہ قطع تعلقی اور صبر کے عوض بیتابی کو خریدوں۔

ح: جہالت سے توبہ

1075۔ رسول خدا(ص):۔آپ ؐ اس طرح دعا فرماتے تھے۔بار الہا: میری خطا و جہالت، اور اپنے کام میں حد سے تجاوز کرنے اور جسکوتو مجھ سے بہتر جانتا ہے اس سے مجھکو معاف کر دے۔ پروردگارا! میرے مذاق او رسنجیدگی ، میری خطا اور دانستہ طور پر ہو جانے والے کاموں اور بقیہ میرے گناہوں سے مجھکو بخش دے۔

5/2

جاہل کے لئے حرام چیزیں

الف: علم کے بغیر لب کشائی

قرآن

(اور اپنے منہ سے وہ بات نکال رہے تھے جس کا تمہیں بھی علم نہیں تھا)

۱۸۳

حدیث

1076۔رسول خدا(ص): جو شخص علم کے بغیر لوگوںکو فتوے دیتا ہے وہ اصلاح سے زیادہ دین کو برباد کرتا ہے ۔

1077۔ رسول خدا(ص): جو شخص علم کے بغیر لوگوںکو فتویٰ دیتاہے وہ ناسخ و منسوخ اورمحکم و متشابہ میں فرق نہیں کر پاتا، لہذا وہ ہلاک ہے اور دوسروں کو ہلاک کردیتا ہے ۔

1078۔ رسول خدا(ص): جو بغیر علم کے فتوے دیتاہے اس پر آسمان و زمین کے ملائکہ لعنت بھیجتے ہیں۔

1079۔ رسول خدا(ص): وہ شخص جس کو بغیر تحقیق کے فتویٰ دیا جاتا ہے اس کا گناہ فتویٰ دینے والے کے سر ہے ۔

1080۔ امام علی (ع): جس کے بارے میں آگاہی نہیںرکھتے ہو، اطلاع نہ دو۔

1081۔ امام علی (ع): جو نہیںجانتے اس کو زبان پر جاری نہ کرو چوں کہ بیشترحق ان چیزوں میں ہے جن کا تم انکار کرتے ہو۔

1082۔ امام زین العاب دین (ع): خدایا! میں تیری پناہ چاہتا ہوں...کہ ظالم کی مدد کروں...یا بغیر علم کے علمی گفتگو کروں۔

1083۔ امام باقر(ع): جو علم اور الہی ہدایت کے بغیر فتویٰ دیتا ہے اس پر رحمت اور عذاب کے فرشتے لعنت کرتے ہیں اور اس کے فتوے پر عمل کرنے والے کا عقاب اسی کو ملیگا۔

۱۸۴

ب: نامعلوم چیز کا انکار

قرآن

(در حقیقت ان لوگوںنے اس چیز کی تکذیب کی ہے جس کا مکمل علم بھی نہیں ہے)

حدیث

1084۔ امام علی (ع): نے- اپنے بیٹے امام حسن ؑ: کو وصیت کرتے ہوئے - فرمایا: بیشک نادان وہ ہے جو نامعلوم چیزوں میں خود کو عالم شمار کرتا ہے اور اپنی ہی فکر و رائے پر اکتفا کرتا ہے ، ہمیشہ علماء سے دوری اختیار کرتا ہے اور انہیں برا بھلا کہتا ہے جو اسکی مخالفت کرتاہے اس کو خطا کا ر سمجھتا ہے اور جو شخص کچھ بھی نہیں جانتااسے گمراہ کرتا ہے ، پس جب اس کے سامنے کوئی امرآتا ہے جسے وہ نہیںجانتاتو اس سے انکار کر دیتا ہے اور اسے جھوٹ تصور کرتا ہے اور اپنی جہالت کی بدولت کہتا ہے : میں اس کو نہیں جانتا ہوںاور نہ اس سے پہلے کبھی اس کو دیکھا ہے اور گمان نہیں کرتا کہ بعد میںیہ وجود پذیربھی ہوگا۔ یہ ساری باتیں اس کا اپنی رائے پر اعتماد اور جہالت و کم علمی کے سبب ہیں۔ اور ہر وہ چیز جس کا وہ قائل ہے اور یا عدم علم کی بنیاد پر جس چیز کا غلط معتقد ہے اس سے دستبردار نہیںہوتا، اپنی نادانی سے استفادہ کرتا ہے اور حقیقت کا انکار کرتا ہے ، نیز اپنی جہالت و نادانی میں حیران و سرگرداں ہوتاہے اور تحصیل علم سے باز رہتاہے ۔

1085۔ امام علی (ع): جو کسی چیز سے ناواقف ہوتاہے اس کا دشمن ہو جاتا ہے ۔

۱۸۵

1086۔ اما م علی (ع): میں نے چار چیزیں کہیں کہ جنکی خدا نے اپنی کتاب میں تصدیق کی ، میں نے کہا: انسان اپنی زبان کے نیچے چھپا ہوتا ہے جب کلام کرتا ہے تو ظاہر ہو جاتا ہے ، پس خدا نے یہ آیت:(اور آپ ان کی گفتگو کے انداز سے انہیں بہر حال پہچان لیں گے)نازل کی، میں نے کہا: جو کسی چیز سے جاہل ہوتاہے اسکاد شمن ہوجاتاہے ، خدا نے فرمایا:( در حقیقت ان لوگوں نے اس چیز کی تکذیب کی ہے جس کا مکمل علم بھی نہیںہے اور اسکی تاویل بھی ان کے پاس نہیں آئی ہے) میں نے کہا: ہر شخص کی قدر و قیمت اسکی دانائی کے مطابق ہے ، خدا نے قصہ طالوت میں فرمایا:( انہیں اللہ نے تمہارے لئے منتخب کیاہے اور علم و جسم میں وسعت عطا فرمائی ہے)میں نے کہا: قتل، قتل کو کم کرتاہے ، خدا نے فرمایا:(صاحبان عقل تمہارے لئے قصاص میں زندگی ہے )

1087۔ امام علی (ع): جو کچھ میں نے زبان رسول سے سنا ہے اگر تمہارے سامنے بیان کردوں تو تم میرے پاس سے اٹھکر چلے جاؤ گے اور کہوگے ، یقینا علی سب سے بڑا جھوٹا اور سب سے بڑا فاسق ہے ، خدا فرماتا ہے :(بلکہ در حقیقت ان لوگوں نے اس چیز کی تکذیب کی جس کا مکمل علم بھی نہیں ہے)

1088۔ اما م صادق(ع): خدا نے اپنی کتاب میں دو آیتیں اپنے بندوں سے مخصوص کی ہیں : وہ لوگ جب تک نہیںجانتے لب کشائی نہیںکرتے اور جب تک علم نہیں رکھتے تردید نہیںکرتے ، خدا ارشاد فرماتا ہے :(کیا ان سے کتاب کا عہد نہیںلیا گیا کہ خبردار خدا کے بارے میں حق کے علاوہ کچھ نہ کہیں)نیز فرماتا ہے (یقینا ان لوگوں نے اس چیز کو جھٹلایا جس کا مکمل علم بھی نہیں رکھتے اور اسکی تاویل بھی ان کے پاس نہیں آئی ہے)

۱۸۶

5/3

ممدوح جہالت

1089۔ امام علی (ع): کتنے جاہلوں کی نجات ان کی جہالت میں ہے ۔

1090۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصارمیں ہے۔ دو گروہوںپر ہر چیز آسان ہے ؛ وہ عالم جو کام کے انجام سے واقف ہو، اور وہ جاہل جو اپنی حیثیت سے بے خبر ہو۔

1091۔ اما م علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے، اگر عقل کے نو حصے ہوتے تو جہالت کے ایک حصہ کی طرف محتاج ہوتی تاکہ عقلمند اپنے امور پر اسے مقدم کرے ،کیوں کہ عاقل ہمیشہ سہل انگار،نگراں اور خوفزدہ ہوتا ہے ۔

1092۔ امام علی (ع): بسا اوقات نادانی ، بردباری سے زیادہ مفید ہوتی ہے ۔

1093۔ ابراہیم بن محمد بن عرفہ: احمد بن یحیٰ ثعلب نے مجھے یہ اشعار سنائے اور بتایا کہ یہ اشعار علی (ع) بن ابی طالب کے ہےں:

اگر مجھے بردباری کی ضرورت ہے تو بیشک بعض اوقات مجھے جہالت کی زیادہ ضرورت ہے ۔ میں نادانی کو ندیم و ہمنشیں کے عنوان سے پسند نہیںکرتا لیکن ضرورت کے وقت پسند کرتاہوں میرے پاس بردباری کا مرکب ہے کہ جس کی لجام بھی بردباری ہی ہے ، اور میرے پاس جہالت کا مرکب ہے کہ جس کی زین نادانی ہے ۔

1094۔ امام حسین ؑ: اگر لوگ غور و فکر کرتے اور موت کو اسکی صورت میں تصور کرتے تو دنیا ویرانہ ہوجاتی۔

1095۔ امام عسکری ؑ: اگر تمام اہل دنیا عقلمند ہوتے تو دنیا ویران ہو جاتی۔

۱۸۷

1096۔ اما م صادق(ع)ـ: نے ۔ مفضل بن عمر۔ سے فرمایا: اے مفضل ! ان چیزوںکے بارے میں غور وفکر کرو کہ جن میں انسان کو اپنی مدت حیات کے متعلق آگاہی نہیں ہے ؛ اس لئے کہ انسان اگر اپنی عمر کی مقدار سے باخبر ہو جائے اور (بالفرض) اسکی زندگی کم ہو تو موت کے خوف سے کہ جس کا وقت معلوم ہے اسکی زندگی تلخ ہو جائیگی؛ بلکہ اس شخص کے مانند ہوگا کہ جس کا مال تباہ ہو گیا یابرباد ہونے کے قریب ہے ؛ گویا یہ شخص فقر اور مال و ثروت کی بربادی اور خوف فقر کے اندیشہ سے نہایت خوفزدہ رہتا ہے ۔

جبکہ یہ تلخی جو انسان کی فنائے عمرکے تصور سے پیدا ہوتی ہے انسان کے فنائے مال سے کہیں زیادہ تلخ ہے ؛ چونکہ جب کسی شخص کی ثروت کم ہو جاتی ہے تو وہ اسکی جگہ پر ثروت کے آنے کی امید رکھتا ہے ، جس کے سبب اس کو سکون حاصل ہوتا ہے ؛ لیکن جو عمرکی فنا کا یقین رکھتا ہے اس کے لئے صرف مایوسی ہوتی ہے ۔ اور اگر اسکی عمر طولانی ہوتی ہے اور وہ اس سے آگاہ ہو جاتاہے تو بقا کا اعتماد پیدا کرکے لذات اور معصیتوں میں غرق ہو جاتا ہے اور اس خیال سے عمل کرتاہے کہ اپنی لذتوںکو حاصل کرے اور آخیر عمر میں توبہ کرلیگا؛ یہ ایسی روش ہے کہ خدا پنے بندوں سے نہ پسند کرتا ہے اورنہ قبول۔

اگر تم کہو! کیا ایسا نہیں ہے کہ انسان ایک عرصے تک گناہ کرتاہے پھر توبہ کرتا ہے اور اسکی توبہ قبول ہوتی ہے۔؟!

ہم جواب دیں گے : ایسا اس لئے ہے کہ شہوت انسان پر غالب آجاتی ہے تونہ وہ کوئی منصوبہ بناتا ہے اور نہ ہی اس کے مطابق کوئی کام انجام دیتاہے ، لہذا خدا اس سے درگذر کریگا اور مغفرت کے ذریعہ اس پر فضل و احسان کریگا۔

لیکن وہ شخص جس نے اپنی زندگی کی بنا اس بات پر رکھی ہے کہ گناہ کرے گااور آخر عمر میں توبہ کرلیگا؛ یہ اس ذات کو دھوکا دینا چاہتاہے کہ جو دھوکا نہیںکھاتا اور کوشش کرتا ہے کہ جلد لذت اندوزہو اور اپنے نفس سے وعدہ کرتا رہتا ہے۔

۱۸۸

کہ بعد میں توبہ کر لیگا۔ حالانکہ اپنے وعدہ کو پورا نہیںکرتا؛ اس لئے کہ آسائش اور لذات سے چھٹکاراپانا اور توبہ کرنا، خصوصاً جب بوڑھا اور ناتواںہو جائے، نہایت دشوار کام ہے ، انسان توبہ کرنے میں ٹال مٹول کرکے امان نہیں پا سکتاچونکہ اسکی موت آپہنچتی ہے اور وہ توبہ کے بغیر دنیا سے چلا جاتا ہے ، اسکی مثال اس شخص کی سی ہے کہ جس کی گردن پر قرض ہو کہ جس کی میعاد آئندہ آئیگی اور وہ قرض کی ادائیگی کی قدرت ہونے کے باوجود ٹال مٹول کرتا رہتاہے یہاں تک کہ اسکی ادائیگی کا وقت آجاتاہے لیکن اب اس کے پاس مال نہ ہونے کی وجہ سے اسکی گردن پر قرض باقی رہ جاتاہے۔

لہذاا نسان کے لئے بہتر ہے کہ اپنی عمر کی مقدار سے واقف نہ ہو اور اپنی ساری زندگی موت سے خوفزدہ رہے تاکہ گناہوں سے پرہیز کرے اور نیک عمل بجالاتا رہے۔

اگر تم کہو: ایسے بھی لوگ ہیںجو اپنی زندگی کی مقدار سے با خبر نہیں ہیں اور ہر لمحہ موت کے انتظار میں ہیں لیکن ہمہ وقت بدکرداری اور محرمات کا ارتکاب کرتے ہیں۔

ہم جواب دیں گے: بیشک اس سلسلہ میں بہترین تدبیر وہ ہے جو اب جاری ہوئی ہے ؛ اگر انسان الہی تدبیر کے باوجود بدکرداری اور گناہوں سے دستبردار نہ ہو تو یہ اسکی عیش و نشاط اور سنگدلی کا نتیجہ ہے نہ کہ تدبیر میں کوتاہی کا، جیسے ڈاکٹر کبھی کوئی مفید دوا بیمار کے لئے تجویز کرتا ہے ؛ لیکن اگر مریض ڈاکٹر کے حکم کی مخالفت کرے اور اسکی پابندیوں پر عمل نہ کرے تو وہ ڈاکٹر کی تجویز سے بہرہ مند نہیں ہوتاا ور اس نقصان کا تعلق ڈاکٹر سے نہیںہے چونکہ اس نے بیماری کی شناخت کر لی ہے لیکن مریض نے اسکی بات قبول نہیںکی۔

۱۸۹

اگر انسان ہر لمحہ موت کے انتظار میں ہونے کے باوجود گناہوںسے دستبردار نہیں ہوتا تو اگر طولانی زندگی کا اطمینان ہو تو کہ بڑے گناہوں کا اور زیادہ ارتکاب کریگا، بہر حال موت کے انتظار میں رہنا، اس کے لئے دنیا میں اطمینان بقا سے بہترہے ، اور اس سے قطع نظر اگر موت کا انتظار ایک گروہ کے لئے مفید نہ ہو اور وہ لہو و لعب میں مصروف ہو اور اس سے نصیحت حاصل نہ کرے تو دوسرا گروہ نصیحت حاصل کریگا اور گناہوں سے گریز کریگااور نیک عمل بجالائیگا۔ اور اپنے اموال و گر انبہا اجناس کو فقراء و مساکین کوصدقہ دینے میںدریغ نہیں کریگا ۔ لہذا یہ انصاف نہیں ہے کہ یہ گروہ اس فضیلت سے بہرہ مند نہ ہوتو دوسرا گروہ بھی بہرہ مندنہ ہو۔

5/4

جاہل سے مناسب برتاؤ

الف: گفتگو کے وقت سلام کرنا

قرآن

(اور اللہ کے بندے وہی ہیں جو زمین پر آہستہ چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے خطاب کرتے ہیں تو سلامتی کا پیغام دے دیتے ہیں)

(اور جب لغویات سنتے ہیں تو کنارہ کشی اختیاکرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے لئے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لئے تمہارے اعمال ہیں ، تم پر ہمارا سلام کہ ہم جاہلوںکی صحبت پسند نہیںکرتے )

۱۹۰

حدیث

1097۔ نعمان بن مقرِّن : رسول خدا کے سامنے ایک شخص نے ایک شخص کو گالیاں دیں، اور اس نے اس کے جواب میں کہا: تم پر سلام ہو! رسول خدا(ص) نے فرمایا: یاد رکھو! تم دونوں کے درمیان ایک فرشتہ ہے جو تم سے دفاع کرتا ہے ، جب وہ تم کو گالی دیتا ہے اور کہتا ہے : تم ایسے ہو، تووہ(فرشتہ) اس سے کہتا ہے : بلکہ تم اور تم اس کے زیادہ مستحق ہو اور جب اس کے جواب میںکہتا ہے؛ تم پر سلام ہو! تو وہ (فرشتہ )کہتاہے : نہیں ، بلکہ تم(درود و سلام) کے مستحق ہو۔

1098۔ امام علی (ع): نے ۔ اپنے چاہنے والوں کی توصیف میں ۔ فرمایا: اگر تم انہیں دنوں میں دیکھو گے تو ایسی قوم پاؤ گے جو(زمین پر آہستہ چلتے ہیں) اور لوگوں سے اچھی باتیں کرتے ہیں:(اور جب جاہل ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو سلامتی کا پیغام دیتے ہیں) اور(اور جب لغو کاموںکے قریب سے گذرتے ہیں تو بزرگانہ انداز سے گذر جاتے ہیں)

1099۔ امام صادق(ع): نے۔ شیعوں کی توصیف میں۔ فرمایا: جب کوئی جاہل انہیں مخاطب کرتا ہے تو سلامتی کا پیغام دیتے ہیں اور جب کوئی حاجت مند ان کی پناہ میں آتا ہے تو اس پر رحم کرتے ہیں اور موت کے وقت غمگین نہیںہوتے۔

1100۔ اغانی: خلیفہ عباسی کا بیٹا ابراہیم، علی بن ابی طالب کا شدید دشمن تھا، ایک روز مامون سے کہا کہ میں نے خواب میں علی کو دیکھا ہے اور ان سے پوچھا: تم کون ہو؟ جواب دیا کہ علی ابن ابی طالب ہوں ، ابراہیم نے کہا: ہم دونوں کچھ دور گئے اور ایک پل نظر آیا انہوںنے چاہا کہ مجھ سے پہلے پل سے گذر جائیں۔ میںنے ان کو ؛پکڑا اور کہا: آپ امیر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیںجبکہ ہم اس کے زیادہ مستحق ہیں ، تو انہوںنے ایسا فصیح و بلیغ جواب نہ دیا جیسا کہ ان کی شہرت ہے، مامون نے کہا انہوںنے کیا جواب دیا؟ ابراہیم نے کہا: فقط سلاماً سلاماً کہا ہے۔مامون نے کہا: خدا کی قسم بلیغ ترین جواب تم کو دیا ہے ؛ ابراہیم نے کہا: کس طرح ؟ مامون نے کہا: تم کو یہ سمجھا دیا کہ تم جاہل ہو اور قابل گفتگو نہیںہو، خدا کا ارشاد ہے:(جب ان سے جاہل خطاب کرتے ہیں تو سلامتی کا پیغام دیتے ہیں) پس ابراہیم شرمندہ ہوا اور کہا: کاش کہ یہ واقعہ آپ کو نہ سنایا ہوتا۔

۱۹۱

ب: جھگڑے کے وقت خاموشی

1101۔ رسول خدا(ص): جناب موسیٰ ؑ نے جناب خضر سے ملاقات کی اور کہا: مجھکو نصیحت کیجئے! جناب خضر نے کہا: اے علم کے طلب کرنے والے.... اے موسیٰ ! اگر علم چاہتے ہو تو خود کو اس کےلئے وقف کر دو؛ اس لئے کہ علم اس شخص کےلئے ہے جو خود کو اس کےلئے وقف کر دیتا ہے...اور جاہلوں سے کنارہ کشی اختیار کرو اور احمقوںکے مقابل میں بردبار رہو، اس لئے کہ یہ بردباروںکےلئے فضیلت ہے اور علماء کیلئے زینت، اگر جاہل تم کو گالی دے تو تم نرمی کا برتاؤ کرتے ہوئے خاموش ہو جاؤ، اور دور اندیشی کےساتھ اس سے دوری اختیار کرو: چوں کہ تمہارے لئے جو نادانی و گالی باقی ہے وہی زیادہ ہے ۔

1102۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے ۔ جاہل کے ساتھ جھگڑانہ کرو۔

1103۔ امام علی (ع): بیوقوفوں سے جھگڑا نہ کرو، اور عورتوں پر فریفتہ نہ ہو اس لئے کہ یہ خصلتیں عاقلوںکوبدنام کرتی ہیں۔

1104۔ امام باقر(ع): مرد دو طرح کے ہوتے ہیں: مومن اور جاہل ، مومن کو اذیت نہ دو، اور جاہل کو جاہل نہ سمجھو ورنہ اس کے مانند ہو جاؤگے۔

ج: بردباری

1105۔ رسول خدا(ص): جس میں یہ تین چیزیں نہ ہونگی اسکاکوئی عمل صحیح نہیں ہوگا: پرہیزگاری جو اسے خدا کی نافرمانی سے باز رکھے ، اخلاق کہ جسکے سبب لوگوں کےساتھ مہربانی سے پیش آئے اور بردباری کہ جسکے ذریعہ جاہل کی جہالت کا جواب دے۔

1106۔ امام علی (ع): اپنے غیظ و غضب کو دور کروتاکہ رسوائی سے محفوظ رہو، اگر کوئی جاہل تمہارے ساتھ نادانی کرے تو ضروری ہے کہ تمہاری بردباری اس پر حاوی ہو۔

۱۹۲

1107۔ امام علی (ع):نے ۔ اپنے بیٹے اما م حسن ؑکو وصیت میں۔ فرمایا: میں تم کو وصیت کرتا ہوںکہ دوسروں کے گناہوںکو بخش دینا، غصہ کو پی جانا، صلہ رحم کرنا اور جاہل کے ساتھ بردباری کا مظاہرہ کرنا۔

1108۔ امام علی (ع): جاہل کو برداشت کرنا صدقہ ہے ۔

1109۔ امام علی (ع): مومن بردبار ہوتا ہے اور نادانی نہیں کرتا اور جب اس کے ساتھ کوئی نادانی کرتا ہے تو وہ بردباری کا ثبوت پیش کرتاہے ۔

1110۔ موسیٰ ؑ بن محمد محاربی : ایک شخص سے نقل کرتے ہیں: مامون نے امام رضا(ع) سے کہا: کیا آپ شعر نقل کرتے ہیں؟ فرمایا: مجھے بہت سارے اشعار یاد ہیں۔ اس نے کہا: بردباری کے متعلق کوئی بہترین شعر مجھے سنائےںامام (ع) نے فرمایا:

میں اپنے سے پست انسان کی جہالت کا شکار ہوں، میں نے اپنے نفس کو روک رکھا ہے کہ اس کا جواب جہالت سے دے، اگر عقلمندی میں اپنے مانند کسی کو پاؤں تو بردباری کاثبوت دوں؛ تاکہ میں اپنے مثل سے بلند ہو جاؤں؛ اور اگر علم و عقل میں ، میں اس سے کمتر ہوں تو اس کے لئے حق تقدم کا قائل ہوں۔

مامون نے کہا: کیا خوب شعر ہے؛ کس نے کہاہے؟! امام رضا(ع) نے فرمایا:ہمارے بعض جوانوں نے۔

۱۹۳

د: تعلیم

1111۔ امام کاظم (ع): نے ۔ ہشام بن حکم ۔ سے فرمایا: اے ہشام! جو کچھ نہیں جانتے اسے سیکھو؛ اور جو سیکھ لیا ہے اسے جاہل کو سکھاؤ، عالم کو اس کے علم کے سبب عظیم سمجھو اور اس سے جھگڑا نہ کرو اور جاہل کو اسکی نادانی کے سبب چھوٹا سمجھو، اس کو جھڑکو نہیں بلکہ خود سے قریب کرو اور تعلیم دو۔

1112۔ اما م صادق(ع): میںنے علی (ع) کی کتاب میں پڑھا ہے کہ خدا نے جاہلوں سے علم سیکھنے کا عہد و پیمان اس وقت تک نہیں لیا جب تک کہ علماء سے انہیں سکھانے کا عہد نہیں لے لیا، اس لئے کہ علم کا وجود جہالت سے پہلے ہے ۔

ھ: عدم اعتماد

1113۔ امام علی (ع): اپنے عقلمند دشمن پر اپنے نادان دوست سے زیادہ اعتماد کرو۔

1114۔ امام علی (ع):جو عاقل نہیں ہے اس کے عہد و پیمان پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔

و: نافرمانی

1115۔امام علی (ع): جاہل کی نافرمانی کرو تاکہ محفوظ رہو۔

۱۹۴

ز: اعراض

قرآن

(آپ عفو کا راستہ اختیار کریں نیکی کا حکم دیں اور جاہلوں سے کنارہ کشی کریں)

حدیث

1116۔ رسول خدا(ص): سب سے بڑا حکیم وہ ہے جو جاہل انسانوںسے فرار کرتا ہے ۔

1117۔ رسول خدا(ص):لوگ دو طرح کے ہوتے ہیں: مومن اور جاہل ، مومن کو اذیت نہ دو اور جاہل کی ہمنشینی اختیار نہ کرو۔

1118۔ امام علی (ع): نے ۔ امام حسن ؑسے اپنی وصیت میں ۔ فرمایا: کفر ان نعمت پستی ہے اور جاہل کی ہمنشینی نحوست ہے ۔

1119۔ امام علی (ع): ۔ آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے ۔ جاہل کی قربت اور اسکی ہمسائیگی تم کو اپنے شر سے محفوظ نہیںرکھتی، چوںکہ آگ سے جتنا زیادہ قریب ہوگے جلنے کا خطرہ اتنا ہی زیادہ ہوگا۔

1120۔ اما م علی (ع): جو عقل سے محروم ہے اسکی صحبت اختیار نہ کرو اورجو صاحب حسب و نسب نہیں ہے اس کو اپنا خاص نہ بناؤ کیوں کہ جو عقلمند نہیںہے وہ تم کو اپنے خیال میں فائدہ پہنچانے کے بجائے ضرر پہنچا ئیگا، اور جو صاحب حسب و نسب نہیںہے وہ اس کے ساتھ بھی برائی کرتا ہے جو اس کے ساتھ نیکی کرتا ہے ۔

1121۔ امام علی (ع):جو عقل سے محروم ہے اس سے نیکی کی امید نہ رکھواور جو بے نسب ہے اس پر اعتماد نہ کرو اس لئے کہ جو عقلمند نہیں ہے وہ اپنے خیال میں خیر خواہی کرتا ہے حالانکہ اس سے نقصان پہنچتا ہے اور بے نسب اصلاح کرنے کے بجائے تباہ کرتا ہے ۔

۱۹۵

1122۔ امام علی (ع): بدترین شخص کہ جس کی تم ہمنشینی اختیار کرتے ہو وہ جاہل ہے ۔

1123۔ امام علی (ع): بدترین دوست جاہل ہے ۔

1124۔ امام علی (ع): جاہل سے قطع تعلق ہونا عقلمند سے وابستہ ہونے کے برابر ہے ۔

1125۔ امام علی (ع): عاقل سے بچو جب تم اس کو غضبناک کردو، کریم سے بچو جب تم اسکی اہانت کرو، حقیر و پست سے بچو جب تم اس کا احترام کرو اور جاہل سے بچو جب تم اس کے ہمنشیں ہو جاؤ۔

1126۔ امام علی (ع): نادان کا دوست معرض ہلاکت میں ہوتا ہے ۔

1127۔ امام علی (ع): نادان کا دوست تباہی کے دہانے پر ہوتا ہے ۔

1128۔ امام عسکری:ؑ نادان کا دوست غمگین رہتا ہے ۔

1129۔ اما م کاظم (ع): عالم سے مزبلہ پر گفتگو ، جاہل سے گرانبہافرش پر گفتگو کرنے سے بہترہے ۔

1130۔ امام رضا(ع): نے ۔ محمد بن سنان کو ایک خط میں۔ تحریر فرمایا: خدا نے ہجرت کے بعد بادیہ نشینی کو حرام کر دیا تاکہ کوئی دین سے نہ پھرے ، انبیاء اور پیشواؤں کی نصرت کرنے سے گریز نہ کرے اس لئے کہ یہ (حرمت) تباہی و بربادی اور صاحبان حق کے حقوق کی پامالی کی وجہ سے ہے نہ اس جہت سے کہ بادیہ نشینی ناروا ہے ، لہذا اگر کوئی شخص دین سے مکمل طور پر آگاہ ہو تو اس کے لئے مناسب نہیں ہے کہ جاہلوںکے درمیان سکونت پذیر ہو اور اس چیز کا بھی خوف ہے کہ وہ کہیں علم کو چھوڑ کر جاہلوںکے جرگے میں پھنس جائے اور اس میں بہت آگے بڑھ جائے۔

۱۹۶

چھٹی فصل پہلی جاہلیت

6/1

مفہوم جاہلیت

قرآن

( اور پہلی جاہلیت جیسا بناؤ سنگار نہ کرو)

( اور ہم نے انہیں ایسی کتابیں نہیں عطا کی ہیں جنہیں یہ پڑھتے ہوں اور نہ ان کی طرف آپ سے پہلے کوئی ڈرانے والا بھیجا ہو)

( اور آپ طور کے کسی جانب اس وقت نہیں تھے جب ہم نے موسیٰ کو آواز دی لیکن یہ آپ کے پروردگار کی رحمت ہے کہ آپ اس قوم کو ڈرائیںجسکی طرف آپ سے پہلے کوئی پیغمبر نہیں آیا ہے کہ شاید وہ اس طرح عبرت و نصیحت حاصل کر لیں)

حدیث

1131۔رسول خدا(ص): اعمال میں ضعف اور لوگوں کی جہالت کی بنا پر جاہلیت کہا گیا ہے ...بیشک اہل جاہلیت غیر خدا کی عبادت کرتے تھے ، ان کے لئے آخرت میں ایک مدت ہوتی تھی جہاں تک وہ پہنچتے تھے اور اسکی ایک انتہا ہوتی تھی جہاں تک وہ جاتے تھے اور ان کے عقاب روز قیامت تک ٹال دیا گیا تھا، خدا نے ان کواپنی قدرت و بزرگی اور عزت کی بنا پر مہلت دے دی تھی لہذا قدرتمند ، کمزوروں پر مستلط ہوئے اور بڑے ، چھوٹوں کو اس دوران کھا گئے ۔

۱۹۷

1132۔ جعفر بن ابی طالب نے ۔ اپنی قوم کی حبشہ کے بادشاہ نجاشی سے اسطرح تعریف کی: اے بادشاہ! ہم لوگ جاہل تھے ، بتوںکی پرستش کرتے تھے مردار کھاتے تھے، برائیوںکا ارتکاب کرتے تھے ، قطع رحم کرتے تھے۔ اور پڑوسیوںکےساتھ بدسلوکی کرتے تھے، ہم میں سے قدرتمند کمزور کو کھاجاتا تھا، ہماری یہی کیفیت تھی کہ اللہ نے ہماری طرف ہمیں میں سے رسول بھیجا کہ ہم جسکے نسب، صداقت، امانت اور پاکدامنی سے واقف ہیں، اس نے ہمیں اللہ کیطرف دعوت دی تاکہ ہم اسکی وحدانیت کے قائل ہو جائیںاور اسکی عبادت کریں، اورجن چیزوںجیسے پتھر اور بت وغیرہ کی ہم اور ہمارے آباء و اجداد پرستش کیا کرتے تھے، انہیں چھوڑ دیں اور ہمیں سچ بولنے، ادائے امانت، صلہ رحم، پڑوسی کےساتھ نیکی، محرمات اور خونریزی سے پرہیز کرنے کا حکم دیا، ہمیں برائیوں، باطل کلام ،یتیم کا مال کھانے اور پاکدامن پر بہتان لگانے سے منع فرمایا۔ہمیں حکم دیا کہ ہم صرف اللہ کی عبادت کریں اور اسکے ساتھ کسی کو شریک قرار نہ دیں، ہمیں نماز و زکات اور روزہ کا حکم دیا...پس ہم نے اسکی تصدیق کی اور اس پر ایمان لے آئے، وہ جو کچھ لیکر آئے تھے ہم نے اسکی اتباع کی، ہم نے صرف خدا کی عبادت کی اور اسکے ساتھ کسی کو شریک قرار نہ دیا اور ہم پر جو حرام کیا تھا ہم نے اسے حرام جانا اور جو حلال کیاتھا ہم نے اسے حلال جانا، لہذا ہماری قوم نے ہم پر ستم کیا، ہمیں عذاب دیا اور ہمیں ہمارے دین سے پلٹانے کےلئے شکنجے دئے، تاکہ ہم خدا کی عبادت سے بت پرستی کی طرف پلٹ آئیں اور جن بری چیزوںکو حلال جانتے تھے انہیں دوبارہ حلال سمجھیں۔

1133۔ امام علی (ع): اما بعد! اللہ نے حضرت محمد مصطفیٰ(ص) کو اس دور میں بھیجا ہے جب عرب میں نہ کوئی کتاب پڑھنا جانتا تھا اور نہ نبوت اور وحی کا ادعاء کرنے والا تھا۔

1134۔ امام علی (ع): خدا نے انہیں اس وقت بھیجا جب انبیاء کا سلسلہ موقوف تھا اوربد عملی کا دور دورہ تھا اور امتیں غفلت میں ڈوبی ہوئی تھیں۔

۱۹۸

1135۔ امام علی (ع): میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اﷲکے بندہ اور رسول ہیں۔ انہیںاس وقت بھیجا جب ہدایت کے نشانات مٹ چکے تھے، دین کے راستے بے نشان ہوچکے تھے، انہوںنے جنکا واشگاف اندازسے اظہار کیا، لوگوںکو نصیحت کی ۔

1136۔ امام علی (ع): خدا نے انہیں اس وقت مبعوث کیاجب نہ کوئی نشان ہدایت تھا نہ کوئی منارئہ دین روشن تھا اور نہ کوئی راستہ واضح تھا۔

1137۔ امام علی (ع): اسکے بعد مالک نے آنحضرؐت کو حق کےساتھ مبعوث کیا جب دنیا فنا کی منزل سے قریب تر ہوگئی اور آخرت سر پر منڈلانے لگی دنیا کا اجالا اندھیروں میں تبدیل ہونے لگا اور وہ اپنے چاہنے والوںکےلئے ایک مصیبت بن گئی، اسکا فرش کھردرا ہوگیا اور وہ فنا کے ہاتھوں میں اپنی مہاردینے کےلئے تیار ہوگئی، اسطرح کہ اسکی مدت خاتمہ کے قریب پہنچ گئی اسکی فنا کے آثار قریب آگئے ،اسکے اہل ختم ہونے لگے اسکے حلقہ ٹوٹنے لگے، اس کے اسباب منتشر ہونے لگے، اسکے نشانات مٹنے لگے ، اسکے عیب کھلنے لگے ، اور اسکے دامن سمٹنے لگے۔

1138۔ امام علی (ع): اللہ نے انہیں اس وقت بھیجا جب لوگ گمراہی میں متحیر تھے اور فتنوں میں ہاتھ پاؤں مار رہے تھے ، خواہشات نے انہیں بہکا دیا تھا اور غرور نے ان کے قدموںمیں لغزش پیدا کر دی تھی جاہلیت نے انہیں سبک سر بنا دیاتھا، اور وہ غیر یقینی حالات اور جہالت کی بلاؤں میں حیران و سرگرداں تھے ، آ پ نے نصیحت کا حق ادا کر دیا ، سید ھے راستہ پر چلے اور لوگوںکو حکمت اور موعظہ حسنہ کی طرف دعوت دی۔

۱۹۹

1139۔ امام علی (ع): اے لوگو! اللہ نے تمہاری طرف رسول بھیجا اور ان پرحق کےساتھ کتاب نازل کی، حالانکہ اس وقت تم کتاب اور جو کچھ اس نے نازل کیا ہے اور رسول اور اسکے بھیجنے والے سے بیگانہ تھے اس وقت جبکہ ابنیاء کا سلسلہ موقوف تھااور امتیں خواب غفلت میں پڑی ہوئی تھیں، جہالت کا دور دورہ تھا، فتنے چھائے ہوئے تھے، محکم عہد و پیمان توڑے جارہے تھے، لوگ حقیقت سے اندھے تھے، جور و ستم کے سبب منحرف تھے، دینداری زیر پردہ تھی، جنگ کے شعلے بھڑک رہے تھے باغات دنیا کے گلستان پژمردہ ہوگئے تھے، انکے درختوں کی شاخیں خشک ہو چکی تھیں، باغ زندگی کے پتوں پر خزاں تھی، ثمرات حیات سے مایوسی پیدا ہو چکی تھی، پانی بھی تہ نشیںہو چکا تھا، ہدایت کے پرچم بھی سرنگوںہوچکے تھے اور ہلاکت کے نشانات بھی نمایاں تھے۔

یہ دنیا اپنے اہل کو ترش روئی سے دیکھ رہی تھی اور ان کی طرف پیٹھ کئے ہوئے تھی اور منہ بگاڑ کر پیش آرہی تھی اس کا ثمرہ فتنہ تھا اور اسکی غذا مردار ، اس کا اندرونی لباس خوف تھا اور بیرونی لباس تلوار، تم لوگ ٹکڑے ٹکڑے ہو چکے تھے ، اہل دنیا کی آنکھیں اندھی ہو چکی تھیں، ان کی تمام زندگی تاریک ہو چکی تھی، اپنے عزیز و رشتہ دار سے قطع تعلق کر چکے تھے، ایک دوسرے کا خون بہاتے تھے، اپنی نو زاد بچیوں کو زندہ در گور کر دیتے تھے، خوشحال زندگی اور عیش و آرام ان کے درمیان سے رخت سفر باندھ چکا تھا نہ خدا سے ثواب کی امید رکھتے تھے اور نہ ہی اس کے قہر و غضب سے ڈرتے تھے، ان کے زندہ اندھے اور ناپاک تھے، اور مردے آگ کے اندر لڑھک رہے تھے، پھر اس کے بعد رسول خدا اولین کی کتابوں سے ایک نسخہ لیکر آئے اور جو کچھ اس کے پاس حق و حقیقت تھی اسکی تصدیق کی اور حلال و حرام کو اچھی طرح سے جداکیا۔

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258