عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں

عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں7%

عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 258

عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 258 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 138916 / ڈاؤنلوڈ: 5394
سائز سائز سائز
عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں

عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

م: خرفہ

۲۶۹۔ رسول خدا(ص): تمہارے لئے خرفہ کھانا ضروری ہے کیوں کہ اس سے زیر کی بڑھتی ہے بیشک اگر کوئی چیز عقل کو بڑھاتی ہے تو وہ یہی ہے ۔

ن: لیمو

۲۷۰۔ رسول خدا(ص): لیمو کھاؤ اس لئے کہ یہ دل کو روشنی عطا کرتا اور دماغ کوقوی کرتاہے ۔

س: باقلا

۲۷۱۔امام صادق(ع): باقلا کھانے سے پنڈلیاں گودے دار ہوتی ہیں اور دماغ بڑھتا ہے ۔

۶۱

پانچویں فصل عقل کی نشانیاں

۵/۱

عقل و جہل کے سپاہی

۲۷۲۔ سماعہ بن مہران: میںامام صادق(ع) کی خدمت میں حاضر تھا اور وہاںآپ کے کچھ چاہنے والے بھی موجود تھے عقل اور جہل کاتذکرہ آیا تو امام صادق(ع) نے فرمایا: عقل اور جہل اور ان دونوں کے سپاہیوںکو پہچا

نو تاکہ ہدایت پا جاؤ۔ سماعہ کہتا ہے کہ ؛ میںنے عرض کیا، میری جان آپ پر فدا ہو جائے! ہم کچھ نہیں جانتے سوائے یہ کہ جو آپ نے سکھایا ہے ، امام صادق(ع) نے فرمایا: عقل خدا کی پہلی روحانی مخلوق ہے جسے عرش کے دائیں طرف کے اپنے نور سے خلق کیا، پھر اس سے کہا : پیچھے ہٹو وہ پیچھے ہٹ گئی ، پھر کہا:آگے آؤ، آگے آگئی، اس کے بعد اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: میں نے تجھے عظیم مخلوق بنا کر پیدا کیا ہے اور تجھے اپنی تمام مخلوقات پر عزت عطا کی ہے ۔

فرمایا: پھر خدا نے جہل کو شور اور تاریک سمندر سے پیدا کیا، اس کے بعد اس سے کہا: پیچھے ہٹ جا وہ ہٹ گیا، پھر کیا: آگے آ، لیکن آگے نہیں آیا، پھر خدا نے اس سے کہا: تونے خود کوبڑا سمجھ لیا ہے پھر خدا نے اس پر لعنت کی ۔

اس کے بعد عقل کے لئے پچھتر سپاہی قرار دئیے، خدا نے عقل کوجو عزت و احترام عطا کیا ہے جب جہل نے اسے دیکھا تو اس کے دل میں کینہ پیدا ہوا اور کہا: اے پروردگار یہ بھی مخلوق میری ہی طرح ہے، تونے اسے پیدا کرکے عزت بخشی ،قوی بنایااور میں اس کے بر خلاف ہوں مجھ میں کوئی طاقت نہیں ہے ، مجھے بھی عقل کی طرح سپاہی عطا کر، خدا نے قبول فرمایا اور کہا: اگر تونے اس کے بعد نافرمانی کی تو میں تجھے اور تیرے سپاہیوںکو اپنی رحمت سے خارج کر دونگا، جہل راضی ہوا، خدا نے اسے پچھتر(۷۵) سپاہی عطا کئے ۔ وہ ۷۵ سپاہی جو خدا نے عقل کو عطا کئےے ہیں(درج ذیل ہیں) :

۶۲

خیر جو کہ عقل کا وزیر ہے اور اسکی ضد شر ہے جو کہ جہل کا وزیر ہے ، ایمان کہ جس کی ضد کفر ہے ، تصدیق کہ جس کی ضد انکار ہے ، امید کہ جس کی ضد ناامیدی ہے ، عدل کہ جس کی ضد ستم ہے ،خوشنودی کہ جس کی ضد ناراضگی ہے ، شکر کہ جس کی ضد ناشکری ہے ، طمع کہ جس کی ضد مایوسی ہے ، توکل کہ جس کی ضد حرص ہے ، مہربانی کہ جس کی ضد سنگدلی ہے ، رحمت کہ جس کی ضد غضب ہے ،علم کہ جس کی ضد جہل ہے ، فہم کہ جس کی ضد حماقت ہے ، عفت کہ جس کی ضد بدکرداری ہے ، زہد کہ جس کی ضد رغبت ہے ، نرمی کہ جس کی ضد سختی و تندی ہے ، خوف و ہراس کہ جس کی ضد جرئت مندی اور بیباکی ہے ، تواضع کہ جس کی ضد تکبر ہے، آہستگی کہ جس کی ضد جلد بازی ہے ،بردباری کہ جس کی ضد بیتابی ہے، خاموشی کہ جس کی ضد بکواس ہے ،تابع کہ جس کی ضد سرکشی ہے ، تسلیم کہ جس کی ضد شک ہے ، صبر کہ جس کی ضدگھبراہٹ ہے، چشم پوشی کہ جس کی ضد انتقام ہے ، غنی کہ جس کی ضد فقر ہے ، یاد دہانی کہ جس کی ضد بے خبری ہے ، یاد رکھنا کہ جس کی ضد فراموشی ہے ، عطوفت کہ جس کی ضد جدائی ہے ، قناعت کہ جس کی ضد حرص و لالچ ہے ، ہمدردی کہ جس کی ضد دریغ ہے، دوستی کہ جس کی ضد عداوت ہے، وفا کہ جس کی ضد بے وفائی ہے ، طاعت کہ جس کی ضد معصیت ہے ، خضوع کہ جس کی ضد غرور ہے ، سلامتی کہ جس کی ضد گرفتاری ہے ، محبت کہ جس کی ضد بغض و کینہ ہے ، صداقت کہ جس کی ضد جھوٹ ہے ، حق کہ جس کی ضد باطل ہے امانت کہ جس کی ضد خیانت ہے ، اخلاص کہ جس کی ضد ملاوٹ ہے ، دلیری کہ جس کی ضد بزدلی ہے ، فہم کہ جس کی ضد کند ذہنی ہے ، معرفت کہ جس کی ضد انکار ہے ، رازداری کہ جس کی ضد فاش کرنا ہے ، یک رنگی کہ جس کی ضد دوروئی ہے ، پردہ پوشی کہ جس کی ضد افشاء ہے ، نمازگذاری کہ جس کی ضد ضائع کرنا ہے ، روزہ رکھنا کہ جس کی ضد کھانا ہے ، جہاد کہ جس کی ضد جنگ سے فرار ہے ، حج کہ جس کی ضد پیمان شکنی ہے ، بات کو ہضم کرنا کہ جس کی ضد چغلخوری ہے ۔

۶۳

والدین کے ساتھ نیکی کہ جس کی ضد اذیت رسانی ہے، حقیقت کہ جس کی ضد ریاکاری ہے ، نیکی کہ جس کی ضد برائی ہے، پوشیدگی کہ جس کی ضد خودنمائی ہے ، تقیہ کہ جس کی ضد لاپروائی ہے، انصاف کہ جس کی ضد جانبداری ہے ، پائداری کہ جس کی ضد تجاوز ہے ، پاکیزگی کہ جس کی ضد آلودگی ہے ، حیاء کہ جس کی ضد بے حیائی ہے ، میانہ روی کہ جس کی ضد حد سے بڑھ جانا ہے ۔، آسودگی و راحت کہ جس کی ضد تھکن ہے ، آسانی کہ جس کی ضد سختی ہے ، برکت کہ جس کی ضد بے برکتی ہے ، عافیت کہ جس کی ضد بلاء ہے اعتدال کہ جس کی ضد افراط ہے ، حکمت کہ جس کی ضد ہوی و ہوس ہے، وقار کہ جس کی ضد خفت ہے ، سعادت کہ جس کی ضد بد بختی ہے۔

توبہ کہ جس کی ضد اصرار گناہ ہے ، استغفار کہ جس کی ضد بیہودگی ہے، محافظت کہ جس کی ضد حقیر و پست سمجھنا ہے، دعا کہ جس کی ضد دعا سے باز رہنا ہے ، نشاط و فرحت کہ جس کی ضد کاہلی ہے ، خوشی کہ جس کی ضد حزن ہے ، الفت کہ جس کی ضد فراق ہے سخاوت کہ جس کی ضد بخل ہے ۔

عقل کے یہ تمام سپاہی صرف بنی یا وصی نبی اور ا س مومن میں جمع ہو تے ہیں جس کے دل کا امتحان اللہ نے ایمان کے ذریعہ لیا ہے، لیکن ہمارے دیگر محبین عقل کے سپاہیوں میں سے بعض کے حامل ہو جائیں کہ جن کے سبب درجہ کمال تک پہنچ جائیں اور جہالت کے سپاہیوں سے پاک ہو جائیں تو اس صورت میں انبیاء و اوصیاء کے ساتھ بلند درجہ میں ہوں گے، اس مقام تک رسائی عقل اور اس کے سپاہیوں کی معرفت اور جہل اور اس کے سپاہیوں سے علٰحدگی کے سبب ہو سکتی ہے۔ خدا وند ہمیں اور آپکو اپنی اطاعت و خوشنودی کی توفیق عطا فرمائے۔

۶۴

۵/۲

عقل کے آثار

الف۔ علم و حکمت

قرآن

(وہ جس کو بھی چاہتا ہے حکمت عطا کر دیتا ہے اور جسے حکمت عطا کر دی جائے اسے گویا خیر کثیر عطا کر دیا گیا اور اس بات کو صاحبان عقل کے سوا کوئی نہیں سمجھتا ہے )

(اس واقعہ میں نصیحت کا سامان موجود ہے اس انسان کے لئے جس کے پاس دل ہو یا جو حضور قلب کے ساتھ بات سنتا ہو)

ملاحظہ کریں:آل عمران: ۷،رعد:۱۹، ابراہیم ۵۲، سورہ ص:۲۹اور ۴۳ زمر: ۹ اور ۲۱، غافر:۵۴۔

حدیث

۲۷۳۔ سلیمان بن خالد: میں نے امام صادق(ع) سے اس قول خدا( جسے حکمت عطا کی گئی گویا اسے خیر کثیر عطا کیا گیا) کے بارے میں پوچھا تو فرمایا کہ حکمت سے معرفت اور دین میں تفقہ مراد ہے ، لہذاتم میں سے جو شخص فقیہ ہو گیا وہ حکیم ہو گیا۔

۲۷۴۔ امام کاظم (ع): نے ہشام بن حکم کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا۔ اے ہشام اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں فرماتا ہے (اس واقعہ میں نصیحت کا سامان موجود ہے اس انسان کے لئے جس کے پاس دل ہو) قلب سے عقل مراد ہے ، نیز فرماتا ہے (یقینا ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی ) امام نے فرمایا : فہم و عقل مراد ہے....

۶۵

اے ہشام! خدا نے اپنے انبیاء ومرسلین کوا پنے بندوں کی طرف نہیں بھیجا ہے مگر یہ کہ وہ خدا کے بارے میں غور و خوض کریں۔ اور انبیاء کی دعوت کو سب سے اچھی طرح اس شخص نے قبول کیا ہے جو سب سے بہتر معرفت رکھتا ہے اورامر خدا کے بارے میں سب سے زیادہ علم رکھنے والا وہ شخص ہے جس کی عقل سب سے بہتر ہے اور ان میں جس کی عقل زیادہ کامل ہے دنیا و آخرت میں اس کا درجہ زیادہ بلند ہے...اے ہشام ! تمہارا عمل اللہ کے نزدیک کیوں کر پاک ہو سکتا ہے جبکہ تمہارا دل امر پروردگار سے منحرف ہے اور اپنی خواہشات کی پیروی کرکے انہیں اپنی عقل پر غالب کر لیا ہے ؟!....اے ہشام ! حق کی بنیاد طاعت خدا پر ہے ، اور بغیر طاعت کے نجات نہیں مل سکتی ، طاعت علم سے حاصل ہوتی ہے اور علم سیکھنے سے حاصل ہوتا ہے اور سیکھنے کا تعلق عقل سے ہے ، البتہ علم ، خدا رسیدہ عالم کے بغیر حاصل نہیںہو سکتا اور علم کی معرفت کا دارومدار عقل پر ہے ....بیشک وہ شخص خدا کا خوف نہیں رکھتا جو خدا کے بارے میں آگاہی نہیں رکھتا ، اور جو خدا کے بارے میں آگاہی نہیں رکھتا اس کا دل مستحکم معرفت کا گروی نہیں ہو سکتا کہ جس کے ذریعہ وہ اپنے دل میں حقیقت معرفت کو درک اور محسوس کر سکے، اور ایسی معرفت کا حامل وہی ہو سکتا ہے کہ جس کا قول اس کے کردار کی تصدیق کرتا ہے اور اسکاباطن اس کے ظاہر سے ہم آہنگ ہوتاہے، کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے عقل کے ظاہر کو اس کے باطن کی علامت اور اس کا غماز قرار دیا ہے۔

۲۷۵۔ امام کا ظم ؑ: اے ہشام! بیشک عقل علم کے ساتھ ہے ، چنانچہ ارشا د ہے :'' اور مثالیں ہم تمام عالم انسانیت کے لئے بیان کر رہے ہیں لیکن انہیں صاحب علم کے علاوہ کوئی نہیں سمجھ سکتا ہے''

۲۷۶۔ امام علی (ع): عقل اور علم دونوں ایک دوسرے سے اس طرح ملے ہوئے ہیں کہ نہ کبھی جدا ہوں گے اور نہ ہی آپس میں ٹکرائیں گے ۔

۶۶

۲۷۷۔ رسول خدا(ص): عقل جہالت سے باز رکھتی ہے اور نفس نہایت سر کش چوپایہ کی طرح ہے کہ اگر بے مہار چھوڑ دیا جائے تو سر گرداںرہتا ہے ، پس جہالت کی مہار عقل ہے ۔

۲۷۸۔ امام علی (ع): جس نے غورکیا وہ سمجھ گیا۔

۲۷۹۔ امام علی (ع): عقل علم کا ستون اور فہم کی طرف دعوت دینے والی ہے ۔

۲۸۰۔ امام علی (ع): عقلوں کے ذریعہ علوم کی بلندیوںتک رسائی ہوتی ہے ۔

۲۸۱۔ امام علی (ع): علم کا مرکب عقل اور حلم کا مرکب علم ہے ۔

۲۸۲۔ امام علی (ع): علم، عقل کا عنوان ہے ۔

۲۸۳۔ امام علی (ع): علم ، عقل پر دلالت کرتا ہے لہذا جس نے جان لیا عقلمند ہے ۔

۲۸۴۔ امام علی (ع): عقل کے ذریعہ حقیقت حکمت حاصل ہوتی ہے اور حکمت کے ذریعہ حقیقت عقل ۔

۲۸۵۔ امام علی (ع): حکمت عقلمندوں کا باغ اور فضلاء کی تفریحگاہ ہے ۔

۲۸۶۔ امام علی (ع): جس شخص کی عقل اس کے قابو میں ہے وہ حکیم ہے۔

۲۸۷۔ امام صادق ؑ: انسان کا پشت پناہ عقل ہے اور زیرکی، فہم، حفظ اور علم کا سرچشمہ عقل ہے ، عقل کے ذریعہ انسان کمال تک پہنچتا ہے ، عقل انسان کا رہنما ہے ، اسے بصیرت و بینائی عطا کرنے والی اور اس کے کاموں کی کنجی ہے ، اگر انسان کی عقل کی تائیدنور سے ہو تو وہ عالم ، حافظ،ذاکر، زیرک اور صاحب فہم ہے اس کے ذریعہ ''کس طرح ، کیوں اور کہاں'' کے جواب سے بھی واقف ہو جائیگا، نیز اپنے خیر خواہ اور دھوکا دینے والے کو پہچان لیگا۔ اگر وہ انہیں جان لیگا تو ان کے موقع و محل سے بھی واقف ہو جائیگا اور خدا کی وحدانیت کو خالص کر لیگااور اسکی طاعت کا اقرار کریگا، اگر ایسا ہو جائے تو چھوٹ جانے والی چیزوں کو پالیگااور آئندہ کے لئے محتاط رہیگا، اور وہ اپنے متعلق سمجھ لیگا کہ اس دنیا میں اسکی زندگی گذارنے کا مقصد کیا ہے اور کہاں سے آیا ہے اور کہاں پلٹ کر جائیگا، یہ تمام عقل کی تائید و حمایت سے ہےں۔

۲۸۸۔ امام صادق ؑ: نے عقل و جہل کے سپاہیوں کی توصیف کرتے ہوئے فرمایا: حکمت اور اسکی ضد خواہشات نفسانی ہے۔

۶۷

ب۔ معرفت خدا

۲۸۹۔رسول خدا(ص): اللہ تعالیٰ نے عقل کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے ،جس شخص میں یہ حصے ہیںاسکی عقل کامل ہے اور جس میں یہ نہیں ہیںوہ عقل سے بے بہرہ ہے : خدا کی بہترین معرفت،اسکی بہترین طاعت اور امرپروردگارپر اچھی طرح صابررہنا۔

۲۹۰۔ تحف العقول۔ اہل نجران سے ایک نصرانی مدینہ آیا، وہ سخنور، با وقار اور با ھیبت تھا، پوچھا گیا: کہ اے رسول خدا ؐ! کس چیز نے اس نصرانی کو عقلمند بنایا ہے ؟!رسول خدا ؐنے قائل کو ڈانٹا اور فرمایا: خاموش ہو جاؤ! عقلمند وہ شخص ہے جو خدا کی وحدانیت کا قائل اور اس کا مطیع ہو۔

۲۹۱۔امام علی -: مخلوقات کے ذریعہ خدا پر استدلال کیا جاتا ہے ، اور عقل کے وسیلہ سے خدا کی معرفت مستحکم ہوتی ہے اور فکر کے ذریعہ اسکی حجتیں ثابت ہوتی ہیں۔

۲۹۲۔ امام علی -: ساری تعریف اللہ کے لئے ہے...وہ خدا جو پوشیدہ امور سے نہاں ہے اور عقلوں میں آشکار ان چیزوں کے سبب ہے جنہیں اپنی مخلوق میں تدبیر کی نشانیاں قرار دیاہے وہ خدا کہ جس کے بارے میں جب انبیاء سے پوچھا گیا تو وہ اسکی توصیف نہ حد کے ذریعہ کر سکے اور نہ ہی جزء کے ذریعہ ، بلکہ اسکی توصیف اس کے افعال کے ذریعہ کی ، اور اسکی طرف اسکی آیات کے ذریعہ راہنمائی کی ۔ غور و خوض کرنے والوں کی عقلیں خدا کا انکار نہیں کر سکتی ہیں۔ کیوں کہ جو آسمان و زمین کا خالق اور ان کے درمیان تمام چیزوںکا صانع ہے ، اسکی قدرت کا انکار ممکن نہیں ہے ۔

۶۸

۲۹۳۔ امام صادق -: ہر کام کا آغاز اور اسکی ابتدا اور استحکام و آباد کاری ، کہ جس سے ہر منفعت کا تعلق ہے ، عقل ہے ؛ کہ جس کو اللہ نے اپنی مخلوق کے لئے زینت اورنور قرار دیا ہے ، عقل کے ذریعہ بندوں نے اپنے خالق کو پہچانا اور خود کو مخلوق جانا، اور اس کو اپنا مدبر اور خود کو اسکی تدبیر کے ما تحت سمجھا اور اس کے باقی اور خود کے فانی ہونے کا علم ہوا جو کچھ اسکی مخلوق (آسمان و زمین ، سورج و چاند اور شب و روز) میں دیکھتے ہیںاپنی عقلوں کے ذریعہ اس پر دلیل قائم کرتے ہیں کہ ان چیزوںکااور خودہماراایک خالق وکار ساز ہے جو ہمیشہ سے تھا اور ہمیشہ رہیگا، اور عقل کے وسیلہ سے حسن کو قبیح سے جدا کرتے ہیں اور اس سے بھی واقف ہوتے ہیں کہ جہالت میںتاریکی ہے اور علم میںنور ہے یہ ہیں وہ چیزیں جن کی طرف عقل رہنمائی کرتی ہے ۔

پوچھا گیا: کیا بندے صرف عقل پر اکتفا کریں؟! فرمایا: عقلمند اپنی عقل کے ذریعہ (جسے اللہ نے اس کے لئے ستون ، زینت اور ہدایت قرار دیا ہے) جانتا ہے کہ خداہی حق ہے ، وہ اس کا پروردگار ہے ، اوریہ بھی جان لیتاہے کہ اس کے خالق کی کچھ پسند اور کچھ نا پسند ہے کچھ طاعت اور کچھ معصیت ہے ، فقط عقل ہی کے ذریعہ ان چیزوں کو نہیں حاصل کر سکتا، وہ جانتا ہے کہ ان چیزوں تک رسائی علم اور تحصیل علم کے بغیر ممکن نہیں ہے ، وہ اپنی عقل سے بہرہ مند نہ ہوتا اگر وہ اپنے علم کے ذریعہ ان چیزوں تک نہ پہنچتا، پس عاقل پر اس علم و ادب کا سیکھنا واجب ہے کہ جس کے بغیر اسکی کوئی حیثیت نہ ہو۔

۲۹۴۔ امام کاظم (ع): نے ہشام سے اپنی وصیت میں فرمایا: اے ہشام: بدن کا نور آنکھوں میں ہے ۔ اگرآنکھیںروشن ہیں تو بدن بھی نورانی ہوگا۔ اور روح کی روشنی عقل ہے لہذا اگر بندہ عقلمند ہو تو اپنے پروردگار سے آگاہ ہوگا اور جو اپنے پروردگار سے آگاہ ہوگا وہ اپنے دین میں صاحب بصیرت ہوگا۔ اور اگر بندہ اپنے پروردگار سے نا آشنا ہو تو اس کا دین پائیدار نہیں ہوگا۔ اور جس طرح زندہ روح کے بغیر جسم قائم نہیں رہ سکتا اسی طرح سچی نیت کے بغیر دین بھی قائم نہیں رہ سکتا اور عقل کے بغیر سچی نیت ثابت نہیںرہ سکتی۔

۲۹۵۔ امام رضا(ع): عقل کے ذریعہ خدا کی تصدیق کی جاتی ہے ۔

۶۹

ج۔دین

۲۹۶۔ رسول خدا(ص): جس کے پاس عقل نہیں اس کے پاس دین نہیں ہے ۔

۲۹۷۔ امام علی (ع): جبریل ؑ حضرت آدم ؑ پر نازل ہوئے اور فرمایا: اے آدم! مجھے حکم دیا گیاکہ تمہیں تین چیزوں میں سے ایک کا اختیار دوں لہذا ، ایک لے لو اور دو چھوڑ دو، حضرت آدم نے کہا: اے جبریل ! وہ تین (چیزیں) کیا ہیں؟! کہا: عقل ، حیا اور دین ، پس حضرت آدم نے کہا: میں نے عقل کوانتخاب کیا، اس وقت جبریل نے حیا اور دین کی طرف رخ کرکے کہا: تم دونوں جاؤ اور عقل کا ساتھ چھوڑ دو، تو ان دونوں نے کہا: اے جبریل! ہم مامور ہیں کہ ہمیشہ عقل کے ساتھ رہیں ، جبریل نے کہا: تم خود جانو اور اوپر پرواز کر گئے۔

۲۹۸۔ امام علی (ع): مومن ایمان نہیں لاتا یہاں تک کہ عقلمند ہو جائے۔

۲۹۹۔ امام علی (ع): دین اور ادب عقل کا نتیجہ ہیں۔

۳۰۰۔ امام صادق(ع): جو شخص عقلمند ہے وہی دیندار ہے اور جو دیندار ہے وہ داخل بہشت ہوگا۔

۳۰۱۔ ارشاد القلوب: توریت موسیؑ میں ہے ، کوئی عقل دینداری کے مانند نہیں۔

د۔ کمال دین

۳۰۲۔ رسول خدا(ص): انسان کا دین ہر گز کامل نہیں ہو سکتا جب تک کہ اسکی عقل کامل نہ ہو۔

۳۰۳۔ رسول خدا(ص): کسی شخص کا اسلام تمہیں خوش نہ کرے جب تک کہ تم اسکی عقلمندی نہ دیکھ لو۔

۳۰۴۔ رسول خدا(ص): کسی شخص کا اسلام تمہیں فریفتہ نہ کرے مگر یہ کہ تم اسکی عقل کی گہرائی کو جان لو۔

۷۰

۳۰۵۔ امام علی (ع): جس میں یہ تین خصلتیں ، عقل ، حلم اور علم ، ہوں اس کا ایمان کامل ہے ۔

۳۰۶۔ امام علی (ع): دین، عقل کے مطابق ہوتا ہے اور قوت یقین ، دین کے مطابق ہے ۔

۳۰۷۔ امام کاظم (ع): جس طرح جسم، زندہ روح کے بغیر قائم نہیں رہتا اسی طرح دین بھی سچی نیت کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا اور سچی نیت کا دار و مدار عقل پر ہے ۔

ھ۔ مکارم اخلاق

۳۰۸۔ رسول خدا(ص): نے اس شخص کے جواب میں''کہ جس نے پوچھا عقل کیاہے؟ اور اسکی کیفیت کیا ہے؟ عقل سے کون سی چیزیں پیدا ہوتی ہیں اورکون سی چیزیں پیدا نہیںہوتیں اور اقسام عقل کیا ہیں؟'' فرمایا: عقل، جہالت کی نکیل ہے، روح شریر ترین چوپائے کے مانند ہے کہ اگر اسے مہار نہ کیا جائے تو سر گرداںرہتا ہے، پس عقل ، جہالت کی مہار ہے ، اللہ نے عقل کو خلق کیا اور اس سے کہا: آگے آؤ وہ آگے آگئی، پھر کہا: پیچھے ہٹو ، پیچھے ہٹ گئی ، تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: میری عزت و جلال کی قسم ، میں نے تجھ سے زیادہ عظیم اور اطاعت گذار مخلوق نہیں پیدا کی، میں تیرے ہی سبب آغاز کرتا ہوں اور تیرے ہی ذریعہ پلٹاؤنگا، تیرے ہی سبب جزا و سزادوںگا ، پس حلم کا سر چشمہ عقل، علم کامنبع حلم، رشد کا مرکزعلم، پاکدامنی کا سرچشمہ رشد، تحفظ کا منبع پاکدامنی ، حیا کا سرچشمہ تحفظ، متانت کا مرکزحیا، نیکیوں پر دوام کامنبع متانت، برائیوں سے پرہیز کا سرچشمہ نیکیوں پر دوام اور ناصح کی اطاعت کا سرچشمہ برائیوں سے پرہیز ہے ۔

۳۰۹۔رسول خدا(ص): لوگوں کے ساتھ مہربانی نصف عقل ہے ۔

۳۱۰۔ رسول خدا(ص): حسن ادب ، عقل کے صحیح ہونے کی دلیل ہے ۔

۳۱۱۔ امام علی (ع): بیوقوفوں کی ہمنشینی سے اخلاق تباہ ہو جاتے ہیں اور عاقلوںکی ہمنشینی سے اخلاق سنور جاتے ہیں۔

۳۱۲۔ امام علی (ع): انسان میں ادب ایسا درخت ہے جس کی جڑ عقل ہے ۔

۳۱۳۔ امام علی (ع): ادب، عقل کی دلیل اور علم، دل کی دلیل ہے ۔

۳۱۴۔ امام علی (ع): بہترین عقل، ادب ہے ۔

۷۱

۳۱۵۔ امام علی (ع): عقلمندی کی حد عاقبت اندیشی اور قضائے الہی پر راضی رہناہے ۔

۳۱۶۔ امام علی (ع): دور اندیش انسان اپنی عقل کی بنا پر ہر پستی سے باز رہتا ہے ۔

۳۱۷۔ امام علی (ع): اچھی فکر والا ذلیل نہیں ہوگا۔

۳۱۸۔ امام علی (ع): نفس کے کمال کا انحصار عقل پر ہے۔

۳۱۹۔ امام علی (ع): پسندیدہ اخلاق، عقل کا ثمرہ ہے ۔

۳۲۰۔ امام علی (ع): عقل کے مانند کوئی چیز فضیلتوں کو نہیں سنوارتی۔

۳۲۱۔ امام علی (ع): خوف خدا رکھنے والاعقلمند ہے ۔

۳۲۲۔ امام علی (ع): عقل درخت کے مانند ہے کہ جس کا میوہ سخاوت اور حیا ہے....

۳۲۳۔ امام علی (ع): عقل ایسا درخت ہے کہ جس کی جڑ تقویٰ ِ شاخیں حیا اور پھل ورع ہے تقویٰ تین خصلتوں ، فہم دین ، دنیا سے بے رغبتی اور خدا سے لو لگانے کی دعوت دیتا ہے ، اور حیا، تین خصلتوں ، یقین ، حسن خلق اور تواضع کی دعوت دیتی ہے اور ورع، تین خصلتوں ، صداقت ، نیکیوںکی طرف بڑھنے اور ترک شبہات کی دعوت دیتا ہے۔

۳۲۴۔ امام علی (ع): عقل کا نتیجہ عبرت و پشتپناہی اور جہل کانتیجہ غفلت و خود پسندی ہے۔

۳۲۵۔ امام علی (ع): انسان کی عقل کی شناخت اسکی پاکدامنی اور قناعت کی آراستگی سے ہوتی ہے ۔

۳۲۶۔ امام علی (ع): تمہارے لئے سخاوت ضروری ہے؛ اس لئے کہ یہ عقل کا ثمر ہے ۔

۳۲۷۔امام علی (ع): عقلمند کے لئے یہی کافی ہے کہ اپنے خواہشات کو کم رکھے۔

۳۲۸۔ امام علی (ع): عقلمندی کی علامت حسن سلوک ہے ۔

۳۲۹۔ امام علی (ع): عقلمندی کی علامت لوگوں سے نیک برتاؤ ہے۔

۳۳۰۔ امام علی (ع): کوئی عقلمندی تجاہل کے مثل نہیں۔

۷۲

۳۳۱۔ امام علی (ع): عقلمندی ہر جگہ انس و الفت کے ساتھ ہوتی ہے ۔

۳۳۲۔ امام علی (ع): بردباری عقلمندی کی دلیل اور فضیلت کی علامت ہے ۔

۳۳۳۔ امام علی (ع): عقلمند پہچانا نہیں جاتا مگر یہ کہ بردباری ، تقاضوں کی کمی اور نیکیوں کے ذریعہ۔

۳۳۴۔ امام علی (ع): ہر چیز کی زکات ہوتی ہے اور عقلمندی کی زکات جاہلوں کو برداشت کرنا ہے ۔

۳۳۵۔ امام علی (ع): انسان کی جوانمردی اسکی عقل کے مطابق ہوتی ہے ۔

۳۳۶۔ امام علی (ع):علم کے ذریعہ نفس کا جہادعقل کی نشانی ہے ۔

۳۳۷۔ امام علی (ع): عقلمندی، گناہوں سے دوری ،عاقبت اندیشی اور احتیاط ہے ۔

۳۳۸۔ امام علی (ع): عقل، ہوشیاری کا سبب ہے ۔

۳۳۹۔ امام علی (ع):...مومن کی عقلمندی کی نشانی خود کے ساتھ انصاف ، اپنی مخالفت کے وقت غیظ و غضب کا ترک کرنا اور جب حق اس کے لئے روشن ہو جائے تو اس کا قبول کرنا ہے ۔

۳۴۰۔ امام علی (ع): بردباری ایسا نور ہے کہ جس کی اساس عقلمندی ہے ۔

۳۴۱۔ امام علی (ع): عقلمندی سے بردباری میں اضافہ ہوتا ہے ۔

۳۴۲۔ امام علی (ع): عقل کی فراوانی سے بردباری میں اضافہ ہوتا ہے۔

۳۴۳۔ امام علی (ع): عقلمندی یہ ہے کہ میانہ روی اختیار کرو اور اسراف نہ کرو ،وعدہ کرو تو اسکی خلاف ورزی نہ کرو اور جب غصہ آجائے تو بردباری کا مظاہرہ کرو۔

۳۴۴۔ امام علی (ع): سکون عقلمندی کی نشانی ہے۔

۳۴۵۔ امام علی (ع):عقلمندی کا نتیجہ حق کاپابند ہونا ہے ۔

۷۳

۳۴۶۔ امام علی (ع): عقلمندی کا نتیجہ صداقت ہے ۔

۳۴۷۔ امام علی (ع): عقلمندی کا نتیجہ دنیا سے بیزاری اور خواہشات کی پامالی ہے ۔

۳۴۸۔ امام علی (ع): عقلمندی کا نتیجہ پائداری ہے۔

۳۴۹۔ امام علی (ع): جو عقلمند ہوگا فیاض ہوجائےگا۔

۳۵۰۔ امام علی (ع): عقلمندی کی جڑ پاکدامنی ہے اور اس کا نتیجہ گناہوں سے بچناہے ۔

۳۵۱۔ امام علی (ع):جو عقلمند ہوگا سمجھے گااور جو عقلمند ہوگا پاکدامن ہو جائیگا۔

۳۵۲۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے ۔ کسی کی گفتگو سے خوش نہ ہو جب تک کہ اس کے کردار سے راضی نہ ہو جاؤ، اور اس کے کردار کو اس وقت تک پسند نہ کروجب تک کہ اسکی عقلمندی سے راضی نہ ہو جاؤ اور اسکی عقلمندی سے اس وقت تک راضی نہ ہو جب تک کہ اسکی حیا سے راضی نہ ہو جاؤ، کیوں کہ انسان بزرگی و پستی سے مرکب ہے لہذا جب اسکی حیا قوی ہوگی تو اسکی عظمت بھی مستحکم ہو جائیگی اور اگر حیا کم ہوگی تو اسکی پستی مستحکم ہو جائیگی۔

۳۵۳۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے ، عقل اور مکارم اخلاق کا معیار، آبرو مندی ، واجبات کی جزا، انجام مستحبات، عہد و پیمان کی پابندی اور وعدوں کی وفا ہے ۔

۳۵۴۔ اما م حسن (ع): جس شخص کے پاس عقل نہیں اس کے پاس ادب نہیں۔

۷۴

۳۵۵۔ امام حسن (ع): جب آپ ؑ سے عقل کے متعلق پوچھا گیا، تو فرمایا غم و غصہ کو گھونٹ گھونٹ کر کے پینا ہے ، یہاں تک کہ موقع ہاتھ آجا ئے۔

۳۵۶۔ اما م حسین (ع): جب آپؑ سے عقل کے بارے میں پوچھا گیا، تو فرمایا: غم و غصہ کو گھونٹ گھونٹ کر کے پی جانا اور دشمنوں کے ساتھ مہربانی کرنا ہے ۔

۳۵۷۔ امام صادق(ع): لوگوں کے ساتھ نیک برتاؤسے پیش آنا ایک تہائی عقلمند ی ہے ۔

۳۵۸۔ امام صادق(ع): عقلمند ، عقلمند نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس میں یہ تین چیزیں کامل نہ ہوجائیں: خوشی و ناراضگی دونوں حالتوں میں حق اداکرنا، جو چیز اپنے لئے پسند کرتا ہے وہی لوگوں کے لئے بھی پسند کرنا اور دوسروں کی لغزش کے وقت بردباری کا مظاہرہ کرنا۔

۳۵۹۔ امام صادق(ع): بندوں کے درمیان پانچ سے کم خصلتیں تقسیم نہیںہوئی ہیں:یقین، قناعت، صبر، شکر اور عقل جو ان تمام کو کامل کرنے والی ہے ۔

و۔ نیک اعمال

قرآن

(کیا وہ شخص جو یہ جانتا ہے کہ جو کچھ آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل ہوا سب بر حق ہے وہ اس کے جیسا ہو سکتا ہے جو بالکل اندھا ہے( ہرگز نہیں) اس بات کو صرف صاحبان عقل ہی سمجھ سکتے ہیں)

( جو عہد خدا کو پورا کرتے ہیں اور عہد شکنی نہیں کرتے ہیں)

( اور جو ان تعلقات کو قائم رکھتے ہیں جنہیں خدا نے قائم رکھنے کا حکم دیا اور اپنے پروردگار سے ڈرتے رہتے ہیں اور بدترین حساب سے خوفزدہ رہتے ہیں)

۷۵

حدیث

۳۶۰۔ رسول خدا(ص): طاعت پروردگار کے سلسلہ میں فرشتوں نے عقل کے ذریعہ جد و جہد اور کوشش کی ، اور مؤمنین نے اپنی عقل کے مطابق طاعت خدا میںسعی و کوشش کی ، پس وہ لوگ جو بیشتر عقل کے مالک ہیں وہ بیشتر خدا کی پیروی کرتے ہیں۔

۳۶۱۔ رسول خدا(ص): جب آپ سے عقل کے متعلق سوال کیا گیا، تو فرمایا: حکم خدا کی تعمیل کرنا ہے ، اور بیشک حکم خدا کی تعمیل کرنے والے عقلاء ہی ہیں۔

۳۶۲۔ جابر بن عبد اللہ : نبی نے اس آیت (اور مثالیں ہم عالم انسانیت کے لئے بیان کر رہے ہیں لیکن انہیں صاحب علم کے علاوہ کوئی نہیں سمجھ سکتاہے)کی تلاوت کی اور فرمایا: عالم و ہ شخص ہے جو خدا کے بارے میں آگاہی رکھتا ہے اور اسکی پیروی کرتا اور اس کے غضب سے پرہیز کرتا ہے ۔

۳۶۳۔ سوید بن غفلہ: کا بیان ہے ایک روز ابو بکر نکلے ، رسول خدا نے ان کا خیر مقدم کیاتو ابو بکر نے پوچھا، اے رسول خدا! آپ کس چیز کی بدولت مبعوث ہوئے؟ فرمایا: عقل کے سبب ، ابو بکر نے عرض کیا: عقل تک ہماری رسائی کیسے ہو سکتی ہے؟ رسول خدا نے فرمایا: عقل کی کوئی حد نہیں جو حلال خدا کو حلال اور حرام خدا کو حرام سمجھے اسے عقلمند کہا جاتا ہے ۔ لہذا جو اس کے علاوہ سعی و کوشش کر یگا وہ عابد کہا جائیگا اور اگر اس سے زیادہ کوشش کریگا تو سخی کہا جائیگا اور جو عبادت میں جد و جہد اور نیکیوں کی مشکلات کو برداشت کرتا ہے لیکن ایسی عقل کا حامل نہیں ہے جو اسے حکم خدا کی پیروی اور اسکی نواہی سے پرہیز کی طرف ہدایت کرے، یہی لوگ اپنے کام کے اعتبار سے خسارہ میں ہیں اور ان کی سعی و کوشش زندگانی دنیا میں تباہ و برباد ہوگئی در حالانکہ وہ اپنے گمان کے مطابق نیک کام انجام دے رہے ہیں۔

۷۶

۳۶۴۔ امام علی (ع): عقلیں افکار کی پیشوا اور افکار دلوںکے پیشوا ہیں ، قلوب حواس کے پیشوا اور حواس اعضا کے پیشوا ہیں۔

۳۶۵۔ امام علی (ع): اطاعت ، عقل کے مطابق ہوتی ہے ۔

۳۶۶۔ امام علی (ع): جس کی عقل کامل ہوتی ہے اسکاکام نیک ہو تا ہے ۔

۳۶۷۔ امام علی (ع): جو شخص اپنی عقل کو خواہشات پر مقدم رکھتا ہے اسکی سعی مشکور ہوتی ہے ۔

۳۶۸۔ امام علی (ع): عقلمندی کی نشانیوں میں سے عادلانہ رویہ اختیار کرنا ہے ۔

۳۶۹۔ امام علی (ع): عنصر عقل( انسان ) کو عدالت سے کام لینے پر ابھارتا ہے ۔

۳۷۰۔ امام علی (ع): عقلمندی یہ ہیکہ جو جانتے ہو وہی کہو اور جو کہتے ہو اس پر عمل کرو۔

۳۷۱۔ امام علی (ع):جو شخص اپنی زبان کوصحیح رکھتا ہے اسکی عقل سنورجاتی ہے ۔

۳۷۲۔ امام علی (ع): معذرت، عقلمندی کی نشانی ہے ۔

۳۷۳۔ امام علی (ع): عقلمندی کا نتیجہ نیکو کاروںکی ہمنشینی ہے ۔

۳۷۴۔ امام صادق(ع): عقلمندی کی بہترین سرشت، عبادت ہے ، اس کے لئے محکم ترین سخن علم ہے ؛ اسکی عظیم ترین بہرہ مندی حکمت اور اس کا عظیم ترین ذخیرہ نیکیاںہیں۔

۷۷

ز۔ ہر شی کو اسکی جگہ پر رکھنا

۳۷۵۔ امام علی (ع): عاقل وہ ہے جو ہر شی کو اسکی جگہ پر رکھتا ہے اور جاہل اس کے بر خلاف ہوتا ہے ۔

۳۷۶۔امام علی (ع):آپ سے گذارش کی گئی کہ عاقل کی توصیف فرمائیں ۔ تو فرمایاکہ عاقل وہ ہے جو ہر شی کو اسکی جگہ پر رکھتا ہے! عرض کیاگیا، پھر جاہل کی تعریف کیا ہے ۔ فرمایایہ تو میں بیان کر چکا ۔

۳۷۷۔ امام علی (ع): عقلمند وہ ہے جو اپنے کام کو بحسن وخوبی انجام دیتا ہے اورموقع و محل کے اعتبار سے کوشش کرتا ہے۔

۳۷۸۔ امام علی (ع): عاقل کے لئے مناسب نہیںکہ حدود سے تجاوز کرے ، بلکہ ہر چیز کو اسکی جگہ پر قرار دے۔

فائدہ

جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں آثار عقل میں سے ہر چیز کو اسکی جگہ پر قرار دیناہے اور دوسری جانب ، یہی معنیٰ عدل کی تعریف میں گذر چکے ہےں ۔ لہذا ان دونوں احادیث کے موازنہ سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ آثار عقل میں سے عدل کی رعایت بھی ہے اور عاقل ، عدل کے مطابق عمل کرتا ہے۔ اور اس نتیجہ کی بعض احادیث میں وضاحت کی گئی ہے ۔

ح۔ بہتر کا انتخاب

۳۷۹۔ امام علی (ع): عقل تمہیں زیادہ نفع بخش کا حکم دیتی ہے اور جوانمردی زیادہ حسن و جمال کا۔

۳۸۰۔ امام علی (ع): جو شخص خیر کو شر سے جدا نہیں کر سکتاوہ چوپایوں کے مثل ہے ۔

۳۸۱۔ امام علی (ع): عاقل وہ نہیں ہے کہ جو خوبی کو بدی سے پہچانے، بلکہ عاقل وہ ہے جو دوبرائیوں کے درمیان زیادہ مناسب کی تشخیص کرے۔

۷۸

ط۔ عمر کو غنیمت سمجھنا

۳۸۲۔ امام علی (ع): عقلمند وہ ہے جو غیر مفید کاموں میں خود کو ضائع نہیں کرتا اور وہ چیز جو اس کے ساتھ ہمیشہ رہنے والی نہیں ہے اسے ذخیرہ نہیں کرتا۔

۳۸۳۔ امام علی (ع): اگر عقل سالم ہو تو ہر انسان اپنی فرصت کو غنیمت سمجھتا ہے ۔

ی۔ صحیح بات

۳۸۴۔ امام علی (ع): عقل کی نشانیوں میں سے صحیح بات کہنا ہے ۔

۳۸۵۔ امام علی (ع): اچھی گفتگو فراوانی عقل کی نشانی ہے ۔

۳۸۶۔ امام علی (ع): انسان کی عقل کا اندازہ اسکی اچھی گفتگو سے اور اس کے نسب کی پاکیزگی کا اندازہ اس کے بہترین افعال سے ہوتا ہے ۔

۳۸۷۔ امام صادق(ع): انسان تین طرح کے ہوتے ہیں ، عاقل ، احمق اور فاجر، عاقل وہ ہے جب اس سے کلام کیا جاتا ہے تو وہ جواب دیتا ہے ، جب وہ خود بولتا ہے تو سچ بولتا ہے اور جب سنتا ہے توسمجھتا ہے ، اور احمق وہ ہے جب کلام کرتا ہے تو جلد بازی کرتا ہے جب گفتگو کرتا ہے تو حیران ہوتا ہے اور جب برائیوں کی طرف ابھارا جاتا ہے تو اسے کر بیٹھتا ہے اور فاجر وہ ہے اگر اسے امانتدار سمجھوگے تو وہ خیانت کریگا اور اگر اس سے گفتگو کروگے تو تمہیں متھم کر دیگا۔

۷۹

ک۔ تجربات کا تحفظ

۳۸۸۔امام علی (ع): عقلمندی ، تجربات کا تحفظ ہے اور بہترین تجربہ وہی ہے جس سے تمہیں نصیحت حاصل ہو۔

۳۸۹۔امام علی (ع): تجربات کا تحفظ عقلمندی کا سرمایہ ہے ۔

۳۹۰۔ امام حسن (ع): جب آپ سے آپ کے پدر بزرگوار نے عقل کے متعلق دریافت کیا۔ تو فرمایا: (عقلمندی) یہ ہے کہ جو کچھ دل کے سپرد کیا ہے وہ اسے محفوظ رکھے!

۳۹۱۔ امام علی (ع): عاقل وہ شخص ہے جو اپنے تجربات سے نصیحت حاصل کرے۔

ل۔ حسن تدبیر

۳۹۲۔ رسول خدا(ص): نے حضرت علی (ع) کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا۔ کوئی عقل تدبیر کی مانند نہیں۔

۳۹۳۔ امام علی (ع): عقل کی فراوانی کی بہترین دلیل حسن تدبیر ہے ۔

۳۹۴۔ امام علی (ع): عقلمندی کی نشانی بیہودگی سے اجتناب اور حسن تدبیر ہے ۔

م۔صحیح گمان

۳۹۵۔ امام علی (ع): عاقل کا گمان پیشینگوئی ہے ۔

۳۹۶۔ امام علی (ع): صحیح گمان صاحبان عقل کی روش ہے ۔

۳۹۷۔ امام علی (ع): عقلمند کا گمان ، جاہل کے یقین سے زیادہ درست ہوتا ہے۔

۳۹۸۔ امام علی (ع): صاحبان عقل و خرد کا گمان ، حقیقت سے زیادہ قریب ہوتا ہے ۔

۳۹۹۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے ۔عقل ، صحیح گمان اور ماضی کی بنیاد پر مستقبل کی معرفت ہے ۔

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258