عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں

عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں30%

عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 258

عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 258 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 138878 / ڈاؤنلوڈ: 5393
سائز سائز سائز
عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں

عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

ن ۔دنیا سے بے رغبتی

۴۰۰۔ امام علی (ع): عقل کی حد ناپائدار و فانی سے گریز اور پائدار و باقی سے لگاؤ ہے ۔

۴۰۱۔ امام علی (ع): عقل کی فضیلت دنیا سے بے رغبتی ہے ۔

۴۰۲۔ امام علی (ع): نفس کو دنیا کے زرق و برق سے جدا رکھنا عقل کا نتیجہ ہے ۔

۴۰۳۔ امام علی (ع): جو عقلمند ہوتا ہے قناعت کرتاہے ۔

۴۰۴۔ امام علی (ع): عاقل وہ ہے جو پست و ناپائدار دنیا سے دل نہیں لگاتا اور خوبصورت و جاوداں اور بلند مرتبہ جنت سے رغبت رکھتا ہو۔

س۔ فضول باتوں کا ترک کرنا

۴۰۵۔ امام کاظم (ع):عاقلوںنے دنیا کی بیہودہ باتوں کو ترک کر دیا، چہ جائیکہ گناہ، ترک دنیا مستحب ہے اور ترک گناہ واجب ۔

۴۰۶۔ اما م علی (ع): جب عقلیں کم ہوجاتی ہیں تو فضول باتیں زیادہ ہو جاتی ہےں۔

۴۰۷۔ امام علی (ع): جو خود کو فضول باتوں سے باز رکھتا ہے ، عقلیں اسکی رائے کو درست بنا دیتی ہیں۔

۴۰۸۔ امام علی (ع): عاقل وہی ہے جو باطل کو ٹھکرادے۔

۸۱

ع۔آخرت کا زاد راہ

۴۰۹۔ رسول خدا(ص): نے جمعہ کے کسی خطبہ میں۔ فرمایا: آگاہ ہو جاؤ! عقل کی علامتوں میں سے دار غرور (دنیا ) سے بے رغبتی اور دائمی ٹھکانہ کی طرف میلان پیدا کرنا ہے اور قبر وںکے لئے توشہ فراہم کرنا اور روز قیامت کے لئے آمادہ ہونا ہے ۔

۳۴۱۔ امام علی (ع): عقل کی نشانی روز قیامت کے لئے توشہ مہیا کرنا ہے ۔

۴۱۱۔ امام علی (ع): جو اپنی دائمی قیامگاہ کو آباد کرتاہے وہ عقلمند ہے ۔

۴۱۲۔ امام علی (ع): عقلمند وہ ہے جس نے اپنی شہوت کو بالائے طاق رکھ دیاہے اور دنیا کو آخرت کے عوض بیچ دیا۔

۴۱۳۔ امام علی (ع): عقلمند نہیں ہے ، مگر یہ کہ خدا کی معرفت رکھتا ہو اور دار آخرت کے لئے عمل کرتا ہو۔

۴۱۴۔ امام علی (ع): عاقل وہی ہے جو اپنی خواہشات پر غالب ہو اور اپنی آخرت کو دنیا کے بدلے فروخت نہ کیا ہو۔

۴۱۵۔ امام علی (ع): جو عقلمند ہے وہ خواب غفلت سے بیدار ہو کر سفر کے لئے آمادہ ہو جاتا ہے اور اپنی قیامگاہ کو آباد کرتا ہے ۔

۴۱۶۔ امام کاظم (ع): عاقل دنیا سے کنارہ کش اور آخرت کی طرف مائل ہوتے ہیں چونکہ وہ جانتے ہیں کہ دنیا طالب و مطلوب ہے، اور آخرت بھی چاہتی ہے اور چاہی جاتی ہے ، لہذا جو آخرت کا طلبگار ہو جائیگا دنیا خود اس کے پیچھے آئیگی یہاں تک کہ اس کے رزق کو پورا کریگی، لیکن جو دنیا کا طلبگار ہے اس سے آخرت اپنے حق کا مطالبہ کریگی، یہاں تک کہ اسے موت آجائیگی اور اسکی دنیا و آخرت کوتباہ کر دیگی۔

۴۱۷۔ امام کاظم (ع): عقلمند نے دنیا اور دنیا کی چیزوںپر نظر ڈالی تو اسے معلوم ہوا کہ دنیا بغیر مشقت کے حاصل نہیں ہوتی ہے اور آخرت پر نظر ڈالی تو پتہ چلا کہ آخرت بھی بغیر مشقت کے حاصل نہیں ہو سکتی ہے ۔ لہذا اس نے ان دونوں میں سے مشقت سے اس کو حاصل کیا جو باقی رہنے والی ہے ۔

۸۲

۴۱۸۔ سوید بن غفلہ: کا بیان ہیکہ امیر المومنین ؑ کے منصب خلافت پر فائز ہونے کے بعد میں آپکی خدمت میں حاضرہوا، آپ ایک چھوٹی سی چٹائی پر تشریف فرماتھے کہ جس کے علاوہ آپ کے گھر میں کچھ بھی نہ تھا۔ میں نے عرض کیا: اے امیر المومنین ؑ! بیت المال آپ کے اختیار میں ہے لیکن میں آپ کے گھر میں گھر کے اسباب نہیں دیکھ رہا ہوں! فرمایا: اے ابن غفلہ ! عقلمند چھوٹ جانے والے مکان کے لئے اثاثہ جمع نہیں کرتا ، ہمارے لئے پر امن گھر ہے ہم نے اپنا بہترین سرمایہ وہاں منتقل کر دیا ہے ۔ اور عنقریب ہم بھی ادھر ہی سفر کرنے والے ہیں۔

ف۔نجات

۴۱۹۔ رسول خدا(ص): خدا نے کسی کو عقل ودیعت نہیں کی مگر یہ کہ اس کے ذریعہ اسے ایک دن نجات دیگا۔

۴۲۰۔ تاریخ کبیر: قرہ بن ہبیرہ رسول خدا کی خدمت میں آیا اور کہا: ہمارے کچھ ارباب تھے خدا کے بجائے جنکی عبادت کی کی جاتی تھی ، خدا نے آپ کو مبعوث کیا، تو اس کے بعد ہم نے انہیں لاکھ پکارا مگرانہوں نے کوئی جواب نہ دیا اور ہم نے ان سے طلب کیا لیکن کچھ عطا نہ کیا، اور ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے خدا نے ہماری ہدایت کی، رسول خدا(ص) نے فرمایا: یقینا وہ کامیاب ہو گیا جسکوعقل عطا ہوئی ہے ۔ قرہ نے کہا: اے رسول خدا! مجھے دو لباس پہنا دیجئے جنہیں آپ پہن چکے ہیں، آپ ؐ نے ایسا ہی کیا، پس جب وہ موقف عرفات میں تھا تو رسول خدا(ص) نے اس سے فرمایا: تو اپنی بات کی تکرار کر، اس نے تکرار کی ، اس وقت رسول خدا نے فرمایا: کامیاب ہے وہ شخص جس کوعقل سے نوازاگیا ہے۔

۸۳

۴۲۱۔ امام علی (ع): عقل ہدایت اورنجات دیتی ہے اور جہالت ،گمراہ اور پست کرتی ہے۔

۴۲۲۔ امام علی (ع): فراوانی عقل ، نجات عطا کرتی ہے ۔

۴۲۳۔ امام علی (ع): عقلمندی کا تقاضانجات کے لئے عمل کرنا ہے ۔

۴۲۴۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے ۔ اگر زمام عقل کو آزاد چھوڑ دیا جائے اور خواہشات نفس،دینی رسم یا عصبیت ماسلف کی شکار نہ ہوتواپنے حامل کو نجات سے ہمکنار کریگی۔

۴۲۵۔ امام علی (ع): عقلمند کی رائے نجات دیتی ہے ۔

۴۲۶۔ امام علی (ع): عقل کی جڑ فکر و نظر ہے اور اس کا پھل سلامتی ہے ۔

ص۔ جنت پر اختتام

۴۲۷۔ رسول خدا(ص): نے علی (ع) سے اپنی وصیت میں ۔ فرمایا: عقل وہ ہے جس سے جنت کا اکتساب اور خوشنودی پروردگار حاصل ہو۔

۴۲۸۔ رسول خدا(ص): بہت سے عقلمند ایسے ہیں جو امر خدا کی معرفت رکھتے ہیں ، اگر چہ لوگوں کی نظروں میں حقیر اور کریہہ المنظرہوں لیکن آئندہ نجات یافتہ ہیں ، اور بہت سے خوش بیان اور حسین صورت ہیںلیکن روز قیامت ہلاک ہونے والے ہیں۔

۴۲۹۔ انس: سوال کیا گیا، اے رسول خدا!کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی شخص حسن عقل کا مالک ہو اور کثرت سے گناہ بھی کرتا ہو؟ رسول خدا(ص) نے فرمایا: کوئی شخص ایسا نہیںہے جو گناہوں اور خطاؤں کا مرتکب نہ ہو، پس ہر وہ شخص جس کی فطرت عقلمندی اور طبیعت یقین ہوتو گناہ اسے ضرر نہیں پہنچا سکتے، کہا گیا: اے رسول خدا(ص)! یہ کیسے ممکن ہے؟ فرمایا: چوں کہ (عقلمند) جب خطا کا مرتکب ہوتا ہے تو توبہ و پشیمانی کے ذریعہ اسکی تلافی کرتا ہے ۔لہذا اس کے سارے گناہ محو ہو جاتے ہیں فقط نیکیاں باقی رہ جاتی ہیں جس کی بدولت وہ وارد بہتشت ہوگا۔

۸۴

۴۳۰۔ امام علی (ع):کچھ گروہ بہشت بریں کی طرف (دوسروں پر) سبقت لے جائینگے کہ جو دوسروں کی نسبت نہ زیادہ نماز و روزہ کے پابند اور نہ ہی حج و عمرہ بجالائے ہوں گے لیکن انہوںنے مواعظ الٰہی کو سمجھ لیا تھا۔

۴۳۱۔ امام صادق(ع): جو عقلمند ہوگا انشاء اللہ اس کا خاتمہ جنت پر ہوگا۔

۴۳۲۔ محمد بن عبد الجبار: نے امام جعفر صادق(ع) کے شاگردوں میں سے کسی ایک سے نقل کیا ہے کہ میں نے آپکی خدمت میں عرض کیا: عقل کیاہے؟ فرمایا: جس سے خدا کی عبادت کیجائے اور جنت حاصل کیجائے، میںنے کہا: وہ چیز جو معاویہ میں تھی؟ فرمایا: وہ چالاکی اور شیطنت ہے، جو عقل کی شبیہ ہوتی ہے لیکن عقل نہیں ہے۔

ق۔ ہر کام میں بھلائی

۴۳۳۔ امام علی (ع): عقل کے ذریعہ ہر کام کی بھلائی ہے ۔

۴۳۴۔ امام علی (ع): عقل ہر کام کی اصلاح کرتی ہے ۔

ر۔ دنیا و آخرت کی بھلائی

۴۳۵۔ امام علی (ع): عقل نیکیوں کا سرچشمہ ہے ۔

۴۳۶۔ امام علی (ع): عقل کے سبب نیکیاںحاصل ہوتی ہیں۔

۴۳۷۔ امام علی (ع): ہر دلیری کو عقل کی ضرورت ہے ۔

۴۳۸۔ امام علی (ع): عقل نفع بخش ہے ،علم سر فرازی ہے اور صبر دفاع کرنے والا ہے ۔

۸۵

۴۳۹۔ امام علی (ع): عقلمندی سے کام لو تاکہ( منزل مقصود ) تک پہنچ جاؤ۔

۴۴۰۔ امام حسن (ع): عقل کے ذریعہ دنیا و آخرت حاصل ہوتی ہے اور جو عقل سے محروم ہوگا وہ آخرت سے بھی محروم ہوگا۔

۴۴۱۔ امام زین العاب دین (ع): عقل نیکیوںکی رہبر ہے ۔

۴۴۲۔ عبد اللہ بن عجلان سکونی: کا بیان ہے میں کہ نے امام محمد باقر(ع) کی خدمت میں عرض کیا: جب میں چاہتا ہوں کہ مال کو صلہ رحم کے عنوان سے اپنے دوستوں کو عطا کروں، تو انہیں کس طرح عطا کروں؟ فرمایا: دین کی راہ میں ہجرت اور عقل وفہم کی بنیاد پر انہیں عطا کرو۔

۴۴۳۔ اما م صادق(ع): کام کا آغاز اور اسکی ابتدا اور اس کا استحکام و آبادکاری عقل کے باعث ہے وہ عقل کہ جسے خدا نے بندوںکی زینت اور ان کے لئے نورانیت کا سبب قرار دیا ہے ۔

۴۴۴۔ امام کاظم (ع): اے ہشام! وہ شخص جو مال کے بغیربے نیازی ، حسد سے دل کی حفاظت اور دین میں سلامتی چاہتا ہے اسے چاہئے کہ بارگاہ احدیت میں گڑ گڑائے اور اس سے عقل کے کامل ہونے کی دعا کرے، اس لئے کہ جو عقلمند ہو جاتا ہے جو کچھ اس کے پاس ہے اس پر قناعت کرتا ہے اور جوقناعت کرتا ہے وہ بے نیاز ہے ۔

۸۶

۵/۳

وہ اشیاء جن سے عقل آزمائی جاتی ہے

الف: عمل

۴۴۵۔ امام علی (ع): عمل کی کیفیت سے عقل کی مقدار کا اندازہ ہوتا ہے ، لہذا اس کے لئے بہترین عمل کا انتخاب کرو اور اسے قوی و محکم بناؤ۔

۴۴۶۔ امام علی (ع): اچھی گفتگو اور اچھے عمل کے مالک بنو چونکہ انسان کی گفتگو اسکی فضیلت کی نشانی ہے اور اس کا عمل اسکی عقلمندی کی دلیل ہے ۔

۴۴۷۔ امام علی (ع): جو شخص اپنے کاموں کو بحسن وخوبی انجام دیتا ہے اپنی فراوانی عقل کا پتہ دیتاہے ۔

۴۴۸۔ امام علی (ع): عاقل وہ ہے جس کے افعال اس کے اقوال کی تصدیق کریں۔

ب: کلام

۴۴۹۔ امام علی (ع): انسان کا کلام اسکی عقل کی کسوٹی ہے ۔

۴۵۰۔ امام علی (ع): فی البدیہ گفتگو کے وقت انسان کی عقل کی آزمائی جاتی ہے ۔

۴۵۱۔ امام علی (ع): انسان جو کچھ اپنی زبان پر جاری کرتا ہے اس سے اسکی عقل کا اندازہ ہوتا ہے ۔

۴۵۲۔ امام علی (ع): ہر شخص کی زبان اسکی عقلمندی کا پتہ دیتی ہے اور اس کا بیان اسکی فضیلت پر دلالت کرتا ہے ۔

۴۵۳۔ امام علی (ع): زبان ایسی میزان ہے جسے عقل سنگین اور نادانی سبک بناتی ہے ۔

۸۷

۴۵۴۔ امام علی (ع): ایسے کلام سے اجتناب کرو کہ جس کی روش سے ناواقف اور حقیقت سے ناآشنا ہو۔ کیوں کہ تمہاری گفتگو تمہاری عقل کی نشانی اور تمہاری باتیں تمہاری میزان معرفت کا پتہ دیتی ہےں۔

۴۵۵۔ امام علی (ع): انسان جو کچھ اپنی زبان پر جاری کرتا ہے اس کے ذریعہ اسکی عقل پر دلیل قائم کی جاتی ہے ۔

۴۵۶۔ امام علی (ع): انسان کی گفتگو اسکی عقل کی نشانی ہے اور انسان کے نسب کی دلیل اس کا عمل ہے ۔

۴۵۷۔ امام علی (ع): جو شخص اپنی زبان پر قابو نہیں رکھتاوہ اپنی کم عقلی کو آشکار کرتا ہے ۔

۴۵۸۔ رسول خدا(ص): خدا نے جناب موسیٰ پر وحی کی : کہ بہت زیادہ باتیںکرکے بکواس کرنے والے نہ بنو، کیونکہ زیادہ باتیں علماء کے لئے باعث بدنامی ہیں اور کم عقلوں کی برائیوں کو آشکار کرتی ہیں ، لہذا میانہ روی سے کام لو؛ چونکہ میانہ روی کا سرچشمہ توفیق و درستی ہے ۔

ج: خاموشی

۴۵۹۔ امام علی (ع): خاموشی ،شرافت و نجابت کی نشانی اور عقل کا ثمرہ ہے ۔

۴۶۰۔ امام علی (ع): جو عقلمند ہو جاتا ہے وہ خاموش رہتا ہے ۔

۴۶۱۔ امام علی (ع): جو شخص خود کو فضول باتوں سے باز رکھتا ہے با عظمت افراد اسکی عقلمندی کی گواہی دیتے ہیں۔

۴۶۲۔ امام علی (ع): انسان کی عقلمندی کی علامت یہ ہے کہ ہر وہ چیز جسے جانتا ہے زبان پر جاری نہ کرے۔

۴۶۳۔ امام علی (ع): عاقل وہ ہے جو اپنی زبان کوصرف ذکر خدامیں مصروف رکھتا ہے۔

۴۶۴۔امام علی (ع): عقلمند زبان نہیںکھولتا مگر یہ کہ ضرورت کے وقت یا دلیل و برہان کےلئے۔

۸۸

د: رائے

۴۶۵۔ امام علی (ع): انسان کی رائے اسکی عقل کی میزان ہے ۔

۴۶۶۔ امام علی (ع): انسان کا گمان اسکی عقل کی میزان اور اس کا عمل اسکی اصل کا بہترین گواہ ہے ۔

۴۶۷۔ امام علی (ع): انسان کا گمان اسکی عقل کے مطابق ہوتا ہے ۔

۴۶۸۔ امام علی (ع): یقینا عقلمند اپنی عقل کے سبب رشد و ہدایت پر ہے اور اپنی رائے و نظر کے باعث ترقی پر ہے ، لہذااسکی رائے درست اور عمل قابل تعریف ہے ۔

ھ: قاصد

۴۶۹۔ امام علی (ع): تمہارا قاصد تمہاری عقل کا ترجمان ہوتا ہے اور تمہارا خط تمہارا بہترین ترجمان ہوتا ہے ۔

۴۷۰۔ امام علی (ع): تمہارا قاصد تمہاری عقل کا ترجمان اور تمہارا تحمل تمہاری بردباری کی دلیل ہے۔

۴۷۱۔ امام علی (ع): قاصد کی عقل اور اس کے ادب سے بھیجنے والے کی عقل پر دلیل قائم کی جاتی ہے ۔

و: لکھنا

۴۷۲۔ امام علی (ع): انسان کا خط اسکی عقلمندی کی نشانی اور اسکی فضیلت کی دلیل ہے ۔

۴۷۳۔ امام علی (ع):جب تم خط لکھو، اس پر مہر لگانے سے پہلے اسکی نظر ثانی کرلو: کیوں کہ اپنی عقل پر مہر لگا رہے ہو۔

۴۷۴۔ امام صادق(ع): انسان کے خط سے اسکی عقل و بصیرت پر برہان قائم کی جاتی ہے اور اس کے قاصد سے اسکی فہم و زیرگی کا اندازہ ہوتا ہے ۔

۸۹

ز: تصدیق اور انکار

۴۷۵۔ امام صادق(ع): اگر کسی بزم میں کسی شخص کی عقل کو آزمانا چاہتے ہو تو اپنی گفتگو کے دوران کسی محال چیز کا تذکرہ کرو اگر وہ اس سے انکار کرے تو وہ عاقل اور اگر تصدیق کرے تو احمق ہے۔

ح: دوست

۴۷۶۔ امام علی (ع): انسان کا دوست اسکی عقل کی دلیل ہے اور اس کا کلام اسکی فضیلت کی نشانی ہے ۔

۵/۴

عقل کا معیار

۴۷۷۔ رسول خدا(ص): سات چیزیں صاحبان عقل کی عقلمندی پر دلالت کرتی ہین: مال سے مالدار کی عقل کااندازہ ہوتا ہے، حاجت حاجتمند کی عقل پر دلالت کرتی ہے ؛ مصیبت مصیبت زدہ کی عقل پر دلالت کرتی ہے ، غضب غضبناک ہونے والے کی عقل پر دلالت کرتا ہے ، خط صاحب خط کی عقل پر دلالت کرتا ہے ، قاصد بھیجنے والے کی عقل پر دلالت کرتا ہے ۔ہدیہ ہدیہ دینے والے کی عقل پر دلالت کرتا ہے ۔

۴۷۸۔ رسول خدا(ص): انسان کی عقل کو تین چیزوں سے آزماؤ! اسکی داڑھی کی لمبائی ، اسکی کنیت اور اسکی انگوٹھی کے نگینہ کے نقش سے۔

۴۷۹۔ امام علی (ع): چھ چیزوں کے ذریعہ مردوں کی عقل آزمائی جاتی ہے، ہمنشینی، معاملات،منصب و مقام سے کنارہ کشی، غنیٰ اور فقر۔

۹۰

۴۸۰۔ امام علی (ع): چھہ چیزوں سے لوگوںکی عقلوں کو آزمایا جاتا ہے، غضب کے وقت بردباری ، خوف کے موقع پر صبر، خواہشات میںاعتدال، تمام حالات میں تقوائے الٰہی، لوگوں کےساتھ نیک برتاؤاور کم جنگ و جدال ۔

۴۸۱۔ امام علی (ع): تین چیزوں سے مردوں کی عقلیں آزمائی جاتی ہیں، مال، منصب اور مصیبت ۔

۴۸۲۔ امام علی (ع): انسان تین جگہوں پر بدل جاتا ہے ، بادشاہوں کی قربت ، منصب اور فقر سے نجات کے بعد، جو شخص ان تین حالات میں تبدیل نہ ہو وہ عقل سلیم اور بہترین اخلاق کا مالک ہے ۔

۴۸۳۔ امام علی (ع): تین چیزیں ارباب عقل پر دلالت کرتی ہیں، قاصد، خط اور ہدیہ۔

۴۸۴۔ امام علی (ع): عقلمند کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس میں تین خصلتیں موجود ہوں: جب اس سے سوال کیا جائے تو وہ جواب دے، جب لوگ کلام کرنے سے عاجز ہو جائیں تو وہ زبان کھولے ، اور ایسی رائے کا اظہار کرتا ہے کہ جس میں اس کے اہل کے لئے بھلائی ہوتی ہے ، پس جس شخص میں ان تین خصلتوں میں سے کوئی بھی نہ ہو وہ احمق ہے۔

۴۸۵۔ امام علی (ع): بے پناہ وقار اور نہایت صبر و تحمل کے ذریعہ انسان کی عقلمندی اور اچھے کردار سے اس کے نسب کی شرافت پر استدلال ہوتا ہے ۔

۴۸۶۔ امام علی (ع): لالچ اور آرزئیں جب فریب دیتی ہیں تو جاہلوںکی عقلیں دھوکا کھا جاتی ہیں اور مردوں کی عقلیں آزمائی جاتی ہیں۔

۴۸۷۔ امام علی (ع): عقل کی سنجیدگی خوشی و غم کے وقت جانچی جاتی ہے۔

۴۸۸۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے: عقل معاملات کے ذریعہ آشکار ہوتی ہے اور مردوںکی خصلت کا اندازہ ان کے منصب سے ہوتا ہے ۔

۹۱

۵/۵

عاقلوںکے صفات

۴۸۹۔ رسول خدا(ص): عاقل کی صفت یہ ہے کہ وہ نادانوںکی حماقت کو برداشت کرتا ہے ، جو اس پر ظلم کرتا ہے تو اس سے در گذر کرتاہے ، اپنے ما تحت لوگوں کے سا تھ تواضع سے پیش آتا ہے ، نیکیوں کے حصول میں اپنے سے بلند لوگوں پر سبقت لے جاتا ہے، جب کلام کرنا چاہتا ہے تو پہلے فکر کرتا ہے ۔ اگر کوئی خوبی ہوتی ہے تو زبان کھولتا ہے اور اس سے فائدہ حاصل کرتا ہے اور اگر بدی ہوتی ہے تو خاموشی اختیار کرتا ہے ۔اور محفوظ رہتاہے ، جب اس کے سامنے کوئی فتنہ آتا ہے تو ایسے موقع پر اللہ سے سلامتی چاہتا ہے اور اپنے ہاتھ اور زبان کوروکے رکھتا ہے ،اگر کوئی فضیلت دیکھتا ہے تو اسے حاصل کرنے کے لئے تیزی سے بڑھتا ہے ، شرم و حیا کو خود سے جدا نہیں کرتا اور حرص اس سے ظاہر نہیں ہوتی ان دس صفات کے ذریعہ عقلمند پہچانا جاتا ہے ۔

۴۹۰۔ رسول خدا(ص): نے(ان چیزوںکے متعلق کہ جن کا سر چشمہ عقل ہے) فرمایا: لیکن سنجیدگی ومتانت جن چیزوں کا سرچشمہ ہے ، وہ مہربانی ، دور اندیشی ، ادائے امانت ، ترک خیانت، صداقت، پاکدامنی ، ثروت، دشمن کے مقابلہ میں آمادگی ، برائیوں سے باز رہنا اور بیوقوفی کو ترک کرنا ہے یہ وہ صفات ہیں جو سنجیدگی و متانت کے سبب عقلمند کو نصیب ہوتی ہیں، پس خوش نصیب ہے وہ شخص کہ جو صاحب و قار ہے اور لا ابالی اور نادان نہیں ہے اور جس کا شعار عفو و بخشش اور نظر انداز کرنا ہے ۔

۴۹۱۔ رسول خدا(ص): عقلمند وہی ہے جو خدا کے امر و نہی کوسمجھ لیتا ہے۔

۴۹۲۔ رسول خدا(ص): عاقل تنہائی میں اپنی عقل کے سبب خوش ہوتا ہے اور نادان ، خودہی سے وحشت کرتا ہے؛ اس لئے کہ ہر شخص کا دوست اسکی عقل اور اس کا دشمن اسکی نادانی ہے ۔

۹۲

۴۹۳۔ رسول خدا(ص): عاقل، ہمیشہ خوبیوںکو کشف کرتا ہے اگر چہ لوگوں کے درمیان رسوا کن عیب ہو۔

۴۹۴۔ رسول خدا(ص): عقلمند نہایت خوفزدہ ہوتا ہے اور اسکی امیدیں اور آرزوئیں کم ہوتی ہےں۔

۴۹۵۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے ۔ عاقل جب کلام کرتا ہے تو اس کا کلام حکمت آمیز اور ضرب المثل کے ساتھ ہوتا ہے اور احمق جب کلام کرتا ہے تو قسم کے ساتھ ہوتا ہے ۔

۴۹۶۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے، عاقل صالحین سے رشک کرتا ہے تاکہ ان سے ملحق ہو جائے اور انہیں دوست رکھتا ہے تاکہ انکی دوستی کے سبب انکا شریک ہو جائے اگر چہ عمل میں انکے مانند نہ ہو۔

۴۹۷۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے، عاقل ، بیوقوفوں کی عیش و آرام کی زندگی کی نسبت عقلمندوں کی سخت زندگی سے زیادہ مانوس ہوتا ہے۔

۴۹۸۔ امام علی (ع): عقلمند وہ ہے جو دوسروں میں عبرت ڈھونڈتا ہے ۔

۴۹۹۔ امام علی (ع): عقلمند ، کمال کی جستجو میں ہوتا ہے اور جاہل ، مال کی تلاش میں ۔

۵۰۰۔ امام علی (ع): عقلمندوہ ہے جو علم ہوتے ہی ٹھہر جاتا ہے ۔

۵۰۱۔ امام علی (ع): عاقل وہ ہے جب علم ہوتا ہے تو عمل کرتا ہے، جب عمل کرتا ہے توخلوص کےساتھ اور جب خلوص اختیار کرتاہے تو کنارہ کش ہو جاتا ہے ۔

۵۰۲۔امام علی (ع): عقلمند وہ ہے جو اپنی رائے پر شک کرے اور اسکا نفس جو کچھ اس کےلئے مزین کرتا ہے اس پر اعتماد نہ کرے۔

۹۳

۵۰۳۔ امام علی (ع): عاقل وہ ہے جو ناراضگی اور رغبت و خوف کے وقت اپنے نفس پر قابو رکھتا ہے ۔

۵۰۴۔ امام علی (ع): عاقل وہ ہے جو اپنی زبان کو غیبت سے محفوظ رکھتا ہے ۔

۵۰۵۔ امام علی (ع): عاقل جب خاموش ہوتا ہے تو سوچتا ہے، جب زبان کھولتا ہے تو ذکر خد اکرتا ہے اور جب دیکھتاہے تو عبرت حاصل کرتا ہے ۔

۵۰۶۔ امام علی (ع): عقلمند اپنی لذت کا دشمن اور جاہل اپنی شہوت کا غلام ہوتا ہے ۔

۵۰۷۔ امام علی (ع): عقلمند وہ ہے جو اپنی شہوت کو کچل دیتا ہے۔

۵۰۸۔ امام علی (ع): عقلمند خواہشات نفسانی کے اسباب پر غالب ہوتا ہے ۔

۵۰۹۔ امام علی (ع): عاقل وہ ہے جو عقل کے ذریعہ اپنی خواشات نفسانی کا گلا گھونٹ دیتا ہے ۔

۵۱۰۔ امام علی (ع): عاقل اپنے عمل پر اعتماد کرتا ہے اور جاہل اپنی آرزوپر۔

۵۱۱۔ امام علی (ع): عاقل ، عاقل سے الفت پیدا کرتا ہے اور جاہل ، جاہل سے۔

۵۱۲۔ امام علی (ع): عقلمند وہ ہے کہ جن چیزوں سے جاہل رغبت رکھتا ہے وہ ان سے بیزار رہتا ہے۔

۵۱۳۔ امام علی (ع): سختی عقلمند کو افراط پرنہیں ابھارتی اور ناتوانی اسے کام سے نہیں روکتی۔

۵۱۴۔ امام علی (ع): عاقل وہ ہے جو اپنے کام کو محکم رکھتا ہے۔

۵۱۵۔ امام علی (ع): عاقل اپنے کام میں سعی و کوشش کرتا ہے اور اپنی آرزؤوں کا دامن کوتاہ رکھتا ہے ۔

۵۱۶۔امام علی (ع): عاقل پر جو چیزیں و اجب ہیں ان کے متعلق اپنے نفس سے باز پرس کرتا ہے اور جو چیزیں اس کے لئے منفعت بخش ہیں ان کے متعلق خود کو زحمت میں نہیں ڈالتا۔

۹۴

۵۱۷۔ امام علی (ع): عاقل وہ ہے جو مغفرت کے ذریعہ گناہوںکی پر دہ پوشی کرتا ہے ۔

۵۱۸۔ امام علی (ع): عاقل وہ ہے جو قضائے (الہی) کے سامنے سراپا تسلیم ہوتا ہے اور دور اندیشی سے کام لیتا ہے۔

۵۱۹۔ امام علی (ع): عاقل وہ ہے جو سخاوت کرتاہے ۔

۵۲۰۔ امام علی (ع): عقلمند خود کو ناچیز شمار کرتا ہے لہذا بلند ہو جاتا ہے ۔

۵۲۱۔ امام علی (ع): عقلمند تہذیب و ادب کے ذریعہ نصیحت حاصل کرتا ہے اور چو پائے مارکے ذریعہ ۔

۵۲۲۔ امام علی (ع): یقینا عقلمند وہ ہے کہ جس کی نظر مستقبل پر ہوتی ہے ۔ اور اپنی نجات کے لئے کوشش کرتا ہے اور جس چیز سے چھٹکارا نہیں ہے اس کو انجام دیتا ہے ۔

۵۲۳۔ امام علی (ع): عقلمند لالچ کافریفتہ نہیں ہوتا۔

۵۲۴۔ امام علی (ع): ہر عقلمند محزون ہوتا ہے ۔

۵۲۵۔ امام علی (ع): عقلمند مہموم و مغموم ہوتا ہے ۔

۵۲۶۔ امام علی (ع): ہر عاقل مغموم ہوتا ہے ۔

۵۲۷۔ امام علی (ع): عاقل کے لئے ہرکام میں نیکی ہے اور جاہل ہمیشہ نقصان میں ہے ۔

۵۲۸۔ امام علی (ع): ہوا و ہوس کا ترک کرناعاقلوںکی عادت ہے ۔

۵۲۹۔ امام علی (ع): عقلمندوںکی پہچان یہ ہے کہ ان میں شہوت و غفلت کم ہوتی ہے۔

۵۳۰۔ امام علی (ع): عاقل کا سرمایہ اس کے علم و عمل میں ہے اور جاہل کا سرمایہ اس کے مال و آرزو میں ہے ۔

۵۳۱۔ امام علی (ع): حکمت ، عاقل کی گمشدہ ہے ، لہذا حکمت جہاں بھی وہ عاقل کا حق ہے۔

۵۳۲۔ امام علی (ع): عاقل کوحکمت سے شغف ہوتاہے اور جاہل کوحماقت سے۔

۹۵

۵۳۳۔ امام علی (ع): عاقل اپنی حکمت کے باعث بے نیاز اور اپنی قناعت کے سبب معزز ہوتا ہے۔

۵۳۴۔ امام علی (ع): عاقل اپنے علم کے باعث بے نیاز ہوتا ہے۔

۵۳۵۔ امام علی (ع): عاقل کا سینہ اس کے اسرار کا صندوق ہے ۔

۵۳۶۔ امام علی (ع): عاقل کی زبان اس کے قلب کے پیچھے ہوتی ہے اور احمق کا قلب اسکی زبان کے پیچھے ہوتا ہے۔

۵۳۷۔ امام علی (ع): احمق کا قلب اس کے دہن میں ہوتا ہے اور عاقل کی زبان اس کے قلب میں ۔

۵۳۸۔ امام علی (ع): عاقل کا کلام غذا ہے اور جاہل کا جواب خاموشی ہے ۔

۵۳۹۔ امام علی (ع): جاہل کی ناراضگی اس کے کلام سے اور عاقل کی ناراضگی اس کے عمل سے آشکار ہوتی ہے۔

۵۴۰۔ امام علی (ع): عاقل اس وقت تم سے قطع تعلق ہوتا ہے جب تمہارے اندر حیلہ گری پیدا ہو جاتی ہے۔

۵۴۱۔ امام علی (ع): عاقل کی جوانمردی اس کا دین ہے اور اس کا حسب اس کا ادب ہے ۔

۵۴۲۔ امام علی (ع): عاقل کی سلطنت اسکی خوبیوں کو نشر کرتی ہے ۔

۵۴۳۔ امام علی (ع): عاقل کے علاوہ بیوقوفوں سے کوئی در گذرنہیں کرتا۔

۵۴۴۔ امام علی (ع): عاقل کا نصف تحمل اور دوسرا نصف تغافل ہے۔

۵۴۵۔ امام علی (ع): جو کچھ تمہارے اورپر گذرے اسے برداشت کرو کیوں کہ برداشت کرنے سے عیوب چھپے رہتے ہیں اور بیشک عاقل کا نصف تحمل اور دوسرا نصف تغافل ہے۔

۵۴۶۔ امام علی (ع): عاقل کے سوا کوئی خود کو حقیر نہیں سمجھتا ، صاحب کمال کے علاوہ کوئی خود کو ناقص نہیں شمار کرتا اور جاہل کے سوا اپنی رائے سے کوئی خوش نہیں ہوتا۔

۹۶

۵۴۷۔ امام علی (ع): نادان کو سرزنش نہ کرو کہ وہ تمہارا دشمن ہو جائیگا اور عقلمند کو سرزنش کرو کہ وہ تم سے محبت کریگا۔

۵۴۸۔ امام علی (ع): اپنے عقلمند دشمن پر نادان دوست سے زیادہ اعتماد کرو۔

۵۴۹۔ امام علی (ع): عقلمند کی دشمنی ، نادان کی دوستی سے بہتر ہے ۔

۵۵۰۔ امام علی (ع): مہربان عاقل سب سے زیادہ لوگوںکی حاجت کو محسوس کرتا ہے ۔

۵۵۱۔ امام علی (ع): تم پر صبر لازم ہے چونکہ عاقل اسے اختیارکرتا ہے اورجاہل گریز کرتا ہے ۔

۵۵۲۔ امام علی (ع): عاقل کی دردناک سرزنش اسکی لغزشوں کی طرف اشارہ کرنا ہے ۔

۵۵۳۔ امام علی (ع): اگر تم نے عاقل سے کنایہ میںکوئی بات کہی تو گویا دردناک صورت میں اسکی سرزنش کی ۔

۵۵۴۔ امام علی (ع): عاقلوں کی سزا، کنایہ ہے ۔

۵۵۵۔ امام علی (ع): عاقل سے تعریض کی صورت میں کوئی بات کہنا، اسکی بدترین سر زنش ہے ۔

۵۵۶۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے۔ عاقل کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ وہ ایسی باتیں زبان پر نہیں لاتا کہ جن کی وجہ سے اس کو جھٹلایا جا سکے۔

۵۵۷۔ امام علی (ع):عاقل دنیا میں گرانبار ہے اور احمق سبکدوش ہے۔

۵۵۸۔ امام علی (ع): مرد تین طرح کے ہوتے ہیں: عاقل، احمق اور فاجر، عاقل کا مذہب دینداری ہے اسکی سرشت بردباری اور فکر و رائے اسکی فطرت ہے، جب اس سے سوال کیا جاتا ہے تو جواب دیتا ہے جب کلام کرتا ہے تو درست ہوتاہے اور جب سنتا ہے تو اسے قبول کرتا ہے، جب گفتگو کرتا ہے تو سچ بولتا ہے اور جب کوئی اس پر اعتماد کرتا ہے تو وفا کرتا ہے ۔احمق، جب کسی اچھے کام سے آگاہ ہوتا ہے تو غفلت برتتا ہے، جب اسے کسی اچھے مقام سے نیچے لایاجاتا ہے تو وہ نیچے آجاتا ہے، جب اسے نادانی کی طرف ابھارا جاتا ہے تو وہ نادانی پر اتر آتا ہے، جب گفتگو کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے اور جب اسے سمجھایا جاتا ہے تو وہ آگاہ نہیں ہوتا وہ کچھ نہیں سمجھتا ہے۔ فاجر ،کو جب امانتداربناؤ گے تو وہ تم سے خیانت کریگا ، اگر اسکی ہمنشینی اختیار کروگے تو وہ تمہیں رسو اکریگا اور اگر اس پر اعتماد کروگے تو وہ تمہارا خیر خواہ نہیں ہوگا۔

۹۷

۵۵۹۔ امام حسن (ع): عقلمند سے جو نصیحت چاہتا ہے وہ اسے دھوکا نہیں دیتا۔

۵۶۰۔ امام حسن (ع): میں تمہیں خبر دیتا ہوں ایسے بھائی کے بارے میں جو میری نظر میں لوگوں میں سب سے افضل تھااور وہ چیز کہ جس کے سبب میری نظر میں افضل تھا وہ دنیا کا اسکی نظر میں ہیچ ہونا ہے......وہ جہالت کے تسلط سے خارج تھا اور اپنے ہاتھ اطمینان بخش منفعت ہی کے لئے بڑھاتا تھا۔

۵۶۱۔ اما م حسین (ع): جب عاقل پر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ دور اندیشی کے سبب اندوہ کو دور کرتاہے اور عقل کو چارہ سازی کی طرف ابھارتا ہے ۔

۵۶۲۔ امام صادق(ع): عقلمند بخشنے والا اور جاہل فریبکار ہے ۔

۵۶۳۔ امام صادق(ع): صاحب فہم و عقل ، درد مند، محزون اور شب زندہ دار ہوتا ہے ۔

۵۶۴۔ اما م صادق(ع): عقلمند ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا۔

۵۶۵۔امام صادق(ع): مصباح الشریعہ میں آپ سے منسوب کلام میں ہے ، عقلمند حق کو قبول کرنے میںمنکسر، قول میں منصف اور باطل کے مقابل سرکش ہوتاہے اور اپنے کلام سے حجت قائم کرتا ہے ، دنیا کو ترک کر دیتا ہے اور اپنے دین سے دستبردار نہیں ہوتا۔

۵۶۶۔ امام صادق(ع): عقلمند کسی کو سبک نہیں شمار کرتا ۔

۵۶۷۔ امام صادق(ع): مصباح الشریعہ میں آپ سے منسوب کلام میں ہے ، عاقل ایسی باتیں نہیں کرتاکہ عقلیں جن کا انکار کریں، تہمت کی جگہوں پر نہیںجاتااور جس شخص کے سبب گرفتار ہے اس کے ساتھ بھی نرمی کو نظر انداز نہیں کرتا۔

۹۸

۵۶۸۔ امام کاظم (ع):نے ہشام بن حکم سے فرمایا: اے ہشام! عاقل، حکمت کے ہوتے ہوئے دنیا کی تھوڑی پونجی پر بھی راضی رہتا ہے لیکن تھوڑی حکمت کے ساتھ دنیا کو قبول نہیں کرتالہذا سکی تجارت نفع بخش ہے ۔

اے ہشام! عقلاء نے دنیا کی فضیلتوں کو ٹھکرادیا ہے چہ جائیکہ گناہوںکو ! حالانکہ ترک دنیا مستحب اور ترک گناہ واجب ہے ....اے ہشام ! عقلمند جھوٹ کی خواہش کے باوجود جھوٹ نہیں بولتا ہے ......۔

اے ہشام! عاقل اس شخص سے کلام نہیں کرتا کہ جس سے اپنی تکذیب کا خوف ہوتا ہے اور اس شخص سے کوئی حاجت طلب نہیںکرتا کہ جس سے یہ ڈر ہوتا ہے کہ منع کر دیگا، جو اسکی قدرت میں نہیں ہے اس کا وعدہ نہیں کرتا، جس چیز کی آرزو کے سبب اسکی سرزنش ہوتی ہے اسکی تمنا نہیں کرتا اور اپنی عجز و ناتوانی کے باعث جس چیز کے چھوٹنے کا ڈر ہوتا ہے اس کا اقدام نہیںکرتا۔

۵۶۹۔ امام کاظم (ع): نے ہشام بن حکم سے، فرمایا: اے ہشام ! ہر چیز کی ایک علامت ہے اور عقلمند کی علامت تفکر ہے ، اور تفکر کی علامت خاموشی ہے، ہر شی کے لئے ایک سواری ہوتی ہے اور عاقل کی سواری تواضع ہے ، تمہاری جہالت کے لئے یہی کافی ہے کہ جس سے تمہیں روکا گیا ہے اس کو انجام دیتے ہو۔

اے ہشام ! اگر تمہارے ہاتھ میں اخروٹ ہو اور لوگ اسے موتی کہیں توتمہیں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا جبکہ تمہیں اخروٹ کا علم ہے ، اور اگر تمہارے ہاتھ میں موتی ہواور لوگ اسے اخروٹ کہیں تواس سے تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچیگا جبکہ تمہیں موتی ہونے کا علم ہے ۔

اے ہشام! خدا نے اپنے انبیاء و مرسلین کو لوگوں کی طرف نہیں بھیجا مگر یہ کہ خدا کی معرفت حاصل کریں، لوگو ں میں خدا کی اچھی معرفت رکھنے والا انبیاء و مرسلین کو سب سے بہتر طریقہ پر قبول کرتا ہے، اور سب سے اچھی عقل رکھنے والا احکام الہی کا سب سے بڑا عالم ہے اور سب سے بڑ ے عقلمند کادنیا و آخرت میں سب سے بلند مرتبہ کا ہوگا۔

۹۹

اے ہشام! ہر بندہ کی پیشانی کو ایک فرشتہ پکڑے ہوئے ہے جو بھی ان میں سے خاکساری کرتا ہے خدا اسے بلند کردیتا ہے اور جو تکبر کرتا ہے خدا اسے پست کر دیتا ہے ۔

اے ہشام! لوگوں پر خدا کی دو حجتیں ہیں! ظاہری حجت اور باطنی حجت ، حجت ظاہری انبیاء و مرسلین اور ائمہ ہیں اورحجت باطنی، عقلیں ہیں۔

اے ہشام ! عاقل وہ ہے کہ جسے حلال کام شکر گذاری سے روگرداں نہیں کرتا اور حرام اس کے صبر پر غالب نہیں ہوتا۔

اے ہشام ! جس نے تین چیزوں کو تین چیزوں پر مسلط کیا گویا اس نے عقل کی نابودی کےلئے خواہشات نفس کی مدد کی جس نے اپنی فکر کی روشنی کو طولانی آرزؤں کے ذریعہ تاریک، اپنی فضول کلامی کے سبب حکمت کی خوبیوںکو محو اور خواہشات نفسانی کے باعث اپنے نور عبرت کو خاموش کر دیا ہے، ایسے شخص نے گویا اپنی عقل کی تباہی کےلئے اپنی ہوا و ہوس کی مدد کی اور جس نے اپنی عقل کو تباہ کر دیاگویا اس نے اپنے دین و دنیا کو برباد کردیا۔

اے ہشام! کس طرح تمہارا عمل خدا کی بارگاہ میں شائستہ قرار پا سکتا ہے حالانکہ تم نے اپنی عقل کو امر پروردگار سے منحرف کر رکھا ہے اور اپنی عقل پر خواہشات کو غالب کرنے میں اسکی پیروی کی ہے ؟!

اے ہشام ! تنہائی پرصبرکرنا، عقل کی توانائی کی علامت ہے ، پس جو بھی خدائے تبارک و تعالیٰ کی معرفت رکھتا ہے وہ دنیا پرست اور اہل دنیا سے کنارہ کش ہوجاتا ہے ، اور خدا کے پاس جو کچھ ہے اسکی طرف مائل ہوتا ہے خدا و حشت میں اس کا مونس، تنہائی میں ساتھی ، تنگدستی میں بے نیازی اور حسب و نسب نہ ہونے کے باوجود اسے عزت دینے والا ہے ۔

اے ہشام! مخلوق، خدا کی اطاعت کےلئے پیدا کی گئی ہے ، اور طاعت کے بغیرنجات نہیں ہے اور طاعت علم کے سبب، علم ، تحصیل کے باعث اور تحصیل کا تعلق عقل سے ہے۔علم، خدا رسیدہ عالم کے بغیر حاصل نہیںہو سکتا اور خدا رسیدہ عالم کے لئے معرفت عقل کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

اے ہشام! عاقل کا کم عمل قابل قبول اور کئی گنا ہے ، لیکن نفس پرست اور جاہل کا کثیر عمل قابل قبول نہیںہے ۔

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

چھٹی شرط

مسئلہ ٨ ۴ ٠ ضروری ہے کہ نماز پڑھنے والے مرد کا لباس خالص ریشم کا نہ ہو۔ احتياط واجب کی بنا پر ٹوپی اور ازار بند کا بھی یهی حکم ہے اور نماز کے علاوہ بھی خالص ریشم کا لباس پهننا مردوں کے لئے حرام ہے ۔

مسئلہ ٨ ۴ ١ اگر لباس کا تمام استریا اس کا کچھ حصّہ خالص ریشم کا ہو تو مرد کے لئے اس کا پهننا حرام اور اس کے ساته نماز پڑھنا باطل ہے ۔

مسئلہ ٨ ۴ ٢ جس لباس کے بارے ميں یہ علم نہ ہو کہ خالص ریشم کا ہے یا کسی اور چيز کا بنا ہوا ہے تو اس کا پهننا جائز ہے اور اس کے ساته نماز پڑھنے ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ٨ ۴ ٣ ریشمی رومال یا اس جيسی کوئی چيز مرد کی جيب ميں ہو تو کوئی حرج نہيں ہے اور وہ نماز کو باطل نہيں کرتی۔

مسئلہ ٨ ۴۴ عورت کے لئے نماز ميں یا اس کے علاوہ ریشمی لباس پهنے ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ٨ ۴۵ مجبوری کی حالت ميں غصبی، خالص ریشمی یا زردوزی کا لباس پهننے ميں کوئی حرج نہيں ۔ نيز جو شخص یہ لباس پهننے پر مجبور ہو اور آخر وقت تک پهننے کے لئے اس کے پاس کوئی دوسرا لباس نہ ہو تو وہ ان کے ساته نماز پڑھ سکتا ہے ۔

مسئلہ ٨ ۴۶ اگر کسی شخص کے پاس غصبی لباس اور مردار کے اجزاء سے بنے ہوئے لباس کے علاوہ کوئی دوسرا لباس، آخر وقت تک نہ ہو اور یہ لباس پهننے پر مجبور بھی نہ ہو تو ضروری ہے کہ برہنہ لوگوںکی طرح مسئلہ ” ٨٠٣ “ ميں بتائے گئے طریقے کے مطابق نماز پڑھے۔

مسئلہ ٨ ۴ ٧ اگر کسی شخص کے پاس حرام گوشت جانور کے اجزاء سے تيار کئے گئے لباس کے علاوہ کوئی دوسرا لباس آخری وقت تک نہ ہو، چنانچہ اگر وہ اس لباس کو پهننے پر مجبور ہو تو اس لباس کے ساته نماز پڑھ سکتا ہے اور اگر اس لباس کو پهننے پر مجبور نہ ہو تو ضروری ہے کہ برہنہ لوگوں کے لئے بتائے گئے احکام کے مطابق نماز پڑھے۔

مسئلہ ٨ ۴ ٨ اگر کسی مرد کے پاس خالص ریشم یا زردوزی کئے ہوئے لباس کے علاوہ کوئی دوسرا لباس آخری وقت تک نہ ہو اور وہ اس لباس کو پهننے پر مجبور نہ ہو تو ضروری ہے کہ برہنہ لوگوں کے لئے بتائے گئے احکام کے مطابق نماز پڑھے۔

مسئلہ ٨ ۴ ٩ اگر کسی کے پاس ایسی کوئی چيز نہ ہو جس سے وہ اپنی شرمگاہ کو نماز ميں ڈهانپ سکے تو واجب ہے کہ اس کا انتظام کرے، چاہے کرائے پر لے یا خریدے، ليکن اگر اس پر اس کی حيثيت سے زیادہ پيسے خرچ ہوتے ہوں یا اتنا خرچہ اس کے حال کے اعتبار سے نقصان دہ ہو تو اسے لينا ضروری نہيں ہے اور وہ برہنہ لوگوں کے لئے بتائے گئے احکام کے مطابق نماز پڑھ سکتا ہے اور یہ بھی کر سکتا ہے کہ نقصان برداشت کرے اور شرمگاہ ڈهانپ کر نماز پڑھے۔

۱۴۱

مسئلہ ٨ ۵ ٠ جس شخص کے پاس لباس نہ ہو، اگر کوئی دوسرا شخص اسے لباس بخش دے یا ادهار دے دے تو اگر اس لباس کا قبول کرنا اس کے لئے حرج کا باعث نہ ہو تو ضروری ہے کہ اسے قبول کرے، بلکہ اگر اُدهار لينے یا بخشش کے طور پر طلب کرنے ميں اس کے لئے کوئی حرج نہ ہو تو ضروری ہے کہ اُدهار مانگے یا بخشش کے طور پر طلب کرے۔

مسئلہ ٨ ۵ ١ ایسے لباس کا پهننا جس کا کپڑا، رنگ یا سلائی اسے پهننے والے کے لئے رائج نہ ہو، تو اگر اسے پهننا اس کی توهين، بدنامی یا لوگوں کی جانب سے انگلياں اٹھ انے کا باعث ہو تو اسے پهننا حرام ہے اور اگر ایسے لباس سے نماز ميں شرمگاہ کو چھپا ئے تو بعيد نہيں کہ اس کا حکم، غصبی لباس کا حکم ہوجس کا تذکرہ مسئلہ” ٨٢١ “ ميں کيا گيا ہے ۔

مسئلہ ٨ ۵ ٢ اگر مرد، زنانہ لباس پهنے یا عورت، مردانہ لباس پهنے اور اسے اپنا لباس قرار دے تو احتياط کی بنا پر اس کا پهننا حرام ہے اور نماز ميں اس لباس کے ساته شرمگاہ ڈهانپنا احتياط کی بنا پر بطلان کا باعث ہے ۔

مسئلہ ٨ ۵ ٣ جس شخص کے لئے ليٹ کر نماز پڑھنا ضروری ہو اگر اس کا لحاف حرام گوشت جانور کے اجزا سے بنا ہو تو اس ميں نماز پڑھنا جائز نہيں ہے ۔ اسی طرح اگر اس کا گدّا حرام گوشت جانور کے اجزاء سے بنا ہو جسے خود سے لپيٹ لے یا نجس ہو یا نمازی کے مرد ہونے کی صورت ميں ریشم یا زردوزی کيا ہوا ہو تو احتياط واجب کی بناپر اس ميں نماز نہ پڑھے۔

جن صورتوںميں نمازی کا بدن اور لباس پاک ہونا ضروری نہيں مسئلہ ٨ ۵۴ تين صورتوں ميں ، جن کی تفصيل بعد ميں بيان کی جائے گی، اگر نمازی کا بدن یا لباس نجس بھی ہو تو اس کی نماز صحيح ہے :

١) اس کے بدن کے زخم، جراحت(گهاؤ) یا پهوڑے کی وجہ سے اس کے لباس یا بدن پر خون لگ جائے۔

٢) اس کے بدن یا لباس پر درہم کی مقدار سے کم خون لگا ہو۔ درہم کی وہ مقدار جس سے کم مقدار نماز ميں معاف ہے ، تقریباً شهادت والی انگلی کی اُوپر والی پور کے برابر ہے ۔

٣) نجس بدن یا لباس کے ساته نماز پڑھنے پر مجبور ہو۔

اس کے علاوہ ایک اور صورت ميں اگر نمازی کا لباس نجس بھی ہو تو اس کی نماز صحيح ہے اور وہ صورت یہ ہے کہ اس کا چھوٹا لباس مثلاً موزہ اور ٹوپی نجس ہو۔

ان چاروں صورتوں کے تفصيلی احکام آئندہ مسائل ميں بيان کئے جائيں گے۔

مسئلہ ٨ ۵۵ اگر نمازی کے بدن یا لباس پر زخم، جراحت(گهاؤ) یا پهوڑے کا خون ہو، چنانچہ اگر بدن اور لباس کا پاک کرنا یا لباس تبدیل کرنا عام طور پر لوگوں کے لئے تکليف کا باعث ہو تو جب تک زخم یا جراحت یا پھوڑا ٹھيک نہ ہو جائے اس خون کے ساته نماز پڑھ سکتا ہے ۔ اسی طرح اگر اس کے بدن یا لباس پر ایسی پيپ ہو جو خون کے ساته نکلی ہو یا ایسی دوائی ہوجو زخم پر لگائی گئی ہو اور نجس ہوگئی ہو، اس کے لئے بھی یهی حکم ہے ۔

۱۴۲

مسئلہ ٨ ۵۶ اگر نمازی کے بدن یا لباس پر ایسی جراحت یا زخم کا خون ہو جو جلدی ٹھيک ہو جاتا ہو اور اسے پاک کرنا عام طور پر لوگوں کے لئے آسان ہو اور ایک درہم کی مقدار سے کم بھی نہ ہو اور اس کے ساته نماز پڑھے تو اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ٨ ۵ ٧ اگر بدن یا لباس کی ایسی جگہ جو زخم سے کچھ فاصلے پر ہو زخم کی رطوبت سے نجس ہو جائے تو اس کے ساته نماز پڑھنا جائز نہيں ہے ، ليکن اگر بدن یا لباس کی وہ جگہ جو عموما زخم کی رطوبت سے آلودہ ہو جاتی ہو اس زخم کی رطوبت سے نجس ہو جائے تو اس کے ساته نماز پڑھنے ميں کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ٨ ۵ ٨ اگر کسی شخص کے بدن یا لباس کو اس بواسير سے جس کے مسّے باہر نہ ہوں یا اس زخم سے جو منہ اور ناک وغيرہ کے اندر ہو خون لگ جائے تو ظاہر یہ ہے کہ وہ اس کے ساته نماز پڑھ سکتا ہے ، البتہ اس بواسير کے خون کے ساته نماز پڑھنا بلااشکال جائز ہے جس کے مسّے مقعد کے باہر ہوں۔

مسئلہ ٨ ۵ ٩ جس شخص کے بدن پر زخم ہو اگر وہ اپنے بدن یا لباس پر ایسا خون دیکھے جو ایک درہم یا اس سے زیادہ ہو اور نہ جانتا ہو کہ یہ خون زخم کا ہے یا کوئی اور خون ہے تو اس خون کے ساته نماز پڑھنا جائز نہيں ہے ۔

مسئلہ ٨ ۶ ٠ اگر کسی شخص کے بدن پر چند زخم ہوں اور وہ ایک دوسرے کے اس قدر نزدیک ہوں کہ ایک زخم شمار ہوں تو جب تک وہ زخم ٹھيک نہ ہو جائيں ان کے خون کے ساته نماز پڑھنے ميں کوئی حرج نہيں ، ليکن اگر وہ ایک دوسرے سے اتنے دور ہوں کہ ان ميں سے ہر زخم عليحدہ زخم شمار ہو تو جو زخم ٹھيک ہو جائے، اگر اس کا خون ایک درہم سے کم نہ ہو تو ضروری ہے کہ نماز کے لئے بدن اور لباس کوپاک کرے۔

مسئلہ ٨ ۶ ١ اگر نمازی کے بدن یا لباس پر سوئی کی نوک کے برابر بھی حيض، کتے، سوّر، کافر غير کتابی، مردار یا حرام گوشت جانور کا خون لگا ہو تو اس کی نماز باطل ہے ۔ احتياط واجب کی بنا پر نفاس اور استحاضہ کے خون کا بھی یهی حکم ہے ، ليکن کوئی دوسرا خون مثلاً ایسے انسان کا خون جو نجس العين نہيں ہے یا حلال گوشت جانور کا خون، اگرچہ بدن یا لباس کے کئی حصّوں پر لگا ہو اور اس کی مجموعی مقدار ایک درہم سے کم ہو تو اس کے ساته نماز پڑھنے ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ٨ ۶ ٢ جو خون بغير استر کے کپڑے پر گرے اور دوسری طرف جاپهنچے وہ ایک خون شمار ہوتا ہے ، ليکن اگر کپڑے کی دوسری طرف الگ خون سے آلودہ ہو جائے تو ضروری ہے کہ ان ميں سے ہر ایک کو عليحدہ خون شمار کيا جائے، پس اگر وہ خون جو کپڑے کے سامنے کے رخ اور پچهلی طرف ہے ، مجموعی طور پر ایک درہم سے کم ہو تو اس کے ساته نماز صحيح ہے اور اگر درہم یا اس سے زیادہ ہو تو اس کے ساته نماز باطل ہے ۔

۱۴۳

مسئلہ ٨ ۶ ٣ اگر استر والے کپڑے پر خون گرے اور اس کے استر تک پهنچ جائے یا استر پر گرے اور کپڑے تک پهنچ جائے تو ضروری ہے کہ ہر خون کو الگ شمار کيا جائے، لہٰذا اگر کپڑے کا خون اور استر کا خون ایک درہم سے کم ہو تو اس کے ساته نماز صحيح ہے اور اگر درہم یا اس سے زیادہ ہو تو اس کے ساته نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ٨ ۶۴ اگر بدن یا لباس پر ایک درہم سے کم خون ہواور کوئی ایسی رطوبت اس سے آلگے جس سے اس کے اطراف آلودہ ہو جائيں تو اس کے ساته نماز باطل ہے ، خواہ خون اور وہ رطوبت ایک درہم کے برابر نہ ہوں، ليکن اگر رطوبت فقط خون سے ملے اور اس کے اطراف کو آلودہ نہ کرے تو اس کے ساته نماز پڑھنے ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ٨ ۶۵ اگر بدن یا لباس پر خون نہ ہو ليکن رطوبت کے ساته خون سے لگنے کی وجہ سے نجس ہو جائيں تو خواہ نجس ہونے والی مقدار ایک درہم سے کم ہو، اس کے ساته نماز نہيں پڑھی جاسکتی۔

مسئلہ ٨ ۶۶ اگر بدن یا لباس پر جو خون ہو اس کی مقدار ایک درہم سے کم ہو اور کوئی دوسری نجاست اس سے آلگے مثلاً پيشاب کا ایک قطرہ اس پر جاگرے اور وہ بدن یا لباس سے لگ جائے تو اس کے ساته نماز پڑھنا جائز نہيں ہے ۔

مسئلہ ٨ ۶ ٧ اگر نمازی کا چھوٹا لباس مثلاً ٹوپی اور موزہ جس سے شرمگاہ کو نہ ڈهانپا جاسکتا ہو نجس ہو جائے اور نمازی کے لباس ميں دوسرے موانع نہ ہوں مثلاً مردار یا نجس العين یا حرام گوشت جانور کے اجزاء سے نہ ہو تو اس کے ساته نماز صحيح ہے ۔ نيز نجس انگوٹھی کے ساته نماز پڑھنے ميں کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ٨ ۶ ٨ نجس چيز مثلاً رومال، چابی اور نجس چاقو کا نمازی کے پاس ہونا جائز ہے ۔

مسئلہ ٨ ۶ ٩ اگر بدن یا لباس پر لگے ہوئے خون کے بارے ميں یہ تو معلوم ہوکہ درہم سے کم ہے ليکن یہ احتمال بھی ہو کہ یہ ایسا خون ہے جونماز ميں معاف نہيں ہے تو اس خون کے ساته نماز پڑھنا جائز ہے اور اسے نماز کے لئے پاک کرنا ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ٨٧٠ اگربدن یا لباس پر لگا ہوا خون درہم سے کم ہو ليکن یہ نہ جانتا ہو کہ یہ خون معاف نہيں ہے اور نماز پڑھ لے اور بعد ميں معلوم ہو کہ یہ خون معاف نہيں تھا تو نماز دهرانا ضروری نہيں هے۔ اسی طرح اگر ایک درہم سے کم سمجھتے ہوئے نمازپڑھ لے اور بعد ميں معلوم ہو کہ درہم کے برابر یا اس سے زیادہ تھا تو اس صورت ميں بھی نماز دهرانا ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ٨٧١ کچھ چيزیں نمازی کے لباس ميں مستحب ہيں ۔ ان ميں سے چند یہ ہيں :

تحت الحنک کے ساته عمامہ، عبا، سفيد اور پاکيزہ ترین لباس پهننا، خوشبو کا استعمال کرنا اور عقيق کی انگوٹھی پهننا۔

۱۴۴

نمازی کے لباس ميں مکروہ چيزیں

مسئلہ ٨٧٢ کچھ چيزیں نمازی کے لباس ميں مکروہ ہيں ۔ ان ميں سے چند یہ ہيں :

سياہ لباس، ميلا یاتنگ لباس پهننا، شرابی اور نجاست سے پرہيز نہ کرنے والے کا لباس پهننا اور لباس کے بٹن کا کهلا ہونا۔

اور احتياط واجب یہ ہے کہ ایسے لباس یا انگوٹھی کے ساته نماز نہ پڑھے جس پر جاندار کی صورت کا عکس ہو۔

نماز پڑھنے کی جگہ

جس جگہ نماز پڑھی جائے اس کی سات شرائط ہيں :

پهلی شرط

وہ جگہ مباح ہو ۔

مسئلہ ٨٧٣ جو شخص غصبی جگہ ميں نماز پڑھ رہا ہو تو اعضائے سجدہ کی جگہ غصبی ہو نے کی صورت ميں اس کی نمازباطل ہے ، اگر چہ قالين، کمبل یا ان جيسی کسی چيز پر کهڑا ہو۔ اسی طرح احتياط واجب کی بنا پر تخت یا اس جيسی کسی چيز پر نماز پڑھنے کا بھی یهی حکم ہے ، ليکن غصبی خيمے اور غصبی چھت کے نيچے نماز پڑھنے ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ٨٧ ۴ جس ملکيت سے فائدہ اٹھ انا کسی اور کا حق ہے اس ميں صاحبِ حق کی اجازت کے بغير نماز پڑھنا باطل ہے ، مثلاًکرائے کے گھر ميں کرائے دار کی رضایت کے بغير مالک مکان یا کوئی اور شخص نماز پڑھے تو اس کی نماز باطل ہے ۔

اسی طرح اگر ميت نے اپنے مال کا تيسرا حصہ کسی جگہ خرچ کرنے کی وصيت کی ہو تو جب تک ترکہ سے تيسرا حصہ جدا نہ کر ليا جائے مرحوم کی ملک پر نماز نہيں پڑھی جا سکتی ہے ۔

هاں، جس جگہ پر کسی کا کوئی حق ہو اور اس جگہ نماز پڑھنا صاحب حق کے اختيار ميں رکاوٹ کا باعث ہو مثلًا ایسی زمين پر نماز پڑھنا جس پر کسی نے پتّھر چن دئے ہوں، صاحب حق کی اجازت کے بغير باطل ہے جب کہ اس صورت کے علاوہ ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔ مثلاًرہن رکھوانے والے کی اجازت سے اس زمين پر نماز پڑھنے ميں کوئی حرج نہيں ہے جو کسی کے پاس رہن رکھوائی گئی ہو اگرچہ جس کے پاس وہ زمين رہن رکھی گئی ہو اس ميں نماز پڑھنے پرراضی نہ ہو۔

مسئلہ ٨٧ ۵ اگر کوئی مسجدميں بيٹھے ہوئے کسی شخص کی جگہ غصب کر کے وہاں نماز پڑھے تو اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ٨٧ ۶ جس جگہ کے غصبی ہونے کا علم نہ ہو اور وہاں نماز پڑھنے کے بعد معلوم ہو کہ سجدہ کرنے کی جگہ غصبی تھی تو اس کی نماز باطل ہے ۔

۱۴۵

البتہ اگر کسی جگہ کے غصبی ہونے کو بھول کر نماز پڑھ لے اور نماز کے بعد یاد آئے تو اس کی نماز صحيح ہے ۔ ہاں، اگر خود نے کسی جگہ کو غصب کيا ہو اور بھول کر وہاں نمازپڑھے تو اگر اس نے غصب سے توبہ نہ کی تھی تواس کی نماز باطل ہے جب کہ اگر توبہ کر چکا تھا تو اس کی نماز کا باطل ہونا محلِ اشکال ہے ۔

مسئلہ ٨٧٧ ایسی جگہ نماز پڑھنا جهاں اعضائے سجدہ رکھنے کی جگہ غصبی ہو اور جانتا بھی ہو کہ یہ جگہ غصبی ہے ، باطل ہے ۔ اگرچہ اسے نماز کے باطل ہونے کا حکم معلوم نہ ہو۔

مسئلہ ٨٧٨ جو شخص سواری کی حالت ميں واجب نماز پڑھنے پر مجبور ہو تو اگر سواری کا جانور یا اس کی زین غصبی ہو اور اسی جانور یا زین پر سجدہ کرے تو اس کی نماز باطل ہے ۔ یهی حکم اس جانور پر مستحب نمازپڑھنے کا ہے ۔ ہاں، اگر جانور کی نعل غصبی ہو تو نماز کا باطل ہونا محل اشکال ہے ۔

مسئلہ ٨٧٩ جو شخص کسی ملکيت ميں دوسرے کے ساته شریک ہو تو جب تک اس کا حصہ جدا نہ ہو جائے اس وقت تک اس ملکيت ميں اپنے شریک کی رضایت کے بغير نہ تصرف کر سکتا ہے نہ نماز پڑھ سکتا ہے ۔

مسئلہ ٨٨٠ جس مال کا خمس نہ نکالا ہو اگر عين اسی مال سے ملکيت خریدے تو اس ملکيت ميں تصرف حرام ہے اور نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ٨٨١ اگر کوئی شخص اپنی ملکيت ميں نماز پڑھنے کی اجازت دے اور انسان جانتا ہو کہ دل سے راضی نہيں ہے تو اس کی ملکيت ميں نماز باطل ہے اوراگر اجازت نہ دے ليکن انسان کو یقين ہو کہ راضی ہے تو نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ٨٨٢ جس مرنے والے کے ذمہ خمس یا زکات واجب الادا ہو جبکہ اس کا ترکہ خمس یا زکات کی واجب الادا مقدار سے زیادہ نہ ہو تو اس ميں تصرف کرنا حرام اور اس ميں نماز باطل ہے ، ليکن اگر اس کے واجبات ادا کر دئے جائيں یا حاکم شرع کی اجازت سے ضمانت لے لی جائے تو ورثاء

کی اجازت سے ميت کے ترکے ميں تصرف کرنے اور نماز پڑھنے ميں کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ٨٨٣ جو مرنے والا لوگوں کا مقروض ہو اور اس کا ترکہ قرض کی مقدار سے زیادہ نہ ہو تو قرض خواہ کی اجازت کے بغير ميت کے ترکے ميں تصرف کرنا حرام اور اس ميں نماز باطل ہے ، ليکن اگر اس کا قرض ادا کرنے کی ضمانت لے لی جائے اور قرض خواہ بھی راضی ہوجائے تو ورثا کی اجازت سے اس ميں تصرف کرنا جائز ہے اور نماز بھی صحيح ہے ۔

۱۴۶

مسئلہ ٨٨ ۴ اگر ميت مقروض نہ ہو ليکن اس کے ورثا ميں سے کوئی نابالغ، دیوانہ یا لاپتہ ہو تو اس کے ترکے ميں اس کے ولی کی اجازت کے بغير تصرف کرنا حرام اورنماز باطل ہے ۔

مسئلہ ٨٨ ۵ کسی کی ملکيت ميں نماز پڑھنا اس صورت ميں جائز ہے کہ جب انسان کے پاس شرعی دليل ہو یا اسے یقين ہو کہ مالک اس جگہ نماز پڑھنے پر راضی ہے ۔ یهی حکم اس وقت ہے جب مالک اِس طرح کے تصرف کی اجازت دے کہ جسے عرفی اعتبار سے نمازپڑھنے کی اجازت بھی سمجھا جائے، مثلاًکسی کو اپنی ملکيت ميں بيٹھنے اور ليٹنے کی اجازت دے جس سے سمجھا جاتا ہے کہ اس نے نمازپڑھنے کی اجازت بھی دے دی ہے ۔

مسئلہ ٨٨ ۶ مسئلہ نمبر ” ٢٧٧ “ميں گزری ہوئی تفصيل کے مطابق وسيع اراضی ميں نماز پڑھنے کے لئے مالک کی اجازت ضروری نہيں ہے ۔

دوسری شرط

مسئلہ ٨٨٧ واجب نماز ميں ضروری ہے کہ نمازی کی جگہ اتنی متحرک نہ ہو کہ نمازی کے بدن کے ساکن رہنے اور اختياری حالت ميں پڑھی جانے والی نماز کے افعال کی ادائيگی ميں رکاوٹ بن جائے۔

هاں، اگر وقت تنگ ہونے یا کسی اور وجہ سے کسی ایسی جگہ مثلاًبس، کشتی یا ٹرین وغيرہ ميں نماز پڑھنے پر مجبور ہو جائے تو ضروری ہے کہ ممکنہ حد تک بدن کے سکون اور قبلے کا خيال رکھے اور اگر یہ سواریاں قبلے کی سمت سے ہٹ جائيں تو خود قبلے کی طرف گهوم جائے۔

مسئلہ ٨٨٨ کهڑی ہوئی بس، کشتی، ٹرین یا ان جيسی چيزوں ميں نماز پڑھنے ميں کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ٨٨٩ گندم وجوَ کے ڈهير یا ان جيسی کسی اور چيز پر جو بدن کو ساکن نہ رہنے دے، نماز باطل ہے ۔

۱۴۷

تيسری شرط

مسئلہ ٨٩٠ ضروری ہے کہ ایسی جگہ پر نماز پڑھے جهاںنماز مکمل کرنے کا احتمال ہو اور اگر ہوا، بارش، لوگوں کے هجوم یا ان جيسے اسباب کی وجہ سے اطمينان ہو کہ اس جگہ نماز مکمل نہيں کر سکے گا تو اگرچہ اتفاقاً وہاں نماز مکمل کر لے پھر بھی اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ٨٩١ اگر ایسی جگہ نماز پڑھے جهاں ٹہرنا حرام ہے مثلاًایسی چھت کے نيچے جو گرنے ہی والی ہے تو اگرچہ وہ گنهگار ہے ليکن اس کی نمازصحيح ہے ۔

مسئلہ ٨٩٢ جس چيز کی توهين حرام ہے اگر اس پر اٹھنا بيٹھنا اس کی توهين کا باعث ہو مثلاًقالين کا وہ حصہ جس پر الله کا نام لکھا ہو، اس پر نمازپڑھنا جائز نہيں ہے اور احتياط کی بنا پر باطل بھی ہے ۔

چوتھی شرط

نماز پڑھنے کی جگہ چھت نيچی ہونے کی وجہ سے اتنی چھوٹی نہ ہو کہ سيدها کهڑا نہ ہو سکے اور اسی طرح مکان کے تنگ ہونے کی وجہ سے جگہ اتنی تنگ نہ ہو کہ رکوع اور سجود انجام نہ دے سکے۔

مسئلہ ٨٩٣ اگر ایسی جگہ نمازپڑھنے پر مجبور ہو جائے جهاں کسی طرح کهڑا نہ ہو سکتا ہو تو ضروری ہے کہ بيٹھ کر نماز پڑھے اوراگر رکوع اور سجود کی ادائيگی ممکن نہ ہو تو ان کے لئے سر سے اشارہ کرے۔

مسئلہ ٨٩ ۴ پيغمبراکرم(ص) اور ائمہ اطهار عليهم السلام کی قبورمطہر سے آگے بڑھ کر نماز پڑھنااگر بے حرمتی کا سبب ہو تو حرام اور باطل ہے بلکہ بے حرمتی نہ ہونے کی صورت ميں بھی احتياط واجب کی بنا پر یهی حکم ہے ۔ ہاں، اگر نماز کے وقت کوئی چيزمثلاًدیوار، اس کے اور قبر کے درميان ہو تو کوئی حرج نہيں ، ليکن قبر مطہر پر بنے ہوئے صندوق، ضریح اور اس پر پڑے ہوئے کپڑے کا فاصلہ کافی نہيں ہے ۔

پانچويں شرط

مسئلہ ٨٩ ۵ یہ کہ نمازپڑھنے کی جگہ اگر نجس ہو تو اتنی تر نہ ہو کہ نماز کو باطل کرنے والی نجاست نمازی کے بدن یا لباس تک سرایت کر جائے۔ ہاں، سجدے کے لئے پيشانی رکھنے کی جگہ کا پاک ہونا ضروری ہے اور اگر وہ نجس ہو تو اس کے خشک ہونے کی صورت ميں بھی نماز باطل ہے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ نماز پڑھنے کی جگہ بالکل نجس نہ ہو۔

۱۴۸

چھٹی شرط

ضروری ہے کہ نماز پڑھتے وقت مرداور عورت کے درميان کم ازکم ایک بالشت کا فاصلہ ہو، جب کہ شہر مکہ کے علاوہ کسی بھی مقام پر دس ذراع سے کم کے فاصلے ميں نماز پڑھنا مکروہ ہے ۔

مسئلہ ٨٩ ۶ اگر عورت مذکورہ فاصلے سے کم فاصلے پر مردکے برابر یا اس سے آگے نماز پڑھے اور دونوں ایک ساته نماز شروع کریں تو ضروری ہے کہ دونوں دوبارہ نماز پڑہيں ۔ اسی طرح اگر ایک نے دوسرے سے پهلے نماز شروع کی ہو تب بھی احتياط واجب کی بنا پر یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ٨٩٧ اگر ایک دوسرے کے برابر کھڑے ہوئے مرد اور عورت یا مرد سے آگے کهڑی ہوئی عورت اور مرد کے درميان دیوار، پردہ یا کوئی ایسی چيز ہو کہ ایک دوسرے کو نہ دیکھ سکيں تو دونوں کی نمازميں کوئی حرج نہيں اگر چہ ان کے درميان مذکورہ مقدار سے بھی کم فاصلہ ہو۔

ساتويں شرط

ضروری ہے کہ نمازی کی پيشانی رکھنے کی جگہ، اس کے پاؤں کی انگليوں کے سرے اور بنا بر احتياط واجب گھٹنے رکھنے کی جگہ سے چار ملی ہوئی انگليوں کی مقدار سے زیادہ نيچی یا اونچی نہ ہو اور اس کی تفصيل سجدے کے احکام ميں آئے گی۔

مسئلہ ٨٩٨ نامحرم مرد اور عورت کا ایسی جگہ اکهٹا ؟؟؟هونا جهاں کوئی دوسرا نہ ہو اور نہ ہی آ سکتا ہو جبکہ اس صورت ميں انہيں گناہ ميں مبتلا ہونے کا احتمال ہو، جائز نہيں ہے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ اس جگہ نماز نہ پڑہيں ۔

مسئلہ ٨٩٩ جهاں سِتار یااس جيسی چيزیں بجائی جاتی ہوں وہاں نماز پڑھنے سے نماز باطل نہيں ہوتی ہے ، ليکن ان چيزوں کو سننا حرام ہے ۔ یهی حکم وہاں ٹھ هرنے کا ہے سوائے اس شخص کے لئے جو اس عمل کو روکنے کے لئے وہاں ٹہرا ہو۔

مسئلہ ٩٠٠ اختياری حالت ميں خانہ کعبہ کی چھت پر واجب نماز پڑھنا جائز نہيں ہے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ خانہ کعبہ کے اندر بھی واجب نماز نہ پڑھے ليکن مجبوری کی حالت ميں کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ٩٠١ خانہ کعبہ کے اندر مستحب نماز پڑھنے ميں کوئی حرج نہيں ہے بلکہ خانہ کعبہ کے اندر ہر گوشے کے سامنے دو رکعت نمازپڑھنا مستحب ہے ۔

۱۴۹

وہ مقامات جهاں نمازپڑھنا مستحب ہے

مسئلہ ٩٠٢ اسلام کی مقدس شریعت ميں مسجد ميں نماز پڑھنے کی بہت تاکيد کی گئی ہے ۔ تمام مساجد ميں سب سے بہتر مسجدالحرام ہے ۔ اس کے بعد مسجد نبوی صلی الله عليہ وآلہ وسلم اور پھر مسجدکوفہ کا درجہ ہے ۔ ان کے بعد مسجدبيت المقدس، شہر کی جامع مسجد، محلہ کی مسجداو ر بازار کی مسجد کا درجہ بالترتيب ہے ۔

مسئلہ ٩٠٣ خواتين کے لئے اپنے گھر ميں بلکہ کوٹہر ی اور پيچهے والے کمرے ميں نماز پڑھنا بہتر ہے ۔

مسئلہ ٩٠ ۴ ائمہ عليهم السلام کے حرم مطہر ميں نماز پڑھنا مستحب ہے بلکہ بعض روایات کے مطابق حضرت امير المومنين عليہ السلام اورسيد الشهداعليهم السلام کے حرم ميں نماز مسجدسے افضل ہے ۔

مسئلہ ٩٠ ۵ مسجد ميں زیادہ جانا اور جس مسجد ميں نماز ی نہ ہوتے ہوں وہاں جانا مستحب ہے اور مسجد کے پڑوسی کے لئے بغير کسی عذر کے مسجد کے علاوہ کسی جگہ نماز پڑھنا مکروہ ہے ۔

مسئلہ ٩٠ ۶ انسان کے لئے مستحب ہے کہ مسجد ميں نہ جانے والے کے ساته کھانا نہ کھائے، کاموں ميں اس سے مشورہ نہ لے، اس کا ہمسایہ نہ بنے، اس سے لڑکی نہ لے اور نہ ہی اسے لڑکی دے۔

وہ مقامات جهاں نماز پڑھنا مکروہ ہے

مسئلہ ٩٠٧ چند مقامات پر نماز پڑھنا مکروہ ہے ۔ ان ميں سے چند یہ ہيں :

١) حمام ميں

٢) نمک زار ميں

٣) انسان کے سامنے

۴) کهلے ہوئے دروازے کے سامنے

۵) سڑک اور گلی کوچوں ميں جب کہ وہاں سے گزرنے والوں کے لئے تکليف کا باعث نہ ہو اور اگر تکليف کا باعث ہو توحرام ہے ۔

۶) آگ اور چراغ کے سامنے

٧) باورچی خانے ميں اور ہر اس جگہ جهاں آتش دان ہو

٨) کنویں اور پيشاب کے جمع ہونے کی جگہ کے سامنے

٩) جاندار کی تصویر اور مجسمے کے سامنے مگر یہ کہ ان پر پردہ ڈال دیا جائے

۱۵۰

١٠ ) جس کمرے ميں کوئی جنب ہو

١١ ) جهاں جاندار کی تصویر ہو اگرچہ نماز ی کے سامنے نہ ہو

١٢ ) قبر کے سامنے

١٣ ) قبر کے اوپر

١ ۴ ) دو قبروں کے درميان

١ ۵ ) قبرستان ميں

مسئلہ ٩٠٨ لوگوں کی گذر گاہ پر یا کسی کے سامنے نمازپڑھنے والے کے لئے مستحب ہے کہ اپنے سامنے کوئی چيز رکھے جو اگر لکڑی یا رسی بھی ہو تو کافی ہے ۔

مسجد کے احکام

مسئلہ ٩٠٩ مسجد کی زمين، چھت کا اندرونی اور اوپری حصہ اور مسجد کی دیوار کا اندر والا حصہ نجس کرنا حرام ہے اور جس شخص کو بھی اس کے نجس ہونے کا علم ہو اس کے لئے ضروری ہے کہ اس کو فوراً پاک کرے اور احتياط واجب یہ ہے کہ مسجد کی دیوار کا باہر والا حصہ بھی نجس نہ کرے اور اگر نجس ہو جائے تو نجاست کودور کرے۔

مسئلہ ٩١٠ اگر مسجد پاک نہ کرسکتا ہو یا پاک کرنے کے لئے مدد کی ضرورت ہو اور کوئی مددگار نہ ملے تو اس پر مسجد پاک کرنا واجب نہيں ہے ، ليکن جو شخص مسجد کو پاک کر سکتا ہو اور احتمال ہو کہ وہ مسجد کوپاک کر دے گاتو اس کو اطلاع دینا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٩١١ اگر مسجد کی کوئی ایسی جگہ نجس ہو جائے جسے کهودے یا توڑے بغير پاک کرنا ممکن نہ ہو تو اگر اس کی توڑ پهوڑ مکمل اور وقف کو نقصان پهنچانے والی نہ ہو تو ضروری ہے کہ اس جگہ کو کهودا یا توڑا جائے۔ اور کهودی ہوئی جگہ کو پرُ کرنا او ر توڑی ہوئی جگہ کو دوبارہ بنانا واجب نہيں ہے ، ليکن اگر مسجد کی اینٹ جيسی کوئی چيز نجس ہو جائے تو ممکنہ صورت ميں ضروری ہے کہ اسے پاک کر کے پرانی جگہ پر لگا دیا جائے۔

مسئلہ ٩١٢ اگر مسجد غصب کر کے اس پر گھر یا گھر جيسی عمارت بنالی جائے تو بنا بر احتياط اسے نجس کرنا حرام ہے اور پاک کرنا واجب نہيں ہے ، ليکن ٹوٹی ہوئی مسجد کو نجس کرنا اگرچہ اس ميں کوئی نمازنہ پڑھتا ہو، جائز نہيں ہے اور پاک کرنا ضروری ہے

مسئلہ ٩١٣ ائمہ عليهم السلام کے روضوں کو نجس کرنا حرام ہے اور نجس ہونے کے بعد اگر نجس چھوڑنے سے بے احترامی ہوتی ہو تو انہيں پاک کر نا واجب ہے ۔ بلکہ اگر بے احترامی نہ ہو تو بھی احتياط مستحب ہے کہ اسے پاک کرے۔

۱۵۱

مسئلہ ٩١ ۴ مسجد کی چٹائی نجس کرنا حرام ہے اور نجس کرنے والے کے لئے احتياط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ اسے پاک کرے اور باقی افراد کے لےے احتياط مستحب ہے کہ اسے پاک کریں، ليکن اگر چٹائی کا نجس رہنا مسجد کی بے احترامی ہوتو ضروری ہے کہ اسے پاک کيا جائے۔

مسئلہ ٩١ ۵ اگر بے احترامی ہوتی ہوتو مسجدميں کسی عين نجس یا نجس شدہ چيز کو لے جاناحرام ہے ، بلکہ اگر بے احترامی نہ ہو تب بھی احتياط مستحب ہے کہ عين نجس کو مسجد ميں نہ لے جائے۔

مسئلہ ٩١ ۶ مسجد ميں مجالس کے ليے شاميانہ لگانے، فرش بچهانے، سياہ چيزیں آویزاں کرنے اور چائے کا سامان لے جانے ميں جبکہ مسجد کو نقصان نہ پهنچے اور نماز پڑھنے ميں کسی رکاوٹ کا باعث نہ بنے، تو کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ٩١٧ احتياط واجب کی بنا پر مسجد کو سونے اور انسان اور جاندار کے نقش سے مزین کر نا جائز نہيں ہے اور بيل بوٹوں جيسی بے جان چيزوں سے مزین کر نا مکروہ ہے ۔

مسئلہ ٩١٨ اگر مسجد ٹوٹ جائے تو بھی نہ اسے فروخت کيا جا سکتا ہے اور نہ ہی ملکيت یا سڑک ميں شامل کيا جا سکتا ہے ۔

مسئلہ ٩١٩ مسجد کے دروازے، کهڑکيا ں اور دوسری چيزوں کو فروخت کرنا حرام ہے اور اگر مسجد ٹوٹ جائے تو ضروری ہے کہ ان چيزوں کواس مسجد کی تعمير ميں استعمال کيا جائے اور جو چيزیں اس مسجد کے کام کی نہ ہوںانہيں دوسری مسجد ميں استعمال کيا جائے، ليکن اگر کسی بھی مسجد کے کام نہ آئيں تو جو چيزیں مسجد کا جزء شمار نہ ہوتی ہوں اور مسجد کے لئے وقف کی گئی ہو ں انہيں حاکم شرع کی اجازت سے فروخت کيا جاسکتا ہے اور اگر ممکن ہو تو ان کی قيمت بھی اسی مسجد، ورنہ کسی اور مسجد کی تعمير ميں خرچ کی جائے، اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تواسے دوسرے نيک کاموں ميں خرچ کيا جائے۔

مسئلہ ٩٢٠ مسجد کی تعمير اورمرمت مستحب ہے اور اگر ٹوٹی ہوئی مسجد کی مرمت ممکن نہ ہو تو اسے توڑکر دوبارہ بنایا جا سکتا ہے ۔ بلکہ ضرورت ہو تونماز کی گنجائش بڑھانے کے لئے اس مسجد کوبهی جو نہ ٹوٹی ہو، توڑ کر دوبارہ بنایا جاسکتا ہے ۔

مسئلہ ٩٢١ مسجدکو صاف کرنا اور اس ميں چراغ روشن کرنا مستحب ہے اور مسجد جانے والے کے لئے مستحب ہے کہ خوشبو لگائے، پاکيزہ اور قيمتی لباس پهنے، اپنے جوتو ںکو دیکھ لے کہ اس کہ نيچے والے حصے ميں نجاست تو نہيں ہے ، مسجد ميں داخل ہوتے وقت پهلے سيدها پاؤں اور باہر نکلتے وقت پهلے الٹا پاؤں اٹھ ائے اور مستحب ہے کہ سب سے پهلے مسجد ميں آئے اور سب سے آخر ميں باہر جائے۔

مسئلہ ٩٢٢ جب انسان مسجد ميں جائے تو مستحب ہے کہ دو رکعت نمازتحيت، مسجد کے احترام ميں پڑھے اور اگر واجب یا کوئی مستحب نماز بھی پڑھ لے تو کافی ہے ۔

۱۵۲

مسئلہ ٩٢٣ مسجد ميں بغير کسی مجبوری کے سونا، دنياوی امور کے بارے ميں گفتگو کرنا، کسی دستکاری ميں مشغول رہنا اور ایسے شعر پڑھنا جس ميں نصيحت اور اس جيسی چيز نہ ہو مکروہ ہے ۔

اسی طرح مسجد ميں تهوکنا، ناک کی غلاظت وبلغم پھينکنا، کسی کهوئے ہوئے کو ڈهونڈنا اور اپنی آواز بلند کرنا بھی مکروہ ہے ليکن اذان کے لئے آواز بلند کرنے ميں کوئی حرج نہيں ہے ، بلکہ مستحب ہے ۔

مسئلہ ٩٢ ۴ بچوں اور دیوانوں کو مسجد ميں آنے دینا مکروہ ہے اور پياز یا لهسن جيسی چيز کھائے ہوئے شخص کے لئے کہ جس کے منہ کی بو سے لوگوں کو اذیت ہوتی ہو، مسجدميں جانا مکروہ ہے ۔

اذان اور اقامت

مسئلہ ٩٢ ۵ مرد اور عورت کے لئے مستحب ہے کہ واجب یوميہ نمازوں سے پهلے اذان اور اقامت کہيں جب کہ یوميہ نمازوں کے علاوہ دوسری واجب نمازوں اور مستحب نمازوں کے لئے جائز نہيں ہے ، ليکن جب عيد فطر یا عيد قربان کی نماز جماعت سے پڑھی جا رہی ہو تو مستحب ہے کہ تين مرتبہ الصلاة کہہ کر پکارا جائے اور ان دو نمازوں کے علاوہ کسی نماز مثلًانماز آیات ميں اگر جماعت سے پڑھی جائے تو رجاء کها جائے۔

مسئلہ ٩٢ ۶ مستحب ہے کہ نومولود کے دائيں کان ميں اذان اور بائيں کان ميں اقامت کهے اوریہ ولادت کے پهلے روز بہتر ہے ۔

مسئلہ ٩٢٧ اذان کے اٹھ ارہ جملے ہيں :

ا لَٔلّٰهُ ا کَْٔبَرُ چار مرتبہا شَْٔهَدُ ا نَْٔ لاَّ إِلٰهَ إِلاَّ اللّٰهُ دومرتبہا شَْٔهَدُ ا نََّٔ مُحَمَّداً رَّسُوْلُ اللّٰهُ دو مرتبہحَیَّ عَلَی الصَّلاَةِ دو مرتبہحَیَّ عَلَی الْفلَاَحِ دو مرتبہحَیَّ عَلیٰ خَيْرِ الْعَمَلِ دو مرتبہا لَٔلّٰهُ ا کَْٔبَرُ دومرتبہلَاَ ا لِٰٔهَ ا لِٔاَّ اللّٰه دو مرتبہ اور اقامت کے سترہ جملے ہيں :

یعنی اول سے دو مرتبہا لَٔلّٰهُ ا کَْٔبَرُ اور آخر سے ایک مرتبہلاَ ا لِٰٔهَ ا لِٔاَّ اللّٰه کم ہو جائيں گے اورحَیَّ عَلیٰ خَيْرِ الْعَمَلِ کے بعد ضروری ہے کہ دو مرتبہقَدْ قَامَتِ الصَّلاَةُ کا اضافہ کرے۔

مسئلہ ٩٢٨ا شَْٔهَدُ ا نََّٔ عَلِيًّا وَّلِیُّ اللّٰهِ اذان واقامت کا جز نہيں ہے ليکن چونکہ حضرت علی عليہ السلا م کی ولایت دین کی تکميل کرتی ہے لہٰذا اس کی گواہی ہر مقام پر او را شَْٔهَدُ ا نََّٔ مُحَمَّداً رَّسُوْلُ اللّٰه کے جملے کے بعد خدا سے تقرب کا بہترین ذریعہ ہے ۔

۱۵۳

اذان اور اقامت کا ترجمہ

ا لَٔلّٰهُ ا کَْٔبَرُ الله توصيف کئے جانے سے بالا تر ہےا شَْٔهَدُ ا نَْٔ لاَّ إِلٰهَ إِلاَّ اللّٰهُ گواہی دیتا ہوں کہ الله کے سوا کوئی معبود نہيں ہےا شَْٔهَدُ ا نََّٔ مُحَمَّداً رَّسُوْلُ اللّٰهُ گواہی دیتا ہوں کہ محمدبن عبد الله(ص) الله کے رسول ہيںحَیَّ عَلَی الصَّلاَةِ نماز کے لئے جلدی کرو حَیَّ عَلَی الْفلَاَحِ کاميابی کی طرف جلدی کروحَیَّ عَلیٰ خَيْرِ الْعَمَلِ بہترین کام کی طرف جلدی کرو قَدْ قَامَتِ الصَّلاَةُ یقينانماز قائم ہو گئیلَاَ ا لِٰٔهَ ا لِٔاَّ اللّٰه الله کے سوا کوئی معبود نہيں ہے مسئلہ ٩٢٩ ضروری ہے کہ اذان اور اقامت کے جملوں کے درميان زیادہ فاصلہ نہ دے اور اگر ان کے درميان معمول سے زیادہ فاصلہ کر دے تو ضروری ہے کہ شروع سے کهے۔

مسئلہ ٩٣٠ اگر اذان اور اقامت کہتے وقت آواز کو گلے ميں گهمائے تو اگر یہ غنا اور گلوکاری ہو جائے یعنی لهو ولعب کی محفلوں سے مخصوص گانے کے انداز ميں اذان اور اقامت کهے تو حرام ہے اور اگر غنا اور گلوکاری نہ ہو تو مکروہ ہے ۔

مسئلہ ٩٣١ دو نماز وں ميں اذان جائزنہيں ہے :

١) ميدان عرفات ميں روز عرفہ یعنی نو ذی الحجہ کے دن، نماز عصر ميں ۔

٢) شب بقر عيد کی نماز عشا ميں اس شخص کے لئے جو مشعر الحرام ميں ہو۔

یہ دو اذانيں اس صورت ميں جائز نہيں ہيں جب ان ميں سے پهلے پڑھی ہوئی نمازميں فاصلہ بالکل نہ ہو یا اتنا کم فاصلہ ہو کہ عرفاً یہ کها جائے کہ دو نمازیں ساته ميں پڑھی ہيں ۔

مسئلہ ٩٣٢ اگر نمازجماعت کے لئے اذان اور اقامت کهی گئی ہو تو اس جماعت کے ساته نماز پڑھنے والے کے لئے ضروری ہے کہ اپنی نماز کے لئے اذان اور اقامت نہ کهے۔

مسئلہ ٩٣٣ اگر نماز جماعت پڑھنے مسجد ميں جائے اور دیکھے کہ نماز ختم ہو چکی ہے ليکن صفيں ابهی تک نہ بگڑی ہوں اور لوگ بھی متفرق نہ ہوئے ہوں توآنے والے مسئلے ميں بيان شدہ شرائط کے ساته اپنے لئے اذان اور اقامت نہيں کہہ سکتا۔

مسئلہ ٩٣ ۴ جهاں جماعت ہو رہی ہو یا جماعت مکمل ہوئے زیادہ وقت نہ گزرا ہو اور صفيں نہ بگڑی ہوں اگر کوئی وہاں فرادیٰ یا باجماعت نماز پڑھنا چاہے تو چھ شرائط کے ساته اس سے اذان اور اقامت ساقط ہو جائے گی (اور یہ سقوط، عزیمت کے عنوان سے ہے یعنی اذان اور اقامت جائز نہيں ہے :

١) جماعت مسجد ميں ہو پس اگر مسجد ميں نہ ہو تو اذان اور اقامت ساقط نہيں ہوگی۔

٢) اس نماز کے لئے اذان اور اقامت کهی گئی ہوں۔

۱۵۴

٣) جماعت باطل نہ ہو۔

۴) جماعت اور اس شخص کی نماز ایک ہی جگہ پر ہو، لہٰذا اگر مثال کے طور پر جماعت مسجد کے اندر ہو اور وہ چھت پر نماز پڑھنا چاہے تو اس سے اذان اور اقامت ساقط نہ ہونگی۔

۵) نماز جماعت اور ا س کی نمازدونوں ادا ہوں۔

۶) نمازجماعت اور اس شخص کی نمازکا وقت مشترک ہو۔ مثلا دونوں نماز یں ظہر ہو ں یا عصر ہوں یا نماز جماعت ظہر ہو اور وہ نماز عصر پڑھے یا اسے نمازظہر پڑھنی ہو اور جماعت عصر ہو۔

مسئلہ ٩٣ ۵ اگر گذشتہ مسئلے کی تيسری شرط ميں شک کرے یعنی شک کرے کہ نمازجماعت صحيح تھی یا نہيں تو اس سے اذان واقامت ساقط ہے ليکن اگر صفوں کے بگڑنے یا دوسری شرائط کے حاصل ہونے ميں شک کرے تو اگر سابقہ حالت معلوم ہو تو اسی حالت کے مطابق عمل کرے مثلاًاگر رات کی تاریکی ميں شک کرے کہ صفيں بگڑی ہيں یا نہيں تو سمجھے کہ صفيں اپنی حالت پر باقی ہيں اور اذان اور اقامت نہ کهے اور اگر شک کرے کہ اس جماعت کے لئے اذان واقامت کهی گئی ہے یا نہيں تو سمجھے کہ نہيں کهی گئی ہے اور اذان واقامت مستحب کی نيت سے کهے اور اگر حالت سابقہ معلوم نہ ہوتو رجاء اذان واقامت کهے۔

مسئلہ ٩٣ ۶ دوسرے کی اذان کی آوازسننے والے کے لئے ہر سنے ہوئے جملے کو دهرانا مستحب ہے او راقامت سننے والا حی علی الصلاةسے قد قامت الصلاة تک کے جملے کو رجاء دهرائے اور باقی جملات کو ذکر کی نيت سے کهنا مستحب ہے ۔

مسئلہ ٩٣٧ جس نے دوسرے کی اذان و اقامت سنی ہو اور نمازپڑھنا چاہے تو اگر دوسرے کی اذان واقامت اور اس کی نماز کے درميان زیادہ فاصلہ نہ ہو تو یہ شخص اذان واقامت کو ترک کر سکتا ہے چاہے اس نے دوسرے کی اذان واقامت کے ساته تکرار کی ہو یا نہ کی ہو۔

مسئلہ ٩٣٨ اگر مردکسی عورت کی اذان سنے تو اس سے اذان ساقط نہيں ہوتی چاہے اس نے لذت کے قصد سے سنی ہو یا قصدِلذت کے بغير سنی ہو۔

مسئلہ ٩٣٩ نماز جماعت کی اذان واقامت کهنے والے کے لئے ضروری ہے مرد ہو، ليکن خواتين کی نماز جماعت ميں کسی عورت کا اذان واقامت کهنا کافی ہے ۔

مسئلہ ٩ ۴ ٠ ضروری ہے کہ اقامت، اذان کے بعد ہو اور اگر اذان سے پهلے کهے تو صحيح نہيں ہے اور اقامت ميں کھڑے ہو کر کهنا اور( وضو، غسل یا تيمم کے ذریعے) باطهارت ہونا بھی شرط ہے ۔

۱۵۵

مسئلہ ٩ ۴ ١ اگر اذان واقامت کے جملات ترتيب بدل کر کهے مثلاًحی علی الفلاح کو حی علی الصلاة سے پهلے کهے تو ضروری ہے کہ جهاں سے ترتيب بگڑی ہے وہيں سے دوبارہ کهے۔

مسئلہ ٩ ۴ ٢ ضروری ہے کہ اذان واقامت کے درميان فاصلہ نہ دے اور اگر اتنا فاصلہ دے کہ کهی ہوئی اذان کو اس اقامت کی اذان نہ کها جا سکے تو دوبارہ اذان واقامت کهنا مستحب ہے اور اگر اذان واقامت کے بعد نمازميں اتنا فاصلہ دے دے کہ یہ دونوں اس نماز کی اذان واقامت نہ کهی جا سکيں تو بھی اس نمازکے لےے اذان واقامت کو دهرانا مستحب ہے ۔

مسئلہ ٩ ۴ ٣ ضروری ہے کہ اذان واقامت صحيح عربی ميں کهی جائيں، لہٰذا اگر غلط عربی ميں کهے یا ایک حرف کی جگہ دوسرا حرف ادا کرے یا مثلاًاردو زبان ميں ترجمہ کهے تو صحيح نہيں ہے ۔

مسئلہ ٩ ۴۴ ضروری ہے کہ اذان واقامت وقت داخل ہونے کے بعد کهے، لہٰذا اگر عمداًیا بھول کر وقت سے پهلے کهے تو باطل ہے ۔

مسئلہ ٩ ۴۵ اگر اقامت کهنے سے پهلے شک کرے کہ اذان کهی یا نہيں تو اذان کهے ليکن اگر اقامت شروع کرنے کے بعد اذان کے بارے ميں شک کرے تو اذان کهنا ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ٩ ۴۶ اگر اذان اور اقامت کے دوران کوئی جملہ کهنے سے پهلے شک کرے کہ اس سے پهلے والا جملہ کها یا نہيں تو جس جملے کے بارے ميں شک ہو اسے کهے ليکن اگر کوئی جملہ کہتے وقت شک کرے کہ اس سے پهلے والا جملہ کها ہے یا نہيں تو اسے کهنا ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ٩ ۴ ٧ اذان کہتے وقت مستحب ہے :

اذان دینے والا قبلہ رخ ہو بالخصوص اذان ميں شهادت کے جملے ادا کرتے وقت اس کی زیادہ تاکيد ہے ، وضو یا غسل کيا ہوا ہو،دو انگلياں دونوں کانوں ميں رکھے، اونچی آواز سے اذان دے اور اسے کھينچے، اذان کے جملات کے درميان تهوڑا سا فاصلہ دے اور اذا ن کے جملات کے دوران بات نہ کرے۔

مسئلہ ٩ ۴ ٨ انسان کے لئے مستحب ہے کہ اقامت کہتے وقت اس کا بدن ساکن ہو اور اسے اذان کے مقابلے ميں آهستہ آواز ميں کهے اور اس کے جملوں کو ایک دوسرے سے نہ ملائے، ليکن اقامت کے جملوں کے درميان اتنا فاصلہ نہ دے جتنا اذان کے جملوں کے درميا ن دیتا ہے ۔

مسئلہ ٩ ۴ ٩ مستحب ہے کہ اذان اور اقامت کے درميان تهوڑی دیر کے لئے بيٹھ کر یا دو رکعت نماز پڑ ه کر یا بات کرے یا تسبيح پڑھ کر فاصلہ دے۔ليکن نمازصبح کی اذان اور اقامت کے درميا ن بات چيت کرنا مکروہ ہے ۔

۱۵۶

مسئلہ ٩ ۵ ٠ مستحب ہے کہ جس شخص کو اطلاعی اذان دینے پر معين کياجائے وہ عادل وو قت شناس ہو،اس کی آواز بلند ہو اوراونچی جگہ پر اذان دے۔

واجباتِ نماز

واجباتِ نماز گيارہ ہيں :

١)نيت

٢)قيا م یعنی کهڑا ہونا

٣)تکبيرةالاحرام یعنی نماز کی ابتدا ميں الله اکبر کهنا

۴) رکوع

۵) سجود

۶) قرائت

٧)ذکر

٨)تشهد

٩)سلام

١٠ )ترتيب

١١ )موالات یعنی اجزائے نماز کا پے در پے بجا لانا

مسئلہ ٩ ۵ ١ واجباتِ نماز ميں سے بعض رکن ہيں یعنی اگر انسان انہيں بجا نہ لائے تو خواہ ایسا کرنا جان بوجه کر ہو یا غلطی سے،نماز باطل ہو جاتی ہے ۔جب کہ باقی واجبا ت رکن نہيں ہيں یعنی اگر وہ غلطی کی بنا پر چھوٹ جایئں تو نماز باطل نہيں ہوتی۔

نماز کے واجباتِ رکنی پانچ ہيں :

١) نيت

٢) تکبيرة الاحرام

٣)قيام متصل بہ رکوع،یعنی رکوع ميں جانے سے پهلے کا قيام

۴) رکوع

۱۵۷

۵) ہر رکعت کے دو سجدے اور جهاں تک واجبات نماز کو زیادہ کرنے کا تعلق ہے تو اگر زیادتی عمداہو تو بغيرکسی شرط کے نماز باطل ہے ۔ ہاں، اگر جاہل قاصر جان بوجه کر تکبيرة الاحرام کو زیادہ کرے تو اس کی نماز کا باطل ہونا محلِ اشکال ہے اور اگر زیادتی غلطی سے ہوئی ہو تو چنانچہ زیادتی رکوع کی ہو یا ایک ہی رکعت کے دو سجدوں کی ہو تو نماز باطل ہے ورنہ باطل نہيں ۔

نيت

مسئلہ ٩ ۵ ٢ ضروری ہے کہ انسان نماز کو قربت کی نيت سے جيسا کہ وضو کے مسائل ميں بيان ہو چکا ہے اور اخلاص کے ساته بجا لائے۔ اور نيت کو اپنے دل سے گزارنا یا اپنی زبان پر جاری کرنا،مثلاً یہ کهنا:”چار رکعت نماز ظہر پڑھتا ہوں خداوندمتعال کے حکم کی بجا آوری کے لئے “،ضروری نہيں بلکہ نماز احتياط ميں نيت کو زبان سے ادا کرنا جائز نہيں ہے ۔

مسئلہ ٩ ۵ ٣ اگر کوئی شخص ظہر یا عصر کی نماز ميں نيت کرے کہ چار رکعت نماز پڑھتا ہوں اور معين نہ کرے کہ ظہر ہے یا عصر،نہ اجمالی طور پر اور نہ ہی تفصيلی طور پر تو ا س کی نماز باطل ہے ۔

اجمالی نيت سے مراد یہ ہے کہ مثلاًنمازِ ظہر کے لئے یہ نيت کرے کہ جو نماز پهلے مجھ پر واجب ہوئی ہے اس کو انجام دے رہا ہوں یا مثال کے طور پر اگر کسی شخص پر نماز ظہر کی قضا واجب ہے اور وہ ظہر کے وقت ميں اس قضا نماز یا ظہر کی ادا نمازکوپڑھناچاہے توضروری ہے کہ جو نماز پڑھے اسے اجمالاہی سهی نيت ميں معين کرے مثلاًنمازِ ظہر کی قضا کے لئے یہ نيت کرے کہ جو نماز پهلے ميری ذمہ داری ہے اسے انجام دے رہا ہوں۔

مسئلہ ٩ ۵۴ ضروری ہے کہ انسان شروع سے آخر تک نماز کی نيت پر قائم رہے،پس اگر وہ نماز ميں اس طرح غافل ہو جائے کہ اگر کوئی پوچهے کہ وہ کيا کر رہا ہے اور ا س کی سمجھ ميں نہ آئے کہ وہ کيا جواب دے تو اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ٩ ۵۵ ضروری ہے کہ انسان صرف خدا کے لئے نماز پڑھے،لہٰذا جو شخص ریا کرے یعنی لوگوں کو دکھانے کے لئے نماز پڑھے اس کی نماز باطل ہے خواہ صرف لوگوں کو دکھانے کے لئے ہو یا خدا اور لوگ دونو ں اس کی نظر ميں ہوں۔

مسئلہ ٩ ۵۶ اگر کوئی شخص نماز کا کچھ حصہ بھی خدا کے علاوہ کسی اور کے لئے بجا لائے تو اس کی نماز باطل ہے ،بلکہ اگر نماز تو خدا کے لئے پڑھے ليکن لوگوں کو دکھانے کے لئے کسی خاص جگہ مثلاًمسجد ميں پڑھے یا کسی خاص وقت مثلاًاول وقت ميں پڑھے یا کسی خاص طریقے سے مثلاًباجماعت پ-ڑھے تب بھی اس کی نماز باطل ہے اور احتياط واجب کی بنا پروہ مستحبات، مثلاًقنوت بھی کہ جن کے لئے نماز ظرف کی حيثيت رکھتی ہے ،اگر خدا کے علاوہ کسی اور کے لئے بجا لائے تو اس کی نماز باطل ہے ۔

۱۵۸

تکبيرةالاحرام

مسئلہ ٩ ۵ ٧ ہر نماز کی ابتدا ميں ”اللّٰہ اکبر“ کهنا واجب اور رکن ہے اور ضروری ہے کہ انسان لفظ” اللّٰہ“ اور لفظ”اکبر“ کے حروف اور” اللّٰہ اکبر“ کے دو لفظ پے درپے کهے۔یہ بھی ضروری ہے کہ یہ دو لفظ صحيح عربی ميں کهے جائيںاور اگر کوئی شخص غلط عربی ميں کهے یا اس کا ترجمہ زبان پر جاری کرے تو باطل ہے ۔

مسئلہ ٩ ۵ ٨ احتياط واجب یہ ہے کہ انسان نماز کی تکبيرة الاحرام کو اس سے پهلے پڑھی جانے والی چيز مثلاًاقامت یا تکبير سے پهلے پ-ڑھی جانے والی دعا سے نہ ملائے۔

مسئلہ ٩ ۵ ٩ احتياط مستحب یہ ہے کہ انسان اللّٰہ اکبر کو اس کے بعد پڑھی جانے والی چيز مثلاًبِسم اللّٰہ الرَّحمنِ الَّرحيم سے نہ ملائے ليکن اگر ملا کر پڑھنا چاہے تو ضروری ہے کہ اکبر کے ’را‘ پر پيش دے(یعنی اکبرُپڑھے)۔

مسئلہ ٩ ۶ ٠ تکبيرةالاحرام کہتے وقت ضروری ہے کہ انسان کا بدن ساکن ہو اور اگر جان بوجه کر اس حالت ميں کہ جب بدن حرکت ميں ہو تکبيرة الاحرام کهے تو باطل ہے ۔

مسئلہ ٩ ۶ ١ ضروری ہے کہ تکبير،الحمد،سورہ،ذکر اور دعا اتنی آواز سے پڑھے کہ خود سن سکے اور اگر ا ونچا سننے، بهرہ ہونے یا شوروغل کی وجہ سے نہ سن سکے تو ضروری ہے کہ اس طرح کهے کہ اگر کوئی رکاوٹ نہ ہوتی تو سن ليتا۔

مسئلہ ٩ ۶ ٢ اگر کوئی شخص گونگا ہو، یا زبان ميں کوئی ایسی بيماری ہو کہ جس کی وجہ سے صحيح طریقے سے”اللّٰہ اکبر“ نہ کہہ سکتا ہو تو ضروری ہے کہ جس طرح بھی کہہ سکتا ہو کهے اور اگر بالکل نہ کہہ سکتا ہو تو ضروری ہے کہ دل ميں پڑھے، تکبير کے لئے اپنی زبان کو حرکت دے اور انگلی سے اشارہ بھی کرے۔

مسئلہ ٩ ۶ ٣ انسان کے لئے مستحب ہے کہ تکبيرة الاحرام کهنے سے پهلے یہ کهے :

یَا مُحْسِنُ قَدْ اَتَاکَ الْمُسِیْءُ وَ قَدْ اَمَرْتَ الْمُحْسِنَ اَنْ یَتَجَاوَزَ عَنِ الْمُسِیْءِ اَنْتَ الْمُحْسِنُ وَ اَنَا الْمُسِیْءُ فَبِحَق مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ وَّ تَجَاوَزْ عَنْ قَبِيْحِ مَا تَعْلَمُ مِنِّی ۔

ترجمہ :اے اپنے بندوں پر احسان کرنے والے خد ا! بندہ گنهگار تير ی بارگاہ ميں آیا ہے اور تو نے نيک لوگوں کو گنهگاروں سے در گزرکرنے کا حکم دیا ہے ۔تو احسان کرنے والا اور ميں نافرمان ہوں، لہٰذا محمد و آلِ محمد کے حق کا واسطہ، اپنی رحمت محمدوآلِ محمدپرنازل کر اور مجھ سے سر زد ہونے والی برائيوں سے جنہيں تو جانتا ہے در گزر فرما۔

مسئلہ ٩ ۶۴ انسان کے لئے مستحب ہے کہ نماز کی پهلی تکبيراور دوران نماز دوسری تکبيریں کہتے وقت اپنے ہاتھوں کو کانوں تک بلند کرے۔

۱۵۹

مسئلہ ٩ ۶۵ اگر کوئی شک کرے کہ تکبيرة الاحرام کهی ہے یا نہيں تو اگر وہ قرائت کی کوئی چيز پڑھنے ميں مشغول ہو چکاہو تو اپنے شک کی پروا نہ کرے اور اگر ابهی کوئی چيز شروع نہيں کی تو تکبيرة الاحرام کهنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٩ ۶۶ اگر تکبيرة الاحرام کهنے کے بعد شک کرے کہ اسے صحيح ادا کيا یا نہيں تو اپنے شک کی پروا نہ کرے خواہ وہ کوئی چيز پڑھنے ميں مشغول ہو چکا ہو یا نہيں اور احتياط مستحب یہ ہے کہ نماز مکمل کرنے کے بعد اسے دهرائے۔

قيام(کھڑا ہونا )

مسئلہ ٩ ۶ ٧ تکبيرةالاحرام کہتے وقت قيا م اور رکوع سے پهلے والا قيام جسے”قيام متصل بہ رکوع “کها جاتا ہے رکن ہيں ، ليکن ان دو کے علاوہ مثلاًحمد وسورہ پڑھتے وقت قيام اور رکوع کے بعد کا قيام رکن نہيں ہے ،لہذ ا اگر کوئی شخص بھولے سے اسے تر ک کر دے تو اس کی نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ٩ ۶ ٨ تکبيرةالاحرام کهنے سے پهلے اور اس کے بعد تهوڑی دیر کے لئے کهڑا ہونا واجب ہے تاکہ یقين ہو جائے کہ تکبيرة الاحرام قيام کی حالت ميں کهی گئی ہے ۔

مسئلہ ٩ ۶ ٩ اگر کوئی شخص رکوع کرنا بھول جائے اور الحمد وسورہ کے بعد بيٹھ جائے اور پھر اسے یاد آئے کہ رکوع نہيں کيا تو ضروری ہے کہ کهڑ اہو جائے اور رکوع ميں جائے اور اگر سيدها کهڑا ہوئے بغير جھکے ہونے کی حالت ميں ہی رکوع کی طرف پلٹ آئے تو چونکہ قيام متصل بہ رکوع بجا نہيں لایا، اس لئے اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ٩٧٠ جب ایک شخص تکبيرةالاحرام یا قرائت کے لئے کهڑ ا ہو تو ضروری ہے کہ بدن کو حرکت نہ دے، کسی طرف نہ جھکے اور احتياط واجب کی بنا پر اختيار کی حالت ميں کسی جگہ ٹيک نہ لگائے، ليکن اگر مجبوری ہو یا رکوع کے لئے جھکتے ہو ئے پاؤں کو حرکت دے تو کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ٩٧١ اگر اس قيام کی حالت ميں کہ جو تکبيرة الاحرام یا قرائت کے وقت واجب ہے کوئی شخص بھولے سے بدن کو حرکت دے یا کسی طرف جھک جائے یا کسی جگہ ٹيک لگائے تو کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ٩٧٢ احتياط واجب یہ ہے کہ قيام کی حالت ميں انسان کے دونوں پاؤںزمين پر ہوں ليکن یہ ضروری نہيں کہ بدن کا بوجه بھی دونوں پاؤں پر ہو لہذ ا اگر ایک پاؤں پر بھی ہو تو کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ٩٧٣ جو شخص ٹھيک طور پر کهڑا ہو سکتا ہو اگر وہ اپنے پاؤں اتنے کهلے رکھے کہ اسے کهڑا ہونا نہ کها جا سکے تو اس کی نماز باطل ہے ۔ اسی طرح اگر معمول کے خلاف کهڑا ہو تب بھی احتياط واجب کی بنا پر یهی حکم ہے ۔

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258