عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں

عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں23%

عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 258

عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 258 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 138841 / ڈاؤنلوڈ: 5392
سائز سائز سائز
عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں

عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

ن ۔دنیا سے بے رغبتی

۴۰۰۔ امام علی (ع): عقل کی حد ناپائدار و فانی سے گریز اور پائدار و باقی سے لگاؤ ہے ۔

۴۰۱۔ امام علی (ع): عقل کی فضیلت دنیا سے بے رغبتی ہے ۔

۴۰۲۔ امام علی (ع): نفس کو دنیا کے زرق و برق سے جدا رکھنا عقل کا نتیجہ ہے ۔

۴۰۳۔ امام علی (ع): جو عقلمند ہوتا ہے قناعت کرتاہے ۔

۴۰۴۔ امام علی (ع): عاقل وہ ہے جو پست و ناپائدار دنیا سے دل نہیں لگاتا اور خوبصورت و جاوداں اور بلند مرتبہ جنت سے رغبت رکھتا ہو۔

س۔ فضول باتوں کا ترک کرنا

۴۰۵۔ امام کاظم (ع):عاقلوںنے دنیا کی بیہودہ باتوں کو ترک کر دیا، چہ جائیکہ گناہ، ترک دنیا مستحب ہے اور ترک گناہ واجب ۔

۴۰۶۔ اما م علی (ع): جب عقلیں کم ہوجاتی ہیں تو فضول باتیں زیادہ ہو جاتی ہےں۔

۴۰۷۔ امام علی (ع): جو خود کو فضول باتوں سے باز رکھتا ہے ، عقلیں اسکی رائے کو درست بنا دیتی ہیں۔

۴۰۸۔ امام علی (ع): عاقل وہی ہے جو باطل کو ٹھکرادے۔

۸۱

ع۔آخرت کا زاد راہ

۴۰۹۔ رسول خدا(ص): نے جمعہ کے کسی خطبہ میں۔ فرمایا: آگاہ ہو جاؤ! عقل کی علامتوں میں سے دار غرور (دنیا ) سے بے رغبتی اور دائمی ٹھکانہ کی طرف میلان پیدا کرنا ہے اور قبر وںکے لئے توشہ فراہم کرنا اور روز قیامت کے لئے آمادہ ہونا ہے ۔

۳۴۱۔ امام علی (ع): عقل کی نشانی روز قیامت کے لئے توشہ مہیا کرنا ہے ۔

۴۱۱۔ امام علی (ع): جو اپنی دائمی قیامگاہ کو آباد کرتاہے وہ عقلمند ہے ۔

۴۱۲۔ امام علی (ع): عقلمند وہ ہے جس نے اپنی شہوت کو بالائے طاق رکھ دیاہے اور دنیا کو آخرت کے عوض بیچ دیا۔

۴۱۳۔ امام علی (ع): عقلمند نہیں ہے ، مگر یہ کہ خدا کی معرفت رکھتا ہو اور دار آخرت کے لئے عمل کرتا ہو۔

۴۱۴۔ امام علی (ع): عاقل وہی ہے جو اپنی خواہشات پر غالب ہو اور اپنی آخرت کو دنیا کے بدلے فروخت نہ کیا ہو۔

۴۱۵۔ امام علی (ع): جو عقلمند ہے وہ خواب غفلت سے بیدار ہو کر سفر کے لئے آمادہ ہو جاتا ہے اور اپنی قیامگاہ کو آباد کرتا ہے ۔

۴۱۶۔ امام کاظم (ع): عاقل دنیا سے کنارہ کش اور آخرت کی طرف مائل ہوتے ہیں چونکہ وہ جانتے ہیں کہ دنیا طالب و مطلوب ہے، اور آخرت بھی چاہتی ہے اور چاہی جاتی ہے ، لہذا جو آخرت کا طلبگار ہو جائیگا دنیا خود اس کے پیچھے آئیگی یہاں تک کہ اس کے رزق کو پورا کریگی، لیکن جو دنیا کا طلبگار ہے اس سے آخرت اپنے حق کا مطالبہ کریگی، یہاں تک کہ اسے موت آجائیگی اور اسکی دنیا و آخرت کوتباہ کر دیگی۔

۴۱۷۔ امام کاظم (ع): عقلمند نے دنیا اور دنیا کی چیزوںپر نظر ڈالی تو اسے معلوم ہوا کہ دنیا بغیر مشقت کے حاصل نہیں ہوتی ہے اور آخرت پر نظر ڈالی تو پتہ چلا کہ آخرت بھی بغیر مشقت کے حاصل نہیں ہو سکتی ہے ۔ لہذا اس نے ان دونوں میں سے مشقت سے اس کو حاصل کیا جو باقی رہنے والی ہے ۔

۸۲

۴۱۸۔ سوید بن غفلہ: کا بیان ہیکہ امیر المومنین ؑ کے منصب خلافت پر فائز ہونے کے بعد میں آپکی خدمت میں حاضرہوا، آپ ایک چھوٹی سی چٹائی پر تشریف فرماتھے کہ جس کے علاوہ آپ کے گھر میں کچھ بھی نہ تھا۔ میں نے عرض کیا: اے امیر المومنین ؑ! بیت المال آپ کے اختیار میں ہے لیکن میں آپ کے گھر میں گھر کے اسباب نہیں دیکھ رہا ہوں! فرمایا: اے ابن غفلہ ! عقلمند چھوٹ جانے والے مکان کے لئے اثاثہ جمع نہیں کرتا ، ہمارے لئے پر امن گھر ہے ہم نے اپنا بہترین سرمایہ وہاں منتقل کر دیا ہے ۔ اور عنقریب ہم بھی ادھر ہی سفر کرنے والے ہیں۔

ف۔نجات

۴۱۹۔ رسول خدا(ص): خدا نے کسی کو عقل ودیعت نہیں کی مگر یہ کہ اس کے ذریعہ اسے ایک دن نجات دیگا۔

۴۲۰۔ تاریخ کبیر: قرہ بن ہبیرہ رسول خدا کی خدمت میں آیا اور کہا: ہمارے کچھ ارباب تھے خدا کے بجائے جنکی عبادت کی کی جاتی تھی ، خدا نے آپ کو مبعوث کیا، تو اس کے بعد ہم نے انہیں لاکھ پکارا مگرانہوں نے کوئی جواب نہ دیا اور ہم نے ان سے طلب کیا لیکن کچھ عطا نہ کیا، اور ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے خدا نے ہماری ہدایت کی، رسول خدا(ص) نے فرمایا: یقینا وہ کامیاب ہو گیا جسکوعقل عطا ہوئی ہے ۔ قرہ نے کہا: اے رسول خدا! مجھے دو لباس پہنا دیجئے جنہیں آپ پہن چکے ہیں، آپ ؐ نے ایسا ہی کیا، پس جب وہ موقف عرفات میں تھا تو رسول خدا(ص) نے اس سے فرمایا: تو اپنی بات کی تکرار کر، اس نے تکرار کی ، اس وقت رسول خدا نے فرمایا: کامیاب ہے وہ شخص جس کوعقل سے نوازاگیا ہے۔

۸۳

۴۲۱۔ امام علی (ع): عقل ہدایت اورنجات دیتی ہے اور جہالت ،گمراہ اور پست کرتی ہے۔

۴۲۲۔ امام علی (ع): فراوانی عقل ، نجات عطا کرتی ہے ۔

۴۲۳۔ امام علی (ع): عقلمندی کا تقاضانجات کے لئے عمل کرنا ہے ۔

۴۲۴۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے ۔ اگر زمام عقل کو آزاد چھوڑ دیا جائے اور خواہشات نفس،دینی رسم یا عصبیت ماسلف کی شکار نہ ہوتواپنے حامل کو نجات سے ہمکنار کریگی۔

۴۲۵۔ امام علی (ع): عقلمند کی رائے نجات دیتی ہے ۔

۴۲۶۔ امام علی (ع): عقل کی جڑ فکر و نظر ہے اور اس کا پھل سلامتی ہے ۔

ص۔ جنت پر اختتام

۴۲۷۔ رسول خدا(ص): نے علی (ع) سے اپنی وصیت میں ۔ فرمایا: عقل وہ ہے جس سے جنت کا اکتساب اور خوشنودی پروردگار حاصل ہو۔

۴۲۸۔ رسول خدا(ص): بہت سے عقلمند ایسے ہیں جو امر خدا کی معرفت رکھتے ہیں ، اگر چہ لوگوں کی نظروں میں حقیر اور کریہہ المنظرہوں لیکن آئندہ نجات یافتہ ہیں ، اور بہت سے خوش بیان اور حسین صورت ہیںلیکن روز قیامت ہلاک ہونے والے ہیں۔

۴۲۹۔ انس: سوال کیا گیا، اے رسول خدا!کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی شخص حسن عقل کا مالک ہو اور کثرت سے گناہ بھی کرتا ہو؟ رسول خدا(ص) نے فرمایا: کوئی شخص ایسا نہیںہے جو گناہوں اور خطاؤں کا مرتکب نہ ہو، پس ہر وہ شخص جس کی فطرت عقلمندی اور طبیعت یقین ہوتو گناہ اسے ضرر نہیں پہنچا سکتے، کہا گیا: اے رسول خدا(ص)! یہ کیسے ممکن ہے؟ فرمایا: چوں کہ (عقلمند) جب خطا کا مرتکب ہوتا ہے تو توبہ و پشیمانی کے ذریعہ اسکی تلافی کرتا ہے ۔لہذا اس کے سارے گناہ محو ہو جاتے ہیں فقط نیکیاں باقی رہ جاتی ہیں جس کی بدولت وہ وارد بہتشت ہوگا۔

۸۴

۴۳۰۔ امام علی (ع):کچھ گروہ بہشت بریں کی طرف (دوسروں پر) سبقت لے جائینگے کہ جو دوسروں کی نسبت نہ زیادہ نماز و روزہ کے پابند اور نہ ہی حج و عمرہ بجالائے ہوں گے لیکن انہوںنے مواعظ الٰہی کو سمجھ لیا تھا۔

۴۳۱۔ امام صادق(ع): جو عقلمند ہوگا انشاء اللہ اس کا خاتمہ جنت پر ہوگا۔

۴۳۲۔ محمد بن عبد الجبار: نے امام جعفر صادق(ع) کے شاگردوں میں سے کسی ایک سے نقل کیا ہے کہ میں نے آپکی خدمت میں عرض کیا: عقل کیاہے؟ فرمایا: جس سے خدا کی عبادت کیجائے اور جنت حاصل کیجائے، میںنے کہا: وہ چیز جو معاویہ میں تھی؟ فرمایا: وہ چالاکی اور شیطنت ہے، جو عقل کی شبیہ ہوتی ہے لیکن عقل نہیں ہے۔

ق۔ ہر کام میں بھلائی

۴۳۳۔ امام علی (ع): عقل کے ذریعہ ہر کام کی بھلائی ہے ۔

۴۳۴۔ امام علی (ع): عقل ہر کام کی اصلاح کرتی ہے ۔

ر۔ دنیا و آخرت کی بھلائی

۴۳۵۔ امام علی (ع): عقل نیکیوں کا سرچشمہ ہے ۔

۴۳۶۔ امام علی (ع): عقل کے سبب نیکیاںحاصل ہوتی ہیں۔

۴۳۷۔ امام علی (ع): ہر دلیری کو عقل کی ضرورت ہے ۔

۴۳۸۔ امام علی (ع): عقل نفع بخش ہے ،علم سر فرازی ہے اور صبر دفاع کرنے والا ہے ۔

۸۵

۴۳۹۔ امام علی (ع): عقلمندی سے کام لو تاکہ( منزل مقصود ) تک پہنچ جاؤ۔

۴۴۰۔ امام حسن (ع): عقل کے ذریعہ دنیا و آخرت حاصل ہوتی ہے اور جو عقل سے محروم ہوگا وہ آخرت سے بھی محروم ہوگا۔

۴۴۱۔ امام زین العاب دین (ع): عقل نیکیوںکی رہبر ہے ۔

۴۴۲۔ عبد اللہ بن عجلان سکونی: کا بیان ہے میں کہ نے امام محمد باقر(ع) کی خدمت میں عرض کیا: جب میں چاہتا ہوں کہ مال کو صلہ رحم کے عنوان سے اپنے دوستوں کو عطا کروں، تو انہیں کس طرح عطا کروں؟ فرمایا: دین کی راہ میں ہجرت اور عقل وفہم کی بنیاد پر انہیں عطا کرو۔

۴۴۳۔ اما م صادق(ع): کام کا آغاز اور اسکی ابتدا اور اس کا استحکام و آبادکاری عقل کے باعث ہے وہ عقل کہ جسے خدا نے بندوںکی زینت اور ان کے لئے نورانیت کا سبب قرار دیا ہے ۔

۴۴۴۔ امام کاظم (ع): اے ہشام! وہ شخص جو مال کے بغیربے نیازی ، حسد سے دل کی حفاظت اور دین میں سلامتی چاہتا ہے اسے چاہئے کہ بارگاہ احدیت میں گڑ گڑائے اور اس سے عقل کے کامل ہونے کی دعا کرے، اس لئے کہ جو عقلمند ہو جاتا ہے جو کچھ اس کے پاس ہے اس پر قناعت کرتا ہے اور جوقناعت کرتا ہے وہ بے نیاز ہے ۔

۸۶

۵/۳

وہ اشیاء جن سے عقل آزمائی جاتی ہے

الف: عمل

۴۴۵۔ امام علی (ع): عمل کی کیفیت سے عقل کی مقدار کا اندازہ ہوتا ہے ، لہذا اس کے لئے بہترین عمل کا انتخاب کرو اور اسے قوی و محکم بناؤ۔

۴۴۶۔ امام علی (ع): اچھی گفتگو اور اچھے عمل کے مالک بنو چونکہ انسان کی گفتگو اسکی فضیلت کی نشانی ہے اور اس کا عمل اسکی عقلمندی کی دلیل ہے ۔

۴۴۷۔ امام علی (ع): جو شخص اپنے کاموں کو بحسن وخوبی انجام دیتا ہے اپنی فراوانی عقل کا پتہ دیتاہے ۔

۴۴۸۔ امام علی (ع): عاقل وہ ہے جس کے افعال اس کے اقوال کی تصدیق کریں۔

ب: کلام

۴۴۹۔ امام علی (ع): انسان کا کلام اسکی عقل کی کسوٹی ہے ۔

۴۵۰۔ امام علی (ع): فی البدیہ گفتگو کے وقت انسان کی عقل کی آزمائی جاتی ہے ۔

۴۵۱۔ امام علی (ع): انسان جو کچھ اپنی زبان پر جاری کرتا ہے اس سے اسکی عقل کا اندازہ ہوتا ہے ۔

۴۵۲۔ امام علی (ع): ہر شخص کی زبان اسکی عقلمندی کا پتہ دیتی ہے اور اس کا بیان اسکی فضیلت پر دلالت کرتا ہے ۔

۴۵۳۔ امام علی (ع): زبان ایسی میزان ہے جسے عقل سنگین اور نادانی سبک بناتی ہے ۔

۸۷

۴۵۴۔ امام علی (ع): ایسے کلام سے اجتناب کرو کہ جس کی روش سے ناواقف اور حقیقت سے ناآشنا ہو۔ کیوں کہ تمہاری گفتگو تمہاری عقل کی نشانی اور تمہاری باتیں تمہاری میزان معرفت کا پتہ دیتی ہےں۔

۴۵۵۔ امام علی (ع): انسان جو کچھ اپنی زبان پر جاری کرتا ہے اس کے ذریعہ اسکی عقل پر دلیل قائم کی جاتی ہے ۔

۴۵۶۔ امام علی (ع): انسان کی گفتگو اسکی عقل کی نشانی ہے اور انسان کے نسب کی دلیل اس کا عمل ہے ۔

۴۵۷۔ امام علی (ع): جو شخص اپنی زبان پر قابو نہیں رکھتاوہ اپنی کم عقلی کو آشکار کرتا ہے ۔

۴۵۸۔ رسول خدا(ص): خدا نے جناب موسیٰ پر وحی کی : کہ بہت زیادہ باتیںکرکے بکواس کرنے والے نہ بنو، کیونکہ زیادہ باتیں علماء کے لئے باعث بدنامی ہیں اور کم عقلوں کی برائیوں کو آشکار کرتی ہیں ، لہذا میانہ روی سے کام لو؛ چونکہ میانہ روی کا سرچشمہ توفیق و درستی ہے ۔

ج: خاموشی

۴۵۹۔ امام علی (ع): خاموشی ،شرافت و نجابت کی نشانی اور عقل کا ثمرہ ہے ۔

۴۶۰۔ امام علی (ع): جو عقلمند ہو جاتا ہے وہ خاموش رہتا ہے ۔

۴۶۱۔ امام علی (ع): جو شخص خود کو فضول باتوں سے باز رکھتا ہے با عظمت افراد اسکی عقلمندی کی گواہی دیتے ہیں۔

۴۶۲۔ امام علی (ع): انسان کی عقلمندی کی علامت یہ ہے کہ ہر وہ چیز جسے جانتا ہے زبان پر جاری نہ کرے۔

۴۶۳۔ امام علی (ع): عاقل وہ ہے جو اپنی زبان کوصرف ذکر خدامیں مصروف رکھتا ہے۔

۴۶۴۔امام علی (ع): عقلمند زبان نہیںکھولتا مگر یہ کہ ضرورت کے وقت یا دلیل و برہان کےلئے۔

۸۸

د: رائے

۴۶۵۔ امام علی (ع): انسان کی رائے اسکی عقل کی میزان ہے ۔

۴۶۶۔ امام علی (ع): انسان کا گمان اسکی عقل کی میزان اور اس کا عمل اسکی اصل کا بہترین گواہ ہے ۔

۴۶۷۔ امام علی (ع): انسان کا گمان اسکی عقل کے مطابق ہوتا ہے ۔

۴۶۸۔ امام علی (ع): یقینا عقلمند اپنی عقل کے سبب رشد و ہدایت پر ہے اور اپنی رائے و نظر کے باعث ترقی پر ہے ، لہذااسکی رائے درست اور عمل قابل تعریف ہے ۔

ھ: قاصد

۴۶۹۔ امام علی (ع): تمہارا قاصد تمہاری عقل کا ترجمان ہوتا ہے اور تمہارا خط تمہارا بہترین ترجمان ہوتا ہے ۔

۴۷۰۔ امام علی (ع): تمہارا قاصد تمہاری عقل کا ترجمان اور تمہارا تحمل تمہاری بردباری کی دلیل ہے۔

۴۷۱۔ امام علی (ع): قاصد کی عقل اور اس کے ادب سے بھیجنے والے کی عقل پر دلیل قائم کی جاتی ہے ۔

و: لکھنا

۴۷۲۔ امام علی (ع): انسان کا خط اسکی عقلمندی کی نشانی اور اسکی فضیلت کی دلیل ہے ۔

۴۷۳۔ امام علی (ع):جب تم خط لکھو، اس پر مہر لگانے سے پہلے اسکی نظر ثانی کرلو: کیوں کہ اپنی عقل پر مہر لگا رہے ہو۔

۴۷۴۔ امام صادق(ع): انسان کے خط سے اسکی عقل و بصیرت پر برہان قائم کی جاتی ہے اور اس کے قاصد سے اسکی فہم و زیرگی کا اندازہ ہوتا ہے ۔

۸۹

ز: تصدیق اور انکار

۴۷۵۔ امام صادق(ع): اگر کسی بزم میں کسی شخص کی عقل کو آزمانا چاہتے ہو تو اپنی گفتگو کے دوران کسی محال چیز کا تذکرہ کرو اگر وہ اس سے انکار کرے تو وہ عاقل اور اگر تصدیق کرے تو احمق ہے۔

ح: دوست

۴۷۶۔ امام علی (ع): انسان کا دوست اسکی عقل کی دلیل ہے اور اس کا کلام اسکی فضیلت کی نشانی ہے ۔

۵/۴

عقل کا معیار

۴۷۷۔ رسول خدا(ص): سات چیزیں صاحبان عقل کی عقلمندی پر دلالت کرتی ہین: مال سے مالدار کی عقل کااندازہ ہوتا ہے، حاجت حاجتمند کی عقل پر دلالت کرتی ہے ؛ مصیبت مصیبت زدہ کی عقل پر دلالت کرتی ہے ، غضب غضبناک ہونے والے کی عقل پر دلالت کرتا ہے ، خط صاحب خط کی عقل پر دلالت کرتا ہے ، قاصد بھیجنے والے کی عقل پر دلالت کرتا ہے ۔ہدیہ ہدیہ دینے والے کی عقل پر دلالت کرتا ہے ۔

۴۷۸۔ رسول خدا(ص): انسان کی عقل کو تین چیزوں سے آزماؤ! اسکی داڑھی کی لمبائی ، اسکی کنیت اور اسکی انگوٹھی کے نگینہ کے نقش سے۔

۴۷۹۔ امام علی (ع): چھ چیزوں کے ذریعہ مردوں کی عقل آزمائی جاتی ہے، ہمنشینی، معاملات،منصب و مقام سے کنارہ کشی، غنیٰ اور فقر۔

۹۰

۴۸۰۔ امام علی (ع): چھہ چیزوں سے لوگوںکی عقلوں کو آزمایا جاتا ہے، غضب کے وقت بردباری ، خوف کے موقع پر صبر، خواہشات میںاعتدال، تمام حالات میں تقوائے الٰہی، لوگوں کےساتھ نیک برتاؤاور کم جنگ و جدال ۔

۴۸۱۔ امام علی (ع): تین چیزوں سے مردوں کی عقلیں آزمائی جاتی ہیں، مال، منصب اور مصیبت ۔

۴۸۲۔ امام علی (ع): انسان تین جگہوں پر بدل جاتا ہے ، بادشاہوں کی قربت ، منصب اور فقر سے نجات کے بعد، جو شخص ان تین حالات میں تبدیل نہ ہو وہ عقل سلیم اور بہترین اخلاق کا مالک ہے ۔

۴۸۳۔ امام علی (ع): تین چیزیں ارباب عقل پر دلالت کرتی ہیں، قاصد، خط اور ہدیہ۔

۴۸۴۔ امام علی (ع): عقلمند کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس میں تین خصلتیں موجود ہوں: جب اس سے سوال کیا جائے تو وہ جواب دے، جب لوگ کلام کرنے سے عاجز ہو جائیں تو وہ زبان کھولے ، اور ایسی رائے کا اظہار کرتا ہے کہ جس میں اس کے اہل کے لئے بھلائی ہوتی ہے ، پس جس شخص میں ان تین خصلتوں میں سے کوئی بھی نہ ہو وہ احمق ہے۔

۴۸۵۔ امام علی (ع): بے پناہ وقار اور نہایت صبر و تحمل کے ذریعہ انسان کی عقلمندی اور اچھے کردار سے اس کے نسب کی شرافت پر استدلال ہوتا ہے ۔

۴۸۶۔ امام علی (ع): لالچ اور آرزئیں جب فریب دیتی ہیں تو جاہلوںکی عقلیں دھوکا کھا جاتی ہیں اور مردوں کی عقلیں آزمائی جاتی ہیں۔

۴۸۷۔ امام علی (ع): عقل کی سنجیدگی خوشی و غم کے وقت جانچی جاتی ہے۔

۴۸۸۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے: عقل معاملات کے ذریعہ آشکار ہوتی ہے اور مردوںکی خصلت کا اندازہ ان کے منصب سے ہوتا ہے ۔

۹۱

۵/۵

عاقلوںکے صفات

۴۸۹۔ رسول خدا(ص): عاقل کی صفت یہ ہے کہ وہ نادانوںکی حماقت کو برداشت کرتا ہے ، جو اس پر ظلم کرتا ہے تو اس سے در گذر کرتاہے ، اپنے ما تحت لوگوں کے سا تھ تواضع سے پیش آتا ہے ، نیکیوں کے حصول میں اپنے سے بلند لوگوں پر سبقت لے جاتا ہے، جب کلام کرنا چاہتا ہے تو پہلے فکر کرتا ہے ۔ اگر کوئی خوبی ہوتی ہے تو زبان کھولتا ہے اور اس سے فائدہ حاصل کرتا ہے اور اگر بدی ہوتی ہے تو خاموشی اختیار کرتا ہے ۔اور محفوظ رہتاہے ، جب اس کے سامنے کوئی فتنہ آتا ہے تو ایسے موقع پر اللہ سے سلامتی چاہتا ہے اور اپنے ہاتھ اور زبان کوروکے رکھتا ہے ،اگر کوئی فضیلت دیکھتا ہے تو اسے حاصل کرنے کے لئے تیزی سے بڑھتا ہے ، شرم و حیا کو خود سے جدا نہیں کرتا اور حرص اس سے ظاہر نہیں ہوتی ان دس صفات کے ذریعہ عقلمند پہچانا جاتا ہے ۔

۴۹۰۔ رسول خدا(ص): نے(ان چیزوںکے متعلق کہ جن کا سر چشمہ عقل ہے) فرمایا: لیکن سنجیدگی ومتانت جن چیزوں کا سرچشمہ ہے ، وہ مہربانی ، دور اندیشی ، ادائے امانت ، ترک خیانت، صداقت، پاکدامنی ، ثروت، دشمن کے مقابلہ میں آمادگی ، برائیوں سے باز رہنا اور بیوقوفی کو ترک کرنا ہے یہ وہ صفات ہیں جو سنجیدگی و متانت کے سبب عقلمند کو نصیب ہوتی ہیں، پس خوش نصیب ہے وہ شخص کہ جو صاحب و قار ہے اور لا ابالی اور نادان نہیں ہے اور جس کا شعار عفو و بخشش اور نظر انداز کرنا ہے ۔

۴۹۱۔ رسول خدا(ص): عقلمند وہی ہے جو خدا کے امر و نہی کوسمجھ لیتا ہے۔

۴۹۲۔ رسول خدا(ص): عاقل تنہائی میں اپنی عقل کے سبب خوش ہوتا ہے اور نادان ، خودہی سے وحشت کرتا ہے؛ اس لئے کہ ہر شخص کا دوست اسکی عقل اور اس کا دشمن اسکی نادانی ہے ۔

۹۲

۴۹۳۔ رسول خدا(ص): عاقل، ہمیشہ خوبیوںکو کشف کرتا ہے اگر چہ لوگوں کے درمیان رسوا کن عیب ہو۔

۴۹۴۔ رسول خدا(ص): عقلمند نہایت خوفزدہ ہوتا ہے اور اسکی امیدیں اور آرزوئیں کم ہوتی ہےں۔

۴۹۵۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے ۔ عاقل جب کلام کرتا ہے تو اس کا کلام حکمت آمیز اور ضرب المثل کے ساتھ ہوتا ہے اور احمق جب کلام کرتا ہے تو قسم کے ساتھ ہوتا ہے ۔

۴۹۶۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے، عاقل صالحین سے رشک کرتا ہے تاکہ ان سے ملحق ہو جائے اور انہیں دوست رکھتا ہے تاکہ انکی دوستی کے سبب انکا شریک ہو جائے اگر چہ عمل میں انکے مانند نہ ہو۔

۴۹۷۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے، عاقل ، بیوقوفوں کی عیش و آرام کی زندگی کی نسبت عقلمندوں کی سخت زندگی سے زیادہ مانوس ہوتا ہے۔

۴۹۸۔ امام علی (ع): عقلمند وہ ہے جو دوسروں میں عبرت ڈھونڈتا ہے ۔

۴۹۹۔ امام علی (ع): عقلمند ، کمال کی جستجو میں ہوتا ہے اور جاہل ، مال کی تلاش میں ۔

۵۰۰۔ امام علی (ع): عقلمندوہ ہے جو علم ہوتے ہی ٹھہر جاتا ہے ۔

۵۰۱۔ امام علی (ع): عاقل وہ ہے جب علم ہوتا ہے تو عمل کرتا ہے، جب عمل کرتا ہے توخلوص کےساتھ اور جب خلوص اختیار کرتاہے تو کنارہ کش ہو جاتا ہے ۔

۵۰۲۔امام علی (ع): عقلمند وہ ہے جو اپنی رائے پر شک کرے اور اسکا نفس جو کچھ اس کےلئے مزین کرتا ہے اس پر اعتماد نہ کرے۔

۹۳

۵۰۳۔ امام علی (ع): عاقل وہ ہے جو ناراضگی اور رغبت و خوف کے وقت اپنے نفس پر قابو رکھتا ہے ۔

۵۰۴۔ امام علی (ع): عاقل وہ ہے جو اپنی زبان کو غیبت سے محفوظ رکھتا ہے ۔

۵۰۵۔ امام علی (ع): عاقل جب خاموش ہوتا ہے تو سوچتا ہے، جب زبان کھولتا ہے تو ذکر خد اکرتا ہے اور جب دیکھتاہے تو عبرت حاصل کرتا ہے ۔

۵۰۶۔ امام علی (ع): عقلمند اپنی لذت کا دشمن اور جاہل اپنی شہوت کا غلام ہوتا ہے ۔

۵۰۷۔ امام علی (ع): عقلمند وہ ہے جو اپنی شہوت کو کچل دیتا ہے۔

۵۰۸۔ امام علی (ع): عقلمند خواہشات نفسانی کے اسباب پر غالب ہوتا ہے ۔

۵۰۹۔ امام علی (ع): عاقل وہ ہے جو عقل کے ذریعہ اپنی خواشات نفسانی کا گلا گھونٹ دیتا ہے ۔

۵۱۰۔ امام علی (ع): عاقل اپنے عمل پر اعتماد کرتا ہے اور جاہل اپنی آرزوپر۔

۵۱۱۔ امام علی (ع): عاقل ، عاقل سے الفت پیدا کرتا ہے اور جاہل ، جاہل سے۔

۵۱۲۔ امام علی (ع): عقلمند وہ ہے کہ جن چیزوں سے جاہل رغبت رکھتا ہے وہ ان سے بیزار رہتا ہے۔

۵۱۳۔ امام علی (ع): سختی عقلمند کو افراط پرنہیں ابھارتی اور ناتوانی اسے کام سے نہیں روکتی۔

۵۱۴۔ امام علی (ع): عاقل وہ ہے جو اپنے کام کو محکم رکھتا ہے۔

۵۱۵۔ امام علی (ع): عاقل اپنے کام میں سعی و کوشش کرتا ہے اور اپنی آرزؤوں کا دامن کوتاہ رکھتا ہے ۔

۵۱۶۔امام علی (ع): عاقل پر جو چیزیں و اجب ہیں ان کے متعلق اپنے نفس سے باز پرس کرتا ہے اور جو چیزیں اس کے لئے منفعت بخش ہیں ان کے متعلق خود کو زحمت میں نہیں ڈالتا۔

۹۴

۵۱۷۔ امام علی (ع): عاقل وہ ہے جو مغفرت کے ذریعہ گناہوںکی پر دہ پوشی کرتا ہے ۔

۵۱۸۔ امام علی (ع): عاقل وہ ہے جو قضائے (الہی) کے سامنے سراپا تسلیم ہوتا ہے اور دور اندیشی سے کام لیتا ہے۔

۵۱۹۔ امام علی (ع): عاقل وہ ہے جو سخاوت کرتاہے ۔

۵۲۰۔ امام علی (ع): عقلمند خود کو ناچیز شمار کرتا ہے لہذا بلند ہو جاتا ہے ۔

۵۲۱۔ امام علی (ع): عقلمند تہذیب و ادب کے ذریعہ نصیحت حاصل کرتا ہے اور چو پائے مارکے ذریعہ ۔

۵۲۲۔ امام علی (ع): یقینا عقلمند وہ ہے کہ جس کی نظر مستقبل پر ہوتی ہے ۔ اور اپنی نجات کے لئے کوشش کرتا ہے اور جس چیز سے چھٹکارا نہیں ہے اس کو انجام دیتا ہے ۔

۵۲۳۔ امام علی (ع): عقلمند لالچ کافریفتہ نہیں ہوتا۔

۵۲۴۔ امام علی (ع): ہر عقلمند محزون ہوتا ہے ۔

۵۲۵۔ امام علی (ع): عقلمند مہموم و مغموم ہوتا ہے ۔

۵۲۶۔ امام علی (ع): ہر عاقل مغموم ہوتا ہے ۔

۵۲۷۔ امام علی (ع): عاقل کے لئے ہرکام میں نیکی ہے اور جاہل ہمیشہ نقصان میں ہے ۔

۵۲۸۔ امام علی (ع): ہوا و ہوس کا ترک کرناعاقلوںکی عادت ہے ۔

۵۲۹۔ امام علی (ع): عقلمندوںکی پہچان یہ ہے کہ ان میں شہوت و غفلت کم ہوتی ہے۔

۵۳۰۔ امام علی (ع): عاقل کا سرمایہ اس کے علم و عمل میں ہے اور جاہل کا سرمایہ اس کے مال و آرزو میں ہے ۔

۵۳۱۔ امام علی (ع): حکمت ، عاقل کی گمشدہ ہے ، لہذا حکمت جہاں بھی وہ عاقل کا حق ہے۔

۵۳۲۔ امام علی (ع): عاقل کوحکمت سے شغف ہوتاہے اور جاہل کوحماقت سے۔

۹۵

۵۳۳۔ امام علی (ع): عاقل اپنی حکمت کے باعث بے نیاز اور اپنی قناعت کے سبب معزز ہوتا ہے۔

۵۳۴۔ امام علی (ع): عاقل اپنے علم کے باعث بے نیاز ہوتا ہے۔

۵۳۵۔ امام علی (ع): عاقل کا سینہ اس کے اسرار کا صندوق ہے ۔

۵۳۶۔ امام علی (ع): عاقل کی زبان اس کے قلب کے پیچھے ہوتی ہے اور احمق کا قلب اسکی زبان کے پیچھے ہوتا ہے۔

۵۳۷۔ امام علی (ع): احمق کا قلب اس کے دہن میں ہوتا ہے اور عاقل کی زبان اس کے قلب میں ۔

۵۳۸۔ امام علی (ع): عاقل کا کلام غذا ہے اور جاہل کا جواب خاموشی ہے ۔

۵۳۹۔ امام علی (ع): جاہل کی ناراضگی اس کے کلام سے اور عاقل کی ناراضگی اس کے عمل سے آشکار ہوتی ہے۔

۵۴۰۔ امام علی (ع): عاقل اس وقت تم سے قطع تعلق ہوتا ہے جب تمہارے اندر حیلہ گری پیدا ہو جاتی ہے۔

۵۴۱۔ امام علی (ع): عاقل کی جوانمردی اس کا دین ہے اور اس کا حسب اس کا ادب ہے ۔

۵۴۲۔ امام علی (ع): عاقل کی سلطنت اسکی خوبیوں کو نشر کرتی ہے ۔

۵۴۳۔ امام علی (ع): عاقل کے علاوہ بیوقوفوں سے کوئی در گذرنہیں کرتا۔

۵۴۴۔ امام علی (ع): عاقل کا نصف تحمل اور دوسرا نصف تغافل ہے۔

۵۴۵۔ امام علی (ع): جو کچھ تمہارے اورپر گذرے اسے برداشت کرو کیوں کہ برداشت کرنے سے عیوب چھپے رہتے ہیں اور بیشک عاقل کا نصف تحمل اور دوسرا نصف تغافل ہے۔

۵۴۶۔ امام علی (ع): عاقل کے سوا کوئی خود کو حقیر نہیں سمجھتا ، صاحب کمال کے علاوہ کوئی خود کو ناقص نہیں شمار کرتا اور جاہل کے سوا اپنی رائے سے کوئی خوش نہیں ہوتا۔

۹۶

۵۴۷۔ امام علی (ع): نادان کو سرزنش نہ کرو کہ وہ تمہارا دشمن ہو جائیگا اور عقلمند کو سرزنش کرو کہ وہ تم سے محبت کریگا۔

۵۴۸۔ امام علی (ع): اپنے عقلمند دشمن پر نادان دوست سے زیادہ اعتماد کرو۔

۵۴۹۔ امام علی (ع): عقلمند کی دشمنی ، نادان کی دوستی سے بہتر ہے ۔

۵۵۰۔ امام علی (ع): مہربان عاقل سب سے زیادہ لوگوںکی حاجت کو محسوس کرتا ہے ۔

۵۵۱۔ امام علی (ع): تم پر صبر لازم ہے چونکہ عاقل اسے اختیارکرتا ہے اورجاہل گریز کرتا ہے ۔

۵۵۲۔ امام علی (ع): عاقل کی دردناک سرزنش اسکی لغزشوں کی طرف اشارہ کرنا ہے ۔

۵۵۳۔ امام علی (ع): اگر تم نے عاقل سے کنایہ میںکوئی بات کہی تو گویا دردناک صورت میں اسکی سرزنش کی ۔

۵۵۴۔ امام علی (ع): عاقلوں کی سزا، کنایہ ہے ۔

۵۵۵۔ امام علی (ع): عاقل سے تعریض کی صورت میں کوئی بات کہنا، اسکی بدترین سر زنش ہے ۔

۵۵۶۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے۔ عاقل کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ وہ ایسی باتیں زبان پر نہیں لاتا کہ جن کی وجہ سے اس کو جھٹلایا جا سکے۔

۵۵۷۔ امام علی (ع):عاقل دنیا میں گرانبار ہے اور احمق سبکدوش ہے۔

۵۵۸۔ امام علی (ع): مرد تین طرح کے ہوتے ہیں: عاقل، احمق اور فاجر، عاقل کا مذہب دینداری ہے اسکی سرشت بردباری اور فکر و رائے اسکی فطرت ہے، جب اس سے سوال کیا جاتا ہے تو جواب دیتا ہے جب کلام کرتا ہے تو درست ہوتاہے اور جب سنتا ہے تو اسے قبول کرتا ہے، جب گفتگو کرتا ہے تو سچ بولتا ہے اور جب کوئی اس پر اعتماد کرتا ہے تو وفا کرتا ہے ۔احمق، جب کسی اچھے کام سے آگاہ ہوتا ہے تو غفلت برتتا ہے، جب اسے کسی اچھے مقام سے نیچے لایاجاتا ہے تو وہ نیچے آجاتا ہے، جب اسے نادانی کی طرف ابھارا جاتا ہے تو وہ نادانی پر اتر آتا ہے، جب گفتگو کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے اور جب اسے سمجھایا جاتا ہے تو وہ آگاہ نہیں ہوتا وہ کچھ نہیں سمجھتا ہے۔ فاجر ،کو جب امانتداربناؤ گے تو وہ تم سے خیانت کریگا ، اگر اسکی ہمنشینی اختیار کروگے تو وہ تمہیں رسو اکریگا اور اگر اس پر اعتماد کروگے تو وہ تمہارا خیر خواہ نہیں ہوگا۔

۹۷

۵۵۹۔ امام حسن (ع): عقلمند سے جو نصیحت چاہتا ہے وہ اسے دھوکا نہیں دیتا۔

۵۶۰۔ امام حسن (ع): میں تمہیں خبر دیتا ہوں ایسے بھائی کے بارے میں جو میری نظر میں لوگوں میں سب سے افضل تھااور وہ چیز کہ جس کے سبب میری نظر میں افضل تھا وہ دنیا کا اسکی نظر میں ہیچ ہونا ہے......وہ جہالت کے تسلط سے خارج تھا اور اپنے ہاتھ اطمینان بخش منفعت ہی کے لئے بڑھاتا تھا۔

۵۶۱۔ اما م حسین (ع): جب عاقل پر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ دور اندیشی کے سبب اندوہ کو دور کرتاہے اور عقل کو چارہ سازی کی طرف ابھارتا ہے ۔

۵۶۲۔ امام صادق(ع): عقلمند بخشنے والا اور جاہل فریبکار ہے ۔

۵۶۳۔ امام صادق(ع): صاحب فہم و عقل ، درد مند، محزون اور شب زندہ دار ہوتا ہے ۔

۵۶۴۔ اما م صادق(ع): عقلمند ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا۔

۵۶۵۔امام صادق(ع): مصباح الشریعہ میں آپ سے منسوب کلام میں ہے ، عقلمند حق کو قبول کرنے میںمنکسر، قول میں منصف اور باطل کے مقابل سرکش ہوتاہے اور اپنے کلام سے حجت قائم کرتا ہے ، دنیا کو ترک کر دیتا ہے اور اپنے دین سے دستبردار نہیں ہوتا۔

۵۶۶۔ امام صادق(ع): عقلمند کسی کو سبک نہیں شمار کرتا ۔

۵۶۷۔ امام صادق(ع): مصباح الشریعہ میں آپ سے منسوب کلام میں ہے ، عاقل ایسی باتیں نہیں کرتاکہ عقلیں جن کا انکار کریں، تہمت کی جگہوں پر نہیںجاتااور جس شخص کے سبب گرفتار ہے اس کے ساتھ بھی نرمی کو نظر انداز نہیں کرتا۔

۹۸

۵۶۸۔ امام کاظم (ع):نے ہشام بن حکم سے فرمایا: اے ہشام! عاقل، حکمت کے ہوتے ہوئے دنیا کی تھوڑی پونجی پر بھی راضی رہتا ہے لیکن تھوڑی حکمت کے ساتھ دنیا کو قبول نہیں کرتالہذا سکی تجارت نفع بخش ہے ۔

اے ہشام! عقلاء نے دنیا کی فضیلتوں کو ٹھکرادیا ہے چہ جائیکہ گناہوںکو ! حالانکہ ترک دنیا مستحب اور ترک گناہ واجب ہے ....اے ہشام ! عقلمند جھوٹ کی خواہش کے باوجود جھوٹ نہیں بولتا ہے ......۔

اے ہشام! عاقل اس شخص سے کلام نہیں کرتا کہ جس سے اپنی تکذیب کا خوف ہوتا ہے اور اس شخص سے کوئی حاجت طلب نہیںکرتا کہ جس سے یہ ڈر ہوتا ہے کہ منع کر دیگا، جو اسکی قدرت میں نہیں ہے اس کا وعدہ نہیں کرتا، جس چیز کی آرزو کے سبب اسکی سرزنش ہوتی ہے اسکی تمنا نہیں کرتا اور اپنی عجز و ناتوانی کے باعث جس چیز کے چھوٹنے کا ڈر ہوتا ہے اس کا اقدام نہیںکرتا۔

۵۶۹۔ امام کاظم (ع): نے ہشام بن حکم سے، فرمایا: اے ہشام ! ہر چیز کی ایک علامت ہے اور عقلمند کی علامت تفکر ہے ، اور تفکر کی علامت خاموشی ہے، ہر شی کے لئے ایک سواری ہوتی ہے اور عاقل کی سواری تواضع ہے ، تمہاری جہالت کے لئے یہی کافی ہے کہ جس سے تمہیں روکا گیا ہے اس کو انجام دیتے ہو۔

اے ہشام ! اگر تمہارے ہاتھ میں اخروٹ ہو اور لوگ اسے موتی کہیں توتمہیں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا جبکہ تمہیں اخروٹ کا علم ہے ، اور اگر تمہارے ہاتھ میں موتی ہواور لوگ اسے اخروٹ کہیں تواس سے تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچیگا جبکہ تمہیں موتی ہونے کا علم ہے ۔

اے ہشام! خدا نے اپنے انبیاء و مرسلین کو لوگوں کی طرف نہیں بھیجا مگر یہ کہ خدا کی معرفت حاصل کریں، لوگو ں میں خدا کی اچھی معرفت رکھنے والا انبیاء و مرسلین کو سب سے بہتر طریقہ پر قبول کرتا ہے، اور سب سے اچھی عقل رکھنے والا احکام الہی کا سب سے بڑا عالم ہے اور سب سے بڑ ے عقلمند کادنیا و آخرت میں سب سے بلند مرتبہ کا ہوگا۔

۹۹

اے ہشام! ہر بندہ کی پیشانی کو ایک فرشتہ پکڑے ہوئے ہے جو بھی ان میں سے خاکساری کرتا ہے خدا اسے بلند کردیتا ہے اور جو تکبر کرتا ہے خدا اسے پست کر دیتا ہے ۔

اے ہشام! لوگوں پر خدا کی دو حجتیں ہیں! ظاہری حجت اور باطنی حجت ، حجت ظاہری انبیاء و مرسلین اور ائمہ ہیں اورحجت باطنی، عقلیں ہیں۔

اے ہشام ! عاقل وہ ہے کہ جسے حلال کام شکر گذاری سے روگرداں نہیں کرتا اور حرام اس کے صبر پر غالب نہیں ہوتا۔

اے ہشام ! جس نے تین چیزوں کو تین چیزوں پر مسلط کیا گویا اس نے عقل کی نابودی کےلئے خواہشات نفس کی مدد کی جس نے اپنی فکر کی روشنی کو طولانی آرزؤں کے ذریعہ تاریک، اپنی فضول کلامی کے سبب حکمت کی خوبیوںکو محو اور خواہشات نفسانی کے باعث اپنے نور عبرت کو خاموش کر دیا ہے، ایسے شخص نے گویا اپنی عقل کی تباہی کےلئے اپنی ہوا و ہوس کی مدد کی اور جس نے اپنی عقل کو تباہ کر دیاگویا اس نے اپنے دین و دنیا کو برباد کردیا۔

اے ہشام! کس طرح تمہارا عمل خدا کی بارگاہ میں شائستہ قرار پا سکتا ہے حالانکہ تم نے اپنی عقل کو امر پروردگار سے منحرف کر رکھا ہے اور اپنی عقل پر خواہشات کو غالب کرنے میں اسکی پیروی کی ہے ؟!

اے ہشام ! تنہائی پرصبرکرنا، عقل کی توانائی کی علامت ہے ، پس جو بھی خدائے تبارک و تعالیٰ کی معرفت رکھتا ہے وہ دنیا پرست اور اہل دنیا سے کنارہ کش ہوجاتا ہے ، اور خدا کے پاس جو کچھ ہے اسکی طرف مائل ہوتا ہے خدا و حشت میں اس کا مونس، تنہائی میں ساتھی ، تنگدستی میں بے نیازی اور حسب و نسب نہ ہونے کے باوجود اسے عزت دینے والا ہے ۔

اے ہشام! مخلوق، خدا کی اطاعت کےلئے پیدا کی گئی ہے ، اور طاعت کے بغیرنجات نہیں ہے اور طاعت علم کے سبب، علم ، تحصیل کے باعث اور تحصیل کا تعلق عقل سے ہے۔علم، خدا رسیدہ عالم کے بغیر حاصل نہیںہو سکتا اور خدا رسیدہ عالم کے لئے معرفت عقل کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

اے ہشام! عاقل کا کم عمل قابل قبول اور کئی گنا ہے ، لیکن نفس پرست اور جاہل کا کثیر عمل قابل قبول نہیںہے ۔

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258