‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) جلد ۴

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) 23%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 254

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 254 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 73364 / ڈاؤنلوڈ: 3704
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) جلد ۴

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

خدا کے لئے ظالموں سے جنگ کریں_ خدا کے لئے عدل و انصاف کو پھلائیں اور مظلوموں اور محروموں کی مدد کریں_ یہاں تک کہ اپنے سونے اور کھانے پینے کو بھی خدا اور اس کی رضا کے لئے قرار دیں اور خدا کے سوا کسی کی بھی پرستش نہ کریں اور اگر وہ ایسا کریں تو سعادتمند ہوجائیں گے_

آیت قرآن

( ان لّا تعبدوا الّا الله انّی اخاف علیکم عذاب یوم الیم ) ''

خدا کے سوا کسی کی پرستش نہ کرو کہ میں تم پر اس دن کے دردناک عذاب سے ڈرتا ہوں (سورہ ہود آیت ۲۶)

سوچئے اور جواب دیجئے

۱) ___ مادی نظر یے کے مطابق انسان کا مستقبل کیا ہے؟ کیا اس نظریے میں انسان جوابدہ و ذمہ دار سمجھا جاتا ہے؟ آیا اس نظریے میں اعمال انسانی کے لئے کوئی معیار موجود ہے کہ جس سے اس کے اچھے اور برے اعمال کو معین کیا جاسکے؟

۲)___ مادّی تصوّر کائنات میں کائنات کو کس قسم کا موجود سمجھا جاتا ہے؟

۱۲۱

۳) ___ پیغمبروں کا نظریہ انسان کے متعلق کیا ہے؟ اور وہ اسے کس قسم کا موجود تصور کرتے ہیں؟

۴)___ پیغمبروں کا تبلیغ کے سلسلہ میں پہلا کلام کیا ہوتا تھا؟

۵)___ پیغمبروں کی نگاہ میں انسان کی شرافت کی بنیاد کیا ہے؟

تمام بدبختیوں کی بنیاد کیا ہے؟ اور کیوں؟

۶)___ پیغمبروں کی نظر میں صالح اور مومن انسان کا مستقبل کیا ہے؟

۷)___ تمام پیغمبروں کی دعوت اور تبلیغ کا محور اور اساس کون سے اصول ہیں مثال دیجئے؟

۸)___ پیغمبروں کی نگاہ میں لوگوں کی اصلاح کس راستے سے ضروری ہے؟

۹)___ پیغمبروں کا مقصد و ہدف کیا ہے؟ اور وہ اس عالی ہدف تک پہنچنے کے لئے لوگوں سے کیا چاہتے تھے؟

۱۲۲

پیغمبروں کی خصوصیات

خدا کے پیغمبر لائق اور شائستہ انسان تھے کہ جنہیں اس نے انسانوں میں منتخب کیا یہ صاحب لیاقت اور صالح افراد بہت سی خصوصیات کے حامل تھے ان میں سے بعض کو یہاں بیان کیا جاتا ہے_

خدا سے وحی کے ذریعہ ارتباط

پیغمبر(ص) خدا کے کلام اور پیغام کو سنتے تھے اور انہیں اچھی طرح سمجھتے تھے دین کے معارف اور حقائق، ہدایات اور اللہ کی گفتگ ان کے پاک دلوں پر وحی کی صورت میں نازل ہوتی تھی_

وہ خدا کی وحی کو اچھی طرح سمجھتے تھے اور اسے اپنے پاس محفوظ

۱۲۳

رکھتے تھے پھر بغیر کمی و زیادتی کے لوگوں کیلئے بیان کرتے تھے بعض پیغمبر اس فرشتہ الہی کا مشاہدہ بھی کرتے تھے جو اللہ کا پیغام پہنچانے کے لئے مامور تھے جبکہ بعض صرف اس کی آواز سنتے تھے_

یہ بات تو آپ کو معلوم ہے کہ پیغمبر جسم و جان کے لحاظ سے دوسرے انسانوں کی طرح تھے غذا کھاتے تھے، باتیں کرتے تھے، لوگوں کے درمیان آمد و رفت رکھتے تھے، عام انسانوں کی مانند حواس کی مدد سے چیزوں کو دیکھتے تھے، آوازوں کو سنتے تھے_

لیکن روحانی اور معنوی طور سے حقائق کو سمجھنے اور معارف دین کے سلسلہ میں عالم انسانوں سے کہیں زیادہ بلند درجے پر ہوتے تھے _

ان کا باطن اتنا پاکیزہ ہوتا تھا کہ وہ اپنے خدا سے رابطہ پیدا کرسکتے تھے اور عالم غیب کے حقائق اور معارف کو دریافت کرسکتے تھے اور اپنی چشم بصیرت سے جہان کی حقیقت اور باطن کا مشاہدہ کرتے تھے_ اللہ تعالی کے فرشتہ کو دیکھتے تھے اس کی آواز کو دل و جان سے سنتے تھے لیکن دوسرے انسان اس قسم کی طاقت اور استعداد نہیں رکھتے_

پیغمبر اس قسم کی لیاقت و قدرت رکھتے تھے کہ دین کے معارف اور حقائق کو جو اللہ تعالی کی جانب سے ان کے پاک و نورانی قلب پر نازل ہوتے ہیں سمجھ سکیں ان کی حفاظت و نگرانی کرتے ہوئے بغیر کسی کمی و زیادتی کے لوگوں تک پہنچا سکیں_

اس قسم کے ربط کو دین کی لغت اور اصطلاح میں ''وحی'' کہاجاتا ہے بہتر ہے کہ اس بات کو بھی جان لیں کہ وحی کا عمل تین طرح سے انجام

۱۲۴

پاتاہے_

پہلا یہ کہ فرشتہ الہی خدا کے پیغام کو لے کر قلب پیغمبر پر نازل ہو اور صرف اس کی آواز سن سکیں_

دوسرا یہ کہ پیغمبر، فرشتے کی آواز سننے کے ساتھ ساتھ اس کا مشاہدہ بھی کرتے ہیں_

تیسرا یہ کہ پیغمبر بغیر کسی واسطے کے حقائق دین کو خداوند عالم سے حاصل کرتے ہیں_

۲) گناہ اور غلطیوں سے پاک کرنا

پیغمبر ہر قسم کے گناہ اور برائیوں سے پاک ہوتے ہیں اور یہ عصمت و پاکیزگی ان کے اس علم و معرفت کے سبب ہوتی ہے کہ جو خداوند عالم نے انہیں عطا کیا ہے_

چونکہ پیغمبر برائیوں اور پلیدگی کو واضح طور پر سمجھتے تھے اس لئے کبھی بھی اپنے آپ کو گناہ اور معصیت سے آلودہ نہیں کرتے تھے_

پیغمبر اپنی گفتار میں سچے اور کردار و عمل میں کامل انسان تھے_

وحی کو سمجھنے اور بیان کرنے میں بھی خطاؤں سے پاک تھے یعنی اللہ کے پیغام کو صحیح ___ اور مکمل طور پر سمجھتے اور پھر اسے اسی صحیح اور مکمل صورت میں لوگوں تک پہنچاتے تھے_

لوگوں کی ہدایت و رہبری میں کسی قسم کی کوئی خطا غلطی اور انحراف

۱۲۵

نہیں کرتے تھے___ اور خداوند عالم کی ذات ان تمام مراحل اور حالات میں ان کی محافظ اور مددگار ہوتی تھی_

۳) خدا کی راہ میں پائیداری اور استقامت

پیغمبر ایمان اور یقین سے سرشار ہوتے تھے اور ان کی ذمہ اریاں اور مقصد اتنا واضح ہوتا تھا کہ جس میں وہ معمولی شک اور تردد کا بھی شکار نہ ہوتے تھے خدا اور جہان آخرت پر انہیں دل کی گہرائیوں سے یقین تھا_

وہ اپنی ذمہ داریوں سے مکمل طور پر آگاہ تھے اور اللہ تعالی کی رسالت اور اپنے فرائض کی انجام ہی میں ثابت قدم تھے حق کو پہچان چکے تھے اور اس میں انہیں کوئی شک و شبہ نہ تھا_

خدا کی بے پایاں قدرت پر تکیہ کرتے تھے اور دوسری کسی طاقت سے خوفزدہ نہیں ہوتے تھے اپنے فرائض و ذمہ داریوں کو مکمل طور پر کما حقہ انجام دیتے تھے اور اپنے حامیوں اور دوستوں کی کمی سے خوفزدہ نہیں ہوتے تھے_

دشمنو کی طرف سے پیدا کی جانے والی شدید مشکلات ان کے مصمم ارادے اور فولادی عزم میں معمولی سا بھی خلل پیدا نہیں کرپاتی تھیں اور آپ حضرات مشکلات دور کرنے میں پائیداری اور استقامت سے کوشش کرتے تھے_

ذیل میں ہم بعض پیغمبروں کی سعی و کوشش کے کچھ نمونوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں_

۱۲۶

حضرت ابراہیم (ع) کی استقامت

اس عظیم پیغمبر نے تن تنہا بت پرستی اور شرک کا مقابلہ کیا اپنے دور کے ظالم ترین اور طاقتور انسان نمرود کے سامنے ڈٹ گئے اس کی عظیم طاقت سے نہ ڈرے اور پوری قوت سے اس سے کہا _

خدا کی قسم تمہارے بتوں کو توڑ پھڑ ڈالوں گا''

اور پھر تن تنہا بتوں کے توڑنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے چھوٹے اور بڑے بت کدے کے بتوں کو توڑ کر زمین پر ڈھیر کردیا_

جب نمرود کے دربار میں آپ کو جلائے جانے کا حکم ملا تو ذرا سی بھی کمزوری اور پشیمانی کا اظہار نہ کیا اور اپنے صحیح عقیدے کے دفاع میں مستحکم اور ثابت قدم رہے_

یہاں تک کہ اس لمحہ بھی کہ جب آپ کو آگ میں ڈالا جارہا تھا معمولی کمزوری اور ناتوانی کا اظہار نہ کیا اور سوائے خدا کے کسی سے مدد طلب نہ کی آپ(ع) اس وقت بھی صرف اللہ کے لطف و کرم پر ایمان رکھے ہوئے تھے_

اپنے مقصد کی تکمیل کے لئے اپنے گھر بار کو چھوڑ دیا اور دوسری سر زمین کی طرف ہجرت کی اپنی بیوی اور بچے کو خشک و بے آب وادی میں تنہا چھوڑ گئے حضرت ابراہیم (ع) کی استقامت اس حد تک تھی کہ

قرآن انہیں ایک امت بتا رہا ہے اور ان کی اس طرح عمدہ تعریف کرتا ہے کہ:

حضرت ابراہیم (ع) تنہا ایک امت تھے اور مکمل طور پر خدا کے فرمانبردار تھے

۱۲۷

حضرت موسی (ع) و حضرت عیسی (ع) کی استقامت

حضرت موسی (ع) اپنے بھائی ہارون کے ساتھ اونی لباس پہنے اور ہاتھ میں عصا لئے فرعون کے محل میں داخل ہوئے اور بغیر کسی وحشت و اضطراب کے اس ظالم طاقتور سے فرمایا_

میں اللہ تعالی کی طرف سے رسول ہوں اور بجز حق اور کچھ نہیں بولتا_ اللہ تعالی کی طرف سے واضح اور روشن دلائل اور گوہیاں لایا ہوں بنی اسرائیل کو میرے ساتھ روانہ کردے_

سورہ اعراف آیت ۱۰۴، ۱۰۵

حضرت موسی (ع) بنی اسرائیل کو فرعون کے چنگل سے نجات دلانے کے لئے اس سے بر سر پیکار ہوگئے اور پوری استقامت سے ظالم فرعون کا خاتمہ کیا اور اس کے ظالم مددگاروں کو بھی ہلاک کردیا_

حضرت موسی (ع) نے ان مشکلات اور دشواریوں کے وقت جبکہ کسی طرف سے کوئی معمولی سی بھی امید نظر نہیں آرہی تھی اور پھر فرعون پوری قساوت سے بنی اسرائیل کا قتل عام کر رہا تھآ اور ان کی عورتوں کو لونڈی بنارہا تھا اپنے ماننے والوں سے یوں فرمایا_

اللہ تعالی سے مدد طلب کرو، صابر و محکم و مضبوط بنو اور جان لو کہ زمین اللہ کی ہے جسے چاہے اسے دے گا اور جان لو کہ پرہیزگاروں کی کامیابی یقینی ہے_

''سورہ اعراف ۷_ آیت۱۲۸''

۱۲۸

حضرت موسی (ع) کی قوم کا گویا صبر و حوصلہ ختم ہوچکا تھا آپ سے انہوں نے کہا: اے موسی (ع) تمہارے پیغمبری کے لئے مبعوث ہونے اور رسالت کے لئے چنے جانے سے پہلے بھی ہم فرعون کے ظلم و ستم کے سبب اذیتیں اٹھا رہے تھے وہی مصائب اب بھی ہم پر باقی ہیں_

حضرت موسی (ع) خدا کی فتح و نصرت پر اعتماد و ایمان رکھتے ہوئے فرماتے تھے_

خداوند عالم جلدی ہی تمہارے دشمنوں کو ہلاک کردے گا اور تمہیں ان کا جانشین قرار دے گا تا کہ تمہارے کردار و عمل کا جائزہ لے سکے''

سورہ اعراف۷، آیت ۱۲۹

حضرت عیسی (ع) بھی اپنے دشمنوں کے ساتھ مقابلہ پر اتر آئے اور ایک شہر سے دوسرے شہر اور ایک مقام سے دوسرے مقام پر ہجرت کرتے رہے جہاں بھی گئے لوگوں کو خداوند عالم کا پیغام سنایا اور لوگوں کو ظالم و جابر حکمران کے سامنے جھکنے سے روکا یہاں تک کہ آپ کے وجود کو دشمن برداشت نہ کرسکے اور آپ کے قتل کے لئے پھانسی کا پھندا بنایا گیا لیکن آپ کو پا نہ سکے تا کہ قتل کریں_ خداوند عالم نے انہیں آسمان پر اپنے خاص بندوں کا مقام عنایت کیا ہے_

حضرت محمد مصطفی (ع) کی استقامت

حضرت محمد مصطفی (ع) نے بھی یکہ و تنہا شرک و بت پرستی سے مقابلہ کیا

۱۲۹

اور پختہ و محکم ارادے سے آخری وقت تک کوشش کرتے رہے اور لاتعداد مشکلات اور دشواریوں کے باوجود پائیداری اور استقامت کا مظاہرہ کرتے رہے اور معمولی سی کمزوری اور تردد کا بھی اظہار نہ کیا_

اپنی کھلی دعوت کے پہلے مرحلے میں اپنے رشتہ داروں سے فرمایا میں االلہ کا پیغمبر ہوں اور اللہ تعالی کی طرف سے مامور ہوں کہ تمہیں گمراہی اور ضلالت سے نجات دلاؤں اور دنیا و آخرت کی خوش بختی اور سعادت تک پہنچاؤں جو شخص بھی مری مدد کا اعلان کرے گا اور اس عظیم کام میں میری نصرت کرے گا وہی میرا وزیر اور وصی ہوگا_

جیسا کہ آپ کو علم ہے کہ آپ(ع) نے اس بات کو تین مرتبہ دہرایا اور کسی نے سوائے علی ابن ابی طالب (ع) کے اس دعوت اور پکار کو قبول نہ کیا پیغمبر اسلام(ص) نے پورے یقین کے ساتھ حضرت علی (ع) کو اپنا وزیر اور وصی چن لیا_

ایک دن حضرت ابوطالب (ع) نے پیغمبر (ص) سے کہا کہ:

قریش کے سردار میرے پاس آئے تھے اور کہہ رہے تھے کہ تیرا بھتیجا محمد(ص) ہمارے بتوں کی توہین کرتا ہے اور ہمیں اور ہمارے باپ دادا کو جو بت پرست تھے گمراہ کہتا ہے اب ہم ان باتوں کو برداشت نہیں کرسکتے انہوں نے مجھ سے خواہش کی ہے کہ تم کو سمجھاؤں تا کہ اس کے بعد تم بتوں اور بت پرستوں پر تنقید نہ کرو''

حضرت رسول خدا(ص) اپنے مقصد پر کامل ایمان رکھتے تھے اور اپنی

۱۳۰

الہی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لئے ثابت قدم تھے لہذا اپنے چچا سے فرمایا:

چچا جان: میں اس راہ سے ہرگز نہ ہٹوں گا اور لوگوں کو خداپرستی اور توحید کی دعوت دینا نہیں چھوڑوں گا میں اپنی رسالت کے پیغام کو پہنچانے میں کوتاہی نہیں کرسکتا میں اپنی کامیابی تک اس کام کو انجام دیتا رہوں گا_

ایک دفعہ اور قریش کے سردار، جناب ابوطالب کے پاس آئے اور کہا:

اے ابوطالب(ع) تم ہمارے قبیلہ کے بزرگ ہو تمہارا احترام ہمارے اوپر لازم ہے لیکن تمہارے بھتیجے نے ہماری زندگی اجیرن کردی ہے_ اگر اسے اس کام کے بجالانے پر فقر و محتاجی نے مجبور کیا ہے اور وہ مال و دولت چاہتا ہے تو ہم حاضر ہیں کہ بہت زیادہ مال اس کے حوالہ کریں اور اگر اسے جاہ و جلال اور مقام کی تمنّا ہے تو ہم حاضر ہیں کہ اسے اپنا سردار اور حاکم تسلیم کرلیں_

مختصراً یہ کہ ہم حاضر ہیں جو بھی وہ چاہتا ہے اسے دیں تا کہ وہ ان باتوں سے دستبردار ہوجائے_

جناب ابوطالب (ع) نے حضرت رسول خدا(ص) سے جو اس موقع پر موجود تھے کہا کہ اے بھتیجے تم نے سن لیا کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں؟

پیغمبر(ص) نے فرمایا:

چچا جان خدا کی قسم اگر یہ میرے دائیں ہاتھ پر سورج

۱۳۱

اور بائیں ہاتھ پر چاند رکھ دیں تب بھی میں ہرگز اپنی دعوت سے دستبردار نہیں ہوں گا_

چچا جان میں ان سے صرف ایک چیز کی خواہش کرتا ہوں کہ یہ لوگ '' لا الہ الّا اللہ'' کہیں اور نجات پاجائیں_

پیغمبر اسلام(ص) اپنی دعوت کے تمام مراحل میں ان تمام مشکلات اور دشمنوں کی یلغا اور سختیوں کے مقابلے میں عزم و استقلال کے ساتھ ڈٹے رہے_ آپ نے اپنے کردار و عمل سے تمام مسلمانوں اور خداپرستوں کو صبر و استقامت کا درس دیا_

آیت قرآن

''( قل انّما انا بشر مثلکم یوحی اليّ انّما الهکم اله واحد فمن کان یرجوا لقاء ربّه فلیعمل عملا صالحا وّ لا یشرک بعباده ربّه احدا ) ''

''سورہ کہف آیت آخر''

کہدو کہ میں تمہاری طرح کا بشر ہوں مجھ پر وحی ہوتی ہے تمہارا خدا ایک ہے جو شخص بھی اپنے پروردگار کے دیدار کا امیدوار ہوا سے چاہیئے کہ وہ عمل صالح انجاک دے اور کسی کو بھی پروردگار کی عبادت میں شریک قرار نہ دے _

۱۳۲

سوچئے اور جواب دیجئے

۱)___ وحی کسے کہتے ہیں؟

۲)___ کیا پیغمبر جسم و روح کے لحاظ سے دوسرے انسانوں کی طرح تھے؟

۳)___ پیغمبر وحی کے حاصل کرنے اور پہنچانے میں معصوم تھے اس جملہ کا مطلب بتایئے

۴)___ اس درس میں پیغمبروں کی جو خصوصیات بیان کی گئی ہیں انہیں بیان کیجئے؟

۵)___ پیغمبروں کا اپنے ہدف پر ایمان و استقامت کا کوئی نمونہ بیان کریں؟

۶)___ حضرت موسی (ع) کے زمانہ میں طاغوت ( ظالم حکمران) کون تھا حضرت موسی (ع) کیسے اس کے ساتھ اس کے محل میں داخل ہوئے_

۷)___ حضرت موسی (ع) نے اپنے جاننے والوں کو خدا پر اعتماد اور صبر و استقامت کے بارے میں کیا فرمایا ؟

۸)___ پیغمبر اسلام (ص) نے کفار کو جو آپ کو صلح کی دعوت دیتے تھے کیا جواب دیا؟

۱۳۳

باب چہارم

پیغمبر اسلام (ص) اور آپ(ص) کے اصحاب کے بارے میں

۱۳۴

ایمان و استقامت

عمّار کا خاندان (گھرانہ) قرآنی آیات اور پیغمبر (ص) کی دل نشیں گفتار سن کر اور آپ کے کردار کو دیکھتے ہی پیغمبر اسلام(ص) کی نبوت اور دعوت بر حق پر ایمان لے آیا تھا اور دعوت اسلام کے ابتدائی مراحل میں مسلمان ہوچکا تھا

ابوجہل، جو کہ مكّہ کے بار سوخ اور مستکبرین میں شمار ہوتا تھا جب اسے عمّار کے خاندان کے مسلمان ہوجانے کی اطلاع ملی تو وہ بہت غضبناک ہوا اور جب عمار کو دیکھا تو انہیں بہت ملامت اور سرزنش کی اور ان سے کہا کہ

میں نے سنا ہے کہ تم بت پرستی کو ترک کر کے مسلمان ہوگئے ہو؟''

عمّار نے جواب دیا ''

ہاں میں نے، میرے ماں باپ اور بھائیوں نے

۱۳۵

حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی گفتگو سنی_ ان آیات میں جو وہ خدا کی طرف سے لائے ہیں، غور کیا ان کی دعوت کو حق جانا اور اسے قبول کرلیا ہے_

ابوجہل نے چلّاکر کہا: تمہیں کیا حق پہنچتا ہے کہ مكّہ کے بزرگوں اور سرداروں کی اجازت کے بغیر محمد(ص) کے دین کو قبول کر لو تم عقل اور فکر سے عاری ہو تمہیں چاہیئے کہ بزرگوں اور سرداروں کے تابع بنو وہ تم سے بہتر سمجھتے اور جانتے ہیں

ہم مزدور اور محنتی لوگ بھی عقل و شعور رکھتے ہیں اور تم سے بہتر سمجھتے ہیں مال اور مقام نے تمہیں اندھا کردیا ہے کہ اتنے واضح حق کو نہیں دیکھ رہے ہو لیکن ہم نے اچھی طرح جان لیا ہے کہ محمد(ص) خدا کے پیغمبر(ص) ہیں اور وہ اللہ تعالی کے بھیجے ہوئے رسول ہیں اور ہماری ہدایت اور نجات کے لئے آئے ہیں خدا اور اس کا پیغمبر ہماری بھلائی کو تم سے بہتر طور پر سمجھتا ہیں، ہمارا ہمدرد تو پیغمبر(ص) ہے تم مالدار اور ظالم لوگ نہیں_

تم پہلے کی طرح ہم سے بے گارلینا چاہتے ہو اور ہمارے ہاتھ کی محنت ہڑپ کرنا چاہتے ہو لیکن اب وہ زمانہ گیا خداوند عالم نے ہمارے لئے دل سوز اور مہربان رہبر بھیجا ہے تا کہ تم جیسے ظالموں اور غارتگروں سے نجات دلائے

۱۳۶

اور دنیا و آخرت کی عزت اور سعادت تک پہنچائے ہم نے اس کی رہبری کو قبول کرلیا ہے اور تمام وجود سے اس کے مطیع ہیں اور ہم ہی کامیاب رہیں گے_

ابوجہل کو اس قسم کے جواب کی توقع نہیں تھی اس لئے سخت غصّے میں آیا اور جناب عمّار کو مارنا شروع کردیا_ ابوجہل کے غلاموں نے بھی اس کی مدد شروع کردی اور ڈنڈوں اور کوڈوں سے مار مار کر عمّار کے جسم کو نیلا کردیا_ جناب عمّار اس حالت میں بھی خدا کو یاد کرتے اور اللہ اکبر کہتے رہے_

جناب عمّار کا گھرانہ ایک غریب اور مستضعف گھرانا تھا بلکہ میں آپ کے کوئی عزیز و اقارب بھی نہیں تھے کہ جن کی مدد و حمایت حاصل کرتے اسی وجہ سے قریش کے سرداروں اور مكّہ کے متکبرو نے پكّا ارادہ کرلیا تھا کہ اس گھرانے کے بے یار و مددگار افراد کو اتنی ایذا پہنچائیں کہ وہ اسلام سے دستبردار ہوجائیں یا جان سے جائیں_

قریش کے سرداروں نے انہیں ڈرانا، دھمکانہ، مارنا، پیٹنا، اور برا بھلا کہناشروع کردیا_ عمار کے والد یاسر اور والدہ ''سمیہ'' کو وقتاً فوقتاً مارا پیٹا کرتے تھے اور ان سے چاہتے تھے کہ وہ دین اسلام سے دستبردار ہوجائیں اور پیغمبر اسلام(ص) کو برا بھلا کہیں اور گالیاں دیں (نعوذ باللہ)

مگر کیا عمار جیسے لوگ پیغمبر خدا کو گالیاں دے سکتے تھے؟ اور کیا ایمان سے دستبردار ہوسکتے تھے؟

آیئےپ کو بتائیں کہ اس وقت جب ان پر کوڑے برسائے

۱۳۷

جاتے تھے تو وہ کیا کہتے تھے وہ کہتے تھے،

کس طرح ممکن ہے کہ ہم اللہ کے راستے کو چھوڑ دیں جب کہ اسی نے ہمیں حق کا راستہ دکھایا ہے ہم تمہارے ظلم و ایذا و سختی پر صبر کریں گے خدا ہمارے صبر و استقامت کو دیکھ رہا ہے اور وہ صبر کرنے والوں کو بہترین جزا دے گا_''

''سورہ ابراہیم ۱۴ آیت سورہ نحل ۱۶ آیت''

ابوجہل ان کے قریب آیا اور عمار اور ان کے والد یاسر، ماں سمیہ اور بھائی عبداللہ سے کہا کہ:

اسلام سے دستبرد ار ہوجاؤ اور محمد(ص) کو برا بھلا کہو اور گالیاں دو ورنہ تم اسی جگہ ختم کردیئے جاؤگے_

ابوجہل کے حکم پر وحشی اور بھیڑ یا صفت انسانوں نے اس ایماندار اور بے یار و مددگار گھرانہ پر حملہ کردیا اور تا زیانوں، مکوں اور لاتوں سے انہیں مارنا شروع کردیا اتنا مارا کہ ان کا بدن لہو لہان ہوگیا اور وہ نڈھال و بے ہوش ہوکر زمین پر گرپڑے لیکن اس کے باوجود جب انہیں ہوش آیا تو ''اللہ اکبر'' کا کلمہ ان کی زبان پر جاری تھا اور زخمی و خون آلود چہرے سے کہہ رہے تھے_

اشهد ان لا اله الا الله و اشهد ان محمد رسول الله

پھر ان کے ہاتھ اور پاؤں کو باندھ دیا گیا اور ان کے بدن

۱۳۸

تپتے ہوے پتھروں اور گرم ریت پر ڈال کر ان کے سنیوں پر بڑے اور بھاری پتھر رکھ دئے گئے ان پیاروں کے بدن گرم ریت اور حجاز کی جلتی دھوپ میں جل رہے تھے، پگھلے جا رہے تھے لیکن ان کی تکبیر اور شہادت کی آواز اسی طرح سنی جارہی تھی:

تم سے جتنا ہوسکتا ہے ہمیں آزار و تکلیف پہنچاؤ ہم نے اللہ تعالی کا راستہ دلائل سے پالیا ہے اور اپنے پروردگار پر ایمان لے آئے ہیں اور کبھی بھی اس راستے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے تم ہمارے ایمان تک پہنچ نہیں سکتے صرف ہمارے بدن کو ایذا پہنچا سکتے ہو ہم خدا پر ایمان لے آئے ہیں تا کہ وہ گناہوں کو بخش دے اور ہمیں آخرت کے بلند درجات میں جگہ عنایت فرمائے اور آخرت کا اجر و ثواب ہمیشہ رہنے والا ہے_

عمّار کے وال اسی ظلم و تشدد کے سبب شہادت کے بلند مرتبہ پر فائز ہوگئے اور مسلمانوں کو اپنے صبر و استقامت سے دینداری اور صبر کا درس دے گئے_

سميّہ سے جو اپنے شوہر کی شہادت کو دیکھ رہی تھیں کہا گیا کہ محمد(ص) کو برا بھلا کہو اور گالیاں دو سميّہ نے جواب دیا:

ہم نے اپنا راستہ پالیا ہے اور حضرت محمد(ص) پر ایمان لے آئے ہیں اور آپ کی رہبری کو قبول کرلیا ہے

۱۳۹

ہم ہرگز اپنے مقصد سے دستبردار نہیں ہوں گے

ابوجہل نے جو اس بزرگ خاتوں کے منہ توڑ جواب سے ناچار ہوگیا تھا اور غصّہ کی شدّت میں پیچ و تاب کھا رہا تھا اپنے نیزے کو اس طرح اسلام کی اس بزرگ خاتون پر مارا کہ وہ زمین پر گر گئیں اور اسی حالت میں ''اللہ اکبر، لا الہ الا اللہ کہتے ہوئے خالق حقیقی سے جاملیں اور شہادت کے بلند مرتبہ پر فائز ہوگئیں، سميّہ اسلام کی پہلی خاتون ہیں جو اسلام کے راستے میں شہادت کے درجے پر فائز ہوئیں_

عمّار کے ماں باپ شہد ہوگئے لیکن پھر بھی گا ہے بگا ہے آپ کو ایذا پہنچائی جاتی تھی برسوں تکلیفیں و ایذائیں سہنے کے بعد وہ مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے وہاں رہ کر مجاہدین اسلام کی صفوں میں شامل ہوکر دشمنوں سے جنگ کرتے تھے_ پیغمبر خدا(ص) کی وفات کے بعد جناب عمّار امیرالمومنین (ع) کے باوفا دوستوں میں شمار ہوتے تھے آپ کے ساتھ جنگ میں شریک ہوتے تھے یہاں تک کہ صفنین کی جنگ میں بہادری کے ساتھ لڑتے ہوئے شہاد ت پر فائز ہوگئے_

بے شمار درود و سلام ہو آپ پر اور آپ کے ماں باپ پر اور اسلام کے تمام شہداء پر کہ جو خدائے واحد پر ایمان کے راستے میں پائیدار اور ثابت قدم رہے اور ذلت و خوادری کو قبلو نہ کیا اور جاہلیت کے طور طریقوں کی طرف نہ پلٹے اور ظلم و ستم کے سامنے سرتسلیم خم نہ کیا اور ظالموں کی حکومت اور ولایت پر خدا کی حکومت اور ولایت کو ترجیح دی_

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

ترجمہ : انسانوں ميں ايسے لوگ بھى ہيں جنكى باتيں زندگانى دنيا ميں بھلى لگتى ہيں اور وہ اپنے دل كى باتوں پر خدا كو گواہ بناتے ہيں حالانكہ وہ بد ترين دشمن ہيں ، كو حضرت على (ع) سے منسوب كر دے اور'' و من الناس من يشرى نفسہ بتغاء مرضات اللہ واللّہ رئوف با العباد '' سورہ بقرہ آيت ۲۰۷كو جو حضرت على (ع) كى شان ميں نازل ہوئي تھى اسكے متعلق ايك حديث رسول (ص) سے منسوب كر كے امير المومنين كے قاتل ابن ملجم كے نام كر دے ، سمرہ بن جندب نے قبول نہيں كيا _

معاويہ نے مزيد دو لاكھ درہم بھجوائے پھر بھى قبول نہيں كيا ليكن جب معاملہ چار لاكھ درہم تك پہونچ گيا تب جا كر سمرہ بن جندب نے رسول اكرم (ص) سے جھوٹى حديث ان آيتوں كے سلسلے ميں گڑھى اور لوگوں سے بيان كيا(۱)

معاويہ كے مقابلے ميں بعض دليروں كا كردار

پرو پيگنڈے كى جنگ اتنى خطرناك تھى كہ ايمان كى اساس طوفان كے زد پر اكر فنا ہو رہى تھى ، اور بعض صحابہ و تابعين نے معاويہ كى آواز پر لبيك كہہ كر اپنا خوب پيٹ بھرا_

مملكت اسلامى كے با رسوخ افراد مسلمانوں كے بيت المال سے خريدے جانے لگے اور ان لوگوں كو خوب سونے اور چاندى كى تھيلياں دى جانے لگيں يا كسى حكومتى عہدے پر فائز كر ديا گيا ، مگر ايك چھوٹا سا گروہ تھا جس نے دين و شرافت كو مد نظر ركھتے ہوئے معاويہ كى ہونكارى نہيں بھرى تھى ، ان لوگوں كو اتنا ستايا گيا كہ انھوں نے اپنى جان و مال سب كچھ راہ خدا ميں قربان كر ديا _

جس كا نتيجہ يہ ہوا كہ ہزاروں جھوٹى حديثيں منظر عام پر اگئيں اور اسلامى معاشرہ تاريك ماحول ميں چلا گيا ، ان گڑھى ہوئي حديثوں كے ہوتے ہوئے كون انسان اسلام حقيقى كو پہچان سكتا تھا اور دوسرے يہ كہ وہ ہزاروں افراد جو متقى و پرہيزگار تھے وہ سختيوں كو جھيل كر موت كے دامن ميں سو چكے تھے _

ہم نے اس سے پہلے ان لوگوں كا تذكرہ كيا ہے جنھوں نے معاويہ كے دام فريب ميں اكر جھوٹى حديثيں گڑھيں كہ انہى ميں ايك سمرہ بن جندب ہے ، يہ وہ شخص ہے جو معاويہ كے اشارے پر ناچتا رہا جسكى وجہ سے اسكو بصرہ كى حكومت ملى تھى _

سمرہ كى اور سياہكاريوں كو چھوڑ كر صرف جو كوفہ ميں تباہياں اور قتل و غارتگرى كا اس نے بازار گرم كيا تھا ، اسكو طبرى يوں بيان كرتا ہے _

____________________

۱_شرح نہج البلاغہ ج۱ ص ۳۶۱

۱۸۱

مشہور عالم ابن سيريں سے پوچھا گيا كہ سمرہ بن جندب نے كسى كو قتل كيا ہے يا نہيں سيرين نے جواب ديا ، تم لوگ سمرہ كے قتل كو شمار كر لو گے ؟

ايك مرتبہ زياد نے بصرہ ميں اپنا جا نشين بنا ديا تو چھہ مہينے كے اندر اس نے اٹھ ہزار بے گناہ مسلمانوں كو قتل كيا جن ميں پينتاليس افراد وہ تھے جو حافظان قران تھے(۲)

طبرى مزيد كہتا ہے ، جب معاويہ نے زياد كى جگہ سمرہ بن جندب كو چند مہينے تك حاكم بصرہ بنا كر معزول كر ديا تو اس نے كہا ، خدا معاويہ كو غارت كرے ، خدا كى قسم ، ميں نے جس طرح معاويہ كے حكم كو مانا تھا اگر اسى طرح اپنے پروردگار كى اطاعت كرتا تو ہرگز مستحق عذاب نہ ہوتا(۳)

انھيں ميں دوسرا ضمير فروش مغيرہ بن شعبہ تھا ، جس نے سات سال كچھ مہينے كوفہ پر حكومت كى اور ايك لمحہ بھى حضرت على (ع) اور قاتلان عثمان پر نفريں كئے بغير اور عثمان كے حق ميں دعا كئے بغير چين و سكون سے نہيں بيٹھا _

البتہ مغيرہ اپنى چالاكى و ذہانت كيوجہ سے حكومتى امور كو كبھى نرميت اور خاطر مدارات كے ذريعے تو كبھى سختى سے انجا م ديتا تھا _

طبرى لكھتے ہيں :

ايك روز مغيرہ بن شعبہ نے صحابى امام (ع) صعصہ بن صوحان سے كہا ، ذرا كان كھول كر سن لو ، ايسا نہ ہو كہ ايك دن تمھارى خبر عثمان كى بد گوئي كرتے ہوئے ميرے كانوں تك پہونچے ، اگر على (ع) كے فضائل كو بيان كرنا ہے تو علنى طور پر بيان نہ كرنا بلكہ مخفى مقام پر بيان كرنا جس طرح على (ع) كے فضائل تم جانتے ہو اسى طرح ميں بھى واقف ہوں ليكن كيا كروں حكومت اموى كى طرف سے ڈنڈا ہے كہ على (ع) كو برا بھلا كہو ، البتہ ميں نے اكثر مقامات پر ان امور ميں رو گردانى كى ہے مگر جہاں پر مجبور ہو جاتا ہوں تو اپنى محافظت كے لئے بعض جملے برائي كے كہہ ڈالتا ہوں ، اگر زياد ہ فضائل على (ع) كے بيان كرنے كا شوق ركھتے ہو تو اپنے قريبى رشتہ داروں كے گھروں ميں بيان كرنا مگر مسجد اور شاہراہ پر بيان كرنا ايك ايسا مسئلہ ہے جسكو خليفہ ( معاويہ ) برداشت نہيں كر سكتا ، اور نہ ہى اس سلسلے ميں ميرے عذر كو قبول كر سكتا ہے(۴)

____________________

۲_ طبرى ج۶ ص ۱۳۲ ، ابن اثير ج۳ ص ۱۸۹

۳_طبرى ج۶ ص ۱۶۴ ، ابن اثير ج۳ ص ۲۱۲

۴_طبرى ج۶ ص ۱۰۸

۱۸۲

اخر ى فرد زياد بن ابيہ كى ہے جس نے معاويہ كے حكم كو نافذ كرنے ميں بہت مشكلات كا سامنا كيا ہے ، حجر اور انكے ساتھيوں كے ساتھ جو اس نے سلوك كيا تھا اسكو اپ نے ملاحظہ فرمايا ليكن اس وقت اسى واقعہ كى ايك كڑى جو زياد اور صيفى بن فسيل كے درميان آيا تھا اسكو بيان كر رہا ہوں _

ايك روز زياد نے صيفى كو بلوايا اور اس سے كہا ، اے دشمن خدا تم ابو تراب كے بارے ميں كيا كہتے ہو ، صيفى نے كہا ، ابو تراب كس كا نام ہے _

زياد نے كہا _ تمھيں نہيں معلوم ہے ارے تم اچھى طرح سے ان كو پہچانتے ہو _

صيفى نے كہا _ مجھے نہيں معلوم ہے _

زياد نے كہا _ على بن ابيطالب كا لقب ہے _

صيفى نے كہا _ اچھا وہ ہيں _

ايك طويل مدت تك ايسے ہى مكالمہ ہوتا رہا ، اخر زياد نے چھڑى منگوائي اور صيفى سے كہا كہ اب بتائو تمھارا على (ع) كے بارے ميں كيا خيال ہے _

صيفى نے كہا ، اس بندئہ خدا ميں جو خوبى ہو گى اسى كو بيان كرونگا _

زياد نے اپنے جلادوں سے كہا كہ اسكو اتنا مارو كہ انكى گردن ٹوٹ جائے ، ان لوگوں نے صيفى كى خوب پٹائي كى _

زياد نے پھر پوچھا ، اب على (ع) كے بارے ميں كيا كہتے ہو _

صيفى نے كہا خدا كى قسم ، اگر تم لوگ مجھے تلوار سے ٹكڑے ٹكڑے بھى كر دو گے تو وہى كہوں گا جو انكى خوبى كى علامت ہے _

زياد نے كہا _ اگر على (ع) پر نفرين نہيں كرو گے تو تمہارى گردن اڑا دو نگا _

صيفى نے جواب ديا _ تم ميرى گردن كو تن سے جدا كر سكتے ہو مگر جس چيز كو سننا چاہتے ہو اسكو ميرى زبان سے نہيں سن سكتے ہو ، ميں قتل ہو كر خوش نصيب بن جائو نگا اور تم قتل كر كے بدبخت ہو جائو گے _

يہ سننا تھا كہ زياد نے حكم ديا كہ اسكو زنجيروں ميں جكڑ كر قيد خانہ ميں ڈال ديا جائے اخر اس شخص ( صيفى ) كو بھى حجر اور انكے ساتھيوں كے ساتھ شھيد كر ديا گيا(۵)

____________________

۵_ طبرى ج۶ ص ۱۴۹ ، ابن اثير ج۳ ص ۲۰۴ ، اغانى ج ۱۶ ص ۷ ، ابن عساكر ج ۶ ص ۴۵۹

۱۸۳

،واقعہ يہ ہے كہ زياد نے حضر موت كے اطراف سے دو ادميوں كو معاويہ كے پاس بھيجا اور اس نے خط ميں يہ لكھا كہ يہ لوگ دين على (ع) اور انكے چاہنے والے ہيں _

معاويہ نے جواب ديا _ جو بھى دين على (ع) اور انكى اطاعت ميں ہے انكو قتل كر كے ان كى لاشوں كو پا ئمال كر دو _

زياد نے ان دونوں محبان على (ع) كو كوفے كے دار الامارہ پر سولى ديدى(۶)

ايك دوسرا خط معاويہ كے پاس يہ لكھا كہ ايك قبيلہ خثعمى كے فرد نے ميرے سامنے على (ع) كى مدح سرائي كى ہے اور عثمان كو

برے الفاظ سے ياد كيا ہے ، اس سلسلہ ميں تمھارا حتمى فيصلہ كيا ہے _

معاويہ نے جواب ديا _ اس شخص كو زندہ در گور كر دو ، زياد نے يہ كام معاويہ كے كہنے پر انجام ديا كہ لوگ خوف و دہشت كے مارے فضائل على (ع) كو بيان نہ كر سكيں(۷) _

مورخين نے زياد كى تباہكاريوں كے سلسلے ميں بہت كچھ تحرير كيا ہے خود ابن عساكر لكھتا ہے ، ايك روز زياد نے تمام اہل كوفہ كو دعوت دى جب مسجد كوفہ لوگوں سے بھر گئي تو زياد نے اس جم غفير كو حكم ديا كہ تم لوگ على (ع) پر نفريں كرو(۸) _

مسعودى لكھتے ہيں :

زياد نے اہل كوفہ كو اپنے قصر ميں بلايا اور ان لوگوں سے كہا كہ تم لوگ على (ع) كو برا بھلا كہو اور اپنے مامورين سے جتا ديا كہ اگر كوئي شخص على (ع) پر نفرين كرنے سے كترائے تو اسكى گردن فوراً اڑا دو مگر خوش قسمتى يہ رہى كہ اسى وقت مرض طاعون ميں مبتلا ہو گيا اور اس دنيا سے مر كھپ گيا اس طرح اہل كوفہ نے چين و سكون كى سانس لى(۹)

____________________

۶_ المحبر ص ۴۷۹

۷_طبرى ج۶ ص ۱۶۰ ، ابن اثير ج۳ ص ۲۰۹ ، ا غانى ج ۱۶ ص ۱۰ ، ابن عساكر ج۲ ص ۳۷۹

۸_ ابن عساكر ج۲ ص ۵۱۷

۹_ مروج الذھب ج۳ ص ۳۰

۱۸۴

عمرو بن حمق خزاعى كى ذات وہ تھى جن كا شماربہادروں ميں ہوتا تھا ، مگر حاكم كوفہ زياد نے انكے قتل كا فرمان جارى كر ديا تھا ، يہ امام عليہ السلام پر تبرا نہ بھيجنے كے ڈر سے جنگل ميں جا كر چھپ گئے ، ليكن حاكم كوفہ ( زياد ) كے ظالم سپاہيوں نے انكو چراغ كے ذريعہ ڈھونڈھنا شروع كيا اخر كار عراق كے تپتا صحراء كے ايك غار ميں انكو گرفتار كر ليا گيا اور حاكم كوفہ كى خدمت ميں پيش كيا گيا ، مگر عمر و بن حمق خزاعى نے امام (ع) كو كچھ نہ كہا جسكے بدلے ميں انكو زياد نے قتل كر ديا پھر انكے سر كو معاويہ كے پاس بھيجا اس نے حكم ديا كہ اس سر كو بازار ميں لٹكا ديا جائے تاكہ لوگ اس سر سے عبرت ليں _

چند دنوں بعد اس سر كو عمرو بن حمق كى بيوى كے پاس بھيجا گيا جو خود اسى محبت على (ع) كيوجہ سے قيد خانہ كى صعوبتوں كو برداشت كر رہى تھيں ، جب انھوں نے اپنے شوہر كے كٹے ہوئے سر كو ديكھا تو حسرت و ياس كے مارے يہ كہا ، كتنا زمانہ ہو گيا كہ تم لوگوں نے ميرے شوہر كو مجھ سے چھڑا ديا تھا ، ليكن اب اسكے سر كو ميرى خدمت ميں تحفہ بنا كر پيش كرتے ہو ارے يہ تحفہ بڑا قيمتى _(۱۰) _

بلاد اسلامى كے منبروں سے امير المومنين پر نفرين

امام عليہ السلام كے اصحاب كو صفحہ ہستى سے مٹانے كى كوشش اور جھوٹى حديثوں كے ذريعہ نيك كردار كو بد نام كرنا نيز بد كردار كو نيك كردار كرنے كى سازش يہ سارى كى سارى معاويہ كى سياست تھى جو تمام بلاد اسلامى ميں اگ كى طرح پھيل چكى تھى ، زياد بن ابيہ اور معاويہ كے ديگر حكمرانوں نے اس سياست كو تر ويج دينے ميں بہت مشكلات كا سامنا كيا تھا اور اس سلسلہ ميں مورخين نے ان حكمرانوں كى زيادتيوں اور تباہكاريوں كو بيان بھى كيا ہے _

يہ تمام تباہكارياں اور گندى سياست بنى اميہ كے دور ميں ديكھنے ميں اتى ہے ، كيونكہ ان لوگوں نے مسلمانوں كے ذہن و دماغ كو اسى لئے حقائق سے دور ركھا تھا تاكہ تمام بلاد اسلامى كے منبروں سے حضرت على (ع) كو برا بھلا كہا جائے اور صرف ايك سيستان كا صوبہ تھا جو معاويہ كے حكم كو نہيں مان رہا تھا اور ايك مرتبہ كے علاوہ اہل سيستان نے منبروں سے حضرت على (ع) كو برا بھلا نہيں كہا :

____________________

۱۰_ابن قتيبہ كى المعارف ص ۱۲۷ ، استيعاب ج۲ ص ۵۱۷ ، اصابہ ج۲ ص ۵۲۶ ، ابن كثير ج۸ ص ۴۸ ، المعبر ص ۴۹۰

۱۸۵

اس ايك مرتبہ كے بعد سيستانيوں نے اموى اركان خلافت سے عہد و پيمان كيا كہ ہم كو حضرت امير المومنين (ع) پر نفرين كرنے سے باز ركھا جائے ، درانحاليكہ اسى زمانے ميں شہر اسلامى كے دو مقدس ترين شھروں ( مكہ و مدينہ ) ميں منبروں سے امام (ع) پر لعنت بھيجى جا رہى تھى(۱۱)

ضمير فروش خطيبوں نے خاندان علوى (ع) كے سامنے امام (ع) بزرگوار پر لعن و طعن كى تھى جنھيں مورخين نے نقل كئے ہيں ،ليكن ميں ان تمام واقعات كو چھوڑتے ہوئے صرف ايك واقعہ پيش كر رہا ہوں _

ايك مرتبہ عمر و بن عاص نے منبر سے حضرت على (ع) كو خوب برا بھلا كہا ، جب يہ اترگيا تو اسكے بعد مغيرہ بن شعبہ منبر پر اگيا اور اس نے بھى امام (ع) كے حق ميں نا زيبا كلمات زبان پر جارى كئے ، درانحاليكہ اس مجلس ميں حضرت امام حسن مجتبى (ع) موجود تھے ، حاضرين نے امام (ع) سے ان دونوں ( عمر و عاص، مغيرہ ) كا جواب دينے كے لئے كہا :

انحضرت (ص) نے ايك صورت ميں جواب دينے كى پيشكش كو قبول كيا كہ اگر ميں حق بات كہوں تو تم سب ميرى تصديق كرنا اور اگر نا حق بات كہوں تو ( العياذ باللہ ) ميرى تكذيب كرنا ، امام عليہ السلام اس عہد و پيمان كے بعد منبر پر گئے اور حمدالہى كے بعد عمر واور مغيرہ سے خطاب كرتے ہوئے كہا كہ ، تم دونوں سے خدا كى قسم ديكر پوچھتا ہوں كہ آيا تم دونوں بھول گئے ہو جو رسول (ص) نے مہار پكڑنے والے كو اور مركب ہنكانے والے كو نيز سوار پر لعنت بھيجى تھى جن ميں ايك فلاں شخص ( معاويہ ) تھا(۱۲) _

حاضرين نے كہا اپ سچ كہتے ہيں :

دوسرى مرتبہ پھر عمر و عاص و مغيرہ كو مخاطب كرتے ہوئے كہا :

ايا تم دونوں كو معلوم نہيں ہے جو پيغمبر اسلام (ص) نے عمر و عاص كے ہر شعركے بيت پر لعنت بھيجى تھى(۱۳) ، تمام لوگوں نے كہا خدا كى قسم اپ سچ كہتے ہيں(۱۴) _

____________________

۱۱_ياقوت حموى ج۵ ص ۳۸ مطبوعہ مصر

۱۲_ سوار ابو سفيان، مہار تھامنے والا يزيد بن ابو سفيان نيز ہنكانے والا معاويہ تھا اور پيغمبر اسلام (ص) نے ان تينوں پر لعنت بھيجى تھي

۱۳_ عمر و عاص نے عصر جاہليت ميں ايك قصيدہ رسول (ص) كى مذمت ميں كہا تھا انحضرت نے بد دعا كر كے خدا وند عالم سے درخواست كى كہ اسكے ہر بيت پر ايك لعنت بھيجے

۱۴_ تطہير اللسان ص۵۵

۱۸۶

ليكن جو مومن اور اہلبيت عليہم السلام كے چاہنے والے تھے كبھى بھى خطبوں ميں نيز جس نشست ميں على (ع) كو برا بھلا كہا جاتا تھا اس ميں شريك نہيں ہوتے تھے ، اور قبل اسكے كہ خطبہ ديا جائے مسجد كو چھوڑ ديتے تھے _

يہى وجہ تھى جو معاويہ كے حكمرانوں نے حكم خدا و رسو ل(ص) كو بدل ديا تھا ، اور جس نماز ميں پہلے خطبہ تھا اسكو بعد ميں پڑھا گيا _

كتاب محلى ميں ابن حزم رقمطراز ہيں :

بنى اميہ كى حكومت ميں سب سے پہلے جو كام انجام ديا گيا وہ يہ تھا كہ خطبہ نماز كو نماز پر مقدم كر ديا گيا ، ان لوگوں نے اپنے نا مشروع فعل كى توجيہ و تاويل اس طرح كى كہ لوگ نماز ختم ہونے كے بعد چلے جاتے ہيں اور خطبہ كو نہيں سنتے ہيں _

ليكن حقيقت تو يہ ہے كہ ان لوگوں نے اتنا على (ع) كو برا بھلا كہا كہ نمازى اپنى نماز تمام كر كے مسجد سے بھاگ جاتے تھے اور مسلمان كا يہ فعل صحيح معنوں ميں درست و حق تھا(۱۵)

صحيح بخارى اور صحيح مسلم نيز حديث كى دوسرى معتبر كتابوں ميں ابو سعيد خدرى سے يوں نقل ہوا ہے _

ميں ( سعيد ) حاكم مدينہ مروان كے ساتھ عيد الاضحى يا عيد الفطر كى نماز عيد گاہ ميں پڑھنے گيا ، كثير بن صلت كے بنائے ہوئے منبر كے قريب جيسے ہى مروان پہونچا تو اس پر چڑھ گيا اور نماز سے پہلے خطبہ دے ڈالا ، ميں نے اسكو لاكھ روكا مگر وہ نہ مانا ، جب خطبہ ديكر مروان نيچے اترا تو ميں نے اس سے كہا كہ خدا كى قسم ، تم نے تو دين و شريعت كو بدل ڈالا ہے

مروان نے كہا ، اے ابو سعيد جن چيزوں كو تم بنام دين سمجھتے ہو وہ تمام كى تمام دنيا سے اٹھ گئي ہيں _

ابو سعيد نے كہا ، خدا كى قسم ، ان بدعتوں سے بھتر يہ تھا كہ كچھ جانتے ہى نہيں ، مروان نے كہا ، اگر نماز سے پہلے خطبہ نہ ديتے تو لوگ ميرے خطبے كو ہرگز نہيں سنتے اسى وجہ سے ميں نے نماز سے پہلے خطبہ ديديا ہے(۱۶)

____________________

۱۵_ محلى ج۵ ص ۱۸۶ ، امام شافعى ج۱ ص ۲۰۸

۱۶_بخارى ج۲ ص ۱۱۱ ، مسلم ج۳ ص ۲۰ ، سنن ابى داو د ج۱ ص ۱۷۸ ، ابن ماجہ ج۱ ص ۳۸۶ ، بيہقى ج۳ ص ۲۹۷ ، مسند احمد ج۳ ص ۲۰

۱۸۷

بعض لوگوں كا لعنت سے گريز خلافت اموى كے حكام و مامورين نے صرف عام لوگوں سے حضرت على (ع) پر لعنت نہيں بھجوائي ، بلكہ اصحاب رسول (ص) جو اسلام كى معرفت ركھنے كيوجہ سے زيادہ مستحق پيروى تھے ان سے بھى كہا كہ ميرے حكم كو مانيں اور على (ع) پر لعنت بھيجيں _

سہل بن سعد كہتے ہيں :

ايك روز ال مروان(۱۷) كے ايك حاكم نے مدينہ ميں مجھے طلب كيا اور ہم سے كہا كہ تم على (ع) پر لعنت بھيجو ، ميں نے حاكم مدينہ كى بات كو ٹھكرا ديا _

حاكم نے كہا اچھا ابو تراب(ع) پر لعنت بھيج دو _

سہل نے كہا ، حضرت على (ع) كو سارے ناموں ميں سب سے زيادہ محبوب نام ابو تراب(ع) تھا اور جب لوگوں نے اس نام سے ياد كيا تو اپ بہت خوش ہوئے _

حاكم مدينہ نے كہا _ مجھے اس نام كى داستان سے مطلع كرو اور خوش ہونے كا سبب بتائو ، ميں نے كہا ايك مرتبہ پيغمبر(ص)

اسلام جناب سيدہ(ع) كے گھر تشريف لائے اور على (ع) كو وہاں موجود نہ پاكر اپنى بيٹى سے پوچھا كہ تمھارے چچا زاد بھائي كہا ں ہيں _

فاطمہ(ع) نے كہا كہ ميرے اور ان كے درميان تھوڑا سا سخت كلامى ہو گئي ہے اور اسكے بعد انھوں نے گھر ميں ارام نہيں كيا اور باہر چلے گئے _

انحضرت (ص) نے ايك شخص سے كہا كہ جا كر ديكھوكہ على (ع) كہا ں ہيں اس نے جب مسجد ميں حضرت على (ع) كو ليٹے ہوئے ديكھا تو رسول اكرم (ص) سے جا كر كہا كہ وہ مسجد ميں سو رہے ہيں ، جب رسول اكرم (ص) نے على (ع) كو خاك ميں اٹے ہوئے ديكھا تو بڑى مہر بانى سے انكے جسم سے خاك كو جھاڑا اور كہا ، اٹھو ابو تراب ، اٹھو ابو تراب(۱۸)

____________________

۱۷_مقصود مروان بن حكم ہو گا

۱۸_صحيح مسلم ج ۷ ص ۱۲۴

۱۸۸

ابو تراب كے معنى مٹى كو دوست ركھنے والا ہے بنى اميہ نے يہ گمان كر ليا تھا كہ على (ع) كى يہ كيفييت ذليل و حقير ہے درانحاليكہ انكو يہ بھى نہ معلوم ہو سكا كہ يہ لقب خود على (ع) كے كمال كى دليل ہے جو اس طرح رسول (ص) اپ سے لطف و مہربانى سے پيش ارہے تھے ، ورنہ بنى اميہ لوگوں سے يہ نہ كہتے كہ ابو تراب(ع) پر لعنت بھيجو _

عامر بن سعد جو خود اس واقعہ كا چشم ديد گواہ ہے كہتا ہے :

ايك مرتبہ معاويہ نے ميرے باپ ( سعد ) كو اپنى خدمت ميں بلايا اور ان سے كہنے لگا كہ تم على (ع) كو برا بھلا كيوں نہيں كہتے ہو ؟

ميرے باپ نے جواب ديا كہ _ اے معاويہ جب تك مجھے يہ تين حديثيں ياد رہيں گى كبھى على (ع) كو برا بھلا نہيں كہہ سكتا ، اور رسول (ص) كى يہ حديثيں ميرى نظر ميں عرب كے سرخ رنگ كے اونٹوں سے زيادہ قيمتى ہيں _

۱_ جب رسول (ص) ايك جنگ ( تبوك ) ميں جا رہے تھے اور على (ع) كو ساتھ نہ لے گئے اور انكو شہر مدينہ كے منافقوں سے نپٹنے كے لئے چھوڑ ديا تھا تو اس وقت على (ع) نے بہت گريہ كيا اور انحضرت (ص) سے فرمايا : اے رسول(ص) خدا مجھے عورتوں اور بچوں كے درميان چھوڑ كر جاتے ہيں تو ميں نے اپنے كانوں سے رسول(ص) اكرم كو يہ فرماتے ہوئے سنا تھا ''اما ترضى ان تكون منى بمنزلة هارون من موسى الّا انه لا نبى بعدى ''

ترجمہ : آيا تم راضى نہيں ہو كہ تمھارا وہى مرتبہ ہے جو موسى كے لئے ہارون كا تھا فرق اتنا ہے كہ ميرے بعد كوئي نبى ہونے والا نہيں ہے _

۲_ دوسرى مرتبہ جنگ خيبر ميں كہتے ہوئے سنا تھا''لاعطينّ الراية غدا رجلا ً يحب الله و رسوله و يحبه الله و رسوله ''

ترجمہ : كل ميں اس مرد كو علم دوں گا جو خدا و رسول كو دوست ركھتا ہے اور خدا و رسول (ص) اسے دوست ركھتے ہيں ،ہم تمام لوگ گردنوں كو بلند كر كے رسول (ص) خدا كو ديكھنے لگے اپ (ص) نے فرمايا : على (ع) كہاں ہيں ؟

۱۸۹

حاضرين ان كو بلانے كے لئے دوڑے جبكہ على (ع) كے انكھوں ميں شديد درد تھا وہ اسى حالت ميں پيغمبر اكرم (ص) كى خدمت ميں لائے گئے ، انحضرت (ص) نے ان كى انكھوں ميں اپنا لعاب دہن لگايا پھر علم جنگ انكے ہاتھوں ميں ديا جسكے بعد خدا وند عالم نے انكو فتحيابى سے ہمكنار كيا _

مجھے وہ بھى وقت ياد ہے جب يہ آيت نازل ہوئي تھى ،كہ''فقل تعالوا ندع ابنا ئنا الخ_

ترجمہ : پس ان سے كہو كہ ائو اس طرح فيصلہ كر ليں كہ ہم اپنے بيٹوں كو لاتے ہيں تم اپنے بيٹوں كو لائو ، پيغمبر(ص) اسلام نے على (ع) ، فاطمہ(ع) ، حسن(ع) ، حسين(ع) كو بلايا اور كہا ، اے ميرے مالك يہى ہمارے اہلبيت(ع) ہيں _

مسعودى سعد بن وقاص اور معاويہ كى ملاقات كو طبرى سے يوں نقل كرتا ہے _

جب معاويہ حج كرنے كے لئے مكہ آيا تو سعد بن وقاص سے طواف كعبہ كے وقت ملاقات ہوئي ، جب طواف كر چكا تو سعد كو ليكر دار الندوہ ( جو عصر جاہليت ميں بزرگان قريش كے اجتماع كى جگہ تھى ) آيا اور سعد سے كہا كہ تم على (ع) پر لعنت بھيجو ، معاويہ كى اس بات پر سعد كو اتنا غصہ آيا كہ اپنى جگہ سے كھڑے ہو گئے اور كہا :

اے معاويہ ، تو مجھے اسى لئے ليكر آيا ہے تاكہ على (ع) جيسے شخص پر لعن و طعن كروں خدا كى قسم ، اگر على كے فضائل و كمالات ميں سے ايك فضيلت ميرے اندر ہوتى تو دنيا كى تمام چيزوں سے زيادہ محبوب و قيمتى ہوتى(۱۹)

مسعودى نے اس واقعہ كو لكھنے كے بعد ايك عبارت پيش كى ہے جو اس واقعہ سے تھوڑا سا فرق ركھتى ہے_

سعد نے معاويہ سے كہا كہ ، خدا كى قسم ، جب تك زندہ رہو نگا تيرے گھر ميں قدم نہيں ركھوں گا يہ كہا اور اٹھ كھڑے ہوئے(۲۰)

ابن عبد ربہ اندلسى اپنى كتاب ميں لكھتے ہيں :

امام حسن (ع) مجتبى كى شہادت كے بعد معاويہ خليفہ بن كر مكہ حج كرنے گيا پھر مدينہ كى طرف رخ كيا اسكى اس سفر ميں يہ خواہش تھى كہ مسجد النبوى (ص) كے منبر سے على (ع) كو برا بھلا كہے_

____________________

۱۹_صحيح مسلم ج۷ ص ۱۲۰ ، ترمذى ج ۱۳ ص ۱۷۱ ، مستدرك ج۳ ص ۱۰۹ ، اصابہ ج۲ ص ۵۰۲

۲۰_مروج الذھب ج۳ ص ۲۴

۱۹۰

معاويہ كے اطرافيوں نے اس سے كہا ، اس شہر ( مدينہ ) ميں فاتح ايران اور با عظمت صحابى سعد بن وقاص رہتے ہيں ، وہ اس كام كو ہرگز ہونے نہيں ديں گے لہذا بہتر يہى ہے كہ انكے پاس جا كر ان سے پوچھ ليا جائے _

مامورين معاويہ، سعد كے پاس گئے جيسے ہى انھوں نے سنا تو ان لوگوں سے كہا _ اگر اس كام كو انجام ديا گيا تو ياد ركھو جس مسجد كے در سے على (ع) كو برا بھلا كہا گيا اس در ميں ہرگز قدم نہيں ركھےں گے_

يہ بات اس وقت واضح ہوگى جب ہميں يہ معلوم ہو جائے كہ مدينہ ميں مسجد نبوى (ص) كے بارے ميں گفتگو ہوئي تھى يا كوئي اور مسجد تھى _

معاويہ سعد كے نفوذ كے سامنے مات كھا گيا اورجب تك وہ زندہ رہے معاويہ اس كام كو انجام نہ دے سكا _

ليكن جب سعد بن وقاص اس دنيا سے چلے گئے تو معاويہ نے مدينہ كے اندر بار ديگر سعى و كوشش كى اور امام على (ع) كو مسجد نبوى (ص) كے منبر سے گالى دي_

يہى وہ دور تھا جس ميں معاويہ نے اپنے تمام كارندوں كو خط لكھا اور حضرت على (ع) پر تمام بلاد اسلامى كے منبروں سے لعن و طعن كروائي _

زوجہ رسول (ص) ام سلمى نے كئي خطوط معاويہ كے پاس بھيجے جن ميں ان باتوں كو لكھا اے معاويہ ، تو تمام منبروں سے على (ع) اور انكے ساتھيوں پر نفرين كروا رہا ہے جبكہ يہ نفرين خدا و رسول (ص) پر ہو رہى ہے _

ميں قسم كھاتى ہوں كہ خدا اور پيغمبر(ص) اسلام اسكو دوست ركھتے تھے ، مگر ام سلمى كے خط نے كوئي خاص اثر معاويہ پر نہيں ڈالا

۱۹۱

بلكہ اس نے ان خطوط كو ردى كى ٹوكرى ميں ڈال ديا تھا _(۲۱) _

معاويہ كا اخرى ہدف

جب بھى معاويہ اپنے حسب و نسب اور اپنے خاندان كے كرتوت پر (جو اسلام كے مقابلے ميں جنگ كى تھى )نظر دوڑاتا تھا تو شرم و حياء كے مارے اسكا سر جھك جاتا تھا اور يہ تمام چيزيں اسكى حيرانى و پريشانى كى باعث بن جاتى تھيں ، كيونكہ ايك طرف اسلام نے اس كو اور اسكے خاندان كو ضرب كارى لگا كر ذلت و رسوائي كے كھنڈر ميں ڈال ديا تھا _

دوسرى طرف اس كے ديرينہ رقيب بنى ہاشم شہرت كے فلك چہارم پر جا رہے تھے ، يہ تمام مشكلات اسكے ذہن و دماغ پر پہاڑ كى طرح بوجھ بنى ہوئي تھى ، جنكو ہلكا كرنے كے لئے اس نے اصحاب پيغمبر (ص) سے جنگ كى تھى _

ليكن ان تمام جنگوں ميں امير شام معاويہ كى يہى كوشش رہى كہ كہيں سے اپنے كينے كا اظہار نہ ہو كيونكہ ابھى حكومت نئي ہے ورنہ جان و مال خطرے ميں پڑ جائے گا ، ليكن جب ايك دن مغيرہ بن شعبہ كے ساتھ تنہائي ميں بيٹھا، چونكہ دونوں عصر جاہليت سے اپس ميں دوست تھے نيز سالہا سال دونوں سياہكاريوں و تباہكاريوں ميں ايك دوسرے كا ہاتھ بٹا رہے تھے تو معاويہ نے اپنى سياست كو فاش كر ديا _

كتاب الموفقيات ميں زبير بن بكار ، مطرف بن مغيرہ ، سے نقل كرتے ہيں ، ميں اپنے والد (مغيرہ ) كے ساتھ شام گيا ہم دونوں كا قيام معاويہ كے يہاں تھا ميرے والد ہر روز امير شام معاويہ كے پاس جا يا كرتے تھے اور جا كر گھنٹوں باتيں كيا كرتے تھے اور جب معاويہ كے پاس سے اتے تھے تو سارى باتوں كو بيان كرتے تھے _ايك دن معاويہ كے پاس سے آئے تو ميں نے كھانا حاضر كيا ، ليكن انھوں نے نہيں كھايا ، ميں اپنے دل ميں سوچنے لگا كہ كہيں ہم سے كوئي خطا تو سرزد نہيں ہو گئي ہے _

لہذا ميں نے اپنے باپ ( مغيرہ ) سے سوال كيا كہ اج كى شب اپ كيوں اتنا كبيدہ خاطر ہيں _

____________________

۲۱_عقد الفريد ج۳ ص ۱۲۷

۱۹۲

ميرے باپ نے جواب ديا كہ ، اے ميرے لال ، اج ہم خبيث ترين و كافر ترين شخص كے پاس سے ارہے ہيں _

ميں نے پوچھا وہ كون ہے ؟

ميرے باپ نے كہا ارے وہى معاويہ ہے اج اسكى مجلس اغيار سے خالى تھى ، تو ميں نے اس سے كہا كہ اے امير المومنين اپ تو اپنے ہدف تك پہونچ گئے ہيں _

لہذا اس بوڑھاپے ميں عدل و انصاف سے كام ليجئے اور اپنے رشتہ داروں ( بنى ہاشم ) پر رحم و كرم كيجئے تاكہ لوگ اپكى تعريف و تمجيد كريں _

خدا كى قسم ، اب ان لوگوں سے كسى چيز كا خوف نہيں ہے _

اس پر معاويہ نے كہا ، جو كچھ تم نے كہا ہے بہت مشكل ہے ، ابو بكر تخت خلافت پر آئے عدل و انصاف كيا تمام زحمتوں كو برداشت كيا مگر خدا كى قسم ، ايك موذن بھى ان كا نام اذان ميں نہيں ليتا ہے _

عمر خليفہ بنے دس سال كى طويل مدت تك سختيوں كو جھيلا مرنے كے بعد كوئي بھى ان كا نام ليوا نہيں ہے _

اخر ميں ہمارے بھائي عثمان تخت خلافت پربرا جمان ہوئے جو نسب كے اعتبار سے كوئي بھى ان كا ہم پلہ نہيں ہے اور جو كچھ كرنا تھا انھوں نے انجام ديا ليكن ان كے ساتھ كيسا حادثہ پيش آيا جسكى وجہ سے مار ڈالے گئے ، مگر ان كا بھى كوئي نام نہيں ليتا ہے ، اور لوگوں نے انكى كار كردگى كو بالائے طاق ركھ ديا ہے درانحاليكہ اس مرد ہاشمى ( محمد(ص) ) كا نام موذن ہر روز پانچ مرتبہ تمام بلاد اسلامى كے گلدستہ اذان سے ليتا ہے كہ

اشھد ان محمد رسول(ص) اللہ_

اے مغيرہ تم ہى فيصلہ كرو كہ ايسى صورت ميں كون سا اچھا كام اور كس كا نام باقى رہ سكتا ہے _

خدا كى قسم ، جب تك اس نام كو نہ مٹادونگا اس وقت تك چين و سكون سے نہيں بيٹھوں گا(۲۲) رسول خدا (ص) كى شہرت

عامہ سے معاويہ كا سينہ اگ كى بھٹى ہو رہا تھا ( كيونكہ معاويہ كے بھائي ، ماموں اور دوسرے رشتہ داروں كو جنگ بدر ميں مارا تھا ) لہذا اس نام كو مٹانے كے لئے اس نے ان دو سياستوں انتخاب كيا ، اسكى پہلى سياست يہ تھى جس كا خلاصہ يہ ہے ، كہ بنى ہاشم كى ايك فرد بھى زمين پر زندہ نہ رہے يہ بات صرف ميں نہيں كہہ رہا ہوں ، بلكہ اسكى وضاحت خود مولائے

____________________

۲۲_مروج الذھب ج ۹ ص ۴۹ ، شرح نہج البلاغہ ج۱ ص ۴۶۳

۱۹۳

كائنات امير المومنين (ع) نے بھى كى ہے كہ خدا كى قسم معاويہ چاہتا ہے كہ بنى ہاشم كى ايك فرد بھى روئے زمين پر باقى نہ رہے اور خدا كا نور بجھ جائے درانحاليكہ خدا وند عالم اپنے نور كو تمام عالم ميں پھيلا كر رہے گا چاہے كافروں كو برا ہى كيوں نہ لگے(۲۳)

معاويہ كى دوسرى سياست يہ تھى كہ بنى ہاشم كے نام و نشان كو صفحہ ہستى سے مٹا ديا جائے اسى لئے جھوٹى حديثوں اور سيرت و تاريخ كا ايك بڑا كارخانہ كھولا تاكہ ان كى منقصت كر كے كردار كو بد نام كر ديا جائے اور بنى اميہ كى فضيلت و منزلت كا پر چار كيا جائے ، يہى وجہ تھى كہ اس نے رسول (ص) كى لعنت والى حديث جو خود اسكے اور ابو سفيان يا خاندان اموى كى كسى ايك فرد جسيے عمر و بن عاص كے سلسلے ميں تھى كے مقابلے ميں رسول اسلام (ص) سے جھوٹى حديث منسوب كر كے لوگوں كے درميان پر چار كرائي كہ ، بارالہا ميں انسان ہوں _

اگر غصے كى حالت ميں كسى پر غلطى سے لعنت بھيجدى ہے يا اسكى مذمت كر دى ہے تو اس لعن و تشنيع كے بدلہ ميں اسكے گناہوں كو معاف كر دے تاكہ پاك و پاكيزہ ہو جائے _

ان جعلى حديثوں نے معاويہ كے حق ميں شمشير برّان كا كام كيا ، ايك طرف رسول اكرم (ص) نے جو كچھ ا س كے يا اس كے خاندان والوں كے سلسلے ميں كہا تھا جو حقيقت ميں سچ تھا ان حديثوں سے اس نے داغدار دامن كو پاك و صاف كر ليا _

دوسرى طرف پيغمبروں (ص) كو ايك معمولى انسان دكھايا كہ انھوں نے جو كچھ كہا تھا وہ سب غصے ميں كہا ، جبكہ اپ لوگ اچھى طرح سے جانتے ہيں كہ خدا وند عالم نے اپنے رسول(ص) كے اخلاق و كردار كى كتنى تعريف و تمجيد كى ہے ، اور انكو انك لعلى خلق عظيم سے ياد كيا ہے ، اور اپكے متعلق سورہ ال عمران ميں ارشاد فرمايا ہے ، ''فبما رحمة من اللہ لنت لھم ولو كنت فظا غليط القلب لا نفضوا من حولك ''نيز دوسرى جگہ كہا كہ ، انكى تمام باتيں وحى الہى كا سر چشمہ ہيں '' وما ينطق عن الھوى ان ھو الّا وحى يوحى '' سورہ نجم آيت۳_۳

معاويہ كى اس برى سياست كو ہر كس و نا كس نہيں سمجھ پايا تھا يہى وجہ تھى جو سادہ لوح افراد تھے اور وہ اپنى ذات سے بے بہرہ تھے اسكى آواز پر دوڑنے لگے ، اور معاويہ كى ہاں ميں ہاں ملانے لگے ، اور جو ضمير فروشوں نے اسكے حكم سے بناوٹى حديثيں تيار كى تھيں انھيں ہر جگہ بيان كرنے لگے اگر چہ معاويہ نے اپنے اندر ونى كينے كو لوگوں كے سامنے ظاہر نہيں كيا

____________________

۲۳_ مروج الذھب ج۳ ص ۲۸

۱۹۴

ليكن اپنى نا پاك تمنائوں كو كھلے عام انجام ديا ہاں ،اس نے ايك طرف عثمان اور ان كے ہمراہيوں كا كھل كر ساتھ ديا_ اور دوسرى طرف على (ع) اور ان كے خاندان والوں نيز ان كے چاہنے والوں پر كہ جنھوں نے اس كى سياہكاريوں ميں ہاتھ نہيں بٹايا تھا ظلم و ستم كا پہاڑ ڈھايا ، اور كسى كو اذيت دى تو كسى كو قيد خانے ميں ڈلوايا تو كسى كو زندہ در گور كيا گيا ، ہمارى بحث كى محور ام المومنين عائشه كى ذات ہے كہ جس وقت انسانيت سولى پر چڑھائي جا رہى تھى اور شيعيان على (ع) كو شكنجوں اور قيد خانوں كى اذيتوں ميں مبتلا كيا جا رہا تھا اپ اسوقت بھى اركان حكومت اموى كى نظر ميں باعث صد احترام تھيں اور معاويہ نے جو امير المومنين (ع) سے جنگ كى تھى تو اس ميں بھى اپ نے معاويہ ہى كا ساتھ ديا تھا ،جب اپ حضرات نے يہاں تك ان كى كاركردگى كو ملاحظہ فرما ليا تو اس بات كو بھى ذہن نشين كر ليجئے كہ انھوں نے معاويہ كى جعلى حديثوں كے كار خانے ميں كتنا حصہ ليا ہے_

سعد بن ہشام نے حكيم بن افلح سے عائشه كے گھر جانے كو كہا ، اس نے كہا كہ ہم ان كے يہاں ہر گز نہيں جائيں گے ، ميں نے عائشه كو جب دو گروہوں (حزب علوى اور حزب عثمان ) ميں اختلاف چل رہا تھا تو ان كو مداخلت كرنے سے منع كيا ليكن انھوں نے ميرى بات نہيں مانى اور اپنى ڈگر پر چلتى رہيں(۲۴) يہ جو افلح نے عائشه كے بارے ميں كہا كہ حزب علوى (ع) اور حزب عثمان كے اختلاف ميں مداخلت كي، اس كا مطلب كيا ہے ؟

اپ نے پہلے ديكھا نيز ائندہ ملاحظہ فرمائيں گے كہ عائشه نے ان حالات ميں عثمان كے پارٹى كى خوب تعريف و تمجيد كى اور ان كے حق ميں رسول اسلام(ص) سے جھوٹى حديثوں كو منسوب كر كے بيان كيا تھا _

انھوں نے حزب علوى (ع) كى خدمت ميں يقيناً حديثيں گڑھى ہو نگى ، ان ہى باتوں كى وجہ سے حكيم افلح نے انكو منع كيا ليكن انھوں نے اسكى بات پر كان نہيں دھرا _

عائشه كى ايك حديث

احمد بن حنبل اپنى مسند ميں نعمان بن بشير سے نقل كرتے ہيں :

معاويہ نے مجھے ايك خط ديكر عائشه كے يہاں بھيجا ، ميں نے اس خط كو عائشه كى خدمت ميں پيش كيا تو اپ نے فرمايا ، اے ميرے لال ، ميں نے جو كچھ پيغمبر(ص) اسلام سے سنا ہے اس كو تم سے بيان نہ كروں ؟

___________________

۲۴_مسند احمد ج۶ ص ۵۶ ، تہذيب التہذيب ج۲ ص ۴۴۴

۱۹۵

نعمان نے كہا ، ضرور بيان كيجئے :

عائشه نے كہا ، ايك روز ہم اور حفصہ رسول (ص) كى خدمت ميں بيٹھى ہوئي تھى كہ اپ(ص) نے فرمايا كہ كتنا اچھا ہوتا كہ كوئي بات كرنے والا اجاتا _

عائشه نے كہا اے رسول خدا (ص) ہم اپنے باپ ( ابو بكر ) كو بلا ديں

انحضرت (ص) نے كچھ جواب نہيں ديا

رسول (ص) نے بار ديگر اپنى خواہش بيان كى حفصہ نے كہا ہم اپنے باپ ( عمر )كو بلاديں حضور (ص) خاموش رہے _

اس كے بعد رسول اسلام (ص) نے ايك شخص كو بلايا اور چپكے سے اسكے كان ميں كچھ كہا وہ ادمى چلا گيا ، تھوڑى دير بعد عثمان اگئے ، انحضرت(ص) نے ان سے خوب باتيں كيں ، گفتگو كے درميان ميں نے سنا كہ حضور(ص) يہ فرما رہے ہيں _

اے عثمان ، عنقريب خدا وند متعال تمہارے جسم پر ايك لباس ( خلافت ) پہنانے والا ہے اگر لوگوں نے اس لباس كو تم سے چھيننے كى كوشش كى تو تم اسكو ہر گز نہ اتارنا _

رسول(ص) خدا نے اس فقرے كو تين بار دہرايا

نعمان بن بشير كہتا ہے كہ ميں نے كہا :

اے ام المومنين يہ حديث عثمان كى مخالفت كرتے وقت اور لوگوں كو انكے خلاف بھڑكاتے وقت ياد نہيں رہى تھى _

عائشه نے كہا اے نعمان ميں اسكو ايسا بھول گئي تھى گويا كبھى سنا ہى نہيں تھا(۲۵)

يہ واقعہ اس زمانہ ميں پيش آيا كہ خليفہ وقت معاويہ نے عائشه كو خط لكھا اور نعمان اس كو ليكر گيا اور يہ اس كا منتظر ہے كہ يہ

جواب ديں ايسے وقت ميں رسول (ص) كى ايك حديث عائشه كو ياد ائي ہے اور قاصد سے بيان فرمائي كہ رسول (ص) نے عثمان كے بارے ميں وصيت كى تھى كہ ائندہ كا خليفہ عثمان ہے پھر لباس خلافت كو ہرگز جسم سے نہ اتارنا _

غور طلب بات يہ ہے كہ اس خط سے حديث كا كيا ربط ہے ؟

ايا معاويہ نے اپنے خط ميں ان سے سفارش كى تھى كہ عثمان كا دفاع كريں ؟

__________________

۲۵_مسند احمد ج۶ ص ۱۴۹

۱۹۶

يا يہ كہ جب قاصد امير شام معاويہ كے يہاں پلٹ كر جائے تو انكى حديث كو معاويہ سے بيان كرے ؟

يا كوئي دوسرى بات تھى ؟

ايا ممكن ہے كہ جو عائشه ايك طويل مدت تك عثمان سے جھگڑا كرتى رہيں اور لوگوں كو ان كے خلاف بھڑكاتى رہيں يا اسى قسم كى دوسرى باتيں جو معاويہ كے زمانے ميں پيش ائيں ، اور لوگوں سے بيان كيا تھا اسكى وجہ صرف اتنى ہے كہ معاويہ كے زمانے ميں عائشه ايك كنيز كى طرح زندگى گذار رہى تھيں _

اور جو كچھ جھوٹى حديثيں اپنے باپ يا عمر و طلحہ نيز خاندان كى فضيلت ميں بيان كى تھى اسكى وجہ يہ تھى كہ معاويہ كى حديث گڑھنے والى سياست كو كامياب بنا كر اس كو خوش كرنا تھا اور اس سلسلہ ميں انھوں نے اپنے رشتہ دار اور چاہنے والوں كے فضائل كو نشر كرنے ميں ايڑى چوٹى كا زور بھى لگايا تھا اسى لئے محاورہ بھى ہے كہ جسكو چوٹ لگتى ہے اسى كو درد ہوتا ہے '' ليست الثكلى المستاجرہ ''

ہم نے ان بحثوں ميں نہ كسى كے فضائل كو بڑھا چڑھا كر بيان كيا ہے اور نہ ہى ميرا مقصد كسى كى عيب جوئي كرنا تھا ، بلكہ ہمارا واحد ہدف يہ تھا كہ ان حديثوں كى جانچ پڑتال كى جائے جو رسول اسلام (ص) سے جھوٹ منسوب كر كے بيان كى گئي ہيں جسكو انشاء اللہ اس كتاب كى اخرى بحث ميں ملاحظہ فرمائيں گے _

تحقيق اور نتيجہ

ہم نے اس سے پہلے زندگانى عائشه كى اچھى طرح تحقيق كى تاكہ ان كى سياسى و اجتماعى اور معاشراتى كارناموں كے ساتھ انكے اغراض و مقاصد سامنے اجائيں ، اب اس كے پس منظر ميں ان چيزوں كو پيش كروں گا كہ وہ كون سى چيز باعث بنى جنھوں نے حديث نقل كرنے پر بر انگيختہ كيا تھا _

اگر اس كا خلاصہ كيا جائے تو يہ ہو گا كہ ، عائشه ايك تيز طرار عورت كے ساتھ ساتھ ايك بہترين خطيبہ تھيں جس كے ذريعہ عالم و جاہل سب كے افكار و قلوب كو جذب كر ليتى تھيں ، ايك بہترين سياستدان تھيں جس كى وجہ سے لشكر عظيم كو كنٹرول كر ليتى تھيں ، ان كا عوام ميں اتنا اثر و رسوخ تھا كہ ايك اشارے پر لوگوں كو خليفہ وقت كے خلاف ايسا بھڑكا ديا كہ انھوں نے اسكى بساط حكومت كو پلٹ ديا _

۱۹۷

عائشه جاہ و حشم كى بھوكى عورت كا نام ہے جس كو حاصل كرنے ميں كسى چيز سے خوف نہيں كھايا تھا ، بلكہ كسى نہ كسى طرح اس كو حاصل كر كے رہيں ، انھوں نے اپنے چاہنے والوں كے ساتھ اتنا مہربانى كى كہ حد سے اگے بڑھ گئيں _

اپنے خاندان اور اپنے مخالفوں كى نسبت اتنى كينہ توز تھيں كہ ان كے دشمنوں سے مرنے مارنے پر اجاتى تھيں ، المختصر يہ كہ ايسى عورت تاريخ ميں ڈھونڈھنے سے بھى نہ ملے گى ، اگر كوئي بات اپنے خاندان يا چاہنے والوں كے حق ميں كہہ دى تو وہ سب كے زبان پر چڑھ جاتى تھى ، اور تاريخ كے صفحات ميں زندہ جاويد ہو جاتى تھى تاكہ لوگوں كے لئے مشعل راہ بن جائے اور انے والى پيڑياں انكى معرفت و شہرت سے پہچان ليں _

اگر كوئي بات اپنے دشمنوں كو شكست دينے كے لئے بيان كر دى تو تاريخ نے ہميشہ كےلئے اپنے دامن ميں جگہ ديدى ، يا يوں كہوں كہ اگر اس نے كسى كى حمايت يا مخالفت ميں كوئي بات كسى سے كہہ ڈالى تو يہ بات مسافروں و كاردانوں كے ذريعہ ايك دوسرے تك پہونچ جاتى تھى اور لوگ اس كو حديث سمجھ كر ايك شہر سے دوسرے شہر تحفہ سمجھ كرلے جاتے تھے اخر ميں يہ باتيں كتابوں ميں منتقل ہو گئيں اور انے والى نسلوں نے ان باتوں كو حديث كا نام دے ديا _

يہ تمام باتيں خود ام المومنين عائشه كى عظمت و منزلت كى بڑى دليليں ہيں ، ہم نے جب عائشه كے چہرے كو تاريخ كى حقيقت ميں ديكھا اور جن لوگوں نے ان كى ذات كو عظمت كے سانچے ميں ڈھال كے پيش كيا تو ان دونوں ميں بہت

۱۹۸

فرق پايا ، ليكن جن لوگوں نے ان كى عظمتوں كا گيت گايا ہے ان سے ميرى ايك درخواست ہے كہ عائشه كے بطن سے ايك رسول (ص) كا بيٹا دكھا ديجئے ، البتہ يہ دونوں فضيلتيں حقيقت سے كوسوں دور ہيں _

ہميں صدر اسلام كى شخصيتوں كى اپنى طرف سے تعريف نہيں كرنى چاہيئے ، كيونكہ ايسى صورت ميں مدح و ثنا ء ايك خيالى ہو كر رہ جائيگى جسكى كوئي حيثيت نہيں ہے ، ہمارى پيش كى ہوئي سارى باتيں حقيقت سے تعلق ركھتى ہيں _

زندگانى عائشه كى تحقيق كا مقصد ہم نے بارہا كہا اور اخر ميں پھر كہتا ہوں كہ ام المومنين عائشه نے اپنے مقاصد تك پہونچنے كے لئے دو زبردست چيزوں كا سہارا ليا تھا _

۱_ عائشه نے اپنى پورى زندگى ميں زوجہء رسول (ص) نيز ام المومنين كے لقب كا سہارا ليا اور اس سے اپنى طرف لوگوں كى توجہ مبذول كروائي ، اور اس موثر حربے كو استعمال كر كے اپنے مخالفوں كى زد و كوب كى اور اپنے چاہنے والوں كى ہمت افزائي كى _

۲_ وقت كى نزاكت كو ديكھتے ہوئے پيغمبر(ص) اسلام سے ان كى حديث نقل كى ، يا اپنى قابليت جھاڑنے كے لئے زوجيت كا فائدہ اٹھا كر جھوٹى حديثيں گڑھيں ، عائشه نے جن جگہوں پر رسول (ص) كى بيوى ہونے كے ناطے فائدہ اٹھايا ہے اس كو اس مختصر بحث ميں بيان كرنا بہت مشكل ہے ، ليكن نمونے كے طور پر دو تين حديثيں پيش كر رہا ہوں _

۱_ مسلم اپنى صحيح ميں نقل كرتے ہيں :

عائشه فرماتى ہيں : جب رسول خدا (ص) بستر مرگ پر تھے تو انھوں نے ہم سے فرمايا:

اے عائشه _ اپنے باپ ( ابو بكر )اور بھائي كو بلا لائو تاكہ ايك وصيت لكھدوں كيونكہ مجھے ڈر ہے كہ كہيں لوگ ارزو نہ كرنے لگيں اور كہنے والے يہ نہ كہنے لگيں كہ ميں خلافت كا زيادہ مستحق تھا ، درانحاليكہ ، خدا اور مومنين ابو بكر ہى كو چاہتے ہيں _

۲_ صحيح بخارى ميں ہے كہ : عائشه فرماتى ہيں ، جب رسول خدا (ص) پر مرض نے شدت پكڑلى تو عبد الرحمن بن ابو بكر سے فرمايا : ہڈى يا كوئي تختى لے ائو تاكہ ميں ابو بكر كے حق ميں نوشتہ لكھدوں تاكہ ميرے بعد كوئي اس ( ابوبكر ) سے خلافت كے

۱۹۹

سلسلے ميں جھگڑا كرنے نہ لگے ، عبد الرحمن ادھر تختى وغيرہ لينے گئے تو پيغمبر اسلام (ص) نے فرمايا :اے ابو بكر خدا اور مومنين تمھارے سلسلہ ميں تھوڑا سا بھى اختلاف نہيں ركھتے ہيں _

اپ نے ديكھا كہ عائشه نے ان دو حديثوں سے اپنے باپ كى حكومت و خلافت كو رسول (ص) كى بيمارى سے ملتے جلتے واقعات سے كس طرح ثابت كر ديا اور اپنے باپ كى خلافت كے لئے دو دليليں پيش كر ديں _

۳_ جب عائشه كے روابط عثمان سے مسالمت اميز تھے تو ان كى خوب مدد كى اور ان كى حكومت كى حمايت ميں بولتى رہيں ، اور زوجيت رسول (ص) سے فائدہ اٹھا تے ہوئے عثمان كے حق ميں ايك حديث بھى گڑھ ڈالى تھى ، جس كو صحيح مسلم نے عائشه سے نقل كيا ہے كہ :

ميں رسول (ص) كے ساتھ ايك چادر ميں ارام كر رہى تھى كہ ابو بكر اگئے ، پيغمبر(ص) اسلام نے انكو اندر بلا ليا ، پھر تھوڑى دير بعد عمر بن خطاب چلے آئے رسول(ص) اسلام نے انكو بھى اسى حالت ميں بلاليا ; ليكن جب حضرت عثمان آئے تو رسول خدا (ص) چادر سے باہر اگئے پھر عثمان كو گھر ميں بلايا ، جب عثمان چلے گئے تو ميں نے رسول(ص) اسلام سے سوال كيا كہ يا رسول(ص) اللہ جب ابو بكر اور عمر آئے تو اپ چادر كے اندر ليٹے رہے ليكن جب عثمان آئے تو اپنے كو چادر سے باہر كر ليا ، اس ميں كيا راز ہے ، پيغمبر(ص) اسلام نے فرمايا : چونكہ عثمان ايك شرم و حيا كا پيكر ہے لہذا ميں ڈرا كہ اگر اسى حالت ميں عثمان سے ملاقات كر ليتا تو وہ شدت شرم سے مجھ سے بات نہ كر پاتا _

۴_ صحيح مسلم نے اسى حديث كو دوسرى طرح سے عائشه كا يوں بيان نقل كيا ہے:

ايك دن پيغمبر(ص) اسلام ميرے ساتھ چادر اوڑھے ليٹے ہوئے تھے ، جيسے ہى عثمان آئے تو رسول (ص) نے مجھ سے كہا اے عائشه تم اپنا لباس وغيرہ ٹھيك كر لو ، ميں نے كہا ، يا رسول(ص) اللہ ، ابو بكر اور عمر كے انے پر اپ نے مجھ سے لباس ٹھيك كرنے كو نہيں كہا ليكن جب عثمان آئے تو اپنے ہوش و حواس كو كھو ديا نيز ان سے ملاقات كرنے كے لئے اپنے جسم پر لباس بھى پہن ليا _

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254