‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) جلد ۴

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) 15%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 254

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 254 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 73374 / ڈاؤنلوڈ: 3706
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) جلد ۴

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

خدا کے لئے ظالموں سے جنگ کریں_ خدا کے لئے عدل و انصاف کو پھلائیں اور مظلوموں اور محروموں کی مدد کریں_ یہاں تک کہ اپنے سونے اور کھانے پینے کو بھی خدا اور اس کی رضا کے لئے قرار دیں اور خدا کے سوا کسی کی بھی پرستش نہ کریں اور اگر وہ ایسا کریں تو سعادتمند ہوجائیں گے_

آیت قرآن

( ان لّا تعبدوا الّا الله انّی اخاف علیکم عذاب یوم الیم ) ''

خدا کے سوا کسی کی پرستش نہ کرو کہ میں تم پر اس دن کے دردناک عذاب سے ڈرتا ہوں (سورہ ہود آیت ۲۶)

سوچئے اور جواب دیجئے

۱) ___ مادی نظر یے کے مطابق انسان کا مستقبل کیا ہے؟ کیا اس نظریے میں انسان جوابدہ و ذمہ دار سمجھا جاتا ہے؟ آیا اس نظریے میں اعمال انسانی کے لئے کوئی معیار موجود ہے کہ جس سے اس کے اچھے اور برے اعمال کو معین کیا جاسکے؟

۲)___ مادّی تصوّر کائنات میں کائنات کو کس قسم کا موجود سمجھا جاتا ہے؟

۱۲۱

۳) ___ پیغمبروں کا نظریہ انسان کے متعلق کیا ہے؟ اور وہ اسے کس قسم کا موجود تصور کرتے ہیں؟

۴)___ پیغمبروں کا تبلیغ کے سلسلہ میں پہلا کلام کیا ہوتا تھا؟

۵)___ پیغمبروں کی نگاہ میں انسان کی شرافت کی بنیاد کیا ہے؟

تمام بدبختیوں کی بنیاد کیا ہے؟ اور کیوں؟

۶)___ پیغمبروں کی نظر میں صالح اور مومن انسان کا مستقبل کیا ہے؟

۷)___ تمام پیغمبروں کی دعوت اور تبلیغ کا محور اور اساس کون سے اصول ہیں مثال دیجئے؟

۸)___ پیغمبروں کی نگاہ میں لوگوں کی اصلاح کس راستے سے ضروری ہے؟

۹)___ پیغمبروں کا مقصد و ہدف کیا ہے؟ اور وہ اس عالی ہدف تک پہنچنے کے لئے لوگوں سے کیا چاہتے تھے؟

۱۲۲

پیغمبروں کی خصوصیات

خدا کے پیغمبر لائق اور شائستہ انسان تھے کہ جنہیں اس نے انسانوں میں منتخب کیا یہ صاحب لیاقت اور صالح افراد بہت سی خصوصیات کے حامل تھے ان میں سے بعض کو یہاں بیان کیا جاتا ہے_

خدا سے وحی کے ذریعہ ارتباط

پیغمبر(ص) خدا کے کلام اور پیغام کو سنتے تھے اور انہیں اچھی طرح سمجھتے تھے دین کے معارف اور حقائق، ہدایات اور اللہ کی گفتگ ان کے پاک دلوں پر وحی کی صورت میں نازل ہوتی تھی_

وہ خدا کی وحی کو اچھی طرح سمجھتے تھے اور اسے اپنے پاس محفوظ

۱۲۳

رکھتے تھے پھر بغیر کمی و زیادتی کے لوگوں کیلئے بیان کرتے تھے بعض پیغمبر اس فرشتہ الہی کا مشاہدہ بھی کرتے تھے جو اللہ کا پیغام پہنچانے کے لئے مامور تھے جبکہ بعض صرف اس کی آواز سنتے تھے_

یہ بات تو آپ کو معلوم ہے کہ پیغمبر جسم و جان کے لحاظ سے دوسرے انسانوں کی طرح تھے غذا کھاتے تھے، باتیں کرتے تھے، لوگوں کے درمیان آمد و رفت رکھتے تھے، عام انسانوں کی مانند حواس کی مدد سے چیزوں کو دیکھتے تھے، آوازوں کو سنتے تھے_

لیکن روحانی اور معنوی طور سے حقائق کو سمجھنے اور معارف دین کے سلسلہ میں عالم انسانوں سے کہیں زیادہ بلند درجے پر ہوتے تھے _

ان کا باطن اتنا پاکیزہ ہوتا تھا کہ وہ اپنے خدا سے رابطہ پیدا کرسکتے تھے اور عالم غیب کے حقائق اور معارف کو دریافت کرسکتے تھے اور اپنی چشم بصیرت سے جہان کی حقیقت اور باطن کا مشاہدہ کرتے تھے_ اللہ تعالی کے فرشتہ کو دیکھتے تھے اس کی آواز کو دل و جان سے سنتے تھے لیکن دوسرے انسان اس قسم کی طاقت اور استعداد نہیں رکھتے_

پیغمبر اس قسم کی لیاقت و قدرت رکھتے تھے کہ دین کے معارف اور حقائق کو جو اللہ تعالی کی جانب سے ان کے پاک و نورانی قلب پر نازل ہوتے ہیں سمجھ سکیں ان کی حفاظت و نگرانی کرتے ہوئے بغیر کسی کمی و زیادتی کے لوگوں تک پہنچا سکیں_

اس قسم کے ربط کو دین کی لغت اور اصطلاح میں ''وحی'' کہاجاتا ہے بہتر ہے کہ اس بات کو بھی جان لیں کہ وحی کا عمل تین طرح سے انجام

۱۲۴

پاتاہے_

پہلا یہ کہ فرشتہ الہی خدا کے پیغام کو لے کر قلب پیغمبر پر نازل ہو اور صرف اس کی آواز سن سکیں_

دوسرا یہ کہ پیغمبر، فرشتے کی آواز سننے کے ساتھ ساتھ اس کا مشاہدہ بھی کرتے ہیں_

تیسرا یہ کہ پیغمبر بغیر کسی واسطے کے حقائق دین کو خداوند عالم سے حاصل کرتے ہیں_

۲) گناہ اور غلطیوں سے پاک کرنا

پیغمبر ہر قسم کے گناہ اور برائیوں سے پاک ہوتے ہیں اور یہ عصمت و پاکیزگی ان کے اس علم و معرفت کے سبب ہوتی ہے کہ جو خداوند عالم نے انہیں عطا کیا ہے_

چونکہ پیغمبر برائیوں اور پلیدگی کو واضح طور پر سمجھتے تھے اس لئے کبھی بھی اپنے آپ کو گناہ اور معصیت سے آلودہ نہیں کرتے تھے_

پیغمبر اپنی گفتار میں سچے اور کردار و عمل میں کامل انسان تھے_

وحی کو سمجھنے اور بیان کرنے میں بھی خطاؤں سے پاک تھے یعنی اللہ کے پیغام کو صحیح ___ اور مکمل طور پر سمجھتے اور پھر اسے اسی صحیح اور مکمل صورت میں لوگوں تک پہنچاتے تھے_

لوگوں کی ہدایت و رہبری میں کسی قسم کی کوئی خطا غلطی اور انحراف

۱۲۵

نہیں کرتے تھے___ اور خداوند عالم کی ذات ان تمام مراحل اور حالات میں ان کی محافظ اور مددگار ہوتی تھی_

۳) خدا کی راہ میں پائیداری اور استقامت

پیغمبر ایمان اور یقین سے سرشار ہوتے تھے اور ان کی ذمہ اریاں اور مقصد اتنا واضح ہوتا تھا کہ جس میں وہ معمولی شک اور تردد کا بھی شکار نہ ہوتے تھے خدا اور جہان آخرت پر انہیں دل کی گہرائیوں سے یقین تھا_

وہ اپنی ذمہ داریوں سے مکمل طور پر آگاہ تھے اور اللہ تعالی کی رسالت اور اپنے فرائض کی انجام ہی میں ثابت قدم تھے حق کو پہچان چکے تھے اور اس میں انہیں کوئی شک و شبہ نہ تھا_

خدا کی بے پایاں قدرت پر تکیہ کرتے تھے اور دوسری کسی طاقت سے خوفزدہ نہیں ہوتے تھے اپنے فرائض و ذمہ داریوں کو مکمل طور پر کما حقہ انجام دیتے تھے اور اپنے حامیوں اور دوستوں کی کمی سے خوفزدہ نہیں ہوتے تھے_

دشمنو کی طرف سے پیدا کی جانے والی شدید مشکلات ان کے مصمم ارادے اور فولادی عزم میں معمولی سا بھی خلل پیدا نہیں کرپاتی تھیں اور آپ حضرات مشکلات دور کرنے میں پائیداری اور استقامت سے کوشش کرتے تھے_

ذیل میں ہم بعض پیغمبروں کی سعی و کوشش کے کچھ نمونوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں_

۱۲۶

حضرت ابراہیم (ع) کی استقامت

اس عظیم پیغمبر نے تن تنہا بت پرستی اور شرک کا مقابلہ کیا اپنے دور کے ظالم ترین اور طاقتور انسان نمرود کے سامنے ڈٹ گئے اس کی عظیم طاقت سے نہ ڈرے اور پوری قوت سے اس سے کہا _

خدا کی قسم تمہارے بتوں کو توڑ پھڑ ڈالوں گا''

اور پھر تن تنہا بتوں کے توڑنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے چھوٹے اور بڑے بت کدے کے بتوں کو توڑ کر زمین پر ڈھیر کردیا_

جب نمرود کے دربار میں آپ کو جلائے جانے کا حکم ملا تو ذرا سی بھی کمزوری اور پشیمانی کا اظہار نہ کیا اور اپنے صحیح عقیدے کے دفاع میں مستحکم اور ثابت قدم رہے_

یہاں تک کہ اس لمحہ بھی کہ جب آپ کو آگ میں ڈالا جارہا تھا معمولی کمزوری اور ناتوانی کا اظہار نہ کیا اور سوائے خدا کے کسی سے مدد طلب نہ کی آپ(ع) اس وقت بھی صرف اللہ کے لطف و کرم پر ایمان رکھے ہوئے تھے_

اپنے مقصد کی تکمیل کے لئے اپنے گھر بار کو چھوڑ دیا اور دوسری سر زمین کی طرف ہجرت کی اپنی بیوی اور بچے کو خشک و بے آب وادی میں تنہا چھوڑ گئے حضرت ابراہیم (ع) کی استقامت اس حد تک تھی کہ

قرآن انہیں ایک امت بتا رہا ہے اور ان کی اس طرح عمدہ تعریف کرتا ہے کہ:

حضرت ابراہیم (ع) تنہا ایک امت تھے اور مکمل طور پر خدا کے فرمانبردار تھے

۱۲۷

حضرت موسی (ع) و حضرت عیسی (ع) کی استقامت

حضرت موسی (ع) اپنے بھائی ہارون کے ساتھ اونی لباس پہنے اور ہاتھ میں عصا لئے فرعون کے محل میں داخل ہوئے اور بغیر کسی وحشت و اضطراب کے اس ظالم طاقتور سے فرمایا_

میں اللہ تعالی کی طرف سے رسول ہوں اور بجز حق اور کچھ نہیں بولتا_ اللہ تعالی کی طرف سے واضح اور روشن دلائل اور گوہیاں لایا ہوں بنی اسرائیل کو میرے ساتھ روانہ کردے_

سورہ اعراف آیت ۱۰۴، ۱۰۵

حضرت موسی (ع) بنی اسرائیل کو فرعون کے چنگل سے نجات دلانے کے لئے اس سے بر سر پیکار ہوگئے اور پوری استقامت سے ظالم فرعون کا خاتمہ کیا اور اس کے ظالم مددگاروں کو بھی ہلاک کردیا_

حضرت موسی (ع) نے ان مشکلات اور دشواریوں کے وقت جبکہ کسی طرف سے کوئی معمولی سی بھی امید نظر نہیں آرہی تھی اور پھر فرعون پوری قساوت سے بنی اسرائیل کا قتل عام کر رہا تھآ اور ان کی عورتوں کو لونڈی بنارہا تھا اپنے ماننے والوں سے یوں فرمایا_

اللہ تعالی سے مدد طلب کرو، صابر و محکم و مضبوط بنو اور جان لو کہ زمین اللہ کی ہے جسے چاہے اسے دے گا اور جان لو کہ پرہیزگاروں کی کامیابی یقینی ہے_

''سورہ اعراف ۷_ آیت۱۲۸''

۱۲۸

حضرت موسی (ع) کی قوم کا گویا صبر و حوصلہ ختم ہوچکا تھا آپ سے انہوں نے کہا: اے موسی (ع) تمہارے پیغمبری کے لئے مبعوث ہونے اور رسالت کے لئے چنے جانے سے پہلے بھی ہم فرعون کے ظلم و ستم کے سبب اذیتیں اٹھا رہے تھے وہی مصائب اب بھی ہم پر باقی ہیں_

حضرت موسی (ع) خدا کی فتح و نصرت پر اعتماد و ایمان رکھتے ہوئے فرماتے تھے_

خداوند عالم جلدی ہی تمہارے دشمنوں کو ہلاک کردے گا اور تمہیں ان کا جانشین قرار دے گا تا کہ تمہارے کردار و عمل کا جائزہ لے سکے''

سورہ اعراف۷، آیت ۱۲۹

حضرت عیسی (ع) بھی اپنے دشمنوں کے ساتھ مقابلہ پر اتر آئے اور ایک شہر سے دوسرے شہر اور ایک مقام سے دوسرے مقام پر ہجرت کرتے رہے جہاں بھی گئے لوگوں کو خداوند عالم کا پیغام سنایا اور لوگوں کو ظالم و جابر حکمران کے سامنے جھکنے سے روکا یہاں تک کہ آپ کے وجود کو دشمن برداشت نہ کرسکے اور آپ کے قتل کے لئے پھانسی کا پھندا بنایا گیا لیکن آپ کو پا نہ سکے تا کہ قتل کریں_ خداوند عالم نے انہیں آسمان پر اپنے خاص بندوں کا مقام عنایت کیا ہے_

حضرت محمد مصطفی (ع) کی استقامت

حضرت محمد مصطفی (ع) نے بھی یکہ و تنہا شرک و بت پرستی سے مقابلہ کیا

۱۲۹

اور پختہ و محکم ارادے سے آخری وقت تک کوشش کرتے رہے اور لاتعداد مشکلات اور دشواریوں کے باوجود پائیداری اور استقامت کا مظاہرہ کرتے رہے اور معمولی سی کمزوری اور تردد کا بھی اظہار نہ کیا_

اپنی کھلی دعوت کے پہلے مرحلے میں اپنے رشتہ داروں سے فرمایا میں االلہ کا پیغمبر ہوں اور اللہ تعالی کی طرف سے مامور ہوں کہ تمہیں گمراہی اور ضلالت سے نجات دلاؤں اور دنیا و آخرت کی خوش بختی اور سعادت تک پہنچاؤں جو شخص بھی مری مدد کا اعلان کرے گا اور اس عظیم کام میں میری نصرت کرے گا وہی میرا وزیر اور وصی ہوگا_

جیسا کہ آپ کو علم ہے کہ آپ(ع) نے اس بات کو تین مرتبہ دہرایا اور کسی نے سوائے علی ابن ابی طالب (ع) کے اس دعوت اور پکار کو قبول نہ کیا پیغمبر اسلام(ص) نے پورے یقین کے ساتھ حضرت علی (ع) کو اپنا وزیر اور وصی چن لیا_

ایک دن حضرت ابوطالب (ع) نے پیغمبر (ص) سے کہا کہ:

قریش کے سردار میرے پاس آئے تھے اور کہہ رہے تھے کہ تیرا بھتیجا محمد(ص) ہمارے بتوں کی توہین کرتا ہے اور ہمیں اور ہمارے باپ دادا کو جو بت پرست تھے گمراہ کہتا ہے اب ہم ان باتوں کو برداشت نہیں کرسکتے انہوں نے مجھ سے خواہش کی ہے کہ تم کو سمجھاؤں تا کہ اس کے بعد تم بتوں اور بت پرستوں پر تنقید نہ کرو''

حضرت رسول خدا(ص) اپنے مقصد پر کامل ایمان رکھتے تھے اور اپنی

۱۳۰

الہی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لئے ثابت قدم تھے لہذا اپنے چچا سے فرمایا:

چچا جان: میں اس راہ سے ہرگز نہ ہٹوں گا اور لوگوں کو خداپرستی اور توحید کی دعوت دینا نہیں چھوڑوں گا میں اپنی رسالت کے پیغام کو پہنچانے میں کوتاہی نہیں کرسکتا میں اپنی کامیابی تک اس کام کو انجام دیتا رہوں گا_

ایک دفعہ اور قریش کے سردار، جناب ابوطالب کے پاس آئے اور کہا:

اے ابوطالب(ع) تم ہمارے قبیلہ کے بزرگ ہو تمہارا احترام ہمارے اوپر لازم ہے لیکن تمہارے بھتیجے نے ہماری زندگی اجیرن کردی ہے_ اگر اسے اس کام کے بجالانے پر فقر و محتاجی نے مجبور کیا ہے اور وہ مال و دولت چاہتا ہے تو ہم حاضر ہیں کہ بہت زیادہ مال اس کے حوالہ کریں اور اگر اسے جاہ و جلال اور مقام کی تمنّا ہے تو ہم حاضر ہیں کہ اسے اپنا سردار اور حاکم تسلیم کرلیں_

مختصراً یہ کہ ہم حاضر ہیں جو بھی وہ چاہتا ہے اسے دیں تا کہ وہ ان باتوں سے دستبردار ہوجائے_

جناب ابوطالب (ع) نے حضرت رسول خدا(ص) سے جو اس موقع پر موجود تھے کہا کہ اے بھتیجے تم نے سن لیا کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں؟

پیغمبر(ص) نے فرمایا:

چچا جان خدا کی قسم اگر یہ میرے دائیں ہاتھ پر سورج

۱۳۱

اور بائیں ہاتھ پر چاند رکھ دیں تب بھی میں ہرگز اپنی دعوت سے دستبردار نہیں ہوں گا_

چچا جان میں ان سے صرف ایک چیز کی خواہش کرتا ہوں کہ یہ لوگ '' لا الہ الّا اللہ'' کہیں اور نجات پاجائیں_

پیغمبر اسلام(ص) اپنی دعوت کے تمام مراحل میں ان تمام مشکلات اور دشمنوں کی یلغا اور سختیوں کے مقابلے میں عزم و استقلال کے ساتھ ڈٹے رہے_ آپ نے اپنے کردار و عمل سے تمام مسلمانوں اور خداپرستوں کو صبر و استقامت کا درس دیا_

آیت قرآن

''( قل انّما انا بشر مثلکم یوحی اليّ انّما الهکم اله واحد فمن کان یرجوا لقاء ربّه فلیعمل عملا صالحا وّ لا یشرک بعباده ربّه احدا ) ''

''سورہ کہف آیت آخر''

کہدو کہ میں تمہاری طرح کا بشر ہوں مجھ پر وحی ہوتی ہے تمہارا خدا ایک ہے جو شخص بھی اپنے پروردگار کے دیدار کا امیدوار ہوا سے چاہیئے کہ وہ عمل صالح انجاک دے اور کسی کو بھی پروردگار کی عبادت میں شریک قرار نہ دے _

۱۳۲

سوچئے اور جواب دیجئے

۱)___ وحی کسے کہتے ہیں؟

۲)___ کیا پیغمبر جسم و روح کے لحاظ سے دوسرے انسانوں کی طرح تھے؟

۳)___ پیغمبر وحی کے حاصل کرنے اور پہنچانے میں معصوم تھے اس جملہ کا مطلب بتایئے

۴)___ اس درس میں پیغمبروں کی جو خصوصیات بیان کی گئی ہیں انہیں بیان کیجئے؟

۵)___ پیغمبروں کا اپنے ہدف پر ایمان و استقامت کا کوئی نمونہ بیان کریں؟

۶)___ حضرت موسی (ع) کے زمانہ میں طاغوت ( ظالم حکمران) کون تھا حضرت موسی (ع) کیسے اس کے ساتھ اس کے محل میں داخل ہوئے_

۷)___ حضرت موسی (ع) نے اپنے جاننے والوں کو خدا پر اعتماد اور صبر و استقامت کے بارے میں کیا فرمایا ؟

۸)___ پیغمبر اسلام (ص) نے کفار کو جو آپ کو صلح کی دعوت دیتے تھے کیا جواب دیا؟

۱۳۳

باب چہارم

پیغمبر اسلام (ص) اور آپ(ص) کے اصحاب کے بارے میں

۱۳۴

ایمان و استقامت

عمّار کا خاندان (گھرانہ) قرآنی آیات اور پیغمبر (ص) کی دل نشیں گفتار سن کر اور آپ کے کردار کو دیکھتے ہی پیغمبر اسلام(ص) کی نبوت اور دعوت بر حق پر ایمان لے آیا تھا اور دعوت اسلام کے ابتدائی مراحل میں مسلمان ہوچکا تھا

ابوجہل، جو کہ مكّہ کے بار سوخ اور مستکبرین میں شمار ہوتا تھا جب اسے عمّار کے خاندان کے مسلمان ہوجانے کی اطلاع ملی تو وہ بہت غضبناک ہوا اور جب عمار کو دیکھا تو انہیں بہت ملامت اور سرزنش کی اور ان سے کہا کہ

میں نے سنا ہے کہ تم بت پرستی کو ترک کر کے مسلمان ہوگئے ہو؟''

عمّار نے جواب دیا ''

ہاں میں نے، میرے ماں باپ اور بھائیوں نے

۱۳۵

حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی گفتگو سنی_ ان آیات میں جو وہ خدا کی طرف سے لائے ہیں، غور کیا ان کی دعوت کو حق جانا اور اسے قبول کرلیا ہے_

ابوجہل نے چلّاکر کہا: تمہیں کیا حق پہنچتا ہے کہ مكّہ کے بزرگوں اور سرداروں کی اجازت کے بغیر محمد(ص) کے دین کو قبول کر لو تم عقل اور فکر سے عاری ہو تمہیں چاہیئے کہ بزرگوں اور سرداروں کے تابع بنو وہ تم سے بہتر سمجھتے اور جانتے ہیں

ہم مزدور اور محنتی لوگ بھی عقل و شعور رکھتے ہیں اور تم سے بہتر سمجھتے ہیں مال اور مقام نے تمہیں اندھا کردیا ہے کہ اتنے واضح حق کو نہیں دیکھ رہے ہو لیکن ہم نے اچھی طرح جان لیا ہے کہ محمد(ص) خدا کے پیغمبر(ص) ہیں اور وہ اللہ تعالی کے بھیجے ہوئے رسول ہیں اور ہماری ہدایت اور نجات کے لئے آئے ہیں خدا اور اس کا پیغمبر ہماری بھلائی کو تم سے بہتر طور پر سمجھتا ہیں، ہمارا ہمدرد تو پیغمبر(ص) ہے تم مالدار اور ظالم لوگ نہیں_

تم پہلے کی طرح ہم سے بے گارلینا چاہتے ہو اور ہمارے ہاتھ کی محنت ہڑپ کرنا چاہتے ہو لیکن اب وہ زمانہ گیا خداوند عالم نے ہمارے لئے دل سوز اور مہربان رہبر بھیجا ہے تا کہ تم جیسے ظالموں اور غارتگروں سے نجات دلائے

۱۳۶

اور دنیا و آخرت کی عزت اور سعادت تک پہنچائے ہم نے اس کی رہبری کو قبول کرلیا ہے اور تمام وجود سے اس کے مطیع ہیں اور ہم ہی کامیاب رہیں گے_

ابوجہل کو اس قسم کے جواب کی توقع نہیں تھی اس لئے سخت غصّے میں آیا اور جناب عمّار کو مارنا شروع کردیا_ ابوجہل کے غلاموں نے بھی اس کی مدد شروع کردی اور ڈنڈوں اور کوڈوں سے مار مار کر عمّار کے جسم کو نیلا کردیا_ جناب عمّار اس حالت میں بھی خدا کو یاد کرتے اور اللہ اکبر کہتے رہے_

جناب عمّار کا گھرانہ ایک غریب اور مستضعف گھرانا تھا بلکہ میں آپ کے کوئی عزیز و اقارب بھی نہیں تھے کہ جن کی مدد و حمایت حاصل کرتے اسی وجہ سے قریش کے سرداروں اور مكّہ کے متکبرو نے پكّا ارادہ کرلیا تھا کہ اس گھرانے کے بے یار و مددگار افراد کو اتنی ایذا پہنچائیں کہ وہ اسلام سے دستبردار ہوجائیں یا جان سے جائیں_

قریش کے سرداروں نے انہیں ڈرانا، دھمکانہ، مارنا، پیٹنا، اور برا بھلا کہناشروع کردیا_ عمار کے والد یاسر اور والدہ ''سمیہ'' کو وقتاً فوقتاً مارا پیٹا کرتے تھے اور ان سے چاہتے تھے کہ وہ دین اسلام سے دستبردار ہوجائیں اور پیغمبر اسلام(ص) کو برا بھلا کہیں اور گالیاں دیں (نعوذ باللہ)

مگر کیا عمار جیسے لوگ پیغمبر خدا کو گالیاں دے سکتے تھے؟ اور کیا ایمان سے دستبردار ہوسکتے تھے؟

آیئےپ کو بتائیں کہ اس وقت جب ان پر کوڑے برسائے

۱۳۷

جاتے تھے تو وہ کیا کہتے تھے وہ کہتے تھے،

کس طرح ممکن ہے کہ ہم اللہ کے راستے کو چھوڑ دیں جب کہ اسی نے ہمیں حق کا راستہ دکھایا ہے ہم تمہارے ظلم و ایذا و سختی پر صبر کریں گے خدا ہمارے صبر و استقامت کو دیکھ رہا ہے اور وہ صبر کرنے والوں کو بہترین جزا دے گا_''

''سورہ ابراہیم ۱۴ آیت سورہ نحل ۱۶ آیت''

ابوجہل ان کے قریب آیا اور عمار اور ان کے والد یاسر، ماں سمیہ اور بھائی عبداللہ سے کہا کہ:

اسلام سے دستبرد ار ہوجاؤ اور محمد(ص) کو برا بھلا کہو اور گالیاں دو ورنہ تم اسی جگہ ختم کردیئے جاؤگے_

ابوجہل کے حکم پر وحشی اور بھیڑ یا صفت انسانوں نے اس ایماندار اور بے یار و مددگار گھرانہ پر حملہ کردیا اور تا زیانوں، مکوں اور لاتوں سے انہیں مارنا شروع کردیا اتنا مارا کہ ان کا بدن لہو لہان ہوگیا اور وہ نڈھال و بے ہوش ہوکر زمین پر گرپڑے لیکن اس کے باوجود جب انہیں ہوش آیا تو ''اللہ اکبر'' کا کلمہ ان کی زبان پر جاری تھا اور زخمی و خون آلود چہرے سے کہہ رہے تھے_

اشهد ان لا اله الا الله و اشهد ان محمد رسول الله

پھر ان کے ہاتھ اور پاؤں کو باندھ دیا گیا اور ان کے بدن

۱۳۸

تپتے ہوے پتھروں اور گرم ریت پر ڈال کر ان کے سنیوں پر بڑے اور بھاری پتھر رکھ دئے گئے ان پیاروں کے بدن گرم ریت اور حجاز کی جلتی دھوپ میں جل رہے تھے، پگھلے جا رہے تھے لیکن ان کی تکبیر اور شہادت کی آواز اسی طرح سنی جارہی تھی:

تم سے جتنا ہوسکتا ہے ہمیں آزار و تکلیف پہنچاؤ ہم نے اللہ تعالی کا راستہ دلائل سے پالیا ہے اور اپنے پروردگار پر ایمان لے آئے ہیں اور کبھی بھی اس راستے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے تم ہمارے ایمان تک پہنچ نہیں سکتے صرف ہمارے بدن کو ایذا پہنچا سکتے ہو ہم خدا پر ایمان لے آئے ہیں تا کہ وہ گناہوں کو بخش دے اور ہمیں آخرت کے بلند درجات میں جگہ عنایت فرمائے اور آخرت کا اجر و ثواب ہمیشہ رہنے والا ہے_

عمّار کے وال اسی ظلم و تشدد کے سبب شہادت کے بلند مرتبہ پر فائز ہوگئے اور مسلمانوں کو اپنے صبر و استقامت سے دینداری اور صبر کا درس دے گئے_

سميّہ سے جو اپنے شوہر کی شہادت کو دیکھ رہی تھیں کہا گیا کہ محمد(ص) کو برا بھلا کہو اور گالیاں دو سميّہ نے جواب دیا:

ہم نے اپنا راستہ پالیا ہے اور حضرت محمد(ص) پر ایمان لے آئے ہیں اور آپ کی رہبری کو قبول کرلیا ہے

۱۳۹

ہم ہرگز اپنے مقصد سے دستبردار نہیں ہوں گے

ابوجہل نے جو اس بزرگ خاتوں کے منہ توڑ جواب سے ناچار ہوگیا تھا اور غصّہ کی شدّت میں پیچ و تاب کھا رہا تھا اپنے نیزے کو اس طرح اسلام کی اس بزرگ خاتون پر مارا کہ وہ زمین پر گر گئیں اور اسی حالت میں ''اللہ اکبر، لا الہ الا اللہ کہتے ہوئے خالق حقیقی سے جاملیں اور شہادت کے بلند مرتبہ پر فائز ہوگئیں، سميّہ اسلام کی پہلی خاتون ہیں جو اسلام کے راستے میں شہادت کے درجے پر فائز ہوئیں_

عمّار کے ماں باپ شہد ہوگئے لیکن پھر بھی گا ہے بگا ہے آپ کو ایذا پہنچائی جاتی تھی برسوں تکلیفیں و ایذائیں سہنے کے بعد وہ مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے وہاں رہ کر مجاہدین اسلام کی صفوں میں شامل ہوکر دشمنوں سے جنگ کرتے تھے_ پیغمبر خدا(ص) کی وفات کے بعد جناب عمّار امیرالمومنین (ع) کے باوفا دوستوں میں شمار ہوتے تھے آپ کے ساتھ جنگ میں شریک ہوتے تھے یہاں تک کہ صفنین کی جنگ میں بہادری کے ساتھ لڑتے ہوئے شہاد ت پر فائز ہوگئے_

بے شمار درود و سلام ہو آپ پر اور آپ کے ماں باپ پر اور اسلام کے تمام شہداء پر کہ جو خدائے واحد پر ایمان کے راستے میں پائیدار اور ثابت قدم رہے اور ذلت و خوادری کو قبلو نہ کیا اور جاہلیت کے طور طریقوں کی طرف نہ پلٹے اور ظلم و ستم کے سامنے سرتسلیم خم نہ کیا اور ظالموں کی حکومت اور ولایت پر خدا کی حکومت اور ولایت کو ترجیح دی_

۱۴۰

آیت قرآن

''( و لنصبرنّ علی ما اذیتمونا و علی الله فلیتوكّل المتوكّلون' ) '

سورہ ابراہیم آیت ۱۴

پیغمبروں اور مومنین نے متکبرین سے یوں کہا کہ ہراس اذیت پر جو تم ہم پر روا رکھتے ہو صبر کریں گے اور توکل کرنے والوں کو خدا ہی پر توکل کرنا چاہیئے_

سوچئے اور جواب دیجئے

۱)___ متکبرین، اسلام کے آغاز میں مسلمانوں کو کیوں اذیت دیتے تھے؟ اور آج کل متکبرین مسلمانوں کو کس طرح تکلیف پہنچا رہے تھے؟

۲)___ عمار اور ان کے والدین متکبرین کے تازیانوں کے باوجود اللہ کے ذکر کے علاوہ اپنے صبر و استقامت کے متعلق کیا کہا کرتے تھے؟ اور اب ہمارا فریضہ متکبرین جہان کے بارے میں کیا ہے؟

۳)___ جب پیغمبر (ص) یاسر اور سميّہ کے گھرانے کو دیکھتے تھے توان سے کیا سفارش کیا کرتے تھے اور کیا خوشبخری دیتے

۱۴۱

تھے اور پیغمبر کی سفارش پوری امت اسلام کے لئے کیا ہے اس کے متعلق علم حاصل کرنے کے لئے مراجع دین کی طرف رجوع کریں

۴)___ سميّہ کس طرح شہید ہوئیں؟ اپنی زندگی کے آخری لمحات میں کیا کہتی تھیں؟

۵)___ سمیہ جب اپنے شوہر کو شہید ہوتے دیکھ رہی تھیں تو کفّار نے اس سے کیا مطالبہ کیا تھا؟ اور انہوں نے جواب میں کیا کہا مسلمانوں کا جواب ان مشکلات کے مقابل جو آج کل مشرق و مغرب والے امت اسلامی پر وارد کر رہے ہیں کیا ہونا چاہیئے_

۶)___ اسلام کے سبب متکبرین کو کیا نقصان پہنچتا تا ہے کہ وہ اس کی مخالفت کرتے ہیں؟

۷)___ عمّار کے ماں باپ جیسے مومنین نے کس کی حکومت کو قبول کیا ہے؟ اور ظالم انہیں کس کی حکومت کی طرف بلاتے ہیں؟

۸)___ عمّار نے مكّہ سے کس طرف ہجرت کی ؟ پیغمبر خدا(ص) کی وفات کے بعد کن کے انصار میں داخل ہوئے؟ پھر کہاں شہید ہوئے کیا آپ جانتے ہیں کہ پیغمبر(ص) نے عمار کے قاتلوں کے متعلق کیا فرمایا ہے؟

۱۴۲

اقتصادی پابندی

بت پرستوں کی شدید مخالفت کے باوجود اسلام مسلسل پھیل رہا تھا اور روز بروز مسلمانوں کی تعداد اور اسلام کی طاقت میں اضافہ ہو رہا تھا بت پرست اور روڈیرے اپنے جاہ و جلال اور منافع کو خطرہ میں دیکھ رہے تھے وہ اسلام کی پیش رفت روکنے کے لئے اپنی پوری کوشش کرتے تھے اور کسی ظلم و خباثت کے ارتکاب سے نہیں روکتے تھے کمزور اور محروم مسلمانوں کو تکلیف پہنچاتے، ان کی توہین کرتے اور ان کا مذاق اڑاے تھے تا کہ مسلمانوں پیغمبر اسلام(ص) کی مدد سے دستبردار ہوجائیں اور اسلام کو چھوڑدیں_ لیکن ان مسلمانوں کا خدا اور اسلام پر ایمان اتنا قوی اور محکم تھا کہ وہ ہر قسم کے آزار اور تکلیف اور محرومیت کو برداشت کرتے_ لیکن پیغمبر اسلام (ص) کی مدد سے دستبردار نہ ہوتے تھے اور

۱۴۳

اسلام کو نہ چھوڑتے تھے_

جب اذیتیں اور تکلیفیں حد سے بڑھ گئیں تو پیغمبر اسلام(ص) نے مسلمانوں کے ایک گروہ کو خفیہ طور پر حبشہ کی طرف ہجرت کرجانے کی اجازت دے دی مسلمانوں نے گھر بار چھوڑا اور اپنے ایمان کی حفاظت کی خاطر حبشہ ہجرت کر گئے اور انہوں نے عیسائیوں کے ایک گروہ کو دین اسلام کی طرف راغب کیا اور اس طریقہ سے انہوں نے عیسائیوں سے اسلام کا تعارف کرایا اور قربانی دینے والے مسلمانوں نے اپنی گفتار و کردار سے اسلام کی حیات بخش تعلیمات کو حبشہ میں پھیلایا_

مشرکوں کا ارادہ اور حضرت ابوطالب (ع)

بت پرستوں اور وڈیروں نے یہ جان لیا تھا کہ اسلام کا پھیل جانا اب یقینی ہے اسی لئے انہوں نے خطرے کا احساس کرلیا تھا اور پھر وہ اس کے تدارک کے لئے صلاح و مشورہ کرنے ایک جگہ اکٹھا ہوئے اور مختلف تجاویز کے متعلق تبادلہ خیال اور بحث و مباحثہ کرنے لگے_

ان میں سے ایک گروہ کی تجویز تھی کہ رسول خدا(ص) کو قتل کردینے سے یہ مسئلہ حل ہوجائے گا لیکن دوسرے گروہ کے لوگوں کا اس سے مختلف نظریہ تھا لیکن بالآخر نتیجہ کے طور پر رسول خدا(ص) کے قتل کی تجویز کو اکثریت نے قبول کرلیا اور قتل کردینے کا مصمم ارادہ کرلیا یہ فیصلہ بہت ہی خطرناک تھا_

آنحضرت(ص) کے چچا حضرت ابوطالب (ع) کو اس سازش کا علم ہوگیا

۱۴۴

آپ نے اپنے تمام رشتہ داروں کو اکٹھا کیا اور ان سے کہا:

کیا تم نے سنا ہے کہ قریش کے سرداروں نے محمد(ص) کے بارے میں کیا فیصلہ کرلیا ہے؟ کیا جانتے ہو کہ کون سی تجویزان کے جلسے میں منظور کرلی گئی ہے؟ جانتے ہو کہ انہوں نے پکا ارادہ کرلیا ہے کہ محمد(ص) کو قتل کردیں؟ تم ان کے اس ارادے کے مقابلے میں کیا رائے رکھتے ہو؟ مجھ سے جہاں تک ہوسکا محمد(ص) کا دفاع کروں گا تم کیا اقدام کروگے؟ محمد(ص) تمہاری عزت و شرف کا سرمایہ ہے میں تم سے خواہش کرتا ہوں کہ پوری قوت سے اپنی عزت و شراقت کا دفاع کرو مجھے بتاؤ کہ محمد(ص) کے دفاع کے لئے کیا کروگے ؟

سب نے جواب دیا کہ ہم سب حاضر ہیں کہ محمد(ص) کا دفاع اور ان کی حمایت کریں لیکن ہم اپنی کم تعداد کے سبب کس طرح دشمن کی عظیم طاقت کا مقابلہ کرسکتے ہیں_

جناب ابوطالب(ص) نے کہا

ہماری ذمہ داری ہے کہ محمد(ص) کا دفاع کریں اور دشمن کی کثرت اور اپنی قلت سے نہ گھرائیں اور صبر و استقامت اور اتحاد سے ان پر غلبہ حاصل کریں بہتر ہوگا کہ ہم اپنی طاقت کو ایک جگہ جمع کریں پھر ہم سب کے سب مرد و عورت چھوٹے بڑے، محمد(ص) کے اردگرد جمع رہیں

۱۴۵

اور دشمن سے ان کی حفاظت اور نگہداشت کریں_

رسول خدا(ص) کی حفاظت اور نگہداری

جناب ابوطالب کی تجویز گو بہت سخت اور مشکل تھی لیکن پھر بھی تما افراد نے اسے قبول کرلیا تھوڑاسا مال و اسباب اٹھایا اور مكّہ میں پہاڑ کے ایک درّے میں منتقل ہوگئے تا کہ حضرت محمد(ص) کی بہتر طور پر حفاظت کرسکیں_

تقریباً چالیس جنگجو مردوں نے اس درّہ میں کہ جس کا نام شعب ابی طالب تھا، عہد و پیمان کیا کہ اپنے خون کے آخری قطرے تک جناب محمد(ص) کی حمایت و حفاظت کریں گے اور عورتوں نے بھی اسی قسم کا معاہدہ کیا_

طاقتور جوان دن رات اس درّے کے چاروں طرف پہرا دیتے تھے دن میں پہاڑ کی گرم اور جھلسا دینے والی چوٹیوں پر گشت کرتے تھے اور رات میں پیغمبر خدا(ص) کے بہادر چچا جناب حمزہ اور علی ابن ابی طالب (ع) تلواریں نکالے پہرے داری کرتے تھے اور خود جناب ابوطالب (ع) بھی توجہ دیتے تھے اور رات کو کئی مرتبہ پیغمبر اسلام(ص) کی جگہ کو تبدیل کردیتے تھے اور کسی دوسرے کو ان کے بستر پر سلادیتے تھے کہ کہیں دشمن حملہ نہ کردیں اور ان کے سونے کی جگہ کو معلوم کرلیں اور آپ(ص) پر حملہ کر کے آپ کو قتل نہ کردیں_

مكّہ کے بت پرستوں نے جب پیغمبر(ص) کے مددگاروں کی اس بہادری و جانفشانی کو دیکھا تو انہوں نے کئی وجوہ کی بناپر پیغمبر(ص) کے قتل کا ارادہ ترک کردیا اور اپنی محفلوں میں بحث و مباحثہ اور مشورے سے ایک

۱۴۶

اور ارادہ کرلیا کہ شعب ابی طالب (ع) کے رہنے والوں سے روابط ختم کردیں اور ان کا اقتصادی بائیکاٹ کردیں تا کہ رسول خدا(ص) کے حامی و ناصر تھک جائیں، تنگ آجائیں اور آپ کی مدد سے دستبردار ہوجائیں اور آپ کو تنہا چھوڑدیں یا این کو اپنے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیں_

اقتصادی بائیکات کا معاہدہ

ان کی خاص انجمن میں جو ظالمانہ بائیکاٹ کا مضمون تیار کیا گیا اور اس پر سب نے دستخط کئے اس کا متن یہ تھا:

۱) ___ آج کے بعد کوئی حق نہیں رکھتا کہ محمد(ص) اور ان کے مددگاروں کے پاس آمد و رفت کرے اور ان کی مدد کرے_

۲)___ کوئی آدمی حق نہیں رکھتا کہ کوئی چیز ان کے پاس فروخت کرے یا کوئی چیز ان سے خریدے_

۳)___ کوئی بھی شخص ان سے شادی نہ کرے_

۴)___ اس معاہدہ پر دستخط کرنے والے افراد پابند ہوں گے کہ ان کو مورد اجراء قرار دیں اور ان کے پابند رہیں_

۵)___ دستخط کرنے والے پابندہوں گے کہ اس معاہدہ پر عمل کریں اور جستجو میں رہیں کہ کوئی بھی اس کی خلاف ورزی نہ کرے یہ معاہدہ قطعی اور اس پر عمل کرنا ضروری ہوگا اور کوئی بھی اس میں ردّ و بدل کا حق نہیں رکھتا یہ معاہدہ

۱۴۷

اس وقت تک معتبر رہے گا جب تک وہ لوگ محمد(ص) کو ہماری تحویل میں نہ دے دیں_

اس ترتیب سے اس ظالمانہ معاہدہ کو لکھا گیا اور اسے ایک مضبوط صندوق میں بند کر کے اندر رکھ دیا گیا اور اس کا دروازہ مضبوطی سے بند کردیا گیا اور اس معاہدہ کے تمام شقوں کی اطلاع تمام افراد کو دے دی گئی_

حضرت ابوطالب (ع) نے اپنے رشتہ داورں کو شعب کے ایک گوشے میں اکٹھا کیا اور ان کو قریش کے سرداروں کے اس معاہدے کی اطلاع دی اور فرمایا

تم جانتے ہو کہ قریش کے سرداروں نے کیا ارادہ کیا ہے؟ انہوں نے ارادہ کرلیا ہے کہ ہمار ا پوری طرح بائیکاٹ کریں اور ہمیں اقتصادی طور پر محصور کریں وہ چاہتے ہیں کہ ہم پر اتنا دباؤ ڈالیں کہ ہم محمد(ص) کی مدد سے دستبردار ہوجائیں تو اے میرے عزیزو اس ظالمانہ ارادے اور معاہدے کے مقابل کیا کروگے؟''

سب نے مل کر جواب دیا:

ہم یہ تمام سختیاں، رنج، بھوک، اور دباؤ برداشت کریں گے لیکن محمد(ص) کو کبھی بھی تنہا نہیں چھوڑدیں گے اور اپنے خون کے آخری قطرے تک ان کی حفاظت کریں گے_''

جناب ابوطالب (ع) نے ان تمام افراد کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ خود میں

۱۴۸

بھی جب تک میرے بدن میں جان ہے محمد(ص) کی حمایت کرتا رہوں گا_

اقتصادی بائیکاٹ

اقتصادی بائیکاٹ شروع ہوگیا اور لوگوں کا شعب ابی طالب سے ہر قسم کا رابطہ ختم ہوگیا کسی کو حق نہیں تھا کہ شعب میں رہنے والوں سے آمد و رفت اور خرید و فروخت کرے_

قریش کے سرداروں نے ایک گروہ لوگوں کی آمد و رفت پر نگاہ رکھنے کے لئے معین کردیا_ وہ نگرانی کرتے تھے کہ کوئی شخص شعب میں داخل نہ ہو، کوئی بھی چیز ان کے ہاتھ فروخت نہ کرے جو بھی اس بائیکاٹ کے معاہدے کی خلاف ورزی کرتا اس کامال ضبط کرلیتے تھے_

شعب میں محصور ہونے والے افراد نے بائیکاٹ کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنی زندگی کی ضرورت اور کھانے پینے میں پہلے کی نسبت میانہ روی برتنا_ شروع کردی تھوڑی غذا کھاتے اور کم سے کم غذا اور پانی پر قناعت کرتے اور ایک دوسرے سے ہمدردی اور تعاون کرتے تھے جو کچھ ان کے پاس تھا ایک دوسرے کے اختیار میں قرار دیتے تھے جوانوں میں طاقت اور صبر کا مادّہ زیادہ تھا وہ اپنی معمولی غذا بھی نہ کھاتے تھے بلکہ انہیں بچّوں اور سن رسیدہ افراد کو دے دیتے تھے_

شعب میں کسی قسم کی آمد و رفت نہ ہوتی تھی_ خوراک کا ذخیرہ آہستہ آہستہ خرچ ہو رہا تھا اور شعب میں رہنے والوںپر بالخصوص بچّوں پر بھوک

۱۴۹

زیادہ شدّت سے اثرانداز ہو رہی تھی صرف کبھی کبھار بعض جانباز اور دلیر افرد پوری طرج چھپ کر رات میں شہر جاتے اور ہزارہا مصیبتوں کے بعد کچھ خوراک حاصل کرتے اور واپس شعب میں لوٹ جاتے، کبھی بنی ہاشم کے ہمدرد رشتہ دار اپنے اونٹ پر خوراک لادتے اور آدھی رات کے وقت شعب کے نزدیک جا کر اسے چھوڑ آتے اور درّہ کی طرف بڑھا دیتے تھے_

شعب مین محبوس اور محصور لوگ سال میں فقط دو مرتبہ حرام مہینوں میں شعب سے باہر نکل سکتے تھے کیونکہ مشرک ان مہینوں میں اپنی پرانی رسم کے مطابق جنگ و جدال کو حرام جانتے تھے_

ان ایام میں پیغمبر(ص) ان لوگوں سے جو اطراف مكّہ سے حج و عمرہ ادا کرنے کے لئے آیا کرتے تھے گفتگو فرماتے تھے ان کے سامنے قرآن کی تلاوت کرتے اور انہیں خداوند عالم کی پرستش اور روز آخرت (قیامت) پر ایمان لانے کی دعوت دیتے_

لیکن مشرکین ہر وقت آپ کی تبلیغ کے کام میں مداخلت کرتے اور لوگوں کو آپ کے اردگرد سے دور کردیا کرتے تھے آپ کی باتوں کو قصّہ کہانی قرار دیتے اور لوگوں سے کہتے تھے کہ محمد(ص) (معاذاللہ) جھوٹ بولتا ہے آخرت (قیامت) کچھ بھی نہیں ہے_

قرآن کریم، پیغمبر(ص) سے مشرکین کے سلوک اور اس کی سزا اور عاقبت کے متعلق یوں بیان کرتا ہے_

''مشرکین کہتے ہیں کہ پیغمبر(ص) کی باتیں پہلے زمانے کے قصے اور افسانے ہیں لوگوں کو ان کی باتوں کو سننے سے

۱۵۰

روکتے ہیں اور ان سے لوگوں کو دور کردیتے ہیں ایسے لوگ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں اور انہیں سمجھتے (اے رسول(ص) ) اگر تم انہیں دیکھتے (تو تعجب کرتے) جب وہ جہنّم کے کنارے کھڑے ہوں گے اور کہیں گے کاش ہم دنیا میں لوٹائے جاتے اور ہم اللہ کی آیات کو نہ جھٹلاتے اور مومنین کے گروہ میں داخل ہوجاتے اپنی جن برائیوں کو چھپاتے تھے وہ ان کے سامنے ظاہر ہوجائیں گی اور اگر یہ دنیا میں دوبارہ لوٹائے جائیں پھر بھی انہیں برے کاموں میں مشغول ہوجائیں گے کیونکہ یہ جھوٹ بولتے ہیں_ مشرکین کہتے ہیں کہ اس دنیا کی زندگی کے علاوہ کوئی اور دنیا نہیں ہے اور آخرت آنے والی نہیں ہے اور ہم دوبارہ نہیں اٹھائے جائیں گے (اے رسول(ص) ) اگر تم انہیں دیکھو (تو تعجب کروگے) جب یہ لوگ خداوند عالم کے سامنے کھڑے ہوں گے اور ان سے سوال کیا جائے کا کیا اب بھی آخرت حق نہیں ہے؟ اس وقت جواب دیں گے_ کیوں نہیں پروردگار کی قسم یہ مکمل حق ہے ان سے کہا جائے گا کہ بس اب آخرت کی سزا کا مزا چکھو جو کفر و انکار کی سزا ہے_''

شعب کے محصورین ان مہینوں میں ہزار زحمت اور ارتباط کے ساتھ اپنے لئے غذا کی قلیل سی مقار حاصل کرپاتے تھے اور پیغمبر(ص) خدا اس

۱۵۱

مختصر سے وقت میں اسی طرح لوگوں سے خطاب فرماتے تھے _

ایام حرام اسی طرح تیزی سے گزر جاتے تھے شعب کے رہنے والے مجبور ہوتے تھے کہ پیغمبر(ص) کی حفاظت کی غرض سے پھر اس شدید گرم درّے میں لوٹ جائیں اور وہیں پناہ لیں ان تمام مصائب پر یہ لوگ، رسول(ص) اور حق کے دفاع کی خاطر صبر کرتے تھے اور اس کی حفاظت کرتے تھے _

آیت قرآن

''( انّ الّذین امنوا والّذین هاجروا و جاهدوا فی سبیل الله اولئک یرجون رحمت الله و الله غفور رّحیم ) ''

سورہ بقرہ۲/ آیت ۲۱۸''

بہ تحقیق جو لوگ ایمان لائے او رجنہوں نے ہجرت کی ہے اور راہ خدا میں جہاد کیا ہے وہ اللہ کی رحمت کے امیدوار ہیں اور اللہ بخشنے والا اور رحیم ہے_

سوچیئےور جواب دیجئے

۱)___ مستکبرین، اسلام کی ترقی سے کیوں ڈرتے تھے؟ اور اسلام

۱۵۲

کی دعوت کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے کیا کرتے تھے؟

۲)___ مسلمانوں کے ایک گروہ نے حبشہ کی طرف ہجرت کیوں کی یہ اسلام کے فروغ، اس کی تبلیغ اور اس کی وسعت کے لئے کیا اقدام کرتے تھے؟ اور اسلام کی پیش رفت کے لئے کس چیز سے استفادہ کرتے تھے؟

۳)___ کیا ان لوگوں کو پہچانتے ہیں کہ جنہوں نے انقلاب اسلامی کے پھیلاؤ کے لئے ہجرت کی تھی، ان کی ہجرت کے سبب کو بیان کیجئے؟ اور ان کی خدمات کو بھی بیان کیجئے؟

۴)___ جب مشرکین نے اسلام کی وسعت سے خطرہ محسوس کیا تو اسکے تدارک کیلئے کیا سوچا؟ اور انہوں نے کیا ارادہ کیا؟

۵)___ جب ابوطالب(ع) کو مشرکین کے ارادے کی اطلاع ملی تو انہوں نے کیا کیا؟ اور اپنے رشتہ داروں سے کیا کہا؟

۶)___ مشرکین کا دوسرا ارادہ کیا تھا اور اس ظالمانہ معاہدہ کا مضمون کیا تھا؟

۷)___ اقتصادی بائیکاٹ کے بعد پیغمبر(ص) اور ان کے رشتہ داروں کی شعب ابی طالب میں کیا حالت تھی؟

۸)___ کس وقت پیغمبر(ص) اور ان کے رشتہ دار شعب ابی طالب سے باہر نکل سکتے تھے؟

۹)___ قرآن مجید مشرکین کی رسول (ص) خدا کے ساتھ گفتگو کے بارے میں کیا فرماتا ہے؟

۱۵۳

۱۰) ___ کفار مشرکین آخرت میں کیا آرزو کریں گے؟ کیا ان کی آرزو پوری ہوگی؟

۱۱)___ مشرکین کا آخرت کے بارے میں کیا عقیدہ ہے؟ خدا قیامت کے دن دن سے کیا کہے گا؟ اور یہ کیا جواب دیں گے؟ اور کیا جواب سنیں گے؟

۱۵۴

استقامت اور کامیابی

پیغمبر اسلام(ص) اور ان کے وفادار ساتھیوں نے شعب ابی طالب(ع) میں تین سال بہت سختیوں اور تکلیفیں اٹھائیں یہ انتہائی سخت اور صبر آزما عرصہ تھا دن کو حجاز کی گرمی او رچلچلاتی ہوئی دھوپ اور رات کو دشمن کے اچانک جملہ کا خوف بچّوں کے دلوں کو لرزاتی تھی_ پانی اور غذا کی قلت اور بھوک پیاس کی تکلیفیں جان لیوا تھیں، بچّے بھوک پیاس کی شدّت سے تنگ آکر نالہ و فریاد کرتے اور اپنے ماں باپ سے خوراک طلب کرتے تھے_

گو ان تمام مصائب کا برداشت کرنا مشکل و دشوار تھا لیکن ان غیور اور بہادر جان نثاروں نے تمام مصائب کو برداشت کیا اور تیار نہ ہوئے کہ اپنی انسانی شرافت اور عزت سے دستبردار ہوجائیں اور رسول خدا(ص) کے دفاع سے ہاتھ اٹھائیں_ انہوں نے اتنے صبر و تحمّل کا مظاہرہ کیا کہ پیغمبر(ص)

۱۵۵

کے دشمن ظلم کرتے کرتے تھک گئے بچّوں کی آہ و بکا اور ان کی فریاد و فغان نے ان میں سے بعض کے دل پر آہستہ آہستہ اثر کرنا شروع کردیا اور وہ اس برے طرز عمل پر پشیمان ہونے لگے_

کبھی وہ ایک دوسرے سے پوچھتے کیا ہم انسان نہیں ہیں ؟ کیا ہم صلہ رحمی اور مروّت و ہمدردی کی ایک رمق بھی باقی نہیں رہی؟

ہم نے کیوں اس ظالمانہ معاہدہ پر دستخط کئے؟

ہمارے اہل و عیال تو بڑے آرام سے گھروں میں سو رہے ہیں لیکن بنی ہاشم کے بچّے بھوک و پیاس سے آہ و بکار کر رہے ہیں اور انہیں آرام و سکون سے سونا تک نصیب نہیں_

اس اقتصادی بائیکاٹ کا کیا فائدہ؟

کیا یہ اقتصادی بائیکاٹ اور دباؤ ان بہادر جانبازوں کو سر تسلیم خم کرنے پر آمادہ کرسکے گا؟ ہرگز نہیں بلکہ اگر وہ تمام کے تمام بھوک کی شدت کے سبب موت کے نزدیک بھی پہنچ جائیں تب بھی نہیں جھکیں گے _

مشرکین کا ایک گروہ جو نادم ہوچکا تھا کسی مناسب موقع کی تلاش میں تھا تا کہ اس ظالمانہ معاہدے کو ختم کرسکے اور حضرت محمد(ص) اور ان کے اصحاب کو اقتصادی محاصرے سے نجات دلاسکے_

لیکن قریش کے سردار اب بھی مصر تھے کہ دباؤ اور بائیکاٹ کو جاری رکھا جائے_

۱۵۶

ابوطالب (ع) مشرکین کے مجمع میں

رسول اکرم (ص) نے حضرت ابوطالب(ع) سے کوئی بات کہی اور خواہش ظاہر کی کہ اس کو مشرکین تک پہنچادیں_ حضرت ابوطالب(ع) اپنے چند عزیزوں کے ساتھ مسجدالحرام کی طرف روانہ ہوئے اور سیدھے مجلس قریش میں آئے_

قریش کے سردار حضرت ابوطالب (ع) کو وہاں آتا دیکھ کر حیران ہوئے اور سوچنے لگے کہ شاید ابوطالب (ع) اقتصادی بائیکاٹ اور اس کی سختیوں سے تنگ آگئے ہیں اور اس لئے آئے ہیں کہ محمد(ص) کو ہمارے حوالے کردیں_

سب کے سب بہت خوش ہوئے اور ابوطالب(ع) کو نہایت احترام سے صدر مجلس میں بٹھایا اور خوش آمدید کہا: اور کہنے لگے اے ابوطالب (ع) تم ہمارے قبیلے کے سردار تھے اور ہو، ہم نہیں چاہتے تھے کہ تمہاری تھوڑی سی بھی بے حرمتی ہو لیکن افسوس تمہارے بھتیجے کے رویے نے اس قسم کا ماحول پیدا کردیا_ کیا تم کو یاد ہے کہ ہم محمد(ص) کے سامنے درگزر کرنے اور صلح کرنے پر آمادہ تھے اور اس نے ہمیں کیا جواب دیا تھا؟ تم سے ہم نے خواہش کی تھی کہ محمد(ص) کی حمایت سے دستبردار ہوجاؤ تا کہ ہم محمد(ص) کو قتل کرسکیں لیکن تم نے اسے قبول نہ کیا اور اپنے رشتہ داروں اور قبیلے کو اپنی مدد کیلئے بلایا اور محمد(ص) کی حفاظت او رنگرانی کرنا شروع کردی_ کیا قطع رابطہ اور

۱۵۷

اقتصادی بائیکاٹ کے علاوہ ہمارے پاس اور کوئی صورت باقی رہی تھی؟ ہمیں یہ علم ہے کہ یہ مدت تم پر اور تمہارے اہل و عیال پر بہت سخت گزری اور تمہیں سخت و دشواری کا سامنا کرنا پڑا لیکن اب ہم خوش ہیں کہ تم اب ہمارے پاس آگئے ہو اگر تم اس سے پہلے آجاتے تو تمھیں اور تمہارے اہل و عیال اور شتہ داروں کو یہ تکالیف اور مصائب نہ دیکھنے پڑتے_

جناب ابوطالب (ع) اس وقت تک خاموش تھے اور حاضرین کا گہری نظر سے جائزہ لے رہے تھے آپ (ع) نے فرمایا:

کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ اقتصادی بائیکاٹ کی سختی اور دباؤ سے تنگ آگیا ہوں؟ کیا تم یہ سمجھ رہے ہو کہ میں اپنے مقصد تک پہنچنے کے راستے پر چلنے سے تھک گیا ہوں اور اب مجھے دشواریاں برداشت کرنا مشکل ہو گیا ہے؟ اطمینان رکھو کہ معاملہ ایسا نہیں ہے اور جب تک میں زندہ ہوں محمد(ص) اور ان کی روش کی حمایت کرتا رہوں گا ان کے عظیم ہدف کے حصول کے لئے سعی و کوشش سے کبھی نہ تھکوں گا میں اور میرے جوان ایک مضبوط پہاڑ کی مانند ان تمام مشکلات کے سامنے ڈٹے رہیں گے اور جان لو کہ ہم یقینا کامیاب ہوں گے کیونکہ صبر و استقامت کا نتیجہ کامیابی ہوا کرتا ہے

۱۵۸

میں نے محمد(ص) کی حمایت سے ہاتھ نہیں کھینچا اور نہ اس اور نہ اس لئے تمہارے پاس آیا ہوں کہ محمد(ص) کو تمہارے سپرد کردوں بلکہ میں محمد(ص) کا ایک پیغام تمہارے لئے لے کر آیا ہوں''

پیغمبر خدا(ص) کا پیغام

یہ پیغام تمہارے عہدنامہ سے متعلق ہے تم پہلے عہدنامہ والے صندوق کو لاؤ اور اس مجمع کے سامنے رکھو تا کہ میں محمد(ص) کا پیغام تم تک پہنچاؤں''

وہ صندوق لے آئے_

جناب ابوطالب (ع) نے گفتگو کو جاری رکھا اور فرمایا کہ: جو فرشتہ اللہ تعالی کا پیغام محمد(ص) کے پاس لے کر آیا کرتا ہے اب اس نے یہ پیغام دیا ہے کہ تمہارے عہد نامہ کی تحریر کو دیمک چاٹ گئی ہے اب صرف اس کا تھوڑا حصّہ باقی رہ گیا ہے صندوق کھولو اور عہدنامہ کو دیکھو اگر ان کا پیغام صحیح ہوگا تو ثابت ہوجائے گا کہ وہ اللہ تعالی کی طرف سے پیغمبر(ص) بنا کر بھیجے گئے ہیں اور محمد(ص) خدا کی طرف (جو تمام چیزوں کا علم رکھتا ہے) پیغام حاصل کرتے ہیں اور واقعاً وحی کا فرشتہ ان کے لئے خبر لاتا ہے صندوق کھولو، اور محمد(ص) کی بات کی صداقت کو دیکھو اگر محمد(ص) کی بات

۱۵۹

صحیح ہوئی تو تم پانی سرکشی اور ظلم و ستم سے باز آجاؤ اور ان کی نبوت و خدا کی وحدانیت پر ایمان لے آؤ تا کہ دنیا و آخرت میں فلاح پاؤ اور اگر ان کی بات صحیح نہ ہوئی تو میں بغیر کسی قید و شرط کے محمد(ص) کو تمہارے سپرد کردوں گا، تا کہ جس طرح چاہو ان سے سلوک کرو''

بعض افراد نے کہا: یہ کیسے ممکن ہے کہ محمد(ص) نے صندوق کے اندر دیکھ لیا ہو، یقینا یہ بات غلط ہے_ جلدی سے مہر توڑو اور اسے کھولو تا کہ ان کے دعوے کا غلط ہونا سب پر ظاہر ہوجائے انہوں نے صندوق کھولا او رعہد نامہ کو باہر نکالا بڑے تعجب سے دیکھا کہ عہد نامہ کی تحریر کو دیمک چاٹ چکی ہے اور صرف تھوڑا سا حصّہ باقی رہ گیا ہے_

جناب ابوطالب (ع) بہت خوش نظر آرہے تھے آپ نے ان لوگوں سے کہا:

اب جبکہ تم نے محمد(ص) کی صداقت کو جان لیا تو ان کی دشمنی اور سرکشی سے باز آجاؤ اور اللہ کی وحدانیت رسول (ص) کی پیغمبری اور روز جزا کی حقانیت پر ایمان لے آؤ تا کہ دنیا و آخرت کی فلاح پاؤ''

بعض افراد بہت غصّے میں آگئے اور ایک گروہ سوچ و بچار میں غرق ہوگیا اسی وقت کچھ لوگ اٹھے اور کہا:

تم پہلے دن سے ہی اس عہد نامہ کے مخالف تھے

انہوں نے عہدنامہ کا باقی حصہ جو دیمک کے کھانے سے بچ گیا تھا

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254