‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) جلد ۴

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) 15%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 254

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 254 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 74867 / ڈاؤنلوڈ: 3874
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) جلد ۴

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

اسلام کی طرف مائل ہوگئے اور بعضوں نے اسلام قبول بھی کرلیا_

تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ یثرب کے مشہور افراد میں سے بارہ آدمی مكّہ آئے تا کہ اپنے اسلام کو پیغمبر(ص) کے سامنے پیش کریں اور اسلام کیلئے اپنی خدمات وقف کردیں_

ان افراد کی پیغمبر(ص) سے ملاقات اتنی آسان نہ تھی کیونکہ مكّہ کی حکنومت بت پرستوں اور طاقتوروں کے زور پر چل رہی تھی اور شہر مكّہ کے رعب و دبدہ اور ظلمت و تاریکی کا شہر تھا آخر ان لوگوں سے ملاقات کے لئے ایسی جگہ کا انتخاب کیا گیا جو شہر سے باہر، پہاڑ کے دامن میں اور مشرکوں کی نظروں سے دور تھی یہ ملاقات آدھی رات کو عقبہ نامی جگہ پر رکھی گئی_

عقبہ کا معاہدہ

آدھی رات کے وقت چاند کی معمولی روشنی میں نہایت خفیہ طور پر سعد ابن زرہ، عبادہ ابن صامت اور دوسرے دس آدمی پہاڑ کے پیچھے پر پیچ راستے سے گزرتے ہوئے پیغمبر اسلام(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے تھوڑے سے مسلمان بھی مكّہ سے پیغمبر(ص) کے ساتھ آئے _

تمام گفتگو بہت رازداری کے ساتھ اور خفیہ طور پر ہوئی اور سپیدی صبح سے پہلے جلسہ برخاست ہوگیا اور ان تمام کے تمام حضرات نے انتہائی احتیاط کے ساتھ اپنی اپنی راہ لی_ اور خوش بختی سے مكّہ کے مشرکوں میں سے کسی کو بھی اس جلسہ کی خبر نہ ہوئی_

۱۸۱

مدینہ میں مسلمانوں نے ان بارہ افراد سے پوچھا کہ رسول خدا(ص) سے ملاقات کیسی رہی___؟ ان سے کیا کہا اور کیا معاہدہ ہوا___؟

انہوں نے جواب میں کہا کہ:

ہم نے خدا کے رسول (ص) سے معاہدہ کیا ہے کہ خدا کا کوئی شریک قرار نہ دیں گے، چوری نہ کریں گے نہ زنا اورفحشاء کا ارتکاب کریں گے، اپنی اولاد کو قتل نہ کریں گے ایک دوسرے پر تہمت نہیں لگائیں گے نیک کاموں میں رسول خدا(ص) کی مدد کریں گے اور آپ کی نافرمانی نہیں کریں گے''

مدینہ میں تبلیغ اسلام

ایک مدّت کے بعد انہوں نے پیغمبر اکرم(ص) کو خط لکھا کہ ایک ایسا آدمی ہماری طرف روانہ کیجئے جو ہمیں اسلام کی تعلیم دے اور قرآن مجید کے معارف سے آگاہ و آشنا کرے_

پیغمبر(ص) نے ایک جوان مصعب نامی ان کی طرف روانہ کیا مصعب قرآن مجید کو عمدہ طریقہ سے اور خوش الحانی کے ساتھ قرات کیا کرتا تھا اور بہت عمدہ اور دل نشین گفتگو کرتا تھا دن میں مدینہ کے ایک کنویں کے نزدیک درخت کے سائے میں کھڑا ہوجاتا اور بہت اچھی آواز کے ساتھ قرآن پڑھتا،

لوگ اس کے اردگرد حلقہ بنالیتے اور وہ ٹھہرٹھہر کر قرآن

۱۸۲

کی تلاوت کرتا جب کوئی دل قبول کرنے کے لئے تیار ہوجاتا تو اس سے گفتگو کرتا اور دین اسلام کی اعلی تعلمیات کو اس کے لئے بیان کرتا:

جن حق پرست اور حق کو قبول کرنے والے لوگوں کے دل نرم ہوجاتے تو وہ اس کی باتوں کو توجّہ سے سنتے اور اسلام کے گرویدہ ہو کر ایمان لے آتے تھے''

اسلام کی طرف اس طرح مائل ہونے کی خبر سن کر مدینہ کے بعض قبائل کے سردار سخت ناراض ہوئے اور ان میں سے ایک مصعب کو مدینہ سے باہر نکالنے کے لئے بڑی تیزی کے ساتھ اس کی طرف بڑھا اور اس کے نزدیک پہنچ کر غصہ کے عالم میں اپنی تلوار کو نیام سے باہر کھینچ کر چلایا کہ: اسلام کی تبلیغ کرنے سے رک جا اور ہمارے شہر سے باہر چلا جا ورنہ ...؟

مصعب نے اس کے اس سخت لہجہ کے باوجود نہایت نرمی اور محبت سے کہا:

کیا ممکن ہے کہ ہم تھوڑی دیر کے لئے یہیں بیٹھ جائیں اور آپس میں گفتگو کریں؟ میری باتوں کو سنو اگر وہ غیر معقول اور غلط نظر آئیں تو میں ان کی تبلیغ سے دستبردار ہوجاؤں گا اور اس راستے سے کہ جس سے آیا ہوں واپس چلاجاؤں گا ...''

تم سچ کہہ رہے ہو، مجھے پہلے تمہاری بات کو سننا چاہئے،تمہاری دعوت کو سننا چاہیئے اس کے بعد کوئی

۱۸۳

فیصلہ کرنا چاہئے''

اس سردار نے اپنی شمشیر کو نیام میں رکھا اور مصعب کے قریب بیٹھ گیا_ مصعب نے قرآن مجید کی چند منتخب آیا ت اس کے سامنے تلاوت کیں''

اے کاش کہ تاریخ نے ہمارے لئے ان آیات کو تحریر کیا ہوتا جو اس حساس لمحہ میں مصعب نے تلاوت کیں_ لیکن خدا کا شکر ہے کہ قرآن ہمارے سامنے ہے ہم ان آیات کے مانند دوسری آیات کو سمجھنے کی کوشش کریں جو تقریباً وہی معنی رکھتی ہیں جن میں خدا نے مشرکین کو خبردار کیا اور انہیں اسلام کی دعوت دی ہے''___ دیکھیں اور سوچیں''

آیا جو خلق کرنے والا ہے خلق نہ کرنے والے کے برابر ہے بس تم کیوں نہیں سوچتے؟

اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہا ہو تو نہ کرسگو گے البتہ خدا بخشنے والا اور مہربان ہے اور خدا ان چیزوں کو جنہیں تم چھپاتے ہو اور انہیں جنہیں ظاہر کرتے ہو تمام کا علم رکھتا ہے،

یہ بت کہ جنہیں خدا کے مقابل پرستش کرتے ہو اور ان سے مانگتے ہو یہ کوئی چیز بھی خلق نہیں کرسکتے بلکہ خود کسی کے بنائے ہوئے ہیں''

تمہارا خدا ایک ہے وہ لوگ جو آخرت پر ایمان نہیں لاتے ان کے دل برے اور سرکش و متکبّر ہیں''

خدا اس سے جو تم چھپ کر انجام دیتے ہو آگاہ ہے اور اس سے کہ جسے علانیہ بجالاتے ہو آگاہ ہے اور خدا متکبّرین کو کبھی بھی دوست نہیں رکھتا

۱۸۴

قرآن کے نورانی حقائق اور آیات کی جاذبیت و زیبائی اور مصعب کے حوصلے اور اخلاق و استقامت نے اس شخص میں تغیر اور تبدیلی پیدا کردی، اس کی سوئی ہوئی روح کو بیدار کردیا اور اس کی سرکش اور متکبّر عداوت سرنگوں ہوگئیں اور اسے ایسا سکون و اطمینان حاصل ہوا کہ وہ جاننے اور ماننے کے لئے آمادہ ہوگیا تب اس نے انتہائی تحمل اور بردباری سے کچھ سوالات ادب سے کئے پھر پوچھا:

اسلام کس طرح قبول کیا جاتا ہے؟ اس دین کے قبول کرنے کے آداب و رسوم کیا ہیں؟

مصعب نے جواب دیا:

کوئی مشکل کام نہیں، صرف اللہ کی وحدانیت اور محمد(ص) کی رسالت کی گواہی دی جائے، کپڑوں اور جسم کو پانی سے دھوکر پاک کیا جائے اور خدا کے بندوں سے انس و محبت کی راہ کھول دی جائے اور نماز پڑھی جائے_

عقبہ میں دوسرا معاہدہ

مدینہ کے لوگ دین اسلام کی حقانیت دریافت کر رہے تھے اور ایک کے بعد دوسرا امر الہی کو تسلیم کر رہا تھا وہ لوگ بہت ذوق و شوق سے دین اسلام کو قبول کر رہے تھے_ انتظار کر رہے تھے کہ حج کے دن آپہنچیں اور وہ سفر کریں اور پیغمبر(ص) کے دیدار کے لئے جائیں اور اپنی مدد اور خدمت

۱۸۵

کرنے کا اعلان کریں''

آخر کار پانچ سو آدمیوں کا قافلہ مدینہ سے مكّہ کی طرف روانہ ہوا اس قافلہ میں ستّر کے قریب مسلمان بھی موجود تھے_ ان سب کا پروگرام پیغمبر اکرم(ص) سے ملاقات کرنے کا بھی تھا وہ چاہتے تھے کہ اس ملاقات میں پیغمبر(ص) سے رسمی طور سے بیعت کریں اور آپ(ص) کی مدد کا اعلان کریں''

۱۳/ ذی الحجہ کی آدھی رات کو منی میں ایک پہاڑی کے دامن میں ملاقات کرنے کا وقت معین کیا گیا،

وہ وقت آپہنچا اور مسلمان چھپ چھپ کر ایک، ایک، دو، دو، کر کے اس عقبہ کی طرف چل دئے اور وہاں مشرکوں کی سوئی ہوئی آنکھوں سے دور جمع ہوکر پیغمبر(ص) کے گرد حلقہ ڈال دیا،

انہوں نے پیغمبر(ص) سے خواہش کی کہ آپ(ص) کچھ خطاب فرمائیں، پیغمبر(ص) نے قرآن مجید کی کچھ آیات کا انتخاب کر کے ان کے سامنے تلاوت کی اور اسکی تشریح بیان کی اور فرمایا، اللہ سے مدد طلب کرو اور صبر و استقامت کو اپنا شیوہ بناؤ اور یہ جان لو کہ نیک انجام متقیوں کے لئے ہوا کرتا ہے اس کے بعد پیغمبر(ص) نے اپنی خواہش کاا ظہار کیا اور فرمایا:

کیا تم پسند کرتے ہو کہ میں مدینہ کی طرف ہجرت کروں اور تمہارے ساتھ زندگی بسر کروں؟''

سبھی نے پیغمبر(ص) کی اس خواہش پر اپنی رضامندی کا اظہار کیا اور نہایت اشتیاق سے ایک بولا

خدا کی قسم میں پوری صداقت کے ساتھ آپ(ص) سے عہد

۱۸۶

کرتا ہوں کہ آپ(ص) کے دفاع میں اپنی جان کی بازی لگادوں گا اور جو کچھ زبان سے کہہ رہا ہوں وہی میرے دل میں بھی ہے''

دوسرے نے کہا:

میں آپ(ص) کی بیعت کرتا ہوں کہ جس طرح اپنے اہل و عیال اور اولاد کی حفاظت کرتا ہوں، آپ(ص) کی بھی کروں گا:

تیسرے نے کہا:

ہم جنگ اور لڑائی کے فرزند ہیں اور جنگ کے سخت میدان کے لئے تربیت حاصل کی ہے اور جان کی حد تک پیغمبر خدا(ص) کی خدمت اور دفاع کے لئے حاضر ہیں''

یہ پورا اجتماع، شوق اور محبت سے لبریز تھا اور ان میں سے ہر ایک نے اپنے دل کی بات کہی لیکن وہ یہ بھول چکے تھے وہ مكّہ میں اور مشرکوں کی ایک خطرناک حکومت کے درمیان بیٹھے ہوئے ہیں،

پیغمبر اکرم(ص) کے چچا نے جو آپ(ص) کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے بہت دہیمی آواز میں جو کہ مشکل سے سنی جا رہی تھیں کہا:

مطمئن رہو، آہستہ بولو، کہیں مشرکوں نے ہمارے اوپر کوئی آدمی تعینات نہ کیا ہو ...''

اس کے بعد یہ جلسہ ختم ہوا اور لوگوں نے فرداً فرداً پیغمبر(ص) کے ہاتھ پر بیعت کی، عہد کیا اور خداحافظ کہا:

ابھی دن کی سفیدی بھی نمودار نہیں ہوئی تھی کہ تمام لوگ وہاں سے علیحدہ علیحدہ روانہ ہوگئے''

۱۸۷

لیکن افسوس، دوسرے دن معلوم ہوا کر مكّہ کے مشرکوں کو اس جلسے کی خبر مل چکی ہے اور اہل مدینہ کی پیغمبری(ص) سے بیعت اور بہت کی گفتگو کا کافی حد تک انہیں علم ہوچکا ہے مشرکین میں اضطراب اور خوف پھیل گیا اور انہوں نے سوچا کہ اگر محمد(ص) اور دوسرے مسلمان مكّہ سے مدینہ چلے گئے اور وہاں مضبوط مرکز بنالیا تو کیا ہوگا؟

لہذا وہ سب دالندوہ میں اکٹھے ہوئے اور بہت زیادہ سختی کرنے کا فیصلہ کیا اور اسلام کی جڑیں کاٹنے اور مسلمانوں کو ختم کرنے کے لئے کسی عمدہ طریقہ کو سوچنے لگے_

آیت قرآن

( انّ الّذین قالوا ربّنا الله ثمّ استقاموا فلا خوف علیهم و لا هم یحزنون ) ''

سورہ احقاف آیت ۱۳/''

البتہ جن لوگوں نے اقرار کیا کہ ہمارا رب خدا ہے اور پھر اس پر محکم رہے تو نہ ان پر خوف ہوگا ورنہ ہی وہ محزون ہوں گے''

سوچئے اور جواب دیجئے

۱۸۸

۱)___ سورہ نحل کی جن آیات کا ترجمہ اس سبق میں بیان ہوا ہے، ان میں خداوند عالم نے کن چیزوں کو اپنی قدرت کی_

واضح نشانیاں بتایا ہے؟ اور ان نشانیوں کے ذکر کرنے سے کیا نتیجہ اخذ کیا ہے؟ یہ نشانیاں دین اسلام کے اصولوں میں سے کس اصل کو بیان کرتی ہیں _

۲)___ قبیلہ خرزج کے ان چھ آدمیوں نے کہ جنہوں نے پیغمبر اسلام(ص) کے سامنے اسلام قبول کیا تھا یہودیوں سے کیا سن رکھا تھا؟ اور یہودیوں کی وہ خبر کس اصول کو بیان کرتی ہے؟

۳) ___ جب یہ لوگ پیغمبر اسلام(ص) سے جدا ہو رہے تھے تو کس مسئلہ کے بارے میں امید کا اظہار کر رہے تھے؟

۴)___ پیغمبر(ص) نے کس آدمی کو مدینہ کی طرف تبلیغ کے لئے بھیجا؟ اور اس میں کیا خصوصیات موجود تھیں؟ اس کی تبلیغ کا کیا طریقہ تھا؟ اور دین اسلام کو قبول کرنے کے لئے وہ کون سی چیزیں بیان کرتا تھا؟

۵)___ دوسرے معاہدہ کا وقت کیا تھا؟ اس میں کتنے افراد نے پیغمبر(ص) کا دیدار کیا؟ اور کیا کہا اور کیا سنا ؟

۱۸۹

مشرکوں کا مکر و فریب

جب مشرکوں کو اس خفیہ اجلاس کی اطلاع ہوئی تو انہوں نے مسلمانوں پر آزار و تکلیف پہنچانے میں اضافہ کردیا مسلمان جو مصائب و مشکلات کی بناپر بہت زیادہ دباؤ میں تھے انہوں نے پیغمبر(ص) سے سوال کیا کہ کیا ان مصائب پر صبر کریں؟ یا کوئی اور راستہ اس کے لئے سوچیں؟

رسول خدا(ص) نے انہیں حکم دیا کہ بالکل خفیہ طور پر مشرکوں کی آنکھوں سے چھپ کر مدینہ کی طرف کہ جسے اس زمانے میں یثرب کہا جاتا تھا اور بعد میں اس کا نام پیغمبر(ص) اسلام کے احترام میں ''مدینة الرسول'' رکھا گیا ہجرت کر جائیں اور آپ(ص) نے انہیں خوشخبری دی کہ:

جو لوگ اس رنج و غم اور ظلم پر جوان پر روا رکھا گیا ہے صبر کر کے ہجرت کرجائیں گے تو خداوند

۱۹۰

بزرگ ان کے لئے دنیا میں ایک عمدہ اور قیمتی جگہ عطا کرے گا البتہ ان کا آخرت میں اجر بہت بہتر اور بالاتر ہوگا یہ عظیم اجر اس شخص کو نصیب ہوگا کہ جو مشکلات میں صابر اور پائیدار اور استقامت رکھتا ہو اور خداوند عالم پر توکل کرے البتہ خدا تم پر جو مشکلات میں صبر وہ حوصلہ رکھتے ہو او راللہ تعالی کی راہ میں ہجرت اور جہات کرتے ہو بہت ہی مہربان اور بخشنے والا ہے''

لیکن ہجرت کس طرح ممکن ہے؟

اس شہر سے کہ جس میں بہت طویل مدت گزاری ہو اور اس سے مانوس ہوں کس طرح چلے جائیں؟

کیسے ہوسکتا ہے کہ گھر بار کو چھوڑ کر یک و تنہا ایک ایسے شہر کی طرف چلے جائیں جو ہمارے لئے بالکل اجنبی ہے؟

کس طرح چھوٹے بچّوں کو اتنے طویل اور سخت سفر میں ہمراہ لے جایا جائے_

اور کس طرح اس شہر میں کہ جس سے واقف نہیں زندگی گزاری جائے؟ نہ کسب اور نہ کوئی کام نہ کوئی آمدنی اور نہ ہی گھر یہ

یہ تمام مشکلات ان کی آنکھوں میں پھر گئیں_ لیکن اللہ کا وعدہ اور خدا پر توکل اور خدا کے راستے میں صبر ان تمام مشکلات اور سختیوں کو آسان کردیتا تھا_

لہذا خدا کے وعدے پر اعتماد اور خدا کی مدد سے ان فداکار مسلمانوں

۱۹۱

نے مدینہ کی طرف ہجرت کا آغاز کیا''

مشرکوں کو جب اس کی اطلاع ملی تو اس وقت تک کافی زیادہ مسلمانوں مدینہ ہجرت کرچکے تھے_ لہذا دوسرے مسلمانوں کی ہجرت کرتے تھے بالخصوص رات کے وقت اور وہ بھی آدھی رات کے وقت جب نگرانی کرنے والے غفلت اور نیند میں ہوتے تھے تو وہ عام راستوں سے ہٹ کر سخت اور دشوار گزار راستہ کے ذریعہ پہاڑوں کے نشیب و فراز عبور کر کے زخمی پیروں اور جھلسے ہوئے چہروں کے ساتھ مدینہ پہنچتے تھے''

اس قسم کی ہجرت اور استقامت و ایثار نے کفّار کی وحشت میں اور اضافہ کردیا وہ ڈرتے تھے کہ مسلمان مدینہ میں ایک مضبوط مرکز بنا کر ان پر حملہ نہ کردیں_ لہذا فوراً انہوں نے مٹینگ طلب کی تا کہ صلاح و مشورے اور سوچ بچار سے اس خطرے کے تدارک کے لئے کہ جس کا ان کو خیال تک نہ تھا خوب غور و خوض کریں_

اس اجلاس میں ایک مشرک نے گفتگو کی ابتداء ان الفاظ سے کی:

'' ہم سوچتے تھے کہ محمد(ص) کی آواز کو اپنے شہر میں خاموش کردیں گے لیکن اب خطرہ بہت سخت ہوگیا ہے مدینہ کے بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کرلیا ہے اور محمد(ص) سے عہد و پیمان باندھ لیا ہے جانتے ہوکیا

۱۹۲

ہوا ہے؟ کیا تمہیں معلوم ہے کہ چند روز قبل عقبہ میں ایک اجلاس ہوا ہے؟ کیا جانتے ہو کہ اکثر مسلمان مدینہ کی طرف چلے گئے ہیں اور وہاں کے مسلمانوں سے مل گئے ہیں؟ جانتے ہو کہ اگر محمد(ص) مدینہ کو اپنا مرکز بنانے میں کامیاب ہوگئے تو کتنا بڑا خطرہ ہمارے لئے پیدا ہوجائے گا؟ اس سے پہلے کہ حالات ہمارے قابو سے باہر ہوجائیں اس کا علاج سوچا جائے_ اگر اس خطرے کے تدارک کے لئے جلدہی کوئی اقدام نہ اٹھایا گیا اور کوئی قطعی فیصلہ نہ کیا گیا تو باقی ماندہ فرصت بھی ہاتھ سے نکل جائے گی اور بہت جلد محمد(ص) بھی مدینہ میں اپنے ساتھیوں سے جاملیں گے_

جانتے ہو اس کا علاج کیا ہے؟ صرف اور صرف محمد(ص) کا قتل_ اب ہمارے پاس صرف یہی ایک راستہ باقی ہے_ ایک بہادر آدمی کو اس کام پر مامور کیا جائے کہ وہ چھپ کر محمد(ص) کو قتل کردے اور اگر بنی ہاشم محمد(ص) کے خون کا مطالبہ کریں تو خون بہا ادا کردیا جائے یہی ایک راہ ہے اطمینان و سکون سے زندگی بسر کرنے کی''

ایک بوڑھا آدمی جو ابھی ابھی اجلاس میں شامل ہوا تھا اس نے کہا:

۱۹۳

نہیں یہ طریقہ صحیح نہیں ہے کیونکہ بنی ہاشم یقینا خونبہا لینے پر راضی نہیں ہوں کے جس طرح بھی ہوگا وہ قاتل کو پتہ لگا کر اسے قتل کردیں گے کس طرح ممکن ہے کہ تم میں سے کوئی اس کام کو رضاکارانہ طور پر انجام دے کیا کوئی تیار ہے؟

کسی نے جواب نہ دیا،

دوسرے نے کہا:

کیسا رہے گا کہ اگر محمد (ص) کو پکڑ کر قید کردیں؟ کسی کو ان سے ملنے نہ دیں اس طرح لوگوں سے ان کا رابطہ منقطع ہوجائے گا اور لوگ ان کو اور ان کی دعوت کو بھول جائیں گے''

اس بوڑھے نے کہا:

نہیں: یہ اسکیم بھی قابل عمل نہیں ہے، کیا بنی ہاشم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے اور تم آسانی کے ساتھ محمد(ص) کو گرفتار کرلوگے؟ اور اگر بالفرض ان کو پکڑ بھی لو تو بنی ہاشم تم سے جنگ کریں گے اور انہیں آزاد کرالیں گے''

ایک اور آدمی بولا:

محمد(ص) کو اغوا کر کے ایک دور دراز مقام پر چھوڑ آئیں انہیں خفیہ طریقے سے گرفتار کر کے ایک سرکش اونٹ پر بٹھا کر ان کے پاؤں اونٹ کی پیٹھ کے نیچے مضبوطی سے باندھ دیں اور اس اونٹ کو کسی دور دراز مقام پر چھوڑ آئیں تا کہ بیابان کی بھوک و پیاس سے محمد(ص) ہلاک ہوجائیں_ اور اس صورت میں قبائل میں سے انہیں کوئی بچا بھی لے تو وہ مجبوراً اپنی دعوت

۱۹۴

سے دستبردار ہوجائیں گے کیونکہ اس حالت میں انہیں کون پہنچانے گا اور کون ان کی باتوں اور ان کی دعوت پر کان دھرے گا یہ ایک بہترین طریقہ ہے اے ضعیف مرد''

وہ بوڑھا تھوڑی دیر خاموش رہا جلسہ میں بیٹھے ہوئے لوگ اسے دیکھ رہے تھے کہ دیکھیں اب وہ کیا کہتا ہے_ کچھ توقف کے بعد اس نے سکوت کو توڑا اور گفتگو شروع کی:

نہیں ... یہ کام بھی قابل عمل نہیں ہے_ اول تو یہ کہ تم اتنی آسانی سے محمد کو گرفتار نہ کرسکوں گے، دوسرے یہ کہ تم نہیں جانتے کہ اگر انہیں بیابان میں چھوڑ آؤ اور وہ کسی قبیلے میں چلے جائیں تو پھر کیا ہوگا؟ اپنی عمدہ اور دلنشین گفتگو سے کہ جسے وہ قرآن کہتے ہیں اس قبیلے کے لوگوں کو اپنی طرف بلائیں گے اور یوں تمہارے ساتھ جنگ کرنے اور تم سے اور تمہارے بتوں اور رسم و رواج سے لڑنے اور تمہارا مقابلہ کرنے کے لئے ایک مضبوط مرکز پالیں گے''

عجیب بوڑھا ہے؟ جو کچھ کہتے ہیں ان کی مخالفت کرتا ہے؟

اے ضعیف مرد تم بتاؤ تمہاری تجویز کیا ہے؟

وہ بوڑھا کچھ دیر تک اور خاموش رہا، سب اس کی طرف دیکھ رہے تھے کہ وہ کیا کہتا ہے تھوڑی دیر سوچنے کے بعد دھیمی آواز میں بولا، جانتے ہو کہ اس کا قابل عمل علاج کیا ہے؟

علاج یہ ہے کہ ہر ایک قبیلے سے ایک آدمی منتخب کرو اور انہیں اس بات پر مامور کرو ہ وہ سب

۱۹۵

مل کر رات کی تاریکی میں محمد(ص) پر حملہ کردیں اور محمد(ص) کو ان کے بستر پر ٹکڑے ٹکڑے کردیں اس طرح سے بنی ہاشم بھی قاتل کو نہ پہچان سکیں گے اور نہ ہی ایک ساتھ سب سے جنگ کرسکیں کے لہذا وہ خونبہا لے کر خاموش اور راضی ہوجائیں گے اجلاس میں شامل لوگوں نے بحث و گفتگو کے بعد اسی طریقہ کار کی تائید کی اور اس کو انجام دینے کا ارادہ کرلیا لیکن خداوند عالم کی ذات ان کی باتوں اور ان کے برے ارادوں سے غافل نہ تھی_

خداوند عالم فرماتا ہے:

ہرگز گمان مت کرو کہ خدا ظالموں کے کردار سے غافل ہے نہیں: ان کے اعمال کی تمات تر سزا کو اس دن تک کہ جس دن سخت عذاب سے آنکھیں بند اور خیرہ ہوں گی اور گردش کرنے سے رک جائیں گی ٹال دیا ہے اس دن یہ جلدی (دوڑتے ہوئے) اور سرجھکائے حاضر ہوں گے لوگوں کو اس دن سے ڈراؤ کہ جسکا عذاب ان کو گھیرے گا اور ظالم کہیں گے کہ پروردگار ہماری موت کو کچھ دن کے لئے ٹال دے تا کہ ہم تیری دعوت کو قبول کرلیں اور تیرے پیغمبروں کی پیروی کریں کیا تم ہی نہیں تھے کہ قسم کھاتے تھے کہ ہم پر موت اور زوال نہیں آئے گا؟''

۱۹۶

آیت قرآن

''( و مکروا و مکر الله و الله خیر الماکرین ) ''

سورہ آل عمران آیت ۵۴

انہوں نے مکر و فریب کیا اور اللہ نے ان کا جواب دیا اور اللہ بہترین نقشہ کشی کرنے والا ہے_

سوچئے او رجواب دیجئے

۱) ___ جب مسلمانوں نے پیغمبر(ص) سے مصائب اور سختیوں کی روک تھام کا تقاضہ کیا تو انہوں نے کیا جواب دیا؟ اور خداوند عالم کی جانب سے کون سی خوشخبری دی؟

۲)___ ہجرت کی مشکلات کیا تھیں؟ اور مسلمان کس طرح ان مشکلات پر غالب آتے تھے؟

۳)___ مسلمان کس طرح ہجرت کر کے مدینہ پہنچا کرتے تھے؟

۴)___ مسلمانوں کی ہجرت اور استقامت و ایثار نے کفار پر کی اثر ڈالا؟

۵)___ کفّار نے کس مسئلہ کے بارے میں اجلاس منعقد کی اور کس بات پر ان کا اتفاق ہوا تھا؟

۱۹۷

۶)___ خداوند عالم ظالموں کی سزا کے متعلق قرآن مجید میں کیا فرماتا ہے؟ اور ظالم اپنے پروردگار سے کیا کہیں گے اور کیا خواہش کریں گے اور خدا انہیں کی جواب دے گا؟

۱۹۸

پیغمبر(ص) خدا کی ہجرت (۱)

اللہ تعالی کفّار کے منحوس ارادوں سے آگاہ تھا اس نے کفّار کے حیلے سے پیغمبر(ص) کو آگہ کردیا اور ان کے برے ارادے کو پیغمبر(ص) کے سامنے ظاہر کردیا_

خداوند عالم نے پیغمبر(ص) کو خبر دی کہ مشرکوں نے تمہارے قتل پر کمر باندھ رکھی ہے لہذا نہایت خاموشی کے ساتھ چھپ کر اس شہر سے مدینہ کی جانب ہجرت کر جاؤ کہ یہ ہجرت، دین اسلام کی بنیاد کو مضبوط بنانے اور محروم لوگوں کو ان ظالموں سے نجات دلانے کا موجب ہوگی_

تم اللہ کی رضا اور مخلوق خدا کی ہدایت کے لئے اپنے اپنے گھر بار کی محبت کو پس پشت ڈال کر ہجرت کرجاؤ کیونکہ اللہ تعالی اپنی راہ میں جہاد کرنے والوں او رمہاجرین کی مدد کرتا ہے، ان کی حمایت کرتا ہے اور انھیں سعادت و کامیابی کا راستہ بتاتا ہے_ اللہ کا دین ہمیشہ ہجرت و جہاد اور ایثار وقربانی سے وابستہ رہا

۱۹۹

ہے اور ہمیشہ رہے گا_

پیغمبر خدا(ص) نے اللہ کے حکم سے ہجرت کا پكّا ارادہ کرلیا_

لیکن ہجرت اور یہ ارادہ نہایت پر خطر تھا_ پیغمبر(ص) اور ان کا گھر مکمّل طور پر دشمنوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا_ آمد و رفت کی معمولی سی علامت اور گھر میں ہونے والی غیر معمولی حرکات و سکنات پیغمبر(ص) کے ارادے کو ظاہر کردیتیں اور آپ(ص) کی ہجرت کے پروگرام کو خطرے میں ڈال سکتی تھیں_

کفّار نے آپ(ص) کے گھر اور سونے اور بیٹھنے کی جگہ تک کے متعلق مکمل معلومات حاصل کرلی تھیں تا کہ اس حملہ کی کامیابی کی تکمیل میں کہ جس کو انجام دیتے کے طریقے اور وقت کا تعین ہوچکا تھا کوئی رکاوٹ کھڑی نہ ہوسکے_

رات کے وقت پیغمبر(ص) کی آمد و رفت کے معمولات سے یہ لوگ آگاہ تھے، یہاں تک کہ دروازے کے سوراخ اور دیوار کے اوپر سے پیغمبر کے سونے کی جگہ تک ان کی نگاہوں سے اوجھل نہ تھی_

یہاں تک کہ شب ہجرت آپہنچی_

پیغمبر نے ہجرت کے موضوع پر حضرت علی (ع) سے کہ جنہوں نے ابتداء بعثت سے ہی آپ(ص) کی مدد و نصرت کا پیمان باندھ رکھا تھا مشورہ کیا اور پوچھا:

اے علی (ع) کیا تم خدا کے اس حکم کی تعمیل میں میری مدد کرو گے؟

یا رسول اللہ(ص) میں کس طرح سے آپ(ص) کی مدد کروں؟''

حضرت علی (ع) نے کہا:

کام بہت مشکل ہے_ چالیس کے قریب مشرک چاہتے ہیں کہ

۲۰۰

رات کے وقت سب مل کر مجھ پر حملہ کردیں اور مجھے بستر ہی پر ٹکڑے ٹکڑے کردیں_ خدا نے مجھے ان کے اس ارادے سے آگاہ کردیا ہے او رہجرت کر جانے کا حکم دیا ہے_ لیکن اگر میں رات کے وقت مكّہ چھوڑدوں ت۶و یہ میرے بستر کو خالی پا کر اس طرف متوجہ ہوجائیں گے اور میرا پیچھا کریں گے اور مجھے تلاش کر کے اپنا کام انجام دیں گے اب اس کے تدارک کی ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ کہ میری جگہ کوئی اور بستر پر آج کی رات سوجائے_ اس طرح مشرکین یہ گمان کریں گے کہ میں اپنے بستر پر موجود ہوں_ اے علی (ع) کیا تم تیار ہو کہ آج کی رات میرے بستر پر سوجاؤ اگر چہ یہ کام بہت خطرناک ہے کیونکہ چالیس مشرکین تلواریں سونتے ہوئے آدھی رات کے وقت گھر پر حملہ آور ہوں گے اور عین ممکن ہے کہ میری جگہ تمہیں ٹکڑے ٹکڑے کردیں؟''

حضرت محمد(ص) کا یہ بیان سن کر علی (ع) نے سوال کیا کیا اس صورت میں آپ(ص) محفوظ رہیں گے؟

ہاں میں محفوظ رہوں گا اور اگر اس طرح تم نے میری مدد کی تو خدا کے فضل سے میں کامیاب ہوجاؤں گا'' حضرت محمد(ص) نے جواب دیا_

حضرت علی (ع) نے فرمایا:

ہاں میں ضرور آپ کی مدد کروں گا:

حضرت علی (ع) کا یہ محکم اور قطعی جواب ایسا تھا کہ جس کی نظر تاریخ اسلام میں نہیں لائی جاسکتی_

ہاں یہ جذبہ ایثار و قربانی ہی تھا جو اس بات کی بنیاد بنا کہ

۲۰۱

حضرت علی ابن ابی طالب(ع) ، راہ خدا اور پیغمبر خدا کی حفاظت کے لئے اپنی جان کی بازی لگانے پر آمادہ ہوئے اور اس عہد و پیمان پر استقامت و پائیداری کا مظاہرہ کیا جو آپ(ع) نے پیغمبر خدا(ص) سے کر رکھا تھا_

ہاں، علی (ع) اپنی جان کو خطرے میں ڈال رہے تھے تا کہ پیغمبر(ص) خدا کی جان سلامت رہ سکے_ اور آپ(ص) اللہ کے دین کی تبلیغ کرتے رہیں_ لوگوں کو خداپرستی کی دعوت دیتے رہیں اور ظلم و ستم اور فسق و فجور کو جڑسمیت اکھاڑ پھینکیں_

یوں حضرت محمد(ص) نے اپنی عظیم الشّان ہجرت کا آغاز فرمایا_ ایک مناسب و موزوں وقت پر مکہ سے مدینہ کے لئے نکل کھڑے ہوئے_

اس رات کہ جس کا مشرکین کو شدت سے انتظار تھا مشرکین آہستہ آہستہ پیغمبر(ص) کے گھر کے نزدیک جمع ہوئے اور ابھی رات کا زیادہ حصّہ نہیں گزارا تھا کہ چالیس طاقتور اور جنگجو آدمیوں نے تلواریں نیام سے نکال کر پیغمبر(ص) کے گھر کا محاصرہ کرلیا_

دروازے کے سوراخ اور دیوار کے اوپر سے گھر کے اندر دیکھا رات کی دھیمی روشنی میں انھیں نظر آیا کہ محمد(ص) معمول کے مطابق سبز رنگ کی چادر اپنے اوپر ڈالے کبھی اس پہلو کبھی اس پہلو کروٹیں بدل رہے ہیں وہ مطمئن ہوگئے کہ آپ(ص) گھر میں موجود ہیں اور ان کا منصوبہ کامیابی سے ہمکنار ہونے والا ہے_

ان میں سے کچھ نے چاہا کہ آدھی رات کے وقت گھر پر حملہ

۲۰۲

کردیں اور محمد(ص) کو ٹکڑے ٹکڑے کردیں_ لیکن بعض نے کہا کہ گھر میں عورتیں اور بچے بھی سوئے ہوئے ہیں یہ انصاف نہیں کہ رات کی تاریکی میں انہیں پریشان کیا جائے پورا گھر ہمارے محاصرہ میں ہے_ محمد(ص) بھی بستر پر سوئے ہوئے اور ان کے لئے کوئی فرار کا راستہ بھی نہیں ہے تو کیوں جلد بازی دکھائیں_ __؟ بہتر ہے صبر کریں اور صح کے وقت حملہ کریں تا کہ سب دیکھ لیں کہ مختلف قبیلوں کے افراد اس قتل میں شریک ہیں_

انہوں نے صبح تک صبر کیا بعض وہیں پر سوگئے اور بعض پہرہ دیتے رہے کہ کوئی گھر سے باہر نہ نکلنے پائے_ سحر کے وقت تلواریں برہنہ کئے دروازے او ردیوار پھاند کر گھر میں داخل ہوئے اور پیغمبر (ص) خدا کے حجرے کے پاس آکر جمع ہوگئے_

حضرت علی علیہ السلام کی رعب دار آواز سن کر اور ان کے غضب ناک چہرے کو دیکھ کر وہ بے اختیار مبہوت اور حیران و پریشان ہوکر اپنی اپنی جگہ رک گئے_ اور پوچھا:

محمد(ص) کہاں ہیں؟

کیا انہیں میرے سپرد کیا تھا؟ حضرت علی (ع) نے غیظ و غضب کے عالم میں جواب دیا_

۲۰۳

مشرکین اپنے پروگرام کی ناکامی اور دن رات کی محنت کے ضائع ہوجانے پر سخت مایوس ہوئے اور فوراً ہی حضرت محمد(ص) کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے_

انہوں نے خیال کیا کہ یا تو محمد(ص) مكّہ میں چھپے ہوئے ہیں یا پھر مدینہ کی طرف چلے گئے ہیں دونوں صورتوں میں انھیں تلاش کیا جاسکتا ہے اور گرفتار کر کے قتل کیا جاسکتا ہے_

مختلف گروہوں کو مكّہ کی طرف روانہ کیا تا کہ مكّہ سے باہر نکلنے کے راستوں کو کنٹرول میں لے لیں_ ان لوگوں کو جو پیروں کے نشان پہنچاننے میں مہارت رکھتے تھے حکم دیا کہ محمد(ص) کے قدموں کے نشانات کے ذریعہ اس راستے کو دریافت کریں جہاں سے وہ گزر گئے ہیں_ اس کے علاوہ عام اعلان کردیا گیا کہ جو بھی محمد(ص) کو گرفتار کرے گا یا ان کی پناہ گاہ کے متعلق بتائے گا اسے ایک ۱۱۰ سو اونٹ انعام میں دئے جائیں گے_

لوگوں کی بڑی تعداد انعام کے لالچ میں حضرت محمد(ص) کو تلاش کرنے کے لئے نکل کھڑی ہوئی_ سب نے بہت تلاش کیا، تمام جگہوں کو دیکھا بالآخر حضرت محمد(ص) کے پیروںکے نشانات انہیں نظر آئی گئے_

پیغمبر(ص) کے پیروں کے نشانات کو جو مٹی، ریت اور پتھروں پر بن گئے تھے پہچان لیا گیا اور ان کی وساطت وہ غارتک پہنچ گئے اور آپس میں کہنے لگے_

یقینا محمد(ص) اس غار میں چھپے ہوئے ہیں_

جناب رسول(ص) خدا اور ابوبکر ان کی آوازوں کو غار میں سن رہے تھے

۲۰۴

او رانہیں دیکھ رہے تھے، لیکن مکڑی کے جالے نے جو غار کے مہ پر بنا ہوا تھا اور جس پر ایک کبوتر انڈوں پر بیٹھا ہوا تھا ان کو غار کے اندر جانے سے روک دیا انہوں نے کہا:

کیسے ممکن ہے کہ کوئی غار میں داخل ہو؟ اگر کوئی غار میں داخل ہوتا تو مکڑی کا جالا ٹوٹا ہوا ہوتا اور کبوتر کا گھونسلہ نیچے گرجاتا اور اس کے انڈے ٹوٹ چکے ہوتے_

لیکن انہیں یہ علم نہیں تھا کہ تمام زمین اور آسمان کے موجودات اللہ کی فوج ہیں، اس کا لشکر ہیں، اور چونکہ خداوند علیم و حکیم ہے_ وہ اس قسم کے لشکر کو بھیج کر اپنے بندوں کی مدد کرتا ہے_ خصوصاً ان بندوں کی جو اس کی راہ میں جہاد و ہجرت اور کوشش کرتے ہیں اور مشرکوں کے مکر و فریب سے خوف نہیں کھاتے اور اپنی تمام کوشش کو اللہ کی رضا جوئی میں اور اس کے احکام کے نفاذ کے لئے مشغول رہتے ہیں مکڑی و کبوتر او رخارک خاشاک تمام کے تمام خدا کی فوج ہیں، نظر آنے والی اور نظر نہ آنے والی_ اور پیغمبران فوجوں کی پناہ میں غار کی تہہ میں ابوبکر کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے اور بہت آرام سے باہر دیکھ رہے تھے اور ابوبکر کو تسلّی دے رہے تھے اور فرما رہے تھے_

ڈور نہیں، خدا ہمارے ساتھ ہے اور مشرکوں کے شر کو ہم سے دور کرے گا_

کفّار نے کافی دیر تک آپ(ص) کو تلاش کیا اور آخر کار مایوس ہوکر واپس لوٹ گئے_

۲۰۵

ہم نے پہلے سے اپنے بندوں اور رسولوں سے وعدہ کر رکھا ہے اور تاکید کی ہے کہ ہمارا لشکر ہی کامیاب ہوگا سلام ہو تمام پیغمبروں پر اور حمد و سپاس تمام جہانوں کے لئے'' (القرآن)

اور یوں خداوند عالم نے اپنے پیغمبر(ص) کی مدد فرمائی اور کافروں کے وقار کو ختم اور نیچا رکر دکھایا اور اپنے کلمے کو باوقار و بالاتر کردیا کیونکہ خدا ہمیشہ کامیاب اور حکیم ہے اور کافروں کا مکر اسی طرح ختم ہوجاتا ہے اگر چہ ان کا مکر و فریب اپنی قدرت کی زیادتی سے پہاڑوں کو ہی کیوں نہ گرادینے والا ہو_

ہم نے دیکھا کہ اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر(ص) کی کس طرح مددد کی اور یہ بھی دیکھا کہ خدا کے کیسے لشکر پوشیدہ ہیں_ پس کتنا اچھا ہے کہ ہم بھی اس کی مدد پر اعتماد کریں، اس پر توکل کریں اور اپنی جان و مال سے اس کی راہ میں ہجرت و جہاد کریں کہ یہ طریقہ زندگی کا بہترین اور نیک ترین طریقہ ہے سب سے بہتر ہجرت گناہ سے ہجرت کرنا ہے اور سب سے بڑا جہاد اپنی خواہشات اور شہوت سے جہاد کرنا ہے اور جو بھی خدا کی راہ میں جہاد کرے خدا اس کے لئے کامیابی کے ایسے راستے کھول دیتا ہے جس کا انہیں علم بھی نہیں ہوتا_

خدا کے خالص بندے جو خدا پر توکل کرتے ہیں اس سے صبر و ثابت قدمی طلب کریں تو جان لیں کہ کامیابی اسی ذات کی طرف سے ہوتی ہے اور تمام قدرت اسی کے ہاتھ میں ہے_ خداوند عالم اس قسم کے بندوں کے لئے اپنا لشکر روانہ کرتا ہے تا کہ اپنے وعدے کو پورا کرے اور یقینا خدا

۲۰۶

وعدہ خلافی نہیں کرتا_

کون جانتا تھا کہ خدا اپنے پیغمبر کی مکڑی کے باریک جالے اور ایک کبوتر سے مدد کرے گا؟ پیغمبر(ص) نے لطف خداوندی پر اعتماد کرتے ہوئے ہجرت کے لئے قدم اٹھایا اور کبھی نہ سوچا کہ لوگ مجھے تلاش کریں گے اور مجھے ڈھونڈ نکالیں گے تم پھر کیا ہوگا؟ وہ اللہ کی نصرت کے وعدے پر ایمان و اطمینان رکھتے تھے اور اسی کی مدد سے ہجرت کی طرف اپنا قدم بڑھایا خدا نے بھی آپ کی مدد کی اور یہ خدا کا پکا وعدہ ہے کہ اس کے دین کی مدد کرنے والے کی وہ خود مدد کرتا ہے_

آیت قرآن

''( ولله جنود السّموت و الارض و کان الله عزیزاً حکیماً ) ''

زمین و آسمان کا تمام لشکر اللہ کا ہے اور اللہ عزیز و حکیم ہے''

(سورہ فتح ۴۸ آیت ۷)

سوچئے اور جواب دیجیے

۱)___ پیغمبر(ص) خدا نے اپنی ہجرت کا ذکر کس کے سامنے کیا؟ اور کیا فرمایا؟ انہوں نے پیغمبر(ص) سے کیا پوچھا؟ اور آخر میں کیا جواب دیا؟

۲۰۷

۲) ___جب کفّار پرہنہ تلواروں کے ساتھ پیغمبر(ص) کے گھر پر جمع ہوئے تو کیا دیکھا؟ اور کیا سنا؟

۳)___ پیغمبر(ص) کو تلاش کرنے کے لئے کیا تدبیر کی؟ کتنا انعام مقرّر کیا گیا؟

۴)___ جس وقت پیغمبر(ص) خدا کے پیروں کے نشان تلاش کئے اور غار تک جا پہنچے تو کیا دیکھا؟

۵)___ پیغمبر(ص) اور ابوبکر کو غار سے باہر کیا نظر آیا ؟ پیغمبر(ص) ابوبکر سے کیا فرما رہے تھے؟

۶)___ خدا کا لشکر کیا چیزیں ہیں؟ اور خدا اپنے مہاجر اور مجاہد بندوں کی اس لشکر سے کس طرح مدد کرتا ہے؟

۷)___ سب سے بہترین ہجرت کون سی ہے اور سب سے بہترین جہاد کیا ہے؟

۸)___ خداوند عالم نے اپنے نہ نظر آنے والے لشکر سے جو کفّار کی آنکھوں میں معمولی معلوم ہوتا تھا اس ہجرت میں کس طرح مدد کی ؟

۲۰۸

پیغمبر خدا کی ہجرت (۲)

پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم مسلسل تین دن تک غار ثور میں مقیم رہے آپ(ص) کا دل خدا کی یاد سے مطمئن اور خدا پر توکل و اعتماد سے پر امید و روشن تھا آپ(ص) موقع کی تلاش میں تھے کہ حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اپنے سفر ہجرت کو دوبارہ شروع کریں او رمدینہ پہنچ جائیں_

اس ہجرت کے عظیم الشان اثرات اور تنائج کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھے اور اس ہجرت کا عظیم اور پر وقار مستقبل کسی ذہن میں نہ تھا_ کوئی سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ یہ ہجرت تاریخ میں تمام حق پسند اور حق کے متلاشی انسانوں کو اپنی تحریک کی بقا اور اس کے پھیلاؤ کے لئے ہجرت اختیار کرنے کا سبق دے گی_

اس وقت مكّہ کی تمام بدبخت طاقتیں چاہتی تھیں کہ راستے

۲۰۹

میں ہجرت کرنے والے کو تلاش کر کے ٹکڑے ٹکڑے کردیں لیکن مرضی الہی تھی کہ یہ راہیان عشق خیریت کے ساتھ اپنے اس سفر کو طے کریں اور مدینہ پہنچ کر پہلی مسجد کی بنیاد ڈالیں اور اس مسجد سے اٹھنے والی صدائیں بندگان خدا کو عبادت و تقوی اور خدا کی مدد کے لئے جہاد اور ہجرت کے لئے بلائیں اور ____ یقینا اللہ اپنے حکم کے نافذ کرنے او راپنے ارادے کو پورا کرنے پر قادر ہے_

کبھی کبھی آپ(ص) کے ہم سفر اور سا تھی، مشرکوں کی سنگدلی او ردشمنی، ان کی طاقت و قدرت اور آپ کی تلاش میں ان کی کوششوں اور بعض اوقات غار کے نزدیک ہی سے آنے والی ان مشرکوں کے قدموں کی آوازوں اور چیخ و پکار سے خوف و اضطراب کا شکار ہوجاتے تھے_ ایسے میں پیغمبر(ص) ان کی ہمت بندھاتے اور دل جوئی کرتے تھے اور فرماتے تھے_

خوف نہ کرو، غم نہ کھاؤ، خدا ہمارے ساتھ ہے''

غار ثور مكّہ کے جنوب میں واقع ہے جبکہ مدینہ کا راستہ مكّہ کے شمال میں ہے لہذا مشرکین زیادہ تر آپ کو شمال ہی کی جانب تلاش کر رہے تھے جنوب کی سمت ان کا دھیاں زیادہ نہ تھا_ اس بناپر آپ(ص) کے ازلی باوفا اور مددگار حضرت علی (ع) رات کی تاریکی میں جب مشرکین کی آنکھیں نیند میں ڈوب جاتیں، آپ(ص) کے لئے کھانا اور پانی لے جاتے مکڑی کے تانے ہوئے جالے کے پیچھے سے آپ(ص) کی خدمت میں کھانا پانی پیش کرتے اور آپ(ص) کو مكّہ حالات اور مشرکوں کے ارادوں سے آگاہ کرتے

۲۱۰

کبھی کبھی ابوبکر کے فرزند عبداللہ بھی غار میں کھانا اور پانی لے کر آتے تھے_

ایک رات پیغمبر(ص) نے حضرت علی (ع) سے فرمایا کہ لوگوں کی جو امانتیں میرے پاس موجود تھیں انھیں ان کے مالکوں تک پہنچا دو اور دو اونٹ ہمارے لئے لے آؤ کہ ہم مدینہ کی طرف روانہ ہوں اور تم میری بیٹی فاطمہ (ع) اور دوسری عورتوں کو ساتھ لے کر ہم سے آملنا_

آپ کی یہ بات سن کر ابوبکر نے کہا کہ میں نے اونٹ تیار کر رکھے ہیں پیغمبر(ص) نے ان اونٹوں کو منگوانا اس شرط کے ساتھ قبول کیا کہ ابوبکر ان کی ا جرت لے لیں_

ہم جانتے ہیں کہ لوگوں کو پیغمبر اکرم(ص) پر حد سے زیادہ اعتماد تھا_ انہوں نے اپنی بہت سی قیمتی چیزیں آپ(ص) کے پاس بطور امانت رکھی تھیں تا کہ وہ محفوظ رہیں_ اسی اعتماد کی بناپر آپ کو امین کا لقب دیا گیا تھا_

یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ ''امانت'' اور اس کی حفاظت اور مالکوں تک لوٹا دینا اسلام کے ان احکام و قوانین میں شامل ہے جن کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے_ یہاں تک کہ امانت میں خیانت کرنا گناہ کبیرہ میں شمار ہوتا ہے_ مومن ہرگز امانت میں خیانت نہیں کرتا اور بات کرنے میں جھوٹ نہیں بولتا اور جو وعدہ کرتا ہے اس کی خلاف ورزی نہیں کرتا_

چوتھی رات، جب مکمل اندھیرا چھاگیا تو نحیف و کمزور جسم کے تین اونٹ تھوڑے سے پانی اور غذا کے ساتھ غار کے دہانے کے قریب تیار کھڑے تھے، ان کے ساتھ راستہ جاننے والا ایک شخص بھی تھا_

خدا کا آخری اور عظیم پیغمبر(ص) اپنے پروردگار کے حکم سے ایک عظیم

۲۱۱

ہجرت کے لئے آمادہ و تیار ہے___اہل مكّہ کو بیدار کرنے کے لئے ۱۳/ سال تک شدید محنت و کوشش کرنے کے بعد اب اپنا شہر اور اپنا گھر چھوڑنے کے لئے تیار ہے___ اپنے آپ کو سفر کی صعوبتوں اور مشکلات میں ڈالنے کے لئے تیار ہے___ اس شہر کو کہ جو ظل و شرک اور بت پرستی کی غلاظتوں سے پر ہے ترک کرنے کو تیار ہے___ صحرا و پہاڑوں کی طرف راہ پیما ہونے کو تیار ہے_ لیکن خداوند عالم آپ(ص) سے واضح الفاظ میں وعدہ کرتا ہے_

وہی ذات جس نے تم پر قرآن نازل کیا اور اس کی پیروی تم پر فرض کردی تمہیں اس شہر میں واپس لائے گا''

اس جانے کا انجام لوٹ کرآنا ہے تم اس شہر میں لوٹ کر آؤ گے اور توحید کے گھر سے بتوں کو توڑ پھینکو گے_

پیغمبر اسلام(ص) نہایت آہستگی کے ساتھ غار کی تاریکی سے باہر آگئے اونٹوں پر سوار ہوئے اور مدینہ کی طرف اپنے سفر کا آغاز کردیا رات کو سفر کرتے اور ستاروں کی چمک سے راستہ معلوم کرتے اور دن میں پہاڑوں کے درّوں اور پتّھروں کے سائے میں پناہ لیتے اور آرام کیا کرتے اور رات کو پھر سفر پر چل پڑتے اور راہ خدا میں سراپا تسلیم ہوتے ہوئے ذوق و امید سے راستہ طے کرنے لگتے_

غیرمانوس راستے سے تیزی کے ساتھ گزرتے تھے_ یہ ایک طویل و خطرناک اور دشوار سفر تھا_ لیکن راستے کی دوری کو خدا سے امید

۲۱۲

نزدیک کردیتی تھی اور راہ کی سختی کو ''اللہ کے حسن و ثواب کے اعتماد'' نے آ سان کردیا تھا اور سفر کے خطروں کا بدل ''اللہ تعالی '' کا فتح و نصرت کا وعدہ تھا''

سفر کے دوران ایک روز جبکہ آپ ایک بڑے پتھر کے سایہ میں آرام فرما رہے تھے آپ(ص) نے دیکھا کہ کفار کا ایک سوار تیزی کے ساتھ آپ(ص) کی جانب آرہا ہے_ اگر یہ سوار نزدیک آجاتا اور آپ(ص) کا راستہ روک لیتا تو دوسرے کفار بھی پہنچ جاتے اور آپ(ص) کی ہجرت ناکام ہوجاتی لیکن پیغمبر(ص) خدا کو اپنے پروردگار کے لطف و کرم پر کامل یقین تھا_ آپ(ص) نے اپنے ہاتھ دعا کے لئے اٹھائے اور فرمایا_

اے خدا اے رحمن جو بندوں پر عنایت کرتا ہے اے رحیم جو مومنوں پر مہربانی کرتا ہے تیرے سوا کسی کی تعریف نہیں کرتے کیونکہ تو ہی حمد و ثنا کے لائق ہے اور حمد و ثنا تیرے لئے ہی مخصوص ہے تیرے سوا کسی کو اپنا رب نہیں جانتا کیونکہ تو ہی میرا پروردگار ہے صرف تو ہی میرا معبود ہے_ اے میرے مددگار میری مدد کر کہ میں نے تیری طرف ہجرت کی ہے اور ہمیں اس کافر دشمن کے شر سے محفوظ رکھ اور توہی ہر ایک کام پر قادر ہے_

فوراً ہی پیغمبر(ص) کی دعا قبول ہوئی اور سوار کے تیز رفتار گھوڑے نے اچانک اپنی لگام سوار کے ہاتھوں سے چھڑائی اور دونوں پچھلے پیروں

۲۱۳

کے بل کھڑا ہوگیا اور چكّر لگا کر جھٹکے کے ساتھ سوار کو زمین پر گرادیا اور ایک طرف کھڑا ہوگیا_ سوار اٹھا اور سخت تکلیف اور غصّہ کے عالم میں دوبارہ گھوڑے پر سوار ہوا_ چند قدم چلنے کے بعد گھوڑے نے پھر اسی طرح سے زمین پر گرادیا_

غرض دو تین مرتبہ ایسا ہی ہوا تو سوار سمجھ گیا کہ گھوڑے کی اس ناراض کی گیا وجہ ہے_ سوار نے اپنے ارادے کو بدلا و معذرت خواہی کے لئے خدمت پیغمبر(ص) میں حاضر ہوا اور معافی چاہی_

رسول خدا(ص) نے اس سے فرمایا کہ اب جب کہ تجھے حقیقت کا علم ہوگیا ہے جلدی سے واپس لوٹ جا اور ہمارے تعاقب میں جو بھی اس طرف آرہا ہے اسے واپس لوٹا دے_

کافر واپس چلاجاتا ہے اور پیغمبر(ص) خدا تیز رفتاری سے مدینہ کی جانب چل پڑتے ہیں یہاں تک کہ آپ(ص) مدینہ کے نزدیک پہنچ گئے_

مسلمانان مدینہ، انصار و مہاجر، عورت مرد، بچّے بوڑھے سب کے سب آپ(ص) کے شوق دیدار میں منتظر نگاہوں کے ساتھ بیرون مدینہ آپ(ص) کے استقبال کے لئے موجود تھے_

یکایک ان لوگوں نے دور سے رسول خدا(ص) کو آتے ہوئے دیکھا اور عالم شوق میں بے اختیار صدائے تکبیر بلند کرتے ہوئے اور صلوات و سلام بھیجتے ہوئے آپ(ص) کی سمت دوڑے _ رسول خدا(ص) مدینہ سے نزدیک ایک قبانامی دیہات میں قیام پذیر ہوئے تا کہ حضرت علی (ع) اور ان کے ہمراہی بھی پہنچ جائیں _

۲۱۴

ہجرت پیغمبر اکرم (ص) اتنا عظیم اور اہم واقعہ ہے کہ اسلامی تاریخ کی ابتداء سی سے ہوئی_ ہجرت کے ذریعہ ہمیں سبق دیا گیا کہ ہر زمانہ کے لوگ پیغمبر(ص) کی اس سیرت پر عمل کریں اور ہمیشہ اپنا رخ خدا کی جانب اور اپنے قدم ہجرت کی راہ میں اٹھانے کے لئے تیار ہیں_ اور مسلسل کہیں کہ

پروردگار ہم نے ایمان کی ندا دینے والے کی پکار کو سنا_ وہ کہہ رہا تھا کہ پروردگار پر ایمان لے آؤ پروردگار ہم ایمان لے آئے ہمارے گناہوں کو معاف کردے، ہماری خطاؤں کی پردہ پوشی کر اور ہمیں نیک اور صالح لوگوں کے ساتھ اس دنیا سے اٹھا_ خدایا: جو کچھ تو نے اپنے پیغمبروں سے وعدہ کیا ہے ہمیں عنایت فرما اور ہمیں قیامت کے دن ذلیل و خوار نہ کرنا کہ تو کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتا_

اس طرح اپنے پروردگار سے راز و نیاز کریں اور اس سے یوں جواب سنیں کہ:

خداوند عالم نے تمہاری دعا کو قبول کرلیا کہ میں ہرگز تمہارے (خواہ مردہوں یا عورت) کسی عمل کو ضائع اور بغیر اجر کے نہ چھوڑوں گا جن لوگوں نے ہجرت کی ہے اور اپنے گھر بار کو چھوڑ دیا ہے، خدا کی راہ میں تکالیف اور اذیتوں سے دوچار ہوئے ہیں اور

۲۱۵

اللہ تعالی کے راستے میںجنگ و جہاد کیا ہے یہاں تک کہ وہ قتل ہوجائیں، خدا ان کی خطاؤں اور گناہوں کو چھپائے گا اور انہیں بخش دے گا اور اس بہشت میں کہ جس کے گھنے درختوں کے نیچے نہریں جاری ہیں داخل کرے گا_ یہ اللہ کا ثواب و تحفہ ہے اور یقینا اچھا ثواب تو اللہ ہی کے پاس ہے_ خبردار کافروں کے چند دن تمہارے شہر میں آمد ور فت تمہیں دھوکے میں مبتلا نہ کردے یہ تھوڑے دن کچھ فائدہ دیکھیں گے پھر ان کا مقام و ٹھکانہ جہنم میں ہوگا جو بہت بری جگہ ہے لیکن وہ لوگ کہ جنہوں نے اللہ تعالی کی ذات سے تقوی اختیار کیا ان کے لئے وسیع و کشادہ بہشت ہے کہ جس کے درختوں او رباغوں کے نیچے پانی سے بھری نہریں جاری ہیں_ وہ اس پر امن اور خوبصورت جگہ میں زندگی بسر کیں گے یہ ہدیہ ہے ان کے لئے خداوند عالم کی طرف سے البتہ وہ جو اللہ کے نزدیک ہے ابرار لوگوں کے لئے وہ بہت ہی بہتر ہے_

ابرار و نیک لوگ اللہ تعالی کی عوت کو دل و جان سے سنتے ہیں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرتے ہیں زمین کی فضا کو بہت وسیع پاتے ہیں اور ابرار تو ہمیشہ ہجرت میں زندگی بسر کرتے ہیں_ ظلم و ستم او رجہاد

۲۱۶

کی زمین سے عدل و علم کی سرزمین کی طرف او ربدی سے نیکی کی طرف اور برائی سے اچھائیوں کی طرف ہمیشہ ہجرت کرتے ہیں_ حقیقت میں مہاجر وہ ہے جو برائیوں سے ہجرت کر کے اور انھیں ترک کرے_

آیت قرآن

( اذ هما فی الغار اذ یقول لصاحبه لا تحزن انّ الله معنا فانزل الله سکینته علیه و ايّده بجنود لّم تروها و جعل کلمة الّذین کفروا السّفلی و کلمة الله هی العلیا و الله)

جب وہ دو غار میں تھے اور وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھغ کہ رنج و ملال نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے_ اللہ نے اس پر اطمینان اور سکون قلب نازل فرمایا اور اس کی ایسے لشکروں سے مدد کی کہ تم انھیں دیکھ نہیں سکتے اور اللہ نے کافروں کا بوں نیچا کردیا اور اللہ کابوں تو اونچا ہی ہے اللہ زبردست اور دانا و بینا ہے''_

( سورہ توبہ آیت ۴۰)

۲۱۷

سوچئے اور جواب دیجئے

۱)___ پیغمبر خدا(ص) کتنے دن غارثور میں پوشیدہ رہے؟

۲)___ جب پیغمبر(ص) کے ساتھی کافروں کی آواز سن کر خوفزدہ ہوئے تو پیغمبر(ص) نے کن الفاظ میں انھیں تسلّی دی؟

۳)___ آپ(ص) کے غار میں پوشیدہ رہنے کے دوران کون لوگ آپ(ص) کے لئے غذا اور پانی لے کر آتے تھے؟

۴)___ امانت اور اسے اس کے مالکوں کو لوٹا نے کے سلسلہ میں اسلام کا کیا حکم ہے؟

۵)___ چند سوال خود سے بناؤ؟

۲۱۸

بابرکت پیسہ

خداوند عالم نے پیغمبر(ص) کو مبعوث کیا تا کہ لوگوں کو صحیح اور درست زندگی گزارنے کے اصول اور طریقے بتائیں اور انہیں فردی اور اجتماعی زندگی کے صحیح اصول اور طریقوں سے روشناس کرائیں پیغمبر(ص) کی سیرت اور سنّت، زندگی کے لئے بہترین سبق ہے اور آپ(ص) کی گفتگو انسانوں کے لئے بہترین راہنما ہے_

مندرجہ ذیل سطور میں ہم ایک واقعہ نقل کرتے ہیں_ جس میں آپ دیکھیں گے کہ رسول خدا(ص) کس طرح معاشرے میں زندگی گزارتے ہیں تھے آپ(ص) کیسا لباس زیب تن کرتے تھے اور کس طرح آپ حاجت مندوں کی مدد کو پہنچتے تھے:

جناب رسول خدا(ص) کا لباس پرانا اور بوسیدہ ہوچکا تھا آپ(ص)

۲۱۹

نے کچھ پیسے حضرت علی علیہ السلام کو دئے اور فرمایا کہ بازار جاؤ اور میرے لئے ایک قمیص لے آؤ

حضرت علی علیہ ا لسلام اس واقعہ کو یوں بیان کرتے ہیں کہ:

میں نے پیغمبر(ص) سے پیسے لئے اور بازار سے ان پیسوں کی جو بارہ درہم تھے ایک قمیص خریدی اور لاکر پیغمبر(ص) کی خدمت میں پیش کردی پیغمبر(ص) نے قمیص لی اور اسے تھوڑی دیر دیکھا پھر فرمایا: میری خواہش ہے کہ اس سے سستی قمیص پہنوں کیا بیچنے والا اس قمیص کو واپس لے لے گا؟

پتہ نہیں میں جاتا ہوں اور اس سے اس بارے میں بات کرتا ہوں''

میں نے جواب دیا اور پیغمبر(ص) سے قمیص لی اور بیچنے والے کے پاس گیا اور اس سے کہا:

میں نے یہ قمیص پیغمبر(ص) کے لئے خریدی تھی لیکن پیغمبر(ص) چاہتے ہیں کہ اس سے سستا لباس پہنیں کیا تم اس قمیص کو واپس لے سکتے ہو؟''

بیچنے والے نے وہ قمیص اور بارہ درہم واپس کردئے میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور رسول خدا(ص) کی خدمت میں حاضر ہوا، رسول خدا(ص) نے فرمایا:

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254