‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) جلد ۴

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) 23%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 254

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 254 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 74830 / ڈاؤنلوڈ: 3872
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) جلد ۴

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

اسلام کی طرف مائل ہوگئے اور بعضوں نے اسلام قبول بھی کرلیا_

تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ یثرب کے مشہور افراد میں سے بارہ آدمی مكّہ آئے تا کہ اپنے اسلام کو پیغمبر(ص) کے سامنے پیش کریں اور اسلام کیلئے اپنی خدمات وقف کردیں_

ان افراد کی پیغمبر(ص) سے ملاقات اتنی آسان نہ تھی کیونکہ مكّہ کی حکنومت بت پرستوں اور طاقتوروں کے زور پر چل رہی تھی اور شہر مكّہ کے رعب و دبدہ اور ظلمت و تاریکی کا شہر تھا آخر ان لوگوں سے ملاقات کے لئے ایسی جگہ کا انتخاب کیا گیا جو شہر سے باہر، پہاڑ کے دامن میں اور مشرکوں کی نظروں سے دور تھی یہ ملاقات آدھی رات کو عقبہ نامی جگہ پر رکھی گئی_

عقبہ کا معاہدہ

آدھی رات کے وقت چاند کی معمولی روشنی میں نہایت خفیہ طور پر سعد ابن زرہ، عبادہ ابن صامت اور دوسرے دس آدمی پہاڑ کے پیچھے پر پیچ راستے سے گزرتے ہوئے پیغمبر اسلام(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے تھوڑے سے مسلمان بھی مكّہ سے پیغمبر(ص) کے ساتھ آئے _

تمام گفتگو بہت رازداری کے ساتھ اور خفیہ طور پر ہوئی اور سپیدی صبح سے پہلے جلسہ برخاست ہوگیا اور ان تمام کے تمام حضرات نے انتہائی احتیاط کے ساتھ اپنی اپنی راہ لی_ اور خوش بختی سے مكّہ کے مشرکوں میں سے کسی کو بھی اس جلسہ کی خبر نہ ہوئی_

۱۸۱

مدینہ میں مسلمانوں نے ان بارہ افراد سے پوچھا کہ رسول خدا(ص) سے ملاقات کیسی رہی___؟ ان سے کیا کہا اور کیا معاہدہ ہوا___؟

انہوں نے جواب میں کہا کہ:

ہم نے خدا کے رسول (ص) سے معاہدہ کیا ہے کہ خدا کا کوئی شریک قرار نہ دیں گے، چوری نہ کریں گے نہ زنا اورفحشاء کا ارتکاب کریں گے، اپنی اولاد کو قتل نہ کریں گے ایک دوسرے پر تہمت نہیں لگائیں گے نیک کاموں میں رسول خدا(ص) کی مدد کریں گے اور آپ کی نافرمانی نہیں کریں گے''

مدینہ میں تبلیغ اسلام

ایک مدّت کے بعد انہوں نے پیغمبر اکرم(ص) کو خط لکھا کہ ایک ایسا آدمی ہماری طرف روانہ کیجئے جو ہمیں اسلام کی تعلیم دے اور قرآن مجید کے معارف سے آگاہ و آشنا کرے_

پیغمبر(ص) نے ایک جوان مصعب نامی ان کی طرف روانہ کیا مصعب قرآن مجید کو عمدہ طریقہ سے اور خوش الحانی کے ساتھ قرات کیا کرتا تھا اور بہت عمدہ اور دل نشین گفتگو کرتا تھا دن میں مدینہ کے ایک کنویں کے نزدیک درخت کے سائے میں کھڑا ہوجاتا اور بہت اچھی آواز کے ساتھ قرآن پڑھتا،

لوگ اس کے اردگرد حلقہ بنالیتے اور وہ ٹھہرٹھہر کر قرآن

۱۸۲

کی تلاوت کرتا جب کوئی دل قبول کرنے کے لئے تیار ہوجاتا تو اس سے گفتگو کرتا اور دین اسلام کی اعلی تعلمیات کو اس کے لئے بیان کرتا:

جن حق پرست اور حق کو قبول کرنے والے لوگوں کے دل نرم ہوجاتے تو وہ اس کی باتوں کو توجّہ سے سنتے اور اسلام کے گرویدہ ہو کر ایمان لے آتے تھے''

اسلام کی طرف اس طرح مائل ہونے کی خبر سن کر مدینہ کے بعض قبائل کے سردار سخت ناراض ہوئے اور ان میں سے ایک مصعب کو مدینہ سے باہر نکالنے کے لئے بڑی تیزی کے ساتھ اس کی طرف بڑھا اور اس کے نزدیک پہنچ کر غصہ کے عالم میں اپنی تلوار کو نیام سے باہر کھینچ کر چلایا کہ: اسلام کی تبلیغ کرنے سے رک جا اور ہمارے شہر سے باہر چلا جا ورنہ ...؟

مصعب نے اس کے اس سخت لہجہ کے باوجود نہایت نرمی اور محبت سے کہا:

کیا ممکن ہے کہ ہم تھوڑی دیر کے لئے یہیں بیٹھ جائیں اور آپس میں گفتگو کریں؟ میری باتوں کو سنو اگر وہ غیر معقول اور غلط نظر آئیں تو میں ان کی تبلیغ سے دستبردار ہوجاؤں گا اور اس راستے سے کہ جس سے آیا ہوں واپس چلاجاؤں گا ...''

تم سچ کہہ رہے ہو، مجھے پہلے تمہاری بات کو سننا چاہئے،تمہاری دعوت کو سننا چاہیئے اس کے بعد کوئی

۱۸۳

فیصلہ کرنا چاہئے''

اس سردار نے اپنی شمشیر کو نیام میں رکھا اور مصعب کے قریب بیٹھ گیا_ مصعب نے قرآن مجید کی چند منتخب آیا ت اس کے سامنے تلاوت کیں''

اے کاش کہ تاریخ نے ہمارے لئے ان آیات کو تحریر کیا ہوتا جو اس حساس لمحہ میں مصعب نے تلاوت کیں_ لیکن خدا کا شکر ہے کہ قرآن ہمارے سامنے ہے ہم ان آیات کے مانند دوسری آیات کو سمجھنے کی کوشش کریں جو تقریباً وہی معنی رکھتی ہیں جن میں خدا نے مشرکین کو خبردار کیا اور انہیں اسلام کی دعوت دی ہے''___ دیکھیں اور سوچیں''

آیا جو خلق کرنے والا ہے خلق نہ کرنے والے کے برابر ہے بس تم کیوں نہیں سوچتے؟

اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہا ہو تو نہ کرسگو گے البتہ خدا بخشنے والا اور مہربان ہے اور خدا ان چیزوں کو جنہیں تم چھپاتے ہو اور انہیں جنہیں ظاہر کرتے ہو تمام کا علم رکھتا ہے،

یہ بت کہ جنہیں خدا کے مقابل پرستش کرتے ہو اور ان سے مانگتے ہو یہ کوئی چیز بھی خلق نہیں کرسکتے بلکہ خود کسی کے بنائے ہوئے ہیں''

تمہارا خدا ایک ہے وہ لوگ جو آخرت پر ایمان نہیں لاتے ان کے دل برے اور سرکش و متکبّر ہیں''

خدا اس سے جو تم چھپ کر انجام دیتے ہو آگاہ ہے اور اس سے کہ جسے علانیہ بجالاتے ہو آگاہ ہے اور خدا متکبّرین کو کبھی بھی دوست نہیں رکھتا

۱۸۴

قرآن کے نورانی حقائق اور آیات کی جاذبیت و زیبائی اور مصعب کے حوصلے اور اخلاق و استقامت نے اس شخص میں تغیر اور تبدیلی پیدا کردی، اس کی سوئی ہوئی روح کو بیدار کردیا اور اس کی سرکش اور متکبّر عداوت سرنگوں ہوگئیں اور اسے ایسا سکون و اطمینان حاصل ہوا کہ وہ جاننے اور ماننے کے لئے آمادہ ہوگیا تب اس نے انتہائی تحمل اور بردباری سے کچھ سوالات ادب سے کئے پھر پوچھا:

اسلام کس طرح قبول کیا جاتا ہے؟ اس دین کے قبول کرنے کے آداب و رسوم کیا ہیں؟

مصعب نے جواب دیا:

کوئی مشکل کام نہیں، صرف اللہ کی وحدانیت اور محمد(ص) کی رسالت کی گواہی دی جائے، کپڑوں اور جسم کو پانی سے دھوکر پاک کیا جائے اور خدا کے بندوں سے انس و محبت کی راہ کھول دی جائے اور نماز پڑھی جائے_

عقبہ میں دوسرا معاہدہ

مدینہ کے لوگ دین اسلام کی حقانیت دریافت کر رہے تھے اور ایک کے بعد دوسرا امر الہی کو تسلیم کر رہا تھا وہ لوگ بہت ذوق و شوق سے دین اسلام کو قبول کر رہے تھے_ انتظار کر رہے تھے کہ حج کے دن آپہنچیں اور وہ سفر کریں اور پیغمبر(ص) کے دیدار کے لئے جائیں اور اپنی مدد اور خدمت

۱۸۵

کرنے کا اعلان کریں''

آخر کار پانچ سو آدمیوں کا قافلہ مدینہ سے مكّہ کی طرف روانہ ہوا اس قافلہ میں ستّر کے قریب مسلمان بھی موجود تھے_ ان سب کا پروگرام پیغمبر اکرم(ص) سے ملاقات کرنے کا بھی تھا وہ چاہتے تھے کہ اس ملاقات میں پیغمبر(ص) سے رسمی طور سے بیعت کریں اور آپ(ص) کی مدد کا اعلان کریں''

۱۳/ ذی الحجہ کی آدھی رات کو منی میں ایک پہاڑی کے دامن میں ملاقات کرنے کا وقت معین کیا گیا،

وہ وقت آپہنچا اور مسلمان چھپ چھپ کر ایک، ایک، دو، دو، کر کے اس عقبہ کی طرف چل دئے اور وہاں مشرکوں کی سوئی ہوئی آنکھوں سے دور جمع ہوکر پیغمبر(ص) کے گرد حلقہ ڈال دیا،

انہوں نے پیغمبر(ص) سے خواہش کی کہ آپ(ص) کچھ خطاب فرمائیں، پیغمبر(ص) نے قرآن مجید کی کچھ آیات کا انتخاب کر کے ان کے سامنے تلاوت کی اور اسکی تشریح بیان کی اور فرمایا، اللہ سے مدد طلب کرو اور صبر و استقامت کو اپنا شیوہ بناؤ اور یہ جان لو کہ نیک انجام متقیوں کے لئے ہوا کرتا ہے اس کے بعد پیغمبر(ص) نے اپنی خواہش کاا ظہار کیا اور فرمایا:

کیا تم پسند کرتے ہو کہ میں مدینہ کی طرف ہجرت کروں اور تمہارے ساتھ زندگی بسر کروں؟''

سبھی نے پیغمبر(ص) کی اس خواہش پر اپنی رضامندی کا اظہار کیا اور نہایت اشتیاق سے ایک بولا

خدا کی قسم میں پوری صداقت کے ساتھ آپ(ص) سے عہد

۱۸۶

کرتا ہوں کہ آپ(ص) کے دفاع میں اپنی جان کی بازی لگادوں گا اور جو کچھ زبان سے کہہ رہا ہوں وہی میرے دل میں بھی ہے''

دوسرے نے کہا:

میں آپ(ص) کی بیعت کرتا ہوں کہ جس طرح اپنے اہل و عیال اور اولاد کی حفاظت کرتا ہوں، آپ(ص) کی بھی کروں گا:

تیسرے نے کہا:

ہم جنگ اور لڑائی کے فرزند ہیں اور جنگ کے سخت میدان کے لئے تربیت حاصل کی ہے اور جان کی حد تک پیغمبر خدا(ص) کی خدمت اور دفاع کے لئے حاضر ہیں''

یہ پورا اجتماع، شوق اور محبت سے لبریز تھا اور ان میں سے ہر ایک نے اپنے دل کی بات کہی لیکن وہ یہ بھول چکے تھے وہ مكّہ میں اور مشرکوں کی ایک خطرناک حکومت کے درمیان بیٹھے ہوئے ہیں،

پیغمبر اکرم(ص) کے چچا نے جو آپ(ص) کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے بہت دہیمی آواز میں جو کہ مشکل سے سنی جا رہی تھیں کہا:

مطمئن رہو، آہستہ بولو، کہیں مشرکوں نے ہمارے اوپر کوئی آدمی تعینات نہ کیا ہو ...''

اس کے بعد یہ جلسہ ختم ہوا اور لوگوں نے فرداً فرداً پیغمبر(ص) کے ہاتھ پر بیعت کی، عہد کیا اور خداحافظ کہا:

ابھی دن کی سفیدی بھی نمودار نہیں ہوئی تھی کہ تمام لوگ وہاں سے علیحدہ علیحدہ روانہ ہوگئے''

۱۸۷

لیکن افسوس، دوسرے دن معلوم ہوا کر مكّہ کے مشرکوں کو اس جلسے کی خبر مل چکی ہے اور اہل مدینہ کی پیغمبری(ص) سے بیعت اور بہت کی گفتگو کا کافی حد تک انہیں علم ہوچکا ہے مشرکین میں اضطراب اور خوف پھیل گیا اور انہوں نے سوچا کہ اگر محمد(ص) اور دوسرے مسلمان مكّہ سے مدینہ چلے گئے اور وہاں مضبوط مرکز بنالیا تو کیا ہوگا؟

لہذا وہ سب دالندوہ میں اکٹھے ہوئے اور بہت زیادہ سختی کرنے کا فیصلہ کیا اور اسلام کی جڑیں کاٹنے اور مسلمانوں کو ختم کرنے کے لئے کسی عمدہ طریقہ کو سوچنے لگے_

آیت قرآن

( انّ الّذین قالوا ربّنا الله ثمّ استقاموا فلا خوف علیهم و لا هم یحزنون ) ''

سورہ احقاف آیت ۱۳/''

البتہ جن لوگوں نے اقرار کیا کہ ہمارا رب خدا ہے اور پھر اس پر محکم رہے تو نہ ان پر خوف ہوگا ورنہ ہی وہ محزون ہوں گے''

سوچئے اور جواب دیجئے

۱۸۸

۱)___ سورہ نحل کی جن آیات کا ترجمہ اس سبق میں بیان ہوا ہے، ان میں خداوند عالم نے کن چیزوں کو اپنی قدرت کی_

واضح نشانیاں بتایا ہے؟ اور ان نشانیوں کے ذکر کرنے سے کیا نتیجہ اخذ کیا ہے؟ یہ نشانیاں دین اسلام کے اصولوں میں سے کس اصل کو بیان کرتی ہیں _

۲)___ قبیلہ خرزج کے ان چھ آدمیوں نے کہ جنہوں نے پیغمبر اسلام(ص) کے سامنے اسلام قبول کیا تھا یہودیوں سے کیا سن رکھا تھا؟ اور یہودیوں کی وہ خبر کس اصول کو بیان کرتی ہے؟

۳) ___ جب یہ لوگ پیغمبر اسلام(ص) سے جدا ہو رہے تھے تو کس مسئلہ کے بارے میں امید کا اظہار کر رہے تھے؟

۴)___ پیغمبر(ص) نے کس آدمی کو مدینہ کی طرف تبلیغ کے لئے بھیجا؟ اور اس میں کیا خصوصیات موجود تھیں؟ اس کی تبلیغ کا کیا طریقہ تھا؟ اور دین اسلام کو قبول کرنے کے لئے وہ کون سی چیزیں بیان کرتا تھا؟

۵)___ دوسرے معاہدہ کا وقت کیا تھا؟ اس میں کتنے افراد نے پیغمبر(ص) کا دیدار کیا؟ اور کیا کہا اور کیا سنا ؟

۱۸۹

مشرکوں کا مکر و فریب

جب مشرکوں کو اس خفیہ اجلاس کی اطلاع ہوئی تو انہوں نے مسلمانوں پر آزار و تکلیف پہنچانے میں اضافہ کردیا مسلمان جو مصائب و مشکلات کی بناپر بہت زیادہ دباؤ میں تھے انہوں نے پیغمبر(ص) سے سوال کیا کہ کیا ان مصائب پر صبر کریں؟ یا کوئی اور راستہ اس کے لئے سوچیں؟

رسول خدا(ص) نے انہیں حکم دیا کہ بالکل خفیہ طور پر مشرکوں کی آنکھوں سے چھپ کر مدینہ کی طرف کہ جسے اس زمانے میں یثرب کہا جاتا تھا اور بعد میں اس کا نام پیغمبر(ص) اسلام کے احترام میں ''مدینة الرسول'' رکھا گیا ہجرت کر جائیں اور آپ(ص) نے انہیں خوشخبری دی کہ:

جو لوگ اس رنج و غم اور ظلم پر جوان پر روا رکھا گیا ہے صبر کر کے ہجرت کرجائیں گے تو خداوند

۱۹۰

بزرگ ان کے لئے دنیا میں ایک عمدہ اور قیمتی جگہ عطا کرے گا البتہ ان کا آخرت میں اجر بہت بہتر اور بالاتر ہوگا یہ عظیم اجر اس شخص کو نصیب ہوگا کہ جو مشکلات میں صابر اور پائیدار اور استقامت رکھتا ہو اور خداوند عالم پر توکل کرے البتہ خدا تم پر جو مشکلات میں صبر وہ حوصلہ رکھتے ہو او راللہ تعالی کی راہ میں ہجرت اور جہات کرتے ہو بہت ہی مہربان اور بخشنے والا ہے''

لیکن ہجرت کس طرح ممکن ہے؟

اس شہر سے کہ جس میں بہت طویل مدت گزاری ہو اور اس سے مانوس ہوں کس طرح چلے جائیں؟

کیسے ہوسکتا ہے کہ گھر بار کو چھوڑ کر یک و تنہا ایک ایسے شہر کی طرف چلے جائیں جو ہمارے لئے بالکل اجنبی ہے؟

کس طرح چھوٹے بچّوں کو اتنے طویل اور سخت سفر میں ہمراہ لے جایا جائے_

اور کس طرح اس شہر میں کہ جس سے واقف نہیں زندگی گزاری جائے؟ نہ کسب اور نہ کوئی کام نہ کوئی آمدنی اور نہ ہی گھر یہ

یہ تمام مشکلات ان کی آنکھوں میں پھر گئیں_ لیکن اللہ کا وعدہ اور خدا پر توکل اور خدا کے راستے میں صبر ان تمام مشکلات اور سختیوں کو آسان کردیتا تھا_

لہذا خدا کے وعدے پر اعتماد اور خدا کی مدد سے ان فداکار مسلمانوں

۱۹۱

نے مدینہ کی طرف ہجرت کا آغاز کیا''

مشرکوں کو جب اس کی اطلاع ملی تو اس وقت تک کافی زیادہ مسلمانوں مدینہ ہجرت کرچکے تھے_ لہذا دوسرے مسلمانوں کی ہجرت کرتے تھے بالخصوص رات کے وقت اور وہ بھی آدھی رات کے وقت جب نگرانی کرنے والے غفلت اور نیند میں ہوتے تھے تو وہ عام راستوں سے ہٹ کر سخت اور دشوار گزار راستہ کے ذریعہ پہاڑوں کے نشیب و فراز عبور کر کے زخمی پیروں اور جھلسے ہوئے چہروں کے ساتھ مدینہ پہنچتے تھے''

اس قسم کی ہجرت اور استقامت و ایثار نے کفّار کی وحشت میں اور اضافہ کردیا وہ ڈرتے تھے کہ مسلمان مدینہ میں ایک مضبوط مرکز بنا کر ان پر حملہ نہ کردیں_ لہذا فوراً انہوں نے مٹینگ طلب کی تا کہ صلاح و مشورے اور سوچ بچار سے اس خطرے کے تدارک کے لئے کہ جس کا ان کو خیال تک نہ تھا خوب غور و خوض کریں_

اس اجلاس میں ایک مشرک نے گفتگو کی ابتداء ان الفاظ سے کی:

'' ہم سوچتے تھے کہ محمد(ص) کی آواز کو اپنے شہر میں خاموش کردیں گے لیکن اب خطرہ بہت سخت ہوگیا ہے مدینہ کے بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کرلیا ہے اور محمد(ص) سے عہد و پیمان باندھ لیا ہے جانتے ہوکیا

۱۹۲

ہوا ہے؟ کیا تمہیں معلوم ہے کہ چند روز قبل عقبہ میں ایک اجلاس ہوا ہے؟ کیا جانتے ہو کہ اکثر مسلمان مدینہ کی طرف چلے گئے ہیں اور وہاں کے مسلمانوں سے مل گئے ہیں؟ جانتے ہو کہ اگر محمد(ص) مدینہ کو اپنا مرکز بنانے میں کامیاب ہوگئے تو کتنا بڑا خطرہ ہمارے لئے پیدا ہوجائے گا؟ اس سے پہلے کہ حالات ہمارے قابو سے باہر ہوجائیں اس کا علاج سوچا جائے_ اگر اس خطرے کے تدارک کے لئے جلدہی کوئی اقدام نہ اٹھایا گیا اور کوئی قطعی فیصلہ نہ کیا گیا تو باقی ماندہ فرصت بھی ہاتھ سے نکل جائے گی اور بہت جلد محمد(ص) بھی مدینہ میں اپنے ساتھیوں سے جاملیں گے_

جانتے ہو اس کا علاج کیا ہے؟ صرف اور صرف محمد(ص) کا قتل_ اب ہمارے پاس صرف یہی ایک راستہ باقی ہے_ ایک بہادر آدمی کو اس کام پر مامور کیا جائے کہ وہ چھپ کر محمد(ص) کو قتل کردے اور اگر بنی ہاشم محمد(ص) کے خون کا مطالبہ کریں تو خون بہا ادا کردیا جائے یہی ایک راہ ہے اطمینان و سکون سے زندگی بسر کرنے کی''

ایک بوڑھا آدمی جو ابھی ابھی اجلاس میں شامل ہوا تھا اس نے کہا:

۱۹۳

نہیں یہ طریقہ صحیح نہیں ہے کیونکہ بنی ہاشم یقینا خونبہا لینے پر راضی نہیں ہوں کے جس طرح بھی ہوگا وہ قاتل کو پتہ لگا کر اسے قتل کردیں گے کس طرح ممکن ہے کہ تم میں سے کوئی اس کام کو رضاکارانہ طور پر انجام دے کیا کوئی تیار ہے؟

کسی نے جواب نہ دیا،

دوسرے نے کہا:

کیسا رہے گا کہ اگر محمد (ص) کو پکڑ کر قید کردیں؟ کسی کو ان سے ملنے نہ دیں اس طرح لوگوں سے ان کا رابطہ منقطع ہوجائے گا اور لوگ ان کو اور ان کی دعوت کو بھول جائیں گے''

اس بوڑھے نے کہا:

نہیں: یہ اسکیم بھی قابل عمل نہیں ہے، کیا بنی ہاشم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے اور تم آسانی کے ساتھ محمد(ص) کو گرفتار کرلوگے؟ اور اگر بالفرض ان کو پکڑ بھی لو تو بنی ہاشم تم سے جنگ کریں گے اور انہیں آزاد کرالیں گے''

ایک اور آدمی بولا:

محمد(ص) کو اغوا کر کے ایک دور دراز مقام پر چھوڑ آئیں انہیں خفیہ طریقے سے گرفتار کر کے ایک سرکش اونٹ پر بٹھا کر ان کے پاؤں اونٹ کی پیٹھ کے نیچے مضبوطی سے باندھ دیں اور اس اونٹ کو کسی دور دراز مقام پر چھوڑ آئیں تا کہ بیابان کی بھوک و پیاس سے محمد(ص) ہلاک ہوجائیں_ اور اس صورت میں قبائل میں سے انہیں کوئی بچا بھی لے تو وہ مجبوراً اپنی دعوت

۱۹۴

سے دستبردار ہوجائیں گے کیونکہ اس حالت میں انہیں کون پہنچانے گا اور کون ان کی باتوں اور ان کی دعوت پر کان دھرے گا یہ ایک بہترین طریقہ ہے اے ضعیف مرد''

وہ بوڑھا تھوڑی دیر خاموش رہا جلسہ میں بیٹھے ہوئے لوگ اسے دیکھ رہے تھے کہ دیکھیں اب وہ کیا کہتا ہے_ کچھ توقف کے بعد اس نے سکوت کو توڑا اور گفتگو شروع کی:

نہیں ... یہ کام بھی قابل عمل نہیں ہے_ اول تو یہ کہ تم اتنی آسانی سے محمد کو گرفتار نہ کرسکوں گے، دوسرے یہ کہ تم نہیں جانتے کہ اگر انہیں بیابان میں چھوڑ آؤ اور وہ کسی قبیلے میں چلے جائیں تو پھر کیا ہوگا؟ اپنی عمدہ اور دلنشین گفتگو سے کہ جسے وہ قرآن کہتے ہیں اس قبیلے کے لوگوں کو اپنی طرف بلائیں گے اور یوں تمہارے ساتھ جنگ کرنے اور تم سے اور تمہارے بتوں اور رسم و رواج سے لڑنے اور تمہارا مقابلہ کرنے کے لئے ایک مضبوط مرکز پالیں گے''

عجیب بوڑھا ہے؟ جو کچھ کہتے ہیں ان کی مخالفت کرتا ہے؟

اے ضعیف مرد تم بتاؤ تمہاری تجویز کیا ہے؟

وہ بوڑھا کچھ دیر تک اور خاموش رہا، سب اس کی طرف دیکھ رہے تھے کہ وہ کیا کہتا ہے تھوڑی دیر سوچنے کے بعد دھیمی آواز میں بولا، جانتے ہو کہ اس کا قابل عمل علاج کیا ہے؟

علاج یہ ہے کہ ہر ایک قبیلے سے ایک آدمی منتخب کرو اور انہیں اس بات پر مامور کرو ہ وہ سب

۱۹۵

مل کر رات کی تاریکی میں محمد(ص) پر حملہ کردیں اور محمد(ص) کو ان کے بستر پر ٹکڑے ٹکڑے کردیں اس طرح سے بنی ہاشم بھی قاتل کو نہ پہچان سکیں گے اور نہ ہی ایک ساتھ سب سے جنگ کرسکیں کے لہذا وہ خونبہا لے کر خاموش اور راضی ہوجائیں گے اجلاس میں شامل لوگوں نے بحث و گفتگو کے بعد اسی طریقہ کار کی تائید کی اور اس کو انجام دینے کا ارادہ کرلیا لیکن خداوند عالم کی ذات ان کی باتوں اور ان کے برے ارادوں سے غافل نہ تھی_

خداوند عالم فرماتا ہے:

ہرگز گمان مت کرو کہ خدا ظالموں کے کردار سے غافل ہے نہیں: ان کے اعمال کی تمات تر سزا کو اس دن تک کہ جس دن سخت عذاب سے آنکھیں بند اور خیرہ ہوں گی اور گردش کرنے سے رک جائیں گی ٹال دیا ہے اس دن یہ جلدی (دوڑتے ہوئے) اور سرجھکائے حاضر ہوں گے لوگوں کو اس دن سے ڈراؤ کہ جسکا عذاب ان کو گھیرے گا اور ظالم کہیں گے کہ پروردگار ہماری موت کو کچھ دن کے لئے ٹال دے تا کہ ہم تیری دعوت کو قبول کرلیں اور تیرے پیغمبروں کی پیروی کریں کیا تم ہی نہیں تھے کہ قسم کھاتے تھے کہ ہم پر موت اور زوال نہیں آئے گا؟''

۱۹۶

آیت قرآن

''( و مکروا و مکر الله و الله خیر الماکرین ) ''

سورہ آل عمران آیت ۵۴

انہوں نے مکر و فریب کیا اور اللہ نے ان کا جواب دیا اور اللہ بہترین نقشہ کشی کرنے والا ہے_

سوچئے او رجواب دیجئے

۱) ___ جب مسلمانوں نے پیغمبر(ص) سے مصائب اور سختیوں کی روک تھام کا تقاضہ کیا تو انہوں نے کیا جواب دیا؟ اور خداوند عالم کی جانب سے کون سی خوشخبری دی؟

۲)___ ہجرت کی مشکلات کیا تھیں؟ اور مسلمان کس طرح ان مشکلات پر غالب آتے تھے؟

۳)___ مسلمان کس طرح ہجرت کر کے مدینہ پہنچا کرتے تھے؟

۴)___ مسلمانوں کی ہجرت اور استقامت و ایثار نے کفار پر کی اثر ڈالا؟

۵)___ کفّار نے کس مسئلہ کے بارے میں اجلاس منعقد کی اور کس بات پر ان کا اتفاق ہوا تھا؟

۱۹۷

۶)___ خداوند عالم ظالموں کی سزا کے متعلق قرآن مجید میں کیا فرماتا ہے؟ اور ظالم اپنے پروردگار سے کیا کہیں گے اور کیا خواہش کریں گے اور خدا انہیں کی جواب دے گا؟

۱۹۸

پیغمبر(ص) خدا کی ہجرت (۱)

اللہ تعالی کفّار کے منحوس ارادوں سے آگاہ تھا اس نے کفّار کے حیلے سے پیغمبر(ص) کو آگہ کردیا اور ان کے برے ارادے کو پیغمبر(ص) کے سامنے ظاہر کردیا_

خداوند عالم نے پیغمبر(ص) کو خبر دی کہ مشرکوں نے تمہارے قتل پر کمر باندھ رکھی ہے لہذا نہایت خاموشی کے ساتھ چھپ کر اس شہر سے مدینہ کی جانب ہجرت کر جاؤ کہ یہ ہجرت، دین اسلام کی بنیاد کو مضبوط بنانے اور محروم لوگوں کو ان ظالموں سے نجات دلانے کا موجب ہوگی_

تم اللہ کی رضا اور مخلوق خدا کی ہدایت کے لئے اپنے اپنے گھر بار کی محبت کو پس پشت ڈال کر ہجرت کرجاؤ کیونکہ اللہ تعالی اپنی راہ میں جہاد کرنے والوں او رمہاجرین کی مدد کرتا ہے، ان کی حمایت کرتا ہے اور انھیں سعادت و کامیابی کا راستہ بتاتا ہے_ اللہ کا دین ہمیشہ ہجرت و جہاد اور ایثار وقربانی سے وابستہ رہا

۱۹۹

ہے اور ہمیشہ رہے گا_

پیغمبر خدا(ص) نے اللہ کے حکم سے ہجرت کا پكّا ارادہ کرلیا_

لیکن ہجرت اور یہ ارادہ نہایت پر خطر تھا_ پیغمبر(ص) اور ان کا گھر مکمّل طور پر دشمنوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا_ آمد و رفت کی معمولی سی علامت اور گھر میں ہونے والی غیر معمولی حرکات و سکنات پیغمبر(ص) کے ارادے کو ظاہر کردیتیں اور آپ(ص) کی ہجرت کے پروگرام کو خطرے میں ڈال سکتی تھیں_

کفّار نے آپ(ص) کے گھر اور سونے اور بیٹھنے کی جگہ تک کے متعلق مکمل معلومات حاصل کرلی تھیں تا کہ اس حملہ کی کامیابی کی تکمیل میں کہ جس کو انجام دیتے کے طریقے اور وقت کا تعین ہوچکا تھا کوئی رکاوٹ کھڑی نہ ہوسکے_

رات کے وقت پیغمبر(ص) کی آمد و رفت کے معمولات سے یہ لوگ آگاہ تھے، یہاں تک کہ دروازے کے سوراخ اور دیوار کے اوپر سے پیغمبر کے سونے کی جگہ تک ان کی نگاہوں سے اوجھل نہ تھی_

یہاں تک کہ شب ہجرت آپہنچی_

پیغمبر نے ہجرت کے موضوع پر حضرت علی (ع) سے کہ جنہوں نے ابتداء بعثت سے ہی آپ(ص) کی مدد و نصرت کا پیمان باندھ رکھا تھا مشورہ کیا اور پوچھا:

اے علی (ع) کیا تم خدا کے اس حکم کی تعمیل میں میری مدد کرو گے؟

یا رسول اللہ(ص) میں کس طرح سے آپ(ص) کی مدد کروں؟''

حضرت علی (ع) نے کہا:

کام بہت مشکل ہے_ چالیس کے قریب مشرک چاہتے ہیں کہ

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

بہتر یہ ہے کہ ہم دونوں اکٹھے بازار چلیں او رکوئی سستا لباس تلاش کریں،

ہم دونوں بازار کی طرف چل دیئے راستے میں ایک لڑکی گلی کے کنارے بیٹھی رو رہی تھی_ رسول خدا(ص) اس کے نزدیک گئے اور پوچھا ''پیاری بیٹی'' کیا ہوا ہے؟ کیوں پریشان ہو؟

کیوں رو رہی ہو؟

وہ چھوٹی بچّی پیغمبر خدا(ص) کو پہچانتی تھی اس نے اپنی آنکھوں سے آنسو صاف کئے اور بولی:

یا رسول اللہ(ص) میں ایک گھر کی کنیز او رخدمتگار ہوں مجھے چار درہم دیئےئے کہ ان سے سودا خریدوں لیکن وہ پیسے مجھ سے کہیں گم ہوگئے ہیں، اگر خالی ہاتھ گئی تو وہ پوچھیں گے اور مجھے ماریں گے_ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا کہ کیا کروں؟ گھر جانے کی ہمت نہیں ہو رہی ...''

پیغمبر خدا(ص) نے نہایت مہربانی اور شفقت سے اسے تسلّی دی اور فرمایا:

بیٹی افسوس نہ کرو، یہ چار درہم لو اور سودا لے کر گھر لوٹ جاؤ''

اس لڑکی نے وہ درہم لئے اور خوش خوش وہاں سے چلی گئی ہم بھی بازار کی طرف روانہ ہوگئے پیغمبر(ص) نے ایک سادہ لباس چار درہم میں

۲۲۱

خریدا وہیں پہنا اور خدا کا شکر ادا کیا''

کیا ہی اچھا ہوا گر آپ یہ جان لیں کہ جب پیغمبر(ص) نیا لباس پہنتے تھے تو کیا دعا فرماتے تھے آپ(ص) فرماتے تھے_

اللہ کا شکر ہے کہ اس نے یہ لباس مجھے عنایت فرمایا تا کہ اس کے ذریعے میں اپنے بدن کو ڈھانپ سکوں خدایا اس لباس کو میرے لئے خیرو برکت کا لباس قرار دے اور مجھے اس میں سالم اور عافیت سے رکھ''

ہمارے پیغمبر گرامی کبھی اللہ تعالی کی یاد سے غافل نہیں ہوا کرتے تھے اپنے آپ کو اس کا بندہ سمجھے تھے اور ہمیشہ اس کے بے شمار الطائف اور نعمتوں پر شکر ادا کرتے تھے_

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:

جب ہم گھر واپس آئے تو ایک آدمی کو دیکھا جو ایک پھٹا پرانا لباس پہنے ہوئے لوگوں سے مدد کا طالب ہے اور کہہ رہا ہے کہ جو بھی میرے جسم کو لباس کے ذریعہ ڈھانپے گا خدا اسے بہشتی لباس پہنائے گا_ پیغمبر(ص) اس کے نزدیک گئے، ابھی کچھ دیر پہلے جو لباس آپ(ص) نے خریدا تھا اسے اپنے جسم سے اتارا اور اس مرد کو دے دیا اور فرمایا کہ اسے پہن لو، آپ(ص) نے کچھ دیر اس س اور باتیں کیں، وہ آدمی بہت خوش ہوا اور پیغمبر(ص) کا شکریہ ادا کرنے لگا''

پیغمبر(ص) نے فرمایا:

۲۲۲

جو مسلمان اللہ کی رضا کی خاطر کسی مسلمان کو لباس دے گا تو جب تک وہ لباس اس مسلمان کے جسم پر رہے گا لباس دینے والا خدا کی ضمانت و حفاظت اور خیر و برکت ہیں رہے گا_

ہم دوبارہ بازار آئے اور چار در ہم میں ایک اور قمیص خریدی پیغمبر(ص) نے اسے پہنا اور پھر اسی طرح اللہ کا شکر ادا کیا اور گھر کی طرف واپس آنے لگے راستہ میں ہمیں یہ دیکھ کر بہت تعجب ہوا کہ وہ لڑکی جسے ہم نے پہلے چار درہم دیے تھے وہ ابھی تک گلی کے کنارے بیٹھی ہوئی ہے پیغمبر(ص) اس کے نزدیک گئے اور پوچھا:

گھر کیوں نہیں گئی؟ کیا کچھ خریدا نہیں؟''

لڑکی نے جواب دیا:

یا رسول اللہ کیوں نہیں چیزیں تو میں نے خرید لی ہیں لیکن بہت دیر ہوگئی ہے ، میں ڈرتی ہوں کہ گھر والے مجھے ماریں گے اور کہیں گے کہ اتنی دیر کیوں کی؟''

پیغمبر(ص) نے فرمایا''

ڈرو نہیں، میں تمہارے ساتھ چل کر تمہاری سفارش کرتا ہوں لڑکی خوش ہوگئی اور گھر کا پتہ بتانے کے لئے ہمارے آگے آگے چلنے لگی جب ہم گھر کے دروازے پر پہنچے تو پیغمبر(ص) نے بآواز بلند گھر کے مالک کو سلام کیا کسی نے جواب نہ دیا، دوبارہ سلام کیا پھر بھی کوئی جواب نہ پایا _

پیغمبر(ص) ہمیشہ پسند کرتے تھے کہ مسلمانوں کو سلام کریں،

۲۲۳

جس کے پاس سے گزرتے اسے سلام کرتے خواہ وہ فقیر ہو یا امیر، چھوٹا ہو یا بڑا آپ(ص) نہایت عمدہ سلوک و رفتار کے مالک تھے آپ(ص) کے لبوں پر ہمیشہ ہلکی ہلکی مسکراہٹ کھیلتی رہتی اورآپ(ص) زور سے قہقہہ لگا کرنہیں ہنستے تھے، ہمیشہ انکساری سے پیش آتے تھے لیکن اس انکساری میں احساس کمتری کا ذرہ برابر شائبہ تک نہ ہوتا تھا آپ(ص) سخی تھے لیکن ہرگز فضول خروچی نہیں کرتے تھے نرم دل اور رقیق القلب تھے، تمام مسلمانوں سے محبت کرنے والے اور ان پر مہربان تھے،

اسی تواضح و انکساری کے پیش نظر آپ(ص) نے تیسری مرتبہ سلام کیا کسی نے گھر کے اندر سے جواب دیا،

السلام علیکم یا رسول اللہ(ص)

اور فوراً دروازہ کھول دیا_

رسول خدا(ص) نے فرمایا:

میں نے اس سے پہلے دو مرتبہ سلام کیا تھا لیکن تم نے کوئی جواب نہیں دیا، کیا میری آواز کو نہیں سن رہے تھے؟

صاحب خانہ نے دست بستہ عرض کیا:

کیوں نہیں یا رسول اللہ(ص) لیکن آپ(ص) کی دلکش آواز اور سلام کرنا میرے دل کو اس قدر بھایا کہ بے اختیار میرا جی آپ(ص) کی من موہنی آواز کو دوبارہ سننے کے لئے مچل گیا''

پیغمبر خدا(ص) نے فرمایا:

یہ لڑکی تاخیر سے گھر لوٹی ہے لیکن یہ بے قصور ہے، میں اس لئے آیا

۲۲۴

ہوں کہ اس کی سفارش کروں، تم اسے معاف کردو''

صاحب خانہ کہا،

یا رسول(ص) اللہ آپ(ص) کی بابرکت تشریف آوری کے سبب میں نے اس لڑکی کو معاف کیا اور راہ خدا میں آزاد کیا،

پیغمبر خدا(ص) بہت خوش ہوئے، صاحب خانہ کا شکریہ ادا کیا اور ساتھ ہی ساتھ خداوند عالم کا بھی شکر ادا کیا_

واپسی میں آپ(ص) نے مجھ سے فرمایا:

یا علی (ع) یہ بارہ درہم کتنے بابرکت تھے جنہوں نے دو آدمیوں کو لباس پہنایا اور ایک کنیز کو آ زاد کردیا''

سچ ہے، اگر پیغمبر(ص) نے اس قیمتی لباس کو پہن لیا ہوتا تو کس طرح ممکن تھا کہ ان کی مدد ہوسکی تھی پیغمبر(ص) کے بارے میں کتنا اچھا کہا گیا ہے کہ وہ ''خفیف المؤونہ و کثیر المعونہ'' (کمتر مدد لینے والے اور زیادہ مدد کرنے والے) البتہ ہر مسلمان کو چاہیئےہ وہ آپ(ص) کی پیروی اختیار کر کے ایسا ہی ہوجائے_

آیت قرآن

( امنوا بالله و رسوله و انفقوا ممّا جعلکم مستخلفین فیه فالّذین امنوا منکم و انفقوا لهم اجر کبیر)

۲۲۵

خدا اور اس کے رسول (ص) پر ایمان لاؤ اور اس سے جو خدا نے بطور امانت تمہارے اختیار میں قرار دیا ہے خرچ کرو تم میں سے جو لوگ ایمان لے آئے اور خرچ کرتے ہیں ان کے لئے بہت بڑا اجر ہوگا_

''سورہ مائدہ آیت ۷''

سوچئے اور جواب دیجئے

۱) ___وہ چھوٹی بچّی جو پیغمبر اکرم(ص) کو راستے میں ملی کیوں رو رہی تھی؟ پیغمبر(ص) نے اس سے کیا پوچھا؟ اس نے آپ(ص) کو کیا جواب دیا؟

۲)___ جب پیغمبر(ص) نیا لباس پہنتے تھے تو کس طرح اور کن الفاظ میں اللہ کا شکر ادا کرتے تھے؟ اور خدا سے کیا طلب کرتے تھے؟

۳) ___پیغمبر(ص) نے ایک مسلمان کو رضائے الہی کی خاطر لباس پہننے کا کیا ثواب بیان فرمایا ہے؟

۴) ___پیغمبر(ص) نے واپس لوٹنے پر اس لڑکی کس حالت میں دیکھا؟ اور اس سے کیا گفتگو کی؟

۵)___ رسول (ص) کی سیرت لوگوں کو سلام کرنے اور ان سے میل ملاپ میں کیسی تھی؟ کیا تم بھی کوشش کرو گے کہ رسول (ص) کی طرح لوگوں سے شفقت اور مہربانی سے پیش آؤ؟

۲۲۶

۶)___ رسول خدا(ص) کے بارے میں کہا گیا کہ وہ خفیف الموؤنہ اور کثیر المعونہ'' تھے اس کی وضاحت کیجئے؟

۷)___ پیغمبر خدا(ص) کی صفات میں سے دس صفات کو بیان کیجئے؟

۲۲۷

باہمی تعاون

جو شخص بھی اپنے آپ کودوسروں سے برتر سمجھے اور اپنے بوجھ کو دوسروں پر ڈالے، خدا کے غیظ و غضب کا شکار ہوگا''

لعنت اور نفرین ہو اس پر کہ جو اپنی زندگی کا بوجھ دوسرے کے کندھے پر ڈالتا ہے،

یہ دونوں اقوال رسول گرامی (ص) کے ہیں_ آپ(ص) مسلمانوں کو تعلیم دیتے ہیں کہ سستی اور تن پروری سے پرہیز کریں او رمحنت و کوشش سے اپنی روزی اپنے ہاتھ سے کمائیں خدا کے لطف و کرم کی امید رکھیں اور اپنی دنیا کو پاک و پاکیزہ اور آباد بنائیں''

نہ صرف یہ کہ اپنے بوجھ کو دوسروں پر نہ ڈالیں بلکہ دوسرے مسلمانوں

۲۲۸

کے بوجھ کو بھی بانٹیں او راپنی مدد کا ہاتھ ان کی طرف بڑھائیں اور جان لیں کہ خداوند عالم نیکی کرنے والوں کو پسند کرتا ہے اور ان کے اجر کو ضائع نہیں کرتا:

جانتے ہیں، رسول خدا(ص) نے اس نیک خصلت کی لوگوں کو کس طرح تعلیم دی____؟

کیا صرف اپنی گفتگو سے____؟

نہیں بلکہ گفتار سے زیادہ اپنے رفتار و عمل سے آپ(ص) نے اچھی باتوں کی تعلیم دی کیونکہ پیغمبراکرم(ص) جو کچھ فرماتے تھے اس پر کامل ایمان رکھتے تھے اور اس سے پہلے کہ لوگوں کو کسی کام کی دعوت دیں، خود اس پر ایمان اور بصیرت سے عمل کرتے تھے_

لوگ بھی چونکہ آپ(ص) کی صداقت اور ایمان کو نہ صرف آپ کے قول میں بلکہ آپ کے اعمال و افعال بھی دیکھ رہے ہوتے تھے لہذا آپ(ص) سے اور آپ(ص) کے خدائی پیغام سے عقیدت کا اظہار کرتے اور آپ(ص) کی پیروی کرتے تھے،

اس بات کو اچھی طرح سمجھنے کے لئے بہتر یہ ہے کہ ہم آپ(ص) کے ساتھ ایک سفر پر چلیں اور آپ(ص) کے سلوک و رفتار اور عادات و اطوار کو بالخصوص لوگوں کی مدد اور ان سے مدد و تعاون کے سلسلے میں آپ(ص) کی روش کو قریب سے دیکھیں_

پیغمبر(ص) سفر پر جانے کے لئے تیار ہیں آپ(ص) نے کنگھی، مسواک، اور مختصر سا سامان سفر اٹھایا، اور اپنے ہم سفروں اور ساتھیوں کو بھی

۲۲۹

ہدایت کر رہے ہیں کہ وہ سب بھی اپنا سامان سفر اور ضرورت کی چیزیں ساتھ لے لیں تا کہ سفر میں دوسروں کے لئے زحمت کا باعث نہ بنیں_

تمام تیاریاں مکمل ہونے کے بعد آپ(ص) نے گھر سے نکلتے ہوئے اپنے اہل و عیال او ردوستوں کو نہایت گرم جوشی سے خداحافظ کہا جب قافلہ روانگی کے لئے حرکت میں آیا تو آپ نہایت خضوع و خشوع کے ساتھ خداوند متعال سے یوں مخاطب ہوئے_

خدایا تیری رضا و عنایت سے سفر کر رہا ہوں اور تیری ذات کی طرف متوجہ ہوں اور تیری رحمت پر اعتماد کرتا ہوں_ خدایا اس سفر میں تمام امید و اطمینان تیرے لطف سے وابسطہ ہے تو میری حاجات کو برلا جس چیز کو تو میرے لئے پسند کرتا ہے اسی کی توفیق عنایت فرما کہ تو میری مصلحت کو مجھ سے بہتر جانتا ہے خدایا: پرہیز گاری اور تقوی کو میرے راستے کا سامان قرار دے او رمجھے اپنی رحمت و مغفرت کا مستحق قرار دے اور جس طرف بھی جاؤں مجھے نیکی اور اچھائی کی طرف متوجہ کردے''

اس سفر میں بھی دوسرے سفروں کی طرح آپ(ص) کاروان کے آخر میں چل رہے تھے تا کہ کمزور و ضعیف اور پیچھے رہ جانے والوں کی خبرگیری کرتے رہیں_

راستے میں ایک جگہ کھانا کھانے اور سستانے کے لئے

۲۳۰

یہ قافلہ ٹھہرا پیغمبر اکرم(ص) کے فرمان اور خواہش کے مطابق اونٹوں سے سامان اتار کر انہیں بیابان میں چھوڑ دیا گیا تا کہ وہ بھی گھاس پھونس سے اپنا پیٹ بھرلیں_

قافلہ کا ہر آدمی کسی نہ کسی کام میں مشغول ہوگیا ایک گروہ پانی لینے چلا گیا، کچھ لوگوں نے دنبہ ذبح کیا اور اس کی کھال اتارنے میں مشغول ہوگئے_ ایک دو آدمی انٹوں کی حفاظت کرنے لگے اسی دوران پیغمبر(ص) نے فرمایا کہ میں آگ جلانے کے لئے بیابان سے سو کھی لکڑیاں اکٹھی کر کے لاتا ہوں_

اصحاب نے کہا:

یا رسول اللہ(ص) آپ (ص) تھکے ہوئے ہیں آرام کریں ہم خود سب کام انجام دے لیں گے؟''

آپ کا کیا خیال ہے؟

آیا رسول خدا(ص) نے اصحاب کی اس پیش کش کو قبول کرلیا ہو گا اور اپنی تھکاوٹ دور کرنے کے لئے آ رام کی غرض سے لیٹ گئے ہوں گے؟

اس سلسلہ میں کیا جواب ہے آپ کا؟ خدا اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کوئی اپنے آپ کو دوسروں سے برتر سمجھے اور اپنے کام کی زحمت کو ان کی گردن پر ڈالے

یہ تھا پیغمبر اکرم(ص) کا جواب :

تم بھی میری طرح سفر سے تھکے ہوئے ہو جس طرح

۲۳۱

میں غذا کھانے میں تمہارے ساتھ شریک ہوں گا کام کرنے میں بھی مجھے تمہارا شریک ہونا چاہیئےہ اسلامی طریقہ نہیں ہے کہ میں آرام کروں ا ور تم لوگ کام کرو نہیں ایسا نہیں ہوگا میں بھی تمہاری طرح کوئی کام انجام دوں گا''

آپ(ص) اٹھے اور جلانے کے لئے سوکھی لکڑیاں جمع کرنا شروع کردیں_ اس طرح تمام لوگوں نے مل جل کر اور باہمی تعاون سے کھانا تیار کیا ا ور نہایت مہر و محبت کے ساتھ اکٹھے بیٹھ کر تناول کیا_

پیغمبر اسلام(ص) باوجود اس مقام او رخدائی منصب اور اجتماعی حیثیت کے ایک عام مسلمان کی طرح زندگی بسر کرتے تھے آپ(ص) کی خوراک اور لباس بھی دوسرے عام مسلمانوں کی طرح تھا بلکہ بسا اوقات ان سے بھی زیادہ معمولی قیمت کا ہوا کرتا تھا اپنے ذاتی کاموں کو اکثر اوقات خود ہی انجام دیتے تھے اپنی جوتی اور لباس کو پیوند لگاتے تھے گھر کے کاموں میں مدد فرمایا کرتے تھے مشکیزہ کے ذریعہ گھر میں پانی لاتے تھے اور کبھی کبھی خودد کھانا تیار کرتے تھے: بچّوں کی نگہداشت و پرورش میں مدد کیا کرتے تھے_ گھر کا دروازہ کبھی خود آکر کھولتے تھے گندم اور جو کا آتا پیسنے اور روٹی پکانے میں مدد کیا کرتے تھے، حیوانات کا دودھ دوہتے تھے، انہیں پانی پلاتے اور چارہ ڈالتے تھے،

کشادہ روٹی سے لوگوں سے پیش آتے تھے اور خندہ پیشانی کے ساتھ لوگوں سے گفتگو کرتے تھے، کوشش کرتے تھے کہ ہر ایک کو یہاں تک کہ بچّوں کو بھی سلام کریں اور فرمایا کرتے تھے کہ:

۲۳۲

میں بچّوں کو سلام کرتا ہوں تا کہ بچّوں کا احترام او رعزّت میری امت کی ایک اچھی سنّت قرار پائے اور مسلمان بچّوں کو سلام کریں اور ان کا احترام کریں،

آپ(ص) بد مزاج اور بد زبان نہیں تھے اگر آپ کے سامنے کوئی کسی کی برائی کرتا تو آپ(ص) ناراض ہوجاتے اور فرماتے کہ رک جاؤ، کوئی اور بات کرو سب مسلمانوں کے لئے مہربان اور ہمدرد تھے اور ان کی مدد کو پہنچتے تھے_ اور اپنے کام دوسروں پر ڈالنے سے پرہیز کرتے تھے،

ایک دن مسلمانوں کی ایک جماعت جو سفر سے لوٹ کر آئی تھی آپ(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اپنے ساتھیوں میں سے ایک کی تعریف کرنے لگی_

یہ لوگ کہنے لگے وہ کتنا دیندار اور متّقی ہے اس نے کسی کو کوئی تکلیف اور ایذ انہیں پہنچائی جب ہم راستے ہیں کہیں قیام کرتے تو وہ فوراً پانی تلاش کر کے وضو کرتا اور نماز میں مشغول ہوجاتا اسے سوائے نماز اور دعا کے کسی کام سے سروکار نہ تھا،

پیغمبر اکرم(ص) نے دریافت کہا:

اگر اس کی سفر میں یہ عادت تھی تو اس کے کام کاج کون کرتا تھا؟ اس کے اونٹ کا سامان کون اتارتا تھا؟ کون اس کے لئے غذا اور پانی لاتا تھا؟ کون اس کے لئے کھانا پکاتا تھا؟ اور چلتے وقت کون اس کے اونٹ پر سامان لادتا تھا؟''

یا رسول(ص) اللہ ان تمام کاموں کو ہم فخریہ طور پر انجام دیتے

۲۳۳

تھے'' ان لوگوں نے جواب دیا،

رسول خدا(ص) نے ارشاد فرمایا:

یقینا تم اس سے بہتر ہو او راللہ کے نزدیک بلند درجہ رکھتے ہو یہ ٹھیک نہیں کہ ایک مسلمان اپنے کام کا بوجھ دوسروں کی گردن پر ڈالے اور خود اپنے خیال میں عبادت کرنا شروع کردے نماز و دعا اپنی جگہ بہترین عبادت ہیں لیکن سعی و کوشش بھی ایک بہت بڑی عبادت ہے اور خداتعالی کی مخلوق کی خدمت کرنا بھی بڑی عبادت ہے''

اب آپ سوچئے کہ:

آپ کس طرح اللہ کی مخلوق کی خدمت کرتے ہیں؟ کن کاموں میں ان کے ساتھ مدد و تعاون کرتے ہیں؟

کیا آپ کا پّکا ارادہ ہے کہ اپنے مدرسے اور گھر کے کاموں کو خود انجام دیں گے اوردوسروں کے کاندھوں پر بوجھ نہیں ڈالیں گے؟

کیا آپ کوشش کرتے ہیں کہ ماں باپ اور دوسرے افراد کا بوجھ اٹھائیں اور خود کسی پر بوجھ نہ بنیں؟

مختصر یہ کہ آپ رسول خدا(ص) کی اس سنت پر کس طرح عمل پیرا ہوں گے؟

۲۳۴

آیت قرآن

( و تعاونوا علی البرّ و التّقوی و لا تعاونوا علی الاثم و العدوان)

نیک کاموں اور تقوی میں ایک دوسرے سے تعاون کرو اور ظلم و گناہ میں کسی سے تعاون نہ کرو''

سوچئے اور جواب دیجئے

۱)___ عام طور پر پیغمبر(ص) کون سی چیزیں سفر میں اپنے ہمراہ لے جاتے تھے؟ کیا آپ بتاسکتے ہیں کہ ان تمام چیزوں کا سفر میں ساتھ لے جانا رسول خدا(ص) کی کن صفات کی نشان دہی کرتا ہے___؟

۲) ___ پیغمبر(ص) سفر کرتے وقت اپنے اصحاب کو کیا تاکید کیا کرتے تھے اور کیوں؟

۳)___ رسول خدا(ص) کی عادت اور سیرت، سفر کرنے سے پہلے اپنی قوم، دوستوں اور اہل بیت (ع) کے ساتھ کیا تھی؟ پیغمبر(ص) کی یہ سیرت ہمیں کیا درس دیتی ہے؟

۴) قافلہ کی روانگی کے وقت رسول خدا(ص) کون سی دعا پڑھا کرتے تھے؟ آپ(ص) کی دعا کے الفاظ بتایئے

۲۳۵

۵) عام طور پر پیغمبر(ص) قافلے کے کس حصہ میں چلا کرتے تھے؟

۶) درمیان راہ قیام کے وقت، رسول خدا(ص) جانوروں کے متعلق کیا حکم دیا کرتے تھے؟

۷) خدا کے رسول (ص) نے غذا کی تیاری کے لئے کونسا کام اپنے ذمّہ لیا؟ اس وقت اصحاب نے آپ(ص) سے کیا کہا؟ آپ نے ان کے جواب میں کیا فرمایا؟

۸) پیغمبر(ص) بچّوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا کرتے تھے؟

۹) اگر پیغمبر(ص) کے سامنے کسی کی برائی کی جاتی تو آپ کیا فرماتے تھے؟

۱۰) پیغمبر(ص) نے ان لوگوں سے کہ جو اپنے ہمسفر کی تعریف کر رہے تھے کیا پوچھا تھا؟ اور ان سے ان کے ہمسفر کے بارے میں کیا فرمایا تھا؟

۲۳۶

ہمّت مرداں مدد خدا

اسلامی لغت میں ''سوال'' کے دو معنی بیان کئے جاتے ہیں ایک معنی پوچھنے کے ہیں_ یعنی نہ جاننے والا کسی جاننے والے سے سوال کرتا ہے، تا کہ اس طرح وہ اپنے علم میں اضافہ کرسکے اس لحاظ سے سوال کرنا بہت اچھا اور پسندیدہ فعل ہے_ جو شخص نہیں جانتا اسے چاہئے کہ وہ جاننے والوں سے سوال کرے تا کہ اس کے علم و آگاہی میں اضافہ ہوجائے دین اسلام کے پیشواؤں کے کلام میں ملتا ہے کہ علم و دانش کے بند دروازوں کی چابی ''سوال'' کرنا ہے''

سوال کے دوسرے معنی کسی سے مدد طلب کرنے اور بلامعاوضہ کوئی چیز مانگنے کے ہیں ان معنوں میں کسی سے سوال کرنا اسلامی نقطہ نگاہ سے بہت ہی برا اور ناپسندیدہ عمل ہے_

۲۳۷

ایک شخص نے پیغمبر(ص) سے پوچھا کہ:

یا رسول اللہ(ص) مجھے کوئی ایسا عمل بتایئےہ مجھے اس کے بجالانے کے بعد یقین ہوجائے کہ میں اہل جنّت میں سے ہوں''

پیغمبر(ص) نے اس کے جواب میں تین چیزوں کے متعلق فرمایا کہ اگر تم چاہتے ہو کہ آخرت میں جنتیوں کے زمرے میں شامل ہوجاؤ تو ان تین چیزوں کی ہمیشہ پابندی کرو:

۱)___ بلاوجہ غصہ نہ کرو

۲)___ کبھی لوگوں سے سوال نہ کرو

۳)___ لوگوں کے لئے وہی چیز پسند کرو جو اپنے لئے کرتے ہو_

نیز پیغمبر(ص) نے فرمایا:

جو شخص ایک دو دن کی روزی رکھنے کے باوجود لوگوں سے سوال کرے تو خداوند عالم اسے قیامت کے دن برے چہرے سے محشور کرے گا''

پیغمبر(ص) خدا مسلمانوں کی غیرت و شرافت انسانی کے اتنے قائل تھے کہ آپ کو پسند نہ تھا کہ کوئی مسلمان اپنی عزت و آبرو کو اس کے اور اس کے سامنے رسوا کرے اور بغیر ضرورت اور لاچاری کے سوال کے لئے لب کشائی کرے اور خدا کے سوا اور کسی سے حاجت طلب کرے_

آپ(ص) فرمایا کرتے تھے کہ مومن کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے آپ کو ذلیل کرتا پھرے حالانکہ آپ(ص) ضرورت کے وقت محتاجوں اور ضرورت مندوں کی مدد و نصرت بھی کیا کرتے تھے لیکن پسند نہیں کرتے کہ مومن

۲۳۸

اپنی عزّت و شرافت اور آبرو کو کسی کے سامنے رسوا کرے یہاں تک کہ خود پیغمبر(ص) کے سامنے بھی اظہار حاجت اور نیازمندی کرے اور آپ(ص) تاکید فرماتے تھے کہ:

ہر وہ شخص جو بے نیازی کا مظاہرہ کرے اور کسی سے سوال نہ کرے اور اپنے دل کے راز کو فقط اپنے خدا سے کہے تو خدا اسے بے نیاز کردے گا لیکن جو شخص بلاوجہ اس سے اور اس سے سوال کرے اور اپنی عزّت نفس کو مجروح کرے، خداوند عالم بھی اس کے لئے فقر و نیازمندی کے دروازے کھول دیتا ہے''

اس مطلب کو بہتر طور پر سمجھنے اور پیغمبر خدا(ص) کی انسان ساز اور عزّت آفرین سنّت کو اچھی طرح سمجھنے کے لئے یہ واقعہ ملاحظہ فرمایئےور اس میں حضرت رسول خدا(ص) کے اس شخص سے برتاؤ پر توجّہ دیجئے_

ایک شخص مدّت سے بے کار تھا اور بے کاری نے اسے فقیر و تہی دست کردیا تھا اس کے سامنے فقر سے نجات اور ضروریات پوری کرنے کے تمام راستے بند ہوچکے تھے اور اس کا کوئی علاج دکھائی نہ دیتا تھا ایک دن اس شخص نے اس مسئلہ کو اپنی بیوی کے سامنے بیان کیا اور اس سے مشورہ طلب کیا،

اس کی بیوی نے کہا کہ رسو ل خدا(ص) ایک مہربان اور کریم و سخی انسان ہیں بہتر ہے کہ ان کی خدمت میں جاؤ اور اپنی حالت کو بیان کرو اور ان سے مدد طلب کرو_

۲۳۹

اس شخص کو یہ تجویز پسند آئی وہ اٹھا اور رسول(ص) کی خدمت میں حاضر ہوا، سلام کیا اور شرم کے مارے ایک کونے میں بیٹھ گیا_

رسول اکرم(ص) نے اس کے چہرے پر نگاہ ڈالی اور ایک ہی نگاہ میں تمام معاملے کو سمجھ گئے اس سے پہلے کہ وہ شخص اپنی مصیبت اور تنگدستی کے متعلق کچھ کہتا اور سوال کے لئے لب کشائی کرتا پیغمبر(ص) نے گفتگو کے لئے اپنے لب کھولے اور وہاں موجود افراد سے ان الفاظ میں خطاب فرمایا:

ہم ہر سائل کی مدد کریں گے لیکن اگر وہ بے نیازی اختیار کرے اور اپنا ہاتھ مخلوق کے سامنے نہ پھیلائے اور کام میں زیادہ محنت و کوشش کرے تو خدا اس کی احتیاج کو پورا کرے گا_

خدا کے رسول(ص) کی مختصر و پر معنی گفتگو اس محتاج انسان کے دل پر اثر کر گئی_ آپ کے مقصد کو اس شخص نے سمجھ لیا اپنی جگہ سے اٹھا آپ کو خداحافظ کہا اور اپنے گھر لوٹ آیا_ بیوی جو اس کے انتظار میں تھی اس نے ماجرا دریافت کیا_

مرد نے جواب دیا کہ:

میں رسول خدا(ص) کی خدمت میں گیا تھا اس سے پہلے کہ کچھ کہتا، رسول (ص) نے فرمایا کہ جو شخص چاہے ہم اس کی مدد کریں گے لیکن اگر بے نیازی اختیار کے اور اپنا ہاتھ کسی کے سامنے نہ پھیلائے تو خدا اس کی احتیاج کو دور کردے گا میں سوچتا ہوں کہ آپ(ص) کی نظر میری

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254