‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) جلد ۴

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) 0%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 254

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم)

مؤلف: ‏آیة الله ابراهیم امینی
زمرہ جات:

صفحے: 254
مشاہدے: 61810
ڈاؤنلوڈ: 2496


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 254 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 61810 / ڈاؤنلوڈ: 2496
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) جلد 4

مؤلف:
اردو

رات کے وقت سب مل کر مجھ پر حملہ کردیں اور مجھے بستر ہی پر ٹکڑے ٹکڑے کردیں_ خدا نے مجھے ان کے اس ارادے سے آگاہ کردیا ہے او رہجرت کر جانے کا حکم دیا ہے_ لیکن اگر میں رات کے وقت مكّہ چھوڑدوں ت۶و یہ میرے بستر کو خالی پا کر اس طرف متوجہ ہوجائیں گے اور میرا پیچھا کریں گے اور مجھے تلاش کر کے اپنا کام انجام دیں گے اب اس کے تدارک کی ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ کہ میری جگہ کوئی اور بستر پر آج کی رات سوجائے_ اس طرح مشرکین یہ گمان کریں گے کہ میں اپنے بستر پر موجود ہوں_ اے علی (ع) کیا تم تیار ہو کہ آج کی رات میرے بستر پر سوجاؤ اگر چہ یہ کام بہت خطرناک ہے کیونکہ چالیس مشرکین تلواریں سونتے ہوئے آدھی رات کے وقت گھر پر حملہ آور ہوں گے اور عین ممکن ہے کہ میری جگہ تمہیں ٹکڑے ٹکڑے کردیں؟''

حضرت محمد(ص) کا یہ بیان سن کر علی (ع) نے سوال کیا کیا اس صورت میں آپ(ص) محفوظ رہیں گے؟

ہاں میں محفوظ رہوں گا اور اگر اس طرح تم نے میری مدد کی تو خدا کے فضل سے میں کامیاب ہوجاؤں گا'' حضرت محمد(ص) نے جواب دیا_

حضرت علی (ع) نے فرمایا:

ہاں میں ضرور آپ کی مدد کروں گا:

حضرت علی (ع) کا یہ محکم اور قطعی جواب ایسا تھا کہ جس کی نظر تاریخ اسلام میں نہیں لائی جاسکتی_

ہاں یہ جذبہ ایثار و قربانی ہی تھا جو اس بات کی بنیاد بنا کہ

۲۰۱

حضرت علی ابن ابی طالب(ع) ، راہ خدا اور پیغمبر خدا کی حفاظت کے لئے اپنی جان کی بازی لگانے پر آمادہ ہوئے اور اس عہد و پیمان پر استقامت و پائیداری کا مظاہرہ کیا جو آپ(ع) نے پیغمبر خدا(ص) سے کر رکھا تھا_

ہاں، علی (ع) اپنی جان کو خطرے میں ڈال رہے تھے تا کہ پیغمبر(ص) خدا کی جان سلامت رہ سکے_ اور آپ(ص) اللہ کے دین کی تبلیغ کرتے رہیں_ لوگوں کو خداپرستی کی دعوت دیتے رہیں اور ظلم و ستم اور فسق و فجور کو جڑسمیت اکھاڑ پھینکیں_

یوں حضرت محمد(ص) نے اپنی عظیم الشّان ہجرت کا آغاز فرمایا_ ایک مناسب و موزوں وقت پر مکہ سے مدینہ کے لئے نکل کھڑے ہوئے_

اس رات کہ جس کا مشرکین کو شدت سے انتظار تھا مشرکین آہستہ آہستہ پیغمبر(ص) کے گھر کے نزدیک جمع ہوئے اور ابھی رات کا زیادہ حصّہ نہیں گزارا تھا کہ چالیس طاقتور اور جنگجو آدمیوں نے تلواریں نیام سے نکال کر پیغمبر(ص) کے گھر کا محاصرہ کرلیا_

دروازے کے سوراخ اور دیوار کے اوپر سے گھر کے اندر دیکھا رات کی دھیمی روشنی میں انھیں نظر آیا کہ محمد(ص) معمول کے مطابق سبز رنگ کی چادر اپنے اوپر ڈالے کبھی اس پہلو کبھی اس پہلو کروٹیں بدل رہے ہیں وہ مطمئن ہوگئے کہ آپ(ص) گھر میں موجود ہیں اور ان کا منصوبہ کامیابی سے ہمکنار ہونے والا ہے_

ان میں سے کچھ نے چاہا کہ آدھی رات کے وقت گھر پر حملہ

۲۰۲

کردیں اور محمد(ص) کو ٹکڑے ٹکڑے کردیں_ لیکن بعض نے کہا کہ گھر میں عورتیں اور بچے بھی سوئے ہوئے ہیں یہ انصاف نہیں کہ رات کی تاریکی میں انہیں پریشان کیا جائے پورا گھر ہمارے محاصرہ میں ہے_ محمد(ص) بھی بستر پر سوئے ہوئے اور ان کے لئے کوئی فرار کا راستہ بھی نہیں ہے تو کیوں جلد بازی دکھائیں_ __؟ بہتر ہے صبر کریں اور صح کے وقت حملہ کریں تا کہ سب دیکھ لیں کہ مختلف قبیلوں کے افراد اس قتل میں شریک ہیں_

انہوں نے صبح تک صبر کیا بعض وہیں پر سوگئے اور بعض پہرہ دیتے رہے کہ کوئی گھر سے باہر نہ نکلنے پائے_ سحر کے وقت تلواریں برہنہ کئے دروازے او ردیوار پھاند کر گھر میں داخل ہوئے اور پیغمبر (ص) خدا کے حجرے کے پاس آکر جمع ہوگئے_

حضرت علی علیہ السلام کی رعب دار آواز سن کر اور ان کے غضب ناک چہرے کو دیکھ کر وہ بے اختیار مبہوت اور حیران و پریشان ہوکر اپنی اپنی جگہ رک گئے_ اور پوچھا:

محمد(ص) کہاں ہیں؟

کیا انہیں میرے سپرد کیا تھا؟ حضرت علی (ع) نے غیظ و غضب کے عالم میں جواب دیا_

۲۰۳

مشرکین اپنے پروگرام کی ناکامی اور دن رات کی محنت کے ضائع ہوجانے پر سخت مایوس ہوئے اور فوراً ہی حضرت محمد(ص) کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے_

انہوں نے خیال کیا کہ یا تو محمد(ص) مكّہ میں چھپے ہوئے ہیں یا پھر مدینہ کی طرف چلے گئے ہیں دونوں صورتوں میں انھیں تلاش کیا جاسکتا ہے اور گرفتار کر کے قتل کیا جاسکتا ہے_

مختلف گروہوں کو مكّہ کی طرف روانہ کیا تا کہ مكّہ سے باہر نکلنے کے راستوں کو کنٹرول میں لے لیں_ ان لوگوں کو جو پیروں کے نشان پہنچاننے میں مہارت رکھتے تھے حکم دیا کہ محمد(ص) کے قدموں کے نشانات کے ذریعہ اس راستے کو دریافت کریں جہاں سے وہ گزر گئے ہیں_ اس کے علاوہ عام اعلان کردیا گیا کہ جو بھی محمد(ص) کو گرفتار کرے گا یا ان کی پناہ گاہ کے متعلق بتائے گا اسے ایک ۱۱۰ سو اونٹ انعام میں دئے جائیں گے_

لوگوں کی بڑی تعداد انعام کے لالچ میں حضرت محمد(ص) کو تلاش کرنے کے لئے نکل کھڑی ہوئی_ سب نے بہت تلاش کیا، تمام جگہوں کو دیکھا بالآخر حضرت محمد(ص) کے پیروںکے نشانات انہیں نظر آئی گئے_

پیغمبر(ص) کے پیروں کے نشانات کو جو مٹی، ریت اور پتھروں پر بن گئے تھے پہچان لیا گیا اور ان کی وساطت وہ غارتک پہنچ گئے اور آپس میں کہنے لگے_

یقینا محمد(ص) اس غار میں چھپے ہوئے ہیں_

جناب رسول(ص) خدا اور ابوبکر ان کی آوازوں کو غار میں سن رہے تھے

۲۰۴

او رانہیں دیکھ رہے تھے، لیکن مکڑی کے جالے نے جو غار کے مہ پر بنا ہوا تھا اور جس پر ایک کبوتر انڈوں پر بیٹھا ہوا تھا ان کو غار کے اندر جانے سے روک دیا انہوں نے کہا:

کیسے ممکن ہے کہ کوئی غار میں داخل ہو؟ اگر کوئی غار میں داخل ہوتا تو مکڑی کا جالا ٹوٹا ہوا ہوتا اور کبوتر کا گھونسلہ نیچے گرجاتا اور اس کے انڈے ٹوٹ چکے ہوتے_

لیکن انہیں یہ علم نہیں تھا کہ تمام زمین اور آسمان کے موجودات اللہ کی فوج ہیں، اس کا لشکر ہیں، اور چونکہ خداوند علیم و حکیم ہے_ وہ اس قسم کے لشکر کو بھیج کر اپنے بندوں کی مدد کرتا ہے_ خصوصاً ان بندوں کی جو اس کی راہ میں جہاد و ہجرت اور کوشش کرتے ہیں اور مشرکوں کے مکر و فریب سے خوف نہیں کھاتے اور اپنی تمام کوشش کو اللہ کی رضا جوئی میں اور اس کے احکام کے نفاذ کے لئے مشغول رہتے ہیں مکڑی و کبوتر او رخارک خاشاک تمام کے تمام خدا کی فوج ہیں، نظر آنے والی اور نظر نہ آنے والی_ اور پیغمبران فوجوں کی پناہ میں غار کی تہہ میں ابوبکر کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے اور بہت آرام سے باہر دیکھ رہے تھے اور ابوبکر کو تسلّی دے رہے تھے اور فرما رہے تھے_

ڈور نہیں، خدا ہمارے ساتھ ہے اور مشرکوں کے شر کو ہم سے دور کرے گا_

کفّار نے کافی دیر تک آپ(ص) کو تلاش کیا اور آخر کار مایوس ہوکر واپس لوٹ گئے_

۲۰۵

ہم نے پہلے سے اپنے بندوں اور رسولوں سے وعدہ کر رکھا ہے اور تاکید کی ہے کہ ہمارا لشکر ہی کامیاب ہوگا سلام ہو تمام پیغمبروں پر اور حمد و سپاس تمام جہانوں کے لئے'' (القرآن)

اور یوں خداوند عالم نے اپنے پیغمبر(ص) کی مدد فرمائی اور کافروں کے وقار کو ختم اور نیچا رکر دکھایا اور اپنے کلمے کو باوقار و بالاتر کردیا کیونکہ خدا ہمیشہ کامیاب اور حکیم ہے اور کافروں کا مکر اسی طرح ختم ہوجاتا ہے اگر چہ ان کا مکر و فریب اپنی قدرت کی زیادتی سے پہاڑوں کو ہی کیوں نہ گرادینے والا ہو_

ہم نے دیکھا کہ اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر(ص) کی کس طرح مددد کی اور یہ بھی دیکھا کہ خدا کے کیسے لشکر پوشیدہ ہیں_ پس کتنا اچھا ہے کہ ہم بھی اس کی مدد پر اعتماد کریں، اس پر توکل کریں اور اپنی جان و مال سے اس کی راہ میں ہجرت و جہاد کریں کہ یہ طریقہ زندگی کا بہترین اور نیک ترین طریقہ ہے سب سے بہتر ہجرت گناہ سے ہجرت کرنا ہے اور سب سے بڑا جہاد اپنی خواہشات اور شہوت سے جہاد کرنا ہے اور جو بھی خدا کی راہ میں جہاد کرے خدا اس کے لئے کامیابی کے ایسے راستے کھول دیتا ہے جس کا انہیں علم بھی نہیں ہوتا_

خدا کے خالص بندے جو خدا پر توکل کرتے ہیں اس سے صبر و ثابت قدمی طلب کریں تو جان لیں کہ کامیابی اسی ذات کی طرف سے ہوتی ہے اور تمام قدرت اسی کے ہاتھ میں ہے_ خداوند عالم اس قسم کے بندوں کے لئے اپنا لشکر روانہ کرتا ہے تا کہ اپنے وعدے کو پورا کرے اور یقینا خدا

۲۰۶

وعدہ خلافی نہیں کرتا_

کون جانتا تھا کہ خدا اپنے پیغمبر کی مکڑی کے باریک جالے اور ایک کبوتر سے مدد کرے گا؟ پیغمبر(ص) نے لطف خداوندی پر اعتماد کرتے ہوئے ہجرت کے لئے قدم اٹھایا اور کبھی نہ سوچا کہ لوگ مجھے تلاش کریں گے اور مجھے ڈھونڈ نکالیں گے تم پھر کیا ہوگا؟ وہ اللہ کی نصرت کے وعدے پر ایمان و اطمینان رکھتے تھے اور اسی کی مدد سے ہجرت کی طرف اپنا قدم بڑھایا خدا نے بھی آپ کی مدد کی اور یہ خدا کا پکا وعدہ ہے کہ اس کے دین کی مدد کرنے والے کی وہ خود مدد کرتا ہے_

آیت قرآن

''( ولله جنود السّموت و الارض و کان الله عزیزاً حکیماً ) ''

زمین و آسمان کا تمام لشکر اللہ کا ہے اور اللہ عزیز و حکیم ہے''

(سورہ فتح ۴۸ آیت ۷)

سوچئے اور جواب دیجیے

۱)___ پیغمبر(ص) خدا نے اپنی ہجرت کا ذکر کس کے سامنے کیا؟ اور کیا فرمایا؟ انہوں نے پیغمبر(ص) سے کیا پوچھا؟ اور آخر میں کیا جواب دیا؟

۲۰۷

۲) ___جب کفّار پرہنہ تلواروں کے ساتھ پیغمبر(ص) کے گھر پر جمع ہوئے تو کیا دیکھا؟ اور کیا سنا؟

۳)___ پیغمبر(ص) کو تلاش کرنے کے لئے کیا تدبیر کی؟ کتنا انعام مقرّر کیا گیا؟

۴)___ جس وقت پیغمبر(ص) خدا کے پیروں کے نشان تلاش کئے اور غار تک جا پہنچے تو کیا دیکھا؟

۵)___ پیغمبر(ص) اور ابوبکر کو غار سے باہر کیا نظر آیا ؟ پیغمبر(ص) ابوبکر سے کیا فرما رہے تھے؟

۶)___ خدا کا لشکر کیا چیزیں ہیں؟ اور خدا اپنے مہاجر اور مجاہد بندوں کی اس لشکر سے کس طرح مدد کرتا ہے؟

۷)___ سب سے بہترین ہجرت کون سی ہے اور سب سے بہترین جہاد کیا ہے؟

۸)___ خداوند عالم نے اپنے نہ نظر آنے والے لشکر سے جو کفّار کی آنکھوں میں معمولی معلوم ہوتا تھا اس ہجرت میں کس طرح مدد کی ؟

۲۰۸

پیغمبر خدا کی ہجرت (۲)

پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم مسلسل تین دن تک غار ثور میں مقیم رہے آپ(ص) کا دل خدا کی یاد سے مطمئن اور خدا پر توکل و اعتماد سے پر امید و روشن تھا آپ(ص) موقع کی تلاش میں تھے کہ حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اپنے سفر ہجرت کو دوبارہ شروع کریں او رمدینہ پہنچ جائیں_

اس ہجرت کے عظیم الشان اثرات اور تنائج کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھے اور اس ہجرت کا عظیم اور پر وقار مستقبل کسی ذہن میں نہ تھا_ کوئی سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ یہ ہجرت تاریخ میں تمام حق پسند اور حق کے متلاشی انسانوں کو اپنی تحریک کی بقا اور اس کے پھیلاؤ کے لئے ہجرت اختیار کرنے کا سبق دے گی_

اس وقت مكّہ کی تمام بدبخت طاقتیں چاہتی تھیں کہ راستے

۲۰۹

میں ہجرت کرنے والے کو تلاش کر کے ٹکڑے ٹکڑے کردیں لیکن مرضی الہی تھی کہ یہ راہیان عشق خیریت کے ساتھ اپنے اس سفر کو طے کریں اور مدینہ پہنچ کر پہلی مسجد کی بنیاد ڈالیں اور اس مسجد سے اٹھنے والی صدائیں بندگان خدا کو عبادت و تقوی اور خدا کی مدد کے لئے جہاد اور ہجرت کے لئے بلائیں اور ____ یقینا اللہ اپنے حکم کے نافذ کرنے او راپنے ارادے کو پورا کرنے پر قادر ہے_

کبھی کبھی آپ(ص) کے ہم سفر اور سا تھی، مشرکوں کی سنگدلی او ردشمنی، ان کی طاقت و قدرت اور آپ کی تلاش میں ان کی کوششوں اور بعض اوقات غار کے نزدیک ہی سے آنے والی ان مشرکوں کے قدموں کی آوازوں اور چیخ و پکار سے خوف و اضطراب کا شکار ہوجاتے تھے_ ایسے میں پیغمبر(ص) ان کی ہمت بندھاتے اور دل جوئی کرتے تھے اور فرماتے تھے_

خوف نہ کرو، غم نہ کھاؤ، خدا ہمارے ساتھ ہے''

غار ثور مكّہ کے جنوب میں واقع ہے جبکہ مدینہ کا راستہ مكّہ کے شمال میں ہے لہذا مشرکین زیادہ تر آپ کو شمال ہی کی جانب تلاش کر رہے تھے جنوب کی سمت ان کا دھیاں زیادہ نہ تھا_ اس بناپر آپ(ص) کے ازلی باوفا اور مددگار حضرت علی (ع) رات کی تاریکی میں جب مشرکین کی آنکھیں نیند میں ڈوب جاتیں، آپ(ص) کے لئے کھانا اور پانی لے جاتے مکڑی کے تانے ہوئے جالے کے پیچھے سے آپ(ص) کی خدمت میں کھانا پانی پیش کرتے اور آپ(ص) کو مكّہ حالات اور مشرکوں کے ارادوں سے آگاہ کرتے

۲۱۰

کبھی کبھی ابوبکر کے فرزند عبداللہ بھی غار میں کھانا اور پانی لے کر آتے تھے_

ایک رات پیغمبر(ص) نے حضرت علی (ع) سے فرمایا کہ لوگوں کی جو امانتیں میرے پاس موجود تھیں انھیں ان کے مالکوں تک پہنچا دو اور دو اونٹ ہمارے لئے لے آؤ کہ ہم مدینہ کی طرف روانہ ہوں اور تم میری بیٹی فاطمہ (ع) اور دوسری عورتوں کو ساتھ لے کر ہم سے آملنا_

آپ کی یہ بات سن کر ابوبکر نے کہا کہ میں نے اونٹ تیار کر رکھے ہیں پیغمبر(ص) نے ان اونٹوں کو منگوانا اس شرط کے ساتھ قبول کیا کہ ابوبکر ان کی ا جرت لے لیں_

ہم جانتے ہیں کہ لوگوں کو پیغمبر اکرم(ص) پر حد سے زیادہ اعتماد تھا_ انہوں نے اپنی بہت سی قیمتی چیزیں آپ(ص) کے پاس بطور امانت رکھی تھیں تا کہ وہ محفوظ رہیں_ اسی اعتماد کی بناپر آپ کو امین کا لقب دیا گیا تھا_

یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ ''امانت'' اور اس کی حفاظت اور مالکوں تک لوٹا دینا اسلام کے ان احکام و قوانین میں شامل ہے جن کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے_ یہاں تک کہ امانت میں خیانت کرنا گناہ کبیرہ میں شمار ہوتا ہے_ مومن ہرگز امانت میں خیانت نہیں کرتا اور بات کرنے میں جھوٹ نہیں بولتا اور جو وعدہ کرتا ہے اس کی خلاف ورزی نہیں کرتا_

چوتھی رات، جب مکمل اندھیرا چھاگیا تو نحیف و کمزور جسم کے تین اونٹ تھوڑے سے پانی اور غذا کے ساتھ غار کے دہانے کے قریب تیار کھڑے تھے، ان کے ساتھ راستہ جاننے والا ایک شخص بھی تھا_

خدا کا آخری اور عظیم پیغمبر(ص) اپنے پروردگار کے حکم سے ایک عظیم

۲۱۱

ہجرت کے لئے آمادہ و تیار ہے___اہل مكّہ کو بیدار کرنے کے لئے ۱۳/ سال تک شدید محنت و کوشش کرنے کے بعد اب اپنا شہر اور اپنا گھر چھوڑنے کے لئے تیار ہے___ اپنے آپ کو سفر کی صعوبتوں اور مشکلات میں ڈالنے کے لئے تیار ہے___ اس شہر کو کہ جو ظل و شرک اور بت پرستی کی غلاظتوں سے پر ہے ترک کرنے کو تیار ہے___ صحرا و پہاڑوں کی طرف راہ پیما ہونے کو تیار ہے_ لیکن خداوند عالم آپ(ص) سے واضح الفاظ میں وعدہ کرتا ہے_

وہی ذات جس نے تم پر قرآن نازل کیا اور اس کی پیروی تم پر فرض کردی تمہیں اس شہر میں واپس لائے گا''

اس جانے کا انجام لوٹ کرآنا ہے تم اس شہر میں لوٹ کر آؤ گے اور توحید کے گھر سے بتوں کو توڑ پھینکو گے_

پیغمبر اسلام(ص) نہایت آہستگی کے ساتھ غار کی تاریکی سے باہر آگئے اونٹوں پر سوار ہوئے اور مدینہ کی طرف اپنے سفر کا آغاز کردیا رات کو سفر کرتے اور ستاروں کی چمک سے راستہ معلوم کرتے اور دن میں پہاڑوں کے درّوں اور پتّھروں کے سائے میں پناہ لیتے اور آرام کیا کرتے اور رات کو پھر سفر پر چل پڑتے اور راہ خدا میں سراپا تسلیم ہوتے ہوئے ذوق و امید سے راستہ طے کرنے لگتے_

غیرمانوس راستے سے تیزی کے ساتھ گزرتے تھے_ یہ ایک طویل و خطرناک اور دشوار سفر تھا_ لیکن راستے کی دوری کو خدا سے امید

۲۱۲

نزدیک کردیتی تھی اور راہ کی سختی کو ''اللہ کے حسن و ثواب کے اعتماد'' نے آ سان کردیا تھا اور سفر کے خطروں کا بدل ''اللہ تعالی '' کا فتح و نصرت کا وعدہ تھا''

سفر کے دوران ایک روز جبکہ آپ ایک بڑے پتھر کے سایہ میں آرام فرما رہے تھے آپ(ص) نے دیکھا کہ کفار کا ایک سوار تیزی کے ساتھ آپ(ص) کی جانب آرہا ہے_ اگر یہ سوار نزدیک آجاتا اور آپ(ص) کا راستہ روک لیتا تو دوسرے کفار بھی پہنچ جاتے اور آپ(ص) کی ہجرت ناکام ہوجاتی لیکن پیغمبر(ص) خدا کو اپنے پروردگار کے لطف و کرم پر کامل یقین تھا_ آپ(ص) نے اپنے ہاتھ دعا کے لئے اٹھائے اور فرمایا_

اے خدا اے رحمن جو بندوں پر عنایت کرتا ہے اے رحیم جو مومنوں پر مہربانی کرتا ہے تیرے سوا کسی کی تعریف نہیں کرتے کیونکہ تو ہی حمد و ثنا کے لائق ہے اور حمد و ثنا تیرے لئے ہی مخصوص ہے تیرے سوا کسی کو اپنا رب نہیں جانتا کیونکہ تو ہی میرا پروردگار ہے صرف تو ہی میرا معبود ہے_ اے میرے مددگار میری مدد کر کہ میں نے تیری طرف ہجرت کی ہے اور ہمیں اس کافر دشمن کے شر سے محفوظ رکھ اور توہی ہر ایک کام پر قادر ہے_

فوراً ہی پیغمبر(ص) کی دعا قبول ہوئی اور سوار کے تیز رفتار گھوڑے نے اچانک اپنی لگام سوار کے ہاتھوں سے چھڑائی اور دونوں پچھلے پیروں

۲۱۳

کے بل کھڑا ہوگیا اور چكّر لگا کر جھٹکے کے ساتھ سوار کو زمین پر گرادیا اور ایک طرف کھڑا ہوگیا_ سوار اٹھا اور سخت تکلیف اور غصّہ کے عالم میں دوبارہ گھوڑے پر سوار ہوا_ چند قدم چلنے کے بعد گھوڑے نے پھر اسی طرح سے زمین پر گرادیا_

غرض دو تین مرتبہ ایسا ہی ہوا تو سوار سمجھ گیا کہ گھوڑے کی اس ناراض کی گیا وجہ ہے_ سوار نے اپنے ارادے کو بدلا و معذرت خواہی کے لئے خدمت پیغمبر(ص) میں حاضر ہوا اور معافی چاہی_

رسول خدا(ص) نے اس سے فرمایا کہ اب جب کہ تجھے حقیقت کا علم ہوگیا ہے جلدی سے واپس لوٹ جا اور ہمارے تعاقب میں جو بھی اس طرف آرہا ہے اسے واپس لوٹا دے_

کافر واپس چلاجاتا ہے اور پیغمبر(ص) خدا تیز رفتاری سے مدینہ کی جانب چل پڑتے ہیں یہاں تک کہ آپ(ص) مدینہ کے نزدیک پہنچ گئے_

مسلمانان مدینہ، انصار و مہاجر، عورت مرد، بچّے بوڑھے سب کے سب آپ(ص) کے شوق دیدار میں منتظر نگاہوں کے ساتھ بیرون مدینہ آپ(ص) کے استقبال کے لئے موجود تھے_

یکایک ان لوگوں نے دور سے رسول خدا(ص) کو آتے ہوئے دیکھا اور عالم شوق میں بے اختیار صدائے تکبیر بلند کرتے ہوئے اور صلوات و سلام بھیجتے ہوئے آپ(ص) کی سمت دوڑے _ رسول خدا(ص) مدینہ سے نزدیک ایک قبانامی دیہات میں قیام پذیر ہوئے تا کہ حضرت علی (ع) اور ان کے ہمراہی بھی پہنچ جائیں _

۲۱۴

ہجرت پیغمبر اکرم (ص) اتنا عظیم اور اہم واقعہ ہے کہ اسلامی تاریخ کی ابتداء سی سے ہوئی_ ہجرت کے ذریعہ ہمیں سبق دیا گیا کہ ہر زمانہ کے لوگ پیغمبر(ص) کی اس سیرت پر عمل کریں اور ہمیشہ اپنا رخ خدا کی جانب اور اپنے قدم ہجرت کی راہ میں اٹھانے کے لئے تیار ہیں_ اور مسلسل کہیں کہ

پروردگار ہم نے ایمان کی ندا دینے والے کی پکار کو سنا_ وہ کہہ رہا تھا کہ پروردگار پر ایمان لے آؤ پروردگار ہم ایمان لے آئے ہمارے گناہوں کو معاف کردے، ہماری خطاؤں کی پردہ پوشی کر اور ہمیں نیک اور صالح لوگوں کے ساتھ اس دنیا سے اٹھا_ خدایا: جو کچھ تو نے اپنے پیغمبروں سے وعدہ کیا ہے ہمیں عنایت فرما اور ہمیں قیامت کے دن ذلیل و خوار نہ کرنا کہ تو کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتا_

اس طرح اپنے پروردگار سے راز و نیاز کریں اور اس سے یوں جواب سنیں کہ:

خداوند عالم نے تمہاری دعا کو قبول کرلیا کہ میں ہرگز تمہارے (خواہ مردہوں یا عورت) کسی عمل کو ضائع اور بغیر اجر کے نہ چھوڑوں گا جن لوگوں نے ہجرت کی ہے اور اپنے گھر بار کو چھوڑ دیا ہے، خدا کی راہ میں تکالیف اور اذیتوں سے دوچار ہوئے ہیں اور

۲۱۵

اللہ تعالی کے راستے میںجنگ و جہاد کیا ہے یہاں تک کہ وہ قتل ہوجائیں، خدا ان کی خطاؤں اور گناہوں کو چھپائے گا اور انہیں بخش دے گا اور اس بہشت میں کہ جس کے گھنے درختوں کے نیچے نہریں جاری ہیں داخل کرے گا_ یہ اللہ کا ثواب و تحفہ ہے اور یقینا اچھا ثواب تو اللہ ہی کے پاس ہے_ خبردار کافروں کے چند دن تمہارے شہر میں آمد ور فت تمہیں دھوکے میں مبتلا نہ کردے یہ تھوڑے دن کچھ فائدہ دیکھیں گے پھر ان کا مقام و ٹھکانہ جہنم میں ہوگا جو بہت بری جگہ ہے لیکن وہ لوگ کہ جنہوں نے اللہ تعالی کی ذات سے تقوی اختیار کیا ان کے لئے وسیع و کشادہ بہشت ہے کہ جس کے درختوں او رباغوں کے نیچے پانی سے بھری نہریں جاری ہیں_ وہ اس پر امن اور خوبصورت جگہ میں زندگی بسر کیں گے یہ ہدیہ ہے ان کے لئے خداوند عالم کی طرف سے البتہ وہ جو اللہ کے نزدیک ہے ابرار لوگوں کے لئے وہ بہت ہی بہتر ہے_

ابرار و نیک لوگ اللہ تعالی کی عوت کو دل و جان سے سنتے ہیں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرتے ہیں زمین کی فضا کو بہت وسیع پاتے ہیں اور ابرار تو ہمیشہ ہجرت میں زندگی بسر کرتے ہیں_ ظلم و ستم او رجہاد

۲۱۶

کی زمین سے عدل و علم کی سرزمین کی طرف او ربدی سے نیکی کی طرف اور برائی سے اچھائیوں کی طرف ہمیشہ ہجرت کرتے ہیں_ حقیقت میں مہاجر وہ ہے جو برائیوں سے ہجرت کر کے اور انھیں ترک کرے_

آیت قرآن

( اذ هما فی الغار اذ یقول لصاحبه لا تحزن انّ الله معنا فانزل الله سکینته علیه و ايّده بجنود لّم تروها و جعل کلمة الّذین کفروا السّفلی و کلمة الله هی العلیا و الله)

جب وہ دو غار میں تھے اور وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھغ کہ رنج و ملال نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے_ اللہ نے اس پر اطمینان اور سکون قلب نازل فرمایا اور اس کی ایسے لشکروں سے مدد کی کہ تم انھیں دیکھ نہیں سکتے اور اللہ نے کافروں کا بوں نیچا کردیا اور اللہ کابوں تو اونچا ہی ہے اللہ زبردست اور دانا و بینا ہے''_

( سورہ توبہ آیت ۴۰)

۲۱۷

سوچئے اور جواب دیجئے

۱)___ پیغمبر خدا(ص) کتنے دن غارثور میں پوشیدہ رہے؟

۲)___ جب پیغمبر(ص) کے ساتھی کافروں کی آواز سن کر خوفزدہ ہوئے تو پیغمبر(ص) نے کن الفاظ میں انھیں تسلّی دی؟

۳)___ آپ(ص) کے غار میں پوشیدہ رہنے کے دوران کون لوگ آپ(ص) کے لئے غذا اور پانی لے کر آتے تھے؟

۴)___ امانت اور اسے اس کے مالکوں کو لوٹا نے کے سلسلہ میں اسلام کا کیا حکم ہے؟

۵)___ چند سوال خود سے بناؤ؟

۲۱۸

بابرکت پیسہ

خداوند عالم نے پیغمبر(ص) کو مبعوث کیا تا کہ لوگوں کو صحیح اور درست زندگی گزارنے کے اصول اور طریقے بتائیں اور انہیں فردی اور اجتماعی زندگی کے صحیح اصول اور طریقوں سے روشناس کرائیں پیغمبر(ص) کی سیرت اور سنّت، زندگی کے لئے بہترین سبق ہے اور آپ(ص) کی گفتگو انسانوں کے لئے بہترین راہنما ہے_

مندرجہ ذیل سطور میں ہم ایک واقعہ نقل کرتے ہیں_ جس میں آپ دیکھیں گے کہ رسول خدا(ص) کس طرح معاشرے میں زندگی گزارتے ہیں تھے آپ(ص) کیسا لباس زیب تن کرتے تھے اور کس طرح آپ حاجت مندوں کی مدد کو پہنچتے تھے:

جناب رسول خدا(ص) کا لباس پرانا اور بوسیدہ ہوچکا تھا آپ(ص)

۲۱۹

نے کچھ پیسے حضرت علی علیہ السلام کو دئے اور فرمایا کہ بازار جاؤ اور میرے لئے ایک قمیص لے آؤ

حضرت علی علیہ ا لسلام اس واقعہ کو یوں بیان کرتے ہیں کہ:

میں نے پیغمبر(ص) سے پیسے لئے اور بازار سے ان پیسوں کی جو بارہ درہم تھے ایک قمیص خریدی اور لاکر پیغمبر(ص) کی خدمت میں پیش کردی پیغمبر(ص) نے قمیص لی اور اسے تھوڑی دیر دیکھا پھر فرمایا: میری خواہش ہے کہ اس سے سستی قمیص پہنوں کیا بیچنے والا اس قمیص کو واپس لے لے گا؟

پتہ نہیں میں جاتا ہوں اور اس سے اس بارے میں بات کرتا ہوں''

میں نے جواب دیا اور پیغمبر(ص) سے قمیص لی اور بیچنے والے کے پاس گیا اور اس سے کہا:

میں نے یہ قمیص پیغمبر(ص) کے لئے خریدی تھی لیکن پیغمبر(ص) چاہتے ہیں کہ اس سے سستا لباس پہنیں کیا تم اس قمیص کو واپس لے سکتے ہو؟''

بیچنے والے نے وہ قمیص اور بارہ درہم واپس کردئے میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور رسول خدا(ص) کی خدمت میں حاضر ہوا، رسول خدا(ص) نے فرمایا:

۲۲۰