‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) جلد ۴

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) 23%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 254

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 254 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 73390 / ڈاؤنلوڈ: 3708
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) جلد ۴

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

آپ کی شان میں نازل ہونے والی آیات

آپ کی فضیلت اورعظیم الشان منزلت کے بارے میں جوآیات نازل ہوئی ہیں ہم ان میں سے ذیل میں بعض آیات پیش کرتے ہیں :

۱۔اللہ کا ارشاد ہے :''انماانت منذرولکل قوم هاد'' ۔(۱)

''آپ کہہ دیجئے کہ میں صرف ڈرانے والا ہوں اور ہر قوم کے لئے ایک ہادی اور رہبر ہے ''۔

طبری نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہو ئی تو نبی نے اپنا دست مبارک اپنے سینہ پر رکھ کر فرمایا:''اناالمنذرولکل قوم هاد '' ،اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے علی کے کندھے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:''انت الہاد بک یھتد المھتدون بعد''۔(۲)

''آپ ہا دی ہیں اور میرے بعد ہدایت پانے والے تجھ سے ہدایت پا ئیں گے ''۔

۲۔خداوند عالم کا فرمان ہے :''وتعیهااذن واعیة'' ۔(۳)

''تاکہ اسے تمہارے لئے نصیحت بنائیںاور محفوظ رکھنے والے کان سُن لیں''۔

امیر المو منین حضرت علی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ مجھ سے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام نے فرمایا:

''سألتُ رَبِّیْ اَن یَجْعَلَهَااذُنُکَ یاعلیُّ،فماسمعتُ مِنْ رسُولِ اللّٰهِ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شَیْئاًفنَسِیْتُهُ '' ۔(۴)

''میں نے پروردگار عالم سے دعا کی کہ وہ کان تمہارا ہے لہٰذا میں نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جو کچھ سنا ہے اسے کبھی نہیں بھولا''۔

____________________

۱۔سورئہ رعد، آیت ۷۔

۲۔تفسیر طبری ،جلد ۱۳،صفحہ ۷۲۔اور تفسیر رازی میں بھی تقریباً یہی مطلب درج ہے ۔کنز العمال ،جلد ۶،صفحہ ۱۵۷ ۔ تفسیر حقائق، صفحہ ۴۲۔مستدرک حاکم، جلد ۳، صفحہ ۱۲۹۔

۳۔سورئہ حاقہ، آیت ۱۲۔

۴۔کنزالعمال ،جلد ۶،صفحہ ۱۰۸۔اسباب النزول ِ واحدی، صفحہ ۳۲۹۔تفسیر طبری، جلد ۲۹،صفحہ ۳۵۔تفسیر کشاف، جلد ۴، صفحہ ۶۰۔در منثور ،جلد ۸،صفحہ ۲۶۷۔

۴۱

۳۔خداوند عالم کا فرمان ہے: ( الَّذِینَ یُنفِقُونَ َمْوَالَهُمْ بِاللَّیْلِ وَالنَّهَار ِسِرًّا وَعَلاَنِیَةً فَلَهُمْ َأجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلاَخَوْف عَلَیْهِمْ وَلاَهُمْ یَحْزَنُونَ ) ۔(۱)

''جو لوگ اپنے اموال کو راہ خدا میں رات میں ،دن میں خا مو شی سے اور علی الاعلان خرچ کرتے ہیں اُن کے لئے پیش پروردگار اجر بھی ہے اور انھیں نہ کو ئی خوف ہو گا اور نہ حزن و ملال ''۔

امام کے پاس چار درہم تھے جن میں سے آپ نے ایک درہم رات میں خرچ کیا ،ایک درہم دن میں ،ایک درہم مخفی طور پر اور ایک درہم علی الاعلان خرچ کیا ۔تو رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپ سے فرمایا : آپ نے ایساکیوں کیا ہے ؟مولائے کا ئنات نے جواب دیا:میں وعدہ ٔ پروردگار کامستحق بنناچاہتا ہوں اسی لئے میں نے ایسا کیا ''اس وقت یہ آیت نازل ہو ئی۔(۲)

۴۔خدا وند عالم کا ارشاد ہے: ( إنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُوْلَئِکَ هُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ ) ۔(۳)

''اور بیشک جو لوگ ایمان لائے ہیںاور انھوں نے نیک اعمال کئے ہیںوہ بہترین خلائق ہیں ''۔

ابن عساکر نے جابر بن عبد اللہ سے روایت کی ہے : ہم نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ علی وہاں پر تشریف لائے تو رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:''وِالَّذِیْ نَفْسِيْ بِیَدِهِ اِنَّ هٰذَا وَشِیْعَتَهُ هُمُ الْفَائِزُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ '' ۔''خدا کی قسم جس کے قبضہ ٔ قدرت میں میری جان ہے بیشک یہ اور ان کے شیعہ قیامت کے دن کامیاب ہیں ''۔

اسی موقع پر یہ آیۂ کریمہ نازل ہو ئی ،اس کے بعد سے جب بھی مو لائے کا ئنات اصحاب کے پاس آتے تھے تو نبی کے یہ اصحاب کہا کرتے تھے :خیر البریہ آئے ہیں۔(۴)

۵۔خداوند عالم کا فرمان ہے :( فَاسْأَلُوا َهْلَ الذِّکْرِ ِإنْ کُنْتُمْ لاَتَعْلَمُونَ ) ۔(۵)

____________________

۱۔سورئہ بقرہ ،آیت ۲۷۴۔

۲۔اسد الغابہ، جلد ۴،صفحہ ۲۵،صواعق المحرقہ، صفحہ ۷۸۔اسباب النزول مؤلف واحدی، صفحہ ۶۴۔

۳۔سورئہ بینہ، آیت ۷۔

۴۔در المنثور ''اسی آیت کی تفسیر میں ''جلد ۸ ،صفحہ ۳۸۹۔تفسیر طبری، جلد ۳۰،صفحہ ۱۷۔صواعق المحرقہ ،صفحہ ۹۶۔

۵۔سورئہ نحل، آیت ۴۳۔

۴۲

''اگر تم نہیں جانتے ہو تو جاننے والوں سے دریافت کرو''۔

طبری نے جابر جعفی سے نقل کیا ہے :جب یہ آیت نازل ہو ئی تو حضرت علی نے فرمایا :''ہم اہل ذکر ہیں ''۔(۱)

۶۔خداوند عالم کا فرمان ہے: ( یَاَیُّهَاالرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ ِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ وَإنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَابَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاﷲُ یَعْصِمُکَ مِنْ النَّاسِ ِإنَّ اﷲَ لاَیَهْدِ الْقَوْمَ الْکَافِرِین ) ۔(۲)

''اے پیغمبر! آپ اس حکم کو پہنچا دیں جوآپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گو یا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا بیشک اللہ کافروں کی ہدایت نہیں کرتا ہے ''۔

جب رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حجة الوداع سے واپس تشریف لا رہے تھے تو غدیر خم کے میدان میں یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اپنے بعد حضرت علی کواپنا جانشین معین کرنے کا حکم دیا گیا اس وقت رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو اپنے بعد اس امت کا خلیفہ و جا نشین معین فرمایااور آپ نے اپنا مشہور قول ارشاد فرمایا :''من کنت مولاه فعلی مولاه ،اللّهم وال من والاه،وعادِمَن عاداه، وانصرمَن نصره،واخذُلْ مَنْ خَذَلَهُ'

'' جس کا میں مو لا ہوں اس کے یہ علی بھی مو لا ہیںخدا یا جو اسے دو ست رکھے تو اسے دوست رکھ اورجو اس سے دشمنی کرے اسے دشمن رکھ اور جو اس کی مدد کرے اس کی مدد کر جو اسے چھوڑ دے اسے ذلیل و رسوا کر '' ۔

عمر نے کھڑے ہو کر کہا :مبارک ہو اے علی بن ابی طالب آپ آج میرے اورہر مومن اور مومنہ کے مولا ہوگئے ہیں ' '۔(۳)

۷۔خداوند عالم کا ارشاد ہے: ( الْیَوْمَ أکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِ وَ رَضِیتُ لَکُمْ الْإِسْلاَمَ دِینًا ) ۔(۴)

____________________

۱۔تفسیر طبری ،جلد ۸ ،صفحہ ۱۴۵۔ ۲۔سورئہ مائدہ ،آیت ۶۷۔

۳۔ا سباب النزول، صفحہ ۱۵۰۔تاریخ بغداد، جلد ۸،صفحہ ۲۹۰۔تفسیر رازی، جلد ۴،صفحہ ۴۰۱۔در منثور، جلد ۶،صفحہ ۱۱۷۔

۴۔سورئہ مائدہ ،آیت ۳

۴۳

''آج میں نے تمہارے لئے دین کو کا مل کردیاہے اوراپنی نعمتوںکو تمام کردیاہے اورتمہارے لئے دین اسلام کو پسندیدہ بنا دیا ہے''۔

یہ آیت ۱۸ ذی الحجہ ۱۰ ھ کواس وقت نازل ہو ئی جب رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے بعد کیلئے حضرت علی کو خلیفہ معین فرمایااور آنحضرت نے اس آیت کے نازل ہونے کے بعد فرمایا :''اللّٰه اکبر علیٰ اِکمالِ الدِّین،وَاِتْمَامِ النِّعْمَةِ،ورضِیَ الرَّبِّ بِرِسَالَتِ وَالْوِلایَةِ لِعَلِى ْبنِ اَبِیْ طَالِب'' ۔(۱)

''اللہ سب سے بڑا ہے دین کا مل ہو گیا ،نعمتیں تمام ہو گئیں ،اور پروردگار میری رسالت اور علی بن ابی طالب کی ولایت سے راضی ہو گیا ''۔

جلیل القدر صحابی جناب ابوذر سے روایت ہے :میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے ساتھ مسجد میں نمازظہر پڑھ رہا تھا تو ایک سائل نے مسجد میں آکر سوال کیا لیکن کسی نے اس کو کچھ نہیں دیا تو سائل نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہا :خدا یا گواہ رہنا کہ میں نے مسجد رسول میں آکر سوال کیا لیکن مجھے کسی نے کچھ نہیں دیا ، حضرت علی نے رکوع کی حالت میں اپنے داہنے ہاتھ کی انگلی سے انگوٹھی اتارنے کا اشارہ کیاسائل نے آگے بڑھ کر نبی کے سامنے ہاتھ سے انگوٹھی نکال لی ،اس وقت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام نے فرمایا :خدایا !میرے بھا ئی مو سیٰ نے تجھ سے یوں سوال کیا :( رَبِّ اشْرَحْ لِى صَدْرِ وَیَسِّرْلى أ َمْرِى وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسَانِی یَفْقَهُوا قَوْلِى وَاجْعَلْ لِى وَزِیرًامِنْ أَهْلِ هَارُونَ َأخى اشْدُدْ بِهِ َزْرِى وَأَشْرِکْهُ فِى َمْرِی ) ۔(۲)

''خدایا ! میرے سینہ کو کشادہ کردے ،میرے کام کو آسان کردے ، اور میری زبان کی گرہ کو کھول دے تاکہ یہ لوگ میری بات سمجھ سکیں ،اورمیرے اہل میںسے میرا وزیر قرار دے ،ہارون کو جو میرا بھا ئی بھی ہے اس سے میری پشت کو مضبوط کردے اسے میرے کام میں شریک کردے ''تونے قرآن ناطق میں نازل کیا: ( سَنَشُدُّ عَضُدَکَ بِأَخِیکَ وَنَجْعَلُ لَکُمَا سُلْطَانًا ) ۔(۳)

'' ہم تمہارے بازئووں کو تمہارے بھا ئی سے مضبوط کر دیں گے ،اور تمہارے لئے ایسا غلبہ قراردیں

____________________

۱۔دلائل الصدق ،جلد ۲،صفحہ ۱۵۲۔

۲۔سورئہ طہ، آیت ۲۵۔۳۲۔

۳۔سورئہ قصص، آیت ۳۵۔

۴۴

گے کہ یہ لوگ تم تک پہنچ ہی نہ سکیں گے ''۔

''خدایا میں تیرا نبی محمد اور تیرا منتخب کردہ ہوں میرے سینہ کو کشادہ کردے ،میرے کام کو آسان کردے ،میرے اہل میںسے علی کو میرا وزیر قرار دے اور ان کے ذریعہ میری پشت کو مضبوط کردے ' ' ۔

جناب ابوذر کا کہنا ہے :خدا کی قسم یہ کلمات ابھی ختم نہیں ہونے پائے تھے کہ جبرئیل خدا کا یہ پیغام لیکر نازل ہوئے ،اے رسول پڑھئے: ( اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهُ ) (۱)

اس روایت نے عام ولایت کو اللہ ،رسول اسلام اور امیر المو منین میں محصور کر دیا ہے ،آیت میں صیغہ ٔ جمع تعظیم و تکریم کے لئے آیا ہے ،جو جملۂ اسمیہ کی طرف مضاف ہوا ہے اور اس کولفظ اِنَّما کے ذریعہ محصور کردیا ہے ،حالانکہ ان کے لئے عمومی ولایت کی تا کید کی گئی ہے اور حسان بن ثابت نے اس آیت کے امام کی شان میں نازل ہونے کو یوں نظم کیا ہے :

مَن ذَابِخَاتِمِهِ تَصَدَّقَ رَاکِعاً

وَأَسَرَّهَافِىْ نَفْسِهِ اِسْرارا(۲)

''علی اس ذات کا نام ہے جس نے حالت رکوع میں زکات دی اور یہ صدقہ آپ نے نہایت مخفیانہ انداز میں دیا''۔

اہل بیت کے سلسلہ میں نازل ہونے والی آیات

قرآن کریم میں اہل بیت کی شان میں متعدد آیات نازل ہو ئی ہیں جن میں ان کے سید و آقا امیر المو منین بھی شامل ہیں اُن میں سے بعض آیات یہ ہیں :

۱۔خداوند عالم کا ارشاد ہے: ( ذَلِکَ الَّذِی یُبَشِّرُاﷲُ عِبَادَهُ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ قُلْ لاَأَسْأَلُکُمْ عَلَیْهِ أَجْرًاِلاَّالْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَی وَمَنْ یَقْتَرِفْ حَسَنَةً نَزِدْ لَهُ فِیهَاحُسْنًاِإنَّ اﷲَ غَفُورشَکُور ) ۔(۳)

____________________

۱۔تفسیر رازی ،جلد ۱۲،صفحہ ۲۶،نورالابصار ،صفحہ ۱۷۰۔تفسیر طبری، جلد ۶،صفحہ ۱۸۶۔

۲۔در منثور، جلد ۳،صفحہ ۱۰۶۔کشاف، جلد ۱،صفحہ ۶۹۲۔ذخائر العقبیٰ ،صفحہ ۱۰۲۔مجمع الزوائد ،جلد ۷،صفحہ ۱۷۔کنز العمال، جلد ۷صفحہ ۳۰۵۔

۳۔سورئہ شوریٰ آیت ۲۳۔

۴۵

''یہی وہ فضل عظیم ہے جس کی بشارت پروردگار اپنے بندوں کو دیتا ہے جنھوں نے ایمان اختیار کیا ہے اور نیک اعمال کئے ہیں ،تو آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کا کو ئی اجر نہیں چا ہتا علاوہ اس کے کہ میرے اقرباء سے محبت کرو اور جو شخص بھی کو ئی نیکی حاصل کرے گا ہم اس کی نیکی میں اضافہ کر دیں گے کہ بیشک اللہ بہت زیادہ بخشنے والا اور قدر داں ہے ''۔

تمام مفسرین اور راویوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اللہ نے اپنے بندوں پر جن اہل بیت کی محبت واجب کی ہے ان سے مراد علی ،فاطمہ ،حسن اور حسین علیہم السلام ہیں ،اور آیت میں اقتراف الحسنہ سے مراد اِن ہی کی محبت اور ولایت ہے اور اس سلسلہ میں یہاں پردوسری روایات بھی بیان کریں گے جنھوں نے اس محبت و مؤدت کی وجہ بیان کی ہے :

ابن عباس سے مروی ہے :جب یہ آیت نازل ہو ئی تو سوال کیا گیا :یارسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ آپ کے وہ قرابتدارکو ن ہیں جن کی آپ نے محبت ہم پر واجب قرار دی ہے؟

آنحضرت نے فرمایا :''علی ،فاطمہ اور ان کے دونوں بیٹے ''۔(۱)

جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے :ایک اعرابی نے نبی کی خدمت میں آکر عرض کیا :مجھے مسلمان بنا دیجئے تو آپ نے فرمایا :'' تَشْهَدُ اَنْ لَااِلٰهَ اِلَّااللّٰهُ وَحْدَهُ لَاشَرِیْکَ لَهُ،وَاَنَّ مُحَمَّداًعَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ'' ''تم خدا کی وحدانیت اور محمد کی رسالت کی گو اہی دو میں قرابتداروں کی محبت کے علاوہ اور کچھ نہیں چا ہتا ''۔

اعرابی نے عرض کیا :مجھ سے اس کی اجرت طلب کر لیجئے ؟رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :''ِلا َّالْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَی'' ۔

اعرابی نے کہا :میرے قرابتدار یا آپ کے قرابتدار ؟فرمایا :'' میرے قرابتدار ''۔اعرابی نے کہا :

میں آپ کے دست مبارک پر بیعت کرتا ہوں پس جو آپ اور آپ کے قرابتداروں سے محبت نہ کرے اس

____________________

۱۔مجمع الزوائد، جلد ۷، صفحہ ۱۰۳۔ذخائر العقبیٰ، صفحہ ۲۵۔نور الابصار ،صفحہ ۱۰۱۔در المنثور، جلد ۷،صفحہ ۳۴۸۔

۴۶

پر اللہ کی لعنت ہے ۔۔۔نبی نے فوراً فرمایا :''آمین ''۔(۱)

۲۔خداوند عالم کا فرمان ہے :(فَمَنْ حَاجَّکَ فِیهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَائَکَ مِنْ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْانَدْعُ أَبْنَائَنَاوَأَبْنَائَکُمْ وَنِسَائَنَاوَنِسَائَکُمْ وَأَنْفُسَنَاوَأَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَةَ اﷲِ عَلَی الْکَاذِبِینَ(۲)

''پیغمبر علم آجانے کے بعد جو لوگ تم سے کٹ حجتی کریں ان سے کہہ دیجئے کہ آئو ہم لوگ اپنے اپنے فرزند،اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر خدا کی بارگاہ میں دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں ''۔

مفسرین قرآن اور راویان حدیث کا اس بات پر اجماع ہے کہ یہ آیہ ٔ کریمہ اہل بیت ِ نبی کی شان میں نازل ہو ئی ہے ،آیت میں ابنائ(بیٹوں) سے مراد امام حسن اور امام حسین ہیںجوسبط رحمت اور

امام ہدایت ہیں ،نساء ''عورتوں '' سے مراد فاطمہ زہرا دختر رسول سیدئہ نساء العالمین ہیں اور انفسنا سے مراد سید عترت امام امیر المو منین ہیں ۔(۳)

۳۔خداوند عالم کا ارشاد ہے: ( هَلْ اَتیٰ عَلَی الاِنْسَانِ ) کامل سورہ ۔

مفسرین اور راویوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ سورہ اہل بیت ِنبوت کی شان میں نازل ہوا ہے۔(۴)

۴۔خداوند عالم کا فرمان ہے: ( إنَّمَایُرِیدُ اﷲُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیرًا ) ۔(۵)

____________________

۱۔حلیة الاولیائ، جلد ۳،صفحہ ۱۰۲۔

۲۔سورئہ آل عمران، آیت ۶۱۔

۳۔تفسیر رازی، جلد ۲،صفحہ ۶۹۹۔تفسیر بیضاوی ،صفحہ ۷۶۔تفسیر کشّاف، جلد ۱،صفحہ۴۹۔تفسیر روح البیان، جلد ۱،صفحہ ۴۵۷۔تفسیر جلالین، جلد ۱،صفحہ ۳۵۔صحیح مسلم، جلد ۲،صفحہ ۴۷۔صحیح ترمذی ،جلد ۲،صفحہ ۱۶۶۔سنن بہیقی ،جلد ۷،صفحہ ۶۳۔مسند احمد بن حنبل، جلد ۱،صفحہ ۱۸۵۔مصابیح السنّة، بغوی، جلد ۲،صفحہ ۲۰۱۔سیر اعلام النبلائ، جلد ۳،صفحہ ۱۹۳۔

۴۔تفسیر رازی، جلد ۱۰، صفحہ ۳۴۳۔اسباب النزول ، واحدی صفحہ۱۳۳۔ روح البیان ،جلد ۶،صفحہ ۵۴۶۔ینابیع المؤدة ،جلد ۱،صفحہ ۹۳۔ریاض النضرہ ،جلد ۲،صفحہ ۲۲۷۔امتاع الاسماع ،صفحہ ۵۰۲۔

۵۔سورئہ احزاب، آیت ۳۳۔

۴۷

''بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہل بیت کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے ''۔

مفسرین اور راویوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ یہ آیت پانچوں اصحاب کساء کی شان میں نازل ہو ئی ہے(۱) ان میں سرکار دو عالم رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،ان کے جا نشین امام امیر المو منین ،جگر گوشۂ رسول سیدئہ نسا ء العالمین جن کے راضی ہونے سے خدا راضی ہوتا ہے اور جن کے غضب کرنے سے خدا غضب کرتا ہے ، ان کے دونوں پھول حسن و حسین جوانان جنت کے سردار ہیں ،اور اس فضیلت میں نہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خاندان میں سے اور نہ ہی بڑے بڑے اصحاب کے خاندان میں سے ان کا کو ئی شریک ہے۔ اس بات کی صحاح کی کچھ روایات بھی تا ئید کر تی ہیںجن میں سے کچھ روایات مندرجہ ذیل ہیں :

۱۔ام المو منین ام سلمہ کہتی ہیں :یہ آیت میرے گھر میں نازل ہو ئی جبکہ اس میں فاطمہ ،حسن، حسین اور علی علیہم السلام مو جود تھے ،آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اُن پر کساء یما نی اڑھاکر فرمایا :اللَّھُمَّ اَھْلُ بَیْتِیْ فَاذْھِبْ عنْھمْ الرِّجْسَ وَطَھِّرْھُمْ تَطْہِیرًا''''خدایا !یہ میرے اہل بیت ہیں ان سے رجس کو دور رکھ اور ان کو اس طرح پاک رکھ جو پاکیزہ رکھنے کا حق ہے ''آپ نے اس جملہ کی اپنی زبان مبارک سے کئی مرتبہ تکرار فر ما ئی ام سلمہ سنتی اور دیکھتی رہیں،ام سلمہ نے عرض کیا :یارسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کیا میں بھی آپ کے ساتھ چادر میں آسکتی ہوں ؟اور آپ نے چادر میں داخل ہونے کیلئے چا در اٹھائی تو رسول نے چادر کھینچ لی اور فر مایا : ''اِنَّکِ عَلیٰ خَیْر''''تم خیر پر ہو ''۔(۲)

۲۔ابن عباس سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو سات مہینے تک ہر نماز کے وقت پانچ مرتبہ حضرت علی بن ابی طالب کے دروازے پر آکر یہ فرماتے سناہے :''السَّلامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَةُ اللّٰهِ وَ

____________________

۱۔تفسیررازی، جلد ۶، صفحہ ۷۸۳۔صحیح مسلم، جلد ۲،صفحہ ۳۳۱۔الخصائص الکبریٰ ،جلد ۲،صفحہ ۲۶۴۔ریاض النضرہ ،جلد ۲،صفحہ ۱۸۸۔تفسیر ابن جریر، جلد ۲۲،صفحہ ۵۔مسند احمد بن حنبل، جلد ۴،صفحہ ۱۰۷۔سنن بیہقی ،جلد ۲،صفحہ ۱۵۰۔مشکل الآثار ،جلد ۱،صفحہ ۳۳۴۔خصائص النسائی صفحہ ۳۳۔

یہ بات شایان ذکر ہے کہ ابن جریر نے اپنی تفسیر میں۱۵،روایات میں مختلف اسناد کے ساتھ نقل کیا ہے کہ یہ آیت اہل بیت علیہم السلام کی شان میں نازل ہو ئی ہے ۔

۲۔مستدرک حاکم، جلد ۲،صفحہ ۴۱۶۔اسدالغابہ، جلد ۵،صفحہ ۵۲۱۔

۴۸

بَرَکَاتُهُ اَهْلَ الْبَیْتِ: ( إنَّمَایُرِیدُ اﷲُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیرًا ) ، الصَّلَاةُ یَرْحَمُکُمُ اللّٰهُ''

'' اے اہل بیت تم پر سلام اور اللہ کی رحمت وبرکت ہو !''بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہل بیت کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے''،نماز کا وقت ہے اللہ تم پر رحم کرے''آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہر روز پانچ مرتبہ یہی فرماتے۔(۱)

۳۔ابو برزہ سے روایت ہے :میں نے سات مہینے تک رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ نماز ادا کی ہے جب بھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بیت الشرف سے باہر تشریف لاتے تو حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہاکے دروازے پر جاتے اور فرماتے :''السَّلامُ عَلَیْکُمْ : ( إنَّمَایُرِیدُ اﷲُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمْ الرِّجسَ أَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیرًا ) ۔(۲)

''تم پر سلام ہو:''بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہل بیت کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے ''

بیشک رسول اللہ کے اس فرمان کا مطلب امت کی ہدایت اور اُن اہل بیت کے اتباع کوواجب قرار دینا ہے جو امت کو ان کی دنیوی اور اُخروی زندگی میں اُ ن کے راستہ میں نفع پہنچانے کیلئے ان کی ہدایت کرتے ہیں۔

امام اور نیک اصحاب کے بارے میں نازل ہو نے والی آیات

قرآن کریم کی کچھ آیات امام اور اسلام کے کچھ بزرگ افراد اور نیک و صالح اصحاب کے سلسلہ میں نازل ہو ئی ہیں ،جن میں سے بعض آیات یہ ہیں :

۱۔خداوند عالم کا ارشاد ہے: ( وَعَلَی الْأَعْرَافِ رِجَال یَعْرِفُونَ کُلًّابِسِیمَاهُم ) ۔(۳)

''اور اعراف پر کچھ لوگ ہوں گے جو سب کو ان کی نشانیوں سے پہچان لیں گے ''۔

____________________

۱۔در منثور ،جلد ۵،صفحہ ۱۱۹۔

۲۔ذخائر عقبیٰ ،صفحہ ۲۴۔

۳۔سورئہ اعراف، آیت ۴۶۔

۴۹

ابن عباس سے روایت ہے :اعراف صراط کی وہ بلند جگہ ہے جس پر عباس ،حمزہ ،علی بن ابی طالب اور جعفر طیار ذو الجناحین کھڑے ہوں گے جو اپنے محبوں کو ان کے چہروں کی نورانیت اور اپنے دشمنوں کو اُن کے چہروں کی تاریکی کی بنا پر پہچان لیں گے ۔(۱)

۲۔خداوند عالم کا فرمان ہے: ( مِنْ الْمُؤْمِنِینَ رِجَال صَدَقُوامَا عَاهَدُوا اﷲَ عَلَیْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَی نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ یَنْتَظِرُوَمَابَدَّلُوا تَبْدِیلًا ) ۔(۲)

''مو منین میں ایسے بھی مرد میدان ہیں جنھوں نے اللہ سے کئے وعدہ کو سچ کر دکھایا ہے ان میں بعض اپنا وقت پورا کر چکے ہیں اور بعض اپنے وقت کا انتظار کر رہے ہیں اور اُن لوگوں نے اپنی بات میں کو ئی تبدیلی نہیں پیدا کی ہے ''۔

اس آیت کے متعلق امیر المو منین سے اس وقت سوال کیا گیا جب آپ منبر پر تشریف فر ما تھے تو آپ نے فرمایا:''خدایا ! بخش دے یہ آیت میرے ، میرے چچا حمزہ اور میرے چچا زاد بھا ئی عبیدہ بن حارث کے بارے میں نازل ہو ئی ہے ،عبیدہ جنگ بدر کے دن شہید ہوئے ،حمزہ احد کے معرکہ میں شہید کر دئے گئے لیکن میں اس شقی کے انتظار میں ہوں جو میری اس ''ڈاڑھی اور سر مبارک کوخون سے رنگین کر دے گا ''۔(۳)

آپ کے حق اور مخالفین کی مذمت میں نازل ہونے والی آیات

قرآن کریم کی کچھ آیات آپ کے حق اور اُن مخالفین کی مذمت میں نازل ہو ئی ہیں جنھوں نے آپ کے سلسلہ میں مروی روایات اور فضائل سے چشم پوشی کی ہے :

۱۔خداوند عالم کا فرمان ہے: ( أجَعَلْتُمْ سِقَایَةَ الْحَاجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کَمَنْ آمَنَ بِاﷲِ وَالْیَوْمِ الْآخِر ) ۔(۴)

''کیا تم نے حاجیوں کے پانی پلانے اور مسجد الحرام کی آبا دی کو اس جیسا سمجھ لیا ہے جو اللہ اورآخرت

____________________

۱۔صواعق محرقہ، صفحہ ۱۰۱۔

۲۔سورئہ احزاب ،آیت ۲۳۔

۳۔صواعق محرقہ ،صفحہ ۸۰۔نورالابصار، صفحہ ۸۰۔

۴۔سورئہ برائت ،آیت ۱۹۔

۵۰

پر ایمان رکھتا ہے اور راہ خدا میں جہاد کرتا ہے ہر گز یہ دونوں اللہ کے نزدیک برابر نہیں ہو سکتے اور اللہ ظالم قوم کی ہدایت نہیں کر تا ہے ''۔

یہ آیت امیر المو منین کی شان میں اس وقت نازل ہو ئی جب عباس اور طلحہ بن شیبہ بڑے فخر کے ساتھ یہ بیان کر رہے تھے ۔طلحہ نے کہا :میں بیت اللہ الحرام کا مالک ہوں ،میرے ہی پاس اس کی کنجی ہے اور میرے ہی پاس اس کے کپڑے ہیں ۔عباس نے کہا :میںاس کا سقّہ اور اس کے امور کے سلسلہ میں قیام کرنے والا ہوں ۔امام نے فرمایا :''ماادری ماتقولون ؟لقدْ صلّیتُ الیٰ القِبْلَةِ سِتَّةَ اَشْھُرقَبْلَ النَّاسِ،واَنا صاحب الجہاد ''۔''مجھے نہیں معلوم تم کیا کہہ رہے ہو ؟میں نے لوگوں سے چھ مہینے پہلے قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھی ہے اور میں صاحب جہاد ہو ں ''اس وقت یہ آیت نازل ہو ئی ۔(۱)

۲۔خدا وند عالم کا فرمان ہے: ( أفَمَنْ کَانَ مُؤْمِنًاکَمَنْ کَانَ فَاسِقًالَایَسْتَوُون ) ۔(۲)

''کیا وہ شخص جو صاحب ایمان ہے اس کے مثل ہو جائے گاجو فاسق ہے ہر گز نہیں دونوں برابر نہیں ہو سکتے ''۔

یہ آیت امیر المو منین اور ولید بن عقبہ بن ابی معیط کے بارے میں نازل ہو ئی ہے جب وہ اس نے امام پر فخر و مباہات کرتے ہوئے کہا :میں آپ سے زیادہ خوش بیان ہوں ،بہترین جنگجو ہوں،اور آپ سے بہتر دشمنوں کو پسپا کر نے والا ہوں ''اس وقت امام نے اس سے فرمایا :'' اسکُتْ، فَاِنَّکَ فَاسِق '' ''خاموش رہ بیشک تو فاسق ہے ''،اس وقت دونوں کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ۔(۳)

____________________

۱۔تفسیر طبری ،جلد ۱۰،صفحہ ۶۸،تفسیر رازی، جلد ۱۶،صفحہ ۱۱۔در منثور،جلد ۴،صفحہ ۱۴۶۔اسباب النزول، مؤلف واحدی ،صفحہ ۱۸۲۔

۲۔سورئہ سجدہ، آیت ۱۸۔

۳۔تفسیر طبری ،جلد ۲۱، صفحہ ۶۸۔اسباب نزول واحدی ،صفحہ ۲۶۳۔تاریخ بغداد، جلد ۱۳،صفحہ ۳۲۱۔ریاض النضرہ ،جلد ۲، صفحہ ۲۰۶۔

۵۱

امام روایات کی رو شنی میں

صحاح اور سنن جیسے مصادر امام کے متعلق نبی سے مروی روایات سے پُر ہیں جو اسلامی عدالت کے قائد و رہبر امام کے فضائل کا قصیدہ پڑھتی ہیں اور اسلامی معاشرہ میں ان کے مقام کو بلند کرتی ہیں ۔

احادیث کی کثرت اور راویوں کے درمیان اُ ن کی شہرت میں غور کرنے والا پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس بلند مقصد سے آگاہ ہو سکتا ہے جو امام کی مر کزیت اور ان کے خلیفہ ہونے کی نشاندہی کرتا ہے تاکہ اس کے ذریعہ نبوت ہمیشہ کے لئے باقی رہے اور وہ امت کی مشکلات حل کر سکے ،اُ ن کے امور کی اصلاح کر سکے اور اُن کو ایسے راستہ پر چلائے جس میں کسی طرح کی گمرا ہی کا امکان نہ ہو نیز امت مسلمہ پوری دنیا کے لئے نمونہ ٔ عمل بن سکے ۔

بہر حال جب ہم امام کی فضیلت کے سلسلہ میں روایات پر نظر ڈالتے ہیں تو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ روایات کا ایک گروہ آپ کی ذات سے مخصوص ہے ،روایات کا دوسرا طائفہ اہل بیت کے فضائل پر مشتمل ہے جس میں لازمی طور آپ بھی شامل ہیں چونکہ آپ عترت کے سید و آقا ہیں اور ان کے علم کے منارے ہیں ہم اس سلسلہ میں ذیل میں چند روایات پیش کرتے ہیں :

پہلا دستہ

یہ روایات تعظیم و تکریم کی متعددصورتوں پر مشتمل ہیں اور امام فضائل کا قصیدہ پڑھتی ہوئی نظر آتی ہیں،ملاحظہ کیجئے:

نبی کے نزدیک آپ کا مقام و مرتبہ

امام لوگوں میں سب سے زیادہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نزدیک تھے ،ان میں سب سے زیادہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے قربت رکھتے تھے ،آپ ابو سبطین ،رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے شہر علم کا دروازہ ،آپ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سب سے زیادہ اخلاص رکھتے تھے ،احادیث کی ایک بڑی تعداد رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کی گئی ہے جو آپ کی محبت و مودت کی گہرا ئی پر دلالت کرتی ہے اس میں سے کچھ احادیث مندرجہ ذیل ہیں :

۵۲

۱۔امام نفس نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

آیہ ٔ مباہلہ میں صاف طور پر یہ بات واضح ہے کہ بیشک امام نفس نبی ہیں ،ہم گذشتہ بحثوں میں اس بات کی طرف اشارہ کر چکے ہیں اور یہ بھی بیان کر چکے ہیں کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خود یہ اعلان فرمادیا تھا کہ امام ان کے نفس ہیں منجملہ ذیل میں چند احادیث ملاحظہ کیجئے :

عثمان کے سوتیلے بھا ئی ولید بن عقبہ نے نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو خبر دی کہ بنی ولیعہ اسلام سے مرتد ہو گیا ہے ،تو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے غضبناک ہو کر فرمایا :''لَیَنْتَهِیَنَّ بَنُوْوَلِیْعَةَ اَوْلَاَبْعَثَنَّ اِلَیْهِمْ رَجُلاً کَنَفْسِیْ،یَقْتُلُ مَقَاتِلَهُمْ وَیَسْبِیْ ذَرَارِیْهِمْ وَهُوَ هٰذا'' ،''بنو ولیعہ میرے پاس آتے یا میں ان کی طرف اپنے جیسا ایک شخص بھیجوںجو ان کے جنگجوئوں کوقتل کرے اور ان کے اسراء کولے کر آئے اور وہ یہ ہے''،اس کے بعد امام کے کندھے پر اپنا دست مبارک رکھا ۔(۱)

عمرو بن عاص سے روایت ہے :جب میں غزوئہ ذات سلاسل سے واپس آیا تو میں یہ گمان کر تا تھا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مجھ سے سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں ،میں نے عرض کیا :یارسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب کو ن ہے ؟آپ نے چندلوگوں کاتذکرہ کیا۔میں نے عرض کیا: یارسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم علی کہاں ہیں ؟تو رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اصحاب سے مخاطب ہو کر فرمایا :''اِنَّ ھٰذایَسْأَلُنِْ عن النفسِ''،(۲) ''بیشک یہ میرے نفس کے بارے میں سوال کر رہے ہیں ''۔

۲۔امام نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بھا ئی

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اصحاب کے سامنے اعلان فرمایا کہ امام علی آپ کے بھا ئی ہیں ،اس سلسلہ میں متعدد روایات نقل ہوئی ہیں ہم ان میں سے ذیل میں چند روایات پیش کر تے ہیں :

ترمذی نے ابن عمر سے روایت کی ہے :رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اصحاب کے ما بین صیغۂ اخوّت پڑھا ،تو علی کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور آپ نے عرض کیا :یارسو لصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ آپ نے اصحاب کے درمیان صیغۂ اخوت پڑھاہے لیکن میرے اور کسی اور شخص کے درمیان صیغہ ٔ اخوت نہیں پڑھا ہے؟تورسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے

____________________

۱۔مجمع الزوائد، جلد ۷،صفحہ ۱۱۰،ولید اپنی بات کے ذریعہ بنی ولیعہ کی تردید کر رہا تھا اس وقت یہ آیت نازل ہو ئی :(یَاَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا ِنْ جَائَکُمْ فَاسِق بِنَبٍَ فَتَبَیَّنُوا َنْ تُصِیبُوا قَوْمًا بِجَہَالَةٍ۔۔۔)سورئہ حجرات، آیت ۶۔''ایمان والو اگر کو ئی فاسق کو ئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کرو ایسا نہ ہو کہ کسی قوم تک نا واقفیت میں پہنچ جائو ۔۔۔''

۲۔کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۴۰۰۔

۵۳

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

رات کے وقت سب مل کر مجھ پر حملہ کردیں اور مجھے بستر ہی پر ٹکڑے ٹکڑے کردیں_ خدا نے مجھے ان کے اس ارادے سے آگاہ کردیا ہے او رہجرت کر جانے کا حکم دیا ہے_ لیکن اگر میں رات کے وقت مكّہ چھوڑدوں ت۶و یہ میرے بستر کو خالی پا کر اس طرف متوجہ ہوجائیں گے اور میرا پیچھا کریں گے اور مجھے تلاش کر کے اپنا کام انجام دیں گے اب اس کے تدارک کی ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ کہ میری جگہ کوئی اور بستر پر آج کی رات سوجائے_ اس طرح مشرکین یہ گمان کریں گے کہ میں اپنے بستر پر موجود ہوں_ اے علی (ع) کیا تم تیار ہو کہ آج کی رات میرے بستر پر سوجاؤ اگر چہ یہ کام بہت خطرناک ہے کیونکہ چالیس مشرکین تلواریں سونتے ہوئے آدھی رات کے وقت گھر پر حملہ آور ہوں گے اور عین ممکن ہے کہ میری جگہ تمہیں ٹکڑے ٹکڑے کردیں؟''

حضرت محمد(ص) کا یہ بیان سن کر علی (ع) نے سوال کیا کیا اس صورت میں آپ(ص) محفوظ رہیں گے؟

ہاں میں محفوظ رہوں گا اور اگر اس طرح تم نے میری مدد کی تو خدا کے فضل سے میں کامیاب ہوجاؤں گا'' حضرت محمد(ص) نے جواب دیا_

حضرت علی (ع) نے فرمایا:

ہاں میں ضرور آپ کی مدد کروں گا:

حضرت علی (ع) کا یہ محکم اور قطعی جواب ایسا تھا کہ جس کی نظر تاریخ اسلام میں نہیں لائی جاسکتی_

ہاں یہ جذبہ ایثار و قربانی ہی تھا جو اس بات کی بنیاد بنا کہ

۲۰۱

حضرت علی ابن ابی طالب(ع) ، راہ خدا اور پیغمبر خدا کی حفاظت کے لئے اپنی جان کی بازی لگانے پر آمادہ ہوئے اور اس عہد و پیمان پر استقامت و پائیداری کا مظاہرہ کیا جو آپ(ع) نے پیغمبر خدا(ص) سے کر رکھا تھا_

ہاں، علی (ع) اپنی جان کو خطرے میں ڈال رہے تھے تا کہ پیغمبر(ص) خدا کی جان سلامت رہ سکے_ اور آپ(ص) اللہ کے دین کی تبلیغ کرتے رہیں_ لوگوں کو خداپرستی کی دعوت دیتے رہیں اور ظلم و ستم اور فسق و فجور کو جڑسمیت اکھاڑ پھینکیں_

یوں حضرت محمد(ص) نے اپنی عظیم الشّان ہجرت کا آغاز فرمایا_ ایک مناسب و موزوں وقت پر مکہ سے مدینہ کے لئے نکل کھڑے ہوئے_

اس رات کہ جس کا مشرکین کو شدت سے انتظار تھا مشرکین آہستہ آہستہ پیغمبر(ص) کے گھر کے نزدیک جمع ہوئے اور ابھی رات کا زیادہ حصّہ نہیں گزارا تھا کہ چالیس طاقتور اور جنگجو آدمیوں نے تلواریں نیام سے نکال کر پیغمبر(ص) کے گھر کا محاصرہ کرلیا_

دروازے کے سوراخ اور دیوار کے اوپر سے گھر کے اندر دیکھا رات کی دھیمی روشنی میں انھیں نظر آیا کہ محمد(ص) معمول کے مطابق سبز رنگ کی چادر اپنے اوپر ڈالے کبھی اس پہلو کبھی اس پہلو کروٹیں بدل رہے ہیں وہ مطمئن ہوگئے کہ آپ(ص) گھر میں موجود ہیں اور ان کا منصوبہ کامیابی سے ہمکنار ہونے والا ہے_

ان میں سے کچھ نے چاہا کہ آدھی رات کے وقت گھر پر حملہ

۲۰۲

کردیں اور محمد(ص) کو ٹکڑے ٹکڑے کردیں_ لیکن بعض نے کہا کہ گھر میں عورتیں اور بچے بھی سوئے ہوئے ہیں یہ انصاف نہیں کہ رات کی تاریکی میں انہیں پریشان کیا جائے پورا گھر ہمارے محاصرہ میں ہے_ محمد(ص) بھی بستر پر سوئے ہوئے اور ان کے لئے کوئی فرار کا راستہ بھی نہیں ہے تو کیوں جلد بازی دکھائیں_ __؟ بہتر ہے صبر کریں اور صح کے وقت حملہ کریں تا کہ سب دیکھ لیں کہ مختلف قبیلوں کے افراد اس قتل میں شریک ہیں_

انہوں نے صبح تک صبر کیا بعض وہیں پر سوگئے اور بعض پہرہ دیتے رہے کہ کوئی گھر سے باہر نہ نکلنے پائے_ سحر کے وقت تلواریں برہنہ کئے دروازے او ردیوار پھاند کر گھر میں داخل ہوئے اور پیغمبر (ص) خدا کے حجرے کے پاس آکر جمع ہوگئے_

حضرت علی علیہ السلام کی رعب دار آواز سن کر اور ان کے غضب ناک چہرے کو دیکھ کر وہ بے اختیار مبہوت اور حیران و پریشان ہوکر اپنی اپنی جگہ رک گئے_ اور پوچھا:

محمد(ص) کہاں ہیں؟

کیا انہیں میرے سپرد کیا تھا؟ حضرت علی (ع) نے غیظ و غضب کے عالم میں جواب دیا_

۲۰۳

مشرکین اپنے پروگرام کی ناکامی اور دن رات کی محنت کے ضائع ہوجانے پر سخت مایوس ہوئے اور فوراً ہی حضرت محمد(ص) کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے_

انہوں نے خیال کیا کہ یا تو محمد(ص) مكّہ میں چھپے ہوئے ہیں یا پھر مدینہ کی طرف چلے گئے ہیں دونوں صورتوں میں انھیں تلاش کیا جاسکتا ہے اور گرفتار کر کے قتل کیا جاسکتا ہے_

مختلف گروہوں کو مكّہ کی طرف روانہ کیا تا کہ مكّہ سے باہر نکلنے کے راستوں کو کنٹرول میں لے لیں_ ان لوگوں کو جو پیروں کے نشان پہنچاننے میں مہارت رکھتے تھے حکم دیا کہ محمد(ص) کے قدموں کے نشانات کے ذریعہ اس راستے کو دریافت کریں جہاں سے وہ گزر گئے ہیں_ اس کے علاوہ عام اعلان کردیا گیا کہ جو بھی محمد(ص) کو گرفتار کرے گا یا ان کی پناہ گاہ کے متعلق بتائے گا اسے ایک ۱۱۰ سو اونٹ انعام میں دئے جائیں گے_

لوگوں کی بڑی تعداد انعام کے لالچ میں حضرت محمد(ص) کو تلاش کرنے کے لئے نکل کھڑی ہوئی_ سب نے بہت تلاش کیا، تمام جگہوں کو دیکھا بالآخر حضرت محمد(ص) کے پیروںکے نشانات انہیں نظر آئی گئے_

پیغمبر(ص) کے پیروں کے نشانات کو جو مٹی، ریت اور پتھروں پر بن گئے تھے پہچان لیا گیا اور ان کی وساطت وہ غارتک پہنچ گئے اور آپس میں کہنے لگے_

یقینا محمد(ص) اس غار میں چھپے ہوئے ہیں_

جناب رسول(ص) خدا اور ابوبکر ان کی آوازوں کو غار میں سن رہے تھے

۲۰۴

او رانہیں دیکھ رہے تھے، لیکن مکڑی کے جالے نے جو غار کے مہ پر بنا ہوا تھا اور جس پر ایک کبوتر انڈوں پر بیٹھا ہوا تھا ان کو غار کے اندر جانے سے روک دیا انہوں نے کہا:

کیسے ممکن ہے کہ کوئی غار میں داخل ہو؟ اگر کوئی غار میں داخل ہوتا تو مکڑی کا جالا ٹوٹا ہوا ہوتا اور کبوتر کا گھونسلہ نیچے گرجاتا اور اس کے انڈے ٹوٹ چکے ہوتے_

لیکن انہیں یہ علم نہیں تھا کہ تمام زمین اور آسمان کے موجودات اللہ کی فوج ہیں، اس کا لشکر ہیں، اور چونکہ خداوند علیم و حکیم ہے_ وہ اس قسم کے لشکر کو بھیج کر اپنے بندوں کی مدد کرتا ہے_ خصوصاً ان بندوں کی جو اس کی راہ میں جہاد و ہجرت اور کوشش کرتے ہیں اور مشرکوں کے مکر و فریب سے خوف نہیں کھاتے اور اپنی تمام کوشش کو اللہ کی رضا جوئی میں اور اس کے احکام کے نفاذ کے لئے مشغول رہتے ہیں مکڑی و کبوتر او رخارک خاشاک تمام کے تمام خدا کی فوج ہیں، نظر آنے والی اور نظر نہ آنے والی_ اور پیغمبران فوجوں کی پناہ میں غار کی تہہ میں ابوبکر کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے اور بہت آرام سے باہر دیکھ رہے تھے اور ابوبکر کو تسلّی دے رہے تھے اور فرما رہے تھے_

ڈور نہیں، خدا ہمارے ساتھ ہے اور مشرکوں کے شر کو ہم سے دور کرے گا_

کفّار نے کافی دیر تک آپ(ص) کو تلاش کیا اور آخر کار مایوس ہوکر واپس لوٹ گئے_

۲۰۵

ہم نے پہلے سے اپنے بندوں اور رسولوں سے وعدہ کر رکھا ہے اور تاکید کی ہے کہ ہمارا لشکر ہی کامیاب ہوگا سلام ہو تمام پیغمبروں پر اور حمد و سپاس تمام جہانوں کے لئے'' (القرآن)

اور یوں خداوند عالم نے اپنے پیغمبر(ص) کی مدد فرمائی اور کافروں کے وقار کو ختم اور نیچا رکر دکھایا اور اپنے کلمے کو باوقار و بالاتر کردیا کیونکہ خدا ہمیشہ کامیاب اور حکیم ہے اور کافروں کا مکر اسی طرح ختم ہوجاتا ہے اگر چہ ان کا مکر و فریب اپنی قدرت کی زیادتی سے پہاڑوں کو ہی کیوں نہ گرادینے والا ہو_

ہم نے دیکھا کہ اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر(ص) کی کس طرح مددد کی اور یہ بھی دیکھا کہ خدا کے کیسے لشکر پوشیدہ ہیں_ پس کتنا اچھا ہے کہ ہم بھی اس کی مدد پر اعتماد کریں، اس پر توکل کریں اور اپنی جان و مال سے اس کی راہ میں ہجرت و جہاد کریں کہ یہ طریقہ زندگی کا بہترین اور نیک ترین طریقہ ہے سب سے بہتر ہجرت گناہ سے ہجرت کرنا ہے اور سب سے بڑا جہاد اپنی خواہشات اور شہوت سے جہاد کرنا ہے اور جو بھی خدا کی راہ میں جہاد کرے خدا اس کے لئے کامیابی کے ایسے راستے کھول دیتا ہے جس کا انہیں علم بھی نہیں ہوتا_

خدا کے خالص بندے جو خدا پر توکل کرتے ہیں اس سے صبر و ثابت قدمی طلب کریں تو جان لیں کہ کامیابی اسی ذات کی طرف سے ہوتی ہے اور تمام قدرت اسی کے ہاتھ میں ہے_ خداوند عالم اس قسم کے بندوں کے لئے اپنا لشکر روانہ کرتا ہے تا کہ اپنے وعدے کو پورا کرے اور یقینا خدا

۲۰۶

وعدہ خلافی نہیں کرتا_

کون جانتا تھا کہ خدا اپنے پیغمبر کی مکڑی کے باریک جالے اور ایک کبوتر سے مدد کرے گا؟ پیغمبر(ص) نے لطف خداوندی پر اعتماد کرتے ہوئے ہجرت کے لئے قدم اٹھایا اور کبھی نہ سوچا کہ لوگ مجھے تلاش کریں گے اور مجھے ڈھونڈ نکالیں گے تم پھر کیا ہوگا؟ وہ اللہ کی نصرت کے وعدے پر ایمان و اطمینان رکھتے تھے اور اسی کی مدد سے ہجرت کی طرف اپنا قدم بڑھایا خدا نے بھی آپ کی مدد کی اور یہ خدا کا پکا وعدہ ہے کہ اس کے دین کی مدد کرنے والے کی وہ خود مدد کرتا ہے_

آیت قرآن

''( ولله جنود السّموت و الارض و کان الله عزیزاً حکیماً ) ''

زمین و آسمان کا تمام لشکر اللہ کا ہے اور اللہ عزیز و حکیم ہے''

(سورہ فتح ۴۸ آیت ۷)

سوچئے اور جواب دیجیے

۱)___ پیغمبر(ص) خدا نے اپنی ہجرت کا ذکر کس کے سامنے کیا؟ اور کیا فرمایا؟ انہوں نے پیغمبر(ص) سے کیا پوچھا؟ اور آخر میں کیا جواب دیا؟

۲۰۷

۲) ___جب کفّار پرہنہ تلواروں کے ساتھ پیغمبر(ص) کے گھر پر جمع ہوئے تو کیا دیکھا؟ اور کیا سنا؟

۳)___ پیغمبر(ص) کو تلاش کرنے کے لئے کیا تدبیر کی؟ کتنا انعام مقرّر کیا گیا؟

۴)___ جس وقت پیغمبر(ص) خدا کے پیروں کے نشان تلاش کئے اور غار تک جا پہنچے تو کیا دیکھا؟

۵)___ پیغمبر(ص) اور ابوبکر کو غار سے باہر کیا نظر آیا ؟ پیغمبر(ص) ابوبکر سے کیا فرما رہے تھے؟

۶)___ خدا کا لشکر کیا چیزیں ہیں؟ اور خدا اپنے مہاجر اور مجاہد بندوں کی اس لشکر سے کس طرح مدد کرتا ہے؟

۷)___ سب سے بہترین ہجرت کون سی ہے اور سب سے بہترین جہاد کیا ہے؟

۸)___ خداوند عالم نے اپنے نہ نظر آنے والے لشکر سے جو کفّار کی آنکھوں میں معمولی معلوم ہوتا تھا اس ہجرت میں کس طرح مدد کی ؟

۲۰۸

پیغمبر خدا کی ہجرت (۲)

پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم مسلسل تین دن تک غار ثور میں مقیم رہے آپ(ص) کا دل خدا کی یاد سے مطمئن اور خدا پر توکل و اعتماد سے پر امید و روشن تھا آپ(ص) موقع کی تلاش میں تھے کہ حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اپنے سفر ہجرت کو دوبارہ شروع کریں او رمدینہ پہنچ جائیں_

اس ہجرت کے عظیم الشان اثرات اور تنائج کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھے اور اس ہجرت کا عظیم اور پر وقار مستقبل کسی ذہن میں نہ تھا_ کوئی سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ یہ ہجرت تاریخ میں تمام حق پسند اور حق کے متلاشی انسانوں کو اپنی تحریک کی بقا اور اس کے پھیلاؤ کے لئے ہجرت اختیار کرنے کا سبق دے گی_

اس وقت مكّہ کی تمام بدبخت طاقتیں چاہتی تھیں کہ راستے

۲۰۹

میں ہجرت کرنے والے کو تلاش کر کے ٹکڑے ٹکڑے کردیں لیکن مرضی الہی تھی کہ یہ راہیان عشق خیریت کے ساتھ اپنے اس سفر کو طے کریں اور مدینہ پہنچ کر پہلی مسجد کی بنیاد ڈالیں اور اس مسجد سے اٹھنے والی صدائیں بندگان خدا کو عبادت و تقوی اور خدا کی مدد کے لئے جہاد اور ہجرت کے لئے بلائیں اور ____ یقینا اللہ اپنے حکم کے نافذ کرنے او راپنے ارادے کو پورا کرنے پر قادر ہے_

کبھی کبھی آپ(ص) کے ہم سفر اور سا تھی، مشرکوں کی سنگدلی او ردشمنی، ان کی طاقت و قدرت اور آپ کی تلاش میں ان کی کوششوں اور بعض اوقات غار کے نزدیک ہی سے آنے والی ان مشرکوں کے قدموں کی آوازوں اور چیخ و پکار سے خوف و اضطراب کا شکار ہوجاتے تھے_ ایسے میں پیغمبر(ص) ان کی ہمت بندھاتے اور دل جوئی کرتے تھے اور فرماتے تھے_

خوف نہ کرو، غم نہ کھاؤ، خدا ہمارے ساتھ ہے''

غار ثور مكّہ کے جنوب میں واقع ہے جبکہ مدینہ کا راستہ مكّہ کے شمال میں ہے لہذا مشرکین زیادہ تر آپ کو شمال ہی کی جانب تلاش کر رہے تھے جنوب کی سمت ان کا دھیاں زیادہ نہ تھا_ اس بناپر آپ(ص) کے ازلی باوفا اور مددگار حضرت علی (ع) رات کی تاریکی میں جب مشرکین کی آنکھیں نیند میں ڈوب جاتیں، آپ(ص) کے لئے کھانا اور پانی لے جاتے مکڑی کے تانے ہوئے جالے کے پیچھے سے آپ(ص) کی خدمت میں کھانا پانی پیش کرتے اور آپ(ص) کو مكّہ حالات اور مشرکوں کے ارادوں سے آگاہ کرتے

۲۱۰

کبھی کبھی ابوبکر کے فرزند عبداللہ بھی غار میں کھانا اور پانی لے کر آتے تھے_

ایک رات پیغمبر(ص) نے حضرت علی (ع) سے فرمایا کہ لوگوں کی جو امانتیں میرے پاس موجود تھیں انھیں ان کے مالکوں تک پہنچا دو اور دو اونٹ ہمارے لئے لے آؤ کہ ہم مدینہ کی طرف روانہ ہوں اور تم میری بیٹی فاطمہ (ع) اور دوسری عورتوں کو ساتھ لے کر ہم سے آملنا_

آپ کی یہ بات سن کر ابوبکر نے کہا کہ میں نے اونٹ تیار کر رکھے ہیں پیغمبر(ص) نے ان اونٹوں کو منگوانا اس شرط کے ساتھ قبول کیا کہ ابوبکر ان کی ا جرت لے لیں_

ہم جانتے ہیں کہ لوگوں کو پیغمبر اکرم(ص) پر حد سے زیادہ اعتماد تھا_ انہوں نے اپنی بہت سی قیمتی چیزیں آپ(ص) کے پاس بطور امانت رکھی تھیں تا کہ وہ محفوظ رہیں_ اسی اعتماد کی بناپر آپ کو امین کا لقب دیا گیا تھا_

یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ ''امانت'' اور اس کی حفاظت اور مالکوں تک لوٹا دینا اسلام کے ان احکام و قوانین میں شامل ہے جن کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے_ یہاں تک کہ امانت میں خیانت کرنا گناہ کبیرہ میں شمار ہوتا ہے_ مومن ہرگز امانت میں خیانت نہیں کرتا اور بات کرنے میں جھوٹ نہیں بولتا اور جو وعدہ کرتا ہے اس کی خلاف ورزی نہیں کرتا_

چوتھی رات، جب مکمل اندھیرا چھاگیا تو نحیف و کمزور جسم کے تین اونٹ تھوڑے سے پانی اور غذا کے ساتھ غار کے دہانے کے قریب تیار کھڑے تھے، ان کے ساتھ راستہ جاننے والا ایک شخص بھی تھا_

خدا کا آخری اور عظیم پیغمبر(ص) اپنے پروردگار کے حکم سے ایک عظیم

۲۱۱

ہجرت کے لئے آمادہ و تیار ہے___اہل مكّہ کو بیدار کرنے کے لئے ۱۳/ سال تک شدید محنت و کوشش کرنے کے بعد اب اپنا شہر اور اپنا گھر چھوڑنے کے لئے تیار ہے___ اپنے آپ کو سفر کی صعوبتوں اور مشکلات میں ڈالنے کے لئے تیار ہے___ اس شہر کو کہ جو ظل و شرک اور بت پرستی کی غلاظتوں سے پر ہے ترک کرنے کو تیار ہے___ صحرا و پہاڑوں کی طرف راہ پیما ہونے کو تیار ہے_ لیکن خداوند عالم آپ(ص) سے واضح الفاظ میں وعدہ کرتا ہے_

وہی ذات جس نے تم پر قرآن نازل کیا اور اس کی پیروی تم پر فرض کردی تمہیں اس شہر میں واپس لائے گا''

اس جانے کا انجام لوٹ کرآنا ہے تم اس شہر میں لوٹ کر آؤ گے اور توحید کے گھر سے بتوں کو توڑ پھینکو گے_

پیغمبر اسلام(ص) نہایت آہستگی کے ساتھ غار کی تاریکی سے باہر آگئے اونٹوں پر سوار ہوئے اور مدینہ کی طرف اپنے سفر کا آغاز کردیا رات کو سفر کرتے اور ستاروں کی چمک سے راستہ معلوم کرتے اور دن میں پہاڑوں کے درّوں اور پتّھروں کے سائے میں پناہ لیتے اور آرام کیا کرتے اور رات کو پھر سفر پر چل پڑتے اور راہ خدا میں سراپا تسلیم ہوتے ہوئے ذوق و امید سے راستہ طے کرنے لگتے_

غیرمانوس راستے سے تیزی کے ساتھ گزرتے تھے_ یہ ایک طویل و خطرناک اور دشوار سفر تھا_ لیکن راستے کی دوری کو خدا سے امید

۲۱۲

نزدیک کردیتی تھی اور راہ کی سختی کو ''اللہ کے حسن و ثواب کے اعتماد'' نے آ سان کردیا تھا اور سفر کے خطروں کا بدل ''اللہ تعالی '' کا فتح و نصرت کا وعدہ تھا''

سفر کے دوران ایک روز جبکہ آپ ایک بڑے پتھر کے سایہ میں آرام فرما رہے تھے آپ(ص) نے دیکھا کہ کفار کا ایک سوار تیزی کے ساتھ آپ(ص) کی جانب آرہا ہے_ اگر یہ سوار نزدیک آجاتا اور آپ(ص) کا راستہ روک لیتا تو دوسرے کفار بھی پہنچ جاتے اور آپ(ص) کی ہجرت ناکام ہوجاتی لیکن پیغمبر(ص) خدا کو اپنے پروردگار کے لطف و کرم پر کامل یقین تھا_ آپ(ص) نے اپنے ہاتھ دعا کے لئے اٹھائے اور فرمایا_

اے خدا اے رحمن جو بندوں پر عنایت کرتا ہے اے رحیم جو مومنوں پر مہربانی کرتا ہے تیرے سوا کسی کی تعریف نہیں کرتے کیونکہ تو ہی حمد و ثنا کے لائق ہے اور حمد و ثنا تیرے لئے ہی مخصوص ہے تیرے سوا کسی کو اپنا رب نہیں جانتا کیونکہ تو ہی میرا پروردگار ہے صرف تو ہی میرا معبود ہے_ اے میرے مددگار میری مدد کر کہ میں نے تیری طرف ہجرت کی ہے اور ہمیں اس کافر دشمن کے شر سے محفوظ رکھ اور توہی ہر ایک کام پر قادر ہے_

فوراً ہی پیغمبر(ص) کی دعا قبول ہوئی اور سوار کے تیز رفتار گھوڑے نے اچانک اپنی لگام سوار کے ہاتھوں سے چھڑائی اور دونوں پچھلے پیروں

۲۱۳

کے بل کھڑا ہوگیا اور چكّر لگا کر جھٹکے کے ساتھ سوار کو زمین پر گرادیا اور ایک طرف کھڑا ہوگیا_ سوار اٹھا اور سخت تکلیف اور غصّہ کے عالم میں دوبارہ گھوڑے پر سوار ہوا_ چند قدم چلنے کے بعد گھوڑے نے پھر اسی طرح سے زمین پر گرادیا_

غرض دو تین مرتبہ ایسا ہی ہوا تو سوار سمجھ گیا کہ گھوڑے کی اس ناراض کی گیا وجہ ہے_ سوار نے اپنے ارادے کو بدلا و معذرت خواہی کے لئے خدمت پیغمبر(ص) میں حاضر ہوا اور معافی چاہی_

رسول خدا(ص) نے اس سے فرمایا کہ اب جب کہ تجھے حقیقت کا علم ہوگیا ہے جلدی سے واپس لوٹ جا اور ہمارے تعاقب میں جو بھی اس طرف آرہا ہے اسے واپس لوٹا دے_

کافر واپس چلاجاتا ہے اور پیغمبر(ص) خدا تیز رفتاری سے مدینہ کی جانب چل پڑتے ہیں یہاں تک کہ آپ(ص) مدینہ کے نزدیک پہنچ گئے_

مسلمانان مدینہ، انصار و مہاجر، عورت مرد، بچّے بوڑھے سب کے سب آپ(ص) کے شوق دیدار میں منتظر نگاہوں کے ساتھ بیرون مدینہ آپ(ص) کے استقبال کے لئے موجود تھے_

یکایک ان لوگوں نے دور سے رسول خدا(ص) کو آتے ہوئے دیکھا اور عالم شوق میں بے اختیار صدائے تکبیر بلند کرتے ہوئے اور صلوات و سلام بھیجتے ہوئے آپ(ص) کی سمت دوڑے _ رسول خدا(ص) مدینہ سے نزدیک ایک قبانامی دیہات میں قیام پذیر ہوئے تا کہ حضرت علی (ع) اور ان کے ہمراہی بھی پہنچ جائیں _

۲۱۴

ہجرت پیغمبر اکرم (ص) اتنا عظیم اور اہم واقعہ ہے کہ اسلامی تاریخ کی ابتداء سی سے ہوئی_ ہجرت کے ذریعہ ہمیں سبق دیا گیا کہ ہر زمانہ کے لوگ پیغمبر(ص) کی اس سیرت پر عمل کریں اور ہمیشہ اپنا رخ خدا کی جانب اور اپنے قدم ہجرت کی راہ میں اٹھانے کے لئے تیار ہیں_ اور مسلسل کہیں کہ

پروردگار ہم نے ایمان کی ندا دینے والے کی پکار کو سنا_ وہ کہہ رہا تھا کہ پروردگار پر ایمان لے آؤ پروردگار ہم ایمان لے آئے ہمارے گناہوں کو معاف کردے، ہماری خطاؤں کی پردہ پوشی کر اور ہمیں نیک اور صالح لوگوں کے ساتھ اس دنیا سے اٹھا_ خدایا: جو کچھ تو نے اپنے پیغمبروں سے وعدہ کیا ہے ہمیں عنایت فرما اور ہمیں قیامت کے دن ذلیل و خوار نہ کرنا کہ تو کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتا_

اس طرح اپنے پروردگار سے راز و نیاز کریں اور اس سے یوں جواب سنیں کہ:

خداوند عالم نے تمہاری دعا کو قبول کرلیا کہ میں ہرگز تمہارے (خواہ مردہوں یا عورت) کسی عمل کو ضائع اور بغیر اجر کے نہ چھوڑوں گا جن لوگوں نے ہجرت کی ہے اور اپنے گھر بار کو چھوڑ دیا ہے، خدا کی راہ میں تکالیف اور اذیتوں سے دوچار ہوئے ہیں اور

۲۱۵

اللہ تعالی کے راستے میںجنگ و جہاد کیا ہے یہاں تک کہ وہ قتل ہوجائیں، خدا ان کی خطاؤں اور گناہوں کو چھپائے گا اور انہیں بخش دے گا اور اس بہشت میں کہ جس کے گھنے درختوں کے نیچے نہریں جاری ہیں داخل کرے گا_ یہ اللہ کا ثواب و تحفہ ہے اور یقینا اچھا ثواب تو اللہ ہی کے پاس ہے_ خبردار کافروں کے چند دن تمہارے شہر میں آمد ور فت تمہیں دھوکے میں مبتلا نہ کردے یہ تھوڑے دن کچھ فائدہ دیکھیں گے پھر ان کا مقام و ٹھکانہ جہنم میں ہوگا جو بہت بری جگہ ہے لیکن وہ لوگ کہ جنہوں نے اللہ تعالی کی ذات سے تقوی اختیار کیا ان کے لئے وسیع و کشادہ بہشت ہے کہ جس کے درختوں او رباغوں کے نیچے پانی سے بھری نہریں جاری ہیں_ وہ اس پر امن اور خوبصورت جگہ میں زندگی بسر کیں گے یہ ہدیہ ہے ان کے لئے خداوند عالم کی طرف سے البتہ وہ جو اللہ کے نزدیک ہے ابرار لوگوں کے لئے وہ بہت ہی بہتر ہے_

ابرار و نیک لوگ اللہ تعالی کی عوت کو دل و جان سے سنتے ہیں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرتے ہیں زمین کی فضا کو بہت وسیع پاتے ہیں اور ابرار تو ہمیشہ ہجرت میں زندگی بسر کرتے ہیں_ ظلم و ستم او رجہاد

۲۱۶

کی زمین سے عدل و علم کی سرزمین کی طرف او ربدی سے نیکی کی طرف اور برائی سے اچھائیوں کی طرف ہمیشہ ہجرت کرتے ہیں_ حقیقت میں مہاجر وہ ہے جو برائیوں سے ہجرت کر کے اور انھیں ترک کرے_

آیت قرآن

( اذ هما فی الغار اذ یقول لصاحبه لا تحزن انّ الله معنا فانزل الله سکینته علیه و ايّده بجنود لّم تروها و جعل کلمة الّذین کفروا السّفلی و کلمة الله هی العلیا و الله)

جب وہ دو غار میں تھے اور وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھغ کہ رنج و ملال نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے_ اللہ نے اس پر اطمینان اور سکون قلب نازل فرمایا اور اس کی ایسے لشکروں سے مدد کی کہ تم انھیں دیکھ نہیں سکتے اور اللہ نے کافروں کا بوں نیچا کردیا اور اللہ کابوں تو اونچا ہی ہے اللہ زبردست اور دانا و بینا ہے''_

( سورہ توبہ آیت ۴۰)

۲۱۷

سوچئے اور جواب دیجئے

۱)___ پیغمبر خدا(ص) کتنے دن غارثور میں پوشیدہ رہے؟

۲)___ جب پیغمبر(ص) کے ساتھی کافروں کی آواز سن کر خوفزدہ ہوئے تو پیغمبر(ص) نے کن الفاظ میں انھیں تسلّی دی؟

۳)___ آپ(ص) کے غار میں پوشیدہ رہنے کے دوران کون لوگ آپ(ص) کے لئے غذا اور پانی لے کر آتے تھے؟

۴)___ امانت اور اسے اس کے مالکوں کو لوٹا نے کے سلسلہ میں اسلام کا کیا حکم ہے؟

۵)___ چند سوال خود سے بناؤ؟

۲۱۸

بابرکت پیسہ

خداوند عالم نے پیغمبر(ص) کو مبعوث کیا تا کہ لوگوں کو صحیح اور درست زندگی گزارنے کے اصول اور طریقے بتائیں اور انہیں فردی اور اجتماعی زندگی کے صحیح اصول اور طریقوں سے روشناس کرائیں پیغمبر(ص) کی سیرت اور سنّت، زندگی کے لئے بہترین سبق ہے اور آپ(ص) کی گفتگو انسانوں کے لئے بہترین راہنما ہے_

مندرجہ ذیل سطور میں ہم ایک واقعہ نقل کرتے ہیں_ جس میں آپ دیکھیں گے کہ رسول خدا(ص) کس طرح معاشرے میں زندگی گزارتے ہیں تھے آپ(ص) کیسا لباس زیب تن کرتے تھے اور کس طرح آپ حاجت مندوں کی مدد کو پہنچتے تھے:

جناب رسول خدا(ص) کا لباس پرانا اور بوسیدہ ہوچکا تھا آپ(ص)

۲۱۹

نے کچھ پیسے حضرت علی علیہ السلام کو دئے اور فرمایا کہ بازار جاؤ اور میرے لئے ایک قمیص لے آؤ

حضرت علی علیہ ا لسلام اس واقعہ کو یوں بیان کرتے ہیں کہ:

میں نے پیغمبر(ص) سے پیسے لئے اور بازار سے ان پیسوں کی جو بارہ درہم تھے ایک قمیص خریدی اور لاکر پیغمبر(ص) کی خدمت میں پیش کردی پیغمبر(ص) نے قمیص لی اور اسے تھوڑی دیر دیکھا پھر فرمایا: میری خواہش ہے کہ اس سے سستی قمیص پہنوں کیا بیچنے والا اس قمیص کو واپس لے لے گا؟

پتہ نہیں میں جاتا ہوں اور اس سے اس بارے میں بات کرتا ہوں''

میں نے جواب دیا اور پیغمبر(ص) سے قمیص لی اور بیچنے والے کے پاس گیا اور اس سے کہا:

میں نے یہ قمیص پیغمبر(ص) کے لئے خریدی تھی لیکن پیغمبر(ص) چاہتے ہیں کہ اس سے سستا لباس پہنیں کیا تم اس قمیص کو واپس لے سکتے ہو؟''

بیچنے والے نے وہ قمیص اور بارہ درہم واپس کردئے میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور رسول خدا(ص) کی خدمت میں حاضر ہوا، رسول خدا(ص) نے فرمایا:

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254