‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) جلد ۴

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) 15%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 254

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 254 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 73388 / ڈاؤنلوڈ: 3708
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) جلد ۴

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

ائمہ اہل بیت علیہم السلام

ہم ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے روبرو حاضرہیں جنھوں نے معاشرہ کی اصلاح کی دعوت دی ، وہ دنیائے عرب و اسلام میں شعور و فکر کے چراغ ہیں ،انھوں نے انسانی فکر ،اس کے ارادے ، سلوک و روش کی بنیاد ڈالی ، خالق کا ئنات اور زندگی دینے والے کے علاوہ کسی اورکی عبادت کرنے سے مخلوق خداکو نجات دی

بیشک ائمہ اہل بیت علیہم السلام شجرئہ نبوت کے روشن چراغ ہیں ،یہ اس شجرۂ طیبہ سے تعلق رکھتے ہیں جس کی اصل ثابت ہے اور اس کی شاخیں آسمان تک پھیلی ہو ئی ہیں یہ شجرہ ہر زمانہ میںحکم پروردگار سے پھل دیتا رہتا ہے،یہ حضرات رسول اعظمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات کا ایسا جزء ہیں جن کو کبھی بھی ان سے جدا نہیں کیا جاسکتا ہے وہ رسول جنھوں نے انسان کو پستی نکال کر بلندی عطا کی اوراسے نور سے منور فرمایا۔۔۔ہم اپنی گفتگو کا آغاز اس سلسلۂ جلیلہ سید و سردار یعنی امام علی کی سوانح حیات سے کرتے ہیں:

حضرت علی علیہ السلام

آپ اپنی جود و سخا ،عدالت، زہد،جہاد اور حیرت انگیز کارنامو ں میں اس امت کی سب سے عظیم شخصیت ہیں دنیائے اسلام میں رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں سے کو ئی بھی آپ کے بعض صفات کا مثل نہیں ہوسکتا چہ جائیکہ وہ آپ کے بعض صفات تک کا مثل ہو ۔آپ کے فضائل و کمالات اور آپ کی شخصیت کے اثرات زمین پر بسنے والے پرتمام مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے زبان زد عام ہیں ، تمام مؤ رخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عرب یا غیرعرب کی تاریخ میں آپ کے بھائی اور ابن عم کے علاوہ آپ کا کو ئی ثانی نہیں ہے ہم ذیل میں آپ کے بعض صفات و خصوصیات کو قلمبند کررہے ہیں :

۲۱

کعبہ میں ولادت

تمام مؤرخین اورراویوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ کی ولادت با سعادت خانۂ کعبہ میں ہوئی۔(۱) آپ کے علاوہ کو ئی اور خانۂ کعبہ میں نہیں پیدا ہوا ،اور یہ اللہ کے نزدیک آ پ کے بلند مرتبہ اور عظیم شرف کی علامت ہے ،اسی مطلب کی طرف عبد الباقی عمری نے اس شعر میں اشارہ کیا ہے :

اَنْت العلیُّ الذی فوق العُلیٰ رُفِعا

ببطن مکة عند البیت اِذْوُضِعَا

____________________

۱۔مروج الذہب ،جلد ۲ صفحہ ۳،فصول مہمہ مؤلف ابن صبّاغ، صفحہ ۲۴۔مطالب السئول، صفحہ ۲۲۔تذکرة الخواص، صفحہ ۷۔کفایة الطالب، صفحہ ۳۷۔ نور الابصار ،صفحہ ۷۶۔نزھة المجالس ،جلد۲،صفحہ ۲۰۴۔شرح الشفا ،جلد ۲،صفحہ ۲۱۵۔غایة الاختصار ،صفحہ ۹۷۔عبقریة الامام (العقاد)، صفحہ ۳۸۔مستدرک حاکم، جلد ۳،صفحہ ۴۸۳۔اور اس میں وارد ہوا ہے کہ :''متواتر احادیث میں آیا ہے کہ امیر المو منین علی بن ابی طالب فاطمہ بنت اسد کے بطن سے کعبہ میں پیدا ہوئے ''۔

۲۲

''آپ وہ بلند و بالا شخصیت ہی ںجو تمام بلند یوں سے بلند و بالا ہیںاس لئے کہ آپ کی ولادت مکہ میں خانہ کعبہ میں ہوئی ہے ''۔

بیشک نبی کے بھائی اور ان کے باب شہر علم کی ولادت اللہ کے مقدس گھر میں ہو ئی تاکہ اس کی چوکھٹ کو جلا بخشے،اس پر پرچم توحید بلند کرے ،اس کو بت پرستی اور بتوںکی پلیدی سے پاک وصاف کرے ، اس بیت عظیم میں ابوالغرباء ،اخو الفقراء ، کمزوروں اور محروموں کے ملجأ و ماویٰ پیدا ہوئے تاکہ ان کی زندگی میں امن ،فراخدلی اور سکون و اطمینان کی روح کوفروغ دیں ، ان کی زندگی سے فقر و فاقہ کا خاتمہ کریں ،آپکے پدر بزرگوار شیخ بطحاء اور مو من قریش نے آپ کا اسم گرامی علی رکھاجو تمام اسماء میں سب سے بہترین نام ہے۔

اسی لئے آپ اپنی عظیم جود و سخا اور حیرت انگیز کارناموں میں سب سے بلند تھے اور خداوند عالم نے جو آپ کو روشن و منورعلم و فضیلت عطا فرمائی تھی اس کے لحاظ سے آپ اس عظیم بلند مرتبہ پر فائز تھے جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

امیر بیان اور عدالت اسلامیہ کے قائد و رہبرنبی کی بعثت سے بارہ سال پہلے تیرہ رجب ۳۰ عام الفیل کو جمعہ کے دن پیدا ہوئے ۔(۱)

القاب

امیر حق نے آپ کو متعدد القاب سے نوازا جو آپ کے صفات حسنہ کی حکایت کرتے ہیں ،آپ کے القاب مندرجہ ذیل ہیں :

۱۔صدیق(۲)

آپ کو اس لقب سے اس لئے نوازا گیا کہ آپ ہی نے سب سے پہلے رسول اللہ کی مدد کی اور اللہ کی طرف سے رسول ر نازل ہونے والی چیزوں پر ایمان لائے ، مولائے کائنات خود فرماتے ہیں :

''اَناالصدیق الاکبرآمنت قبل ان یومن ابوبکرواسلمتُ قبل ان یسلّم '(۳)

''میں صدیق اکبر ہوں ابوبکر سے پہلے ایمان لایاہوں اور اس سے پہلے اسلام لایاہوں ''۔

____________________

۱۔حیاةالامام امیر المو منین ،جلد ۱،صفحہ ۳۲۔منقول از مناقب آل ابوطالب ،جلد۳،صفحہ۹۰۔

۲۔تاریخ خمیس ،جلد ۲،صفحہ ۲۷۵۔

۳۔معارف ،صفحہ ۷۳۔ذخائر ،صفحہ ۵۸۔ریاض النضرہ ،جلد ۲،صفحہ ۲۵۷۔

۲۳

۲۔وصی

آپ کو یہ لقب اس لئے عطا کیا گیا کہ آپ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وصی ہیں اور رسول خدا نے اس لقب میں اضافہ کرتے ہوئے فرمایا: ''اِنَّ وَصِیّ،وَمَوْضِعَ سِرِّی،وَخَیْرُمَنْ اَتْرُکَ بَعْدِیْ،وَیُنْجِزُعِدَتِیْ،وَیَقْضِیْ دَیْنِیْ،عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍ'' ۔(۱)

''میرے وصی ،میرے راز داں ،میرے بعد سب سے افضل ،میرا وعدہ پورا کرنے والے اور میرے دین کی تکمیل کرنے والے ہیں ''۔

۳۔فاروق

امام کو فاروق کے لقب سے اس لئے یاد کیا گیا کہ آپ حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے ہیں۔یہ لقب نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی احادیث سے اخذ کیا گیا ہے ،ابو ذر اور سلمان سے روایت کی گئی ہے کہ نبی نے حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا :''اِنّ هٰذَااَوَّلُ مَنْ آمَنَ بِیْ،وهٰذَا اَوَّلُ مَنْ یُصَافِحُنِیْ یَوْمَ القِیَامَةِ،وَهٰذَا الصِّدِّیْقُ الْاَکْبَرُ،وَهٰذَا فَارُوْقُ هٰذِهِ الاُمَّةِ یَفْرُقُ بَیْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ'' ۔(۲)

''یہ مجھ پر سب سے پہلے ایمان لائے ،یہی قیامت کے دن سب سے پہلے مجھ سے مصافحہ کریں

گے ،یہی صدیق اکبر ہیں ،یہ فاروق ہیں اور امت کے درمیان حق و باطل میں فرق کرنے والے ہیں ''۔

۴۔یعسوب الدین

لغت میں یعسوب الدین شہد کی مکھیوں کے نَر کو کہا جاتا ہے پھر یہ قوم کے صاحب شرف سردار کیلئے بولا جا نے لگا،یہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے القاب میں سے ہے ،نبی اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو یہ لقب دیتے ہوئے فرمایا:هٰذَا ( واشارَالی الامام ) یَعْسُوْبُ المُؤمِنِیْنَ،وَالْمَالُ یَعْسُوْبُ الظَّا لِمِیْنَ'' ۔(۳)

''یہ (امام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا)مو منین کے یعسوب ہیں اور مال ظالموں کا یعسوب ہے ''۔

____________________

۱۔کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۱۵۴۔

۲۔مجمع الزوائد، جلد ۹، صفحہ ۱۰۲،فیض القدیر،جلد ۴، صفحہ ۳۵۸۔کنز العمال ،جلد ۶ ،صفحہ ۱۵۶۔فضائل الصحابة، جلد ۱، صفحہ ۲۹۶۔

۳۔ مجمع الزوائد، جلد ۹،صفحہ ۱۰۲۔

۲۴

۵۔امیر المو منین

آپ کا سب سے مشہور لقب امیر المو منین ہے یہ لقب آپ کو رسول اللہ نے عطا کیا ہے روایت ہے کہ ابو نعیم نے انس سے اور انھوں نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا ہے :'' یاانس، ''اسْکُبْ لِیْ وَضُوء اً ''اے انس میرے وضو کرنے کے لئے پانی لائو''پھر آپ نے دورکعت نماز پڑھنے کے بعد فرمایا:'' اے انس اس دروازے سے جو بھی تمہارے پاس سب سے پہلے آئے وہ امیر المو منین ہے ، مسلمانوں کا سردار ہے ،قیامت کے دن چمکتے ہوئے چہرے والوں کا قائد اور خاتم الوصیین ہے '' ، انس کا کہنا ہے :میں یہ فکر کررہاتھا کہ وہ آنے والا شخص انصار میں سے ہو جس کو میں مخفی رکھوں ، اتنے میں حضرت علی تشریف لائے تو رسول اللہ نے سوال کیا کہ اے انس کون آیا ؟ میں (انس) نے عرض کیا : علی ۔ آپ نے مسکراتے ہوئے کھڑے ہوکر علی سے معانقہ کیا ،پھر ان کے چہرے کا پسینہ اپنے چہرے کے پسینہ سے ملایااور علی کے چہرے پر آئے ہوئے پسینہ کو اپنے چہرے پر ملا اس وقت علی نے فرمایا: ''یارسول اللہ میں نے آپ کو اس سے پہلے کبھی ایسا کرتے نہیں دیکھا؟ آنحضرت نے فرمایا:''میں ایسا کیوں نہ کروں جب تم میرے امور کے ذمہ دار،میری آواز دوسروں تک پہنچانے والے اور میرے بعد پیش آنے والے اختلافات میںصحیح رہنما ئی کرنے والے ہو ''۔(۱)

۶ حجة اللہ

آپ کا ایک عظیم لقب حجة اللہ ہے، آپ خدا کے بندوں پر اللہ کی حجت تھے اور ان کومضبوط و محکم راستہ کی ہدایت دیتے تھے ،یہ لقب آپ کو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عطا فرمایا تھا ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:''میںاور علی اللہ کے بندوں پر اس کی حجت ہیں''۔(۲)

یہ آپ کے بعض القاب تھے ان کے علاوہ ہم نے آپ کے دوسرے چھ القاب امام امیر المومنین کی سوانح حیات کے پہلے حصہ میںبیان کئے ہیںجیسا کہ ہم نے آپ کی کنیت اور صفات کا تذکرہ بھی کیا ہے۔

____________________

۱۔حلیة الاولیائ، جلد ۱،صفحہ ۶۳۔

۲۔کنوز الحقائق ''المناوی''،صفحہ ۴۳۔

۲۵

آپ کی پرورش

حضرت امیر المو منین نے بچپن میں اپنے والد بزرگوار شیخ البطحاء اورمو منِ قریش حضرت ابوطالب کے زیر سایہ پرورش پائی جو ہر فضیلت ،شرف اور کرامت میں عدیم المثال تھے ،اور آپ کی تربیت جناب فاطمہ بنت اسدنے کی جو عفت ،طہارت اور اخلاق میں اپنے زمانہ کی عورتوں کی سردار تھیں انھوں نے آپ کو بلند و بالا اخلاق ،اچھی عا دتیں اور آداب کریمہ سے آراستہ و پیراستہ کیا۔

پرورش امام کے لئے نبی کی آغوش

امام کے عہد طفولیت میں نبی نے آپ کی پرورش کرنے کی ذمہ داری اس وقت لے لی تھی جب آپ بالکل بچپن کے دور سے گذر رہے تھے ،جس کا ماجرا یوں بیان کیا جاتا ہے کہ جب آنحضرت کے چچا ابوطالب کے اقتصادی حالات کچھ بہتر نہیں تھے تو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے چچاعباس اور حمزہ کے پاس گفتگو کرنے کیلئے تشریف لے گئے اور ان سے اپنے چچا ابوطالب کے اقتصادی حالات کے سلسلہ میںگفتگو کی اور ان کا ہاتھ بٹانے کا مشورہ دیاتو انھوں نے آپ کی اس فرمائش کو قبول کرلیا ، چنانچہ جناب عباس نے طالب ، حمزہ نے جعفر اور نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کی پرورش کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لی، لہٰذا اس وقت سے آپ (علی) رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آغوش تربیت میں آگئے اور آنحضرت ہی کے زیر سایہ اورانھیں کے دامن محبت و عطوفت میں پروان چڑھے ،اسی لئے آپ کی رگ و پئے اور آپ کی روح کی گہرائی میںپیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کردار اور اخلاق اور تمام صفات کریمہ اسی وقت سے سرایت کر چکے تھے اسی لئے آپ نے زندگی کے آغاز سے ہی ایمان کو سینہ سے لگائے رکھا ،اسلام کو بخوبی سمجھا اور آپ ہی پیغمبر کے سب سے زیادہ نزدیک تھے ، ان کے مزاج و اخلاق نیز آنحضرت کی رسالت کو سب سے بہتر انداز میں سمجھتے تھے ۔

۲۶

مو لائے کا ئنات نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پرورش کے انداز اور آپ سے اپنی گہری قرابت داری کے بارے میں ارشاد فرمایا :''تم جانتے ہی ہو کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے قریب کی عزیز داری اور مخصوص قدر و منزلت کی وجہ سے میرا مقام اُن کے نزدیک کیا تھا ؟میں بچہ ہی تھا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھے گود میں لے لیا تھا،آنحضرت مجھے اپنے سینہ سے چمٹائے رکھتے تھے، بستر میں اپنے پہلو میں جگہ دیتے تھے، اپنے جسم مبارک کو مجھ سے مس کر تے تھے اور اپنی خوشبو مجھے سونگھاتے تھے ،پہلے آپ کسی چیز کو چباتے پھر اس کے لقمے بنا کر میرے منھ میں دیتے تھے ،اُنھوں نے نہ تو میری کسی بات میں جھوٹ کا شائبہ پایا نہ میرے کسی کام میں لغزش و کمزوری دیکھی ۔۔۔ میں ان کے پیچھے پیچھے یوں لگا رہتا تھا جیسے اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے رہتا ہے، آپ ہر روز میرے لئے اخلاق حسنہ کے پرچم بلند کر تے تھے اور مجھے ان کی پیروی کا حکم دیتے تھے ''۔

آپ نے نبی اور امام کے مابین بھروسہ اور قابل اعتماد رابطہ کا مشاہدہ کیااور ملاحظہ کیاکہ کس طرح نبی اکرم حضرت علی کی مہربانی اور محبت کے ساتھ تربیت فرماتے اور آپ کو بلند اخلاق سے آراستہ کرتے تھے ؟اور نبی نے کیسے حضرت علی کی لطف و مہربانی اور بلند اخلاق کے ذریعہ تربیت پا ئی ؟

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت

جب رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے عظیم انقلاب کا آغاز فرمایاجس سے جاہلیت کے افکار ، اور رسم و رواج متزلزل ہوگئے ،تو قریش آپ کی مخالفت کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ،انھوں نے جان بوجھ کرتحریک کو خاموش کرنے کیلئے بھرپور کو شش کی اور اس کیلئے ہرممکنہ طریقۂ کاراختیارکیا ،اپنے بچوں کو نبی پر پتھروں کی بارش کرنے کے لئے بھڑکایا، اس وقت امام ہی ایک ایسے بچے تھے جو نبی کی حمایت کر رہے تھے اور ان بچوں کو ڈانٹتے اور مارتے تھے جب وہ اپنی طرف اس بچہ کو آتے ہوئے دیکھتے تھے تو ڈر کر اپنے گھروں کی طرف بھاگ جاتے تھے ۔

۲۷

اسلام کی راہ میں سبقت

تمام مو رخین اور راوی اس بات پر متفق ہیں کہ امام ہی سب سے پہلے نبی پر ایمان لائے ، آپ ہی نے نبی کی دعوت پر لبیک کہا،اور آپ ہی نے اپنے اس قول کے ذریعہ اعلا ن فرمایا کہ اس امت میں سب سے پہلے اللہ کی عبادت کرنے والا میں ہو ں :''لَقَدْ عَبَدْتُ اللّٰہَ تَعَالیٰ قَبْلَ اَنْ یَعْبُدَہُ اَحَدُ مِنْ ھٰذِہِ الاُمَّةِ ''۔ ''میں نے ہی اس امت میں سب سے پہلے اللہ کی عبادت کی ہے ''۔(۱)

اس بات پر تمام راوی متفق ہیں کہ امیر المو منین دور جا ہلیت کے بتوں کی گندگی سے پاک و پاکیزہ رہے ہیں ،اور اس کی تاریکیوں کا لباس آپ کو ڈھانک نہیں سکا،آپ ہر گز دوسروں کی طرح بتوں کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوئے ۔

مقریزی کا کہنا ہے :(علی بن ابی طالب ہاشمی نے ہر گز شرک نہیں کیا،اللہ نے آپ سے خیر کا ارادہ کیا تو آپ کو اپنے چچازاد بھائی سید المرسلین کی کفالت میں قرار دیدیا)۔(۲)

قابل ذکر بات یہ ہے کہ سیدہ ام المو منین خدیجہ آپ کے ساتھ ایمان لا ئیں، حضرت علی اپنے اور خدیجہ کے اسلام پر ایمان لانے کے سلسلہ میں فرماتے ہیں :''وَلَم یَجْمَعْ بَیْتُ یَومَئِذٍ واحدُ فی الاسلام غیرَرسُولِ اللّٰهِ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وَخَدِیْجَةَ وَاَنَا ثَالِثُهُمَا'' ۔(۳) ''اس دن رسول اللہ خدیجہ اور میرے علاوہ کو ئی بھی مسلمان نہیں ہوا تھا ''۔

ابن اسحاق کا کہنا ہے :اللہ اور محمد رسول اللہ پر سب سے پہلے علی ایمان لائے ''۔(۴)

حضرت علی کے اسلام لانے کے وقت آپ کی عمر سات سال یا دوسرے قول کے مطابق نو سال تھی۔(۵) مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ سب سے پہلے اسلام لائے ،جو آپ کیلئے بڑے ہی شرف اور فخر کی بات ہے ۔

آپ کی نبی سے محبت

آپ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سب سے زیادہ اخلاص سے پیش آتے تھے ایک شخص نے امام سے

____________________

۱۔صفوة الصفوہ، جلد ۱،صفحہ ۱۶۲۔

۲۔ امتاع الاسمائ، جلد ۱،صفحہ ۱۶۔

۳۔حیاةالامام امیر المومنین ،جلد ۱،صفحہ ۵۴۔

۴۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ،جلد ۴،صفحہ ۱۱۶۔

۵۔صحیح ترمذی، جلد ۲،صفحہ ۳۰۱۔طبقات ابن سعد ،جلد ۳،صفحہ ۲۱۔کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۴۰۰۔تاریخ طبری ،جلد ۲، صفحہ۵۵۔

۲۸

رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے محبت کے متعلق سوال کیا تو آپ نے اس سے فرمایا:''کَانَ وَاللّٰہِ احبَّ الینامِن مالناواولادِناوَامَّھَاتِنَاومِن المائِ الباردِعلیَ الظّمْأ۔۔۔''۔(۱)

''خدا کی قسم وہ مجھے میرے مال ،اولاد ،ماںاور پیا س کے وقت ٹھنڈے گوارا پانی سے بھی زیادہ محبوب تھے ''۔

حضرت علی کی نبی سے محبت کا یہ عالم تھا کہ ایک باغ آپ کے حوالہ کیا گیا ،باغ کے مالک نے آپ سے کہا :کیا آپ میرے باغ کی سینچا ئی کردیں گے میں آپ کو ہر ڈول کے عوض ایک مٹھی خرما دوںگا؟ آپ نے جلدی سے اس باغ کی سینچا ئی کر دی تو باغ کے مالک نے آپ کو خرمے دئے یہاں تک کہ آپ کی مٹھی بھرگئی آپ فوراً ان کو نبی کے پاس لیکر آئے اور انھیں کھلادئے ۔(۲)

نبی سے آپ کی محبت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ خود ان کی خدمت کرتے ، ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے آمادہ رہتے تھے اور ہم اس سلسلہ کے چند نمونے اپنی کتاب'' حیاة الامام امیر المومنین ''میںذکر کرچکے ہیں ۔

یوم الدار

حضرت علی کی بھر پور جوانی تھی جب سے آپ نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قدم بہ قدم چلنا شروع کیا،یہ وہ دور تھا جب آنحضرت نے اپنی اسلامی دعوت کا اعلان کیاتھا کیونکہ جب خداوند عالم نے آپ کو اپنے خاندان میں تبلیغ کرنے کا حکم دیا تو رسول نے علی کو بلاکر ان کی دعوت کرنے کوکہا جس میںآپ کے چچا :ابوطالب ،حمزہ ،عباس اور ابو لہب شامل تھے ،جب وہ حاضر ہوئے تو امام نے ان کے سامنے دسترخوان بچھایا،ان سب کے کھانا کھانے کے بعد بھی کھانا اسی طرح باقی رہااور اس میں کوئی کمی نہ آئی ۔

جب سب کھانا کھاچکے تو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کھڑے ہوکر ان کو اسلام کی دعوت دی اور بتوں کی پوجاکرنے سے منع فرمایا ،ابو لہب نے آپ کا خطبہ منقطع کر دیا اور قوم سے کہنے لگا :تم نے ان کا جادو دیکھا ،

____________________

۱۔خزانة الادب، جلد ۳،صفحہ ۲۱۳۔

۲۔تاریخ طبری ،جلد ۲،صفحہ ۶۳۔تاریخ ابن اثیر، جلد ،صفحہ ۲۴۔مسند احمد بن حنبل، صفحہ ۲۶۳۔

۲۹

اور یہ نشست کسی نتیجہ کے بغیر ختم ہو گئی ،دوسرے دن پھر رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب کو بلایا، جب سب جمع ہوگئے سب کو کھانا کھلایا اور جب سب کھانا کھا چکے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یوں خطبہ دیا :''اے بنی عبد المطلب! خدا کی قسم میں نے قوم عرب میں کسی ایسے جوان کا مشاہدہ نہیں کیا جو قوم میں مجھ سے بہتر چیزیں لیکر آیا ہو ،میں تمہارے لئے دنیا و آخرت کی بھلا ئی لیکر آیا ہوں ،خدا وند عالم نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں تمھیں اس کی دعوت دوں، تو تم میں سے جو بھی میری اس کام میں مدد کرے گا وہ میرا بھائی ،وصی اور خلیفہ ہوگا ؟''۔

پوری قوم پر سنّاٹا چھاگیا گو یاکہ ان کے سروں پر، پرندے بیٹھے ہوں ،اس وقت امام کی نوجوا نی تھی لہٰذا آپ نے بڑے اطمینان اور جوش کے ساتھ کہا :''اے نبی اللہ!میں اس کام میں، آپ کی مدد کروں گا ''۔

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر قوم سے مخاطب ہو کر فرمایا : '' بیشک یہ میرے بھائی ،وصی اور تمہارے درمیان میرے خلیفہ ہیں ان کی باتیں سنو اور ان کی اطاعت کرو ''۔

یہ سن کر مضحکہ خیز آوازیں بلند ہونے لگیںاور انھوں نے مذاق اڑاتے ہوئے ابوطالب سے کہا:''تمھیں حکم دیا گیا ہے کہ تم اپنے بیٹے کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو ''۔(۱)

علماء کا اتفاق ہے کہ یہ حدیث واضح طور پر امیر المو منین کی امامت پر دلالت کر تی ہے ،آپ ہی نبی کے وصی ،وزیر اور خلیفہ ہیں ،اور ہم نے یہ حدیث اپنی کتاب''حیاة الامام امیرالمو منین ''کے پہلے حصہ میں مفصل طور پر بیان کی ہے ۔

شعب ابی طالب

قریش کے سر کردہ لیڈروں نے یہ طے کیا کہ نبی کو شِعب ابو طالب میں قید کردیاجائے، اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

کو وہاں رہنے پر مجبور کیاجائے تا کہ آپ کا لوگوں سے ملنا جلنا بند ہو جائے اور ان کے عقائدمیں کو ئی تبدیلی نہ ہو سکے ، اور وہ آپ کے اذہان کو جا ہلیت کے چنگل سے نہ چھڑاسکیں،لہٰذا انھوں نے بنی ہاشم کے خلاف مندرجہ ذیل معاہدے پر دستخط کئے :

____________________

۱۔تاریخ طبری ،جلد ۲، صفحہ ۶۳۔تاریخ ابن اثیر، جلد ۲،صفحہ ۲۴۔مسند احمد، صفحہ ۲۶۳۔

۳۰

۱۔وہ ہاشمیوںسے شادی بیاہ نہیں کریں گے ۔

۲۔ان میں سے کو ئی ایک بھی ہاشمی عورت سے شادی نہیں کر ے گا ۔

۳۔وہ ہاشمیوں سے خرید و فروخت نہیں کریں گے ۔انھوں نے یہ سب لکھ کر اور اس پر مہر لگا کرکعبہ کے اندر لٹکادیا ۔

پیغمبر کے ساتھ آپ پر ایمان لانے والے ہاشمی جن میں سر فہرست حضرت علی تھے سب نے اس شعب میں قیام کیا ، اور وہ مسلسل وہیں رہے اور اس سے باہر نہیں نکلے وہ بد ترین حالات میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہے اور ام المومنین خدیجہ نے ان کی تمام ضروریات کو پورا کیا یہاں تک کہ اسی راستہ میں ان کی عظیم دولت کام آگئی ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شعب میں اپنے اہل بیت کے ساتھ دو یا دو سال سے زیادہ رہے ، یہاں تک کہ خدا نے دیمک کو قریش کے معاہدہ پر مسلط کیا جس سے وہ اس کو کھا گئیں ،اُدھر رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب ابوطالب کے ذریعہ یہ خبر پہنچا ئی کہ عہد نامہ کو دیمک نے کھا لیا ہے وہ جلدی سے عہد نامہ کے پاس آئے توانھوں نے اس کو ویسا ہی پایا جیسا کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کی خبر دی تھی تو ان کے ہوش اڑگئے ، قریش کی ایک جماعت نے ان کے خلاف آواز اٹھا ئی اور ان سے نبی کو آزاد کرنے کا مطالبہ کیا جس سے انھوں نے نبی کو چھوڑ دیا نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے اہل بیت کے ساتھ قید سے نکلے جبکہ ان پر قید کی سختیوں کے آثار نمایاں تھے۔

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے شعب سے باہر نکل کر قریش کی دھمکیوں کی پروا نہیں کی اور پھر سے دعوت توحید کا اعلان کیا ،ان کا مقابلہ کرنے میں آپ کے چچا ابو طالب ،حضرت علی اور بقیہ دوسرے افراد نے بڑی مدد کی،یہی لوگ آپ کی مضبوط و محکم قوت بن گئے ،اور ابو طالب رسالت کا حق ادا کرنے کے متعلق یہ کہہ کر آپ کی ہمت افزائی کر رہے تھے :

اذهب بنّى فماعلیک غضاضةُ

اذهب وقرّ بذاک منک عیونا

واللّٰه لَنْ یَصِلُوا الیک بِجَمْعِهِمْ

حتی اُوسد فی التراب دفینا

وَدعوتن وعلِمتُ انکّ ناصِحِ

ولقد صدقتَ وکنتَ قَبْلُ اَمِیْنا

۳۱

وَلقد علِمتُ بِاَنَّ دِینَ محمدٍ

مِنْ خیرِ اَدیانِ البریة دِیْنا

فَاصدَعْ بِاَمْرِکَ مَاعَلَیْکَ غضَاضَةُ

وَابْشِرْ بِذَاکَ وَقُرَّ عُیُوْنَا(۱)

''بیٹے جائو تمھیں کو ئی پریشانی نہیں ہے ،جائو اور اس طرح اپنی آنکھیں روشن کر و۔

خدا کی قسم وہ اپنی جماعت کے ساتھ اس وقت تک تم تک نہیں پہنچ سکتے جب تک میں دنیا سے نہ اٹھ جائوں ۔

تم نے مجھے دعوت دی اور مجھے یقین ہو گیا کہ تم میرے خیر خواہ ہو ،تم نے سچ کہا اور پہلے بھی تم امانتدار تھے ۔

مجھے یقین ہو گیا ہے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دین دنیا کا سب سے بہترین دین ہے۔

لہٰذا اپنی دعوت کا اعلان کرو اور تمھیںذرہ برابر ملال نہ ہو ،تم خوش رہواپنی آنکھیں ٹھنڈی کرو ''۔

یہ اشعار ابوطالب کے صاحب ایمان ،اسلام کے حا می اور مسلمانوں میں پہلے مجاہد ہونے پر دلالت کر تے ہیں ،اور ان کے ہاتھ ٹوٹ جا ئیںجو ابو طالب کو صاحب ایمان نہیں سمجھتے ،اس طرح کی فکر کرنے والوں کا ٹھکانا جہنم ہے ،حالانکہ ان کو یہ علم ہے کہ ابوطالب کا بیٹا جنت و جہنم کی تقسیم کرنے والا ہے ۔

بیشک ابو طالب اسلامی عقائد کے ایک رکن ہیں ،اگر آپ ابتدا میں پیغمبر کے موافق نہ ہوتے تو اسلام کا نام اور دستور و قواعد کچھ بھی باقی نہ رہتے اور قریش ابتدا ہی میں اس کا کام تمام کردیتے ۔

امام کا نبی کے بستر پر آرام کرنا (شب ہجرت)

یہ امام کی ایسی خو بی ہے جس کا شمارآپ کے نمایاں فضائل میں ہوتا ہے یعنی آپ نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر نبی کی حفاظت کی ہے اور نبی کی محبت میںموت کا بخو شی استقبال کیاہے اسی لئے عالم اسلام میں آپ سب سے پہلے فدا ئی تھے۔

جب قریش نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قتل کرنے اور ان کی زندگی کا خاتمہ کرنے کے لئے آپ کے

____________________

۱۔حیاةالامام امیر المو منین ،جلد ۱، صفحہ ۱۳۷۔

۳۲

بیت الشرف کا اپنی ننگی تلواروں سے محاصرہ کیاتو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو بلا بھیجا اور ان کو قوم کے ارادہ سے آگاہ کیا ، ان کو اپنے بستر پرسبزچادر اوڑھ کر سونے کا حکم دیا تاکہ کفار آپ کو نبی سمجھتے رہیں ،امام نے نبی کے حکم کا خنداں پیشانی کے ساتھ استقبال کیاگویا آپ کو ایسی قابل رشک چیزمل گئی جس کا کبھی خواب تک نہیں دیکھا تھا، نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اُن کے درمیان سے نکل گئے اور ان کو خبر بھی نہ ہو ئی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اُن کے منحوس چہروں کی طرف ایک مٹھی خاک یہ کہتے ہوئے پھینکی:''شاھت الوجوہ ذُلّاً'' ، ''رسوائی کی بنا پر چہرے بگڑ جا ئیں ' '، اس کے بعد قرآن کریم کی اس آیت کی تلاوت فرمائی:

( وَجَعَلْنَامِنْ بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ سَدّاً وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدّاً فَاَغْشَیْنَاهُمْ فَهُمْ لَایُبْصِرُوْنَ ) ۔(۱)

'' اور ہم نے ایک دیوار ان کے سامنے اور ایک دیوار ان کے پیچھے بنا دی ہے پھر انھیں عذاب سے ڈھانک دیا ہے کہ وہ کچھ دیکھنے کے قابل نہیں رہ گئے ہیں ''۔

حضرت علی کا نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بستر پر رات گذارنا آپ کے جہاد کی درخشاں تصویر اور ایسی بے مثال منقبت ہے جس کا جواب نہیں لایا جا سکتا اور خداوند عالم نے آپ کی شان میںیہ آیت نازل فرما ئی :

( وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِی نَفْسَهُ ابْتِغَائَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ ) ۔(۲)

''لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنے نفس کوبیچ کر مرضی الٰہی خرید لیتے ہیں ''۔

____________________

۱۔سورئہ یس، آیت ۹۔

۲۔سورئہ بقرہ ،آیت ۲۰۷۔

۳۳

اس عزت و شرف کی اسلامی پیغام میںبڑی اہمیت ہے جس تک کو ئی بھی مسلمان نہیں پہنچ سکا ، شاعر کبیر شیخ ہاشم کعبی امام کی یوں مدح سرا ئی کرتے ہیں :

وَمَوَاقِفُ لَکَ دُوْنَ اَحْمَدَ جَاوَزَتْ

بِمَقَامِکَ التَّعْرِیْفَ وَالتَّحْدِیْدا

فَعَلیٰ الْفِرَاشِ مَبِیْتُ لَیْلِکَ وَالْعِدْ

تُهْدِیْ اِلَیْکَ بَوَارِقا ًوَرُعُوْداً

فَرْقَدْتَ مَثْلُوْ جَ الْفُؤَادِ کَاَنَّمَا

یُهْدِ الْقَرَاعُ لِسَمْعِکَ التَّغْرِیْداً

فَکَفَیْتَ لَیْلَتَهُ وَقُمْتَ مُعَارِضا

جَبَلاً اَشَمَّ وَفَارِساً صِنْدِیْدا

رَصَدُواالصَبَاحَ لِیُنْفِقُواکَنْزَالهُدیٰ

أَوَمَا دَرَوْاکَنْزَالهُدیٰ مَرْصُوداً؟

''(اے علی)حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو چھوڑ کر آپ کے درجات اور مقامات تعریف و ثنا کی حد سے بالا ہیں ۔

چنانچہ آپ شب ہجرت اس عالم میں بستر رسول پر سوئے کہ دشمن شمشیروں کے ذریعہ آپ کو گھیرے ہوئے تھے ۔

پھر بھی آپ نہایت سکون کے ساتھ سوئے گویا،آپ کے گوش مبارک میں نغمہ ٔ معنویت گونج رہا تھا ۔

آپ نے اس شب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کی اور صبح کے وقت مضبوط پہاڑاور بے مثال شہسوار کی مانند بیدار ہوئے ۔

انھوں نے مخزن ہدایت کوخرچ کرنے کے لئے صبح کا انتظار کیا جبکہ انھیں نہیں معلوم تھا کہ خود خزانہ ٔ ہدایت ان کے انتظار میں تھا''۔

۳۴

امام نے پوری رات خدا سے اس دعا میں گذاردی کہ خدا ان کی اس محنت و مشقت کے ذریعہ ان کے بھا ئی کو بچائے اور ان کو دشمنوں کے شر سے دور رکھے ۔

جب صبح نمودار ہو ئی تو سرکشوں نے ننگی تلواروں کے ساتھ نبی کے بستر پر دھاوا بول دیا تو حضرت علی ان کی طرف اپنی ننگی تلوار لئے ہوئے شیر کی مانند بڑھے جب انھوں نے علی کو دیکھا تو ان کے ہوش اُڑگئے وہ سب ڈر کر اما م سے کہنے لگے :محمد کہا ں ہیں ؟

امام نے ان کے جواب میں فرمایا:''جَعَلْتُمُوْنِیْ حَارِساًعَلَیْهِ؟''

''کیا تم نے مجھے نبی کی حفاظت کے لئے مقرر کیا تھا ؟''۔

وہ بہت ہی مایوسی ا ور ناراضگی کی حالت میں الٹے پیر پھر گئے، چونکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کے ہاتھ سے نکل چکے تھے وہ نبی جو ان کو آزاد ی دلانے اور اُن کے لئے عزم و ہمت کا محل تعمیر کرنے کیلئے آئے تھے ،قریش جل بھُن گئے اور آپ کو بہت ہی تیز نگاہوں سے دیکھنے لگے لیکن امام نے کو ئی پروا نہیں کی اور صبح وشام ان کا مذاق اڑاتے ہوئے رفت و آمد کرنے لگے ۔

امام کی مدینہ کی طرف ہجرت

جب رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکہ سے مدینہ ہجرت کر گئے تو علی نے نبی کے پاس مو جودہ امانتوں کو صاحبان امانت کے حوالہ کیا، نبی جن کے مقروض تھے ان کا قرض اداکیا ،چونکہ آپ ان کے متعلق نبی سے وعدہ کر چکے تھے، آپ وہاں کچھ دیر ٹھہر کر اپنے چچازاد بھا ئی سے ملحق ہونے کیلئے مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے، آپ کے ساتھ عورتیں اور بچے تھے ، راستہ میں سات سرکشوں نے آپ کا راستہ روکنا چاہا ،لیکن آپ نے بڑے عزم وہمت کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا اور ان میں سے ایک کو قتل کیا اور اس کے باقی ساتھی بھاگ نکلے ۔

امام بغیر کسی چیز کے مقام بیداء پر پہنچے ،آپ صرف رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کرنے کا شوق رکھتے تھے لہٰذا آپ مدینہ پہنچ گئے ،ایک قول یہ ہے :آپ نے مدینہ میں داخل ہونے سے پہلے مسجدقبا میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کی ، نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ کی آمد سے بہت خوش ہوئے کیونکہ آپ کی ہر مشکل میں کام آنے والے مددگار آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس پہنچ گئے تھے ۔

۳۵

امام ، قرآن کی نظرمیں

حضرت علی کے متعلق قرآن کریم میں متعدد آیات نا زل ہو ئی ہیں ، قرآن نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد آپ کواسلام کی سب سے بڑی شخصیت کے عنوان سے پیش کیا ہے ،اللہ کی نگاہ میں آپ کی بڑی فضیلت اوربہت اہمیت ہے ۔متعدد منابع و مصادر کے مطابق آپ کی شان میں تین سو آیات نازل ہو ئی ہیں(۱) جو آپ کے فضل و ایمان کی محکم دلیل ہے۔

یہ بات شایان ذکر ہے کہ کسی بھی اسلا می شخصیت کے سلسلہ میں اتنی آیات نازل نہیں ہوئیںآپ کی شان میں نازل ہونے والی آیات کی مندرجہ ذیل قسمیں ہیں :

۱۔وہ آیات جو خاص طور سے آپ کی شان میں نازل ہوئی ہیں ۔

۲۔وہ آیات جو آپ اور آپ کے اہل بیت کی شان میں نازل ہو ئی ہیں ۔

۳۔وہ آیات جو آپ اور نیک صحابہ کی شان میں نازل ہو ئی ہیں ۔

۴۔وہ آیات جو آپ کی شان اور آپ کے دشمنوں کی مذمت میں نازل ہو ئی ہیں ۔

ہم ذیل میں ان میں سے کچھ آیات نقل کر رہے ہیں :

____________________

۱۔تاریخ بغداد، جلد ۶،صفحہ ۲۲۱۔صواعق محرقہ ،صفحہ ۲۷۶۔نورالابصار ،صفحہ ۷۶،وغیرہ ۔

۳۶

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

بہتر یہ ہے کہ ہم دونوں اکٹھے بازار چلیں او رکوئی سستا لباس تلاش کریں،

ہم دونوں بازار کی طرف چل دیئے راستے میں ایک لڑکی گلی کے کنارے بیٹھی رو رہی تھی_ رسول خدا(ص) اس کے نزدیک گئے اور پوچھا ''پیاری بیٹی'' کیا ہوا ہے؟ کیوں پریشان ہو؟

کیوں رو رہی ہو؟

وہ چھوٹی بچّی پیغمبر خدا(ص) کو پہچانتی تھی اس نے اپنی آنکھوں سے آنسو صاف کئے اور بولی:

یا رسول اللہ(ص) میں ایک گھر کی کنیز او رخدمتگار ہوں مجھے چار درہم دیئےئے کہ ان سے سودا خریدوں لیکن وہ پیسے مجھ سے کہیں گم ہوگئے ہیں، اگر خالی ہاتھ گئی تو وہ پوچھیں گے اور مجھے ماریں گے_ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا کہ کیا کروں؟ گھر جانے کی ہمت نہیں ہو رہی ...''

پیغمبر خدا(ص) نے نہایت مہربانی اور شفقت سے اسے تسلّی دی اور فرمایا:

بیٹی افسوس نہ کرو، یہ چار درہم لو اور سودا لے کر گھر لوٹ جاؤ''

اس لڑکی نے وہ درہم لئے اور خوش خوش وہاں سے چلی گئی ہم بھی بازار کی طرف روانہ ہوگئے پیغمبر(ص) نے ایک سادہ لباس چار درہم میں

۲۲۱

خریدا وہیں پہنا اور خدا کا شکر ادا کیا''

کیا ہی اچھا ہوا گر آپ یہ جان لیں کہ جب پیغمبر(ص) نیا لباس پہنتے تھے تو کیا دعا فرماتے تھے آپ(ص) فرماتے تھے_

اللہ کا شکر ہے کہ اس نے یہ لباس مجھے عنایت فرمایا تا کہ اس کے ذریعے میں اپنے بدن کو ڈھانپ سکوں خدایا اس لباس کو میرے لئے خیرو برکت کا لباس قرار دے اور مجھے اس میں سالم اور عافیت سے رکھ''

ہمارے پیغمبر گرامی کبھی اللہ تعالی کی یاد سے غافل نہیں ہوا کرتے تھے اپنے آپ کو اس کا بندہ سمجھے تھے اور ہمیشہ اس کے بے شمار الطائف اور نعمتوں پر شکر ادا کرتے تھے_

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:

جب ہم گھر واپس آئے تو ایک آدمی کو دیکھا جو ایک پھٹا پرانا لباس پہنے ہوئے لوگوں سے مدد کا طالب ہے اور کہہ رہا ہے کہ جو بھی میرے جسم کو لباس کے ذریعہ ڈھانپے گا خدا اسے بہشتی لباس پہنائے گا_ پیغمبر(ص) اس کے نزدیک گئے، ابھی کچھ دیر پہلے جو لباس آپ(ص) نے خریدا تھا اسے اپنے جسم سے اتارا اور اس مرد کو دے دیا اور فرمایا کہ اسے پہن لو، آپ(ص) نے کچھ دیر اس س اور باتیں کیں، وہ آدمی بہت خوش ہوا اور پیغمبر(ص) کا شکریہ ادا کرنے لگا''

پیغمبر(ص) نے فرمایا:

۲۲۲

جو مسلمان اللہ کی رضا کی خاطر کسی مسلمان کو لباس دے گا تو جب تک وہ لباس اس مسلمان کے جسم پر رہے گا لباس دینے والا خدا کی ضمانت و حفاظت اور خیر و برکت ہیں رہے گا_

ہم دوبارہ بازار آئے اور چار در ہم میں ایک اور قمیص خریدی پیغمبر(ص) نے اسے پہنا اور پھر اسی طرح اللہ کا شکر ادا کیا اور گھر کی طرف واپس آنے لگے راستہ میں ہمیں یہ دیکھ کر بہت تعجب ہوا کہ وہ لڑکی جسے ہم نے پہلے چار درہم دیے تھے وہ ابھی تک گلی کے کنارے بیٹھی ہوئی ہے پیغمبر(ص) اس کے نزدیک گئے اور پوچھا:

گھر کیوں نہیں گئی؟ کیا کچھ خریدا نہیں؟''

لڑکی نے جواب دیا:

یا رسول اللہ کیوں نہیں چیزیں تو میں نے خرید لی ہیں لیکن بہت دیر ہوگئی ہے ، میں ڈرتی ہوں کہ گھر والے مجھے ماریں گے اور کہیں گے کہ اتنی دیر کیوں کی؟''

پیغمبر(ص) نے فرمایا''

ڈرو نہیں، میں تمہارے ساتھ چل کر تمہاری سفارش کرتا ہوں لڑکی خوش ہوگئی اور گھر کا پتہ بتانے کے لئے ہمارے آگے آگے چلنے لگی جب ہم گھر کے دروازے پر پہنچے تو پیغمبر(ص) نے بآواز بلند گھر کے مالک کو سلام کیا کسی نے جواب نہ دیا، دوبارہ سلام کیا پھر بھی کوئی جواب نہ پایا _

پیغمبر(ص) ہمیشہ پسند کرتے تھے کہ مسلمانوں کو سلام کریں،

۲۲۳

جس کے پاس سے گزرتے اسے سلام کرتے خواہ وہ فقیر ہو یا امیر، چھوٹا ہو یا بڑا آپ(ص) نہایت عمدہ سلوک و رفتار کے مالک تھے آپ(ص) کے لبوں پر ہمیشہ ہلکی ہلکی مسکراہٹ کھیلتی رہتی اورآپ(ص) زور سے قہقہہ لگا کرنہیں ہنستے تھے، ہمیشہ انکساری سے پیش آتے تھے لیکن اس انکساری میں احساس کمتری کا ذرہ برابر شائبہ تک نہ ہوتا تھا آپ(ص) سخی تھے لیکن ہرگز فضول خروچی نہیں کرتے تھے نرم دل اور رقیق القلب تھے، تمام مسلمانوں سے محبت کرنے والے اور ان پر مہربان تھے،

اسی تواضح و انکساری کے پیش نظر آپ(ص) نے تیسری مرتبہ سلام کیا کسی نے گھر کے اندر سے جواب دیا،

السلام علیکم یا رسول اللہ(ص)

اور فوراً دروازہ کھول دیا_

رسول خدا(ص) نے فرمایا:

میں نے اس سے پہلے دو مرتبہ سلام کیا تھا لیکن تم نے کوئی جواب نہیں دیا، کیا میری آواز کو نہیں سن رہے تھے؟

صاحب خانہ نے دست بستہ عرض کیا:

کیوں نہیں یا رسول اللہ(ص) لیکن آپ(ص) کی دلکش آواز اور سلام کرنا میرے دل کو اس قدر بھایا کہ بے اختیار میرا جی آپ(ص) کی من موہنی آواز کو دوبارہ سننے کے لئے مچل گیا''

پیغمبر خدا(ص) نے فرمایا:

یہ لڑکی تاخیر سے گھر لوٹی ہے لیکن یہ بے قصور ہے، میں اس لئے آیا

۲۲۴

ہوں کہ اس کی سفارش کروں، تم اسے معاف کردو''

صاحب خانہ کہا،

یا رسول(ص) اللہ آپ(ص) کی بابرکت تشریف آوری کے سبب میں نے اس لڑکی کو معاف کیا اور راہ خدا میں آزاد کیا،

پیغمبر خدا(ص) بہت خوش ہوئے، صاحب خانہ کا شکریہ ادا کیا اور ساتھ ہی ساتھ خداوند عالم کا بھی شکر ادا کیا_

واپسی میں آپ(ص) نے مجھ سے فرمایا:

یا علی (ع) یہ بارہ درہم کتنے بابرکت تھے جنہوں نے دو آدمیوں کو لباس پہنایا اور ایک کنیز کو آ زاد کردیا''

سچ ہے، اگر پیغمبر(ص) نے اس قیمتی لباس کو پہن لیا ہوتا تو کس طرح ممکن تھا کہ ان کی مدد ہوسکی تھی پیغمبر(ص) کے بارے میں کتنا اچھا کہا گیا ہے کہ وہ ''خفیف المؤونہ و کثیر المعونہ'' (کمتر مدد لینے والے اور زیادہ مدد کرنے والے) البتہ ہر مسلمان کو چاہیئےہ وہ آپ(ص) کی پیروی اختیار کر کے ایسا ہی ہوجائے_

آیت قرآن

( امنوا بالله و رسوله و انفقوا ممّا جعلکم مستخلفین فیه فالّذین امنوا منکم و انفقوا لهم اجر کبیر)

۲۲۵

خدا اور اس کے رسول (ص) پر ایمان لاؤ اور اس سے جو خدا نے بطور امانت تمہارے اختیار میں قرار دیا ہے خرچ کرو تم میں سے جو لوگ ایمان لے آئے اور خرچ کرتے ہیں ان کے لئے بہت بڑا اجر ہوگا_

''سورہ مائدہ آیت ۷''

سوچئے اور جواب دیجئے

۱) ___وہ چھوٹی بچّی جو پیغمبر اکرم(ص) کو راستے میں ملی کیوں رو رہی تھی؟ پیغمبر(ص) نے اس سے کیا پوچھا؟ اس نے آپ(ص) کو کیا جواب دیا؟

۲)___ جب پیغمبر(ص) نیا لباس پہنتے تھے تو کس طرح اور کن الفاظ میں اللہ کا شکر ادا کرتے تھے؟ اور خدا سے کیا طلب کرتے تھے؟

۳) ___پیغمبر(ص) نے ایک مسلمان کو رضائے الہی کی خاطر لباس پہننے کا کیا ثواب بیان فرمایا ہے؟

۴) ___پیغمبر(ص) نے واپس لوٹنے پر اس لڑکی کس حالت میں دیکھا؟ اور اس سے کیا گفتگو کی؟

۵)___ رسول (ص) کی سیرت لوگوں کو سلام کرنے اور ان سے میل ملاپ میں کیسی تھی؟ کیا تم بھی کوشش کرو گے کہ رسول (ص) کی طرح لوگوں سے شفقت اور مہربانی سے پیش آؤ؟

۲۲۶

۶)___ رسول خدا(ص) کے بارے میں کہا گیا کہ وہ خفیف الموؤنہ اور کثیر المعونہ'' تھے اس کی وضاحت کیجئے؟

۷)___ پیغمبر خدا(ص) کی صفات میں سے دس صفات کو بیان کیجئے؟

۲۲۷

باہمی تعاون

جو شخص بھی اپنے آپ کودوسروں سے برتر سمجھے اور اپنے بوجھ کو دوسروں پر ڈالے، خدا کے غیظ و غضب کا شکار ہوگا''

لعنت اور نفرین ہو اس پر کہ جو اپنی زندگی کا بوجھ دوسرے کے کندھے پر ڈالتا ہے،

یہ دونوں اقوال رسول گرامی (ص) کے ہیں_ آپ(ص) مسلمانوں کو تعلیم دیتے ہیں کہ سستی اور تن پروری سے پرہیز کریں او رمحنت و کوشش سے اپنی روزی اپنے ہاتھ سے کمائیں خدا کے لطف و کرم کی امید رکھیں اور اپنی دنیا کو پاک و پاکیزہ اور آباد بنائیں''

نہ صرف یہ کہ اپنے بوجھ کو دوسروں پر نہ ڈالیں بلکہ دوسرے مسلمانوں

۲۲۸

کے بوجھ کو بھی بانٹیں او راپنی مدد کا ہاتھ ان کی طرف بڑھائیں اور جان لیں کہ خداوند عالم نیکی کرنے والوں کو پسند کرتا ہے اور ان کے اجر کو ضائع نہیں کرتا:

جانتے ہیں، رسول خدا(ص) نے اس نیک خصلت کی لوگوں کو کس طرح تعلیم دی____؟

کیا صرف اپنی گفتگو سے____؟

نہیں بلکہ گفتار سے زیادہ اپنے رفتار و عمل سے آپ(ص) نے اچھی باتوں کی تعلیم دی کیونکہ پیغمبراکرم(ص) جو کچھ فرماتے تھے اس پر کامل ایمان رکھتے تھے اور اس سے پہلے کہ لوگوں کو کسی کام کی دعوت دیں، خود اس پر ایمان اور بصیرت سے عمل کرتے تھے_

لوگ بھی چونکہ آپ(ص) کی صداقت اور ایمان کو نہ صرف آپ کے قول میں بلکہ آپ کے اعمال و افعال بھی دیکھ رہے ہوتے تھے لہذا آپ(ص) سے اور آپ(ص) کے خدائی پیغام سے عقیدت کا اظہار کرتے اور آپ(ص) کی پیروی کرتے تھے،

اس بات کو اچھی طرح سمجھنے کے لئے بہتر یہ ہے کہ ہم آپ(ص) کے ساتھ ایک سفر پر چلیں اور آپ(ص) کے سلوک و رفتار اور عادات و اطوار کو بالخصوص لوگوں کی مدد اور ان سے مدد و تعاون کے سلسلے میں آپ(ص) کی روش کو قریب سے دیکھیں_

پیغمبر(ص) سفر پر جانے کے لئے تیار ہیں آپ(ص) نے کنگھی، مسواک، اور مختصر سا سامان سفر اٹھایا، اور اپنے ہم سفروں اور ساتھیوں کو بھی

۲۲۹

ہدایت کر رہے ہیں کہ وہ سب بھی اپنا سامان سفر اور ضرورت کی چیزیں ساتھ لے لیں تا کہ سفر میں دوسروں کے لئے زحمت کا باعث نہ بنیں_

تمام تیاریاں مکمل ہونے کے بعد آپ(ص) نے گھر سے نکلتے ہوئے اپنے اہل و عیال او ردوستوں کو نہایت گرم جوشی سے خداحافظ کہا جب قافلہ روانگی کے لئے حرکت میں آیا تو آپ نہایت خضوع و خشوع کے ساتھ خداوند متعال سے یوں مخاطب ہوئے_

خدایا تیری رضا و عنایت سے سفر کر رہا ہوں اور تیری ذات کی طرف متوجہ ہوں اور تیری رحمت پر اعتماد کرتا ہوں_ خدایا اس سفر میں تمام امید و اطمینان تیرے لطف سے وابسطہ ہے تو میری حاجات کو برلا جس چیز کو تو میرے لئے پسند کرتا ہے اسی کی توفیق عنایت فرما کہ تو میری مصلحت کو مجھ سے بہتر جانتا ہے خدایا: پرہیز گاری اور تقوی کو میرے راستے کا سامان قرار دے او رمجھے اپنی رحمت و مغفرت کا مستحق قرار دے اور جس طرف بھی جاؤں مجھے نیکی اور اچھائی کی طرف متوجہ کردے''

اس سفر میں بھی دوسرے سفروں کی طرح آپ(ص) کاروان کے آخر میں چل رہے تھے تا کہ کمزور و ضعیف اور پیچھے رہ جانے والوں کی خبرگیری کرتے رہیں_

راستے میں ایک جگہ کھانا کھانے اور سستانے کے لئے

۲۳۰

یہ قافلہ ٹھہرا پیغمبر اکرم(ص) کے فرمان اور خواہش کے مطابق اونٹوں سے سامان اتار کر انہیں بیابان میں چھوڑ دیا گیا تا کہ وہ بھی گھاس پھونس سے اپنا پیٹ بھرلیں_

قافلہ کا ہر آدمی کسی نہ کسی کام میں مشغول ہوگیا ایک گروہ پانی لینے چلا گیا، کچھ لوگوں نے دنبہ ذبح کیا اور اس کی کھال اتارنے میں مشغول ہوگئے_ ایک دو آدمی انٹوں کی حفاظت کرنے لگے اسی دوران پیغمبر(ص) نے فرمایا کہ میں آگ جلانے کے لئے بیابان سے سو کھی لکڑیاں اکٹھی کر کے لاتا ہوں_

اصحاب نے کہا:

یا رسول اللہ(ص) آپ (ص) تھکے ہوئے ہیں آرام کریں ہم خود سب کام انجام دے لیں گے؟''

آپ کا کیا خیال ہے؟

آیا رسول خدا(ص) نے اصحاب کی اس پیش کش کو قبول کرلیا ہو گا اور اپنی تھکاوٹ دور کرنے کے لئے آ رام کی غرض سے لیٹ گئے ہوں گے؟

اس سلسلہ میں کیا جواب ہے آپ کا؟ خدا اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کوئی اپنے آپ کو دوسروں سے برتر سمجھے اور اپنے کام کی زحمت کو ان کی گردن پر ڈالے

یہ تھا پیغمبر اکرم(ص) کا جواب :

تم بھی میری طرح سفر سے تھکے ہوئے ہو جس طرح

۲۳۱

میں غذا کھانے میں تمہارے ساتھ شریک ہوں گا کام کرنے میں بھی مجھے تمہارا شریک ہونا چاہیئےہ اسلامی طریقہ نہیں ہے کہ میں آرام کروں ا ور تم لوگ کام کرو نہیں ایسا نہیں ہوگا میں بھی تمہاری طرح کوئی کام انجام دوں گا''

آپ(ص) اٹھے اور جلانے کے لئے سوکھی لکڑیاں جمع کرنا شروع کردیں_ اس طرح تمام لوگوں نے مل جل کر اور باہمی تعاون سے کھانا تیار کیا ا ور نہایت مہر و محبت کے ساتھ اکٹھے بیٹھ کر تناول کیا_

پیغمبر اسلام(ص) باوجود اس مقام او رخدائی منصب اور اجتماعی حیثیت کے ایک عام مسلمان کی طرح زندگی بسر کرتے تھے آپ(ص) کی خوراک اور لباس بھی دوسرے عام مسلمانوں کی طرح تھا بلکہ بسا اوقات ان سے بھی زیادہ معمولی قیمت کا ہوا کرتا تھا اپنے ذاتی کاموں کو اکثر اوقات خود ہی انجام دیتے تھے اپنی جوتی اور لباس کو پیوند لگاتے تھے گھر کے کاموں میں مدد فرمایا کرتے تھے مشکیزہ کے ذریعہ گھر میں پانی لاتے تھے اور کبھی کبھی خودد کھانا تیار کرتے تھے: بچّوں کی نگہداشت و پرورش میں مدد کیا کرتے تھے_ گھر کا دروازہ کبھی خود آکر کھولتے تھے گندم اور جو کا آتا پیسنے اور روٹی پکانے میں مدد کیا کرتے تھے، حیوانات کا دودھ دوہتے تھے، انہیں پانی پلاتے اور چارہ ڈالتے تھے،

کشادہ روٹی سے لوگوں سے پیش آتے تھے اور خندہ پیشانی کے ساتھ لوگوں سے گفتگو کرتے تھے، کوشش کرتے تھے کہ ہر ایک کو یہاں تک کہ بچّوں کو بھی سلام کریں اور فرمایا کرتے تھے کہ:

۲۳۲

میں بچّوں کو سلام کرتا ہوں تا کہ بچّوں کا احترام او رعزّت میری امت کی ایک اچھی سنّت قرار پائے اور مسلمان بچّوں کو سلام کریں اور ان کا احترام کریں،

آپ(ص) بد مزاج اور بد زبان نہیں تھے اگر آپ کے سامنے کوئی کسی کی برائی کرتا تو آپ(ص) ناراض ہوجاتے اور فرماتے کہ رک جاؤ، کوئی اور بات کرو سب مسلمانوں کے لئے مہربان اور ہمدرد تھے اور ان کی مدد کو پہنچتے تھے_ اور اپنے کام دوسروں پر ڈالنے سے پرہیز کرتے تھے،

ایک دن مسلمانوں کی ایک جماعت جو سفر سے لوٹ کر آئی تھی آپ(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اپنے ساتھیوں میں سے ایک کی تعریف کرنے لگی_

یہ لوگ کہنے لگے وہ کتنا دیندار اور متّقی ہے اس نے کسی کو کوئی تکلیف اور ایذ انہیں پہنچائی جب ہم راستے ہیں کہیں قیام کرتے تو وہ فوراً پانی تلاش کر کے وضو کرتا اور نماز میں مشغول ہوجاتا اسے سوائے نماز اور دعا کے کسی کام سے سروکار نہ تھا،

پیغمبر اکرم(ص) نے دریافت کہا:

اگر اس کی سفر میں یہ عادت تھی تو اس کے کام کاج کون کرتا تھا؟ اس کے اونٹ کا سامان کون اتارتا تھا؟ کون اس کے لئے غذا اور پانی لاتا تھا؟ کون اس کے لئے کھانا پکاتا تھا؟ اور چلتے وقت کون اس کے اونٹ پر سامان لادتا تھا؟''

یا رسول(ص) اللہ ان تمام کاموں کو ہم فخریہ طور پر انجام دیتے

۲۳۳

تھے'' ان لوگوں نے جواب دیا،

رسول خدا(ص) نے ارشاد فرمایا:

یقینا تم اس سے بہتر ہو او راللہ کے نزدیک بلند درجہ رکھتے ہو یہ ٹھیک نہیں کہ ایک مسلمان اپنے کام کا بوجھ دوسروں کی گردن پر ڈالے اور خود اپنے خیال میں عبادت کرنا شروع کردے نماز و دعا اپنی جگہ بہترین عبادت ہیں لیکن سعی و کوشش بھی ایک بہت بڑی عبادت ہے اور خداتعالی کی مخلوق کی خدمت کرنا بھی بڑی عبادت ہے''

اب آپ سوچئے کہ:

آپ کس طرح اللہ کی مخلوق کی خدمت کرتے ہیں؟ کن کاموں میں ان کے ساتھ مدد و تعاون کرتے ہیں؟

کیا آپ کا پّکا ارادہ ہے کہ اپنے مدرسے اور گھر کے کاموں کو خود انجام دیں گے اوردوسروں کے کاندھوں پر بوجھ نہیں ڈالیں گے؟

کیا آپ کوشش کرتے ہیں کہ ماں باپ اور دوسرے افراد کا بوجھ اٹھائیں اور خود کسی پر بوجھ نہ بنیں؟

مختصر یہ کہ آپ رسول خدا(ص) کی اس سنت پر کس طرح عمل پیرا ہوں گے؟

۲۳۴

آیت قرآن

( و تعاونوا علی البرّ و التّقوی و لا تعاونوا علی الاثم و العدوان)

نیک کاموں اور تقوی میں ایک دوسرے سے تعاون کرو اور ظلم و گناہ میں کسی سے تعاون نہ کرو''

سوچئے اور جواب دیجئے

۱)___ عام طور پر پیغمبر(ص) کون سی چیزیں سفر میں اپنے ہمراہ لے جاتے تھے؟ کیا آپ بتاسکتے ہیں کہ ان تمام چیزوں کا سفر میں ساتھ لے جانا رسول خدا(ص) کی کن صفات کی نشان دہی کرتا ہے___؟

۲) ___ پیغمبر(ص) سفر کرتے وقت اپنے اصحاب کو کیا تاکید کیا کرتے تھے اور کیوں؟

۳)___ رسول خدا(ص) کی عادت اور سیرت، سفر کرنے سے پہلے اپنی قوم، دوستوں اور اہل بیت (ع) کے ساتھ کیا تھی؟ پیغمبر(ص) کی یہ سیرت ہمیں کیا درس دیتی ہے؟

۴) قافلہ کی روانگی کے وقت رسول خدا(ص) کون سی دعا پڑھا کرتے تھے؟ آپ(ص) کی دعا کے الفاظ بتایئے

۲۳۵

۵) عام طور پر پیغمبر(ص) قافلے کے کس حصہ میں چلا کرتے تھے؟

۶) درمیان راہ قیام کے وقت، رسول خدا(ص) جانوروں کے متعلق کیا حکم دیا کرتے تھے؟

۷) خدا کے رسول (ص) نے غذا کی تیاری کے لئے کونسا کام اپنے ذمّہ لیا؟ اس وقت اصحاب نے آپ(ص) سے کیا کہا؟ آپ نے ان کے جواب میں کیا فرمایا؟

۸) پیغمبر(ص) بچّوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا کرتے تھے؟

۹) اگر پیغمبر(ص) کے سامنے کسی کی برائی کی جاتی تو آپ کیا فرماتے تھے؟

۱۰) پیغمبر(ص) نے ان لوگوں سے کہ جو اپنے ہمسفر کی تعریف کر رہے تھے کیا پوچھا تھا؟ اور ان سے ان کے ہمسفر کے بارے میں کیا فرمایا تھا؟

۲۳۶

ہمّت مرداں مدد خدا

اسلامی لغت میں ''سوال'' کے دو معنی بیان کئے جاتے ہیں ایک معنی پوچھنے کے ہیں_ یعنی نہ جاننے والا کسی جاننے والے سے سوال کرتا ہے، تا کہ اس طرح وہ اپنے علم میں اضافہ کرسکے اس لحاظ سے سوال کرنا بہت اچھا اور پسندیدہ فعل ہے_ جو شخص نہیں جانتا اسے چاہئے کہ وہ جاننے والوں سے سوال کرے تا کہ اس کے علم و آگاہی میں اضافہ ہوجائے دین اسلام کے پیشواؤں کے کلام میں ملتا ہے کہ علم و دانش کے بند دروازوں کی چابی ''سوال'' کرنا ہے''

سوال کے دوسرے معنی کسی سے مدد طلب کرنے اور بلامعاوضہ کوئی چیز مانگنے کے ہیں ان معنوں میں کسی سے سوال کرنا اسلامی نقطہ نگاہ سے بہت ہی برا اور ناپسندیدہ عمل ہے_

۲۳۷

ایک شخص نے پیغمبر(ص) سے پوچھا کہ:

یا رسول اللہ(ص) مجھے کوئی ایسا عمل بتایئےہ مجھے اس کے بجالانے کے بعد یقین ہوجائے کہ میں اہل جنّت میں سے ہوں''

پیغمبر(ص) نے اس کے جواب میں تین چیزوں کے متعلق فرمایا کہ اگر تم چاہتے ہو کہ آخرت میں جنتیوں کے زمرے میں شامل ہوجاؤ تو ان تین چیزوں کی ہمیشہ پابندی کرو:

۱)___ بلاوجہ غصہ نہ کرو

۲)___ کبھی لوگوں سے سوال نہ کرو

۳)___ لوگوں کے لئے وہی چیز پسند کرو جو اپنے لئے کرتے ہو_

نیز پیغمبر(ص) نے فرمایا:

جو شخص ایک دو دن کی روزی رکھنے کے باوجود لوگوں سے سوال کرے تو خداوند عالم اسے قیامت کے دن برے چہرے سے محشور کرے گا''

پیغمبر(ص) خدا مسلمانوں کی غیرت و شرافت انسانی کے اتنے قائل تھے کہ آپ کو پسند نہ تھا کہ کوئی مسلمان اپنی عزت و آبرو کو اس کے اور اس کے سامنے رسوا کرے اور بغیر ضرورت اور لاچاری کے سوال کے لئے لب کشائی کرے اور خدا کے سوا اور کسی سے حاجت طلب کرے_

آپ(ص) فرمایا کرتے تھے کہ مومن کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے آپ کو ذلیل کرتا پھرے حالانکہ آپ(ص) ضرورت کے وقت محتاجوں اور ضرورت مندوں کی مدد و نصرت بھی کیا کرتے تھے لیکن پسند نہیں کرتے کہ مومن

۲۳۸

اپنی عزّت و شرافت اور آبرو کو کسی کے سامنے رسوا کرے یہاں تک کہ خود پیغمبر(ص) کے سامنے بھی اظہار حاجت اور نیازمندی کرے اور آپ(ص) تاکید فرماتے تھے کہ:

ہر وہ شخص جو بے نیازی کا مظاہرہ کرے اور کسی سے سوال نہ کرے اور اپنے دل کے راز کو فقط اپنے خدا سے کہے تو خدا اسے بے نیاز کردے گا لیکن جو شخص بلاوجہ اس سے اور اس سے سوال کرے اور اپنی عزّت نفس کو مجروح کرے، خداوند عالم بھی اس کے لئے فقر و نیازمندی کے دروازے کھول دیتا ہے''

اس مطلب کو بہتر طور پر سمجھنے اور پیغمبر خدا(ص) کی انسان ساز اور عزّت آفرین سنّت کو اچھی طرح سمجھنے کے لئے یہ واقعہ ملاحظہ فرمایئےور اس میں حضرت رسول خدا(ص) کے اس شخص سے برتاؤ پر توجّہ دیجئے_

ایک شخص مدّت سے بے کار تھا اور بے کاری نے اسے فقیر و تہی دست کردیا تھا اس کے سامنے فقر سے نجات اور ضروریات پوری کرنے کے تمام راستے بند ہوچکے تھے اور اس کا کوئی علاج دکھائی نہ دیتا تھا ایک دن اس شخص نے اس مسئلہ کو اپنی بیوی کے سامنے بیان کیا اور اس سے مشورہ طلب کیا،

اس کی بیوی نے کہا کہ رسو ل خدا(ص) ایک مہربان اور کریم و سخی انسان ہیں بہتر ہے کہ ان کی خدمت میں جاؤ اور اپنی حالت کو بیان کرو اور ان سے مدد طلب کرو_

۲۳۹

اس شخص کو یہ تجویز پسند آئی وہ اٹھا اور رسول(ص) کی خدمت میں حاضر ہوا، سلام کیا اور شرم کے مارے ایک کونے میں بیٹھ گیا_

رسول اکرم(ص) نے اس کے چہرے پر نگاہ ڈالی اور ایک ہی نگاہ میں تمام معاملے کو سمجھ گئے اس سے پہلے کہ وہ شخص اپنی مصیبت اور تنگدستی کے متعلق کچھ کہتا اور سوال کے لئے لب کشائی کرتا پیغمبر(ص) نے گفتگو کے لئے اپنے لب کھولے اور وہاں موجود افراد سے ان الفاظ میں خطاب فرمایا:

ہم ہر سائل کی مدد کریں گے لیکن اگر وہ بے نیازی اختیار کرے اور اپنا ہاتھ مخلوق کے سامنے نہ پھیلائے اور کام میں زیادہ محنت و کوشش کرے تو خدا اس کی احتیاج کو پورا کرے گا_

خدا کے رسول(ص) کی مختصر و پر معنی گفتگو اس محتاج انسان کے دل پر اثر کر گئی_ آپ کے مقصد کو اس شخص نے سمجھ لیا اپنی جگہ سے اٹھا آپ کو خداحافظ کہا اور اپنے گھر لوٹ آیا_ بیوی جو اس کے انتظار میں تھی اس نے ماجرا دریافت کیا_

مرد نے جواب دیا کہ:

میں رسول خدا(ص) کی خدمت میں گیا تھا اس سے پہلے کہ کچھ کہتا، رسول (ص) نے فرمایا کہ جو شخص چاہے ہم اس کی مدد کریں گے لیکن اگر بے نیازی اختیار کے اور اپنا ہاتھ کسی کے سامنے نہ پھیلائے تو خدا اس کی احتیاج کو دور کردے گا میں سوچتا ہوں کہ آپ(ص) کی نظر میری

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254