‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) جلد ۴

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) 23%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 254

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 254 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 73352 / ڈاؤنلوڈ: 3704
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) جلد ۴

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

سوچئے اور جواب دیجئے

۱) ___ سورج کے کرّہ کا حجم زمین کے حجم سے کتنا زیادہ ہے؟ سورج کی سطح کا درجہ حرارت کتنا ہے؟

۲)___ سورج کی اتنی حرارت او رگرمی کے باوجود کرہ زمین کیوں نہیں جلتا؟ سورج زمین سے کتنے فاصلے پر ہے؟

۳)___ اگر سورج کا زمین سے اتنا فاصلہ نہ ہوتا تو کیا ہوتا؟ مثلاً اگر آدھا فاصلہ ہوتا تو کیا ہوتا؟ او راگر دوگنا فاصلہ ہوتا تو کیا ہوتا؟

وضاحت کیجئے؟

۴) ___ سورج کا زمین سے او رموجودات زمین سے ارتباط کیا بتاتا ہے؟

۵)___ کائنات میں پائے جانے والے گہرے حساب و کتاب اور نظم و ضبط کا مشاہدہ کس طرح خالق عظیم اور دانا و توانا کی طرف راہنمائی کرتا ہے؟

۶)___ ایک انسان کی بہترین اور بلند پایہ حالت کس وقت ہوتی ہے؟

۷)___ زمین کی طبعی حرکت کو بیان کیجئے اور اس حرکت کا نتیجہ انسانوں کیلئے کیا ہوتا ہے بیان کیجئے اور وضاحت کیجئے کہ اگر زمین کی یہ طبعی حرکت نہ ہوتی تو کیا ہوتا؟

۸)___ اس سبق میں بیان کی گئی آیت قرآن کو زبانی ترجمہ کے ساتھ یاد کیجئے؟

۲۱

ہر موجود کی علّت ہوتی ہے

درخت کے پتّے آہستہ آہستہ حرکت کر رہے ہیں_ اگر سوال کیا جائے کہ درخت کے پتّے کیوں حرکت کر رہے ہیں اور پتّوں کے حرکت کرنے کا سبب کیا ہے؟

تو جواب ہوگا:

ہوا پتّوں کو حرکت دیتی ہے_ پتّوں کے حرکت کرنے کا سبب ''ہوا'' ہے اگر ہوا نہ چلے تو پتّوں کی حرکت بھی ک جائے_ بالفاظ دیگر ہوا کا وجود پتّوں کے حرکت کرنے کی ''علّت'' ہے_ لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ پتّوں کی حرکت ''معمولی'' ہے اور ہوا ''علّت'' ہے_

''معمول'' اسے کہا جاتا ہے جو ''علّت'' کے ذریعہ سے وجود میں آئے _ اسی لئے اسے معلول کہا جاتا ہے_

آپ کے سامنے درخت سے ایک سرخ سیب زمین پرگرتا ہے_ آپ جھک

۲۲

کر اسے زمین سے اٹھا کر سونگھتے ہیں اور سوال کرتے ہیں کہ:

یہ سیب درخت سے کیوں گرا؟ اس کے گرنے کی علّت کیا تھی؟

زمین کی کشش ثقل، سیب کو اپنی طرف کھینچی ہے_ سیب کے گرنے کی ''علّت'' کشش ثقل ہے_

یہاں اس سلسلہ میں دو چیزیں ہیں_ ایک ''سیب کا گرنا'' اور دوسرا ''زمین کی کشش ثقل''_ کشش ثقل ''علّت'' ہوگی اور سیب کا گرنا ''معلول'' ہوگا_

اگر دیوار سے ٹیک لگائیں تو آپ اپنی پشت پر گرمی محسوس کرتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ دیوار کیوں گرم ہوگئی ہے؟ دیوار کے گرم ہونے کی علّت کیا ہے؟

آپ کا دوست کہتا ہے کہ مجھے علم نہیں_ آپ اٹھ کر کمرے سے باہر جاتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ دیوار کے پیچھے ایک بڑی سیاہ دیگ کے نیچے آگ جل رہی ہے_ آپ فوراً سمجھ جاتے ہیں کہ دیوار کے گرم ہونے کی ''علّت'' یہ آگ تھی_

یہاں بھی دو چیزیں موجود ہیں جو ایک دوسرے سے واسطہ رکھتی ہیں_ ایک دیوار کی گرمی اور دوسرے آگ کا وجود_ دیوار کی گرمی آگ کی وجہ سے ہے_ یعنی اگر آگ نہ ہوتی تو دیوار گرم نہ ہوتی_ اسی لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ آگ کا وجود ''علّت'' ہے اور دیوار کی گرمی اس کا ''معلول'' ہے_ علّت اور معلول کے درمیان مکمل رابطہ پایاجاتا ہے جب تک علّت نہ ہوگی معلول وجود میں نہیں آئے گا_ معلول ہمیشہ علّت کے ذریعہ وجود میں آتا ہے_

انسان اپنی زندگی کے آغاز سے ہی اس روشن حقیقت سے واقف ہے او رجانتا ہے کہ کائنات میں پائی جانے والی مختلف چیزوں کا ایک دوسرے سے ایک خاص تعلق ہوتا ہے___؟

۲۳

اور ____ کائنات کی یہ موجودات اپنے وجود و زندگی کے لئے ایک دوسرے کی محتاج ہیں_

چند مثالیں اور تجربات

اپنا ہاتھ بڑھا کر کوئی چیز اٹھایئے

ہاتھ کو بڑھانا آپ کا کام ہے اور آپ اس کام کی علّت ہیں_ اگر آپ نہ ہوتے تو یہ کام انجام نہیں پاسکتا تھا_

اسی طرح نگاہ اٹھا کر اپنے دوست کی جانب دیکھئے

یہ دیکھنا وہ کام ہے جو آپ انجام دے رہے ہیں_ بالفاظ دیگر آپ دیکھنے کی علّت ہیں_ یہ کام یعنی دیکھنا آپ سے تعلق رکھتا ہے اور اس کام کے لئے آپ کا ہونا ضروری ہے_ اگرآپ نہ ہوں تو دیکھنے کا یہ عمل انجام نہیں پاسکتا لہذا آپ ''علّت'' ہیں اور آپ کا کیا ہوا کام ''معلول''_ اس طرح یہ بھی ظاہر ہوگیا کہ ''معلول'' کا وجود ''علت'' کا محتاج ہے اور بغیر علّت کے معلول وجود میں نہیں آسکتا_

آپ اپنے دوست کی بات سنتے ہیں_

یہ سننا آپ کا کام ہے اور آپ کے وجود سے تعلق رکھتا ہے اگر آپ کا وجود نہ ہو تو آپ اپنے دوست کی بات نہیں سن سکتے_

آپ اپنے دوست سے محبت کرتے ہیں_

یہ محبت کرنا بھی آپ کے وجود کا محتاج ہے_ کیونکہ اگر آپ نہ ہوں

۲۴

تو آپ محبت بھی نہیں کرسکتے____ کیا ایسا نہیں ہے___؟

آپ کائنات میں پائی جانے والی بہت سی چیزوں کا علم رکھتے ہیں_

آپ کا یہ علم و دانش آپ کے وجود سے وابستہ ہے_ اگر آپ نہ ہوں تو وہ علم و دانش کہ جو آپ کے وجود کا معلول ہے وہ بھی نہ ہوتا_ آپ اپنے اور اپنے علم و محبت اور اپنے ارادے کے ساتھ ایک خاص وابستگی کو محسوس کرتے ہیں اور اچھی طرح جانتے ہیں کہ کس طرح آپ کے علم اور محبت اور ارادے کا وجود آپ کے وجود کے ساتھ مربوط اور آپ کے وجود کا محتاج ہے_

آپ حرکت کرتے ہیں، کوئی چیز لکھتے ہیں، راستہ چلتے ہیں، بات کرتے ہیں، سوچتے ہیں، سمجھتے ہیں، جانتے ہیں ارادہ کرتے ہیں، محبت کرتے ہیں_ یہ سب آپ کے کام ہیں اور آپ ان کے وجود کی علّت ہیں اور انہیں وجود میں لاتے ہیں_ اور اگر آپ نہ ہوتے تو یہ کام بھی وجود میں نہ آتے_ ان کاموں کا موجود ہونا آپ کے وجود محتاج ہے اور اسے یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ تمام کام ''معلول'' ہیں اور آپ ان کی ''علّت'' ہیں_ وہ خاص ربط جو ان کاموں کا آپ کے وجود کے ساتھ برقرار ہے اسے علّت کہا جاتا ہے_

انسان علّت کے مفہوم کو اچھی طرج جانتا ہے _ وہ ابتداء زندگی سے ہی اس سے آشنا ہے_ اور اس سے واسطہ رکھتا ہے_ مثلاً پیاس بجھانے کے لئے پانی تلاش کرتا ہے اور بھوک مٹانے کے لئے غذا ڈھونڈتا ہے_

کیا آپ، جانتے ہیں یہ کیوں ہوتا ہے___؟

یہ اس لئے ہوتا ہے کہ وہ جانتا ہے کہ پیاس بجھانے کی علّت پانی ہے، وہ بھوک ختم کرنے کی علّت غذا کو سمجھتا ہے_ کیوں سردی کے

۲۵

وقت آگ کے نزدیک پناہ لیتا ہے_ اس لئے کہ آگ کو گرمی کی علّت جانتا ہے اگر کوئی آواز سنتا ہے تو اس کی علّت کی جستجو کرتا ہے____ کیوں؟

اس لئے کہ ہر موجود علّت کا محتاج ہے (انسان)_ بجلی جلانے کے لئے بٹن دباتا ہے، بیماری دور کرنے کے لئے دوا حاصل کرتا ہے_ اپنی بات کو دوسروں تک پہنچانے کے لئے بولتا ہے_

قانون علّت، ایک عالمگیر او رکلی قانون ہے اور تمام انسان اس کے مفہوم سے آگاہ ہیں اور اسے محسوس کرتے ہیں_ تمام لوگ اسے قبول کرتے ہیں اور زندگی کو اس پر استوار کرتے ہیں_ تمام لوگ اسے قبول کرتے ہیں اور زندگی کو اس پر استوار کرتے ہیں_ اگر انسان علّت کو نہ سمجھتا اور اس پر یقین نہ رکھتا تو اس کے لئے زندگی گزارنا ممکن نہ ہوتا اور کسی کام کی انجام دہی کے لئے اقدام نہ کرپاتا_

انسان نے قانوں علّت کی حقیقت کو تسلیم کیا ہے، اسی لئے ہر موجود کے لئے اس کی علّت کی جستجو کرتا ہے_

کیوں کہتا ہے کہ پتّوں کی حرکت کا سبب کیا ہے؟

کیوں سیب درخت سے گرتا ہے؟

اسی قانون علّت کی بنیاد پر انسان مختلف قسم کی پیش گوئیاں، کرتا ہے کیونکہ وہ قانون علّت کو قبول کرتا ہے اسی لئے ہر علّت کے نتیجہ امیں ایک خاص موجود و معلول کی توقع رکھتا ہے_ سورج سے روشنی، آگ سے گرمی، پانی اور غذا سے بھوک اور پیاس کے دور کرنے کی امید رکھتا ہے_

قانون علّت ''جیسے کہ آپ کو علم ہوچکا ہے'' یہ بتاتا ہے کہ ہر موجود کا کسی دوسری چیز سے ربط ہے اور وہ اسکا محتاج ہے کہ جسے علت کا نام دیا جاتا ہے مثلاً دیوار کا گرم ہونا ایک

۲۶

نئی چیز کا وجود تھا کہ جس اپنے گرمی دیوار کے پیچھے سے جلائے ہوئی آگ سے حاصل کی تھی ہمیشہ معلول کا وجود علّت کے وجود ظاہر ہوتا ہے اور علت کا محتاج ہوتا لیکن علت کو معلول کی احتیاج نہیں ہوتی

سوال :

اب ہم سوال اٹھاتے ہیں کہ اس کائنات اور جو کچھ اس میں موجود ہے اس کی علّت کیا ہے؟ زمین اور آسمان اور سورج اور ستاروں کے وجود کا سرچشمہ کیا ہے___؟ یہ کائنات بھی ایک وجود ہے اور دوسرے چھوٹے بڑے موجودات کی طرح کسی چیز سے وابستہ اوراپنے وجود کے لئے محتاج ہے ___ یہ کس سے وابستہ اور کس کی محتاج ہے؟ اس کے وجود کی علّت کیا ہے؟ وہ کون سا غیر محتاج و بے نیاز وجود ہے کہ جس نے اس محتاج کائنات کووجود بخشا ہے ؟ اس جہان کے وجود کی علّت کیا ہے؟

انسان کی عقل اور وجدان کہ جس نے قانون علّیت کو ایک ضابطہ اور فارمولے کے طور پر قبول کر لیا ہے جو قادر اور توانا ہے _ جس نے اسے اپنی قدرت سے پیدا کیا ہے اور اسے چلارہا ہے اور اس کی عظمت و قدرت تمام جہان پر سایہ فگن ہے_

یہ کائنات اسی سے وابستہ اور اسی کی محتاج ہے_ اس جہان کا سرچشمہ اور علّت وہی ہے_ وہ اس کائنات کا قادر و توانا اور بے نیاز خالق ہے___ وہ خدا قادر مطلق ہے ہستی دینے والا خدا ہے جو جہان کو

۲۷

ہستی اور وجود کا نور عطا کرتا ہے_ اور ہر لحظہ اس کی ضروریات کو پورا کرتا ہے وہ عالم اور قادر ہے_ اس نے یہ کائنات خلق کی _ اس میں نظم و ضبط و ہم آہنگی کو وجود بخشا اور اسے چلارہا ہے _ یہ وہ ذات ہے جو ہر لحظہ ہمارے وجود کی ضروریات کو پورا کرتی ہے اور اپنے لطف و کرم کے چشمے سے سیراب کرتی ہے

ہم اس کے بندے اور محتاج ہیں اور اس کی قدرت اور عظمت کے سامنے سرتسلیم خم کئے ہوئے اس کے فرمانبردار ہیں_

اس کی بے اتنہا اور مسلسل نعمتوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں، اور اس کے فرامین اور راہنمائی کواپنی زندگی کے لئے مشعل راہ قرار دیتے ہیں_

آیت قرآن

( انّ الله یمسک السّموت والارض ان تزولاه و لئن زالتا ان امسکهما من احد من بعده)

سورہ فاطر ۳۵_ آیت ۴۱

'' یقینا خدا ہے کہ جس ن زمین اور اسمان کو بر قرار رکھا ہے تا کہ نابود نہ ہوجائے اور خدائے تعالی کے علاوہ کوئی بھی نہیں جواسے نابودی سے بچا سکے ''

۲۸

سوچیے اور جواب دیجیے

۱_ علّت اور معلول کے درمیان کیا تعلق ہے؟ ان میںسے کون دوسرے سے وابستہ اور اس کا محتاج ہوتا ہے___؟

۲)___ معلول کسکے وجود کا نتیجہ ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی موجود بغیر علّت کے وجود میں آسکے___؟

۳)___ اس سبق میں جن ''معلولوں'' کا ذکر ہوا ہے، ان کے ساتھ ان کی علّت تحریر کریں___؟

۴)___ علت اور معلول کے درمیان ربط کو کیا نام دیا جاتا ہے؟کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی انسان قانون علّیت کے مفہوم کو نہ جانتا ہو، اور اس کا اسے یقین نہ ہو___؟ اس کی وضاحت کیجئے ___؟

۵)___ قانون علّیت ایک کلّی ضابطہ ہے؟ وضاحت سے بیان کیجئے___؟

۶)___ انسان جب ''کیوں، کا لفظ استعمال کرتا ہے تو اس سے کیا سمجھا جاتا ہے___؟

۲۹

بڑے آبشار کا سرچشمہ

درختوں سے گھرے ہوئے فلک بوس پہاڑی درّے سے اس بلند اور خوشنما آبشار کا نظار ہ کیجئے_ آہا کیسا حسین منظر ہے_

کاش کسی چھٹی کے دن دوستوں کے ساتھ مل کر اس بلند اور خوشنما آبشار کو دیکھنے کے لئے وہلاں جاتے اور بید کے درختوں کے سائے میں ''جو اس ندی کے کنارے پر موجود ہیں'' بیٹھ کر اس دل فرب نظارے کو دیکھتے ، صاف ٹھندی اور فرحت بخش ہوا سے لطف اندوز ہوتے_ آبشار کے صاف و شفاف پانی میں نہاکر تھکان دور کرتے اور روح کو تازگی بخشتے_

سچ آبشار کا یہ زور و شور سے جھاگ اڑاتے نیچے گرنا کتنا خوبصورت، روح پر ور اور قابل دید ہے_

جب اسے دور سے دیکھتے ہیں تو ایک بلند وبالا چاندی کے ستون کی طر ح

۳۰

نظر آتا ہے کہ جو مضبوطی کے ساتھ سیدھا کھڑا ہے_ لیکن جب اس کے نزدیک پہنچتے ہیں تو تندوتیزپانی کابہاؤ نظر آتاہے جوتیزی اورجوش سے شور مچاتا،جھاگ اڑاتا اور موجیں مارتا ہوا نیچے گر رہا ہے_ اورہر لمحہ پانی پہاڑ کی بلندی سے تیزی کے ساتھ نیچے ندی کے ہموار بستر پر گر کر انگڑائی لیتا ہوا آگے کی طرف بہنے لگتا ہے_

اس وقت یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ سفید اور بلند ستون جو دور سے سیدھا کھڑا ہوا دکھائی دے رہا تھا وہ ایک لمحہ کے لئے بھی ٹھہرا ہوا نہیں ہے، بلکہ حرکت میں ہے اور ہر لمحہ پانی کا ایک نیار یلا اس آبشار سے گرتا ہے، گویاہر ہرلمحہ ایک نیا آبشار وجود میں آتاہے_

آبشار کی یہ روانی اورہرآن نئے وجود سے آپ کے ذہن میںایک سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ اس آبشار کاسرچشمہ کہاں ہے___؟

اس آبشاار کے وجود میںآنے کی علّت کون سا سرچشمہ ہے___؟

کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ہر موجود کے لئے کسی نہ کسی علّت کا ہونا ضروریہ ہے_لہذا یقینا یہ آبشار بھی کہ جومسلسل بہہ رہا ہے اور ہر لمحہ ایک نئے وجود کی صورت میں ظاہر ہو رہا ہے اس کے لئے بھی علّت و سرچشمہ کا وجود ضروری ہے_ لیکن ہم نہیں جانتے کہ یہ سرچشمہ اورعلّت کیا ہے اورکہاںہے_

اس واضح مثال کو سامنے رکھتے ہوئے اس کائنات اور اس میںپائی جانے والی موجودات پرنظرڈالیں توکیادیکھیںگے___؟

کیا یہ ایک ایسامجموعہ ہے جوایک جگہ ٹھہرااورکھڑاہواہے___؟

یاپھر ایسامجموعہ ہے جو مسلسل گردش میں ہے اور چل رہا ہے___؟

سورج کے نکلنے کو دیکھیئےور اس کے شفق رنگ غروب ہونے پرنظر

۳۱

ڈالئے___ سورج کے نکلنے سے دن روشن ہوجاتا ہے_ اور اس کا ہر لمحہ نیا پیدا ہوتا ہے اور ساعت بہ ساعت گزرتا ہے_ غروب کے وقت دن ختم ہوجاتا ہے اور رات نمودار ہوتی ہے_ رات بھی ایک لحظہ کے لئے نہیں رکتی اور مسلسل گردش میں رہتی ہے_ یہاں تک کہ طلوع آفتاب تک پہنچ جاتی ہے گرمی، سردی، بہار اور خزال کے موسموں کو دیکھئے_ سردی کی نیند میں سوئے ہوئے پیڑ اور پودے بہار کی خوشگوار ہوا سے بیدار ہوتے ہیں_ کو نپلیں پھوٹنے لگتی ہیں پھر شگوفے اپنی بہار دکھاتے ہوئے اوربتدریج سفر طے کرتے ہوئے خوش رنگ پھولوں اورلذیذ پھلوںمیں تبدیل ہوجاتے ہیں_

بہارجاتی ہے اورخزاں آپہنچتی_درخت اپنے سرسبز وشاداب پتوں سے محروم ہوجات ہیں، زرد اورپمردہ پتّے درختوں کی ٹہنیوں سے زمین پرر گرپڑتے ہیں_ آج کی آمد سے گزری ہوئی کل کا نشان تک باقی نہیں رہتا_

موسم سرما کی آمد، گرمی اورجہاد کوبھلادیتی ہے_ پس ساری چیزیں حرکت اورتغیر میں ہیں_ذرا اور نزدیک آیئےورقریب سے دیکھئے کیا یہ عالم رنگ و بو ایک ساکت اورٹھہرا ہوامجموعہ نظر آتاہے___؟ یا ایک بلند آبشار کی طرح مسلسل متغیر اورہرلمحہ حرکت پذیر کارخانہ قدرت___؟

دورترین کہکشاں سے لے کر یہ چھوٹاسا ذرّہ جو آپ کے نزدیک پڑا ہے تمام کے تمام ایک حیران کن تغیر اور گردش میں ہیں اوراپنی مسلسل حرکت کوجاری رکھتے ہوئے عجیب و غریب اورنئی صورتیں پیدا کر رہے ہیں_ سورج، چاند، ستارے، پانی، مٹی، دن،رات،سال، مہینے، بادل، ہوا، بارش

۳۲

سب ایک بلند آبشار کی طرح حرکت کرنے میں مشغول ہیں_ تمام ایک زنجیر کے مختلف حلقوں کی طرح آپس میں مربوط ایک ہدف اور مقصد کے حصول کے لئے کوشاں ہیں_

ہر لمحہ موجودات کا وجود میں آنا اورتغيّر وحرکت میں رہنا ذہن میں ایک سوال پیدا کرتا ہے اوروہ یہ کہ اس کائنات کے بلندآبشار اوراس میں موجودات کا سرچشمہ کون ہے___؟ اس آبشار کے وجود میںلانے کی علّت کا سرچشمہ کون ہے؟ اس کا کیا جواب دیا جاسکتا ہے___؟

کیا یہ کہاجاسکتا ہے کہ اس وسیع کائنات کے مختلف موجودات جو آپس میں مربوط اور ایک بلند آبشار کی طرح ہیں بغیر کسی علّت کے وجود میں آئے ہیں

انسانی فطرت کہ جو معمولی سی چیز کے وجود میں آنے کے لئے بھی علّت کی قائل ہے اس جواب کوہرگز پسندنہیں کرے گی بلکہ وہ ضروربالضروراس جہان ہستی کے موجودات کے لئے کوئی نہ کوئی علّت معلوم کرنا چاہے گی اوراس بلند وبالاآبشار کے لئے بھی طاقتور سرچشمہ کی جستجو کرے گی_ ایسی علّت کی کہ جواس کائنات کی تمام چھوٹی بڑی موجودات کا سرچشمہ ہو اور جس نے اپنے بے انتہا علم و قدرت کے ذریعہ اس عجیب و غریب نظام اورایک دوسرے سے مربوط اورایک مقصد کی جانب گامزن موجودات پیدا کیاہوااوران کو چلارہاہو_

انسان کی فطرت میںجوعلّت کی جستجو رکھی گئی ہے وہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اقرار کرے ی کہ اس جہان کے وجود (جومسلسل اورہر آن ایک نئی چیز وجود میں لارہاہے) کی علّت ایک عظیم، طاقتور اوربے نیازخالق ہے جس نے اپنے بے پناہ علماورقدرت و توانائی سے اسی جہان اوراس میں جانے والے تمام موجودات

۳۳

کوپیدا کیاہے اور ا ن کی ایک معيّن و معلوم ہدف اورغرض کی طرف رہنمائی وہدایت کر رہاہے_ وہ خالق اس ہستی اور وجود کے بلند آبشار کاسرچشمہ ہے اوراپنے علم وتدبیر سے اسے رواںدواںرکھے ہوئے ہے_ اس جہان کا ہر ایک وجود اورہر ایک ذرّہ اپنے وجود میں اس کامحتاج ہے لیکن وہ ان میں سے کسی کامحتاج نہیں ہے اور کوئی بھی چیز اسکی مانند اورمثل نہیں ہے_

سبب وعلّت کی متلاشی عقل اچھی طرح جانتی اورمحسوس کرتی ہے کہ کائنات اوراس کے تمام موجودات ایک بلند اور خوبصورتن آبشار کے مانند ہیں کہ جو خود سے کچھ بھی نہیں بلکہ ہرہرقطرہ اورہرہر ذرّہ کاسرچشمہ قدرت کاایک لامحدود مرکز ہے_

تمام موجودات اسی ذات کے معلول ہیں اوراسی سے اپنے وجود کارنگ لیتے ہیں_ اسی ذات کے نور اورروشنی سے یہ روشن اورظاہر ہوتے ہیں_

یہی علّت کی متلاشی انسانی عقل اسے دعوت دیتی ہے کہ اس لامحدود قدرت کے مرکز کو پہچانے اور اس سے زیادہ سے زیادہ واقف ہو کیونکہ تمام اچھائی اورخوبی اسی سے ہے اور انسان کو اسی کی طرف لوٹنا ہے_

اگر انسان غور کرے اور کائنات کی تمام موجودات کا اچھی طرح مطالعہ کرے تو صاف طورسے مشاہدہ کرے گا کہ تمام کائنات اورجوکچھ اس میںہے صرف ایک وجود اوربے پناہ قدرت وحیات پرتکیہ کئے ہوئے ہے اور اسی کی مہرومحبت کے سرچشمہ سے وجود اورحیات حاصل کر رہا ہے_ اسی فکر و بصیرت کے سایہ میں انسان کاقلب ہرچیز سے بے نیاز ہوکرصاف اورصرف اس ذات سے پیوستہ ہوجاتا ہے اوراسکی عظمت وکبریائی کے علاوہ کسی اور کے سامنے اس کا سرنہیں جھکتا، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ دوسروں کے پاس جو کچھ بھی ہے سب اسی ذات کا عطا کیاہواہے،

۳۴

لہذامخلوقات خدا نے لگا ہیں پھیر کر وہ اپنال دل صرف اسی سے لگالیتا ہے جو علم و قدرت، رحمت و خلقت کا سرچشمہ ہے اوراپنے آپ کوعظیم خالق کائنات اورپروردگار عالم کی حکومت و سرپرستی میں دے دیتا ہے_ سوائے اس کی رضا کے کسی دوسرے کی رضال نہیں چاہتا،سوائے اس کی قدرت کے کسی اورکی قدرت کونہیں مانتا_

اولیاء اورانبیاء خدا کی رہنمائی ورہبری میں خدا کے احکامات کوتسلیم کے ان پر عمل کرتا ہے_ اپنے پاکیزہ اخلاق اور نیک اعمال کے ساتھ اس کے تقرب اور محبت کے راستے پر چلتا ہے اور اس طرح انسانیت کے کمال کے آخری درجہ تک پہنچ جاتا ہے_ حقیقی کمال اور دنیا و آخرت کی سعادت کو حاصل کرلیتا ہے کہ جس کی عظمت اور زیبائی ناقابل تعریف ہے_

آیت قرآن

( انی الله شكّ فاطر السّموت والارض)

( سورہ ابراہیم ۱۴_آیت ۱۰)

کیا خدا میں بھی شک کیا جاسکتا ہے؟ وہ ہے کہ جس نے زمین اورآسمانوں کو پیدا کیاہے

سوچیے اورجواب دیجئے

۱) ___آبشار کس طرح وجود میں آتاہے؟ کیایہ ایک ثابت اور غیر

۳۵

متحرک وجود ہے یا ایک متغیر ومتحرک وجود ہے؟

۲) اگر آبشار کے ہرلحظہ نئے وجود کودیکھا جائے توذہن میں کیاسوال ابھرتاہے؟

۳) جب کائنات اوراسکے موجودات کودیکھا جائے تو اس میں کیانظر آتا ہے؟کیا وہ ایک ثابت اور ساکت مجموعہ ہے؟ یاایک متغیر اورحرکت کرنے والامجموعہ؟ وضاحت کیجئے؟

۴) اس کائنات کے ہمیشہ متحرک اورمتغیر ہونے کی کوئی مثال بیان کیجئے؟

۵) جب کائنات میں تغیر اور نیا وجود دیکھیں تو اس سے دذہن میں کیا سوال اٹھتا ہے؟

۶) کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس وسیع کائنات کے موجودات بغیر علّت کے وجود میں آئے ہیں؟ اگر نہیں توکیوں؟

۷) انسان کی علّت کی متلاشی فطرت اس عجیب نظام اورموجودات کے آپس میں ارتباط اورباہدف ہونے سے کیاسوچے گی؟

۸) اس وجوداوربلند ہستی کے آبشار کا سرچشمہ کون ہے؟

۹) اس حقیقت کو پالینے کا نتیجہ کہ ''اس کائنات کا سرچشمہ خدا ہے'' کیا ہے؟

۱۰) کیوں ایک خداشناس اور خداپرست انسان خدا کے آگے سرتسلیم خم کردیتا ہے اوراس کی حکومت و سرپرستی کو قبول کرلیتا ہے؟

۳۶

خداشناسی کی دودلیلیں

دلیل اس عمدہ اور واضح بیان کوکہاجاتا ہے جس سے کسی بات کو ثابت کیا جائے اور اس سے متعلق نا واقفیت اور شک کو دور کیا جائے_ نیز اس قسم کے بیان کواصطلاح میں ''برہان'' کہا جاتا ہے_

ہم اب تک خداشناسی کے لئے دو دلیلوں سے واقف ہیں کہ جن میںسے ایک کو ''دلیل نظم'' اوردوسرے کو ''دلیل علّیت'' کہا جاتا ہے_ لہذا اب ہم ان دونوں دلیلوں پر تحقیق و جستجو اوران کا آپس میںتقابلی تجزیہ کرتے ہیں_

۱)دلیل نظم

خداشناسی کے بحثیں جو اس کتاب کی ابتداء میں اوراس کتاب کے سابقہ حصوں

۳۷

میں آپ نے پڑھی ہیںتمام اسی دلیل نظم کی بنیادپرتحریرکی گئی ہیں_

مثلاً گزشتہ کتاب میں جب ہم اپنے بدن کے نظاموں میںسے ایک کے متعلق مطالعہ کر رہے تھے تو ہم نے پڑھا تھا کہ:

اس نظام میں جس حیرت انگیز نفاست سے کام لیا گیا ہے اس پراچھی طرح غور و فکر کیجئے اورخون کی گردش کے سلسلہ میں گردہ اورمثانہ کے در میان پائے جانے والے گہرے ارتباط اورنظم و ضبط پر فکر انگیز نگاہ ڈالئے_

آپ کیا دیکھتے ہیں___؟

کیا ایک با مقصد اورمنظم مجموعہ___؟

یاایک بے مقصد اورغیر منظم مجموعہ___؟

اس نہایت نفیس اہم عضواور اس حساس مجموعہ کے مشاہدہ سے آپ کے ذہن میں کیا خیال آتاہے___؟

اس کی تخلیق میں پائے جانے والے باریک حساب وکتاب اوراس کی ساخت میں جس تناسب و ارتباط اورہم آہنگی سے کام لیا گیا ہے اس سے آپ کیا سمجھتے ہیں؟

آیا آپ کواس بات کا یقین نہیں ہوتا کہ یہ گہرا اورمنظم نظام (اور ہمارے بدن کے دوسرے نظام) خودبخود اوربغیر کسی حساب و کتاب کے وجود میں نہیں آئے گا___؟

آیا ممکن ہے کوئی عقل و شعور رکھنے والا انسان یہ بات تسلیم کرے کہ ساکت و بے شعور طبیعت (مادّہ) نے یہ حیرت انگیز نظام پیدا کیا ہے؟ ہرگز نہیں___؟

بلکہ ہر عقل و باشعور انسان یہ اقرار کرے گا کہ ایک دانا اور توانا

۳۸

ہستی اس کی خالق وبنانے والی ہے اور اس کے بنانے میں اسی کا کوئی مقصد وہدف ہے_ اس بنیاد پرعقل وفہم رکھنے والے ہر انسان کا ایمان ان حیرت انگیز چیزوں کے مشاہدہ سے ایک عظیم خال عالم وقادر کے وجود پر مزید مضبوط ہوجاتا ہے اوراس کی شان وشوکت،قدرت اور لامحدود نعمتوں کے آگے اس کا سرتسلیم خم ہوجاتاہے_

خداشناسی کے متعلق جس دلیل کا آپ نے مندرجہ بالا سطورمیں مطالعہ کیا اسے دلیل نظم کہاجاتا ہے_ یعنی کائنات میں پائے جانے والے موجودات کودیکھ کراوران کے ہر ذرّہ میں نظم و ہم آہنگی، گہرے حساب اور درست تناسب کے مشاہدہ سے نتیجہ اخذکیاجاتا ہے_ کہ اس منظم اور مربوط نظام کی خالق اورپیدا کرنے والی اکی ایسی عالم وقادرہستی ہے جس نے اپنے علم اورقدرت سے ایسا عجیب وغریب نظم و ربط پیدا کیا ہے_ کیونکہ اگراس نظام کاخالق، جاہل اورناتواں ہوتا تو اس کے کام کا نتیجہ سوائے بے نظمی اور بے ربطی و بے حسابی اور بے مقصدی کے اور کچھ نہ ہوتا_

دلیل نظم کو مختصراً یوںبیان کیا جاسکتا ہے کہ:

عالم خلقت مکمل نظم وترتیب اور ہم آہنگی و ارتباط مبنی ہے اور ہر نظم وترتیب اورہم آہنگی وتناسب ایک دانا وتوانا کا کام ہوتا ہے_ پس یہ جہان بھی ایک داناو توانا خالق کی مخلوق ہوگا_

اس دلیل یعنی دلیل نظم میں پہلے اجزاء کائنات میں پائے جانے والے نظم وہم آہنگی اور حساب و کتاب وتناسب پرتوجہ کی جاتی ہے اورپھر اس اصول پریقین کے ساتھ کہ ''نظم وتناسب کسی عالم ودانا کا محتاج ہے'' یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیںکہ

۳۹

کائنات میں یہ جو عظیم نظم و ہم آہنگی قائم ہے اس کی خالق ایک دانا وتواناہستی ہے_

۲) دلیل علّیت

اس سے پہلے دو سبق جن کا آپ نے مطالعہ کیا وہ دونوںدلیل علّیت کی بنیادی پرتحریر کئے گئے ہیں_ دلیل علّیت میں کائنات کے اجزا کے درمیان پائے جانے والے نظم و ہم آہنگی کامطالعہ نہیں کیا جاتا بلکہ موجودات کی ذات وہستی پر نگاہ ڈالی جاتی ہے_

اوروہ خاص احتیاج جو ہر موجود علّیت کے سلسلہ میں رکھتا سے اس کا مطالعہ کیا جاتا ہے_

قانون علّیت کی بنیاد پر کہ جس پرانسان مضبوط یقین رکھتا ہے ہم بحث کو اس طرح پیش کرتے ہیں:

'' ہر موجود جو وجود میں آتا ہے اس کا وجود خود اپنا نہیں ہوتا، بلکہ وہ کسی دوسری چیز سے وابستہ اور اس کامحتاج ہوتا ہے کہ جسے ''علّت'' کہا جاتا ہے_

یہ کائنات بھی جو مختلف موجودات کا مجموعہ ہے، لازماً اس کی بھی کوئی علّت ضرور ہے_ اس کائنات کے موجودات کوئی نہ کوئی سرچشمہ رکھتے ہیں، ایک عظیم طاقتور اور بے نیاز خالق رکھتے ہیں، وہی اس بلند آبشار ہستی کا سرچشمہ اور علّت ہے_ اس ہستی کا ہر ایک قطرہ، ہر ایک ذرّہ اور ہر ایک وجود اپنی پیدائشے میں اس کا محتاج ہے لیکن وہ کسی کا محتاج اور کسی کا ہم مثل نہیں_

اگر انسان خوب غورکرے تو وہ واضح طور پرمشاہدہ کرے گا کہ تمام

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

کی اس شاہی نسل سے تھا جس کا مورث اعلی منوچہر ہے لیکن حضرت سلمان نے اس بات کو اپنے لئے باعث فخر نہ سمجھا ۔نسبی کرید کو پسند نہ فرماتے تھے ۔ایک مرتبہ کسی نے ان کے نسب سے متعلق سوال کیا تو جواب دیا کہ میں مسلمان فرزند اسلام ہوں ۔میں ایک غلام تھا اللہ نے مجھے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ آزاد کرایا میں بے حیثییت شخص تھا اللہ نے مجھے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ عزت بخشی۔میں ایک فقیر تھا خدا نے مجھے اپنے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ذریعہ غنی کردیا اور یہی میرا حسب نسب ہے ۔صاحب طبقات کے بیان کے مطابق ابن عباس کی روایت ہے کہ حضرت سلمان نے خود پتہ دیا کہ وہ اصفہان کے گاؤں "حئ " کے رہنے والے تھے ۔آپ کے والد ایک زمیندار تھے اور اپنے فرزند سے بہت محبت رکھتے تھے اور ان کو جدا نہ کرتے تھے ان کو گھر میں اس طرح قید رکھا تھا جس طرح لڑکی کو قید کیا جاتا ہے ۔آپ کے والدین مجوس پر تھے اور ان کی یہ خواہش تھی کہ سلمان بالغ ہونے سے قبل اپنے دین کی معرفت حاصل کرے لیکن سلمان کی طبیعت فطرتا مشاہدات قدرت پر غور وفکر کرنے پر مائل تھی اور دین مجوس کے نقائص اکثر ان کے دماغ میں تجسس پیدا کرتے تھے گھر اپنے والد کے احترام میں زبان بند رکھتے تھے ایک دن بوذ خشان اپنے ایک مکان کی بنیاد مرمت کرنے کی غرض سے گھر سے باہر گئے اور سلمان کو اپنی جگہ کھیتوں کے کا م پر روانہ کیا ۔راستے میں آپ کو ایک گرجا دکھائی دیا جہاں لوگ عبادت کررہے تھے اور توحید خداوندی اور رسالت عیسی علیہ السلام علیہ السلام کا ورد کررہے تھے ۔عیسا ئیوں کی یہ عبادت ان کو پسند آئی تحقیق

۱۴۱

کاشوق ہوا عیسائیوں سے مذہبی معلومات کی ۔روایت میں ہے کہ وہ عیسا ئی صحیح دین پر تھے ۔ وہ توحید خداوندی رسالت عیسی علیہ السلام کے اقرار کے ساتھ یہ بھی شہادت دیتے تھے کہ تحقیق محمد اللہ کے حبیب ہیں ۔ مسلمان کے خدا ،عیسی علیہ السلام او رمحمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں دریافت کیا ۔ انھوں نے کہا کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہی سارے جہاں کا خالق وپروردگار ہے ۔اور عیسی بن مریم علیھما السلام اللہ کے برگزیدہ رسول ہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ رسول مبشر ہے جو رسالت ونبوت کو ختم کرے گا ۔حضرت سلمان پر ان باتوں کا اثر ہوا اور تین دن متواتر معلومات میں اضافہ کیا ادھر ان کے والد ان کو تلاش کرتے تھے ۔سلمان پر جو نظر پڑی تو پکڑ لیا اور پوچھا کہ کہاں تھے ؟ آپ نے صاف صاف بتا دیا ۔ باپ نے بھانپ لیا کہ لڑکا اپنے آبائی دین سے باغی ہے ۔لہذا تھوڑا تشدد کیا اور انھیں بیڑیاں پہنا کر قید کرلیا ۔مگر تلاش حق کا جذبہ مضبوط ہوگیا ۔بود خشان کا خیال تھا یہ سختی بیٹے کو نئے عقیدے سے دستبردار کردے گی لیکن انھوں نے آزمایا کہ اذیت کی زیادتی ان کے عقیدے کو مزید سخت کررہی ہے لہذا آپ پر اور تشدد کیاجانے لگا ۔حتی کہ کوڑے تک لگائے گئے اپنے والد کے اس ظالمانہ رویہ سے عاجز آگئے ۔آدھی رات کو انھوں نے اپنے خدا واحد کی بارگاہ میں م اپنی حالت زار خضوع وخشوع سے عرض کی اور دعا مانگی کہ "اے خداوند! میرے دل کو شرک وبت پرستی کی کدورت سے پاک رکھ ۔میں تجھے تیرے حبیب کا واسطہ دیتا ہوں کہ مجھے اس حبس سے رہا کر ۔ اپنے حبیب تک پہنچادے " خلوص دل سے دعا فرمائی تھی مستجاب ہوئی ۔ایک غیبی ندا آئی کہ روزبہ اٹھ

۱۴۲

اور قید خانہ سے نکل جا۔ آپ نے تعمیل کی اور اسی گرجا میں آئے ۔ایک عمر رسیدہ راہب چرچ سے باہر آیا اور اس نے خود ہی پوچھا کہ کیا تم ہی روزبہ ہو ؟آپ نے اثبات میں جواب دیا اور وہ بزرگ ان کو گرجا کے اندر لےگئے ۔اگر چہ سلمان دین مجوس کو شروع ہی سے ناقص سمجھتے تھے مگر ڈانوا ڈول تھے ۔اب عیسائیت کی پناہ میں انھیں کچھ قرار محسوس ہوا۔ آپ دن رات عیسائی علماء کی خدمت کرتے اور زہد وتقوی کی تعلیم دل لگا کرحاصل کرتے ۔آپ نے جس بزرگ کو روحانی سرپرست پسند کیا تھا وہ بھی ان کو بہت قریب رکھتے تھے ۔ان کی ذہانت وخدمت کے باعث جب اس کاآخری وقت آیا تو اس نے اپنے شاگرد رشید حضرت سلمان کو بلاکر کہا کہ موت برحق ہے اب میرا انتقال قریب ہے ۔حضرت سلمان نے عاجزانہ عرض کیا کہ مجھے کوئی ایسا لائحہ عمل کی تعلیم فرما جائیں جو مستقبل میں میری رہبری کے لئے مشعل راہ ہو ۔اس بزرگ نے نصیحت کی کہ تم میری ایک لوح لے کر انطاکیہ چلے جاؤ وہاں ایک راہب ہے وہ عموما شہر سے باہر رہتا ہے اس کو تلاش کرو اسے یہ لوح دے دینا اور اس کی خدمت میں میرا سلام پہنچا کر اس کے حلقہ ارادت میں شامل ہوجانا ۔اور جو وہ تمھیں حکم دیے اس کی تعمیل کرنا ۔اس نصیحت کے بعد راہب کی روح پرواز کرگئی اور سلمان انطاکیہ روانہ ہوگئے ۔

جب سلمان انطاکیہ پہنچے تو انھوں نے تلاش کیا کہ شہر کے باہر ایک "دیر" ہے اس کے دروازے پر ایک بوڑھا بیٹھا ہے شکل ولباس سے راہب دکھائی دیتا ہے ۔سلمان نے قریب ہو کر باآواز بلند فرمایا "لا الہ الا اللہ عیسی روح اللہ ومحمد حبیب اللہ"یا یہ کہا

۱۴۳

"اشهد ان لا اله الا الله و ان عیسی روح الله و ان محمد حبیب الله " جب راہب نے سنا تو چونک کر دریافت کیا کہ تم کون ہو ۔سلمان نے نزدیک جک کر لوح اس راہب کے سپرد کردی۔لوح لینے پر راہب نے ان کو اپنے پاس ٹھہرالیا ۔ یہ بزرگ راہب تارک الدنیا اور عبادت گزار بندہ خدا تھا ۔دن رات عبادت الہی یمں مشغول رہتا تھا لہذا سلمان کو اس سے محبت ہوگئی ۔اور وہ ان کی خدمت کرنے لگے ۔ اور ساتھ ساتھ علمی و روحانی پیاس بھی بجھاتے رہے ۔سلمان اس بزرگ سے علمی اور عملی استفادہ حاصل کرنے کا کوئی موقعہ بھی ضائع نہ جانے دیتے تھے یہاں تک کہ اس راہب کا وقت آخر قریب ہوا۔اور اس نے سلمان کو نصیحت کی اب اس جگہ عیسائی کوئی نہیں رہا ہے تم یہ لوح لیکر سکندریہ کے راہب کے پاچلے جانا اور اس کی خدمت میں مشغول ہوجانا ۔چنانچہ اس راہب کی وفات کے بعد حضرت سلمان سکندریہ آئے اور اس راہب کی خدمت میں کافی عرصہ گزارا ۔مورخین کے بیان کے مطابق اسی طرح راہب در راہب حضرت سلمان جاتے رہے اور لوح منتقل ہوتی رہی ۔یہاں تک کہ آخری راہب تک پہنچے ۔اوراس کے آخری وقت پر اس سے التجا کی میں بہت دروازوں پر جاچکا ہوں اب تو آپ مجھے کسی ایسے کے ہاں روانہ کریں جس کے بعد کسی او رکی حاجت نہ ہو ۔راہیب نے کہا بس اب میری نظر میں کوئی ایسا شخص باقی نہیں ہے جس کے پاس تمھیں روانہ کروں ۔لہذا تمھیں مشورہ دیتا ہوں کہ محمد بن عبد اللہ بن

۱۴۴

عبد المطلب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ظہور کا وقت قریب ہے وہ ریگستان میں ظہور کرے گا اور کھجوروں والی زمین کی ہجرت کرےگا یہ وہ ہی آخری رسول ہے جس کی خبر وبشارت بنی اسرائیل کے نبیوں نے دی ہے ۔اور اس کاذکر کتابوں میں موجود ہے اس کی علامتیں یہ ہیں کہ جو ہدیہ کو قبول کرے گا اور صدقہ کو رد کردے گا ۔ اس کے دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت ہوگی تم اس کی خدمت میں حاضر ہوکریہ لوح اسے پیش کردینا ۔

چنانچہ اس راہب کی وفات کے بعد حضرت سلمان اس نبی مبشر کی تلاش میں ریگستانوں کی خاک چھانتے رہے ۔یہاں تک کہ فقر وفاقے کی نوبت آگئی کہ تنگ آکر کچھ آدمیوں کے ایک مجمع میں اعلان کیا کہ جو شخص بھی میرے اخراجات کو برداشت کرے گا میں اس کی غلامی قبول کرلوں گا ۔ مدینہ میں ایک متمول زمیندار اس بات پر آمادہ ہوگیا مگر اس نے شرط عائد کی میں تمھیں مدینہ لے جاؤں گا اور تم وہاں میرے غلام بنکر میری خدمت کروگے عشق رسول کے سامنے یہ سود ا سلمان کوسستا نظر آیا ۔فورا آمادہ ہوگئے ۔جب دوران سفر لوگوں کو سلمان کے عقیدے اور مقصد سفر کی معلومات ہوئیں تو انھوں نے ان کا تمسخر اڑایا اور تکالیف پہنچا ئیں ۔مگر آتش عشق بجھنے کی بجائے بھڑکتی رہی ۔

سلمان مدینہ پہنچ گئے لیکن انھیں اپنے آقا کی خدمت سے اتنی فرصت وفراغت میسر نہ آسکی وہ خود اس رسول کا پتہ چلا تے ۔ایک دن وہ باغ میں کوئی خدمت انجام دے رہے تھے کہ

۱۴۵

کچھ لوگ باغ کے چشمے کے قریب آکر بیٹھ گئے چونکہ سلمان طبعا مہمان نواز اور تواضع کش تھے لہذا ایک تھا ل میں کچھ کھجوریں لیکر ان کے پاس پہنچے اور عیسائی طریقہ پر سلام کیا اور دعوت طعام کی خواہش فرمائی ۔ انھوں نے سلمان کی دعوت کو قبول کیا اور کھانا شروع کیا مگر ان میں سے ایک صاحب نے ان خرموں کو ہاتھ نہ لگایا ۔سلمان نے وجہ دریافت کی تو جواب پایا کہ "صدقہ مجھ پر اور میرے اہلبیت پر حرام ہے " سلمان نے پوچھا تم کون ہو " جواب دیا میں اللہ کا رسول ہوں " یہ سنکر سلمان واپس ہوئے اور خرمہ کا ایک دوسرا طبق لے کرآئے اور رسول کی خدمت میں ہدیہ کیا ۔آپ نے اس میں تناول فرمایا ۔سلمان کی دلی مراد پوری ہوئی۔پروانہ وار شمع رسالت کا طواف کرتے رہے ۔اور پشت مبارک پر ثبت مہر نبوت کی زیارت کاشرف پاتے ہی قدموں میں گرگئے اور فرمایا " اشھد ان لا الہ الا اللہ و اشھد انک رسول اللہ " میں گواہی دیتاہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں اس کے بعد حضرت سلمان نے راہب کی دی ہوئی لوح رسول خدا کے سپرد کردی ۔حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سلمان کے آقا کے پاس تشریف لےگئے ۔اور سلمان کو خرید کر آزاد کردیا ۔اور ارشاد فرمایا کہ تم "سلمان الخیر "ہو۔

حضرت سلمان کے ابتدا ئی حالات کو کئی طریقوں اور اختلافات سےبیان کیا گیا ہے تاہم ہمارے لئے سرکار خاتم النبین صادق وامین رسول کی زبان وحی بیان کا یہ ارشاد کافی ہے کہ حضور نے فرمایا ۔

"سلمان مجوسی نہیں تھے بلکہ وہ شرک کا اظہار کرتے تھے اور ایمان کو دل میں پوشیدہ کھے ہوئے تھے "

۱۴۶

حضور کی یہ شہادت سلمان کے ابتدائی حالات ایمان کی بحث کو ختم کردینے کے لئے کافی ہے ۔

روایات امامیہ سےیہ بات عیاں ہوتی ہے کہ حضرت سلمان فارسی کو حضرت عیسی علیہ السلام کے "وصی" ہونے کا روحانی اعزاز حاصل تھا ۔شیخ صدوق رحمۃ اللہ علیہ نقل فرماتے ہیں کہ ایک روز حضرت سلمان نے اپنے گھر کی چھت میں ایک تحریر لٹکی ہوئی دیکھی اپنی والدہ سے پوچھا کہ یہ کیا ہے ؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ ہم بھی جب گھر واپس آئے تو اسے ایسے ہی لٹکا پایا ہے ۔تم اس کو مت چھونا ورنہ تمھارے والد تمھیں سزادیں گے ۔حضرت سلمان اس وقت خاموش ہورہے مگر رات کو جب تمام گھر والے سوگئے تو آپ نے اٹھ کر اس کامطالعہ فرمالیا لکھاتھا کہ ۔

"بسم اللہ الرحمان الرحیم ۔

یہ اللہ کاعہد ہے ۔آدم سے کہ وہ ان کے صلب سے ایک نبی خلق کرے گا جس کا نام محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہوگا وہ اخلاقی بلندیوں کو حاصل کرنے کا حکم دےگا ۔ اور اصنام کی پر ستش سے منع کرے گا ۔ اے روزبہ ! تم عیسی ابن مریم کے وصی ہو اس لئے ایمان لاؤ اور مجوسیت سے دور رہو ۔اور اس سے بے زاری کا اعلان کرو۔"

اما م جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ عیسی او محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان پانچسو سال کا عرصہ ہے جس میں ڈھائی سو سال ایسے ہیں جن میں نہ تو کوئی نبی تھا اور نہ ظاہری عالم ۔راوی نے عرض کیا پھر لوگ کس دین پر تھے ؟ فرمایا وہ دین عیسوی پر تھے ۔ پوچھا وہ لوگ کیا تھے ؟ فرمایا وہ مومن تھے پھر ارشاد کیا کہ زمین اس وقت تک قائم نہیں رہ سکتی جب تک اس میں عالم موجود نہ ہو ۔ شیخ صدوق فرماتے ہیں کہ جو لوگ حجت خدا کی تلاش میں جگہ بجگہ منتقل ہوتے رہے ان میں سلمان بھی ہیں ۔وہ ایک عالم سے دوسرے عالم اور ایک فقیہ سے دوسرے فقیہ تک پہنچے

۱۴۷

رہے اور اسرار واخبار میں تدبر کرتے رہے اور حضور کے ظہور کے منتظر رہے ۔ پھر لکھا ہے کہ جناب سلمان حضرت عیسی کے وصی کے وصی تھے اسی طرح ابن طاؤس فرماتے ہیں کہ سلمان حضرت عیسی کے آخری چند اوصیاء میں سے تھے ۔ اس کے ثبوت میں ملا حسین نوری طبرسی نے ایک دلیل پیش کی ہے جو قابل غور ہے ، سلمان کی وفات کے بعد سید الاوصیاء امیر المومنین علیہ السلام نے انھیں غسل دیا حالانکہ بظاہر سلمان مدائن میں تھے اور جناب امیر مدینہ میں تھے کرامت کے ذریعہ اتنی دور تشریف لے جانے کی غالبا وجہ یہی تھی کہ وصی کو نبی یا وصی غسل دے سکتا ہے ۔پھر لوح کا مختلف وسائل کے ذریعے آنحضرت تک پہنچا نا بھی اس بات کا امکانی ثبوت ہے ۔

بہر حال قبل از اسلام کے حالات سے سلمان کو ایک مسلم دینی حیثیت ضرور حاصل تھی اور اس منزل تک پہنچنے کے لئے ان کو ایک طرف شدائد ومصائب کا مقابلہ کرنا پڑا تو دوسری طرف سنگین دشوار یوں سے دوچار ہوئے ۔یہ تمام آلام اور ناگواریاں انتہائی صبر وتحمل سے برداشت کرنا حضرت سلمان کے جذبہ حب دین ومعرفت الہی کے ذوق اور شوق زیارت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کاآئنہ دار ہے ۔حقیقی دین عیسوی سے وابستہ علماء کی صحبت او رفیض ربّانی نے یوں تو حضرت سلمان کو سونا بنا دیا تھا مگر جب آپ کو کائنات کے سب سے بڑے ہادی رحمۃ العالمین کا سایہ رحمت وشفقت نصیب ہوا تو آپ پارس ہوگئے ۔سرور کائنات کی صحبت کا رنگ ایسا پکڑا کہ صحابی سے "منّا اهلبیت " قرار پائے ۔آپ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہر قول وعمل کو اپنی زندگی کا جزو لا ینفک بنائے رکھا ۔سلمان کا منشور زندگی صرف سنت رسول کی پیروی ۔آل رسول (ع) کی محبت واتباع اور کتاب الہی کی مطابقت تھی ۔ اسی وجہ سے

۱۴۸

جو فضائل ان کو نصیب ہوئے کسی دوسرے صحابی کو حاصل نہ ہوسکے ۔حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے فرمایا کہ میں سلمان کے بارے میں کیا کہوں وہ ہماری طینت سے خلق ہوئے ہیں جس کی روح ہماری روح سے ہم آہنگ ہے ۔خداوند تعالی نے سلمان کو علوم اول وآخر اور ظاہر وباطن سے سرفراز کیا ہے ۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ سلمان مجلس رسول مقبولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں حاضر تھے کہ اچانک ایک عربی آیا ۔ اس نے حضرت سلمان کا ہاتھے پکڑا اور انھیں اٹھا کر ان کی جگہ پر بیٹھ گیا آنحضرت یہ منظر دیکھکر اتنے آزردہ خاطر ہوئے کہ چہرہ مبارک کا رنگ متغیر ہوگیا اور پیشانی اقدس پر قطرات عرق نمودار ہوئے اور اس حالت میں ارشاد فرمایا کہ" تم اس شخص کو مجھ سے دور کررہے ہو جسے خدا دوست رکھتا ہے تم اس شخص کو مجھ سے دور کررہے ہو جسے میں دوست رکھتا ہوں تو اس شخص کو مجھ سے دور کر رہے ہو جس کی منزلت یہ کہ جب بھی جبرئیل مجھ پر نازل ہوتا ہے تو خدا کا سلام اس کے لئے لاتا ہے ۔یقینا سلمان مجھ سے ہے ۔خبردار! تم سلمان کے بارے میں غلط خیال نہ قائم کرو ۔خدا نے مجھے حکم دیا تھا کہ میں سلمان کو لوگوں کی اموات اور بلاوؤں اور ان کے نسب ناموں کا علم دے دوں ۔اور انھیں ان چیزوں سے آگاہ کردوں جو حق وباطل کو جدا کرنے والی ہیں "۔

وہ عرب (ممکن ہے کہ وہ صحابی حضرت عمر ہو) صحابی جس نے حضرت سلمان کو اپنے زعم میں سمجھ کر اٹھایا تھا ۔ارشاد ات پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سنکر گھبراگیا اور عرض کی یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )میں یہ گمان بھی نہ کرسکتا تھا کہ سلمان ان مراتب جلیلہ پر فائز ہے ۔

۱۴۹

کیا وہ مجوسی نہیں جو بعد میں مسلمان ہوا ۔ حضو ر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا " میں تو خدا کی نظر میں سلمان کے درجے کوبیان کررہا ہوں اور تم خیال کررہے ہوکہ وہ مجوسی تھا ۔وہ (ہرگز ) مجوسی نہ تھا ۔ صرف اس کا اظہار کرتا تھا (تقیہ میں تھا)اور ایمان اس کے دل میں پوشیدہ تھا "

علمی مقام:-

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ ایک دن حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ عنہ نے مجھ سے بیان کیا میں نے ایک روز آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سلمان کے بارے میں سوال کیا حضور نے فرمایا ۔

"سلمان دریائے علم میں کوئی اس کی تھاہ تک نہیں پہنچ سکتا اس کو اول وآخر کے علم سے مخصوص کیا گیا ہے خدا اسے دشمن رکھے جو سلمان کو دشمن رکھتا ہے اور خدا اس کو دوست رکھے جو سلمان کو دوست رکھتا ہے "

اما م محمد باقر علیہ السلام نے فضیل بن یسار سے پوچھا کہ کیا تم جانتے ہو کہ سلمان اوّل وآخر علم کو جانتے تھے اس سے کیا مطلب ہے ؟۔فضیل نے جواب دیا یعنی وہ علم بنی اسرائیل اور علم رسالت مآب سے آگاہ ہوگئۓ تھے ۔ امام معصوم نے فرمایا نہیں یہ مطلب نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ وہ علم پیغمبر اور امیر المومنین اور آنحضرت اور امیر المومینین کے عجیب وغریب امور سے آگاہ تھے ۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام س ے مروی ہے سلمان نے علم اوّل اور علم آخر معلوم کیا اور وہ دریا علم تھے کہ جن کا علم ختم ہونے والا نہ تھا اور وہ ہم اہل بیت سے ہیں ۔ان کا علم اس درجہ پر پہنچا ہوا تھا کہ ایک روز ان کا گزر ایک شخص کی طرف ہوا جو ایک مجمع میں کھڑا تھا ۔سلمان نے اس شخص سے کہا اے بندہ خدا !پروردگار

۱۵۰

عالم سے توبہ کر اس فعل سے جو کل رات تو نے اپنے مکان میں کیا ہے یہ کہکر سلمان چلے گئے ۔لوگوں نے اس شخص کو ابھارنا چاہا کہ سلمان نے تم پر ایک بدی کی تہمت باندھی ہے اور تونے بھی اس کی تردید نہ کی اس نے جواب دیا کہ سلمان نے مجھے اس امر سے آگاہ کیا ہے جس کو میرے اور خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا تھا ۔(علمائے کے نزدیک یہ شخص اول خلیفہ اہلسنت حضرت ابو صدیق تھے )۔

روایت ہے کہ جب سلمان ایک اونٹ کو دیکھتے (جس کو لوگ عسکر کہتے تھے اور حضرت عائشہ جمل کے دن اس پر سوار ہوکر تازیانہ مارتی تھیں )تو اس اونٹ سے اظہار نفرت کرتے تھے لوگوں نے "سلمان " سے کہا کہ اس جانور سے آپ کو کیا پرخاش ہے ۔آپ نے جواب دیا یہ جانور نہیں بلکہ عسکر پسر کنعان جنی ہے ۔ جس نے یہ صورت اختیار کی ہے تاکہ لوگوں کو گمراہ کرے ۔پھر اس اورنٹ کے مالک اعرابی س کہا کہ تیرا یہ اونٹ یہاں بے قدر ہے ۔اس جو "حواب" کی سرحد پر لے جا ۔اگر وہاں لے جائے گا تو جو قیمت چاہے گا مل جائے گی ۔امام محمد باقر علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ لشکر عائشہ نے اس اونٹ کو سات سو درہم میں خرید کیا ۔جبکہ وہ لوگ حضرت علی علیہ السلام سے جنگ کے لئے جارہے تھے ۔یہ واقعہ بھی حضرت سلمان کے علمی کی تائید کرتا ہے کہ جنگ جمل سے برسوں قبل اس کی اطلاع کردی ۔

امیر المومنین علیہ السلام سے روایت ہے کہ سلمان فارسی حکیم لقمان کے مانند ہیں ۔

ابن بابویہ نے بسند معتبر امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ ایک روز جناب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ تم میں کون ہے جو تمام سال روزہ رکھتا ہے ۔سلمان

۱۵۱

نے کہا میں ہوں ۔حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پھرمایا تم میں کون ہے جو ہمیشہ شب بیدار رہے ؟۔ سلمان نے عرض کی میں ہوں ۔پھر حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پوچھا تم میں کون ہے جوہر روز ایک قرآن ختم کرتا ہے ۔سلمان نے کہا میں ہوں ۔یہ سنکر حضرت عمر بن خطاب کو غصہ آیا اور بولے یہ شخص فارس کا رہنے والا یہ چاہتا ہے کہ ہم قریشیوں پر فخر کرے ۔ یہ جھوٹ بولتاہے اکثر دنوں کو روزہ سے نہیں تھا ۔اکثر راتوں کو سویا کرتا ہے ۔اور اکثر دن اس نے تلاوت نہیں کی ۔ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا وہ لقمان حکیم کے مانند ومثل ہے ۔تم اس سے پوچھو وہ جواب دیں گے ۔ حضرت عمر نے پوچھا تو حضرت سلمان نے جواب دیک کہ تمام سال روزہ کے بارے میں یہ ہے کہ ہر مہینے میں تین روزے رکھتا ہوں ۔اور خدا فرماتا ہے کہ جو شخص ایک نیکی کرتا ہے تو اس کو دس گنا ثواب دیتا ہوں ۔اس لئے یہ تمام سال کے روزوں کے برابر ہوا ۔باوجود اس کے ماہ شعبان میں بھی روزے رکھتا ہوں ۔اور ماہ مبارک رمضان سے ملا دیتا ہوں ۔اور ہر رات شب بیداری کے یہ معنی ہیں کہ ہر رات با وضو سوتا ہوں ۔اور میں نے حضور سے سنا ہے کہ جو شخص باوضو سوتا ہے ایسا ہے کہ تمام رات عبادت میں بسر کی اور ہر روز ختم قرآن کے بارے میں یہ ہے کہ ہرروز میں تین مرتبہ سورہ اخلاص پڑھ لیتا ہوں اور میں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنا ہے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے امیر المومنین (ع) سے فرمایا کہ اے علی تمھاری مثال میری امت میں "قل ھو اللہ احد " کی مثال ہے جس نے سورہ قل ھو اللہ ایک مرتبہ پڑھا ایسا ہے کہ اس نے ثلث (ایک تہائی )قرآن کی تلاوت کی جس نے دومر تبہ پڑھا تو اس نے دوتہائی کی تلاوت کی اور جس نے تین مرتبہ پڑھا تو ایسا ہے کہ اس نے قرآن ختم کرلیا ہے اور اے علی (ع) جو شخص تم کو زبان سے دوست رکھتا ہے اس کو

۱۵۲

ثلث(ایک تہائی)ایمان حاصل ہوتا ہے ۔اورجو شخص زبان اور دل سے تمھیں دوست رکھتا ہے اس کو دو ثلث ایمان مل گیا ۔اور جو شخص زبان ودل سے تم کو دوست رکھتا ہے اور اپنے ہاتھوں سے تمھاری مدد کرتا ہے تو تمام ایمان اس کو حاصل ہوگیا ۔اے علی اس خدا کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے ۔اگر تم اہل زمین بھی اسی طرح دوست رکھتے جس طرح اہل اسمان دوست رکھتے ہیں تو خدا کسی قسم جہنم میں عذاب نہ کرتا ۔یہ سنکر حضرت عمر خاموش ہوگئے جیسے ان کے منہ میں خاک بھر گئی ہو۔

حضرت یعقوب کلینی نے امام جعفر صادق سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سلمان اور ابوذر کے درمیان صیغہ اخوت پڑھا تھا اور ابوذر پر یہ شرط عائد کی تھی وہ کبھی سلمان کی مخالفت نہ کریں گے اس لئے کہ سلمان کو ان علوم میں دسترس حاصل ہے جن کا ابوذر کو علم نہیں ۔

روایت ہے کہا ایک روز حضرت ابوذر اپنے بھائی حضرت سلمان کےگھر آئے ۔سلمان کا پیالہ شوربہ اور چربی سے بھر ہوا تھا دوران گفتگو یہ پیالہ الٹا ہوگیا مگر اس میں سے کچھ نہ گرا ۔سلمان نے اسے سیدھا کیا اور پھر مصروف گفتگو ہوئے ۔ابوذر کو یہ دیکھکر حیرت ہوئی اچانک پیالہ پھر اوندھا ہوا ۔لیکن پھر شوربا وغیرہ نہ گرا۔ اس سے ابوذر کا تعجب دہشت میں تبدیل ہوگیا ۔وہان سے اٹھے اور غور کرنے لگے کہ اچانک وہاں امیر المومنین علیہ السلام سے ملاقات ہوئی ۔ جناب امیر (علیہ السلام ) نے ابوذر سے پوچھا کہ تم سلمان کے ہاں سے واپس کیوں آگئے اور گھبرائے ہوئے کیوں ہو؟ ابوذر نے ماجرا بیان کیا حضرت امیر (علیہ السلام) نے ارشاد فرمایا "اے ابوذر ! اگر سلمان تم کو وہ امور

۱۵۳

بتادیں جو وہ جانتے ہیں تو یقینا تم کہوگے کہ سلمان کےقاتل پر خدا رحمت نہ کرے ۔اے ابوذر بے شک سلمان زمین میں خدا کی درگاہ ہیں جو ان کو پہچانے وہ مومن ہے ۔جو ان سے انکار کرے وہ کافر ہے بے شک سلمان ہم اہل بیت میں سے ہیں ۔

شیخ مفید لکھتے ہیں کہ جناب امیر حضرت سلمان کے پاس تشریف لائے اور ان سے فرمایا کہ اے سلمان اپنے مصاحب کے ساتھ مدارات کرو اور ان کے سامنے وہ امور ظاہر نہ کرو جس کے وہ متحمل نہیں ہوسکتے "

حضرت امام باقر سے روایت ہے کہ علی علیہ السلام محدث تھے اور سلمان محدث یعنی ملائکہ دونوں حضرات سے باتیں کرتے تھے ۔ امام جعفر صادق فرماتے ہیں کہ سلمان کا محدث ہونا یہ کہ ان کے امام ان سے حدیث بیان کرتے اور اپنے اسرار ان کو تعلیم کرتے تھے نہ یہ کہ براہ راست خدا کی جانب سے ان کو کلام پہنچتا تھا ۔ کیوں کہ حجت خدا کے علاوہ کسی دوسرے کو خدا کی جانب سے کوئی بات نہیں پہنچتی ۔علامہ مجلسی اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد تحریر کرتے ہیں کہ یہاں جس امر سے نفی کی گئی ہے ممکن ہے وہ خداکا بے واسطہ ملک کلام کرنا ہو اور فرشتے جناب سلمان سے گفتگو کرتے تھے ۔

چنانچہ ایک مقام پر حضرت صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ حضرت سلمان کے محدث ہونے کا مطلب یہ کہ ایک فرشتہ ان کے کان میں باتیں کرتا تھا دوسری جگہ ہے کہ ایک بڑا فرشتہ ان سے باتیں کرتا تھا ۔ ایک شخص نے تعجب سے دریافت کیا کہ جب سلمان ایسے تھے تو پھر امیر المومنین علیہ السلام کیسے رہے ہونگے ۔حضرت نے جواب دیا اپنے کام سے سروکار رکھو اور ایسی باتوں سے غرض مت رکھو (یعنی کرید نہ کرو)ایک موقعہ

۱۵۴

پر فرمایا کہ ایک فرشتہ ان کے دل میں ایسا اور ویسا نقش کرتا تھا ۔ایک حدیث میں ہے ک سلمان متمو سمین میں سے تھے کہ لوگوں کے احوال فراست سے معلوم کرلیا کرتے تھے ۔ایک حدیث معتبر میں ہے کہ امام صادق نے ارشاد فرمایا کہ سلمان اسم اعظم جانتے تھے ۔حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ ایک دن حضرت علی علیہ السلام کے سامنے تقیہ کا ذکر آیا ۔جناب امیر نےفرمایا اگر ابوذر سلمان کے دل میں جوکچھ جان لیتے تو یقینا ان کو قتل کردیتے ۔حالانکہ جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان دونوں کے درمیان بھائی چارہ قائم فرمایا تھا ۔پھر دیگر تمام لوگوں کے بارے میں کیا گمان کرتے ہو۔

یہ حدیث بھی جناب سلمان کے بلند مرتبہ عملی کی تائید میں ہے کہ جناب ابوذر پر جناب سلمان کی علمی فوقیت ثابت کرتی ہے کہ حضرت ابوذر ان علوم واسرار الہی کے متحمل نہیں ہوسکتے جو کہ سلمان پر منکشف تھے ۔

شیخ طوسی نے معتبر سند کے ساتھ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت نقل کی ہے کہ حضرت سلمان کے اصحاب میں سے ایک صاحب بیمار ہوئے چند روز تک اس سے ملا قات نہ ہوئی تو اس کا حال دریافت کیا کہ وہ کہاں ہے ۔لوگوں نے بتایاوہ بیمار ہے ۔سلمان نے فرمایا چلو اس کی عیادت کریں ۔غرض لوگ ان کے ہمراہ چلے اور اس شخص کے گھر پر پہنچے ۔اس وقت وہ عالم جان کنی میں تھا ۔جناب سلمان رحمۃ اللہ علیہ نے ملک الموت سے خطاب کیا کہ خدا کے دوست کے ساتھ نرمی اور مہربانی کرو ملک الموت نے جواب دیا جسے تمام حاضرین نے سنا کہ اے ابو عبداللہ

۱۵۵

میں تمام مومنین کے ساتھ نرمی کرتا ہوں اور اگر کسی کے سامنے اس طرح آؤں گا کہ وہ مجھے دیکھے تو بے شک وہ تم ہوگے ۔

ایک روز سلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں داخل ہوئے ۔صحابہ نے ان کی تعظیم فرمائی اور ان کو اپنے اوپر مقدم کرکے صدر مجلس میں ان کے حق کو بلند کیا او ران کی پیروی وتعظیم کی ۔برائے اختصاص جو ان کو حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آل سے تھا ۔ جگہ دی پھر حضرت عمر آئے اور دیکھا کہ وہ صدر مجلس میں بٹھائے گئے ہیں ۔یہ دیکھ کر وہ بولے یہ عجمی کون ہے ؟ جو عربوں کے درمیان صدر مجلس میں بیٹھاہے یہ سنکر حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم منبر پر تشریف لے گۓ ۔اور خطبہ ارشاد فرمایا کہ حضرت آدم کے زمانہ سے اس وقت تک کہ تما آدمی کنگھی کے دندانوں کف مثل برابر ہیں کوئی فضلیت نہیں ہے عربی کو عجمی پر ،نہ کسی سرخ وسفید کو کسی سیاہ پر مگر تقوی او رپرہیزگاری کے سبب سے ۔

سلمان ایک دریا ہے جو ختم نہیں ہوتا اور ایک خزانہ ہے جو تما م نہیں ہوتا ۔سلمان ہم اہلبیت سے ہیں سلمان حکمت عطاکرتے ہیں اور حق کی دلیلیں ظاہر کرتے ہیں ۔

استیعاب میں معرفۃ الاصحاب میں ہے کہ حضور نے فرمایا " اگر دین ثریا میں ہوتا تو سلمان یقینا وہاں تک پہنچ کر اسے حاصل کرلیتا"

جہاد:-

حضرت سلمان فارسی رحمۃ اللہ علیہ کی قبل از اسلام زندگی کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی طبیعت روحانیت ۔زہد عبادت اور معرفت کی طرف مائل رہی ۔ اور جنگ وجدل یا سپاہ گری سے ان کا کسی طرح سےبھی کوئی تعلق نہ رہا انھوں نے کسی جنگ یا

۱۵۶

لڑائی میں شرکت نہ کی بلکہ گھر س ے نکل کر عبادت خانوں میں گوشہ نشین یا تارک الدنیا بنکر اپنی روح کو مفرح ومنور کرنے کی کوشش میں مصروف رہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام کے پر چم تلے آتے ہی وہ ایک ممتاز مجاہد اور کہنہ مشق سپاہی ثابت ہوتے ہیں ۔ آپ کی اسلامی زندگی میں ایسے واقعات بھی ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلمان نے نہ صرف جہادوں میں شرکت ہی کی بلکہ بعض موقعوں پر ان کو سپہ سالار مقرر کیا گیا ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کو خاص علم وتفضل کی بدولت فنون حرب اور علم معرکہ آرائی سے بخوبی واقفیت اور کامل دسترس حاصل تھی بدر واحد کی لڑائیوں میں سلمان شریک نہ ہوئے ۔مگر سنہ ۵ ھجری میں جنگ خندق میں آپ کو بڑی نمایاں حیثیت حاصل ہوئی ۔ حضرت سلمان پہلی مرتبہ جنگ میں رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ شریک ہوئے ۔اس جنگ میں پورا عرب مسلمانوں کے مقابلہ میں آیا تھا اور شہر مدینہ کا محاصرہ کرنے کی سرتوڑ کوشش کررہا تھا ۔ شہر کی نہ ہی کوئی شہرپناہ تھی اور نہ ہی فصیل ۔لشکر کی تعداد بھی قلیل تھی جبکہ دشمن کی فوج کے غول سرپر منڈلا رہے تھے مسلمانوں کی نبض ڈوبی ہوئی تھیں اور کافر متکبر انہ آواز یں کس رہے تھے حضور کو حضرت سلمان نے مشورہ دیا کہ ایرانی طرز کی ایک خندق کھودلی جائے اسے قبول کر لیاگیا اور بمطابق وحی حضور نے خندق کھودنے کا حکم زیر نگرانی حضرت سلمان صادر فرمایا ۔اس خندق کا کھودنا کفار کے ارادوں کو دفن کرنے کی تعبیر ثابت ہوا ۔جب انھوں نے یہ نئی چیز دیکھی تو ششدر رہ گئے ۔عمرہ بن عبدود جیسے بہادر جس کا نام سنکر حضرت عمر جیسے بہادر کا دل ڈوب جاتا تھا ۔خندق کے کنارے ڈھاریں

۱۵۷

مارتا اور دیگر پہلوان باتیں بنارہے تھے کہ مسلمانوں نس یہ ایسا حیلہ کیا ہے کہ ہم عرب اس سے قطعی ناواقف ہیں انھوں نے بائیس روز سرتوڑ کوشش کی کہ کسی طرح مدینہ تک پہنچ سیکیں لیکن ایک نہ چلی آخر تنگ آکرطعن وتشیع پر اتر آئے حضور کو گستاخانہ طریقوں سے مبارزہ طلبی کی ۔آخر حضرت علی علیہ السلام نے عمروبن عبدود کو واصل جہنم کیا اور یہ فوج کثیر دم دبا کر طائف کی طرف بھگ گئی ۔جنگ فتح ہوئی ‏غزوہ خندق کے بعد کوئی ایسی جنگ نہیں ہوئی جس میں حضرت سلمان رضی اللہ عنہ شریک نہ ہوئے ۔پیران سالی کے باوجود آپ نس ہرلڑائی یمں داد شجاعت دی ۔

جب جنگ احزاب کے موقعہ پر خندق کھودی جارہی تھی تو مسلمان مختلف ٹکڑوں میں بٹ کر کام کر رہے تھے ۔خود سرورکائینات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے دست مبارک سے کھدائی کا کام کررہے تھے آپ کا جسم مبارک مٹی سےاٹا ہوا تھا اور آپ کی زبان وحی بیان پر رجز جاری تھا سلمان ضعیف العمری کے باوجود تنومند اور قوی الجثہ تھے ۔ انصارو مہاجرین دونوں ان کے ساتھ کام کرنے کے خواہشمند تھے مہاجر کہتے تھے کہ سلمان ہم میں سے ہے ۔جب اس بات کا چرچا حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تک پہونچا تو سرکارصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سلمان کا ہاتھ تھام کر فرمایا "سلمان منا اھل البیت " سلمان ہم اہلبیت میں سے ہیں ۔ اس موقعہ کے بعد متعدد بار یہ جملہ ارشاد فرمایا ۔

اہل سنۃ کے جلیل القدر امام محی الدین ابن عربی نے اس حدیث سے حضرت سلمان کی عصمت وطہارت پر استلال کیا ہے اور کہتے ہیں کہ چونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ایک بندہ خاص ومخلص تھے اس لئے اللہ نے ان کے اہل بیت کی ایسی تطہیر کی جو تطہیر کا حق تھا ۔ اور ان سے رجس

۱۵۸

اور ہرعیب کودوررکھا اور رجس عربی زبان میں گندگی کو کہا جاتا ہے پھر آیت تطہیر "انما یرید اللہ لیذھب ۔۔الخ" کے بعد کہا کہ جس شخص کو بھی اہلبیت کی طرف نسبت دی جائے گی ۔اس کا مظہر ہونا ضروری ہے اس کے بعد تحریر کیا کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا سلمان کو اہلبیت میں شامل کرنا انکی طہارت ۔خدائی حفاظت اور عصمت کی گواہی دیتا ہے ۔"

علامہ مجلسی نے بصائر الدرجات سے فضل بن عیسی کی ایک روایت حیات القلوب میں نقل کیا ہے کہ فضل کہتے ہیں ایک مرتبہ میں اور میرے والد حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔میرے والد بزرگوار نے عرض کی کیا ہے صحیح ہے جناب رسالت مآبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا ہر کہ سلمان ہم اہلبیت میں سے ہیں ۔ امام نے فرمایا ہاں ۔میرے والد نے پوچھا کیا وہ عبد المطلب کی اولاد میں سے ہیں ؟ حضرت نے جواب دیا وہ اہلبیت میں سے ہیں ۔میرے والد نے عرض کیا کہ کیا وہ ابوطالب (علیہ السلام )کی اولاد میں ہیں ؟ حضرت نے فرمایا کہ وہ ہم اہلبیت میں سے ہیں ۔میرے پدر بزرگوار نے کہا کہ میں سرکار کا مطلب نہیں سمجھ سکا ۔ حضرت صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ ایسا نہیں ہے ۔جیسا کہ تم نے سمجھا ہے ۔بے شک خدا نے ہماری طینت علیین سے خلق فرمائی اور ہمارے شیعوں کی طینت اس سے ایک درجہ پست خلق فرمائی لہذا وہ ہم میں سے ہیں اور ہمارے دشمنوں کی طینت سجین سے خلق فرمائی اور ان کے دوستوں کی طینت ان سے ایک درجہ پست خلق کی لہذا وہ لوگ ان سے ہیں اور سلمان حضرت لقمان سے بہتر ہیں ۔

اسلامی نقطہ نظر سے جب قتال ناگزیر ہوتو اہل کتاب سے لڑائی کرنے سے قبل دعوت اسلام دی جاتی ہے اگر وہ مسلمان ہونا

۱۵۹

پسند نہ کریں تو ان سے جزیہ طلب کیا جاتا ہے اور اگر وہ انکار کرکے آمادہ جنگ ہوجائیں تو تلوار ہاتھ میں لینا پڑتا ہے ۔چنانچہ چنگ خیبر کے موقعہ پر حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو یہی ہدایت کی تھی کہ ہم پہلے انھیں خدا کی توحید اور اور میری رسالت کی دعوت دینا بصورت انکار مطالبہ جزیہ کرنا اور اگر وہ پھر بھی لڑائی پر مصر رہیں تو ان سے جنگ کرنا ۔چنانچہ حضرت سلمان ان جنگی اخلاق سے بخوبی واقف تھے ۔ لہذا ہمیشہ اس پرعامل رہے ۔ چنانچہ ایک موقعہ پر وہ ایک لشکر کے امیر مقرر کئے گئے اور ان کو فارس کے ایک قلعہ کو فتح کرنے کی مہم پر مامور کیا گیا ۔جب آپ اپنی سپاہ کے ساتھ قلعہ کے نزدیک گئے تو تامل فرمایا ۔لوگوں نے پوچھا کیا آپ اس قلعہ پر حملہ نہیں کریں گے فرمایا نہیں جس طرح رسول خدا پہلے دعوت اسلام دیتے تھے اسی طرح میں بھی ان کو دعوت دوں گا پھر سلمان ان کے پاس تشریف لےگئے اور کہا کہ میں بھی تمھاری طرح فارس کا باشندہ ہوں تم دیکھ سکتے ہو کہ عرب میری اطاعت کر رہے ہیں اگر تم دل سے اسلام لےآؤ گے تو میری طرح تمھیں بھی عزت نصیب ہوگی اور اگر تم ہمارا دین قبول نہ کروگے تو میری طرح تمھیں بھی عزت نصیب ہوگی اور اگر تم ہمارا دین قبول نہ کروگے تو ہم تم پر کوئی زبردستی نہیں کریں گے صرف تم سے جزطلب کریں گے ۔اور اگر پھر بھی تم بر سر جنگ نظر آؤگے تو پھر میرے لئۓ جنگ ضروری ہوگی ۔اہل قلعہ نے جواب دیا کہ نہ ہی ہم تمھارا دین قبو ل کریں گے اور نہ ہی کوئی جزیہ دینا منظور کریں گے بلکہ تمھارا مقابلہ کریں گے ۔ اس پر لشکر سلمان نے حملہ کرنے کا اذن طلب کیا مگر آپ نے جواب دیا نہیں ابھی رک جاؤ ۔ان کو غور کرنے کا موقعہ دو ۔ آپ نے تین روز انتظار کیا اور پھرچوتھے دن حملے کا حکم دیا ۔اور قلعہ فتح کیا ۔

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254