‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) جلد ۴

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) 23%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 254

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 254 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 73363 / ڈاؤنلوڈ: 3704
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) جلد ۴

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

سوچئے اور جواب دیجئے

۱) ___ سورج کے کرّہ کا حجم زمین کے حجم سے کتنا زیادہ ہے؟ سورج کی سطح کا درجہ حرارت کتنا ہے؟

۲)___ سورج کی اتنی حرارت او رگرمی کے باوجود کرہ زمین کیوں نہیں جلتا؟ سورج زمین سے کتنے فاصلے پر ہے؟

۳)___ اگر سورج کا زمین سے اتنا فاصلہ نہ ہوتا تو کیا ہوتا؟ مثلاً اگر آدھا فاصلہ ہوتا تو کیا ہوتا؟ او راگر دوگنا فاصلہ ہوتا تو کیا ہوتا؟

وضاحت کیجئے؟

۴) ___ سورج کا زمین سے او رموجودات زمین سے ارتباط کیا بتاتا ہے؟

۵)___ کائنات میں پائے جانے والے گہرے حساب و کتاب اور نظم و ضبط کا مشاہدہ کس طرح خالق عظیم اور دانا و توانا کی طرف راہنمائی کرتا ہے؟

۶)___ ایک انسان کی بہترین اور بلند پایہ حالت کس وقت ہوتی ہے؟

۷)___ زمین کی طبعی حرکت کو بیان کیجئے اور اس حرکت کا نتیجہ انسانوں کیلئے کیا ہوتا ہے بیان کیجئے اور وضاحت کیجئے کہ اگر زمین کی یہ طبعی حرکت نہ ہوتی تو کیا ہوتا؟

۸)___ اس سبق میں بیان کی گئی آیت قرآن کو زبانی ترجمہ کے ساتھ یاد کیجئے؟

۲۱

ہر موجود کی علّت ہوتی ہے

درخت کے پتّے آہستہ آہستہ حرکت کر رہے ہیں_ اگر سوال کیا جائے کہ درخت کے پتّے کیوں حرکت کر رہے ہیں اور پتّوں کے حرکت کرنے کا سبب کیا ہے؟

تو جواب ہوگا:

ہوا پتّوں کو حرکت دیتی ہے_ پتّوں کے حرکت کرنے کا سبب ''ہوا'' ہے اگر ہوا نہ چلے تو پتّوں کی حرکت بھی ک جائے_ بالفاظ دیگر ہوا کا وجود پتّوں کے حرکت کرنے کی ''علّت'' ہے_ لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ پتّوں کی حرکت ''معمولی'' ہے اور ہوا ''علّت'' ہے_

''معمول'' اسے کہا جاتا ہے جو ''علّت'' کے ذریعہ سے وجود میں آئے _ اسی لئے اسے معلول کہا جاتا ہے_

آپ کے سامنے درخت سے ایک سرخ سیب زمین پرگرتا ہے_ آپ جھک

۲۲

کر اسے زمین سے اٹھا کر سونگھتے ہیں اور سوال کرتے ہیں کہ:

یہ سیب درخت سے کیوں گرا؟ اس کے گرنے کی علّت کیا تھی؟

زمین کی کشش ثقل، سیب کو اپنی طرف کھینچی ہے_ سیب کے گرنے کی ''علّت'' کشش ثقل ہے_

یہاں اس سلسلہ میں دو چیزیں ہیں_ ایک ''سیب کا گرنا'' اور دوسرا ''زمین کی کشش ثقل''_ کشش ثقل ''علّت'' ہوگی اور سیب کا گرنا ''معلول'' ہوگا_

اگر دیوار سے ٹیک لگائیں تو آپ اپنی پشت پر گرمی محسوس کرتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ دیوار کیوں گرم ہوگئی ہے؟ دیوار کے گرم ہونے کی علّت کیا ہے؟

آپ کا دوست کہتا ہے کہ مجھے علم نہیں_ آپ اٹھ کر کمرے سے باہر جاتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ دیوار کے پیچھے ایک بڑی سیاہ دیگ کے نیچے آگ جل رہی ہے_ آپ فوراً سمجھ جاتے ہیں کہ دیوار کے گرم ہونے کی ''علّت'' یہ آگ تھی_

یہاں بھی دو چیزیں موجود ہیں جو ایک دوسرے سے واسطہ رکھتی ہیں_ ایک دیوار کی گرمی اور دوسرے آگ کا وجود_ دیوار کی گرمی آگ کی وجہ سے ہے_ یعنی اگر آگ نہ ہوتی تو دیوار گرم نہ ہوتی_ اسی لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ آگ کا وجود ''علّت'' ہے اور دیوار کی گرمی اس کا ''معلول'' ہے_ علّت اور معلول کے درمیان مکمل رابطہ پایاجاتا ہے جب تک علّت نہ ہوگی معلول وجود میں نہیں آئے گا_ معلول ہمیشہ علّت کے ذریعہ وجود میں آتا ہے_

انسان اپنی زندگی کے آغاز سے ہی اس روشن حقیقت سے واقف ہے او رجانتا ہے کہ کائنات میں پائی جانے والی مختلف چیزوں کا ایک دوسرے سے ایک خاص تعلق ہوتا ہے___؟

۲۳

اور ____ کائنات کی یہ موجودات اپنے وجود و زندگی کے لئے ایک دوسرے کی محتاج ہیں_

چند مثالیں اور تجربات

اپنا ہاتھ بڑھا کر کوئی چیز اٹھایئے

ہاتھ کو بڑھانا آپ کا کام ہے اور آپ اس کام کی علّت ہیں_ اگر آپ نہ ہوتے تو یہ کام انجام نہیں پاسکتا تھا_

اسی طرح نگاہ اٹھا کر اپنے دوست کی جانب دیکھئے

یہ دیکھنا وہ کام ہے جو آپ انجام دے رہے ہیں_ بالفاظ دیگر آپ دیکھنے کی علّت ہیں_ یہ کام یعنی دیکھنا آپ سے تعلق رکھتا ہے اور اس کام کے لئے آپ کا ہونا ضروری ہے_ اگرآپ نہ ہوں تو دیکھنے کا یہ عمل انجام نہیں پاسکتا لہذا آپ ''علّت'' ہیں اور آپ کا کیا ہوا کام ''معلول''_ اس طرح یہ بھی ظاہر ہوگیا کہ ''معلول'' کا وجود ''علت'' کا محتاج ہے اور بغیر علّت کے معلول وجود میں نہیں آسکتا_

آپ اپنے دوست کی بات سنتے ہیں_

یہ سننا آپ کا کام ہے اور آپ کے وجود سے تعلق رکھتا ہے اگر آپ کا وجود نہ ہو تو آپ اپنے دوست کی بات نہیں سن سکتے_

آپ اپنے دوست سے محبت کرتے ہیں_

یہ محبت کرنا بھی آپ کے وجود کا محتاج ہے_ کیونکہ اگر آپ نہ ہوں

۲۴

تو آپ محبت بھی نہیں کرسکتے____ کیا ایسا نہیں ہے___؟

آپ کائنات میں پائی جانے والی بہت سی چیزوں کا علم رکھتے ہیں_

آپ کا یہ علم و دانش آپ کے وجود سے وابستہ ہے_ اگر آپ نہ ہوں تو وہ علم و دانش کہ جو آپ کے وجود کا معلول ہے وہ بھی نہ ہوتا_ آپ اپنے اور اپنے علم و محبت اور اپنے ارادے کے ساتھ ایک خاص وابستگی کو محسوس کرتے ہیں اور اچھی طرح جانتے ہیں کہ کس طرح آپ کے علم اور محبت اور ارادے کا وجود آپ کے وجود کے ساتھ مربوط اور آپ کے وجود کا محتاج ہے_

آپ حرکت کرتے ہیں، کوئی چیز لکھتے ہیں، راستہ چلتے ہیں، بات کرتے ہیں، سوچتے ہیں، سمجھتے ہیں، جانتے ہیں ارادہ کرتے ہیں، محبت کرتے ہیں_ یہ سب آپ کے کام ہیں اور آپ ان کے وجود کی علّت ہیں اور انہیں وجود میں لاتے ہیں_ اور اگر آپ نہ ہوتے تو یہ کام بھی وجود میں نہ آتے_ ان کاموں کا موجود ہونا آپ کے وجود محتاج ہے اور اسے یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ تمام کام ''معلول'' ہیں اور آپ ان کی ''علّت'' ہیں_ وہ خاص ربط جو ان کاموں کا آپ کے وجود کے ساتھ برقرار ہے اسے علّت کہا جاتا ہے_

انسان علّت کے مفہوم کو اچھی طرج جانتا ہے _ وہ ابتداء زندگی سے ہی اس سے آشنا ہے_ اور اس سے واسطہ رکھتا ہے_ مثلاً پیاس بجھانے کے لئے پانی تلاش کرتا ہے اور بھوک مٹانے کے لئے غذا ڈھونڈتا ہے_

کیا آپ، جانتے ہیں یہ کیوں ہوتا ہے___؟

یہ اس لئے ہوتا ہے کہ وہ جانتا ہے کہ پیاس بجھانے کی علّت پانی ہے، وہ بھوک ختم کرنے کی علّت غذا کو سمجھتا ہے_ کیوں سردی کے

۲۵

وقت آگ کے نزدیک پناہ لیتا ہے_ اس لئے کہ آگ کو گرمی کی علّت جانتا ہے اگر کوئی آواز سنتا ہے تو اس کی علّت کی جستجو کرتا ہے____ کیوں؟

اس لئے کہ ہر موجود علّت کا محتاج ہے (انسان)_ بجلی جلانے کے لئے بٹن دباتا ہے، بیماری دور کرنے کے لئے دوا حاصل کرتا ہے_ اپنی بات کو دوسروں تک پہنچانے کے لئے بولتا ہے_

قانون علّت، ایک عالمگیر او رکلی قانون ہے اور تمام انسان اس کے مفہوم سے آگاہ ہیں اور اسے محسوس کرتے ہیں_ تمام لوگ اسے قبول کرتے ہیں اور زندگی کو اس پر استوار کرتے ہیں_ تمام لوگ اسے قبول کرتے ہیں اور زندگی کو اس پر استوار کرتے ہیں_ اگر انسان علّت کو نہ سمجھتا اور اس پر یقین نہ رکھتا تو اس کے لئے زندگی گزارنا ممکن نہ ہوتا اور کسی کام کی انجام دہی کے لئے اقدام نہ کرپاتا_

انسان نے قانوں علّت کی حقیقت کو تسلیم کیا ہے، اسی لئے ہر موجود کے لئے اس کی علّت کی جستجو کرتا ہے_

کیوں کہتا ہے کہ پتّوں کی حرکت کا سبب کیا ہے؟

کیوں سیب درخت سے گرتا ہے؟

اسی قانون علّت کی بنیاد پر انسان مختلف قسم کی پیش گوئیاں، کرتا ہے کیونکہ وہ قانون علّت کو قبول کرتا ہے اسی لئے ہر علّت کے نتیجہ امیں ایک خاص موجود و معلول کی توقع رکھتا ہے_ سورج سے روشنی، آگ سے گرمی، پانی اور غذا سے بھوک اور پیاس کے دور کرنے کی امید رکھتا ہے_

قانون علّت ''جیسے کہ آپ کو علم ہوچکا ہے'' یہ بتاتا ہے کہ ہر موجود کا کسی دوسری چیز سے ربط ہے اور وہ اسکا محتاج ہے کہ جسے علت کا نام دیا جاتا ہے مثلاً دیوار کا گرم ہونا ایک

۲۶

نئی چیز کا وجود تھا کہ جس اپنے گرمی دیوار کے پیچھے سے جلائے ہوئی آگ سے حاصل کی تھی ہمیشہ معلول کا وجود علّت کے وجود ظاہر ہوتا ہے اور علت کا محتاج ہوتا لیکن علت کو معلول کی احتیاج نہیں ہوتی

سوال :

اب ہم سوال اٹھاتے ہیں کہ اس کائنات اور جو کچھ اس میں موجود ہے اس کی علّت کیا ہے؟ زمین اور آسمان اور سورج اور ستاروں کے وجود کا سرچشمہ کیا ہے___؟ یہ کائنات بھی ایک وجود ہے اور دوسرے چھوٹے بڑے موجودات کی طرح کسی چیز سے وابستہ اوراپنے وجود کے لئے محتاج ہے ___ یہ کس سے وابستہ اور کس کی محتاج ہے؟ اس کے وجود کی علّت کیا ہے؟ وہ کون سا غیر محتاج و بے نیاز وجود ہے کہ جس نے اس محتاج کائنات کووجود بخشا ہے ؟ اس جہان کے وجود کی علّت کیا ہے؟

انسان کی عقل اور وجدان کہ جس نے قانون علّیت کو ایک ضابطہ اور فارمولے کے طور پر قبول کر لیا ہے جو قادر اور توانا ہے _ جس نے اسے اپنی قدرت سے پیدا کیا ہے اور اسے چلارہا ہے اور اس کی عظمت و قدرت تمام جہان پر سایہ فگن ہے_

یہ کائنات اسی سے وابستہ اور اسی کی محتاج ہے_ اس جہان کا سرچشمہ اور علّت وہی ہے_ وہ اس کائنات کا قادر و توانا اور بے نیاز خالق ہے___ وہ خدا قادر مطلق ہے ہستی دینے والا خدا ہے جو جہان کو

۲۷

ہستی اور وجود کا نور عطا کرتا ہے_ اور ہر لحظہ اس کی ضروریات کو پورا کرتا ہے وہ عالم اور قادر ہے_ اس نے یہ کائنات خلق کی _ اس میں نظم و ضبط و ہم آہنگی کو وجود بخشا اور اسے چلارہا ہے _ یہ وہ ذات ہے جو ہر لحظہ ہمارے وجود کی ضروریات کو پورا کرتی ہے اور اپنے لطف و کرم کے چشمے سے سیراب کرتی ہے

ہم اس کے بندے اور محتاج ہیں اور اس کی قدرت اور عظمت کے سامنے سرتسلیم خم کئے ہوئے اس کے فرمانبردار ہیں_

اس کی بے اتنہا اور مسلسل نعمتوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں، اور اس کے فرامین اور راہنمائی کواپنی زندگی کے لئے مشعل راہ قرار دیتے ہیں_

آیت قرآن

( انّ الله یمسک السّموت والارض ان تزولاه و لئن زالتا ان امسکهما من احد من بعده)

سورہ فاطر ۳۵_ آیت ۴۱

'' یقینا خدا ہے کہ جس ن زمین اور اسمان کو بر قرار رکھا ہے تا کہ نابود نہ ہوجائے اور خدائے تعالی کے علاوہ کوئی بھی نہیں جواسے نابودی سے بچا سکے ''

۲۸

سوچیے اور جواب دیجیے

۱_ علّت اور معلول کے درمیان کیا تعلق ہے؟ ان میںسے کون دوسرے سے وابستہ اور اس کا محتاج ہوتا ہے___؟

۲)___ معلول کسکے وجود کا نتیجہ ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی موجود بغیر علّت کے وجود میں آسکے___؟

۳)___ اس سبق میں جن ''معلولوں'' کا ذکر ہوا ہے، ان کے ساتھ ان کی علّت تحریر کریں___؟

۴)___ علت اور معلول کے درمیان ربط کو کیا نام دیا جاتا ہے؟کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی انسان قانون علّیت کے مفہوم کو نہ جانتا ہو، اور اس کا اسے یقین نہ ہو___؟ اس کی وضاحت کیجئے ___؟

۵)___ قانون علّیت ایک کلّی ضابطہ ہے؟ وضاحت سے بیان کیجئے___؟

۶)___ انسان جب ''کیوں، کا لفظ استعمال کرتا ہے تو اس سے کیا سمجھا جاتا ہے___؟

۲۹

بڑے آبشار کا سرچشمہ

درختوں سے گھرے ہوئے فلک بوس پہاڑی درّے سے اس بلند اور خوشنما آبشار کا نظار ہ کیجئے_ آہا کیسا حسین منظر ہے_

کاش کسی چھٹی کے دن دوستوں کے ساتھ مل کر اس بلند اور خوشنما آبشار کو دیکھنے کے لئے وہلاں جاتے اور بید کے درختوں کے سائے میں ''جو اس ندی کے کنارے پر موجود ہیں'' بیٹھ کر اس دل فرب نظارے کو دیکھتے ، صاف ٹھندی اور فرحت بخش ہوا سے لطف اندوز ہوتے_ آبشار کے صاف و شفاف پانی میں نہاکر تھکان دور کرتے اور روح کو تازگی بخشتے_

سچ آبشار کا یہ زور و شور سے جھاگ اڑاتے نیچے گرنا کتنا خوبصورت، روح پر ور اور قابل دید ہے_

جب اسے دور سے دیکھتے ہیں تو ایک بلند وبالا چاندی کے ستون کی طر ح

۳۰

نظر آتا ہے کہ جو مضبوطی کے ساتھ سیدھا کھڑا ہے_ لیکن جب اس کے نزدیک پہنچتے ہیں تو تندوتیزپانی کابہاؤ نظر آتاہے جوتیزی اورجوش سے شور مچاتا،جھاگ اڑاتا اور موجیں مارتا ہوا نیچے گر رہا ہے_ اورہر لمحہ پانی پہاڑ کی بلندی سے تیزی کے ساتھ نیچے ندی کے ہموار بستر پر گر کر انگڑائی لیتا ہوا آگے کی طرف بہنے لگتا ہے_

اس وقت یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ سفید اور بلند ستون جو دور سے سیدھا کھڑا ہوا دکھائی دے رہا تھا وہ ایک لمحہ کے لئے بھی ٹھہرا ہوا نہیں ہے، بلکہ حرکت میں ہے اور ہر لمحہ پانی کا ایک نیار یلا اس آبشار سے گرتا ہے، گویاہر ہرلمحہ ایک نیا آبشار وجود میں آتاہے_

آبشار کی یہ روانی اورہرآن نئے وجود سے آپ کے ذہن میںایک سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ اس آبشار کاسرچشمہ کہاں ہے___؟

اس آبشاار کے وجود میںآنے کی علّت کون سا سرچشمہ ہے___؟

کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ہر موجود کے لئے کسی نہ کسی علّت کا ہونا ضروریہ ہے_لہذا یقینا یہ آبشار بھی کہ جومسلسل بہہ رہا ہے اور ہر لمحہ ایک نئے وجود کی صورت میں ظاہر ہو رہا ہے اس کے لئے بھی علّت و سرچشمہ کا وجود ضروری ہے_ لیکن ہم نہیں جانتے کہ یہ سرچشمہ اورعلّت کیا ہے اورکہاںہے_

اس واضح مثال کو سامنے رکھتے ہوئے اس کائنات اور اس میںپائی جانے والی موجودات پرنظرڈالیں توکیادیکھیںگے___؟

کیا یہ ایک ایسامجموعہ ہے جوایک جگہ ٹھہرااورکھڑاہواہے___؟

یاپھر ایسامجموعہ ہے جو مسلسل گردش میں ہے اور چل رہا ہے___؟

سورج کے نکلنے کو دیکھیئےور اس کے شفق رنگ غروب ہونے پرنظر

۳۱

ڈالئے___ سورج کے نکلنے سے دن روشن ہوجاتا ہے_ اور اس کا ہر لمحہ نیا پیدا ہوتا ہے اور ساعت بہ ساعت گزرتا ہے_ غروب کے وقت دن ختم ہوجاتا ہے اور رات نمودار ہوتی ہے_ رات بھی ایک لحظہ کے لئے نہیں رکتی اور مسلسل گردش میں رہتی ہے_ یہاں تک کہ طلوع آفتاب تک پہنچ جاتی ہے گرمی، سردی، بہار اور خزال کے موسموں کو دیکھئے_ سردی کی نیند میں سوئے ہوئے پیڑ اور پودے بہار کی خوشگوار ہوا سے بیدار ہوتے ہیں_ کو نپلیں پھوٹنے لگتی ہیں پھر شگوفے اپنی بہار دکھاتے ہوئے اوربتدریج سفر طے کرتے ہوئے خوش رنگ پھولوں اورلذیذ پھلوںمیں تبدیل ہوجاتے ہیں_

بہارجاتی ہے اورخزاں آپہنچتی_درخت اپنے سرسبز وشاداب پتوں سے محروم ہوجات ہیں، زرد اورپمردہ پتّے درختوں کی ٹہنیوں سے زمین پرر گرپڑتے ہیں_ آج کی آمد سے گزری ہوئی کل کا نشان تک باقی نہیں رہتا_

موسم سرما کی آمد، گرمی اورجہاد کوبھلادیتی ہے_ پس ساری چیزیں حرکت اورتغیر میں ہیں_ذرا اور نزدیک آیئےورقریب سے دیکھئے کیا یہ عالم رنگ و بو ایک ساکت اورٹھہرا ہوامجموعہ نظر آتاہے___؟ یا ایک بلند آبشار کی طرح مسلسل متغیر اورہرلمحہ حرکت پذیر کارخانہ قدرت___؟

دورترین کہکشاں سے لے کر یہ چھوٹاسا ذرّہ جو آپ کے نزدیک پڑا ہے تمام کے تمام ایک حیران کن تغیر اور گردش میں ہیں اوراپنی مسلسل حرکت کوجاری رکھتے ہوئے عجیب و غریب اورنئی صورتیں پیدا کر رہے ہیں_ سورج، چاند، ستارے، پانی، مٹی، دن،رات،سال، مہینے، بادل، ہوا، بارش

۳۲

سب ایک بلند آبشار کی طرح حرکت کرنے میں مشغول ہیں_ تمام ایک زنجیر کے مختلف حلقوں کی طرح آپس میں مربوط ایک ہدف اور مقصد کے حصول کے لئے کوشاں ہیں_

ہر لمحہ موجودات کا وجود میں آنا اورتغيّر وحرکت میں رہنا ذہن میں ایک سوال پیدا کرتا ہے اوروہ یہ کہ اس کائنات کے بلندآبشار اوراس میں موجودات کا سرچشمہ کون ہے___؟ اس آبشار کے وجود میںلانے کی علّت کا سرچشمہ کون ہے؟ اس کا کیا جواب دیا جاسکتا ہے___؟

کیا یہ کہاجاسکتا ہے کہ اس وسیع کائنات کے مختلف موجودات جو آپس میں مربوط اور ایک بلند آبشار کی طرح ہیں بغیر کسی علّت کے وجود میں آئے ہیں

انسانی فطرت کہ جو معمولی سی چیز کے وجود میں آنے کے لئے بھی علّت کی قائل ہے اس جواب کوہرگز پسندنہیں کرے گی بلکہ وہ ضروربالضروراس جہان ہستی کے موجودات کے لئے کوئی نہ کوئی علّت معلوم کرنا چاہے گی اوراس بلند وبالاآبشار کے لئے بھی طاقتور سرچشمہ کی جستجو کرے گی_ ایسی علّت کی کہ جواس کائنات کی تمام چھوٹی بڑی موجودات کا سرچشمہ ہو اور جس نے اپنے بے انتہا علم و قدرت کے ذریعہ اس عجیب و غریب نظام اورایک دوسرے سے مربوط اورایک مقصد کی جانب گامزن موجودات پیدا کیاہوااوران کو چلارہاہو_

انسان کی فطرت میںجوعلّت کی جستجو رکھی گئی ہے وہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اقرار کرے ی کہ اس جہان کے وجود (جومسلسل اورہر آن ایک نئی چیز وجود میں لارہاہے) کی علّت ایک عظیم، طاقتور اوربے نیازخالق ہے جس نے اپنے بے پناہ علماورقدرت و توانائی سے اسی جہان اوراس میں جانے والے تمام موجودات

۳۳

کوپیدا کیاہے اور ا ن کی ایک معيّن و معلوم ہدف اورغرض کی طرف رہنمائی وہدایت کر رہاہے_ وہ خالق اس ہستی اور وجود کے بلند آبشار کاسرچشمہ ہے اوراپنے علم وتدبیر سے اسے رواںدواںرکھے ہوئے ہے_ اس جہان کا ہر ایک وجود اورہر ایک ذرّہ اپنے وجود میں اس کامحتاج ہے لیکن وہ ان میں سے کسی کامحتاج نہیں ہے اور کوئی بھی چیز اسکی مانند اورمثل نہیں ہے_

سبب وعلّت کی متلاشی عقل اچھی طرح جانتی اورمحسوس کرتی ہے کہ کائنات اوراس کے تمام موجودات ایک بلند اور خوبصورتن آبشار کے مانند ہیں کہ جو خود سے کچھ بھی نہیں بلکہ ہرہرقطرہ اورہرہر ذرّہ کاسرچشمہ قدرت کاایک لامحدود مرکز ہے_

تمام موجودات اسی ذات کے معلول ہیں اوراسی سے اپنے وجود کارنگ لیتے ہیں_ اسی ذات کے نور اورروشنی سے یہ روشن اورظاہر ہوتے ہیں_

یہی علّت کی متلاشی انسانی عقل اسے دعوت دیتی ہے کہ اس لامحدود قدرت کے مرکز کو پہچانے اور اس سے زیادہ سے زیادہ واقف ہو کیونکہ تمام اچھائی اورخوبی اسی سے ہے اور انسان کو اسی کی طرف لوٹنا ہے_

اگر انسان غور کرے اور کائنات کی تمام موجودات کا اچھی طرح مطالعہ کرے تو صاف طورسے مشاہدہ کرے گا کہ تمام کائنات اورجوکچھ اس میںہے صرف ایک وجود اوربے پناہ قدرت وحیات پرتکیہ کئے ہوئے ہے اور اسی کی مہرومحبت کے سرچشمہ سے وجود اورحیات حاصل کر رہا ہے_ اسی فکر و بصیرت کے سایہ میں انسان کاقلب ہرچیز سے بے نیاز ہوکرصاف اورصرف اس ذات سے پیوستہ ہوجاتا ہے اوراسکی عظمت وکبریائی کے علاوہ کسی اور کے سامنے اس کا سرنہیں جھکتا، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ دوسروں کے پاس جو کچھ بھی ہے سب اسی ذات کا عطا کیاہواہے،

۳۴

لہذامخلوقات خدا نے لگا ہیں پھیر کر وہ اپنال دل صرف اسی سے لگالیتا ہے جو علم و قدرت، رحمت و خلقت کا سرچشمہ ہے اوراپنے آپ کوعظیم خالق کائنات اورپروردگار عالم کی حکومت و سرپرستی میں دے دیتا ہے_ سوائے اس کی رضا کے کسی دوسرے کی رضال نہیں چاہتا،سوائے اس کی قدرت کے کسی اورکی قدرت کونہیں مانتا_

اولیاء اورانبیاء خدا کی رہنمائی ورہبری میں خدا کے احکامات کوتسلیم کے ان پر عمل کرتا ہے_ اپنے پاکیزہ اخلاق اور نیک اعمال کے ساتھ اس کے تقرب اور محبت کے راستے پر چلتا ہے اور اس طرح انسانیت کے کمال کے آخری درجہ تک پہنچ جاتا ہے_ حقیقی کمال اور دنیا و آخرت کی سعادت کو حاصل کرلیتا ہے کہ جس کی عظمت اور زیبائی ناقابل تعریف ہے_

آیت قرآن

( انی الله شكّ فاطر السّموت والارض)

( سورہ ابراہیم ۱۴_آیت ۱۰)

کیا خدا میں بھی شک کیا جاسکتا ہے؟ وہ ہے کہ جس نے زمین اورآسمانوں کو پیدا کیاہے

سوچیے اورجواب دیجئے

۱) ___آبشار کس طرح وجود میں آتاہے؟ کیایہ ایک ثابت اور غیر

۳۵

متحرک وجود ہے یا ایک متغیر ومتحرک وجود ہے؟

۲) اگر آبشار کے ہرلحظہ نئے وجود کودیکھا جائے توذہن میں کیاسوال ابھرتاہے؟

۳) جب کائنات اوراسکے موجودات کودیکھا جائے تو اس میں کیانظر آتا ہے؟کیا وہ ایک ثابت اور ساکت مجموعہ ہے؟ یاایک متغیر اورحرکت کرنے والامجموعہ؟ وضاحت کیجئے؟

۴) اس کائنات کے ہمیشہ متحرک اورمتغیر ہونے کی کوئی مثال بیان کیجئے؟

۵) جب کائنات میں تغیر اور نیا وجود دیکھیں تو اس سے دذہن میں کیا سوال اٹھتا ہے؟

۶) کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس وسیع کائنات کے موجودات بغیر علّت کے وجود میں آئے ہیں؟ اگر نہیں توکیوں؟

۷) انسان کی علّت کی متلاشی فطرت اس عجیب نظام اورموجودات کے آپس میں ارتباط اورباہدف ہونے سے کیاسوچے گی؟

۸) اس وجوداوربلند ہستی کے آبشار کا سرچشمہ کون ہے؟

۹) اس حقیقت کو پالینے کا نتیجہ کہ ''اس کائنات کا سرچشمہ خدا ہے'' کیا ہے؟

۱۰) کیوں ایک خداشناس اور خداپرست انسان خدا کے آگے سرتسلیم خم کردیتا ہے اوراس کی حکومت و سرپرستی کو قبول کرلیتا ہے؟

۳۶

خداشناسی کی دودلیلیں

دلیل اس عمدہ اور واضح بیان کوکہاجاتا ہے جس سے کسی بات کو ثابت کیا جائے اور اس سے متعلق نا واقفیت اور شک کو دور کیا جائے_ نیز اس قسم کے بیان کواصطلاح میں ''برہان'' کہا جاتا ہے_

ہم اب تک خداشناسی کے لئے دو دلیلوں سے واقف ہیں کہ جن میںسے ایک کو ''دلیل نظم'' اوردوسرے کو ''دلیل علّیت'' کہا جاتا ہے_ لہذا اب ہم ان دونوں دلیلوں پر تحقیق و جستجو اوران کا آپس میںتقابلی تجزیہ کرتے ہیں_

۱)دلیل نظم

خداشناسی کے بحثیں جو اس کتاب کی ابتداء میں اوراس کتاب کے سابقہ حصوں

۳۷

میں آپ نے پڑھی ہیںتمام اسی دلیل نظم کی بنیادپرتحریرکی گئی ہیں_

مثلاً گزشتہ کتاب میں جب ہم اپنے بدن کے نظاموں میںسے ایک کے متعلق مطالعہ کر رہے تھے تو ہم نے پڑھا تھا کہ:

اس نظام میں جس حیرت انگیز نفاست سے کام لیا گیا ہے اس پراچھی طرح غور و فکر کیجئے اورخون کی گردش کے سلسلہ میں گردہ اورمثانہ کے در میان پائے جانے والے گہرے ارتباط اورنظم و ضبط پر فکر انگیز نگاہ ڈالئے_

آپ کیا دیکھتے ہیں___؟

کیا ایک با مقصد اورمنظم مجموعہ___؟

یاایک بے مقصد اورغیر منظم مجموعہ___؟

اس نہایت نفیس اہم عضواور اس حساس مجموعہ کے مشاہدہ سے آپ کے ذہن میں کیا خیال آتاہے___؟

اس کی تخلیق میں پائے جانے والے باریک حساب وکتاب اوراس کی ساخت میں جس تناسب و ارتباط اورہم آہنگی سے کام لیا گیا ہے اس سے آپ کیا سمجھتے ہیں؟

آیا آپ کواس بات کا یقین نہیں ہوتا کہ یہ گہرا اورمنظم نظام (اور ہمارے بدن کے دوسرے نظام) خودبخود اوربغیر کسی حساب و کتاب کے وجود میں نہیں آئے گا___؟

آیا ممکن ہے کوئی عقل و شعور رکھنے والا انسان یہ بات تسلیم کرے کہ ساکت و بے شعور طبیعت (مادّہ) نے یہ حیرت انگیز نظام پیدا کیا ہے؟ ہرگز نہیں___؟

بلکہ ہر عقل و باشعور انسان یہ اقرار کرے گا کہ ایک دانا اور توانا

۳۸

ہستی اس کی خالق وبنانے والی ہے اور اس کے بنانے میں اسی کا کوئی مقصد وہدف ہے_ اس بنیاد پرعقل وفہم رکھنے والے ہر انسان کا ایمان ان حیرت انگیز چیزوں کے مشاہدہ سے ایک عظیم خال عالم وقادر کے وجود پر مزید مضبوط ہوجاتا ہے اوراس کی شان وشوکت،قدرت اور لامحدود نعمتوں کے آگے اس کا سرتسلیم خم ہوجاتاہے_

خداشناسی کے متعلق جس دلیل کا آپ نے مندرجہ بالا سطورمیں مطالعہ کیا اسے دلیل نظم کہاجاتا ہے_ یعنی کائنات میں پائے جانے والے موجودات کودیکھ کراوران کے ہر ذرّہ میں نظم و ہم آہنگی، گہرے حساب اور درست تناسب کے مشاہدہ سے نتیجہ اخذکیاجاتا ہے_ کہ اس منظم اور مربوط نظام کی خالق اورپیدا کرنے والی اکی ایسی عالم وقادرہستی ہے جس نے اپنے علم اورقدرت سے ایسا عجیب وغریب نظم و ربط پیدا کیا ہے_ کیونکہ اگراس نظام کاخالق، جاہل اورناتواں ہوتا تو اس کے کام کا نتیجہ سوائے بے نظمی اور بے ربطی و بے حسابی اور بے مقصدی کے اور کچھ نہ ہوتا_

دلیل نظم کو مختصراً یوںبیان کیا جاسکتا ہے کہ:

عالم خلقت مکمل نظم وترتیب اور ہم آہنگی و ارتباط مبنی ہے اور ہر نظم وترتیب اورہم آہنگی وتناسب ایک دانا وتوانا کا کام ہوتا ہے_ پس یہ جہان بھی ایک داناو توانا خالق کی مخلوق ہوگا_

اس دلیل یعنی دلیل نظم میں پہلے اجزاء کائنات میں پائے جانے والے نظم وہم آہنگی اور حساب و کتاب وتناسب پرتوجہ کی جاتی ہے اورپھر اس اصول پریقین کے ساتھ کہ ''نظم وتناسب کسی عالم ودانا کا محتاج ہے'' یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیںکہ

۳۹

کائنات میں یہ جو عظیم نظم و ہم آہنگی قائم ہے اس کی خالق ایک دانا وتواناہستی ہے_

۲) دلیل علّیت

اس سے پہلے دو سبق جن کا آپ نے مطالعہ کیا وہ دونوںدلیل علّیت کی بنیادی پرتحریر کئے گئے ہیں_ دلیل علّیت میں کائنات کے اجزا کے درمیان پائے جانے والے نظم و ہم آہنگی کامطالعہ نہیں کیا جاتا بلکہ موجودات کی ذات وہستی پر نگاہ ڈالی جاتی ہے_

اوروہ خاص احتیاج جو ہر موجود علّیت کے سلسلہ میں رکھتا سے اس کا مطالعہ کیا جاتا ہے_

قانون علّیت کی بنیاد پر کہ جس پرانسان مضبوط یقین رکھتا ہے ہم بحث کو اس طرح پیش کرتے ہیں:

'' ہر موجود جو وجود میں آتا ہے اس کا وجود خود اپنا نہیں ہوتا، بلکہ وہ کسی دوسری چیز سے وابستہ اور اس کامحتاج ہوتا ہے کہ جسے ''علّت'' کہا جاتا ہے_

یہ کائنات بھی جو مختلف موجودات کا مجموعہ ہے، لازماً اس کی بھی کوئی علّت ضرور ہے_ اس کائنات کے موجودات کوئی نہ کوئی سرچشمہ رکھتے ہیں، ایک عظیم طاقتور اور بے نیاز خالق رکھتے ہیں، وہی اس بلند آبشار ہستی کا سرچشمہ اور علّت ہے_ اس ہستی کا ہر ایک قطرہ، ہر ایک ذرّہ اور ہر ایک وجود اپنی پیدائشے میں اس کا محتاج ہے لیکن وہ کسی کا محتاج اور کسی کا ہم مثل نہیں_

اگر انسان خوب غورکرے تو وہ واضح طور پرمشاہدہ کرے گا کہ تمام

۴۰

3 ۔ علم و آگاہی

ظاہر ہے کہ انسان صرف اسی وقت کسی فرض کو ادا کرنے پر قادر ہو سکتا ہے جب وہ اس سے آگاہ ہو یعنی وہ فرض اس تک پہنچا دیا گیا ہو فرض کریں کہ کوئی قانون ساز قانون وضع کر دے لیکن قانون اس شخص تک نہیں پہنچا جس نے اس پر عمل کرنا ہے تو وہ شخص اس قانون کی پابندی کا ذمہ دار نہیں بلکہ وہ اس قانون پر عمل کرنے پر قادر بھی نہیں اور اگر وہ شخص اس قانون کے خلاف عمل کرے تو قانون ساز اس کو سزا نہیں دے سکتا۔

علمائے علم اصول کا نظریہ ہے کہ اس شخص کو سزا دینا قبیح ہے جو فرض سے آگاہ نہیں ہے اور جس نے فرض معلوم کرنے میں کوتاہی بھی نہیں کی اور قانون کی اس شق کو ”عقاب بلا بیان کی قباحت“ کہتے ہیں۔

قرآن حکیم نے مکرر اس حقیقت کو بیان کیا ہے کہ ”ہم کسی قوم کو کسی قانون کی خلاف ورزی کی سزا نہیں دیتے مگر یہ کہ ان لوگوں پر حجت پوری ہو گئی ہو“ یعنی ہم کسی قوم کو ”بلا بیان سزا نہیں دیتے۔

البتہ فرض کے لئے ”علم و آگاہی“ کی جو شرائط اوپر بیان کی گئی ہیں اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ انسان عملاً اپنے آپ کو بے خبری میں رکھے اور اس بے خبری کو اپنے لئے عذر بنائے اس کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ علم حاصل کرے اور اس علم کی بناء پر عمل کرے۔

۴۱

حدیث میں آیا ہے کہ قیامت کے دن بعض گناہگاروں کو اللہ کی عدالت میں حاضر کیا جائے گا اور اپنی بعض ذمہ داریوں کی ادائیگی میں کوتاہی کرنے پر ان کا مواخذہ کیا جائے گا۔ گناہگار سے کہا جائے گا: ”تو نے اپنا فرض کیوں پورا نہیں کیا؟“ وہ جواب دے گا: ”مجھے معلوم نہ تھا۔“ پھر اس سے کہا جائے گا: ”تم نے معلوم کیوں نہ کیا اور علم حاصل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟“

یہ جو ہم کہتے ہیں کہ فرض سے مطلع ہونا ادا کرنے کی شرط ہے اس سے مراد یہ ہے کہ اگر فرض کا حکم کسی شخص تک نہ پہنچ سکے اور عدم حصول علم میں اس شخص کا کوئی قصور بھی نہ ہو تو وہ شخص قصوروار متصور نہ ہوگا یعنی اس نے علم حاصل کرنے کی ضروری کوشش تو کی لیکن باوجود اس کے وہ معلوم نہیں کر سکتا تو ایسا شخص خدا کے نزدیک معذور قرار پائے گا۔

4 ۔ طاقت و توانائی

اصل میں وہی کام انسان کے لئے فرض قرار پاتا ہے جس کی انجام دہی کی اس میں طاقت ہو لیکن وہ کام جس کی انجام دہی پر انسان قادر نہ ہو فرض قرار نہیں پاتا اس میں شک نہیں کہ انسان کی توانائیاں محدود ہیں چونکہ قوت محدود ہے لہٰذا چاہئے کہ اس کے فرائض اس کی قوت کی حدود کے اندر ہوں مثلاً انسان میں حصول علم و دانش کی قوت ہے لیکن وقت اور معلومات کی مقدار کے لحاظ سے مقرر حدود کے اندر ہے۔ ایک انسان نابغہ روزگار ہی کیوں نہ ہو وہ ایک مدت میں تدریجی طور پر ہی علم و دانش کے مدارج طے کر سکتا ہے۔

اب اگر کسی شخص کو مجبور کیا جائے کہ وہ چند سالوں کا علم ایک رات میں حاصل کر لے تو اصطلاحی زبان میں اسے ”تکلیف بمالایطاق“ یعنی ”اس کام کا حکم جو انسان کی طاقت سے باہر ہو“ کہتے ہیں۔ اسی طرح کسی کو حکم دیا جائے کہ وہ دنیا کے تمام علوم حاصل کرے تو یہ بھی ایسا حکم ہے جو طاقت اور توانائی سے باہر ہے۔

۴۲

قرآن حکیم میں آیا ہے:

لا یکلف الله نفسا الا وسعها

”اللہ کسی شخص کو مکلف نہیں بناتا مگر اس پر جو اس کی طاقت میں ہو۔“( سورہ بقرہ آیت 286)

اگر کوئی شخص غرق ہو رہا ہو اور ہمارے اندر اس کو بچا لینے کی طاقت ہو تو ہم پر واجب ہے کہ ہم اس کو بچائیں لیکن اگر کوئی ہوائی جہاز گر رہا ہو اور ہم کسی طرح سے بھی اس کو گرنے سے روکنے پر قادر نہ ہوں تو ہماری ذمہ داری ساقط ہو جاتی ہے اور ایسی صورت میں خداوند تعالیٰ ہم سے مواخذہ نہیں کرتا۔

یہاں ایک نکتہ قابل ذکر ہے کہ وہ یہ کہ جیسا کہ ہم نے ”علم و آگاہی“ کے بارے میں کہا کہ فرض اور ذمہ داری کا ”علم و آگاہی“ سے مشروط ہونے سے یہ لازم قرار نہیں پاتا کہ ہم ”علم و آگاہی“ کے حصول کے ذمہ دار نہ ہوں اس طرح ادائیگی فرض کا ”طاقت و توانائی“ کے ساتھ مشروط ہونے سے یہ لازم نہیں قرار پاتا کہ ہم طاقت و توانائی کے حصول کے ذمہ دار نہ ہوں البتہ بعض مواقع میں طاقت کا ضیاع کرنا حرام ہے اور طاقت کا حصول واجب مثلاً ہمیں ایک زبردست طاقت ور دشمن کا سامنا ہے جو ہمارے حقوق یا ہمارے دین اسلام پر حملہ کرنا چاہتا ہے اور ہم موجودہ صورت حال میں مقابلہ نہیں کر سکتے اور اس سے ہر طرح کا مقابلہ بھی اپنی طاقت کا ضیاع ہے جب کہ ہمیں اس وقت یا مستقبل میں اس عمل سے کوئی مثبت نتیجہ بھی حاصل نہیں ہو سکتا۔

ظاہر ہے ایسی صورت میں ہم دشمن کے مقابلے یا اس کو حملہ کرنے سے روکنے کے ذمہ دار نہیں ہیں لیکن ایک ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے کہ ہم ”طاقت اور توانائی“ حاصل کریں تاکہ ایسے حالات میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہ بیٹھے رہیں۔

۴۳

قرآن کریم کا ارشاد ہے:

واعد و الهم استطعتم من قوة و من رباط الخیل ترهبون بعدو الله و عدوکم ( سورہ انفال آیت 60)

”جہاں تک ممکن ہو اپنے گھوڑے اور طاقت تیار کرو تاکہ اس طرح تمہارے دشمن اور خدا کے دشمن تم سے ڈریں اور تم پر حملہ کرنے کا خیال اپنے ذہن سے نکال دیں۔“

جیسا کہ ایک فرد یا جاہل معاشرہ جو حصول علم میں کوتاہی کرتا ہے خدا کی طرف سے قابل مواخذہ قرار پاتا ہے کہ اس نے ”علم و آگاہی“ کیوں حاصل نہیں کی اور اس کی جہالت بطور عذر قبول نہیں کی جاتی اسی طرح ایک کمزور فرد یا معاشرہ بھی جس نے طاقت کے حصول میں کوتاہی کی ہو قابل مواخذہ قرار پاتا ہے کہ اس نے کیوں طاقت اور قوت حاصل نہ کی اور اس کی کمزوری کو عذر کے طور پر قبول نہیں کیا جا سکتا۔

5 ۔ آزادی و اختیار

ادائیگی فرض کے لئے آزادی اور اختیار بھی ایک شرط ہے یعنی ایک شخص اس وقت ادائیگی فرض کا ذمہ دار ہوتا ہے جب کہ اس کے لئے جبر یا اضطرار کی صورت نہ ہو اگر وہ مجبور یا مضطر ہو تو فرض ساقط ہو جاتا ہے ”جبر“ کی مثال یہ ہے کہ ایک جابر شخص کسی کو دھمکی دے کہ وہ اپنا روزہ توڑ دے اور اگر وہ روزہ نہ توڑے تو وہ اس کو جان سے مار دے گا۔ ظاہر ہے کہ ایسی حالت میں روزہ رکھنے کا فرض ساقط ہو جاتا ہے یا مثلاً اگر ایک شخص حج کی استطاعت رکھتا ہے اور وہ حج پر جانا چاہتا ہے اب ایک جابر شخص اس کو دھمکی دے کہ اگر وہ حج پر گیا تو اسے یا اس کے متعلقین کو نقصان پہنچائے گا۔

۴۴

حضور نے فرمایا ہے:

رفع ما ستکرهوا علیه (الجامع الصغیر ج 2 ص 16)

”جہاں جبر درمیان میں آ جائے وہاں فرض ساقط ہو جاتا ہے۔“

”اضطرار“ یہ ہے کہ ایک شخص کو کسی فرض کی ادائیگی کے سلسلے میں کسی دوسرے شخص سے دھمکی نہیں ملی بلکہ اس نے خود یہ راستہ انتخاب کیا ہے لیکن اس انتخاب کی وجہ سے وہ سخت ترین حالات ہیں جو اسے پیش آئے ہیں مثلاً اگر ایک شخص کسی بے آب و گیاہ بیابان میں بھوک سے بے حال ہو چکا ہے اور وہاں سوائے مردار کے کوئی اور چیز موجود نہیں جس سے وہ اپنی بھوک مٹا سکے تو ایسی ”حالت اضطرار“ میں مردار کھانے کی حرمت ساقط ہو جاتی ہے۔

”جبر و اضطرار“ کے درمیان فرق یہ ہے کہ ”جبر“ کی صورت میں انسان کو ایک جابر شخص کی طرف سے دھمکی ملتی ہے کہ خلاف شروع کام کرو اور اگر تم نہیں کرو گے تو تمہیں فلاں نقصان پہنچاؤں گا اور وہ مجبور شخص اس بناء پر کہ وہ اس مصیبت اور نقصان سے خود کو نہیں بچا سکتا بحالت مجبوری اپنے فرض کی ادائیگی کے خلاف عمل کرتا ہے لیکن ”اضطرار“ میں دھمکی کا کوئی دخل نہیں ہوتا بلکہ کسی شخص کو ایسے سنگین حالات درپیش ہوں جن کی وجہ سے اس کی حالت خراب ہو چکی ہو تو وہ اپنی اس حالت کو دور کرنے کے لئے مجبور ہے کہ اپنے فرض کے خلاف عمل کرے لہٰذا ”جبر“ اور ”اضطرار“ میں فرق کی حسب ذیل دو صورتیں ہیں:

۴۵

1 ۔ ”جبر“ میں برخلاف ”اضطرار“ دھمکی کا دخل ہے۔

2 ۔ ”جبر“ میں انسان کسی آنے والی سخت مصیبت کو روکنے کے لئے چارہ جوئی کرتا ہے لیکن ”اضطرار“ میں وہ کسی آئی ہوئی مصیبت کو دور کرنے کے لئے ایسا کرتا ہے۔

لیکن ”جبر“ اور ”اضطرار“ کو کسی فرض کی عدم ادائیگی کی ضروری شرط قرار نہیں دیا جا سکتا یعنی یہ کوئی عمومی اور کلی قانون نہیں ہے بلکہ اولاً یہ اس نقصان کی مقدار سے متعلق ہے۔

ثانیاً اس فرض کی اہمیت سے مربوط ہے جسے انسان اضطرار اور جبر کی وجہ سے ترک کرنا چاہتا ہے۔

ظاہر ہے کہ ”جبر“ یا ”اضطرار“ کو بہانہ بنا کر کوئی ایسا اقدام نہیں کیا جا سکتا جو دوسروں کے نقصان یا معاشرے کے ضرر یا خود دین اسلام کے نقصان کا سبب بن جائے بعض فرائض ایسے ہیں جن کی ادائیگی کے لئے ہر طرح کا نقصان برداشت کرنا چاہئے۔

درست اعمال کی شرائط

اب تک جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس کا تعلق ادائیگی فرض کی شرط سے تھا یعنی انسان ان شرائط کے تحت ہی کسی فرض کی ادائیگی کا ذمہ دار ہے یعنی ادائیگی فرض کی شرائط سے وہ شرائط مراد ہیں جو اگر موجود نہ ہوں تو انسان پر فرض کی ادائیگی لازم نہیں آتی البتہ بعض شرائط ایسی بھی ہیں جو اعمال کے صحیح ہونے کی شرائط کہلاتی ہیں۔

جیسا کہ معلوم ہے عبادات اور معاملات کے علاوہ بعض شرعی موضوعات ایسے بھی ہیں جو کچھ شرائط اور خصوصیات کے ساتھ صحیح طریقے سے انجام پا سکتے ہیں لہٰذا درستی اعمال کی شرائط سے مراد وہ شرائط ہیں جو اگر نہ ہوں تو انسان کے اعمال درست تسلیم نہیں کئے جاتے اور ایسے اعمال باطل فرض کئے جاتے ہیں۔ اعمال کے صحیح ہونے کی شرائط بھی ادائیگی فرائض کی شرائط ہی کی مانند بہت زیادہ ہیں لیکن جس طرح ادائیگی فرض کی شرائط کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا اسی طرح سے اعمال کی درستی کی شرائط کی بھی دو قسمیں ہیں: خصوصی شرائط عمومی شرائط۔

۴۶

ہر عمل کی خصوصی شرائط اسی عمل سے مخصوص ہیں اور اسی عمل کے سیکھنے کے دوران یہ شرائط بھی پہچانی جاتی ہیں البتہ عمومی شرائط میں چند چیزیں ہیں جن کی طرف بعد میں اشارہ کیا جائے گا۔

علمائے علم منطق کی اصطلاح میں ادائیگی فرض کی عمومی شرائط اور درستی اعمال کی عمومی شرائط کے مابین ”عموم و خصوص من وجہ“ کی نسبت ہے(پیسے اور سکے کے مابین عموم و خصوص من وجہ کی نسبت ہے بعض سکے پیسہ ہیں بعض سکے پیسہ نہیں اور اسی طرح سے بعض پیسے سکہ نہیں اور بعض پیسے سکہ ہیں) یعنی بعض شرائط ”ادائیگی فرض بھی ہیں“ اور ”شرائط درستی اعمال بھی“۔ بعض شرائط ”شرائط ادائیگی فرض“ تو ہیں لیکن ”شرائط درستی اعمال“ نہیں اور بعض شرائط ”شرائط ادائیگی فرض“ تو نہیں لیکن ”شرائط درستی اعمال“ ہیں اور ”درستی اعمال کی شرائط“ کی تین صورتیں ہیں:

بعض شرائط ”درستی عبادات“ اور ”درستی معاملات“ دونوں کی شرائط ہیں۔

بعض شرائط صرف ”درستی عبادات“ کی شرائط ہیں۔

بعض شرائط صرف ”درستی معاملات“ کی شرائط ہیں۔

وہ امر جو بیک وقت شرائط ادائیگی فرض اور شرط درستی اعمال ہے۔ ”عقل“ ہے اس لئے کہ عقل سے عاری انسان جس پر فرض عائد نہیں ہوتا اس کے اعمال ”عبادات“ سے متعلق ہوں یا معاملات سے درست متصور نہیں ہوں گے مثلاً اگر کوئی پاگل شخص چاہے کسی دوسرے کی نیابت میں حج بجا لائے یا کسی دوسرے کے لئے نماز ادا کرے یا روزہ رکھے یا نماز باجماعت میں امام اور مقتدیوں کے درمیان یا صرف مقتدیوں کے درمیان رابطہ کا عمل انجام دے تو اس کا یہ عمل صحیح نہ ہو گا۔

”عقل“ کی طرح ”طاقت“ بھی شرط ادائیگی فرض ہے اور شرط درستی اعمال بھی ”عدم جبر“ بھی اسی طرح سے ہے یعنی ایک مجبور شخص جس کی ذمہ داری خاص شرائط کے پورا نہ ہونے کی بناء پر ساقط ہو جاتی ہے۔ اگر وہ کوئی معاملہ ”جبر“ کے تحت انجام دے یا مثلاً ”جبر“ کی وجہ سے شادی کرے تو درست نہیں بلکہ باطل متصور ہو گا۔

۴۷

وہ امر جو ”شرط ادائیگی فرض“ تو ہے لیکن ”شرط درستی اعمال“ نہیں ”بلوغت“ ہے نابالغ لڑکا کسی فرض کی ادائیگی کا ذمہ دار نہیں لیکن اگر وہ سن تمیز اور فہم و فراست کی حد کو پہنچ چکا ہو اور اس قابل ہو کہ ایک بالغ کی طرح کسی شرعی عمل کو درست انجام دے تو اس کا وہ عمل درست ہے اور اسی طرح سن تمیز اور فہم و فراست کی حد کو پہنچا ہوا نابالغ لڑکا بھی نماز باجماعت میں امام اور مقتدیوں کے درمیان یا صرف متقدیوں کے درمیان رابطہ کا عمل انجام دے سکتا ہے اور اسی طرح وہ عبادت میں دوسروں کی نیابت بھی کر سکتا ہے البتہ یہ امر مسلم ہے کہ بلوغت ”درست عبادت“ کی شرط نہیں ہے لیکن کیا ”بلوغت“، ”درستی معاملات“ کی بھی شرط ہے یا نہیں؟

بعض علماء کا نظریہ یہ ہے کہ بلوغت درستی معاملات کی شرط ہے اور خوب و بد کی پہچان رکھنے والا ایک نابالغ بچہ نہ کسی کی نیابت میں اور نہ ہی اپنے لئے کوئی معاملہ کر سکتا ہے مثلاً خرید و فروخت کرے یا مکان کرایہ پر دے یا خطبہ نکاح پڑھے تو درست نہیں ہو گا اور بعض دوسرے علماء کا نظریہ یہ ہے کہ خوب و بد کی پہچان رکھنے والا نابالغ بچہ اپنے لئے کوئی معاملہ نہیں کر سکتا لیکن دوسروں کی نیابت اور وکالت کر سکتا ہے۔

اسی طرح وہ امور جو ”شرط ادائیگی فرض“ تو ہیں لیکن ”شرط درستی اعمال“ نہیں۔ ”علم و آگاہی“ اور ”عدم اضطرار“ ہیں۔ بنابرایں ایک عمل چاہے عبادت ہو یا معاملہ اگر دوسری شرائط کے اعتبار سے مکمل طور پر انجام پائے لیکن عمل کرنے والے کو علم نہ ہو اور اتفاقاً اس کے عمل میں تمام شرائط مکمل ہوں تو اس کا یہ علم درست ہو گا مثلاً ایک شخص ایک ایسے مکان کا مالک ہے جو اسے بہت پسند ہے اور وہ اسے فروخت نہیں کرنا چاہتا لیکن اچانک اسے کوئی حادثہ پیش آتا ہے اور اسے رقم کی سخت ضرورت ہوتی ہے اور وہ ”اضطرار“ کی حالت میں اپنے پسندیدہ مکان کو فروخت کر دیتا ہے تو اس کا یہ معاملہ درست متصور ہو گا۔

۴۸

یا اگر کوئی شخص کسی طرح بھی شادی کرنے پر راضی نہیں ہے لیکن اس کو کوئی ایسی بیماری لاحق ہو جاتی ہے کہ طبیب اس کے لئے شادی ضروری قرار دیتا ہے اور ”اضطرار“ کی حالت میں اس کی شادی ہو جاتی ہے تو اس کی شادی درست متصور ہو گی۔

مذکورہ مباحث سے معلوم ہوتا ہے کہ ”درستی اعمال“ کی شرائط کے لحاظ سے ”جبری“ اور ”اضطراری“ حالات میں ”معاملات“ کی انجام دہی میں فرق ہے۔ ”جبری حالت“ میں کیا ہوا معاملہ درست نہیں لیکن ”اضطراری حالت“ میں کیا ہوا معاملہ درست ہے۔

البتہ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ ”جبری حالت“ میں کیا ہوا معاملہ کیوں درست نہیں اور ”ایمرجنسی کی حالت“ میں کیا ہوا معاملہ کیوں درست ہے؟ ممکن ہے یہ کہا جائے کہ ”مجبور اور مضطرب“ دونوں اس لحاظ سے کہ اس عمل کے انجام پر راضی نہیں ہیں باہم برابر ہیں جیسے اگر کوئی شخص کسی دھمکی کی بناء پر اپنے پسندیدہ مکان کو فروخت کرنے پر مجبور ہو جائے اور اس مصیبت کو دور کرنے کے لئے اپنا مکان بیچ دے تو وہ اس واقعہ پر دلی طور پر راضی نہ ہو گا اسی طرح اگر کوئی دوسرا شخص اپنی زندگی کو کسی مصیبت سے بچانے کے لئے (مثلاً اپنی بیماری کے اخراجات کی ضرورت پر) اپنا پسندیدہ مکان فروخت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے تو وہ بھی ایسی صورت میں قلبی طور پر راضی نہ ہو گا یا اگر کسی شخص کا بیٹا بیمار ہے اور وہ اس کے علاج کے لئے اپنا پسندیدہ مکان فروخت کرتا ہے لیکن وہ حقیقت میں اس عمل پر راضی نہیں ہے بلکہ وہ اپنا پسندیدہ مکان فروخت کرنے پر بہت زیادہ غمزدہ اور رنجیدہ ہے۔

ایک مجبور انسان اپنے نقصان کو دور کرنے کے لئے مجبوراً کوئی کام کرتا ہے یا کوئی ”مضطر“ نقصان کو روکنے کے لئے کوئی کام کرتا ہے تو دونوں کے عمل کا اصل موضوع پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

اسی طرح ایک ظالم اور جابر شخص ”جبری معاملات“ میں براہ راست ملوث ہوتا ہے ”اضطراری معاملات“ میں کوئی دوسرا شخص ملوث نہیں ہوتا تو ان دونوں کے عمل کا اصل موضوع پر کوئی اثر نہیں پڑتا اس کے علاوہ غالباً اضطرار کی اصل وجہ دوسروں کی استعماری اور استثماری طریقوں سے مداخلت ہوتی ہے۔ جواب یہ ہے کہ ”مجبور اور مضطرب“ کے معاملات میں شارع اسلام نے مجبور کے معاملات کو باطل قرار دیا ہے اور ”مضطرب“ کے معاملات کو درست دونوں کے احکام میں فرق کی وجہ کچھ اور ہے۔

۴۹

اگرچہ ”مجبور“ کو بھی بحالت کسی عمل کی انجام دہی کی فوری ضرورت پیش آتی ہے اور ”مضطرب“ کو بھی لیکن ”مجبور“ کی فوری ضرورت کا تعلق ”جابر“ کے ”جبر“ کو دور کرنا ہوتا ہے اور مجبور کی ضرورت اس معاملے کے انجام سے پوری ہوتی ہے۔ یہاں قانون مجبور کی مدد کرتا ہے اور ”جابر“ کے ”جبر“ کے خلاف ”مجبور“ کے معاملے کو غیر قانونی قرار دیتا ہے۔

لیکن مضطر کی فوری ضرورت براہ راست اس رقم سے ہے جو وہ اضطراری معاملہ کی صورت میں حاصل کرنا چاہتا ہے اس صورت میں اگر قانون مضطر کی حمایت کرنا چاہے تو ضروری ہے کہ معاملے کے صحیح اور قانونی ہونے کا اعلان کیا جائے کیوں کہ اگر اس معاملے کو غیر قانونی قرار دیا جائے تو اس کا نتیجہ ”مضطر“ کے حق میں زیادہ نقصان کی صورت میں نکلے گا۔ مثلاً مندرجہ ذیل بالا مثال میں اگر ”مضطر“ کے مکان کی فروخت کو غیر قانونی قرار دیا گیا اور معاملے کو باطل قرار دیا گیا تو نہ مکان کی خرید کو ملکیت کا حق حاصل ہو گا اور نہ مکان فروخت کرنے والے کو مطلوبہ رقم ملے گی۔ جس کے نتیجے میں ”مضطر“ اپنے بیٹے کا علاج نہیں کرا سکے گا۔

اسی وجہ سے علمائے فقہ کا نظریہ یہ ہے کہ ”جبر معاملہ“ کو غیر قانونی قرار دینا خدا کی طرف سے احسان ہے یعنی ”مجبور“ کے فائدے میں ہے لیکن اگر ”اضطراری معاملہ“ کو غیر قانونی قرار دیا جائے تو ”مضطر“ کے حق میں یہ کام احسان ہے نہ اس کے لئے فائدہ مند۔

یہاں ایک اور سوال بھی پیش آتا ہے کیا یہ صحیح ہے کہ دوسرے لوگ ”مضطر“ کے ”اضطرار“ اور پریشانی سے فائدہ اٹھا کر اس کے مال کو مناسب قیمت سے کم قیمت پر خرید لیں اور اس مال کو جائز مال سمجھیں؟ ہرگز نہیں کیا یہ معاملہ جو غیر قانونی ہے صرف حرمت تکلیفی کا باعث ہے؟ اور اصل معاملہ جس طرح ”مضطر“ کے حق میں درست ہے اسی طرح فریق مقابل کے معاملے میں بھی درست ہے؟ یا یہ کہ اس میں کوئی مانع نہیں کہ ایک طرف سے معاملہ درست ہو اور دوسری طرف سے غلط؟ یا دونوں طرف سے معاملہ تو درست ہو لیکن کم قیمت پر مال لینے والے شخص پر لازم ہو جائے کہ وہ مال کی حقیقی قیمت ادا کرے بہرحال ان موضوعات پر بحث ابھی باقی ہے۔

۵۰

وہ امر جو ادائیگی فرض کی شرط تو نہیں لیکن درستی اعمال کی شرط ہے رشد ہے اسلامی قانون میں ہر وہ شخص جو کسی معاشرتی کام کا بیڑا اٹھانا چاہتا ہے مثلاً وہ شادی کرنا چاہتا ہے یا کوئی اور معاملہ کرنا چاہتا ہے یعنی وہ اپنے مال میں سے خرچ کرنا چاہتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ دیگر تمام حالت رشد پر بھی پہنچا ہوا ہو یعنی یہ کہ وہ اس کام کے کرنے کی اہلیت بھی رکھتا ہو جس کا بیڑا وہ اٹھانا چاہتا ہے۔

اس لئے اسلامی قانون میں صرف بالغ عاقل آگاہ طاقت ور توانا اور مختار ہونا ہی کافی نہیں جو انسان شادی کا ارادہ کر سکے یا اپنے مال میں تصرف کر سکے بلکہ اس کے لئے یہ بھی لازم ہے کہ وہ شادی کرنے کی معقول صلاحیت بھی رکھتا ہو یعنی لڑکا اور لڑکی کے لئے یہ لازم ہے کہ وہ شادی کا مفہوم سمجھتے ہوں کہ کیا ہے؟ کس لئے ہے؟ ان کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ اور یہ کہ شادی ایک فرد کے مستقبل پر کیسے اثرانداز ہوتی ہے؟ اور انہیں یہ ادراک ہو کہ اس اہم معاملے میں آنکھ بند کر کے ہاتھ نہیں ڈالا جا سکتا۔

اسی طرح اگر ایک نابالغ لڑکے اور لڑکی کو ورثے میں یا کسی اور ذریعے سے مال و دولت ملی ہو تو اس کا صرف بالغ ہونا ہی کافی نہیں تاکہ اس کا مال اس کو دیا جائے بلکہ ضروری ہے کہ ان دونوں کو آزما لیں اگر بلوغت کے علاوہ وہ فہم و فراست کی حد پر بھی پہنچے ہوئے ہوں یعنی وہ اپنے مال کی حفاظت کرنے اور اس سے مستفید ہونے کی اہلیت بھی رکھتے ہوں تو ان کا مال ان کو دے دیا جاتا ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو ان کا شرعی اور قانونی ولی حسب سابق ان کی سرپرستی کو جاری رکھتا ہے۔

وابتلوا الیتامی حتی اذا بلغوا النکاح فان آنستم منهم رشدا فاا دفعوا الیهم اموالهم ( سورہ نساء آیت 6)

”تم یتیموں کو آزما لیا کرو یہاں تک کہ معلوم ہو جائے کہ وہ بالغ ہو چکے ہیں پھر اگر دیکھو کہ وہ رشد پا چکے ہیں تو ان کے اموال ان کے حوالے کر دو۔“

۵۱

11 ۔ اس دنیا کے بعد ایک دوسری دنیا ہے جو ابدی اور جزا و سزا کی دنیا ہے۔

12 ۔ انسان کی روح ایک جاودانی حقیقت ہے۔ انسان قیامت میں صرف ایک زندہ صورت میں ہی محشور نہیں کیا جائے گا بلکہ دنیاوی موت اور قیامت کے درمیان بھی ایک منزل کا فاصلہ ہے جس میں انسان ایک قسم کی زندگی سے جس کو برزخی زندگی کہا جاتا ہے اور جو دنیوی زندگی سے زیادہ قوی اور زیادہ کامل ہے بہرہ مند ہوتا ہے۔ قرآن مجید کی تقریباً 20 آیتیں انسان کی موت اور قیامت کے درمیان کی مدت اور جسم انسانی کے بوسیدہ ہو کر خاک ہو جانے کی حالت میں بھی انسان کی زندگی پر دلالت کرتی ہیں۔

13 ۔ زندگی اور اس کے بنیادی اصول یعنی انسانیت اور اخلاق کے اصول ابدی اور ناقابل تغیر اصول ہیں اور جو قواعد متغیر اور نسبی ہیں وہ فروعی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ انسانیت کسی زمانے میں کوئی چیز ہو اور دوسرے زمانے میں کوئی دوسری چیز بن جائے جو پہلے کی نسبت بالکل مختلف ہو مثلاً کسی زمانے میں انسانیت ابوذر ہونے میں ہو اور کسی زمانے میں انسانیت معاویہ بن جانے میں ہو بلکہ جن اصولوں کی بناء پر ابوذر ابوذر ہیں اور معاویہ معاویہ موسیٰ موسیٰ ہیں اور فرعون فرعون ہے وہ ہمیشہ رہنے والے اور غیر متغیر اصول ہیں۔

14 ۔ حقیقت بھی ابدی اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔ ایک علمی حقیقت اگر پورے طور پر حقیقت ہے تو وہ ہمیشہ کے لئے حقیقت ہے اور اگر وہ حقیقت بطور کلی خطا ہے تو ہمیشہ کے لئے خطا ہے اگر کسی کا ایک جزو حقیقت ہے اور دوسرا جزو خطا ہے تو جو جزو حقیقت ہے وہ ہمیشہ کے لئے حقیقت ہے اور جو جزو خطا ہے وہ ہمیشہ کے لئے خطا ہے اور ہو گا اور جو چیز متغیر و متبدل ہوتی ہے وہ واقعیت ہے اور وہ مادی واقعیت ہے لیکن حقیقت یعنی انسان کے فکری تصورات اور ذہنی افکار واقعیت سے منطبق ہونے اور منطبق نہ ہونے کے لحاظ سے ایک ثابت و قائم اور یکساں حالت رکھتے ہیں۔

۵۲

15 ۔ دنیا اور زمین و آسمان حق و عدالت کے ساتھ قائم ہیں۔

ما خلقنا المسوات والارض وما بینهما الا بالحق ( سورہ احقاف آیت 3)

”ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور ان چیزوں کو جو ان دونوں کے درمیان ہیں نہیں پیدا کیا مگر حق کے ساتھ۔“

16 ۔ اس دنیا میں الٰہی منت باطل کے خلاف حق کی آخری فتح و کامیابی پر منحصر ہے حق اور اہل حق غالب اور ظفرمند ہیں۔

ولقد سبقت کلمتنا لعبادنا المرسلین انهم لهم المنصورون وان جندنا لهم الغالبون

( سورہ الصافات آیت 173)

”ہماری قضا اور ہمارا فیصلہ اس امر پر ہو چکا ہے کہ ہمارے پیغمبر بے شک منصور و ظفرمند ہیں اور بے شک ہماری فوج (لشکر حق) غالب و فاتح ہے۔“

17 ۔ تمام انسان خلقت کے اعتبار سے برابر پیدا کئے گئے ہیں۔ کوئی انسان پیدائش کے اعتبار سے دوسرے انسان پر فوقیت نہیں رکھتا۔ بزرگی اور فضیلت تین چیزوں کی وجہ سے ہوتی ہے:

قلم: ”هل یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون ( سورہ زمر آیت 9)

راہ خدا میں جہاد:”فضل الله المجاهدین علی القاعدین اجرا عظیما ( سورہ النساء آیت 95)

تقویٰ و پاکیزگی:”ان اکر مکم عندالله اتقیکم ( سورہ حجرات آیت 130)

۵۳

18 ۔ اصل خلقت کے اعتبار سے انسان بہت سی فطری صلاحیتوں کا حامل ہوتا ہے ان میں دینی اور اخلاقی فطرت بھی ہے انسان کے ضمیر و وجدان کا اصلی سرمایہ اس کی خداداد فطرت ہے نہ کہ طبقاتی محل و مقام یا اجتماعی زندگی یا طبیعت کے ساتھ زورآزمائی کیونکہ یہ سب انسان کے اکتسابی وجدان (ضمیر) میں موثر ہوتے ہیں انسان اپنی انسانی فطرت کے لحاظ سے منفرد ثقافت اور آئیڈیالوجی کا مالک بن سکتا ہے اس کے لئے یہ بھی ممکن ہے کہ قدرتی ماحول اجتماعی ماحول تاریخی اسباب و عوامل اور اپنے وراثتی عوامل کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا ہو اور اپنے کو ان سب کی قید سے آزاد کر لے۔

19 ۔ چونکہ ہر فرد بشر فطری طور پر انسان پیدا ہوتا ہے ہر انسان میں (اگرچہ وہ بدترین انسان ہی کیوں نہ ہو) توبہ اور راہ راست کی طرف اس کی واپسی اور نصیحت قبول کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ اسی لئے انبیائے الٰہی اس بات پر مامور ہیں کہ حتیٰ بدترین افراد اور اپنے دشمنوں میں سے سخت ترین دشمن کو بھی ابتدائی مرحلے میں وعظ و نصیحت کریں اور اس کی انسانی فطرت کو بیدار کریں پس اگر یہ چیز فائدہ مند نہ ہو تو پھر ان سے مقابلہ و جنگ کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔

حضرت موسیٰ کو فرعون کے پاس پہلی مرتبہ جاتے وقت یہ وصیت کی گئی کہ

فقل هل لک الی ان تزکی و اهد یک الی ربک فتخشی ٰ( سورہ النازعات آیت 19)

”کہہ دو کہ کیا تو اپنے کو نجاست کفر سے پاک کرنے پر آمادہ ہے؟ اور کیا میں تجھے تیرے پروردگار کی راہ بتا دوں تاکہ تو اس سے ڈرے؟“

۵۴

20 ۔ انسان ایک حقیقی مرکب اور حقیقی اکائی ہونے کے باوجود قدرتی جمادی اور نباتاتی مرکبات کے برخلاف (کہ ترکیب کی حالت میں جس کے ترکیب دینے والے عناصر جو اپنی ہویت اور مستقل حیثیت کھو دیتے ہیں اور ان کا باہمی تضاد اور ٹکراؤ مکمل طور پر ملائمت اور ہم آہنگی میں تبدیل ہو جاتا ہے انسان کی خلقت میں جو متضاد عناصر استعمال ہوئے ہیں اپنی ہویت کو اور ذاتی حیثیت کو مکمل طور پر نہیں کھو دیتے اور ہمیشہ ایک اندرونی کشمکش انہیں ایک طرف سے دوسری طرف لے جاتی ہے یہ اندرونی تضاد وہی ہے جسے دین کی زبان میں عقل و جہل یا عقل و نفس یا روح و بدن کا تضاد کہا جاتا ہے۔

21 ۔ چونکہ انسان مستقل روحانی جوہر کا مالک ہے اور اس کا ارادہ اس کی روحانی حقیقت کے سرچشمے سے پیدا ہوتا ہے لہٰذا مختار و آزاد ہے کوئی جبر یا کوئی ذاتی احتیاج اس کی آزادی اور اس کے اختیار کو اس سے چھین نہیں سکتی اس لئے وہ اپنا بھی جواب دہ ہے اور اپنے معاشرے کا بھی ذمہ دار اور جواب دہ ہے۔

22 ۔ انسانی معاشرہ بھی فرد بشر ہی کی طرح ایک حقیقی مرکب ہے اور اپنے قوانین روایات اور نظام رکھتا ہے اور اپنی مجموعی حیثیت میں پوری تاریخ میں کبھی کسی خاص انسان کے ارادے کا تابع نہیں رہا ہے اور اپنے وجود میں (فکری نوعی سیاسی اور اقتصادی گروہوں پر مشتمل متضاد عناصر کے باوجود مکمل طور پر اپنی ہویت کو نہیں کھویا ہے۔ سیاسی اقتصادی فکری اور اعتقادی جنگ کی صورت میں مقابلہ آرائی اور بالآخر رشد و ہدایت پانے والے انسانی کمال پر پہنچنے والے انسانوں کی بلند و برتر خواہشات اور میلانات اور حیوان صفت انسانوں کی پست خواہشات کے درمیان جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک معاشرہ انسانیت کے بام و عروج تک نہیں پہنچ جاتا۔

23 ۔ خداوند عالم کسی انسان یا کسی قوم کی سرنوشت کو نہیں بدلتا جب تک کہ وہ آدمی یا وہ قوم خود اپنے حالات کو نہ بدلے۔

ان الله لا یغیر مابقوم حتی یغیروا ما با نفسهم ( سورہ رعد آیت 11)

۵۵

24 ۔ خداوند عالم جو انسان اور سارے جہان کا پیدا کرنے والا ہے غنی بالذات ہے تمام جہات سے بسیط ہے کامل مطلق ہے کسی چیز کا منتظر نہیں ہے اس میں حرکت و ارتقاء محال ہے اس کی صفات اس کی عین ذات ہیں ساری دنیا اسی کی بنائی ہوئی ہے۔ ساری سطح زمین اسی کے ارادے و مشیت کی مظہر ہے اس کے ارادے کا کوئی مقابل نہیں ہے۔ ہر ارادہ اور مشیت اس کے ارادے کے تابع ہے اس کے برابر نہیں ہے۔

25 ۔ چونکہ دنیا کا صدور ایک مبداء سے ہوا ہے اور اسے ایک متناسب اور ہم آہنگ رفتار میں اسی کی طرف واپس جانا ہو گا اور چونکہ مدبر اور باشعور قوت کی تدبیر کے تحت اپنی حرکت اور رفتار کو جاری رکھے ہوئے ہے لہٰذا ایک قسم کی وحدت کی حامل ہے ایسی وحدت جو زندہ موجود کی عضوی وحدت سے مشابہ ہے۔

(ج) آئیڈیالوجی کے لحاظ سے اسلام کی خصوصیات

اسلام کی امتیازی خصوصیات کا بیان آئیڈیالوجی کے لحاظ سے خاص کر آئیڈیالوجی کی وسعت کے لحاظ سے خواہ کلی مشخصات کے اعتبار سے ہو یا آئیڈیالوجی کی ہر شاخ کی خصوصیات کے لحاظ سے بہت مشکل ہے پھر بھی ہم اس اصول کی بناء پر کہ اگر کسی چیز کو مکمل طور پر حاصل نہ کیا جا سکے تو جتنا حاصل کیا جا سکے اسی کو لے لینا چاہئے جو کچھ اس موقع پر فی الحال ہمارے لئے ممکن ہے اس کی ایک فہرست پر نظر ڈال رہے ہیں:

۵۶

1 ۔ ہمہ گیر حیثیت اور کمال و ارتقاء دوسرے ادیان کے مقابلے میں اسلام کے من جملہ امتیازات میں سے ہے اور زیادہ بہتر الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ دین خدا کی ابتدائی صورتوں کی نسبت اس کی مکمل اور جامع صورت کی خصوصیات میں سے اس کی ایک جامعیت اور ہمہ گیر حیثیت ہے۔ اسلام کے چار مآخذ یعنی قرآن سنت اجماع اور عقل اس امر کے لئے کافی ہیں کہ علمائے امت ہر موضوع کے بارے میں اسلامی نظریہ معلوم کر سکیں۔ علمائے اسلام کسی موضوع کو بلا حکم نہیں سمجھتے بلکہ ان کے نزدیک اسلام میں ہر چیز کے لئے ایک حکم موجود ہے۔

2 ۔ اجتہاد قبول کرنے کی صلاحیت:

اسلام کلیات کو اس طرح سے منظم کیا گیا ہے کہ ان میں اجتہاد قبول کرنے کی صلاحیت پیدا ہو گئی ہے۔ اجتہاد یعنی کلی و ثابت اصول کو جزوی اور بدلتے رہنے والے مسائل و امور پر منطبق کرنا اسلامی کلیات کو اس طرح منظم شکل دینے کے علاوہ کہ جس کی وجہ سے ان میں اجتہاد کو قبول کرنے کی خاصیت پیدا ہو گئی ہے اسلامی سرچشمہ اور مآخذوں کی فہرست میں عقل کی موجودگی نے حقیقی اجتہاد کے کام کو آسان کر دیا ہے۔

۵۷

3 ۔ سہولت اور آسانی:

رسول اکرم کے الفاظ میں اسلام ”شریعت سمحہ سہلہ“( 1) ہے۔ ہاتھ پاؤں باندھ دینے والی مشقت میں ڈالنے والی بے حد پریشان کرنے والی تکالیف شرعیہ عائد نہیں کی گئی ہیں۔

ماجعل علیکم فی الدین من حرج

( سورہ حج آیت 87)

”خدا نے تمہارے لئے دین میں تنگی اور دشواری قرار نہیں دی ہے اور اس بناء پر کہ ”سمحہ“ (درگذر کے ہمراہ ہے) جہاں بھی اس حکم شرع کا انجام دینا تنگی و دشواری اور شدید زحمت کا باعث ہو وہاں وہ ذمہ داری ساقط ہو جاتی ہے۔

4 ۔ زندگی کی طرف میلان و رغبت:

اسلام زندگی کی طرف مائل اور راغب کرنے والا دین ہے نہ کہ زندگی سے دور کرنے کا باعث اور اسی لئے اس نے رہبانیت یعنی ترک دنیا سے سختی کے ساتھ مقابلہ کیا ہے۔ پیغمبر اسلام فرماتے ہیں:

لا رہبانیۃ فی الاسلام

”اسلام میں رہبانیت نہیں ہے۔“

پرانے معاشرے میں دو چیزوں میں سے ایک چیز ہمیشہ موجود رہی ہے یا صرف آخرت کی طرف رغبت اور دنیا سے فرار یا صرف دنیا کی طرف اور آخرت سے گریز (تمدن اور ترقی و توسیع) اسلام نے انسان میں زندگی کی طرف رغبت کے ساتھ ساتھ آخرت کا شوق بھی رکھا ہے۔ اسلام کی نظر میں آخرت کا راستہ زندگی اور اس کی ذمہ داریوں کے درمیان سے گزرتا ہے۔

۵۸

5 ۔ اجتماعی ہونا:

اسلامی قوانین اور احکام اجتماعی ماہیت کے حامل ہیں یہاں تک کہ وہ احکام جو زیادہ سے زیادہ انفرادی ہیں جیسے نماز روزہ وغیرہ اس میں بھی ایک اجتماعی اور سماجی حسن پیدا کر دیا گیا ہے۔ اسلام کے بہت سے اجتماعی سیاسی اقتصادی اور عدالتی قوانین و احکام اسی خاصیت کے حامل ہیں جیسا کہ جہاد اور امربالمعروف و نہی عن المنکر کا تعلق اسلام اور اجتماعی ذمہ داری سے ہے۔

6 ۔ انفرادی حقوق اور آزادی:

اسلام جہاں ایک اجتماعی دین ہے اور پورے معاشرے پر اس کی نظر رہتی ہے اور فرد کو معاشرہ کا ذمہ دار سمجھتا ہے وہاں فرد کی آزادی اور اس کے حقوق سے چشم پوشی بھی نہیں کرتا اور فرد کو فرعی حیثیت نہیں دیتا بلکہ اسلام نے فرد کے لئے سیاسی اقتصادی قانونی اور اجتماعی حقوق رکھے ہیں۔

سیاسی لحاظ سے مشورے اور انتخاب کا حق فرد کو حاصل ہے اقتصادی لحاظ سے اپنے کام کے ماحاصل اور حق محنت پر مالکیت کا حق معاوضہ اور مبادلہ صدقہ وقف ہبہ اجارہ مزارعہ اور مضاربہ وغیرہ کا حق اپنی جائز ملکیت میں رکھتا ہے قانونی لحاظ سے اسے دعویٰ دائر کرنے اپنا حق ثابت کرنے اور گواہی دینے کے حقوق دیئے گئے ہیں اور اجتماعی لحاظ سے اسے کام اور جائے سکونت کے انتخاب کا حق تحصیل علم میں مضمون کے انتخاب وغیرہ کا حق اور گھریلو زندگی میں اپنی شریک حیات کے انتخاب کا حق حاصل ہے۔

۵۹

7 ۔ معاشرتی اور اجتماعی حق کی انفرادی حق پر فوقیت:

جس جگہ اجتماعی اور انفرادی حق کے درمیان تزاحم اور تضاد پیدا ہوتا ہے وہاں اجتماعی اور معاشرے کا حق انفرادی حق پر مقدم ہوتا ہے اسی طرح عام حق خاص حق پر فوقیت رکھتا ہے۔ البتہ ان موارد کی تشخیص خود حاکم شرع کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔

8 ۔ شوریٰ کا حصول:

اجتماعی نظام میں اسلامی نقطہ نظر سے شوریٰ کی حقیقت اپنی جگہ پر مسلم ہے۔ جن مقامات پر اسلام کی طرف سے کوئی صریح حکم نہیں آیا ہے وہاں مسلمانوں کو چاہئے کہ اجتماعی غور و فکر اور باہمی مشورے سے عمل کریں۔

9 ۔ مضر حکم کا نہ ہونا:

اسلامی قوانین اور احکام جو مطلق اور عام ہیں اس حد تک ان پر عمل جائز ہے جہاں تک کسی ضرر و نقصان کا باعث نہ ہو قاعدہ ضرر ایک کلی قاعدہ ہے جو ہر اس قانون کے اجراء کے موقع پر ”ویٹو“ یعنی ”تنسیخ“ کا حق رکھتا ہے جب وہ ضرر و نقصان کا باعث ہو۔

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254