‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) جلد ۴

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) 30%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 254

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 254 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 73331 / ڈاؤنلوڈ: 3702
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) جلد ۴

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

نام کتاب : آموزش دین (جلد چهارم)

تالیف : آیة اللہ ابراہیم امینی

ترجمه : شیخ الجامعہ مولانا اختر عباس صاحب

نظرثانی : حجة الاسلام مولانا نثار احمد صاحب

ناشر : انصاریان پبلیکیشنز قم امقدسه ایران

تعداد : سه ہزار

کتابت : جعفرخان سلطانپور

۳

عرض ناشر

کتاب تعلیم دین سادہ زبان میں حوزہ علمیہ قم کی ایک بلند پایہ علمی شخصیت حضرت آیة اللہ ابراہیم امینی کی گرامی مایہ تالیفات میں سے ایک سلسلہ ''آموزش دین در زبان سادہ'' کا اردو ترجمہ ہے_

اس کتاب کو خصوصیت کے ساتھ بچوں اور نوجوانوں کے لئے تحریر کیا گیا ہے_ لیکن اس کے مطالب اعلی علمی پیمانہ کے حامل ہیں اس بناپر اعلی تعلیم یافتہ اور پختہ عمر کے افراد بھی اسی سے استفادہ کرسکتے ہیں_

بچوں اور جوانوں کی مختلف ذہنی سطحوں کے پیش نظر اس سلسلہ کتب کو چارجلدوں میں تیار کیا گیا ہے_ کتاب خدا اس سلسلہ کتب کی چوتھی جلد کے ایک حصّہ پر مشتمل ہے جسے کتاب کی ضخامت کے پیش نظر علیحدہ شائع کیا جارہا ہے_

اس سلسلہ کتب کی امتیازی خصوصیات درج ذیل ہے_

___ کتاب کے مضامین گوکہ اعلی مطالب پر مشتمل ہیں لیکن انھیں دل نشین پیرائے اور سادہ زبان میں پیش کیا گیا ہے تا کہ یہ بچّوں کے لئے قابل

۴

فہم اور دلچسپ ہوں_

___ اصول عقائد کے بیان کے وقت فلسفیانہ موشگافیوں سے پرہیز کرتے ہوئے اتنا سادہ استدلالی طریقہ اختیار کیا گیا ہے کہ نوعمر طلباء اسے آسانی سے سمجھ سکتے ہیں_

___ مطالب و معانی کے بیان کے وقت یہ کوشش کی گئی ہے کہ پڑھنے والوں کی فطرت خداجوئی بیدار کی جائے تا کہ وہ از خود مطالب و مفاہیم سے آگاہ ہوکر انھیں دل کی گہرائیوں سے قبول کریں اور ان کا ایمان استوار پائیدار ہوجائے_

___ ہماری درخواست پر حضرت حجة الاسلام و المسلمین شیخ الجامعہ الحاج مولانا اختر عباس صاحب قبلہ دام ظلہ نے ان چاروں کتابوں کا ترجمہ کیا_

ان کتابوں کو پہلا ایڈیشن پاکستان میں شائع ہوا تھا اور اب اصل متن مؤلف محترم کی نظر ثانی کے بعد اور اردو ترجمہ حجة الاسلام جناب مولانا نثار احمد ہندی کی نظر ثانی اور بازنویسی کے بعد دوبارہ شائع کیا جارہا ہے اپنی اس ناچیز سعی کو حضرت بقیة اللہ الاعظم امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی خدمت میں ہدیہ کرتا ہوں

___ ہماری دلی آرزو ہے کہ قارئین گرامی کتاب سے متعلق اپنی آراء اور قیمتی مشوروں سے مطلع فرمائیں

والسلام ناشر محمد تقی انصاریان

۵

باب اوّل

خالق کائنات ''خدا'' کے بارے میں

۶

کائنات میں نظم اور ربط

ایک کتاب سامنے رکھئے وہ ہزاروں حروف اور الفاظ اور جملوں سے ملکر بنی ہوگی، ان حروف اور الفاظ کا آپس میں کیا تعلق ہوگا؟ کیا انھیں کسی تعلق کے بغیر ایک دوسرے کے نزدیک رکھا گیا ہے؟ یا کسی خاص ربط و تعلق سے انہیں ایک دوسرے سے جوڑا گیا ہے ___؟

جب آپ اس کتاب کو پڑھ چکیں گے تو تمام حروف اور الفاظ اور مختلف جملے اور کتاب کے مختلف حصّے آپس میں مربوط اور متناسب پائیں گے اور یہ سب ایک غرض کو پورا کر رہے ہوں گے اور یہ تمام حروف و کلمات ایک مخصوص ترتیب کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہوں گے اور ہر ایک اپنی جگہ ایک خاص مقام رکھتا ہوگا_

اس طرح آپ کو معلوم ہوگا کہ ان حروف اور کلمات کا لکھنے والا عاقل اور با شعور انسان ہے اور اس کام کے انجام دینے سے پہلے وہ اس سے آگاہ تھا

۷

اور ان حروف اور کلمات کو اس طرح منظم کرنے میں اس کا ایک خاص مقصد تھا اور وہ اس کام کے انجام دینے کی قدرت اور مہارت رکھتا تھا_

کیا آپ کے ذہن میں یہ خیال آسکتا ہے کہ یہ کتاب خودبخود ایک حادثہ کے طور پر بغیر کسی مقصد کے وجود میں آگئی ہوگی؟

کیا یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ ایک بے شعور ''موجود'' جیسے ہوا'' نے قلم کو کاغذ پر چلایا ہوگا اور اس قسم کی کتاب لکھ ڈالی ہوگی؟

نہیں__ ہرگز آپ کے ذہن میں یہ خیال نہیں آئے گا کہ یہ کتاب خودبخود اور بغیر کسی مقصد کے وجود میں آگئی ہوگی_ اور یہ نہیں سوچا جاسکتا کہ یہ کتاب کسی ایسے ذریعہ سے جو علم اور شعور نہ رکھتا ہو ایک حادثہ کے طور پر لکھی گئی ہوگی_ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ہر موجود کسی مناسب علّت اور سبب سے وجود میں آتا ہے اور اگر کوئی اس کے برعکس کہے بھی تو آپ اس پر ہنسیں گے_ اور اس کی اس بات کو غیر عاقلانہ کہیں گے_

پس ایک کاب کے کلمات اور حروف میں نظم و ضبط اور ربط و تعلق سے دو چیزیں سمجھ میں آتی ہیں:

ایک یہ کہ اس کا کوئی مؤلف او رلکھنے والا عقل و علم اور مہارت و قدرت رکھتا ہوگا اور اس کام کے ذریعہ اس کا کوئی نہ کوئی مقصد ہوگا_

اس طرح ہر منظم اور بامقصد چیز اپنے بنانے والے کی عقل، تدبیر اور قدرت کو ظاہر کرے گی_ نیز اس چیز میں پایا جانے والا نظم اور بناوت کی عمدگی اس کے بنانے والے کی قدرت اور اس علم کے مقام کا اظہار ہوگی_

۸

یہ کائنات بھی ایک عظیم کتاب کی مانند ہے جو مختلف کلمات اور حروف اور جملوں پر مشتمل ہے اور اس جہان کا ہر موجود اور اس میں پیش آنے والا ہر حادثہ اس کتاب کا ایک حرف یا کلمہ یا جملہ ہے_ اس جہان کے موجو دات اور حوادث، منتشر، بے ربط اور بے نظم ہیں بلکہ ایک کتاب کے حروف اور کلمات کی طرح منظم اور ایک دوسرے سے متصل ہیں_

اس عالم کی ایک بڑی کتاب انسانی بدن کی ساخت کو دیکھئے جو اس کائنات کی کتاب کا ایک کلمہ ہے_ اس میں سینکڑوں نازک نظاموں کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے_ یہ تمام باعظمت نظام ایک چیز کو تشکیل دے رہے ہیں کہ جس کے تمام اجزاء آپس میں مربوط ہیں اور ایک دوسرے کے مددگار ہیں اور دوسرے کی ضروریات کو پورا کر رہے ہیں_ انسانی بدن کے مختلف اجزاء اور نظام ایک عظیم کارخانہ کی مانند ہیں اور سب ایک دوسرے سے وابستہ ہیں_ انسانی بدن کے تمام اعضاء پورے نظم و ضبط سے کام کرتے ہیں تا کہ انسان اپنی زندگی کو جاری رکھ سکے_

انسان کا بدن تنہا اپنی زندگی باقی نہیں رکھ سکتا بلکہ وہ دوسرے موجودات جیسے پانی، ہوا اور مختلف غذاؤں، درخت، نباتات، حیوانات اور زمین کے فطری سرچشموں کا محتاج اور ضرورت مند ہے_ ان کے بغیر زندگی نہیں بسر کرسکتا اور پھر یہ تمام چیزیں سورج کی روشنی، دن، رات کی منظم حرکت اور گرمی و سردی کے موسم سے ربط رکھتی ہیں اس طرح یہ ساری چیزیں ایک ایسی حقیقی وحدت کو تشکیل دیتی ہیں کہ گویا ایک کامل نظم اور ضبط انکے درمیان کار فرما ہے_

کائنات کی اس عظیم کتاب کو غور سے دیکھئے اور اس کے حسین و جمیل کلمات

۹

پر نگاہ ڈالئے اس کے ہر ایک کلمہ میں گہرا نظم و ضبط پائیں گے_

کیا دیکھیں گے____؟

آپ اچھی طرج جان لیں گے کہ خلقت کا اتنا بڑا مجموعہ بغیر کسی غرض اور مقصد کے اتفاقی طور پر وجود میں نہیں آیا ہے_ بے شعور مادہ اور طبیعت اس قسم کے گہرے اور بامقصد نظام کو وجود میں نہیں لاسکتا_ ایسی ضخیم اور پر معنی کتاب مادہ کی تالیف نہیں ہوسکتی____؟

اس جہان اور اس کے نظم و ضبط کو جان لینے کے بعد اس کا حقیقی سبب آپ کی سمجھ میں آجائے گا اور آپ جان لیں گے کہ اس جہان کا کوئی پیدا کرنے والا ہے جو عالم اور قادر ہے_ جس نے اپنے علم اور تدبیر سے اس جہان کو کسی خاص غرض اور مقصد کے لئے خلق کیا ہے اور اسے چلارہا ہے_ لہذا آپ جس طرف نگاہ ڈالیں گے اور جس مخلوق کا مطالعہ کریں گے خالق جہان کے علم اور قدرت کے آثار آپ پر ظاہر ہوں گے_

خلقت عالم کا مشاہدہ اور مطالعہ خداشناسی کے طریقوں میں سے ایک بہترین طریقہ ہے جسے برہان نظم کا نام دیا گیا ہے_ قرآن مجید کی بہت سی آیات میں تاکید کی گئی ہے کہ زمین، آسمان، سورج اور ستارے، حیوانات، نباتات، دن اور رات کی منظم گردش اور انسان کے وجود میں پائے جانے والے عجائبات مختلف شکلیں اور رنگ اور مختلف زبانوں کے وجود میں آنے کے متعلق غور و فکر کرو تا کہ خالق جہان کی معرفت حاصل کرسکو_ اور اس کی عظمت و قدرت کو معلوم کرسکو_

( و من ایته خَلقُ السَّموات وَ الَارض وَ اختلَافُ اَلسنَتكُم وَ اَلوَانكُمُ

۱۰

انَّ فی ذلكَ لَای ت: للعلمینَ ) _

''سورہ روم ۳۰ آیت ۲۲''

اللہ تعالی کے علم اور قدرت کی نشانیوں

میں سے زمین اور آسمان کی خلقت اور تمہاری مختلف زبانوں اور مشکلوں کاہونا ہے اور یہ سوچنے والوں کے لئے بہت زیادہ نشانیاں ہیں''

سوچیے اور جواب دیجئے

۱_ ایک کتاب کے حروف اور الفاظ کے آپس میں ربط کو دیکھ آپ کیا سمجھتے ہیں:

۲_ اس سبق میں کائنات کو کس چیز سے تشبیہ دی گئی ہے؟ اور تشبیہ دینے کا کیا مقصد ہے؟

۳_ خلقت جہان میں نظم و ضبط اور ارتباط کی کوئی مثال دیجئے

۴_ اس کائنات میں پائے جانے و الے نظم و ضبط اور ارتباط پر غور کرنے سے ہم کیا سمجھتے ہیں؟ اور خالق جہان کی کون سی صفت کو اس سے معلوم کرسکتے ہو؟

۵_ برہان نظم کسے کہا جانا ہے؟ اس دلیل کا خلاصہ کیا ہے

۶_ قرآن مجید کی آیات میں خالق کائنات کے پہچاننے کے لئے

۱۱

کن چیزوں میں غور کرنے کے لئے کہا گیا ہے؟

۷_ برہان نظم کی کوئی مثال آپ پہلے پڑھ چکے ہیں؟ اگر ہاں تو اسے بیان کیجئے؟

۱۲

کائنات پر ایک نگاہ

دیہات میں صبح کی لطیف اور فرحت بخش ہوا چل رہی ہے_ اس زندہ دل بوڑھے کو دیکھئے کہ صبح کی دودھیا روشنی میں اوپر نیچے ہو رہا ہے، کس ذوق و شوق اور چابکدستی سے گندم کی کٹائی کر رہا ہے_

اس کی گنگنانے کی لے کو سینے یہ دن اور رات، چاند کی روشنی یا اللہ اس کے بیٹھے بھی اس کی مدد کو پہنچ چکے ہیں_ ان میں سے کچھ باپ کی مدد کر رہے ہیں اور ایک جلانے کے لئے خشک لکڑیاں اکٹھی کر رہا ہے_ شاید کہ باپ اور بھائی بہنوں کے لئے چائے بنانا چاہتا ہے تا کہ سب مل کر ناشتہ کریں_

کیا آپ ان کے مہمان بننا پسند کریں گے؟ ظاہر ہے کہ یہ لوگ مہربان اور مہمان نواز ہیں اور آپ کی اچھی طرح خاطر مدارات کریں گے_

۱۳

اس بچے کے نزدیک بیٹھیئےتھوڑی دیر صبر کیجئے اور دیکھئے کہ کس طرح سورج ان پہاڑوں کے پیچھے سے آہستہ آہستہ طلوع ہوتا ہے اور کس خوبصورتی سے کھیتوں اور کھلیانوں پر نور بکھیرتا ہے_ سچ مچ سورج طلوع ہر کر پہاڑوں اور میدانوں کو کیسی خوبصورتی اور پاکیزگی بخشتا ہے_

غور کیجئے کہ اگر سورج طلوع نہ ہوتا اور ہمیشہ رات اور تاریکی ہوتی تو ہم کیا کرتے____؟ کبھی سوچا ہے کہ سورج یہ ساری روشنی اور توانائی کسطرح فراہم کرتا ہے____؟

کیا آپ کو سورج کا حجم معلوم ہے____؟

سورج کا حجم زمین سے دس لاکھ گنا زیادہ ہے_ یعنی سورج اگر ایک خالی کرّہ ہو تو ہماری زمین کے برابر دس لاکھ زمینیں اس کے اندر سماجائیں_ اس بڑے آتشی کرّہ کا درجہ حرارت ۶۰۰۰ ہے_

کیا آپ جانتے ہیں کہ سورج اتنی شدید گرمی اور اتنے زیادہ درجہ حرارت کے باوجود کیوں زمین اور اس پر موجود چیزوں کو جلا نہیں ڈالتا؟

اس کا جواب یہ ہے کہ سورج، زمین سے ایک مناسب اور مقرر فاصلہ (ڈیڑھ کروڑ کلومیٹر) پر ہے_ اور اس کی روشنی اور توانائی صرف ضرورت کے مطابق کرہ زمین پر پہنچتی ہے_

کبھی آپ نے سوچا کہ سورج اور زمین کا درمیانی فاصلہ اگر اس مقدار میں نہ ہوتا تو کیا ہوتا____؟

اگر سورج اور زمین کا فاصلہ موجودہ فاصلہ سے کم ہوتا مثلاً اگر نصف ہوتا تو کیا ہوتا____؟

۱۴

ہاں زمین پر کوئی جاندار باقی نہ رہتا اور سورج کی تمازت تمام بناتات حیوانات اور انسانوں کو جلا ڈالتی_

اور اگر سورج اور زمین کا فاصلہ موجودہ فاصلہ سے زیادہ ہوتا مثلاً موجودہ فاصلے سے دوگنا ہوتا تو کیا ہوتا____؟

اس صورت میں روشنی اور حرارت ضرورت کے مطابق زمین پر نہ پہنچتی اور تمام چیزیں سرد اور مردہ ہوجاتیں_ تمام پانی برف ہوجاتا، کہیں زندگی کا نام و نشان نہ ملتا_

واضح رہے کہ زمین اور سورج کا یہ فاصلہ وسیع علم و آگاہی او رگہرے حساب و کتاب کے ساتھ معین کیا گیا ہے_

گندم کی خوشنما بالیاں، سورج کی روشنی اور حرارت سے ہی اتنی بڑی ہوئی ہیں_ سورج ہی کی حرارت کے سبب یہ تمام بناتات اور درخت نشو و نما پاکر ہمارے لئے پھل اور دوسری طرح طرح کی اجناس پیدا کرتے ہیں_ مختلف غذائیں جنہیں ہم استعمال کرتے ہیں سورج کی توانائی ہی سے بالیدگی حاصل کرتی ہیں، در حقیقت یہ سورج ہی کی توانائی (انرجی) ہے کہ جو نباتات اور دیگر تمام غذاؤں میں ذخیرہ ہوتی ہے اور ہم اس سے طاقت و قوت حاصل کرتے ہیں_

حیوانات نباتات کی ذخیرہ شدہ توانائی سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور ہم حیوانات کے ذریعہ بھی اس توانائی سے فیض یاب ہوتے ہیں_

مثلاً حیوان گھاس چرتے ہیں اور ہمیں دودھ دیتے ہیں اور ہم گوشت اور دودھ سے بنی ہوئی دوسری غذاؤں سے استفادہ کرتے ہیں_ مختصر یہ کہ سورج توانائی کا منبع ہے_

۱۵

یہ سورج ہی کی توانائی ہے جو اس لکڑی میں موجود ہے اور اب یہ ان محنت کش باپ بیٹوں کے مہمانوں کے لئے چائے کا پانی ابال رہی ہے_

اے ان باپ بیٹوں کے معزز مہمانو آپ خورشید کی پر شکوہ اور حسین صورت سے اور اس کے اور زمین کے درمیان فاصلہ میں پائے جانے والے گہرے حساب و کتاب سے اور نباتات و حیوانات اور انسانوں کے اس کی روشنی اور توانائی سے فائدہ اٹھانے سے کیا سمجھتے ہیں____؟

آپ کائنات کی مختلف اشیاء کے درمیان پائے جانے والے حیرت انگیز ارتباط اور ہم آہنگی سے کیا نتیجہ اخذ کرتے ہیں؟ اور کیا یہ کائنات ایک غیر منظم اور بے ربط اشیاء کا مجموعہ ہے یا ایک مکمل طور پر ہم آہنگ اور مربوط اشیاء کا مجموعہ ہے____؟

یقینا آپ جواب دیں گے کہ:

ہم کائنات کو ایک بہت بڑے اور مکمل طور پر ہم آہنگ اشیاء کے مجموعہ کے طور پر دیکھتے ہیں او رہم خود بھی اس کا ایک حصہ ہیں_

اس عظیم، ہم آہنگ اور بڑے مجموعہ کو دیکھ کر آپ کے دل میں کیا خیال آتا ہے___؟

یہ نظم اور حساب جو اس عظیم جہان کے تمام اجزاء میں پایا جاتا ہے کس چیز کسی نشاندہی کرتا ہے___؟

کیا اس سوال کا یہ غیر عاقلانہ جواب دیا جاسکتا ہے کہ اس عظیم کائنات کا خالق کوئی نادان اور جاہل و ناتواں موجود ہے___؟

ہمارا بیدار ضمیر اور عقل سلیم یہ جواب کبھی پسند نہیں کرے گی بلکہ کہے گی

۱۶

کہ یہ عظیم نظم و ضبط اور اشیاء عالم کے درمیان ہم آہنگی اس کے بنانے والے کی عظمت اور قدرت اور علم کی علامت ہے کہ جن کی وجہ سے اس نے موجودات عالم کو اس طرح بنایا ہے او رخالق ہر ایک مخلوق کی ضروریات سے اپنے علم اور بصیرت کی بنا پر پہلے سے آگاہ تھا اس لئے اس نے کائنات کی ہر چیز کی ضروریات کو پورا کیا ہے اور ہر ایک کے لئے ایک مقصد اور اس تک پہنچنے کا راستہ معین کیا ہے_

وہ خالق عالم اور قادر کون ہے___؟

وہ عالم توانا اور قادر خدا ہے کہ جس نے یہ تمام نعمتیں ہمارے لئے پیدا کی ہیں اور ہمارے اختیار میں دے دی ہیں_ سورج اور چاند اور زمین کو ہمارے لئے مسخر کردیا ہے تا کہ کوشش اورمحنت سے زمین کو آباد کریں او رعلم و دانش حاصل کر کے اس دنیا کے عجائبات سے پردہ اٹھادیں اور اپنے پروردگار اور خالق کی عظمت کی نشانیوں کو دیکھیں اور ان نشانیوں سے اس کی بے انتہا قدرت اور کمال کا نظارہ کریں اور اس سے راز و نیاز اور مناجات کریں_

کیونکہ

''انسان خدا سے راز و نیاز اور مناجات کے وقت ہی اپنے اعلی اور صحیح مقام پر ہوتا ہے_ اگر انسان اپنے پروردگار سے دعا اور مناجات نہ کرے تو ایسی زندگی کس کام کی ہوگی؟

اور ایسا انسان کتنا بے قیمت ہوگا_''

دن اور رات کی پیدائشے کو دیکھئے اور صبح و شام ، دن ورات کے پیدا کرنے والے سےمناجات کیجئے _ کیا آپ جانتے ہیثں کہ زمین کی حرکت سے دن

۱۷

اور رات پیدا ہوتے ہیں_ زمین ایک دن اور رات میں اپنے محور کے گرد گردش کرتی ہے_ زمین کا وہ آدھا حصّہ جو سورج کے سامنے ہوتا ہے وہ دن کہلاتا ہے اور دوسرا حصّہ تاریک اور رات ہوتا ہے_

زمین کی اسی محوری گردش سے گویا دن، رات میں اور رات دن میں داخل ہوجاتی ہے اور دن و رات مستقل یکے بعد دیگرے ایک ترتیب سے آتے جاتے رہتے ہیں_ دن میں سورج کی گرمی او رحرارت سے نباتات اور درخت نشو و نما پاتے ہیں اور دن ہی میں انسان کام کاج اور محنت و مشقت کرتے ہیں اور پر سکون رات میں آرام کر کے اور مناجات بجالاکر اگلے دن کے لئے نئی قوت حاصل کرتے ہیں اور دوسرے دن کے لئے کام کاج اور عبادت الہی کے لئے خود کو تیار کرتے ہیں_

کیا آپ جانتے ہیں کہ جب آپ دن بھر کی محنت و مشقت اور عبادت و ریاضت کے بعد رات کو مناجات بجالاکر پر سکون میٹھی نیند کے مزے لے رہے ہوتے ہیں تو خالق کائنات کا یہ مربوط نظام اپنے نظم و ضبط اور ربط و ہم آہنگی کے کچھ اور تماشے دکھا رہا ہوتا ہے_

جی ہاں سورج سے حاصل کردہ روشنی اور توانائی سے چاند ہمیں نہ صرف ٹھنڈی اور فرحت بخش چاندنی سے نوازتا ہے بلکہ اسی چاندنی سے سمندر میں مدّ و جزر یعنی جوار بھاٹا آتا ہے_ تپتے ہوئے صحراؤں کی ریت ٹھنڈی ہوکر کاروانوں کے لئے آغوش مادر بن جاتی ہے_

یقین جایئےھیتوں میں سبز یاں نمو پاتی ہیں_ بلکہ اگر آپ ککڑی کے کھیت میں کسی نوزائیدہ ککڑی پر نظر ٹکا کر بیٹھ جایئےو دیکھیئے گا کہ اسی چھٹکی ہوئی

۱۸

چاندنی میں آناً فاناً ککڑی جست لگا کر بڑھ جاتی ہے_

اسی رات میں ابر نیساں برستا ہے جس سے سیپی میں ہوتی_ بانس میں بنسلوچن، کیلے میں کافور او سانپ میں زہر مہرہ پیدا ہوتا ہے_

کبھی آپ نے سوچا ہے کہ اگر زمین اس طرح منظم اور ایک خاص حساب سے حرکت میں نہ ہوتی تو کیا ہوتا___؟

زمین کے بعض حصّے ہمیشہ تاریکی میں ڈوبے رہتے_ ہمیشہ رات کا سماں ہوتا اور اس قدر سردی ہوتی کہ برف جمی رہتی_ اور بعض حصّوں میں ہمیشہ دن اور روشنی او رجھلسا دینے والی گرمی ہوتی_

دن اور رات کی پیدائشے بھی خالق کائنات کی قدرت، عظمت، علم، دانائی اور توانائی کی واضح نشانی ہے_

کیا آپ اس محنت کش بوڑھے سے چند سوال کرنا چاہیں گے___؟

صبر کیجئے، جب وہ ناشتہ کرنے کے لئے آپ کے پاس بیٹھے تو اس سے سوال کیجئے گا اور پوچھئے گا کہ گندم کے خوشنما خوشوں کے مشاہدے اور ان لہلہاتے کھیتوں اور حسین و جمیل فلک بوس پہاڑوں اور دل کش مرغزاروں کو دیکھ کر آپ کیا محسوس کرتے ہیں___؟

اور اس سے پوچھئے گا کہ دن او ررات کی گردش اور آفتاب کے طلوع و غروب سے آپ کیا سمجھتے ہیں____؟

اور سوال کیجئے گا کہ سورج اور چاند کے کام اور ان میں پائے جانے والے نظم و ضبط کے مشاہدے سے آپ نے کیا نتیجہ اخذ کیا ہے؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ سورج کا نور اور چاند کی روشنی کو کس نے پیدا کیا ہے___؟

۱۹

پھر اس کی باتوں کو غور سے سینئے گا اور دیکھیئے گا کہ وہ آپ کو کتنا عمدہ اور سادہ جواب دیتا ہے اور ملاحظہ فرمایئےا کہ وہ اس جہان کو دیکھ کر اس کے خالق کے عالم و قادر ہونے اور اس کے عظمت و قدرت والا ہونے کا کس طرح نتیجہ نکالتا ہے اور کس ایمان و خلوص اور دل کی گہرائیوں سے اپنے خالق کے حضور مناجات کرتا ہے اس کی آواز کو خوب کان لگا کر سینئے گا کہ وہ اس شعر کو گنگنا کر کتنا عمدہ جواب دیتا ہے:

این شب و روز و این طلوع و غروب بر وجود خدا دلیل خوب نظم در کار ماہ و خورشید است نظم عالم نشان توحید اس نور خورشید و روشنائی ماہ باشد از جانب تو یا اللہ

یا اللہ

آیت قرآن

( و من ای ته خلق السّموت و الارض و ما بثّ فیهما من دآبّة)

اللہ تعالی کی قدرت کی نشانیوں میں سے (ایک) زمین اور آسمان کی خلقت او رجوان میں حرکت کرنے والے ہیں''

(سورہ شوری آیة ۲۹)

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

پہلامحور

آیہء مباہلہ میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ

پہلی بحث یہ کہ پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مباہلہ کے سلسلہ میں اپنے ساتھ لے جانے کے لئے کن افرادکودعوت دینی چاہئے تھی،اس سلسلہ میں ایہء شریفہ میں غوروخوض کے پیش نظردرج ذیل چندمسائل ضروری دکھائی دیتے ہیں:

الف:”ابنائنا“اور”نسائنا“سے مرادکون لوگ ہیں؟

ب:”انفسنا“کامقصودکون ہے؟

۔۔۔( تعالوا ندع اٴبنائناو اٴبنا ئکم ) ۔۔۔

ابناء ابن کاجمع ہے یعنی بیٹے،اورچونکہ”ابناء کی“ضمیرمتکلم مع الغیر یعنی ”نا“ کی طرف نسبت دی گئی ہے(۱) اوراس سے مرادخودآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں،اس لئے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کوکم ازکم تین افراد،جوان کے بیٹے شمارہوں،کومباہلہ کے لئے اپنے ہمراہ لاناچاہئے۔

۔۔۔( ونسائنا ونسائکم ) ۔۔۔

”نساء“اسم جمع ہے عورتوں کے معنی میں اورضمیرمتکلم مع الغیر یعنی ”نا“کی طرف اضافت دی گئی ہے۔اس کاتقاضایہ ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے گھرانے میں موجود تمام عورتوں(چنانچہ جمع مضاف کی دلالت عموم پرہوتی ہے) یاکم ازکم تین عورتوں کو)جوکم سے

____________________

۱۔اس آیہء شریفہ میں استعمال کئے گئے متکلم مع الغیر والی ضمیریں،معنی کے لحاظ سے یکساں نہیں ہیں۔”ندع“میں پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اورطرف مباہلہ وآنحضرت علیہ السلام یعنی نصاریٰ مقصودہے،اور”ابناء“،”نساء“و”انفس“اس سے خارج ہیں۔اور”ابنائنا،”نسائنا“اور”انفسنا“میں خودپیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقصودہیں اورطرف مباہلہ اورابناء،نسائ اور انفس بھی اس سے خارج ہیں۔”نبتھل“ میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور طرف مباہلہ اور ابناء،نساء اورانفس سب داخل ہیں۔

۴۱

کم جمع کی مقدار اور خاصیت ہے)مباہلہ کے لئے اپنے ساتھ لاناچاہئے۔

اس بحث میں قابل ذکرہے،وہ”ابنائناونسائناوانفسنا“کی دلالت کااقتضاہے اوربعدوالے جوابات محورمیں جومباہلہ کے ھدف اورمقصدپربحث ہوگی وہ بھی اس بحث کاتکملہ ہے۔

لیکن”ابناء“اور”نساء“کے مصادیق کے عنوان سے کتنے اورکون لوگ مباہلہ میں حاضرہوئے،ایک علیحدہ گفتگوہے جس پرتیسرے محورمیں بحث ہوگی۔

( وانفسنا وانفسکم ) ۔۔۔

انفس،نفس کی جمع ہے اورچونکہ یہلفظ ضمیرمتکلم مع الغیر”نا“(جس سے مقصودخودآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذات ہے)کی طرف مضاف ہے،اس لئے اس پر دلالت کرتاہے کہ پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو)جمع کے اقتضاکے مطابق)کم ازکم تین ایسے افراد کومباہلہ کے لئے اپنے ساتھ لاناچاہئے جوآپ کے نفس کے زمرے میں آتے ہوں۔ کیا”انفسنا“خودپیغمبراکرم) ص)پرقابل انطباق ہے؟

اگر چہ”انفسنا“ میں لفظ نفس کا اطلاق اپنے حقیقی معنی میں صرف رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نفس مبارک پرہے،لیکن آیہء شریفہ میں موجود قرائن کے پیش نظر”انفسنا“میں لفظ نفس کوخودآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پراطلاق نہیں کیاجاسکتا ہے اور وہ قرائن حسب ذیل ہیں:

۴۲

۱ ۔”انفسنا“جمع ہے اورہرفرد کے لئے نفس ایک سے زیادہ نہیں ہوتاہے۔

۲ ۔جملہء( فقل تعالواندع ) آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کواس کے حقیقی معنی میں دعوت دینے کاذمہ دارقراردیتا ہے اورحقیقی دعوت کبھی خودانسان سے متعلق نہیں ہوتی ہے،یعنی انسان خودکودعوت دے،یہ معقول نہیں ہے۔

اس بنائ پر،بعض لوگوں نے تصورکیاہے کہ”فطوّعت لہ نفسہ“یا”دعوت نفسی“جیسے استعمال میں ”دعوت“)دعوت دینا )جیسے افعال نفس سے تعلق پیداکرتے ہیں۔یہ اس نکتہ کے بارے میں غفلت کانتیجہ ہے کہ یہاں پریا تو یہ”نفس“خودانسان اوراس کی ذات کے معنی میں استعمال نہیں ہواہے،یا”دعوت سے مراد “(دعوت دینا)حقیقی نہیں ہے۔بلکہ”فطوّعت لہ نفسہ قتل اخیہ“کی مثال میں نفس کامقصودانسان کی نفسانی خواہشات ہے اوراس جملہ کا معنی یوں ہے ”اس کی نفسانی خواہشات نے اس کے لئے اپنے بھائی کوقتل کرناآسان کردیا“اور”دعوت نفسی“کی مثال میں مقصوداپنے آپ کوکام انجام دینے کے لئے مجبوراورآمادہ کرناہے اوریہاں پردعوت دینا اپنے حقیقی معنی میں نہیں ہے کہ جونفس سے متعلق ہو۔

۳ ۔”ندع“اس جہت سے کہ خودپیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پرمشتمل ہے اس لئے نفس پردلالت کرتاہے اوریہ ضروری نہیں ہے،کہ دوسروں کودعوت دینے والا خودمباہلہ کا محورہو،اوروہ خودکوبھی دعوت دے دے۔

۴۳

دوسرامحور:

مباہلہ میں اہل بیت رسول (ص)کے حاضر ہونے کامقصد

پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کوکیوں حکم ہوا کہ مباہلہ کر نے کے واسطے اپنے خاندان کوبھی اپنے ساتھ لائیں،جبکہ یہ معلوم تھاکہ مباہلہ دوفریقوں کے درمیان دعویٰ ہے اوراس داستان میں ایک طرف خودپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور دوسری طرف نجران کے عیسائیوں کے نمائندے تھے؟

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نزدیک ترین رشتہ داروں کے میدان مباہلہ میں حاضر ہونے کامقصدصرف آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بات سچی ہونے اوران کی دعوت صحیح ہونے کے سلسلہ میں لوگوں کواطمینان ویقین دکھلانا تھا،کیونکہ انسان کے لئے اپنے عزیز ترین اشخاص کو اپنے ساتھ لاناصرف اسی صورت میں معقول ہے کہ انسان اپنی بات اوردعویٰ کے صحیح ہونے پرمکمل یقین رکھتاہو۔اوراس طرح کااطمینان نہ رکھنے کی صورت میں گویا اپنے ہاتھوں سے اپنے عزیزوں کوخطرے میں ڈالناہے اورکوئی بھی عقلمند انسان ایسااقدام نہیں کرسکتا۔

پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تمام رشتہ داروں میں سے صرف چنداشخاص کے میدان مباہلہ میں حاضرہونے کے حوالے سے یہ توجیہ صحیح نہیں ہوسکتی ہے،کیونکہ اس صورت میں اس خاندان کامیدان مباہلہ میں حاضرہونااور اس میں شرکت کرناان کے لئے کسی قسم کی فضیلت اورقدرمنزلت کاباعث نہیں ہوسکتاہے،جبکہ آیہء شریفہ اوراس کے ضمن میں بیان ہونے والی احادیث میں غوروخوض کرنے سے معلوم یہ ہوتاہے کہ اس ماجرامیں پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ جانے والوں کے لئے ایک بڑی فضیلت ہے۔

۴۴

اہل سنت کے ایک بڑے عالم علامہ زمخشری کہتے ہیں:

وفیه دلیل لاشیئ اقویٰ منه علی فضله اصحاب الکساء(۱)

”آیہء کریمہ میں اصحاب کساء)علیہم السلام)کی فضیلت پرقوی ترین دلیل موجود ہے“

آلوسی کاروح المعانی میں کہناہے:

و دلالتها علی فضل آل اللّٰه و رسوله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ممّا لایمتری فیهامؤمن والنصب جازم الایمان(۲)

”آیہ کریمہ میں ال پیغمبر (ص)کہ جو آل اللہ ہیں ان کی فضیلت ہے اوررسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی فضیلت،ایسے امور میں سے ہے کہ جن پرکوئی مؤمن شک و شبہ نہیں کر سکتا ہے اور خاندان پیغمبر (ص)سے دشمنی اور عداوت ایمان کونابودکردیتی ہے“

اگرچہ آلوسی نے اس طرح کی بات کہی ہے لیکن اس کے بعد میں آنے والی سطروں میں اس نے ایک عظیم فضیلت کو خاندان پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے موڑ نے کی کوشش کی ہے۔(۳)

اب ہم دیکھتے ہیں کہ خداوند متعال نے کیوں حکم دیاکہ اہل بیت علہیم السلام پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ مباہلہ کر نے کے لئے حاضر ہوں؟اس سوال کے جواب کے لئے ہم پھرسے آیہء شریفہ کی طرف پلٹتے ہیں ۔۔۔( فقل تعالوا ندع اٴبناء ناو اٴبناء کم و نساء نا و نسائکم واٴنفسنا واٴنفسکم ثمّ نبتهل فنجعل لعنة اللّٰه علی الکاذبین )

آیہء شریفہ میں پہلے پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے’ابناء“،”نسا ء“ اور”انفس“کودعوت دینااورپھردعاکرنااورجھوٹوں پرخداکی لعنت قراردینابیان ہواہے۔

____________________

۱۔تفسیرالکشاف،ج۱،ص۳۷۰،دارالکتاب العربی ،بیروت۔

۲۔روح المعانی،ج۳،ص۱۸۹،دارئ احیائ التراث العربی ،بیروت۔

۳۔اس کے نظریہ پراعتراضات کے حصہ میں تنقید کریں گے۔

۴۵

آیہء مباہلہ میں اہل بیت رسول)ص)کی فضیلت وعظمت کی بلندی

مفسرین نے کلمہ”ابتھال“کودعامیں تضرع یانفرین اورلعنت بھیجنے کے معنی میں لیاہے اوریہ دونوں معنی ایک دوسرے سے منا فات نہیں رکھتے ہیں اور”ابتھال“کے یہ دونوں معافی ہوسکتے ہیں۔

آیہء شریفہ میں دوچیزیں بیان کی گئی ہیں،ایک ابتھال جو”نبتھل“کی لفظ سے استفادہ ہو تاہے اوردوسرے ”ان لوگوں پرخدا کی لعنت قراردیناجواس سلسلہ میں جھوٹے ہیں“( فنجعل لعنةالله علی الکاذبین ) کاجملہ اس پردلالت کرتاہے اوران دونوں کلموں میں سے ہرایک کے لئے خارج میں ایک خاص مفہوم اورمصداق ہے دوسرا فقرہ جوجھوٹوں پرخداکی لعنت قراردیناہے پہلے فقرے ابتہال پر”فاء“کے ذریعہ کہ جو تفریع اور سببیت کے معنی میں ہے عطف ہے۔

لہذا،اس بیان کے پیش نظرپیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اورآپ کے اہل بیت علیہم السلام کا تضرع)رجوع الی اللہ)ہے اورجھوٹوں پرخداکی لعنت اورعقوبت کامرتب ہونا اس کامعلول ہے،اوریہ ایک بلند مقام ہے کہ خداکی طرف سے کافروں کوہلاک کرنااورانھیں سزادیناپیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اورآپ کے اہل بیت علیہم السلام کے ذریعہ انجام پائے۔یہ مطلب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت)علیہم السلام)کی ولایت تکوینی کی طرف اشارہ ہے،جوخداوندمتعال کی ولایت کے برابر ہے۔

اگرکہاجائے کہ:( فنجعل لعنةالله ) میں ”فاء“اگرچہ ترتیب کے لئے ہے لیکن ایسے مواقع پر”فاء“کے بعدوالاجملہ اس کے پہلے والے جملہ کے لئے مفسرقرار پاتاہے اور وہ تر تیب کہ جس پر کلمہ ”فاء“ دلالت کرتا ہے وہ تر تیب ذکری ہے جیسے:

( ونادیٰ نوح ربّه فقال ربّ إنّ ابنی من اٴهلی ) )ہود/۴۵)

”اورنوح نے اپنے پروردگارکو آواز دی کہ پروردگارامیرافرزندمیری اہل سے ہے۔“

۴۶

یہاں پرجملہء”فقال۔۔۔“جملہ ”فنادیٰ“ کوبیان )تفسیر)کرنے والاہے۔جواب یہ ہے:

اولاً:جس پرکلمہ”فاء“دلالت کرتاہے وہ ترتیب وتفریع ہے اوران دونوں کی حقیقت یہ ہے کہ”جن دوجملوں کے درمیان”فاء“نے رابطہ پیداکیاہے،ان دونوں جملوں کا مضمون ہے کہ دوسرے جملہ کامضمون پہلے جملہ پرمترتب ہے“

اوریہ”فاء“کاحقیقی معنی اورتفریع کالازمہ ہے۔یعنی ترتیب ذکری پر”فاء“کی دلالت اس کے خارج میں دومضمون کی ترتیب کے معنی میں نہیں ہے،بلکہ لفظ اور کلام میں ترتیب ہے لہذا اگراس پرکوئی قرینہ مو جودنہ ہوتوکلام کواس پرحمل نہیں کر سکتے۔اس صورت میں ایہء شریفہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خاندان کے لئے ایک عظیم مر تبہ پردلالت رہی ہے کیونکہ ان کی دعاپیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعا کے برابرہے اورمجموعی طور پریہ دعااس واقعہ میں جھوٹ بولنے والوں پر ہلاکت اورعذاب ا لہٰی نازل ہو نے کا باعث ہے۔

دو سرے یہ کہ:جملہء”فنجعل لعنة اللّٰہ“میں مابعد”فاء“جملہء سابق یعنی ”نبتھل“کے لئے بیّن اورمفسّرہونے کی صلاحیت نہیںرکھتاہے،کیونکہ دعاکرنے والے کا مقصدخداسے طلب کر ناہے نہ جھوٹوں پرلعنت کر نا۔اس صفت کے پیش نظراس کو لعنت قرار دینا )جو ایک تکوینی امر ہے) پہلے پیغمبراسلام (ص)اورآپکے اہل بیت علیہم السلام سے مستندہے اوردوسرے”فاء“تفریع کے ذریعہ ان کی دعاپر متو قف ہے۔گویااس حقیقت کا ادراک خودنجران کے عیسائیوں نے بھی کیاہے۔اس سلسلہ میں ہم فخررازی کی تفسیر میں ذکرکئے گئے حدیث کے ایک جملہ پرتوجہ کرتے ہیں:

۴۷

”۔۔۔فقال اٴسقف نجران: یامعشرالنصاریٰ! إنّی لاٴری وجوهاً لوساٴلو الله اٴن یزیل جبلاً من مکانه لاٴزاله بها فلا تباهلوا فتهلکوا ولایبقی علی وجه الاٴرض نصرانّی إلیٰ یوم القیامة ۔“(۱)

”نجران کے) عسائی)پادریان نورانی چہروں کودیکھ کرانتہائی متائثرہوئے اور بو لے اے نصرانیو!میں ایسے چہروں کودیکھ رہاہوں کہ اگروہ خدا سے پہاڑ کے اپنی جگہ سے ٹلنے کا٘ مطالبہ کریں تووہ ضرور اپنی جگہ سے کھسک جا ئیں گے۔اس لئے تم ان سے مباہلہ نہ کرنا،ورنہ ھلاک ہوجاؤگے اورزمین پرقیامت تک کوئی عیسائی باقی نہیں بچے گا۔“

غورکرنے سے معلوم ہوتاہے کہ آیہء شریفہ کے مضمون میں درج ذیل امورواضح طور پربیان ہوئے ہیں:

۱ ۔پیغمبراکرم (ص)،اپنے اہل بیت علیہم السلام کواپنے ساتھ لے آئے تاکہ وہ آپ کے ساتھ اس فیصلہ کن دعامیں شر یک ہوں اورمباہلہ آنحضرت (ص)اورآپ کے اہل بیت علیہم السلام کی طرف سے مشترک طور پر انجام پائے تاکہ جھوٹوں پرلعنت اورعذاب نازل ہونے میں مؤثرواقع ہو۔

۲ ۔آنحضرت (ص)اورآپکے اہل بیت (ع)کاایمان و یقین نیز آپ کی رسالت اور دعوت کا مقصد تمام لوگوں کے لئے واضح ہوگیا۔

۳ ۔اس واقعہ سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت علیہم السلام کا بلند مرتبہ نیز اہل بیت کی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے قربت دنیاوالوں پرواضح ہوگئی۔

اب ہم یہ دکھیں گے کہ پیغمبراسلام)ص)”ابنائنا“)اپنے بیٹوں)”نسائنا“)اپنی عورتوں)اور”انفسنا“)اپنے نفسوں)میں سے کن کواپنے ساتھ لاتے ہیں؟

____________________

۱۔التفسیر الکبیر،فخر رازی،ج۸،ص۸۰،داراحیائ التراث العربی۔

۴۸

تیسرامحور

مباہلہ میں پیغمبر (ص)اپنے ساتھ کس کو لے گئے

شیعہ اور اہل سنّت کااس پراتفاق ہے کہ پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مباہلہ کے لئے علی، فاطمہ، حسن اورحسین علیہم السلام کے علاوہ کسی اورکواپنے ساتھ نہیں لائے۔اس سلسلہ میں چندمسائل قابل غورہیں:

الف:وہ احادیث جن میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت علیہم السلام کامیدان مباہلہ میں حاضرہونابیان کیاگیاہے۔

ب:ان احادیث کا معتبراورصحیح ہونا۔

ج۔اہل سنّت کی بعض کتابوں میں ذکرہوئی قابل توجہ روایتیں۔

مباہلہ میں اہل بیت رسول)ص)کے حاضر ہونے کے بارے میں حدیثیں ۱ ۔اہل سنّت کی حد یثیں:

چونکہ اس کتاب میں زیادہ تر روئے سخن اہل سنّت کی طرف ہے لہذااکثرانھیں کے منابع سے احادیث نقل کی جائیں گی۔نمو نہ کے طورپراس حوالے سے چنداحادیث نقل کی جا رہی ہیں:

پہلی حدیث:

صحیح مسلم(۱) سنن ترمذی(۲) اورمسنداحمد(۳) میں یہ حدیث نقل ہوئی ہےجس کی متفق اور مسلم لفظیں یہ ہیں:

____________________

۱۔صحیح مسلم،ج۵،ص۲۳کتاب فضائل الصحابة،باب من فضائل علی بن ابیطالب،ح۳۲،موسسئہ عزالدین للطباعةوالنشر

۲۔سنن ترمذی،ج۵،ص۵۶۵ دارالفکر ۳۔مسنداحمد،ج،۱،ص۱۸۵،دارصادر،بیروت

۴۹

”حدثنا قتیبة بن سعید و محمد بن عباد قالا: حدثنا حاتم) و هو ابن اسماعیل) عن بکیر بن مسمار، عن عامر بن سعد بن اٴبی وقاص، عن اٴبیه، قال: اٴمر معاویه بن اٴبی سفیان سعدا ًفقال: ما منعک اٴن تسب اٴبا التراب؟ فقال: اٴماّ ما ذکرتُ ثلاثاً قالهنّ له رسواللّٰهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فلن اٴسبّه لاٴن تکون لی واحدة منهنّ اٴحبّ إلیّ من حمرالنعم

سمعت رسول للّٰهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یقول له لماّ خلّفه فی بعض مغازیه فقال له علیّ: یا رسول اللّٰه، خلّفتنی مع النساء والصبیان؟ فقال له رسول اللّٰه( ص) :اٴما ترضی اٴن تکون منّی بمنزلة هارون من موسی إلاّ انه لانبوة بعدی؟

و سمعته یقول یوم خیبر: لاٴُعطیّن الرایة رجلاً یحبّ اللّٰه و رسوله و یحبّه اللّٰه و رسوله قال: فتطاولنا لها فقال: اُدعو الی علیاً فاٴُتی به اٴرمد، فبصق فی عینه ودفع الرایة إلیه،ففتح اللّٰه علیه

ولماّنزلت هذه الایة( فقل تعا لواندع ابنائناوابنائکم ) دعا رسول اللّٰه-صلی اللّٰه علیه وسلم –علیاًوفاطمةوحسناًوحسیناً فقال:اللّهمّ هؤلائ اٴهلی“

”قتیبةبن سعید اور محمد بن عبادنے ہمارے لئے حدیث نقل کی،-- عامربن سعدبن ابی وقاص سے اس نے اپنے باپ)سعد بن ابی وقاص)سے کہ معاویہ نے سعدکوحکم دیااورکہا:تمھیں ابوتراب)علی بن ابیطالب علیہ السلام)کودشنام دینے اور برا بھلا کہنے سے کو نسی چیز مانع ہوئی)سعدنے)کہا:مجھے تین چیزیں)تین فضیلتیں)یادہیں کہ جسے رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا ہے،لہذامیں انھیں کبھی بھی برابھلا نہیں کہوں گا۔اگرمجھ میں ان تین فضیلتوں میں سے صرف ایک پائی جاتی تووہ میرے لئے سرخ اونٹوں سے محبوب ترہوتی:

۵۰

۱ ۔میں نے پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنا ہے ایک جنگ کے دوران انھیں)حضرت علی علیہ السلام)مدینہ میں اپنی جگہ پررکھاتھااورعلی(علیہ السلام)نے کہا:یارسول اللہ!کیاآپمجھے عورتوں اوربچوں کے ساتھ مدینہ میں چھوڑرہے ہیں؟ )آنحضرت (ص)نے) فرمایا:کیاتم اس پرراضی نہیں ہوکہ میرے ساتھ تمہاری نسبت وہی ہوجو ہارون کی)حضرت)موسی)علیہ السلام )کے ساتھ تھی،صرف یہ کہ میرے بعد کوئی پیغمبرنہیں ہو گا؟

۲ ۔میں نے)رسول خدا (ص))سے سنا ہے کہ آپ نے روز خیبر علی کے با رے میں فرمایا:بیشک میں پرچم اس شخص کے ہاتھ میں دوں گاجوخدا ورسول (ص)کو دوست رکھتاہے اورخداورسول (ص)اس کو دوست رکھتے ہیں۔)سعدنے کہا):ہم)اس بلندمرتبہ کے لئے)سراٹھاکر دیکھ رہے تھے)کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس امر کے لئے ہمیں مقررفرماتے ہیںیانہیں؟)اس وقت آنحضرت (ص)نے فرمایا: علی (علیہ السلام) کو میرے پاس بلاؤ ۔ علی (علیہ السلام) کو ایسی حالات میں آپکے پاس لایا گیا، جبکہ ان کی آنکھوں میں دردتھا،آنحضرت (ص)نے اپنا آب دہن ان کی آنکھوں میں لگا یااورپرچم ان کے ہاتھ میں تھمادیااورخدائے متعال نے ان کے ذریعہ سے مسلمانوں کوفتح عطاکی۔

۳ ۔جب یہ آیہء شریفہ نازل ہوئی( : قل تعالو اندع اٴبناء نا و اٴبنائکم و نسائنا و نسائکم و اٴنفسنا و اٴنفسکم ) ۔۔۔ توپیغمبراکرم (ص)نے علی،فاطمہ،حسن اورحسین) علیہم السلام )کوبلاکرفرمایا:خدایا!یہ میرے اہل بیت ہیں۔“

اس حدیث سے قابل استفادہ نکات:

۱ ۔حدیث میں جوآخری جملہ آیاہے:”الّٰلہمّ ھٰؤلاء ا ھلی“خدایا!یہ میرے اہل ہیں،اس بات پردلالت کرتاہے”ابناء“”نساء“اور”انفس“جوآیہء شریفہ میں ائے ہیں،وہ اس لحاظ سے ہے کہ وہ پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل ہیں۔

۵۱

۲ ۔”ابناء“”نساء“و”انفس“میں سے ہرایک جمع مضاف ہیں)جیساکہ پہلے بیان کیاگیا)اس کا اقتضایہ ہے کہ آ نحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کواپنے خاندان کے تمام بیٹوں،عورتوں اور وہ ذات جو آپ کا نفس کہلاتی تھی،سب کومیدان مباہلہ میں لائیں،جبکہ آپ نے”ابناء“میں سے صرف حسن وحسیںعلیہما السلام کواور”نساء“سے صرف حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہاکواور”انفس“سے صرف حضرت علی علیہ السلام کواپنے ساتھ لایا۔اس مطلب کے پیش نظرجوآپ نے یہ فرمایا:”خدایا،یہ میرے اہل ہیں“اس سے معلوم ہوتاہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل صرف یہی حضرات ہیں اورآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویاں اس معنی میں اپکے اہل کے دائرے سے خارج ہیں۔

۳ ۔”اہل“اور”اہل بیت“کے ایک خاص اصطلاحی معنی ہیں جوپنجتن پاک کہ جن کوآل عبااوراصحاب کساء کہاجاتاہے،ان کے علاوہ دوسروں پر اس معنی کااطلاق نہیں ہو تاہے۔یہ مطلب،پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بہت سی احا دیث سے کہ جو آیہء تطہیر کے ذیل میں ذکر ہوئی ہیں اور اس کے علاوہ دوسری مناسبتوں سے بیان کی ہیں گئی بخوبی استفادہ کیا جاسکتاہے۔

دوسری حدیث:

فخررازی نے تفسیرکبیرمیں ایہء مباہلہ کے ذیل میں لکھاہے:

”روی اٴنّه - علیه السلام - لماّ اٴورد الدلائل علی نصاری نجران،ثمّ إنّهم اٴصروا علی جهلهم، فقال - علیه السلام - إنّ اللّٰه اٴمرنی إن لم تقبلوا الحجّة اٴن اٴباهلکم فقالوا: یا اٴبا القاسم، بل نرجع فننظر فی اٴمرنا ثمّ ناٴتیک

فلمّا رجعوا قالوا للعاقب - وکان ذاراٴیهم - :یا عبدالمسیح، ماتری؟ فقال: و اللّٰه لقد عرفتم یا معشر النصاری اٴنّ محمداً نبیّ مرسل و لقد جاء کم بالکلام الحق فی اٴمر صاحبکم و اللّٰه ما باهل قوم نبیاً قط فعاش کبیرهم و لا نبت صغیرهم! و لئن فعلتم لکان الا ستئصال ، فإن اٴبیتم إلاّ الإصرار علی دینکم و الإقامة علی ما اٴنتم علیه فوادعوا الرجل و انصرفوا إلی بلادکم

۵۲

و کان رسول اللّٰه( ص) خرج وعلیه مرط من شعراٴسود، وکان قد احتضن الحسین واٴخذ بید الحسن، و فاطمه تمشی خلفه وعلی - علیه السلام - خلفها، و هو یقول:إذا دعوت فاٴمّنوا فقال اٴسقف نجران: یا معشر النصاری! إنّی لاٴری وجوها ًلو ساٴلوا اللّٰه اٴن یزیل جبلاً من مکانه لاٴزاله بها! فلا تباهلوا فتهلکوا، و لا یبقی علی وجه الاٴض نصرانیّ إلی یوم القیامة ثمّ قالوا: یا اٴبا القاسم! راٴینا اٴن لا نباهلک و اٴن نقرّک علی دینک فقال:- صلوات اللّٰه علیه - فإذا اٴبیتم المباهلة فاسلموا یکن لکم ما للمسلمین، و علیکم ما علی المسلمین، فاٴبوا، فقال: فإنیّ اٴُناجزکم القتال، فقالوا مالنا بحرب العرب طاقة، ولکن نصالک علی اٴن لا تغزونا و لاتردّنا عن دیننا علی اٴن نؤدّی إلیک فی کل عام اٴلفی حلّة:اٴلفاٴ فی صفر و اٴلفافی رجب، و ثلاثین درعاً عادیة من حدید، فصالحهم علی ذلکوقال: والّذی نفسی بیده إنّ الهلاک قد تدلّی علی اٴهل نجران، ولولاعنوالمسخوا قردة و خنازیر و لاضطرم علیهم الوادی ناراً ولاستاٴ صل اللّٰه نجران واٴهله حتی الطیر علی رؤس الشجر و لما حالا لحوال علی النصاری کلّهم حتی یهلکوا و روی اٴنّه - علیه السلام -لمّ خرج فی المرط الاٴسود فجاء الحسن -علیه السلام - فاٴدخله، ثمّ جائ الحسین -علیه السلام - فاٴدخله ،ثمّ فاطمة - علیها السلام - ثمّ علی - علیه السلام - ثمّ قال:( إنّما یرید اللّٰه لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطهّرکم تطهیراً ) واعلم اٴنّ هذه الروایة کالمتّفق علی صحّتها بین اٴهل التّفسیر والحدیث“(۱)

”جب پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نجران کے عیسائیوں پردلائل واضح کردئے اور انہوں نے اپنی نادانی اورجہل پراصرارکیا،تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:خدائے متعال نے مجھے حکم دیاہے اگرتم لوگوں نے دلائل کوقبول نہیں کیا تو تمہارے ساتھ مباہلہ کروں گا۔“)انہوں نے)کہا:اے اباالقاسم!ہم واپس جاتے ہیں تاکہ اپنے کام کے بارے میں غوروفکرکرلیں،پھرآپکے پاس آئیں گے۔

____________________

۱۔تفسیرکبیرفخر رازی،ج۸،ص،۸،داراحیائ التراث العربی۔

۵۳

جب وہ)اپنی قوم کے پاس)واپس چلے گئے،انھوں نے اپنی قوم کے ایک صاحب نظر کہ جس کا نام”عاقب“تھا اس سے کہا:اے عبدالمسیح!اس سلسلہ میں آپ کانظریہ کیا ہے؟اس نے کہا:اے گروہ نصاریٰ!تم لوگ محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کوپہنچانتے ہواورجانتے ہووہ ا للہ کے رسول ہیں۔اورآپ کے صاحب)یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام)کے بارے میں حق بات کہتے ہیں۔خداکی قسم کسی بھی قوم نے اپنے پیغمبرسے مباہلہ نہیں کیا،مگر یہ کہ اس قوم کے چھوٹے بڑے سب ہلاک ہو گئے ۔چنانچہ اگرتم نے ان سے مباہلہ کیاتو سب کے سب ہلاک ہوجاؤگے۔ اس لئے اگراپنے دین پرباقی رہنے کے لئے تمھیں اصرار ہے توانہیں چھوڑکراپنے شہر واپس چلے جاؤ۔پیغمبراسلام (ص))مباہلہ کے لئے)اس حالت میں باہرتشریف لائے کہ حسین(علیہ السلام)آپکی آغوش میں تھے،حسن(علیہ السلام)کاہاتھ پکڑے ہوئے تھے،فاطمہ (سلام اللہ علیہا)آپکے پیچھے اورعلی(علیہ السلام)فاطمہ کے پیچھے چل رہے تھے۔آنحضرت (ص)فرماتے تھے:”جب میں دعامانگوں تو تم لوگ آمین کہنا“نجران کے پادری نے کہا:اے گروہ نصاریٰ!میں ایسے چہروں کودیکھ رہاہوں کہ اگرخداسے دعا کریں کہ پہاڑاپنی جگہ سے ہٹ جائے تو وہ اپنی جگہ چھوڑ دے گا ۔لہذاان کے ساتھ مباہلہ نہ کرنا،ورنہ تم لوگ ہلاک ہوجاؤگے اور روی زمین پرقیامت تک کوئی عیسائی باقی نہیں بچے گا۔اس کے بعد انہوں نے کہا: اے اباالقاسم! ہمارا ارادہ یہ ہے کہ آپ سے مباہلہ نہیں کریں گے۔پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:اب جبکہ مباہلہ نہیں کررہے ہوتومسلمان ہوجاؤتاکہ مسلمانوں کے نفع ونقصان میں شریک رہو۔انہوں نے اس تجویزکوبھی قبول نہیں کیا۔

۵۴

آنحضرت (ص)نے فرمایا:اس صورت میں تمھارے ساتھ ہماری جنگ قطعی ہے۔انہوں نے کہا:عربوں کے ساتھ جنگ کرنے کی ہم میں طاقت نہیں ہے۔لیکن ہم آپ کے ساتھ صلح کریں گے تاکہ آپ ہمارے ساتھ جنگ نہ کریں اورہمیں اپنادین چھوڑنے پرمجبورنہ کریں گے،اس کے بدلہ میں ہم ہرسال آپ کودوہزارلباس دیں گے،ایک ہزار لباس صفرکے مہینہ میں اورایک ہزارلباس رجب کے مہینہ میں اورتیس ہزارآ ہنی زرہ اداکریں گے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی اس تجویزکوقبول کر لیااس طرح ان کے ساتھ صلح کرلی۔اس کے بعدفرمایا:قسم اس خداکی جس کے قبضہ میں میری جان ہے،اہل نجران نابودی کے دہانے پرپہو نچ چکے تھے،اگرمباہلہ کرتے توبندروں اورسوروں کی شکل میں مسنح ہوجاتے اورجس صحرامیں سکونت اختیار کر تے اس میں آگ لگ جاتی اورخدا وندمتعال نجران اوراس کے باشندوں کو نیست و نابود کر دیتا،یہاں تک کہ درختوں پرموجودپرندے بھی ہلاک ہوجاتے اورایک سال کے اندراندرتمام عیسائی صفحہء ہستی سے مٹ جاتے۔روایت میں ہے کہ جب پیغمبراکرم (ص)، اپنی پشمی کالی رنگ کی عبا پہن کر باہرتشریف لائے)اپنے بیٹے)حسن(علیہ السلام)کوبھی اس میں داخل کر لیا،اس کے بعدحسین(علیہ السلام) آگئے انہیں بھی عبا کے نیچے داخل کیا اس کے بعدعلی و فاطمہ )علیہما السلام) تشریف لائے اس کے بعد فرمایا:( إنّمایریداللّه ) ۔۔۔ ”پس اللہ کاارادہ ہے اے اہل بیت کہ تم سے ہر طرح کی کثافت وپلیدی سے دوررکھے اوراس طرح پاک وپاکیزہ رکھے جو پاک وپاکیزہ رکھنے کاحق ہے۔“علامہ فخر رازی نے اس حدیث کی صحت و صدا قت کے بارے میں کہا ہے کہ تمام علماء تفسیر و احادیث کے نزدیک یہ حدیث متفق علیہ ہے۔“

۵۵

حدیث میں قابل استفادہ نکات:

اس حدیث میں درج ذیل نکات قابل توجہ ہیں:

۱ ۔اس حدیث میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت کاحضور اس صورت میں بیان ہواہے کہ خودآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آگے آگے)حسین علیہ السلام)کوگود میں لئے ہوئے ،حسن(علیہ السلام)کاہاتھ پکڑے ہوئے جوحسین(علیہ السلام)سے قدرے بڑے ہیں اورآپکی بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیہاآپکے پیچھے اوران کے پیچھے(علیہ السلام) ہیں۔یہ کیفیت انتہائی دلچسپ اور نمایاں تھی۔کیو نکہ یہ شکل ترتیب آیہء مباہلہ میں ذکرہوئی تر تیب و صورت سے ہم آہنگ ہے۔اس ہماہنگی کا درج ذیل ابعادمیں تجزیہ کیاجاسکتاہے:

الف:ان کے آنے کی ترتیب وہی ہے جوآیہء شریفہ میں بیان ہوئی ہے۔یعنی پہلے ”ابناء نا“اس کے بعد”نسائنا“اورپھرآخرپر”ا نفسنا“ہے۔

ب:یہ کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے چھوٹے فرزندحسین بن علی علیہماالسلام کوآغوش میں لئے ہوئے اوراپنے دوسرے فرزندخورد سال حسن بن علی علیہماالسلام کاہاتھ پکڑے ہوئے ہیں،یہ آیہء شریفہ میں بیان ہوئے”بناء نا“ کی عینی تعبیرہے۔

ج۔بیچ میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کاقرارپانااس گروہ میں ”نساء نا“کے منحصربہ فردمصداق کے لئے آگے اورپیچھے سے محافظ قرار دیا جا نا،آیہء شریفہ میں ”نساء نا“کی مجسم تصویر کشی ہے۔

۲ ۔اس حدیث میں پیغمبراکرم (ص)نے اپنے اہل بیت علیہم السلام سے فرمایا:اذادعوت فاٴ منوا “یعنی:جب میں دعاکروں توتم لوگ آمین(۱) کہنااوریہ وہی

____________________

۱۔دعا کے بعد آمین کہنا،خدا متعال سے دعا قبول ہونے کی درخواست ہے۔

۵۶

چیزہے جوآیہء مباہلہ میں ائی ہے:( نبتهل فنجعل لعنةالله علی الکاذبین )

یہاں پر”ابتھال“)دعا)کوصرف پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نسبت دی گئی ہے،بلکہ”ابتھال“پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے دعاکی صورت میں اورآپ کے ہمراہ آئے ہوئے اعزّہ واقر باکی طرف سے آمین کہنے کی صورت میں محقق ہونا چاہئے تاکہ )اس واقعہ میں )جھوٹوں پرہلاکت اورعقوبت الہٰی واقع ہونے کاسبب قرارپائے،جیساکہ گزر چکا ہے۔

۳ ۔گروہ نصارٰی کی طرف سے اہل بیت علیہم السلام کی عظمت وفضیلت کا اعتراف یہاں تک کہ ان کے نورانی و مقدس چہروں کو دیکھنے کے بعد مباہلہ کرنے سے انکار کر دیا۔

تیسری حدیث:

ایک اورحدیث جس میں ”ابنائنا“،”نسائنا“اور”انفسنا“کی لفظیں صرف علی،فاطمہ،حسن اورحسین علیہم السلام پر صادق آتی ہیں،وہ حدیث”مناشد یوم الشوری“ہے۔اس حدیث میں امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام،اصحاب شوریٰ)عثمان بن عفان،عبدالرحمن بن عوف،طلحہ،زبیراورسعدبن ابی وقاص) سے کہ جس دن یہ شورٰی تشکیل ہوئی اورعثمان کی خلافت پرمنتج و تمام ہوئی،اپنے فضائل کی طرف اشارہ کرتے ہو ئے فرماتے ہیں۔اس طرح سے کہ ان تمام فضیلتوں کو یاد دلاتے ہوئے انہیں خداکی قسم دیتے ہیں اور ان تمام فضیلتوں کو اپنی ذات سے مختص ہونے کاان سے اعتراف لیتے ہیں۔حدیث یوں ہے:

۵۷

”اٴخبر نا اٴبو عبد اللّٰه محمد بن إبرهم، اٴنا ابوالفضل اٴحمد بن عبدالمنعم بن اٴحمد ابن بندار، اٴنا اٴبوالحسن العتیقی، اٴنا اٴبوالحسن الدارقطنی، اٴنا اٴحمد بن محمد بن سعید، اٴنا یحی بن ذکریا بن شیبان، اٴنا یعقوب بن سعید، حدثنی مثنی اٴبو عبداللّٰه،عن سفیان الشوری، عن اٴبن إسحاق السبیعی، عن عاصم بن ضمرةوهبیرة و عن العلاء بن صالح، عن المنهال بن عمرو، عن عبادبن عبداللّٰه الاٴسدی و عن عمروبن و اثلة قالوا: قال علیّ بن اٴبی طالب یوم الشوری: واللّٰه لاٴحتجنّ علیهم بمالایستطیع قُرَشیّهم و لا عربیّهم و لا عجمیّهم ردّه و لا یقول خلافه ثمّ قال لعثمان بن عفان ولعبدالرحمن بن عوف و الزبیر و لطلحة وسعد - و هن اٴصحاب الشوری و کلّهم من قریش، و قد کان قدم طلحة - اُنشدکم باللّٰه الذی لا إله إلّاهو، اٴفیکم اٴحد وحّد اللّٰه قبلی؟ قالوا:اللّهمَّ لا قال: اٴنشدکم باللّٰه، اٴفیکم اٴحد اٴخو رسول اللّٰه - صلی اللّٰه علیه وسلم - غیری، إذ آخی بین المؤمنین فاٴخی بینی و بین نفسه و جعلنی منه بمنزلة هارون من موسی إلّا اٴنی لست بنبیً؟قالوا:لاقال:اٴنشدکم باللّٰه،اٴفیکم مطهَّرغیری،إذسدّ رسول اللّٰهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اٴبوابکم و فتح بابی و کنت معه فی مساکنه ومسجده؟ فقام إلیه عمّه فقال: یا رسول اللّٰه، غلّقت اٴبوابنا و فتحت باب علیّ؟ قال: نعم، اللّٰه اٴمر بفتح با به وسدّ اٴبوابکم !!! قالوا:اللّهمّ لا قال: نشدتکم باللّٰه، اٴفیکم اٴحد اٴحب إلی للّٰه و إلی رسوله منّی إذ دفع الرایة إلیّ یوم خیر فقال : لاٴعطینّ الرایة إلی من یحبّ اللّٰه و رسوله و یحبّه اللّٰه و رسوله، و یوم الطائر إذ یقول: ” اللّهمّ ائتنی باٴحب خلقک إلیک یاٴکل معی“، فجئت فقال: ” اللّهمّ و إلی رسولک ، اللّهمّ و إلی رسولک“

۵۸

غیری؟(۱) قالوا:اللّهمّ لا قال:نشدتکم باللّٰه، اٴفیکم اٴحد قدم بین یدی نجواه صدقة غیری حتی رفع اللّٰه ذلک الحکم؟ قالوا: اللّهمّ لاقال:نشدتکم باللّٰه، اٴفیکم من قتل مشرکی قریش و العرب فی اللّٰه و فی رسوله غیری؟ قالوا:اللّهمّ لاقال: نشدتکم باللّٰه، اٴفیکم اٴحد دعا رسول اللّٰهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فیالعلم و اٴن یکون اُذنه الو اعیة مثل ما دعالی؟ قالوا: اللّهمّ لا قال: نشدتکم باللّٰه، هل فیکم اٴحد اٴقرب إلی رسول اللّٰهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فی الرحم و من جعله و رسول اللّٰهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نفسه و إبناء اٴنبائه وغیری؟ قالوا:اللّٰهم لا“(۲)

اس حدیث کومعاصم بن ضمرةوہبیرةاورعمروبن وائلہ نے حضرت )علی علیہ السلام) سے روایت کی ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے شوریٰ کے دن یوں فرمایا:

”خداکی قسم بیشک میں تمہارے سامنے ایسے استدلال پیش کروں گا کہ اھل عرب و عجم نیز قریش میں سے کوئی شخص بھی اس کومستردنہیں کرسکتااورمذھبی اس کے خلاف کچھ کہہ سکتا ہے۔میں تمھیں اس خداکی قسم دلاتاہوں جس کے سوا کوئی خدانہیں ہے،کیاتم لوگوں میں کوئی ایسا ہے جس نے مجھ سے پہلے خدائے واحدکی پرستش کی ہو۔؟ انہوں نے کہا: خدا شاہد ہے! نہیں۔ آپ(ع)نے فرمایا:تمھیں خداکی قسم ہے،کیاتم لوگوں میں میرے علاوہ کوئی ہے،جورسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا بھائی ہو،جب)آنحضرت (ص)نے)مؤمنین کے درمیان اخوت اوربرادری برقرارکی،اورمجھے اپنا بھائی بنایااور میرے بارے

____________________

۱۔شائدمقصودیہ ہوکہ”خداوندا!تیرے پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے نزدیک بھی محبوب ترین مخلوق علی)علیہ السلام ہیں۔“

۲۔تاریخ مدینہ دمشق،ج۴۲،ص۴۳۱،دارالفکر

۵۹

میں یہ ارشاد فر ما یا کہ:” تمہاری نسبت مجھ سے ویسی ہی جیسے ہارون کی موسی سے تھی سوائے اس کے کہ میں نبی نہیں ہوں “۔

انہوں نے کہا:نہیں۔فرمایا:تمھیں خداکی قسم دے کر کہتاہوں کہ کیامیرے علاوہ تم لوگوں میں کوئی ایساہے جسے پاک وپاکیزہ قراردیاگیاہو،جب کہ پیغمبرخداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمھارے گھروں کے دروازے مسجدکی طرف بندکردئیے تھے اورمیرے گھرکادروازہ کھلارکھا تھااورمیں مسکن ومسجدکے سلسلہ میں انحضرت (ص)کے ساتھ )اور آپ کے حکم میں )تھا،چچا)حضرت)عباس اپنی جگہ اٹھے اورکہا:اے اللہ کے رسول !ہمارے گھروں کے دروازے بند کر دئیے اورعلی) علیہ السلام )کے گھرکاادروازہ کھلارکھا؟

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:یہ خدائے متعال کی طرف سے ہے کہ جس نے ان کے دروازہ کوکھلارکھنے اورآپ لوگوں کے دروازوں کو بند کرنے کا حکم دیا؟

انہوں نے کہا:خداشاہدہے،نہیں۔فرمایا:تمھیں خداکی قسم دلاتاہوں،کیا تمہارے درمیان کوئی ہے جسے خدااوررسول مجھ سے زیادہ دوست رکھتے ہوں،جبکہ پیغمبر (ص)نے خیبرکے دن علم اٹھاکرفرمایا”بیشک میں علم اس کے ہاتھ میں دونگاجوخداورسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کودوست رکھتاہے اورخدااوررسول اس کودوست رکھتے ہیں“اورجس دن بھنے ہوئے پرندہ کے بارے میں فرمایا:”خدایا!میرے پاس اس شخص کو بھیج جسے توسب سے زیادہ چاھتا ہے تاکہ وہ میرے ساتھ کھا نا کھائے۔“اوراس دعاکے نتیجہ میں ،میں اگیا۔میرے علاوہ کون ہے جس کے لئے یہ اتفاق پیش آیا ہو؟

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254