‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) جلد ۴

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) 23%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 254

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 254 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 73347 / ڈاؤنلوڈ: 3704
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) جلد ۴

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

کی سرسراہٹ پہ چونک اٹھتی ہیں

بادِ صرصر کے ہاتھ سے بچنے

والے پھولوں کو چومتی ہیں

چھپانے لگتی ہیں اپنے دل میں

بدلتے، سفاک موسموں کی ادا شناسی نے چشمِ

حیرت کو سہمناکی کا مستقل رنگ دے دیا ہے

چمکتے نیزوں پہ سارے پیاروں کے سر سجے ہیں

کٹے ہوئے سر

شکستہ خوابوں سے کیسا پیمان لے رہے ہیں

کہ خالی آنکھوں میں روشنی آتی جا رہی ہے

***

۴۱

میں نوحہ گر ہوں

امجد اسلام امجد

میں نوحہ گر ہوں

میں اپنے چاروں طرف بکھرتے ہوئے زمانوں کا نوحہ گر ہوں

میں آنے والی رتوں کے دامن میں عورتوں کی اداس بانہوں کو دیکھتا ہوں

اور انکے بچوں کی تیز چیخوں کو سن رہا ہوں

اور انکے مَردوں کی سرد لاشوں کو گن رہا ہوں

میں اپنے ہاتھوں کے فاصلے پر فصیلِ دہشت کو چھو رہا ہوں

زمیں کے گولے پر زرد کالے تمام نقطے لہو کی سرخی میں جل رہے ہیں

نئی زمینوں کے خواب لے کر

مسافر اِن تباہ یادوں کے ریگ زاروں میں چل رہے ہیں میں نو

حہ گر ہوں مسافروں کا جو اپنے رستے سے بے خبر ہیں میں ہوش والوں کی بد حواسی کا نوحہ گر ہوں

حُسین،

میں اپنے ساتھیوں کی سیہ لباسی کا نوحہ گر ہوں

ہمارے آگے بھی کربلا ہے، ہمارے پیچھے بھی کربلا ہے

حُسین، میں اپنے کارواں کی جہت شناسی کا نوحہ گر ہوں

نئے یزیدوں کو فاش کرنا ہے کام میرا

ترے سفر کی جراحتوں سے

ملا ہے مجھ کو مقام میرا

حُسین، تجھ کو سلام میرا

***

۴۲

آنسوؤں کے موسم میں

اقبال ساجد

حُسین تیرے لیے خواہشوں نے خوں رویا

فضائے شہرِ تمنّا بہت اداس ہوئی

*

غبارِ ظلم پہ رنگِ شفق بھڑک اٹھا

زمیں پہ آگ بگولا گُلوں کی باس ہوئی

*

غموں کو کاشت کیا آنسوؤں کے موسم میں

یہ فصل اب کے بہت دل کے آس پاس ہوئی

*

وہ پیاس جس کو سمندر سلام کرتے ہیں

ہوئی تو تیرے لبوں سے ہی روشناس ہوئی

*

جو تُو نے خون سے لکھی حُسین وہ تحریر

کتابِ حق و صداقت کا اقتباس ہوئی

*

کبھی بجھا نہ سکے گی ترے چراغ کی لو

کہ جمع تیری امانت ہوا کے پاس ہوئی

*

دکھوں میں ڈوب گئی دشتِ کربلا کی سحر

ہوائے شام ترے غم میں بد حواس ہوئی

***

۴۳

قتیل شفائی

سلام اس پر کہ سب انسانیت جس سے شناسا ہے

پسر ہے جو علی کا اور محمّد کا نواسہ ہے

*

تضاداتِ مشیت دیکھئے، اس کے حوالے سے

جو اپنی ذات میں ہے اک سمندر، اور پیاسا ہے

*

برہنہ سر، لٹی املاک اور کچھ راکھ خیموں کی

مدینے کے سفر کا بس اتنا سا ہی اثاثہ ہے

*

علی اصغر تکے جاتے ہیں اس عالم کو حیرت سے

نہ لوری پیاری امّاں کی، نہ بابا کا دلاسہ ہے

*

کسی نے سر کٹایا اور بیعت کی نہ ظالم کی

سنی تھی جو کہانی، اس کا اتنا سا خلاصہ ہے

*

نہ مانگا خوں بہا اپنا خدا سے روزِ محشر بھی

مگر نانا کی امّت کے لیے ہاتھوں میں کاسہ ہے

*

قتیل اب تجھ کو بھی رکھنا ہے اپنا سر ہتھیلی پر

کہ تیرے شہر کا ماحول بھی اب کربلا سا ہے

*

قتیل اس شخص کی تعظیم کرنا فرض ہے میرا

جو صورت اور سیرت میں محمّد مصطفیٰ سا ہے

***

۴۴

عبدالحمید عدم

تھا کربلا کو ازل سے جو انتظارِ حُسین

وہیں تمام ہوئے جملہ کاروبارِ حسین

*

دکانِ صدق نہ کھولو، اگر نہیں توفیق

کہ جاں چھڑک کے نکھرتا ہے کاروبارِ حسین

*

وہ ہر قیاس سے بالا، وہ ہر گماں سے بلند

درست ہی نہیں اندازۂ شمارِ حسین

*

کئی طریقے ہیں یزداں سے بات کرنے کے

نزولِ آیتِ تازہ ہے یادگارِ حسین

*

وفا سرشت بہتّر نفوس کی ٹولی

گئی تھی جوڑنے تاریخِ زر نگارِ حسین

***

۴۵

فارغ بخاری

حُسین نوعِ بشر کی ہے آبرو تجھ سے

حدیثِ حرمتِ انساں ہے سرخرو تجھ سے

*

ملایا خاک میں تُو نے ستمگروں کا غرور

یزیدیت کے ارادے ہوئے لہو تجھ سے

*

بہت بلند ہے تیری جراحتوں کا مقام

صداقتوں کے چمن میں ہے رنگ و بُو تجھ سے

*

ترے لہو کا یہ ادنیٰ سا اک کرشمہ ہے

ہوئی ہے عام شہادت کی آرزو تجھ سے

*

کبھی نہ جبر کی قوت سے دب سکا فارغ

ملی ہے ورثے میں یہ سر کشی کی خُو تجھ سے

***

۴۶

عطاء الحق قاسمی

جب بھی شام کو سورج ڈوبنے لگتا ہے

ایسے میں یہ دل بھی ڈولنے لگتا ہے

*

آنکھوں میں پھر جاتی ہے وہ سوہنی صورت

اور پھر دل پر خنجر چلنے لگتا ہے

*

اس کے آنسو پونچھنے والا کوئی نہیں

خیموں میں کوئی بچہ رونے لگتا ہے

*

چاروں جانب گھیرا جھوٹ کے لشکر کا

سچ کا سایہ اس پر پھیلنے لگتا ہے

*

سچ کا سایہ حُر کی صورت سامنے ہے

وہ ہر دل پر دستک دینے لگتا ہے

*

حرص و ہوس کے بندے لیکن کیا جانیں

مرنے والا کیسے جینے لگتا ہے

*

لیکن تم مایوس نہ ہونا دل والو

دل جو سوچتا ہے وہ ہونے لگتا ہے

****

۴۷

خالد احمد

اے لب گرفتگی، وہ سمجھتے ہیں پیاس ہے

یہ خستگی تو اہلِ رضا کا لباس ہے

*

اے تشنگی، یہ حُسنِ محبت کے رنگ ہیں

اے چشمِ نم، یہ قافلۂ اہلِ یاس ہے

*

یہ عشق ہے کہ وسعتِ آفاقِ کربلا

یہ عقل ہے کہ گوشۂ دشتِ قیاس ہے

*

سایہ ہے سر پہ چادرِ صبر و صلوٰۃ کا

بادل کی آرزو ہے نہ بارش کی آس ہے

*

سوئے دمشق صبر کا سکہ رواں ہوا

اک رخ پہ ہے خراش تو اک رخ پہ لاس ہے

*

اے زینِ عابدین، امامِ شکستگاں

زنجیر زن ہواؤں میں کس خوں کی باس ہے

*

اے سر بلند و سر بہ فلک اہلِ دین و دل

مدفون کربلا میں ہماری اساس ہے

*

۴۸

تاجِ سرِ نیاز کا ہالہ ہے رفتگی

آہِ امامِ دل زدگاں آس پاس ہے

*

ممکن ہے کسطرح وہ ہماری خبر نہ لیں

ہر سانس، تارِ پیرہنِ التماس ہے

*

خالد شکست و فتح کے معنی بدل گئے

بازارِ شام ہے کہ شبِ التباس ہے

***

۴۹

محمد اعظم چشتی

جہانِ عشق و محبّت ہے آستانِ حُسین

نشانِ حق و صداقت ہے آستانِ حُسین

*

حدیثِ صدق و صفا، داستانِ صبر و رضا

بنائے شوقِ شہادت ہے آستانِ حُسین

*

جہاں میں مسکن و ماوا ہے اہلِ ایماں کا

دیارِ حُسنِ عقیدت ہے آستانِ حُسین

*

زمانہ کہتا ہے جس کو جمالِ لم یزلی

اسی جمال کی حجّت ہے آستانِ حُسین

*

نظر گئی مگر اب تک نہ لوٹ کر آئی

وہ برجِ اوجِ امامت ہے آستانِ حُسین

*

جو دیکھنا ہو تو میری نگاہ سے دیکھو

گناہ گاروں کی جنّت ہے آستانِ حُسین

*

یہیں سے جلتے ہیں اعظم حقیقتوں کے چراغ

ضیائے شمعِ نبوت ہے آستانِ حُسین

***

۵۰

رباعیات ۔

کنور مہندر سنگھ بیدی سحر

نغمۂ بربطِ کونین ہے فریادِ حُسین

جادۂ راہِ بقا مسلک آزاد حُسین

شوخیِ لالۂ رنگین ہے کہیں خونِ شفق

کس قدر عام ہوئی سرخیِ رودادِ حُسین

***

زندہ اسلام کو کیا تُو نے

حق و باطل کو دکھا دیا تُو نے

جی کے مرنا تو سب کو آتا ہے

مر کے جینا سکھا دیا تُو نے

***

بڑھائی دینِ مُحمد کی آبرو تُو نے

جہاں میں ہو کے دکھایا ہے سرخرو تُو نے

چھڑک کے خون شہیدوں کا لالہ و گل پر

عطا کیے ہیں زمانے کو رنگ و بُو تُو نے

***

لب پہ جب شاہِ شہیداں ترا نام آتا ہے

ساقی بادۂ عرفاں لیے جام آتا ہے

مجھ کو بھی اپنی غلامی کا شرف دے دیتے

کھوٹا سکہ بھی تو آقا کبھی کام آتا ہے

****

۵۱

سبط علی صبا

جمود ذہن پہ طاری تھا انقلاب نہ تھا

سکونِ قلب کہیں سے بھی دستیاب نہ تھا

*

حصارِ ظلم کی بنیاد کو اکھاڑ دیا

جہاں میں تجھ سا کوئی بھی تو فتح یاب نہ تھا

*

کچھ اس لیے بھی ترے نام کے ہوئے دشمن

تو وہ سوال تھا جس کا کوئی جواب نہ تھا

*

کچھ اس طرح سے بہتر کا انتخاب کیا

کسی رسول کا بھی ایسا انتخاب نہ تھا

*

حسین ابنِ علی کو نہ آفتاب کہو

وہ جب تھا جب کہ کہیں نامِ آفتاب نہ تھا

*

حُسین مصدرِ اُمّ الکتاب کیا کہنا

بجز تمھارے کوئی وارثِ کتاب نہ تھا

*

حُسین باعثِ تخلیقِ کائنات ہے تُو

غضب ہے تیرے لیے کربلا میں آب نہ تھا

***

۵۲

گردھاری پرشاد باقی

سلامی کربلا ہے اور میں ہوں

غمِ کرب و بلا ہے اور میں ہوں

*

کہا شہ نے نہیں کوئی رفیق اب

فقط ذاتِ خدا ہے اور میں ہوں

*

دیا ہے اپنا سر میں نے خوشی سے

قضا ہے یا رضا ہے اور میں ہوں

*

جو کچھ وعدہ کیا پورا کروں گا

یہ خنجر ہے گلا ہے اور میں ہوں

***

۵۳

نظم طباطبائی

چمکا خدا کا نور عرب کے دیار میں

پھیلی شعاع ہند میں چین و تتار میں

*

پہنچا ستارہ اوج پہ دینِ حُسین کا

اب تک تھا گردشِ فلکِ کج مدار میں

*

چونکیں ذرا یہود و نصاریٰ تو خواب سے

آئی نسیم صبحِ شبِ انتظار میں

*

وردِ زبانِ پاک صحیفہ ہے نور کا

اترا تھا جو خلیل پہ گلزارِ نار میں

*

ہے یاد دشت میں گہر افشانیِ کلیم

اور موعظ مسیح کا وہ کوہسار میں

*

موسیٰ کی رات کی مناجات طُور پر

داؤد کا وظیفہ وہ صبح بہار میں

*

بت ہو گیا ہے سنگ سرِ بت پرست پر

سرکہ بنی شراب کہن بادہ خوار میں

*

وہ جام پی کے اٹھ گئے پردے نگاہ سے

دریائے علم و نور کو پایا کنار میں

***

۵۴

ثروت حسین

کس کی خوں رنگ قبا آتی ہے

روشنی اب کے سوا آتی ہے

*

ساعتِ علم و خبر سے پہلے

منزلِ کرب و بلا آتی ہے

*

روزِ پیکار و جدل ختم ہوا

شبِ تسلیم و رضا آتی ہے

*

گریہ و گرد کا ہنگام نہیں

دل دھڑکنے کی صدا آتی ہے

*

پھر سرِ خاکِ شہیداں ثروت

پھول رکھنے کو ہوا آتی ہے

****

۵۵

صدائے استغاثہ

افتخار عارف

ھَل مِن ناصِرٍ یَنصَرنا

ھَل مِن ناصِرٍ یَنصَرنا

کیا کوئی ہے جو میری مدد کو پہنچے گ

کیا کوئی ہے جو میری مدد کو پہنچے گا

صدیوں پہلے دشتِ بلا میں اک آواز

سنائی دی تھی

جب میں بہت چھوٹا ہوتا تھا مری امی کہتی تھی

یہ جو صفِ عزا بچھتی ہے اسی صدا کی

بازگشت ہے

اسی صدا پر بستی بستی گریہ و زاری کا

سامان کیا جاتا ہے

اور تجدیدِ بیعتِ نصرت کا اعلان کیا

جاتا ہے

تب میں پہروں بیٹھ کے پیارے پیارے

اچھے اچھے لوگوں کی باتیں سنتا تھا

سچے سچے لوگوں کی باتیں پڑھتا تھا اور پہروں روتا تھا

اور اب برسوں بیت گئے ہیں

۵۶

جن آنکھوں میں آنسو تھے اب ان آنکھوں میں حیرت ہے

سچائی کی گواہی دینے والے آخر ظالم کو

ظالم کہنے سے ڈرتے کیوں ہیں؟

موت سے پہلے مرتے کیوں ہیں؟

***

۵۷

شورش کاشمیری

قرنِ اوّل کی روایت کا نگہ دار حسین

بس کہ تھا لختِ دلِ حیدرِ کرار حسین

*

عرصۂ شام میں سی پارۂ قرآنِ حکیم

وادیِ نجد میں اسلام کی للکار حسین

*

سر کٹانے چلا منشائے خداوند کے تحت

اپنے نانا کی شفاعت کا خریدار حسین

*

کوئی انساں کسی انساں کا پرستار نہ ہو

اس جہاں تاب حقیقت کا علمدار حسین

*

ابو سفیان کے پوتے کی جہانبانی میں

عزّتِ خواجۂ گیہاں کا نگہ دار حسین

*

کرۂ ارض پہ اسلام کی رحمت کا ظہور

عشق کی راہ میں تاریخ کا معمار حسین

*

جان اسلام پہ دینے کی بنا ڈال گیا

حق کی آواز، صداقت کا طرفدار حسین

*

۵۸

دینِ قیم کے شہیدوں کا امامِ برحق

حشر تک امّتِ مرحوم کا سردار حسین

*

ہر زمانے کے مصائب کو ضرورت اس کی

ہر زمانے کے لیے دعوتِ ایثار حسین

*

کربلا اب بھی لہو رنگ چلی آتی ہے

دورِ حاضر کے یزیدوں سے دوچار حسین

***

۵۹

شہزاد احمد

وعدہ کر کے بھی نہیں ساتھ نبھانے والے

کتنے بیدرد ہیں یہ لوگ زمانے والے

*

اہلِ کوفہ نے بلایا تو چلے آئے ہیں

کیسے سادہ ہیں محمد کے گھرانے والے

*

رحم کرتے ہیں تو اس کی بھی نہیں حد کوئی

کسی سفاک کو خاطر میں نہ لانے والے

*

فیصلہ آپ کریں، آپ کو کرنا کیا ہے؟

آپ پر چھوڑتے ہیں شمع بجھانے والے

*

ظلم کے تیروں سے چھلنی ہیں حسین ابنِ علی

غلبۂ کفر سے دنیا کو بچانے والے

*

ظلم کرنے پہ تلی بیٹھی ہے دنیا ساری

اور ہم لوگ فقط سوگ منانے والے

*

عرصۂ دہر میں باقی نہیں رہتا کچھ بھی

خاک ہو جاتے ہیں خیموں کو جلانے والے

*

۶۰

ماردی جائے گی، تم فوج در فوج نکل آؤگے اورآسمان کھول دیاجائے گا حتی کہ وہ دروازے ہی دروازے بن کر رہ جائے گا اور پہاڑ چلائے جائیںگے یہاںتک کہ وہ سراب ہوجائیں گے_

درحقیقت جہنم ایک گھاٹ ہے، سرکشوں کاٹھکانا، جس میں وہ مدتوںپڑے رہیںگے، اس کے اندر کسی ٹھنڈک اورپینے ے قابل کسی چیز کا مزہ وہ نہ چکھیں گے اگر کچھ ملے گاتو وہ بس گرم پانی اورزخموں کا گندہ پانی_ وہ کسی حساب وہ کتاب کی توقع نہ رکھتے تھے اورہماری آیات کوانہوںنے بالکل جھٹلادیا تھا اورحال یہ تھا کہ ہم نے ہر چیز گن گن کر لکھ رکھی تھی_

مندرجہ بالا عبارت جو آپ نے پڑھی قرآن کر یم کے اٹھتّرویں (۷۸) سورہ نبا کی چند آیا ت کا ترجمہ ہے_ان آیات میں خداوند عالم نے زمین و آسمان کی خلقت ،انسان اور جہان کی خلقت ،دن اور رات،پانی اور بارش،غلّہ گھاس پھوس اور درختوں کا ذکر فرمایا ہے_ اور اس نکتہ پر باربار زور دیا ہے کہ اگر تم غور کرو تو تمہیں معلوم ہوگا کہ یہ سب ہماری بنائی ہوئی ہیں اور ہم نے انھیں ایک خاص مقصد کے لئے خلق کیا ہے_

اور پھر خدا تاکید کرتے ہوئے کہتا ہے کہ قیامت اور حساب و کتاب کا دن نزدیک ہے_ ہم نے انسان اور جہان کو بے مقصد خلق نہیں کیا ہے_ فیصلے کا دن عنقریب آنے والا ہے_ اس دن پورا پورا حساب لیا جائے گا_ اچھے اور برے لوگ جدا جدا ہوجائیں گے اور وہ لوگ جو اس دن پر ایمان نہیں رکھتے تھے وہ سخت اور دردناک عذاب میں مبتلا ہوں گے کیونکہ انہوں نے اس روز حساب کو بھلادیا تھا_

۶۱

لیکن متقین کہ جو ہمیشہ روز حساب کویاد رکھتے تھے اور اس دن کے خوف سے گناہوں سے دوررہتے تھے اب وہ آسائشےوں اور آرام کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جنّت میں رہیںگے_

اس کے علاوہ بھی قر آن مجید کی دوسری بہت سی آیات اور پیغمبر اکرم(ص) اور آئمہ علیہم السلام کے فرامین سے پتہ چلتا ہے کہ قیامت کے روز لوگوں کے اعمال کا نہایت توجہ کے ساتھ اور بالکل ٹھیک حساب ہوگا اور ہر انسان کی قدر و قیمت اس کی نیکیوں اور برائیوں کے لحاظ سے متعین کی جائے گی_ حساب و کتاب کس طرح لیا جائے گا اور اس وقت کیا کیفیت ہوگی، یہ باتیں بھی حضور اکرم(ص) کی بعض احادیث میں بیان ہوئی ہیں_ ان میں سے بعض احادیث کی جانب ہم اشارہ کرتے ہیں_

پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا ہے:

قیامت کے روز انسان کے قدم اٹھانے سے پہلے چار چیزوں کے متعلق سوال کیا جائے گا_ اپنی عمر کس طرح گزاری؟ اپنے جسم کوکس کام میں استعمال کیا؟ مال کیسے کمایا اور کہاں خرچ کیا؟ اور خدا کے پیغمبر(ص) اور اہل بیت سے دوستی کے بارے میں پوچھا جائے گا ایک اور مقام پر پیغمبر(ص) اکرم فرماتے ہیں کہ:

قیامت کے روز ایک ایسے شخص کو حساب و کتاب کے لئے پیش کیا جائے گا کہ جس نے دنیام یں بہت سے اچھے کام اور بے شمار نیکیاں انجام دی ہوں گی_ اسے امید

۶۲

ہوگی کہ ان نیک کاموں کی وجہ سے وہ خدا کے عذاب سے محفوظ رہے گا اور منتظر ہوگا کہ فرشتے اس جنّت کی جانب لے جائیں_ عین اسی وقت چند ایسے انسان نمودار ہوں گے جن کا اس شخص نے حق غصب کیا ہوگا اور وہ اپنے حق کا مطالبہ کریںگ اور انصاف چاہیں گے لیکن قیامت کے روز اس ظالم و غاصب شخص کے پاس کچھ بھی نہ ہوگا کہ ان طالبان حق کا حق ادا کرسکے آخر کار فرشتے اس شخص کی نیکیوں میں سے کچھ نیکیاں لے کر ان طالبان حق مظلوم انسانوں کے حصّہ میں ڈال دیں گے تا کہ وہ اپنے مطالبہ سے دستبردار ہوکر راضی ہوجائیں ممکن ہے اس شخص کے سامنے کچھ اور طالبان حق اپنا مطالبہ لے کر آئیں اور ان کی تعداد اتنی بڑھ جامے کہ اس شخص کی نیکیاں ہی ختم ہوجائیں، اس صورت میں فرشتے حق طلب کرنے والوں کے گناہوں اوربرائیوں کواس غاصب شخص کے نامہ اعمال میںڈال دیں گ اور اس طرح یہ انسان کہ جس نے دنیامیںلوگوںپر ظلم کیاہے اوران کے حقوق کو غصب کیاہے نہ صرف تمام نیکیاں اور اچھائیاں کہ جنھیں اس نے دنیا میں انجام دیا تھا اپنے ہاتھ سے کھو بیٹھے گا بلکہ دوسروں کے گناہوں کا بوجھ بھی اٹھائے گا اب وہ ہوگا اور برائیوں کا بھاری بوجھ_

پیغمبر اکرم(ص) ایک اور جگہ فرماتے ہیں:

۶۳

اگر کوئی کسی پر ظلم کرتے ہوئے تازیانہ لگائے تو قیامت کے دن اس سے یقینا قصاص لیا جائے گا_''

خود آپ(ع) نے اپنی عمر کے آخربی دنوںمیںلوگوںکے سامنے اپنے کو قصاص کے واسطے پیش کردیا اور فرمایا:

خداکی قسم دنیا میں قصاص دنیاآخرت میں قصاص دینے سے بہت زیادہ سہل اور آسان ہے_ دنیا میں قصاص کو رائج کرو تا کہ آخرت کے قصاص سے محفوظ رہو_

آپ(ص) ہی نے فرمایا کہ:

قیامت کے دن سب سے پہلے جوایک دوسرے پردعوی کریں گے وہ ایک دوسرے پرزیادتی کرنے والے اورایسے میاںبیوی ہوںگے جن میں کبھی بھی نہ بنتی ہوگی_ مرد اللہ تعالی سے اپنی بیوی کی زیادتیوں کی شکایت کرے گا اور کہے گا کہ خداوندا یہ عورت بلاوجہ میری برائی کیا کرتی تھی اور خواہ مخواہ مجھ میں عیب نکالا کرتی تھی اور مجھے اذیت اور تکلیف دیتی تھی اوراس نے میرا گھر میں رہنادو بھر کردیا تھا عورت اس موقع پرانالزامات کوردکرے گی لیکن فرشتے اس کی زبان پر مہر لگادیں گے تاکہ وہ خاموش رہے،اس عورت کے اعضاء اور جوارح، ہاتھ اور پاؤں بات کرنے لگیں گے اور عورت کی ان زیادتیوں کوبیان کریںگے جوا س نے اپنے شوہر پرکی تھیں_ اورکبھی اس کے برعکس بیوی

۶۴

اپنے شوہر کی زیادتیوںکی شکایت کرے گی اورکہے گی کہ اس نے میراجینا دشوار کردیاتھا_ بغیر کسی وجہ سے کے گھر میں چیخ وپکار کیاکرتا تھا اوراس نے گھر کواپنے غصّہ کی آگ سے جہنم میںتبدیل کردیاتھا_ مردکے اعضااورجوارح اس کے خلاف گوہی دیں گے اور عورت کی بات کی تصدیق کریںگے_''

پیغمبراسلام(ص) جودونوں جہانوں کیلئے رحمت اورانسانوں کے نجات دہندہ تھے پسندنہیںفرماتے ت کہ کوئی انسان اپن آپ کوآخرت کے عذاب اورقیامت کے حساب کی سختی میں گرفتار کرے_ لہذا آپ(ص) نے تمام مومن اورحق پسند انسانوں کوخطاب کرتے ہوئے فرمایاکہ:

خدا اس بندہ پر اپنی رحمت نازل کرے جو موت کے آنے سے پہلے اس آدمی کا حق اداکردے جس کاحق اس کی گردن پر ہو، کیونکہ قیامت کے دن انسان کے پاس کسی قسم کا مال و دولت نہ ہوگا کہ وہ اپنے حق کے طلب گاروں کا حق اس کے ذریعہ ادا کرے_ روز قیامت صرف انسان کے اچھے اور برے اعمال اس کے ساتھ ہوں گے اورحق داروں کے حق طلب کرنے کی صورت میں اس کے اچھے اعمال کم کر کے طلب گاروں کے حصّہ میں ڈال دیئے جائیں گے اور اگر اس کے پاس کوئی اچھا عمل نہ ہوگا تو طلب گاروں کے برے اعمال اس کے حساب میں ڈال دیئے

۶۵

جائیںگے_''

یقینا اس روز ہم بھی اپنے پروردگار کے سامنے جواب دہ ہوں گے اس عظیم دن کے لئے جس دن تمام طاقت و قدرت صرف ذات الہی کے ہاتھ میں ہوگی اور اسی کا حکم چلے گا اور کسی کو اس کی اجازت کے بغیر بات کرنے کی طاقت نہ ہوگی اورپھر سوائے حق اور صحیح بات کے کوئی اوربات کی بھی نہ جاسکے گی_ ضروری ہے کہ اس دن کے لئے زاد راہ جمع کریں اور بہترین زادراہ تقوی ہے_

پیغمبر اکرم (ص) کے فرمان کے مطابق:

پہلی چیز جس کے متعلق روز قیامت سوال ہوگا وہ نماز ہوگی بہترین چیز جسے انسان اپنے ساتھ لے جائے گاوہ اچھا اورنیک اخلاق ہوگا_''

ہمارے لئے بہتر یہ ہے کہ اس سے پہلے کہ ہم سے روز قیامت سوال کیا جائے اوردنیا میں کئے جانے والے اعمار وافعال کا حساب طلب کیاجائے ہم خود ہی اپنے اعمال و اخلاق پرنگاہ ڈالیں اوراپنا محاسبہ کریں_

پیغمبر اکرم(ص) کا ارشاد ہے کہ:

اپنے اعمال کاحساب کرو قبل اس کے کہ ان کا حساب کیا جائے_ اور اپنے اعمال کا وزن کروقبل اس کے کہ ان کاوزن کیاجائے_''

آیت قرآن

( انّ الّذین یصلّون عن سبیل الله لهم عذاب شدید بما نسوا یوم الحساب)

۶۶

وہ لوگ جو اللہ کے راستے سے گمراہ ہوگئے ہیں یقینا ان کے لئے سخت عذاب ہوگاکیونکہ انہوں نے قیامت کے دن کو بھلادیا ہے_''

''سورہ ص آیت ۲۶)

سوچیے اورجواب دیجئے

۱)___ خداوند عالم نے سورہ نباء میں جہان کے بامقصد ہونے کے ساتھ کن موضوعات کو یاد دلایا ہے؟

۲)___ خداوند عالم نے اس سورہ میںکن مسائل کاذکرفرمایا ہے (صرف سورہ کے اس حصّے میںکہ جس کاذکر اس درس میںکیاگیا ہے؟)

۳)___ قیامت کے دن کوکیوں'' روز فصل اور روز جدائی'' کہاجاتا ہے؟

۴)___ سورہ نباء میں ظلم اورزیادیتوںکرنے والوںکے بارے میں کیا بیان ہوا ہے؟

۵)___ پیغمبر اکرم (ص) کا فرمان ہے کہ انسان سے قیامت کے دن چار چیزوں کے بارے میں سوال کیاجائے گا_ وہ چار چیزیں کون سی ہیں؟

۶)___اگر کوئی دنیا میں کسی پر ظلم کرے اورکسی کا مال اورحق غصب

۶۷

کرے تو اس سے قیامت کے دن صاحبان حق اپنا حق کس طر ح وصول کریںگے؟

۷)___ پیغمبر اکرم(ص) نے دوسرے لوگوں کے حقوق کے متعلق کیا سفارش کی؟

۸)___ ایک دوسرے پرزیادتی کرنے والے میاں بیوی کس طرح انصاف چاہیں گے اوراگر اپنی زیادتیوںکا انکار کریںگے توکون ان کے اعمال کی گواہی دے گا؟

۹)___ سب سے پہلی چیز جس کا قیامت کے دن سوال ہوگا کیا ہے؟ بہترین چیز جو قیامت کے دن ہمارے کام آئے گی، کیا ہے؟

۱۰)___ قیامت کے دن حساب وکتاب کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی ایک حدیث بیان کریں اور اس کی وضاحت بھی کریں؟

۱۱)___ قیامت کے دن کیلئے بہترین توشا اور زاد راہ کیاہے؟

۶۸

قیامت کے ترازو

موت کے وقت انسان کے سامنے یہ دنیا ختم ہوجاتی ہے اور اس کے سامنے آخرت کی دنیا کے دروازے کھل جاتے ہیں_ عمل کا زمانہ ختم ہوجاتا ہے اورحساب و کتاب اورجزا و سزا کازمانہ قریب ہوجاتاہے اور انسان دنیا سے آخرت کی طرف منتقل ہوجاتاہے اگر انسان کی نظر میں دنیا کی قدر و قیمت ہوگی اور دنیاپرستی کاشکار ہوگا تو اس کے لئے دنیاکو چھوڑنا سخت مشکل و ناگوار ہوگا_ اور اگر اس کی نظر میں خدا کی خوشنودی ہر چیز سے زیادہ قیمتی ہوگی تووہ مکمل ذوق و شوق کے ساتھ اس سفر کے لئے تیارہوگا_

امام علی رضا علیہ السلام نے جانکنی کے بارے میں فرمایاہے کہ:

''کافر کے لئے موت کالمحہ نہایت سخت ہوگا_ گویا کہ ایک ادہا مسلسل اسے ڈس رہا ہے اوربچھوا سے بار بار اپنازہر

۶۹

آلود ڈنک مار رہا ہے اوراس سے بھی زیادہ اذیت ناک_''

آپ(ص) سے سوال کیا گیا کہ:

کہاجاتا ہے کہ کافروں کے لئے اس دنیا سے جدا ہونے کی تکلیف اس سے بھی زیادہ سخت ہوگی کہ اس کے بدن کو آری سے ٹکڑے ٹکڑے کیا جائے یا قینچی سے اس کی بوٹی بوٹی جدا کی جائے یا اس پربہت بھاری پتھر مارا جائے یا لوہے کی سلاخیں اس کی آنکھوں میںڈالی جائیں یا چكّی میں اسے پیس دیا جائے

امام رضا علیہ السلام نے فرمایا کہ:

ہاں ایسا ہی ہے لیکن تمام کافروں کے لئے نہیں بلکہ ان میں سے بعض کے لئے جو ظالم اور زیادہ گناہ گارہوں گے اورپھر یہ عذاب تو فقط آغاز ہوگا_ اس سے سخت اور سخت ترین عذاب تو اسے برزخ اور قیامت میں جھیلنا پڑے گا_ اس کے برعکس مومن جو خداپرست اورخدا سے دل لگائے ہوئے ہوں گے اور اس کے احکام و فرامین کو مانتے ہوں گے اورہمیشہ آخرت کویادکرتے ہوں گے اور لوگوںکے ساتھ صرف عدل و انصاف کا سلوک کرتے ہوںگے وہ بہت آسانی سے اس دنیا سے گزرجائیں گے کہ گویا پھول سونگھتے ہوئے اپنی جان جان آفرین کے سپرد کر رہے ہیں_ ان کا یہ سفر آخرت اسی طرح بزرخ اور اس کے بعد روز قیامت تک جاری رہے گا اور آخرت قیامت کے دن

۷۰

کہ جس دن حساب وکتاب ہوا اوراعمال تو لے جائیں گے اس دن ان کے اعمال کا بھی ٹھیک ٹھیک حساب کیا جائے گا_

قیامت کے ترازو

خداوند عالم قرآن مجید میںقیامت کے دن کے بارے میں فرماتا ہے:

''پھر دیکھو وہ موت کی جانکنی حق لے کر آپہنچی، یہ وہی چیز ہے جس سے توبھاگتاتھا_''

''اس چیز کی طرف سے تو غفلت میںتھا، ہم نے وہ پردہ ہٹادیاجوتیرے آگے پڑاہواتھا اورآج تیری نگاہ خوب تیز ہے_''

قیامت کے روز ہم ٹھیک ٹھیک تولنے والے ترازورکھ دیںگے پھر کسی شخص پرذرہ برابر ظلم نہ ہوگا_''

(سورہ ق آیت ۱۹_ سورہ انبیاء آیت ۴۷)

آپ سوچتے ہوں گے کہ عدالت کاترازو کیا چیز ہے؟ سوچتے ہوںگے کہ قیامت کے ترازو سے کیامراد ہے؟ اوریہ اعمال کے وزن اوراس کی قدر و قیمت کا کس طرح تعین کریں گے؟ عمل بے وزن اوربے قیمت ہونے کوکس ترازو سے تولیں گے؟

میزان کے معنی ترازو اوراس ذریعہ کے ہیں جس سے کسی چیز کوتولایا

۷۱

ناپاجاتا ہے_

ہر چیز کو ایک مخصوص پیمانے سے ناپاجاتا ہے_ مثلاً سونے کے زیورات کے وزن کے لئے ایک حساس اورچھوٹا ترازو استعمال کیاجاتا ہے_ اسی طرح ایک بڑے ٹرک کاوزن معلوم کرنے کے لئے جو تربوزوں سے بھبرا ہوا ہو ایک بڑے کانٹے کو استعمال کیا جاتا ہے_ جسم کی حرارت اور نجار معلوم کرنے کے لئے تھرمامیٹر اورکسی چیز کی بلندی یا طول و عرض معلوم کرنے کے لئے میٹر سے استفادہ کیا جاتا ہے_

پس آپ نے دیکھا کہ میزان اورترازو مختلف شکلوں اور مختلف قسموںکے ہوتے ہیں_ جسم کی حرارت معلوم کرنے والا تھرمامیٹر اورٹرک کا وزن کرنے والے کانٹے کے درمیان کتنا فرق ہے_ لیکن اسکے باوجود یہ پیمائشے کرنے کاذریعہ کہلاتے ہیں_

اگرہم آپ کی کلاس میںمصوری کا مقابلہ منعقد کروائیں تو اس میں بہترین تصویر کا چناؤ کیسے کریں گے؟

اگرکچھ لوگوں کی طاقت کا موازنہ کریں کہ ان میں سے کون زیادہ طاقتور ہے تو کیسے معلوم کریں گے؟

اوراسی طرح ایک مجاہد کی بہادری معلوم کرنے کا آپ کے پاس کیا پیمانہ ہے؟ اس قسم کے مواقع پر''میزان اورترازو' ' وہ نمونہ ہوتاہے جودنیامیںپہلے سے موجودہو_ مثلاً ایک تحریر کی خوبصورتی اور اس کے حسن کوپرکھنے کے لئے ایک بڑے استاد کی تحریر سے اس کا موازنہ کیاجائے گا_ اور اسی لحاظ سے اس کامعیار معین کیا جائے گا_ پس اس صورت میں ترازو اور میزان استاد کی لکھی

۷۲

ہوئی تحریر قرار پائے گی_

ایک کلاس کے طالب علموں کی قابلیت کاتعین کرنے کے لئے امتحان منعقد کیا جاتا ہے اور کلاس کے سب سے ذہین طالب علم کو دوسروں کے لئے میزان قرار دیا جاتا ہے_

آپ نے دیکھا ہوگا کہ کبھی کبھی آپ کے استاد پوری کلاس کو ایک سوال حل کرنے کے لئے دیتے ہیں اورپھر اس کی چیکنگ کے دوران جب دیکھتے ہیںکہ اکثر طالب علموں نے سوال غلط حل کیا ہے تو ان سے کہتے ہیںکہ فلاں طالب علم کودیکھو، اس نے سوال بالکل درست طور پرحل کیا ہے، جاؤ اوراس کی کاپی سے اپناسوال ملاؤ_

قرآن مجید کے مطالعہ سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے روز بندوں کے حساب وکتاب کے لئے خداوند عالم ایسے میزان اورترازو معین کرے گا جن کے ذ ریعہ بندوں کے اعمال کا وزن کیا جائے گا تا کہ انسان اپنے اعمال کے وزن اوران کی قدروقیمت کے مطابق اپنی جزا کوپاکسیں_

اس بارے میں خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ:

''قیامت کے دن ہم ٹھیک ٹھیک تولنے والے ترازو رک ھ دیںگے، پھر کسی شخص پر ذرّہ برابر ظلم نہ ہوگا جس نے رائی کے دانے کے برابر بھی عمل انجام دیا ہوگا وہ ہم سامنے لے آئیں گے اورحساب لگانے کے لئے ہم کافی ہیں_''

( سورہ انبیاء ۲۱_ آیت ۴۷)

'' اس دن پیمائشے اور وزن حق کے مطابق ہوگا جس شخص

۷۳

کا پلڑا نیک اعمال سے بھاری ہوگا نجات پاجائے گا اور جنکا پلڑا ہلکا ہوگاوہ نقصان اور خسارہ میں ہیںرہیں گے کیونکہ انہوں نے ہماری آیت پرظلم کیا ہے، اور جہنم میں ہمیشہ کے لئے رہیں گے_

البتہ یہ بات ذہن نشین رہے کہ قیامت کا ترازو ان ترازؤوں سے مختلف ہے جن کا ہم اپنی روزمرّہ مادی زندگی میں مشاہدہ کرتے ہیں_ قیامت کے دن کے ترازو کی نوعیت مختلف ہوگی_ اس ترازو کے ذریعہ لوگوں کے عقائد و افکار اور اخلاق و رفتار کو ناپا جاسکے گا_ عقائد کو پرکھنے کا پیمانہ ''حق'' ہوگا اور''حق'' سے موازنہ کر کے ہی عقائد کوپر کھا جاسکے گا_

انسانوں کے اعمال و افعار کا پیمانہ صالح لوگ ہوں گے_ انبیاء ائمہ خدا کے منتخب بندوں اور اولیاء اللہ کے اعمال کے ذریعہ انسانوں کے اعمال کا موازنہ کیا جائے گا_ جتنا کسی کا عمل ان کے عمل سے مشابہت رکھتا ہوگا اتناہی وزنی اورباقیمت ہوگا_ جواعمال خدا اور اس کی رضا کے لئے انجام دیئے جائیں وہ وزنی اور قیمتی ہیں اور جو اعمال غیر خدا کے لئے اور غفلت میں انجام دیئے جائیں وہ بے وزن وبے قیمت ہوتے ہیں، اگر چہ ان کی ظاہری صورت اچھی اورنیک ہی کیوں نہ ہووہ قیامت کے دن نیک اوراچھے اعمال میں شمار نہیں کئے جائیں گے_

لہذا جنّت اورخداوند عالم کاقرب وہ حاصل کرسکے گا جس کے نیک اعمال کا پلڑا بھاری ہوگا_ اور جس کے نیک اعمال کا پلڑا بھاری نہ ہوگا وہ نجات نہ پاسکے گا اوروہ ضر ور بالضرور جہنّم میں جاء گا اور آگ کی تہہ میں پڑے گا_

قرآن مجید کا ایک سورہ جسے قارعہ کہا جاتا ہے اس کے ترجمے پرغور

۷۴

کیجئے:

خدا کے نام سے جوبڑا مہربان اورنہایت رحم کرنے والا ہے_ ''تو ڑ دینے والی، توڑ دینے والی کیا ہے، کیا جانتے ہوکہ توڑنے والی کیا ہے_ وہ دن کہ جب لوگ بکھرے ہوئے پروانوں کی مانند اورپہاڑ دھنکی ہوئی روئی کی ریزہ ریزہ ہوجائیں گے، پھر جس کے اعمال کا پلڑا بھاری ہوگا وہ اچھی اورخوشحال زندگی میں داخل ہوگا اور جس کے اعمال کا پلڑا ہلکا ہوگا اس کاٹھکانا جہنّم ہوگا اور تمہیں کیا جانتے ہو کہ جہنّم کیا چیز ہے_ بھڑ کتنی ہوئی آگ:

قیامت کے دن انسانی اعمال کا وزن کیا جائے گا اوراس کے پوشیدہ اعمال ظاہر و آشکار ہوجائیں گے_ اس دن انسان اپنے تمام اعمال اورحرکات کا مشاہدہ کرے گا_ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ:

اس دن انسانوں کو اس کا سب اگلا پچھلا کیا ہوا بتادیا جائے گا_ بلکہ انسان خود ہی اپنی آپ کواچھی طرح جانتا ہے''

قیامت کے دن انسان کانامہ عمل اتنا واضح اورروشن ہوگا کہ وہ اس کو دیکھ کراپنے تمام اعمال س آگاہ ہوجاء گا اور ان کے درست ہونے کا اعتراف کرے گا اور میزان اتنا ٹھیک ٹھیک ہوگا کہ انسان سے کہاجائے گا کہ خود اپنا حساب کرے

قیامت کے دن انسان سے کہاجاء گا کہ:

۷۵

اپنے نامہ عمل کوپڑھ، آج توخود اپنا حساب کرنے کے لئے کافی ہے''

قیامت کے دن باطنی اعمال اورپوشیدہ حقائق اس طرح واضح ہوں گے کہ کوئی بھی ان کا انکار نہ کرسکے گا_ اور اگرکوئی انکار کرنا چاہے گا تو اس کے منہ پر مہر لگادی جائے گی تا کہ اس کے اعضاء وجوارح گواہی دے سکیں_

خداوند عالم نے قرآن مجید میں فرمایا ہے_

اس دن یعنی قیامت کے دن ان کے منہ پر مہر لگادیں گے اور ان کے اعضاء و جوارح، ہاتھ، پاؤں باتیں کریں گے اور اپنے کردار کی گواہی میں فرماتا ہے_

یہ ہماری کتاب ہے کہ جو حق کے مطابق تمہارے خلاف گواہی دے رہی ہے_ قیامت کا دن حساب و میزان کا دنہے_ حق اور عدل ادلہ جزا و سزا کا دن ہے_ نیک لوگوں کی ظالموں اور بدکاروں سے مکمل جدائی کا دن ہے_''

پس کتنا اچھا ہو کہ ہم اپنے آپ کواس عظیم دن کے لئے تیار کریں اور ایسے اعمال انجام دیں کہ اس دن جن کے دیکھنے سے شرمندگی نہ ہو_

آیت قرآن

۷۶

''( و نضع الموازین القسط لیوم القی مة فلا تظلم نفس شیئا و ان کان مثقال حبّة من خردل اتینا بها و کفی بنا حاسبین ) _''

سورہ انبیاء ۲۱_ آیت ۴۷

قیامت کے دن ہم ٹھیک ٹھیک تولنے والے ترازورکھ دیں گے پھر کسی شخص پر ذرہ برابر ظلم نہ ہوگا_ جس نے رائی کے برابر بھی عمل انجام دیا ہوگا وہ ہم سامنے لے آئیں گے_ اور حساب کرنے کے لئے ہم کافی ہیں''

سوچیے اورجواب دیجئے

۱)___ دنیا سے آخرت کے سفر میں کون جان لیوا اور سخت شکل محسوس کرے گا اور کون ذوق و شوق سے اس کو طے کرے گا؟

۲)___ امام رضا علیہ السلام کے مطابق ظالم اورکافر دنیا سے رخصت کے وقت کیا محسوس کریں گے اور مومن و خداپرست اس موقع پر کیا محسوس کریں گے؟

۳)___ قیامت کے دن کون لوگ نجات پانے والے اور کون لوگ نقصان و خسارہ کا شکار ہوں گے؟ (آپ کی کتاب

۷۷

میں اس بارے میں جو ذکر ہوا ہے اس کی رو سے جواب دیں؟)

۴)___ اس سبق میں ترازو کی جو قسمیں بیان ہوئی ہیں انہیں شمار کیجئے اور یہ بتلایئےہ قیامت کے دن ترازو کون کی چیز ہوگی؟ انسان کے اعمال کو کس سے تو لاجائے گا ...؟

۵)___ عمل کے بھاری یا بے وزن ہونے کا قیامت کے دن کیا سیار ہوگا؟

۶)___ سور ہ قارعہ کی آیات کی رو سے کون لوگ قیامت کے دن اچھی زندگی میں داخل ہوں گے اور کون لوگ ہاویہ اور عذاب میں ڈالے جائیں گے؟

۷)___ قیامت کے دن مشکلات اور شرمندگی سے بچنے کے لئے ہمیں کون سے اعمال انجام دینا چاہیئے؟

۷۸

جنّت اوراہل جنّت; دوزخ اور اہل دوزخ

جناب ابوذر غفاری سے کسی نے سوال کیا کہ ہمارے لئے مرنا کیوں تکلیف دہ ہوتا ہے___؟

حضرت ابوذر نے جواب دیا:

'' اس لئے کہ تم نے اپنی دنیا کو آباد کیا ہے اور آخرت کو خراب و ویران کیا ہے_ اس دنیا میں اپنی خواہشات نفس کی پیروی کی ہے اور گناہوں میں مبتلا رہے ہو اور جو کچھ تمہارے پاس تھا اسی دنیا میں خرچ کردیا ہے اور آخرت کے لئے کوئی توشہ و زاد راہ روانہ نہیں کیا_ اسی لئے تمہارے لئے ایک آباد مکان سے خراب و ویران مکان کی طرف منتقل ہونا تکلیف دہ ہوتا ہے_

اس نے پھر سوال کیا کہ ا بوذر ہماری حالت آخرت کے جہان میںداخل ہوتے وقت کیسی ہوگی؟

۷۹

جناب ابوذر نے فرمایا:

لوگ دوقسم کے ہوتے ہیں_ نیک اور برے _ نیک لوگ، ان لوگوں کی طرح ہوں گے جو طویل مدّت اپنے گھر بار سے اوراپنے رشتہ داروں اور دوستوں سے دور ہوں اوراب وہ اپنے گھر پہنچنے والے ہوں اور اپنے رشتہ داروں کا دیدار کرنے والے ہوں تو انھیں کتنی خوشی اور مسرّت محسوس ہوگی؟ وہ کتنے خوشحال خوشنود ہوں گے؟ نیک لوگ اس طرح اپنے مہربان خدا کے نزدیک اور اس کی خوبصورت بہشت میں داخل ہوں گے_ ملائکہ و پیغمبران و اولیاء خدا ان کا استقابل کریں گے اور وہ بہشت کی ختم ہونے والی نعمتوں سے لطف اندوز ہوں گے لیکن گناہگار اور برے اعمال کے مرتکب اس مجرم اور باغی ی طرح ہو گے جو اپن گناہو کے خوف سے فرار ہوگیا ہو اور جب اسے گرفتار کے لایا جائے اور اس کے جرائم کی سزا سنائی جائے تو اس کی کیا حالت ہوگی؟

اعمال بد انجام دینے والا اپنے آپ کو اپنے اعمال میں گرفتار دیکھ رہا ہوگا تمام گناہگارو کی یہی حالت ہوگی، وہ خود کو خدا کے غیظ و غضب اور عذاب میں مبتلا دیکھ رہے ہوں گے_ وہ دیکھ رہے ہو گے کہ اب وہ اس پروردگار کے سامنے کھڑے ہیں جو بدلہ لینے والا ہے_ جس کے فرامین و احکامات کی انہوں نے خلاف ورزی کی ہے_ ان پر پانی پانی کردینے والی شرمندگی طاری ہوگی اور وہ اپنے آپ کوعذاب کامستحق دیکھ رہے ہوں گے اوربالآخر ان کوکھینچ کر جہنّم میں لے جایا جائے گا_''

اس شخص نے پھر سوال کیا_ اے ابوذر بتایئےہ ہماری حالت

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254